SHAHADAT E HUSAIN RZ.(URDU)

  

❁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
•–▤–●–▤▤–●–▤▤–●–▤▤–●–▤–•    
           ︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽ 
                      *▣_ شہادت حسین _▣* 
            ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾
         *▣- محرم الحرام- فضائل و مسائل -▣*
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
                       *※ محرم کی حقیقت ※*
*▣_سب سے پہلے بات یہاں سے چلتی ہے کہ یہ مہینہ معظم محترم ہے یا منحوس ہے؟ بعض لوگ اس کو منحوس سمجھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے نزدیک شہادت بہت بری اور منحوس چیز ہے اور چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی ہے اس لئے اس میں وہ کوئی تقریب اور خوشی کا کام شادی نکاح وغیرہ نہیں کرتے۔*

*▣_ اس کے برعکس مسلمانوں کے ہاں یہ مہینہ محترم معظم اور فضیلت والا ہے۔ محرم کے معنی ہی محترم معظم اور مقدس کے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس مہینے کو اس لئے فضیلت ملی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی۔ یہ غلط ہے اس مہینے کی فضیلت اسلام سے بھی بہت پہلے سے ہے۔*

*▣_ بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون سے اسی دن میں نجات ہوئی, اس نعمت پر اداء شکر کے طور پر اس دن کے روزہ کا حکم ہوا اور بھی بہت سی فضیلت کی چیزیں اس میں ہوئی ہیں۔ البتہ یوں کہیں گے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں زیادہ فضیلت اس لئے ہوئی کہ ایسے فضیلت والے ماہ میں واقع ہوئی,*

*▣__ جب یہ ثابت ہوا کہ یہ مہینہ اور دن افضل ہے تو اس میں نیک کام بہت زیادہ کرنے چاہئیں, نکاح وغیرہ خوشی کی تقریبات بھی اس میں زیادہ کرنی چاہئیں, اس میں شادی کرنے سے برکت ہوگی لیکن ہے یہ بری بات اس لئے سمجھی جاتی ہے کہ بہت دنوں سے یہ غلط باتیں کوٹ کوٹ کر دل میں بھری ہوئی ہیں، سو سال کا کفر بھرا ہوا جلدی سے نہیں نکلتا وہ نکلتے ہی نکلتا ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
       *※ (9-10) نو دس محرم کا روزہ-1 ※*
*▣__ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ اس دن کو روزہ رکھا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا "_تم روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ کہنے لگے یہ بہت اچھا دن ہے, اس دن میں حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دی تھی اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا,*

*▣__ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم بہ نسبت تمہارے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کے زیادہ حق دار ہیں، پھر آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا۔*
*®_ صحیح بخاری ،* 

*▣__صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کا ہے اور فرض نماز کے بعد افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔*
*®_ صحیح مسلم,*

*"▣___ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشورا کا دن آتا آپ روزہ رکھتے لیکن وفات سے پہلے جو " عاشوراء کا دن آیا تو آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے, اس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک رزوہ اور ملاؤں گا تا کہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہو،*

*"▣_ لیکن عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اللہ علیہ وسلم کا آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن چونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرما دی تھی اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے عاشوراء کے روزہ میں اس بات کا اہتمام کیا اور 9 محرم یا 11 محرم کا ایک روزہ اور ملا کر رکھا اور اس کو مستحب قرار دیا اور تنہا عاشورا کے روز ور رکھنے کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ قرار دیا۔*

*▣_ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے وہ یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ ادنی مشابہت بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمائی حالانکہ وہ مشابہت کسی برے اور نا جائز کام میں نہیں تھی بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کر رہے ہیں اسی دن ہم بھی وہی عبادت کر رہے ہیں لیکن آپ ﷺ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کیوں؟*
*"_ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے۔*

*"▣__ جب عبادت, بندگی اور نیکی کے کام میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تو اور کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی, اگر یہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے کہ میں ان جیسا نظر آؤں تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ _دس محرم میں پیش آنے والے اہم واقعات ※*
*▣_(۱) حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی مقبولیت,*
*"◈_ (۲) فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کی نجات,*
*"◈_(۳) کشتی نوح اسی دن جودی پہاڑ پر ٹھہبری,*
*"◈_ (۴) حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے۔*
*"◈_(۵) یوسف علیہ السلام کا کنویں سے نکلنا,*
*"◈_(٦) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور آسمانوں کی طرف اٹھایا جانا اسی دن میں ہوا,*
*"◈_(۷) حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ,*
*"◈_(۸) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت,*
*"◈_(۹) حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کا لوٹنا،*
*"◈_(۱۰) اسی دن میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اگلی پچچھلی لغزشیں حق تعالیٰ نے معاف کردیں*

*▣_ یہ دس واقعات شارح بخاری میں علامہ عینی نے ذکر کئے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض کتب میں اور بڑے بڑے واقعات کو شمار کیا ہے جو عاشوراء کے دن ہوئے چند یہ ہیں :-*
*◈(۱)_ حضرت آدم علیہ السلام کا نبوت کے لئے منتخب ہونا,*
*◈(۲)_ حضرت ادریس علیہ السلام کا آسمانوں کی طرف اٹھایا جانا,*
*◈(۳)_ حق تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنانا,*
*◈(۴)_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجہ سے نکاح بھی اسی دن ہوا،*
*◈(۵)_ اسی دن قیامت قائم ہوگی,*
*◈(٦)_ اس دن میں سیدنا حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ ( نزھتہ البساتین),*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
                  *※ اہل و عیال پر وسعت ※*
*▣__امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث بیان فرمائی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- جو شخص عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت کرے گا حق تعالی سارے سال فراغ روزی عطا فرماتے ہیں۔*

*"▣_ حدیث کے راوی حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تجربہ کیا اور اس کو درست پایا ہے، مگر اس کو ضروری نہ سمجھے اور نہ حد سے زیادہ اہتمام کرے اور جب اہل وعیال پر وسعت کرے تو غریب ہمسایہ کے ہاں بھی بھیج دے۔*

        ◆══◆══◆══◆══◆══◆
    *▣- محرم اور عاشوراء کے دن ناجائز کام -▣*
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
        *※ ماتم، نوحہ کرنا اور سوگ منانا _(1)_※*
*"▣
ماہ محرم کو بعض لوگ منحوس مہینہ سمجھتے ہی حالانکہ اوپر گزرا ہے کہ یہ مبارک مہینہ ہے بڑے بڑے عظیم واقعات اس ماہ پیش آئے ہیں،*

*"▣__ کئی لوگ اس مہینہ میں خصوصاً عاشوراء کے دن ماتم کرتے ہیں اور غم کا اظہار کرتے ہیں یہ گناہ ہے, اسلام ہمیں صبر واستقامت کی تعلیم دیتا ہے, زور زور سے رونا پیٹنا, سینہ کوبی کرنا کپڑے پھاڑنا اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں,*

*"▣__ اسلام کا حکم تو یہ ہے کہ کسی کے مرنے سے تین دن بعد غم کا اظہار نہ کرو اور نہ سوگ مناؤ, صرف عورت کے لئے اپنے شوہر کے مرنے کے بعد چار ماہ دس دن تک سوگ منانا ضروری ہے۔ شوہر کے علاوہ کسی اور کا خواہ باپ ہو یا بھائی ہو یا بیٹا ہو تین دن کے بعد سوگ منانا جائز نہیں,*

*"▣__ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اپنے والد کی وفات کی خبر پہنچی تو تین دن کے بعد خوشبو منگائی اور چہرے کو لگائی اور فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی ( کیونکہ بوڑھی ہو چکی تھیں اور خاوند یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تھی ) لیکن میں نے باپ کا سوگ ختم کرنے کے لئے خوشبو لگائی کیونکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان عورت کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔*

*"▣__ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں, بعض لوگ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سوگ مناتے ہیں, محرم میں اچھے کپڑے نہیں پہنتے, بیوی کے قریب نہیں جاتے, چار پائیوں کو الٹا کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ, حالانکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو تقریباً چودہ سو سال ہو چکے ہیں، یہ سب نا واقفیت کی باتیں ہیں،*

*"▣__ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت پر رکھیں۔ ( آمین یارب العالمین),* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (2)_ محرم میں ایصال ثواب کے لئے کھانا پکانا ※*
*"▣__محرم کے مہینے میں بالخصوص نویں دسویں اور گیارہویں تاریخ میں کھانا پکا کر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح کو ایصال ثواب کرتے ہیں,*.

*"▣__ ایصال ثواب کا سب سے افضل طریقہ یہ ہے کہ اپنی وسعت کے مطابق نقد رقم کسی کار خیر میں لگا دے یا کسی مسکین کو دے دے,*
*"_ یہ طریقہ اس لئے افضل ہے کہ اس سے مسکین اپنی ہر حاجت پوری کر سکے گا اور اگر آج اسے کوئی ضرورت نہیں تو کل کی ضرورت کے لئے رکھ سکتا ہے نیز یہ صورت دکھلاوے سے بھی پاک ہے۔*.

*"▣__ حدیث میں مخفی صدقہ دینے والے کی یہ فضیلت وارد ہوئی ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی بروز قیامت عرش کے سایہ میں جگہ عنایت فرمائیں گے جبکہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا اور گرمی کے سبب لوگ پسینوں میں غرق ہو رہے ہوں گے ۔*

*"▣__ فضیلت کے لحاظ سے دوسرے درجے پر یہ صورت ہے کہ مسکین کی حاجت کے مطابق اسے صدقہ دیا جائے یعنی اس کی ضرورت کو دیکھ کر اسے پورا کیا جائے,*

*"▣__ یہ ایصال ثواب کی صحیح صورتیں ہیں۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
       *※ (3)_ دسویں محرم کی چھٹی ※*
*▣_ کئی لوگ دس محرم کو چھٹی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اس کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سوگ سمجھتے ہیں،*
*"▣__ حالانکہ تین دن کے بعد سوگ منانا جائز نہیں ہے اور شریعت مطہرہ نے کسی دن بھی کام کاج کرنے سے منع نہیں کیا, نماز جمعہ اور نماز عید کے بعد اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔*

*"▣_ (4)_ قبروں کی زیارت:-*
*"▣__ قبروں کی زیارت ثواب ہے کیونکہ ان کے دیکھنے سے موت یاد آتی ہے مگر اس کام کے لئے لوگ دس محرم کو مقرر کرتے ہیں اور سال میں صرف اسی دن قبرستان میں جاتے ہیں، آگے پیچھے کبھی بھول کر بھی نہیں جاتے یہ صحیح نہیں۔*

*"▣__ کچھ لوگ عاشوراء کے دن قبروں پر سبز چھڑیاں رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مردے کا عذاب ٹل جاتا ہے اس عمل کے التزام میں بہت خرابیاں ہیں مثلاً غیر لازم کو لازم سمجھا جاتا ہے, بعض لوگ عذاب ٹل جانے کو لازمی خیال کرتے ہیں اور یہ صحیح نہیں۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
          *※ _قبروں کی زیارت کے مسائل ※*
*▣_ قبروں کے پاس سے گزریں تو السلام علیکم یا اہل القبور کہہ لینا چاہیے ،*

*"▣_ قبرستان جانے کے لیے کوئی دن اور کوئی خاص وقت کی تعلیم نہیں دی گئی جب چاہیں جا سکتے ہیں, لیکن قبرستان جانے کا مقصد ایصال ثواب اور عبرت حاصل کرنا ہو,*
*"▣_ شب برات اور جمعہ کے دن قبرستان جانا ثابت ہے،*

*"▣_بزرگوں کے مزارات پر جانا جائز ہے لیکن منت مانگنا, عرس یا میلے بھرانا, چادر چڑھانا, بکرا ذبح کرنا, چڑھاوا چڑھانا نا جائز اور حرام ہے،*

*"▣_قبرستان میں دعا اور فاتحہ کا طریقہ :-*
*"▣_سب سے پہلے سلام کرنا, پھر جس قدر ممکن ہو ان کے لیے دعا استغفار کریں اور قران کریم پڑھ کر ایصال ثواب کریں,*

*"▣_ بعض روایات میں سورہ فاتحہ سورہ یاسین تبارک الذی تکاثر سورہ اخلاص ایت الکرسی کی فضیلت ائی ہے,* 

*"▣_ قبر کی طرف منہ کر کے دعا نہ کریں، فتاویٰ عالمگیری میں (صفحہ 350 جلد 5 میں) لکھا ہے کہ قبر پر فاتحہ ایصال ثواب کے لیے دعا مانگیں تو قبر کی طرف رخ نہ کریں بلکہ قبر کی طرف پشت کریں اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگے، قبر پر بلند اواز سے قران کریم پڑھنا مکروہ ہے، اہستہ پڑھ سکتے ہیں،* 

*"▣_ قبرستان میں عورتوں کے جانے میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ جوان عورتیں ہرگز نہ جائیں بوڑھی عورتیں جا سکتی ہیں لیکن وہاں کوئی خلاف شرع کوئی کام نہ کریں تو گنجائش ہے،*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
         *※ (5)_دس محرم کی مجلس شہادت ※*
*▣_ یوم عاشورہ کو یوم شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ گمان کرنا و احکام ماتم و نوحہ گریہ وزاری و بے قراری کی برپا کرنا اور گھر گھر مجالس شہادت منعقد کرنا اور واعظین کو بھی بالخصوص ان ایام میں شہادت نامہ یا وفات نامه بیان کرنا خاص کر اصل روایات کے خلاف، یہ حرام ہے،*

*"▣__حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے مرثیوں سے منع فرمایا ہے۔ اور خلاف روایات بیان کرنا سب ابواب میں حرام ہیں۔*

*"▣__(6)۔ محرم میں سبیل لگا نا, دودھ کا شربت پلانا, خچڑا تقسیم کرنا:-*
*"▣__ تقسیم شربت، خچڑا، جس میں ریا کاری دکھاوے کا خاص دخل ہے اور ہر غنی اور فقیر کو اس کا لینا اور اس کو تبرک جاننا اور جو نہ لے اس کو برا سمجھنا، اس پر لعن طعن کرنا، دودھ شربت کی سبیلیں لگانا اور اس کے لیے چندہ کرنا اور نہ دینے والے کو برا کہنا، خاص کر ان دنوں میں کرنا، اگر جان بوجھ کر ثواب کی نیت سے کرتا ہے تو یہ بدعت ذلالہ ہے اور صدقات کا لینا غنی کو مکروہ ہے اور سید کو حرام ہے، اور نہ لینے والے کو لعن طعن کرنا فسق ہے، فقط واللہ اعلم،*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
      *※(7)_ محرم الحرام میں شادی نہ کرنا ※*
*▣__ محرم و صفر و شعبان, ان مہینوں میں شادی نہ کرنا اس عقیدے پر مبنی ہے کہ یہ مہینے منحوس ہیں۔ اسلام اس نظریئے کا قائل نہیں۔*

*"▣_ محرم میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس مہینے میں عقد نکاح ممنوع ہو گیا، ورنہ ہر مہینے میں کسی نہ کسی شخصیت کا وصال ہوا ہے، جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی بزرگ تر تھے۔*

*"▣_ اس سے یہ لازم آئے گا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے کسی میں بھی نکاح نہ کیا جائے پھر شہادت کے مہینے کو سوگ اور نحوست کا مہینہ سمجھنا بھی غلط ہے۔* 

            ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾                    
                     *▣- منکرات محرم -▣*
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*▣_(1)_ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو امام کہنے کی کیا حیثیت ہے:-*

*"▣_ ”امام“ کا لفظ اہل حق کے ہاں بھی استعمال ہوتا ہے اور شیعہ کے ہاں بھی۔ اہل حق کے ہاں اس کے معنی پیشوا رہبر اور مقتدا کے ہیں اور اہل تشیع کے ہاں امام عالم الغیب اور معصوم ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں امام کا درجہ نبیوں سے بھی بڑا ہے،*

*"▣_ ظاہر ہے کہ اس لفظ کے استعمال کرنے میں ہم تو وہی معنی ملحوظ رکھتے ہیں جو اہل حق کے ہاں ہیں۔ اس اعتبار سے تمام صحابہ تابعین اولیاء اللہ اور علماء امام ہیں۔ اس لئے امام ابوبکر امام عمر امام عثمان امام علی امام ابو هريرة رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہنا چاہئے۔*

*"▣_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں_,"*
*"_سب کے سب امام ہیں جس کی چاہو اقتداء کر لو، ہر ستارے میں روشنی ہے جس سے چاہو روشنی حاصل کر لو، اس معنی میں سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امام ہیں،*

*"▣_سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگ امام ابوبکر نہیں کہتے امام عمر نہیں کہتے, امام حسن اور امام حسین ہی کہتے ہیں ,* 

*"▣_معلوم ہوا کہ یہ اثر مسلمانوں میں کہیں غیر سے آیا ہے یہ تشیع کا اثر مسلمانوں میں سرایت کر گیا ہے، اگر اہل حق علماء میں سے کسی نے ان حضرات کو امام کہہ دیا ہے تو انہوں نے اس کے صحیح معنی میں امام کہا ہے، مگر اس سے مغالطہ ضرور ہوتا ہے اس لئے اس سے احتراز ضروری ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
               *※ (2)_علیہ السلام کا اطلاق ※*
*▣_ایسے ہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لئے علیہ السلام بھی وہی لوگ کہتے ہیں جو انہیں انبیاء علیہم السلام کا درجہ دیتے ہیں, اس سے بھی احتراز لازم ہے۔,*

*"▣__ جس طرح دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان حضرات کے ساتھ بھی رکھنا چاہئے, جس طرح حضرت ابو بکر، حضرت عمر و دیگر صحابہ کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعائیہ کلمات لکھے اور کہے جاتے ہیں ایسے ہی دعائیہ کلمات حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی لکھے اور کہے جائیں۔*

*"▣__(3)_ مسلمانوں کے ناموں میں اہل تشیع کا اثر :-*

*"▣__مسلمانوں کے ناموں میں بھی اہل تشیع کا اثر پایا جاتا ہے مثلاً اصل نام کے ساتھ جس طرح محض تبرک کے لئے محمد اور احمد ملانے کا دستور ہے اسی طرح علی، حسن، حسین ملایا جاتا ہے۔ صدیق فاروق عثمان اور کسی صحابی کا نام بطور تبرک اصل نام کے ساتھ ملانے کا دستور نہیں۔*
*"▣__ نسبت غلامی بھی علی حسن، حسین کی طرف تو کی جاتی ہے مگر اور کسی صحابی کو گوارا نہیں کیا جاتا۔*

*"▣__عورتوں میں کنیز فاطمہ کا نام تو پایا جاتا ہے مگر خدیجہ عائشہ ودیگر ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی کنیز کہیں سنائی نہیں دیتی۔*

*"▣__ اس سے بھی بڑھ کر الطاف حسین، فضل حسین اور فیض الحسن جیسے شرکیہ نام بھی مسلمانوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (4)_ تعزیہ کا جلوس اور ماتم کی مجلس دیکھنا ※*

*▣_ان دنوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لئے جمع ہو جاتی ہے اس میں کئی گناہ ہیں، پہلا گناہ یہ کہ اس میں دشمنان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دشمنان قرآن کے ساتھ تشبہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”من تشبه بقوم فهو منهم جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اسی میں شمار ہوگا۔*
۔
*▣_ ہولی کے دنوں میں ایک بزرگ جا رہے تھے، انہوں نے مزاح کے طور پر ایک گدھے پر پان کی پیک ڈال کر فرمایا کہ تجھ پر کوئی رنگ نہیں پھینک رہا۔ لو تجھے میں رنگ دیتا ہوں، مرنے کے بعد اس پر گرفت ہوئی کہ تم ہولی کھیلتے تھے اور عذاب میں گرفتار ہوئے۔*
 
*▣__دوسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح کسی عبادت کو دیکھنا عبادت ہے اسی طرح گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے۔*
*▣__ تیسرا گناہ یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو رہا ہوتا ہے ایسی غضب والی جگہ جانا بہت بڑا گناہ ہے۔*.

*▣_ ایک بار رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا گزر ایسی بستیوں کے کھنڈرات پر ہوا جن پر عذاب آیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور سواری کو بہت تیز چلا کر اس مقام سے جلدی سے گزر گئے۔*

*▣_ جب سید الاولین والآخرین رحمۃ للعالمین، حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم غضب والی جگہ سے بچنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے تو عوام کا کیا حشر ہوگا۔ سوچنا چاہئے کہ اگر اللہ کے دشمنوں کے کرتوتوں سے اس وقت کوئی عذاب آ گیا تو کیا صرف نظارہ کے لئے جمع ہونے والے مسلمان اس عذاب سے بچ جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ عذاب آخرت میں بھی یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے*

*▣_ اللہ تعالیٰ مستحق عذاب بنانے والی بد اعمالیوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔*

*▣_ یہ بھی خیال رہے کہ جس طرح مبارک دنوں میں عبادت کا زیادہ ثواب ہے اسی طرح معصیت پر زیادہ عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دین کا صحیح فہم اور 
کامل اتباع کی نعمت عطا فرمائیں۔* 

        ◆══◆══◆══◆══◆══◆
           *▣ _فضائل اہل بیت نبوی ﷺ ▣*
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (1)_ اہل بیت کی اولین مصداق ازواج مطہرات ہیں ※*
*▣_ یہ ایک حقیقت ہے جس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں کہ اہل البیت“ کا لفظ قرآن مجید میں ازواج مطہرات ہی کے لئے استعمال ہوا ہے,*

*▣__ سورۃ الاحزاب ( آیت -33) میں ازواج مطہرات کو کچھ خاص ہدایات دینے کے بعد فرمایا گیا ہے۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُم الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُم تطهيراً ... جس کا مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے پیغمبر کی بیویوں ا تم کو جو یہ خاص ہدایتیں دی گئیں ہیں ان سے اللہ کا مقصد تم کو زحمت و مشقت میں مبتلا کرنا نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان ہدایات سے یہ ہے کہ تم کو ہر قسم کی ظاہری و باطنی برائی اور گندگی سے مطہر اور پاک صاف کر دیا جائے_,"*
۔

*▣_"_جو شخص عربی زبان کی کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے اس کو سورہ احزاب کے اس پورے رکوع کے پڑھنے کے بعد اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہوگا کہ یہاں اہل بیت کا لفظ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات ہی کے لئے استعمال ہوا ہے،*
*▣__ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قرآن پر ایمان رکھنے والے ہم مسلمانوں کا حال آج یہ ہے کہ اہل البیت کا لفظ سن کر ہمارا ذہن ازواج مطہرات کی طرف بالکل نہیں جاتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور ان دونوں کی ذریت (رضی اللہ عنہم ) ہی کی طرف جاتا ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (2)_اہل بیت اور حضور ﷺ کی دعا ※*
*▣__البتہ حدیث شریف سے یہ بات ثابت ہے کہ جب سورہ احزاب کی آیت (آیت ٣٣) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین اور ان کے ساتھ ان کے شوہر اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی مرتضیٰ (رضی اللہ عنہم اجمعین ) کو ایک کملی میں اپنے ساتھ لے کر دعاء فرمائی: "اللَّهُمَّ هُو لاءِ أَهْلُ بَيتِى فَاذْهِبْ عَنْهُمُ الرّجُسَ وَطَهِرهُم تَطْهِيراً " (اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان سے بھی ہر طرح کی برائی اور گندگی کو دور فرمادے اور ان کو مکمل طور پر مطہر و پاک صاف فرمادے)*

*▣__ بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی اور یہ حضرات بھی شامل ہو گئے،*

*"▣__ الغرض یہ کہنا کہ ازواج مطہرات آپ ﷺ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں بلکہ اس لفظ کا مصداق صرف آپ کی ایک بیٹی، ایک داماد اور دو نواسے ہیں، نہ تو زبان کے لحاظ سے درست ہے نہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے ,*

*"▣__بلکہ ایک خاص فرقہ کے فنکاروں کی سازش کے نتیجہ میں اس غلطی نے امت میں عرف عام کی حیثیت اختیار کر لی اور ہماری سادہ دلی کی وجہ سے اس طرح کی بہت سی دوسری غلط باتوں کی طرح اس کو بھی قبول عام حاصل ہو گیا اور جیسا کہ عرض کیا گیا حالت یہ ہو گئی کہ اہل بیت کا لفظ سن کر ہمارے اچھے پڑھے لکھوں کا ذہن بھی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین کی طرف نہیں جاتا جو قرآن مجید کی رو سے اس لفظ کی اولین مصداق ہیں۔*
*"▣__واللہ اعلم بالصواب:-*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (3)_ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما ※*
*▣_ جیسا کہ حدیث وسیرت کی مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات جو منکوحہ بیوی کی حیثیت سے آپ کے ساتھ تھوڑی یا زیادہ مدت رہیں وہ کل گیارہ (۱۱) ہیں، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔*
*"_ ا۔ حضرت خدیجہ بنت خولید رضی اللہ عنہا ،*
*"_۲۔ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا۔*
*"_ ۳۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،*
*"_۴۔ حضرت حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا ،*
*"_۵۔ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا ،*
*"_٦_ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ،*
*"_٧_ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا۔*
*"_٨_ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ،*
*"_٩_حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا ،*
*"_۱۰۔ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب,*
*"_ ا١۔ حضرت میمونہ۔رضی الله عنہا ,*

*"▣__ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں وفات پائی ،*

*"▣__ ان گیارہ کے علاوہ بنو قریظہ میں سے ریحانہ شمعون کے متعلق بھی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود بنی قریظہ کی غداری کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کی اور ان کی بقایا کو گرفتار کیا گیا تو ان میں یہ ریحانہ بھی تھیں، انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے اپنے نکاح میں لے لیا,*
*"▣__ لیکن بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حضور ﷺ کی منکوحہ بیوی بننے کا شرف حاصل نہیں ہوا، بلکہ یہ باندی کی حیثیت سے آپ کے ساتھ رہیں، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند روز پہلے اور ایک روایت کے مطابق حجتہ الوداع سے واپس آنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں وفات پاگئیں۔*
*"▣__ واللہ اعلم بالصواب _,* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (4)_سر کار دو عالم حضرة محمد ﷺ کی اولاد مبارک ※*

*▣_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کے بارے میں اقوال مختلف ہیں, سب سے زیادہ معتبر اور مستند قول یہ ہے کہ تین صاحبزادے حضرت قاسم، حضرت عبداللہ (جن کو طیب اور طاہر کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا) حضرت ابراہیم اور چار صاحب زادیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضور فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہما تھیں،*

*"▣__ حضرت قاسم:- آپ کی اولاد میں سب سے پہلے حضرت قاسم پیدا ہوئے اور صرف دو سال زندہ رہے، بعثت نبوی سے پیشتر ہی انتقال کر گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیت ابو القاسم انہی کے انتساب سے تھی۔*

*"▣__ حضرت زینب رضی اللہ عنہا:- حضرت زینب آپ کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہو ئیں اور اسلام لائیں۔ بدر کے بعد ہجرت کی, اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے بیاہی گئیں۔ شروع ۸ ہجری میں انتقال کیا۔*
*"_ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنی یادگار چھوڑی۔ لڑکے کا نام علی تھا اور لڑکی کا نام امامہ تھا۔*

*"▣__ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور جب حضرت علی نے شہادت پائی تو مغیرہ بن نوفل کو وصیت کی کہ تم امامہ سے نکاح کر لینا۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (5)_ ابولہب اور اس کے بیٹوں کی بدبختی ※*

*▣__ حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما دونوں صاحبزادیاں ابولہب کے بیٹوں سے منسوب تھیں۔ رقیہ عقبہ بن ابی لہب سے اور ام کلثوم عتیبہ بن ابی لہب سے فقط نکاح ہوا تھا۔ عروسی نہیں ہوئی تھی۔ جب تبتُ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وتَبَّ نازل ہوئی تو دونوں بیٹوں نے باپ کے حکم سے دونوں صاحبزادیوں کو طلاق دیدی۔*

*▣__ (6)_ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا:- آپ ﷺ نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حضرت رقیہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ وہاں ان کے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبد اللہ رکھا گیا۔ جو چھ سال زندہ رہ کر انتقال کر گیا۔*

*▣__ جس وقت آنحضرت ﷺ غزوہ بدر کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں اس وجہ سے حضرت عثمان غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے ان کی تیمارداری میں رہے،*
*"_عین اسی روز کہ جس روز حضرت زید بن حارث بدر کی فتح کی بشارت اور خوشخبری لے کر مدینہ آئے۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے انتقال فرمایا۔ انتقال کے وقت میں سال کی عمر تھی۔*

*▣__(7)_ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا:- حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ماہ ربیع الاول ۲ ہجری حضرت عثمان کے نکاح میں آئیں۔ چھ سال حضرت عثمان کے ساتھ رہیں اور کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ماه شعبان 9 ہجری میں انتقال کیا۔*

*▣__(8)_ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عظمت:- حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر میرے دس لڑکیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دیتارہتا۔*

*"▣__(9)_ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ:- حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری اولاد ہیں۔ جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ماہ ذی الحجہ ۸ ہجری میں پیدا ہوئے۔ تقریباً پندرہ سولہ مہینے زندہ رہے، 10 ہجری میں انتقال ہوا،* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (10)_حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ※*

*▣_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ، زہراء اور بتول یہ دو آپ کے لقب تھے۔ بعثت کے پہلے سال میں پیدا ہوئی جبکہ قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔*
*"_ ۲ ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ پہلے قول کی بناء پر حضرت فاطمہ اس وقت پندرہ سال اور ساڑھے پانچ مہینہ کی تھیں ۔ اور دوسرے قول کی بنا پر انیس سال اور ڈیڑھ مہینے کی تھیں۔ نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر چوبیس سال اور ڈیڑھ مہینہ تھی، آپ ﷺ کی وفات کے بعد رمضان ١١ ہجری میں انتقال فرمایا ،*

*"▣__حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ بار بار آپ نے یہ فرمایا ہے کہ اے فاطمہ کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تو جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہو۔*
*"_ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپ سفر میں جاتے تو سب سے اخیر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے فاطمہ کے پاس جاتے۔*

*"▣__ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پانچ اولادیں ہو ئیں۔ تین لڑکے اور دولڑکیاں ۔ (حسن حسین کلثوم زینب) سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اور کسی صاحب زادی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کا سلسلہ نہیں چلا، حضرت محسن تو بچپن ہی میں انتقال کر گئے ۔ حضرت ام کلثوم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نکاح فرمایا اور کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اور حضرت زینب کا نکاح عبد اللہ بن جعفر سے ہوا،* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
  *※ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ ※*

*▣_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے نواسے اور حضرت علی و حضرت فاطمہ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے حضرت حسین کی ولادت شعبان ٤ ھ میں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان کا نام حسین رکھا، ان کو شہد چٹایا، ان کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کر کے لعاب مبارک عطا فر مایا اور ان کا عقیقہ کرنے اور بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت فاطمہ نے ان کے عقیقہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔ (موطا امام مالک)*

*"▣_ اپنے بڑے بھائی حضرت حسنؓ کی طرح حضرت حسین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو چھ یا سات سال تھی ، حضرت عمر کے آخری زمانہ خلافت میں آپ نے جہاد میں شرکت شروع کی، حضرت عثمان کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو حضرت علیؓ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو ان کے گھر کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا تھا۔*

*"▣_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ نے جب حضرت معاویہ سے مصالحت کر کے خلافت سے دستبرداری کے ارادہ کا اظہار کیا تو حضرت حسینؓ نے بھائی کی رائے سے اختلاف کیا لیکن بڑے بھائی کے احترام میں ان کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا۔*

*"▣_ البتہ جب حضرت حسنؓ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ نے یزید کی خلافت کی بیعت لی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس کو کسی طرح برداشت نہ کر سکے اور یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد اپنے بہت سے مخلصین کی رائے و مشورہ کو نظر انداز کر کے جہاد کے ارادہ سے مدینہ طیبہ سے کوفہ کے لئے تشریف لے چلے، اور واقعہ کربلا کا پیش آیا اور آپ وہاں ۱۰ محرم ٦١ ھ کو شہید کر دیئے گئے۔اس وقت عمر شریف تقریبا ۵۵ سال تھی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ حضرات حسنین کے فضائل و مناقب-1 ※*

*▣__ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپ کے صحابی ہونے کا شرف کیا کم ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرات حسنین رضی اللہ عنہما سے بہت محبت بھی تھی ۔ شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں بھائی بچپن میں حالت نماز میں آپ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے، کبھی دونوں ٹانگوں میں سے گذرتے رہتے اور آپ ﷺ نماز میں بھی ان کا خیال رکھتے جب تک وہ کمر پر چڈھے رہتے آپ ﷺ سجدہ سے سر نہ اٹھاتے_,*

*"▣_ آپ ﷺ اکثر انہیں گود میں لیتے کبھی کندھے پر سوار کرتے ، ان کا بوسہ لیتے انہیں سونگھتے اور فرماتے- :انکم لمن ریحان اللہ" تم اللہ کی عطا کردہ خوشبو ہو۔ (جامع ترندی باب ماجاء فی رحمہ الولد )*

*"▣_ صحیح بخاری میں حضرت عدی بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے تھے اور یوں دعا کر رہے تھے- اللهم ابنی احبۂ فاحبہ، اے اللہ یہ مجھے محبوب ہے آپ بھی اسے اپنا محبوب بنا لیجئے ۔ (صحیح بخاری ج ۱ص۵۳۰ مناقب الحسن الحسین صحیح مسلم ج ۳ ص ۲۸۳ باب من فضائل الحسن والحسین)*

*"▣_ امام ترمذی نے حضرت اسامہ بن زید کی حدیث ذکر کی ہے کہ میں کسی ضرورت سے آب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ گھر کے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کولھوں پر (یعنی گود میں) کچھ رکھے ہوئے تھے اور چادر اوڑھے ہوئے تھے، میں جب اپنے کام سے فارغ ہو گیا تو عرض کیا یہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر ہٹا دی، میں نے دیکھا کہ ایک جانب حسن اور دوسری جانب حسین ہیں، اور فرمایا۔ هذان ابنای وابنا ابنتی اللهم اني احبهما فاحبهما واحب من يحبهما ۔ (ترمذی ج ۲ ص ۲۱۸ مناقب الحسن والحسین)*
*"_ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو ان سے محبت کرے اس کو بھی اپنا محبوب بنا لیجئے ۔*

*"▣_ ایک بار ایسا ہوا کہ آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، دونوں نواسے آگئے آپ نے خطبہ روک کر ان دونوں کو اٹھا لیا اور اپنے پاس بٹھایا پھر باقی خطبہ پورا کیا۔*

*"▣_۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسین دونوں بھائی بہت ہی عبادت گزار تھے ، دونوں نے بار بار مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک پیدل سفر کر کے حج کئے ہیں۔ اللہ کے راستہ میں کثرت سے مال خرچ کرتے تھے۔ جو دو سخاوت، ماں باپ اور نانا جان سے وراثت میں ملی تھی۔ رضی اللہ عنہما وارضا ہما۔ (معارف الحدیث)*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*▣_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے تمام اہل بیت میں حضرات حسنین سے بہت زیادہ محبت تھی۔ حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اہل بیت میں مجھ کو حسن اور حسین سب سے زیادہ محبوب ہیں، ( ترمذی )*

*"▣_ _آپ خدا سے بھی اپنے ان محبوبوں کے ساتھ محبت کرنے کی دعا فرماتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قینقاع کے بازار سے لوٹا تو آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا بچے کہاں ہیں؟ تھوڑی دیر میں دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے، آپ نے فرمایا- خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں اس لئے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کے محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ _,*
*®(مسلم کتاب الفصائل باب فضائل الحسن والحسین سے مستدرک حاکم)*

*"▣_ _ ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کاندھوں پر لے کر نکلے، ایک شخص نے دیکھ کر کہا میاں صاحبزادے کیا اچھی سواری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار بھی تو کتنا اچھا ہے_," ( ترمذی)*

*"▣_ _ نبوت کی حیثیت کو چھوڑ کر جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حیثیت کا تعلق ہے حسن و حسین کی ذات گویا ذات محمدی کا جزو تھی، حضرت یعلی بن مرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ جو شخص حسین کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے، حسین اسباط کے ایک سبط ہیں۔*

*"▣__ حسن و حسین کو آپ اپنے جنت کے گل خندان فرماتے تھے, ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حسن و حسین میرے جنت کے دو پھول ہیں_," ( بخاری)*

*"▣__ حسن و حسین نوجوانان جنت کے سردار ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی، عشاء کی نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلے میں بھی پیچھے ہو لیا، میری آواز سن کر آپ نے فرمایا کون؟ حذیفہ! میں نے عرض کیا ، جی' فرمایا خدا تمہاری اور تمہاری ماں کی مغفرت کرے تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ دیکھو ابھی یہ فرشتہ نازل ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ اس کو خدا نے اجازت دی ہے کہ وہ مجھے سلام کہے اور مجھے بشارت دے کہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی اور حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں_," ( ترمذی)* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*▣_ ان مشترک فضائل کے علاوہ حضرت حسنؓ کے کچھ امتیازی فضائل الگ ہیں جو انہیں حضرت حسین سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان فضائل میں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پیشینگوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا یہ بیٹا سید ہے خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ہے۔*

*"▣__ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کے وقت حضرت حسنؓ نے اس پیشین گوئی کی عملی تصدیق فرمائی، ایک موقع پر فرمایا کہ حسن کو میرا حلم عطا ہوا ہے۔“ (سیر الصحابہ)*

*"▣__حضرت حسین رضی اللہ عنہما نے اس جنگ میں بھی شرکت فرمائی تھی جس نے ۵۱ھ میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا، اس حملہ میں یزید بن معاویہ بھی تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ )*

*"▣__ حضرت حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) انتہائی متواضع تھے, ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار گزر رہے تھے، غربا کی ایک جماعت نظر آئی جو زمین پر بیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی، آپ نے ان کو سلام کیا، ان لوگوں نے کہا- فرزند رسول اللہ ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے! آپ گھوڑے سے اتر کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور کھانے میں شریک ہوئے، آپ نے اس موقع پر یہ آیت پڑھی: "إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ (سورة النحل) یعنی اللہ تعالی تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،*
*"_ فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: بھائیو! آپ نے مجھے دعوت دی میں نے قبول کیا، اب آپ سب میری دعوت قبول کیجئے, ان لوگوں نے بھی دعوت قبول کی اور آپ کے مکان پر آئے, جب سب آکر بیٹھے تو آپ نے فرمایا رباب لانا جو بھی بچا ہوا محفوظ رکھا ہے۔ (الجوهرة)* 

              ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾                     
                  *▣- شہادت کے فضائل -▣*
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
              *※ (1)_ شہادت کے فضائل ※*

*▣__آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ: بے شک سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب ہے، سب سے مضبوط کڑا تقویٰ ہے، سب سے بہتر ملت حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ملت ہے، سب سے بہتر طریقہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہے، سب سے اشرف کلام اللہ کا ذکر ہے، سب سے بہتر قصہ یہ قرآن ہے۔ تمام کاموں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کو عزیمت سے ادا کیا جائے اور بدترین کام وہ ہے جو نئے نئے ایجاد کئے جائیں، سب سے بہتر طور طریقہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا طور طریقہ ہے، سب سے اشرف موت شہداء کی شہادت اور ان کا قتل ہے“۔ (حیاۃ الصحابہ )*

*▣__ قرآن کریم نے حضرات شہداء کا تیسرا درجہ بیان فرمایا ہے، حیسا کہ ارشاد ہے:- "اور جس نے کہا مان لیا اللہ کا اور رسول اللہ کا تو یہ لوگ ہوں گے نبیوں کے ساتھا اور صدیقین کے ساتھ اور شہداء کے ساتھ اور اعلیٰ درجہ کے نیک لوگوں کے ساتھ اور بہت ہی عمدہ ہیں یہ سب حضرات رفیق ہونے کے اعتبار سے (ان سے زیادہ عمدہ رفیق کس کو میسر آسکتے ہیں؟)_, (سورۃ النساء)*

*▣__ قرآن کریم نے پہلا درجہ اللہ کے نبیوں کا بیان فرمایا دوسرا صد یقین کا تیسرا شہداء کا اور چوتھا صالحین یعنی اعلیٰ درجہ کے نیک لوگوں کا جن کو ہم اولیاء اللہ کہتے ہیں ۔*

*▣__ ہم جیسے گناہگار مسلمان جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں اور اطاعت کی کوشش کرتے رہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو خوشخبری دے رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا حشر نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ ” یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نصیب فرمادے۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے آمین )* 
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
         *※ (2)_ شہادت کی موت کا درجہ ※*

*▣_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی تھی اور شہداء آپ کے جوتوں کی خاک ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے سردار ہیں۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: "میرا جی چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید ہو جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید ہو جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید ہو جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں ( یہ سلسلہ چلتا ہی رہے) ۔“ (مشکوۃ شریف)*

*"▣_شہید زندہ ہیں:_قرآن کریم میں ارشاد ہے:۔ ” اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر ان کی زندگی کا تم شعور نہیں رکھتے (اس کی زندگی تمہارے حواس سے بالا تر چیز ہے)۔ (سورۃ بقرہ)*
*"_ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:۔-(آل عمران:۱۲۹) بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کے رب کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔“*

*"▣_ صحیح بخاری کے حوالہ سے مشکوٰۃ میں حدیث ہے کہ:- اللہ تعالیٰ کے عرش اعظم کے ساتھ قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں اور وہ شہداء کا مسکن ہیں وہ شہداء کے رہنے کی جگہ ہے اور سبز پرندوں کی شکل میں اللہ تعالیٰ ان کو سواریاں عطا فرماتے ہیں اور ان کی روحیں ان سبز پرندوں میں جنت کے اندر پرواز کرتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں کھاتی پیتی ہیں ۔ (مشکوۃ)*
*"▣_ یہ قیامت سے پہلے کا قصہ ہے, قیامت کے دن ان کے ساتھ جو معاملہ ہوگا وہ تو سبحان اللہ ! کیا بات ہے!* 

            ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾
                        *▣- شہید کربلا -▣*
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
              *※ (1) _واقعہ شہید کربلا ※*

*▣__ سیدنا وسید شباب اہل الجنہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا واقعہ شہادت نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی اس کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔*

*"▣_ اس میں ایک طرف ظلم و جور اور سنگدلی و بے حیائی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات ہیں کہ انسان کو ان کا تصور بھی دشوار ہے۔ اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کے چشم و چراغ اور ان کے ستر بہتر متعلقین کی چھوٹی سی جماعت کا باطل سے مقابلہ اور اس پر ثابت قدمی اور قربانی و جانثاری کے ایسے محیر العقول واقعات ہیں۔ جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ اور ان دونوں میں آنے والی نسلوں کے لئے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
    *※ (2)_خلافت اسلامیہ پر ایک حادثہ عظیمہ ※*
*▣_حضرت ذی النورین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنوں کا ایک غیر منقطع سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں منافقین کی سازشیں، بھولے بھالے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے واقعات پیش آتے ہیں، مسلمانوں کی آپس میں تلوار چلتی ہے۔ مسلمان بھی وہ جو خیر الخلائق بعد الانبیاء کہلانے کے مستحق ہیں۔*

*"▣_ خلافت کا سلسلہ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر پہنچتا ہے تو خلافت راشدہ کا رنگ نہیں رہتا ملوکیت کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ زمانہ سخت فتنہ کا ہے آپ اپنے بعد کے لئے کوئی ایسا انتظام کریں کہ مسلمانوں میں پھر تلوار نہ نکلے اور خلافت اسلامیہ پارہ پارہ ہونے سے بچ جائے۔*
*"_ باقتضاء حالات یہاں تک کوئی نا معقول یا غیر شرعی بات بھی نہ تھی۔*

*"▣_ لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے بیٹے یزید کا نام مابعد کی خلافت کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ کوفہ سے چالیس مسلمان خوشامد پسند لوگ آتے ہیں یا بھیجے جاتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی درخواست کریں کہ آپ کے بعد آپ کے بیٹے یزید سے کوئی قابل اور ملکی سیاست کا ماہر نظر نہیں آتا۔ اس کے لئے بیعت خلافت لی جائے۔*

*"▣_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو شروع میں کچھ تامل بھی ہوتا ہے۔ اپنے مخصوصین سے مشورہ کرتے ہیں۔ ان میں اختلاف ہوتا ہے، کوئی موافقت میں رائے دیتا ہے کوئی مخالفت میں ۔ یزید کا فسق و فجور بھی اس وقت کھلا نہیں تھا۔ بالاخر بیعت یزید کا قصد کیا جاتا ہے اور اسلام پر یہ پہلا حادثہ عظیم ہے کہ خلافت نبوت ملوکیت میں منتقل ہوتی ہے۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (3)_ اسلام پر بیعت اور یزید کا واقعہ ※*
*▣_ شام و عراق میی معلوم نہیں کس طرح خوشامد پسند لوگوں نے یزید کے لئے بیعت کا چرچا کیا۔ اور یہ شہرت دی گئی کہ شام و عراق، کوفہ و بصرہ یزید کی بیعت پر متفق ہو گئے۔ اب حجاز کی طرف رخ کیا گیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیر مکہ ومدینہ کو اس کام کے لئے مامور کیا گیا ،*

*"▣_ مدینہ کا عامل مروان تھا۔ اس نے خطبہ دیا اور لوگوں سے کہا کہ امیر المومنین معاویہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت کے مطابق یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بعد کے لئے یزید کی خلافت پر بیعت لی جائے۔*

*"▣_ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ غلط ہے، یہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت نہیں بلکہ کسریٰ اور قیصر کی سنت ہے۔ ابو بکر نے و عمر رضی اللہ عنہم نے خلافت اپنی اولاد میں منتقل نہیں کی۔ اور نہ اپنے کنبہ و رشتہ میں_,"*
 
*"▣_حجاز کے عام مسلمانوں کی نظریں اہل بیت اطہار پر لگی ہوئی تھیں۔ خصوصاً حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ پر جن کو وہ بجا طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد مستحق خلافت سمجھتے تھے۔ وہ اس میں حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر ، عبد اللہ بن زبیر، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی رائے کے منتظر تھے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔*

*"▣_ ان حضرات کے سامنے اول تو کتاب وسنت کا یہ اصول تھا کہ خلافت اسلامیہ خلافت نبوت ہے۔ اس میں وراثت کا کچھ کام نہیں کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو۔ بلکہ ضروری ہے کہ آزادانہ انتخاب سے خلیفہ کا تقرر کیا جائے۔*

*"▣_ دوسرے یزید کے ذاتی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ کہ اس کو تمام ممالک اسلامیہ کا خلیفہ مان لیا جائے۔ ان حضرات نے اس سازش کی مخالفت کی اور ان میں سے اکثر آخر دم تک مخالفت پر ہی رہے۔ اسی حق گوئی اور حمایت حق کے نتیجہ میں مکہ و مدینہ میں اور کوفہ و کربلا میں قتل عام کے واقعات پیش آئے۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (4)_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں ※*
*▣_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خود ا۵ ھ میں حجاز کا سفر کیا، مدینہ طیبہ تشریف لائے، ان سب حضرات سے نرم و گرم گفتگو ہوئی، سب نے کھلے طور پر مخالفت کی۔*

*※ (5)_ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت اور ان کی نصیحت ※*

*"▣_امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ شکایت کی کہ یہ حضرات میری مخالفت کرتے ہیں۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے ان کو نصیحت کی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ان پر جبر کرتے ہیں اور قتل کی دھمکی دیتے ہیں۔ آپ کو ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے۔*

*"▣_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ غلط ہے، وہ حضرات میرے نزدیک واجب الاحترام ہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ شام و عراق اور عام اسلامی شہروں کے باشندے یزید کی بیعت پر متفق ہو چکے ہیں۔ بیعت خلافت مکمل ہو چکی ہے۔ اب یہ چند حضرات مخالفت کر رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتلائیے کہ مسلمانوں کا کلمہ ایک شخص پر متفق ہو چکا ہے اور ایک بیعت مکمل ہو چکی ہے، کیا میں اس بیعت کو مکمل ہونے کے بعد توڑ دوں؟*

*"▣_ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا- یہ تو آپ کی رائے ہے آپ جانیں۔ لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ ان حضرات پر تشدد نہ کیجئے، احترام و رفق کے ساتھ ان سے گفتگو کیجئے۔ حضرت معاویہ نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ایسے ہی کروں گا۔*
*®_ (ابن کثیر )*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قیام مدینہ کے زمانے میں یہ محسوس کرتے تھے کہ ہمیں مجبور کیا جائے گا، اس لئے مع اہل و عیال مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ عبداللہ بن عمر اور عبد الرحمٰن ابن ابی بکر رضی اللہ عنہم حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※(6)_ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا خطبہ ※*
*▣_حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ:- آپ سے پہلے بھی خلفاء تھے اور ان کے بھی اولاد تھی۔ آپ کا بیٹا کچھ ان کے بیٹوں سے بہتر نہیں ہے۔ مگر انہوں نے اپنے بیٹوں کے لئے وہ رائے قائم نہیں کی۔ جو آپ اپنے بیٹے کے لئے کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھا۔ آپ مجھے تفریق ملت سے ڈراتے ہیں۔ سو آپ یاد رکھیں کہ میں فرقہ بین المسلمین کا سبب ہرگز نہیں بنوں گا۔ مسلمانوں کا ایک فرد ہوں اگر سب مسلمان کسی راہ پر پڑ گئے تو میں بھی ان میں شامل رہوں گا_,"*

*"▣_ اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے اس معاملہ میں گفتگو فرمائی۔ انہوں نے شدت سے انکار کیا کہ میں بھی اس کو قبول نہیں کروں گا ۔ پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر خطاب کیا، انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔*
*®( تاريخ الخلفاء)* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※(7)_ اجتماعی طور پر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صیح مشورہ ※*
*▣__اس کے بعد حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ خود جا کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے کہا کہ آپ کے لئے یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے کہ آپ اپنے بیٹے یزید کے لئے بیعت پر اصرار کریں۔ ہم آپ کے سامنے تین صورتیں رکھتے ہیں جو آپ کے پیشروؤں کی سنت ہے۔*

*"▣__ (ا)- آپ وہ کام کریں جو رسول اللہ ﷺ نے کیا کہ اپنے بعد کسی کو متعین نہیں فرمایا بلکہ مسلمانوں کی رائے عامہ پر چھوڑ دیا۔*
*"▣__( ۲)- یا وہ کام کریں جو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ ایک ایسے شخص کا نام پیش کیا جو نہ ان کے خاندان کا ہے نہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہے اور اس کی اہلیت پر بھی سب مسلمان متفق ہیں۔*
*"▣__( ۳)- یا وه صورت اختیار کریں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی کہ اپنے بعد کا معاملہ چھ آدمیوں پر دائر کر دیا۔ اس کے سوا ہم کوئی چوتھی صورت نہیں سمجھتے نہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔*

*"▣__ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس پر اصرار رہا کہ اب تو یزید کے ہاتھ پر بیعت مکمل ہو چکی ہے اس کی مخالفت آپ لوگوں کو جائز نہیں ہے۔* 
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※(8)_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات اور یزید کو نصیحتیں ※*

*▣__ وفات سے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو کچھ وصیتیں فرما ئیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ اہل عراق حسین رضی اللہ عنہ کو تمہارے خلاف آمادہ کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو اور مقابلہ میں تم کامیاب ہو جاؤ تو ان سے درگزر کرنا اور ان کی قرابت رسول اللہ ﷺ کا پورا احترام کرنا۔ ان کا سب مسلمانوں پر بڑا حق ہے۔*

*"▣_(9)_ یزید کا خط ولید کے نام:-*
*"▣_ یزید نے تخت خلافت پر آتے ہی والی مدینہ ولید بن عقبہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت پر مجبور‌ کرے۔ اور ان کو اس معاملہ میں مہلت نہ دے۔*

*"▣_ ولید نے مروان بن حکم کے مشورے سے اسی وقت ان حضرات کو بلوا بھیجا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنی ذکاوت سے پوری بات سمجھ گئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں انتقال کی خبر مشہور ہونے سے پہلے وہ ہمیں یزید کی بیعت پر مجبور کریں۔*

 *"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ولید کے پاس پہنچے تو اس نے نے یزید کا خط سامنے رکھ دیا جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر اور اپنی بیعت کا تقاضا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار افسوس کیا اور بیعت کے متعلق یہ فرمایا کہ میرے جیسے آدمی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ خلوت میں پوشیدہ طور پر بیعت کرلوں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ سب کو جمع کریں اور بیعت خلافت کا معاملہ سب کے سامنے رکھیں_,"*

*"▣_ ولید نے اس بات کو قبول کر کے حضرت حسین کو واپسی کی اجازت دے دی۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※(10)_ حضرت حسین و حضرت زبیر رضی اللہ عنہما مکہ چلے گئے ※*

*⚀•_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی جعفر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیکر راتوں رات مدینہ سے نکل گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی یہی صورت اختیار کی کہ اپنی اولاد اور متعلقین کو لیکر مدینہ سے نکل گئے۔ اور دونوں مکہ مکرمہ پہنچ کر پناہ گزین ہو گئے۔*

*"⚀•_ یزید کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ولید بن عقبہ کی ستی پر محمول کر کے ان کو معزول کر دیا۔ ان کی جگہ عمرو بن سعد کو امیر مدینہ بنایا اور ان کی پولیس کا افسر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی عمرو بن زبیر کو بنایا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ان دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہے۔*

*"⚀•_ عمرو بن زبیر دو ہزار کا لشکر لیکر روانہ ہو گیا۔ اور مکہ سے باہر قیام کر کے اپنے بھائی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجے کہ مجھے یزید کا حکم ہے کہ تمہیں گرفتار کروں۔ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ مکہ مکرمہ کے اندر قتال ہو۔ اس لئے تم خود کو میرے حوالے کر دو۔*

*"⚀•_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے چند نو جوانوں کو اس کے مقابلہ کے لئے بھیج دیا۔ جنہوں نے اس کو شکست دی اور عمرو بن زبیر نے ابن علقمہ کے گھر میں پناہ لی۔*. 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
               *※(11)_ اہل کوفہ کے خطوط ※*

*▣_ ادھر جب اہل کوفہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر ملی اور یہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا تو کچھ شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر تیار نہیں۔ آپ فوراً کوفہ آ جائیے۔ ہم سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔*

*"▣_ اس کے دو روز بعد اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور دوسرے خطوط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے۔ جسمیں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا۔ اور چند وفود بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ وفود اور خطوط سے متاثر ہوئے۔ مگر حکمت و دانشمندی سے یہ کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا‌ تاکہ حالات کا اندازہ ہوا۔*

*▣"_مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر مختار کے گھر پر مقیم ہوئے۔ چند روز کے قیام سے یہ اندازہ لگا لیا کہ یہاں کے عام مسلمان حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بے چین ہیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت خلافت شروع کر دی۔ چند روز میں صرف کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں نے حضرت حسین کے لئے بیعت کر لی۔ اور یہ سلسلہ روز روز بڑھتا جار ہا تھا،*

*▣"_ جس وقت مسلم بن عقیل کو یہ اطمینان ہو گیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لائیں تو بے شک پورا عراق ان کی بیعت میں آجائے گا۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔ (کامل ابن اثیر)*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
             *※ (12)_ حالات میں انقلاب ※*

*▣_ مگر یہ خط لکھے جانے کے بعد کوفہ سے ایک خط یزید کو بھیج دیا جس میں مسلم بن عقیل کے آنے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت لینے کا واقعہ ذکر کر کیا گیا،*

 *“▣۔ یزید نے ایک فرمان نکال کر کوفہ کا امیر عبید اللہ بن زیاد کو مقرر کیا اور خط لکھا کہ مسلم بن عقیل کو گرفتار کرے اور قتل کر دے۔ یا کوفہ سے نکال دے۔*

 *"※ (13)_حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خط اہل بصرہ کے نام ※*

*"▣_ ادھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ایک خط اہل بصرہ کے نام پہنچا۔ جس کا مضمون یہ تھا: ”آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرو۔ اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لیے کوشش کرو ۔ ( کامل ابن اثیر ص ۹ ج ۴)*

*"▣_ لیکن جو شخص خط لے کر آیا تھا۔ اس کو بھی ابن زیاد کے سامنے پیش کر دیا گیا ،ابن زیاد نے اس قاصد کو قتل کر ڈالا۔ اور اس کے بعد تمام اہل بصرہ کو جمع کر کے کہا کہ : ” جو شخص میری مخالفت کرے میں اس کے لیے عذاب الیم ہوں۔ اور جو موافقت کرے اس کے لیے راحت ہوں۔*

*"▣_اس کے بعد یزید کا حکم پا کر کوفہ کے لیے روانہ ہو گیا,*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
              *※ (14)_ابن زیاد کوفہ میں ※*

*▣__کوفہ کے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آمد کے منتظر تھے۔ اور ان میں سے بہت سے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پے کو پہچانتے بھی نہ تھے۔ جب ابن زیاد کوفہ پہنچا تو ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ جس مجلس سے گزرتا مرحبا یا ابن رسول الله کہہ کر اس کا استقبال کرتے تھے،*

*"▣_ابن زیاد خاموشی کے ساتھ یہ سب مظاہرے اور والی کوفہ کا معاملہ دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں کڑ رہا تھا کہ کوفہ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا پورا تسلط ہو چکا ہے، اگلے روز صبح ہی ابن زیاد نے اہل کوفہ کو جمع کر کے ایک تقریر کی، جس میں کہا کہ امیر المؤمنین نے مجھے تمہارے شہر کا حاکم بنایا ہے،*.

 *"▣)_(15)_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے تاثرات:-*

*"▣_ مسلم بن عقیل جو مختار نے جب ابن زیاد کے آنے کی خبر سنی تو انہیں خطرہ ہوا اور مختار بن ابی عبید کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے مکان پر پناہ لی۔*

*"▣_اتفاقا ہانی بن عروہ جن کے گھر میں مسلم بن عقیل روپوش تھے بیمار ہو گئے۔ ابن زیادان کی بیماری کی خبر پا کر عیادت کے لیے ان کے گھر پہنچا۔ اس وقت عمارہ بن عبد سلولی نے ان سے کہا کہ یہ موقع غنیمت ہے کہ اس وقت دشمن ( ابن زیاد) تمہارے قابو میں ہے قتل کرا دو۔ ہانی بن عروہ نے کہا کہ شرافت کے خلاف ہے کہ میں اس کو اپنے گھر میں قتل کر دوں۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (16)_ اہل حق اور اہل باطل میں فرق ※*

*▣_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ سے بھی کہا گیا کہ فاجر کو قتل کر دیں۔ پھر آپ مطمئن ہو کر قصر امارت پر بیٹھیں، مگر انہوں نے یہ مناسب نہیں سمجھا ،*

*"▣_ یہاں یہ بات قابل ملاحظہ ہے کہ مسلم بن عقیل ﷺ کو اپنی موت سامنے نظر آ رہی ہے اور نہ صرف اپنی موت بلکہ اپنے پورے خاندان اہل بیت کی موت اور اس کے ساتھ ایک صحیح اسلامی مقصد کی ناکامی دیکھ رہے ہیں۔*

*"▣_ اور جس شخص کے ہاتھوں یہ سب کچھ ہونے والا ہے وہ اسی طرح ان کے سامنے ہے کہ بیٹھے بیٹھے اس کو ختم کر سکتے ہیں مگر اہل حق اور خصوصاً اہل بیت اطہار کا جو ہر شرافت اور تقاضائے اتباع سنت دیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس وقت بھی ان کا ہاتھ نہیں اٹھتا۔*

*"▣_ یہی اہل حق کی علامت ہے کہ وہ اپنی ہر حرکت و سکون اور ہر قدم پر سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک ہمارا یہ قدم صحیح ہے یا نہیں۔*

*▣"_(17)۔ ہانی بن عروہ پر تشدد مار پیٹ:-*

*▣"_جب ابنِ زیاد کو ہانی کے بارے میں پتہ چلا کہ مسلم بن عقیل کو پناہ دی ہے تو ان کو بلوا کر مسلم بن عقیل کو حوالے کروانے کو کہا ورنہ تمہیں بھی قتل کر دیں گے اور ان کے ساتھ شدید مارپیٹ کی گئی ،*

*"▣_ادھر شہر میں مشہور ہو گیا کہ ہانی بن عروہ قتل کر دیئے گئے ہیں۔ جب یہ خبر عمرو بن حجاج کو پہنچی تو وہ قبیلہ مذ جج کے بہت سے جوانوں کو لے کر موقع پر پہنچے اور ابن زیاد کے مکان کا محاصرہ کر لیا، ابن زیاد نے قاضی شریح کو کہا کہ آپ باہر جا کر لوگوں کو بتلائیں کہ ہانی بن عروہ صحیح سالم ہیں۔ قتل نہیں کئے گئے میں خود ان کو دیکھ کر آیا ہوں، ان کی بات سن کر عمر و بن حجاج نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب اطمینان ہے تم واپس چلے جاؤ۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (18)_مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی بے بسی ※*

*▣_ ہانی بن عروہ کے متعلق شہادت کی خبر اور اس کے خلاف قبیلہ مذحج کے ہنگامہ اور ابن زیاد کے قصر کے محاصرہ کی اطلاع جب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو ملی تو وہ بھی مقابلہ کے لیے تیار ہو کر نکلے اور جن اٹھارہ ہزار مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ان کو جمع کیا چار ہزار آدمی جمع ہو گئے۔ اور اس لشکر نے ابن زیاد کے قصر کا محاصرہ کر لیا,*

*"▣_ ابن زیاد کے ساتھ قصر امارت میں صرف تیس سپاہی اور کچھ خاندان کے سادات تھے۔ ابن زیاد نے ان میں چند ایسے لوگوں کو منتخب کیا جن کا اثر و رسوخ ان قبائل پر تھا جو مسلم بن عقیل کے ساتھ محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ اور ان کو کہا کہ تم باہر جا کر اپنے اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کو مسلم بن عقیل کا ساتھ دینے سے روکو۔ مال و حکومت کا لالچ دے کر یا حکومت کی سزا کا خوف دلا کر ۔ جس طرح بھی ممکن ہو ان کو مسلم سے جدا کر دو۔*

*"▣_ ادھر سادات اور شیعہ کو حکم دیا کہ تم لوگ قصر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو اس بغاوت سے روکو۔ جب لوگوں نے اپنے سادات شیعہ کی زبانی باتیں سنیں تو متفرق ہونا شروع ہو گئے۔ عورتیں اپنے بیٹوں بھائیوں کو محاذ سے واپس بلانے کے لیے آنے لگیں۔ یہاں تک کہ مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس لوگ رہ گئے۔ اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک آدمی بھی نہ رہا تھا۔ تو انہیں ایک عورت نے اپنے گھر میں پناہ دی،*

*"▣_اس وقت ابن زیاد اپنے قصر سے اتر کر مسجد میں آیا اور اپنی پولیس کے افسر کو حکم دیا کہ شہر کے تمام گلی کوچوں کے دروازں پر پہرہ لگا دو۔ کوئی باہر نہ جاسکے۔ اور سب گھروں کی تلاشی لو۔“*

*"▣_ ادھر جب اس عورت کے لڑکوں کو تلاشی کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے خود مسلم بن عقیل کی خبر دے دی اور ستر سپاہیوں نے انہیں گھیر لیا ، انہوں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا ، اس مقابلہ میں زخمی ہو گئے مگر ان کے قابو میں نہ آئے۔ یہ لوگ چھت پر چڑھ گئے۔ اور پتھر برسانے شروع کیے۔ اور گھر میں آگ لگا دی۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
        *※ (19)_ مسلم بن عقیل کی گرفتاری ※*

*▣__ محمد بن اشعث نے پکار کر کہا کہ میں آپ کو امان دیتا ہوں ، اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالو، مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ تن تنہا ستر سپاہیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے زخموں سے چور چور ہو کر تھک چکے تھے۔ ایک دیوار سے کمر لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔*

*"▣_ فرمایا:- میں اپنی جان کے لیے نہیں روتا ہوں بلکہ میں حسین اور آل حسین کی جانوں کے لئے رو رہا ہوں۔ جو میری تحریر پر عنقریب کوفہ پہنچنے والے ہیں۔ تم کم از کم تم میری ایک بات مان لو۔ وہ یہ کہ ایک آدمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس فوراً روانہ کر دو ۔ کہ جو ان کو میری حالت کی اطلاع کر کے یہ کہہ دے کہ آپ راستے ہی سے اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیں، کوفہ والوں کے خطوط سے دھوکہ نہ کھائیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی بے وفائی سے گھبرا کر آپ کے والد اپنی موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔“*

*"▣_ محمد بن اشعث نے حلف کے ساتھ وعدہ کیا اور وعدہ کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کے لیے ایک آدمی کو خط دے کر ان کی طرف بھیج دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس وقت تک مقام زیالہ تک پہنچ چکے تھے۔ محمد بن اشعث کے قاصد نے یہاں پہنچ کر خط دیا۔ خط پڑھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-*
*"▣_ جو چیز ہو چکی ہے وہ ہو کر رہے گی، ہم صرف اللہ تعالی سے اپنی جانوں کا ثواب چاہتے ہیں اور امت کے فساد کی فریاد کرتے ہیں _,"*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (21)_مسلم بن عقیل اور ابن زیاد کا مکالمہ※* 

*▣_ ابن زیاد نے کہا کہ:- اے مسلم تو نے بڑا ظلم کیا کہ مسلمانوں کا نظم مستحکم اور ایک کلمہ تھا۔ سب ایک امام کے تابع تھے۔ تم نے آکر ان میں تفرقہ ڈالا۔ اور لوگوں کو اپنے امیر کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔*

*"▣_ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ معاملہ یہ نہیں بلکہ اس شہر کوفہ کے لوگوں نے خطوط لکھے۔ کہ تمہارے باپ نے ان کے نیک اور شریف لوگوں کو قتل کر دیا۔ ان کے خون ناحق بہائے اور یہاں کے عوام پر کسریٰ و قیصر جیسی حکومت کرنی چاہی۔ اس لئے ہم اس پر مجبور ہوئے کہ عدل قائم کرنے اور کتاب وسنت کے احکام نافذ کرنے کی طرف لوگوں کو بلائیں اور سمجھائیں۔*
*"▣_ اس پر ابن زیاد اور زیادہ برافروختہ ہوا کہ ان کو قصر امارت کی اوپر کی منزل پر لے جاؤ اور سرکاٹ کر نیچے پھینک دو۔ اور ابن زیاد کے حکم کے موافق ان کو شہید کر کے نیچے ڈال دیا گیا۔ ( إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ )*

*"▣_حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے بعد ہانی بن عروہ کو بازار میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے ان دونوں کے سرکاٹ کر یزید کے پاس بھیج دیئے۔*

*"▣_ یزید نے شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ عراق کے قریب پہنچ گئے ہیں اس لئے جاسوس اور خفیہ رپورٹر سارے شہر میں پھیلا دو۔ اور جس پر ذرا بھی حسین رضی اللہ عنہ کی تائید کا شبہ ہو اس کو قید کر لو ۔ مگر سوا اس شخص کے جو تم سے مقابلہ کرے کسی کو قتل نہ کرو۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
       *※ (22)_حضرت حسین کا عزم کوفہ ※*

*▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہل کوفہ کے ڈیڑھ سو خطوط اور بہت سے وفود پہلے پہنچ چکے تھے۔ پھر مسلم بن عقیل نے یہاں کے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی بیعت کی خبر کے ساتھ ان کو کوفہ کے لئے دعوت دے دی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا عزم کر لیا۔*

*"▣__ لیکن جب یہ خبر لوگوں میں مشہور ہوئی تو بجز عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اور کسی نے ان کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا۔ بلکہ بہت سے حضرات حضرت حسین رضی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیں۔ اہل عراق و کوفہ کے وعدوں، بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں وہاں جانے میں آپ کے لئے بڑا خطرہ ہے-*

*▣__(23)_ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مشورہ:-*

*"▣__ابن عباس رضی اللہ عنہما کو جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو تشریف‌لائے اور فرمایا کہ- بھائی میں اس سے آپ کو خدا کی پناہ میں دیتا ہوں خدا کے لئے آپ مجھے یہ بتلائیں کہ آپ کسی ایسی قوم کے لئے جارہے ہیں جنہوں نے اپنے اوپر مسلط ہونے والے امیر کو قتل کر دیا ہے۔ اور وہ لوگ اپنے شہر پر قابض ہو چکے ہیں۔ اور اپنے دشمن کو نکال چکے ہیں تو بیشک آپ کو ان کے بلانے پر فوراً چلے جانا چاہئے۔*

*"▣__ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا اچھا میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتا ہوں پھر جو کچھ سمجھ میں آئے گا عمل کروں گا۔*

*"▣__ دوسرے روز ابن عباس رضی اللہ عنہما پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے بھائی میں صبر کرنا چاہتا ہوں مگر صبر نہیں آتا۔ مجھے آپ کے اس اقدام سے آپ کی اور اہل بیت کی ہلاکت کا شدید خطرہ ہے۔ اہل عراق عہد شکن بے وفا لوگ ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ جائیے۔ آپ اس شہر مکہ میں اقامت کریں۔ آپ اہل حجاز کے مسلم رہنما اور سردار ہیں۔ اور اگر اہل عراق آپ سے مزید تقاضا کریں تو آپ ان کو لکھیں کہ پہلے امیر و حکام کو اپنے شہر سے نکال دو پھر مجھے بلاؤ، تو میں آجاؤں گا۔*

*"▣__ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھائی اگر آپ جانا طے ہی کر چکے ہیں تو خدا کے لئے اپنی عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیے۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ اسی طرح اپنی عورتوں اور بچوں کے سامنے قتل کئے جائیں۔ جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کئے گئے ہیں۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (24)_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ کیلئے روانگی ※*

*▣_حضرت حسین ﷺ اپنے نزدیک ایک دینی ضرورت سمجھ کر خدا کے لئے عزم کر چکے تھے۔ مشورہ دینے والوں نے ان کو خطرات سے آگاہ کیا۔ مگر مقصد کی اہمیت نے ان کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مجبور کر دیا۔ اور ذی الحجہ ٦٠ ھ کی تیسری یا آٹھویں تاریخ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس وقت یزید کی طرف سے مکہ کا حاکم عمرو بن سعید بن العاص مقرر تھا ،*
 
*"▣_اس کو ان کی روانگی کی خبر ملی تو چند آدمی راستہ پر ان کو روکنے کے لئے بھیجے لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی سے انکار فرمایا اور آگے بڑھ گئے۔*

*"▣_(25)_ فرزوق شاعر سے ملاقات:-*

*"▣_ راستہ میں فرزوق شاعر عراق کی طرف سے آتا ہوا ملا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر پوچھا کہ کہاں کا قصد ہے؟ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بات کاٹ کر ان سے پوچھا کہ یہ تو بتلاؤ اہل عراق و کوفہ کو تم نے کس حال میں چھوڑا ہے؟*
*"▣_ فرزوق نے کہا کہ : اہل عراق کے قلوب تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔ اور تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے,"*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو، اللہ ہی کے ہاتھ میں تمام کام ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور ہمارا رب ہر روز نئی شان میں ہے۔ اور اگر تقدیر الہٰی ہماری مراد کے موافق ہوئی تو ہم اللہ کا شکر کریں گے۔ اور ہم شکر کرنے میں بھی انہی کی اعانت طلب کرتے ہیں اور اگر تقدیر الہی ہماری مراد میں حائل ہو گئی۔ تو وہ شخص خطاء پر نہیں جس کی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خوف خدا ہو "* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (26)_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خواب اور عزم کی وجہ ※*

*▣__عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کی خبر پائی تو ایک خط لکھ کر اپنے بیٹوں کے ہاتھ روانہ کیا تیزی سے پہنچیں اور راستہ میں حضرت حسین کو روک دیں۔*

*"▣__ یہ خط لکھ کر عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ یزید کی طرف سے والی مکہ عمر بن سعد کے پاس تشریف لے گئے۔ اور اس سے وعدہ تحریر لکھوایا کہ اگر وہ واپس آجائیں تو ان کے ساتھ مکہ میں اچھا سلوک کیا جائے گا۔*

*"▣__ جب یہ خط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو اس وقت آپ اپنے اس عزم کی ایک اور وجہ بیان کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے اور مجھے آپ ﷺ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے میں اس حکم کی بجا آوری کی طرف جارہا ہوں ۔ خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے،*

*"▣__انہوں نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے۔ فرمایا کہ آج تک میں نے وہ خواب کسی سے بیان کیا ہے نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ میں اپنے پروردگار سے جاملوں ۔*
*®( کامل ابن اثیر ص١ ج ۴)* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (27)_ کوفہ والوں کے نام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خط ※*

*▣_حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام حاجر پر پہنچے تو اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھ کر حضرت قیس کے ہاتھ روانہ کیا، خط میں اپنے آنے کی اطلاع اور جس کام کے لئے ان کو اہل کوفہ نے بلایا تھا اس میں پوری کوشش کرنے کی ہدایت تھی۔*

*"▣_ حضرت قیس جب یہ خط لیکر قادسیہ تک پہنچے تو یہاں ان کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا گیا ،ابن زیاد نے ان کو حکم دیا کہ قصر امارت کی چھت سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر سب و شتم اور لعن و طعن کرے، مگر حضرت قیس نے بلند آواز سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے آنے کا مقصد بیان کر دیا ،*

*"▣_ اس سے ناراض ہو کر ابن زیاد نے ان کو قصر کی بلندی سے پھینک دینے کا حکم دیا اور حضرت قیس شہید ہو گئے ،* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (28)_ مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر یا کر حضرت حسین کے ساتھیوں کا مشورہ ※*

*▣__ راستے میں ایک پڑاؤ پر اچانک عبداللہ ابن مطیع سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی کہا کہ: ”اے ابن رسول اللہ ! میں تمہیں اللہ کا اور عزت اسلام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں۔ کہ آپ اس ارادہ سے رک جائیں۔*
*"_ اگر آپ بنی امیہ سے ان کے اقتدار کو لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر دیں گے۔ آپ ایسا ہر گز نہ کریں۔ اور کوفہ نہ جائیں اپنی جان کو بنی امیہ کے حوالے نہ کریں“۔ (ابن اثیر)*
*"_ مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا ارادہ ملتوی نہ کیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔*

*"▣_ مقام ثعلبیہ میں پہنچ کر آپ کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر ملی جو عبداللہ بن عاص کے بھیجے ہوئے قاصد نے دی، یہ خبر سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں نے بھی ان سے با اصرار عرض کیا کہ خدا کے لئے اب آپ یہیں سے لوٹ جائیں۔ مگر یہ بات سن کر بنو عقیل جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم مسلم بن عقیل کا قصاص لیں گے۔ یا انہیں کی طرح اپنی جان دے دیں گے۔*

*"▣_ اور ساتھیوں میں سے بعض نے یہ بھی کہا کہ آپ مسلم بن عقیل نے نہیں ہیں آپ کی شان کچھ اور ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جب اہل کوفہ آپ کو دیکھیں گے تو آپ کے ساتھ ہو جائیں گے۔*

*"▣_ یہاں تک کہ پھر آگے بڑھنا طے کر کے سفر کیا گیا اور مقام زیالہ پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔*
*"▣_مقام زیالہ پر پہنچ کر یہ خبر ملی کہ آپ کے رضاعی بھائی عبداللہ ابن لقیط جن کو راستہ سے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا تھا وہ بھی قتل کر دیئے گئے۔ یہ خبریں پانے کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے۔ اب جس کا جی چاہے واپس ہو جائے۔ میں کسی کی ذمہ داری اپنے سر لینا نہیں چاہتا۔*

*"▣_ اس اعلان کیساتھ راستہ سے ساتھ ہو نیوالے بدوی لوگ سب داہنے بائیں چل دیئے۔ اور اب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو مکہ سے ان کے ساتھ آئے تھے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※(29)_ ابن زیاد کی طرف سے حر بن یزید ایک ہزار کا لشکر لے کر پہنچ گئا ※*

*▣_ راستہ میں دو پہر کے وقت دور سے گھوڑے سوار فوج آتی ہوئی نظر آتی ہے ، یہ دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک پہاڑی کے نزدیک پہنچ کر محاذ جنگ بنانے میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھوڑے سوار فوج حربن یزید کی قیادت میں مقابلہ پر آگئی۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ سب لوگ خوب پانی پی کر اور گھوڑوں کو پلا کر سیراب ہو جاؤ۔*

*"▣_ یہاں ظہر کی نماز کا وقت آ گیا۔ اور سب نماز کے لیے جمع ہو گئے ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فریق مقابل کو سنانے کے لئے ایک تقریر فرمائی۔*
*"▣_تقریر سن کر سب خاموش رہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دیا اور حربن یزید سے خطاب کر کے فرمایا تم اپنے لشکر کے ساتھ علیحدہ نماز پڑھو گے یا ہمارے ساتھ ۔۔ اس نے کہا کہ نہیں آپ ہی نماز پڑھا ئیں۔ ہم سب آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ حضرت حسیں رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر پڑھائی اور پھر اپنی جگہ تشریف لے گئے۔*.

*"▣_ پھر نماز عصر کا وقت آیا تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور سب شریک جماعت ہوئے۔ عصر کے بعد آپ نے ایک خطبہ دیا۔ جس میں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ،*

*"▣_حر بن یزید نے کہا کہ ہمیں ان خطوط اور وفود کی کچھ خبر نہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دو تھیلے خطوط سے بھرے ہوئے نکالے اور ان کو ان لوگوں کے سامنے انڈیل دیا۔ حر نے کہا کہ بہر حال ہم ان خطوط کے لکھنے والے نہیں ہیں اور ہمیں امیر کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ ہم آپ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں جب تک ابن زیاد کے پاس کوفہ نہ پہنچا دیں۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس سے تو موت بہتر ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
         *※_(30)_ حر بن یزید کا اعتراف ※*

*"▣_ حر بن یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے آپ کے قتال کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں جب تک آپ کو کوفہ نہ پہنچا دوں۔*

*"▣_ اس لئے آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جو نہ کوفہ پہنچائے اور نہ مدینہ یہاں تک کہ میں ابن زیاد کو خط لکھوں اور آپ بھی یزید کو یا ابن زیاد کو لکھیں۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے لئے کوئی ایسا مخلص پیدا کر دے کہ میں آپ کے مقابلہ اور آپ کے ایذا سے بچ جاؤں۔*

*"▣_ اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عذیب اور قادسیہ کے راستے سے بائیں جانب چلنا شروع کر دیا اور حر بن یزید بھی اپنے لشکر کے ساتھ چلتا رہا۔ اسی اثناء میں حضرت حسین ﷺ نے تیسرا خطبہ دیا،*

*"▣_ حر بن یزید کچھ تو پہلے سے اہل بیت کا احترام دل میں رکھتا تھا کچھ خطبوں سے متاثر ہو رہا تھا۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
  *※ (31)_طرماح بن عدی کا مشورہ ※*

*▣__اس حال میں چار آدمی کوفہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مددگار پہنچے جن کا سردار طرماح بن عدی تھا۔* *"_حربن یزید نے چاہا کہ انہیں گرفتار کرے یا کوفہ واپس کر دے۔ مگر حضرت حسین ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے مددگار اور رفیق ہیں ان کی ایسی ہی حفاظت کروں گا جیسی اپنی جان کی کرتا ہوں۔ حربن یزید نے ان کو اجازت دے دی۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے کوفہ کے حال دریافت کئے۔ انہوں نے بتلایا کہ کوفے کے جتنے سردار تھے۔ ان سب کو بڑی بڑی رشوتیں دے دی گئیں اور اب وہ سب آپ کے مخالف ہیں البتہ عوام کے قلوب آپ کے ساتھ ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب مقابلہ ہوگا تو تلواریں ان کی بھی آپ کے مقابلہ پر آئیں گی۔*

*"▣_ میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے ساتھ تو کوئی قوت اور جماعت نہیں۔ میں تو کوفہ سے نکلنے سے پہلے اتنا بڑا لشکر دیکھ چکا ہوں جو اس سے پہلے کبھی میری آنکھ نے نہ دیکھا تھا۔ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ایک بالشت بھی ان کی طرف نہ بڑھیں ۔ آپ میرے ساتھ چلیں آپ کو اپنے پہاڑ غسان اور ضمیر اور لقمان میں ٹھہراؤ گا جو مضبوط قلعہ ہیں، پھر آجا اور سلمی دونوں پہاڑوں پر بسنے والے قبیلہ طے کے لوگ آپ کی مدد کے لئے آجائیں گے۔*

*"▣_ اس وقت اگر آپ کی رائے مقابلے ہی کی ہو تو میں آپ کے لئے بیس ہزار بہادر سپاہیوں کا ذمہ لیتا ہوں ۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی قوم کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔ مگر ہمارے اور حر بن یزید کے درمیان ایک بات ہو چکی ہے۔ اب ہم اس کے پابند ہیں۔ اور ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔*

*"▣_ طرماح بن عدی رخصت ہو گئے اور اپنے ساتھ سامان رسد لے کر دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے۔ اور پھر آئے بھی مگر راستے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی غلط خبر سن کو لوٹ گئے ۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (32)_حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خواب ※*

*▣_ نصر بنی مقاتل تک پہنچ کر آپ کو ذرا غنودگی ہوئی تو انا لله و انا الیه راجعون کہتے ہوئے بیدار ہوئے۔*

*"▣_ آپ کے صاحبزادے علی اکبر نے سنا تو گھبرا کر سامنے آئے اور پوچھا ابا جان کیا بات ہے؟*
*"▣_ آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی گھوڑ سوار میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کچھ لوگ چل رہے ہیں اور ان کی موتیں ان کے ساتھ چل رہی ہیں۔ اس سے میں سمجھا کہ یہ ہماری موت کی خبر ہے۔*

*"▣_ صاحبزادے نے عرض کیا -ابا جان کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟۔ آپ نے فرمایا- قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب بندگان خدا کا رجوع ہے کہ بلاشبہ ہم حق پر ہیں۔*
*"▣_ صاحبزادے نے عرض کیا پھر ہمیں کیا ڈر ہے۔ جبکہ ہم حق پر مر رہے ہیں ۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو شاباش دی اور فرمایا کہ اللہ تعالی تم کو جزائے خیر عطاء فرمائے تم نے اپنے باپ کا صحیح حق ادا کیا۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (33)_ اصحاب حسین کا ارادہ قتال اور حسین رضی اللہ عنہ کا جواب کہ میں قتال میں پہل نہیں کروں گا ※*

*▣__ مقام نینوی پر ایک سوار حر بن یزید کے لئے ایک خط لے کر آیا جس میں لکھا تھا کہ : جس وقت تمہیں میرا یہ خط ملے تم حسین رضی اللہ عنہ پر میدان تنگ کر دو اور انہیں کھلے میدان کی طرف لے جاؤ جہاں پانی نہ ہو،*
*"▣__اور میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ جب تک میرے اس حکم کی تعمیل نہ کر دو گے تمہارے ساتھ رہے گا۔“*

*"▣__ حر بن یزید نے یہ خط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی سنا دیا اور اپنی مجبوری ظاہر کی۔ کہ اس وقت میرے سر پر جاسوس مسلط ہیں ۔ میں کوئی مصالحت نہیں کر سکتا۔*

*"▣__اس وقت زبیر بن القین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہر آنے والی گھڑی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے اور ہمارے لئے موجودہ لشکر سے قتال کرنا آسان ہے بنسبت اس کے جو اس کے بعد آئے گا۔*.
*"▣__ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قتال میں پہل نہیں کرنا چاہتا۔ زبیر بن القین نے عرض کیا کہ آپ قتال کی ابتداء نہ کریں۔ بلکہ ہمیں اس بستی میں لے جائیں جو حفاظت کی جگہ ہے اور دریائے فرات کے کنارے پر ہو، اس پر اگر یہ لوگ ہمیں وہاں جانے سے روکے تو ہم قتال کریں ،*

*"▣__آپ نے پوچھا کہ یہ کونسی بستی ہے۔ کہا گیا کہ عقر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں عقر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔*. 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (34)_عمر بن سعد کا لشکر اور حضرت حسینؓ کا پانی بند کر دینے کا حکم ※*

*▣_ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کر کے چار ہزار فوج کے ساتھ مقابلے کے لئے بھیج دیا۔ عمر بن سعد نے آ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کوفہ آنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے پورا قصہ بتلایا اور یہ کہ میں اہل کوفہ کا بلایا ہوا آیا ہوں۔ اگر اب بھی ان کی رائے بدل گئی ہے تو میں واپس جانے کے لئے تیار ہوں۔*

*"▣_ عمر بن سعد نے ابن زیاد کو اس مضمون کا خط لکھا کہ حسین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کے لئے تیار ہیں۔ ابن زیاد نے جواب دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے صرف ایک بات رکھو کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ جب وہ ایسا کریں تو پھر ہم غور کریں گے۔ کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے اور عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء پر پانی بالکل بند کر دو۔*

*"▣_ اور پانی بند کر دیا گیا ، یہ واقعہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تین روز پہلے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب حضرات پیاس سے پریشان ہو گئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ عنہ کو تیس پیادوں کے ساتھ پانی لانے کے لئے بھیج دیا۔*

*"▣_ پانی لانے پر عمر بن سعد کی فوج سے مقابلہ بھی ہوا۔ مگر بالاخر بیس مشکیں پانی کی بھر لائے۔ اس کے بعد عمر بن سعد کے پاس بات چیت کا پیغام بھیجا ،* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※(35)_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ارشاد کہ تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو ※*

*▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے بارے میں آپ تین صورتوں میں سے کوئی ایک اختیار کر لو،*
*"_(ا)۔ میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔*
*"_( ۲)۔ یا میں یزید کے پاس پہنچ جاؤں اور خود اس سے اپنا معاملہ طے کروں ۔*
*"_(٣)_ یا مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچا دو۔ جو حال وہاں کے عام لوگوں کا ہوگا میں اس میں بسر کر لو نگا۔*
*▣( بعض علماء نے آخری دو صورتوں کا انکار کیا ہے )*

*"▣_ عمر بن سعد نے یہ سن کر پھر ابن زیاد کو خط لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھا دی اور مسلمانوں کا کلمہ متفق کر دیا۔ مجھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تین صورتوں کا اختیار دیا ہے اور ظاہر ہے ان میں آپ کا مقصد پورا ہوتا ہے اور امت کی اس میں صلاح و فلاح ہے_,* 

*"▣_(36)_ ابن زیاد کا ان شرطوں کو قبول کرنا اور شمر کی مخالفت:-*

*"▣_ ابن زیاد بھی عمر بن سعد کے اس خط سے متاثر ہوا اور کہا کہ یہ خط ایک ایسے شخص کا ہے جو امیر کی اطاعت بھی چاہتا ہے اور اپنی قوم کی عافیت کا بھی خواہشمند ہے۔ ہم نے اس کو قبول کر لیا۔*

*"▣_شمر ذی الجوشن نے کہا کہ کیا آپ حسین رضی اللہ عنہ کو مہلت دینا چاہتے ہیں کہ قوت حاصل کر کے پھر تمہارے مقابلہ پر آئے۔ وہ اگر آج تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی تم ان پر قابو نہ پا سکو گے۔*
*"_ آپ حسین رضی اللہ عنہ کو اس پر مجبور کریں کہ وہ آپ کے پاس آجائیں پھر آپ چاہیں سزا دیں چاہیں معاف کریں۔*

*"▣_ ابن زیاد نے شمر کی رائے قبول کر کے عمر بن سعد کو اسی مضمون کا خط لکھا اور خود شمر ذی الجوشن ہی کے ہاتھ عمر بن سعد کے پاس بھیجا اور یہ ہدایت دی کہ اگر عمر بن سعد اس حکم کی تحمیل فوراً نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے اور اس کی جگہ تم خود لشکر کے امیر ہو،*

*"▣_ شمر روانہ ہونے لگا تو اس کو خیال آیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں اس کے پھوپھی زاد بھائی بھی ہیں۔ ابن زیاد سے ان کے لئے امان حاصل کیا اور روانہ ہو گئا۔*

*"▣_9 محرم کی تاریخ کو جب شمر یہ خط لیکر پہنچا تو عمر بن سعد سمجھ گیا کہ یہ سب سورت شمر کی وجہ سے پیش آئی ہے۔*
 *"_اس نے کہا کہ تم نے بڑا ظلم کیا، مسلمانوں کا کلمہ متفق ہو رہا تھا اس کو ختم کر کے قتل و قتال کا بازار گرم کر دیا۔*

*"▣_ بالاخر حسین رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام پہنچایا گیا۔ تو آپنے اس کو قبول کرنے سے انکار فرما دیا کہ اس ذلت سے موت بہتر ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (37)_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھنا ※*

*▣__ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اسی حالت میں کچھ اونگھ آ کر آنکھ بند ہوگئی اور پھر ایک آواز کے ساتھ بیدار ہو گئے۔*

*"▣_ آپ کی ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا نے یہ آواز سنی تو دوڑی آئیں تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا فرمایا کہ اب ہمارے پاس انے والے ہو _,*

*"▣_ ہمشیرہ یہ سن کر رونے لگیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں تسلی دی۔ اسی حالت میں شمر کا لشکر سامنے آ گیا اور بلا مہلت قتال کا اعلان سنایا۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ایک رات کی مہلت مانگی کہ میں آج کی رات میں وصیت اور نماز و دعا اور استغفار کر سکوں۔ شمر نے مشورہ کر کے مہلت دے دی اور واپس ہو گئے۔*

*"▣_(38)_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تقریر:-*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل بیت اور اصحاب کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا جس میں حمدو ثنا کے بعد فرمایا کہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کل ہمارا آخری دن ہے۔ میں آپ سب کو خوشی سے اجازت دیتا ہوں کہ سب اس رات کی تاریکی میں متفرق ہو جاؤ اور جہاں پناہ ملے چلے جاؤ۔ اور میرے اہل بیت میں سے ایک ایک کا ہاتھ پکڑو اور مختلف علاقوں میں پھیل جاؤ۔ کیونکہ دشمن میرا طلب گار ہے۔ وہ مجھے پاے گا تو دوسروں کی طرف التفات نہ کرے گا“۔*

*"▣_یہ تقریر سن کر آپ کے بھائی، بھائیوں کی اولاد اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد، بنو عقیل سب ایک آواز ہو کر بولے - واللہ ہم ہرگز نہ جائیں گے، ہمیں اللہ تعالیٰ آپ کے بعد باقی نہ رکھے،* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
            *※ (39)_ اہل بیت کو وصیت ※*

*▣__حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور اہل بیت کو وصیت کی:- میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت پر تم کپڑے نہ پھاڑنا اور سینہ کوبی وغیرہ ہرگز نہ کرنا۔ آواز سے رونے چلانے سے بچنا_,"*
*"_یہ وصیت فرما کر باہر آ گئے اور اپنے اصحاب کو جمع کر کے تمام شب تہجد اور دعا واستغفار میں مشغول رہے۔*
*"_ یہ عاشوراء کی رات تھی۔ اور صبح کو یوم عاشوراء اور روز جمعہ تھا ،*.

*"▣__(40)_ حربن یزید حضرت حسین کے ساتھ_,*

 *"▣__صبح نماز سے فارغ ہوتے ہی عمر بن سعد لشکر لے کر سامنے آ گیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس وقت کل بہتر اصحاب تھے۔ تیس سوار اور چالیس پیادہ۔ آپ نے بھی مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمائی۔*

*"▣__ عمر بن سعد نے اپنے لشکر کو چار حصوں پر تقسیم کر کے ہر ایک حصہ کا ایک امیر بنایا تھا۔ ان میں سے ایک حصہ کا امیر حر بن یزید تھا۔ (جو سب سے پہلے ایک ہزار کا لشکر لے کر مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اس کے دل میں اہل اطہار کی محبت کا جذبہ بھی بیدار ہو چکا تھا)*

*▣_"_ اپنا گھوڑا دوڑا کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر میں آ ملا اور عرض کیا کہ۔ واللہ مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک پہنچ جائیں گے ۔ اور آپ کی بات نہ مانیں گے۔ اگر میں یہ جانتا تو ہر گز آپ کو نہ روکتا۔ اب میری سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کے ساتھ قتال کرتا ہوا جان دے دوں_," اور ایسا ہی ہوا۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (41)_ دونوں لشکروں کا مقابلہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خطاب ※*

*▣__حضرت حسین رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور آگے بڑھ کر با آواز بلند فرمایا: لوگو! میری بات سنو، جلدی نہ کرو۔ تا کہ میں حق نصیحت ادا کردوں۔ جو میرے ذمہ ہے۔ اور تاکہ میں تمہیں اپنے یہاں آنے کی وجہ بتلا دوں۔ پھر اگر تم میرا عذر قبول کرو اور میری بات کو سچا جانو اور میرے ساتھ انصاف کرو تو اس میں تمہاری فلاح وسعادت ہے۔ اور پھر تمہارے لئے میرے قتال کا کوئی راستہ نہیں۔ اور اگر تم میرا عذر قبول نہ کرو تو تم سب مل کر مقرر کرو اپنا کام اور جمع کر لو اپنے شریکوں کو کہ نہ رہے تم کو اپنے کام میں شبہ، پھر کر گزرو میرے ساتھ اور مجھے مہلت نہ دو ، ( یہ وہی الفاظ ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہے تھے)*

*"▣_حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ بہنوں اور عورتوں کے کانوں میں پڑے تو ضبط نہ کر سکیں۔ رونے کی آوازیں بلند ہو گئیں۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ ان کو نصیحت کر کے خاموش کر دیں اور اس وقت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن عباس پر رحم فرمائے، انہوں نے صحیح کہا تھا کہ عورتوں کو ساتھ نہ لے جاؤ۔*

*"▣_ حمد وثناء اور درود وسلام کے بعد فرمایا: ”اے لوگو! تم میرا نسب دیکھو میں کون ہوں ۔ پھر اپنے دلوں میں غور کرو کیا تمہارے لئے جائز ہے کہ تم مجھے قتل کرو۔ اور میری عزت پر ہاتھ ڈالو۔ کیا میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی رضی اللہ عنہا کا بیٹا نہیں ہوں۔ کیا میں اس باپ کا بیٹا نہیں ہوں جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا چازاد بھائی وصی اولی المؤمنین باللہ تھا۔ کیا سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ میرے باپ کے چاچا نہیں، کیا جعفر طیار ہے میرے چچا نہیں تھے۔*

*"▣_ کیا تمہیں یہ حدیث مشہور نہیں پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور میرے بھائی حسن کو سید اشباب اہل الجنۃ اور قرۃ عین اہل السنتہ فرمایا ہے۔,*
*"_ اور اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں تو تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ کیا یہ چیزیں تمہارے لئے میرا خون بہانے سے روکنے کو کافی نہیں۔ مجھے بتلاؤ کہ میں نے کسی کو قتل کیا ہے کہ جس کے قصاص میں مجھے قتل کر رہے ہو۔ یا میں نے کسی کا مال لوٹا ہے یا کسی کو زخم لگایا ہے۔*

*"▣_ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے رؤساء کوفہ کا نام لیکر پکارا۔ اے شیث بن ربعی, اے حجاز بن الجراء, اے قیس ابن اشعث، اے زید بن حارث کیا تم لوگوں نے مجھے بلانے کے لئے خطوط نہیں لکھے۔*

*"▣_ یہ سب لوگ مکر گئے کہ ہم نے نہیں لکھے ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے پاس تمہارے خطوط موجود ہیں“۔ اس کے بعد فرمایا: ”اے لوگو! اگر تم میرا آنا پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑ دو, میں کسی ایسی زمین میں چلا جاؤں گا جہاں مجھے امان ملے۔*

*"▣_قیس ابن اشعث نے کہا - آپ اپنے چچا زاد بھائی ابن زیاد کے حکم پر کیوں نہیں اتر آتے۔ وہ پھر آپ کے بھائی ہیں، آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کریں گے۔*
*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلم بن عقیل کے قتل کے بعد بھی تمہاری یہی رائے ہے۔ واللہ میں اس کو کبھی قبول نہ کروں گا۔*

*"▣_ اس کے بعد زبیر بن القین نے نصیحت کی ۔ کہ آل رسول کے خون سے باز آجاؤ ۔ ظالمو! اب بھی ہوش میں آؤ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا سمیہ کے بیٹے (ابن زیاد ) سے زیادہ محبت و اکرام کا مستحق ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
          *※ (42)_ شمر کا پہلا تیر ※*

*▣__جب گفتگو طویل ہونے لگی تو شمر نے پہلا تیر ان پر چلا دیا، حر بن یزید نے خطاب کیا تو ان پر بھی تیر پھینکے گئے۔*

*"▣_ اس کے بعد تیراندازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر گھمسان کی جنگ ہوئی۔ فریق مخالف کے بھی کافی آدمی مارے گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے رفقاء بھی بعض شہید ہوئے۔*

*"▣_ گھمسان کی جنگ ہوئی، گھوڑ چھوڑ کر میدان میں پیادہ آگئے۔ اب دشمنوں نے خیموں میں آگ لگانا شروع کر دیا،*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (43)_ گھمسان کی جنگ میں نماز ظہر کا وقت ※*

*▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اکثر رفقاء شہید ہو چکے تھے۔ اور دشمن کے دستے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ابو شمامہ صائدی نے عرض کیا کہ میری جان آپ پر قربان ہو میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے قتل کیا جاؤں۔ لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ ظہر کا وقت آ چکا ہے، یہ نماز ادا کر کے پروردگار کے سامنے جاؤں۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے با آواز بلند فرمایا کہ جنگ ملتوی کرو یہاں تک کہ ہم نماز پڑھ لیں۔*
*"▣_ ایسی گھمسان جنگ میں کون سنتا اور ابو شمامہ اسی حالت میں شہید ہو گئے ۔*

*"▣_ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چند اصاحب کے ساتھ نماز ظہر صلوۃ الخوف کے مطابق ادا ئی۔ نماز کے بعد پھر قتال شروع ہوا۔ ان میں سے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے پہلے شہید ہو جاؤں، اس لئے ہر شخص نہایت شدت و شجاعت سے مقابلہ کر رہا تھا۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے صاحبزادے حضرت علی اکبر یہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ( ترجمہ - یعنی) میں حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا بیٹا ہوں, قسم ہے رب البیت کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہیں۔*

*"▣_ کم بخت مرہ ابن منقذ نے ان کو نیزہ مار کر گرا دیا۔ اور لاش کے ٹکڑے کر دئیے۔*
*"_ عمر بن سعد نے قاسم بن حسن کے سر پر تلوار ماری وہ گرے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دوڑ کر ان کو سنبھالا اور عمر پر تلوار سے حملہ کیا۔ کہنی سے اس کا ہاتھ کٹ گیا۔ آپ نے اپنے بھتیجے قاسم کی لاش کو اپنے کاندھے پر اٹھایا اور اپنے بیٹے اور دوسرے اہل بیت کے برابر لٹا دیا۔*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تقریباً تنہا بے یارومددگار رہ گئے ۔ لیکن ان کی طرف بڑھنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔ کوئی بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل اور اس کے گناہ کو اپنے سر لینا نہ چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ قبیلہ کندہ کا ایک شقی القلب مالک بن نسیر آگے بڑھا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر پر تلوار سے حملہ کیا۔ آپ شدید زخمی ہو گئے ، اپنے چھوٹے صاحبزادے عبداللہ کو بلایا اور اپنی گود میں بیٹھا لیا،*
*"▣_ بنی اسعد کے ایک بدنصیب نے ان کو بھی تیر مار کر ہلاک کر دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس معصوم بچہ کا خون لیکر زمین پر بکھیر دیا اور دعا کی- یا اللہ تو ہی ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
   *※(44) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ※*

*▣_ اس وقت آپ کی پیاس حد کو پہنچ چکی تھی۔ آپ پانی پینے کیلئے دریائے فرات کے قریب تشریف لے گئے ۔ ظالم حصین بن نمیر نے آپ کے منہ پر نشانہ کر کے تیر پھینکا جو آپ کو لگا اور دہن مبارک سے خون جاری ہوا گیا، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ،*

*"▣_اس کے بعد شمر دس آدمی ساتھ لیکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا۔ شدید پیاس اور زخموں کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کر رہے تھے۔ اور جس طرف آپ بڑھتے، یہ بھاگتے نظر آتے تھے۔،*
*"▣_۔ شمر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے سے ہر شخص بچنا چاہتا ہے تو آواز دی کہ سب یکبارگی حملہ کرو۔ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے۔ نیزوں اور تلواروں سے یکبارگی حملہ کیا اور یہ ابن رسول اللہ خیر خلق اللہ فی الارض ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ,*.

*"▣_ شمر نے خولی بن یزید سے کہا کہ ان کا سرکاٹ لو, وہ آگے بڑھا مگر ہاتھ کانپ گئے۔ پھر شقی بد بخت سنان بن انس نے یہ کام انجام دیا۔ آپ کی لاش کو دیکھا تو تینتیس زخم نیزوں کے اور چونتیس زخم تلواروں کے تھے، فرضی الله عنهم و ارضاه ورزقنا حبه وحب من والدہ_,*

*"▣_ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے قتل سے فارغ ہو کر یہ ظالم علی اصغر حضرت زین العابدین کی طرف متوجہ ہوئے شمر نے ان کو بھی قتل کرنا چاہا۔ حمید بن مسلم نے کہا کہ تم بچہ کو قتل کرتے ہو اور جب کہ وہ مریض بھی ہے، تو شمر نے انہیں چھوڑ دیا۔*
*"▣_ عمر بن سعد آگے آئے اور کہا کہ ان عورتوں کے خیمہ کا پاس کوئی نہ جائے اور اس مریض بچہ سے کوئی تعرض نہ کرے ،*

*"▣_ابن زیادتی کا حکم تھا کہ قتل کے بعد لاش کو گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندا جائے, ان ظالموں نے یہ بھی کر ڈالا، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ،*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (45)_حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے سر ابن زیاد کے دربار میں ※*

*▣_جنگ کے خاتمہ پر مقتولین کی شمار کی گئی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں بہتر (72) حضرات شہید ہوئے اور عمر بن سعد کے لشکر کے اٹھاسی سپاہی مارے گئے, حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کو اہل غاضریہ نے ایک روز بعد دفن کیا۔*

*"▣_ خولی بن یزید اور حمید بن مسلم ان حضرات کے سر کو لیکر کوفہ روانہ ہوئے ۔ اور ابن زیاد کے سامنے پیش کئے۔ ابن زیاد نے لوگوں کو جمع کر کے سب سروں کو سامنے رکھا۔ اور ایک چھڑی سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دہن مبارک کو چھونے لگا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور بول اٹھے،*
*"_کہ چھڑی ان مبارک ہونٹوں کے اوپر سے ہٹالیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ ان ہونٹوں کو بوسہ دیتے تھے۔ یہ کہہ کر رو پڑے۔*

*"▣_ ابن زیاد نے کہا کہ اگر تم سن رسیدہ بوڑھے نہ ہوتے تو میں تمہاری بھی گردن مار دیتا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے باہر آگئے ۔ کہ اے قوم عرب ! تم نے سیدۃ النساء فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے کو قتل کر دیا اور مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا۔ وہ تمہارے اچھے لوگوں کو قتل کرے گا۔ اور شریروں کو غلام بنائے گا، تمہیں کیا ہوا کہ اس ذلت پر راضی ہو گئے_,*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
        *※ (46)_ بقیہ اہلِ بیت کوفہ میں ※*

*▣__ عمر ابن سعد دو روز بعد باقی اہل بیت کو لے کر کوفہ پہنچا اور سب کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا، ابن زیاد نے حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ ان کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا تو علی اصغر نے کہا میرے بعد ان عورتوں کا کون کفیل ہو گا ؟*

*"▣_ ادھر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کی پھوپھی ان کو لپٹ گئیں اور کہنے لگیں۔ کہ اے ابن زیاد! کیا ابھی تک ہمارے خون سے تیری پیاس نہیں بجھی۔ میں تجھے خدا کی قسم دیتی ہوں اگر ان کو قتل کرے تو ہم کو بھی ان کے ساتھ قتل کر دے۔*

*"▣_ علی اصغر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابن زیاد! اگر تیرے اور ان عورتوں کے درمیان کوئی قرابت ہے تو ان عورتوں کے ساتھ کسی صالح متقی مسلمان کو بھیجنا، جو اسلام کی تعلیم کے مطابق ان کی رفاقت کرے،*
*"_ یہ سن کر ابن زیاد نے کہا۔ اچھا اس لڑکے کو چھوڑ دو کہ یہ خود ان عورتوں کے ساتھ جاے،*

*"▣_اس کے ابن زیاد نے ایک نماز کے بعد خطبہ دیا جس میں حسین رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا۔ اس مجمع میں عبداللہ بن عفیف ازدی رضی اللہ عنہ بھی تھے ، وہ کھڑے ہوئے اور کہا- اے ابن زیاد تو کذاب بن کذاب ہے۔ تم انبیاء کی اولاد کو قتل کرتے ہو اور صدیقین کی سی باتیں بناتے ہو۔*
*"_ ابن زیاد نے ان کو گرفتار کرنا چاہا تو ان کے قبیلہ کے لوگ کھڑے ہو گئے اس لئے چھوڑ دیئے گئے ۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※ (47)_ سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا گیا:-* ※*

*▣_ ابن زیاد کی شقاوت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ حکم دیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کو ایک لکڑی پر رکھ کر کوفہ کے بازاروں اور گلی کوچوں میں گھمایا جائے کہ سب لوگ دیکھ لیں۔*
*"_ اس کے بعد یزید کے پاس ملک شام بھیج دیا۔ اور اسی کے ساتھ ہی عورتوں بچوں کو بھی روانہ کیا۔*

*▣"_انعام کے شوق میں حر بن قیس یزید کے پاس فتح کی خبر لے کر پہنچا اور میدان کربلا کے معرکہ کی تفصیل بیان کی،*
*"_ یہ حال سن کر یزید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور کہا کہ میں تم سے اتنی ہی اطاعت چاہتا تھا کہ بغیر قتل کے گرفتار کر لو۔ اللہ تعالیٰ ابن سمیہ ( ابن زیاد ) پر لعنت کرے۔ اس نے ان کو قتل کرا دیا۔ خدا کی قسم اگر میں وہاں ہوتا تو میں معاف کر دیتا۔ اللہ تعالی حسین رضی اللہ عنہ پر رحم فرماوے _,"*

*"▣_ سر مبارک جس وقت یزید کے سامنے رکھا گیا تو یزید کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں پر چھڑی پھیر کر اشعار پڑھے کگا-*
 *"_ (ترجمہ ) ہماری قوم نے ہمارے لئے انصاف نہ کیا تو ہماری خونچکاں تلواروں نے انصاف کیا۔ جنہوں نے ایسے مردوں کے سر پھاڑ دیئے جو ہم پر سخت تھے۔ اور وہ تعلقات قطع کرنے والے ظالم تھے۔*

*"▣_ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے ۔ آپ نے کہا- اے یزید ! تو اپنی چھڑی حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں پر لگاتا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ ان کو بوسہ دیتے تھے۔*
*"_ اے یزید! قیامت کے روز تو آئے گا۔ تو تیری شفاعت ابن زیاد ہی کرے گا۔ اور حسین رضی اللہ عنہ آئیں گے تو ان کے شفیع محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔*
*"▣_ یہ کہہ کر ابو برزہ رضی اللہ عنہ مجلس سے نکل گئے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
            *※ (48)_ یزید کے گھر میں ماتم ※*

*▣_ جب یزید کی بیوی ہندہ بنت عبداللہ نے یہ خبر سنی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ قتل کر دیئے گئے اور ان کا سر لایا گیا ہے تو وہ چادر اوڑھ کر باہر نکل آئیں اور کہنے لگیں:-*
*"_ اے امیر المؤمنین ! کیا ابن بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ خدا ابن زیاد کو ہلاک کرے اس نے جلدی کی اور قتل کر ڈالا۔*
*"_ ہندہ بن کر رو پڑی,*

*"▣_یزید نے کہا کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا کہ میرا باپ یزید کے باپ سے اور میری ماں یزید کی ماں سے اور میرے دادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید کے دادا سے بہتر ہیں۔*

*"▣_ ان میں پہلی بات کہ میرا باپ بہتر ہے یا ان کا اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کرے گا۔ وہ دونوں وہاں پہنچ چکے ہیں اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے کس کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔*
*"_ اور دوسری بات کہ ان کی والدہ میری ماں سے بہتر ہیں تو میں قسم کھاتا ہوں کہ بے شک صحیح ہے ان کی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میری والدہ سے بہتر ہیں۔*
*"_ رہی تیسری بات کے ان کے دادا میرے دادا سے بہتر ہیں سو یہ ایسی بات ہے کہ کوئی مسلمان جس کا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے اس کے خلاف نہیں کہہ سکتا۔ ان کی یہ سب باتیں صحیح و درست تھیں مگر جو آفت آئی وہ ان کی سمجھ کی وجہ سے آئی۔*

*"▣_اس کے بعد عورتیں, بچے یزید کے سامنے لاے گئے اور سر مبارک مجلس میں رکھا ہوا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی دونوں صاحبزادیاں فاطمہ اور سکینہ رضی اللہ عنہا کی نظر اپنے والد ماجد کے سر پر پڑی تو بے ساختہ رونے کی آواز نکل گئی۔*
*"_ ان کی آواز سن کر یزید کی عورتیں بھی چلا اٹھیں اور یزید کے محل میں ایک ماتم برپا ہو گیا۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
    *※ (49)_اہل بیت کی مدینہ کو واپسی ※*

*▣_ بعض روایات میں ہے کہ یزید شروع میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر راضی تھا۔ اور ان کا سر مبارک لایا گیا تو خوشی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد جب یزید کی بدنامی سارے عالم اسلام میں پھیل گئی اور وہ سب مسلمانوں میں مبغوض ہو گیا تو بہت نادم ہوا اور کہنے لگا۔ کاش میں تکلیف اٹھا لیتا۔ اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھتا اور ان کو اختیار دے دیتا کہ جو وہ چاہیں کریں۔*

*▣_ اگر چہ اس میں میرے اقتدار کو نقصان ہی پہنچتا۔ کیونکہ رسول اللہ علیہ کا اور ان کا ان کی قرابت کا یہی حق تھا۔ اللہ تعالیٰ ابن مرجانہ پر لعنت کرے۔ اس نے مجبور کر کے قتل کر دیا حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو یا کسی سرحدی مقام پر پہنچا دو مگر اس نالائق نے قبول نہ کیا اور ان کو قتل کر کے ساری دنیا کے مسلمانوں میں مجھے مبغوض کر دیا ان کے دلوں میں میری عداوت کا بیج بو دیا، ہر نیک وبد مجھ سے بغض رکھنے لگا۔*

*"▣_اس کے بعد اہل بیت اطہار کو حفاظت کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا گیا،*

*"▣_حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کے قتل کی خبریں مدینہ میں پہنچیں تو مدینہ میں کہرام تھا۔ مدینہ کے درو دیوار رو رہے تھے۔ اور جب خاندان اہل بیت کے یہ بقیہ نفوس مدینہ پہنچے تو مدینہ والوں کے زخم از سر نو تازہ ہو گئے۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※ (50)_ شہادت کے وقت حضور ﷺ کو خواب میں دیکھا گیا ※*

*▣_ بیہقی نے دلائل میں بسند روایت لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ دوپہر کا وقت ہے اور آپ پراگندہ بال پریشان حال ہیں آپ کے ہاتھ میں ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔*

*"▣_ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اس میں کیا ہے۔ فرمایا ! حسین رضی اللہ عنہ کا خون ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کروں گا۔*

*"▣_ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسی وقت لوگوں کو خبر دے دی کہ حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے۔*
*"_ اس خواب سے چند روز کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع پہنچی اور حساب کیا گیا تو ٹھیک وہی دن اور وہی وقت آپ کی شہادت کا تھا۔*

*"▣_اور ترمذی نے سلمی سے روایت کیا ہے کہ وہ ایک روز ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ میں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں اس طرح دیکھا کہ آپ کے سر مبارک اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی پڑی ہوئی ہے۔*
*"_ میں نے پوچھا کہ یہ کیا حال ہے۔ فرمایا کہ میں ابھی حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر موجود تھا۔*

*"▣_ ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر میں نے جنات کو روتے دیکھا ہے۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
          *※ (51)_ ہمارا عمل کیا ہونا چاہیے ※*

*▣_ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ذات و صفات کا ذکر ائے گا تو ہم بلاشبہ سر جھکا لیں گے اور ان کے نقش قدم پر سر کے بل چلنے کو بھی ایمان و سعادت سمجھیں گے _,*
*"_ اور یزید اور اس کے قبائر و مثال با عیوب سامنے ائیں گے تو ہم اصل حقیقت کو سمجھ کر خاموشی اختیار کرنے کو معقول جذبہ سمجھیں گے،*
*"_ اب اس کا معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ ہے ہمارے ساتھ نہیں,*
 *"®_حضرت مولانا قاری طیب صاحب,*

*"▣_(52)_ واقعہ کربلا کا رنج والم:-*

*"▣_ ہر کلمہ گو خواہ وہ شیعہ ہو یاسنی اس وحشتناک اور دردانگیز واقعہ سے بے انتہا رنج والم ہے۔ کوئی نہیں جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومیت سے مغموم نہ ہو اور اس کا دل ان مظالم کو سن کر مضطرب اور پریشان نہ ہو، تقریباً تیرہ سو سال گزرنے کے باوجود اس اندوہناک درد انگیز مصیبت خیز پریشان کن دل ہلا دینے والے واقعہ کو بھول نہیں پائے۔ اس خونی واقعہ کی یاد تازہ اپنے سینوں میں رکھتی ہیں،*

*"▣_(53)_ اظہار غم کے طریقے میں فرق:-*

*"▣_ اہل السنت والجماعت اس دردناک واقعات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے باوجود ایک بہادر صاحب عزم انسان کی طرح متانت اور سنجیدگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،*

*"▣_ بخلاف شیعہ صاحبان کے کہ وہ اس رنج والم کا اظہار کرنے کے لئے دامن شریعت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ فخر دو عالم سید المرسلین ﷺ کی سنت سے منہ موڑ لیتے ہیں اور اظہار غم کے لئے دسویں محرم کو وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں بہت ساری چیزیں ناجائز بلکہ حرام ہوتی ہیں,*

 *"▣_ جن سے مسلمانوں کے عقائد فاسد ہوتے ہیں، شیعہ صاحبان میں کمزور طبیعت کے رہنما اپنے مفاد دنیا کی خاطر حق کو چھپاتے ہیں اور نتائج اخروی کو نظر انداز کرتے ہیں،*
*"_ افسوس یہ ہے کہ اج بہت سے ہمارے سننی بھائی بھی ان کی پیروی کر رہے ہیں اور اپنی اخرت خراب کر رہے ہیں ،*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※(54)_ تعزیہ داری کے متعلق علماء اہل السنت کا فیصلہ ※*

*▣_حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی فتویٰ عزیزی مطبوعہ مجتبائی ماہ شوال ۱۳۱۱ھ کے صفحہ ۷۲ پر لکھتے ہیں کہ تعزیہ داری جو مبتدعین کرتے ہیں ۔ بدعت ہے اور بدعت سیئہ ہے اور اس میں شامل ہونے والوں کو خدا کی لعنت میں گرفتار کر دیتی ہے اور اس کے فرائض اور نوافل بھی بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں ہوتے،*

*"▣_ مرثیہ خوانی کی مجلس میں( کتاب سننا ) اور اس مجلس میں زیارت اور گریہ وزاری کی نیت سے جانا بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ وہاں کوئی زیارت نہیں ہے جس کے واسطے آدمی جائے اور یہ لکڑیاں تعزیے کی جو بنائی گئی ہیں یہ زیارت کے قابل نہیں۔ بلکہ مٹانے کے قابل ہیں،*
*®_ فتاویٰ عزیزی مطبوعہ مجتبائی ماہ شوال ۱۳۱۱ھ کے صفحہ ۷۲،*

 *"▣_ تعزیہ کے تابوت کی زیارت کرنا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور مرثیہ پڑھنا اور کتاب سنا اور فریاد کرنا اور رونا اورسینہ کوبی کرتا اور امام حسین کے ماتم میں اپنے آپ کو زخمی کرنا یہ سب چیزیں ناجائز ہیں۔*
*®_ فتاویٰ عزیزی مطبوعہ مجتبائی صفحہ ١٥٥ ،*

*"▣_ ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ تعزیے کے جلوس میں شرکت سے پرہیز کریں اور اپنے اہل وعیال کو بھی بچائیں، ہر مسلمان کو اس بدعت و جہالت سے روکنا ہم سب کا فرض ہے،*

*"▣_ اللہ تعالی تمام اہل ایمان کو حق کی سمجھ عطا فرمائے، امین یا رب العالمین ،* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
                     *※ _تعزیہ اور علم ※*

*▣_ ماہ محرم میں تعزیہ مع علم کے نکالنا، اور اس کے ساتھ مرثیہ پڑھنا، نیز جلوس کے ساتھ شریک ہونا, چڑھاوا چڑھانا اور نذرحسین کی سبیل نکالنا، اس کا پینا اور پلانا اور اس کو ثواب سمجھنا، یہ سب افعال بدعت و نا جائز اور روافض کا شعار ہیں، ان میں شرکت نا جائز ہے،*
*®_ فتاویٰ محمودیہ -٢/٤٤,*

*"‌▣_تعزیہ کے سامنے لاٹھی چلانا اور کھیل تماشہ:-* 

*"▣_محرم کے مہینے میں تعزیہ کے جلوس کے سامنے لاٹھیاں چلانا اور دوسرے کھیل تماشے جو کھیلے جاتے ہیں شرعاً بےاصل اور ناجائز ہے، یہ روافض کا طریقہ ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ثابت نہیں ،*
*®_فتاوی محمودیہ -٢/٤٥,*

*"▣_تعزیہ کی منت :-*

*"▣_تعزیہ کی منت درست نہیں, جن بڑوں نے اس کی منت مان کر بنانا شروع کیا وہ غلطی پر تھے اور اس فعل کی وجہ سے گنہگار ہوئے اور آپ کو اس کا اتباع کرنا جائز نہیں، _تعزیہ وغیرہ ہرگز نہ بنائیں، بالکل ترک کر دیجئے،*
*"▣_ یہ عقیدہ رکھنا کہ تعزیہ نہیں بنائیں گے تو کوئی جانی جانی مالی نقصان پہنچے گا، ایسے عقائد سے ایمان سالم نہیں رہتا،*

*"▣__تعزیہ بنانا اور اس پر نظر بھی نیاز چڑھانا، اس سے منت ماننا حرام و شرک ہے، صدقہ خیرات جو کچھ کرنا ہو شریعت کے مطابق صرف خدا کے لیے کر دیا جائے، _تعزیہ پر چڑھانے اور اس سے منت ماننے اور غیر اللہ کے نام پر کھانا کھلانے سے وہ کھانا بھی ناجائز ہو جاتا ہے، اس کا ثواب نہیں ہوتا بلکہ گناہ ہوتا ہے ،*

*"▣_ ایصال ثواب اور اسلام کے خلاف افعال:-* 

*"▣_ ایام محرم میں مجلسیں منعقد کرنا، اماموں کے نام کا خچڑا پکانا، شربت پلانا، اپنی اولادوں کو اماموں کا فقیر بنایا (فقیری پہنانا) یہ سب کام تعلیم اسلام کے خلاف اور اللہ تعالی اور اس کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے, ان سب سے توبہ لازم ہے ،*

*"▣_ایصال ثواب کے لیے کچھ کھانا غریب اور مسکین کو کھلا کر یا نقد دے کر یا قرآن پاک پڑھ کر یا کوئی عبادت کر کے مردوں کو ثواب پہونچانا بغیر کسی تاریخ و حیت کے التجام کے شرعاً درست ہے،*
*®_ فتاویٰ محمودیہ -٢/٤٦,*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※_ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کا عبرتناک انجام ※*
          ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*▣_ امام زہری فرماتے ہیں کہ جو لوگ قتل حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھے ان میں سے ایک بھی نہیں بچا جس کو آخرت سے پہلے دنیا میں سزا نہ ملی ہو۔ کوئی قتل کیا گیا۔ کسی کا چہرہ سخت سیاہ ہو گیا یا مسخ ہو گیا۔ یا چند ہی روز میں ملک سلطنت چھن گئے اور ظاہر ہے کہ یہ ان کے اعمال کی اصلی سزا نہیں۔ بلکہ اس کا ایک نمونہ ہے جو لوگوں کی عبرت کے لئے دنیا میں دکھا دیا گیا ہے۔*

*▣_(1)_ قاتل حسین رضی اللہ عنہ اندھا ہو گیا:-*
*"▣_ ابن جوزی رحمتہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھا، وہ دفعتاً نابینا ہو گیا تو لوگوں نے سبب پوچھا،*
*"_ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آستین چڑھائے ہوئے ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے اور اس پر قاتلان حسین رضی اللہ عنہ میں سے دس آدمیوں کی لاشیں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں۔*
*"▣_ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا اور خون حسین رضی اللہ عنہ کی ایک سلائی میری آنکھوں میں لگا دی، صبح اٹھا تو اندھا تھا۔ (اسعاف)*

             *▣_(2)_ منہ کالا ہو گیا-▣*
*"▣_ ابن جوزی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا اس کے بعد اسے دیکھا گیا کہ اس کا منہ کالا تارکول کی طرح ہو گیا ہے، لوگوں نے پوچھا کہ تم سارے عرب میں خوش رو آدمی تھے تمہیں کیا ہوا۔ اس نے کہا جس روز سے میں نے یہ سر گھوڑے کی گردن میں لٹکایا جب ذرا سوتا ہوں دو آدمی میرے بازو پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ پر لے جاتے ہیں اور اسی حالت میں چند روز کے بعد مر گیا۔* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※_قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کا عبرتناک انجام※*
            *▣_(3)_آگ میں جل گیا-▣*
*"▣_ابن جوزی رحمہ اللہ نے سدی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی، مجلس میں یہ ذکر چلا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں جو بھی شریک ہوا اسکو دنیا میں بھی جلد سزا مل گئی۔ اس شخص نے کہا بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا میرا کچھ بھی نہیں بگڑا۔*

*"▣_ یہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھر گیا، جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرتے ہوئے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہیں جل بھن کر رہ گیا،*
*"_ سدی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہو چکا تھا۔*
۔ 
*▣_(4)_تیر مارنے والا پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گیا-▣*
*"▣_ جس شخص نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو تیر مارا اور پانی پینے نہیں دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسی پیاس مسلط کر دی کہ کسی طرح پیاس بجھتی نہ تھی پانی کتنا ہی پیا جائے پیاس سے تڑپتا ربتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔*

               *▣_(5)_ ہلاکت یزید-▣*
*▣_شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کو بھی ایک دن چین نصیب نہ ہوا۔ تمام اسلامی ممالک میں خون شہداء کا مطالبہ اور بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ اس کی زندگی اس کے بعد دو سال آٹھ ماہ اور ایک روایت میں تین سال آٹھ ماہ سے زائد نہیں رہی، دنیا میں بھی اس کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا اور اسی ذلت کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔*

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
*※_قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کا عبرتناک انجام ※*
*▣_(6)_ کوفہ پر مختار کا تسلط اور تمام قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کی عبرتناک ہلاکت:-*
*"▣_ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ پر طرح طرح کی آفات ارضی و سماوی کا ایک سلسلہ تو تھا ہی واقعہ شہادت سے پانچ ہی سال بعد ٦٦ ھ میں مختار نے قاتلان حسین رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تو عام مسلمان اس کے ساتھ ہو گئے اور تھوڑے عرصہ میں اس کو یہ قوت حاصل ہو گئی کہ کوفہ اور عراق پر اس کا تسلط ہو گیا۔*
*"▣_ اس نے اعلان عام کر دیا کہ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کے سوا سب کو امن دیا جاتا ہے۔ اور قاتلوں کی تفتیش و تلاش پر پوری قوت خرچ کی اور ایک ایک کو گرفتار کر کے قتل کیا۔ ایک روز میں دوسواڑتالیس (248) آدمی اس جرم میں قتل کئے گئے جو قتل حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھے، اس کے بعد خاص لوگوں کی تلاشی و گرفتاری شروع ہوئی۔*

*"▣_ عمرو بن حجاج زبیدی پیاس اور گرمی میں بھاگا، پیاس کی وجہ سے بیہوشی ہو کر گر پڑا اور ذبح کر دیا گیا۔*

*"▣_ شمر ذی الجوشن جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب سے زیادہ شقی اور سخت تھا اس کو قتل کر کے لاش کتوں کے سامنے ڈال دی گئی۔*

*"▣_ عبد اللہ بن اسید جہنی، مالک بن بشیر بدی، حمل بن مالک کا محاصرہ کر کے سب کو قتل کر دیا، مالک بن بشیر کے دونوں ہاتھ دونوں پیر قطع کر کے میدان میں ڈال دیا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ عثمان بن خالد اور بشیر بن شمیط نے مسلم بن عقیل کے قتل میں اعانت کی تھی، ان کو قتل کر کے جلا دیا گیا۔*

*"▣_ عمر بن سعد جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر لشکر کی کمان کر رہا تھا اس کو قتل کر کے اس کا سر مختار کے سامنے لایا گیا۔ اور مختار نے اس کے لڑکے حفص کو بھی قتل کر کے کہا کہ عمر بن سعد کا قتل تو حسین رضی اللہ عنہ کے بدلہ میں ہے اور حفص کا قتل علی بن حسین کے بدلہ میں اور حقیقت یہ ہے کہ پھر بھی برابری نہیں ہوئی۔ اگر میں تین چوتھائی قریش کو بدلہ میں قتل کر دوں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی کا بھی بدلہ نہیں ہو سکتا۔*.

*"▣_ حکیم بن طفیل جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے تیر مارا تھا اس کا بدن تیروں سے چھلنی کر دیا گیا، اسی میں ہلاک ہوا۔ زید بن رفاد پر تیر اور پتھر برسائے گئے پھر جلا دیا گیا۔ سلام بن انس جس نے سر مبارک کاٹنے کا اقدام کیا تھا کوفہ سے بھاگ گیا۔ اس کا گھر منہدم کر دیا گیا۔*

*"▣_ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کا یہ عبرت ناک انجام معلوم کر کے بے ساختہ یہ آیت زبان پر آتی ہے۔ كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلْعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( عذاب ایسا ہی ہوتا ہے اور اخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے۔ کاش وہ سمجھ لیتے )*

*"▣_عبدالملک بن عمیر یشی کا بیان ہے کہ میں نے کوفہ کے قصر امارت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک عبد اللہ بن زیاد کے سامنے ایک ڈھال پر رکھا ہوا دیکھا۔ پھر ای قصر میں عبداللہ بن زیاد کا سر مختار کے سامنے دیکھا، پھر اسی قصر میں مختار کا کٹا ہوا سر معصب بن زبیر کے سامنے دیکھا۔ ( تاریخ الخلفاء)* 

         ◆══◆══◆══◆══◆══◆
 *※_حضرت حسین نے کس مقصد کے لئے قربانی پیش کی ※*

*▣_ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے نام جو خط لکھا تھا۔ جس کے چند جملے یہ ہیں۔"_ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے۔ اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرو اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لئے کوشش کرو۔ ( کامل ابن اثیر ص ۹ ج ۴)*

*"▣_ فرذوق شاعر کے جواب میں جو کلمات کوفہ کے راستے میں آپ نے ارشاد فرمایا اس کے چند جملے یہ ہیں:-*
*"▣_ اگر تقدیر الہٰی مراد کے موافق ہوتی ہے تو ہم اللہ کا شکر کریں گے اور ہم شکر ادا کرنے میں بھی اس کی اعانت طلب کرتے ہیں۔ کہ ادائے شکر کی توفیق دی اور اگر تقدیر الہٰی مراد میں حائل ہو گئی تو اس شخص کا کوئی قصور نہیں جس کی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ (ابن اثیر )*

*"▣_ میدان جنگ کے خطبہ کے یہ الفاظ جب صاحبزاہ علی اکبر نے کہا کہ ابا جان کیا ہم حق پر نہیں‌ ؟ آپ نے فرمایا- قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب بندگان خدا کا رجوع ہے۔ بلاشبہ ہم حق پر ہیں_,"*

*"▣_ اہل بیت کے سامنے آپ کے آخری ارشادات کے یہ جملے پھر پڑھیئے۔ "_ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی۔ یا اللہ میں آپ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمیں شرافت نبوت سے نوازا اور ہمیں کان آنکھ اور دل دیئے جس سے ہم آپ کی آیات سمجھے۔ اور ہمیں آپ نے قرآن سکھایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی۔ ہمیں آپ اپنے شکر گزار بندوں میں داخل فرما لیجئے۔"*

*"▣_ ان خطبات اور کلمات کو سننے پڑھنے کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کو یہ شبہ ہو سکتا ہے۔ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حیرت انگیز قربانی اپنی حکومت واقتدار کے لئے تھے۔ بالکل نہیں، بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو اس مقدس ہستی کی عظیم الشان قربانی کو ان کی تصریحات کے خلاف بعض دنیاوی عزت اور اقتدار کی خاطر قرار دیتے ہیں ، حقیقت وہی ہے‌ جو شروع میں لکھ چکا ہوں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ساری قربانی اس لئے تھی کہ:-*
*"_ کتاب وسنت کے قانون کو صحیح طور پر رواج دیں،*
*"▣_ عالم اسلام کے نظام عدل کو از سر نو قائم کریں۔*
*"▣_ اسلام میں خلافت نبوت کی بجائے ملکیت و آمریت کی بدعت کا مقابلہ کریں۔*
*"▣_حق کے مقابلہ میں نہ زور وزر کی نمائش سے مرعوب ہوں اور نہ جان و مال اور اولاد کا خوف اس راستہ میں حائل ہو۔*
*"▣_ ہر خوف و ہراس مصیبت و مشقت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں اور اسی پر ہر حال میں توکل و اعتماد ہو۔ اور بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی اس کے شکر گزار بندے ثابت ہوں۔*

*"▣_ کوئی ہے جو جگر گوشہ رسول ﷺ کی اس پکار کو سنے اور ان کے مشن کو ان کے نقش قدم پر انجام دینے کیلئے تیار ہو۔ ان کے اخلاق حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد ٹھہرائے ۔*
*"▣_ یا اللہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واہل بیت اطہار کی محبت کاملہ اور اتباع کامل نصیب فرمائے۔*
 *"▣_ آمین یارب العالمین _,*

*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*

◰ ◱ ◴ ◵ ◶ ◷ ◸ ◹ ◺ ◸ ◹ ◺ ◶ ◷ ◸ ◹ ◺ ◸
        ━─━─━─━─━─━─━─ 
◳ ◴ ◵ ◶ ◷ ◸ ◹ ◺ ◸ ◹ ◺ ◶ ◷ ◸ ◹ ◺ ◸ ◹ ◺                                                     
             *✍ Haqq Ka Daayi ,*   
http://www.haqqkadaayi.com/
*👆🏻ہماری پچھلی سبھی پوسٹ ویپ سائٹ پر دیکھیں*
https://chat.whatsapp.com/FKxSPwjh0W2IBafzv6QMxa
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,* 
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,* 
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*                        
┣━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━┫
❂❂❂

Post a Comment

0 Comments