KHILAFAT E RASHIDA ( URDU) PART-4

✭﷽✭

                  *✿_خلافت راشدہ_✿*
            ▪•═════••════•▪                  
                      پارٹ- 4*
                          ─┉●┉─
*┱✿ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت -،

★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تین دن تتک خلافت کا منصب خالی رہا اس دوران لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ خلافت کا منصب قبول کریں، لوگوں نے سخت اصرار کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھاری بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا, آخر کار مہاجرین اور انصار کا اصرار حد سے بڑھ گیا تب آپ نے مجبور ہوکر کر یہ بوجھ اٹھا لیا، چنانچہ 21 ذی الحجہ 35 ہجری کے دن مسجد نبوی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئی،

★_ خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا پتہ چلانا اور انہیں سزا دینا تھا لیکن اس وقت مشکل یہ تھی کہ شہادت کے وقت صرف ان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ موجود تھی اور وہ قاتلوں کو پہچانتی نہیں تھی،

★_ یہاں یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ کتابوں میں قاتلوں کے نام لکھے ہیں لیکن گواہی کی جو قانونی حیثیت ہے اس سے وہ مجرم ثابت نہیں ہوتے تھے مطلب یہ کہ قاتلوں کے خلاف گواہ کوئی نہیں تھا، اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں سزا دینے کے معاملے میں معذور تھے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکے ، 

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ جو اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے  یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں اور دوسرے عہدے داروں کی بے احتیاطی سے ہوا ہے، چنانچہ خلیفہ بننے کے  بعد آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کے  عاملوں کو معزول کردیا ، عثمان بن حنیف کو بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا ، عمار بن حسان کو کوفے کی حکومت سپرد کی، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ ععنہ کو یمن کا امیر مقرر فرمایا اور سہیل بن حنیف کو شام کی گورنری کا فرمان دے کر پروانہ کیا،

★_ سہیل بن حنیف تبوک کے مقام تک پہنچے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فوجیوں نے انہیں روک لیا اور مدینہ واپس جانے پر مجبور کیا، یہ خبر سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی خلافت لڑائی جھگڑوں سے خالی نہیں ہے،

★_ اب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا :- مہاجرین اور انصار نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، ان سب نے اتفاق کرکے مجھے خلیفہ چن لیا ہے، اس لیے آپ بھی مجھے خلیفہ مان لیں_,"
اس کے جواب میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قاصد قبیصہ کے ذریعے زبانی پیغام بھیجا، انہوں نے آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا:- شام میں 60 ہزار لوگ ایسے ہیں جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خون آلود کمیز کو دیکھ کر روتے ہیں _,"

★_ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-  کیا وہ لوگ مجھ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ طلب کرتے ہیں ؟ اے اللہ ! میں عثمان کے خون سے بری ہوں,  عثمان کے قاتلوں سے اللہ سمجھے _,"
یہ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ نے قبیصہ کو واپس روانہ کردیا ،   حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بعیت نہیں کریں گے_,"

★_ دوسری طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حج سے فارغ ہوکر کر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئی ہی تھیں کہ راستے میں انہیں ان کے ایک عزیز مل گئے، ان سے مدینہ منورہ کے حالات پوچھے تو انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا  ہے اور حضرت علی خلیفہ مقرر ہوگئے ہیں اور وہاں فتنے کا بازار گرم ہے _,"

★_ آپ نے یہ خبر سنی تو مکہ واپس لوٹ گئیں، لوگوں نے واپسی کی وجہ پوچھی تو فرمایا - عثمان مظلوم شہید کر دیئے گئے، یہ فتنہ دبتا نظر نہیں آ رہا ، اس لیے تم لوگ مظلوم خلیفہ کا خون رائیگاں نہ جانے دو، خون کا حساب لے کر اسلام کی عزت بچاؤ _,"

★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ میں فتنہ و فساد کے آثار دیکھ کر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اجازت لے کر مکہ آ گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بھی وہاں کے حالات پوچھے، انہوں نے بھی وہی حالات بیان کیے، اس طرح تمام باتوں کی تصدیق ہوگئی،

★_ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی پوری کوشش کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا پتہ لگانے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے، یہی وہ حالات ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلے کا مطالبہ کیا، مکہ میں اپنے اردگرد موجود لوگوں کے درمیان آپ نے اعلان کرایا - ہم عثمان کے خون کا بدلہ لیں گے۔" 

★_ اس وقت مکہ معظمہ کے حاکم عبداللہ بن عامر حزمی تھے، انہوں نے اور ان کے ساتھ مروان بن حکم اور سعید بن عاص وغیرہ نے نہایت پرجوش انداز میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، یہ حضرات بنو امیہ سے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی بنو امیہ سے تھے، اس طرح بنو امیہ کے لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگے اور ایک باقاعدہ تحریک بن گئی، ان حضرات نے مکہ سے بصرہ جانے کا پروگرام بنایا تاکہ وہاں کے لوگوں کو ساتھ ملایا جا سکے ،

★_ ان حضرات کی تیاریوں کی خبریں حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے بھی بصرہ کا رخ کیا تاکہ ان لوگوں سے پہلے وہاں پہنچ کر بیت المال کی حفاظت کریں اور عراق کے لوگوں کو اپنی وفاداری کے لیے تیار کر سکیں،  مدینہ منورہ کے لوگوں کو جب آپ کے اس ادارے کی خبر ہوئی تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی تھے، یہ بہت بلند پایہ صحابی تھے، غزوہ بدر میں شریک رہ چکے تھے، انہوں نے مدینہ منورہ کے ساتھیوں کی طرف سے عرض کیا :-

*"_ آپ کا مدینہ منورہ چھوڑ کر جانا کسی طرح بھی مناسب نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کتنی بڑی بڑی جنگیں پیش آئیں لیکن انہوں نے کبھی مدینہ منورہ سے باہر قدم نہیں رکھا، یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت حضرت خالد، ابو عبیدہ، سعد بن وقاص اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ کرام نے شام اور ایران کو فتح کر ڈالا تھا لیکن اس وقت بھی جانبازوں کی کمی نہیں، لہذا آپ یہیں رہیں،

★_ ان کی اس بات کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- عراق اس وقت مسلمانوں کی بہت بڑی نوآبادی ہے، وہاں کے بیت المال بھی مال و زر سے پر ہیں، اس لیے میرا وہاں موجود رہنا ضروری ہے_," 

★_ اس کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں آم اعلان کرا دیا کہ سفر کے لیے تیار ہو جائیں، بعض بڑے صحابہ کے علاوہ باقی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے،  حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں لیے مدینہ منورہ سےنکلے، ابھی ذی قار تک پہنچے تھے کہ خبر ملی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور مکہ کے دوسرے  لوگوں کے ساتھ بصرہ پہنچ گئے ہیں، قبیلہ بنو سعد کے علاوہ وہاں کے تمام لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے _,"

 ★_ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں رک گئے ، آپ نے حضرت حسن اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو کوفہ روانہ فرمایا تاکہ وہاں کے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت پر تیار کریں، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کوفہ پہنچ کر وہاں کی مسجد میں لوگوں کے سامنے تقریر کی اور انہیں حضرت علی کا ساتھ دینے کے لئے کہا ،

★_  حجر بن عدی کندی کوفہ کے بڑے آدمی تھے بہت بااثر تھے انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تائید کی اور کہا - لوگوں امیرم امیرالمومنین نے  خود اپنے صاحبزادے کو بھیج کر تمہیں دعوت دی ہے، اس دعوت کو قبول کر لو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دے کر فتنے کی آگ کو بجھا دو، میں بھی ان کے ساتھ ہوں،
اس طرح حضرت حسن اور حجر بن عدی کی تقریروں سے لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا، ان کے گرد تقریباً 9000 مسلمان جمع ہو گئے، یہ انہیں لے کر روانہ ہوئے اور ذی قار پہنچ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل ہوگئے،

★_ حضرت علی رضی اللہ انہوں نے اب اپنی فوج کو نئے سرے سے ترتیب دیا اور بصرہ کی طرف کوچ فرمایا، اس وقت بصرہ کا حال یہ تھا کہ وہاں تین گروہوں تھے،  ایک غیر جانب دار گروہ تھا یعنی نہ وہ ادھر تھا نہ ادھر ، دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا طرف دار تھا اور تیسرا حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت زبیر اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا حامی تھا ،

★_ کھانا جنگی کی تیاریوں کو دیکھ کر پہلے گرو نے بہت کوشش کی کہ مسلمان آپس میں  نہ لڑیں، تمام نیک نیت لوگ یہی چاہتے تھے، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر رضی اللہ عنہ بھی یہی چاہتے تھے کہ جنگ نہ ہو اور آپس کے اختلافات دور ہو جائیں _,"
           ▪•═════••════•▪  
 *"_ جنگ جمل _,*

★_ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے نزدیک پہنچ گئے تو سب نیک لوگوں نے صلح پر زور دیا اور پھر صلح کی بات چیت شروع ہوئی، دونوں طرف سے لوگوں کی یہی عین خواہش تھی کہ جنگ نہ ہو، آپس کے اختلافات بات چیت کے ذریعے سے طے ہو جائیں، صلح کی بات چیت جاری تھی اور زبردست امید ہو چلی تھی کہ تمام معاملات طے ہو جائیں گے صلح ہو جائیں گی کہ رات ہو گئی اور طے پایا کہ باقی بات چیت صبح ہو جائے گی، چنانچہ دونوں فریق اپنے اپنے پڑاؤں میں چلے گئے، سب آرام اور چین کی نیند سو گئے،

★_ آب ہوا یہ کہ دونوں طرف کچھ ایسے لوگ شامل تھے جو چاہتے تھے کہ کسی قیمت پر بھی صلح نہ ہو، کیونکہ صلح ہو جانے کی صورت میں ان کی خیر نہیں تھی اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ وہی بلوائی تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو چالیس دن تک گھیرے رکھا تھا اور انہیں میں سے کچھ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، اب ظاہر ہے صلح ہونے کی صورت میں وہ پکڑے جاتے کیونکہ اس طرح سکون کے ساتھ تحقیقات کرنے کی مہلت مل جاتی اور ان کی نشاندہی ہو جاتی پھر ظاہر ہے قتل کے جرم میں قتل کر دیا جاتا، وہ بھلا یہ کیسے پسند کر سکتے تھے ،

★_ عبداللہ بن سبا کے لوگ بھی دونوں طرف موجود تھے، وہ تو تھے ہی سازشی لوگ، مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ہی ان کا مقصد تھا، ایسے لوگوں نے رات کے وقت اچانک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج پر حملہ کر دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھیوں نے یہ سمجھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے انہیں دھوکا دیا ہے، بس اس طرح دونوں فریقوں میں جنگ شروع ہوگئی،

★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں تاکہ فوج کو روک سکیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی فوج کو روکنے کے لیے پورا زور لگایا لیکن جنگ تو چھڑ گئی تھی، پھر جلد نہ رک سکی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں نے انہیں اونٹ پر سوار دیکھ کر خیال کیا کہ آپ جنگ پر آمادہ ہیں لہذا وہ اور زیادہ جوش و خروش سے لڑنے لگے، ان کی فوج میں محمد بن طلحہ سواروں کے افسر تھے، عبداللہ بن زبیر پیدل فوج کے افسر تھے اور مجموعی طور پر پوری فوج کی قیادت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کر رہے تھے_,

★ _ جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھاتے ہوئے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا - اے ابو عبد اللہ! آپ کو وہ دن یاد ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سے پوچھا تھا - کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو؟ تو تم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ! ہاں ، میں علی کو دوست رکھتا ہوں ، یاد کرو کہ اس وقت ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا - ایک دن تم اس سے نا حق لڑو گے ، "(مستدرک حاکم۔ 3/1366)

 ★_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا - ہاں مجھے یاد آ گیا، یہ کہہ کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ لڑائی سے الگ ہو گئے، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر سے فرمایا - اے پیارے بیٹے ! علی نے مجھے ایسی بات یاد دلا دی ہے کہ جنگ کا تمام جوش ختم ہو گیا ہے ، یقیناً ہم حق پر نہیں ہیں ، لہذا تم بھی جنگ سے باز آجاؤ اور میرے ساتھ چلو - حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا - میں میدان جنگ سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ، ، "

 ★ _ اس پر وہ تنہا میدان جنگ سے نکل آئے اور بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو جاتے ہوئے دیکھا تو ان کا ارادہ بھی بدل گیا اور وہ بھی میدان جنگ سے باہر نکل آئے ، ایسے میں ان کے پیر میں ایک تیر آ کر لگا ، وہ زخمی حالت میں وہاں سے نکل آئے ، اسی زخم سے آپ کی شہادت ہوئی ،

 ★_ اس موقعے پر میدان جنگ میں عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کی لیکن آپ کے ساتھ جو جاں نثار تھے وہ انہیں منہ توڑ جواب دیتے رہے ہے، وہ لوگ آپ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے جانسار ان کے لئے رکاوٹ بن گئے اور ان کی ایک نہ چلنے دی ، ان کی لاشوں پر لاشیں گر رہی تھیں ، لیکن وہ آپ کی حفاظت سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا رہے تھے ، ان کی بہادری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی حیرت زدہ کر دیا ،

★_ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اس بات سے پریشان تھے کہ ان کی جانثاری کی وجہ سے جنگ طول پکڑتی جارہی ہے اور فریقین کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے، یہی حالت رہی تو نہ جانے نقصان کہاں تک پہنچے، حالت یہ تھی کہ ایک گرتا تھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی نکیل دوسرا پکڑ لیتا تھا، حضرت عبداللہ بن جبیر نے اونٹ کی نکیل پکڑی، وہ زخمی ہوئے تو ایک اور نے پکڑ لی، وہ بھی زخمی ہوئے تو ایک اور نے پکڑ لیا، اس طرح ایک کے بعد ایک دیگر ستر آدمیوں نے اپنے آپ کو قربان کردیا، ( تاریخ طبری -6/ 318، مستدرک حاکم -3/ 366)،

★_ یہ حالات دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوچا، جب تک اونٹ کو بٹھایا نہیں جائے گا اس وقت تک خونریزی نہیں رکے گی، اس لیے آپ کے اشارے پر ایک شخص نے اونٹ پر وار کیا، اونٹ زخمی ہو کر بیٹھ گیا، اونٹ کے بیٹھتے ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فوج ہمت ہار گئی، جنگ کا فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہو گیا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت اعلان فرمایا - بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، زخمیوں پر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں اور مال غنیمت نہ لوٹا جائے، جو ہتھیار ڈال دیں انہیں امن ہے،

★_ اس اعلان کے بعد آپ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان کی مزاج پرسی کی، انہیں چند دن بصرہ میں آرام و آسائش سے ٹھہرایا، پھر ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا، بصرہ کی 40 معزز عورتیں ان کے ساتھ گئیں، رخصت کرتے وقت چند میل تک ساتھ گئے، ایک منزل تک اپنے صاحبزادوں کو ساتھ بھیجا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رخصت ہوتے وقت فرمایا :- میرے بچوں ! ہماری آپس کی کشمکش صرف غلط فہمی کا نتیجہ تھی, ورنہ مجھ میں اور علی میں پہلے کوئی جھگڑا نہیں تھا _,"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تائید کی اور فرمایا :- یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اور ہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم اور توقیر ضروری ہے،

★_ اس طرح رجب کی پہلی تاریخ 36 ہجری کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئیں، چونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اسی جنگ میں اونٹ پر سوار تھیں اس لیے یہ جنگ "جنگ جمل" کہلائی،
           ▪•═════••════•▪  
*"_ جنگ صفین _,"*

★_ بصرہ میں چند روز قیام کرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی طرف کوچ کیا ، 12 رجب 36 ہجری کو شہر میں داخل ہوئے، کوفہ کے لوگوں نے وہاں ایک محل میں آپ کی مہمان نوازی کا سامان کر رکھا تھا لیکن آپ آخر زاہد تھے، اس میں ٹھہرنے سے انکار کر دیا اور ارشاد فرمایا کیا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان عالی شان محلات کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے مجھے بھی ان کی ضرورت نہیں، میدان میرے لئے کافی ہے _,

★_ چنانچہ میدان میں قیام فرمایا ، مسجد اعظم میں دو رکعت نماز ادا فرمائی، جمعے کے روز خطبہ دیا، اس میں لوگوں کو پرہیزگاری کی ہدایت فرمائی، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ چھوڑ کر کوفہ میں مستقل رہائش اختیار فرمائی اور دارالحکومت حجاز سے ایراق میں منتقل ہوگیا ،

★_ تاریخ کی کتابوں میں اس کی بہت سی وجوہات لکھی ہیں، ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے حرم نبوی کی بہت توہین ہوئی تھ شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیاسی مرکز کو تبدیل کردیا، دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس وقت کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامی اور طرفدار بڑی تعداد میں جمع تھے ،

★_ کوفہ میں آنے کے بعد آپ نے ملک کے نظم و نسق کی طرف توجہ دیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا، اسی طرح دوسرے علاقوں پر آپ نے اپنے امیر مقرر فرمائے، جزیرہ موصل پر اثتر بخعی کو مقرر کیا , یہ علاقہ شام کے ساتھ تھا, اثتر نے آگے بڑھ کر شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عامل ضحاق بن قیس نے اس کا مقابلہ کیا اور وہ علاقے اس سے واپس لے لیے، اثتر پھر موصول چلا گیا تاہم اس نے شامی فوجوں سے چھیڑچھاڑ جاری رکھی ،
 ★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت کو تسلیم نہیں کریں گے، تاہم آپ نے حجت پوری کرنے کی خاطر انہیں ایک بار پھر صلح کی دعوت دی، اس غرض کے لیے آپ نے زریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو قاصد بنا کر بھیجا، حضرت زریر رضی اللہ عنہ جس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے، وہاں اس وقت شام کے بڑے بڑے امیر جمع تھے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خط پڑھا، پھر تمام حاضرین کو پڑھ کر سنایا ،

★_ خط کا مضمون یہ تھا :- تم اور تمہارے زیراثر جس قدر مسلمان ہیں ان سب پر میرے بیعت لازم ہے کیونکہ مہاجرین اور انصار نے عام اتفاق سے مجھے خلیفہ چنا ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے خلیفہ چنا تھا، اس لئے جو شخص اس بیعت سے انکار کرے گا اس سے جبرن بیت لی جائے گی، پس تم مہاجرین اور انصار کی پیروی کرو، یہی سب سے بہتر طریقہ ہے، ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ، تم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی آڑ میں بیعت سے انکار کیا ہے، اگر تم عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے پرجوش ہو تو میری اطاعت قبول کرو، اس کے بعد باضابطہ اس مقدمے کو پیش کرو، میں اللہ تعالی کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کروں گا_,"

★_ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خط کے جواب میں لکھا :- آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کر دیں، اس صورت میں میں اور تمام اہل شام خوشی سے آپ کی بیعت کر لیں گے، فضل و کمال کے لحاظ سے آپ ہی خلافت کے حقدار ہیں"_،

★_ حضرت علی رضی اللہ انہوں نے اس خط کا جواب دوسرے روز دینے کا وعدہ فرمایا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خط ابو مسلم لائے تھے، وہ دوسری صبح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں اس وقت دس ہزار مسلح آدمی موجود تھے، ابو مسلم کو دیکھتے ہی سب ایک آواز ہو کر بولے :- ہم عثمان کے قاتل ہیں _"،
حضرت ابو مسلم کوحیرت ہوئ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا :- آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ حالات کیا ہیں_,"
 اس کے بعد آپ نے حضرت امیر معاویہ کے نام خط لکھوایا، اس خط میں لکھا تھا :- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں میری کوئی شرکت نہیں لہذا آپ بیعت کر لیں، اس کے بعد ہم قاتلوں کے خلاف کارروائی کریں گے، ★_ صلح کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آخر کار شام کے خلاف لشکرکشی کا فیصلہ کیا، آپ تقریبا 80 ہزار کے لشکر کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ آپ دریائے فرات کو عبور کر کے شام کی سرحد تک پہنچے،

★_ اس مقام پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابوالدعور سلمی مقرر تھے، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہر اول دستے کو روکا، دونوں فوجوں میں مقابلہ ہوا، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مزید لشکر وہاں پہنچ گیا ، ابوالدعور نے محسوس کرلیا کہ ان کے پاس اتنی فوج نہیں کہ مقابلہ کر سکے، چنانچہ رات کی تاریکی میں اپنی فوج کو لیے پیچھے ہٹ گئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی، اطلاع ملنے پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اپنی فوج لے کر روانہ ہوئے اور صفین کے مقام پر پہنچ کر ڈیرہ ڈال دیا اور جنگ کی تیاری شروع کر دی،

★_ اب اس مقام پر بھی وہی کیفیت طاری ہوگئی، دونوں فریق چاہتے تھے کہ جنگ نہ ہو لہذا صلح کی کوشش شروع ہوئی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پھر صلح کے لئے ایک وفد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا، دونوں طرف صحابہ کرام موجود تھے، ان میں حافظ قرآن اور عالم بھی تھے، ان سب نے پوری کوشش کی کہ صلح ہو جائے لیکن یہاں پھر وہی مسئلہ تھا، سبائی گروو کب صلح پسند کرتا تھا ؟ اس کی پوری کوشش تھی کہ جنگ ضرور ہو،

★_ یہ کوشش تین ماہ تک جاری رہی، ان تین ماہ میں ان شرپسندوں نے پچاس مرتبہ جنگ چھیڑنے کی کوشش کی لیکن جو بزرگ صحابہ تھے ، علماء اور فضلاء تھے وہ ہر بار درمیان میں پڑ کر جنگ کو ٹالنے کی پوری کوشش کرتے رہے، آخر کیوں کوشش نہ کرتے ؟ دونوں طرف مسلمان تھے, ان کے اندر دونوں طرف ایسا طبقہ بھی موجود تھا جو صلح کی کوشش کو ناکام بنانے پر تلا ہوا تھا، ان کی سازشیں مسلسل جاری تھی،
 ★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے مخلصین ساتھی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مخلصین ساتھیوں سے یہ کہتے تھے کہ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنا چاہتے ہو، کیا وہ خلافت کے تم سے زیادہ حقدار نہیں ہیں؟ جواب میں حضرت امیر معاویہ کی طرف سے کہا جاتا کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کے لئے میدان میں آئے ہیں ، یعنی قاتلوں کو ہمارے حوالے کر دو تو یہ جنگ ابھی ٹل سکتی ہے_,"

★_ غرض اس طرح صلح کی کوشش ناکام بنا دی گئی، رجب سے لے کر محرم ٣٧ ہجری کے آخر تک دونوں لشکر اسی طرح پڑے رہے ، پھر جونہی صفر کا مہینہ شروع ہوا جنگ چھڑ گئی اور اس قدر خونریز لڑائیاں ہوئیں کہ ہزار افراد دونوں طرف کے شہید ہوگئے، اس کے باوجود اس خانہ جنگی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا_,

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان حالات سے بہت تنگ آ چکے تھے، تھک کر انہوں نے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کر لیا، اپنی فوج کے سامنے ایک تقریر کی، اس طرح ان کی فوج میں جوش پیدا ہو گیا، اب دونوں فوجوں میں زبردست جنگ شروع ہوگئی جنگ کا سلسلہ چند روز تک جاری رہا یہاں تک کہ جمعے کے روز بہت زبردست جنگ ہوئی، صبح سے جنگ شروع ہوئی تو رات تک نہ رک سکی دوسری صبح تک جاری رہی،

★_ زمین اس جنگ سے کانپ رہی تھی، شاید اس لیے کہ دونوں طرف سے مسلمان شہید ہو رہے تھے، دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ میں مسلمان کٹ کر گر رہے تھے اور شر پسند اس آگ کے لگانے پر بغلیں بجا رہے تھے، دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے ، آخر وہ مسلمانوں کو لڑانے میں کامیاب ہوگئے، دوسری صبح شہید ہونے والوں کی لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانے کے لئے جنگ روک دی گئی، ★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پھر اپنی فوج کے سامنے پرجوش تقریر کی، دوسری طرف عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا - اگر مسلمان آپس میں ایسی لڑائی لڑتے رہے تو سارا عرب ویران ہو جائے گا، پھر ہم رومیوں کے رحم و کرم پر ہی ہوں گے کیونکہ ہماری طاقت ختم ہوچکی ہوگی _"،
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بڑے بڑے ساتھیوں نے بھی عمرو بن عاص کے خیالات کی تائید کی, اس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا, خط کے الفاظ یہ تھے :-

"_ اگر ہمیں اور آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ جنگ اس قدر طول پکڑ جائے گی تو شاید ہم دونوں اسے پسند نہ کرتے، بہر حال اب ہمیں اس تباہ کن جنگ کو روک دینا چاہیے، ہم لوگ بنی عبد مناف ہیں، اس لئے صلح ایسی ہو کہ دونوں کی عزت و آبرو برقرار رہے _," 

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس خط کے جواب میں صلح کرنے سے انکار کر دیا اور دوسری صبح اپنی فوج کے ساتھ میدان میں آگئے، لیکن دوسری طرف جنگ بند کر دینے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا، اس وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تدبیر کی، انہوں نے پانچ ساتھیوں کو نیزوں پر قرآن اٹھا کر آگے چلنے کا حکم دیا، یہ پانچ ساتھی نیزوں پر قرآن اٹھائے جب سامنے آئے تو جتنے لوگوں کے پاس قرآن تھے ان سب نے بھی اپنے اپنے نیزوں پر قرآن کو اٹھا لیا_, 

★_ اگلے چند افراد نے اعلان کرنے کے انداز میں کہا - اللہ تعالی ہم سب کو رومیوں اور ایرانیوں کے ہاتھوں سے بچائے، اگر جنگ اسی طرح جاری رہی تو ضرور ہم فنا ہو جائیں گے، یہ اللہ تعالی کی کتاب ہے، یہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی، یہ ہمارے اور تمہارے درمیان حکم ہے، ( یعنی یہ فیصلہ کرے گی)
★_ اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں بھی یہ آواز بلند ہوئی کہ، ٹھیک ہے قرآن سے فیصلہ ہونا چاہئے اور اگر اس فیصلے کو نہ مانا گیا تو فوج سے الگ ہو جائیں گے_,"
 اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک وفادار اشعث بن قیس نے کہا - اے امیر المؤمنین ! میں جس طرح کل آپ کا جاں نثار تھا اسی طرح آج بھی ہوں لیکن میری رائے بھی یہی ہے کہ قرآن حکیم کا حکم مان لینا چاہیے _," 

★_ آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس طرح جنگ رک گئی، اب دونوں فریقوں میں بات چیت شروع ہوئی یہ بات چیت خطوط کے ذریعے ہوئی، پھر دونوں طرف کے عالم فاضل لوگ جمع ہوئے، آخر طے پایا کہ خلافت کا مسئلہ حل کرنے کے لئے دو حکم مقرر کردیے جائیں، وہ جو فیصلہ کریں اس پر عمل کیا جائے_," شامیوں کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا نام تجویز کیا گیا، حضرت علی کی طرف سے سے اشعث بن قیس نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا نام لیا _,

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا نام تجویز کیا، اس پر کچھ لوگوں نے کہا - حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور آپ تو ایک ہی ہیں, حکم تو غیر جانب دار ہونا چاہیے _," 
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اثتر کا نام لیا، اس پر اعتراض کیا گیا کہ جنگ کی آگ تو اثتر ہی نے بھڑکائی ہے، یہ تو آخری وقت تک جنگ جاری رکھنے کے حق میں تھا، اسے کس طرح حکم مقرر کیا جا سکتا ہے_"،

★_ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا - ٹھیک ہے تم جسے چاہو حکم مقرر کر دو, مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا_,"
 حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا، وہ اس جنگ سے بیزار ہو کر شام کے ایک گاؤں میں چلے گئے تھے، اس طرح دونوں طرف سے حکم ایک جگہ پر جمع ہوئے اور ایک معاہدہ لکھا گیا اس کے الفاظ یہ تھے :-

*"_حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان دونوں کے طرفدار آپس میں رضا مندی سے یہ عہد کرتے ہیں کہ دونوں حکم حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ قرآن و سنت کے مطابق جو فیصلہ کریں گے اس کو تسلیم کرتے ہیں، کوئی پش و پیش نہیں ہوگا، اس لیے دونوں فریقوں کے لیے ضروری ہے کہ کسی حالت میں اس فیصلے سے انکار نہ کریں، ہاں اگر فیصلہ قرآن و سنت کے خلاف ہوگا تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، اس سورت میں فریقین کو اختیار ہوگا کہ پھر جنگ شروع کر دیں _,"

                          ─┉●┉─
*┱✿ خارجی فتنہ -1_,*

★_ یہ معاہدہ 30 صفر کو لکھا گیا، اشعث بن قیس کو اس کام پر مامور کیا گیا کہ وہ تمام قبیلوں کے سرداروں سے اس پر دستخط کرائیں، اشعث بن قیس نے یہ کام شروع کیا وہ سرداروں کے یہاں جاکر معاہدہ سنا سنا کر دستخط کرانے لگے،

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں بہت سے لوگوں نے اس معاہدے کو نا پسند کیا اور انہوں نے دستخط سے انکار کیا یہاں تک کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے فرمایا - ہمیں یہ معاہدہ منظور نہیں،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی بات نہیں سنی اس پر وہ لوگ ناراض ہوگئے اور اس سارے معاملے سے الگ ہو گئے, اس طرح ان کا ایک الگ گروہ بن گیا, یہ فرقہ خارجی کہلایا، اس کا ذکر آگے آئے گا ،

★_ دونوں حکموں کے اجلاس کے لیے مقام دومۃالجندل مقرر کیا گیا، یہ مقام عراق اور شام کے درمیان واقع ہے، دونوں حکموں کے ساتھ 400-400 آدمی تھے، یعنی 400 آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حکم حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ فرمائے اور 400 آدمی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حکم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ فرمائے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو 400 آدمی روانہ کیے گئے ان کے افسر شریح بن ہانی تھے، 

★_ کچھ بزرگ صحابہ ایسے تھے جو اس جنگ سے بالکل الگ رہے تھے، اب جب کہ انہوں نے سنا کہ دونوں طرف سے صلح کی کوشش ہورہی ہے اور اس غرض کے لئے حکم مقرر کیے گئے ہیں تو وہ بھی اس موقع پر دومۃالجندل پہنچ گئے، ان صحابہ کرام میں حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم ہیں_,

_ ان میں سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس قسم کے معاملات میں بہت سوجھ بوجھ رکھتے تھے، انہوں نے دونوں حکموں سے الگ الگ ملاقات کی، اس طرح ان کے خیالات معلوم کر کے اندازہ لگایا کہ اس طرح بھی کوئی خوشگوار نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے، انہوں نے اپنا یہ خیال دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی بتا دیا،

★_ ادھر دونوں حکم ایک جگہ مل بیٹھے، ان کی آپس میں بات چیت شروع ہوئی، کافی دیر کی بات چیت کے بعد آخر دونوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا جائے اور مسلمان نئے سرے سے اپنا خلیفہ منتخب کریں، دونوں یہ فیصلہ کر کے مسلمانوں کے درمیان واپس آئے، مسجد میں سب کو جمع کیا گیا،

★_ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا - آپ ممبر پر آکر فیصلہ سنا دیں، اس پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا - آپ فضل و کمال میں ہمارے بزرگ ہیں لہذا آپ کے مقابلے میں پہل کیسے کرسکتا ہوں، پہلے آپ ممبر پر آئیں اور فیصلہ سنائیں ،

★_ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ممبر پر آئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا - صاحبو! ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کرتے ہیں, مجلس شوریٰ پھر سے خلیفہ کا انتخاب کرے _,"

★_ اب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی باری آئی، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا - ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جو بات کہی وہ تم نے سن لی ہے انہوں نے اپنے امیر کو معزول کردیا ہے اور میں نے بھی انہیں معزول کردیا ہے، میں اپنا امیر معاویہ کو قائم رکھتا ہوں، بلاشبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مددگار اور ان کے خون کے بدلے کا مطالبہ کرنے والے ہیں، وہ سب لوگوں سے زیادہ ان کی جگہ پر کھڑے ہونے کے حقدار ہیں _,"،

★_ دراصل حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ انہوں نے صاف طور پر محسوس کر لیا تھا کہ اگر اس وقت لوگوں کو بغیر امیر کے چھوڑ دیا گیا تو اس سے بھی زیادہ طویل اختلافات بڑھ جائیں گے، بس آپ نے اسی مصلحت کو دیکھ کر حضرت امیر معاویہ کو قائم رکھا _,

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ناپسند فرمایا اور دوبارہ فوج کو تیار کرنے لگے تھے کہ خارجیوں کی بغاوت کے بارے میں علم ہوا،
خارجی وہ لوگ تھے جنہوں نے حکم مقرر کرنے کو پسند نہیں کیا تھا اور جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو حکم مقرر کیا گیا تو یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے الگ ہو کر وہاں سے چلے گئے، ان کی تعداد بارہ ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ دین کے معاملات میں کسی کو بھی حکم مقرر نہیں کیا جاسکتا اور ایسا کرنا کفر ہے، 

★_ اب انہونے دوسرے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ وہ حکم مقرر کرنے کو کفر مانتے ہیں یا نہیں ، جس نے ان کی بات سے اتفاق کیا اسے انہوں نے زندہ چھوڑ دیا اور جس نے اختلاف کیا اسے قتل کرایا، اس طرح ان لوگوں نے کچھ لوگوں کو قتل کردیا، جب یہ خبریں حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بجائے ان لوگوں سے جنگ کرنے کا فیصلہ فرمایا،

 ★_ چنانچہ پہلے ایک قاصد خارجیوں کی طرف بھیجا، انہوں نے آپ کے اس قاصد کو بھی قتل کر دیا، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر ان کا رخ کیا اور نہروان کے مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا، اس جگہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت قیس بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خارجیوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے بات چیت کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں،

★_ خارجیوں نے ان کی بات بھی نہ سنی، اب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف سے ایک شخص کو بلایا تاکہ خود بات کریں، اس طرح جو شخص آیا اس کا نام ابنِ الکوا تھا، آپ نے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی لیکن ان کے دل سیاہ ہو چکے تھے، سمجھانے کی ہر کوشش ناکام رہی اور آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا،

★_ خارجیوں کا سردار عبداللہ بن وہب رابسی تھا، آخر جنگ شروع ہوئی، بہت خوفناک جنگ لڑی گئی، خارجیوں میں سے بہت سے لوگ جنگ سے جان بچانے کے لیے پہلے ہی میدان سے نکل گئے تھے، اس طرح عبداللہ بن وہب رابسی کے ساتھ صرف چار ہزار آدمی رہ گئے تھے، یہ میدان جنگ میں ڈٹے رہے یہاں تک کہ یہ سب کے سب قتل کر دئے گئے، میدان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ رہا،

★_ اس جنگ کا نام جنگ نہروان ہے، جنگ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل ہونے والوں میں سے کسی کی تلاش میں نکلے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے بارے میں آپ سے پیشگوئی فرمائی تھی یعنی ان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کے بارے میں فرمایا تھا اور ان کے درمیان قتل ہونے والے ایک شخص کا مکمل حلیہ بیان فرمایا تھا، تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ در اصل اس حلیے والے شخص کو تلاش کر رہے تھے اور آخر آپ کو وہ شخص لاشوں کے درمیان مل گیا، اس کا حلیہ بالکل وہی تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا، یہ دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ پکار اٹھے - اللہ اکبر ! اللہ کی قسم, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل درست فرمایا تھا_,"
╨─────────────────────❥
*"_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت _,*

★_ اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شام پر چڑھائی کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن اس موقع پر اشعث بن قیس نے کہا - امیرالمومنین ! ہمارے ترکش خالی ہوگئے، تلواروں کی دھاریں مڑ گئی، نیزوں کے پھل خراب ہو گئے، اس لئے جنگ سے پہلے ہمیں تیاری کرنے کی مہلت دیں_,"
آپ نے انہیں مہلت دی اور نخلیہ کے مقام پر پڑاؤ کیا ،

★_ آپ کے ہمراہی جنگ سے تنگ آ چکے تھے، لہذا رات کی تاریکی میں کھسکنے لگے یہاں تک کہ آپ کے اردگرد صرف ایک ہزار افراد رہ گئے، یہ حالت دیکھ کر آپ نے شام پر چڑھائی کا ارادہ ترک کر دیا اور واپس کوفہ چلے گئے ،

★_ اس کے بعد آپ کی زندگی کے دن بغاوتوں کے خلاف کوششوں میں بسر ہوتے رہے، دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی طاقت بڑھانے میں کامیاب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا،

★_ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نہروان کی جنگ کے بعد چند خارجی حج کے موقع پر جمع ہوئے، انہوں نے اس وقت کے حالات پر بات چیت شروع کی، کافی دیر کی بحث کے بعد انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب تک تین آدمی دنیا میں موجود ہیں اسلامی دنیا کو خانہ جنگی سے نجات نہیں مل سکے گی اور وہ تین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہیں، اس پر ان میں سے تین آدمی ان تینوں حضرات کو قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے، عبدالرحمن بن ملجم نے کہا کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں، نزال نانی شخص نے کہا کہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو قتل کروں گا، تیسرا شخص عبداللہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی ذمہ داری لی، تینوں اپنی اپنی مہم پر روانہ ہوگئے،

 ★_ رمضان 40 ہجری میں تینوں نے ایک روز صبح کے وقت ان تینوں حضرات پر حملہ کرنے کا پروگرام ترتیب دیا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اتفاقی طور پر بچ گئے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر وار اوچھا پڑا، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اس روز امامت کے لئے آئے ہی نہیں، ان کی جگہ نماز پڑھانے کے لیے کوئی اور آیا اور ان کی جگہ مارا گیا ،

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی کے دن پورے ہو چکے تھے، آپ مسجد میں تشریف لائے، ابنِ ملجم پہلے ہی آ کر مسجد میں لیٹ گیا، آپ نے اٹھا دیا، جب آپ نے نماز شروع کی تو اسی حالت میں اس بد بخت اور سنگدل نے تلوار کا وار کیا، وار سر پر لگا، ابنِ ملجم کو لوگوں نے بھاگنے کی مہلت نہ دی اور گرفتار کر لیا، کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوئے ، آپ نے فورا محسوس کر لیا کہ اس زخم سے بچ نہیں سکیں گے، چنانچہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلا کر نصیحتیں فرمانے لگے، 

★_ اس وقت جندب بن عبداللہ نے پوچھا - امیرالمومنین! آپ کے بعد ہم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟
 آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا - اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا_," اس کے بعد آپ نے اپنے قاتل کے بارے میں فرمایا - اس سے معمولی انداز سے بدلہ لیا جائے _,"

★_ ابنِ ملجم کی تلوار زہر میں بچھی ہوئی تھی، زہر نے اپنا کام کیا ، آپ اس زخم سے بچ نہ سکے اور 20 رمضان 40 ہجری جمعہ کی رات کو اپنے اللہ سے جا ملے، علم اور فضل کا سورج غروب ہوگیا، ان للہ وانا الیہ راجعون ,

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل _,*

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ جس وقت خلیفہ بنے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ کی شہادت کی وجہہ سے مدینہ منورہ کے علاوہ بھی پورا عالم السلام پریشان تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، چنانچہ ہر طرف ہیجان پھیل گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ آپ کا سارا دور آپس کے اختلافات کی نظر ہو گیا،

★_ ان پریشان کن حالات کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اصلاحات کا کام جاری رکھا، آپ اپنے عالموں کی نگرانی کرتے تھے لوگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے، بیت المال کے دروازے غریبوں کے لئے کھلے تھے، اس میں جو رقم آتی آپ کو ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتے تھے، 

★_ آپ خود بہت تجربا کار جنگ آزما تھے جنگی معاملات کو اچھی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے فوجی چھاؤنی نہایت کثرت سے قائم کی، ایران کی طرف شورس اور بغاوت کی وجہ سے آپ نے استخار میں قلعہ حسن زیاد بنوایا، تاکہ خطرے کے وقت عورتوں اور بچوں کی حفاظت ہوسکے، جنگ تعمیرات کے سلسلے میں دریا فرات پر پل بلوایا، یمن میں اسلام کی روشنی آپ ہی کی کوششوں سے پھیلی تھی، سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ اور اشاعت کی خدمت آپ ہی کے سپرد ہوئی،

★_ آپ کے خلیفہ بننے کے بعد ایران آرمینیا کے نئے نئے مسلمان مرتد ہو گئے تو آپ نے ان کی سرکوبی فرمائی، چنانچہ ان میں سے اکثر نے توبہ کی اور مسلمان ہو گئے، اسی طرح خارجیوں کا قلعہ فتح کیا

★_ سبائی گروو میں سے کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا کہنے لگے تھے، آپ نے انہیں عبرت ناک سزائیں دی، ان کے گھروں کو ڈھا دیا،

★_آپ کو بچپن ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہو گئی تھی, لہذا آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم وتربیت کا موقع ملا تھا اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا، آپ کو دن رات میں دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے کا موقع ملتا تھا، سفر میں بھی اکثر ساتھ رہتے تھے اس طرح آپ کو سفر سے متعلق شرعی احکامات سے واقف ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا،

★_ آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ وسلم کے تحریری کام آپ ہی کرتے تھے، کاتبان وحی میں آپ کا نام بھی شامل ہے, آپ نے پورا قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حفظ کر لیا تھا، آپ قرآن کریم کے معنی اور شان نزول سے واقف تھے، چناچہ آپ کا شمار قرآن کریم کے مفسروں میں ہوتا تھا، صحابہ کرام میں آپ کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی قرآن کریم کے مفسر تھے،

★_ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے علاوہ بھی کچھ خاص علوم آپ کو بتائیں ہیں، چنانچہ آپ کے شاگردوں نے آپ سے پوچھا - کیا قرآن کے علاوہ کچھ اور بھی آپ کے پاس ہے ؟ آپ نے آپ نے فرمایا - قسم ہے اس ذات کی جو دانے کو پھاڑ کر درخت اگاتا ہے اور جان کو جسم کے اندر پیدا کر دیتا ہے، قرآن کے سوا میرے پاس کچھ اور نہیں لیکن قرآن کے سمجھنے کی طاقت اللہ تعالی جسے چاہیں عطا کریں، اس کے علاوہ چند احادیث میرے پاس ہیں_,"

: ★_ آپ نے بچپن سے لے کر وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تقریبا 30 سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بسر کیے، اس لیے اسلام کے احکام اور فرائض کے آپ بہت بڑے عالم تھے، اس طرح احادیث کی روایت کا زمانہ آپ کو سب سے زیادہ ملا ، خلیفاۂے راشدین میں آپ کی روایات کی تعداد سب سے زیادہ ہیں، آپ 886 احادیث کے راوی ہیں، فقہاء اور اجتہاد میں آپ کو کمال حاصل تھا، بڑے بڑے صحابہ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی کبھی کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مسائل معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی, مشکل سے مشکل اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل آپ نہایت آسانی سے حل فرما دیتے تھے_, 

★_ فقہی مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو کمال حاصل تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جو بات نہیں جانتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے، حنفی فقہ کی بنیاد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہی فیصلوں پر مبنی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے - ہم میں مقدمات کے فیصلوں کے لئے سب سے موزوع علی ہیں اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، 

★_ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں- ہم (صحابہ) کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے علی ہیں، آپ کے پاس بہت ہی عجیب نوعیت کے مقدمات آتے تھے جن کے بارے میں دوسرے فیصلہ نہیں کر پاتے تھے، لیکن آپ بہت آسانی سے ان کا فیصلہ فرما دیتے تھے، تاریخ کی کتب میں ایسے بہت سے مقدمات درج ہیں، ان کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے،

★_ آپ بہت بلند پایا خطیب تھے، تقریر اور خطابت میں آپ کو ملکہ حاصل تھا، آپ کی تقریر بہت بااثر ہوتی تھی، آپ میں کمال درجے کا زہد پایا جاتا تھا، حق یہ ہے کہ آپ کی ذات زہد کا نمونہ تھی، ایک مرتبہ شدید بھوک کی حالت میں صبح سے شام تک مزدوری کی، اس طرح مزدوری میں جو کھجوریں ملیں ایک سوال کرنے والے کو دے دیں، گھر میں ککوئی خادم یا خادمہ نہیں تھی، گھر کا سارا کام حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کرتی تھیں،

 ★_ آپ نے نہایت عبادت گزار تھے، سادگی اور انکساری بھی آپ میں انتہا درجے کی تھی، لوگ مسائل پوچھنے آتے تو آپ کبھی اونٹ چرا رہے ہوتے کبھی زمین کھود رہے ہوتے، مزاج میں سادگی اتنی تھی کہ زمین پر ہی بلاتکلف سو جاتے تھے، ایک مرتبہ آپ کو مٹی پر سوتا دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا - اے ابو تراب ! اب اٹھ بیٹھو _,"

★_ ابو تراب کا مطلب ہے مٹی والے، لہذا ہیں آپ کی کنیت مشہور ہوگئی اور ابوتراب کہلانا آپ کو بہت پسند تھا، کوئی آپ کو اس نام سے پکارتا تو بہت خوش ہوتے تھے، خلافت کے دنوں میں بھی یہ سادگی برقرار رہی،

★_ شجاعت اور بہادری تو آپ کی خاص خوبی تھی، اس میں کوئی اآپ کے ہم پیالہ نہیں تھا ، آپ تمام غزوات میں شریک رہے اور سب ہی میں شجاعت کے جوہر دکھائے ،

★_ آپ دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتے تھے، اس کی بہت سی مثالیں تاریخ کی کتب میں موجود ہیں، پہلے تینوں خلفاء کے آپ مشیر رہے، تینوں آپ سے مشورہ لیا کرتے تھے ،

★_ آپ کے سترہ لڑکیاں اور چودہ لڑکے پیدا ہوئے، ان میں سے حضرت حسن، حضرت حسین، محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنھم سے سلسلہ نسل چلا، اللہ تعالی کی آپ پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں _,"
╨─────────────────────❥
★_ بیعت حضرت حسن رضی اللہ عنہ _,*

★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے وفات سے پہلے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ؟ جواب میں آپ نے فرمایا- میں اپنے حال میں مشغول ہوں, تم جسے پسند کرو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینا_," 

★_ آپ کے اس جملے سے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت کی اجازت دی ہے ، چنانچہ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، سب سے پہلے قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، اس کے بعد دوسرے لوگ آگے آتے رہے اور بیت کرتے رہے , حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیعت لیتے وقت کہتے تھے :- میرے کہنے پر عمل کرنا، جس سے میں جنگ کروں تم بھی اس سے جنگ کرنا اور جس سے میں صلح کروں تم بھی اس سے صلح کرنا _",

★_ دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا - صلح جنگ سے بہتر ہے اور بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کر کے میرے ہاتھ پر بیعت کر لیں _," 

★_ اس موقع پر خارجیوں اور منافق نے یہ بات مشہور کر دی کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ یہ صلح یقینا خیر کا باعث تھی مگر ان ظالموں نے گویا اسے ایک سازش کے طور پر مشہور کردیا، ساتھ ہی انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا _,"

 ★_ اس فتویٰ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ہلچل مچا دی، وہ دو حصوں میں بٹ گئے اور آپس میں لڑنے لگے، یہاں تک کہ کچھ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خیمے میں بھی گھس آئے اور آپ کا لباس پکڑ کر کھینچنے لگے یہاں تک کہ آپ کا لباس تار تار ہو گیا، وہ آپ کی چادر اور خیمے کی ہر چیز لوٹ کر لے گئے،

★_ ان حالات میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے قبیلہ ربیعہ اور ہمدان کو آواز دی، یہ دونوں قبیلے آپ کی مدد کو آئے اور شرپسندوں کو آپ کے پاس سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے، اس طرح شور شرابا ختم ہوگیا، 

★_ اس کے بعد آپ مدائن کی طرف جا رہے تھے کہ ایک خارجی جراح بن قبیصہ نے آپ پر نیزے کا وار کیا، نیزہ آپ کی ران پر لگا، آپ کو اٹھا کر مدائن میں لایا گیا، آپ کے زخموں کا علاج کیا گیا اور آخر کار زخم ٹھیک ہوگیا، 

★_ ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنے کا فیصلہ کر لیا، آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا - میں صلح کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.. اگر آپ میری چند شرائط مان لیں _,
            ▪•═════••════•▪                  
*┱✿ حضرت حسن اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم میں صلح -_,*

★_ صلح کی یہ شرائط آپ نے عبداللہ بن عامر کے ہاتھ روانہ کی، عبداللہ بن عامر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور یہ شرائط بیان کیں، ساتہ ہی اپنی طرف سے یہ شرط بھی پیش کردی کہ جب آپ فوت ہو جائیں تو خلافت کے حقدار حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہوں گے اور جب تک آپ زندہ ہیں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ہر سال 5 لاکھ درہم سالانہ بیت المال سے بھیجتے رہیں گے، ایک شرط یہ ہے کہ علاقہ اہواز اور فارس کا خراج حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ملا کرے گا،

★_ یہ شرائط شنکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا - مجھے یہ سب شرائط منظور ہیں اور اگر حسن رضی اللہ عنہ کچھ اور شرائط بھی پیش کریں گے تو میں وہ بھی منظور کروں گا کیونکہ ان کی نیت نیک ہے اور وہ مسلمانوں میں صلح کے خواہش مند نظر آتے ہیں_, 

یہ کہہ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر لگائی اور عبداللہ بن عامر کو دیتے ہوئے فرمایا - یہ کاغذ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ اور جو شرائط چاہیں اس کاغذ پر لکھ دیں، میں تمام شرائط ماننے کے لئے تیار ہوں _,"

★_ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد محترم کے زمانے سے حالات کو دیکھتے چلے آ رہے تھے، وہ آپس کی جنگوں سے بیزار تھے، چنانچہ عبداللہ بن عامر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دستخط اور مہر والا کاغذ لے کر آپ کی خدمت میں آئے، آپ نے ان شرائط کو پڑھا تو ناراض ہوئے اور فرمایا - مجھے یہ شرط ہرگز پسند نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد میں خلیفہ بنایا جاؤں، اگر مجھے خلافت کی خواہش ہوتی تو میں اس وقت ہی کیوں اسے چھوڑنے پر تیار ہوتا _," یہ فرمانے کے بعد اپنے کاتب کو بلایا اور صلح نامہ لکھنے کا حکم دیا _,
 
"_ یہ صلح نامہ حسن بن علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان لکھا جاتا ہے، دونوں ان باتوں پر رضامند ہوگئے ہیں، خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی، اس کے بعد مصلحت کے تحت جسے چاہیں گے خلیفہ بنا لیںگے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے تمام مسلمان محفوظ رہیں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرفداروں کو کچھ بھی نہیں کہیں گے _," 

★_ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ معاہدہ ملا تو بہت خوش ہوئے، آپ نے اسے بخوشی منظور فرمایا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی مسجد میں پہنچ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت لی، کوفہ والوں نے بھی آپ کی بیعت کی،

★_ بیعت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا، اس کے الفاظ یہ ہیں :- "_ میں مسلمانوں میں فتنے کو بہت مکروہ سمجھتا ہوں، اپنے جدامجد کی امت میں سے فتنے اور فساد کو دور کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال محفوظ کرنے کے لیے میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی ہے اور انہیں اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کیا ہے، اگر امارت اور خلافت ان کا حق تھا تو انہیں پہنچ گیا اور اگر یہ میرا حق تھا تو میں نے یہ حق انہیں بخش دیا _,"

★_ اس صلح کے بعد تمام معاملات طے ہوگئے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا - "_ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالٰی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا_,"

★_ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ دے کر منبر سے نیچے اترے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا - 
 اے ابو محمد آج آپ نے ایسی جوانمردی اور بہادری دکھائی ہے کہ آج تک کوئی نہیں دکھا سکا _,"

★_ یہ صلح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چھ ماہ بعد 41 ہجری میں ہوئی اس لیے 41 ہجری کو عام الجماعت ( جماعت کا سال) کہا گیا, صلح کے مکمل ہونے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ سے دمشق کی طرف روانہ ہوگئے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نہایت عزت اور احترام سے پیش آتے رہے،

★_ اس صلح کے نتیجے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پورے عالمِ اسلام کے خلیفہ ہو گئے اور قریب قریب سبھی حضرات نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کرلیا ، ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی، اس صلح کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کوفہ کی سکونت چھوڑ کر مدینہ منورہ آ گئے اور باقی زندگی آپ نے مدینہ منورہ ہی میں بسر فرمائی _,

★_ آپ کی وفات 50 ہجری یا 51 ہجری میں ہوئی، کہا جاتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کچھ سازش کرنے والوں نے زہر دیا تھا، آپ کو آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا خاتون جنت کے پہلو میں دفن کیا گیا، آپ کے 9 بیٹے اور 6 بیٹیاں تھیں، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے وہ مرتبہ عطا فرمایا کہ ان کے ذریعے مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگیوں کا 10سالہ سلسلہ ختم ہوا ، اللہ تعالی کی ان پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں، آمین ثم آمین _,"

*★_ الحمدللہ اللہ ! خلافتِ راشدہ مکمل ہوا ، ہم نے لکھنے میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے پھر بھی بشر ہوں، کہیں نہ کہیں کوئی چوک ہو گئی ہو کوئی غلطی ہم سے ہو گئی ہو تو ہم اللہ تعالی سے معافی و توبہ کے طلبگار ہیں، ساتھ ہی آپ سبھی میمبرز کے شکرگزار ہیں کہ آپ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ رضی اللہ عنہم اور بھی دیگر عنوان پر لکھنے میں ہماری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی، اللہ تعالی سے دعا ہے اللہ آپ سبھی حضرات کو جزائے خیر دے اور ہماری ان کوششوں کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین ،
 
*📕_ خلافت راشدہ _, قدم بہ قدم (مصنف- عبداللہ فارانی)-
 ╨─────────────────────❥  
*💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
 ╨─────────────────────❥ 
      _ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
    http://www.haqqkadaayi.com
  ╚═════════════┅┄ ✭✭

Post a Comment

0 Comments