NOOR E HIDAYAT -3 (URDU)

❈❦ 3 ❦❈*      
               ☜█❈ *حق کا داعی*❈ █☞
               ☞❦ *نور -ے- ہدایت* ❦☜         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                      *☞_ تبلیغ کیا ہے _,*
 *❀★_ جو اپنا مرتبہ نہ چاہتا ہو کوئی مقام نہ چاہتا ہو کوئی عوج نہ چاہتا ہو جو کوئی بدل نہ چاہتا ہو وہ تبلیغی ہے،*

*★❀_ جو صرف مسلمان ہونے کی بات کرے کسی فرقے کی بات نہ کرے پھر تبلیغ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں،*

*❀★_ جو اللہ کے دین کو پہونچانے کے لیے پھرتا ہو، اپنی جان اپنا مال اپنا وقت لگا رہا ہو، سب سے حسین کام اللہ کے دین کو دوسروں تک پہونچانا ہے، ہے کوئی اللہ کی طرف اس سے بڑھ کر عمل پیش کرنے والا ،*

*❀★_ یہ پیغام حق دنیا کے آخری انسان تک پہونچانا اس سے زیادہ نفع بخش کام کوئی دوسرا نہیں، جس سے پوری امت نفع اٹھا رہی ہے، ہر مقتب کا ہر دیش کا مسلمان نفع اٹھا رہا ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞__پہل کرنے والے اگے بڑھنے والے اللہ کے قریب ہوں گے,*

*"❀_ سب سے بنیادی چیز اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کا یقین کرنا ہے, ایمان کو حاصل کرنا ہے, اللہ کی قدرت کا یقین کرنا ہے,*

*"❀_ سب سے پہلے کلمے والا یقین ہو اور نماز والا عمل ہو اور اس کے ذریعے سارے اعمال ٹھیک ہو رہے ہوں, کلمہ والا یقین جتنا اندر ہوگا دل میں اترے گا, جتنی دعوت کی فضا ہوگی اتنا کلمہ والا یقین دل میں اترے گا,*

*"❀_ اللہ فرما رہے ہیں مسلمانوں اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ, اپنی فکر کرو خاندان بستی اطراف اور پوری انسانیت کا غم کھاؤ, یہ محنت ہر مسلمان کرے, پوری زندگی کرے,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
        *☞_اعمال دعوت کو مکمل کرنا ہے:-*

*"❀_ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو مکمل کیا ہے, اس طرح کہ وہ اسی کے ہو کر رہے, جس وقت کا جو تقاضا ہوگا پورا کیا,*

*"❀_ مستقبل تقاضوں کی دنیا میں رہتے تھے صحابہ بلکہ یوں کہہ لیا جائے کہ 13 سالہ مکی زندگی کی محنت میں 10 سال تقاضہ پورا کرانے کی محنت تھی،*

*"❀_ 13 سالہ مکہ کی محنت میں ایسے صحابہ تیار ہوئے جنہوں نے 10 سال میں کوئی تقاضہ ضائع نہیں ہونے دیا, ایسا بن کر ائے تھے مدینہ میں کہ انصار کو بھی پورا پورا اس کام کے اندر مشغول کر لیا, جس وقت کا جو تقاضا ائے کھڑا ہو جانا ہے، اس بنیاد پر ائے تھے _,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__ اس کام کو ہم ثواب کا کام سمجھتے ہیں:-*

*"❀_★_ یا اجتمات ہونے کی وجہ سے، بیمار کے ٹھیک ہونے کی وجہ سے، یا کوئی مسائل ہونے کی وجہ سے کر رہے، صحابہ کرام کی ان وجوہات میں سے کوئی وجہ نہیں تھی اللہ کے راستے میں نکلنے کی،*

*❀_★_ ہر ایک کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ میں ساری دنیا کے لیے ہوں اور ساری دنیا میرے ذمے ہیں, یہ ذمہ داری ہر ایک پر تھی کیونکہ (فرمان خداوندی ہے) تم لوگوں کے فائدے کے لیے نکالے گئے ہو,*

*❀_★_ عبادات سے لے کر معاملات تک, اخلاق سے لے کر معاشرے تک, ہر ایک دین پر پورا پورا آیا ہوا تھا، ہر ایک پورے دین سے واقف تھا،*

*❀_★_ ایسا ماحول کیوں تھا؟ کیونکہ ہر ایک اپنی ذمہ داری کو نبھا رہا تھا ہر ایک نے اپنا جان مال خدا کے حوالے کر دیا تھا جنت کے عوج میں ک جنت لینی ہے, صحابہ خود فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی آدمی اپنے جان مال میں اپنا کوئی حصہ سمجھتا ہی نہیں تھا _,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__یہ ہے کام تو اللہ کی رضا اور اپنی آخرت بنانے کے لیے کرنا ہے:-*

*❀★_ تمام نبیوں کی دعوت میں یہی ہے، اس کے لیے موقع دیا گیا ہے آخرت بنانے کا اور دین دیا، دین ہوگا تو آخرت بنے گی ورنہ آخرت بگڑے گی،*

*❀★_ دین کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے, اس کا قبر میں سوال ہوگا, دین میں قبر میں گیا تو کامیاب ورنہ ناکام, یہ دین صدا رہے گا قبر میں حشر میں، آعمال چاروں طرف سے گھیر لیں گے، جو جگہ خالی پڑے گی وہاں صبر آ جائے گا، اس لیے دین پر دلوں کا جمانا ضروری ہے،*

*❀★_ دین کی طرف دل سے متوجہ ہونا ضروری ہے، دل کا لگانا ضروری ہے، طبیعت کا لگانا کافی نہیں طبیعت بدلتی رہتی ہے، دین کی محنت سے دین کا نفع کھلے گا، دین نہ ہونے کا نقصان کھلے گا، یہ بھی دل کے جمانے کا سبب ہے کہ کسی کام میں نفع نظر ائے،*

*❀★_ محنت میں فضائل, برکتیں ہیں, امید دلائی جاتی ہے, آدمی کا نفس گھبراتا ہے، حق سے گھبراتا ہے، آگے بڑھانے کے لیے ترغیب دی ہے اللہ نے، اپنا نفع نقصان سمجھ کر چلے گا تو چلے گا، غرض والا نہیں چلے گا، اغراض سے اس کام کا کوئی تعلق نہیں، یہ کام اللہ کی رضا اور آخرت بنانے کے لیے ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞__شکر گزاری کے ساتھ کام کرو:-*

*❀★_ اچھے حالات میں شکر کے ساتھ کام کریں, دلوں کا جمانا ضروری ہے، بعض مرتبہ دل پلٹ بھی جاتے ہیں، اچھے حالات ائے تو مغرور ہو گئے، برے حالات ائے تو نا امید ہو گئے، بھول گئے مقتصد زندگی کو،*

*❀★_ تندرستی مالداری آئی تو بھول گئا، یا حالات ٹوٹ پڑے تنگی بیماری اور دوسری باتیں آئیں تو کام سے بیٹھ گئے، دونوں صحیح نہیں، اچھے حالات میں شکر کے ساتھ اور برے حالات میں صبر کے ساتھ کام کریں، یہ نبیوں کا طریقہ ہے،*

*❀★_ شکر گزاری کی کیفیت سے اللہ کا کام کریں, حق شناس... ایسے بندے تھوڑے ہوتے ہیں، یہی طریقہ ہے اور یہی مطالبہ ہے،*

*❀★_ فرمایا- اے داؤد (علیہ السلام) کے خاندان والوں اپنی کار گزاری شکر گزاری والی بناؤ، میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہیں،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞_کام پر جمے رہنا شکر گزاری ہے :-*

*"❀_دین پر دین کے کام پر اطاعت پر جمے رہنا, استقامت شکر گزاری ہے اور پلٹ جانا بیٹھ جانا نا قدری ہے ،*

*"❀_مشرکین مکہ کو اللہ نے اتنی بڑی نعمت دی لیکن نعمت کے جواب میں کفر کیا, اپنی قوم کو بھی ہلاکت میں اتارا, نہ خود کرتے نہ کرنے دیتے, نا قدری کی تو اللہ انصار کو لے آئے، انصار مدینہ نے قدر کی تو دین کے ہر کام میں اگے رہے ،*

*"❀_کمی کوتاہی سستی ہو سکتی ہے لیکن ناقدری نہ کریں, معافی مانگیں, ایسے بندے اللہ کو پسند ہیں, نیکی ہو جائے تو اچھا سمجھے غلطی ہو جائے تو معافی مانگے، تو اللہ جمع دیں گے، یہ بھی ایک تقاضا ہے، استقامت پابندی اور شکر گزاری حق کا تقاضا ہے،*

*"❀_پسند کی چیز دی ہے تو وہاں لگے جہاں اللہ کی ناراضگی نہ ہو, نعمت ملے تو سوچو کہاں لگاؤں؟ اپنی نعمتوں کے لیے وہ راستہ اختیار کرو کہ دینے والا راضی ہو جائے,* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__مشکلات اپنے لئے، آسانی دوسروں کے لیے:-*

*"❀_ دین کی نصرت کا دروازہ قیامت تک کھلا رہے گا اور مسلمانوں سے تقاضا رہے گا کہ تم نصرت کرو, فرمان ہے- اے ایمان والو تم دین کی مدد کرو,*

*"❀_ نصرت یہ اہم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ہوتا_,* 

*"❀_ دین کی نصرت کرنے والوں کے لیے، دین کا کام کرنے والوں کے لیے دعا کرو، یہ طریقہ بتایا، کام کی بھی قدر کرو اور کام کرنے والوں کی بھی قدر کرو،*

*"❀_ ہر ایک کو ان کے عمل کے مطابق درجے ملیں گے، جو انصار (دین کی نصرت کرنے والے) کو ملے گا وہ تمہیں بھی ملے گا، کام کرنے والوں کی قدر کرو تعریف کرو اور ان کے حق شناس رہو کہ جو مجھ سے نہیں ہوتا یہ کر لیتے ہیں، جلن نہ ہو، دعا کرو کہ دعا کرنے والے خیر خواہ ہو گئے، تم مددگار ہو گئے ،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___اپنے اپ کو بڑھا نہ جانو_,*

*❀_ حسد اندر کی بڑائی سے پیدا ہوتا ہے کہ اپنے اپ کو بڑا سمجھا، اپنے اپ کو مقدس پاکیزہ نہ جانو یہ شیطانی خصلت ہے، شیطان کو حالانکہ علم بھی تھا لیکن حسد ملا، ہمدردی نہیں، اللہ جانتا ہے کون کیسا ہے؟*

*❀_ ہمدردی مخلص کو ہوتی ہے، اسلام نے ہمدردی سکھائی، بھلا چاہو ہمدرد بنو،*

*❀_ دین تو دوسروں کا بھلا چاہنے کا نام ہے، ہمدردی سے سب بھائی ہو گئے،*

*❀_ رائے مختلف ہوتی ہیں، کیونکہ سب اپنے دین کو چاہنے والے تھے، دین کی سمجھ تھی، جیسے دو وکیلوں کی رائے مختلف ہوتی ہے،*

*❀_ رائے کے اختلاف جائز ہے یہ سمجھدار ہونے کی دلیل ہے, مخالقت باطل ہونے کی نشانی ہے، مخلص ناگواری کے باوجود ساتھ دے گا، اللہ کے یہاں قبولیت کی امید ہے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__ہر حال میں اللہ سے راضی رہو :-*

*★_ دوسروں کو معاف کر، اپنے اپ کو معاف کر، ہمیشہ خوش رہے گا، تجھے اللہ نے جس حال میں رکھا ہے اس حال میں اللہ سے راضی رہے، نہیں تو ساری زندگی اپنے کو کوستا رہے گا،*.

*★_ جتنی عظمت ہم نے تھانے دار ایس پی کو دی ہوئی ہے کیا کبھی اللہ کو دی ؟*

*"★_ اللہ تیرا گھر ہے، جو مومن اپنے دل کو پاک کر لے گا وہ دل اللہ کا گھر ہے،*

*★_ آنسوؤں کا حساب رب کے پاس ہے، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ہم آنسوؤں کا حساب نہیں رکھتے، آنسو جو گرے بھی نہیں جہنم کی اگ کو بجھانے کے لیے کافی ہے، جو لڑیوں پر لڑیاں بہائے ہم ان کا حساب کہاں رکھے،*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___ ابنِ قیم رحمۃ اللہ کا قول ہے جو دعوت کا کام نہیں کرتا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبہ ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا،*

*"★_ اس پر فخر مت کرو کہ تم مال والے ہو ڈگری والے ہو, فخر اس پر کرو کہ تم اللہ کے کام والے ہو, نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام والے ہو ،*

*"★_کسی حاجی کی بدتمیزی سے حج نہیں چھوڑتے نمازی کی بدتمیزی سے نماز نہیں چھوڑتے پھر تبلیغ والوں کی بدتمیزی سے تبلیغ کیوں چھوڑتے ہو، دیکھ لیے تبلیغ والے ہم نے ! کام دیکھو بھائی کس کا ہے ؟ ہم تو ڈاکیا ہیں واسطہ ہیں,*

*"★_ یہ مت کہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ولا کام کرتا ہوں, یہ بول تکبر پیدا کرتا ہے, کسی صحابی نے نہیں کہا کہ میں نبی کا کام کرتا ہوں, یہ ہمارا کام ہے مگر تعارف کے لیے نہیں ہے، رستم نے پوچھا تو فرمایا ہم اللہ کا پیغام لے کر ائے ہیں،*

*"★_ حق ہے حقانیت ہے لیکن کرو مگر ڈرو, ہر اس بول سے بچو جو تکبر پیدا کرے، تکبر کے الفاظ، اپنے اپ کو بھول جائیں گے لوگوں کو کام سکھاتے پھریں گے تو پھر گرتا چلا جائے گا،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__ تربیت کے لیے وقت چاہیے:-*

*"★_ اس لیے وقت کا ایک نظام ہے جو اللہ کے لیے وقت دے گا اللہ اس کے دل کو حکمت کے نور سے بھر دے گا,*

*"★_ تبلیغ سے مراد تشکیل جوڑ اجتماعات وغیرہ نہیں بلکہ امت میں صفات اور یقینوں کی تبدیلی ہے ،*

*"★_تین وکٹ ہیں، توحید رسالت اور آخرت، بولنگ شیطان کر رہا ہے، ایمان کے ساتھ توحید رسالت اور آخرت کو بچانا ہے،*

*"★_ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے، کیا پتہ اللہ کس کو دے دے، لہذا سب پر محنت کرو خدانخواستہ ہماری اولاد کے مقدر میں نہیں پڑوسی کے مقدر میں ہو، اس کو نہ ملے تو اس کو تو مل جائے، گھر والوں کی ہدایت کا انتظار کرتے تو پھر نوح علیہ السلام تبلیغ کر ہی نہیں سکتے تھے, ان کا بیوی بیٹا مسلمان نہیں ہوئے،*

*"_ کسی کو ٹھیک کرنا ہمارے ذمہ نہیں، ہاں ٹھیک کرنے کی محنت ہمارے ذمے ہے،*

*"★_ جب فرائض مٹ رہے ہو تو تبلیغ فرض ہو جاتی ہے، ملتان میں بھرے شہر میں کھڑے ہو کر ایک ساتھی نے 21 آدمیوں سے پوچھا بھائی ہمارے نبی کا نام کیا ہے ؟ ١٩ نے کہا ہمیں پتہ نہیں، صرف دو نے بتایا، جب ایسے حالات ہوں تو ہمارا گھروں میں بیٹھے رہنا ظلم عظیم ہے اس کی معافی نہیں ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__ اپنی اصلاح کی نیت سے چلو :-*

*★_ مشورے سے چلو, خود رائے من مانی, اپنی طبیعت سے بچو، تانوں سے، اعتراضات سے بچو، تانوں سے امت ٹوٹتی ہے،*

*★_ اپنے دلوں کو زندہ رکھو, قران میں جی لگے, دین کے کام میں جی لگے, تنہائی میں جی لگے،*

*★_ اسلام میں بائیکاٹ نہیں ہے محبت ہے، اصول توڑنے والے سے اور محبت کرو، کسی کی کمی پر ترغیب دو،*

*★_ یہ تبلیغ کو بدنام کرتا ہے اس سے بات نہ کرو.... یہ غلط بیانی ہے، اس سے اور اچھا سلوک کرو تاکہ اس کا دل جڑتا جائے، محبت سے جوڑ پیدا ہوتا ہے، بچوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے الٹی سیدھی لکیروں پر بھی، تبلیغ میں ہم سب بچے ہیں،* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___دعوت عالمی ہے:-*

*★_ دعوت میں طاقت ہے, حق دعوت میں خدا کی مدد ساتھ ہے, باطل دعوت میں خدا کی مدد ساتھ نہیں,*

*★_ امت کو دو نعمتیں ملی ہیں دعوت اور دعا، جس کے پاس دعا ہوتی ہے وہ کامیاب ہوتا ہے، جس کے پاس دعا نہیں ہوتی وہ ناکامیاب ہوتا ہے، ہماری ناکامی دعا کی کمزوری کی وجہ سے ہے،*

*"★_ دین کی محنت کرو گے تواجو پیدا ہوگی اور تواجو پیدا ہوگی تو اللہ محبت کریں گے، اس دعوت کی محنت سے یہ یقین بنانا ہے کہ امت کے سارے مسئلے حل ہونگے اور یہ تب ہوگا جب اس محنت کو ہم یکسوئی کے ساتھ کریں گے،*

*★_ اگر دعوت کی محنت سے کامیابی اور امت کے مسئلوں کا حل ہوگا یہ یقین نہ بنا تو ساری محنت سے نفع نہیں ہوگا،* 

*★_ یہ کام مقامی نہیں عالمی ہے، امت کے اوپر جو حالات ہیں وہ ہماری محنت کی کمی کی وجہ سے ہے، یہ کام برکت کا نہیں بلکہ مقصد ہے، امت کے انفرادی اور اجتماعی مسئلوں کا حل ہے یہ دعوت کا کام،*

*★_ دعوت کا کام رحمت ہے، دنیا میں امن لانے کے لیے واحد راستہ دعوت کا کام ہے، ہمارا مقصد دین کی دعوت کی محنت ہے، داعی وہ ہے جو دعا کرتا ہو،* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞__امت کو صحابہ کی نقل حرکت پر اٹھانا ہے:-*

*★_ جب امت دعوت چھوڑے گی تو دین چھوڑے گی، دعوت دین کے سارے شعبوں کو پانی پہنچانے کا ذریعہ ہے،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر امتی کو داعی بنایا تھا, مولانا الیاس رحمتہ اللہ فرمایا کرتے تھے اللہ تم سے وہ کام لیں گے جو نبیوں سے نہ لیا ہو، اللہ کام کرنے والوں سے کام لیتے ہیں، اگر تم کام نہیں کرو گے تو اللہ کسی اور سے کام لے لیں گے، کام کرتے رہو اجر کو مت سوچو, اللہ کی مدد زوفہ کے ساتھ ہے,*

*★_ کام کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم دین سیکھ کر بیٹھ جائیں, کام کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں امت کو اس مقصد پر جمع کرنا ہے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو چھوڑا تھا، کام کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کلمہ نماز صحیح ہو بلکہ ہر شعبے میں صحیح دین آوے، امت کو صحابہ کی نقل حرکت پر اٹھانا ہے، حیات صحابہ اتنا پڑھو کہ دائیانہ مزاج بنے، دعوت امت کی صلاحیتوں کو باطل سے ہٹا کر حق کی طرف لاتی ہے،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___مقامی کام والا متحرک نہیں:-*

*"_ متحرک وہ ہے جو سالانہ 40 دن اور مہینے کے تین دن لگاتا ہو اور مقامی پانچ آعمال میں جڑتا ہو,*

*★_ امت اللہ کے راستے میں نہ جائے یہ امت کی مشغولی کی وجہ نہیں ہے، کمزوری تو ہمارے کام کرنے میں ہے،*

*★_ ہر شب گزاری (مرکز ) کے دن آنے والے مسجد والوں پر اگلے ہفتہ نقد جماعت لانے کا تقاضا ڈا لو،*

*★_ لوگوں کو مسجد کے ماحول میں لا کر تشکیل کرنا، گھر کی ملاقاتوں میں مختصر بات ہو اور نقد مسجد کی دعوت دے کر مسجد میں تشکیل ہو کیونکہ مسجد میں ماحول ہوتا ہے فرشتوں کا اور تشکیل اجتماعیت کا ماحول چاہتی ہے اور اس سے اور لوگوں کا اللہ کے راستے میں نکلنے کی حوصلہ افزائی ہوگی،*

*★_ حلقوں پر ذمے داری ڈالنے سے مسجد کا کام کمزور ہوتا ہے حلقے میں کام بڑھانا ہے تو حلقے کی مسجدوں پر تقاضے ڈالو،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___کار گزاری :-*

*"★_روزانہ گھر میں تعلیم چھ صفات کے ساتھ ہو اور چھ صفات کے بعد تشکیل کرو,*

*"★_ہر ساتھی حیات صحابہ اور مولانا الیاس رحمۃ اللہ کے ملفوظات پڑھے،*

*★_ روزانہ کی ملاقاتوں میں مکتب کی دعوت دیں، ہمارا کوئی بچہ بغیر قرآن پڑھے زندگی نہ گزارے،*

*★_ مسجد کے ہر ساتھی پر 10 ساتھی کی زندگی ڈالو، اس سے کہو کہ تجھے اپنی جماعت خود بنانی ہے،*

*★_ چھ صفات کا مذاکرہ ہو حدیث کی روشنی میں, صرف چھ نمبر گنوانا مقصد نہیں بلکہ ہر نمبر ہر صفات کا حدیث کی روشنی میں مذاکرہ ہو, اس طریقے سے چھ صفات کا مذاکرہ کرنے سے چھ صفات کی اہمیت پیدا ہوگی,*

*★_ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے والے دو اعمال ہیں, (١) پیدل جماعت (٢) مسجد کی آبادی، پیدل جماعت کی تشکیل کرنا ہے صحابہ کی نقل و حرکت کے واقعات پر, اس کے فضائل پر,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___ ہدایات ____:-*

*★_ ہمارے مذاکروں میں صحابہ کے نقل و حرکت کے مذاکرے زیادہ ہوں، بیرون کی جماعت ایسی جگہ ٹھہرانا ہے جہاں مسجد کی آبادی کی دعوت تعلیم استقبال والا عمل ہوتا ہو،*

*★_ طلبہ کو روزانہ کی محنت میں ساتھ رکھو، ہمیں علماء سے بھی سالانہ چار مہینے چاہیے، ہر جوڑ مشورے میں پیدل جماعتوں کی تشکیل ہو،*

*★_ ساتھیوں کے وقت کو وصول کرنا یہ صحابہ کی صفت تھی, ہمارا کام صرف مسجد پر موقوف نہیں، 13 سال کام بغیر مسجد کے ہوا اور 10 سال مسجد نبوی میں ہوا،*

*★_ جو بات تزکرہ میں سے نکل جائے گی وہ عمل سے نکلے گی، روزانہ ہر مشورے کے بعد پوچھا جائے گھر میں تعلیم چھ صفات کے ساتھ ہو رہی ہے یا نہیں،*

*★_ اگر اٹھ ساتھی دعوت تعلیم استقبال کے لیے نہ ہوں تو آٹھ ساتھی آنے کا انتظار نہ ہو بلکہ اٹھ ساتھی تیار کر کے کم سے کم باہر ملاقات کر کے مسجد میں لا کر عمل شروع ہو ،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___ تبلیغ کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم والی محنت زندہ کرنا ہے،*

*★_ محنت کے دو رخ ہیں, ایک باہر کی محنت اور نمبر دو مقامی محنت, مقامی محنت ادھوری ہے, جب مقامی محنت پورے طریقے سے ہوگی تو اللہ کے سارے وعدے پورے ہوں گے، جتنا مقامی کام مضبوط ہوگا اتنی باہر کی محنت زیادہ ہوگی، مقامی کام کے کمزوری کی وجہ سے وقت لگائے ہوئے ساتھی بیٹھ جاتے ہیں،*

*★_ کام کرنے والا اگر روزانہ دعوت نہیں دے گا تو اس کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا،*

*★_ تقاضے تو اللہ ان پر کھولتے ہیں جو محلے میں بستی میں اپنی جان کھپاتے ہیں ہیں ملاقات کے اندر،*

*★_ مسجد وار جماعت کے ساتھی محلے میں بسنے والے لوگوں پر نگاہ رکھیں کہ کب ان لوگوں کا وقت ہم لے سکتے ہیں,*

 *★_جو محلے بستی میں دین کے واسطے جان کھپاتے ہیں اللہ اس کا یقین بناتے ہیں,*

*★_ مضبوط مشورہ وہ ہے جس میں ہر طبقے کے لوگ موجود ہوں, انجینیئر تاجر ملازم طلبہ وغیرہ ،*

*★_ اصل محنت روزانہ کی محنت ہے، روزانہ کا مشورہ ہے، جو مسجد وار جماعت روزانہ جان کھپاتی ہے دین کے واسطے ان کا گشت والا عمل فکروں والا ہوگا رسمی گشت نہیں ہوگا،*

*★_ دوسرا گشت وہاں ہوگا جہاں محنت کی کوئی شکل نہیں ہے, دوسرا گشت پانچ چھ ہفتے کرنا ہے, تین دن کی جماعت جو جائے گی وہی مقامی کام کو کرنے والی بنے گی، تین دن کی جماعت میں بھرپور ترغیب دینا ہے مقامی کام کی، روزانہ کی محنت بہت زیادہ ضروری ہے،*

*★_ جو جماعت مسجد میں آتی ہے ان جماعتوں کے سامنے مشورہ کرو, پوری قوت طاقت کے ساتھ انے والی جماعت کا ساتھ دو، جماعتوں کو تقسیم مت کرو ،*
                 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___ مستورات کا کام نازک ہے:-*

*★_ مستورات کے کام کی اہمیت مردوں کے کام کی طرح ہو، محنت ناکس ہے اگر مستورات کے کام کو فکروں کے ساتھ نہ کیا گیا، مستورات کا کام جتنا اہم ہے اتنا ہی ناجک ہے،*

*★_ گھروں کی تعلیم یہ اعمال ہدایت ہے, ہر گھر میں اللہ کے ذکر کا ماحول اعمال کا ماحول بہت ضروری ہے, گھر کی شروعاتی محنت تعلیم کو زندہ کرنا ہے, گھروں کی تعلیم کا جائزہ مسجد وار جماعت میں لیا جائے،*

*★_ جب مستورات میں تعلیم ہو تو تعلیم کے بعد وقت لگائی ہوئی بہن خوب ترغیب دے، اجتماعی دعا نہ کرے،*

*★_ مستورات میں کام بڑھانے کی سب سے آسان ترتیب یہ ہے کہ مشورے میں بیٹھنے والے خود ہر تیسرے مہینے مستورات کے ساتھ وقت لگائے اور پھر نئے ساتھی کی تشکیل کرے،*

*★_ پردے کا خوب اہتمام ہو، بچے ساتھ میں نہ ہو، بہتر یہ ہے کہ وقت لگائی ہوئی مستورات ساتھ میں ہو،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞___اصول ہی کام ہے اور کام ہی اصول ہے :-*

*★_ جو اصول کے ساتھ کام کرے گا اللہ ساری دنیا میں اس سے ہدایت کا کام لے گا،*

*★_ جنت میں نہیں جا سکتے ایمان کے بغیر، ایمان نہیں لا سکتے محبت کے بغیر، میں کوئی ایسا طریقہ نہ بتاؤں محبت کے لیے... سلام کرو..,*

*★_ محبت بڑھانے کے لیے چار چیزوں کی پابندی کرو، سلام کرو، اکرام کرو، ہدیہ دو، تعریف کرو حوصلہ افزائی کرو،*

*★_ ان صفاتوں کو اپنے اندر پیدا کرو، جو توڑے اس سے جوڑو، حق سارے اس کو دو، ظلم کریں معاف کرو، برا کرے اچھا کرو، تواضع اختیار کرو، جتنی محنت بڑے اتنا آدمی جھکتا چلا جائے، سادگی اختیار کرو، حسن اخلاق ہو، سخاوت ہو،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                *☞____ کام کی قدر کرو :-*

*★_ یہ کام وہ کر سکتا ہے جن کے دل حسد سے پاک ہوں، اس کام کی قدردانی یہ ہے کہ دعوت کے تقاضوں پر جان اور مال کو جھونک دینا، یہ اس کام کی قدر دانی ہے اور کام سے جی چرانا یہ کام کی ناقدری ہے،*

*★_ اور جو نعمت کی ناقدری کرتا ہے اللہ اس سے نعمت چھین لیتے ہیں اور جو نعمت کا شکر ادا کرتا ہے اللہ اس کی نعمت کو بڑھا دیتے ہیں،*

*★_ کام کرنے والوں کے سامنے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کی سیرت ہوگی تو کام بڑھے گا, کام سنورے گا اور زیادہ کام ہوگا،*.

*★_ ہر کام کرنے والے کو آخرت کی فکر ہو اور کام کرتے وقت آخرت کی فکر ہو, مشورے میں ہر کام میں, لوگوں کو استعمال کرو, ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرو اور اگر کوئی نیا ساتھی اگے بڑھے تو اسے آگے بڑھاؤ، نہ کہ یہ سوچو کہ یہ ہم سے زیادہ اگے بڑھ جائے گا، اس لیے اس کو اگے نہ بڑھانا یہ غلط ہے،*

*★_ بات کرو تو پتی ٹھکی بات ہو, قران اور حدیث کی روشنی میں بات ہو,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞__ہر ساتھی عملی نمونہ بنے:-*

*★_ مفتی کا کام نہ کرو فتویٰ نہ دو ، حضرت جی رحمتہ اللہ علیہ نے 37 سال بخاری پڑھائی لیکن کبھی کوئی مسئلہ اپنی طرف سے منسوب کر کے نہیں بتایا، کام میں جب نفسیانیت، میں پنا آوے گا تو کام کی حقیقت نکل جاوے گی،*

*★_ کام کو رسمیت سے بچانا ہے، کام کرو صرف اخرت بنانے کے لیے، ہر ساتھی کو عملی نمونہ بننا ہے،*

*★_ جب دل اندھے ہوتے ہیں تو کچھ سمجھ نہیں اتا، بے دینی اتی ہے, دل بنتا ہے ایمان سے,*

*★_ دن میں انسانی سمندر میں تیرنا ہے یعنی دن بھر خوب ملاقاتیں کرو اور رات میں اللہ کا ذکر ہو, صرف تم ہو اور تمہارا اللہ ہو اور یہ کام کا بہت بڑا حصہ ہے,*

*★_ اس محنت میں جو سیکھنے کے جذبے سے چلے گا اللہ اسے سکھائیں گے,*

*★_ ہمیشہ تبلیغ تبلیغ نہ کرو گھر والوں کے ساتھ ہنسنا بولنا حال احوال لینا بھی ضروری ہے، سب سے پہلا حق اللہ اور رسول کا اور قران کا ہے اور پھر گھر پڑوس وغیرہ کا،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞__ اعمالِ دعوت اعمالِ نبوت ہے:-*

*★_ سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ہمیں پورے دل سے یقین ہو کہ دعوت کی محنت میں ہی تربیت ہے،*

*★_ اعمالِ دعوت اعمالِ نبوت ہیں, اعمالِ نبوت یہ ہدایت کے لیے کافی نہیں بلکہ یہ ضمانت ہے، دعوت ہر عمل کو اگے بڑھانے کے لیے ہے،*

*★_ مولانا الیاس رحمت اللہ کے ملفوظات روزانہ پڑھو, اللہ کی ذات سے تعلق پیدا کرنے کا راستہ ایک ہی ہے وہ دعوت والا راستہ ہے, گشت اس جذبے کے ساتھ کرنا ہے کہ میرا تعلق اللہ کی ذات سے جڑ جائے، اصل غرض ہے اپنے ذات کی، گشت کے لیے دو نمازوں کا وقت فارغ کرنا ہے اگلی نماز میں کمال پیدا کرنے کے لیے،*

*★_ انفرادی آعمال کے پہاڑ اجتماعی اعمال کے ذرے کے برابر ہے،*

*★_ آعمال دعوت کو تبلیغ کا کام سمجھ کے نہیں بلکہ سب سے زیادہ اللہ سے قرب حاصل کرنے کا راستہ سمجھ کر کرنا ہے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞__اپنے طریقوں اپنے تجربوں کو بیان نہ کرو:-*

*★_ ہم اپنے مذاکروں میں سب سے زیادہ صحابہ کے نقل و حرکت کے واقعات, حدیثوں کو بیان کریں, آج ہر کوئی اپنے اپنے تجربے اپنے طریقے سے بات کرتا ہے، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات، مولانا یوسف رحمت اللہ کے بیانات، حیات صحابہ انہی کتابوں کو اپنے مطالعے میں لاؤ،*

*★_ اللہ نے قیامت تک اپنے انے والے انسان کی ہدایت دعوت میں رکھی ہے, ہمارا سارا نظام صحابہ کے طریقوں پر ہے, ہمارے مذاکرے میں سب سے زیادہ ایمانیات کو بولنا ہے،*

*★_ جتنا اللہ کی بڑائی کو بولو گے اتنا تعلق اللہ سے بڑھے گا, اللہ پر یقین ان کا ہوگا جو اللہ کا تذکرہ اجتماعیت میں کریں،*

*★_ ایمانیت کے حلقے مسجدوں میں لگاؤ, مسجد کے ماحول میں لا کر بات کرنا یہ اصل ملاقات ہے, ہماری ساری ملاقاتوں کا مقصد ہر ایمان والے کو مسجد میں جمع کرنا ہے, ڈھائی گھنٹہ, گشت کی محنت ایمان والوں کو مسجدیں آباد کرانے کے لیے ہیں,*

*★_ ملاقات ضرور کروں ہر گھر ہر فرد سے کرو لیکن مسجد میں لانے کی کوشش کرو,*

*★_ پہلے اس شخص کی مسجد میں انے کی تشکیل کرو اگر وہ مسجد میں انے کا اجر کرے تو اسے ائندہ کے لیے مسجد میں انے کا وقت لو، پھر کوئی ساتھی اس سے بات کرنے کے لیے مشورے سے طے کرو،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞___ ایمانیات کو ایمان کی علامتوں کے ساتھ بیان کرو :-*

*★_ ایمانیات میں یہ باتیں زیادہ ہوں، اللہ کے بندوں میں اللہ کا تعارف، اللہ کی قدرت اللہ کی عظمت بتاؤ، انبیاء کے واقعات بیان کرو، صحابہ کی غیبی نصرتوں کو بیان کرو، انہی سے اللہ کے وعدوں کا یقین پیدا ہوگا،*.

 *★_ ہمارے اندر آج بزرگوں کے واقعات کرامات کے واقعات کا سننا بولنا زیادہ پسند کیا جاتا ہے لیکن اس سے نقصان یہ ہوگا کہ بزرگوں کے کرامات سے شقصیت کا یقین ائے گا اور صحابہ کے نصرتوں کے واقعات سے اللہ کے وعدوں کا یقین پیدا ہوگا،*

*★_ کرامات بیان کرنا ہمارا موضوع نہیں ہے، غیبی نصرتوں کو بیان کرنے سے امت آعمال پر کھڑی ہوگی، مولانا الیاس رحمتہ اللہ مجمع کو آعمال کے یقین سے اٹھاتے تھے،*

*★_ اگر کوئی مسجد میں اوے تو اسے فوراً محنت میں شامل کر لو، مسجد کو آباد نہیں کرنے والے یقین والے نہیں ہیں، اگر اٹھ ساتھی دعوت تعلیم استقبال کے نہ ہو اور ہم اٹھ پورا ہونے کا انتظار کریں یہ تو کام کو نہیں کرنے کی نشانی ہے،*

*★_ مسجد کو آباد کرنے والے کو اللہ رحمت راحت دیں گے, اللہ راضی ہوں گے, پل صراط پر پار کریں گے, جنت میں داخل کریں گے,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞__ اپنی ذات سے ثابت کرنا ہے:-*

*★_ ہم اپنی نمازوں کے مشق کریں, ہمارا کام امت کو صرف نماز کی اور بلانے کا نہیں بلکہ مشق کرانے کا ہے, اس بات کو ہم اپنی ذات سے ثابت کریں کہ ہم دعوت سے آعمال میں ترقی کر رہے ہیں،*

*★_ تہجد کا بہت اہتمام ہو، تہجد پڑھنے سے دن بھر کے کاموں میں اللہ کی مدد ہوگی،*

*★_ صبح صادق سے پہلے دیکھ کر قران پاک کی تلاوت کرو, اللہ ولی بنائیں گے لیکن سنتوں کا اہتمام ہونے پر,*

*★_ اذکار حسنہ کرو، صبح شام کے آعمال پابندی کے ساتھ کرو، تنہائیوں میں اللہ کا ذکر کا اہتمام ہو، اللہ کا ذکر دھیان کے ساتھ کرو، باوضو تنہائیوں میں کرو، اگر اللہ کے ذکر کو بغیر دھیان کے ساتھ کیا گیا تو یہ بدعت اور حرام ہے، ایسا مولانا الیاس رحمتہ اللہ فرمایا کرتے تھے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞__ دعوت میں حسن معاشرت:-*

*★_ دعوت میں حسن معاشرت ہے اور اس کا جواب نہیں, دعوت میں یہ نبیوں کے طریقے کار ہوتے ہیں، حسن معاشرت کہتے ہیں لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کو،*

*★_ لوگوں کو اللہ کی قدرت سمجھاؤ اپنی حیثیت نہیں, داعی وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو جوڑے، حسن معاشرت لوگوں کو کام سمجھاوے گا، کام حجم کراوے گا، اصل تو یہ ہے کہ لوگ کام سے اور کام کرنے والوں سے محبت کرنے لگے،*

 *★_ مولانا الیاس رحمۃ اللہ نے کبھی نہیں فرمایا کہ آؤ میں تمہیں اصول اور آداب بتاتا ہوں بلکہ یہ کہا کرتے تھے کہ ایک کام ہے جو لے کے بیٹھا ہوں میں، تھوڑے اصول اور آداب جانتا ہوں، یہ تو اللہ کرا رہا ہے،* 

*★_ حضرت عمر رضیہ اللہ عنہ بہت سخت تھے لیکن وہ اللہ کے حکم کے بارے میں سخت تھے لوگوں کے ساتھ کبھی سخت نہیں تھے,*

*★_ ایسا کبھی مت سوچنا کہ مجھ سے زیادہ سمجھدار کوئی نہیں ہے، صلاحیتوں سے کام لینا ضروری ہے اپنیت سے کام نہ لو، جس کی جیسی صلاحیت اس سے ویسا کام لو، خالی بات کرنا کافی نہیں ہے، کسی کے دل میں کسی کی برائی نہ آوے، نبی کے کام سے جو چیز پیدا ہوگی وہ حسن معاشرت ہے،*

*★_ ہر کام کرنے والا ہر مسلمان سے حسن معاشت کرے ,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞___ ہم امت والے ہیں:-*

*★_ کوئی اپنے اپ کو تبلیغ والا سمجھے وہ خطا کار ہے, ہم تو امت والے ہیں,*

*"_ نظریہ کو مسلکوں کو چھوڑو، ایمان کی نسبت رکھو، دعوت کی خوبیوں میں سے ہے حسن معاشرت، دعوت خوبیوں والی دو خالی اصولوں والی دعوت نہیں، ہماری نیت میں بھی خوبی ہو،*

*★_ داعی کے پاس حسن آعمال ہے، حسن آعمال وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو، حسن نیت حسن اخلاق حسن آعمال سب ضروری ہے،*

*★_ اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جو حسن اخلاق نہ ہو، نبیوں کی سیرت پڑھو کہ وہ کیسے اخلاق سے پیش آتے تھے، حسن اخلاق داعی کی صفت ہے،*

*★_ حسن ظن بھی ضروری ہے، اللہ سے بھی حسن ظن یعنی اچھا گمان رکھنا اللہ سے، دینی معاشرت میں بدگمانی ناجائز ہے، اگر لوگوں کے بارے میں اچھا گمان ہے تو تم لوگوں کو اللہ کی طرف کھینچ پاؤ گے، ذہن صاف ہونا بہت ضروری ہے،*

*★_ حسن اسلوب یعنی بات کرنے کا ڈھنگ ہو، اگر بات کرنے کا ڈھنگ ہوگا تو سامنے والا اپنی غلطی بھی مانے گا، بات سمجھانے کا ڈھنگ ہو،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی نے آپ سے زنا کی اجازت مانگی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے کے ڈھنگ سے وہ سمجھ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حقیر نہیں سمجھا بلکہ اس کے لیے دعا کی،* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞___ ہر ایک کو اپنا سمجھو:-*

*★_ ایک اہم بات لوگوں کو درگاہ وغیرہ پر جانے سے مت روکو بلکہ اس سے یوں کہو کہ بھائی یہ نیک بزرگ لوگ ہیں، ان کے پاس جا رہے ہو تو نیک بن کر جاؤ،*

*★_ وضو کرو دعا کرو اللہ کے سامنے اور یوں کہو کہ قبروں کی زیارت کرنا اچھا ہے اور پھر یوں کہو کہ اس مسجد یعنی ہماری مسجد میں بھی یہی ہوتا ہے, آپ بھی انے کی کوشش کرو،*

*★_ اس کام کا سب سے بڑا نقصان دلوں کی فٹن سے ہے، ہر ایک کو اپنا سمجھو جو بھی مسلک کا ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو منافق کو بھی اپنا سمجھتے تھے، ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ میں کیسے اسے جہنم سے بچا لوں،*

*★_ اپنے کیے ہوئے کام کو اللہ سے قبول کرواؤ, ہر ایک کے لیے دعا کرنا, جس کے دل میں حسد ہوگا وہ دعا نہیں مانگے گا, جس سے حسد ہو اس کا نام لے کر اس کے لیے زیادہ دعا کرو,* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞___یہ اللہ کا کام ہے:-*

*★_ کوئی اپنی قابلیت کے مطابق کام نہیں کر سکتا، اللہ کا ضابطہ ہے کام لینے کا، جو اللہ کے احکام پورا کرے اس سے کام لیں گے،*

*★_ کام کرنے والوں کی 2 ذمہ داریاں انفرادی اور اجتماعی، انفرادی اللہ کے ساتھ اور اجتماعی امت کے ساتھ،*

*★_ امام صرف 4 رکعت پڑھا دینے والا نہیں بلکہ امام تو پیشوائے دین ہے،*

*★_ اللہ کی مدد سنتوں کے ساتھ ہے، سنت دعوت آپ کی دعوت کا کیا مزاج ہے ؟ دعوت کا کام مزاج نبوت پر چلے گا،*

*★_ دعوت کی سنت کیا ہے ؟ اپ کی دعوت میں عمومیت تھی، نیچے کی طبقے سے کام کو بڑھانا یہ سنت ہے، سب سے پہلے یہ طبقے مرتد ہوں گے، غربت جہالت فرصت،*

*★_ جتنا نیچے کی طبقے میں کام کرو گے اتنی تربیت ہوگی،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞____ مزاج دعوت :-*

*★_ ہر فرد کو دعوت دینا یہ مزاج دعوت ہے، داعی کے مزاج کے اندر نرمی اور وسعت ہو، تنگ نظری سے فرقہ بنتا ہے امت نہیں،*

*★_ سلام جان پہچان والوں کو کرنا قیامت کی نشانی ہے, ہمارے اندر خوب وسعت ہو, ہم کسی طبقے کو نہیں جانتے ہمیں تو ساری امت چاہیے،*

*★_ داعی کا صبر اس کی قبر سے وسیع ہے, اس راستے میں ناگواری آوے گی، جو ناگواری کو برداشت نہ کرے وہ نبیوں والے کام کو کرنے کی تیاری میں نہیں،*

*★_ یہ ناگواری نبوت والی ناگواری ہے، داعی کے مزاج میں وسعت ہوتی ہے، جو ناگواریوں سے گزرے گا وہ حق تک پہنچے گا،*

*★_ کام کرنے والوں کے مزاج میں در گزر کرنا ہو، جو آپ کے ساتھ غلطی کرے آپ اس کو معاف کرو،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞____ مزاج نبوت :-*

*★_ ساتھیوں کی کمزوریوں کو چھپایا کرو،*

*★_ حضرت عمر رضیہ اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ ہماری لڑکی سے زنا ہو گیا اور اب کچھ لوگ لڑکی کا رشتہ لے کر ائے ہیں اور لڑکی میں عیب ہے، اب ہم کیا کریں، حضرت عمر رضیہ اللہ عنہ نے کہا اگر تم یہ بات بتاؤ گے تو میں تمہیں بہت سخت سزا دوں گا،*

*★_ ساتھیوں کو لے کر چلنا ان کی کمزوریوں کے باوجود یہ بڑے دل کی بات ہے, اگر ساتھی سے غلطی ہو جائے تو ان کی قربانیوں کو یاد کرو, جس ساتھی سے بے اصولی ہو اس کے لیے ہر ساتھی استغفار کرے،*

*★_ اگر ساتھی اپ کو ستائے تو آپ اس سے درگزر کرو، اپنے ساتھیوں کو ہر قیمت پر ساتھ لے کر چلو، ساتھی کے اوپر کوئی حال آئے تو اس کا حال بانٹو،*

*★_ جن کے دلوں میں امت کی طرف سے یا ساتھی کی طرف سے ساتھی کی طرف سے استغنا ( فائدہ اٹھانے کی غرض) ہو تو اللہ اس سے کام نہیں لیں گے ,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞____اصول دعوت:-* 

*★_ پرانے وقت لگائے ہوئے کام سے بیٹھ جائیں اور نیا املہ کام میں آنے لگے یہ کام کی کمزوری ہے،*

*★_ ساتھی کو جوڑنے کے اصول:- نرمی سے پیش آنا، معاف کرنا، تربیت اللہ سے کراؤ تربیت اللہ کا کام ہے، ہم تو رہبر ہیں،*

*★_ مشورہ اجتماعیت کا بندھن ہے، جس طرح اسلام میں نماز کا درجہ ہے اسی طرح مشورے کا درجہ دعوت میں ہے، اللہ نے قران میں مشورہ اور نماز دونوں چیزوں کو بتایا ہے،*

*★_ مشورے کی اہمیت نماز کی طرح ہے, نماز کی طرح یہ عمل اجتماعی ہے, جس طرح نماز ہر ایک کے لیے ہے اسی طرح مشورہ سب کے لیے ہے ,مسجد میں انے والے مصلی کا مشورہ ہے،*

*★_ یہ ایسا کام ہے جو سارے طبقوں کو جوڑے گا، ہمارے مشورے کی بنیاد تبلیغی امور پورا کرنا نہیں ہے بلکہ مشورے کا مقصد امت کے دلوں میں یہ احساس ہو کہ اللہ کا دین مٹ رہا ہے،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞__مشورہ دعوت میں نماز کی طرح ہے,*

*"★_ مشورہ اجتماعی ہے، جس طرح نماز کا امام ہے اسی طرح مشورے کا امیر ہے، اگر امیر سے فیصلہ غلط ہوا تو جس طرح نماز کی ذمہ داری امام پر ہے اسی طرح مشورے کی ذمے داری امیر پر ہے،*

*★_ جس طرح نماز میں امام کے حوالے سے سارے نمازی ہوتے ہیں، اسی طرح مشورے میں امیر کے حوالے ہونا ہے،*

*★_ ہر ساتھی سے رائے لو یہ ضروری ہے، رائے لینا ایسا ہے جیسا امام کو لقمہ دینا ہے، سارا مشورہ نماز کی طرح ہے، جیسے کہ جو نماز میں ہوتا ہے وہی امام کو لقمہ دیتا ہے، جو نماز کے باہر ہے وہ امام کو لقمہ نہیں دے سکتا، اسی طرح کسی کو کچھ رائے دینا ہے تو مشورے میں آ کر رکھے،*

*"★_ اگر کوئی یہ سوچے کہ مجھ سے رائے نہیں لی گئی تو اس کے اندر تکبر ہے، رائے دینا کام کا حق ہے, لقمہ دینا نماز کا حق ہے، ہر ایک ساتھی کو یہی سوچ کر رائے دینا ہے کہ میری رائے میں کتنا نفس کا دخل ہے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی رائے میں نفس کا دخل نہیں ہوگا اللہ کا فیصلہ اس کی رائے کے ساتھ ہوگا،*

*★_ جس کی رائے پر فیصلہ نہ ہو وہ تو خوش ہو جائے، جس کی رائے طے ہو جائے وہ استغفار کرے،*.

*"★_ مشورے کا نقصان یہ ہے کہ ذاتی مسائل کا دخل مشورے میں ہو, ذاتی چیزوں کا کوئی اجتماعی مشورہ نہیں، جتنا مشوروں کو کام کے لیے خالی کرو گے اتنا کام اگے بڑھے گا،*

*★"_ سفارش رائے ہو سکتی ہیں لیکن یہ مشورہ نہیں ہوگا ،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *☞__ سنت عبادت، سنت عادت :-*

*★_ اللہ کے ساتھ تنہائی بڑھاؤ، جب آپ دعوت سے فارغ ہو جائیں تو عبادت میں لگ جاؤ اور جب عبادت سے فارغ ہو جائیں تو دعا میں لگ جاؤ، یہ اللہ کا حکم ہے،*

*★_ اللہ کے یہاں اپنے اپ کو قبول کراؤ، دو راستے ہیں دعوت اور عبادت،*

*★_ سنت کا اہتمام زیادہ ہو, اللہ کی مدد سنت کے ساتھ ہے, جس کی زندگی میں سنت زیادہ ہوگی اللہ اس کا رعب لوگوں پر ڈالیں گے, سنت دعوت سنت عبادت سنت عادت,*

*★_ اپنے اپ کو قبول کراؤ اللہ کے یہاں قربانی سے، دین کی محنت میں قربانی اور اللہ کے تعلق سے اگے بڑھا جاتا ہے،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
     *☞__ اپنی اصلاح کی فکر ضروری ہے :-*

*★_ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا یہ شیطانی گناہ ہے اور یہ مرض یعنی دوسروں کو حقیر سمجھنا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا دکھائی نہیں دیتا،*

*★_ حضرت جی رحمۃ اللہ فرمایا کرتے تھے شروع میں ہر نیا ساتھی خوب محنت خوب عبادت تسبیح رونا دھونا کرتا ہے لیکن بعد میں اس بات کی بھی فکر کرنا ہے،*

*★_ دوسروں کی اصلاح یہ فرض نہیں ہے یہ تو ذمہ داری ہے لیکن اپنی اصلاح یہ فرض ہے،*

*★_ عزائم اور ہمت، ارادے اس لیے ہیں کہ ہمارا جان مال صلاحیت کا صحیح استعمال ہو اور امت کا جان مال صلاحیت کا بھی استعمال صحیح ہو،*

*★_ اللہ کی مدد ذمہ داری اوڑھنے پر آتی ہے,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _دعوت میں اخلاص ضروری ہے :-*

*★_ دعوت نسلوں تک کے دروازے کھلا دیتی ہے،*

*★_ ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں، دعوت کے بھی دو رخ ہیں، جتنا اس کام میں اخلاص کی ضرورت ہے اتنا ہی استخلاص یعنی یکسوئی کی ضرورت ہے،*

*★_ اور پھر کر کے یوں کہنا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا بلکہ میں نے ظلم کیا،*

*★_ اس محنت کو رسم سے بچانا ہے، ہر ایک کو یہ سوچنا فکر کرنا ضروری ہے کہ تبلیغ سے مجھے کیا نفع ہوا، میری ذات میں کیا بدلاؤ ہوا یعنی ایمان میں کتنی بڑھوتری ہوئی أعمال میں کیا اضافہ ہوا، یہ سوچنا ہے،*

*★_ اس محنت میں چلنے والا اپنی فکر زیادہ کرے,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ کام کو مقصد بنا کر کرو:-*

*★_ ابھی تک ہم دعوت کو خیر کا کام سمجھ رہے ہیں مگر مقصد نہیں بنایا،*.

*★_ اللہ اپنے دین کا خود مددگار ہے حامی ہے، ہمارا یہ کام رحمت ہے بارش کے پانی کی طرح، اس کو تو پھیلنا ہی چاہیے،*

*★_ ہماری سارے عالم کے اعتبار سے ذمہ داری ہے, اس امت کی مدد بھی با عالم اعتبار ہوگی, نبیوں کی امد بند ہوئی لیکن نبیوں والی مدد جاری ہے,*

*★_ اللہ امت کو امت کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں گے، جتنی ذمہ داری اٹھائی جائے گی اپنے اوپر اتنی اللہ کی مدد ملے گی،*

*★_ اللہ نے حق کو ہمیشہ سامانوں کی کمی میں پھیلایا مسئلہ تو قربانی پر محفوظ ہے،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *☞ __دعوت سے دین اتا ہے:-*

*★_ دعوت والا دین چاہے گا دعوت والا ہدایت چاہے گا،*

*★_ امت میں اجتماعیت ضروری ہے، اگر تمہاری نمازیں تمہاری تلاوتیں تمہارا ذکر عرش تک پہنچ جائے مگر تم میں اجتماعیت نہیں آئی تو اللہ کی مدد نہیں ائے گی،*

*★_ حالات سے نہیں گھبرانا ہے، حالات تو اللہ تعالی انعام دلانے کے لیے عطا فرماتے ہیں، جیسے گرمی کا روزہ، مومن کو حالات سے ترقی ہوتی ہے، اللہ کے انعام جو ائیں گے وہ حالت پر سوار ہو کر ائیں گے،*

*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم والا دین لانے کے لیے استقامت شرط ہے،*

*★_ حالات کے ساتھ اپنی طاقت لگاتے رہو، حالات کے حساب سے کام نہیں کرنا حکم کے حساب سے کرنا ہے، کام حکم کے حساب سے ہوگا تو استقامت ہوگی،*

*★_ کھیتوں کا پانی دیکھا جاتا ہے فصل دیکھی جاتی ہے محنت کا مقصد رخ کا پلٹنا ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
        *☞ _ ہم حکم والے ہیں :-*

*★_ ہماری عبادتیں ہمیں تعلیم دیتی ہیں کہ ہم حکم والے ہیں، حکم کے تابع ہیں حال کے تابع نہیں،*

*★_ جو کام سے جڑتے ہیں وہ فتنوں سے بچیں گے، اس سے قربانیاں وجود میں ائیں گی، پھر اطاعت پر ائے گا، جب اطاعت ائے گی تو ہدایت ائے گی،*

*★_ اصول پر چلنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے اپ کو اصولوں پر لاؤ،*

*★_ پابندیاں اپنے لیے ہوں اور آسانیاں دوسروں کے لیے ہوں، آسانیاں اپنے لیے اور پریشانی دوسروں کے لیے یہ سیاست کا طریقہ ہے، یہ ظالم بنتے ہیں،*

*★_ ہمیں پوری امت کو دین پر لانا ہے اس لیے رعایت ضروری ہے, اصل اس کام کا مزاج عمومی ہے, جتنا عموم طاقتور ہوگا اتنا کام طاقتور ہوگا,*

*★_ عام مسلمانوں میں یہ دین آ جاوے اس کے لیے خصوصیت سے بچنا ہے،*

*★_ جو لوگ دین سے نکل جاتے ہیں اس کے دو سبب ہیں, ایک تو اخلاص کی کمی دوسرا ناواقفیت، جہالت _,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
     *☞ __ اللہ نیکو سے کام لیتے ہیں:-*

*★_ جو نیک ہوگا صالح ہوگا اللہ اسی سے یہ کام لیتا ہے,*

*★_ ہماری دعوت اذان والی ترتیب پر ہے، ہم دعوت بھی دیں گے اور عبادت بھی کریں گے، ہم صفاتوں کی دعوت دیں گے اور صفاتوں پر خود بھی چلیں گے،*

*★_ مشورہ یہ ہے کہ شہد کی مکھیوں سے شہد نکال لیا جائے، مکھی کوئی مرے نہیں اور گندگی بھی نہ ہو، کسی ساتھی کا دل نہ ٹوٹے _,*

*★_ کام کرنے والا تل ملائے گا اللہ کے سامنے بندوں کے سامنے نہیں گڑگڑاتا، کام بنے گا اللہ کی توفیق سے،* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ پہنچنا اور ہے اور پہونچانا اور ہے،*

*★_ تین قربانیاں لگتی ہیں- بچے عورت اور مرد، تینوں کی قربانیاں مل جاتی ہے تو خدا کو ترس اتا ہے، ابراہیم علیہ السلام کی دعا پھر اللہ کو پسند ائی،*

*★_ پانی پلاتے ہی انگور نہیں آتے، ایک نظام ہے ایک ترتیب ہے، محنت پوری کی جاتی ہے تب اثر دکھتا ہے،*

*★_ کہنے کا انتظار کرنے والا کچا نمازی ہے, نماز اذان سے نہیں وقت سے شروع ہوتی ہے، ہم کیوں انتظار کریں اذان کا کہ کوئی ائے گا ہم سے کہے گا،*

*★_ اللہ کی طرف سے جو وعدے ہیں وہ وعدے ہمیں بے چین کر دیں,*

*★_ ہر ایک کی بے چینی کا یہ جملہ ہونا چاہیے کہ دین مٹے اور ہم زندہ رہیں ؟ جو جملہ ابوبکر صدیق رضیہ اللہ عنہ کا تھا,* 
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ کام کے حق ہونے کی دلیل :-*

*★_ اس کام کے حق ہونے اور نبیوں والا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کام میں رکاوٹیں ائیں گی، اگر رکاوٹیں نہ ہوں تو پھر وہ نبیوں والی محنت نہیں ہے، کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے نبی کے کام میں ساتھ دیا,*

*★_ رکاوٹیں ہمیں اگے بڑھاوے پیچھے نہ ہٹاوے, اس کے لیے اس کا یقین بھی ہو تو استقامت ہوگی,*

*★_ دعوت نبوت کی محنت اس کی ابتدا سے انتہا تک مخالفت ہے, اگر یہ چیز پیدا نہ ہوئی تو پھر تنظیم کہلائے گی,*

*★_ حضرت جی رحمتہ اللہ فرماتے تھے اگر کام میں تمہیں ناگواری پیش ائے تو یہ سوچا کرو کہ صحابہ کرام کو یہ ناگواری کہاں پیش آئی اور ان حالات میں انہوں نے کیا عمل کیا، کس طرح صبر کیا،*

*★_ اگر قربانی کا معیار اس سطح تک پہنچا تو اللہ کی مدد ہوگی_,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ ___دعوت میں حکمت:-*

*★_ اگر دعوت میں ضعف آیا تو محنت میں بھی ضعف ائے گا،*

*★_ یہ کام داعیانہ مزاج سے چلے گا, اس کام میں کام کرنے والوں کی طبیعت میں صبر ہو, اس راستے میں آنے والی تمام ناگواریوں پر صبر کریں, تحمل ہو, اسی کو آزمایا جاتا ہے،*

*★_ تنگ دلی سے فرقے بنتے ہیں امت نہیں,*

*★_ داعی کے مزاج میں وسعت ہوتی ہے, دعوت میں عمومیت ہے, باتوں سے پہلے حکمت ہے, اکرام سے بڑھ کر کوئی حکمت نہیں, حکمت پہلے اچھی بات بعد میں کیونکہ حکمت سے بات کو قبول کروایا جاتا ہے, حکمت سے بڑا کوئی راستہ نہیں دعوت پہنچانے کا, اسی لیے نبیوں سے بکریاں تک چروائی ہے اللہ نے,* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ ___ قبولیت کی شرائط:-*

*★_ اپنے اپ کو اللہ کے یہاں قبول کرواؤ, قبولیت کی شرائط یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی اس کام کو کرتے ہوئے نمونہ بنے،*

*★_ حضرت جی رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ اس کام کو کرنے والوں کی زندگی اجتماعی ہے، لوگ تمہارے معاملات اخلاق سبھی دیکھیں گے،*

*★_ یہ اللہ کا ضابطہ ہے اللہ کا قانون ہے، اللہ یہ کام ان سے لیں گے جو اللہ کے ضابطے پر پورے اتریں گے،*

*★_ ہمارے معاملات اخلاق میں اتنی ترقی ہو کہ ہم دین کے رہبر بنیں,*

*★_ سب سے پہلے سوال ہے اپنی ذاتی زندگی کے نمونہ بننے کا، تاکہ اللہ ہم سے کام لے کیونکہ کام اللہ کا ہے، اللہ اپنے دین کا محافظ ہے، اللہ کے دین کی حفاظت جن کے ہاتھوں ہوگی اللہ یہ کام ان سے لیں گے،*

*★_ حضرت جی رحمتہ اللہ فرماتے تھے کہ جس کا اپنا ذاتی تعلق اللہ کے ساتھ کمزور ہے وہ اللہ سے رابطہ نہیں کر سکتا, اسی لیے اللہ سے ذاتی تعلق گہرا ہو,*.

*★_ اللہ تو خود چنتے ہیں، دنیا کے کام کے لیے دنیا والے چنتے ہیں، دین کے کام کے لیے اللہ خود چنتے ہیں،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ ___ _سنتوں کا اہتمام:-*

*★_ اللہ کی مدد نازل کروائے گا سنتوں کا اہتمام, جو آعمال اللہ کی رضا والے آعمال ہیں وہ اللہ کی مدد لائیں گے, اللہ نے سنتوں میں جوہر رکھا ہے،*

*★_ ہمیں تین اعتبار سے سنتوں پر انا ہے:- (١) سنت دعوت (٢) سنت عبادت اور (٣) سنت عادت,*

*★_ سنت دعوت یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہ السلام کے درمیان یہ محنت مشترک رہی ہے, اس میں نبوت والا صحابہ والا مزاج آوے،*

*★_ سنت عبادت یہ ہے کہ ہمارا اللہ کے درمیان تعلق گہرا ہو, اپنی عبادت میں کمال پیدا کرو, جتنا ہمارا تعلق اللہ سے گہرا ہوگا اتنی مدد ملے گی,*

*★_ سنت عادت یہ ہے کہ ہمیں سنتوں کے بغیر چین نہ آوے، مسلمان کو غیروں سے الگ ہی سنت کرے گی، سنتوں سے امتیاز حاصل ہوگا، ہمیں غیروں میں چھانٹا ہی سنتوں کی وجہ سے جاوے گا،*.

*★_ ہم میں اور صحابہ میں یہی فرق ہے کہ صحابہ سنتوں پر عمل کرتے تھے سنت ہونے کی وجہ سے اور ہم سنت چھوڑ دیتے ہیں سنت ہونے کی وجہ سے کہ سنت ہی تو ہے,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ ____دعوت کے اصول:-*

*★_ اس کام کے کرنے والوں کا مزاج کیسا ہو؟ ہر آدمی اپنے مزاج سے چلے نہیں, اس کام میں تو مزاج نبوت چلے گا, نبوت کے مزاج میں سب سے بڑی چیز وہ نرمی ہے, اسی لیے اس کام میں سختی نہیں ہے مذاکرہ ہے, داعی کے مزاج میں نرمی ہونا چاہیے,*

*★_ جتنے دعوت کے اصول ہیں اطاعت پر ہیں, یہ کام ترغیب سے لیا جائے گا، بے اصولیوں کو چھوٹا کیا کرو بڑا نہیں، بے اصولیوں پر ساتھیوں کو اصول کی تعلیم دو، ہمارے یہاں تذکیر ہے بس یاد دلاتے رہو، اس کام کو وہ کریں گے جو بھولتے چلے آ رہے ہیں کوئی فرشتے نہیں ائیں گے،*

*★_ کسی کی بے اصولی تلاش نہ کرو, دیکھ لو تو کسی کو خبر نہ کرو, یہ خبر کرنے والے نے اس سے بھی زیادہ برا کام کیا, جس نے زنا کی خبر کی اس نے زنا سے بڑا کام کیا، غیبت زنا سے بڑا گناہ ہے _,*

*★_ غلطیوں کی، بے اصولیوں کی خبر دینے سے باطل پھیلتا ہے _,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ __قربانیوں پر نظر ہو :-*

*★_اپنی کوتاہیوں پر اور ساتھیوں کی قربانیوں پر نظر رکھو، اس سے ایثار پیدا ہوگا اجتماعیت ہوگی،*

*★_ بے اصولی کو چھپانا ترغیب بنے گا, ہمارے یہاں جس چیز کو عمل میں لانا ہے اس کا تذکرہ ہے,*

*★_اس راستے میں دو بے اصولیاں ہوتی ہیں, ١- کام کے ساتھ, ٢- کام کرنے والوں کے ساتھ,*

*★_ اگر اپنے ساتھ بے اصولی ہو تو درگزر کریں, اگر کام کے ساتھ بے اصولی ہو تو استغفار کریں,*

*★_ نہ نبی کو شکایت کا حکم ہے نہ نبی چاہتے ہیں کہ ان سے کوئی کسی کی شکایت کرے،* 

*★_ اپنے ساتھیوں کے لیے استغفار کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو مشرکین کے لیے بھی استغفار کر رہے ،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ __مشورے کی اہمیت :-*

*★_اللہ نے مشورے کو نماز کے ساتھ بیان کیا اس سے مشورے کی اہمیت کا اندازہ لگاؤ, امت عبادت پر جمع ہوگی نماز میں, دعوت پر جمع ہوگی مشورے میں _,*

*★_کام کا مشورہ ہے, ہر ایمان والے میں چاہے کسی درجے کا ہو اس کے دل میں اللہ کے دین کی فکر پیدا کرنا یہ مشورے کا مقصد ہے ,*

*★_مشورہ کام سے جڑنے کا سبب ہے اور مشورہ کام سے کٹنے کا سبب بھی ہے, انتظام کا مشورہ الگ سے ہو ,*

*★_اپنے تقاضوں کو قربان کر کے مشورے میں آؤ, اللہ نے مشورے کو تمہارے لیے رحمت بنایا ہے, ساتھیوں سے رائے لو، جب رائے نہیں لی جاوے گی تو تقاضے بوجھ بن جائیں گے ،*

*★_اجتماعی طور پر پوچھنا سوچنا اور کرنا، ہمارے یہاں جان کا مطالبہ ہے مال کا نہیں، یہ کام کو ختم کرنے والی چیز ہے (مال)*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ _کام کا یقین ہو:-*

*★_ اگر کام کا یقین نہیں تو آعمال دعوت ناقص رہیں گے،*

*★_ گھر کے اندر کیے جانے والے اعمال اللہ رب العزت ان اعمالوں کے ذریعے تمہیں پاک کرنا چاہتے ہیں،*

*★_ تعلیم ذکر اتنا مؤثر عمل ہے کہ عمر رضیہ اللہ عنہ قتل کے ارادے سے چلے لیکن کیفیات بدل گئیں، یہ گھر کی تعلیم کا اثر تھا،*

*★_ جس کی ترغیب نہ ہو اس کی ترتیب کبھی قائم نہیں ہو سکتی،*

*★_ اللہ کے راستے کے فضائل خوب بیان کیا کرو تاک ہماری طبیعت بدلے مزاج بدلے، نصرت آج بھی ہے اس کا یقین ہونا چاہیے، یہ استقامت کا سبب بنے گا، استقامت کا راز یہ ہے کہ اس محنت کو اپنے لیے کرو،*

*★_ دعوت اپنی ذات کے لیے ہے' اللہ کے عذاب سے ڈرانا خود اپنی ذات کے لیے ہے'*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ __اپنی اصلاح کی فکر:-*

*★_ اصل دعوت داعی کے خود کے لئے ہے، جس طرح تجارت تاجر کی اپنے لیے ہے'*

*★_ اس کام کے ذریعے ایمان (دل) میں اترے یہ سب سے پہلے ہے، یہ اس کام کی بنیادی چیز ہے، اصل کڑی ہے،*

*★_ ایمانیات کا بولا جانا ہمارے ماحول میں کم ہو گیا ہے زیادہ ہونا چاہیے، گشتوں میں بیانوں میں ملاقاتوں میں،*

*★_ ایمان کے بغیر اخلاص نہیں ہوگا، اللہ کے وعدے بھی ایمان کے اعمال پر اجر بھی ایمان کے بقدرِ،*

*★_ ہم تو پورے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ چھ نمبر میں پورا دین ہے، ہم اس کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں ،*

*★_ کیا عقائد کیا عبادات کیا معاملات چھ نمبر ایک سمندر ہے، اس کی گہرائی میں جاؤ تو پتہ چلے گا اس میں بہت وسعت ہے _,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ یقین سیکھنے کے چار راستے-

★_ (١) پہلا اللہ کی توحید:- کسی بھی عمل کو کسی بھی عبادت کو دین کے کسی بھی شعبے کو حدیث کے بغیر نہیں سمجھ سکتے،*

*★_ چار راستوں سے یقین سیکھا جائے، ہمارے بیانات میں، ملاقاتوں میں، مذاکروں میں اللہ کی توحید سے زیادہ اللہ کی قدرت اللہ کی نشانیاں اللہ کی عظمت اللہ کی ذات سے ہونا، اللہ کی کبریائی کو اتنا بیان کرو کہ اندر سے تبدیلیاں ہوں،*

*★_ یہ یقین کے بدلنے کی محنت ہے, اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوگا, بغیر توحید کے کوئی نیکی نہیں,* 

*★_ اتنی عظمت پیدا کرو کہ تقاضوں کو دبانے والے بنے،*

*★_ مجمعے کو صرف اعمال پر اٹھایا تو یہ بیٹھ جائے گا، دعوت کے بغیر ساری امت خسارے میں ہے،*

*★_ ناممکن کو بولنے سے یقین بنے گا، ممکنات کو بولنے سے یقین بگڑے گا _,*
 
*★_ (٢) انبیاء علیہ السلام کے واقعات اور (٣) صحابہ کرام کے واقعات :-*

*★_ انبیاء علیہ السلام کے ساتھ جتنی غیبی مددیں ہوئی ہیں انہیں بیان کرو تاکہ اس کے ذریعے جماؤ پیدا ہو،*

*★_ اللہ رب العزت اس کام کو کرنے والوں کی مدد 50 صحابہ کے برابر کریں گے, صحابہ کی برکتوں کو بیان کرو کراماتوں کو نہیں, کراماتوں کے بیان سے شخصیت کا یقین آتا ہے،*

*★_ جن کی طرح کا ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہمیں تو ان کو بیان کرنا ہے،* 

*★_ صحابہ والے ایمان کو لانے کے لیے ہمیں ان کے غیبی قصے بیان کرنا ہوگا، اللہ کا یقین پیدا کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ صحابہ کے قصے بیان کرنے میں دین کا فائدہ ہے، ورنہ ہمارے اور اللہ کے درمیان اسباب سبب بن جائیں گے _,*

*★_ اللہ یقین والوں کے لیے اج بھی کرتا ہے، جیسا ایمان ہوگا ویسا گمان ہوگا، ہمارے اللہ کے درمیان اعمال ذریعہ ہیں، اعمال کی دعوت اسباب کے انکار کے ساتھ ہے ،*

*☞ __(٤) چوتھا راستہ ایمان کو علامتوں سے بیان کرنا:-*

*★_ ایمان کو اس کی علامتوں سے بیان کرو تاکہ امت میں ایمان کے ضعف کا احساس ہو،*

*★_ یقین سیکھنے کا ماحول بنانا ہے، مسجد کی آبادی سے تعلیم اور ایمان کا حلقہ قائم کرنا، مسجد کی آبادی کے فضائل بیان کرو،*

*★_ لوگوں کے اسباب چھڑانا ہمارا کام نہیں ہے، اگر یہ اپنے شعبے چھوڑ کر تبلیغ میں ائے تو دین نہیں ائے گا، جو دنیا کے نقصان کو دین پر ڈالے گا وہ دین سے برکت کیسے لے گا _,*

*★_ آعمال کو اسباب پر مقدم کرنا، اللہ اپنے غیر سے مدد لینے والے کو غیر کے حوالے کر دیتا ہے،*

*★_ اپنی عبادت میں کمال پیدا کرو، اللہ کے ساتھ تعلق گہرا ہونا چاہیے،*

*★_ دعوت عبادت میں کمال پیدا کرنے کے لیے ہے'*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ __فضائل والا علم :-*

*★_ فضائل کا علم آعمال میں احتساب پیدا کرنے کے لیے ہے، اگر تنہا بیٹھا کرو تو آعمال کا محاسبہ کیا کرو،*

*★_نماز سے پہلے نماز کو سوچو, فضائل کا مذاکرہ کرو, تعلیم کا مقصد ہر عمل کے کرنے کے وقت اس کے فضائل سامنے ہوں،*

*★_ تعلیم مسجد کا عمل ہے باہر والے اس کے تابع ہیں،*

*★_ دین کے کسی شعبے کا انکار مت کرو, اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام بڑا ہے اس کے ذریعے سے دین کے ہر شعبے کو پانی ملے گا, دین کے سارے شعبوں کی اہمیت ہمارے اندر ہونی چاہیے،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ __اللہ کا دھیان :-*

*★_ اللہ کی اطاعت اللہ کے دھیان سے ہوگی،*

*★_ باوضو تنہائیوں میں ذکر اہتمام سے کیا کرو، اہتمام اس کو کہتے ہیں جس کے لیے اہم کام چھوڑ دیا جائے،*

*★_ اللہ کو یاد کرو ( ساری دُنیا سے) کٹ کر, اللہ کے دھیان کے بغیر ذکر سستی پیدا کرے گا، دل جما کر کیا کرو، زبان کو دل کے تابع کیا کرو ذکر میں،*

*★_ اللہ مومن کا وہ عمل قبول کرتے ہیں جس میں اس کا دل بھی شریک ہو،* 

*★_ عادت اصل نہیں دھیان اصل ہے، سارے گناہ غفلت کی وجہ سے اور ساری نیکیاں دھیان کی وجہ سے ہوتی ہیں ،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ __ ذکر _______,*

*★_ ذکر صرف تسبیحات کا نام نہیں ہے، پوری زندگی اللہ کے حکم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہونا ذکر ہے،*

*★_ ذکر اللہ کو غیر سے کٹ کر یاد کرنا ہے, سب سے بڑا ذکر نماز ہے، ساری عبادات میں اللہ کی پاکی بیان کرنا مقصود ہے، نماز سے لے کر مسنون دعاؤں تک ذکر ہے، اللہ کے دھیان کی مشق نماز سے کرو,*

*★_ جن اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی محنت ہے ان اعمال کو چھوڑ کر محنت ہو رہی ہے, اللہ کی اطاعت اللہ کے دھیان سے ہے,*.

*★_ سارے اعمال پورے پورے کرنے ہیں اور پورے وقت کو ذکر بنانا ہے,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ ___ اکرام ___,*

*★_ ہر حق والے کو اس کا حق دے دو، اس کی مشق اللہ کے راستے میں ہوگی، ہمیں خدمت کے ذریعے اکرام کی مشق کرنی ہے، اکرام تواضع کے بغیر حاصل نہیں ہوگا، کبر کا اکرام سے کوئی تعلق نہیں سارا اکرام تواضع سے ہوگا،*

*★_ ہماری حیثیت ہی کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں لکڑیاں چننے چلے گئے اور لکڑیاں لائے، ہمارے اندر محمد صلی اللہ علیہ وسلم والے اخلاق آ جاوے یہ اکرام کا منتہیٰ ہے ،*

*★_ ہر مسلمان کی نوعیت کا لحاظ کرنا یہ اکرام مسلم ہے، ساری امت کو ایک جگہ جمع کرنا ہے، یہی ایک جگہ ہے جہاں مختلف خاندانوں کے مختلف رنگوں کے مختلف خیالات کے لوگ جمع ہیں اللہ کے راستے میں،*

*★_ اس راستے کی تکلیف کو نعمت سمجھنا, اپنی حیثیت سے ہر خدمت کو بڑا سمجھنا,*

*★_ مسجد کی صفائی بھی اپنی ذمہ لینا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوفہ کی مسجد میں جھاڑو لگانے جاتے تھے اپنی خلافت کے زمانے میں_,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ __ اخلاص ____,*

*★_ اللہ کو راضی کرنے کے لیے عمل ہو، ایک ہے نیت کو صحیح کر کے لگنا اور ایک ہے نیت کا صحیح ہونا,*

*★_ اخلاص کا امتحان استقبال میں ہوتا ہے,*

*★_ اللہ کے غیر سے امید نہ رکھنا، جو رکھے گا اللہ اسے غیر کے حوالے کر دیتا ہے،*

*★_ ریا کا خیال بھی نہیں آوے, پیشاب کا ایک قطرہ بھی دودھ کی بالٹی میں گر جاوے سارا دودھ خراب ہو گیا,*

*★_ تیرا عمل کتنا ہی اچھا ہو ایک دفعہ بھی غیر کا خیال آ جانا سارے عمل کو بگاڑے گا،*

*★_ شرک پر عذاب ہے، ایمان پر اجر ہے، جس طرح ایمان مانگا جائے گا اسی طرح اخلاص مانگا جائے گا، دونوں ایک ہی چیز ہے،*

*★_ بڑے بڑے عمل کرنے والے سخی شہید عالم جہنم میں ڈال دیے جائیں گے ریا کی وجہ سے, ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بار بار بے ہوش ہوتے تھے اس حدیث کو سناتے ہوئے,* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                *☞ _ کلمے کی دعوت :-*

*★_ امت کی بے دینی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ امت کے درمیان میں سے کلمے کی دعوت نکل گئی کیونکہ دعوت کو غیروں کے لیے سمجھ لیا گیا، جب کلمہ دعوت میں سے نکل گیا تو یقین میں سے بھی نکل گیا،*

*★_ کلمے کا اخلاص یہ ہے کہ کہنے والے کو حرام سے روک دے، ہمارا ایمان ؟ جھوٹ بھی ہے ایمان بھی ہے غیبت بھی ہے ایمان بھی ہے سود بھی ہے ایمان بھی ہے, سب سے زیادہ ایمان کی ضرورت ہے اور اس سے ہی غافل ہے،*

*★_ سارے آعمال اپنے اوقات سے ہیں, ایمان ہر وقت ہونا ضروری ہے,*

*★_ ایمان کو ایمان کی علامتوں میں تلاش کرو, اپنے ایمان کی تصدیق کرو, جہاں اس کا ذکر بھی مقصود ہے اس کے تذکرے بھی مطلوب ہیں, حدیث میں اتا ہے کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہنے لگے ،*

*★_اس طرح ایمان کی مجلسوں میں ایمان کو سیکھنے اور ایمان کے تذکرے یہ صحابہ کرام کی سنت ہے،*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ _ یقین کا دارومدار عقل پر نہیں :-*

*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تمام خبروں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر یقینی ماننے کا نام ایمان ہے،*

*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج ہوا، صبح سے پہلے پہلے اپ کی واپسی ہو گئی، صبح کو اپ نے بستی والوں سے کہا تو کمزور یقین والے مرتد ہو گئے،* 

*★_ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا بے شک میں یقین کرتا ہوں، اللہ ظاہر کے خلاف کریں گے، نبی کی خبر یقین کے خلاف تھی، دین کا مدار عقل پر نہیں ہے عقل کا مدار تو بہت ناقص ہے،*

*★_ اللہ نے عقل کے سو حصے کیے، ایک حصہ ساری مخلوق پر تقسیم کیا، عقل کے 99 وے حصے تن تنہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے،*

*★_ دین کو وہی بدلیں گے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خبروں پر اپنی عقل لڑائیں گے، اپ کی نبوت کامل ہے اپ کا دین کامل ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *☞ __قول عمل سے ثابت ہو گا*

*★_ قول سے بھی اور عمل سے بھی ثابت کرو، ایمان کے بغیر عقیدہ ٹھیک نہیں ہو سکتا، عقیدہ ٹھیک ہوئے بغیر عمل ٹھیک نہیں ہوتے،*

*★_ اللہ کے غیر کا یقین نکلنا شرط ہے, اللہ کی ذات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہم دل کی گہرائی سے اللہ کے غیر کا انکار کرے, تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس کا کیا اثر ہوا,*

*★_ جتنا اللہ کے غیر کا انکار کریں گے اتنا یقین کی مایا پیدا ہوگی, اللہ کی محبت ہوگی, اتنا عمل پر چلنا آسان ہوگا,*

*★_ ابراہیم علیہ السلام نے سب کا انکار کیا, ساری شکلوں کو توڑا،*

*★_ ایمان کو علامتوں سے بیان کرو, صحابہ نے پوچھا ایمان کی علامت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی نیکی تجھے خوش کرے اور گناہ غمگین کرے تو جان لے کہ تو مومن ہے _,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ __ تقویٰ کا کلمہ :-*

*★_ مومن اس کلمے کا زیادہ حقدار ہے کیونکہ یہ تقوے کا کلمہ ہے اور تقویٰ مومن کی شان ہے،*

*★_ جب تک اللہ کا ڈر نہیں ہوگا تب تک گناہ سے بچے گا نہیں, تنہائی میں بھی خدا سے ڈرنا اس کا نام تقویٰ ہے,*

*★_ گناہ کرنے میں اللہ کے غیر کا خیال اس گناہ سے بڑا ہے,( کہ مجھے کسی نے دیکھا تو نہیں) تقوے کے بنا کوئی نیکی نہیں,*

*★_ متقی کو حرام حجم نہیں ہوگا یہ تقوے کی علامت ہے, جھوٹ بولنا نفاق کی علامت ہے, جب یقین کمزور ہو جاتے ہیں تو علامت نفاق خوبیاں بن جاتی ہیں _,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *☞ ___تقوی مومن کی شان ہے:-*

*★_ لقمہ سمندر ہے خیالات اس کے موتی ہیں، جیسا پانی ہوگا ویسا موتی ہوگا، گندے نالے میں کہیں موتی نہیں بنا کرتے،*

*★_ ایک ظاہری گندگی ہے جیسے خنزیر ناپاک ہے اس کی نجاست نظر انے والی ہے, ایک نجاست نظر انے والی نہیں ہے،*

*★_ حضرت فرماتے تھے یہ دونوں نجیسیں ہیں, اپنے بچوں کو خنزیر کھلا دینا اور سود سے کما کر کھلانے میں کوئی فرق نہیں،*

*★_ اپنے معاملات کو حکم پر لاؤ، یہی وہ خون ہے جو آپ سے قران کی تلاوت کروائے گا، جو سارے جسم کے اعضاء سے اعمال کروائے گا،*

*★_ جس مال کی امد کا راستہ حرام ہے اس کا خرچ حلال نہیں ہو سکتا _,* 
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
          *☞ ___تقوے پر اللہ کے پانچ وعدے:-*

*★_1- حرام سے بچنے کا ایسا راستہ نکالیں گے کہ اسے حرام سے بچا کر نکا لیں گے چاہے کتنا ہی مشکل ہو، ساتوں زمین ساتوں اسمان سے بچا کر، جیسے یوسف علیہ السلام کو بچایا بند دروازوں میں _,*

*★_ ہم بہت سے گناہوں میں اس لیے پڑے ہوئے ہیں کہ اس سے نکلنا مشکل ہے،*

*★_ اللہ اپنے بندے کو حرام سے ایسے ہی بچاتے ہیں جیسے ہم بیمار کو پانی سے بچاتے ہیں، اللہ کی طرف سے مدد صبر پر اتی ہے تقوے کے ساتھ, جس میں تقویٰ نہیں وہ مظلوم نہیں ظالم ہے،*

*★_ یوسف علیہ السلام پر سارے دروازے اپنے آپ کھلتے چلے گئے، اللہ کا وعدہ ہے جو تقویٰ اختیار کرے گا، ہم اسے حرام سے بچا کر نکا لیں گے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __تقوے پر اللہ کے پانچ وعدے ہیں-٢,*

*★_2- اللہ تعالی رزق ایسی جگہ سے دیں گی جہاں اس کا غمان بھی نہیں ہوگا کہ ایک صحابی پیشاب کر رہے اور چوہا اشرفی لا کر دے رہا,*

*★_ کائنات اللہ کی تعریف کے لیے ہے, زمین پر جتنے نقشے ہیں قدرت کے مظاہر ہیں, کائنات کے نقشے پر اللہ کے کوئی وعدے نہیں,*

*★_ اسباب کے ساتھ اللہ کے وعدے بھی نہیں قدرت بھی نہیں, اللہ کے وعدے حکموں کے ساتھ ہیں, ہم سب اسباب سے جڑ کر چلتے ہیں اسباب کو سبب بنا کر چلتے ہیں, اللہ کے سامنے اسباب نہیں عمل پیش کرو,*

*★_ حضرت جی رحمتہ اللہ فرماتے تھے سبب بنا کر دعا کرنا یہ معاملہ اللہ کا غیر مسلموں کے ساتھ ہے کہ تم اسباب بناؤ ہم تمہارے کام بنائیں گے، اللہ انہیں ان کے اسباب نے مطمئن کیے ہوئے ہیں، ہمارے اور اللہ کے درمیان اسباب سبب نہیں ہیں، اللہ کے وعدے حکموں کے ساتھ ہیں،*

*★_ اسباب امتحان کے لیے ہیں اطمینان کے لیے نہیں, ازمائش کے لیے ہیں کہ میرا بندہ ان اسباب میں عمل کیسے کرتا ہے, اعمال کو اسباب پر مقدم کرو گے تو اللہ کی مدد ہوگی ,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __تقوے پر اللہ کے پانچ وعدے ہیں-٣-٤-٥,*

*★_٣_ اللہ کام میں آسانی فرما دیتا ہے، داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم کیا، روزانہ ایک زرہ بناتے جو چھ ہزار درہم میں بکتا،*

*★_ آسانی اس لیے کیونکہ تقویٰ ہے, اللہ کو بندے کی سب سے زیادہ وہ کمائی محبوب ہے جو خود کماتا ہے،*

*★_ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کی پچھلی ساری خطاؤں کو معاف کر دیں گے،*

*★_ اللہ کو اپنی طرف انے والا بہت پسند ہے کہ وہ دوڑ کر آتے ہیں،*

*★_٥_ اللہ تعالی اس کے عمل کے اجر کو بڑھا دیتے ہیں،*

*★_ مسلمان حقوق کی ادائیگی سے بتاوے کہ اسلام کیا ہے اور سنتوں کی پابندی کے بغیر غیروں سے چھانٹا نہیں جا سکتا، سنتوں کا ایسا اہتمام کرو کہ جس کو دیکھ کر اللہ یاد آوے، جو سنت کا پابند ہے وہ اللہ کا ولی ہے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ ___ سنت کا اہتمام :-*

*★_ مسلمان کو سنت کے اہتمام کے بغیر غیروں سے چھانٹا نہیں جا سکتا، بغیر تقوے مسلمان غیروں سے ممتاز نہیں ہو سکتا،*

*★_ جب تک مسلمان سنت پر آ کر غیروں سے ممتاز نہیں ہوگا اس وقت تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں ہوگا، کیونکہ آج مسلمان پس رہا ہے، مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کیا کریں ہم پس رہے ہیں کٹ رہے ہیں،*

*★_ حضرت فرماتے تھے لوہے کی آری سے لکڑی کو کاٹا جا رہا تھا لکڑی نے کہا آری سے، تو نے مجھے کس طرح دو ٹکڑے کر دیا ؟ تو آری نے یہ کہا میں تجھے جب تک نہیں کاٹ سکتی تھی جب تک تیرا حصہ مجھ سے ا کر نہیں ملتا، لکڑی کا دستہ ہوتا ہے،*

*★_ غور کرنے کی بات ہے اگر لوہے کی آری میں لکڑی کا دستہ نہ ہوتا تو آری کو ہاتھ میں لے کر لکڑی کو کاٹنا مشکل تھا، پہلے کاٹنے والے کا ہاتھ کٹ جاتا،*

*★_ جب مسلمان اپنے طریقوں کو چھوڑ کر غیروں کے طریقوں پر جائے گا اور غیروں کے طریقوں کے ساتھ مخلوط ہو جائے گا تو ان کی حفاظت ان کی اجتماعیت ساری ختم ہو جائے گی، غیر مسلمان پر اس لیے غالب ہو جائیں گے کہ ان کا ایک حصہ غیر کے ساتھ شامل ہو گیا،*

*★_ مسلمان کو امتیاز حاصل ہوگا جب یہ اپنے اپ کو غیروں کے طریقوں سے پوری طرح با اعتبار معاملات معاشرت اخلاق ہر اعتبار سے نکال لے،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *☞ __ پورا دین دعوت کے ذریعے:-*

*★_ ہم پورا دین دعوت کے ذریعے اپنی زندگی میں لائیں، اس کے لیے وہ اعمال دعوت مطلوب ہیں جو صحابہ کرام کیا کرتے تھے، جب تک امت میں دعوت ال اللہ کا وجود رہے گا امت میں دین رہے گا،*

*★_ یہ بات حق ہے, جب دعوت نکل جائے گی تو دین بھی نکل جائے گا, یہ بات بالکل حق ہے نبی ائے دعوت ائی دین آیا، نبی گئے دعوت گئی دین گیا،*

*★_ اس زمانے میں اگر دعوت ال اللہ کو چھوڑا جائے گا تو امت جس خسارے میں پڑی ہے اس سے نہیں نکل سکتی، قران قسم کھا کر کہتا ہے کہ صرف اعمال نجات کے لیے کافی نہیں ہیں جب تک تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ نہ ہو،*

*★_ ایمان اعمال صالحہ کی طرح سبب نجات ہے کیونکہ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ اس کے بغیر وہ اعمال صالحہ نہیں ہو سکتا جو نجات کے لیے شرط ہے، جس درجے کے اعمال ایمان چاہیے وہ دعوت ال اللہ سے پیدا ہوتا ہے، جتنی امت میں دعوت عام ہو گی، نقل حرکت عام ہوگی امت میں دین ائے گا،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *☞ __دعوت فرض عین ہے :-*

*★_ دعوت سے امت میں اسباب ہدایت بڑھ جائیں گے جس طرح دعوت کے چھوٹنے پر اسباب جلالت بڑھتے ہیں، دعوت کا چھوٹ جانا یہ امت کی گمراہی کا سبب ہے دعوت کا وجود امت کی ہدایت کا سبب ہے یہ بات بالکل حق ہے،* 

*★_جو کام اپنی ذات کے لیے کیا جاتا ہے فرض عین ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے کیا جائے وہ فرض کفایہ ہے, اللہ کے عذاب سے ڈرانا خود ڈرانے والے کی اپنی ذات کے لیے ہے نہ ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا, دعوت دینے والے کو فائدہ نہ ہو یہ ممکن نہیں دعوت دائی کے لیے مفید ہے ,*

*★_ایمان فرض عین ہے نماز فرض عین ہے اللہ کو یاد کرنا فرض عین ہے علم حاصل کرنا فرض عین ہے حقوق کی ادائیگی فرض عین ہے اخلاص کا سیکھنا فرض عین ہے، پھر جب ان چیزوں کا اپنے اندر پیدا کرنا فرض عین ہے تو پھر ان چیزوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی محنت فرض عین ہوئی یا فرض کفایہ ؟*

*★_اصل میں مغالطہ یہاں سے ہوا کہ بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا دوسروں کے لیے ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ میں جس منکر کو اپنے اندر سے نکالنا چاہتا تھا اس سے دوسروں کو روکا کرتا تھا اور جس معروف کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا اس پر دوسروں کو آمادہ کرتا تھا،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *☞ __بطور یقین دعوت:-*

*★_ زندگی میں پورا دین لاؤ, پورا دین پورے دین کی دعوت سے ائے گا،*

*★_ ایک عمل کی دعوت بطور عمل کے ایک عمل کی طرف بلانا بطور یقین کے، بطور یقین کے دعوت دینے والا اپنے اعمال میں ترقی کرے گا چاہے دوسرے نہ مانے،*

*★_ ہمیں تو اللہ نے ایسی محنت دی ہے کہ اگر اس محنت پر دوسرے راضی نہ ہوں تو یوں کہیں کہ اللہ محنت کرنے والوں کو محروم نہیں فرمائیں گے، اتنی اسان محنت ہے،*

*★_ جب تک اس محنت کو اپنی ذات کے لیے نہیں کرو گے تب تک اس محنت پر استقامت نہیں ہوگی، دعوت داعی کے لیے مفید ہے چاہے دوسرے نہ مانے، قیامت میں وہ انبیاء علیہ السلام جن کی بات کو کسی نے بھی نہیں مانا وہ بھی اتنے ہی کامیاب ہوں گے جتنے جن کے ماننے والے کئی ہوں گے، یوں نہیں کہا جائے گا کہ یہ اپنی محنت میں ناکام ہو گئے ،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
       *☞ __دعوت نجات کا یقینی سبب ہے:-*

*★_ امت میں سے بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا اس لیے ختم ہو گیا کیونکہ اس کام کو دوسروں کی اصلاح کے لیے سمجھا،*

*★_ برائی سے روکنا سب سے پہلے روکنے والے کی اپنی ذات کے لیے ہے، بھلائی کا حکم کرنا اپنے اندر بھلائی پر چلنے کی استعداد پیدا کرنے کے لیے ہے،*

*★_ جب یہ محنت دوسروں کے لیے ہوگی تو یا تو مایوسی ہوگی یا غصہ پیدا ہوگا نہ ماننے والوں کی وجہ سے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کے ملفوظات میں ہے - میں جس چیز کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا اس کی دعوت دوسروں کو دیا کرتا تھا اور جس چیز کو اپنے اندر سے نکالنا چاہتا تھا اس سے دوسروں کو روکا کرتا تھا _,*

*★_ منکرات سے روکنا داعی کو کو منکرات سے نفرت پیدا کرے گا اور بچنے کی استعداد پیدا کرے گا، معروفات کا حکم دینا داعی کے اندر معروفات پیدا کرے گا _,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
               *☞ ___امت جاری پانی ہے:-*

*★_ صرف وقت لگانا کام نہیں ہے، اس کام کا مقصد تو ان تمام چیزوں کا امت میں زندہ کرنا ہے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر ائے،*

*★_ یہ امت جاری پانی کی طرح ہے، اگر امت اس جاری پانی کی طرح حرکت میں رہے گی تو اس کے سارے اوصاف پانی کی طرح ہوں گے، امت پاک رہے گی اور دوسروں کو بھی پاک کرے گی،*

*★_ اور اگر اس میں ٹھہراؤ آگیا، دین کی نسبت پر نقل حرکت ختم ہو گئی تو جو گندگی اسباب کے یقین کی، آخرت سے غفلت کی، اللہ کے حکموں کو توڑنے کی، آعمال کے اعراض کی، معاملات کے خرابی کی، جتنی گندگی گرے گی یہ خود بھی خراب ہوگا اور دوسروں کے بھی نقصان کا سبب بنے گا _,*

*★_ یہ امت امت ہے، یہ امت قانک ہے، امت کہتے ہیں جو دوسروں کو دین سکھاے، قانک کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری اطاعت کرے،*

*★_ شیطان نے روک دیا کہ پہلے تم عمل کرو پھر دعوت دو، یہ ضروری نہیں، عمل اور علم دعوت کے لیے ضروری نہیں، دعوت تو ہے ہی عمل والا بننے کے لیے،*

*★_ جو آدمی اپنا دین بچانے کے لیے دوسرے کی بے دینی کی فکر نہ کرے، ان کی بے دینی اسے بھی نہیں چھوڑے گی، بڑوس کی آگ کو نہیں بجھایا تو تیرا گھر بھی جلے گا،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
          *☞ __دعوت نجات کا سبب ہے:-*

*★_ دعوت داعی کی نجات کا یقینی سبب ہے چاہے ایسے لوگوں کو دعوت دی جاوے جن کے لیے عذاب لکھا جا چکا،*

*★_ جب ان سے پوچھا جاتا کہ تم ایسے لوگوں کو دعوت کیوں دیتے ہو جو ماننے والے نہیں ہیں، تو فرماتے ہم دعوت دو باتوں کی وجہ سے دے رہے ہیں، ایک وجہ یہ کہ ہم ذمہ داری کو پورا کرنے والے سمجھے جاے، دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی ذات سے ایسے لوگوں کے بھی تقوے پر انے کی امید ہے،*

*★_ لکھ کر دے دینے سے ذمے داری پوری نہیں ہوتی، بات کا کان میں ڈالنا ہے، پہنچانے کا نام تبلیغ نہیں ہے ،*

*★_ ایک مسجد کے باہر ایک بورڈ پر لکھا تھا نماز قائم کرو اور اسی بورڈ کے نیچے لوگ سوئے پڑے تھے، اس لکھے ہوئے سے ان سونے والوں کو کیا فائدہ ہوا ؟ اس کا نام تبلیغ نہیں ہے، اس طرح معلومات تو پھیل سکتی ہے دین نہیں اسلام نہیں، اسلام تو اسلام کو لے کر پھرنے سے پھیلے گا، اسلام کی معلومات کا پھیلنا اسلام کا پھیلنا نہیں ہے،*

*★_ امت میں دین کی دعوت نہج نبوت پر زندہ ہو، اپنی بات کہنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی جماعتیں بنا بنا کر بھیجی،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ __توحید کو بولتے رہو:-*

*★_ اللہ کو صفات کے اعتبار سے تنہا بیان کرو، اللہ کی توحید کو بولتے رہو یہ تمام اعمال کا مدار ہے ورنہ عمل میں ریا داخل ہوگا،*

*★_ قدرت محض اللہ کی ذات میں ہے قدرت سے فائدہ اٹھانے کے راستے احکامات ہیں کائنات نہیں،*

*★_ ہم نے اللہ سے اسباب مانگ کر اپنے لیے مشکلیں پیدا کر لی،*

*★_ دین میں کامیابی ہے یہ بات انبیاء اور صحابہ کی غیبی مدد کے واقعات کے بنا سمجھ میں نہیں آئے گی، اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس طرح مدد کریں گے جس طرح ہم نے انبیاء علیھم السّلام، صحابہ کرام کے ساتھ کیا،*

*★_ انبیاء، صحابہ نے بھی اسباب اختیار کیے ہیں، قلی بڑئی لوہار ہوے، صحابہ زراعت تجارت کرتے تھے لیکن کسی صحابی کے ساتھ اس کی تجارت کا نام نہیں ہے، اگر ہے تو مہاجر ہے یا انصار ہے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *☞ _آعمال پیش کرو اللہ کے سامنے:-*

*★_ ہم اللہ کے سامنے اسباب پیش کرتے ہیں، یہ میری دکان ہے تو نفع دے، اللہ کے سامنے تو آعمال پیش کیے جاتے ہیں، وہ تین ادمی جو غار میں پھنسے تھے سب نے اپنے اپنے اعمال پیش کیے,*

*★_ اللہ کے وعدے اس کے حکموں کے ساتھ ہیں, صبر اطاعت پر جو حالات اوے اس کو صبر نہیں کہتے, اللہ جہنمیوں کو فرماتے ہیں کہ تم صبر کرو یا نہ کرو عذاب کم نہیں ہوگا,*

*★_ حالات کے مقابلے میں حکم پر جمنے کو صبر کہتے ہیں, قرآن میں صبر تقوے کے ساتھ ملے گا, روزے کو صبر کہا گیا ہے،*

*★_شکر ہر عضو کو حکم پر لانے کو کہتے ہیں, ہر عضو اللہ کی نعمت سے فائدہ اٹھا رہا ہے ,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ _نماز اس سے پہلے طہارت ہے :-*

*★_ جسم کے خون کے ایک ایک قطرے کا پاک ہونا اس طرح ضروری ہے جس طرح جسم کا نماز کے لیے جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے،*

*★_ وضو طہارت غسل میں ظاہر پاک ہوتا ہے بدن کا باطن پاک نہیں ہوتا ہے,*

*★_ حرام سے تو دعائیں رد کر دی جاتی ہیں, سب سے پہلے اپنی کمائی کے نقشوں کو حکم پر لانا ہوگا, یہ ایسا ہے جیسے نماز سے پہلے طہارت,*

*★_ عبادت سے معاملات ٹھیک نہیں ہوتے، معاملات سے ساری عبادات صحیح ہوگی تو سارا دین صحیح ہوگا،*

*★_ اللہ نے کسی گناہ کرنے والے کو اپنے ساتھ جنگ کرنا نہیں بتایا سوائے سود کھانے کے,*

*★_ حالات, علم والے بھی کہیں گے ہمیں حالات نے مجبور کر دیا،*

*★_ کوئی مالدار صحابی ایسا نہیں ہے جو دنیا سے روتا ہوا نہیں گیا ہو، ڈرتے گئے کہ کہیں اللہ نے ہمیں دنیا ہی میں دے کر نہ نپٹا دیا ہو،*

*★_ جو حکموں کی لائن سے کماتے ہیں ان کا خرچ بھی حکموں کی لائن پر ہوگا_,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ _معاملات سے تربیت ہوگی:-*

*★_ عبادات بن گئی تو اخلاق معاشرہ خود بخود بن جائے گا، اس کی تعلیم تربیت معاملات سے خود بخود ہو جائے گی،*

*★_ مسلمان کا اپنا تعارف محض ذکر و عبادت اپنے درمیان کے معاملات سے نہیں ہوگا، اس کے اخلاق معاملات معاشرے سے سمجھیں گے غیر ،*

*★_ کسی شخص نے عیسائی شخص کے پاس امانت رکھی، جب وہ کچھ عرصے بعد واپس لوٹا اور تقاضا کیا تو وہ عیسائی مکر گیا، وہ شخص اس کے پادری کے پاس گیا، اس نے اس کو ایک پرچہ (چٹھی) دیا کہ یہ جا کر اس کو دے دو وہ تمہاری رقم لوٹا دے گا، جب وہ چٹھی اس عیسائی کو دی اس نے فوراً وہ رقم لوٹا دی، وہ شخص بڑا حیران ہوا کہ آخر اس چٹھی میں ایسا کیا لکھا تھا کہ اس نے فوراً رقم لوٹا دی، اس شخص نے اس ایسائی سے پوچھا تو اس نے چٹھی پڑھ کے سنائی، اس میں لکھا تھا کہ کیا تو بھی مسلمان بن گیا (یعنی مسلمان کے معاملات اپنے اور غیروں کے ساتھ اس قدر بگڑ چکے کہ غیر بھی اس بات کا تانا دینے لگے کہ کیا تو بھی مسلمان ہو گیا )*

*★_ غیروں کے طریقوں میں ذلت ہے عزت نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لباس اور ترکی گھوڑے پر سوار ہوتے ہی اپنی رغبت بدلتے محسوس کیا،*

*★_ کہاں مسلمان کے معاملات ایسے تھے کہ غیر اطمینان کرتے تھے کہاں یہ حال ہو گیا کہ ایک عیسائی خیانت کرے اور اسے تانا دیا جائے کہ تو مسلمان ہو گیا، تو وہ فوراً امانت لوٹا دے کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا کہ لوگ اسے مسلمان کہیں،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ __ اسلام کی تعلیم کا طریقہ:-*

*★_ اسلام کی تعلیم کا طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے اسلام کو لے کر پھرو تاکہ تمہارے اعمال سے لوگوں کو اسلام مشاہدے کا پیش کرنا ہے,*

*★_ کتابوں کا دین مطالعہ کا دین ہے، اپنے دین کو لے کر حرکت میں اؤ، سورج اپنی روشنی کے ساتھ حرکت میں ہے تو کہیں نہ کہیں ہر آن اجالا ہے،*

*★_ اگر تم ان اعمال کے ساتھ حرکت میں رہو گے تو ہدایت کی دعائیں مقبول ہوں گی، اپنوں کی تربیت ہدایت کا ذریعہ بنیں گی،*

*★_ دعوت کی نقل حرکت سے اسلام میں امد کا راستہ کھلا تھا, ایک طرف ان کو ہدایت مل رہی ہو اور دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ،*

*★_ تم دعوت دیتے ہوئے پھرو گے تو اعمال مجاہدوں کی وجہ سے تمہاری باتیں دلوں سے ٹکرائیں گے، ایسی تاثیر اللہ دیں گے،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ __ دعوت عالمی نسخہ ہے:-*

*★_ دعوت الا اللہ پورے عالم کا نسخہ ہے, دعوت اور عبادت کو جمع کرو انبیاء علیہ السلام کو اسی پر فتح ملی ہے ،*

*★_عمل پر کسی کے نصرت کے واقعات نہیں ملیں گے سارے واقعات عمل کی طرف بلانے پر ہیں,*.

*★_ مسلمان کا جہنم میں جانے کا سب سے بڑا سبب نماز کا چھوڑنا ہے کہ جہنم میں لوگ پوچھیں گے تم تو مسلمان تھے کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھا کرتے تھے،*

*★_ نماز میں اطمینان واجب ہے, مسنون دعاؤں نے قبولیت کے راستے دیکھے ہوئے ہیں, ہم دعا مانگتے ہیں اسباب کو اختیار کر کے سبب پہلے اختیار کرنا اللہ کے غیر کی طرف چلنا ہے, پہلے عبادت پھر دعا پھر سبب یہ ہے راستہ صحابہ کرام کا انبیاء علیہ السلام کا،*

*★_ جتنا تعلق اللہ سے بڑھاؤ گے اتنا ہی لوگوں میں دعوت کا اثر ہوگا, دعا داعی کی محنت کا اخلاص ہے،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ __ عالمی غلط فہمی:-*

*★_ اس زمانے میں دین کا وجود لوگ چاہتے ہیں ایمان کے بغیر، ایمان والے کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم سب ایمان والے ہیں ہمیں ایمان کی کیا ضرورت ہے ؟*

*★_ یہ خیال آج عام ہو گیا، اسی خیال نے دعوت کی محنت اور اس کے مفہوم کو محض غیر مسلموں کی طرف پھیر دیا، مسلمان اجتماعی طور پر اپنا وہ فرض منصبی چھوڑ بیٹھا جس کی وجہ سے مسلمان تھا،*

*★_ یہ مسلمانوں کی عالمی سطح پر بڑی غلط فہمی ہے, دعوت کی محنت کا اصل میدان خود مسلمان ہے، اگر مسلمان دعوت سے اپنے دین پر نہ آیا تو غیر اسلام کو کبھی نہیں سمجھ سکیں گے،*

*★_ آخر وہ کیا محنت تھی کہ غیر اسلامی معاملات اسلامی معاشرت اسلامی اخلاق کو دیکھ کر اپنے مذہب سے تنگ آ کر اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے تھے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ __دعوت سے ایمان کی تکمیل:-*

*★_ دعوت غیر مسلم کے لیے اسلام میں حجت کے لیے ہے اور مسلمان کے لیے ایمان کی تکمیل کے لیے ہے ،*

*★_ امت کی بے دینی کا اصل بنیادی سبب دعوت کو مسلمان کا اصل میدان نہ سمجھنا ہے، مسلمان دعوت کا اصل میدان ہے اور اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے،*

*★_ دعوت کی محنت کو ابھی تک پڑھے لکھے لوگ ایک تحریک سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دعوت وہ محنت ہے جو صحابہ کرام صحابہ کرام پر کیا کرتے تھے،*

*★_ ایمان کی دعوت اصل یقین کی تقویت کا بنیادی سبب ہے، اگر مسلمان نے یہ چھوڑ دیا تو یقین کے بننے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے،*.

*★_ امت اس محنت کے اعتبار سے صحابہ کو سمجھ کر چلے, مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ فرماتے تھے پھر خیرالقرون کا مزہ قیامت تک ہے _,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *☞ ___ ایمان صحابہ _________*

*★_ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے یہ غور کریں کہ صحابہ کرام ایمان کس طرح سیکھتے تھے، ہمیں صحابہ کے ایمان سیکھنے کا طریقہ معلوم کرنا ضروری ہے کیونکہ صحابہ اس امت کے اول ہیں،*

*★_ ایمان لاؤ صحابہ کی طرح، وہ ایمان کیسے لاتے تھے ؟ وہ مسجدوں میں ایمان کے حلقے قائم کرتے اور باہر کی ملاقاتوں کے ذریعے ایمان سیکھنے کے عنوان پر صحابہ صحابہ پر گشت کرتے تھے,* 

*★_ ہمارے گشت صحابہ کرام کے معمول کی نقل ہیں، ہر ایمان والے کو ایمان سیخنے کے عنوان پر مسجد کے باہر سے لا کر مسجد کے حلقوں میں جوڑو، ایمان کی مجلس سے ایمان کو تقویت ملتی ہے،*

*★_ خود امام بخاری رحمۃ اللہ نے بخاری شریف میں اس کا ایک باب تیار کیا ہے، اس میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے دعوت کے طریقے کو نقل کیا ہے،*

*★_ کہیں ہماری مسجدوں کا کام رواز کے اور کسی تنظیم کے تابع ہو کر نہ رہ جائے بلکہ مسجدوں میں اعمال دعوت کو قائم کر کے باہر کی ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں کو مسجد میں جوڑنا اس لیے ہے کہ ایمان کو سیکھنے میں وہ سنت صحابہ زندہ ہو جس سے صحابہ کا ایمان ایسا بنا تھا _,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ __ دعوت صحابہ کرام کی محنت ہے :-*

*★_ ایمان کے حلقوں میں اللہ تعالی کے احکامات بھی داخل ہیں کیونکہ دعوت الا للہ تو کہتے ہی اللہ کے بندوں کو اللہ کے احکامات کی طرف بلانا،*

*★_ اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نقل پر نہیں ہیں تو پھر دعوت پر نہیں ہیں کیونکہ دعوت تو کہتے ہی صحابہ کرام کی محنت کو ہے،*

*★_ امت کی تربیت اور اللہ کا تعلق پیدا ہونے کی جو اصل جگہ ہے وہ مسجد ہے، حدیث میں اتا ہے جو علم سیکھنے کے لیے مسجد کی طرف قدم اٹھاتا ہے اللہ تعالی اس کو ایک کامل حج کا ثواب عطا فرماتے ہیں،*

*★_ صحابہ والا ایمان لانا صحابہ والا دین صحابہ والی عبادت صحابہ والی معاشرت صحابہ والے اخلاق اس سب کی اصل وجہ ایمان ہے،*

*★_ اس لیے ہم سب کو حکم ہے صحابہ کرام کی طرح ایمان لانے کا کہ ایمان لاؤ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لے کر ائے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ __ ایمان بالغیب اصل ہے :-*

*★_ جس چیز کی تصدیق دیکھ کر کی جائے اسے ایمان نہیں کہتے،*

*★_ اللہ رب العزت انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ظاہر کے خلاف اس لیے کرتے ہیں کہ دیکھیں کہ کون ان کی بات کو مانتا ہے کون نہیں،*

*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج ہوا ہی اسی امتحان کے لیے, اللہ رب العزت لوگوں کو ازمانا چاہتے ہیں کہ جو رسول پر ایمان لائے وہ رسول کی بات کو مانتے ہیں یا نہیں ,*

*★_جس طرح اپ کے سفر معراج میں شک کرنا کفر ہے اسی طرح اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی خبریں دی ہیں قیامت تک ان میں سے کسی بھی خبر میں شک کرنا کفر ہے،*

*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی خبروں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر یقینی ماننے کا نام ہی ایمان ہے ،*

*★_ دین کے کسی بھی حکم کے بارے میں مسلمان کا یہ کہنا کہ یہ حکم کیوں ہے ؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہ سنت ہے تو اس کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے،*

*★_ حکم کی وجہ تلاش کرنا اور وجہ تلاش کر کے پھر عمل کرنا یہ عمل کا حق ادا کرنا نہیں ہے عمل کو ضائع کرنا ہے،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ __حکم کا مدار عقل پر نہیں:-*

*★_ جتنی دنیا کی مادی شکلیں ہیں ان کا چھوڑنا ان کا اختیار کرنا اس کے پیچھے تو وجہ ہوگی کیونکہ یہ مخلوق ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی خبروں کی وجہ تلاش کرنا کہ وجہ معلوم ہوگی تو عمل کریں گے، یہ عمل کو ضائع کرنا ہے،*

*★_ نہ خبر کا مدا عقل پر ہے نہ حکم کا مدار عقل پر ہے،*

*★_ اللہ رب العزت نے عقل کو پیدا فرمایا اس کے سو حصے کیے, اس میں سے ایک حصہ تمام مخلوق کو تقسیم کیا,*

*★_ جنہیں ہم عقل والا سمجھ کر دین چھوڑ کر ان کے پیچھے چل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ تقسیم کیا ہے تمام مخلوق پر اور تنہا 99 حصے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے،*

*★_ غور کریں جس کو عقل کا ایک حصے کا بھی ذرا ملا ہو اسے کیا حق ہے یہ کہنے کا کہ دین کی فلاں بات میرے سمجھ میں نہیں آرہی ہے، اگر سمجھ میں ائے گی تو عمل کریں گے،*

*★_ ذرا سوچو یہ اس ذات کا انکار کر رہا ہے جس کو عقل کے 99 حصے ملے ہیں _,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                *☞ __ ان شاء اللہ کا مفہوم:-*

*★_ ہم کتنے دعوے کرتے ہیں صبح سے شام تک کہ ہم یہ کریں گے حکومت یہ کرے گی تاجر یہ کریں گے، کسی کی زبان پر آ جاتا ہے ان شاء اللہ وہ بھی بطور تقیہ کلام کے ایا بطور یقین کے نہ ایا،*

*★_ ان شاء اللہ کا مطلب یہ نہیں کہ ہاں اللہ چاہیں گے تو کریں گے, ان شاء اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ساری دنیا نہ چاہے تو بھی اللہ اپنی چاہت سے کریں گے, سارے انبیاء علیہ السلام مل کر اس کام کا نہ ہونا چاہیں تب بھی کریں گے, سارا اللہ کا غیر نہ چاہے تب بھی اللہ ہی کریں گے,* 

*★_ انبیاء علیہ السلام کے وہ واقعات بیان کیا کرو جس سے اندازہ ہو کہ نبی بھی کس طرح محتاج ہے اس کام میں بھی جس کام کے لیے بھیجے گئے ہیں، انبیاء علیہ السلام ہدایت کے لیے بھیجے گئے ہیں لیکن انبیاء علیہ السلام بھی ہدایت کے دینے میں اللہ کے محتاج ہیں،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ _معاشرے کی بے دینی کا سبب:-*

*★_ ہمارے دلوں میں فوجوں کا رعب، حکاموں کا رعب سارے معاشرے کی بے دینی کا اصل سبب یا تو غیروں سے محبت یا غیروں کا رعب،*

*★_ اللہ تعالیٰ نے قران میں فرمایا ہے کہ میں مسجد کو آباد کرنے والوں کے دلوں سے غیروں کا خوف نکال دونگا اور یہ ہوں گے ہدایت یافتہ،*

*★_ کرنے والی ذات اللہ کی ہے یہ تب تک سمجھ میں نہیں ائے گا جب تک ایمان پر تین لائنوں سے محنت نہ ہوگی, جب تک انبیاء علیہ السلام کے واقعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غیبی نصرت اور جب تک ایمان کو ایمان کی علامتوں سے بیان نہیں کیا جائے گا تب تک تربیت نہیں ہوگی،*

*★_ ایمان کی حقیقت کے بغیر دل کا رخ صحیح نہیں ہوتا، اگر دل کا رخ صحیح ہوگا تو سارے اعضاء کا رخ صحیح ہوگا، دل کا رخ بگڑا ہوا ہے،*

*★_ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کرنے والی ذات اللہ کی ہے،* 
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
   *☞ __ ابراہیم علیہ السلام کا امتحان :-*

*★_ ابراہیم علیہ السلام سے اللہ نے اپنی توحید کی اواز لگوائی،*

*★_ ابراہیم علیہ السلام نے ساری شکلوں کا انکار کیا چاند کا سورج کا ستاروں کا نمرود کا سب کا انکار کیا,*

*★_ ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لیے ایسی آگ تیار کی گئی جس کے اوپر سے پرندہ بھی گزرے تو جل جائے یہ امتحان ہے،*

*★_ اللہ رب العزت قیامت تک کسی مومن کو امتحان لیے بغیر نہیں چھوڑیں گے, خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں, جب تک یہ مال اولاد اسباب کے فتنوں میں نہیں پڑھیں گے اس وقت تک ان کا ایمان ایمان نہیں مانا جائے گا کہ یہ آمنا کہیں اور ہم ان کو قبول کر لیں، ہم ان کو ازمائیں گے، ازمائش ہوگی ایمان کی،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ابراہیم علیہ السلام کی براہ راست مدد :-*

*★_ ابراہیم علیہ السلام کو اگ میں ڈالے جانے کے لئے طوپ میں بٹھایا گیا، حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے ساتھ پہاڑوں کے فرشتے اور سمندر کے فرشتے کو لے کر حاضر ہوئے کہ اپ حکم فرمائیے،*

*★_ امتحان یہ ہے کہ کرنے والی ذات اللہ کی ہے، فرمایا مجھے آپ کی کوئی حاجت نہیں، حالانکہ جبرائیل علیہ السلام امانت دار فرشتے ہیں، اللہ ہی کی طرف سے آتے ہیں اور نبی کی طرف ہی آتے ہیں، صاف انکار فرمایا کہ مجھے آپ کی کوئی حاجت نہیں،*

*★_ کیونکہ اللہ تعالی جب حالات لاتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ میری طرف کتنا متوجہ ہوتے ہیں،*.

*★_ جب اللہ کے غیر کا انکار کیا تو اللہ تعالی نے مدد براہ راست کی کہ ابراہیم جب تم نے اپنے اور ہمارے بیچ کسی کو ذریعہ نہیں بنایا تو ہم نے بھی تمہارے اور ہمارے بیچ کسی کو ذریعہ نہیں بنایا،‌ اللہ تعالی نے اپنے امر سے آگ کو ٹھنڈا کیا کوئی سبب استعمال نہیں فرمایا،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ ___ اسباب ازمائش کے لیے ہے:-*

*★_ فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے بھی اللہ کے تابع ہیں، یہ نہیں کہ ان کے ہاتھ میں کچھ ہے، اس لیے انبیاء علیہ السلام نے اپنی مدد کے لیے فرشتے کہیں نہیں مانگے، فرشتوں کا نزول تو انبیاء علیہ السلام کے اکرام میں ہوتا تھا ورنہ نصرت تو اللہ تعالی خود براہ راست فرماتے تھے،*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی پھینکی مشرکین کی طرف تو اللہ تعالی نے فرمایا ہم نے پھینکی ہے آپ نے نہیں پھینکی،*

*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کو پہچانا ہے اپنے ارادوں میں ناکام ہو کر،*

*★_ اللہ تعالی بعض موقعوں پر انبیاء علیہ السلام کو ناکام اس لیے فرماتے ہیں کہ وہ جان لیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہے ان سے نہ ہوگا بلکہ اللہ ہی کے کرنے سے ہوگا،*

*★_ اللہ رب العزت انبیاء علیہ سلام کو اسباب ازمائش کے لیے دیتے ہیں کہ دیکھیں اسباب میں لگ کر ہمیں بھول تو نہیں جاتے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ __سلیمان علیہ السلام کا واقعہ :-*

*★_ سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے ایسی بادشاہت دی کہ کسی کو نہ دی،‌ پھر ایک خیر کا ارادہ کیا کہ میں چاہتا ہوں اللہ کے دین کے لیے سو مجاہدین تیار کروں اپنی اولاد میں سے،*

*★_ روایت میں ہے سو بیویوں سے صحبت کی، نبی ہیں اسباب بھی پورے ہیں، اعلی قسم کی بیویاں ہیں، نیک ارادہ ہے،*

*★_ اللہ کی شان سو بیویوں میں سے صرف ایک کو حمل ٹھہرا, 99 کو حمل ہی نہیں ٹھہرا, اس سے بھی وقت سے پہلے ایک بغیر روح کا جسم پیدا ہو گیا,*

*★_ جب سامنے لا کر رکھا گیا تو فوراً سمجھ گئے, نیک ارادہ تھا مگر اللہ کو ساتھ نہیں لیا، ان شاء اللہ کہنا بھول گئے،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ _ مومن کی شان تقویٰ ہے_,*

*★_ ہمارے درمیان اللہ کے تذکرے نہیں ہیں اس لیے ہم اللہ کو بھولے ہوئے ہیں، ہم اللہ کو جانتے ہی نہیں ہیں،*

*★_ انبیاء علیہ السلام کے واقعات دلوں کے جماؤں کا سبب ہیں ورنہ اہل باطل اس زمانے میں بھی عقائد کی وہ شکلیں پیش کریں گے کہ مسلمان یہ کہیں گے کہ یہ وہ حرام تو نہیں جس کو حرام کہا ہے، یہ کوئی دوسری چیز ہے،*

*★_ مسلمان کی امتیازی شان تقوے سے ہے، میں کیا عرض کروں ؟ کہیں مینارا اونچا ہو جائے تو شان ہو جائے گی اسلام کی، کہیں جھنڈا اونچا ہو جائے گا تو شان ہو جائے گی اسلام کی،*

*★_ حضرت فرماتے تھے کہ اسلامی حکومت کا نام اسلام نہیں ہے, اسلام مسلمان کے سر سے لے کر پیر تک جس کو دیکھ کر اللہ یاد آ جاوے اس کو مسلمان کہتے ہیں، اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمان ہے تو اس کو دیکھ کر اللہ یاد ائے گا اور اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمان نہیں ہے تو اس کو دیکھ کر اللہ یاد نہیں ائے گا،*

*★_ قران و حدیث میں جتنی علامتیں ہیں نفاق کی سب ایمان والوں کے لیے ہے منافقین کے لیے نہیں، ان سے تو کوئی خطاب ہی نہیں، نفاق کی ساری علامتوں سے مومن مخاطب ہیں، علامت نفاق مومن کے لیے ہیں تاکہ مومن ان علامتوں سے ڈرے اور بچے،*

*★_ ہم تو اپنے اپ کو ایمان کا دعویدار سمجھتے ہیں اور جو ایمان والے تھے صحابہ وہ اپنے آپ کے نفاق سے ڈرتے تھے کہ حنظلہ رضی اللہ عنہ.. کہ میں تو منافق ہو گیا، کیوں ؟ اس لیے کہ ایمان کی وہ کیفیت جو آپ کی مجلس میں ہوتی ہے وہ باہر جا کر ختم ہو جاتی ہے،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ایمان تو اپنی علامتوں کے ساتھ ہے:-*

*★_ ہم ایک ماڈرن اسلام چاہتے ہیں یہ ماڈرن اسلام کوئی اسلام نہیں ہے، اسے حالات کا اسلام کہتے ہیں یہ حکم کا اسلام نہیں ہے،*

*★_ ہم چاہتے ہیں ایسی کوئی شکل نکل آوے درمیان کی، کوئی سمجھوتہ ہو جائے، جب کہ فرمایا نبی جی اگر آپ ان کو دیکھ کر چلیں گے تو یہ آپ کو سیدھے راستے سے ہٹا دیں گے،* 

*★_ غیر سمجھ گئے کہ مسلمان سود سے تو بچے گا نہیں مسلمان کی یہ یہ ضرورتیں ہیں معلوم ہے ان کو، انہوں نے کمائی کے نقشوں میں کھانے کی چیزوں میں پہننے کے لباسوں میں ہر ضرورت میں حرام کو داخل کر دیا ہے صرف اس لیے کہ مسلمان کسی موقع پر بھی حرام سے بچ کر نہ نکلے،*

*★_انہیں معلوم ہے اللہ کی جو مددیں ان کے ساتھ ہیں ہم ان سے بچنے والے نہیں ہیں، ان کی دعاؤں کو مردود کرانے کے لیے اللہ کے یہاں ان کے کھانوں میں پہننے کے لباسوں میں ہر ضروریات میں حرام داخل کر دو،*

*★_ بے دینی کے ساتھ سمجھوتہ ایمان کا اس کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے، ایمان تو اپنی علامتوں کے ساتھ ہے، اس لیے ہمیں اپنے ایمان کو علامتوں کے ساتھ سیکھنا ہے،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *☞ _ایمان کی حقیقت کیا ہے؟*

*★_ حیات صحابہ میں حضرت نے بیان فرمایا ہے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ ایک واقعہ ذکر کیا ہے، ایک جماعت اپ کے پاس ائی، اپ نے فرمایا تم کیا ہو ؟ انہوں نے عرض کیا ہم سب ایمان والے ہیں,*

*★_ فرمایا تمہارے ایمان کی کیا د لیل ہے؟ عرض کیا ہمارے اندر 15 خصلتیں ہیں, پانچ پر ہمارا ایمان ہے پانچ پر ہمارا عمل ہے اور پانچ ہمارے اندر زمانہ جاہلیت سے ہے , آپ چاہیں تو زمانہ جاہلیت کی خصلتوں کو چھوڑ دیں آپ چاہیں تو باقی رکھیں،*

*★_ آپ نے فرمایا وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جن پر تمہارا ایمان ہے ؟ عرض کیا ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر آخرت کے دن پر,*

*★_ آپ نے فرمایا وہ پانچ کیا ہیں جن پر تمہارا عمل ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ عبادت کے لائق اللہ کے سوا کوئی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں, نماز قائم کرتے ہیں رمضان کے روزے رکھتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور حج کرتے ہیں,* 

*★_ آپ نے فرمایا وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جو زمانہ جاہلیت سے ہیں ؟ عرض کیا ہم میں شکر ہے، ہم میں صبر ہے، دشمن کے مقابلے میں جم کر لڑتے ہیں، اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہتے ہیں، اگر مصیبت دشمن پر بھی ائے تو خوش نہیں ہوتے،*

*★_ اپ نے فرمایا یہ سب کے سب دین کی سمجھ رکھنے والے ہیں، قریب تھا کہ ان خصلتوں کی وجہ سے سب کے سب نبی ہو جاتے،* 

*★_ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتوں کی وصیت فرمائی تاکہ اللہ تمہارے اندر خیر کی خصلتوں کو پورا کر دے،*

*★_ فرمایا- پانچ باتیں اور محفوظ کر لو, ضرورت سے زیادہ کھانا محفوظ نہ کرو، ضرورت سے زیادہ تعمیر نہ کرو، جس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے اس میں رغبت نہ کرو، اس ذات سے ڈرتے رہو جس کے پاس تمہیں سب کو جمع ہونا ہے، اس جنت میں رغبت کرو جہاں تمہیں رہنا ہے ہمیشہ کے لیے،*
*®_ (مفہوم حیات صحابہ جلد 1 صفحہ 203)*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
    *☞ _اللہ کی کتاب قران پر ایمان لانا :-*

*★_ اللہ کی کتاب پر ایمان لانا کس کو کہتے ہیں ؟ کیا صرف اتنا کہہ دینا کہ قران اللہ کی کتاب ہے اس کو کہتے ہیں قران پر ایمان لانا ؟* 

*★_میرے دوستو عزیزو ! مکہ کے مشرکین کو بھی یقین تھا کہ یہ قران اللہ کی کتاب ہے، وہ تو حسد کرتے تھے کہ اتنی عظیم کتاب آخری کتاب آسمانی کتاب یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نازل ہوئی طائف کے مکہ کے کسی بڑے چودھری بڑے عہدے دار پر کیوں نہ نازل ہوئی،*

*★_ مسلمان سے تو سوال ہے اس بات کا کہ تو قران پر ایمان لایا کہ نہ لایا، قران پر ایمان لانا اس کو کہتے ہیں کہ اس کے حرام کو حرام سمجھنا اور اس سے بچنا اور اس کے حلال کو حلال جاننا اور اس پر چلنا،*

*★_کیونکہ ایک صحابی سے غیبت ہو گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسل میں تو اپ نے فرمایا اپ قران کے ساتھ کھیل رہے ہو، وہ شخص قران پاک پر ایمان نہیں لایا جو قران کے حرام کو حلال سمجھے ،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
    *☞ _ اعمال میں سب سے پہلی چیز نماز ہے:-*

*★_ سب سے پہلی چیز اعمال میں فرما رہے ہیں وہ نماز کو قائم کرتے ہیں، کیونکہ پڑھنے کی دعوت تو ان کو دی جاتی تھی جب کسی کو اسلام کی طرف دعوت دی جاتی تھی، یہ فرائض بتلائے جاتے تھے غیر کو جو اسلام میں داخل ہوتے تھے،*

*★_ نماز کو قائم کرنے کا حکم مومن کو ہے, جس کی نماز قائم نہیں اس کا دین قائم نہیں ورنہ یہ ممکن ہی نہیں جس کی نماز قائم ہو اس کا دین قائم نہ ہو،*

*★_ جس شخص سے کوئی گناہ ہو جائے وہ اپنے گناہ کا سبب اپنی نماز میں تلاش کرے کہ مجھ سے یہ گناہ کیوں ہوا ہے؟ نماز منکرات سے روکنے والی ہے اور ذکرِ اکبر اسی کو کہتے ہیں جو منکر سے روک دے،* 

*★_یہ نہیں کہ تم اللہ کا ذکر کرو یہ بڑی بات ہے, بلکہ بات یہ ہے کہ اللہ تمہارا ذکر کر رہے ہیں آسمانوں پر، اللہ اپنے ذکر کرنے والوں کا تزکرہ کرے یہ ذکرِ اکبر ہے، ہم اللہ کا ذکر کریں گے اللہ ہمارا تزکرہ کریں گے ہم سے بہتر مخلوق میں،*

*★_ نماز قائم کرو, مسلمان سے تو نماز کے چھوٹ جانے کا تصور ہی نہیں ہے بلکہ شرم آتی ہے ایک مسلمان سے یہ کہتے ہوئے کہ نماز پڑھو،*

*★_ جس کا چھوٹنا کفر ہے وہ مسلمان سے کیسے چھوٹ سکتی ہے، نماز کا چھوڑنا کفر ہے اس کو ہلکا سمجھنا کفر ہے، اس کا انکار کفر ہے، نماز ہی آڑ ہے کفر اور اسلام کے درمیان،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ __ زکوٰۃ کی ادائیگی :-*

*★_ حضرت فرماتے تھے اگر مسلمان زکوٰۃ کو صحیح طریقے پر ادا کرنے تو یہ زکوٰۃ کی برکتوں کو برداشت نہیں کر سکتا, اتنی برکتیں ہیں زکوٰۃ کی لیکن زکوٰۃ (صحیح طریقے پر ) ادا نہیں ہوتی_,* 

 *★_ دینے والے کو چاہیے کہ مستحق کو تلاش کرے جیسے کوئی نمازی جنگل میں وضو کے لیے پانی تلاش کرتا ہو،*

*★_ اب تاجروں کو مال کمانے سے فرصت نہیں کہ مستحق کو تلاش کریں، وہ اپنے مال کو کسی کے حوالے کر دیتے ہیں کہ بھائی کسی خیر کے کام میں خرچ کر دینا،*

*★_ نہیں ! ذکوٰۃ دینے والے کو خود چاہیے کہ وہ مستحق کو تلاش کرے، تلاش کر کے زکوٰۃ ادا کرے، پھر ایک سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ زکوٰۃ اس کا حق نہیں تھا وہ تو غریبوں کا حق ہے، اس کو خیر کی راہ میں خرچ کر کے سمجھتا ہے کہ مجھے ثواب ملے گا، حالانکہ وہ مال اس کا نہیں تھا _,*

*★_ میں تو حیران ہوں کہ مال کے میل کو دین کے کام پر خرچ کر کے اس کو کیا ملے گا ؟ حق تو یہ تھا کہ جو مال پاک کیا ہو زکوٰۃ ادا کر کے اس مال کو بجائے خواہشات پر فضولیات پر خرچ کر کے، اس کو خرچ کرتا خیر کی راہ میں،*

*★_ یہ خوش ہو رہا ہے کہ میں نے زکوٰۃ دے دی اب مال کو جس طرح چاہوں خرچ کروں, نہیں ! بلکہ جو مال پاک کیا ہے زکوٰۃ ادا کر کے اس کو خیر کی راہ میں خرچ کرو, مدارس میں مساجد میں دین کے تمام شعبوں میں_,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ __ماحول اور بے دینی:-*

*★_ ماحول کو تو خام و خواہ بدنام کیا ہوا ہے، ماحول تو بہانہ ہے مسلمان کی بے دینی کا، یہ بہانہ ہے سبب نہیں ہے، ماحول سے تو وہ متاثر ہوگا جو اپنے اندر میں گندگی لیے ہوئے ہوگا،*

*★_ آپ دیکھ لیجیے کوئی کھنجیر کسی گندی جگہ پر جائے تو اس کو وہاں سے انس ہوگا، جو مسلمان اپنے اندر گندگی لیے ہو وہ ماحول سے متاثر ہوگا ورنہ ہو نہیں سکتا کہ مسلمان ماحول سے متاثر ہو جائے،*

*★_ ماحول سے مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان سے ماحول ہے، ماحول کہتے ہیں مسلمان کے جسم سے نکلنے والے اعمال کو، اگر مسلمان کے اعمال اچھے ہوں گے تو ماحول اچھا ہوگا اور مسلمان کے اعمال بگڑے ہوے ہوں گے تو ماحول بگڑا ہوا ہوگا_,*

*★_ دو چیزیں بدنام ہے ایک ماحول اور ایک شیطان، اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ شیطان کا تو بس ہی نہیں چلتا ہے بالکل بھی، شیطان کا شیطان کا تسلط تو اس پر چلتا ہے جس کو انہوں نے دوست بنایا ہوا ہے، شیطان کا مکر تو بہت کمزور ہے، یہ سبب نہیں ہے بہانہ ہے بے دینی کا ،* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ ___ صبر اور شکر :-*

*★_ ایک حدیث میں اتا ہے کہ صبر اور شکر یہ دونوں کے دونوں کامل ایمان ہیں، ادھا ایمان صبر ہے ادھا ایمان شکر ہے، جس کے اندر یہ خصلتیں پیدا ہو گئیں وہ کامل ایمان والا ہے ،*

*★_ یہ دونوں لفظ ہماری جہالت کا شکار ہو گئے، اج کل لوگ صبر اسے کہتے ہیں وگ کہ پٹائی کھاتے رہو برداشت کرو اور شکر اسے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر، حالانکہ نہ شکر اس کو کہتے ہیں نہ صبر یہ ہے،*

*★_ جو حالات گناہوں کی وجہ سے اتے ہیں ان کے صبر کی مدت جہنم تک بھی پوری نہیں ہوگی, اللہ تعالی جہنمیوں سے کہیں گے کہ صبر کرو نہ کرو تمہیں تمہارے کیے کا بدلہ مل رہا ہے,*

*★_ صبر کس کو کہتے ہیں ؟ صبر کہتے ہیں حالات کے مقابلے میں اللہ تعالی کے حکم پر جمنا,*

*★_ لوگ منتظر ہیں کہ زمانہ بدلے گا تو حالات بدلیں گے، بالکل نہیں، زمانہ اور حالات کا کوئی جوڑ ہی نہیں، حالات کا جوڑ تو اعمال سے ہے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ ___صبر تقویٰ کے ساتھ ہے:-*

*★_ زمانہ اور حالات کا کوئی جوڑ نہیں، حالات کا جوڑ اعمال سے ہے، بلکہ بعض ایسے احمق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حکومت بدل جائے گی تو حالات بھی بدل جائیں گے، جو اپنے حالات کو اعمال سے نہیں جوڑے گا اسے اپنے حالات کسی کے ساتھ تو جوڑنے پڑیں گے کہ حالات کیوں ہیں ؟*

*★_ حالات سے سبق لینا اور حکم کی طرف پلٹ جانا یہ مومن کی علامت ہے، مومن تو وہ ہے جس کو اپنے کاروبار میں اپنے حالات میں کوئی جھٹکا لگے تو فوراً حکم کی طرف آ جاوے تو یہ کامیاب ہے،*

*★_ اور اگر یہ کہے کہ صبر کرو تو فرمایا صبر تو نہ قبر تک ختم ہوگا نہ حشر تک ختم ہوگا نہ جہنم تک ختم ہوگا، جو حالات گناہوں کی وجہ سے اتے ہیں وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے کیونکہ سبر کے ساتھ تقویٰ شرط ہے،*.

*★_ بغیر تقویٰ کے صبر نہیں ہوگا, جس میں تقویٰ نہیں وہ صبر کرنے میں جھوٹا ہے, قران میں صبر اور تقویٰ ساتھ ساتھ ملیں گے, مسلمان صبر تو کرتا ہے مگر تقویٰ اختیار نہیں کر رہا,*

*★_ آج کل یہی شور ہو رہا ہے کہ مسلمان بے گناہ ہے مسلمان مارے جا رہے ہیں ایسا ہو نہیں سکتا کہ مسلمان بے گناہ ہو اور اللہ تعالی اس پر حالات لاوے،*

*★_ اگر مسلمان پر تقویٰ کے ساتھ حالات آوے تو یہ نبیوں کی صف میں ہے لیکن حالات گناہوں کی وجہ سے ہے تو پھر یہ چوروں کی صف میں ہے ،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *☞ _ عذاب اللہ نے روکا ہوا ہے :-*

*★_ اگر مسلمان پر تقوے کے ساتھ حالات آوے تو یہ نبیوں کی صف میں ہے لیکن حالات اگر گناہوں کی وجہ سے آوے تو پھر ہم چوروں کی صف میں ہیں،*

*★_ چوروں کو مارا جاتا ہے تھانوں میں پیٹا جاتا ہے، اگر سارے چور مل کر بد دعا کریں تو عذاب نہیں ائے گا، عذاب تو اللہ نے روکا ہوا ہے، اللہ تعالی اس وقت تک حالات نہیں بدلیں گے جب تک مسلمان امتیازی شان اختیار نہ کرے تقوے کے ساتھ، یہ اللہ کا فضل ہے حکمت ہے کہ عذاب کو روکا ہوا ہے،*

*★_ ساری دنیا میں شور مچا ہوا ہے مسلمان مظلوم ہے مسلمان مظلوم ہے، مظلوم کی بددعا اور اللہ کے درمیان تو کوئی پردہ ہی نہیں ہے، مظلوم تو تقوے کے ساتھ ہوتا ہے، بغیر تقویٰ تو ظالم ہوتا ہے،*

*★_ ذرا عقل سمجھ سے کام لو کہ تقویٰ کس کو کہتے ہیں، تقویٰ کہتے ہیں اللہ سے تنہائی میں ڈرنے کو جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو _,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ مومن کا امتحان ایمان کی ہر صفت میں ہوگا:-*

*★_ تقوے پر اللہ کا وعدہ ہے کہ حرام سے بچا کر نکالیں گے، ہم حرام میں اس لیے پڑے ہوئے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے کہ میں تو مجبور ہوں، جو مسلمان گناہ میں مجبور سمجھے اپنے آپ کو اس کے لیے حرام سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں بنے گا،*

*★_ مومن کا امتحان ہوگا کہ ہر صفت میں، تقویٰ ایمان کی صفت ہے، اس کا بھی امتحان لیں گے، یوسف علیہ السلام نکل کر بھاگے تو سارے راستے کھلتے چلے گئے، یوسف علیہ السلام کو ذلیخہ سے بچنے کے بعد بھی پھر جیل ہو گئی،*.

*★_ ہمارا حال یہ ہے کہ اگر ہم کسی گناہ سے بچ بھی جائیں تو اس کے بعد جو حالات اتے ہیں, وہ حالات گناہ کی طرف واپس لے جاتے ہیں, آپ کے عزیز دوست ملیں گے اپ کو جو حرام کا مشورہ دیں گے کہ آپ نے جلدی کی، بغیر سوچے سمجھے قدم اٹھا لیا (کہ حرام کاروبار چھوڑ دیا),*

*★_ اللہ کا مجاز یہ ہے کہ جو حرام سے بچ کر نکلے گا اس کا امتحان لیں گے کہ یہ حالات سے گھبرا کر واپس حرام کی طرف تو نہیں جاتا ہے،*

*★_ جس کا اللہ سے تعلق نہیں ہوگا اس کو تو مخلوق سے تعلق قائم کرنے پڑھیں گے، اس وقت مسلمان کا حال یہ ہے کہ جس کی طرف سے حالات آتا ہے اس کی ہی طرف دوڑتے ہیں'*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ ___ شکر کسے کہتے ہیں ؟*

*★_ شکر کہتے ہیں اللہ رب العزت کی اطاعت میں بندے کا فنا ہو جانا، اس کو کہتے ہیں شکر، وہ انتہائی کمینہ ہے جو کسی سے ہدیہ لے کر بھی شکریہ ادا نہ کرے کسی کے احسان کا بدلہ نہ دے،*

*★_ عبادت نعمت کا بدل نہیں ہے عبادت تو حکم کا تقاضا ہے،*

*★_ لوگ یہ کہتے ہیں اللہ نے اپ کو یہ دیا یہ دیا (اپ کو عبادت کرنی چاہیے) کتنی گھٹیا بات ہے کہ یہ اللہ کی نعمت کے بدلے میں عبادت کرے، عبادت تو اس کا حق ہے،*

*★_ اگر کوئی شخص پیدائش سے لے کر موت تک اللہ کی عبادت میں ہی مشغول رہے اور اللہ تعالی اس کو پہننے کو کپڑا نہ دے کھانے کو ٹکڑا نہ دے رہنے کو جھونپڑا نہ دے، اللہ اس کو کچھ بھی نہ دے اور اس شخص کو یہ خیال آ گیا کہ میں نے اللہ کی اتنی عبادت کی اللہ نے مجھے کچھ بھی نہ دیا تو یہ ناشکرا ہے شکر گزار نہیں ہے،* 

*★_ یہاں تک مجاز بگڑ چکا ہے کہ اگر کوئی دیندار شخص تنگی میں ہو اور برے حالات میں ہو تو لوگ اس کے دین کے بارے میں شک میں پڑ جاتے ہیں کہ تم تو اللہ کے احکام پورے کر رہے ہو پھر یہ حالت کیوں ہے ؟*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسی شک سے نکالا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یہ کیسر و کسریٰ محلات میں (نرم نرم) بستروں میں اور اپ اللہ کے نبی اپ کے گھر میں ایک طرف جو پڑے ہوئے ہیں اور ایک کھال لٹکی ہوئی ہے اور اپ کے جسم پر (ٹاٹ پر سونے کی وجہ سے) نشان پڑے ہوئے ہیں, یہ کیا بات ہے ؟ اللہ کیوں نہیں وسعت فرماتے اپ کے لیے ؟* 

*★_ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے فرمایا اے خطاب کے بیٹے ! تم ابھی تک دھوکے میں پڑے ہوئے ہو, ابھی تک شک میں ہو, یہ تو وہ ہیں جن کو اللہ دنیا میں ہی دے کر نپٹانا چاہتے ہیں,*

*★_ اس لیے جتنے بھی مالدار صحابہ ہیں کوئی بھی دنیا سے خوش نہیں گیا, سب روتے ہوئے گئے کہ کہیں اللہ نے ہمیں دنیا میں ہی دے کر نپٹا تو نہیں دیا ( اخرت میں کچھ نہ ملے)*

*★_ اس لیے عبادت اللہ کا حق ہے چاہے وہ کچھ نہ دے,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ __جنت عمل سے نہیں ملے گی:-*

*★_ اللہ تعالی سارے عابدوں کو جہنم میں ڈال دے اللہ کو اس کا حق ہے،*

*★_ جنت عمل سے نہیں ملے گی, جنت تو اللہ کے فضل سے ملے گی، جنت کے مراتب عمل سے ہیں، جنت کا داخلہ عمل سے نہیں، داخلہ تو اللہ کے فضل سے ہے ،*

*★_آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ اے عائشہ کوئی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اور آپ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اپنے عمل سے نہیں جاؤں گا جنت میں، اللہ ہی اپنے فضل سے جنت میں داخل فرما دے اور اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے،* 

*★_ یہاں تو یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ میں اتنے اتنے عمل کرتا ہوں ان عملوں میں میرے ساتھ کیا ہوا، ایسے لوگ دین کے بارے میں شک میں پڑ جاتے ہیں اور شک ہی انہیں عمل سے روک دیتا ہے ،*

*★_ بندے کا اللہ کی عبادت اور اطاعت میں فنا ہو جانا یہ شکر ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف پھر آپ کیوں عبادت میں اتنا تھکتے ہیں اتنی آپ محنت کیوں کرتے ہیں، فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو،*

*★_ اس سے زیادہ محرومی کیا ہوگی کہ اللہ کی اتنی نعمتیں اور ان نعمتوں میں اللہ کا حکم توڑنا جبکہ تقاضا تو یہ تھا کہ بغیر کسی نعمت کے اس کا حق سمجھ کر عبادت کرتے,* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ ___ نعمتوں کا حساب ہوگا:-*

*★_ اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں یہ اللہ کی امانتیں ہیں, ان سب کا حساب ہوگا پورا پورا,*

*★_ راستہ بتانے والے کے پیچھے چلو تو جنت میں پہنچ جاؤ گے, ہم نے حرام کھانوں سے حرام معاشروں سے غیروں کے طریقوں سے ہمیں کیا امید ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملیں گے,*

*★_ صحابہ رضی اللہ عنہم کے یہاں تو یہ سوال ہی نہیں تھا کہ جس کے پاس جتنا مال ہے وہ اپنے حساب سے خرچ کرے کیونکہ صحابہ کا مجاز اور مامول یہ تھا کہ وہ اپنی ضرورت سے زائد مال کو اپنا حق نہیں سمجھتے تھے،* 

*★_ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اعلان ہی یہ تھا کہ جس شخص کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ ایک درہم بھی ہے اور وہ اس کو خرچ نہ کرے دوسروں پر، تو اس درہم کو تپا کر اس کے جسم پر داغا جائے گا قیامت کے دن جہنم کا عذاب ہوگا _,*

*★_ یہاں تو ضرورت اور خواہش میں کوئی فرق ہی نہیں رہا تو پھر کون طے کرے کہ زائد مال کون سا ہے ؟ خواہش کا میدان کبھی پورا نہیں ہوتا,*

*★_ کسی غلط چیز کو چھوڑنے والا شخص وہ نہیں ہو سکتا جو یہ کہے کہ اج تو کر لوں ائندہ نہیں کروں گا, توبہ کے لیے شرط ہے کہ اپنے غلط عمل کو ادھورا چھوڑ دو _,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __غیروں کی ہدایت کی تمنا کرو :-*

*★_ دیکھو یہ بات یاد رکھنا جو شخص غیروں پر انے والی مصیبتوں سے خوش ہوگا وہ ان کی ہدایت کا اور جنت میں جانے کا ذریعہ نہیں بنے گا، صحابہ کرام کا مزاج یہ نہیں تھا, ایمان سلب ہو گیا تھا اس بات پر کہ اس جہاز میں ڈوبنے والے سب غیر تھے،*

*★_ صحابہ کے دلوں میں اصرار تھا ہمدردی تھی غیروں کے لیے, آج تو یہاں اصرار ہمدردی نہیں ہے اپنوں کے لیے بھی، یہ جانوروں والی زندگی ہے دوسروں سے بچا کر کھانا_,*

*★_ خود مشرک کا قول ہے کہ میں قید ہو کر آیا خبر نہیں کہ قتل کریں گے کہ چھوڑدیں گے مجھے، کہتے ہیں کہ صحابہ دسترخوان میرے قریب لے ائے اور جو روٹی کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا وہ سب سے پہلے میری طرف بڑھا دیا کہ ہمارا مہمان ہے،*

*★_ مسلمان نے وہ معاشرہ ہی ختم کر دیا جس سے غیر اسلام کی وسعت کو سمجھتے تھے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کو مسجد میں اس لیے رکھتا ہوں یہ اعمال مسجد ان کے دلوں کو نرم کر دے، کہ جب غیر کا دل مسجد کے ماحول سے تین دن میں اسلام کے لیے تیار ہو سکتا ہے تو کیا ایک مسلمان تین دن میں مسجد کے ماحول سے اس کا دل نرم نہیں ہو سکتا ؟*

*★_ ہمارے دلوں میں غیروں کی ہدایت کا جذبہ ہو اس کے علاوہ کوئی جذبہ نہ ہو, اللہ کے یہاں کیا تو داعی کے لیے شرط ہے کہ داعی کے دل میں انتقام کا جذبہ نہ ہو کیونکہ اللہ کے یہاں سے جس کے لیے ہدایت مقدر ہے یا ہلاکت مقدر ہے اس کا فیصلہ داعی کی ان کی ہدایت ہی کی تمنا پر ہوگا،*

*★_ ہم نے تو کام کو تنظیم بنا لیا ورنہ داعی کی نیت تو نبی کی طرح وسیع ہوتی ہے، اتنی وسیع کہ سارے عالم ساری انسانیت کو وہ اپنی اولاد کی طرح چاہتے ہیں_,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ ___ سنت ہی تہذیب ہے :-*

*★_ یہود و نصاری کے طریقوں کو تہذیب کہنا سنت کو مٹانا ہے بلکہ سنتوں پر عیب لگانا ہے،*

*★_ اگر آج کوئی شخص کسی قیمتی گاڑی میں بیٹھے تو فخر کرے گا، اور کوئی گدھے پر بیٹا ہو تو اس پر عیب لگایا جائے گا، جبکہ گدھے پر بیٹھنا سنت ہے (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کی سواری استعمال کی ہے) اللہ کے یہاں گدھے کی قیمت قیمتی گاڑیوں سے زیادہ ہے (سنت ہونے کی وجہ سے )*

*★_ عمر رضی اللہ عنہ کو جب ترکی گھوڑے پر بیٹھایا گیا تو فوراً اتر گئے، فرمایا میں نے سنا تھا شیطان پر شیطان سوار ہوتا ہے، آج دیکھ بھی لیا، اس پر بیٹھتے ہی مجھے اپنا دل بدلا ہوا لگا _,*

*★_ سنت پر خلاف ماحول عمل کرنا یہ سنت کو زندہ کرنا ہے، جو شخص ماحول دیکھ کر سنت پر عمل کرے وہ سنت کو مٹانے والا ہے، سنت یہ نہیں ہے کہ آپ موقع دیکھ کر عمل کریں _,*

*★_ یہ سوال کرنا کہ صرف سنت ہے فرض تو نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سنت کو چھوڑ دو یہ فرض نہیں ہے، یہ سوال آج عام ہو گیا کہ صرف سنت ہی تو ہے فرض تو نہیں ہے،*

*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو یہ کہہ کر چھوڑنا کہ صرف سنت ہی تو ہے فرض نہیں ہے، اس سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں ہوگا کیونکہ سنت کو ہلکا سمجھ کر چھوڑنے کا گناہ الگ اور معاشرہ جو بگڑے گا اس سے اس کا عذاب الگ ہوگا _,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ دعوت کے کام کا مقصد سنت کو زندہ کرنا ہے:-*

*★_ ہم میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں فرق یہ ہے کہ صحابہ سنت پر عمل کرتے تھے سنت ہونے کی وجہ سے اور ہم سنت کو چھوڑتے ہیں سنت ہونے کی وجہ سے، حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ فرماتے تھے میرے کام کا مقصد اہیائے سنت ہے,*

*★_ ایک میواتی کو حضرت نے بائیں ہاتھ سے پانی پیتے دیکھا، حضرت بہت بیمار آپ بے چین ہو گئے کہ کوئی اس کو روکے، تبھی ایک آدمی نے آکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا، حضرت کو بہت خوشی ہوئی فرمایا کہ میری جماعتوں میں سنت کے خلاف عمل ہونے پر ناگواری پیدا ہونے لگی ہے،*

*★_ امام یوسف رحمۃ اللہ نے اپنے دوست وزیر کی دعوت کی, کھانے میں لوکی بنائی گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی، اس وزیر کی زبان سے صرف اتنا نکل گیا کہ لوکی مجھے تو پسند نہیں، فوراً حکم لگا دیا کہ اس وزیر کو باندھ دو یہ کفر کے نزدیک چلا گیا، بادشاہ کو پتہ چلا تو فرما دیا کہ یہ وزیر وزارت کے قابل نہیں _,*

*★_ ایک زمانہ تھا کہ سنتوں سے ایسی محبت تھی بچے بچے کے دل میں کہ مسلمان غیروں سے جھانٹا ہوا تھا، اب تو مسلمان کو چھانٹنا مشکل ہے پہچاننا مشکل ہے، سلام سے پہلے بھی نام پوچھنا پڑتا ہے _,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ ___فرائض بنیاد اور سنت عمارت ہے اسلام کی:-*

*★_ حالانکہ نماز بھی پڑھ رہے روزہ بھی رکھ رہے زکوٰۃ بھی ادا ہو رہی حج بھی کر رہے ہیں، سارے فرائض ادا کر رہے لیکن صرف سنت ایسی چیز ہے جس کے بغیر مسلمان پہچانا نہیں جا سکتا،*

*★_ اپنے لباس سے شکل سے وجہ قطع سے معلوم ہوگا کہ مسلمان ہے، صرف فرائض کا نام اسلام نہیں ہے، فرائض تو بنیادیں ہیں اسلام کی، سنتیں اسلام کی عمارت ہیں،*

*★_( بنیادیں نظر نہیں ایا کرتی عمارتیں ہی نظر اتی ہیں) معاملات اخلاق معاشرت سے مسلمان پہچانا جائے گا، تم اپنا تعارف فرائض سے کراؤ گے تو نہیں پہچانیں گے لوگ، مسلمان کا تعارف معاشرے سے ہے معاملات سے ہے ،*

*★_ فرائض تو اس کے اور رب کے درمیان ہے، معاملات اخلاق معاشرت اس کے اور مخلوق کے درمیان میں ہے، مومن کسی قوم کا نام نہیں ہے مسلمان کی اجتماعی زندگی کا نام ہے،*

*★_ دعوت کی محنت کے ذریعے امت کو اس مزاج پر لانا ہے، یہ نقل حرکت صحابہ کرام کی نقل ہے،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ _ دعوت اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے:-*

*★_ ہر (دعوت) کا کام کرنے والے کو سب سے پہلے دل کی گہرائی سے اس کا یقین ہو کہ اللہ رب العزت کے قرب کا اور اپنی دین کے اندر حسی پیدا کرنے کا دعوت الاللہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں_,* 

*★_ اگر انہیں (کام کرنے والوں کو) اللہ کے قرب کا دعوت الاللہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نظر آتا ہے تو یہ کام کے بارے میں ان کے دلوں کا شک ہے اور کام سے ناواقفیت ہے _,*

*★_ اگر اللہ کے قرب کا دعوت الاللہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ ہوتا تو اللہ رب العزت وہ ذریعہ سب سے پہلے انبیاء علیہ السلام کو عطا فرماتے، نبیوں کو وہ کام دیتے جو اللہ کی خوشنودی کا، اللہ کے قرب کا، اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہوتا لیکن اللہ نے انبیاء علیہ السلام کو دعوت اللہ سے بڑھ کر کوئی ذریعہ عطا نہیں فرمایا،*

*★_ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس راستے کی اذیتیں اتنی پسند ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس امت کو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور آپ والی ذمہ داری کو لے کر چلنے کی وجہ سے خیر امت قرار دیا ہے,* 

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے اس لیے بہتر نہیں کہا ہے کہ ہم آپ کی صحبت میں ہیں، بلکہ ہم سے تو یہ کہا گیا کہ اگر تم نے اجتماعی تور پر دعوت الااللہ کو اپنا مقصد زندگی نہیں بنایا تو پھر اللہ نے صاف فرما دیا قران میں کہ تم اگر یہ کام نہیں کرو گے تو ہم تمہاری جگہ دوسروں کو لائیں گے اور وہ تمہارے جیسے نہیں ہوں گے، ہم ان سے کام لیں گے _,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ دعوت ال اللہ میں نبوت کی لائن کے تقاضے ہیں:-*

*★_ اگر اللہ رب العزت صحابہ کرام کو ہٹا کر دوسروں سے کام لے سکتے ہیں تو اس زمانے میں ہم جیسے لوگ اس محنت کے بارے میں یہ سوچیں کہ کرنے والے ہم ہی ہیں ہم کریں یا نہ کریں،*

*★_ میرے خیال سے اس خیال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ کوئی دل میں یہ خیال کرے کہ کام کرنے والے ہم ہی ہیں، ہم چاہیں گے تو کریں گے ہم نہ چاہیں گے تو نہیں کریں گے، اللہ کی ذات بہت مستغنی ہے،*

*★_ دعوت الا اللہ میں نبوت کی لائن کے تقاضے ہیں، افرادی عبادات میں وہ تکالیف بھی نہیں ہے اور دین کی وہ نصرت بھی نہیں ہے، مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ کے ملفوظات میں ہے کہ انفرادی عبادات دین کی نصرت نہیں ہے بلکہ دین کی نصرت صرف دعوت ہی ہے،*

*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اپ کے صحابہ کے جذبے اور ان کے طریقوں کا پابند ہو کر دین کو لے کر پورے عالم میں پھرنا صرف اور صرف اس کو دعوت کہتے ہیں،*

*★_ اس زمانے میں بڑی غلط فہمی یہ ہو گئی کہ دین کا کام جس طریقے سے بھی کیا جانے وہ دعوت ہے، اس کا نقصان یہ ہوگا کہ امت دین کی نقل حرکت سے ہٹ کر دین کی اشاعت اور دین کا پھیلانا مادی شکلوں پر اور مادی چیزوں پر آ جاوے گا_,* 

*★_ مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ بڑے اہتمام سے اور بڑے غم سے فرماتے تھے کہ اگر دین کا پھیلانا رواج پر آ گیا تو رواج ترقی کرے گا دین ترقی نہیں کرے گا، دین کی ترقی تو اسی محنت میں اسی طریقہ جذبات میں ہے جو طریقہ محنت و جذبہ آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کا تھا_,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ پرانا دعوت کے کام میں عملے کو کہتے ہیں:-*

*★_ پرانا عملے کو کہتے ہیں اور عملہ وہ ہوتا ہے جو ایک فکر اور ایک کلمے پر مضتمع ہو، جن کی فکریں مختلف ہوتی ہیں وہ افراد ہیں عملہ نہیں ہیں وہ عوام ہیں،*

*★_ کسی بھی شعبے میں ہر ایک جانتا ہے کہ مجھے کیا کام کرنے کو دیا گیا ہے مجھے کیا کام کرنا ہے,*

*★_ حضرت جی رحمتہ اللہ فرماتے تھے کسی بھاری چیز کو گہرائی سے نکال کر باہر لانا ہے اور یہ بات ہر عقلمند جانتا ہے کہ کسی بھاری چیز کو اٹھانے کے لیے دو باتوں کا ہونا ضروری ہے، ایک سب کا مل کر اس کو اٹھانے پر اتفاق ہونا دوسری بات یہ ہے وہ سب کے سب اس وزن کو اٹھانے میں ایک ساتھ قوت لگائیں، یہ کام ذرے صغیر کی طرح ہے،* 

*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو دعوت عبادت معاملات اخلاق معاشرت کے اعتبار سے جس سطح پر چھوڑ کر گئے تھے امت اس سطح پر واپس آ جائے، یہ بوجھ ہے جس کو اٹھانا ہے،*

*★_ امت ایک بڑی پستی میں پڑی ہے, اس کے لیے ایک ساتھ زور لگانا اور متفق ہونا ہے، اس بوجھ کے اٹھانے پر اور یہ حقیقت ہے اگر اٹھانے والے کی رائے بدل جائے تو وہ چیز واپس گڈے میں ہی نہیں جاتی بلکہ اپنے ساتھ اٹھانے والے کو بھی لے کر جاتی ہے،* 
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ اپنے کام کو سنت کی طرف لاؤ:-*

*★_ رواجی طریقے اسان بہت ہیں، سہولتیں بہت ہیں، اس زمانے میں یہ خیال عام ہے، اللہ گواہ ہے میں اس شخص کو کام کرنے والا نہیں سمجھتا جو کام کو سہولتوں کی طرف لانے کا مشورہ دیتا ہو کیونکہ اللہ رب العزت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں ہدایت رکھی ہے،*

*★_ تصوف کا خلاصہ کثرت ذکر نہیں ہے, جبکہ تصوف کا خلاصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی ایسی پابندی کا نام ہے کہ ایک سنت کے چھوٹ جانے پر اس طرح اپنے اپ کو ملامت کرے جس طرح فرائض کے پابند ادمی کا فریضہ چھوٹ جائے اور وہ اپنے اپ کو ملامت کرے،*

*★_ میری بات کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے، دعوت کی سنتیں تو بہت اونچی چیز ہے ایک استنجے کی لائن کی سنت بھی چھوٹ جائے تو کام کرنے والا اپنے اپ کو ایسی ملامت کرے جو کسی فریضے کے چھوٹ جانے پر ملامت کی جاتی ہے،*

*★_ کیوں ؟ ہر ایک کے ذہن میں یہ خیال ہوگا کہ سنتوں کا تو یہ حکم نہیں ہے ؟ ساری بات خراب ہی یہیں سے ہوئی ہے سارا دین میلہ یہیں سے ہوا ہے ساری یہودیت نصرانیت مسلمانوں میں داخل ہی نہیں سے ہوئی ہے کہ یہ سنت ہے اس پر عمل کا یہ حکم نہیں ہے جو حکم فرائض کا ہے،* 
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __سنت مسلمان کی شان ہے:-*

*★_ مسلمان کو ظاہر کے اعتبار سے غیر مسلم صرف سنتوں کے چھوڑنے نے بنایا ہے، نماز روزہ چھوڑنے سے نہیں غیر ہوا، مسلمان کو صرف اور صرف سنتوں کے چھوڑنے نے غیر بنایا، صرف فرائض پر عمل کر لینا یہ مسلمان کے امتیاز اور مسلمان کی علامت کے لیے کافی نہیں ہے،*

*★_ کیونکہ فرائض تو مسلمان اور کفر کے درمیان اس رکاوٹ کو کہتے ہیں جس رکاوٹ کے بغیر اسلام اور کفر کی حد ختم ہو جاتی ہے، جن فرائض کو مسلمان دین سمجھے ہوئے ہیں یہ تو کفر اور اسلام کے درمیان کی آڑ ہے، اگر یہ نہیں ہے تو کفر ہی کفر ہے،*

*★_ مسلمان کی شان, امتیاز کو باقی رکھنے والی چیز وہ سنت کا اہتمام ہے، اس لیے کہ واجبات کی تکمیل سنت سے ہوتی ہے اور فرائض کی تکمیل واجبات سے ہوتی ہے، جس نے سنت کو چھوڑ دیا اس نے واجب کو ترک کر دیا اور جس نے واجب کو ختم کر دیا اس نے فرض کو ناقص کر دیا اور فرض کا ناقص ہو جانا یہ امت کے دین کے ناقص ہونے کا اصل سبب ہے،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ ہر کام سنت کے یہ نہیں ہے مطابق ہو :-*

*★_سب سے پہلی سنت سنت دعوت ہے، ہر کام کرنے والا اپنے اپ کو ذاتی ضروریات کو سنت کے مطابق پورا کرے،*

*★_ میں قسم کھا کر کہتا ہوں سنت کی پابندی کے بغیر مسلمان مسلمان کو دین پیش کرنے کے قابل نہیں ہے، کتابوں سے دین پیش کرنا یہ نبیوں کا طریقہ نہیں ہے، کتابوں سے دین پیش کرنا صحابہ کا بھی طریقہ نہیں ہے، کہیں نہیں ملتا اوپر تک کہیں نہیں ملتا کہ کتابوں سے دین پیش کیا جائے،*

*★_ بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے جو طریقہ نبیوں کو دیا گیا ہے وہ خود اپنی ذات سے عمل پیش کرنا، اس کو دین پیش کرنا کہا گیا ہے،* 

*★_ نبی جی اپنے اپ کو عمل کا مقلف بنائیے اور امت کو عمل پیش کیجیے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ایراق تشریف لے گئے تو وضو کا طریقہ پیش کرنے کے لیے وضو کا پانی منگوایا اور ایک اونچی دیوار پر بیٹھے، ایراق کے بڑے چھوٹے بچے مرد عورت سب جمع ہو گئے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا اس طرح وضو کر کے دکھایا، فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اس طرح تھا، سب کو سنت کے مطابق وضو کرنا آ گیا تھا،*

*★_ کہاں وہ زمانہ تھا کہ اعمال سے دین پیش کیا جا رہا تھا کہا یہ زمانہ ہے کہ دین کا پیش کرنا، مادی چیزوں پر محض اسباب پر آگیا ہے،*

*★_ حضرت فرماتے تھے راحتوں سے کفر پھیلا کرتا ہے دین کبھی نہیں پھیلا کرتا، اس لیے اپنے کام کو سنت کی طرف لاؤ ،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ سنت کے خلاف عمل اللہ کے یہاں قبول نہیں:-*

*★_ یہ بات اپنے دلوں کی گہرائی میں اتار لو کہ جو کام جو محنت جو عبادت خلاف سنت ہے نہ وہ اللہ کے ہاں قبول ہوگا نہ اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہوگی نہ اس سے کوئی تربیت ہوگی،*

*★_ قبولیت تربیت اور اللہ کی مدد صرف اور صرف سنتوں کی پابندی کے ساتھ ہے، سب سے پہلے یہ غور کرو کہ سنت دعوت کیا ہے ؟ اپنی محنت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر لانا ہے، اس میں سب سے ضروری اور اہم انفرادی دعوت ہے،*

*★_ داعی طالب ہے اور دعوت مطلوب ہے، حضرت فرماتے تھے جب کام کرنے والے اپنے اپ کو مطلوب سمجھیں گے تو ان کی ترقی یہیں رک جائے گی،*

*★_ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی نئے آنے والے کی طرف خود چل کر جاتے تھے، یہ مجاز نہیں تھا کہ ان کو ہمارے پاس لاؤ، ان کو ہم سے ملواؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے جاتے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ __ عوام کو توجہ دیجیے :-*

*★_ ہمارے دلوں میں مال والوں کا عہدے داروں کا تصور بیٹھا ہوا ہے کہ اب بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ ساتھ دیں گے تو کام ہو جائے گا,*

*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف سے واپس ہوئے خون سے جوتا بھرا ہوا تھا، انگوروں کے باغ میں آپنے نماز پڑھی، وہاں عتبہ شیبہ دونوں موجود تھے، اپ نے انہیں دعوت نہیں دی کہ قوم کے بڑے ہیں سردار ہیں، ان کو منا لو تو نیچے والے بھی مان جائیں گے، ان کا غلام تھا عداس آپ نے اس کو دعوت دی، عداس نے اسلام قبول کیا،*

*★_ ہمیں دور رسالت میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ خواص کو جوڑ لو تاکہ عوام ان کے روب سے دین میں داخل ہو جائے، یہ تو ملتا ہے کہ جہاں عوام کو چھوڑ کر خواص کی طرف توجہ کی گئی تو اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ ہوئی ہے،*

*★_ نوح علیہ السلام سے قوم نے مطالبہ کیا کہ آپ کے ساتھ جو غربہ مساکین ہیں انہیں ہٹا دو تو ہم آپ کی بات سنیں گے، نوح علیہ السلام نے فرمایا، بڑا آسان مفہوم ہے، میرے پاس اللہ کی مدد چاہنے کے لیے ان کے سوا کچھ نہیں_,"* 

*★_ نبی کی مدد نبی ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی، قوم کو جواب میں فرمایا کہ میرے پاس میری مدد کا سامان میرے غربہ ہیں،*

*★_ ایک مہینے ایک دن کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بھی میں نہیں چاہتا کہ تم ایک طرف ہو جاؤ غریبوں سے، میں خواص سے بات کر لوں،*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ __ انفرادی دعوت :-*

*★_ انفرادی دعوت اتنی قوی ہے کہ انفرادی دعوت میں داعی کو اپنی استعداد سے نیچے اترنا پڑتا ہے اور اجتماعی دعوت میں داعی کو اپنی سطح سے اوپر جانا پڑتا ہے جس میں کبر کا خود پسندی کا ان سب چیزوں کا خطرہ ہے،* 

*★_ انفرادی دعوت میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے، انفرادی دعوت میں بڑی ترقیات ہیں، ہم اپنی بات کو پہنچانے کے لیے خود جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے سے چھوٹے کو بھی دعوت دینے میں آر محسوس نہیں فرماتے تھے،*

*★_ دعوت کے اندر عمومیت لاؤ کیونکہ اس کام سے کوئی جماعت کوئی گروہ بنانا مقصد نہیں ہے، اس محنت سے امت بنانا مقصد ہے،*

*★_ گروہ تو بنے ہوئے ہیں امت کا طبقات میں بٹ جانا یہ امت کی خون ریزی کا اصل سبب ہے، حضرت فرماتے تھے اگر امت طبقات میں بٹ گئی تو باوجود ذکر و عبادت کے باوجود تعلیم اور تربیت کے باوجود امت کے عبادتوں پر جمع ہو جانے کے اللہ کے غیبی نصرت اللہ کی مدد کبھی نہیں نہیں ائے گی،* 

*★_ اس کام کا مقصد صرف امت کو کلمہ نماز سکھا دینا نہیں ہے، اس کام کا بنیادی مقصد امت کے اختلاف سے امت کے طبقات کے فرق کو ختم کر دینا ہے ،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ضرورت نہیں، خواص کی ہدایت مطلوب ہو :-*

*★_ ایم پی کا کوئی عہدے دار ہم سے ملنے ایا، ہم نے اطلاع دینے والے ساتھیوں سے کہا کہ بھائی پہلے ساتھیوں کو جمع کر لو، ساتھی سوچنے لگے پتہ نہیں وہ کیا سوچیں گے، ہم نے ان سے کہا اگر تم صرف ان سے ملاقات ہی چاہتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کی ہدایت نہیں چاہتے بلکہ اپنا محسن سمجھ کر دو الفاظ شکریہ کے کہنا چاہتے ہو،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کے اسلام لانے سے پہلے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو سفیان کو ایسی جگہ بٹھانا کہ جتنے صحابہ کی جماعتیں آوے سب کی سب ابو سفیان کے اگے سے گزرے،*

*★_ یہاں تو منسٹر بھی آتے ہیں تو ایسے راستے سے لے کر آتے ہیں کہ ایک بھی ادمی نظر نہ آوے کہیں, کیونکہ ہمیں ان سے ضرورت مطلوب ہے ان کی ہدایت مطلوب نہیں,*

*★_ اگر ہدایت مطلوب ہوتی تو ہم کہتے انہیں پورے مجمعے کے درمیان سے گزار کر لاؤ کیونکہ اس مجمع کے درمیان سے ان کا گزر کر آنا ان کے دلوں کو اسلام کے لیے نرم کر دے گا اور اعمال دعوت کی وجہ سے اسلام کی ہیبت دلوں کے اندر پیدا ہوگی،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اللہ کی مدد رک جانے کا خطرہ ہے:-*

*★_ کام کرنے والوں کے دماغ میں ایک ترکیب یہ بیٹھی ہوئی ہے کہ طبقات کو جوڑ لو تاکہ ان طبقوں میں بھی کام ہو جائے، یہ امت کو بانٹنے والے ہیں جوڑنے والے نہیں ہیں اور اللہ کے یہاں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جو امت کو بانٹنے میں لگا ہو _,*

*★_ میری بات یاد رکھو اگر تم خواص کی تربیت چاہتے ہو تو انہیں عوام کے ساتھ ہی جوڑو، اس کی بالکل پرواہ نہ کرو کہ اگر ان کو الگ نہ جوڑا تو بات نہیں سنیں گے، ان کے بات سننے کا مسئلہ نہیں ہے اللہ کی مدد کے رک جانے کا خطرہ ہے اور ان کی تربیت کا نہ ہونا یقینی ہے،*

*★_ بلکہ دعوت کے میدان میں خواص کے اجتماعات ان کے اندر گھمنڈ اور خصوصیت پیدا کریں گے کیونکہ بات یہ ہے کہ جو اللہ کے دین کی نسبت پر جمع ہونے والوں سے اپنا درجہ اونچا رکھیں گے ان کے اندر تواضع کیسے پیدا ہوگی، ان کی تربیت کیسے ہوگی ؟*

*★_ اپنی بڑائی کا تصور موت تک بھی ختم نہیں ہوتا_,*   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ __مشرکین کی شرط:-*

*★_ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ ہم اپ کی بات سننا چاہتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ صہیب سلمان بلال (غرباء ومساکین) یہ آپ کے ساتھ نہیں ہوں گے، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے, آپ نے اپنے سبھی صحابہ سے کہہ دیا کہ ایک جوڑ ان کا (مکہ کے مشرکین خواص سرداروں کا) ہوا ہے کرے گا,*

*★_ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جوڑ شروع کیا، ادھر بات شروع ہوئی، صحابہ سارے دور کوئی قریب نہیں، ایک نابینا صحابی عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ وہیں سے دروازے سے چیکھے اے اللہ کے نبی جو اللہ نے آپ کو سکھلایا مجھے بھی سکھلا دیجیے،*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ اگیا فرمایا کیوں آ گئے اس وقت جب منع کر دیا تھا خواص کا جوڑ چل رہا ہے، اللہ کی طرف سے سخت تنبیہ ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو، نبی جی آپ کی پیشانی پر بل آ گئے ایک نابینا بڑی طلب سے سننے کے لیے ایا ہے اور جو بات سننا نہیں چاہتے ان کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں،* 

*★_ اس لیے بات اچھی طرح سمجھ لو، نہ اجتماع سے پہلے نہ اجتماع کے بعد، ہمارے یہاں طبقاتی جوڑ کا کوئی تصور نہیں ہے، ہمیں تو عمت کے طبقات کو ختم کرنا ہے،*

*★_ اپنی بڑائی کا تصور موت تک بھی ختم نہیں ہوتا_,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
    *☞ _ کام کرنے والوں کی سیرت پر نظر ہو :-*

*★_ کام کرنے والوں کی نظر سیرت سے ہٹی ہوئی ہے، ہم نے سارا کام پانچ کام کو سمجھ لیا ہے، اس سے لوگوں کو گزار دینا اسی کو کام سمجھتے ہیں، حیات صحابہ پڑھتے نہیں جس سے یہ چیزیں سامنے آئیں،*

*★_ اپنی اپنی رائے اپنے اپنے خیال اپنے اپنے تجربات ہیں، پرانے عوام کو برداشت ہی نہیں کر رہے، تمہیں خبر ہے میں کون ہوں ؟ اللہ مجھے معاف فرمائے پرانے نئے لوگوں سے خدمت لیتے ہیں، میں تمہارا امیر ہوں میں تمہارا پرانا ہوں تم مجھے راحت پہنچاؤ میں تمہیں اصول سکھلاؤں گا،*

*★_ میری بات یاد رکھنا ! حدیث میں ہے ، اللہ کا تعلق بندے سے اور بندے کا تعلق اللہ سے صرف اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک یہ دوسروں سے خدمت نہیں لیتا، جب یہ خدمت لے گا دوسروں سے تو اللہ کا تعلق ختم ہو جائے گا،* 

*★_ ابو دردہ رضی اللہ عنہ نے خط لکھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو :- اے سلمان میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنی ضرورت کے لیے کوئی خادم خرید لیا ہے حالانکہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندے کا تعلق اللہ سے اور اللہ کا تعلق بندے سے اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک یہ دوسروں سے خدمت نہیں لیتا_,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
    *☞ _پرانوں کی ترقی کے اسباب:-*

*★_ جب پرانے لوگ نئے لوگوں کی برداشت کریں گے تو اللہ پرانوں کو تو ترقی دیں گے اور نئے لوگوں کی تربیت کر دیں گے،*

*★_ پرانوں کی ترقی نئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ہے، ہمیں حکم ہے اللہ کے راستے میں اپنی قوم کے علاوہ کے ساتھ نکلا کرو_,*

*★_ خصوصی ملاقاتیں الگ ہیں اس کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو چن چن کر بھیجا کہ کون مناسب ہے ؟ اس کا مشورہ ہوتا تھا, یہ تو ضروری ہے,*

*★_ انفرادی دعوت کے لیے مشورہ کرو کہ فلاح عہدے دار کو دعوت کون دے کون مناسب ہے؟ ساتھیوں کو تقاضوں پر مناسبت دیکھ کر بھیجنا یہ تو سنت ہے,* 

*★_ کچھ ایسی طبیعت بن گئی ہے کہ کام کرنے والے اپنی ترقی اور اپنی سعادت اب خواص سے ملاقات میں سمجھنے لگے ہیں، اب اللہ کو تلاش کرنے کے اسباب کم ہو رہے ہیں، اللہ کہاں ملیں گے ؟ اللہ خود فرما رہے ہیں کہ مجھے کمزور لوگوں میں تلاش کرو, ایک حدیث میں ہے کہ میرے پاس کمزوروں کو لے کر اؤ _,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞_ اجتماعیت :-*
*★_ اللہ کے راستے میں اجتماعیت پیدا کرو، اجتماعیت یہ نہیں ہے کہ پبلک جمع ہو، پبلک کا جمع ہونا اجتماعیت نہیں ہے، امت کے درمیان کے طبقاتی فرق ختم ہونا یہ اجتماعیت ہے، دلوں کا ایسا جمع ہو جانا کہ امت کا طبقاتی فرق ختم ہو جاوے،* 

*★_ بڑی سنت سنت دعوت ہے اور اس کی اصل بنیاد وہ امت کی اجتماعیت ہے، اللہ کی مدد اجتماعیت کے ساتھ ہے،*

*★_ اس راستے میں جو تکلیف پیش ایا کرے اس تکلیف پر شکایت کرنا یہ ایسی حماقت کی بات ہے کہ ایک ادمی اپنے لیے خود ایک راستہ اختیار کرے پھر اس راستے میں تکلیف اوے تو شکایت کرے، کیونکہ جب کوئی اپنے لیے راستہ چن لیتا ہے تو وہ چنتا تب ہے جب وہ اس لائن کی ساری تکلیفوں کے لیے تیار ہو،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا گیا کہ بادشاہت والی نبوت چاہتے ہو یا فاقے والی نبوت چاہتے ہو حالانکہ اگر اپ چاہتے تو اپ کو سلیمان علیہ السلام سے بڑی بادشاہت والی نبوت ملتی لیکن اپ نے فاقوں والی نبوت و اختیار کی،*  

*★_اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اختیاری ہے فقر اور فاقوں والی, اپ پر تو پیش کیا گیا کہ مکہ کے پہاڑ اپ کے لیے سونا بنا دیے جائیں اور یہ اپ کے ساتھ ساتھ چلے جہاں بھی اپ جائے،*

*★_ اس راستے میں چلنے والوں کی یا ساتھیوں کی یا پبلک کی نہ ماننے والوں کی شکایت کرنا اس کی کوئی گنجائش نہیں، یہاں تو ساتھیوں کی شکایتیں ذمہ داروں سے ہو رہی ہے، اللہ تو نوازنا چاہتا ہے تکلیفوں سے اور تو ڈوبنا چاہتا ہے شکایتوں سے،*

*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا بس کہ وہ قوم کیسے کامیاب ہو گی جو اپنے نبی کا خون بہا دے، اپ کے دندان مبارک شہید ہوئے اپ کو چوٹ آئی بہت، چہرہ مبارک پر لوہے کی کڑیاں گھسی، تو اللہ تعالی نے فرمایا نبی جی اپ کو شکایت کا کوئی حق نہیں ہے، ہم ان کو ہدایت دے کر معاف کریں یا جہنم میں ڈال کر عذاب دیں ہمارا کام ہے،*
 
*★_اس لیے میرے دوستو ساتھیوں کی شکایت وہ کریں گے جو اس کام میں اپنی ترقی نہیں چاہتے_,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞_ درگزر کرتے رہنا:-*
*★_ وہاں تو غیر مسلموں کی شکایت پر بھی حق نہیں شکایت کا اور یہاں اپنے ساتھیوں کی شکایت کرنے کو حق سمجھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس کا عادی بنا لیا تھا کہ تمہیں تکلیف موت تک برداشت کرنا ہے،*

*★_ ابوذر رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے آپ نے آ کر اٹھایا، مسجد میں کیوں سو رہے ہو، فرمایا میرا کوئی گھر نہیں ہے، ابوذر یہ بتاؤ جب تمہیں ذمہ دار تنگ کریں گے تو تم کیا کرو گے ؟ میں مدینہ چھوڑ کر ملک شام چلا جاؤں گا, اپ نے فرمایا اے ابوذر ملک شام والے تنگ کریں گے پھر تم کیا کرو گے؟ میں پھر واپس مدینہ آ جاؤں گا، فرمایا اے ابوذر مدینہ والے دوبارہ تنگ کریں گے تو پھر کیا کرو گے ؟*

*★_ سوال پر سوال کہ میرے ساتھیوں کو تکلیف برداشت کرنے کا ارادہ کب تک کا ہے, تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں مدینہ والوں کا مقابلہ کروں گا, آپ نے فرمایا اے ابوذر جہاں ذمہ دار تمہیں تقاضے پر بھیجے وہاں جاتے رہنا، جہاں ساتھ لے جائیں جاتے رہنا اور درگزر کرتے رہنا معاف کرتے رہنا یہاں تک کہ قیامت میں آ کر مجھ سے مل لینا،۔۔۔ آسان راستہ بتا دیا_,*

*★_ حضرت فرماتے تھے جب ناگواریاں پیش ایا کریں تو ان ناگواریوں میں انبیاء صحابہ کی ناگواریاں تلاش کیا کرو اور تلاش کرنے کے بعد شکر کیا کرو، اے اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے اس قابل سمجھا کہ جو تکلیف نبی پر ائی وہ مجھ پر ائی،* 

*★_ ایک اہم بات یہ ہے اجتماعیت کی کہ ساتھیوں سے درگزر کرو معاف کرو، جب کوئی غلطی ہو جائے ساتھیوں سے تو غلطیوں کی اچھی تعویل کیا کرو کیونکہ اللہ تعالی کو کسی مومن کے عیب چھپانے میں جھوٹ بولنا زیادہ پسند ہے سچ بولنے سے،* 

*★_ تو اپنی انکھ سے دیکھ کر بھی جھوٹ بول رہا ہے ایک مسلمان کے عیب چھپانے کے لیے تو اللہ کو تیرا یہ جھوٹ بولنا تیرے سچ بولنے سے زیادہ پسند ہے، اس لیے مسلمان کے فعل کی تعریف کرو،*

*★_ ایک صحابی نے ا کر کہا یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ہے, نہیں عورت کو تمہارا ہاتھ لگ گیا ہوگا اسے تم زنا سمجھ رہے ہوں گے، نہیں جی میں نے زنا ہی کیا ہے، اپ نے فرمایا تم نے اشارہ کیا ہوگا انکھوں سے دیکھا ہوگا، نہیں میں نے زنا کیا ہے، اپ تعویل پر تعویل دے رہے تاکہ کسی طرح اس کا عیب چھپا رہے یہ چلا جائے بات ختم ہو جائے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞_ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک چور کا واقعہ:-*

*★_ ایک چور کو لایا گیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس, چور خود اقرار کر رہا ہے کہ میں نے چوری کی ہے, فرمایا نہیں تو نے چوری نہیں کی ہوگی, اونٹ سارے ایک جیسے ہوتے ہیں تم اپنا سمجھ کر کھول رہے ہوں گے لوگوں نے چور کہہ دیا تم کو,*

*★_ ہم تو چور کو چور بناتے ہیں, چوروں کو چور بنانے کی کوشش ہے, وہاں چور کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے, خود چور کہہ رہا ہے کہ میں نے چوری کی ہے, میں نے دوسرے کا سمجھ کر ہی کھولا تھا,*

*★_ فیصلہ ہو گیا, جلاد آ گیا کہ ہاتھ کاٹے جائیں، تیل گرم کرنے کا حکم دیا گیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھ کر چلے گئے یہ کہہ کر کہ ابھی کچھ نہیں کرنا،*

*★_ تھوڑی دیر کے بعد واپس ائے اور آ کر چور سے ایسے ملاقات کی جیسے اس سے پہلے دیکھا ہی نہیں تھا، فرمایا بھائی کیا بات ہے کہاں سے ائے ہو ؟ لوگ حیران جلاد تیار ہے، تیل گرم ہو چکا ہے، چور سے پوچھا کیا تم نے چوری کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں میں نے چوری نہیں کی ہے, فرمایا پھر جاؤ یہاں کیوں کھڑے ہو, لوگوں نے پوچھا امیر المومنین یہ آپ نے کیا کیا ؟ فرمایا دیکھو میں نے اسے پکڑا تھا اس کے اقرار پر اور میں نے چھوڑا ہے اس کے انکار پر،*

*★_ اس طرح عیب چھپایا جا رہا تھا وہ بھی اقراری مجرم کا,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *☞_ امت کے فضائل بیان کرو:-*

*★_ ساتھیوں کی خوبیوں کے تذکرے، امت کے فضائل زیادہ بیان کرو، اس کام کے چلنے کی اصل وجہ، اس کام کے پھیلنے کا صرف ایک سبب ہے کہ امت کی کمزوریوں کو بھلا کر امت کے فضائل کو بیان کیا گیا، کوئی فتویٰ امت کے کسی بھی فرقے یا فرد پر نہیں لگایا جیسے دوسرے لوگوں نے لگا دیا کہ یہ کافر ہیں یہ فاسق ہیں،*

*★_ کیونکہ کسی کے حرام کو حلال کہنا تو جرم ہے (غیبت حرام ہے) اس کو تو حرام سے نکالنا ہے اور اس کو نکالنے کا راستہ ہی یہی ہے کہ اس کی فضیلت کو بیان کرو,*

*★_ امت کی ہدایت سے مایوس ہونے اور امت کے عوام کے صلحاء سے دور ہونے کی اصل وجہ جو ہے وہ امت کی کمزوریوں کو بیان کرنا ہے کہ تم اس قابل نہیں ہو,*
 
*★_ حالانکہ ایک مسلمان کا مقام بیت اللہ سے اونچا ہے، اللہ کے نبی نے خود فرمایا کہ اے بیت اللہ تو بڑی برکتوں والا ہے بڑی عظمتوں والا ہے لیکن ایک مسلمان کا مقام تجھ سے زیادہ ہے،*

*★_ پھر کیا وجہ رہ گئی ایک مسلمان کو ہلکا سمجھنے کی (کہ تم قابل نہیں ہو, تم ایسے ہو تم ویسے ہو) اس لیے میرے دوستو عزیزو! ساتھیوں کے فضائل بیان کیا کرو (کمزوریوں کو چھپا کر)،*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞_ ہمیں حق نہیں کہ لوگوں کے اعمال کا سوال کریں:-*

*★_ ایک جنازہ لایا گیا حضور ﷺ کے پاس نماز پڑھانے کے لیے، اپ اگے بڑے نماز پڑھانے کے لیے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک دیا کہ یا رسول اللہ یہ آدمی اتنا بدنام ہے اتنا برا ہے آپ تشریف لے جائیے، ہم میں سے کوئی اس کی نماز پڑھا دے گا،*

*★_ وہ آدمی کتنا برا ہوگا کہ جس کے جنازے پر صحابہ کو اپ کا انا پسند نہ تھا لیکن آپ ﷺ تشریف لائے اور اعلان کیا کہ تم میں سے کسی شخص نے اس مرنے والے کو کوئی عمل کرتے دیکھا ہے ؟ ایک صحابی نے پیچھے سے کہا کہ ہاں یا رسول اللہ اس مرنے والے نے اللہ کے راستے میں فلاں موقع پر ایک رات پہرا دیا ہے،*

*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صحابہ سے, سن لو جو آنکھ اللہ کے راستے میں پہرہ دینے میں جاگی ہے وہ انکھ جہنم کی اگ نہیں دیکھے گی، عمر پیچھے ہٹ جاؤ تمہیں کوئی حق نہیں لوگوں کے اعمال کے بارے میں سوال کرنے کا،*

*★_ ساتھیوں سے غلطیاں ہوں گی, یہ فرشتے نہیں ہیں, ان کی غلطیوں سے درگزر کرو اور اچھی تاویل کرو, ساتھیوں کی غلطیوں کو چھپاؤ اور جب غلطی ہو جائے تو ان کی قربانیاں یاد دلاؤ کہ اپ کی تو یہ قربانیاں ہیں،*

*★_ اس سے ساتھی ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور اس کے اندر اپنی کوتاہی کا احساس زیادہ پیدا ہوگا کیونکہ کمی کوتاہی کا احساس تب پیدا ہوتا ہے جب کسی کو اس کی خوبیاں قربانیاں یاد دلائی جائے اور جو ان کی شکایت کرے تو شکایت کرنے والوں کو بھی ان کی قربانیاں بتاؤ،*

*★_ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ کے پاس جب کوئی شکایت لے کر اتا, ساتھی کی برائی بتاتا تو یوں فرماتے - کیا کروں میں ہی برا ہوں, میں اچھا ہوتا تو میرے ساتھی بھی اچھے ہوتے,*

*★_ اس سے وہ شکایت کرنے والا بھی کان پکڑ لیتا کہ اب حضرت کے پاس کسی کی شکایت لے کر نہیں اؤں گا,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞_اپنی عبادت میں کمال پیدا کرو:-*

*★_ اس کام کے ذریعے عصر کی نماز اگر ظہر سے بہتر نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ نیچے گر رہے ہیں اوپر نہیں جا رہے،*

*★_ ساتھیوں کے اندر اگر اللہ نہ کرے یہ بات پیدا ہو گئی کہ یہ تو انفرادی عمل ہے چھوڑو اس کو اور دعوت میں لگو، تو یہ گمراہی کی طرف اس طرح لے جائیں گے کہ اس کو حق سمجھ رہے ہوں گے، دعوت عبادت کا جمع کرنا اصل ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا اس سے اچھا دین ہو کس کا سکتا ہے جو دعوت دیتا ہوا عمل کرے،*

*★_ رات کے قیام کو لازم پکڑ لو, دن بھر دعوت کی محنت میں جو مدد ملے گی وہ رات کے قیام سے ملے گی، رات کا قیام دن بھر کی بات کی بات کو سب سے زیادہ واضح کرنے والا ہے،*

*★_ ایک سال تک صحابہ کرام پر تہجد فرض رہی, کیوں ؟ اس کے بعد جب عادی ہو گئے تو پھر اس کا نفل قرار دیا کہ جس کام کا تم اہتمام کرو گے ہم اس کو تمہارے لیے آسان کر دیں گے،* 

*★_ اللہ کے بندوں کا اللہ کے قریب کرنے میں اللہ کی زیادہ مدد کی ضرورت ہے، اگر کام کرنے والوں کا رات کا قیام کمزور ہے تو اللہ کا تعلق کمزور ہے، جن کا تعلق اللہ سے خود کمزور ہے وہ دوسروں کو متعلق کیسے کریں گے ،* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞_اعمال مسجد کو نبوت کے طریقوں پر لاؤ :-*

*★_ اپنی بصری حاجتوں کو سنت پر لاؤ اس کے لیے مشقت برداشت کرو کہ یہ سنت ہے اس پر عمل کرنا ہے، اپنے کام کو سنت کی طرف لاؤ کام رواج کی طرف دوڑا جا رہا ہے اور ساتھی کہتے ہیں اس میں سہولت ہے, اس کا نفع نظر آرہا ہے,*

*★_ نفع کا نظر آنا بنیاد نہیں ہے, بنیاد تو سنت پر عمل کرنا ہے, بات پہنچا دی فارغ ہو گئے یہ رواجی طریقہ ہے بلکہ مسجد کے ماحول میں لا کر جوڑو، صحابہ کا عمل یہی ہے کہ ہمارے ساتھ اؤ مسجد میں،*

*★_ مسجد کے اندر عمل جاری ہوتا تھا اور باہر اس عمل کے دوران محنت ہوتی تھی, میں اس بات کو تاکید سے کہتا ہوں کہ اس کے تذکرے نہ ہونے کی وجہ سے ساتھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے،*

*★_ جس کام کو کرتے کرتے طبیعت بن جاتی ہے اس کے خلاف سننا برداشت نہیں ہوتا, سوال اس کا نہیں ہے کہ ہم یہ کر رہے ہیں ہم نے یہ سنا ہے یا ہم نے یہ دیکھا ہے, یہ بنیاد ہماری نہیں ہے, ہماری بنیاد یہ ہے کہ صحابہ نے کیا کیا ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا حکم دیا ہے, ہم سب کے لیے وہ نمونہ ہیں,*

*★_ اس لیے اعمال مسجد کو نبوت کے طریقوں پر لانا ہے,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞__ تعلیم کا موضوع یقین کی تبدیلی ہے:-*

*★_ تعلیم کا مطلب ہے امت کو اللہ کے وعدوں کے یقین پر لانا غیر یقینی اسباب سے نکال کر، شوق کا پیدا کرنا ابتدائی درجے کی بات ہے کہ نئے سے نئے ادمی سنیں گے تو اعمال کا شوق پیدا ہو جائے گا یہ عوام کے لیے ہے،*

*★_ تعلیم کے حلقوں کا مقصد ہے اللہ کے وعدوں کے یقین کو تازہ کرنا, نئے سے نئے صحابی بھی تعلیم کے حلقے میں یقین سے بیٹھتے تھے,*

*★_ حضرت فرماتے تھے سبب کا اور عمل کا مقابلہ ہوگا تو شوق والے بھی اعمال کو چھوڑ دیں گے کیونکہ شوق ہے یقین نہیں ہے,*

*★_ صرف اتنا فرق ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم زبانی سناتے تھے اور ہم کتاب سنتے ہیں ورنہ اللہ وہی ہے اللہ کے وعدے وہی ہیں,* 

*★_ تعلیم کے درمیان میں وعظ تقریر بالکل نہ ہو، بعض کا معمول بن گیا کہ تعلیم شروع ہوئی کتاب کو بغل میں دبائی اور شروع ہو گئے، یہ حدیث کی توہین ہے کہ اپنی بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ترجیح دینا ہے،*

*★_ اس لیے تعلیم کے درمیان بیان بالکل نہیں ہوگا, براہ راست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سے تاثر کا پیدا کرنا مطلوب ہے,* 

*★_ اج کل لوگوں کو ملفوظات میں جو مزہ اتا ہے وہ حدیثوں میں نہیں اتا، کسی بزرگ کا ملفوظ ہوگا تو بڑے غور سے سنیں گے، کوئی حدیث ہوگی تو بالکل توجہ نہیں دیں گے کیونکہ بات یہ ہے کہ ان کی (بزرگوں کی ) بات کو تو عقیدت سے سنتے ہیں کہ جو شیخ فرمائیں گے وہ سنیں گے، حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں اج بھی وہ نور ہے جو صحابہ کرام کے دور میں تھا، اس لیے جو عالم ہے وہ ایک مرتبہ حدیث کی عبارت (عربی میں) پڑھ دیا کرے،*

*★_ منتخب احادیث کا اہتمام فضائل کے ساتھ ساتھ زیادہ کرو کیونکہ چھ نمبر تبلیغ کی بنیاد ہے, اس کے متعلق صحیح حدیثوں کا یاد ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر صفات کو حدیث سے بیان کیا جا سکے اس کے فضائل کے ساتھ,* 

*★_ ایک حدیث کو تین تین بار پڑھنا یہ سنت طریقہ ہے، ہر حلقے میں جم کر تشکیل ہو، تشکیل اس کو نہیں کہتے کہ بولو بولو کون تیار ہیں، حلقہ لگا کر اس میں تشکیل کرو، کم سے کم 15- 20 منٹ ادھا گھنٹہ جم کر تشکیل ہو، مولانا صاحب فرماتے تھے جس مجلس کے بعد تشکیل نہ ہو وہ ہمارا موضوع نہیں، ہمارا کام ہی نہیں ہے، کیونکہ خروج اصل ہے اللہ کے راستے میں جانا اصل ہے،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞__ جسم کو تھکانا نبیوں کی اصل سنت ہے:-*

*★_ حرمین شریفین کی عبادت جہاں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، اگر صحابہ کرام کو عبادت کے فضائل پر ہی رکھنا تھا تو ایک لاکھ نمازیں چھڑوا کر کیوں ہجرت کروائی ؟ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی محبت کے باوجود کیوں نکالا گیا مکہ سے ؟*

*★_ اگر اندر کی روحانیت اور تنہائی کی عبادت اور خصوصی توجہ خدا کی قسم اگر اسلام کے پھیلانے کے اسباب یہ ہوتے اور امت کے تزکیے کے اسباب یہ ہوتے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے نبیوں کے امام ہیں لیکن اپ کو اللہ نے بیٹھنے نہیں دیا, کہیں نہیں فرمایا کہ اپ تنہا رہ کر عبادت کیجیے,*

*★_ اگر کسی کی طرف توجہ ڈال کر ہدایت ہوا کرتی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے نبیوں کے امام ہیں روحانیت کے امام ہیں, لیکن جسم کو تھکانا یہ نبیوں کی اعلیٰ سنت ہے،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞__ انفرادی اعمال کے پہاڑو اجتماعی ذرات سے بھی چھوٹے ہیں:-* 

*★_ مفتی زین العابدین صاحب سے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک جماعت تین دن کے بعد انے والی ہے اسے اپ کو لے کر جانا ہے، مفتی صاحب نے عرض کیا حضرت اگر اپ کی اجازت ہو تو میں تین دن حضرت رائے پوری کی خدمت میں ہو کر آ جاؤں، حضرت نے فرمایا کہ چلے جاؤ مگر دیکھو تین دن سے پہلے پہلے آ جانا تاخیر نہ کرنا _,*

*★_ مفتی صاحب فرماتے ہیں رائے پر گیا تو وہاں کی تنہائی کی عبادت انفرادی اعمال ذکر اس میں مجھے کچھ ایسی کیفیت محسوس ہوئی کہ میں نے تین دن کے بجائے پانچ دن کر دیے، ادھر مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ نے خط لکھا حضرت شیخ کو کہ زین العابدین تین دن کا کہہ کر گئے تھے رائے پر آج پانچ دن ہو گئے یہاں اجتماعی تقاضا ہے،* 

*★_ شیخ خود تشریف لے گئے اور جا کر مفتی صاحب سے فرمایا آپ اب تک یہاں ٹھہرے ہیں وہاں اجتماعی تقاضا ہے، مفتی صاحب نے عرض کیا کہ میں تو اجازت لے کر ایا تھا تین دن کے لیے لیکن یہاں ا کر کچھ ایسا محسوس ہوا فائدہ نظر ایا تو تین کے بجائے پانچ دن کر دیے،*

*★_ حضرت شیخ کے الفاظ یہ ہیں یاد رکھنا حضرت شیخ نے فرمایا- مفتی صاحب انفرادی اعمال کے پہاڑ اجتماعی اعمال کے ذرات سے بھی چھوٹے ہیں،*
 
*🎙️_حضرت مولانا سعد صاحب, 
*💤_ ایڈمن کی ڈائری - حق کا داعی _,*
 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     

Post a Comment

0 Comments