AHKAAM E MAYYAT-URDU

 

☆❖❖☆
     ╭•═════•✭﷽✭•════•╮  
                ╭ *📿 احکام میت 📿* ╮
      *╂────────────────╂*
*╠☞_ میت کو نہلا نے اور کفنانے کا ثواب:-*

*✧⇝"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جوشخص میت کو غسل دے وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے اب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو،*

*✧⇝"_ اور جو میت پر کفن ڈالے اللہ تعالٰی اس کو جنت کا جوڑا پہنائیں گے_,"*

*📓(الترغیب والترہیب، کتاب الجنائز جلد :۴)* 

          *╂───────────╂*
         *╠☞"_ میت کو کون نہلاۓ؟*

*✧⇝"_1- میت کو نہلانے کا حق سب سے پہلے تو اس کے قریب ترین رشتہ داروں کو ہے ، بہتر ہے کہ وہ خود نہلائیں ، اور عورت کی میت کو قریبی رشتہ دار عورت نہلاۓ ، کیونکہ یہ اپنے عزیز کی آخری خدمت ہے_," ( در مختار)* 
 
*✧⇝"_2- کوئی دوسرا شخص بھی نہلا سکتا ہے ،لیکن مرد کو مرد اور عورت کو عورت غسل دے، جو ضروری مسائل سے واقف اور دیندار ہو_," (شامی)*

*✧⇝"_3- کسی کو اجرت دے کر بھی میت کو غسل دلایا جا سکتا ہے، لیکن اجرت لے کر غسل دینے والا ثواب کا مستحق نہیں ہوتا، اگر چہ اجرت لینا جائز ہے_", (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_4- اگر کوئی مرد مر گیا اور مردوں میں سے کوئی نہلانے والا نہیں ، تو بیوی کے علاوہ کسی عورت کے لئے اس کو غسل دینا جائز نہیں ، اگر چہ محرم ہی ہو ، اگر بیوی بھی نہ ہو تو عورتیں اسے تیمم کر ادیں غسل نہ دیں، لیکن تیمم کرانے والی عورتیں اگر میت کے لئے غیر محرم ہوں تو اس کے بدن کو ہاتھ نہ لگائیں ، بلکہ اپنے ہاتھ میں دستانے پہن کر تیمم کرائیں_," ( بہشتی زیور )* 

*✧⇝"_5- کسی کا خاوند مر گیا تو بیوی کو اس کا چہرہ دیکھنا، نہلانا اور کفنانا درست ہے، اور اگر بیوی مر جاۓ تو شوہر کو اسے نہلانا ، اس کا بدن چھونا اور ہاتھ لگانا درست نہیں، البتہ دیکھنا درست ہے، اور کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگانا اور جنازہ اٹھانا بھی جائز ہے_," (بهشتی زیور ، مسافر آخرت )*

*✧⇝"_6- اگر کسی نابالغ لڑکے کا انتقال ہو جاۓ اور وہ ابھی اتنا چھوٹا تھا کہ اسے دیکھنے سے شہوت نہیں ہوتی تو مردوں کی طرح عورتیں بھی ایسے لڑکے کو غسل دے سکتی ہیں ، اور اگر نابالغ لڑکی کا انتقال ہو جائے اور وہ اتنی کم عمر ہو کہ اسے دیکھنے سے شہوت نہیں ہوتی ، تو ایسی کم عمر لڑکی کو عورتوں کی طرح مرد بھی غسل دے سکتے ہیں ۔ البتہ اگر نابالغ لڑکا اور لڑکی اتنے بڑے ہوں کہ انہیں دیکھنے سے شہوت ہوتی ہے تو لڑکے کو مرد اور لڑ کی کوعورتیں ہی غسل دیں_," (عالمگیری)*

*✧⇝_7- غسل دینے والا باوضو ہو تو بہتر ہے۔*
*"_8- جو شخص حالت جنابت میں ہو یا جو عورت حیض یا نفاس میں ہو وہ میت کو غسل نہ دے، کیونکہ اس کا غسل دینا مکروہ ہے_," ( شامی, بہشتی زیور )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞_ غسل دینے والوں کے لئے چند ہدایات:-*

*✧⇝ا: - طریقہ کے مطابق غسل دیا جاۓ ۔( آگے طریقہ لکھا جائے گا ان شاء اللہ)*  
*٢: غسل کے لئے جو سامان ضرورت کا ہے، وہ سب سامان اپنے پاس جمع کر لیں۔*
*۳:۔غسل دینے کے لئے بیری کے پتے ڈال کر گرم پانی تیار کرلیں، جب نیم گرم رہ جاۓ اس سے غسل دیں، اگر بیری کے پتے میسر نہ ہوں تو یہی سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔*
*۴: - بہت تیز گرم پانی سے غسل نہ دیں ۔*

*✧⇝۵:۔غسل دینے کے لئے گھر کے برتن استعمال کئے جاسکتے ہیں ، اگر چہ وہ مستعمل ہوں ، نئے برتن منگا نا ضروری نہیں ۔*
*۲:۔ جس جگہ غسل دیا جاۓ وہ ایسی ہو کہ پانی بہہ کر نکل جاۓ ، ورنہ لوگوں کو چلنے پھرنے میں تکلیف ہوگی ۔*
*٧_:۔ جس جگہ غسل دیا جائے وہاں پردہ ہونا چاہئے ۔*
*۸:- میت کے بالوں میں کنگھی نہ کرو، نہ ناخن کاٹو ، نہ کہیں کے بال کاٹو ، سب اسی طرح رہنے دو۔ (مسافر آخرت)*

*✧⇝۹:- اگر نہلانے میں میت کا کوئی عیب دیکھیں تو کسی سے نہ کہیں، اگر خدانخواستہ مرنے سے اس کا چہرہ بگڑ گیا یا کالا ہو گیا، تو یہ بھی نہ کہیں اور بالکل اس کا چرچا نہ کریں، کہ سب ناجائز ہے۔*
*۱۰: - اور اگر کوئی اچھی علامت دیکھیں مثلاً چہرہ کی نورانیت اور تبسم وغیرہ تو اسے ظاہر کر دینا مستحب ہے۔*

*✧⇝١١_ جوشخص پانی میں ڈوب کر یا آگ میں جل کر ہلاک ہوا یا شہید ہوا یا ناحق قتل کر دیا گیا ہو یا کسی حادثہ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہوں یا حمل کا اسقاط ہوا ہو یا بچہ مردہ پیدا ہوا ہو تو اس کے غسل اور کفن دفن وغیرہ کے مسائل پہلے دیکھ لئے جائیں ۔*
*✧⇝۱۲: - اگر پانی نہ ہونے کے سبب کسی میت کو تیمم کرا دیا گیا ہو، اور پھر پانی مل جاۓ تو اس کو غسل دے دینا چاہئے ۔*
*(بہشتی گوہر )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ میت کو غسل دینے کا مفصل طریقہ-

*✧⇝"_ جس تختہ پر غسل دیا جاۓ اس کو تین دفعہ یا پانچ یا سات دفعہ لوبان کی دھونی دے لو، اور میت کو اس پر اس طرح لٹاؤ کہ قبلہ اس کے دائیں طرف ہو، اگر موقع نہ ہو اور کچھ مشکل ہو تو جس طرف چاہو لٹا دو _"*
*®_(فتح القدير -ج:۱ ص:۴۴۹ و شامی ج:1 ص:۸۰۰، مسافر آخرت)*

*✧⇝"_ پھر میت کے بدن کے کپڑے ( کرتہ، شیروانی ، بنیان وغیرہ) چاک کرلو، اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر اندر ہی اندر وہ کپڑے اتار لو،*
*"_ یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے پنڈلی تک ہونا چاہئے ، تاکہ بھیگنے کے بعد اندر کا بدن نظر نہ آۓ۔*

*✧⇝"_ مسئلہ: - ناف سے لے کر زانو تک دیکھنا جائز نہیں ، ایسی جگہ ہاتھ لگانا بھی نا جائز ہے، میت کو استنجاء کرانے اور غسل دینے میں اس جگہ کے لئے دستانہ پہننا چاہئے ، یا کپڑا ہاتھ پر لپیٹ لیں ، کیونکہ جس جگہ زندگی میں ہاتھ لگانا جائز نہیں وہاں مرنے کے بعد بھی بلا دستانوں کے ہاتھ لگا نا جائز نہیں ، اور اس پر نگاہ بھی نہ ڈالو۔*
*®_ ( بہشتی زیور )*

*✧⇝"_-غسل شروع کرنے سے پہلے بائیں ہاتھ میں دستانہ پہن کر مٹی کے تین یا پانچ ڈھیلوں سے استنجاء کراؤ، پھر پانی سے پاک کرو، پھر وضو اس طرح کراؤ کہ نہ کلی کراؤ، نہ ناک میں پانی ڈالو، نہ گئے ( پہنچے ) تک ہاتھ دھلاؤ، بلکہ روئی کا بچایا تر کر کے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر کر پھینک دو، اس طرح تین دفعہ کرو،*

*✧⇝"_ پھر اسی طرح ناک کے دونوں سوراخوں کو روئی کے بچھاۓ سے صاف کرو لیکن اگر غسل کی ضرورت ( جنابت) کی حالت میں موت ہوئی ہو یا عورت کا انتقال حیض یا نفاس کی حالت میں ہوا ہو تو منہ اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے، پانی ڈال کر کپڑے سے نکال لو_,"*

*✧⇝"_ پھر ناک اور منہ اور کانوں میں روئی رکھ دو، تا کہ وضو اور غسل کراتے وقت پانی اندر نہ جاۓ ، پھر منہ دھلاؤ، پھر ہاتھ کہنیوں سمیت دھلاؤ، پھر سر کا مسح کراؤ، پھر تین دفعہ دونوں پیر دھوؤ _,*

*✧⇝"_ جب وضو کرا چکو تو سر کو (اور اگر مرد ہے تو ڈاڑھی کو بھی) گل خیرو سے یا خطمی یا کھلی یا بیسن یا صابن وغیرہ سے کہ جس سے صاف ہو جاۓ مل کر دھو دو۔*

*✧⇝"_ پھر اسے بائیں کروٹ پر لٹاؤ اور بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین دفعہ سر سے پیر تک اتنا ڈالو کہ نیچے کی جانب بائیں کروٹ تک پہنچ جاۓ ۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین دفعہ اتنا پانی ڈالو کہ نیچے کی جانب دائیں کروٹ تک پہنچ جاۓ ۔*

*✧⇝"_ اس کے بعد میت کو اپنے بدن کی ٹیک لگا کر ذرا بٹھلانے کے قریب کر دو، اور اس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملو اور دباؤ، اگر کچھ فضلہ ( پیشاب یا پاخانہ وغیرہ) خارج ہو تو صرف اسی کو پونچھ کر دھو دو ، وضو اور غسل دہرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس ناپاکی کے نکلنے سے میت کے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں آتا۔*

*✧⇝"_ پھر اس کو بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں کروٹ پر کافور ملا ہوا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ خوب بہادو کہ نیچے بائیں کروٹ بھی خوب تر ہو جاۓ، پھر دوسرا دستانہ پہن کر سارا بدن کسی کپڑے سے خشک کر کے تہہ بند دوسرا بدل دو _,"*

*✧⇝"_ پھر چار پائی پر کفن کے کپڑے اس طریقے سے اوپر نیچے بچھاؤ (جو آگے کفن پہنانے کے مسنون طریقہ“ میں لکھا جائے گا) ، پھر میت کو آہستگی سے غسل کے تختے سے اٹھا کر کفن کے اوپر لٹا دو، اور ناک، کان اور منہ سے روئی نکال ڈالو _,"*
*®_( فتاوی ہندیہ، در مختار، مسافر آخرت، بهشتی زیور )*

*✧⇝"_ مسئلہ:- نہلانے کا جو طریقہ اوپر بیان ہوا سنت ہے، لیکن اگر کوئی اس طرح تین دفعہ نہ نہلائے بلکہ صرف ایک دفعہ سارے بدن کو دھو ڈالے تب بھی فرض ادا ہو گیا۔ ( بہشتی زیور )*

*✧⇝"_ مسئلہ: - اگر میت کے اوپر پانی برس جاۓ یا اور کسی طرح سے پورا بدن بھیگ جاۓ تو یہ بھیگ جانا غسل کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، اسے غسل دینا بہرحال فرض ہے، اسی طرح جو شخص پانی میں ڈوب کر مرگیا ہو تو وہ جس وقت نکالا جاۓ اس کو غسل دینا فرض ہے، اس لئے کہ میت کو غسل دینا زندوں پر فرض ہے، اور مذکورہ صورتوں میں ان کا کوئی عمل نہیں ہوا، ہاں! اگر پانی سے نکالتے وقت غسل کی نیت سے اس کو پانی میں حرکت دے دی جاۓ تو غسل کا فرض ادا ہو جاۓ گا۔*
*®_ (بہشتی زیور)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ میت کو نہلا نے کے بعد خود غسل کرنا,*

*✧⇝"_میت کو غسل دینے والے کو بعد میں خود بھی غسل کر لینا مستحب ہے۔ (شامی )*

*✧⇝"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ: جو شخص میت کو غسل دے تو اس کو چاہئے کہ غسل کرے۔ (ابن ماجہ ) اور دوسری حدیث میں اضافہ ہے کہ : جوشخص میت کا جنازہ اٹھاۓ اس کو چاہئے کہ وضو کرے_," ( معارف الحديث )*
          *╂───────────╂*
              *╠☞_ کفن کا بیان:-*

*✧⇝"_ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ سفید کپڑے پہنا کرو، وہ تمہارے لئے اچھے کپڑے ہیں ، اور انہی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو_,"*
*®_( سنن ابی داؤد، جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ، معارف الحدیث )*

*✧⇝"_حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیش قیمت کفن نہ استعمال کرو، کیونکہ وہ ( کفن بہر حال ) جلد ہی ختم ہو جاتا ہے ( پھر بیش قیمت کفن کا میت کو کیا فائدہ؟)_,"*
*®_ (سنن ابی داؤد، معارف الحدیث )*

*✧⇝_ سئلہ: - جیسا کہ میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے، کفن دینا، اس پر نماز جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا بھی فرض کفایہ ہے،*
*"_ مسئلہ: - کفن کا کپڑا بھی اگر گھر میں موجود ہو اور پاک صاف ہو تو اس کے استعمال میں حرج نہیں ۔*
*✧⇝"_ مسئلہ : - کفن کا کپڑا اس حیثیت کا ہونا چاہئے جیسا مردہ اکثر اپنی زندگی میں استعمال کرتا تھا، تکلفات فضول ہیں۔*
*®_ ( بہشتی زیور )*

*✧⇝"_ مسئلہ: - مرد وعورت دونوں کے لئے سب سے اچھا کفن سفید کپڑے کا ہے، اور نیا اور پرانا یکساں ہے۔_,"*
*®_(درمختار ، امداد الفتاوی)*
*✧⇝"_ مسئلہ: - مرد کے لئے خالص ریشمی یا زعفران یا عصفر سے رنگے ہوۓ کپڑے کا کفن مکروہ ہے ،عورت کے لئے جائز ہے_,"*
*®_ ( در مختار)*

*✧⇝"_ مسئلہ: - اپنے لئے پہلے سے کفن تیار رکھنا مکروہ نہیں، قبر کا تیار رکھنا مکروہ ہے_,"*
*®_ (بہشتی گوہر )* 

*✧⇝"_مسئلہ: - تبرک کے طور پر آب زمزم میں تر کیا ہوا کفن دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ باعث برکت ہے_,"*
*®_ (امداد الفتاوى مع حاشیه )*

*✧⇝"_ مسئلہ: - کفن میں یا قبر کے اندر عہد نامہ یا کسی بزرگ کا شجرہ یا قرآنی آیات یا کوئی دعا رکھنا درست نہیں ، اسی طرح کفن پر یا سینہ پر کافور سے یا روشنائی سے کلمہ وغیرہ یا کوئی دعا لکھنا بھی درست نہیں _,"*
*®_ ( بهشتی زیور)*

*✧⇝"_ مسئلہ: کسی بزرگ کا استعمال کیا ہوا کپڑا یا غلاف کعبہ کے نیچے کا کپڑا ہو تو یہ کفن کے لئے بغیر دھلے نئے کپڑے سے بھی بہتر ہے، اس کپڑے کا اگر کرتہ (جو میت کو کفن میں پہنایا جا تا ہے ) ہو سکے تو کر دو، اور اگر چھوٹا ہو تو کر تہ میں سی دو۔"*
*®_ (امداد الفتاوی ج:1 ص:۴۸۸)*

*✧⇝"_مسئلہ: - کعبہ شریف کے غلاف کے اوپر کا کپڑا جس پر کلمہ یا قرآنی آیات لکھی ہوں وہ کفن یا قبر میں رکھنا درست نہیں _,"*
*®_ (امداد الفتاوی و شامی )*

*✧⇝"_غلاف کعبہ اگر خالص ریشم کا ہو تو مرد کو اس میں کفنانا بہر حال ناجائز ہے، خواہ اس پر کچھ لکھا ہوا نہ ہو، کیونکہ میت کو ایسے کپڑے میں کفن دینا جائز نہیں جسے پہننا اسے زندگی میں جائز نہ تھا، اور خالص ریشم کا کپڑا مردوں کو پہنا جائز نہیں ، عورتوں کو جائز ہے_,"*
*®_ (درمختار)*

*✧⇝"_مسئلہ: ۔ بعض جگہ رواج ہے کہ نوجوان لڑکی یا نئی دلہن مرجاتی ہے تو اس کے جنازہ پر سرخ چادر یا زری گوٹہ کا دوپٹہ وغیرہ ڈالتے ہیں، یہ ناجائز ہے_,"*
*®_ ( در المختار و امداد الفتاوی )*

*✧⇝"_مسئلہ: - کسی انسان کی قبر کھل جاۓ یا اور کسی وجہ سے اس کی لاش قبر سے باہر نکل آۓ اور اس پر کفن نہ ہو تو اس کو بھی مسنون کفن دینا چاہئے، بشرطیکہ وہ لاش پھٹی نہ ہو، اور اگر پھٹ گئی ہو تو صرف کسی کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے، مسنون کفن کی حاجت نہیں _,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ مرد کا کفن :-*
*"_ مرد کے کفن کے مسنون کپڑے تین ہیں :-*
*ا: - ازار سر سے پاؤں تک ۔*
*۲: - لفافہ (اسے چادر بھی کہتے ہیں) ۔ ازار سے لمبائی میں ۴ گرہ زیادہ ۔*
*۳: - کرتہ بغیر آستین اور بغیر کلی کا گردن سے پاؤں تک ۔(اسے قمیض یا کفنی بھی کہتے ہیں)*

*✧⇝"_ عورت کا کفن :-*
*"_. عورت کے کفن کے لئے مسنون کپڑے پانچ ہیں: - 1,2,3 مرد کی طرح ہوتے ہیں -*
*4_ سینه بند:- بغل سے رانوں تک ہو تو زیادہ اچھا ہے ورنہ ناف تک بھی درست ہے، اور چوڑائی میں اتنا ہو کہ بندھ جاۓ۔*
*5:- سر بند :- اسے اوڑھنی بھی کہتے ہیں، تین ہاتھ لمبی ہو،*
*®_ ( بہشتی زیور )*
 
*✧⇝"_ مسئلہ: - مرد کو تین اور عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنانا مسنون ہے، لیکن اگر مرد کو دو کپٹروں (ازار اور لفافہ ) میں، اور عورت کو تین کپڑوں (ازار، لفافہ و سربند ) میں کفنا دیا تو یہ بھی درست ہے، اور اتنا کفن بھی کافی ہے, اس سے کم کفن دینا مکروہ اور برا ہے، ہاں! اگر کوئی مجبوری اور لاچاری ہو تو کم بھی درست ہے _,"*
*®_ ( بہشتی زیور )*

          *╂───────────╂*
             *╠☞ _ بچوں کا کفن -

*✧⇝"_ مسئلہ: - اگر نابالغ لڑکا یا نابالغ لڑکی مرجاۓ جو ابھی جوان نہیں ہوۓ لیکن جوانی کے قریب پہنچ گئے تھے تو لڑکے کے کفن میں تین کپڑے دینا اور لڑکی کے کفن میں پانچ کپڑے دینا درست ہے، اگر لڑکی کو پانچ کی بجاۓ تین اور لڑکے کو تین کے بجاۓ دو ہی کپڑے دیئے جائیں تب بھی کافی ہے_,"*
*"_ غرضیکہ جو حکم بالغ مرد و عورت کا ہے وہی حکم نابالغ لڑکے اور لڑکی کا ہے، بالغ مرد و عورت کے لئے وہ حکم تاکیدی ہے اور نابالغ کے لئے بہتر ہے_,"*
*®_ (بہشتی زیور و شامی)*

*✧⇝"_ مسئلہ: - جولڑکا یا لڑ کی بہت کم عمری میں فوت ہو جائیں کہ جوانی کے قریب بھی نہ ہوۓ ہوں تو بہتر یہ ہے کہ لڑکے کو مردوں کی طرح تین کپڑے اور لڑکی کو عورتوں کی طرح پانچ کپڑے کفن میں دیئے جائیں،*
*"_ اور اگر لڑ کے کو صرف ایک اور لڑکی کو صرف دو کپڑے کفن میں دے دیئے جائیں تو بھی درست ہے، اور نماز جنازہ اور تدفین حسب دستور کی جاۓ_,"*
*®_(بهشتی زیور، عالمگیری)*

*✧⇝"_مسئلہ: - جو بچہ زندہ پیدا ہوا پھر تھوڑی ہی دیر میں مر گیا یا فوراً پیدا ہونے کے بعد ہی مر گیا تو وہ بھی اسی قاعدہ سے نہلا دیا جاۓ اور کفنا کر نماز جنازہ پڑھی جاۓ پھر دفن کر دیا جاۓ ، اور اس کا نام بھی کچھ رکھا جاۓ_,"*
*®_( بهشتی زیور )*

*✧⇝"_مسئلہ: - جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہوا پیدا ہو اور پیدا ہوتے وقت زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی ، اس کو بھی اسی طرح نہلاؤ ،لیکن قاعدہ کے موافق کفن نہ دو، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دو، اس پر نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جاۓ گی ، البتہ نام اس کا بھی کچھ نہ کچھ رکھ دینا چاہئے ۔*

*✧⇝"_ مسئلہ : - اگر حمل گر جاۓ تو اگر بچہ کے ہاتھ، پاؤں ، منہ، ناک وغیرہ عضو کچھ نہ بنے ہوں تو نہ نہلاۓ اور نہ کفناۓ ، کچھ بھی نہ کرے، بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڑھا کھود کر گاڑ دو، اور اگر اس بچہ کے کچھ عضو بن گئے تو اس کا وہی حکم ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا ہے، یعنی نام رکھا جاۓ اور نہلا دیا جاۓ ،لیکن قاعدہ کے موافق کفن نہ دیا جاۓ ، نہ نماز پڑھی جاۓ ، بلکہ کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ_,"*
*"®- (بہشتی زیور )*

*✧⇝_مسئلہ: - ولادت کے وقت بچہ کا فقط سر نکلا ، اس وقت وہ زندہ تھا پھر مر گیا ، تو اس کا وہی حکم ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا حکم ہے، البتہ اگر زیادہ حصہ نکل آیا اس کے بعد مرا تو ایسا سمجھیں گے کہ وہ زندہ پیدا ہوا، اور اگر سر کی طرف سے پیدا ہوا تو سینہ تک نکلنے سے سمجھیں گے کہ زیادہ حصہ نکل آیا اور اگر الٹا پیدا ہوا تو ناف تک نکلنا چاہئے _,"*
 *®_ ( بہشتی زیور بحوالہ در مختار )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ کفن کی پیمائش اور تیاری کا طریقہ:-*

*✧⇝"_ کفن کی پیمائش اور اس کی تیاری کا طریقہ مرد کے لئے یہ ہے کہ میت کے قد کے برابر ایک لکڑی( یا فیتہ) لو اور اس میں ایک نشان کندھے کے مقابل لگالو، اور ایک دھا گا سینہ کے مقابل رکھ کر جسم کی گولائی میں کو نکالو، کہ دونوں سرے اس دھاگے کے دونوں طرف کی پسلیوں پر پہنچ جائیں اور اس کو توڑ کر اپنے پاس رکھ لو_,"*

*✧⇝"_پھر ایک کپڑا لو جس کا عرض اس دھاگے کے برابر یا قریب برابر کے ہو، اگر عرض اس قدر نہ ہو تو اس میں جوڑ لگا کر پورا کرلو، اور اس پوری لکڑی (یا فیتہ سے جو ناپ لیا) کے برابر لمبی ایک چادر پھاڑ لو، اس کو ازار کہتے ہیں_,"*

*✧⇝"_ اسی طرح دوسری چادر پھاڑو، جو عرض میں تو اس قدر ہو البتہ طول میں ازار سے چار گرہ زیادہ ہو، اس کو لفافہ کہتے ہیں۔*

*✧⇝"_ پھر ایک کپڑا لو جس کا عرض بقدر چوڑائی جسم مردے کے ہو، اور لکڑی ( یا فیتہ) کے نشان سے آخر تک جس قدر طول ہے اس کا دگنا پھاڑ لو، اور دونوں سرے کپڑے کے ملا کر بیچ میں سے اتنا چاک کھول لو کہ سر کی طرف سے گلے میں آجاۓ ، اس کو قمیض یا کفتی کہتے ہیں۔*

*✧⇝"_ عورت کے لئے مردوں کے سب کپڑے تو وہی ہیں ، اور انہیں تیار کرنے کا طریقہ بھی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اس کے علاوہ عورتوں کے لئے دو کپڑے اور ہیں ا:-سینہ بند ، ۲: -سر بند، جسے اوڑھنی کہتے ہیں۔ سینہ بند زیر بغل سے رانوں تک اور دھاگہ مذکور کے بقدر چوڑا۔ سر بند نصف ازار سے تین گرہ زیادہ لمبا اور بارہ گرہ چوڑا _,"*

          *╂───────────╂*
           *╠☞_کفن - زائد کپڑے :-*

*✧⇝"_ بعض کپڑے لوگوں نے کفن کے ساتھ ضروری سمجھ رکھے ہیں حالانکہ وہ کفن مسنون سے خارج ہیں، اس لئے میت کے ترکہ میں سے جو کہ سب وارثوں میں مشترک ہے، اور ممکن ہے کہ ان میں بعض نابالغ بھی ہوں یا بعض یہاں حاضر نہ ہوں ، ان کپڑوں کا خریدنا ان کے مال میں ناجائز تصرف کرنا ہے، اول تو ان چیزوں کی حاجت نہیں، بلکہ اس کی پابندی التزام مالا یلزم کی بناء پر بدعت ہے، اور اگر بلا پابندی کسی مصلحت سے اس کو رکھا جاۓ تو کوئی شخص بالغ خاص اپنے مال سے خریدے تو مضائقہ نہیں ، البتہ عورتوں کے جنازہ پر ( گہوارے کی ) چادر پردہ کے لئے ضروری ہے_,"*

*★"_ وہ زائد کپڑے یہ ہیں:۔-*

*✧⇝(١)_ جاۓ نماز : - طول سوا گز ، عرض چودہ گرہ، یہ محض رسم ہے، جیسے نماز جنازہ میں مقتدیوں کے لئے چٹائی یا فرش کی ضرورت نہیں اسی طرح امام کو جاۓ نماز کی حاجت نہیں۔*

*✧⇝(٢)_ پٹکا - طول ڈیڑھ گز ، عرض چودہ گرہ، یہ مردہ کو قبر میں اتارنے کے لئے ہوتا ہے۔* 

*✧⇝(٣)_ بچھونا: - طول اڑھائی گز ، عرض سوا گز ، یہ چار پائی پر بچھانے کے لئے ہوتا ہے۔*

*✧⇝(٤)_دامنی : - طول دو گز ، عرض سوا گز ، بقدر استطاعت چار سے سات تک محتاجوں کو دیتے ہیں ، جو محض عورت کے لئے مخصوص ہے _,"*

*✧⇝"(5)_چادر کلاں : - مرد کے جنازہ پر طول تین گز ، عرض پونے دو گز ، جو چار پائی کو ڈھا نک لیتی ہے، البتہ عورت کے لئے ضروری ہے، جو گہوارے پر ڈالی جاتی ہے ، مگر یہ کفن سے خارج ہے ، اس لئے اس کا ہم رنگ کفن ہونا ضروری نہیں، پردہ کے لئے کوئی سا کیڑا ہو کافی ہے،* 

          *╂───────────╂*
    *╠☞"_ مرد کو کفنانے کا طریقہ:-*

*✧⇝"_ جب میت کو غسل دے چکو تو چارپائی بچھا کر کفن کو تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعه لوبان وغیرہ کی دھونی دو، پھر کفن کو چار پائی پر بچھا کر میت کو اس پر لٹادو، اور ناک، کان اور منہ سے روئی جو غسل کے وقت رکھی گئی تھی نکال ڈالو،*

*✧⇝"_ مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چار پائی پر پہلے لفافہ بچھا کر اس پر ازار بچھا دو، پھر کرتہ ( قمیض ) کا نچلا نصف حصہ بچھاؤ، اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دو،*
*"_ پھر میت کو غسل کے تختہ سے آہستگی سے اٹھا کر اس بچھے ہوۓ کفن پر لٹا دو، اور قمیض کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اس کو سر کی طرف الٹ دو کہ قمیض کا سوراخ ( گریبان ) گلے میں آجاۓ ، اور پیروں کی طرف بڑھادو،*

*✧⇝"_ جب اس طرح قمیض ( کرتہ ) پہنچا چکو تو غسل کے بعد جو تہبند میت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دو، اور اس کے سر اور ڈاڑھی پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دو ، پھر پیشانی، ناک اور دونوں ہتھیلیوں اور دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر ( کہ جن اعضاء پر آدمی سجدہ کرتا ہے ) کافور مل دو۔*
*"_یاد رہے کہ مرد کو زعفران نہیں لگانی چاہئے,*

*✧⇝"_ اس کے بعد ازار کا بایاں پلہ ( کنارہ) میت کے اوپر لپیٹ دو، پھر دایاں لپیٹو، یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر ،*
*"_ پھر لفافہ اسی طرح لپیٹو کہ بایاں پلہ نیچے اور دایاں اوپر رہے، پھر کپڑے کی کترن لے کر کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دو، اور بیچ میں سے کمر کے نیچے کو بھی ایک کترن نکال کر باندھ دو، تا کہ ہوا سے یا ہلنے جلنے سے کھل نہ جاۓ_,"*

*®_ ( شامی ،بہشتی زیور ، مسافر آخرت )* 

          *╂───────────╂*
     ╠☞ _عورت کو کفنانے کا طریقہ :

*✧⇝"_ عورت کے لئے پہلے لفافہ بچھا کر اس پر سینہ بند اور اس پر ازار بچاؤ، پھر قمیض کا نچلا نصف حصہ بچھاؤ، اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دو، پھر میت کو غسل کے تختے سے آہستگی سے اٹھا کر اس بچھے ہوۓ کفن پر لٹا دو، اور قمیض کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا اس کو سر کی طرف الٹ دو کہ قمیض کا سوراخ ( گریبان ) گلے میں آجاۓ اور پیروں کی طرف بڑھادو،*

*✧⇝"_ جب اس طرح قمیص پہنا چکو تو جو تہبند غسل کے بعد عورت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دو، اور اس کے سر پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دو، عورت کو زعفران بھی لگا سکتے ہیں،*

*✧⇝"_ پھر پیشانی، ناک اور دونوں ہتھیلیوں اور دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر کافور مل دو، پھر سر کے بالوں کو دو حصے کر کے قمیص کے اوپر سینہ پر ڈال دو، ایک حصہ داہنی طرف اور دوسرا بائیں طرف، پھر سر بند یعنی اوڑھنی سر پر اور بالوں پر ڈال دو، ان کو باندھنا یا لپیٹنا نہیں چاہئے۔*

*✧⇝"_اس کے بعد میت کے اوپر ازار اس طرح لپیٹو کہ بایاں پلہ ( کنارہ) نیچے اور دایاں اوپر رہے، سر بند اس کے اندر آ جائے گا، اس کے بعد سینہ بند اس کے اندر آ جاۓ گا، اس کے بعد سینہ بند سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر گھٹنوں تک دائیں بائیں سے باندھو، پھر لفافہ اسی طرح لپیٹو کہ بایاں پلہ نیچے اور دایاں اوپر رہے، اس کے بعد کترن سے کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دو، اور بیچ میں کمر کے نیچے کو بھی ایک بڑی کترن نکال کر باندھ دو، تا کہ ہلنے جلنے سے کھل نہ جاۓ_,"*

*®_( بهشتی زیور ، مسافر آخرت )*

*✧⇝"_ - بعض لوگ کفن پر بھی عطر لگاتے ہیں، اور عطر کی پھریری میت کے کان میں رکھ دیتے ہیں، یہ سب جہالت ہے، جتنا شریعت میں آیا ہے اس سے زائد مت کرو۔*
*®_( بہشتی زیور )*

*✧⇝"_ جنازہ کے اوپر جو چادر اوڑھا دیتے ہیں یہ کفن میں داخل نہیں ، اور مرد کے لئے ضروری بھی نہیں ،لیکن اگر کوئی شخص اپنی چادر اس پر ڈال دے اور قبر پر جا کر اپنی چادر اتار لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں_,"*
*®_ (مسافر آخرت)*

*✧⇝"_ البتہ عورت کے جنازہ پر چادر ڈالنا پردے کے لئے ضروری ہے، مگر کفن میں یہ بھی داخل نہیں، چنانچہ اس کا ہم رنگ کفن ہونا ضروری نہیں، پردے کے لئے کوئی سا کپڑا ہو کافی ہے، بلکہ کوئی شخص اپنی چادر اس پر ڈال دے اور قبر پر جا کر اپنی چادر اتار لے تو یہ بھی کافی ہے_,"*
*®( مسافر آخرت و بهشتی زیور )*

*✧⇝"_- اگر گہوارہ موجود ہو تو عورت کے جنازہ پر وہ رکھ کر اس پر چادر ڈال دی جاۓ ، ورنہ بانس کی تیلیاں یا درخت کی ہری شاخ رکھ کر اس پر چادر ڈال دیں، تا کہ پردہ رہے_,"*
*®_ (مسافر آخرت)*

*✧⇝"_ مذکورہ بالا طریقہ سے جنازہ تیار کر کے اس آخرت کے مسافر کو نماز جنازہ کے لئے صبر وتحمل کے ساتھ رخصت کرو، کسی کو منہ دکھلا نا ہو تو دکھلا دو، اس موقع پر بعض عورتیں بلند آواز سے رونے اور بین کرنے لگتی ہیں، یا جنازہ کے ساتھ گھر سے باہر نکل آتی ہیں، اور پردہ سے بھی غافل ہو جاتی ہیں، ان سب باتوں سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے، ورنہ صبر کا عظیم الشان ثواب بھی جاتا رہےگا اور آخرت کا وبال بھی سر پڑے گا_,"*

          *╂───────────╂*
*╠☞_ تجہیز و تکفین سے بچا ہوا سامان:-*

 *✧⇝"_ غسل اور کفن دفن کے سامان میں سے اگر کچھ کپڑا وغیرہ بچ جاۓ تو وہ یونہی کسی کو دے دینا یا ضائع کر دینا جائز نہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے کہ اگر وہ میت کے ترکہ سے لیا گیا تھا تب تو اسے ترکہ ہی میں رکھنا واجب ہے، تا کہ شریعت کے مطابق ترکہ کی تقسیم میں وہ بچا ہوا سامان بھی شامل ہو جاۓ ،*
*"_ اور اگر کسی اور شخص نے اپنی طرف سے دیا تھا تو بچا ہوا سامان اسی کو واپس کر دیا جاۓ۔ (عالمگیریہ )*

*✧⇝_ اگر کسی لاوارث فقیر کی تجہیز و تکفین کے لئے لوگوں سے چندہ لیا گیا تھا تو جو سامان یا رقم بچے وہ چندہ دینے والوں کو واپس کیا جاۓ، اگر چندہ دینے والے یا ان کا پتہ معلوم نہ ہو سکے تو کسی اور لاوارث فقیر کی تجہیز و تکفین میں خرچ کر دیا جاۓ ، ورنہ فقراء ومساکین کو صدقہ میں دے دیا جاۓ_,"*
*®_(درمختار و شامی)* 

          *╂───────────╂*
        *╠☞ _ جنازہ اٹھانے کا بیان :-*

*✧_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایمان کی صفت کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ جاۓ اور اس وقت تک جنازہ کے ساتھ رہے جب تک کہ اس پر نماز پڑھی جاۓ اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہوگا ، جن میں سے ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا،*
*"_ اور جو آدمی صرف نماز جنازہ پڑھ کر واپس آ جاۓ دفن ہونے تک ساتھ نہ دے تو وہ ثواب کا (ایسا ہی ) ایک قیراط لے کر واپس ہوگا_,"*
*®_( معارف الحدیث, صحیح بخاری و صحیح مسلم )*

*✧⇝"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ کو تیز لے جایا کرو، اگر وہ نیک ہے تو ( قبر اس کے لئے ) خیر ہے (یعنی اچھی منزل ہے ) جہاں تم ( تیز چل کے ) اسے جلد پہنچا دوگے، اور اگر اس کے سوا دوسری صورت ہے (یعنی جنازہ نیک کا نہیں ہے ) تو ایک بڑا بوجھ ( تمہارے کندھوں پر ) ہے ( تم تیز چل کے جلدی ) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے_,"*
*®_ (صحیح بخاری ومسلم، معارف الحدیث )* 

*✧⇝"_حدیث میں ہے کہ جو شخص ( جنازہ کی) چار پائی چاروں طرف سے اٹھائے (یعنی چاروں طرف سے کندھا دے) تو اس کے چالیس کبیرہ گناہوں (یعنی صغائر میں جو بڑے صغائر ہیں ) بخش دیئے جائیں گے_,"*
*®_( بہشتی زیور بحوالہ ابن عساکر )*

*✧⇝"_ مسئلہ: - میت اگر پڑوسی یا رشتہ دار یا کوئی نیک پرہیزگار شخص ہو تو اس کے جنازہ کے ساتھ جانا نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے۔*
 *"_ ضرورت پیش آ جاۓ تو جنازہ اجرت دے کر بھی اٹھوایا جاسکتا ہے،*
*®_ (عالمگیری)*

*✧⇝"_ مسئلہ : - عورتوں کا جنازہ کے ہمراہ جانا مکروہ تحریمی ہے_,"*
*®_(بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
  *╠☞ _ جنازہ لے جانے کا مسنون طریقہ:-

*✧⇝"_ اگر میت شیرخوار بچہ یا اس سے کچھ بڑا ہو تو لوگوں کو چاہئے کہ اسے دست بدست لے جائیں ، یعنی ایک آدمی اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھالے، پھر اس سے دوسرا آدمی لے لے، اسی طرح بدلتے ہوۓ لے جائیں۔*

*✧⇝"_ اور اگر میت بڑی ( مرد یا عورت ) ہوتو اس کو کسی چار پائی وغیرہ پر لٹا کر لے جائیں ، سرہانا آگے رکھیں ، اور اس کے چاروں پایوں کو ایک ایک آدمی اٹھائے ، میت کی چار پائی ہاتھوں سے اٹھا کر کندھوں پر رکھنا چاہئے ، ہاتھوں سے اٹھاۓ بغیر مال و اسباب کی طرح گردن پر لادنا مکروہ ہے، پیٹھ پر لادنا بھی مکروہ ہے، اسی طرح بلا عذر اس کا کسی جانور یا گاڑی وغیرہ پر رکھ کر لے جانا بھی مکروہ ہے، اور عذر ہو تو بلا کراہت جائز ہے، مثلا قبرستان بہت دور ہو۔*
*®_ (بہشتی گوہر مع حاشیہ )*

*✧⇝"_ جنازہ کو دو پٹیوں ( لکڑیوں ) کے درمیان اس طرح اٹھانا بھی مکروہ ہے کہ دو آدمیوں نے اٹھا رکھا ہو، ایک نے آگے سے دوسرے نے پیچھے سے، جیسے بھاری سامان کھینچا جاتا ہے، ہاں! مجبوری میں مضائقہ نہیں ، مثلاً راستہ اتنا تنگ ہو کہ چار آدمی سنت کے مطابق اٹھا کر نہ گزر سکیں۔*
*®_ (عالمگیری)*

*✧⇝"_ جنازہ کو اٹھانے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے میت کے داہنی طرف کا اگلا پایا اپنے داہنے کندھے پر رکھ کر کم از کم دس قدم چلے، اس کے بعد اسی طرف کا پچھلا پایا اپنے داہنے کندھے پر رکھ کر کم از کم دس قدم چلے، اس کے بعد میت کے بائیں طرف کا اگلا پایہ اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر، پھر پچھلا بایاں پایا اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر کم سے کم دس دس قدم چلے، تا کہ چاروں پایوں کو ملاکر چالیس قدم ہوجائیں، حدیث شریف میں جنازہ کو کم از کم چالیس قدم تک کندھا دینے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔*
*®_(بہشتی گوہر، درمختار، شامی)*

*✧⇝"_ جنازہ کو تیز قدم لے جانا مسنون ہے، مگر نہ اتنی تیز کہ نعش کو حرکت و اضطراب ہونے لگے۔ (بہشتی گوہر )*

 *✧⇝"_جنازہ کے ہمراہ پیادہ پا (پیدل) چلنا مستحب ہے، اور اگر کسی سواری پر ہو تو جنازہ کے پیچھے چلے۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_جو لوگ جنازہ کے ہمراہ ہوں ان کو جنازہ کے پیچھے چلنا مستحب ہے، اگرچہ جنازہ کے آگے چلنا بھی جائز ہے، ہاں! اگر جنازہ سے آگے بہت دور چلا جاۓ یا سب لوگ جنازہ کے آگے ہو جائیں تو مکروہ ہے، اسی طرح جنازہ کے آگے کسی سواری پر چلنا بھی مکروہ ہے ۔ (بہشتی گوہر )*

*"_ جولوگ جنازہ کے ساتھ ہوں انہیں جنازہ کے دائیں یا بائیں نہیں چلنا چاہئے۔ (عالمگیری)*

*✧⇝"_ جنازہ کے ہمراہ جو لوگ ہوں ان کا کوئی دعا یا ذکر بلند آواز سے پڑھنا مکروہ ہے۔ ( بہشتی گوہر بحوالہ البحر الرائق)*

*✧⇝"_ جو لوگ جنازہ کے ساتھ نہ ہوں بلکہ کہیں بیٹھے ہوں اور ان کا ارادہ جنازہ کے ساتھ جانے کا بھی نہ ہو، ان کو جنازہ دیکھ کر کھڑا نہیں ہونا چاہئے ۔ (بہشتی گوہر بحوالہ مراقی الفلاح)*

*✧_ جو لوگ جنازہ کے ہمراہ جائیں ان کو قبل اس کے کہ شانوں سے جنازہ اتارا جاۓ بیٹھنا مکروہ ہے، ہاں! اگر کوئی ضرورت بیٹھنے کی پیش آۓ تو مضائقہ نہیں۔ (بہشتی گوہر)*

*✧⇝جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو اسے بغیر نماز جنازہ پڑھے واپس نہیں آنا چاہئے ، البتہ نماز پڑھ کر میت والوں سے اجازت لے کر آ سکتا ہے، اور دفن کے بعد اجازت کی ضرورت نہیں- (عالمگیری)*

*✧⇝حدیث : - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے ساتھ پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ (ترمذی) اور جب تک جنازہ کندھوں سے اتارا نہ جاتا، نہ بیٹھتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب تم جنازہ میں آؤ تو جب تک اسے نہ رکھ دیا جاۓ مت بیٹھو۔*
*"_اور ایک روایت میں ہے کہ: جب تک لحد ( قبر ) میں نہ رکھ دیا جاۓ نہ بیٹھو، (مدارج النبوة )*

*✧_ حدیث : - جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے ساتھ جاتے تو پیدل چلتے ، اور فرماتے کہ: میں سوار نہیں ہوتا جبکہ فرشتے پیدل جا رہے ہوں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( دفن سے فارغ ہو جاتے تو کبھی پیدل واپس ہوتے ، کبھی سوار ہو کر ۔(زاد المعاد)*

*✧⇝حدیث : - رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازہ کے ساتھ چلتے تو خاموش رہتے اور اپنے دل میں موت کے متعلق گفتگو فرماتے ۔ (ابن سعد )*

                *╂───────────╂*
                 *╠☞_نماز جنازہ کا بیان :-*

*✧"_ میت پر نماز جنازہ پڑھنا بھی فرض کفایہ ہے، یعنی اگر کسی نے بھی اس پر نماز نہ پڑھی تو جن جن لوگوں کو معلوم تھا وہ سب گنہگار ہوں گے، اور اگر صرف ایک شخص نے بھی نماز پڑھ لی تو فرض کفایہ ادا ہو گیا، کیونکہ جماعت نماز جنازہ کے لئے شرط یا واجب نہیں، (تفصیل آگے آۓ گی)۔ (شامی)* 

*✧"_مسئلہ: - اگر جمعہ کے دن کسی کا انتقال ہوگیا تو اگر جمعہ کی نماز سے پہلے کفن، نماز اور دفن وغیرہ ہو سکے تو ضرور کر لیں، صرف اس خیال سے جنازہ روک رکھنا کہ جمعہ کی نماز میں مجمع زیادہ ہوگا مکروہ ہے۔ (شامی ، بہشتی گوہر )*

*✧"_مسئلہ: - اگر جنازہ اس وقت آیا جبکہ فرض نماز کی جماعت (جمعہ یا غیر جمعہ کی ) تیار ہو تو پہلے فرض اور سنتیں پڑھ لیں، پھر جنازہ کی نماز پڑھیں۔ (درمختار وشامی )*

*✧"_مسئلہ: - اگر نماز عید کے وقت جنازہ آیا ہے تو پہلے عید کی نماز پڑھیں ، پھر عید کا خطبہ پڑھا جاۓ ، اس کے بعد جنازہ کی نماز پڑھیں ۔ (امداد الفتاوی ج:1 ص:۵۰۵)*

*✧"_مسئلہ: - مرنے والے نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ فلاں شخص پڑھاۓ تو یہ وصیت معتبر نہیں، اور شرعاً اس پر عمل کرنا ضروری نہیں،*
*"_ نماز جنازہ پڑھانے کا جن لوگوں شریعت نے حق دیا ہے انہی کو امام بنانا چاہئے ، البتہ اگر وہی کسی اور کو امام بنانا چاہیں تو مضائقہ نہیں ۔ (مراقی الفلاح ص:۳۲۴)* 

               *╂───────────╂*
              *╠☞_ نماز جنازہ کا وقت :-*

*✧⇝ جس طرح پنج وقتہ نمازوں کے لئے اوقات مقرر ہیں، نماز جنازہ کے لئے اس طرح کا کوئی خاص وقت ضروری یا شرط نہیں ۔ ( شامی ، بہشتی گوہر )*

*✧⇝مسئلہ: - نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے اور نماز عصر کے بعد آفتاب زرد ہونے سے پہلے نفل اور سنتیں پڑھنا تو ممنوع ہے، مگر نماز جنازہ ان اوقات میں بھی بلا کراہت درست ہے۔(عالمگیری ، شامی ، امداد الفتاوی )*

*✧⇝مسئلہ: - آفتاب کے طلوع، زوال ( ٹھیک دو پہر ) اور غروب کے وقت دوسری نمازوں کی طرح نماز جنازہ بھی جائز نہیں ،طلوع کا وقت آفتاب کا اوپر کا کنارہ ظاہر ہونے سے شروع ہوکر اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ آفتاب پورا نکل کر اونچا نہ ہو جاۓ ، یعنی جب تک نظر اس پر جم سکتی ہو، اور غروب کا وقت آفتاب کا رنگ زرد پڑ جانے سے شروع ہوتا ہے، یعنی جب سے کہ اس پر نظر جمنے لگے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ آفتاب پورا غائب نہ ہو جاۓ۔*
*(شامی ج:۱ ص:۳۴۴،۳۴۱ ، عالمگیری ج:۱ ص:۵۲، بهشتی زیور )*

*✧⇝مسئلہ:- نماز جنازہ مذکورہ بالا تین اوقات میں پڑھنا اس صورت میں ناجائز ہے جبکہ جنازہ ان اوقات سے پہلے آچکا ہو، اور اگر جنازہ خاص طلوع، زوال یا غروب ہی کے وقت آیا تو اس پر نماز جنازہ اس وقت بھی جائز ہے۔ (عالمگیری، درمختار، شامی )*

*✧⇝خلاصہ: - خلاصہ یہ کہ نماز جنازہ ان تین اوقات ( طلوع ، زوال ، غروب ) کے علاوہ ہر وقت بلا کراہت جائز ہے، اور ان تین اوقات میں بھی اس صورت میں جائز ہے جبکہ جنازہ خاص انہی اوقات میں آیا ہو۔* 

                *╂───────────╂*
           *╠☞ _ جوتے پہن کر نماز پڑھنا:-*

*✧_ آج کل بعض لوگ جنازہ کی نماز جوتے پہنے ہوۓ پڑھتے ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس جگہ کھڑے ہوں وہ جگہ اور جوتے دونوں پاک ہوں، ورنہ ان کی نماز نہیں ہوگی_,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝اور اگر جوتا پیر سے نکال دیا جاۓ اور اس پر کھڑے ہوں تو صرف جوتے کے اوپر کا حصہ جو پیر سے متصل ہو اس کا پاک ہونا ضروری ہے، اگر چہ تلا ناپاک ہو، نیز اس صورت میں اگر وہ زمین بھی ناپاک ہو تو کوئی حرج نہیں_,"*
*®_ (بہشتی گوہر، امداد الاحکام )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وہ شرطیں جن کا میت میں پایا جانا ضروری ہے :-*

*✧⇝"_ دوسری قسم کی وہ شرطیں ہیں جن کا میت سے تعلق ہے، وہ چھ ہیں:-*
*"1_پہلی شرط:- میت کا مسلمان ہونا، پس غیر اور مرتد پر نماز صیح نہیں ،مسلمان اگر چہ فاسق اور بدعتی ہو اس پر نماز صحیح ہے ، سواۓ ان لوگوں کے جومسلمان حاکم برحق سے بغاوت کرتے ہوۓ یا ڈاکہ زنی کرتے ہوۓ یا قبائلی، وطنی ، صوبائی یا لسانی تعصب کے لئے لڑتے ہوۓ مارے جائیں ، ان لوگوں پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جاۓ گی ۔ اور اگر بڑائی کے بعد قتل کئے گئے یا لڑائی کے بعد اپنی موت سے مر جائیں تو پھر ان کی نماز پڑھی جاۓ گی ۔ (بہشتی گوہر و در مختار و شامی )*

*✧⇝"_ اسی طرح جس شخص نے اپنے باپ یا ماں کو قتل کیا ہو، اور اس کی سزا میں وہ مارا جاۓ تو اس کی نماز بھی نہیں پڑھی جاۓ گی۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_جس شخص نے خودکشی کی ہو صحیح یہ ہے کہ اس کو غسل دیا جاۓ گا اور اس پر نماز جنازہ بھی پڑھی جاۓ گی۔(بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_مسئلہ: - میت سے مراد وہ شخص ہے جو زندہ پیدا ہوکر مر گیا ہو، یا بطن مادر سے اس کے جسم کا اکثر حصہ بحالت زندگی باہر آیا ہو، اور اگر مرا ہوا پیدا ہو یا اکثر حصہ نکلنے سے پہلے مر جاۓ تو اس کی نماز درست نہیں۔ (بہشتی زیور و بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وہ شرطیں جن کا میت میں پایا جانا ضروری ہے, دوسری شرط:-*

*✧⇝"_میت کے بدن اور کفن کا نجاست حقیقیہ اور حکمیہ سے طاہر ہونا ، ہاں! اگر نجاست حقیقیہ اس کے بدن سے کفنانے کے بعد خارج ہوئی ہو اور اس سبب سے اس کا بدن یا کفن بالکل نجس ہو جاۓ تو کچھ مضائقہ نہیں ، نماز درست ہے، دھونے کی ضرورت نہیں۔ (بہشتی گوہر و شامی )*

*✧⇝"_مسئلہ: - اگر کوئی میت نجاست حکمیہ سے طاہر نہ ہو، یعنی اس کو غسل نہ دیا گیا ہو، اور درصورت ناممکن ہونے غسل کے تیمم بھی نہ کرایا گیا ہو، اس پر نماز درست نہیں، ہاں! اگر اس کا طاہر ہونا ممکن نہ ہو، مثلاً بے غسل یا تیمم کراۓ ہوۓ دفن کر چکے ہوں اور قبر پر مٹی بھی پڑ چکی ہو، مگر نعش پھٹی نہ ہو تو پھر اس کی نماز اس کی قبر پر اسی حالت میں پڑھی جاۓ گی ۔*

*✧⇝"_اگر کسی میت پر بے غسل یا بے تیمم کے نماز پڑھی گئی ہو اور وہ دفن کر دیا گیا ہو، اور بعد دفن کے معلوم ہو کہ اس کو غسل نہ دیا گیا تھا، تو جب تک نعش پھٹی نہ ہو اس کی نماز دوبارہ اس کی قبر پر پڑھی جاۓ ، اس لئے کہ پہلی نماز صحیح نہیں ہوئی، ہاں! اب چونکہ غسل ممکن نہیں ہے لہذا نماز ہو جاۓ گی۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ مسئلہ: - اگر کوئی مسلمان بے نماز جنازہ پڑھے ہوۓ دفن کر دیا گیا ہو تو اس کی نماز اس کی قبر پر پڑھی جاۓ گی ، جب تک کہ اس کی نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو، جب خیال ہو کہ اب نعش پھٹ گئی ہوگی تو پھر نماز نہ پڑھی جاۓ ، اور نعش پھٹنے کی مدت ہر جگہ کے اعتبار سے مختلف ہے، اس کی تعیین نہیں ہو سکتی، یہی زیادہ صحیح ہے، اور بعض نے تین دن اور بعض نے دس دن اور بعض نے ایک ماہ کی مدت بیان کی ہے , (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_مسئلہ: - میت اگر کسی پاک پلنگ یا تخت یا کسی پاک گدے یا لحاف پر رکھی ہو تو اس پلنگ وغیرہ کی جگہ کا پاک ہونا شرط نہیں ، ایسی صورت میں بلاشک و شبہ نماز جنازہ درست ہے، اور اگر پلنگ یا تخت وغیرہ بھی ناپاک ہو، یا میت کو بغیر تخت اور پلنگ کے ناپاک زمین پر رکھ دیا ہے تو ایسی صورت میں میت کی جگہ کے پاک ہونے کے شرط ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے، بعض کے نزد یک شرط ہے، لہذا ناپاک تخت یا ناپاک زمین پر رکھنے کی صورت میں نماز جنازہ درست نہیں ہوگی ، اور بعض کے نزدیک شرط نہیں، لہٰذا نماز صحیح ہو جاۓ گی۔ (بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وہ شرطیں جن کا میت میں پایا جانا ضروری ہے-٣-٤-٥,*

*✧⇝ تیسری شرط:- میت کے جسم واجب الستر (یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا واجب اور ضروری ہے ) کا پوشیدہ ہونا ، اگر میت برہنہ ہو تو اس پر نماز جنازہ درست نہیں۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝_چوتھی شرط:- میت کا نماز پڑھنے والوں سے آگے ہونا، اگر میت نماز پڑھنے والوں کے پیچھے ہو تو نماز درست نہیں۔ (بہشتی گوہر )*

 *✧⇝"_پانچویں شرط:- میت کا یا جس چیز پر میت ہو اس کا زمین پر رکھا ہوا ہونا ، اگر میت کو لوگ اپنے ہاتھوں پر اٹھاۓ ہوۓ ہوں، یا کسی گاڑی یا جانور پر ہو اور اسی حالت میں اس کی نماز پڑھی جاۓ تو عذر کے بغیر صحیح نہ ہوگی۔ (بہشتی گوہر وشامی ج:۱ ص:۸۱۳)*

*✧⇝"_چھٹی شرط:- میت کا وہاں موجود ہونا، اگر میت وہاں موجود نہ ہوتو نماز صحیح نہ ہوگی ۔*


          *╂───────────╂*
*╠☞ _ نماز جنازہ کے فرائض :-*

*✧⇝_نماز جنازہ میں دو چیزیں فرض ہیں:-*
*1:- چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا، ہر تکبیر یہاں قائم مقام ایک رکعت کے سمجھی جاتی ہے، یعنی جیسے دوسری نمازوں میں رکعت ضروری ہے ویسے ہی نماز جنازہ میں ہر تکبیر ضروری ہے۔*

*⇝"_اگر امام جنازہ کی نماز میں چار تکبیر سے زائد کہے تو حنفی مقتدیوں کو چاہئے کہ ان زائد تکبیرات میں اس کا اتباع نہ کریں، بلکہ سکوت کئے ہوۓ کھڑے رہیں، جب امام سلام پھیرے تو خود بھی سلام پھیر دیں،*

 *✧⇝_ہاں! اگر زائد تکبیر میں امام سے نہ سنی جائیں بلکہ مکبر سے، تو مقتدیوں کو چاہئے کہ اتباع کریں، اور ہر تکبیر کو تکبیر تحریمہ سمجھیں، یہ خیال کر کے کہ شاید اس سے پہلے جو چار تکبیریں مکبر نقل کر چکا ہے وہ غلط ہوں ، امام نے اب تکبیر تحریمہ کہی ہو_,"*
*®_ (در مختار و شامی )*

*✧⇝_۲: - قیام، یعنی کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھنا، جس طرح فرض و واجب نمازوں میں قیام فرض ہے اور بے عذر اس کا ترک جائز نہیں ، اسی طرح نماز جنازہ بھی بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے سے ادا نہیں ہوتی۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_مسئلہ : - اذان و اقامت اور قراءت ، رکوع ، سجدہ ، قعدہ وغیرہ اس نماز میں نہیں_,"*
*®_ (بہشتی گوہر)*

 
          *╂───────────╂*
*╠☞_ نماز جنازہ میں تین چیزیں مسنون ہیں:-*

*✧⇝_ ۱:- اللہ کی حمد کرنا۔*
*"_ ۲: - نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا۔*
*"_ ۳: - اور میت کے لئے دعا کرنا۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝جماعت اس نماز میں شرط نہیں، پس اگر ایک شخص بھی جنازہ کی نماز پڑھ لے تو فرض ادا ہو جاۓ گا، خواہ وہ نماز پڑھنے والا عورت ہو یا مرد، بالغ ہو یا نابالغ ، اور اگر کسی نے بھی نہ بڑھی تو سب گنہگار ہوں گے۔ ( بهشتی گوہر و شامی )*

*✧_ مسئلہ: -لیکن نماز جنازہ کی جماعت میں جتنے زیادہ لوگ ہوں اتنا ہی بہتر ہے، اس لئے کہ یہ دعا ہے میت کے لئے، اور چند مسلمانوں کا جمع ہوکر بارگاہ الہی میں کسی چیز کے لئے دعا کرنا ایک عجیب خاصیت رکھتا ہے نزول رحمت اور قبولیت کے لئے ، لیکن نماز جنازہ میں اس غرض سے تاخیر کرنا کہ جماعت زیادہ ہو جاۓ مکروہ ہے۔ (بہشتی گوہر )* 


          *╂───────────╂*
*╠☞_ نماز جنازہ کا طریقہ :-*

*✧⇝"_ نماز جنازہ کا مسنون اور مستحب طریقہ یہ ہے کہ میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینے کے محاذی کھڑا ہو جاۓ اور سب لوگ یہ نیت کریں:- میں نے یہ ارادہ کیا کہ نماز جنازہ پڑھوں، جو اللہ تعالیٰ کی نماز ہے اور میت کے لئے دعا ہے۔ یہ نیت کر کے دونوں ہاتھ مثل تکبیر تحریمہ کے کانوں تک اٹھا کر ایک مرتبہ "الله اکبر" کہہ کر دونوں ہاتھ مثل نماز کے باندھ لیں ، پھر "سبحانك اللهم" آخر تک پڑھیں ، اس کے بعد پھر ایک بار "اللہ اکبر" کہیں، مگر اس مرتبہ ہاتھ نہ اٹھائیں، بعد اس کے درود شریف پڑھیں، اور بہتر یہ ہے کہ وہی درود شریف پڑھا جاۓ جو نماز میں پڑھا جا تا ہے،*

*✧⇝"_ پھر ایک مرتبہ "اللہ اکبر" کہیں، اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ اٹھائیں، اس تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کریں، ( بالغ مرد عورت، نا بالغ لڑکا لڑکی کی الگ الگ دعائیں ہیں) جو دُعائیں احادیث میں آئی ہیں، ان کو ہی پڑھیں، جن کو ہمارے فقہاء نے بھی نقل کیا ہے، جس دعا کو چاہے اختیار کرے۔*

*✧⇝"_ جب دعا پڑھ چکیں تو پھر ایک مرتبہ "اللہ اکبر" کہیں اور اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ اٹھائیں، اور اس تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیر دیں ، جس طرح نماز میں سلام پھیرتے ہیں، اس نماز میں التحیات اور قرآن مجید کی قراءت وغیرہ نہیں ہے۔*
*®_ (بہشتی گوہر)*

*✧⇝مسئلہ : - اگر کسی کو نماز جنازہ کی دعا یاد نہ ہو تو صرف "اللـهـم اغـفـر للمؤمنين والمؤمنات“ پڑھ لے، اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف چار تکبیریں کہہ دینے سے بھی نماز ہوجاۓ گی، اس لئے کہ دعا اور درود شریف فرض نہیں مسنون ہے_, (بہشتی گوہر )*

*✧⇝مسئلہ:- نماز جنازہ کے بعد وہیں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا مکروہ ہے، سنت سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ نماز جنازہ خود دعا ہے۔*
*✧⇝مسئلہ: - نماز جنازہ امام اور مقتدی دونوں کے حق میں یکساں ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ امام تکبیریں اور سلام بلند آواز سے کہے گا اور مقتدی آہستہ آواز سے، باقی چیزیں ثناء اور دعا اور درود مقتدی بھی آہستہ آواز سے پڑھیں گے اور امام بھی آہستہ آواز سے پڑھے گا۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝مسئلہ:- جنازہ کی نماز میں مستحب ہے کہ حاضرین کی تین صفیں کر دی جائیں، یہاں تک کہ اگر صرف سات آدمی ہوں تو ایک آدمی ان میں سے امام بنا دیا جاۓ ، اور پہلی صف میں تین آدمی کھڑے ہوں اور دوسری میں دو اور تیسری میں ایک۔ (بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وہ چیزیں جن سے نماز جنازہ فاسد ہوجاتی ہے:-*

*✧⇝مسئلہ:- جنازہ کی نماز بھی ان چیزوں سے فاسد ہوجاتی ہے جن چیزوں سے دوسری نمازوں میں فساد آتا ہے،*

*✧⇝صرف اتنا فرق ہے کہ جنازہ کی نماز میں قہقہہ سے وضو نہیں جاتا، اور عورت کی محاذات سے بھی اس میں فساد نہیں آتا_,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*


          *╂───────────╂*
*╠☞_ مسجد اور وہ مقامات جن میں نماز جنازہ مکروہ ہے:-*

*✧⇝"_جنازہ کی نماز اس مسجد میں پڑھنا مکروہ تحریمی ہے جو پنج وقتہ نمازوں یا جمعہ یا عیدین کی نماز کے لئے بنائی گئی ہو، خواہ جنازہ مسجد کے اندر ہو یا مسجد سے باہر ہو اور نماز پڑھنے والے اندر ہوں، ہاں! جو خاص جنازہ کی نماز کے لئے بنائی گئی اس میں مکروہ نہیں۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ اور اگر یہ صورت ہو کہ جنازہ اور امام مع کچھ مقتدیوں کے مسجد سے باہر ہوں اور باقی مقتدی اندر ہوں تو اس صورت کو بھی علامہ شامی اور صاحب درمختار نے مکروہ قرار دیا ہے ،لیکن امدادالمفتین میں فتاوی بزازیہ کے حوالہ سے اسے جائز لکھا ہے، لہذا احتیاط بہرحال اس میں ہے کہ بلا عذر اس صورت سے بھی اجتناب کیا جاۓ ۔ (رفیع)*

*✧⇝"_ اگر مسجد کے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو مجبوری میں مسجد میں پڑھنا مکروہ نہیں ۔(امداد الفتاوی ج:1 ص:۵۳۴)*

*"_حرمین شریفین میں اسی عذر کی بناء پر مسجد میں نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔*

*✧⇝مسئلہ: - عام راستہ پر نماز جنازہ پڑھنا کہ جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔(شامی ج:1 ص: ۸۲۷ )*

*✧⇝مسئلہ: کسی دوسرے کی زمین پر اس کی اجازت کے بغیر نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے۔*
*مسئلہ: - میت کو نماز کے بغیر بھی مسجد میں داخل کرنا مکروہ ہے ۔(شامی ج:1 ص: ۸۲۷ )*

*✧⇝۔ مسئلہ: - جنازہ کی نماز بیٹھ کر یا سواری کی حالت میں پڑھنا جائز نہیں ، جبکہ کوئی عذر نہ ہو۔ (بہشتی گوہر )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _اگر بیک وقت کئی جنازے جمع ہو جائیں؟*

*✧⇝مسئلہ: - اگر ایک ہی وقت میں کئی جنازے جمع ہو جائیں تو بہتر یہ ہے کہ ہر جنازہ کی نماز علیحدہ پڑھی جاۓ ، اور اگر سب جنازوں کی ایک ہی نماز پڑھی جاۓ تب بھی جائز ہے، اور اس وقت چاہئے کہ سب جنازوں کی صف قائم کر دی جاۓ, جس کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایک جنازہ کے آگے دوسرا جنازہ رکھ دیا جاۓ کہ سب کے پیر ایک طرف ہوں اور سب کے سر ایک طرف، اور یہ صورت اس لئے بہتر ہے کہ اس میں سب کا سینہ امام کے مقابل ہو جاۓ گا ، جو مسنون ہے۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝مسئلہ: - اگر جنازے مختلف اصناف ( قسموں ) کے ہوں تو اس ترتیب سے ان کی صف قائم کی جائے کہ امام کے قریب مردوں کے جنازے، ان کے بعد لڑکوں کے اور ان کے بعد بالغہ عورتوں کے، ان کے بعد نابالغہ لڑکیوں کے۔ (بہشتی گوہر )*

 
          *╂───────────╂*
*╠☞ _ جنازہ کی نماز میں مسبوق اور لاحق کے احکام- 1:-*

*✧⇝"_اگر کوئی شخص جنازہ کی نماز میں ایسے وقت پہنچا کہ کچھ تکبیریں اس کے آنے سے پہلے ہوچکی ہوں تو جس قدر تکبیریں ہوچکی ہوں ان کے اعتبار سے وہ شخص مسبوق سمجھا جاۓ گا_,"*
*"_کیونکہ پیچھے معلوم ہو چکا ہے کہ نماز جنازہ میں تکبیر تحریمہ سمیت ہر تکبیر پوری ایک رکعت کے حکم میں ہے، پس جتنی تکبیریں فوت ہوئیں گویا کہ اتنی ہی رکعتیں فوت ہوگئیں۔ (شامی )*

*✧⇝"_ اور اس کو چاہئے کہ فوراً آتے ہی مثل اور نمازوں کے تکبیر تحریمہ کہہ کر شریک نہ ہو جائے بلکہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے، جب امام تکبیر کہے تو اس کے ساتھ یہ بھی تکبیر کہے، اور یہ تکبیر اس کے حق میں تکبیر تحریمہ ہوگی ،*
*"_ پھر جب امام سلام پھیر دے تو یہ شخص اپنی گئی ہوئی تکبیروں کو ادا کرے اور اس میں کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں"، (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_لیکن اگر وہ شخص امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کئے بغیر فوراً آتے ہی’اللہ اکبر' کہہ کر نماز میں شریک ہوگیا تو پھر بھی نماز درست ہو جاۓ گی ، البتہ شریک ہوتے وقت جو تکبیر اس نے کہی وہ ان چار تکبیروں میں شمار نہ ہوگی جو نماز جنازہ میں فرض ہیں،*
*"_ لہذا جب امام سلام پھیر دے تو اس شخص پر لازم ہے کہ جو تکبیریں اس کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے ہوچکی تھیں وہ پڑھ کر پھر سلام پھیرے۔ (شامی )*

*✧⇝"_ اگر کوئی شخص تکبیر تحریمہ یعنی پہلی تکبیر یا کسی اور تکبیر کے وقت موجود نہ تھا اور نماز میں شرکت کے لئے تیار تھا، مگر ستی یا کسی اور وجہ سے شریک نہ ہوا تو اس کو امام کی اگلی تکبیر کا انتظار نہ کرنا چاہئے ، بلکہ فوراً تکبیر کہہ کر شریک نماز ہو جانا چاہئے ، اور اس تکبیر کا اعادہ اس کے ذمہ نہ ہوگا،*

*✧⇝"_ بشرطیکہ قبل اس کے کہ امام اگلی تکبیر کہے، یہ اس تکبیر کو ادا کر لے ، مگر امام کی معیت نہ ہو، ہاں! اس تکبیر سے پہلے جو تکبیریں فوت ہوچکیں ان تکبیروں میں یہ شخص مسبوق ہے، وہ تکبیریں یہ امام کے سلام کے بعد کرے _," ( شامی و بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ جنازہ کی نماز کا مسبوق جب اپنی گئی ہوئی تکبیروں کو ادا کرے اور یہ خوف ہو کہ اگر دعا پڑھے گا تو دیر ہوگی اور جنازہ اس کے سامنے سے اٹھالیا جاۓ گا تو دعا نہ پڑھے۔ (بہشتی گوہر وشامی )*

*✧⇝"_ جنازہ کی نماز میں اگر کوئی شخص لاحق ہو جاۓ تو اس کا وہی حکم ہے جو اور نمازوں کے لاحق کا ہے, (بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ جنازہ کی نماز میں امامت کا مستحق :-*

*✧⇝"_ جنازہ کی نماز میں امامت کا استحقاق سب سے زیادہ حاکم وقت کو ہے، گو تقوی میں اس سے بہتر لوگ بھی وہاں موجود ہوں، اگر حاکم وقت ( بادشاہ و سر براہ مملکت ) وہاں نہ ہو تو اس کا نائب یعنی جو شخص اس کی طرف سے حاکم شہر ہو وہ مستحق امامت کا ہے، گو تقوی میں اس سے افضل لوگ وہاں موجود ہوں، اور وہ بھی نہ ہو تو قاضی شہر، وہ بھی نہ ہو تو اس کا نائب، ان لوگوں کے ہوتے ہوۓ دوسرے کو امام بنانا بلا ان کی اجازت کے جائز نہیں ، انہی کا امام بنانا واجب ہے،*

*✧⇝"_ اگر یہ لوگ وہاں موجود نہ ہوں تو اس محلہ کا امام مستحق ہے، بشرطیکہ میت کے اعزہ میں سے کوئی شخص اس سے افضل نہ ہو، ورنہ میت کے وہ اعزہ جن کو حق ولایت حاصل ہے امامت کے مستحق ہیں یا وہ شخص جس کو وہ اجازت دیں ،*

*✧⇝"_ اگر بے اجازت ولی میت کے کسی ایسے شخص نے نماز پڑھا دی ہو جس کو امامت کا استحقاق نہیں اور ولی اس نماز میں شریک نہ ہوا تو ولی کو اختیار ہے کہ اس میت پر بعد میں نماز پڑھ لے، حتیٰ کہ اگر میت دفن ہو چکی ہو تب بھی اس کی قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے، تاوقتیکہ نعش کے پھٹ جانے کا خیال نہ ہو۔ (بہشتی گوہر و البحر الرائق )*

*✧⇝"_حاصل یہ کہ ایک جنازہ کی نماز کئی مرتبہ پڑھنا جائز نہیں مگر ولی میت کو جبکہ اس کی بے اجازت کسی غیر مستحق نے نماز پڑھا دی ہو تو دوبارہ پڑھنا درست ہے۔ (بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
*╠☞_ نماز جنازہ غائبانہ :-*

*✧⇝"_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے، لیکن یہ صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبشہ نجاشی کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی، اور حضرت معاویہ لیسی رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی، لیکن ہوسکتا ہے کہ (میت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کر دی گئی ہو یا) یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہو_," (شامی)*

*✧⇝"_ غائبانہ نماز جنازہ کو امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالی مطلقاً منع کرتے ہیں (مدارج النبوۃ)، اور ائمہ حنفیہ کا اس کے عدم جواز پر اتفاق ہے۔*
*⇝"_ جنازہ کا سامنے موجود ہونا صحت نماز جنازہ کی شرط ہے۔*
*®_( شامی ، البحر، بہشتی گوہر، مدارج النبوة )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ جنازہ میں کثرت تعداد کی برکت اور اہمیت:-*

*✧⇝"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑے جن کی تعداد سو تک پہنچ جاۓ اور وہ سب اللہ کے حضور میں اس میت کے لئے سفارش کریں (یعنی مغفرت و رحمت کی دعا کریں ) تو ان کی یہ سفارش اور دعا ضرور ہی قبول ہوگی_,*
*®_( صحیح مسلم شریف ، معارف الحدیث )*

*✧⇝"_حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا کہ: جس مسلمان بندہ کا انتقال ہو اور مسلمانوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھیں (اور اس کے لئے مغفرت و جنت کی دعا کریں ) تو ضرور ہی اللہ تعالی اس کے واسطے (مغفرت اور جنت ) واجب کردیتا ہے_,"*

*✧⇝"_مالک بن ہبیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ دستور تھا کہ جب وہ نماز جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے تو اس حدیث کی وجہ سے ان لوگوں کو تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے_,"*
*®_ (سنن ابی داؤد، معارف الحدیث )*
 
*✧⇝مسئلہ:- جب میت کی نماز سے فراغت ہو جاۓ تو فوراً اس کے دفن کرنے کے لئے جہاں قبر کھدی ہو لے جانا چاہئے ،*
*®_(بہشتی گوہر )*

*✧⇝مسئلہ: - نماز جنازہ کے بعد اہل جنازہ کی اجازت کے بغیر دفن سے پہلے واپس نہ ہونا چاہئے ، اور دفن کے بعد بغیر اجازت کے بھی واپس ہو سکتے ہیں۔*
*®_ (عالمگیری ج:۱ ص: ۱۶۵)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ نماز جنازہ کی دعائیں،*

 *✧⇝:_ ثنا اور درود پڑھنے کے بعد تیسری تکبیر کے بعد مییت کے لیے دعا پڑھیں جو اس طرح ہے:_*

 *✧⇝“__ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ”*

 *📓 مسند عبدالرزاق: 6419، سنن ترمذی: 1024،*

 *╠☞ بچے کی دعا:*

*✧⇝_نا بالغ مییت آگر بچہ ہو تو تیسری تکبیر کے بعد یہ دعا پڑھیں :_*

 *✧⇝"_ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا، وَاجْعَلْهُ لَنَا أَجْرًا وذُخرا، اجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَ مُشَفَّعاً._،*

 *╠☞ نا بالغ بچی کی دعا _،*

 *✧⇝"__ اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطًا، وَاجْعَلْهَا لَنَا أَجْرًا وذُخرا، اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَ مُشَفَّعَةً_*،

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ دفن کا بیان1 قبر کی نوعیت:-*

*✧⇝"میت کے غسل، کفن اور نماز جنازہ کی طرح دفن کرنا بھی فرض کفایہ ہے، اگر کسی نے بھی یہ فرض ادا نہ کیا تو سب گنہگار ہوں گے _,"*
*®_(بہشتی گوہر و عالمگیری)*

*✧⇝"قبر کم از کم میت کے نصف قد کے برابر گہری کھودی جاۓ ، اور پورے قد کے برابر گہری ہو تو زیادہ بہتر ہے، قد سے زیادہ نہ ہونی چاہئے ، اور موافق اس کے قد کے لمبی ہو، اور چوڑائی نصف قد کے برابر، بغلی قبر بہ نسبت صندوقی (شق) کے بہتر ہے، ہاں! اگر زمین بہت نرم ہو اور بغلی کھودنے سے قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہو تو پھر بغلی قبر نہ کھودی جاۓ۔*
*®_(شامی، مدارج النبوة )*

*✧⇝(۱) بغلی قبر :- یعنی لحد، اس کا طریقہ یہ ہے کہ قبر کھود کر اس کے اندر سے قبلہ کی جانب ایک گڑھا کھودا جاۓ جس میں میت کو رکھا جا سکے، یہ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی کی طرح ہوتا ہے_,"*
*®_ (شامی)*

*✧⇝(۲) صندوقی (شق) قبر - اس کا طریقہ یہ ہے کہ تقریباً ایک فٹ قبر کھود کر اس کے بیچوں بیچ ایک گڑھا میت کے نصف قد یا پورے قد کے برابر گہرا کھودا جاۓ ، جس کا طول میت کے قد کے برابر ہو اور چوڑائی زیادہ سے زیادہ نصف قد کے برابر ہو _,"*
*®_(شامی بزيادة ايضاح )* 

*✧⇝" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی لحد یعنی بغلی بنائی گئی تھی, بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صندوقی قبر بھی جس کو عربی میں "شق" کہتے ہیں، حسب موقع بنائی گئی ہے، لیکن افضل لحد یعنی بغلی قبر ہی کا طریقہ ہے_,"*
*®_ (معارف الحدیث )*

*✧⇝_ یہ بھی جائز ہے کہ اگر زمین نرم یا سیلاب زدہ ہو اور بغلی قبر نہ کھد سکے تو میت کو کسی صندوق ( تابوت ) میں رکھ کر دفن کردیں ، صندوق خواہ لکڑی کا ہو یا پتھر یا لوہے کا ، بہتر یہ ہے کہ صندوق میں مٹی بچھادی جاۓ _,"*
*® _( شامی و بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_بغلی قبر کو کچی اینٹیں اور نرکل وغیرہ لگا کر بند کرنا چاہئے، پختہ اینٹیں یا لکڑی کے تختے لگا کر بند کرنا مکروہ ہے_,"*
*"_ البتہ جہاں زمین نرم یا سیلابی ہونے کی وجہ سے قبر کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہو تو پختہ اینٹ یا لکڑی کے تختوں سے بند کیا جاسکتا ہے، اور ایسی صورت میں صندوق ( تابوت ) میں رکھنا بھی جائز ہے، البتہ صندوقی قبر (شق) میں میت کے اوپر لکڑی کے تختے یا سیمنٹ کے سلیپر لگانا بلا کراہت درست ہے_,"*
*®_(درمختار)*

*✧⇝"_حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر کو اونچا نہ بناتے اور اسے اینٹ پتھر وغیرہ سے پختہ تعمیر نہ کرتے ، اور اسے قلعی اور سخت مٹی سے نہ لیپتے ، قبر کے اوپر کوئی عمارت اور قبہ نہ بناتے ، یہ سب بدعت اور مکروہ ہے۔*

*✧⇝_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کی قبریں بھی زمین کے (تقریباً) برابر ہیں، سنگریزے سرخ ان پر چسپاں ہیں_,"*
 *®_(مدارج النبوة ، سفر السعادة )*

*✧⇝"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی ہیئت اور شکل اونٹ کے کوہان کے مشابہ تھی_,"*
*® (شامی بحوالہ بخاری شریف)*

*✧⇝"_حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے عامر بیان کرتے ہیں کہ (میرے والد ) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مرض وفات میں وصیت فرمائی تھی کہ میرے واسطے بغلی قبر بنائی جاۓ اور اس کو بند کرنے کے لئے کچی اینٹیں کھڑی کر دی جائیں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا گیا تھا_,"*
*®_( مسلم شریف ، معارف الحدیث )*

*✧⇝"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ یہ تھی کہ لحد ( بغلی قبر ) بنواتے ، اور قبر گہری کرواتے اور میت کے سر اور پاؤں کی جگہ کو فراخ کرواتے ( بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر کی لمبائی میت کے قد سے کچھ زائد رکھی جاتی تھی تا کہ سر اور پاؤں کی طرف جگہ کشادہ رہے)_,"*
 *®_ (زاد المعاد)* 

*✧⇝"مسئلہ: - قبر کے لئے اگر عام مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ ملے یا کسی خاص وجہ سے اجازت نہ ہو تو قبر کے لئے زمین خرید لی جاۓ ، اس کی قیمت بھی دیگر سامان تجہیز و تکفین کی طرح میت کے ترکہ میں سے ادا کی جاۓ گی_,"*
*®_( مفید الوارثین ص:۳۲)*

          *╂───────────╂*
*╠☞"_نعش کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانا مسئلہ : -*

*✧⇝ نعش کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں دفن کے لئے لے جانا خلاف اولیٰ ہے، جبکہ وہ دوسرا مقام ایک دو میل سے زیادہ نہ ہو، اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو تو جائز نہیں، اور دفن کے بعد نعش کھود کر لے جانا تو ہر حالت میں نا جائز ہے_,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*

              *☞_قبر میں جنازہ اتارنا :-*
*✧_ جنازہ کو پہلے قبلہ کی سمت قبر کے کنارے اس طرح رکھیں کہ قبلہ میت کے دائیں طرف ہو، پھر اتار نے والے قبلہ رو کھڑے ہو کر میت کو احتیاط سے اٹھا کر قبر میں رکھ دیں۔*
*"_ قبر میں رکھتے وقت "بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله" کہنا مستحب ہے۔*

*✧⇝مسئلہ: - قبر میں اتار نے والوں کا طاق یا جفت ہونا مسنون نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قبر مقدس میں چار آدمیوں نے اتارا تھا_,"*

*®_( بهشتی گومر و زاد المعاد)* 

*✧⇝" قبر میں میت کو اتارتے وقت یا دفن کے بعد اذان کہنا بدعت ہے_,"* 
*(بہشتی گوہر )*

*✧⇝" میت کو قبر میں رکھ کر داہنے پہلو پر اس کو قبلہ رو کر دینا مسنون ہے، صرف منہ قبلہ کی طرف کر دینا کافی نہیں بلکہ پورے بدن کو اچھی طرح کروٹ دے دینا چاہئے_,"*
*®_(بہشتی گومر و اصلاح انقلاب أمت)*

*✧⇝" قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی وہ گرہ جو کفن کھل جانے کے خوف سے دی گئی تھی ، کھول دی جاۓ _,"*

*✧⇝" عورت کو قبر میں رکھتے وقت پردہ کر کے رکھنا مستحب ہے، اور اگر میت کے بدن کے ظاہر ہو جانے کا خوف ہو تو پھر پردہ کرنا واجب ہے_,"*

*✧⇝"_مردوں کے دفن کے وقت قبر پر پردہ کرنا نہ چاہئے ، ہاں! اگر عذر ہو مثلاً پانی برس رہا ہو یا برف گر رہی ہو یا دھوپ ہو تو پھر جائز ہے_,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ جب میت کو قبر میں رکھ دیں تو قبر اگر بغلی (لحد ) ہے تو اسے کچی اینٹوں اور نرکل وغیرہ سے بند کر دیں، اور اگر قبر صندوقی یعنی شق ہے تو اس کے اوپر لکڑی کے تختے یا سیمنٹ کے سلیب رکھ کر بند کر دیا جاۓ،*
*✧⇝"_ تختوں وغیرہ کے درمیان جو سوراخ اور جھریاں رہ جائیں ان کو کچے ڈھیلوں، پتھروں یا گارے سے بند کر دیں، اس کے بعد مٹی ڈالنا شروع کر یں_,"*
*®_(بہشتی گوہر وشامی)*

*✧⇝"_ مٹی ڈالتے وقت مستحب ہے کہ سرہانے کی طرف سے ابتداء کی جاۓ اور ہر شخص تین مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر قبر میں ڈال دے اور پہلی مرتبہ ڈالتے وقت کہے: ”منها خلقنكم“ اور دوسری مرتبہ کہے: "وفيها نعيدكم" اور تیسری مرتبہ کہے: "ومنها نخرجكم تارة أخرى“۔*

*✧⇝" جس قدر مٹی اس کی قبر سے نکلی ہو وہ سب اس پر ڈال دیں، اس سے زیادہ مٹی ڈالنا مکروہ ہے، جبکہ بہت زیادہ ہو کہ قبر ایک بالشت سے بہت زیادہ اونچی ہو جاۓ ، اور اگر باہر کی مٹی تھوڑی سی ہو تو مکروہ نہیں ۔ ( بہشتی گوہر )*

*✧⇝" قبر کا مربع (چوکور ) بنانا مکروہ ہے، مستحب یہ ہے کہ اٹھی ہوئی مثل کوہان شتر (اونٹ کے کوہان ) کے بنائی جاۓ ، اس کی بلندی ایک بالشت یا اس سے کچھ زیادہ ہونا چاہئے_,"*
*"مٹی ڈال چکنے کے بعد قبر پر پانی چھٹرک دینا مستحب ہے ،*
*®_(بہشتی گوہر )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞_ دفن کے متفرق مسائل :-*

*✧⇝"- اگر میت کو قبر میں قبلہ رو کرنا یاد نہ رہے اور بعد دفن کرنے اور مٹی ڈالنے کے خیال آۓ تو پھر قبلہ رو کرنے کے لئے اس کی قبر کھولنا جائز نہیں ، ہاں! اگر صرف تختے رکھے گئے ہوں مٹی نہ ڈالی گئی ہو، تو تختے ہٹا کر اس کو قبلہ رو کردینا چاہئے _,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ اگر کوئی شخص پانی کے جہاز یا کشتی پر مر جاۓ اور زمین وہاں سے اس قدر دور ہو کہ لاش کے خراب ہو جانے کا خوف ہو تو اس وقت چاہئے کہ غسل اور تکفین اور نماز سے فراغت کر کے اس کے ساتھ کوئی وزنی چیز پتھر یا لوہا وغیرہ باندھ کر اس کو دریا میں ڈال دیں_,"*
*"_ اور اگر کنارہ اس قدر دور نہ ہو اور وہاں جلدی اترنے کی امید ہو تو اس لاش کو رکھ چھوڑیں اور پہنچ کر زمین میں دفن کر دیں_,"*
*®_ (بہشتی گوہر و عالمگیری)*

*✧⇝"_ جب قبر میں مٹی پڑ چکے تو اس کے بعد میت کا قبر سے نکالنا جائز نہیں ، ہاں! اگر کسی آدمی کی حق تلفی ہوتی ہو تو البتہ نکالنا جائز ہے۔*
*"_مثال 1: - جس زمین میں اس کو دفن کیا ہے وہ کسی دوسرے کی ملک ہو اور وہ اس کے دفن پر راضی نہ ہو۔*.
*"_ مثال ۲: - کسی شخص کا مال قبر میں رہ گیا ہو_,"*

*✧⇝"_ اگر کوئی عورت مر جاۓ اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اس کا پیٹ چاک کر کے وہ بچہ نکال لیا جاۓ ، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کا مال نگل کر مرجاۓ اور مال والا مانگے تو وہ مال اس کا پیٹ چاک کر کے نکال لیا جاۓ ، لیکن اگر میت مال چھوڑ کر مرا ہے تو اس کے ترکہ میں سے وہ مال ادا کر دیا جاۓ اور پیٹ چاک نہ کیا جاۓ_,"*
*®_(بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ ایک قبر میں ایک سے زیادہ لاشوں کو دفن نہیں کرنا چاہئے ، البتہ شدید ضرورت کے وقت جائز ہے، پھر اگر سب مردے مرد ہوں تو جو ان سب میں افضل ہو اس کو آگے ( قبلہ کی طرف) رکھیں، باقی سب کو اس کے پیچھے درجہ بدرجہ رکھ دیں,*
*✧⇝_ اور اگر کچھ مرد ہوں، کچھ عورتیں اور کچھ بچے تو مردوں کو آگے رکھیں ، پھر بچوں کو، پھر عورتوں کو رکھ دیں ، اور ہر دو میت کے درمیان مٹی سے کچھ آڑ بنا دیں_,"*
*®_( بہشتی گوہر و عالمگیری)* 

          *╂───────────╂*
                    *╠☞ _ تدفین کے بعد :-*

*✧⇝"میت کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس قبر کے پاس کھڑے ہوکر میت کے لئے منکر نکیر کے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا خود بھی فرماتے اور دوسروں کو بھی تلقین فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو۔*
*®_(زاد المعاد)*

*✧⇝"_ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ اتنی دیر ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم ہوسکتا ہے (عالمگیری ج:1 ص:۱۲۶)*
*"_ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اونٹ ذبح کیا جاۓ اور گوشت تقسیم کیا جائے ، بلکہ صرف وقت کی مقدار بتانا مقصود ہے کہ جتنا وقت ان دونوں کاموں میں صرف ہوتا ہے اتنی دیر ٹھہر نا چاہئے ،*

*✧⇝"- دفن کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرنا یا قرآن شریف پڑھ کر ثواب پہنچانا مستحب ہے۔*
*®_( شامی و بہشتی گوہر )*

*✧⇝" دفن کے بعد قبر کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات "مفلحون" تک اور پاؤ کی طرف سورۂ بقرہ کی آخری آیات "أمن الرسول" سے ختم سورۃ تک پڑھنا مستحب ہے ۔*
*®_ (بیہقی شعب الایمان، معارف الحدیث ج:۳ ص:۴۸۵)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ قبر پر کتبہ وغیرہ لگانا, عمارت بنانا,قبر پر چلنا پھرنا اور خلاف سنت کام ۔ :-*

*✧⇝ قبر پر کوئی چیز (نام وغیرہ) بطور یادداشت لکھنا بعض علماء کے نزدیک جائز نہیں، اور بعض علماء نے ضرورت ہو تو اس کی اجازت دی ہے، لیکن قبر پر یا اس کے کتبہ پر قرآن شریف کی آیت لکھنا یا شعر یا مبالغہ آمیز تعریف لکھنا مکروہ ہے۔* *®_(شامی)*

*✧⇝ قبر پر کوئی عمارت مثل گنبد یا قبہ بنانا بغرض زینت حرام ہے، اور مضبوطی کی نیت سے بنانا مکروہ ہے۔*
*®_( بہشتی گوہر )*

*✧⇝ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ بھی ہے کہ قبروں پر چلنے، بیٹھنے اور ٹیک لگانے سے پر ہیز کیا جاۓ۔*
 *®_(زاد المعاد)*

*✧⇝_وہ کام جو خلاف سنت ہیں:-*
*"_ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں کہ قبروں کو ( بہت زیادہ) اونچا کیا جاۓ ، نہ پکی اینٹوں اور پتھروں سے ، نہ کچی اینٹوں سے، اور نہ قبروں کو پختہ کرنا سنت میں داخل ہے، اور نہ ان پر قبے بنانا۔*

*✧⇝ قبروں پر چراغ جلانے اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔*
*®_(زاد المعاد)*

*✧⇝- قبر بیٹھ جاۓ تو اس پر دوبارہ مٹی ڈالنا جائز ہے۔*
*®_(امداد الفتاوی ص:۵۲۵)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ موت پر صبر اور اس کا اجر وثواب:-*

*✧⇝"_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: جب میں کسی ایمان والے بندے ( یا بندی) کے کسی پیارے کو اٹھالوں، پھر وہ ثواب کی امید میں صبر کرے تو میرے پاس اس کے لئے جنت کے سوا کوئی معاوضہ نہیں _,"*
*®_(صحیح بخاری ، معارف الحدیث )*

*✧⇝_ میت کا سوگ منانا:-*

*✧⇝"_نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ کسی مؤمن کے لئے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ مناۓ ، سواۓ بیوہ کے کہ ( شوہر کی موت پر ) اس کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے_,"*
*®_( ترمذی ، و بخاری )*

*✧⇝"_یہاں سوگ سے مراد زیب و زینت کو چھوڑ دینا ہے، یعنی بیوہ کو اپنے شوہر کی وفات کے بعد عدت میں چار مہینے دس دن تک سوگ کرنا ( زیب و زینت کو چھوڑ دینا ) تو ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی شخص کو کسی موقع پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔*

*✧⇝"_ سنت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلوں پر راضی رہیں ، اللہ کی حمد و ثناء کریں ، اور ( جب بھی غم یاد آۓ ) "إنا لله وإنا إليه راجعون“ پڑھا کریں ، اور مصیبت کے باعث کپڑے پھاڑ نے والوں ، بلند آواز سے بین اور نوحہ و ماتم کرنے والوں اور بال منڈانے والوں سے بیزاری کا اظہار کر یں۔ (زادالمعاد )*

          *╂───────────╂*
*╠☞_میت اور پسماندگان کے ساتھ حسن سلوک:-*

*✧⇝"_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میت کے ساتھ ایسا احسان اور معاملہ فرماتے تھے جو اس کے لئے قبر اور آخرت میں سودمند ہو، اور اس کے گھر والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک فرماتے ، میت کے لئے استغفار فرماتے ، اور نماز جنازہ کے بعد مدفن تک جنازہ کے ساتھ جاتے ، اور قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے لئے کلمہ ایمان پر ثابت قدم رہنے کی دعا فرماتے، پھر اس کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جایا کرتے، اور صاحب قبر کو سلام کرتے اور اس کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے_,"*
*® (مدارج النبوة )*

*✧⇝"_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جس شخص نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت (تسلی ) کی اس کے لئے ایسا ہی اجر وثواب ہے جیسا اس مصیبت زدہ کے لئے_,"*.
 *®_( جامع ترمذی، ابن ماجہ، معارف الحدیث )*

 *✧⇝"_جس گھر میں غمی ہو، ان کے یہاں تیسرے دن تک ایک بار تعزیت کے لئے جانا مستحب ہے، میت کے متعلقین کو تسکین تسلی دینا اور صبر کے فضائل اور اس کا عظیم الشان اجر و ثواب سنا کر ان کو صبر کی رغبت دلانا اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرنا جائز ( بلکہ بڑا نیک کام ہے)، اسی کو تعزیت کہتے ہیں ، تین دن کے بعد تعزیت کرنا مکروہ تنزیہی ہے ،*

*✧⇝"_ لیکن اگر تعزیت کرنے والا سفر میں ہو یا میت کے عزیز و اقارب ( جن کے پاس تعزیت کے لئے جانا چاہئے وہ) سفر میں ہوں اور تین دن کے بعد آئیں تو اس صورت میں تین دن کے بعد بھی تعزیت کو جانا مکروہ نہیں_,"*
*®_ (بہشتی گوہر )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _اہل میت کے لئے کھانا بھیجنا مستحب ہے:-*

*✧⇝"_حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ جب (ان کے والد ماجد) حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کیا جاۓ ، وہ اس اطلاع کی وجہ سے ایسے حال میں ہیں کہ کھانا تیار کرنے کی طرف توجہ نہ کرسکیں گے_,"*
*®_ ( جامع ترمذی، ابن ماجہ، معارف الحدیث )*

 *✧⇝"_آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ یہ بھی تھی کہ میت کے اہل خانہ تعزیت کے لئے آنے والوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام نہ کریں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دوسرے لوگ ( دوست اور عزیز ) ان کے لئے کھانا تیار کر کے انہیں بھیجیں، یہ چیز اخلاق حسنہ کا ایک نمونہ ہے اور پسماندگان کو سبکدوش کرنے والا عمل ہے_,"*
*®_ (زادالمعاد )*

*✧⇝مسئلہ: - اہل میت کے پڑوسیوں اور دور کے رشتہ داروں کے لئے مستحب ہے کہ وہ ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کر کے میت والوں کے یہاں بھیجیں ، اور اگر وہ غم کی وجہ سے نہ کھاتے ہوں تو اصرار کر کے انہیں کھلائیں_,"*
*®_(درمختار و شامی ج:1 ص:۸۴۱)*

*✧⇝مسئلہ: - جولوگ میت کی تجہیز و تکفین اور دفن کے کاموں میں مصروف ہوں ان کو بھی یہ کھانا کھلا نا جائز ہے۔* *®_(مدارج النبوة ج:1 ص:۷۱۰ )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ "_اہل میت کی طرف سے دعوت طعام بدعت ہے:-*

*✧⇝"_ آج کل بعض ناواقف لوگوں میں جو رسم ہے کہ تعزیت کے لئے آنے والوں کے واسطے میت کے گھر والے کھانا پکواتے ہیں اور ان کی دعوت کرتے ہیں، یہ سنت کے خلاف ہونے کے باعث ناجائز ہے اور بدعت ہے، کیونکہ دعوت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے ، غمی پر نہیں_,"*

*✧⇝"_ آنے والوں کو بھی چاہئے کہ اگر وہ اہل میت کے واسطے کھانا نہیں بھیجتے تو کم از کم ان پر اپنا بوجھ تو نہ ڈالیں_,"*
*®_ (شامی ج:1 ص: ۸۴۲ ،۸۴۱)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _زیارت قبور:-1,*

*✧⇝"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کیا تھا (اب اجازت دیتا ہوں کہ) تم قبروں کی زیارت کرلیا کرو، کیونکہ (اس کا فائدہ یہ ہے کہ ) اس سے دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر پیدا ہوتی ہے_," (سنن ابن ماجہ، معارف الحدیث )*

*✧⇝"قبروں کی زیارت کرنا، یعنی ان کو جاکر دیکھنا مردوں کے لئے مستحب ہے، بہتر یہ ہے کہ ہر ہفتہ میں کم از کم ایک بار قبروں کی زیارت کی جاۓ ، اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ دن جمعہ کا ہو۔ ( بہشتی گوہر )*

*✧_ بزرگوں کی قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا بھی جائز ہے، جبکہ کوئی عقیدہ اور عمل خلاف شرع نہ ہو، جیسا کہ آج کل عرسوں میں مفاسد ہوتے ہیں۔ (بہشتی گوہر )*

*✧⇝"کبھی کبھی شب براءت میں بھی قبرستان جانا اور اہل قبور کے لئے دعاۓ مغفرت کرنا سنت سے ثابت ہے، جب قبرستان میں داخل ہوں تو وہاں کے سب اہل قبور کی نیت کر کے ان کو ایک بار سلام کرنا چاہئے،*

*✧⇝"حدیث شریف میں ہے کہ: جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے (مسلمان) کی قبر پر گزرتا اور اس کو سلام کرتا ہے، وہ میت اس کو پہچان لیتا ہے اور اس کو سلام کا جواب دیتا ہے (اگر چہ اس جواب کو سلام کرنے والا نہیں سنتا ) ۔ (بہشتی جوہر بحوالہ کنز العمال)*

*✧⇝ اہل قبور کو سلام ان الفاظ میں کرنا چاہئے : السلام عليكم يا أهل القبور، يغفر الله لنا ولكم انتم سلفنا ونحن بالاثر.*
*"_ ترجمہ:- سلام ہو تم پر اے قبر والو! اللہ تعالی ہماری اور تمہاری مغفرت فرماۓ ، تم ہم سے آگے جانے والے ہو اور ہم پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔*

*✧⇝_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی چند قبروں سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انہی الفاظ میں سلام فرمایا تھا۔*
*®_( جامع ترمذی، معارف الحدیث )*

*✧⇝_ سلام کے بعد قبلہ کی طرف پشت کر کے اور میت (قبر) کی جانب منہ کر کے جتنا ہو سکے قرآن شریف پڑھ کر میت کو ثواب پہنچا دیں ، مثلاً سورۂ فاتحہ، سورۂ پس ، سورة تبارك الذي سورة التكاثر يا سوره قل هو الله أحد، گیارہ بار یا سات بار یا جس قدر آسانی سے پڑھا جا سکے، پڑھ کر دعا کریں کہ یا اللہ! اس کا ثواب صاحب قبر کو پہنچا دے۔*
*®_(مرقاۃ شرح مشکوة ج:۴ ص: ۱۱۵، مراقی الفلاح ص:۳۴۱)*

*✧⇝_ میت کے لئے دعائے مغفرت بھی کرنی چاہئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبروں کی زیارت اس لئے ( بھی ) فرماتے تھے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔*
*®_(مدارج النبوة )*

 
          *╂───────────╂*
*╠☞ _عورتوں کا قبرستان جانا:-*

*✧⇝"_عورتوں کا قبرستان جانا بعض فقہاء کرام کے نزدیک تو بالکل ناجائز ہے،*

*✧⇝"_ لیکن فتویٰ اس پر ہے کہ جوان عورت کو تو جانا جائز ہی نہیں، اور بوڑھی عورت کو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ پردہ کے ساتھ جاۓ ، بن سنور کر یا خوشبو لگا کر نہ جاۓ ، اور اس بات کا یقین ہو کہ کوئی کام خلاف شریعت نہ کرے گی ، مثلا رونا پیٹنا ، اہل قبور سے حاجتیں مانگنا، اور دوسری ناجائز باتیں اور بدعتیں جو قبروں پر کی جاتی ہیں، ان سب سے پر ہیز کیا جاۓ۔*

*✧⇝"_ (مثلاً - طواف کرنا، چومنا، سجدہ کرنا، رکوع کی حالت میں کھڑے ہونا، منت کے لیے دھاگہ یا جھولا باندھ نا، منت ماننا، یہ تمام امور ناجائز اور حرام ہے) _,"*

*✧⇝"_ایک حدیث شریف میں قبرستان جانے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت مذکور ہے، فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جو عورتیں مذکورہ بالا شرطوں کی پابندی کے بغیر قبرستان جاتی ہوں وہ اس لعنت کی زد میں ہیں,*
*®_(شامی ج:1 ص:۸۴۳، امداد الفتاوی ج:۱ ص:۵۲۰ ، امداد الاحکام ج:۱ ص:۷۲۰)*


          *╂───────────╂*
*╠☞_ ایصال ثواب کا مسنون طریقہ:-*

*✧⇝اس کی حقیقت شرع میں فقط اتنی ہے کہ کسی نے کوئی نیک کام کیا، اس پر اس کو جو کچھ ثواب ملا اس نے اپنی طرف سے وہ ثواب کسی دوسرے کو دے دیا ( خواہ مردہ ہو یا زندہ )، وہ اس طرح کہ یا اللہ ! میرے اس عمل کا ثواب جو آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ فلاں شخص کو دے دیجئے اور پہنچا دیجئے ،*

*✧⇝ مثلا کسی نے خدا کی راہ میں کچھ کھانا یا مٹھائی یا کوئی نقد رقم یا کپڑا وغیرہ دیا یا نفل نمازیں پڑھیں نفل روزے رکھے یا نفل حج یا عمرے کئے یا کلام پاک کی تلاوت کی، تسبیحات، کلمۂ طیبہ وغیرہ پڑھا یا مستقل خیرات جاریہ قائم کیں، مثلاً تعمیر مساجد، دینی مدارس یا دینی و مذہبی کتابوں کی اشاعت فی سبیل اللہ کی،*
*"_ اس کے بعد اللہ تعالی سے دعا کی کہ جو کچھ اس کا ثواب مجھے ملا ہے وہ تو اب فلاں شخص کو پہنچا دیجئے،*

*✧⇝خواہ اس قسم کا نیک کام آج کیا ہو یا اس سے پہلے عمر بھر میں کبھی کیا تھا، دونوں کا ثواب پہنچ جاتا ہے، بس اس قدر شرع سے ثابت ہے۔*
*®_( شامی و بہشتی زیور )*

*✧⇝ایصال ثواب کے لئے شرعاً نہ کوئی خاص وقت یا دن مقرر ہے کہ اس کے علاوہ ایصال ثواب نہ ہوسکتا ہو، نہ کوئی خاص جگہ مقرر ہے، نہ کوئی خاص عبادت، نہ یہ ضروری ہے کہ ایصال ثواب کے لئے آدمی جمع ہوں یا کھانے کی کوئی چیز مٹھائی وغیرہ سامنے رکھی جائے یا اس پر دم کیا جائے یا کسی عالم دین یا حافظ قاری کو ضرور بلایا جاۓ، نہ ہی ضروری ہے کہ پورا قرآن ختم کیا جاۓ یا کوئی خاص سورۃ یا دعا کسی مخصوص تعداد میں پڑھی جاۓ,*

*✧⇝ لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کر کے یہ رسمیں اور پابندیاں بڑھالی ہیں، ورنہ شریعت نے ایصال ثواب کو اتنا آسان بنایا ہے کہ جو شخص جس وقت، جس دن چاہے کوئی سی بھی نفلی عبادت کر کے اس کا ثواب میت کو پہنچا سکتا ہے۔* 

*✧⇝اگر کسی عبادت کا ثواب کئی اشخاص کو مشترک طور پر بخشا، مثلاً ایک روپیہ صدقہ کیا اور اس کا ثواب دس مردوں کو بخش دیا، تو آیا ہر میت کو پورے ایک ایک روپیہ کا ثواب ملے گا یا ایک ہی روپیہ کا ثواب سب مردوں میں تھوڑا تھوڑا تقسیم ہوگا ؟*
*"" اس کی قرآن وسنت میں تو کوئی صراحت نہیں ملتی ، احتمال دونوں ہیں، لیکن فقہاء کی ایک جماعت نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے اور اللہ تعالی کی وسعت رحمت کے زیادہ لائق بھی یہی ہے۔*
*®_(شامی ج:1 ص:۸۴۵)* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ایصال ثواب کا حدیث سے ثبوت:-*

*✧⇝"کسی کی موت کے بعد رحمت کی دعا کرنا، نماز جنازہ ادا کرنا یہ اعمال مسنونہ ہیں، ان کے ساتھ دوسرا طریقہ میت کی نفع رسانی کا یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جاۓ یا کوئی عمل خیر کر کے اس کا ثواب میت کو پہنچا دیا جاۓ ، اس کو ایصال ثواب کہا جا تا ہے،*

*✧⇝"_ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے، ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تشریف لے گئے تھے، جب واپس آۓ ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا:- یا رسول اللہ ! میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا وہ ان کے لئے فائدہ مند ہوگا ؟ ( اور ان کو اس کا ثواب پہنچے گا؟)۔*
*"_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پہنچے گا، انہوں نے عرض کیا: تو میں آپ کو گواہ بنا تا ہوں کہ اپنا باغ میں نے اپنی والدہ (کے ثواب) کے لئے صدقہ کر دیا۔*

*®_ (صحیح بخاری، معارف الحدیث )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ اسقاط حمل کے مسائل-١,*

*✧⇝1-حمل میں صرف گوشت کا ٹکڑا گرے :- اگر حمل گر جاۓ اور اس کے ہاتھ پاؤں، ناک منہ وغیرہ عضو کچھ نہ بنے ہوں تو اس کو غسل نہ دیا جاۓ ، نہ کفن دیا جاۓ ، نہ نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ با قاعدہ اس کو دفن کیا جاۓ ، بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر ویسے ہی گڑھا کھود کر زمین میں دبا دیا جاۓ اور اس کا نام بھی نہ رکھا جاۓ ۔ (شامی ج:۱ ص:۸۰۹)*

*✧⇝2: -حمل میں کچھ اعضاء بن گئے ہوں:- اگر حمل گر جائے اور اس کے کچھ عضو بن گئے ہوں ، پورے اعضاء نہ بنے ہوں تو اس کا نام رکھا جاۓ اور غسل بھی دیا جاۓ ،لیکن با قاعدہ کفن نہ دیا جاۓ ، بلکہ یونہی ایک کپڑے میں لپیٹ دیا جاۓ اور جنازہ کی نماز بھی نہ پڑھی جاۓ، بغیر نماز پڑھے یونہی دفن کر دیا جائے ۔ (شامی ج:۱ ص:۸۳۱،۸۳۰ و بہشتی زیور )*

*✧⇝3: - مردہ بچہ پیدا ہونے کا حکم اسقاط حمل میں یا معمول کے مطابق ولادت میں مرا ہوا بچہ پیدا ہو اور پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہو، اگر چہ اعضاء سب بن چکے ہوں تو ایسے بچہ کا وہی حکم ہے جو پچھلے مسئلہ میں بیان ہوا کہ اس کو غسل بھی دیا جاۓ اور نام بھی رکھا جاۓ ، لیکن با قاعدہ کفن نہ دیا جاۓ اور نہ جنازہ کی نماز پڑھی جاۓ ، بلکہ یونہی کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ، (شامی ج:1 ص:۸۳۰)*


*✧⇝4- پیدائش کے شروع میں بچہ زندہ تھا پھر مر گیا:- ولادت کے وقت بچہ کا فقط سر نکلا ، اس وقت وہ زندہ تھا، پھر مر گیا ، تو اس کا حکم وہی ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا اوپر بیان ہوا کہ اس کو غسل دیا جاۓ ، نام رکھا جاۓ ، لیکن قاعدہ کے موافق کفن نہ دیا جاۓ ، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ دیا جاۓ اور بغیر نماز جنازہ پڑھے یونہی دفن کر دیا جائے ۔(شامی ص:۸۳۰،۸۲۹)*

*✧⇝5: - بدن کا اکثر حصہ نکلنے تک بچہ زندہ تھا:- ولادت کے وقت بدن کا اکثر حصہ نکلنے تک بچہ زندہ تھا، اس کے بعد مر گیا، اس کا حکم زندہ بچہ پیدا ہونے کی طرح ہے، اس کو با قاعدہ غسل دیا جائے ، کفن دیا جاۓ ، بہتر یہ ہے کہ لڑکا ہو تو مردوں کی طرح ، لڑکی ہو تو عورتوں کی طرح کفن دیا جاۓ ،لیکن لڑکے کو صرف ایک اور لڑکی کو صرف دو کپڑے دینا بھی درست ہے،*
 *"_اور اس کا نام بھی رکھا جاۓ اور جنازہ کی نماز پڑھ کر با قاعدہ دفن کیا جاۓ۔ (شامی)*

*✧⇝اور اگر بچہ اکثر حصہ بدن نکلنے سے پہلے مرگیا تو وہ حکم ہوگا جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا پیچھے بیان ہوا۔*
*"_اور اکثر حصہ بدن نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بچہ سر کی طرف سے پیدا ہوا تو سینہ تک نکلنے سے اکثر حصہ نکلنا سمجھیں گے، اور اگر الٹا پیدا ہوا تو ناف تک زندہ نکلنے سے اکثر حصہ نکلنا سمجھیں گے۔ (شامی ج:۱ ص:۸۳۰،۸۲۹)*

*✧⇝۲: - مردہ عورت کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو کیا حکم ہے؟ اگر کسی عورت کا حمل کی حالت میں انتقال ہوجاۓ اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو عورت کا پیٹ چاک کر کے بچہ نکال لیا جاۓ۔ (درمختار ج:۱ ص: ۸۴۰)*
*"_ پھر اگر زندہ نکلنے کے بعد یہ بچہ بھی مرجاۓ تو سب بچوں کی طرح اس کا نام رکھا جاۓ غسل و کفن دیا جاۓ اور جنازہ کی نماز پڑھ کر دفن کیا جاۓ ، اور اگر حمل میں جان ہی نہ پڑی ہو یا جان پڑ گئی ہو لیکن باہر نکالنے سے پہلے وہ بھی مر گیا، تو اب عورت کا پیٹ چاک کر کے بچہ نہ نکالا جاۓ ،لیکن اگر نکال لیا تو اس کا وہی حکم ہوگا جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا ہے۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞متفرق مسائل -1,*

*✧⇝1: جوشخص پانی میں ڈوب کر مر گیا ہو:- اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب کر مرجاۓ تو نکالنے کے بعد اس کو غسل دینا فرض ہے، پانی میں ڈوبنا غسل کے لئے کافی نہیں، کیونکہ میت کو غسل دینا زندوں پر فرض ہے، اور ڈوبنے میں زندوں کا کوئی عمل نہیں ہوا، البتہ اگر پانی سے نکالتے وقت غسل کی نیت سے میت کو پانی میں حرکت دے دی جاۓ تو غسل ادا ہو جاۓ گا_,"(البحر الرائق )*

*✧⇝"_ اس کے بعد میت کو با قاعدہ کفن دے کر نماز جنازہ پڑھ کر سنت کے مطابق دفن کریں ، لیکن اگر اسے باغیوں ، ڈاکہ زنوں یا غیر مسلم ملک کے کافروں نے ڈبودیا ہو اور اس میں شہید کی قسم اول کی وہ سب شرطیں موجود ہوں تو اس پر شہید کے احکام جاری ہوں گے،*

*✧⇝2: - جو لاش پھول گئی ہو :- کسی کی لاش پانی میں ڈوبنے یا تجہیز وتکفین میں تاخیر یا کسی اور وجہ سے اگر اتنی پھول جاۓ کہ ہاتھ لگانے کے بھی قابل نہ رہے، یعنی غسل کے لئے ہاتھ لگانے سے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں لاش پر صرف پانی بہا دینا کافی ہے، کیونکہ غسل میں ملنا وغیرہ ضروری نہیں ہے، اور پھر باقاعدہ کفتا کر نماز جنازہ کے بعد فن کرنا چاہئے ،لیکن اگر نماز سے قبل لاش پھٹ جاۓ تو نماز پڑھے بغیر ہی دفن کر دیا جاۓ۔ (عالمگیری، بحر، امداد الاحکام)* 

*✧⇝3:۔ جس لاش میں بدبو پیدا ہوگئی ہو:- جس لاش میں بدبو پیدا ہوگئی ہو مگر پھٹی نہ ہو اس کی نماز پڑھی جائے گی۔ (فتاوی دارالعلوم مدلل ج:۵ ص:۳۳۵)*

*✧⇝"اور جو لاش پھول کر پھٹ گئی ہو، اس کی جنازہ کی نماز ساقط ہے، اس کی نماز نہ پڑھی جاۓ ۔ (بحر و امداد الاحکام)*

*✧⇝_4:- صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ برآمد ہو:- جس لاش کا گوشت وغیرہ سب علیحدہ ہوگیا اور اس کی صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ برآمد ہوا تو اس ڈھانچہ کو غسل دینے کی ضرورت نہیں، اس پر نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جاۓ، بلکہ ویسے ہی کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے۔ (امداد الاحکام ج:1 ص:۷۳۸)*

*✧⇝5: - جو شخص جل کر مرگیا ہو :- جو شخص آگ یا بجلی وغیرہ سے جل کر مر جاۓ اسے با قاعدہ غسل و کفن دے کر اور نماز جنازہ پڑھ کر سنت کے مطابق دفن کیا جاۓ ، اور اگر لاش پھول یا پھٹ گئی ہو تو اس کا حکم پہلے بیان ہو چکا ہے۔ (درمختار، بحر، امداد الاحکام)*

*✧⇝"_ لیکن جس شخص کو باغیوں، ڈاکہ زنوں یا غیر مسلم ممالک کے کافروں نے جلا کر مارا ہو یا وہ معرکہ جنگ میں مرا ہوا پایا جاۓ اور اس میں شہید کی قسم اول کی سب شرائط موجود ہوں تو اس پر شہید کے احکام جاری ہوں گے،*

*✧_6 - جل کر کوئلہ ہو جانے کا حکم :- جو شخص جل کر بالکل کوئلہ بن گیا یا بدن کا اکثر حصہ جل کر خاکستر ہو گیا تو اس کو غسل و کفن دینا اور جنازہ کی نماز پڑھنا کچھ واجب نہیں ہے، یونہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دینا چاہئے ۔ (عالمگیری و فتاوی دارالعلوم ج:۱ ص: ۳۴۵)*

*✧⇝7_ اور اگر بدن کا اکثر حصہ جلنے سے محفوظ ہو، اگر چہ سر کے بغیر ہو یا آدھا بدن مع سر کے محفوظ ہو یا پورا جسم جلا ہو مگر معمولی جلا ہو، گوشت پوست اور ہڈیاں سالم ہوں تو اس کو با قاعدہ غسل و کفن دے کر اور جنازہ کی نماز پڑھ کر دفن کرنا چاہئے ۔ (عالمگیری و شامی ج:۱ ص:۸۰۹)*

*✧⇝_8 - دب کر یا گر کر مرنے والے کا حکم:- جو شخص کسی دیوار یا عمارت کے نیچے دب کر مر جائے یا کسی بلند جگہ سے نیچے گرے یا فضائی حادثہ کا شکار ہوکر ہلاک ہو جاۓ ، اور بدن کا اکثر حصہ محفوظ ہو تو اس کو با قاعدہ غسل وکفن دے کر اور جنازہ کی نماز پڑھ کر دفن کرنا چاہئے ، لیکن اگر یہ حادثہ دشمن غیر مسلموں یا باغیوں یا ڈاکوؤں کی کاروائی سے ہوا ہو تو اس میں مرنے والوں پر شہید کے احکام جاری ہوں گے، جن کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (درمختار- ۱۵)،*

*✧⇝"_9:- عام حادثات کا شکار ہونے والوں کا حکم:- موٹر سائیکلوں، ریل گاڑیوں اور دیگر سواریوں کے تصادم سے ہلاک شدگان کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر کے مسئلہ (8) میں بیان ہوا_," (درمختار- ۱۵)،*


*✧⇝"_ 10: - جو لاش کنویں یا ملبہ سے نہ نکالی جا سکے:- اگر کوئی شخص کنویں وغیرہ میں گر کر یا کسی عمارت وغیرہ کے ملبہ میں دب کر مرگیا اور وہاں سے لاش نکالنا ممکن نہ ہو تو مجبوری کے باعث اس کا غسل و کفن معاف ہے، اور جہاں لاش ڈوبی یا دبی رہ گئی ہو اسی جگہ کو اس کی قبر سمجھا جاۓ گا اور اسی حالت میں اس پر نماز جنازہ پڑھی جاۓ گی_,"*
*®_ (شامی ج:1 ص: ۸۲۷)*

*✧⇝11- جو لاش سمندر وغیرہ میں لا پتہ ہوجاۓ :- کوئی شخص سمندر میں ڈوب کر مر گیا اور لاش کا پتہ نہ چلے یا کسی اور طریقہ سے مرا ہو اور لاش گم یا لاپتہ ہو گئی ہو تو ایسی صورت میں غسل و کفن، نماز جنازہ اور تدفین سب معاف ہیں، اس کی نماز جنازہ غائبانہ بھی نہ پڑھی جاۓ ، کیونکہ نماز جنازہ درست ہونے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت سامنے موجود ہو_,"*
*®_ (شامی ج:1 ص:۸۲۷)*

*✧⇝12: - خودکشی کرنے والے کا حکم:- جو شخص اپنے آپ کو غلطی سے یا جان بوجھ کر ہلاک کر دے تو اس کو با قاعدہ غسل و کفن دے کر اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جاۓ_,"*
*®_ (در مختار وشامی ج:1 ص: ۸۱۵)*

 

*✧⇝"_13: - مسلمانوں اور غیر مسلموں کی لاشیں خلط ملط ہوجائیں اور پہچانی نہ جا سکیں:- کسی حادثہ میں اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی لاشیں خلط ملط ہو جائیں تو اگر مسلمان کسی بھی علامت (ختنہ وغیرہ) سے پہچانے جا سکیں تو ان کو الگ کرلیا جاۓ ، اور ان کا غسل ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ سب کام مسلمانوں کی طرح کئے جائیں ، اور غیر مسلموں کی لاشوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جاۓ جو غیر مسلموں کے ساتھ کیا جاتا ہے، (بہشتی گوہر و شامی ج:۱ ص:۸۰۵ و عالمگیری ج:۱ ص:۱۵۹)*

*✧⇝"_اور اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کسی طرح امتیاز نہ ہو سکے اور کسی علامت سے پتہ نہ چلے کہ کون سی لاشیں مسلمانوں کی اور کون سی غیر مسلموں کی ہیں تو اس کی مندرجہ ذیل تین صورتیں ہیں:-*
*✧⇝ا:- اگر مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو سب لاشوں کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاۓ جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جا تا ہے، یعنی سب کو با قاعدہ غسل وکفن دے کر نماز جنازہ کے بعد مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاۓ، لیکن جنازہ کی نماز میں صرف مسلمانوں پر نماز پڑھنے کی نیت کی جاۓ ، غیر مسلموں پر نماز جنازہ کی نیت کرنا جائز نہیں۔ ( شامی ج:1 ص: ۸۰۵، عالمگیری ج:۱ ص:۱۵۹)*

*✧⇝۲:- اور اگر لاشیں غیر مسلموں کی زیادہ اور مسلمانوں کی کم ہوں تو سب لاشوں کو غسل و کفن دیا جائے اور ان پر نماز جنازہ بھی صرف مسلمانوں کی نیت سے پڑھی جاۓ اور اس کے بعد سب کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کر دیا جاۓ ۔ (شامی، در مختار ج:۱ ص:۸۰۵)*
*"_فتاوی عالمگیری میں ہے کہ یہ نسل و کفن مسلمانوں کی طرح باقاعدہ نہیں ہوگا ( بلکہ یونہی پانی سے لاشوں کو دھوکر ایک ایک کپڑے میں لپیٹ دیا جاۓ)۔ (ج:۱ ص:۱۵۹)*

*✧⇝۳:- اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی لاشیں تعداد میں برابر ہوں تو سب کو غسل و کفن دے کر سب پر نماز صرف مسلمانوں کی نیت سے پڑھی جاۓ، البتہ مقام دفن میں فقہاء کے تین قول ہیں، ایک یہ کہ سب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا جاۓ، دوسرا یہ کہ سب کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کر دیا جاۓ، تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی الگ قبرستان بنادیا جاۓ، اس تیسرے قول میں احتیاط زیادہ ہے، (لیکن ان میں سے جس قول پر بھی عمل کر لیا جاۓ درست ہوگا )_,"*
*®_ در مختار ، شامی- ١/٨٠٥, ٨٠٦,*

*✧⇝"14_ جس میت کا مسلمان ہونا معلوم نہ ہو:- کسی مرد یا عورت کی لاش ملے اور کسی علامت وغیرہ سے معلوم نہ ہو کہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، تو جس علاقے سے یہ لاش ملی ہے وہاں اگر مسلمانوں کی اکثریت ہے تو اس کو مسلمان سمجھا جاۓ ، اور با قاعدہ غسل و کفن دے کر اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جاۓ، اور اگر وہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے تو اس کے ساتھ غیرمسلموں کا سا معاملہ کیا جائے ۔ ( در مختار و عالمگیری و بہشتی گوہر مع حاشیه )*

*✧⇝15: - جس میت کو غسل یا نماز جنازہ کے بغیر ہی دفن کر دیا گیا:- اگر کسی مسلمان میت کو غلطی سے غسل دیے بغیر یا نماز جنازہ پڑھے بغیر قبر میں رکھ دیا، تو اگر مٹی ڈالنے سے پہلے یاد آ جاۓ تو میت کو باہر نکال لیا جاۓ، پھر اگر غسل بھی نہیں دیا تھا تو غسل دے کر نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جاۓ، اور اگر غسل دے دیا تھا تو صرف نماز جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا جاۓ۔*
*✧⇝"_ اور اگر مٹی ڈالنے کے بعد یاد آۓ تو غسل یا نماز کے لئے اب قبر کھولنا جائز نہیں، اب حکم یہ ہے کہ جب تک گمان غالب یہ ہو کہ لاش پھٹی نہ ہوگی، قبر ہی پر نماز پڑھی جاۓ، اور قول رائج کے مطابق لاش پھٹنے کی کوئی خاص مدت مقرر نہیں، کیونکہ موسم، مقام اور میت کے موٹے ڈبلے ہونے سے یہ مدت مختلف ہوتی ہے، لہذا جب تک ظن غالب یہ ہو کہ لاش بھٹی نہ ہوگی نماز جنازہ پڑھنا فرض ہے، اور جب غالب گمان یہ ہو کہ لاش پھٹ چکی ہوگی تو اب جنازہ کی نماز نہ پڑھی جاۓ ، ایسی صورت میں قدرت کے باوجود نہ پڑھنے والے گنہگار ہوۓ، ان پر لازم ہے کہ تو بہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسی غفلت نہ کر یں۔" (درمختار)*

*✧⇝"_ اور اگر شک ہو کہ لاش پھٹی ہے یا نہیں؟ تو اس صورت میں بھی قبر پر نماز جنازہ نہ پڑھی جاۓ۔ (شامی ج:1 ص:۸۲۷)*

*☞ "_ 16:- کسی لاش کے ٹکڑے دستیاب ہوۓ:- اگر کسی کی پوری لاش دستیاب نہ ہو، جسم کے کچھ حصے دستیاب ہوں تو اس کی چند صورتیں ہیں:۔*
*✧⇝"_ صرف ہاتھ یا ٹانک یا سر یا کمر یا اور کوئی عضو ملے تو اس پر غسل وکفن اور نماز کچھ نہیں، بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر یونہی دفن کر دینا چاہئے ۔ ( شامی بہشتی گوہر ص:۹۰)*

*✧⇝"_ جس کے چند متفرق اعضاء مثلاً صرف دو ٹانگیں یا صرف دو ہاتھ یا صرف ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ یا اسی طرح دیگر چند اعضاء ملیں اور یہ متفرق اعضاء مل کر میت کے پورے جسم کے آدھے حصے سے کم ہوں، میت کا اکثر حصہ غائب ہو تو ان اعضاء پر غسل و کفن اور نماز جنازہ کچھ نہیں، یونہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ۔ (شامی و بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ اور اگر میت کے جسم کا آدھا حصہ بغیر سر کے ملے تو اس کا بھی غسل و کفن اور نماز جنازہ کچھ نہیں، یونہی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ ۔*

*✧⇝"_اور اگر میت کے جسم کا آدھا حصہ مع سر کے ملے تو اس کو با قاعدہ غسل و کفن دے کر اور جنازہ کی نماز پڑھ کر دفن کیا جاۓ ۔ (شامی و بہشتی گوہر )*

*✧⇝"_ اور اگر میت کے جسم کا اکثر حصہ مل جاۓ اگر چہ بغیر سر کے ملے تو بھی باقاعدہ غسل و کفن دی کر اور جنازہ کی نماز پڑھ کر دفن کیا جائے۔ (شامی بہشتی گوہر )*



*✧⇝"_ 17_ دفن کے بعد باقی اعضاء ملے ہوں :- کسی میت کے جسم کا اکثر حصہ ملا، اور باقی حصہ نہ ملا اور اکثر حصہ بدن پر نماز جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا، اس کے بعد جسم کا باقی حصہ ملا تو اب اس باقی حصہ پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاۓ گی، بلکہ یونہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ ۔ (عالمگیری و شامی)*

*✧⇝18: - زندگی میں جسم سے علیحدہ ہو جانے والے اعضاء کا حکم:- کسی زندہ شخص کا کوئی عضو اس کے بدن سے کٹ جاۓ یا آپریشن کے ذریعہ علیحدہ کر دیا جاۓ تو اس کا غسل و کفن اور نماز جنازہ کچھ نہیں، یونہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ ۔(در مختار و فتاوی دارالعلوم مدل )*

*✧⇝19:- قبر سے صحیح سالم لاش برآمد ہو:- کوئی قبر کھل جائے اور کسی وجہ سے لاش باہر نکل آۓ، مثلاً زلزلہ سے یا سیلاب وغیرہ سے یا کفن چور کی حرکت سے اور کفن اس پر نہ ہو تو اگر لاش پھٹ چکی ہے تو اب با قاعدہ کفن دینے کی ضرورت نہیں، یونہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جاۓ،*
*"_اور اگر لاش پھٹی نہ ہوتو اس کو پورا کفن سنت کے مطابق دینا چاہئے ، اگر ایک ہی لاش کے ساتھ یہ واقعہ بار بار پیش آۓ تو ہر مرتبہ اسے پورا کفن مسنون دیا جائے ۔ اس کفن کا پورا خرچ اسی میت کے اصل ترکہ سے لیا جاۓ گا، اگر چہ میت مقروض ہو، البتہ اگر سارا ترکہ قرض خواہوں میں تقسیم ہو چکا ہو یا کسی اور مد میں میت کی وصیت کے مطابق تقسیم ہو گیا ہو تو قرض خواہوں سے اور وصیت میں مال حاصل کرنے والوں سے اس کفن کے خرچ کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔*
*"_اور اگر اس کا ترکہ وارثوں میں تقسیم ہو گیا تھا تو ہر وارث کو جتنا جتنا فی صد حصہ میراث میں ملا تھا، کفن کا خرچ بھی اسی تناسب سے ہر وارث پر آۓ گا۔ (در مختار و شامی ج:۱ ص:۸۰۹)*

*✧⇝20:- ڈاکو یا باغی لڑائی میں قتل ہوجائیں یا وہ دوسروں کوقتل کر دیں:- اگر ڈاکو یا باغی لرائی کے دوران قتل ہوجائیں تو ان کی اہانت اور دوسروں کی عبرت کے لئے حکم یہ ہے کہ ان کو نہ غسل دیا جائے، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے بلکہ یونہی دفنا دیا جاۓ ، لیکن اگر لڑائی کے بعد قتل کئے گئے یا لڑائی کے بعد اپنی موت سے مر جائیں تو پھر ان کو غسل بھی دیا جاۓ گا اور نماز جنازہ بھی پڑھی جاۓ گی ، یہی حکم ان لوگوں کا ہے جو قبائلی ، وطنی یا لسانی تعصب کے لئے لڑتے ہوۓ مارے جائیں۔*

*✧⇝"_اور اگر ڈاکو یا باغی ڈاکہ زنی یا لڑائی کے دوران کسی کو قتل کر دیں تو وہ شہید ہے، بغیر غسل وکفن کے صرف نماز جنازہ بڑھ کر دفن کر دیا جائے، ۔ (درمختار وشامی ج:1 ص:۸۱۴)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ موت کی عدت -١_,"*

*✧⇝"_شوہر کا انتقال ہوجاۓ یا طلاق ہوجاۓ یا خلع وغیرہ یا کسی اور طرح سے نکاح ٹوٹ جاۓ، تو ان سب صورتوں میں عورت کو مقررہ عدت تک ایک گھر میں رہنا پڑتا ہے، جب تک یہ مدت ختم نہ ہو چکے اس وقت تک کہیں اور جانا جائز نہیں، اس مدت گزار نے کو عدت کہتے ہیں، اس مدت میں کسی اور مرد سے نکاح بھی نہیں کر سکتی، اگر کر لیا تو وہ نکاح باطل ہے، منعقد ہی نہیں ہوا۔ (بہشتی زیور، اصلاح انقلاب امت )*

*✧⇝"_ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاۓ وہ چار مہینے اور دس دن تک عدت میں رہے، شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں رہا کرتی تھی اسی گھر میں رہنا چاہئے ، باہر نکلنا درست نہیں۔ (بهشتی زیور )*

*✧⇝"_- شوہر کی زندگی میں اس کے ساتھ عورت کی مباشرت (ہمبستری) یا کسی قسم کی تنہائی ( خلوت ) ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور چاہے ماہواری آتی ہو یا نہ آتی ہو، بوڑھی ہو یا جوان، بالغہ ہو یا نابالغہ سب کا ایک حکم ہے کہ چار مہینے دس دن عدت میں رہے۔*

*✧⇝"_البتہ اگر وہ عورت حمل سے تھی ، اس حالت میں شوہر کا انتقال ہوا تو بچہ پیدا ہونے تک عدت رہے گی، اب مہینوں کا کچھ اعتبار نہیں، اگر شوہر کی موت کے تھوڑی دیر بعد ہی بچہ پیدا ہو گیا تب بھی عدت ختم ہوگئی۔ (بہشتی زیور، عالمگیری، امداد الفتاوی )*

 *✧⇝"_ گھر بھر میں جہاں جی چاہے رہے، بعض گھرانوں میں جو رسم ہے کہ خاص ایک جگہ مقرر کر کے رہتی ہے، بیچاری کو اس جگہ سے ہٹنا معیوب اور برا سمجھا جا تا ہے یہ بالکل مہمل اور واہیات ہے، یہ رسم چھوڑ نا چاہئے ۔ (بہشتی زیور )*

*✧⇝"- عورت کسی کام کے لئے گھر سے باہر کہیں گئی تھی یا اپنی پڑوسن، میکے یا رشتہ دار وغیرہ کے گھر چند روز کے لئے گئی تھی (شوہر ساتھ ہو یا نہ ہو ) اتنے میں اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تو اب فوراً وہاں سے چلی آۓ اور جس گھر میں رہتی تھی اسی میں رہے، شوہر کا انتقال خواہ کسی بھی جگہ ہوا ہو_," (بہشتی زیور، امداد الفتاوی ج ۲ ص:۴۴۲ وص :۴۴۷)*

*✧⇝"_ جس عورت کو شوہر نے ناراض ہوکر میکے بھیج دیا ہو، پھر شوہر کا انتقال ہو جاۓ تو وہ شوہر کے گھر آ کر عدت پوری کرے، کیونکہ عدت اس گھر میں پوری کی جاتی ہے جہاں شوہر کے انتقال پر عورت کی مستقل رہائش تھی، عارضی رہائش کا عتبار نہیں، اور ظاہر ہے کہ میکے میں آنا عارضی تھا۔ (امداد الفتاوی ج:۲ ص:۴۲۷)*

*✧⇝"_ اگر شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا اور عورت کو حمل نہیں ہے تو چاند کے حساب سے چار مہینے دس دن پورے کرنا ہوں گے، اور اگر پہلی تاریخ کے علاوہ کسی اور تاریخ میں انتقال ہوا تو ہر مہینہ تیس تیس دن کا لگا کر چار مہینے دس دن پورے کرنا ہوں گے اور جس وقت وفات ہوئی جب یہ مدت گزر کر وہی وقت آۓ گا عدت ختم ہوجائے گی۔ ( بہشتی زیور و معارف القرآن )*

*✧⇝"_ عدت شوہر کی وفات کے وقت سے شروع ہوجاتی ہے، اگر چہ عورت کو وفات کی خبر نہ ہو، اور اس نے عدت کی نیت بھی نہ کی ہو۔ (درمختار)*

*✧⇝"_ کسی کے شوہر کا انتقال ہو گیا، مگر اس کو خبر نہیں ملی، چار مہینے دس دن گزر جانے کے بعد خبر ملی، تو اس کی عدت پوری ہو چکی، یعنی جب سے خبر ملی ہے اس قت سے از سر نو عدت نہیں گزاری جاۓ گی۔ (بہشتی زیور )*

*✧⇝"_ کسی عورت کو شوہر کے انتقال کی خبر کئی دن بعد ملی، مگر تاریخ وفات میں شک ہے تو جس تاریخ کا یقین ہو عدت اس تاریخ سے شمار کی جاۓ گی، (شامی ج:۲ ص: ۸۳۸)*

*✧⇝"۔ بعض لوگوں میں جو دستور ہے کہ شوہر کی موت کے بعد عورت سال بھر تک عدت کے طور پر بیٹھی رہتی ہے یہ بالکل حرام ہے ۔ (بہشتی زیور )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ عدت کے مسائل _,"* 

*✧⇝1- زمانہ عدت میں عورت کا نان نفقہ:-*
*"_ عدت وفات میں عورت کا نان نفقہ ( کھانا کپڑا) اور رہائش کا مکان اس کی سسرال کے ذمہ نہیں، شوہر کے ترکہ میں سے بھی نان نفقہ لینے کا حق نہیں، البتہ ترکہ میں جو حصہ میراث شریعت نے مقرر کیا ہے وہ اس کو ملے گا_," (بہشتی زیور )*

*✧⇝2- حاملہ کی عدت اور اسقاط حمل :-*
*"_ حاملہ عورت کی عدت بچہ پیدا ہونے سے ختم ہوتی ہے، لیکن اگر حمل گر جاۓ یعنی استقاط حمل ہو جاۓ تو اس میں تفصیل ہے کہ اگر حمل کا کوئی عضو مثلا منہ، ناک یا انگلی وغیرہ بن گیا تھا تب تو عدت ختم ہوگئی، اور اگر کوئی عضو بالکل نہ بنا تھا صرف لوتھڑا یا گوشت کا ٹکڑا تھا، تو اس سے عدت ختم نہ ہوگی, بلکہ یوں سمجھا جاۓ گا کہ یہ عورت حمل سے نہیں تھی ، لہذا اس کی عدت چار مہینے دس دن ہی ہوگی_,"*
*"- اگر کسی حاملہ کے پیٹ میں دو بچے تھے ایک پیدا ہو گیا، دوسرا باقی ہے تو جب تک دوسرا بچہ بھی پیدا نہ ہو عدت ختم نہ ہوگی۔ (شامی ج:1 ص:۸۳۱)*

*✧⇝3_عدت طلاق میں شوہر کا انتقال ہوجاۓ:-*
*"_جس عورت کو شوہر نے کسی بھی قسم کی طلاق دی ہو یا خلع ہوا ہو یا کسی اور طرح سے نکاح ٹوٹ گیا ہو، پھر عدت طلاق ختم ہوجانے کے بعد اس سابق شوہر کا انتقال ہو جاۓ تو اب موت کی وجہ سے عورت پر کوئی عدت واجب نہیں ، اور وہ اس کی وارث بھی نہ ہوگی۔(شامی ج:۲ ص:۸۳۳)*
*"_ اور اگر شوہر کا انتقال عدت طلاق ختم ہونے سے پہلے ہوگیا، تو اس میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:-*
*ا: - اگر شوہر نے طلاق رجعی دی تھی، خواہ اپنی بیماری میں دی ہو یا تندرستی میں، تو اب عورت عدت طلاق کو وہیں چھوڑ کر انتقال کے وقت سے ازسرنو عدت وفات گزارے گی اور شوہر کی وارث بھی ہوگی ۔ (حوالہ بالا )*

*۲: - اگر طلاق بائن دی تھی اور طلاق کے وقت شوہر تندرست تھا، خواہ طلاق عورت کی مرضی سے دی ہو یا مرضی کے بغیر، پھر عدت طلاق ختم ہونے سے پہلے شوہر کا انتقال ہو گیا، تو اب عورت صرف عدت طلاق ہی جتنی باقی رہ گئی ہو وہ پوری کرے گی ، عدت وفات نہیں گزارے گی ، اور شوہر کی وارث بھی نہ ہوگی ۔*

*۳: - اگر طلاق بائن کے وقت شوہر بیمار تھا اور طلاق عورت کی مرضی سے دی تھی تو اس صورت میں بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا کہ عورت صرف عدت طلاق ہی جتنی رہ گئی ہو وہ پوری کرے گی ، عدت وفات نہیں گزارے گی ، اور شوہر کی وارث بھی نہ ہوگی۔ (شامی و مدامی)*

*۴ : - اگر طلاق بائن شوہر نے اپنی بیماری میں عورت کی مرضی کے بغیر دی تھی تو اس صورت میں دیکھا جاۓ کہ طلاق کی عدت پوری ہونے میں زیادہ دن لگیں گے یا موت کی عدت پوری ہونے میں؟ جس عدت میں زیادہ دن لگیں گے عورت وہ عدت پوری کرے گی ، اور شوہر کی وارث ہوگی۔ (شامی ص:۸۳۲، بهشتی زیور )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وہ کام جو عدت میں جائز نہیں :-*

*✧⇝"_ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوا ہو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ عدت کے زمانہ میں نہ تو گھر سے باہر نکلے، نہ اپنا دوسرا نکاح کرے، نہ کچھ بناؤ سنگھار کرے، عدت میں یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں، ( بہشتی زیور حصہ چہارم )*

*✧⇝"_عدت میں سوگ واجب ہے : - سوگ کرنا اسی عورت پر واجب ہے جو مسلمان اور عاقل و بالغ ہو، کافر یا مجنون عورت یا نابالغ لڑکی پر واجب نہیں، ان کو بناؤ سنگھار کرنا جائز ہے، البتہ گھر سے نکلنا اور دوسرا نکاح کرنا ان کو بھی درست نہیں ۔*
*"_ جس کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بے قاعدہ ہو گیا تھا، پھر مرد مرگیا تو ایسی عورت کو بھی سوگ کرنا واجب نہیں،*
*"_ جوعورت عدت وفات میں ہو اسے صاف لفظوں میں پیغام نکاح دینا یا اس سے منگنی کرنا حرام ہے، (درمختار ج:۲ ص:۸۵۲)*

*✧⇝"_ جب تک عدت ختم نہ ہو اس وقت تک خوشبو لگانا، کپڑے یا بدن میں خوشبو بسانا، زیور، گہنا پہننا، پھول پہنا، چوڑیاں پہننا (اگر چہ کانچ کی ہوں)، سرمہ لگانا، پان کھا کر منہ لال کرنا، سر میں تیل ڈالنا، کنگھی کرنا، مہندی لگانا، ریشمی اور رنگے ہوۓ نئے کپڑے پہننا، یہ سب باتیں حرام ہیں،* 

*✧⇝"_ سر دھونا اور نہانا عدت میں جائز ہے، ضرورت کے وقت کنگھی کرنا بھی درست ہے، جیسے کسی نے سر دھویا یا جوں پڑگئی ،لیکن پٹی نہ جھکاۓ، نہ بار یک کنگھی سے کنگھی کرے، جس میں بال چکنے ہو جاتے ہیں، بلکہ موٹے دندانے والی کنگھی کرے کہ زینت نہ ہونے پاۓ۔ (بہشتی زیور و شامی )*

*✧⇝"_ جس عورت کے پاس سارے ہی کپڑے ایسے ہوں جن سے زینت ہوتی ہے، معمولی کپڑے بالکل نہ ہوں اسے چاہئے کہ معمولی کپڑے کہیں سے حاصل کر کے پہنے، اگر چہ اس مقصد کے لئے اپنے بڑھیا کپڑے فروخت کرنے پڑیں، اور جب تک وہ حاصل ہوں وہی زینت والے کپڑے پہنتی رہے، مگر زینت کی نیت نہ کرے۔ (شامی ص:۱۱۵)* 

*✧⇝"_ عدت گزر جانے کے بعد یہ سب پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں، دوسرا‌نکاح بھی کرسکتی ہے۔*
 
*✧⇝"_ شوہر کے علاوہ کسی اور کی موت پر سوگ کرنا جائز نہیں، البتہ اگر شوہر منع نہ کرے تو اپنے عزیز اور رشتہ دار کے مرنے پر بھی تین دن تک بناؤ سنگھار چھوڑ دینا درست ہے، اس سے زیادہ بالکل حرام ہے، اور اگر شوہر منع کرے تو تین دن بھی نہ چھوڑے۔ (بہشتی زیور حصہ چہارم )*

*✧⇝"_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کسی مؤمن کے لئے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ مناۓ، سواۓ بیوہ کے کہ (شوہر کی موت پر ) اس کے سوگ کی مدت ( جبکہ وہ حمل سے نہ ہو ) چار مہینے دس دن ہے_" (ترمذی و بخاری)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _علاج کے طور پر زینت کی چیزیں استعمال کرنا:-*

*✧⇝"_ سر میں درد ہونے یا جوں پڑ جانے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو جس میں خوشبو نہ ہو وہ تیل ڈالنا درست ہے_" ( بہشتی زیور و امداد الفتاوی ج:۲ ص:۴۵۰)*

*✧⇝"_ جس عورت کو سر میں تیل ڈالنے کی ایسی عادت ہو کہ نہ ڈالنے سے ظن غالب یہ ہے کہ درد ہو جاۓ گا، وہ بھی بغیر خوشبو کا تیل درد کے خوف سے ڈال سکتی ہے ، اگر چہ ابھی درد شروع نہ ہوا ہو۔ (ہدایہ ج:۲ و عالمگیری)*

*✧⇝"_ دوا کے لئے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے، لیکن رات کو لگاۓ اور دن کو پونچھ ڈالے۔ ( بہشتی زیور )*

*✧⇝"_ ریشم کا کپڑا اگر خارش وغیرہ کے علاج کے طور پر پہننے کی ضرورت پڑ جاۓ تو اس کی بھی گنجائش ہے، پھر بھی زینت کے ارادہ سے نہ پہنے۔ (ہدایہ ج:۲)*

 
          *╂───────────╂*
*╠☞ _مجبوری میں گھر سے نکلنا:-*

*✧⇝_ شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں عورت کی مستقل رہائش تھی اس گھر میں عدت پوری کرنا واجب ہے، باہر نکلنا جائز نہیں، البتہ اگر وہ اتنی غریب ہے کہ اس کے پاس گزارے کے موافق خرچ نہیں تو اسے ملازمت یا مزدوری کے لئے پردے کے ساتھ باہر جانا دن میں جائز ہے، لیکن رات کو اپنے ہی گھر میں رہا کرے،*
*"_ اور دن میں بھی کام سے فارغ ہوتے ہی واپس آ جاۓ، مزید وقت گھر سے باہر گزارنا جائز نہیں_,"*
*®_( بہشتی زیور ، امداد الفتاویٰ ، شامی )*

*✧⇝"_ عدت میں سفر بھی جائز نہیں، خواہ حج کا سفر ہو یا غیر حج کا_,"*
*®_(امداد الفتاوی ج:۲ ص: ۴۲۸ )*

*✧⇝"_عدت میں اگر بیوہ کی ملازمت، مزدوری ایسی ہے کہ اس میں رات کا بھی کچھ حصہ خرچ ہو جا تا ہے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن رات کا اکثر حصہ اپنے ہی گھر میں گزرنا چاہئے_,"*
*®_ ( در مختار و شامی)*

*✧⇝"_ جس بیوہ کے پاس عدت میں گزارنے کے لئے خرچ موجود ہو، اسے دن میں بھی گھر سے نکلنا جائز نہیں_,"*
*®_ (درمختار ج:۲ ص:۸۵۴)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _عدت میں مجبوراً سفر کرنا پڑے:-*

*✧⇝_ جس عورت کی کوئی زرعی زمین، باغ، جائیداد یا تجارت ایسی ہو کہ اس کے انتظام اور درستگی کے لئے خاص اسی کا جانا ضروری ہو، کوئی اور شخص ایسا نہ ہو جو عدت میں یہ کام کر دے تو ایسی مجبوری میں بھی اس کا گھر سے نکلنا پردے کے ساتھ جائز ہے، لیکن رات اپنے ہی گھر میں گزارے اور اس کام سے فارغ ہوتے ہی گھر واپس آ جاۓ۔ (درمختار و شامی )*

*✧⇝"_ عدت وفات میں اگر عورت بیمار ہو اور گھر پر معالج کو بلانا یا علاج کرانا ممکن نہ ہو تو معالج کے پاس جانا یا مجبوری میں ہسپتال میں داخل ہو جانا بھی جائز ہے،*
*"_ اگر علاج یا تشخیص اس بستی میں ممکن نہیں تو اس غرض س دوسرے شہر جانا بھی جتنے دن کے لئے ضروری ہو جائز ہے، لیکن وہ دوسرا شہر مسافت سفر پر ہو تو محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔ (امداد الفتاوی ج:۲ ص: ۴۲۸ )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ عدت میں مجبوراً دوسرے گھر منتقل ہونا:-*

*✧⇝"_ شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں رہا کرتی تھی اگر وہ کرایہ کا مکان تھا اور کرایہ ادا کرنے کی قدرت ہے تو کرایہ دیتی رہے، اور عدت ختم ہونے تک وہیں رہے، اور اگر کرایہ دینے کی قدرت نہیں تو وہاں سے قریب ترین جگہ جہاں اس کی رہائش، جان و مال اور آبرو کی حفاظت اور پردہ کے ساتھ ممکن ہو تو منتقل ہو جاۓ، بلاضرورت دور کے مکان میں منتقل نہ ہو، جس گھر میں منتقل ہو بقیہ عدت وہیں گزارے۔ (درمختار وشامی ج:۲ ص:۸۵۴)*

*✧⇝"_شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں رہا کرتی تھی اگر وہ مکان شوہر کی ملکیت تھا مگر اب وارثوں میں تقسیم ہو گیا اور بیوہ کے حصہ میراث میں جتنا مکان آیا وہ رہائش کے لئے کافی نہیں اور بقیہ وارث اپنے حصے میں اسے رہنے نہیں دیتے یا کافی تو ہے مگر جن لوگوں سے اسے شرعاً پردہ کرنا چاہئے وہ بھی وہیں رہتے ہیں اور پردہ کرنے نہیں دیتے, تو اس صورت میں بھی وہ کسی اور قریب ترین مکان میں جو جان و مال، آبرو اور پردے کی حفاظت کے ساتھ رہائش کے لئے کافی ہو منتقل ہو سکتی ہے، بقیہ عدت وہاں گزارے_," (درمختار و شامی و ہدایه )*

*✧⇝"_ عدت کا مکان اگر منہدم ہو جاۓ یا منہدم ہوجانے کا خوف ہو یا وہاں آبرو، جان، مال یا صحت کے تلف ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو یا جن لوگوں سے شرعاً پردہ ہونا چاہئے وہاں ان سے پردہ ممکن نہ ہو تو ان سب صورتوں میں بھی عورت اس مکان سے منتقل ہوسکتی ہے۔ (امداد الفتاوی، شامی، درمختار)*

*✧⇝"_عدت کے مکان میں عورت اگر تنہا ڈرتی ہے اور کوئی قابل اطمینان شخص ساتھ رہنے والا نہیں تو اگر ڈر اتنا شدید ہے کہ برداشت نہیں کرسکتی تو اس صورت میں بھی اس مکان سے رہائش منتقل کرسکتی ہے، اگر ڈر اتنا شدید نہ ہو تو منتقل ہونا جائز نہیں۔*
*"_ اسی طرح اگر عدت کا مکان آسیب زدہ ہو اور عورت آسیب سے اتنا ڈرتی ہو کہ برداشت نہیں ہوتا یا آسیب کا کوئی کھلا ہوا ضرر ہے تو اس صورت میں بھی دوسرے مکان میں سکونت کا منتقل کرنا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ (امداد الفتاوی ج:۲ ص:۴۴۳)*

*✧⇝" اوپر جن مسائل میں عدت کے گھر سے منتقل ہونے کو جائز لکھا گیا ہے ان سب میں یہ ضروری ہے کہ عورت وہاں سے ایسے قریب ترین مکان میں منتقل ہو جہاں اس کی رہائش، جان و مال و آبرو اور پردے کی حفاظت کے ساتھ ہو سکتے، بلاضرورت دور کے مکان میں منتقل نہ ہو، اور جس گھر میں منتقل ہو بقیہ عدت وہیں گزار دے، اب اس گھر کا وہی حکم ہوگا جو اصل گھر کا تھا کہ یہاں سے مجبوری کے بغیر نکلنا جائز نہیں ۔ (درمختار وشامی ج:۲ ص:۸۵۴)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _آپس کی ناچاقی عذر نہیں:-*

*✧⇝"_اگر عورت اور ساس میں سخت ناچاقی ہے کہ ساتھ رہنا مشکل ہے تو صرف اس وجہ سے دوسرے گھر میں منتقل ہونا جائز نہیں، ناچاقی سے اگر چہ تکلیف تو ضرور ہوگی لیکن یہ ایسی تکلیف نہیں جسے عدت میں برداشت نہ کیا جا سکے_,"(امداد الفتاوی ج:۲ ص: ۴۴۸)*

*👈🏻"_شوہر کے انتقال کے وقت عورت سفر میں ہو تو عدت کہاں گزارے؟*

*✧⇝"_ شوہر کے انتقال کے وقت عورت اگر سفر میں ہوتو عدت کہاں گزارے؟ اس مسئلہ میں شرعی حکم مختلف صورتوں کا الگ الگ ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:۔*
*"_ ا:- اگر وہ شوہر کے انتقال کے وقت (یا انتقال کی خبر ملنے کے وقت ) راستہ ہی میں کہیں تھی، خواہ کسی بستی میں ہو یا غیر آباد جگہ میں، تو دیکھیں کہ یہاں سے اس کی اپنی بستی کتنے فاصلے پر ہے؟ اگر فاصلہ مسافت سفر سے کم ہے تو فوراً اپنی بستی میں واپس آ جاۓ ، خواہ کوئی محرم ساتھ ہو یا نہ ہو، اور خواہ وہ بستی جہاں جانے کے لئے سفر کیا تھا وہ مسافت سفر‘ پر ہو یا اس سے کم مسافت پر_," (ہدایہ، فتح القدیر ج ۳ ص ۲۹۹، در مختار و شامی ج ۲ ص:۸۵۲)*

*✧⇝"_۲: - اور اگر وہاں سے اپنی بستی مسافت سفر پر ہے اور منزل مقصود اس سے کم مسافت پر تو سفر جاری رکھے اور منزل مقصود پر پہنچ کر وہیں عدت پوری کرے ،محرم ساتھ ہو یا نہ ہو۔ (درمختار و شامی و ہدایہ)*

*✧⇝"_ البتہ بعض فقہاء حنفیہ نے فرمایا ہے کہ جب منزل مقصود بھی مسافت سفر سے کم پر ہو تو عورت کو اختیار ہے چاہے وہاں جا کر عدت پوری کرے یا اپنی بستی میں واپس آکر ، لیکن ان کے نزدیک بھی بہتر یہی ہے کہ اپنی بستی میں واپس آ جاۓ ۔ (شامی ج:۴ ص:۸۵۲)*

*✧⇝"_۳:- اور اگر وہاں سے دونوں بستیاں مسافت سفر پر ہیں، تو اگر وہ جگہ غیرآباد ہے جہاں رہائش نہیں ہوسکتی تو اختیار ہے چاہے اپنی بستی میں واپس آ جاۓ یا منزل مقصود پر پہنچ کر عدت پوری کرے ،لیکن اپنی بستی میں واپس آ جانا زیادہ بہتر ہے، خواہ کوئی محرم ساتھ ہو یا نہ ہو۔*
*"_البتہ اگر اپنی بستی یا منزل مقصود کے راستے میں کوئی ایسی بستی ہو جہاں جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے ساتھ قیام ہو سکتا ہے یا شوہر کے انتقال کے وقت ہی وہ ایسی بستی میں تھی تو وہیں رہ کر عدت پوری کرے، خواہ محرم ساتھ ہو یا نہ ہو_," (درمختار، شامی، بدایه، فتح القدیر)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ "_ عدت میں کوتاہیاں اور غلط رسمیں:-*

*✧⇝"_آج کل اس زمانے میں تقلید مغرب کی ایک لعنت یہ بھی ہے کہ بیوہ اور وہ عورتیں جن کو طلاق ہو گئی ہو عدت میں نہیں بیٹھتیں، کھلے عام گھر سے باہر آنا جانا، بازار جانا اور شادیوں اور تقریبات میں شرکت کرنا ہوتا رہتا ہے، اور اس حکم شرعی کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کی جاتی، یہ سخت غلطی اور گناہ کبیرہ ہے، اس سے توبہ کریں اور عدت میں بیٹھنے کے حکم کی تعمیل کر یں_,*

*✧⇝"_ اسی طرح اور بھی بہت سی کوتاہیاں اور غلط رسمیں آج کل عدت میں اور عدت کے بعد رائج ہوگئی ہیں جن سے بچنا ضروری ہے، یہاں ان میں سے خاص خاص لکھی جاتی ہیں:-*

*✧⇝"_(1) شوہر کے انتقال پر بیوہ کی چوڑیاں توڑنا:- عدت میں چوڑیاں بھی خواہ کانچ کی ہوں پہننا جائز نہیں ، لیکن عورتوں میں جو رسم ہے کہ شوہر کے انتقال پر بیوہ کی چوڑیاں اتارنے کی بجاۓ توڑ ڈالتی ہیں یا وہ خود ہی توڑ ڈالتی ہے، یہ غیر مسلموں کی رسم ہے، اور مالی نقصان ہونے کی وجہ سے اسراف بھی ہے، لہذا توڑی نہ جائیں بلکہ اتار لی جائیں، تا کہ بیوہ عدت کے بعد پہن سکے، البتہ اگر اتارنے میں کچھ تکلیف اور دشواری ہو تو مجبوراً توڑ دی جائیں," ( امداد الفتاوی- ٢/٤٥١)*

*✧⇝"(2)_عدت میں گھر سے بلا عذر شرعی نکلنا :-*
*"_بعض عورتیں عدت میں بیٹھ جاتی ہیں ،لیکن پھر معمولی معمولی عذر پیش آنے پر گھر سے باہر نکل جاتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ کی تقریب میں یا اسی قسم کی دیگر تقریبات میں، گھر میں مردوں کے ہوتے ہوۓ بھی دیگر کاموں کے لئے، اس کی تفصیلی بیان پیچھے آچکا ہے، کوئی اور عذر پیش آجاۓ اور باہر نکلنا ناگزیر ہو تو معتبر علماء سے مسئلہ دریافت کرلیں، اگر وہ اجازت دیں تو نکلیں، ورنہ نہیں_,"*

*✧⇝" بعض ناواقف حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بیوہ عدت میں بغیر کسی عذر کے گھر سے باہر آ جاۓ تو از سرنو عدت واجب ہوگی، پہلی عدت ٹوٹ گئی، یہ بالکل غلط بات ہے، اس طرح عدت نہیں ٹوٹتی البتہ بلا عذر شرعی عدت میں گھر سے نکلنا جائز نہیں، بڑا گناہ ہے۔ (اصلاح انقلاب امت )*
*

*✧⇝3- عدت میں زیب وزینت کی اشیاء استعمال کرنا :- بعض عورتیں عدت میں بناؤ سنگھار کی اشیاء استعمال کرتی ہیں اور کچھ خیال نہیں کرتیں کہ ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ حالانکہ عدت میں میک آپ، تیل، خوشبو، بناؤ سنگھار، کنگھی ، سرمہ، سرخی ، مہندی، بھڑکدار کپڑے اور آرائش و زیبائش کی تمام اشیاء استعمال کرنا حرام ہے،*

*✧⇝_4- عدت میں نکاح یا منگنی کرنا :- ایک کوتاہی عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ عدت کے اندر بیوہ سے نکاح کر لیتے ہیں، عدت پوری ہونے کا انتظار نہیں کرتے، پھر بعض لوگ اپنے نزدیک بڑی احتیاط کرتے ہیں کہ نکاح کو تو جائز سمجھتے ہیں مگر اس سے صحبت نہیں کرتے اور میاں بیوی والے تعلقات نہیں رکھتے، یاد رکھنا چاہئے کہ عدت کے اندر نکاح جائز نہیں، اگر کر لیا تو منعقد نہیں ہوگا، بلکہ عدت میں تو منگنی کرنا اور کھلے الفاظ میں پیغام نکاح دینا بھی جائز نہیں، قرآن کریم میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ (اصلاح انقلاب امت ج:۲ ص:٦٢ )*

*✧⇝"_5 - عدت میں احتیاطاً کچھ دن بڑھانا:- ایک عام غلطی یہ ہے کہ اگر بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے، اس میں اگر ایک یا دو مہینے انتیس کے ہوں تو اس کمی کے بدلہ میں دس دن عدت میں اور بڑھا دیتے ہیں، یہ غلط ہے، عدت کا حساب خوب یاد رکھنا چاہئے ۔ (اصلاح انقلاب أمت)*

*✧⇝"_6 - عدت سے نکالنے کے لئے عورتوں کا اجتماع :- جب کوئی عورت بیوہ ہو جاۓ تو ختم عدت پر رسم چھ ماہی ادا کی جاتی ہے، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیوہ کے یہاں عدت کے ختم پر بہت سی عورتیں جمع ہوتی ہیں اور یوں کہتی ہیں کہ اس کو عدت سے نکالنے کے لئے آئی ہیں، اور بعض عورتیں عدت سے نکلنے کے لئے یہ ضروری سمجھتی ہیں کہ عورت عدت والے گھر سے نکل کر دوسرے گھر جاۓ ، اور اس کا بڑا اہتمام کرتی ہیں، یہ دونوں باتیں غلط ہیں، بیوہ کی عدت کے جب چار ماہ دس دن گزر جائیں یا وضع حمل ہو جاۓ تو وہ عدت سے خودبخود نکل جاتی ہے، خواہ اس گھر میں رہے۔ (اصلاح انقلاب امت )*

*★"7- بیوہ کے نکاح کو عیب سمجھنا:-*
*"_ عدت کے بعد بیوہ کے نکاح کو عیب سمجھنا ایک بڑی خطرناک خرابی جو غیر مسلموں کی جاہلانہ رسم ہے اور بہت سے مسلم خاندانوں میں آگئی ہے، یہ ہے کہ بعض عورتیں جن کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو یا جن کو طلاق ہو گئی ہو وہ عدت کے بعد بھی نکاح ثانی کو عیب بجھتی ہیں، حالانکہ قرآن کریم نے عدت کے بعد نکاح ثانی کی ترغیب دلائی ہے اور جو لوگ اس سے روکتے ہوں انہیں پر زور انداز میں تنبیہ فرمائی ہے کہ ہرگز ان کو نکاح ثانی سے نہ روکیں ۔*

*✧⇝"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی کنواری نہ تھیں، بلکہ ان میں سے اکثر بیوہ اور بعض مطلقہ تھیں، صحابہ کرام بھی اسی پر عمل پیرا رہے۔ ایسا مبارک عمل جس کی ترغیب قرآن نے دی، جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے مسلسل عمل فرمایا اسے عیب سمجھنا سخت جہالت ہے، خطرناک گمراہی ہے،*

*✧⇝"_ بعض عورتیں تو اس معاملے میں ایسی باتیں زبان سے کہہ ڈالتی ہیں جو کفر کی حد تک پہنچ جاتی ہیں ۔ بعض عورتیں عیب تو نہیں سمجھتیں لیکن بے نکاح رہنے کو زیادہ عزت کی بات سمجھتی ہیں، یہ بھی گمراہی ہے جو کفر تو نہیں مگر اس کے قریب ہے، ورنہ کامل مسلمان کیا وجہ ہے کہ خلاف سنت کو زیادہ اعزاز کا سبب سمجھے۔ بہرحال! اس بیہودہ رسم سے مسلمانوں کو پر ہیز لازم ہے ،حتی الامکان بیوہ کا نکاح عدت کے بعد کر دینا ہی مناسب ہے، بلکہ اس کا نکاح تو کنواری کے نکاح سے بھی زیادہ اہم ہے،*

*✧⇝"_بعض بیوہ عورتیں نکاح کرنا بھی چاہتی ہیں تو خاندان کے لوگ اسے روکتے اور عار دلاتے ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں نکاح سے روکنا یا عار دلا نا سخت گناہ اور حرام ہے۔*

*✧⇝"_مسئلہ:- جو بیوہ اس خوف سے کہ بچے ضائع ہو جائیں گے یا اس وجہ سے کہ کوئی اسے قبول نہیں کرتا نکاح ثانی نہیں کرتی ، وہ معذور ہے، بلکہ بچوں کے ضائع ہوجانے کے خوف سے نکاح نہ کرنا تو باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (اصلاح انقلاب امت ج:1 ص:۴۲)*

*✧⇝"_ اگر طبیعت میں نکاح کا تقاضا ہے اور نکاح کی قدرت بھی ہے اور شوہر کے حقوق بھی ادا کرسکتی ہے تو نکاح کرنا واجب ہے، نہ کرنے سے گناہ ہوگا، اور اگر تقاضا ( شوق اور خواہش ) بہت زیادہ ہے کہ نکاح کئے بغیر فعل حرام میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے تو نکاح کرنا فرض ہے۔ ( ايضا ص:۳۹، ۴۰ )*
*"_ اگر طبیعت میں نکاح کا تقاضا تو نہیں لیکن شوہر کے حقوق ادا کرنے کی قدرت ہے تو اس صورت میں نکاح سنت ہے، قدرت نہیں تو ممنوع ہے۔ (ایضاً)*

 *
          *╂───────────╂*
*╠☞ _ ترکہ اور اس کی تقسیم:-*

*✧⇝مرنے والا انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد، نقد روپیہ، زیورات، کپڑے اور کسی بھی طرح کا چھوٹا بڑا سامان چھوڑتا ہے خواہ سوئی دھاگہ ہی ہو، از روئے شریعت وہ سب اس کا ترک ہے، انتقال کے وقت اس کے بدن پر جو کپڑے ہوں وہ بھی اس میں داخل ہیں، نیز میت کے جو قرضے کسی کے ذمہ رہ گئے ہوں اور میت کی وفات کے بعد وصول ہوں وہ بھی اس کے ترکہ میں داخل ہیں۔*

*✧⇝ میت کے کل ترکہ میں ترتیب وار چار حقوق واجب ہیں، ان کو شرعی قاعدے کے مطابق ٹھیک ٹھیک ادا کرنا وارثوں کی اہم ذمہ داری ہے، یہاں تک کہ اگر میت کی جیب میں ایک الائچی بھی پڑی ہو تو کسی شخص کو یہ جائز نہیں کہ سب حقداروں کی اجازت کے بغیر اس کو منہ میں ڈال لے، کیونکہ وہ ایک آدمی کا حصہ نہیں،*

*✧⇝ وہ چار حقوق یہ ہیں:-*
*ا:- تجہیز وتکفین ۔*
*۲:- دین اور قرض، اگر میت کے ذمہ کسی کا رہ گیا ہو۔*
*٣:- جائز وصیت اگر میت نے کی ہو۔*
*۴:- وارثوں پر میراث کی تقسیم ۔*

*✧⇝_ینی ترکہ میں سب سے پہلے تجہیز وتکفین اور تدفین کے مصارف ادا کئے جائیں، پھر اگر کچھ تر کہ بچے تو میت کے ذمہ جو لوگوں کے قرضے ہوں وہ سب ادا کئے جائیں، اس کے بعد اگر کچھ تر کہ باقی رہے تو اس کے ایک تہائی کی حد تک میت کی جائز وصیت پر عمل کیا جاۓ، اور بقیہ دو تہائی بطور میراث سب وارثوں کو شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جاۓ، اگر میت کے ذمہ نہ کوئی قرض تھا، نہ اس نے ترکہ کے متعلق کچھ وصیت کی تھی تو تجہیز و تکفین اور تدفین کے بعد جو ترکہ بچے وہ سب کا سب وارثوں کا ہے، جو شریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق ان میں تقسیم ہوگا،*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وہ چیزیں جو ترکہ میں داخل نہیں:-*

*✧⇝"_ان چاروں حقوق کی تفصیل سے پہلے یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ میت کے پاس جو چیز یں ایسی تھیں کہ شرعاً وہ ان کا مالک نہ تھا، اگر چہ وہ بلا تکلف ان کو مالکوں کی طرح استعمال کرتا رہا ہو، وہ اس کے ترکہ میں داخل نہ ہوں گی، ایسی سب اشیاء ان کے اصل حقداروں کو واپس کی جائیں، تجہیز و تکفین وغیرہ میں ان کا خرچ کرنا جائز نہیں ،*

*✧⇝"_ مثلاً : - 1:- جو چیزیں میت نے کسی سے عاریت (عارضی طور پر مانگی ہوئی ) لی تھیں یا کسی نے اس کے پاس امانت رکھ دی تھیں وہ ترکہ میں داخل نہ ہوں گی ، ایسی سب چیزیں ان کے مالکوں کو واپس کی جائیں۔ (مفید الوارثین ص: ۲۷)*
*★"_ ۲: - اگر میت نے کسی کی کوئی چیز زبردستی یا چوری یا خیانت کر کے رکھ لی تھی تو وہ بھی ترکہ میں داخل نہیں، اس کے مالک کو واپس کی جاۓ ۔(مفید الوارثین ص:۲۸)*
*★"_ ۳: - اگر میت نے مرض الموت سے پہلے اپنی کوئی چیز ہبہ کردی، یعنی کسی کو تحفہ یا ہدیہ میں دے دی تھی اور اس پر لینے والے کا قبضہ بھی کرا دیا تھا تو وہ چیز میت کی ملک سے نکل گئی اور لینے والا اس کا مالک ہو گیا، لہذا میت کے انتقال کے بعد وہ اس کے ترکہ میں داخل نہ ہوگی ،لیکن اگر صرف زبانی یا تحریری طور پر کہا تھا کہ: ” یہ چیز تم کو دیتا ہوں“ یا ”میں نے یہ چیز تمہیں ہبہ کردی ہے اور قبضہ نہیں کرایا تھا تو اس کے کہنے یا لکھنے کا کوئی اعتبار نہیں، یہ نہ ہبہ ہوا، نہ وصیت ، بلکہ یہ چیز میت ہی کی ملک میں رہے گی ، اور میت کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں داخل ہوگی ۔ ( بہشتی زیور حصه ی پنجم ص:۲۰)*


*✧⇝"_اور اگر مرض الموت میں دی تھی اور اس کا قبضہ بھی کرا دیا تھا تو یہ دینا وصیت کے حکم میں ہے، لہذا یہ چیز ترکہ میں شمار ہوگی ، اور تجہیز وتکفین اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد جن شرائط کے ساتھ دوسری وصیتوں پر عمل ہوتا ہے اس پر بھی ہوگا،*
*( بہشتی زیور ، مفید الوارثین ، شامی )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _موت کے بعد وصول ہونے والی پنشن بھی ترکہ میں داخل نہیں : -*

*✧⇝"_ پنشن جب تک وصول نہ ہو جاۓ ملک میں داخل نہیں ہوتی، لہذا متیت کی پنشن کی جتنی رقم اس کی موت کے بعد وصول ہو وہ ترکہ میں شمار نہ ہوگی، کیونکہ ترکہ وہ ہوتا ہے جو میت کی وفات کے وقت اس کی ملکیت میں ہو، اور یہ رقم اس کی وفات تک اس کی ملکیت میں نہیں آئی تھی،*

*✧⇝"_ لہذا ترکہ میں جو چار حقوق واجب ہوتے ہیں وہ اس رقم میں واجب نہ ہوں گے، اور میراث بھی اس میں جاری نہ ہوگی، البتہ حکومت ( یا وہ کمپنی جس سے پنشن ملی ہے) جس کو یہ رقم دیدے گی وہی اس کا مالک ہو جاۓ گا، کیونکہ یہ ایک قسم کا انعام ہے، تنخواہ یا اجرت نہیں، پس اگر حکومت یا کمپنی یہ رقم میت کے کسی ایک رشتہ دار کی ملکیت کر دے تو وہی اس کا تنہا مالک ہوگا اور اگر سب وارثوں کے واسطے دے تو سب وارث آپس میں تقسیم کر لیں گے_,"*
*"®_ بحوالہ- در المحتار ج:۵ ص:۲۰۳۔ (رفیع)*

*✧⇝"_نوٹ:- ہر ماہ تنخواہ میں سے وضع کئے ہوۓ پروایڈنٹ فنڈ جو کہ موت یا ریٹائر ہونے پر دیئے جاتے ہیں پنشن کے اس حکم میں داخل نہیں ہیں، ان کا حکم معتبر علماء سے دریافت کر کے عمل کر یں ۔*
*
          *╂───────────╂*
*╠☞ _ میت کی بعض املاک بھی ترکہ میں داخل نہیں ہوتے:-*

*✧⇝"_ بعض متعین چیزیں جن کی ذات ہی کے ساتھ کسی اور شخص کا حق وابستہ ہو وہ میت کی ملک میں ہونے کے باوجود ترکہ میں داخل نہیں ہوتیں، اس کی دو مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں ۔*

*✧"_ا: - جو چیزیں میت نے خرید لی تھی لیکن قیمت ادا نہیں کی تھی اور اس شے پر قبضہ بھی نہیں کیا تھا، بلکہ فروخت کرنے والے ہی کے پاس موجود تھی اور میت نے اس کے سوا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا ( جس سے تجہیز وتکفین کے مصارف ادا کرنے کے بعد وہ قیمت ادا کی جا سکے ) تو وہ چیز اگر چہ ملک میت کی ہو چکی تھی مگر اس کے ترکہ میں داخل نہ ہوگی_,"*

*✧"_۲: - اسی طرح جو چیز میت نے قرض کے بدلے میں رہن ( گروی) کر دی تھی اور اس قرض کی ادائیگی کے لئے کوئی مال بھی نہیں چھوڑا تو وہ بھی اگر چہ میت کی ملک تھی مگر اس کے ترکہ میں داخل نہ ہوگی،*

*✧⇝" یعنی جب میت نے کچھ مال ہی نہیں چھوڑا تو وہ فروخت کرنے والا جس نے اپنی چیز کی قیمت نہیں پائی اور وہ قرض خواہ (مرتہن ) جس کا قرض ابھی وصول نہیں ہوا ان چیزوں کو جو ان کے قبضہ میں موجود ہیں فروخت کرا کے سب سے پہلے اپنا حق لے سکتے ہیں، ان کا حق ادا ہو جانے کے بعد فروخت شدہ چیز کی قیمت میں سے اگر کچھ باقی رہے تو وہ ترکہ سمجھا جاۓ گا اور اس میں تجہیز و تکفین، قرض و وصیت اور میراث قاعدے کے مطابق جاری ہوں گے، اور اگر کچھ باقی نہ رہے تو عزیز و رشتہ دار اپنے پاس سے تجہیز و تکفین کریں۔ (درمختار، شامی ، مفید الوارثین )*

*✧⇝" ہم نے یہاں صرف یہ دو مثالیں ذکر کی ہیں، اگر ان سے ملتی جلتی کوئی اور صورت پیش آۓ کہ میت کی کسی خاص اور متعین مملوک چیز میں دوسرے کا حق لگا ہوا ہو تو کسی محقق عالم دین سے پوچھ کرعمل کیا جاۓ ، خود اپنی راۓ اور قیاس سے ہرگز عمل نہ فرمائیں، کیونکہ ذرا سے فرق سے ( جسے ہرشخص نہیں سمجھ سکتا ) حکم بدل جاتا ہے۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ جو چیز زندگی میں کسی کے لئے خاص کردی ہو وہ ترکہ میں داخل ہے:-*

*✧⇝"_ اگر کسی نے زندگی میں اپنی اولاد کی شادی کے لئے نقد روپیہ یا کپڑا اور زیور وغیرہ جمع کیا تھا اور ارادہ تھا کہ اس کو خاص فلاں بیٹے یا بیٹی کی شادی میں خرچ کروں گا یا بیٹی کے جہیز میں دوں گا، مگر تقدیر سے اس شخص کا انتقال ہو گیا اور وہ چیزیں اس اولاد کو مالکانہ طور پر قبضہ میں نہیں دی تھیں تو یہ سب مال و اسباب ترکہ میں داخل ہوگا،*

*✧⇝"_ اور اس بیٹے یا بیٹی کا کوئی خاص استحقاق نہ ہوگا بلکہ تجہیز و تکفین، اداء قرض اور وصیتوں کی تعمیل کے بعد میراث کے قاعدے کے مطابق اس کا جتنا حصہ بنتا ہے وہی ملے گا۔* 
*®_( مفید الوارثین )*

*✧⇝"_ اگر یہ صورت کسی نابالغ اولاد کے بارے میں پیش آۓ تو اس کا حکم معتبر علماء سے دریافت کرلیں ۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ تجہیز وتکفین کے مصارف:-١,*

*✧⇝میت کے ترکہ میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کا خرچ لیا جاۓ مگر یہ کام بہت سیدھے سادے شرعی طریقہ سے سنت کے مطابق کریں اور کفن بھی میت کی حیثیت کے مطابق دیں، کپڑا سفید ہونا چاہئے، مگر ایسی قیمت کا ہو جس قیمت کا کپڑا وہ اکثر پہن کر گھر سے باہر نکلتا اور لوگوں سے ملتا تھا، اور مسجد و بازار میں جاتا تھا، نہ اتنی کم قیمت کا گھٹیا کفن دیں جس سے اس کی تحقیر و تذلیل ہو، نہ اتنا بیش قیمت دیں کہ جس میں اسراف ہو، اور قرض خواہوں یا وارثوں کے حق میں نقصان آۓ ،*

*✧⇝ قبر بھی کچی بنائی جاۓ، خواہ میت مالدار ہو یا فقیر، غسل دینے یا قبر کھودنے والا اگر اجرت پر لینا پڑے تو یہ خرچ بھی حسب حیثیت متوسط درجہ کا کریں، اگر عام مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ ملے تو قبر کے لئے زمین خرید لی جاۓ، اس کی قیمت بھی دیگر سامان تجہیز وتکفین کی طرح ترکہ میں سے لے لی جاۓ_,"*
*®_ (مفید الوارثین ص:۳۳)* 

*✧⇝ بڑا چادرہ جو جنازہ کے اوپر ڈھانپ دیا جاتا ہے کفن میں داخل نہیں، اور وہ جاۓ نماز جو کفن کے کپڑے میں سے امام کے لئے بچالی جاتی ہے، کفن سے بالکل زائد اور فضول ہے، لہذا اگر میت کے ترکہ میں اداء قرض سے زائد مال نہ ہو یا وارث نابالغ ہوں تو یہ جاۓ نماز اور چادر بنا کر قرض خواہوں کا یا یتیموں کا نقصان کرنا ہرگز جائز نہیں، سخت ممنوع ہے،*

*✧⇝"شریعت کی معتبر کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر میت زیادہ مقروض ہو تو وارثوں پر قرض خواہ جبر کر سکتے ہیں کہ صرف دو ہی کپڑوں میں کفن دیں، یعنی کفن مسنون سے بھی ایک کپڑا ( کفنی یا ازار ) کم کرا سکتے ہیں، پھر ان زائد چادروں اور جانمازوں کی کیا حقیقت ہے؟ (مفید الوارثین ص:۳۳)*

*✧⇝شریعت کے مطابق تجہیز و تکفین اور تدفین کرنے کے علاوہ اور جو طرح طرح کی رسمیں ،فضول خرچی اور بدعتیں اس موقع پر کی جاتی ہیں, مثلاً اہل میت کی طرف سے دعوت وغیرہ، ان کے اخراجات ترکہ سے لینا ہرگز جائز نہیں، اسی طرح تعزیت کے لئے آنے والوں کی مہمانداری میں بھی ترکہ کی کوئی چیز خرچ کرنا جائز نہیں، جو شخص ایسا کرے گا خواہ وارث ہو یا غیر وارث تو اس زائد خرچ کا اسے تاوان دینا پڑے گا یا اگر وہ وارث ہے تو اس کے حصہ میراث میں سے کم کیا جاۓ گا۔ ( مفید الوارثین ص:۳۳)*

*✧⇝"_ صدقات و خیرات جو بعض ناواقف لوگ میت کے ترکہ میں سے ( ترکہ کی تقسیم سے پہلے ) کر دیتے ہیں، مثلاً غلہ، پیسے، کپڑے وغیرہ خیرات کر دیے جاتے ہیں، یہ ہرگز مصارف تجہیز و تکفین میں شمار نہ ہوں گے، بلکہ کرنے والے کے ذمہ تاوان واجب ہوگا، اس معاملہ میں بہت احتیاط کرنی چاہئے ، بعض دفعہ میت کے وارثوں میں چھوٹے چھوٹے قابل رحم یتیم بچے ہوتے ہیں یا میت مقروض ہوتا ہے اور دوسرے رشتہ دار رسموں کی پابندی اور مال مفت دل بے رحم سمجھ کر بے جا صرف کرتے ہیں اور آخرت کا عذاب اپنے سر لیتے ہیں، کیونکہ اس سے قرض خواہوں کا یا وارثوں کا حق مارا جا تا ہے،*

*✧⇝"_ کبھی یہ ہوتا ہے کہ میت کے سلے ہوۓ کپڑے میت کی طرف سے اللہ واسطے دے دیئے جاتے ہیں ، کہیں شوہر مر جاتا ہے اور بیوہ اور نابالغ بچے رہ جاتے ہیں تو بیوہ صاحبہ بے دھڑک اس کے ترکہ میں سے خیرات کرتی ہیں، یہ خبر نہیں کہ اس مال میں معصوم بچوں کا حق ہے، اگر چہ وہ ان کی ماں ہے لیکن ان کے مال کو بلاضرورت خرچ کرنے کی مختار نہیں، بچے اگر اجازت بھی دے دیں تو ان کی اجازت شرعاً معتبر نہیں۔*

*✧⇝"_میت کی طرف سے صدقہ کرنا بلاشبہ بہت پسندیدہ اور باعث ثواب ہے اور میت کو اس کا ثواب پہنچتا ہے، لیکن یہ صدقات اس وقت پسندیدہ اور نافع ہو سکتے ہیں کہ شریعت کے موافق ہوں، شریعت حکم دیتی ہے کہ حق داروں اور یتیموں کے مال پر ہاتھ صاف مت کرو، بلکہ جس کسی کو توفیق ہو اپنے حلال مال سے صدقہ کرے، اس لئے لازم ہے کہ پہلے ترکہ کی تقسیم شرعی قاعدے کے مطابق کر لی جاۓ ، پھر بالغ وارث اپنے حصے میں سے جو چاہیں دیں، تقسیم سے پہلے ہرگز نہ دینا چاہئے۔*
*®_( مفید الوارثین ص:۳۴ و بہشتی زیور )*

*✧⇝"_مسئلہ: - میت اگر عورت ہو اور اس کا خاوند حیات ہو تو تجہیز و تکفین کا خرچ شوہر کے ذمہ واجب ہے، عورت کے ترکہ میں سے نہ لیا جاۓ ، اگر شوہر نہیں ہو تو حسب معمول عورت ہی کے ترکہ میں سے خرچ کیا جائے_,"*
*®_(شامی ج:1 ص:۸۱۰، مفید الوارثین ص:۳۶)*

*✧⇝"_ میت خواہ مرد ہو یا عورت اگر اس کا کوئی عزیز قریب یا کوئی اور شخص اپنی خوشی سے تجہیز و تکفین اور دفن کا خرچ اپنے پاس سے کرنا چاہے اور وارث بھی اس پر راضی ہوں تو کر سکتا ہے، بشرطیکہ خرچ دینے والا عاقل بالغ ہو، ایسی صورت میں ترکہ سے یہ خرچ نہ لیا جاۓ ۔*.

*✧⇝"_ اگر اتفاق سے درندوں نے قبر اکھیٹر ڈالی اور کفن ضائع کر کے میت کو نکال ڈالا یا کفن چور نے میت کو نکال کر برہنہ ڈال دیا، تو دوبارہ بھی کفن کا خرچ میت کے ترکہ سے دلایا جاۓ ، ایسی صورت میں غسل و نماز دوبارہ نہیں کیا جاتا۔*
*®_ (مفید الوارثین ص: ۳۵ و شامی )*
۔
*✧⇝"_ ترکہ میں جو چار حقوق ترتیب وار واجب ہوتے ہیں ان میں سب سے اول تجہیز و تکفین ہے، اگر تجہیز و تکفین کے خرچ سے کچھ بھی نہ بچا تو نہ قرض خواہوں کو کچھ ملے گا، نہ وصیت میں خرچ ہوسکتا ہے، نہ وارثوں کو میراث میں کچھ مل سکتا ہے، ( مفید الوارثین ص:۳۶)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ قرضوں کی ادائیگی-1,*

*✧⇝"تجہیز و تکفین اور تدفین کے مصارف ادا کرنے کے بعد سب سے اہم کام لوگوں کے ان قرضوں کی ادائیگی ہے جو میت کے ذمہ رہ گئے ہیں:-*
*"_اگر میت نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرض ہے، اور اس کی ادائیگی بھی ایسی ہی ضروری و لازم ہے جیسی دوسرے قرضوں کی،*

*✧⇝"غرض تجہیز وتکفین اور تدفین کے بعد جو ترکہ بچے اس میں سب سے پہلے میت کے تمام قرضے ادا کرنا فرض ہے، چاہے اس نے قرضے ادا کرنے کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، اور چاہے اس کا یہ سارا ترکہ قرضوں ہی کی ادائیگی میں ختم ہو جاۓ، اگر قرضوں کی ادائیگی کے بعد کچھ ترکہ بچا تب تو میت کی وصیت میں بھی شرعی قاعدے کے مطابق خرچ کیا جاۓ گا اور ان وارثوں کو بھی ان کے حصے ملیں گے، اور کچھ بھی نہ بچا تو نہ وصیت میں خرچ کیا جاسکے گا، نہ وارثوں کو کچھ ملے گا، کیونکہ شریعت میں قرضوں کی ادائیگی وصیت اور میراث پر بہر حال مقدم ہے_,"*
*®_ (مفید الوارثین ص:۳۶ تا ۵۱)*

*✧⇝" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے متعلق نہایت سخت تاکید اور تنبیہ فرمائی ہے، جو لوگ اپنے ذمہ قرض چھوڑ جاتے اور اس کی ادائیگی کے لئے ترکہ میں مال بھی نہ چھوڑ تے ، تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کی نماز جنازہ خود نہ پڑھاتے تھے بلکہ صحابہ کرام سے فرما دیتے کہ: تم لوگ نماز پڑھ دو، اور اپنی دعا و نماز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو محروم رکھتے تھے۔*

*✧⇝"حدیث: - حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ( نماز جنازہ کے لئے ) ایسا میت لایا جاتا جو مقروض تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ: کیا اس نے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے مال چھوڑا ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہے تو اس پر نماز ( جنازہ) پڑھتے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے فرما دیتے کہ: اس پر تم نماز پڑھ دو_,"*
*®_ (صحیح مسلم ج ۲ ص ۳۵)*

*✧⇝"حالانکہ ان لوگوں کا قرض بھی کچھ حد سے زیادہ نہ ہوتا تھا، اور وہ ضرورت ہی میں قرض لیتے تھے، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر سختی فرماتے تھے، آج فضول رسموں اور بے جا خرچوں کے واسط لوگ بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں اور مرجاتے ہیں اور وارث بھی کچھ فکر نہیں کرتے،*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ قرضوں کی ادائیگی -2,*

*✧⇝"_ صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ: مؤمن کا جب تک قرض ادا نہ کر دیا جاۓ اس کی روح کو ( ثواب یا جنت میں داخلہ سے) روکا جا تا ہے، ایک شخص نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! میرے بھائی کا انتقال ہوگیا اور چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے، کیا میں ان پر مال خرچ کروں (اور قرض ادا نہ کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تمہارا بھائی قرض کی وجہ سے مقید ہے ، قرض ادا کرو_,"*
*®_( مفید الوارثین ص: ۴۰ بحوالی مشکوة )*

*✧⇝"_ اگر تجہیز و تکفین اور تدفین کے بعد باقی ترکہ تمام قرضوں کی ادائیگی کے لئے کافی ہے تو بلا کسی فرق کے تمام قرضے ادا کر دیئے جائیں اور اگر کافی نہیں اور قرض صرف ایک ہی شخص کا ہے تو جتنا ترکہ تجہیز وتکفین اور تدفین سے بچا ہے وہ سب اس کو دے دیا جاۓ، باقی کو وہ اگر چاہے تو معاف کردے یا آخرت پر موقوف رکھے_," (مفید الوارثین ص:۳۸)*

*✧⇝"_اگر تجہیز وتکفین اور تدفین کے بعد بچا ہوا ترکہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں اور قرض کئی آدمیوں کا ہے تو وہ ان میں کتنا کتنا کس طرح تقسیم ہوگا ؟ اور کس قسم کے قرض کو دوسرے قرض پر مقدم کیا جاۓ گا ؟ اس میں بہت تفصیل ہے، بوقت ضرورت کسی صاحب فتویٰ مستند عالم دین کو پوری صورت حال بتا کر مسئلہ معلوم کرلیا جاۓ یا کتاب ’مفید الوارثین کا بغور مطالعہ کیا جاۓ ، اس میں پوری تفصیل موجود ہے۔*

*✧⇝"_اگر تجہیز و تکفین اور تدفین کے بعد ترکہ بالکل نہ بچا یا اتنا تھوڑا بچا کہ سب قرضے اس سے ادا نہ ہو سکے تو باقی قرضوں کا ادا کرنا وارثوں کے ذمہ واجب نہیں، ہاں! محبت کا تقاضا اور بہتر و پسندیدہ یہی ہے کہ جتنا ہو سکے میت کی طرف سے قرضے ادا کر کے اس کو راحت پہنچائیں،*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ اللہ تعالی کے قرضوں کی ادائیگی:-١,*

*✧⇝" ابھی تک سب بیان ان قرضوں کا ہوا جو میت کے ذمہ بندوں کے رہ گئے ہوں، اور اگر اللہ تعالی کے قرضے یعنی حقوق (فرائض و واجبات ) رہ گئے ہوں، مثلاً نمازوں، روزوں کا فدیہ، زکوۃ، حج ، صدقۃ الفطر، نذر یا کفارہ وغیرہ ایسا رہ گیا تھا جو میت نے ادا نہیں کیا تھا، تو ان کا حکم یہ ہے کہ اگر بندوں کے تمام قرضے ادا کرنے کے بعد ترکہ میں کچھ مال باقی رہے اور میت نے اللہ کے ان حقوق کو ادا کرنے کی وصیت بھی کی ہو تو اس بچے ہوۓ مال کے ایک تہائی میں سے ان حقوق کو ادا کیا جاۓ،*

*✧⇝" اگر ایک تہائی میں وہ پورے ادا نہ ہوسکیں تو جتنے ادا ہو سکیں ادا کر دیں، تہائی سے زیادہ مال خرچ کر کے ان کو ادا کرنا وارثوں پر لازم نہیں، کیونکہ باقی دو تہائی مال وارثوں کا ہے، لہذا اب عاقل بالغ وارثوں کو اختیار ہے کہ چاہیں تو اپنے اپنے حصے اور مال میں سے خرچ کر کے ان باقی حقوق کو بھی ادا کر دیں اور میت کو آخرت کے مؤاخذہ سے بچائیں اور خود بھی ثواب کمائیں،*

*✧⇝" (لیکن مجنون یا نابالغ وارثوں کا حصہ اس میں خرچ کرنا ہرگز جائز نہیں، اگر چہ وہ بخوشی اجازت بھی دے دیں) اور چاہیں تو باقی دو تہائی مال سب وارث شرعی حصوں کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں, اس صورت میں اللہ تعالی کے جو حقوق ادا ہونے سے رہ جائیں گے ان کی ذمہ داری میت پر ہوگی، وارثوں سے مؤاخذہ نہ ہوگا_,"*
*®_ (مفید الوارثین ص:۳۹، اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۱۸۵)*

*✧⇝"اسی طرح اگر وہ تہائی مال اتنا ہو کہ اللہ تعالی کے سب حقوق اس سے ادا ہو سکتے ہوں لیکن مرنے والے نے صرف بعض حقوق ادا کرنے کی وصیت کی اور باقی حقوق کی نہ کی یا اتنے کم مال کی وصیت کی کہ اس سے وہ سب حقوق ادا نہیں ہو سکتے، مثلاً تہائی مال دو ہزار تھا جس سے سب حقوق ادا ہو سکتے تھے لیکن میت نے ان حقوق میں صرف پندرہ سو روپے خرچ کرنے کی وصیت کی تو وارثوں پر ادائیگی صرف وصیت کی حد تک لازم ہوگی، پورے دو ہزار روپے خرچ کر کے ان سب حقوق کو ادا کرنا لازم نہ ہوگا، البتہ مرنے والا پورے حقوق کی وصیت نہ کرنے کے باعث گنہگار ہوگا_,"*
*®_ (دليل الخیرات ص: ۲۸)*

*✧⇝"خلاصہ یہ ہے کہ بندوں کے قرضوں اور اللہ تعالی کے قرضوں (حقوق) میں تین فرق ہیں:۔*
*✧⇝" ا:- ایک یہ کہ بندوں کے قرضوں کا ادا کرنا میت کی وصیت پر موقوف نہیں، بلکہ وصیت نہ کی ہو تب بھی تجہیز و تکفین کے بعد ان کا ادا کرنا فرض ہے، اور اللہ تعالی کے حقوق کا ادا کرنا میت کی وصیت پر موقوف ہے، وصیت نہ کرے تو ان کا ادا کرنا وارثوں پر لازم نہیں۔*

 *✧⇝"۲: - دوسرا فرق یہ ہے کہ بندوں کا قرض ادا کرنے میں کوئی حد نہیں تھی، تجہیز و تکفین کے بعد سارا ترکہ بھی اس میں خرچ ہوجاۓ تو خرچ کر کے ادا کرنا فرض ہے، اور اللہ تعالی کے حقوق کو بندوں کے تمام قرضے ادا کرنے کے بعد جو ترکہ بچے اس کے صرف ایک تہائی میں سے ادا کرنا فرض ہے، تہائی سے زیادہ خرچ کرنا وارثوں پر لازم نہیں۔*

*✧⇝_۳:- تیسرا فرق ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کے حقوق کا ادا کرنا اسی صورت میں فرض ہے جبکہ بندوں کے تمام قرضے ادا ہو چکے ہوں_,"*
*®_ (مفید الوارثین ص:۴۰)*

*✧⇝"تنبیہ: - قرض کی اس دوسری قسم یعنی اللہ تعالی کے مالی حقوق کی ادائیگی چونکہ وصیت پر موقوف ہے، میت نے وصیت نہ کی ہو تو ادائیگی لازم نہیں،*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ جائز وصیتوں کی تعمیل:-*

*✧⇝"میت کے ترکہ میں ترتیب وار جو چار حقوق واجب ہوتے ہیں ان میں سے دو کی تفصیل پیچھے آچکی ہے، یعنی تجہیز وتکفین اور قرضوں کی ادائیگی ، اب تیسرے حق یعنی وصیت کی ضروری تفصیلات کا بیان ہوتا ہے۔*

*✧⇝"یہ کہنا کہ ”میں اتنے مال کی فلاں کے لئے وصیت کرتا ہوں‘ یا یہ کہنا کہ ”میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال فلاں شخص کو دے دینا‘ یا فلاں کام میں لگا دینا‘ یہ وصیت ہے، خواہ بیماری میں کہا ہو یا تندرستی میں، اور خواہ کہنے والا اس بیماری میں مرا ہو یا بعد میں ۔ ( بہشتی زیور )*

*✧⇝"اگر اپنی موت کا ذکر بالکل نہ کیا ، نہ وصیت کا لفظ بولا، بلکہ صرف یوں کہا کہ فلاں چیز میری فلاں شخص کو دے دو، یا فلاں کام میں لگا دو، تو یہ وصیت نہیں اور اس پر وصیت کے احکام جاری نہ ہوں گے، کیونکہ وصیت شریعت میں وہی ہے جس میں اپنی موت کے بعد کے لئے کوئی ہدایت دی گئی ہو۔ (درمختار ج:۵ ص:۵۲۸)*

*✧⇝" اسی طرح اگر کسی نے مسجد تعمیر کرانے کے لئے یا کنواں وغیرہ بنانے کے واسطے یا فی سبیل اللہ تقسیم کرنے کے لئے یا کسی کو تحفہ، ہدیہ دینے کے ارادہ سے روپیہ رکھا تھا یا سامان جمع کیا تھا یا حج کرنے کے واسطے رقم رکھی تھی اور بقضاء الہی سفر آخرت پیش آگیا، تو یہ سب چیزیں ترکہ میں داخل ہوکر میراث میں تقسیم ہوں گی، اور ان کو وصیت میں شمار نہیں کیا جاۓ گا، کیونکہ اس نے ایسی کوئی ہدایت لوگوں کو نہیں کی جس کو وصیت کہا جا سکے۔ (مفید الوارثین ص:۲۹)*
 
          *╂───────────╂*
*╠☞ _صحیح اور باطل وصیتیں:-١,*

*✧⇝"ہر عاقل بالغ کو اپنے مال میں صرف اتنی وصیت کرنے کا اختیار ہے کہ تجہیز و تکفین اور اداء قرض کے بعد جو ترکہ بچے اس کے ایک تہائی کے اندر وہ وصیت پوری ہو سکے، اگر زائد کی وصیت کی تو تہائی سے زیادہ خرچ کر کے اس کو پورا کرنا وارثوں پر لازم نہیں، کیونکہ باقی دو تہائی صرف وارثوں کا حق ہے، البتہ جو وارث عاقل بالغ ہوں وہ اپنے اپنے حصے میں سے اگر اس زائد وصیت کو بھی پورا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ (درمختار و شامی)*

*✧⇝"اگر کسی کا کوئی وارث ہی نہ ہو تو اس کو تجہیز و تکفین اور اداء قرض سے بچے ہوۓ سارے مال کی وصیت کر جانے کا اختیار ہے، اور اگر وارث صرف بیوی ہے تو تین چوتھائی تک کی وصیت درست ہے، اسی طرح اگر عورت کا وارث شوہر کے علاوہ کوئی نہیں تو نصف مال تک کی وصیت صحیح ہے، کیونکہ ان صورتوں میں کسی وارث کی حق تلفی نہیں ہوتی ۔ (بهشتی زیور، درمختار ج ۵ ص ۵۷۲)*

*✧⇝"اگر میت کے ذمہ قرض اتنا زیادہ ہو کہ ادا ہونے کے بعد کچھ ترکہ باقی ہی نہ رہے تو ہر قسم کی وصیت بیکار اور باطل ہے، اگر قرض خواہ اپنا قرض معاف کر دیں تو جو کچھ مال رہ جاۓ اس کے ایک تہائی میں وصیت پر عمل کیا جاۓ گا ، باقی وارثوں کو ملے گا۔ (مفید الوارثین ص:۲۲ )*

*✧⇝" نابالغ یا مجنون کی وصیت شرعاً باطل ہے، اس پر عمل کرنا ایک تہائی میں بھی واجب نہیں۔ (درمختار و شامی ج:۵ ص:۵۷٦)*

*✧⇝"اپنے کسی وارث کو میراث سے محروم کرنے یا اس کے حصہ میراث میں کمی کرنے کی وصیت بھی باطل ہے، اس پر عمل ہرگز جائز نہیں، اور ایسی وصیت کرنا گناہ بھی ہے ، (مفید الوارثین ص:۵۷ ، درمختار )*

*✧⇝"کسی گناہ کے کام میں مال خرچ کرنے کی وصیت بھی باطل ہے، گناہ بھی ہے۔ اور اس میں ترکہ کو خرچ کرنا وارثوں کی اجازت سے بھی جائز نہیں۔" (درمختار وشامی ج:۵ ص: ۲۰۵ ، وبہشتی زیور )*

*✧⇝"_ میت نے اگر اپنے کسی وارث کے لئے مثلاً ماں، باپ، شوہر، بیٹے وغیرہ کے لئے وصیت کی تو یہ وصیت بھی باطل ہے، کیونکہ ہر وارث کا حصہ میراث میں شریعت نے خود مقرر کر دیا ہے، وہی اس کو ملے گا، وصیت کی بنیاد پر کسی وارث کو کچھ نہیں دیا جاسکتا، تاکہ دوسرے وارثوں کی حق تلفی نہ ہو، البتہ اگر میت کا اس وارث کے علاوہ کوئی اور وارث ہی نہ ہو یا باقی سب وارث راضی ہوں تو ان کی اجازت سے دے دینا جائز ہے ،لیکن نابالغ یا مجنون کی اجازت معتبر نہیں، صرف عاقل بالغ وارث اپنے اپنے حصے میں سے چاہیں تو دے سکتے ہیں۔*
*®_ (بہشتی زیور و مفید الوارثین )*

*✧⇝"_اگر میت نے اپنے قاتل کے لئے وصیت کی خواہ قتل سے پہلے کی ہو یا زخمی ہوجانے کے بعد، تو اگر قاتل نابالغ یا دیوانہ نہیں تھا تو یہ وصیت بھی اکثر صورتوں میں باطل اور بعض صورتوں میں درست ہے، ایسا مسئلہ پیش آ جاۓ تو علماء سے پوچھ کر عمل کیا جاۓ۔*.
*®_ (درمختار و شامی ج:۵ ص:۵۲۹، ۵۷۵)*

*✧⇝"_ اگر وصیت کرنے والے نے اپنی زندگی میں وصیت سے رجوع کرلیا، مثلاً یوں کہا کہ ”میں اس وصیت سے رجوع کرتا ہوں" یا "اسے جاری نہ کیا جاۓ‘ یا ’اسے منسوخ کرتا ہوں‘ تو وہ وصیت باطل ہو جاۓ گی، گویا کی ہی نہیں تھی، جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اس کو اس طرح اپنی وصیت باطل کرنے کا پورا اختیار ہے۔*

*✧⇝"_ اسی طرح اگر زندگی میں ایسا عمل کرے جس سے معلوم ہو کہ وصیت سے پھر گیا ہے، تب بھی وصیت باطل ہو جاۓ گی، مثلاً ایک زمین کسی کے لئے وصیت کی تھی، پھر اسی زمین میں اپنا مکان بنالیا یا الماری کی وصیت کی تھی اور پھر اسی کو فروخت کر دیا یا کسی کپڑے کے تھان کی وصیت کی تھی پھر اسی کو کاٹ کر کپڑے بنوالئے تو ان سب صورتوں میں یہ سمجھا جاۓ گا کہ اس نے وصیت سے رجوع کرلیا ہے، لہذا وصیت باطل ہو جاۓ گی۔*.
*®_ (مفید الوارثین ص:۲۴)*

*✧⇝"_اگر کسی خاص زمین یا خاص مکان یا خاص کپڑے یا خاص جانور وغیرہ کی وصیت کی تھی اور پھر وہ کسی طرح اس کی ملکیت سے نکل گیا یا ضائع ہو گیا یا مرگیا تو وصیت باطل ہوگئی، کیونکہ جس خاص چیز کی وصیت کی تھی وہ موجود ہی نہ رہی۔*
*®_ ( مفید الوارثین ص:۶۴ )*

*✧⇝"_میت نے جس کو مال دیئے جانے کی وصیت کی تھی وہ میت کے انتقال کے بعد اگر وصیت قبول کرنے سے انکار کر دے اور کہہ دے کہ میں نہیں لیتا، تو وصیت باطل ہو جاۓ گی، اب بعد میں وہ اس کا مطالبہ نہیں کر سکتا لیکن اگر انکار میت کی زندگی میں کیا تھا تو باطل نہ ہوگی ، کیونکہ وصیت کو قبول یا رد کرنا وہی معتبر ہے جو میت کے انتقال کے بعد ہو، موت سے پہلے قبول یا رد کا اعتبار نہیں۔*
*®_ (درمختار و شامی ج:۵ ص:۵۷۷)*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25n

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ وصیتوں کی تعمیل کا طریقہ:-*

*✧⇝ تجہیز و تکفین کے بعد اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد جو ترکہ باقی رہے اس کے تین مساوی حصے کر یں گے، ان میں سے دو حصے صرف وارثوں کا حق ہے، جو ان پر شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ وصیت میں خرچ کیا جاۓ گا، خواہ اس ایک تہائی سے اس کی ساری وصیت پوری ہو یا پوری نہ ہو۔*
*"_ اگر ساری وصیتیں پوری ہوکر اس تہائی میں سے کچھ باقی بچا تو وہ بھی سب وارثوں کا ہے۔ (مفید الوارثین )*

*✧⇝ایک سے زیادہ وصیتوں میں بھی یہی حکم ہے کہ اس ایک تہائی کے اندر اندر جس قدر وصیتیں پوری ہو سکیں ادا کر دی جائیں باقی چھوڑ دیں، کیونکہ باقی وصیتوں کا پورا کرنا اور نافذ کرنا وارثوں کے ذمہ لازم نہیں_", ( شامی و بهشتی زیور )*

*✧⇝ وارثوں میں سے جو عاقل بالغ اور حاضر ہوں وہ اپنی خوشی سے اپنے اپنے حصوں میں سے اگر میت کی باقی وصیتوں کو پورا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن غیر حاضر یا نابالغ یا دیوانے ( مجنون ) وارث کا حصہ اس ایک تہائی سے زائد خرچ میں لگانا جائز نہیں،* 

*✧- جو وصیتیں شرعاً زیادہ ضروری ہیں ان کو پہلے پورا کیا جاۓ، ان سے کچھ باقی رہے تو کم ضروری وصیتیں بھی پوری کرنا واجب ہے، ان سے بھی کچھ بچے تو غیر ضروری وصیتوں پر جتنا ہو سکے عمل کرنا واجب ہے،*
*"_ مثلاً قضاء روزوں کے فدیہ کی بھی وصیت کی اور صدقۃ الفطر ادا کرنے کی بھی اور کنواں بنوانے کی بھی، تو سب سے پہلے روزوں کا فدیہ ادا کیا جاۓ، کیونکہ روزے فرض ہیں، پھر اگر کچھ مال بچے تو اس سے صدقۃ الفطر جتنا ادا ہو سکے کر دیں، باقی چھوڑ دیں کیونکہ یہ واجب ہے فرض نہیں، اور کنواں بنوانا بالکل ہی چھوڑ دیں کیونکہ یہ تو واجب بھی نہیں صرف مستحب ہے، مال بچتا تو یہ بھی بنوانا واجب ہوتا ۔*
*®_ (درمختار و شامی و مفید الوارثین )*

*✧⇝ اگر سب وصیتیں برابر درجے کی ہیں، تو جو وصیت پہلے کی تھی اس کو پہلے پورا کیا جاۓ، پھر کچھ مال باقی رہے تو دوسری کو پورا کریں ورنہ نہ کریں، مثلاً روزے کا فدیہ بھی ادا کرنے کی وصیت کی اور نماز کے فدیہ کی بھی، یہ دونوں فرض ہونے کی وجہ سے برابر ہیں، اس لئے جس کی وصیت پہلے کی تھی اس کو پہلے ادا کریں،* 

*✧⇝"_ ان مسائل میں تفصیلات اور باریکیاں بہت ہیں، جب ایسا مسئلہ پیش آۓ تو ماہر علماۓ دین سے پوچھ کر عمل کیا جاۓ،*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _مسائل فدیہ - نماز و روزہ وغیرہ اور ان کی مقدار:-*

*✧⇝"( ا):- ہر روز کی نماز میں وتر سمیت چھ لگائی جائیں گی، اور ہر نماز کا فدیہ ایک سیر ۱٢.٥ چھٹانک گندم یا اس کی قیمت ہوگی ، احتیاط اس میں ہے کہ پورے دو سیر گندم یا اس کی قیمت ادا کی جاۓ، اس طرح ایک دن کی نمازوں کا فدیہ پورے بارہ سیر گندم یا اس کی قیمت ہوگی۔*

*✧⇝"( ۲):- ہر روزہ کا فدیہ ایک نماز کے فدیہ کے برابر ہے( جو پہلے گزر چکا) ، یعنی ایک سیر ١٢.٥ چھٹا نک ( اور احتیاطا دو سیر ) گندم یا اس کی قیمت، رمضان کے روزوں کے علاوہ اگر کوئی نذر ( منت) مانی ہوئی تھی تو اس کا بھی فدیہ دینا ہوگا۔*

*✧⇝"( ۳): - زکوۃ جتنے سال کی ہو اور جتنی مقدار مال کی رہی ہے اس کا حساب کر کے ادا کرنا ہوگا۔*

*✧⇝"(٤) : - حج فرض اگر میت ادا نہیں کرسکا تو میت کی بستی سے کسی کو حج بدل کے لئے بھیجا جاۓ گا اور اس کا پورا کرایہ آمد و رفت اور قیام و طعام کے تمام ضروری مصارف ادا کرنے ہوں گے، اگر ترکہ کے ایک تہائی میں اتنی گنجائش نہ ہو تو جس بستی سے مصارف کم آتے ہوں وہاں سے بھیج دیا جاۓ۔*

*✧⇝"(۵):- جتنے صدقۃ الفطر رہے ہوں ہر ایک کے ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانک (اور احتیاطاً پورے دوسیر گندم ) یا اس کی قیمت ادا کی جاۓ۔*

*✧⇝"( ۲): - قربانی کوئی رہ گئی ہو تو اس سال میں ایک بکرے کی قیمت یا ساتویں حصے کا اندازہ کر کے قیمت کا صدقہ کیا جاۓ۔*

*✧⇝"(٧):- سجدہ تلاوت رہ گئے ہوں تو احتیاط اس میں ہے کہ ہر سجدہ کے بدلے ایک نماز کے فدیہ کے برابر صدقہ کیا جاۓ۔*

*✧⇝"(٨ ):- اگر فوت شدہ نمازوں یا روزوں وغیرہ کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو تو تخمینے سے حساب کیا جاۓ۔*

*®_ ( یہ سب مسائل رسالہ حیلہ اسقاط سے ماخوذ ہیں)*

          *╂───────────╂*
*╠☞_ ناجائز وصیتوں کی چند مثالیں:-*

*✧⇝ باطل وصیتوں کا بیان پیچھے آچکا ہے، انہی باطل وصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کسی ناجائز کام میں مال خرچ کرنے کی وصیت کی ہو،*
*"_ مثلاً - تیجہ (سوئم) کرنے کی یا گیارہویں، بارہویں، دسواں، بیسواں، چالیسواں (چہلم ) کرنے یا مروجہ میلاد یا عرس کرانے کی وصیت کی,*

*✧⇝یا پکی قبر بنانے یا اس پر قبہ ( گنبد ) بنانے کی وصیت کی، یا یہ وصیت کی کہ قبر پر کسی حافظ قرآن کو پیسے دے کر بٹھا دینا تاکہ پڑھ پڑھ کر ثواب بخشتا رہے،*

*✧⇝"تلاوت قرآن پر اجرت لینا حرام ہے، جو تلاوت اجرت لے کر کی جاۓ اس کا ثواب نہ پڑھنے والے کو ملتا ہے، نہ میت کو، بلکہ ایسا کرنے والا الٹا گنہگار ہوتا ہے۔ (شرح عقو و رسم مفتی )*

*✧⇝" یا کسی وارث کو محروم کرنے کی یا سینما ہال بنانے کی وصیت کی تو ایسی و صیتیں کرنے والا سخت گنہگار ہے اور ان وصیتوں پر عمل کرنا بھی جائز نہیں_,"*

*®_ (شامی ج:۵ ص:۲۰۵ و بهشتی زیور )* 

          *╂───────────╂*
*╠☞_ وصیت نامہ :-*

*✧⇝"_ وصیت کے لئے بہتر اور آسان صورت یہ ہے کہ ایک خاص کاپی تیار کرلیں، اس کے سرورق پر ’وصیت نامہ اور’ضروری یادداشتیں' لکھ دیا جاۓ، اور اندر مندرجہ ذیل عنوانات میں سے ہر عنوان کے لئے کئی کئی ورق خاص کر لئے جائیں:۔*
*★"_ا:- نماز میں جو احقر کے ذمہ باقی ہیں۔*
*★"_۲: - زکوۃ جو احقر کے ذمہ باقی ہے۔*
*★"_ ۳: - رمضان اور منت کے روزے جو احقر کے ذمہ باقی ہیں ۔*
*★"_ ۴:- حج فرض۔*
*★"_ ۵: - صدقۃ الفطر جو احقر کے ذمہ اپنے اور اپنے نابالغ بچوں کے باقی ہیں ۔*

*★"_۲:- قربانیاں جن برسوں کی احقر کے ذمہ باقی ہیں ان کی قیمت کا صدقہ کرنا ہے،*
*★"_٧ :- سجدہ تلاوت جو احقر کے ذمہ باقی ہیں۔*
*★"_٨: ۔ قسم کے کفارے جو احقر کے ذمہ باقی ہیں۔*
*★"_ 9:- دوسروں کا قرض جو احقر کے ذمہ باقی ہے۔ اور احقر کا قرض جو دوسروں کے ذمہ ہے۔*
*★"_١٠:- احقر کی امانتیں جو دوسروں کے پاس ہیں اور دوسروں کی امانتیں جو احقر کے پاس ہیں۔*
*★"_١١: - وصیت نامہ۔*

*✧⇝"_اس طرح عنوانات قائم کرنے کے بعد ہر عنوان کے تحت جو صورت حال ہو تحریر کرتے رہیں، اگر اس عنوان سے متعلق کوئی چیز آپ کے ذمہ نہیں تو یہی لکھ دیں ، اگر ذمہ ہے تو اس کی تفصیل لکھ دیں، پھر اس میں سے جتنی جتنی ادائیگی زندگی میں ہوتی جاۓ اس کو منہا کرتے رہیں، کوئی چیز مزید واجب ہو جاۓ تو اس کا اضافہ کر دیں۔*

*✧⇝"_بہرحال ہر عنوان کے تحت مکمل حساب لکھا رہنا چاہئے اور آخری عنوان وصیت نامہ کے اندر بھی تحریر کر دیں کہ پچھلے اوراق میں جو حقوق اور حسابات درج ہیں ان کے مطابق ادائیگی کی جاۓ، اس کے علاوہ وصیت نامہ میں حسب حال اندراج کرتے رہیں، اور حسب ضرورت ترمیم و اضافہ کرتے رہیں، اپنے کسی قابل اعتماد کو بتادیا جاۓ کہ یہ کاپی فلاں جگہ رکھی ہے، تا کہ کسی وقت بھی پیغام اجل آ جاۓ تو اللہ اور ہندوں کے حقوق ادا ہوسکیں اور اپنے اوپر دنیا و آخرت کا بار نہ رہے۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _مرض الموت میں تحفہ یا صدقہ دینا بھی بحکم وصیت ہے:-*

*✧⇝" خلاصہ یہ کہ مرض الموت میں دیئے ہوۓ تحفے ، ہدیے اور صدقات و خیرات سب کے سب وصیت کے حکم میں ہیں، جو پابندیاں وصیت میں ہیں وہی ان میں بھی ہوں گی ،*

*✧⇝"جس طرح تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر جانا درست نہیں، اسی طرح مرض الموت میں اپنا مال تہائی سے زیادہ کسی کو بلا معاوضہ دینا مثلاً ہدیہ، ہبہ یا فدیہ وصدقہ دینا بھی درست نہیں، کیونکہ اس میں وارثوں کی حق تلفی ہے، اگر تہائی سے زیادہ دے دیا تو جب تک میت کے انتقال کے بعد سب وارث اس کی اجازت نہ دیں یہ دینا درست نہ ہوگا، جتنا تہائی سے زیادہ ہے وارثوں کو واپس لینے کا اختیار ہے، اور نابالغ یا مجنون اگر اجازت دیں تب بھی معتبر نہیں،*

*✧⇝"اور مرض الموت میں کسی وارث کو تہائی کے اندر بھی سب وارثوں کی اجازت کے بغیر دینا درست نہیں، اور یہ سب حکم اس وقت ہے جبکہ اپنی زندگی میں دے کر قبضہ بھی کرا دیا ہو، اور اگر دے تو دیا لیکن تحریری یا زبانی کہہ دیا کہ اتنا مال میں نے فلاں کو دے دیا ہے، لیکن قبضہ ابھی نہیں ہوا تو مرنے کے بعد وہ دینا بالکل ہی باطل ہے، اس کو کچھ نہ ملے گا وہ سب مال وارثوں کا حق ہے۔*

*✧⇝مرض الموت میں خدا کی راہ میں دینے اور نیک کام مثلاً وقف وغیرہ میں لگانے کا بھی یہی حکم ہے، غرضیکہ تہائی سے زیادہ مال بلا معاوضہ دینا کسی طرح درست نہیں، اور وارث کو دینا تہائی میں بھی درست نہیں ۔*
*®_(بهشتی زیور و در مختار )*
 
*✧⇝"بیمار کے پاس مرض الموت میں مزاج پرسی کے لئے کچھ لوگ آگئے اور کچھ روز یہیں رہے اور اس کے مال میں کھاتے پیتے رہے، تو اگر مریض کی خدمت کے لئے ان کے رہنے کی ضرورت ہو تو کچھ حرج نہیں، اور اگر ضرورت نہ ہو تو ان کی دعوت، خاطر تواضع اور کھانے پینے میں بھی تہائی سے زیادہ لگانا جائز نہیں، اور اگر ضرورت بھی نہ ہو اور وہ لوگ وارث ہوں تو تہائی مال سے کم بھی بالکل جائز نہیں، یعنی ان کو اس کے مال میں کھانا جائز نہیں، ہاں! اگر سب وارث راضی ہوں تو جائز ہے۔*
*®_( بہشتی زیور )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ مرض الموت کب سے شمار ہوگا ؟*

*✧⇝"_ مرض الموت اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں مبتلا ہوکر آدمی دنیا سے رخصت ہو جاۓ، زندگی میں ہرگز یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ بیماری کون سی ہے جس میں مریض دنیا سے رخصت ہو جاۓ گا۔ ( مفید الوارثین )*

*✧⇝"_جب کوئی شخص کسی مرض میں مبتلا ہوکر مر جاۓ تو جس وقت سے مبتلا ہوا تھا اسی وقت سے مرض الموت کی حالت شمار ہوگی، لیکن جو مرض سال بھر تک یا زیادہ رہا ہو اس کو ابتداء ہی سے مرض الموت شمار نہ کریں گے، بلکہ جس وقت مرض شدید ہوکر ہلاکت کی نوبت پہنچی ہے اس روز سے مرض الموت شمار ہوگا، اور اسی روز سے مرض الموت کے احکام جاری ہوں گے،*

*✧⇝"مثلاً - اگر کوئی شخص سال دو سال سے تپ دق (ٹی بی) میں یا فالج یا مرگی یا بواسیر وغیرہ امراض مزمنہ میں مبتلا تھا، اس کے بعد ایک ہفتہ کے لئے مرض شدید ہوکر اسی میں انتقال ہو گیا، تو مرض الموت صرف ایک ہفتہ شمار ہوگا، اس سے پہلے کے سب معاملات ہبہ، صدقہ وغیرہ بالکل جائز اور مثل حالت صحت کے سمجھے جائیں گے۔ (شامی، در مختار ج ۵ ص ۵۷۹ و مفید الوارثین )*

*✧⇝"_عورت اگر ولادت کی تکلیف میں مر گئی تو جس وقت سے درد زہ شروع ہوا تھا اس وقت سے مرض الموت شمار ہوگا ۔ (مفید الوارثین و بهشتی زیور )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _وصی یعنی وصیت کا وکیل اور نائب:-*

*✧⇝"_وصیت کرنے والا جس شخص کو اپنی موت کے بعد ترکہ سے قرضوں کی ادائیگی یا وصیتوں کی تعمیل، میراث کی تقسیم اور اپنے بچوں کے معاملات کا انتظام وغیرہ کرنے کے لئے اپنا نائب اور وکیل مقرر کر دے اس کو وصی کہتے ہیں، جس کو وصی بنایا تھا اگر اس نے زبان سے قبول کر لیا تب بھی اس پر لازم ہوگیا، یا کوئی ایسا کام کیا جس سے معلوم ہو گیا کہ یہ شخص وصی بننے پر راضی ہے تب بھی وہی بن گیا۔*

*✧⇝"_ لیکن جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے وصی کو اختیار ہے کہ وصی بنے سے انکار کر دے، البتہ اس کی موت کے بعد اختیار نہ رہے گا۔*
*®_ (مفید الوارثین ص:۲۵)*

*✧⇝"_ اگر ایک شخص کو بعض امور کا وصی بنایا اور دیگر امور کا کچھ ذکر نہیں کیا، اور نہ ان کے لئے کسی اور کو وصی بنایا ہے تو تمام امور کا بھی یہی شخص سمجھا جاۓ گا،*

*✧⇝"_ اگر تمام امور میں دو شخصوں کو بھی بنایا ہے تو ان دونوں کو باہم مل کر کام کرنا چاہئے، صرف ایک شخص اگر تصرفات کرے گا تو ناجائز ہوں گے، البتہ اگر تجہیز و تکفین کا انتظام اور میت کے اہل وعیال کی فوری ضروریات کو ایک شخص بھی انجام دیدے تو جائز و معتبر ہوگا۔*
*®_(درمختار ج ۵ ص:۶۱۲ و مفید الوارثین )*
 
          *╂───────────╂*
*╠☞ - وارثوں پر میراث کی تقسیم_"*

*✧⇝"_ میت کے ترکہ میں ترتیب وار جو چار حقوق واجب ہوتے ہیں ان میں سے تین کی تفصیل پیچھے آ چکی ہے، یعنی تجہیز وتکفین، قرضوں کی ادائیگی اور جائز وصیتوں کی تعمیل، اب چوتھے حق یعنی 'وارثوں پر میراث کی تقسیم‘ کا بیان ہوتا ہے۔*

*✧⇝"جائز وصیتوں کی تعمیل تہائی ترکہ کی حد تک کرنے کے بعد جو کچھ مال باقی رہے وہ سب کا سب میت کے تمام وارثوں کی ملکیت ہے، جو ان میں شریعت کے مقرر کئے ہوۓ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔*

*✧⇝"شریعت نے ہر وارث کا حصہ خود مقرر کر دیا ہے، جس میں رد و بدل، ترمیم یا کمی بیشی کا کسی کو اختیار نہیں، البتہ خود شریعت ہی نے ہر وارث کا حصہ ہر حالت میں ایک نہیں رکھا، بلکہ مختلف حالات میں مختلف حصے مقرر کئے ہیں، ( جن کو اپنے معتبر علماء حضرات سے معلوم کیا جانے ،*

*✧⇝" جب کسی کا انتقال ہو تو انتقال کے وقت اس کے ماں، باپ، لڑکے، لڑکیاں اور بیوی یا شوہر میں سے جو جو زندہ ہو ( خواہ وہ مختلف ملکوں میں ہوں ) ان کی مکمل فہرست، تعداد اور رشتہ لکھ کر کسی معتبر عالم ومفتی سے وارثوں کے حصے دریافت کرلیں، اور اس کے بتاۓ ہوۓ طریقہ اور حساب کے مطابق میراث تقسیم کر دیں،*

*✧⇝"اگر میت کے انتقال کے وقت مذکورہ بالا وارثوں میں سے بعض زندہ ہوں، بعض نہ ہوں تو میت کے دوسرے زندہ رشتہ داروں کی تعداد بھی مع رشتہ لکھیں،*

*✧⇝" میت کے جو حقیقی بھائی بہن ہوں یا صرف باپ شریک ہوں یا صرف ماں شریک ہوں، ان کی بھی الگ الگ ضرور وضاحت کریں، سوتیلے ماں باپ اور ساس سسر اور سسرالی رشتہ دار شرعاً وارث نہیں، ان کو فہرست میں شامل نہ کیا جاۓ ۔*

*✧⇝"_میت کے انتقال کے بعد اگر اس کا کوئی وارث تقسیم میراث سے پہلے فوت ہو گیا تو اس کا حصہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگا، لہذا اس فوت ہونے والے کو بھی فہرست میں شامل کرنا ضروری ہے۔*

          *╂───────────╂*
    
*╠☞ _کئی رشتہ دار ایک حادثہ میں ہلاک ہو گئے تو اس کا حکم:-*

*✧⇝"_اگر کئی رشتہ دار ایک حادثہ میں ہلاک ہو گئے اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کس کی موت پہلے اور کس کی بعد میں ہوئی، مثلاً ایک جہاز میں بہت سے رشتہ دار ایک ساتھ غرق ہوگئے یا کسی گاڑی وغیرہ کے حادثہ میں یا کسی عمارت کے گر جانے سے ہلاک ہو گئے اور یہ معلوم نہ ہو کہ کون پہلے مرا ہے، کون بعد میں؟ تو ایسی صورت میں کوئی دوسرے کا وارث نہ ہوگا اور شرعاً یوں سمجھا جائے گا کہ گویا سب ایک ساتھ ہلاک ہوۓ ہیں، نہ یہ اس کا وارث ہوگا ، نہ وہ اس کا، ان کے بعد جو وارث زندہ رہے ہیں صرف ان میں میراث تقسیم ہوگی۔*
*®_ ( مفید الوارثین ص:۷۰ )*

*☞ _ مفقود ( گم شدہ ) وارث کا حصہ میراث:-*

*✧⇝"_ جو وارث میت کے انتقال سے پہلے کہیں لا پتہ ہو گیا ہو اور تلاش کے باوجود یہ معلوم نہ ہو سکے کہ زندہ ہے یا مرگیا؟ تو ایسے شخص کو’مفقود‘ کہا جاتا ہے، اس کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اس کا حصہ میراث بطور امانت محفوظ رکھا جاۓ، اگر آ گیا تو لے لے گا، اور اگر نہ آیا یہاں تک کہ انتظار کی مقررہ شرعی مدت گزر جانے کے بعد مسلمان حاکم نے شرعی قاعدے کے مطابق اسے مردہ قرار دے دیا تو وہ امانت رکھا ہوا حصہ بھی میت کے باقی وارثوں میں تقسیم ہوگا، مفقود کے وارثوں میں نہیں، البتہ مفقود کا اپنا مال مفقود ہی کے موجودہ وارثوں میں تقسیم ہوگا۔*
*®_ (اصلاح انقلاب امت ج:۲ ص: ۲۱۳ تا ۲۱۸)*

*✧⇝"_ اس مسئلہ میں بھی تفصیلات بہت ہیں، ایسی صورت پیش آ جاۓ تو کسی صاحب فتویٰ عالم دین سے پوچھ کر عمل کیا جاۓ۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ "_ متفرق:-*

*✧⇝"_کوئی وارث بطن مادر میں ہو تو تقسیم میراث موقوف رہے گی:- اگر میت کے انتقال کے وقت اس کا کوئی وارث بطن مادر میں یعنی ماں کے پیٹ میں ہے، ابھی اس کی ولادت نہیں ہوئی تو میراث میں شرعاً وہ بھی حصہ دار ہے، مگر چونکہ معلوم نہیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی ، اس لئے جب تک اس کی ولادت نہ ہو جاۓ میراث تقسیم نہ کی جائے، (اصلاح انقلاب امت )*

*✧⇝"_ قاتل اپنے مقتول کا وارث نہیں ہوتا، یعنی اگر میت کو کسی ایسے رشتہ دار نے ظلماً قتل کیا ہو جو شرعاً اس کا وارث تھا، تو اس قتل کی وجہ سے شریعت نے اسے اپنے مقتول کی میراث سے محروم کر دیا ہے، اگر چہ وہ مقتول کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار ہو، مثلا باپ یا بیٹا ہو تب بھی وارث نہ رہے گا ،لیکن شرط یہ ہے کہ قتل کر نے والا عاقل بالغ ہو، اگر نابالغ یا مجنون نے قتل کیا تو وہ اپنے مقتول کی میراث سے محروم نہ ہوگا، (شریفیه شرح سراجی ص:۱۲،۱۱)*

*✧⇝"_ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان بھی میراث جاری نہیں ہوتی، یعنی مسلمان غیر مسلم کا اور غیر مسلم مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا، اگر چہ دونوں میں کتنی ہی قریبی رشتہ داری ہو، خواہ باپ بیٹے ہی ہوں، ( شریفیہ شرح سراجی ص:۱۴)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ ترکہ کے متعلق کوتاہیاں:-*

*✧⇝"_ شریعت کا حکم ہے کہ ترکہ میں جن حقوق کی ادائیگی واجب ہے جلد ان کو ادا کر کے باقی میراث وارثوں کے درمیان تقسیم کر دی جاۓ، تاخیر ہونے سے بہت زیادہ پیچیدگیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض مرتبہ زیادہ تاخیر ہونے سے تقسیم میراث میں سخت الجھنیں اور مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور حق تلفی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔*

*✧⇝"_ یہ جذبات محض مہمل ہیں کہ اگر مرحوم کا ترکہ فوراً تقسیم کیا جاۓ تو دنیا یہ کہے گی کہ بس اس کے منتظر تھے کہ مرحوم کی آنکھ بند ہو اور اس کے سرمایہ پر قبضہ کرلیا جاۓ ،مگر اللہ تعالی کے حکم کے آگے یہ سب خیالات و جذبات لغو ہیں، سب وارثوں کو بتا دیا جاۓ کہ ترکہ کی تقسیم اللہ تعالی کا حکم ہے، اور اس کے مطابق جلد از جلد عمل کیا جاۓ ۔*

*☞ "_ ترکہ کے متعلق بعض کوتاہیاں جو کثرت سے ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں:-* 
*✧⇝"_1_ میت کا قرض ادا نہ کرنا:-- عام طور پر ایک کو تا ہی یہ کی جاتی ہے کہ تحریری قرضہ کے علاوہ اگر کوئی دوسرا قرضہ دلیل شرعی سے میت کے ذمہ ثابت ہو تو شاید ہی کوئی ترکہ سے اس کو ادا کرتا ہے، ورنہ صاف انکار کر دیتے ہیں، ایسے ہی میت قرضے جو دوسروں کے ذمہ ہوں وہ لوگ ان سے مکر جاتے ہیں، دونوں باتیں صریحاً ظلم ہیں، خصوصاً میت پر اگر قرض ہو تو ورثاء کو سمجھنا چاہئے کہ مرحوم کی روح جنت میں جانے سے معلق رہے گی، جب تک قرض نہ ادا ہو، تو کیا اپنے عزیز کے لئے اتنی زبردست محرومی قابل برداشت ہے ؟*
 
*®_ (اصلاح انقلاب امت ص:۲۴۲)*



*✧⇝2_ جائز وصیت پوری نہ کرنا :-_ایک بڑی بے احتیاطی یہ ہو رہی ہے کہ میت کی جائز وصیت کی پرواہ نہیں کی جاتی، حالانکہ جہاں تک شرع نے وصیت کا اختیار دیا ہے یعنی تہائی ترکہ تک وہ اس کی ملک ہے، وصیت کرنے کے بعد کسی کو اس میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر اس میں مرحوم کی خلاف ورزی کر کے اس کی جائز وصیت پوری نہ کی تو اس کی حق تلفی ہوگی، اور حق العبد رہ جاۓ گا، اس لئے بڑے فکر و اہتمام سے میت کی وصیت پوری کرنی چاہئے، اگر مرحوم نے کسی ناجائز کام میں خرچ کرنے کی وصیت کی ہو تو اسے پورا کرنا جائز نہیں ۔*
*®_ (ماخوذ از وعظ’ اسلام حقیقی)*

*✧⇝3_ بلا وصیت نماز روزہ کا فدیہ مشترک ترکہ سے دینا:- ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ تقوی کے جوش میں میت کی وصیت کے بغیر ہی مشترک ترکہ میں سے میت کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دے دیتے ہیں یا اس کی طرف سے زکوۃ یا حج کرا دیتے ہیں، حالانکہ پیچھے بار بار معلوم ہو چکا ہے کہ اگر میت نے وصیت نہ کی ہو تو اس کی طرف سے جو وارث فدیہ یا زکوة يا حج ادا کرنا چاہے اپنے حصہ میراث یا اپنے دوسرے مال سے ادا کرے، جس کا بہت ثواب ہے ،لیکن دوسرے وارثوں کے حصے میں سے ان کی مرضی کے بغیر دینا جائز نہیں، اور نابالغ یا مجنون کے حصے میں سے دینا ان کی اجازت سے بھی جائز نہیں ۔*
*®_ (اصلاح انقلاب أمت ج:۱ ص:۲۳۹)*


*✧⇝"_ 4- نماز روزوں کے فدیہ کی پروا نہ کرنا :- ایک کوتاہی یہ ہے کہ کوئی وصیت کئے بغیر مرجاۓ تو وارث نماز، روزوں کے فدیہ وغیرہ سے کم درجہ کے مصارف میں بلکہ فضول مصارف میں، حتیٰ کہ اس سے پڑھ کر یہ کہ ناجائز رسموں اور بدعتوں میں میت کا ترکہ اڑاتے ہیں، مگر اس طرف بہت کم لوگ توجہ کرتے ہیں کہ اور مصارف بند کر کے اپنے حصہ میراث میں سے کچھ میت کی طرف سے فدیہ میں دے دیں یا اگر میت کے ذمہ زکوۃ یا حج وغیرہ رہ گئے ہیں تو وہ ادا کر دیں ۔*
*®_(اصلاح انقلاب امت ص: ۲۰۰، بحوالہ ردالمحتار )*

*✧⇝"_5- فدیہ کی ادائیگی کے لئے ”حیلہ اسقاط:- حیلہ اسقاط بعض فقہائے کرام نے ایسے شخص کے لئے تجویز فرمایا تھا جس کے کچھ نماز ، روزے وغیرہ اتفاقاً فوت ہو گئے ہوں، قضاء کرنے کا موقع نہیں ملا اور موت کے وقت وصیت کی لیکن اتنا ترکہ نہیں چھوڑا کہ جس کے ایک تہائی سے تمام فوت شدہ نماز، روزوں کا فدیہ ادا کیا جا سکے، یہ نہیں کہ اس کے ترکہ میں مال موجود ہو، اس کو تو وارث بانٹ کھائیں اور تھوڑے سے پیسے لے کر حیلہ حوالہ کر کے خدا اور مخلوق خدا کو فریب دیں ۔*

*✧⇝"_ فقہ کی کتابوں درمختار و شامی وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے، ساتھ ہی اس حیلہ کی کچھ اور شرطیں بھی ہیں جن کی آج کل بالکل رعایت نہیں کی جاتی، ان کی تفصیلات مفتی اعظم حضرت مولا نا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ حیلہ اسقاط میں دیکھی جاسکتی ہے،*

*✧⇝6- کسی خاص شخص سے نماز پڑھوانے یا خاص جگہ دفن کرنے کی وصیت:- بعض لوگ کسی خاص شخص سے نماز پڑھوانے یا کسی خاص مقام پر دفن ہونے کی وصیت کر جاتے ہیں، پھر وارث اس کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ بعض اوقات شرعی واجبات کی بھی خلاف ورزی ہو جاتی ہے، یاد رکھئے! از روۓ شرع ایسی وصیتیں لازم نہیں ہوتیں، اگر کوئی بات خلاف شرع لازم نہ آۓ تو اس پر عمل جائز ہے ورنہ جائز نہیں ۔*
*®_ (اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۲۴۳)* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ میراث تقسیم نہ کرنا:-*

*✧⇝"_ایک سنگین کوتاہی جو بہت کثرت سے ہو رہی ہے یہ ہے کہ میت کی میراث تقسیم نہیں کی جاتی، جس کے قبضہ میں جو مال ہے وہی اس کا مالک بن بیٹھتا ہے اور طرح طرح کے حیلے بہانے کر کے اس کو اپنے لئے حلال بنانے کی کوشش کرتا ہے، پڑھے لکھے لوگ بھی اس میں گرفتار ہیں، اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی تو ہیں، باہم ایک دوسرے کو تصرف کی اجازت بھی ہے، لہذا تقسیم کی کیا ضرورت ہے؟ اور یہ تاویل وہی شخص کر سکتا ہے جو قابض ہو کیونکہ اس میں اس کا نفع ہے۔*

*✧⇝"_ دوسرے ورثاء چھوٹے یا ماتحت ہونے کے باعث شرما شرمی سے کچھ نہیں کہتے ، مگر دل سے کوئی اجازت نہیں دیتا، اس لئے ان کی یہ ظاہری اجازت خوش ولی سے نہیں ہوتی ، جس کی بناء پر ایک وارث کا تمام ترکہ پر قبضہ کر لینا بالکل حرام اور نا جائز ہوتا ہے، لہذا عذاب قبر اور عذاب جہنم سے ڈریں اور ظلم وغصب سے باز آئیں اور وارثوں کو شرع کے مطابق ان کا پورا پورا حق پہنچائیں۔*

*☞ _ بہنوں اور لڑکیوں کو میراث نہ دینا ظلم ہے:-*
*✧⇝"_ ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض لوگ بہنوں اور لڑکیوں کو میراث نہیں دیتے، ان کو شادی کے موقع پر تحفے تحائف دینے سے سمجھتے ہیں کہ ان کا جو حق تھا وہ ادا ہو گیا، یاد رکھئے! اس طرح تحفے تحائف دینے سے ہرگز میراث سے ان کا حق ختم نہیں ہوتا ، ان کا حصہ میراث پورا پورا ادا کرنا واجب ہے اور ان کو میراث سے محروم کرنا حرام اور ظلم ہے۔ (اصلاح انقلاب امت ص:۲۴۱)*

*☞ _ بہنوں سے حصہ میراث معاف کرا لینا:-*
*✧⇝"_اکثر و بیدار اور اہل علم گھرانوں میں بھی پایا جاتا ہے کہ بہنوں سے حصہ میراث معاف کرا لیتے ہیں ،لیکن خوب سمجھ لیں اور یاد رکھیں کہ رسمی طور پر بہنوں کے معاف کرنے سے آپ ہرگز بری الذمہ نہیں ہو سکتے،*

*✧⇝"_خلاصہ یہ ہے کہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہ میراث ہضم کرنے کے جو چالیں بھی چلی جاتی ہیں وہ از روئے شرع مردود اور باطل ہیں، سلامتی اس میں ہے کہ صاف دل سے ان کا پورا پورا حصہ ان کے قبضے میں دے دیا جاۓ ۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞_ ترکہ پر قبضہ کر کے تجارت کرنا اور ترکہ میں سے چوری کرنا:-*

*✧⇝" ایک کوتاہی یہ ہو رہی ہے کہ میت کے انتقال کے بعد میت کا کاروبار اس کی حیات سے جس وارث کے قبضے میں ہوتا ہے وہی بعد میں بھی اس پر قابض رہتا ہے اور اس کو چلاتا ہے، جس سے کاروبار بڑھتا ہے اور ترقی کرتا ہے اور یہ سب کچھ ورثاء کی بلا اجازت ہوتا ہے، کچھ ورثاء نابالغ ہوں تو ان کی اجازت کا کچھ اعتبار نہیں،*

*✧⇝" پھر بعد میں ایک عرصہ گزرنے کے بعد تقسیم کا خیال آتا ہے تو پھر اصل اور نفع دونوں کی تقسیم میں سخت جھگڑا ہوتا ہے اور شرعی اعتبار سے بھی اس نفع میں بڑی الجھنیں ہیں، اس لئے پہلے تقسیم کر میں ، اس کے بعد باہمی رضامندی سے مشترک یا علیحدہ علیحدہ کاروبار کریں، نابالغ کی طرف سے ان کا ولی شرکت یا عدم شرکت کا معاملہ کر سکتا ہے۔*

*✧⇝"_ ایک کوتاہی یہ ہے کہ جو چیز جس وارث کے قبضے میں آ جاتی ہے وہ اس کو چھپا لیتا ہے، یاد رکھئے ! قیامت کے دن سب اگلنا پڑے گا ۔ ( الصلاح انقلاب امت ص:۲۴۱)* 

          *╂───────────╂*
*╠☞_ بیوہ کے متعلق کوتاہیاں:-*

*☞"_بیوہ کو نکاح ثانی کرنے پر میراث سے محروم کرنا:- بعض جگہ یہ دستور ہے کہ اگر بیوہ دوسرا نکاح کر لے تو اسے مرحوم شوہر کی میراث سے محروم کر دیتے ہیں، اس لئے وہ بیچاری حصہ میراث محفوظ رکھنے کی خاطر دوسرا نکاح نہیں کرتی اور عمر بھر بیوگی کے مصائب برداشت کرنے کے ساتھ مرحوم شوہر کے اعزہ و اقرباء کے شب و روز طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنی رہتی ہے۔ یاد رکھئے! یہ بھی سراسر ظلم اور حرام ہے، نکاح ثانی کرنے کے باوجود از روۓ شرع ہیوہ بدستور اپنے حصہ میراث کی مالک رہتی ہے۔*

*☞"_بیوہ کو دوسرے قبیلہ سے ہونے کی بناء پر محروم کرنا:- سندھ میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ جو عورت شوہر کے قبیلہ سے نہ ہو اسے شوہر کے مال سے حصہ میراث نہیں دیتے، یہ بھی بہت بڑا ظلم اور جہالت ہے، بیوہ کا حصہ قرآن کریم نے بہرحال فرض کیا ہے خواہ وہ شوہر کے خاندان سے ہو یا کسی دوسرے خاندان سے ۔*

*☞_بیوہ کا ناحق تمام تر کہ پر قبضہ کرنا:- ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضی عورتیں مرحوم کے انتقال کے بعد اپنے کو تمام منقول مال کا مالک سمجھتی ہیں، یہ بھی ظلم ہے، جو چیز شوہر نے اس کو اپنی زندگی میں مرض الموت سے پہلے ہبہ کر کے قبضے میں دے دی وہ بے شک اس کی ہے، باقی سب ترکہ مشترک ہے، قواعد شرعیہ کے مطابق سب وارثوں پر تقسیم کرنا واجب ہے۔ (اصلاح انقلاب امت ص:۲۴۱ )*

*☞⇝"_ دلہن میکے یا سسرال میں مرجاۓ تو اس کے جہیز کا حکم:- ایک کوتاہی یہ ہے کہ اگر دلہن اپنے میکے میں مر جائے تو اس کے تمام ساز و سامان اور جہیز وغیرہ پر وہ لوگ قبضہ کر لیتے ہیں، اور اگر سسرال میں مرجائے تو شوہر اور اس کے اولیاء قبضہ کر لیتے ہیں، یہ بھی سراسر ناجائز ہے، آخرت میں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا، بہر حال دلہن کے جہیز اور تمام ترکہ میں دلہن کے تمام وارثوں کا حصہ ہے، جن میں شوہر بھی داخل ہے، اور دلہن کے والدین وغیرہ بھی، اگر چہ دلہن کا انتقال کہیں بھی ہوا ہو_,"*
*®_ ( اصلاح انقلاب امت ج:1 ص:۲۴۲)* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _مرنے سے پہلے بندوں کے حقوق کی معافی تلافی ضروری ہے:-*

*✧⇝"_حقوق العباد (بندوں کے حقوق) کا معاملہ نہایت سنگین ہے، کیونکہ وہ صاحب حق کی معافی کے بغیر معاف نہیں ہوتے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: جس کے ذمہ کسی ( مسلمان یا انسان) بھائی کا کچھ حق ہو، اس کی آبرو سے متعلق یا اور کسی قسم کا، وہ آج اس سے معاف کرائے، ایسے وقت (یوم حساب) سے پہلے کہ جب اس کے پاس نہ دینار ہوگا نہ درہم ۔ ( مشکوۃ باب الظلم )*

*✧⇝"_ حقوق العباد 2 قسم کے ہوتے ہیں، ایک مالی ، دوسرے غیر مالی۔ مالی حقوق کے متعلق ضروری مسائل پیچھے ترکہ، قرضوں، وصیت اور میراث کے بیان میں آچکے ہیں، ان کا بغور مطالعہ کر لیا جاۓ، اور غیر مالی حقوق کا مختصر بیان یہ ہے:۔*

*✧⇝"_بندوں کے غیر مالی حقوق:-*
*"_ روز و مرہ کی زندگی میں عزیز و اقارب و دوست و احباب کے تعلقات میں اور لین دین کے معاملات میں، بدگمانی کی وجہ سے، حجھوٹ یا دھوکا فریب سے دوسرے شخص کی آبرو یا مال کا نقصان ہوجانے سے تکلیف پہنچ جاتی ہے، اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن سے دوسرے شخص کی حق تلفی ہوتی ہے، اور اس کے لئے اذیت و تکلیف کا باعث ہوتی ہیں، یہ سب گناہ کبیرہ ہیں، قرآن وسنت میں ان کی سخت ممانعت آئی ہے اور ان پر آخرت کے شدید عذاب کی خبر دی گئی ہے، اس لئے لازمی اور ضروری ہے کہ اپنی زندگی کا جائزہ لے کر اپنی موت سے پہلے ان کا تدارک و تلافی کی جاۓ اور صاحب معاملہ سے معافی مانگی جاۓ، اور اللہ تعالی سے بھی ان گناہوں کے لئے ندامت قلب کے ساتھ توبہ و استغفار کیا جاۓ ،*

*✧⇝"_ اگر کسی وجہ سے حقداروں سے معاف کرانا ممکن نہیں رہا، مثلاً وہ لوگ مر چکے ہوں تو ان کے لئے ہمیشہ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور ایصال ثواب بھی کرے، عجب نہیں کہ اللہ تعالی قیامت میں ان لوگوں کو راضی کر کے معاف کرادے۔*

*✧⇝"_ اس کے برعکس یہی سب باتیں دوسروں کی طرف سے ہمارے ساتھ بھی واقع ہوتی ہیں، اس لئے شرافت نفس اسی میں ہے اور عقل کا تقاضا اور شریعت کا مطالبہ یہی ہے کہ ہمیں بھی اپنے اہل تعلقات کو فراخدلی کے ساتھ معاف کر دینا چاہئے، اس میں اپنے نفس کو اطمینان ہوتا ہے اور دوسرے شخص کو مؤاخذ و آخرت سے بچانے کا ذریعہ بھی ہے، اور یہ بات عنداللہ بہت محبوب ہے۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ صدقہ کے متعلق کوتاہیاں :-*

*✧⇝"_ مریض یا اس کے متعلقین صدقہ کرنے میں ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ کسی بزرگ مرحوم کے نام کا کھانا پکوا کر تقسیم کرتے ہیں یا کھلاتے ہیں، اور اس میں ان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ وہ بزرگ خوش ہوکر کچھ سہارا لگادیں گے، یہ عقیدہ شرک ہے، *"_بعض لوگ ان کی دعا کا یقین رکھتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی دعا رد نہیں ہوسکتی، ایسا اعتقاد بھی خلاف شرع ہے۔*
*®_(اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۲۳۱)*

*✧⇝"_ بعض لوگ صدقہ میں جان کا بدلہ جان ضروری سمجھتے ہیں اور بکرے وغیرہ کو تمام رات مریض کے پاس رکھ کر اور بعض لوگ مریض کا ہاتھ لگوا کر خیرات کرتے ہیں یا مریض کے پاس بکرے کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے بعد خیرات کر تے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ مریض کا بکرے پر ہاتھ لگانے سے تمام بلائیں گویا اس کی طرف منتقل ہوگئیں، پھر خیرات کرنے سے وہ بھی چلی جاتی ہیں، اور جان کے بدلے جان دے دینے سے مریض کی جان بچ جاۓ گی، یاد رکھئے! ایسا اعتقاد خلاف شرعی ہے _,"*
*®_ (اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۲۳۱)*

*✧⇝"_ بعض لوگوں نے صدقہ کے لئے خاص خاص چیزیں مقرر کر رکھی ہیں، جیسے ماش، تیل اور پیسے جن میں امر مشترک سیاہ رنگ کی چیز معلوم ہوتی ہے، گو یا بلا کو کالی سمجھ کر اس کو دور کرنے کے لئے بھی کالی چیزیں منتخب کی گئی ہیں، یہ سب من گھڑت باتیں ہیں اور خلاف شرعی ہیں،*

*✧⇝"_بعض لوگ صدقہ میں گوشت وغیرہ چیلوں کو دینا ضروری خیال کرتے ہیں، یہ بھی غلط ہے ، شرع نے صدقہ کا مصرف مقرر کر دیا ہے، چنانچہ مسلمان مسکین اس کا بہترین مصرف ہیں، چیلیں اس کا مصرف نہیں۔ (اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۲۳۲)*

          *╂───────────╂*
*╠☞"_ عین وقت موت کی رسمیں:-*

*☞1- رونا، پیٹنا اور گریبان پھاڑنا:-*
*✿_"_ عام طور پر ایک کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ میت کی جاں کنی کے وقت بجاۓ اس کے کہ کلمہ پڑھیں، سورہ یس پڑھیں، میت کی سہولت نزع اور خاتمہ بالخیر کی دعا کریں ،عورتیں رونا پیٹنا پھیلاتی ہیں، اس غریب کو نزع کی تکلیف ہی کیا کم ہے، مزید یہ تکلیف دیتی ہیں،*
*"_ یاد رکھئے ! بلند آواز سے رونا چلانا، ماتم کرنا اور گریبان پھاڑنا سب حرام اور گناہ ہے، البتہ رونا آۓ تو چیخے چلاۓ بغیر صرف آنسوؤں سے رونے میں کوئی مضائقہ نہیں_,"*

*☞2:- بیوی بچوں کو سامنے کرنا:-*
*✿_"_ ایک نامعقول حرکت یہ کی جاتی ہے کہ بعضی عورتیں مرنے والے کی بیوی کو اس کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں یا بیوی خود ہی سامنے آجاتی ہے اور پھر مریض سے پوچھتے ہیں کہ اس کو یا مجھ کو کس پر چھوڑے جاتے ہو؟ اور اس غریب کو جواب دینے پر مجبور کرتی ہیں،*
*"_ بڑے ہی افسوس کی بات ہے، اس کا یہ وقت خالق کی طرف متوجہ ہونے کا ہے، مگر یہ نالائق اس کو اب بھی مخلوق کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، جو اس غریب پر سراسر زیادتی ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر وہ خود بھی بلاضرورت شرعیہ (مثل وصیت وغیرہ) کے اس عالم کی طرف متوجہ ہو تو اس کی توجہ حق تعالی کی طرف پھیر دی جاۓ۔*

*✿__ بعض اوقات مریض کے بچوں کو اس کے سامنے لاتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ان کا کون ہوگا ؟ انہیں پیار کرلو، ان کے سر پر ہاتھ تو رکھ دو، جس سے وہ غریب اور پر یشان ہو جاتا ہے اور آخری وقت میں مخلوق کی طرف متوجہ ہونے کا نقصان الگ‌ہوتا ہے، یہ وقت تو ایسا ہے کہ اگر وہ خود بھی بچوں کو یاد کرتا تو اس کو حق تعالی کی طرف توجہ رکھنے کی تلقین کی جاتی ۔،اس لئے ضروری ہے کہ جاں کنی کے وقت میت کے پاس دیندار اور سمجھدار لوگ ہوں۔"*

*®_ (اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۲۳۴)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ بدفالی سے يٰسٓ نہ پڑھنا اور میت سے دور رہنا، یہ کلمہ کی تلقین کلمہ کی میں حد سے تجاوز کرنا:-*

*✿_" بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ بدفالی کے خیال سے یا دین کی عظمت دل میں نہ ہونے سے نہ اس وقت سورہ يٰسٓ پڑھتے ہیں اور نہ اس کا پڑھنا گوارا کرتے ہیں اور نہ کلمہ کا اہتمام کرتے ہیں، نہ میت کو کلمہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں، بلکہ فضول باتوں میں اور ان کاموں میں لگ جاتے ہیں جن کی ضرورت بعد میں ہوگی، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، ان سے بچنا لازم ہے۔ ( اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص: ۲۳۵)*

*✿_" بعض جگہ میت کے ورثاء اس کے مال و دولت، روپیہ پیسہ اور دیگر ساز و سامان پر قبضہ کرنے کی فکر میں بھاگتے پھرتے ہیں، مریض کے پاس کوئی نہیں رہتا اور وہ تنہا ہی ختم ہو جاتا ہے، بڑی ہی نادانی اور ظلم کی بات ہے،*

*✿_"_ بعض لوگ مریض کے پاس اس بناء پر نہیں بیٹھتے کہ انہیں بیماری لگ جانے کا خوف رہتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کے حکم کے بغیر کوئی بیماری کسی کو نہیں لگ سکتی، اگر کہیں لگ گئی ہو تو وہ بھی خالق کی حکمت ومثیت سے ہے، چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اکثر جگہ کچھ بھی نہیں ہوتا، اس لئے ایسا کرنا بڑی سنگدلی کی بات ہے، ہرگز وہم نہ کریں، مریض کو تنہا نہ چھوڑیں اور اس کی دل شکنی نہ کریں۔(اصلاح انقلاب امت ج:1 ص:۲۳۵)* 

 *✿_"_ بعض لوگ مرنے والے کو کلمہ پڑھوانے میں اس قدرسختی کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں، وہ ذرا غافل ہوا، خاموش ہوا، فوراً تو بہ، استغفار اور کلمہ کا تقاضا شروع کر دیتے ہیں اور برابر اس کے سر رہتے ہیں، وہ بیچارہ تنگ آ کر تکلیف جھیل کر کسی طرح پڑھ لے تو اس پر بھی کفایت نہیں کرتے ، یہ چاہتے ہیں کہ برابر پڑھتا ہی رہے دم نہ لے، یہ سراسر جہالت کی بات ہے، خدا بچاۓ ۔*

 *✿_"_ بعض لوگ اس سے بڑھ کر یہ زیادتی کرتے ہیں کہ مرنے والے سے اخیر تک باتیں کرانا چاہتے ہیں، ذرا اسے ہوش آیا اس کو پکارتے ہیں, البتہ شرعاً کسی بات کو دریافت کرنا ضروری ہو مثلاً کسی کی امانت کو پوچھا جاۓ کہ تم نے کہاں رکھی ہے؟ یا قرضدار اور لین دین کے بارے میں پوچھا جاۓ کہ جس کا حال کسی اور سے معلوم نہیں ہوسکتا یا اسی قسم کا کوئی اور حق واجب ہو تو اسے دریافت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ ضروری ہے، بشرطیکہ مریض کو بتلانے میں نا قابل برداشت تکلیف نہ ہو۔*

*✿_"بعض جاہل لوگ اس بیچارے کو قبلہ رخ کرنے میں یہ کرتے ہیں کہ اس کا تمام بدن اور منہ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، اگر وہ نزع کے عالم میں بدن یا گردن کو حرکت دے جو غیراختیاری طور پر ہوتی ہے تو پھر مروڑ تروڑ کر رخ بدل دیتے ہیں، یہ بھی غلط اور جہالت کی بات ہے، یاد رکھو! قبلہ رخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب مریض پر شاق نہ ہو یا جب وہ بالکل بے حس و حرکت ہو جاۓ اس وقت قبلہ رو کر دیا جاۓ ، نہ ی کہ زبردستی کر کے اس کو تکلیف پہنچائیں۔ (اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص: ۲۳۷)*

          *╂───────────╂*
*╠☞_ نزع میں نامحرم مرد کو دیکھنا:-*

*✿_ ایک بے احتیاطی یہ ہوتی ہے کہ نزع کی حالت میں نامحرم عورتیں بھی اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں، اور اس وقت پردہ کو ضروری نہیں سمجھتیں، یہ بڑی جہالت کی بات ہے، کیونکہ اگر اس کو اتنا ہوش ہے کہ وہ دیکھتا اور سمجھتا ہے تب تو اس کے سامنے آنا اور دیکھنا جائز نہیں، اور اگر اتنا ہوش نہیں ہے تو بہت سے بہت مریض نے نہ دیکھا، مگر ان عورتوں نے تو بلا ضرورت نامحرم کو دیکھا، اور حدیث شریف میں اس کی بھی ممانعت آئی ہے، اس لئے نامحرم عورتیں ہرگز مریض کے سامنے نہ آئیں،*

*✿_اسی طرح بعضے مرد بھی ایسی حالت میں نامحرم عورت کے سامنے چلے جاتے ہیں اور دیکھنے لگتے ہیں ،سو ان کے لئے بھی ایسا کرنا جائز نہیں_,"*
*®_ (اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص: ۲۳۷)*

*☞_نزع کی حالت میں عورت کے مہندی لگانا:-*

*✿_ بعض جگہ یہ قبیح رسم ہوتی ہے کہ جب کسی عورت کے انتقال کا وقت قریب ہوتا ہے تو دوسری عورتیں اس کے ہاتھوں پر مہندی لگاتی ہیں، اور اس کو مسنون سمجھتی ہیں، واضح رہے کہ یہ مسنون نہیں ، بلکہ نا جائز ہے_,"* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ موت کے وقت مہر معاف کرانا:-*

*✿_"_ایک کوتاہی جو بہت ہی عام ہے، یہ ہے کہ جب کوئی عورت مرنے لگتی ہے تو اس سے کہتے ہیں کہ مہر معاف کر دے، وہ معاف کر دیتی ہے، اور خاوند اس معافی کو کافی سمجھ کر اپنے آپ کو دین مہر سے سبکدوش سمجھتا ہے، اور کوئی وارث مانگے بھی تو نہیں دیتا،*

*✿_ یاد رکھئے! اول تو اس وقت اس طرح معاف کرانا بڑی سنگدلی کی بات ہے، دوسرے اگر وہ پوری طرح ہوش میں ہو اور خوش دلی سے معاف بھی کر دے تو بھی مہر معاف نہ ہوگا، کیونکہ پچھلے باب میں مرض الموت کے مسائل سے معلوم ہو چکا ہے کہ مرض الموت میں معافی بحکم وصیت ہے، اور وصیت شوہر کے لئے نہیں کی جاسکتی، کیونکہ وارث کے حق میں وصیت باطل ہے، البتہ اگر عورت کے دوسرے وارث جو عاقل بالغ ہوں وہ اپنا اپنا حصہ میراث اس مہر میں سے بخوشی چھوڑ نا چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں ،لیکن جو وارث مجنون یا نابالغ ہو اس کا حصہ اس کی اجازت سے بھی معاف نہ ہوگا ۔*
*®_ ( اصلاح انقلاب أمت ج:۱ ص: ۲۳۸)*

*✿_"_ ایک کوتاہی بعض لوگوں میں یہ ہوتی ہے کہ جس کا انتقال ہونے لگے، اگر اس نے مہر ادا نہ کیا ہو تو اس کی بیوی کو مجبور کرتے ہیں کہ اپنا مہر معاف کر دے، حالانکہ بیوی اس پر بالکل راضی نہیں ہوتی، مگر لوگوں کے اصرار یا رسم سے مجبور ہوکر شرما شرمی میں معاف کرد یتی ہے، یاد رکھئے! اس طرح مہر معاف کرانا جائز نہیں، بڑا ظلم ہے _,"*


          *╂───────────╂*
*╠☞_ اظہار غم میں گناہوں کا ارتکاب:-*

*✿_"_ بہت سی جگہ رونے پیٹنے میں عورتیں بے پردہ ہوجاتی ہیں اور پردہ کا مطلق خیال نہیں رکھتیں۔ بعض جگہ اس سے بڑھ کر یہ غضب ہوتا ہے کہ نوحہ کرنے والوں اور والیوں کی تصویریں کھینچی جاتی ہیں اور اخبارات میں شائع کی جاتی ہیں، یہ بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔*

*✿_"_ بعض جگہ عورتیں غم کے موقع پر اپنے نامحرم عزیزوں مثلاً دیور، چچازاد، تایا زاد اور خالہ زاد بھائی وغیرہ سے لپٹ لپٹ کر روتی ہیں، یہ بھی حرام ہے، کیونکہ رنج وغم میں شریعت کے احکام ختم نہیں ہو جاتے ۔*

*✿_"_ بعض جگہ اوپر کی عورتیں دیدہ و دانستہ ایسی باتیں کرتی ہیں جس سے رونا آۓ ، اور بعض عورتیں بن بن کر بہ تکلف روتی ہیں، یہ سب غلط ہے اور منع ہے۔*

*✿_"_ بعض جگہ گھر کی اور برادری کی عورتیں میت کے گھر سے نکلتے وقت نوحہ کرتی ہوئی گھر کے باہر تک آجاتی ہیں، اور تمام غیر مردوں کے سامنے بے حجاب ہوجاتی ہیں، یہ سب ناجائز و حرام ہے۔* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ پوسٹ مارٹم :-*

*✿_"_ آج کل حادثات میں ہلاک یا قتل ہونے والوں کا پوسٹ مارٹم کیا جا تا ہے اور جسم کو چیر پھاڑ کر اندرونی حصے دیکھے جاتے ہیں، ان میں بیشتر صورتیں ایسی ہوتی ہیں جہاں پوسٹ مارٹم شرعی ضرورت کے بغیر کیا جا تا ہے، جو جائز نہیں،*

*✿__ اور اگر کہیں شرعی ضرورت ہو یعنی کسی دوسرے زندہ شخص کی جان بچانے یا کسی کا مال ضائع ہونے سے بچانے کے لئے پوسٹ مارٹم ناگزیر ہو تو اس میں بھی شرعی أحكام مثلاً ستر اور احترام میت وغیرہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور فارغ ہونے کے بعد اس کے تمام اعضاء کو دفن کر دینا ضروری ہے،*
*®_ (امداد الفتاوی ج:۱ ص: ۵۰۸ و کفایت المفتی ج ۴۰ ص: ۱۸۸)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ تجہیز و تکفین اور تدفین میں تاخیر:-*

*✿__ بعض جگہ میت کے مال و دولت کی جانچ پڑتال یا تقسیم ترکہ کے انتظام واہتمام یا دوستوں اور رشتہ داروں کے انتظار یا نمازیوں کی کثرت یا ایسی ہی اور کسی غرض سے میت کی تدفین میں دیر کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض جگہ کامل دو دن تک میت کو پڑا رکھتے ہیں، یہ سب ناجائز ومنع ہے۔*
*®_ ( دليل الخیرات )*

*✿__ بعض جگہ یہ رسم ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین سے پہلے گٹھلیوں پر ایک لاکھ مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھوانا ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی تکمیل کے واسطے دوسروں کو بلاوے دیئے جاتے ہیں اور انہیں خواہی نخواہی آنا پڑتا ہے، اور جو شخص نہ آۓ یا نہ آ سکے تو وہ تعزیت اور جنازہ میں بھی ندامت کے باعث شرکت نہیں کرتا، اس میں بھی متعدد خرابیاں ہیں، اور تجہیز و تکفین میں بھی تاخیر ہوتی ہے اس لئے یہ رسم بھی واجب الترک ہے۔*
*®_(امداد الاحکام ج:1 ص:۱۰۳)*

*☞ _میت کو سلا ہوا پائجامہ اور ٹوپی پہنانا:-*
*✿__ بعض جگہ میت کو کفنانے کے وقت مرد ہو یا عورت پائجامہ اور ٹوپی پہناتے ہیں، یہ نا جائز ہے۔*
*®_ ( فتاوی دارالعلوم مکمل و مدلل ج ۵ ص ۲۷۱)*

*☞ _میت کے کفن سے بچا کر امام کا مصلیٰ بنانا:-*
*✿__ ایک عام رسم یہ بھی ہے کہ میت کے کفن سے کوئی گز بھر کپڑا بچا لیتے ہیں یا زائد خرید لیتے ہیں جو نماز جنازہ کے بعد امام کا حق سمجھا جا تا ہے، بعض جگہ اوپر کی چادر بھی امام کو دے دی جاتی ہے، سو یہ مصلیٰ اور چادر بنانا ہی غلط ہے، کفن کے مصارف سے اس کا کچھ تعلق نہیں، امام کا ان میں کوئی حق نہیں اور مشترک ترکہ سے اس کا صدقہ میں دینا بھی جائز نہیں۔*
*®_ (احسن الفتاوی ج:1 ص:۳۷۹ بزيادة )*

          *╂───────────╂*
*╠☞_میت کے سینہ اور کفن پر کلمہ لکھنا اور شجرہ و عہد نامہ رکھنا*

*✿_"_ بعض جگہ میت کے سینہ یا پیشانی یا کفن پر کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت، آیت الکرسی اور دیگر آیات اور دعائیں روشنائی وغیرہ سے لکھی جاتی ہیں ، اس طرح لکھنا جائز نہیں، کیونکہ میت کے پھٹنے سے بے حرمتی ہوگی، البتہ بغیر روشنائی وغیرہ کے صرف انگلی سے کچھ لکھ دیا جاۓ کہ لکھنے کے نشان ظاہر نہ ہوں تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ اس کو بھی مسنون یا مستحب یا ضروری نہ سمجھیں، ورنہ یہ بھی بدعت اور واجب الترک ہوگا۔ (احسن الفتاوی ج:1 ص:۳۵۱ بایضاح )*

*✿_"_ بعض لوگ میت کے سینہ پر عہد نامہ یا شجرہ یا سورہ یٰس وغیرہ رکھ دیتے ہیں یا پتھر پر لکھ کر اس کے ساتھ قبر میں رکھ دیتے ہیں، میت کے گلنے سڑنے سے اس کی بے ادبی ہوتی ہے، لہذا اس کو بھی ترک کرنا چاہئے، ۔ (اصلاح انقلاب امت ج:1 ص:۲۴۱ )*

*☞"_میت کو کفن میں عمامہ دینا:-*
*✿_"_ بعض جگہ علماء اور سرداروں وغیرہ کی میت کو کفن کے تین کپڑوں کے علاوہ ایک عدد عمامہ بھی دیتے ہیں، سو یہ عمامہ دینا مکروہ ہے، خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین یمنی چادروں میں کفنایا گیا تھا، جس میں عمامہ نہیں تھا، احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔(امداد الفتاوی ج:1 ص: ۵۱۰ و فتاوی دارالعلوم دیو بند مدلل ج ۵ ص:۲۵۹)*

*☞"_میت کے سرمہ لگانا اور کنگھی کرنا:-*.
*✿_"_ بعض لوگ میت کی آنکھوں میں سرمہ اور کاجل لگاتے ہیں، سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو کنگھا بھی کرتے ہیں، بعض لوگ ناخن اور بال کتر دیتے ہیں، یہ سب نا جائز ہیں۔ ( فتاوی دارالعلوم دیو بند کمل مدلل ج ۵ ص: ۲۴۸)*

*☞_کفنانے کے بعد امام کا خط میت کو دینا:-*
*✿_"_بعض لوگ میت کو کفن پہنانے کے بعد امام مسجد کا لکھا ہوا خط میت کے دونوں ہاتھوں میں دیتے ہیں, سو یہ بھی بے اصل اور لغو ہے۔ ( فتاوی دارالعلوم دیو بند کمل مدلل ج ۵ ص:۲۵۲)* 

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ نماز جنازہ سے پہلے اور بعد اجتماعی دعا کرنا_"* 

*✿_"_بعض جگہ یہ رسم ہے کہ میت کو کفنانے کے بعد جنازہ تیار کر کے تمام حاضرین اجتماعی طور پر فاتحہ پڑھتے اور دعا کرتے ہیں، اور بعض جگہ نماز جنازہ کے بعد بھی اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔*
*"_ تو یاد رکھئے! کہ نماز جنازہ خود دعا ہے، میت کے لئے جو شریعت نے دعا مقرر فرمائی ہے اس میں اجتماعی طور پر جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ میت اور تمام مسلمانوں کے لئے اتنی جامع اور مفید دعا ہے کہ ہم اور آپ عمر بھر سوچ بچار سے بھی اس سے بہتر دعا نہیں کر سکتے، نماز جنازہ سے پہلے یا بعد اجتماعی دعا یا فاتحہ پڑھنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، اس لئے یہ ناجائز اور بدعت ہے۔*

*✿_"_ اگر کسی کو شبہ ہو کہ دعا تو تمام زندہ و مردہ مسلمانوں کے لئے ہر وقت جائز ہے، پھر اس موقع پر دعا مکروہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ فقہائے کرام نے انفرادی طور پر دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا، میت کے وقت انتقال بلکہ اس سے بھی پہلے عیادت کے زمانے سے اس کے لئے فرداً فرداً دعا مانگنے کا ثبوت احادیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہے،ہر مسلمان کو اختیار ہے،*

*✿_"_ بلکہ بہتر ہے کہ جب وہ کسی مریض کی عیادت کو جاۓ تو اس کے لئے دعا کرے، اور اگر اس کا انتقال ہو جاۓ تو اس کے لئے مغفرت کی دعا کرے، اور دفن تک بلکہ اپنی زندگی بھر میت کے لئے دعا کرتا رہے، تلاوت قرآن کریم اور دیگر مالی و بدنی عبادتوں کا ثواب اسے پہنچاتے رہے، ان تمام حالات میں فردا فردا دعا کرنے یا ایصال ثواب کرنے کی کوئی ممانعت نہیں، بشرطیکہ اپنی طرف سے کوئی ایسی بات ایجاد نہ کرے جو شریعت کے خلاف ہو، اور کوئی ایسی شرط یا پابندی اپنی طرف سے نہ لگاۓ جو شریعت نے عائد نہیں کی ۔*

*✿_"_اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان میت کے لئے اجتماع کے ساتھ دعا کرنے کا طریقہ صرف وہ مقرر فرمایا ہے، جسے نماز جنازہ کہتے ہیں، انفرادی طور پر ہر شخص ہر وقت دعا کر سکتا ہے، لیکن جمع ہوکر دعا کرنے کا ثبوت صرف نماز جنازہ کے اندر ہے، اس سے پہلے یا اس کے بعد جن جن مواقع میں دعا کے لئے لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے، اور فقہائے کرام اس اجتماع کو مکروہ اور بدعت فرماتے ہیں، فتاوی بزاز یہ میں اس ممانعت کی صراحت موجود ہے۔*
*"_® ( دليل الخیرات ص:۵۱ تا ۵۳ و امداد لمفتین ص:۴۴۴)*

*✿_"_آج کل اس پر مزید ستم یہ ہونے لگا ہے کہ جو شخص اس بدعت میں شریک نہیں ہوتا اس پر طعن وتشنیع کی جاتی ہے، اللہ تعالی ہم سب کو ہرقسم کی بدعت اور جہالت و گمراہی سے محفوظ رکھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر جینے اور اس پر مرنے کی توفیق عطا فرماۓ ، آمین ۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ جنازہ یا قبر پر پھولوں کی چادر ڈالنا:-*

*✿_"_قبر پر اور جنازہ پر پھولوں کی چادر ڈالنے کا بھی ایک رواج چل نکلا ہے، اور اس کو تجہیز و تکفین کے اعمال میں سے ایک عمل سمجھا جاتا ہے، اور قبر پر اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں، حالانکہ قرآن وسنت اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین سے ان تینوں امور کا کوئی ثبوت نہیں، لہذا یہ بھی بدعت اور ناجائز ہیں_,"*
*®_ (امداد الاحکام ج:1 ص:۹۲ ، و علماء کا متفقہ فیصلہ )*

*☞"_نماز جنازہ کے فوٹو شائع کرنا:-*
*✿_"_ دور حاضر کی ایک لعنت یہ بھی ہے کہ نماز جنازہ کے فوٹو اخبارات میں شائع کئے جاتے ہیں، اور فوٹو میں ممتاز شخصیات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ تصویر کشی حرام ہے۔*
*"_بعض لوگ میت کا منہ کھول کر اس کا فوٹو کھینچتے یا کھنچواتے ہیں، تاکہ بطور یادگار اس کو رکھیں، یاد رکھئے! تصویر کشی مطلقاً حرام ہے، لہذا میت کا فوٹو لینا بھی حرام ہے، فوٹو کھینچنے اور کھنچوانے والے دونوں گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ( تصویر کے شرعی احکام)*

*☞"_جوتے پہن کر نماز جنازہ پڑھنا:-*
*✿_"_ ایک کوتاہی عام طور سے یہ بھی ہو رہی ہے کہ لوگ روز مرہ کے عام زیر استعمال جوتے پہن کر یا ان کے اوپر قدم رکھ کر جنازہ کی نماز پڑھ لیتے ہیں، اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ جوتے پاک بھی ہیں یا نہیں؟*
*"_ حالانکہ اگر جوتے پہنے پہنے نماز پڑھی جاۓ تو ضروری ہے کہ زمین اور جوتے کے اندر اور نیچے کی دونوں جانہیں پاک ہوں، ورنہ نماز نہ ہوگی ، اور اگر جوتوں سے پیر نکال کر اوپر رکھ لئے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ جوتوں کا اوپر کا حصہ جو پیر سے متصل ہے پاک ہو، اگر چہ نیچے کا ناپاک ہو، اگر اوپر کا حصہ بھی ناپاک ہو تو اس پر نماز درست نہ ہوگی ۔*
*®_ (امداد الاحکام ج:1 ص: ۷۴۰)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ "_بلند آواز سے جنازہ کی نیت کرنا: _* 
*✿__بعض جگہ دیکھا جا تا ہے کہ لوگ نماز جنازہ کی نیت بلند آواز سے کرتے ہیں ، سو اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے، البتہ امام اتفاقاً کبھی تعلیم کی غرض سے جنازہ کی نیت بتلا دے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، درست ہے ، لیکن اس کا معمول بنا لینا اور ضروری سمجھنا بدعت ہے_,"( علماء کا متفقہ فیصلہ )*

*☞ "_جنازہ کے ساتھ کلمہ شہادت بآواز بلند پڑھنا:-*
*✿_"_ ایک رسم یہ پڑ گئی ہے کہ میت کو کندھا دیتے وقت اور دوران راہ ایک یا کئی آدمی بلند آواز سے کلمہ شہادت‘ پکارتے ہیں اور سب حاضرین بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھتے ہیں, حالانکہ جنازہ کے ساتھ بلند آواز سے کلمہ شہادت اور کلمہ طیبہ یا اور کوئی ذکر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تھے ، لہذا یہ رسم بھی سنت کے خلاف اور بدعت ہے۔ (امداد المفتین ص:۱۷۲)* 

*☞ "_جنازہ کے ساتھ اناج، پیسہ اور کھانا بھیجنا:-*
*✿_"_ بعض جگہ جنازہ کے ساتھ اناج یا پیسے یا کھانا آگے آگے لے کر چلتے ہیں، پھر یہ اناج، کھانے اور قبرستان میں تقسیم ہوتے ہیں، سو واضح ہو کہ ایصال ثواب تو بہت اچھا کام ہے، لیکن ایصال ثواب کی یہ اپنی طرف سے طے کردہ صورت کہیں سے ثابت نہیں، متعدد وجوہ سے یہ بدعت اور نا جائز ہے۔ (دليل الخيرات)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ آداب قبرستان کی رعایت نہ رکھنا :-*

*✿_"‌ ایک عام کوتاہی یہ ہے کہ قبرستان میں پہنچ کر بھی لوگ دنیا کی باتیں نہیں چھوڑ تے، حالانکہ یہ عبرت کی جگہ ہے، قبر اور آخرت کے مراحل، ان کی ہولنا کیوں اور اپنے انجام کی فکر کرنے کی جگہ ہے_,"*

*✿_" قبرستان میں داخلہ کے وقت اہل قبرستان کو سلام کرنے کے جو کلمات منقول ہیں، اکثر لوگ اس سے غافل رہتے ہیں۔*

*✿__ اکثر لوگ قبرستان میں داخل ہونے کا معروف راستہ چھوڑ کر قبروں کے اوپر سے پھلانگ کر میت کی قبر تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات قبروں پر بھی چڑھ جاتے ہیں، یا د رکھئے! ایسا کرنا منع ہے، معروف اور مقررہ راستہ خواہ کچھ طویل سہی مگر اسی پر چلنا چاہئے ۔*

*✿_" بعض لوگ قبرستان پہنچ کر میت کے اردگرد جم کر بیٹھ جاتے ہیں، مقصد میت کی تدفین کی کاروائی دیکھنا ہوتا ہے ،لیکن ان کے اس اجتماع سے اہل میت اور قبر بنانے والوں کو بہت کلفت ہوتی ہے اور ہجوم کی بناء پر آپس میں بھی ایک دوسرے کو اذیت ہوتی ہے، پھر اکثر قرب و جوار کی دوسری قبروں کو بھی اپنے پیروں سے بری طرح روندتے ہیں،*.
*"_ یاد رکھئے! دفن کی کاروائی دیکھنا کوئی فرض و واجب نہیں، لیکن دوسروں کو اپنے اس طرز عمل سے تکلیف دینا حرام ہے، اور قبروں کو روندنا بھی جائز نہیں، لہذا ان گناہوں سے اجتناب کیجئے، قبر کے پاس صرف کام کرنے والوں کو رہنے دیجئے تاکہ سہولت سے وہ اپنا کام کرسکیں، اور جب مٹی دینے کا وقت آۓ مٹی دے دیجئے۔*

*✿_" بعض لوگ مٹی دینے میں بھی بہت عجلت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر چڑھ جاتے ہیں اور سخت تکلیف پہنچاتے ہیں، یہ بھی ناجائز ہے۔*

 
          *╂───────────╂*
*╠☞ _میت کا منہ قبر کو دکھلانا:-*

*✿_"_ بعض لوگ میت کو قبر میں رکھ کر اس کا منہ کھول کر قبر کو دکھلانا ضروری سمجھتے ہیں، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔*

*☞ "_ میت کا صرف چہرہ قبلہ رخ کرنا:-*
*✿_"_ بعض لوگ میت کو قبر میں چت لٹا دیتے ہیں اور صرف میت کا منہ قبلہ کی طرف کرتے ہیں، باقی سارے جسم کو کروٹ نہیں دیتے، یہ بھی فقہاء کی تصریحات کے خلاف ہے، بلکہ میت کے تمام بدن کو اچھی طرح کروٹ دے کر قبلہ رخ کرنا چاہئے,*
*®_(اصلاح انقلاب امت ج:۱ ص:۲۴۱)*

*☞ "_امانت کے طور پر دفن کرنا:-*
*✿_"_ بعض جگہ لوگ میت کو جو کسی دوسرے علاقے میں ہو گئی ہو تابوت وغیرہ میں رکھ کر امانت کہہ کر دفن کرتے ہیں، اور پھر بعد میں کسی موقع پر تابوت نکال کر اپنے علاقہ میں لے جا کر دفن کرتے ہیں، واضح رہے کہ دفن کرنے کے بعد خواہ امانتا دفن کیا ہو یا بغیر اس کے، دوبارہ نکالنا جائز نہیں، اور امانتاً دفن کرنا بھی شرعاً بے اصل ہے۔*
*®_ (عزیز الفتاوی ج:1 ص:۳۴۲)*

*☞ "_میت کے سرہانے قل پڑھی ہوئی کنکریاں رکھنا:-* 
*✿_"_بعض لوگ قل پڑھی ہوئی کنکریاں یا مٹی کے ڈھیلے میت کے سرہانے رکھا کرتے ہیں، شرع میں ان کا بھی کوئی ثبوت نہیں, لہذا بدعت ہے اور واجب الترک ہے, (علماء کا متفقہ فیصلہ )*
*"_ اور بعض لوگ میت کے سرہانے دو روٹی اور سالن رکھتے ہیں، بعض لوگ قبر میں میت کے نیچے گدا بچاتے ہیں، یہ دونوں باتیں بے اصل اور واجب الترک ہیں۔*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ دفن کے بعد منکر نکیر کے سوالوں کا جواب بتلانا:-*

*✿_"_ بعض لوگ جب مردہ کو قبر میں دفن کر چکتے ہیں تو قبر پر انگلی رکھ کر مردہ کو مخاطب کر کے یوں کہتے ہیں ”اے فلانے اگر تم سے کوئی فرشتہ پوچھے کہ تمہارا رب کون ہے؟ تو تم یوں کہنا کہ میرا رب اللہ ہے، اور میرا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور میرا دین اسلام ہے وغیرہ وغیرہ،*
*"_ سو واضح ہو کہ یہ روافض کا شعار ہے، اور اس میں متعدد مفاسد اور خرابیاں ہیں، اس لئے یہ تلقین درست نہیں، اس سے پر ہیز کیجئے۔*
*®_ (امداد الاحکام ج:۱ ص:۱۱۵ تا ۱۱۹)*

*✿_"_دفن کے بعد سورۂ مزمل اور اذان دینا :- بعض جگہ دفن کے بعد حلقہ بنا کر سورہ مزمل پڑھنے کو یا اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو لازم سمجھا جاتا ہے، اور دفن کے بعد قبر پر اذان بھی دیتے ہیں،*
*"_ قرآن وسنت، صحابہ و تابعین، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کسی سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، لہذا یہ رسم بدعت ہے۔ (علماء کا متفقہ فیصلہ )*

*✿_"_قبر کو پختہ بنانا:- قبر کو پختہ بنانے کا رواج بہت عام ہو چکا ہے، بعض لوگ چونے، ریت سے پختہ کراتے ہیں، بعض سیمنٹ اینٹ لگواتے ہیں اور بعض لوگ سنگ مرمر سے پختہ کرواتے ہیں، یہ سب نا جائز ہے، احادیث میں صاف صاف ممانعت موجود ہے۔*
*®_( فتاوی دارالعلوم کمل مدلل ج:۵ ص: ۳۷۷)*

*✿_"_قبر پر قبہ اور کٹہرا بنانا:- بعض لوگ قبر کا بالائی حصہ تو کچا رکھتے ہیں، لیکن قبر کا باقی تعویذ یعنی دائیں بائیں اور آگے پیچھے کا حصہ پختہ بنواتے ہیں اور قبر کے چاروں طرف جالیوں یا سنگ مرمر وغیرہ کا کٹہرا بنواتے ہیں، اور بعض لوگ اس سے بھی آگے بڑھ کر قبر کے اوپر قبہ بنواتے ہیں، یہ سب ناجائز اور بدعت ہے، احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے_,"*
*®_ ( فتاوی دارالعلوم دیوبند مکمل مدلل ج ۵ ص:۳۹۵ )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ ایصال ثواب کے لئے ختم کی رسمیں:-*

*✿__ قبرستان سے واپسی پر اسی دن یا دوسرے یا تیسرے دن جمع ہوکر قرآن کریم یا آیت کریمہ یا کلمہ طیبہ کا ختم ہوتا ہے، جس کے لئے اب تو اخبارات وغیرہ میں بھی اشتہارات دیئے جاتے ہیں، پھر اجتماعی ایصال ثواب اور دعا کے بعد حاضرین کو کہیں کھانا، کہیں نقد اور کہیں شیرینی و غیر تقسیم کی جاتی ہے۔*
۔
*✿__ اول تو اس خاص طریقہ سے جمع ہوکر ختم اور ایصال ثواب کی رسم کا شریعت میں کہیں ثبوت نہیں، اس لئے بدعت ہے، دوسرے اس میں مزید خرابیاں یہ ہیں کہ دوست، رشتہ دار تو عموماً محض شکایت سے بچنے کے لئے آتے ہیں، ایصال ثواب ہرگز مقصود نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اگر کوئی عزیز اپنے گھر بیٹھ کر پورا قرآن پڑھ کر بخش دے تو اہل میت ہرگز راضی نہیں ہوتے اور نہ آنے کی شکایت باقی رہتی ہے، اور یہاں آکر یوں ہی تھوری دیر بیٹھ کر اور کوئی حیلہ بہانہ کر کے چلا جاۓ تو شکایت سے بچ جاتا ہے،*.

*✿__ جو عمل ایسے لغو مقاصد کے لئے ہو اس کا کچھ ثواب نہیں ملتا، جب پڑھنے والے ہی کو ثواب نہ ملا تو مردے کو کیا بخشے گا ؟ رہ گئے فقراء و مساکین تو ان کو اگر یہ معلوم ہو جاۓ کہ وہاں جا کر صرف پڑھنا پڑے گا، ملے گا کچھ نہیں تو ہرگز ایک بھی نہ آۓ گا،*
۔
*✿_ معلوم ہوا کہ ان کا آنا محض اس توقع سے ہوتا ہے کہ کچھ ملے گا، جب ان کا پڑھنا دنیاوی غرض سے ہو تو اس کا ثواب بھی نہ ملے گا، پھر میت کو کیا بخشے گا ؟ پھر قرآن خوانی کو جو ان لوگوں نے جاہ و مال کا ذریعہ بنایا اس کا گناہ سر پر الگ رہا، اور جس طرح قرآن خوانی کا عوض لینا جائز نہیں، اسی طرح دینا بھی جائز نہیں،*..

*✿_ ایصال ثواب اور دعا بہت اچھا کام ہے ، مگر اس کے لئے اجتماع یا کسی خاص دن، تاریخ یا وقت کی کوئی قید شریعت نے نہیں لگائی، ہر شخص جب اور جہاں چاہے کسی بھی عبادت کا ثواب میت کو پہنچا سکتا ہے اور دعا کرسکتا ہے، اپنی طرف سے نت نئی قیدیں، شرطیں اور پابندیاں بڑھانا بدعت اور ناجائز ہے_,"*

*®_ (اصلاح الرسوم ص:۱۷۲)*

          *╂───────────╂*
*╠☞_ اہل میت کی طرف سے دعوت طعام:-*

*★_ ایک رسم یہ کی جاتی ہے کہ دفن کے بعد میت کے گھر والے برادری وغیرہ کو دعوت دیتے ہیں'،*
*"_ یاد رکھنا چاہئے! کہ یہ دعوت اور اس کا قبول کرنا دونوں ممنوع ہیں، ہرگز جائز نہیں، اس قبیح رسم سے اجتناب لازم ہے،*

*★_ علامہ شامی نے اس دعوت کے متعلق لکھا ہے کہ: ”اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں_," اور علاوہ حنفی مذہب کے دیگر فقہی مذاہب مثلاً شافعیہ وغیرہ کا بھی اس کے ناجائز ہونے پر اتفاق بیان کیا ہے، اور مسند احمد وسنن ابن ماجہ سے روایت نقل کی ہے کہ صحابہ کے زمانے میں بھی اس دعوت کو نا جائز سمجھا جا تا تھا۔*
*®_(امداد الاحکام ج:۱ ص:۱۱۵)*

*☞_ میت کے کپڑے، جوڑے خیرات کرنا :-*
*★_ ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کے انتقال کے بعد اس کے کپڑے اور جوڑے، خاص کر استعمالی کپڑے خیرات کر دیتے ہیں، حالانکہ ورثاء میں اکثر نابالغ ورثاء بھی ہوتے ہیں، یاد رکھئے! میت کے تمام کپڑے اور ہر چھوٹی بڑی چیز اس کا ترکہ ہے، جس کو شرع کے مطابق تقسیم کرنا واجب ہے، اس سے پہلے کوئی چیز خیرات نہ کی جاۓ ، البتہ اگر سب وارث بالغ ہوں اور وہاں موجود ہوں اور خوش دلی سے سب متفق ہوکر دے دیں تو یہ خیرات کرنا جائز ہے، لیکن اسے واجب یا ضروری سمجھنا پھر بھی بدعت ہے۔*
*®_ ( اصلاح الرسوم ص: ۱۷۱)*

*☞_قبر پر چراغ جلانا:-*
*"_ قبروں پر چراغ جلانے کی رسم بھی نہایت کثرت سے کی جاتی ہے، شب جمعه، شب معراج ، شب براءت اور شب قدر میں خاص طور پر اس کا اہتمام ہوتا ہے اور با قاعدہ روشنی اور لائٹیں لگوائی جاتی ہیں، یہ سب ناجائز اور بدعت ہے۔ (سنت و بدعت ص:۸۳٬۸۲)* 
*
          *╂───────────╂*
*╠☞ _ تیسرے دن زیارت کرنا:-*

*✿_"_ بعض جگہ خاص اہتمام سے تیسرے روز میت کے مزار پر سب لوگ حاضری دیتے ہیں، جس کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ سب سے پہلے میت کے گھر فاتحہ، پھر محلے کی مسجد میں ایک فاتحہ، پھر قبرستان جا کر مردہ کی قبر پر ایک فاتحہ، پھر وہاں سے واپسی پر چالیس قدم پر فاتحہ، پھر مردہ کے گھر جا کر دوبارہ ایک فاتحہ، یہ تمام رسمیں اور پابندیاں محض بدعت اور واجب الترک ہیں_,"*

*☞ "_ تیجه، دسواں، بیسواں اور چالیسواں کرنا:-*
*✿_"_ میت کے انتقال کے بعد تیجہ کرنا، دسواں، بیسواں اور بالخصوص چالیسواں کرنے میں، تین ماہی اور چھ ماہی کرنے کا عام رواج ہے، اور ان کو کرنا ضروری سمجھا جا تا ہے، اور جو نہ کرے اس کو طرح طرح کے طعنے دیئے جاتے ہیں، یہ سب بھی بدعت اور ناجائز ہیں_,"*
*®_ ( علماء کا متفقہ فیصلہ )*

*☞ "_ شعبان کی چودھویں تاریخ کو عید منانا:-*
*✿_"_ بعض جگہ لوگ شعبان کی چودھویں تاریخ کو مردہ کی عید مناتے ہیں، اور قسم قسم کے کھانے، حلوے، مشروبات ، فروٹ وغیرہ تیار کرا کر ایصال ثواب کی غرض سے کسی غریب کو دیتے ہیں،*
*"_ ایصال ثواب تو پسندیدہ اور ثواب کا کام ہے، جس کے لئے شرع نے دن، تاریخ اور کھانوں کی کوئی پابندی نہیں رکھی، لہذا لوگوں کا اپنی طرف سے یہ پابندیاں بڑھانا بدعت ہے، اور مردہ کی عید منانا بالکل خلاف اصل اور ناجائز ہے_,"*
*®_ (علماء کا متفقہ فیصلہ)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ اہل میت کے یہاں کھانا بھجوانے کی غلط رسمیں:-*

*✿_"_ بعض جگہ میت کے رشتہ داروں کے یہاں سے ان کے لئے کھانا آتا ہے، یہ بہت اچھی بات ہے، بلکہ مسنون ہے ، لیکن بعض جگہ لوگ اس میں بھی طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہیں، جن کی اصلاح ضروری ہے،*

*✿_"_ مثلاً بعض جگہ ادلہ بدلہ کا خیال رکھا جا تا ہے اور کھانا تک دیکھا جاتا ہے کہ جیسا ہم نے دیا تھا ویسا ہی ہے یا کم درجہ کا؟ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں اگر دور کا رشتہ دار بھیجنا چاہے تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، اور قریبی رشتہ دار اگر چہ تنگدست ہوں بدنامی کے خوف سے پر تکلف اور بڑھیا کھانا بھیجنا ضروری سمجھتے ہیں، اگر چہ اس کے لئے قرض لینا پڑے،*

*✿_"_ یہ سب رسمیں خلاف شریعت ہیں، کھانا بھیجنے میں بے تکلفی اور سادگی سے کام لینا چاہئے, جس عزیز کو توفیق ہو وہ کھانا بھیج دے، نہ اس میں ادلے بدلے کا خیال کرنا چاہئے، نہ اس کا کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار کیسے بھیج دے؟ بعض لوگ دور کے رشتہ دار کو ہرگز بھیجنے نہیں دیتے ، یہ سب امور قابل اصلاح ہیں۔*
*®_(اصلاح الرسوم ص:۱۷۷)*

*☞ "_برسی منانا:-*
*✿_"_دور حاضر کی ایک رسم یہ ہے کہ جس روز کسی کا خصوصاً صاحب وجاہت یا صاحب کمال کا انتقال ہو جاۓ ، ہر سال اس تاریخ کو اجتماع کیا جا تا ہے، جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں، دعوتیں ہوتی ہیں اور بڑے اہتمام سے اس کو منایا جا تا ہے، قرآن وسنت ، صحابہ و تابعین، ائمہ مسلمین اور سلف صالحین کسی سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ، لہذا اس کو ترک کرنا واجب ہے,*
*®_ (امداد متعین ص: ۱۵۷ ۱۹۱۳)*

*☞ "_ عرس منانا:-*
*✿_"_ آج کل بزرگان دین کے مزاروں پر بڑی دھوم دھام سے معین تاریخوں میں عرس کئے جاتے ہیں اور خلق کثیر ان میں شرکت کرتی ہے، اور اپنے لئے باعث برکت و ثواب سمجھتی ہے، یاد رکھنا چاہئے کہ متبع سنت بزرگوں کے مزارات پر کسی خاص دن یا تاریخ یا وقت کی پابندی کے بغیر حاضر ہونا باعث برکت ہے، لیکن معین تاریخ یا وقت کی پابندی کو ضروری سمجھنا یا باعث ثواب سمجھنا یا وہاں میلہ لگانا بدعت ہے، خصوصاً آج کل تو گانے باجے، بے پردگی اور طرح طرح کے حرام کاموں کا رواج بھی عرسوں میں بہت ہوگیا ہے، اللہ تعالی ان تمام بدعتوں اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے _,"*
          *╂───────────╂*
*╠☞ _ قبر پر چادر میں چڑھانا، منت ماننا :-*

*✿_"_بزرگوں کے مزاروں پر کثرت سے چادریں چڑھانا، ان کے نام کی منت ماننے کا عام رواج ہے، یہ سب خلاف شرع ہیں اور مطلقاً حرام ہیں۔*
*®_ ( سنت و بدعت ص:۷۲)*

*☞"_قبر پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کو تبرک سمجھنا:-*
*✿_"_ شب جمعہ، شب براءت اور دوسرے موقعوں پر مزاروں اور قبروں پر قسم قسم کے کھانے ، مشروبات، میوہ، مٹھائیاں، صاحب مزار کو خوش کرنے کی غرض سے چڑھائی جاتی ہیں، یا منت پوری ہونے پر رکھی جاتی ہیں اور پھر قبر سے اٹھا کر مجاورین اور حاضرین پر تقسیم کر دی جاتی ہیں، جس کو صاحب مزار کا تبرک سمجھا جاتا ہے۔*

*✿_"_ یاد رکھئے! یہ چڑھاوا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں، اور اس کو حلال و تبرک سمجھنے میں کفر کا اندیشہ ہے، خدا کی پناہ!*
*®_( سنت و بدعت ص:۷۲)*

*☞"_قبر کا طواف اور سجدہ کرنا:-*
*✿_"_ بزرگوں کے مزارات پر لوگ صاحب مزار کے سامنے سجدہ کرنے اور چاروں کونوں کا طواف کرنے میں بھی مشغول نظر آتے ہیں، جن کا مطلقاً حرام ہونا ایک کھلی ہوئی بات ہے، بلکہ یہ کام اگر عبادت سمجھ کر کیا ہو تو صریح کفر ہیں، اور صرف تعظیم کے لئے ہوں عبادت کے لئے نہ ہوں تب بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں، العیاذ باللہ ۔ ( سنت و بدعت ص:۷۷)*

*☞"_قبر کا مجاور بننا:-*
*✿_"_بعض لوگ بظاہر ترک دنیا کر کے مزارات پر جا پڑتے ہیں، اور جو کچھ مزارات پر آتا ہے اس پر زندگی بسر کرتے ہیں، اکثر ان میں سے بھانگ، چرس اور دیگر محرمات میں مبتلا رہتے ہیں، سو مزارات پر اس طرح مقیم ہونا بالکل ممنوع ہے اور اس غلط رسم میں ان کی مدد کرنا بھی جائز نہیں۔ ( سنت و بدعت ص:۷۷ )*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ عورتوں کا قبرستان جانا:-*

*✿_"_آج کل قبرستان بالخصوص بزرگوں کے مزارات پر عورتوں کا آنا جانا بکثرت ہے، جاننا چاہئے کہ عورتوں کے واسطے زیارت قبور کی یہ شرائط ہیں:-*
*✿_"_ ا: - جانے والی عورت جوان نہ ہو بڑھیا ہو، ۲:-خوب پردہ کے ساتھ جاۓ ، ۳:- پھر وہاں جا کر شرک نہ کرے،۴: - بدعت نہ کرے، ۵: - قبر پر پھول نہ چڑھاۓ ، چادر نہ چڑھاۓ ، ۲:- نہ صاحب قبر سے کچھ مانگے ، نہ منت مانے ، ۷ : - رونا دھونا اور نوحہ بازی نہ کرے، ۸: -اور بھی کسی خلاف شرع کام کا ارتکاب نہ کرے۔ ان شرائط کی مکمل پابندی کرنے والی عورت قبرستان جاسکتی ہے، اور جو عورت ان شرائط کی پابندی نہیں کرسکتی اس کا قبرستان اور مزارات پر جانا حرام ہے۔*

*✿_"_ تجر بہ اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عورتیں ان شرائط کی قطعاً پابندی نہیں کرتیں، بالخصوص عرس وغیرہ کے موقع پر، جو آج کل سراسر منکرات، بدعات اور مفاسد سے مرکب ہوتا ہے، لہذا اس موقع پر ان کا جانا بلاشبہ حرام اور ناجائز ہے، حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے۔ (امداد الاحکام ج:1 ص:۷۳۰)* 

*☞ "_ایصال ثواب کے لئے اجرت دے کر قرآن پڑھوانا:-*
*✿_"_ بعض لوگ ایسا بھی کرتے ہیں کہ مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے اجرت پر ایک آدمی رکھ لیتے ہیں، جو روزانہ مرحوم کی قبر پر قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اپنے زعم کے مطابق مرحوم کو ثواب پہنچا تا ہے، سو واضح ہو کہ اجرت پر ایصال ثواب کے لئے قرآن کریم پڑھنا اور پڑھوانا حرام ہے، بعض لوگ آیت کریمہ اور کلمہ طیبہ کا ختم بھی براۓ ایصال ثواب اجرت دے کر کراتے ہیں، سو ان کا ختم بھی اجرت دے کر کرانا حرام ہے۔*
*®_ (احسن الفتاوی ج:1 ص:۳۷۵)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _ ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا فائدہ :-*

*✿_"_حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، فرماتے تھے: جس گھر میں کوئی مر جاتا ہے اور گھر والے اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں تو اس صدقہ کے ثواب کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نور کے طبق میں رکھ کر اس کی قبر پر لے جاتے ہیں اور کھڑے ہوکر کہتے ہیں: اے قبر والو! یہ تحفہ تمہارے گھر والوں نے تم کو بھیجا ہے، اس کو قبول کرو، پس مردہ خوش ہوتا ہے اور اپنے ہمسایہ کو خوشخبری سناتا ہے اور اس کے ہمساۓ جن کو کوئی تحفہ نہیں پہنچا ہے غمگین رہتے ہیں۔ (نورالصدور ص:۱۳۸)*

*☞ "_ ماں باپ کی طرف سے حج کرنا:-*
*✿_"_ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جوشخص اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی طرف سے حج کرے تو اللہ تعالی حج کرنے والے کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے اور ان دونوں کو پورے پورے حج کا ثواب ملتا ہے بغیر کمی کے۔ (نور الصدور ص:۱۳۸)*

*☞ "_ اولاد کے استغفار سے مرحوم والدین کو فائدہ پہنچتا ہے:-*
*✿_"_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نیک بندہ کو اللہ تعالی جنت میں بہت بڑا درجہ عنایت فرماۓ گا، وہ تعجب کر کے کہے گا: اے پروردگار ! یہ درجہ کہاں سے مجھ کو ملا ؟ اللہ تعالی فرمائے گا: تیرے لڑکے کے استغفار اور دعا کی برکت سے۔ (نور الصدور ص:۱۴۰)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _مرنے کے بعد سات چیزوں کا ثواب ملتا رہتا ہے:-*

*✿_"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: جب مؤمن انتقال کرتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے، مگر سات چیزوں کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا ہے:-*
*"_ 1:- اول جس نے کسی کو علم دین سکھایا تو اس کا ثواب برابر پہنچتا رہتا ہے, جب تک اس کا علم دنیا میں جاری ہے۔*
*"_ ۲: - دوسرے یہ کہ اس کے نیک اولاد ہو اور اس کے حق میں دعا کرتی رہے۔*
*"_۳:- تیسرے یہ کہ قرآن شریف ( کا کوئی نسخہ ) چھوڑ گیا ہو (لوگ اسے پڑھتے ہوں )۔*
*"_۴:- چوتھے یہ کہ مسجد بنوائی ہو۔*
*"_ ۵:- پانچویں یہ کہ مسافروں کے آرام کے لئے مسافر خانہ بنوایا ہو۔*
*"_٦ :- چھٹے یہ کہ کنواں یا نہر کھدوائی ہو۔*
*"_٧_ :- ساتواں یہ کہ صدقہ اپنی زندگی میں دیا ہو،*
*"_ تو جب تک یہ چیزیں موجود رہیں گی ،ان سب کا ثواب پہنچتا رہے گا۔ ( نور الصدور ص: ۱۴۰)*

          *╂───────────╂*
*╠☞ _صدقہ جاریہ کی دو اور صورتیں:-*

*✿_"_ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ: جس نے کسی کو کچھ قرآن شریف پڑھایا یا کوئی مسئلہ بتایا تو اللہ تعالی اس کے ثواب کو قیامت تک زیادہ کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ مثل پہاڑ کے ہوجاتا ہے۔ (نورالصدور ص:۱۴۰)*

*☞ "_مردے سلام کا جواب دیتے ہیں:-*
*✿_"_ حضرت ابورزین رضی اللہ تعالی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہمارا سلام مردے سنتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں، مگر تم نہیں سن سکتے ۔(نور الصدور ص: ۱٠٣)*

*☞ "_مرحوم پر چار طرح احسان کرنا:-*
*✿_"_ حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ انتقال کر چکے، کوئی صورت ایسی ہوسکتی ہے کہ میں اپنے ماں باپ پر احسان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! چار طریقے سے تو ان کے ساتھ احسان کرسکتا ہے: -*
*"_ا:- ایک تو ان کے حق میں دعا کرنا۔*
*"_۲: - دوسرے جو (اچی ) وصیت یا نصیحت تم کو کی ہے اس پر قائم رہنا۔*
*"_ ۳:- تیسرے جو دوست ان کے ہیں ان کی تعظیم اور عزت کرنا۔*
*"_ ۴:- چوتھے جو ان کا خاص قرابت والا ہے اس کے ساتھ محبت اور میل جول رکھنا_, (نور الصدور ص: ۱۲۵)*

*☞ "_میت کی خوبیاں بیان کرو:-*
*✿_"_حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: میت کی خوبیوں کا ذکر کرو، اور برائیوں سے اپنی زبان بند کرو۔ (نورالصدور ص:۱۳۶)*

*✿_"_ الحمدللہ پوسٹ مکمل ہوئی _,"*

 *_Ref✿┅╮*
    *↳📚 احکام میت - ص -231,*
 *(حضرت ڈاکٹر محمد عبدالحئی صاحب عارفی رحمۃ اللہ علیہ)*   
     .     ═══─┉●┉─═══
        ║ *✍🏻 طالب دعاء _*
        ║   _ *حق کا دائ _*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*  
          ╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://chat.whatsapp.com/LdGuSO9SE7W5mUIXkqVnJY
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے لنک کلک کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,* 
  ╚═════════════┅┄ ✭✭    

Post a Comment

0 Comments