MOHSIN E INSANIYAT ﷺ (URDU)

 


⚂⚂⚂.
 ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁ 
✮┣ ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
 ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙ 
 *■ محسن انسانیت ﷺ ■* 
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙ 
 *⚂_تعارف شخصیت - ایک نظر میں ⚂*
 ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-ایک جھلک:-” یہ چہرہ ایک جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔" (عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ)*

*❀_"_دنیا میں عظیم کارنامے انجام دینے والی ہستیاں (خصوصاً انبیاء علیہم السلام) ہمیشہ غیر معمولی درجے کی شخصیتوں سے آراستہ ہوتی ہیں۔ سیرت پاک کے مطالعہ کی ایک غایت یہ بھی ہے کہ محسن انسانیت کی شخصیت کو سمجھا جاۓ۔ کسی بھی شخصیت کو سمجھنے میں اس کی وجاہت بہت بڑی مدد دیتی ہے۔ آدمی کا سراپا اس کے بدن کی ساخت اس کے اعضاء کا تناسب خاص اس کے ذہنی اور اخلاقی اور جذباتی مرتبے کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خصوصاً چرہ ایک ایسا قرطاس ہوتا ہے جس پر انسانی کردار اور کارناموں کی ساری داستان لکھی ہوتی ہے اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہی ہم کسی کے مقام کا تصور کر سکتے ہیں۔*

*❀__ ہم بعد کے لوگوں کی یہ کو تاہی قسمت ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان کا روے زیبا ہمارے سامنے نہیں ہے اور نہ ہم عالم واقعہ میں سر کی آنکھوں سے زیارت کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم حضور ﷺ کے حسن و جمال کی جو کچھ بھی جھلک پا سکتے ہیں وہ حضور ﷺ کے پیغام اور کارنامے کے آئینے ہی میں پاسکتے ہیں۔*

*❀__حضور کی کوئی حقیقی شبیہ یا تصویر موجود نہیں ہے۔ خود ہی حضور ﷺ نے امت کو اس سے باز رکھا۔ کیونکہ تصویر کا فتنہ شرک سے دور نہ رہ سکتا۔ حضور ﷺ کی اگر کوئی تصویر موجود ہوتی تو نہ جانے اس کے ساتھ کیا کیا کرامات اور اعجاز منسوب ہو جاتے۔ اور اس کے اعزاز کے لیے کیسی کیسی رسمیں اور تقریبیں نمودار ہو چکی ہوتیں بلکہ بعید نہ تھا کہ اس کی پرستش ہونے لگتی۔*
 
*❥❥_ لیکن حضور ﷺ کے صحابیوں نے کم سے کم الفاظ میں حضور ﷺ کی شبیہ کو مرتب کر دیا ہے اور اسے محفوظ حالت میں اصحاب روایت نے ہم تک پہنچا دیا ہے۔ یہاں ہم اس لفظی شبیہ کو پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین حضور ﷺ کے کردار کا مطالعہ کرنے سے پہلے اس عظیم شخصیت کی ایک جھلک دیکھ لیں۔ یہ گویا ایک نوع کی ملاقات ہے ۔۔۔ ایک تعارف!*

*❀__ حضور کے چہرہ اقدس، قد و قامت خد و خال چال ڈھال اور وجاہت کا جو عکس صدیوں کے پردوں سے چھن کر ہم تک پہنچتا ہے وہ بہرحال ایک ایسی شخصیت کا تصور دلاتا ہے جو ذہانت، شجاعت، صبر و استقامت، راستی و دیانت، عالی ظرفی سخاوت فرض شناسی وقار و انکسار اور فصاحت و بلاغت جیسے اوصاف حمیدہ کا جامع تھا، بلکہ کہنا چاہیے کہ حضور کے جسمانی نقشے میں روح نبوت کا پر تو دیکھا جا سکتا ہے۔ اور آپ کی وجاہت خود آپ کے مقدس مرتبہ کی ایک دلیل تھی۔*

*❀__ اس موقع پر آپ کا ایک ارشاد یاد آیا۔ فرمایا ۔ خدا کا تقویٰ ہی چہروں کو روشن کرتا ہے۔ نبوت تو ایمان و تقویٰ کی معراج ہے۔ نبی ﷺ کا چہرہ تو نور افشاں ہونا ہی چاہیے۔ سو یہ ہے اس آفتاب حق کی ایک جھلک!* 

*❥❥__ وجاہت:-* 
*❀__میں نے جونہی حضور ﷺ کو دیکھا تو فورا سمجھ لیا کہ آپ کا چہرہ ایک جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ (عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ) میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر حاضر ہوا تو لوگوں نے دکھایا کہ یہ ہیں خدا کے رسول ! دیکھتے ہی میں نے کہا۔ واقعی یہ اللہ کے نبی ہیں_" ( شمائل ترمذی)*

*❀_ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہود کے ایک بڑے عالم تھے جن کا نام حصین تھا۔ سرور عالم ﷺ کے مدینے آنے پر یہ دیکھنے کو گئے دیکھتے ہی ان کو جو تاثر ہوا۔ بعد میں اسے انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ایمان لاۓ اور عبداللہ نام تجویز ہوا۔ (سيرة المصطفی از مولینا محمد ادریس کاندھلوی مرحوم (ج ۱ ص ۳۴۹- ۳۵۰)*

*❀_ مطمئن رہو، میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا جو چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن تھا، وہ کبھی تمہارے ساتھ بد معاملگی کرنے والا شخص نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا آدمی (اونٹ کی رقم) ادا نہ کرے تو میں اپنے پاس سے ادا کر دوں گی_," (ایک معزز خاتون)*

*❀__ مدینہ میں ایک تجارتی قافلہ وارد ہوا۔ اور شہر سے باہر ٹھہرا۔ حضور ﷺ کا اتفاقاً اس طرف گزر ہوا۔ ایک اونٹ کا سودا کر لیا اور یہ کہہ کر اونٹ ساتھ لے آۓ کہ قیمت بھجواۓ دیتا ہوں، بعد میں قافلے والوں کو تشویش ہوئی کہ بغیر جان پہچان کے معاملہ کر لیا۔ اس پر سردار قافلہ کی خاتون نے مذکورہ فقرہ کہا۔ یہ واقعہ طارق بن عبداللہ نے بیان کیا جو خود شریک قافلہ تھے بعد میں حضور ﷺ نے طے شدہ قیمت سے زیادہ مقدار میں کھجوریں بھجوا دیں۔ (سیرت النبی مولانا شبلی مرحوم جلد دوم ص ۳۸۰)* 

*❥❥_:-_ہم نے ایسا خوب رو شخص اور نہیں دیکھا . ...... ہم نے اس کے منہ سے روشنی سی نکلتی دیکھی ہے"۔ (ابو قرصافہ کی والدہ اور خالہ)۔*

*❀_"_”حضور ﷺ سے زیادہ خوب رو کسی کو نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا گویا آفتاب چمک رہا ہے" (ابو ہریرہ)*.*"_اگر تم حضور ﷺ کو دیکھتے تو سمجھتے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے"۔ (ربیع بنت معوذ)* *”_دیکھنے والا پہلی نظر میں مرعوب ہو جاتا_," (حضرت علی)*

*❀_”_میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور ﷺ کو دیکھ رہا تھا آپ اس وقت سرخ جوڑا زیب تن کئے ہوۓ تھے۔ میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی آپ کو بالآخر میں اس فیصلے پر پہنچا کہ حضور اکرم ﷺ چاند سے کہیں زیادہ حسین ہیں_" (حضرت جابر بن سمرہ)*

*❀_”_خوشی میں حضور ﷺ کا چہرہ ایسا چمکتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔ اس چک کو دیکھ کر ہم آپ کی خوشی کو پہچان جاتے تھے_," (کعب بن مالک)**"_ چہرے پر چاند کی سی چمک تھی_," (ہند بن ابی ہالہ)* 

*❀__چہره --*
*"_”بدر کی طرح گولائی لیے ہوۓ ۔ (براء بن عازب)*
*"_ چہرہ بالکل گول نہیں تھا۔ ہلکی گولائی لئے ہوۓ_," (حضرت علی)* 
*"_پیشانی کشادہ ۔ ابرو خمدار --- باریک اور گنجان_ (دونوں جدا جدا۔ دونوں کے درمیان میں ایک رگ کا ابھار جو غصہ آنے پر نمایاں ہو جاتا_," (ہند بن ابی ہالہ )*
*"_ مسرت پیشانی سے جھلکتی تھی" (کعب بن مالک)* 

❥❥_:---- رنگت ۔*
*❀_"_نہ چونے کی طرح سفیدی۔ نہ سانولا پن ۔ گندم گوں جس میں سفیدی غالب تھی_," (حضرت انس رضی اللہ عنہ)*
*”_سفید سرخی مائل_," (حضرت علی رضی اللہ عنہ)*
*”_سفید مگر ملاحت دار“۔ (ابوالطفیل رضی)*
*"_ گویا کہ چاندی سے بدن دھلا ہوا تھا_," (حضرت ابو ہریرہ رضی)*
*"سفید --- چمک دار“۔ (ہند بن ابی ہالہ)*

*❀__ آنکھیں:-"*
*”_آنکھیں سیاہ --- پلکیں دراز"۔ (حضرت علی رضی)**”_ پتلیاں سیاہ ---- نظریں نیچی --- گوشہ چشم سے دیکھنے کا حیادارانہ انداز" (ہند بن ابی ہالہ )**”_سفید حصے میں سرخ ڈورے ---- آنکھوں کا خانہ لمبا۔۔۔۔ قدرتی سرمگیں“۔ (جابر بن سمرہ)*

*❀__ناک__,*
*”_بلندی مائل ۔۔۔۔ اس پر نورانی چمک ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ابتدائی نظریں بڑی معلوم ہوتی“۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__ رخسار ------,*
*"_ہموار اور ہلکے ۔۔۔۔ نیچے کو ذرا سا گوشت ڈھلکا ہوا"۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__دہن ( منہ) ۔*
*"_ فراخ ۔۔۔!" (جابر بن سمره)*
*”_ بہ اعتدال فراخ _," (ہند بن ابی ہالہ)* 
 
*❥❥_:- دندان مبارک --------,*
*❀_"_ باریک ----- آبدار ۔۔۔۔ سامنے کے دانتوں میں خوش نما ریخیں“ (حضرت ابن عباس رضی)**"_ تکلم فرماتے تو دانتوں سے چمک سی نکلتی ہوئی“ (حضرت انس رضی)*

*❀__ ریش :-*
*"_بھر پور اور گنجان بال_," (ہند بن ابی ہالہ)*
*❀__گردن ۔۔,*
*"_ پتلی لمبی ۔۔۔ جیسے مورتی کی طرح خوب صورتی سے تراشی گئی ہو۔۔۔ گردن کی رنگت چاندی جیسی اجلی اور خوشنما۔" (ہند بن ابی ہالہ)*

*❀__ سر __,*
*"_ بڑا ۔۔۔ مگر اعتدال اور مناسبت کے ساتھ"۔ (ہند بن ابی ہالہ)*

*❀__ بال :-*
*"_ قدرے خم دار " (حضرت ابو ہریرہ رضی)*
*”نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے ---- نہ زیادہ پیچ دار"۔ ( قتادہ رضی)*
*”_ہلکل خم لیے ہوۓ_," (حضرت انس رضی)*
*"_گنجان ۔۔۔ کبھی کبھی کانوں کی لو تک لمبے، کبھی شانوں تک" (براء بن عازب رضی)**”_درمیان سے نکلی ہوئی مانگ“۔ (ہند بن ابی ہالہ)*

*❀_”_بدن پر بال زیادہ نہ تھے ۔ ۔۔۔۔۔ سینہ سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر“۔ (حضرت علی۔ ہند بن ابی ہالہ)**"_ کندھوں بازوؤں اور سینہ کے بالائی حصہ پر تھوڑے سے بال تھے_," (ہند بن ابی ہالہ)* 
 
*❥❥_:--مجموعی ڈھانچہ ---------،*
*❀__"_ بدن گٹھا ہوا ۔۔۔۔ اعضاء کے جوڑوں کی ہڈیاں بڑی اور مضبوط"۔ (ہند بن ابی ہالہ)*
*"_ بدن موٹا نہیں تھا"۔ (حضرت علی رض)**"_ قد --- نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست ! میانہ". (حضرت انس رضی)*
*"_ قامت مائل بہ درازی! ۔۔۔۔ مجمع میں ہوں تو دوسروں سے قد نکلتا ہوا معلوم ہو_," (برا بن عازب)*

*❀__"_پیٹ باہر کو نکلا ہوا نہ تھا _," (ام معبد)*

*"_ دنیوی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونے والوں سے حضور ﷺ کا جسم (باوجود فقر و فاقہ کے) زیادہ ترو تازہ اور توانا تھا_," (المواہب ج ۱ ص۳۱۰)*

*❀__"_مشہور واقعہ ہے کہ حضور ﷺ نے عمرہ کیا تو سو اونٹ بہ نفس نفیس ہانکے اور ان میں سے ٦٣ کو بدست خود نحر کیا اور بقیہ کو حضرت علی کے سپرد کیا_,"*

*❀__”_میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی بہادر اور زور آور نہیں دیکھا۔" (ابن عمر رضی)*

*❀__"_ مکہ میں رکانہ نامی ایک پہلوان تھا جو اکھاڑوں میں کشتیاں لڑتا۔ ایک دن حضور ﷺ کسی ملحقہ وادی میں اس سے ملے اور اپنی دعوت دی۔ اس نے دعوت کے لیے کوئی معیار صدق طلب کیا۔ اس کے ذوق کے پیش نظر حضور ﷺ نے کشتی کرنا پسند کر لیا۔ تین بار کشتی ہوئی اور تینوں بار آپ ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا۔ اسی رکانہ پہلوان کے بیٹے ابو جعفر محمد کی یہ روایت حاکم نے مستدرک میں لی ہے، اور ابو داؤد اور ترمذی نے اسے پیش کیا ہے اور بہیقی نے سعید بن جبیر کی دوسری روایت کی ہے جس میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے بعض دوسرے لوگوں کو بھی کشتی میں پچھاڑا ہے جن میں ایک ابوالاسود جمعی بھی ہے_," (المواہب -ج ۱ ص ۳۔ ۳۰۲)*

*❥❥_:--- کندھے اور سینہ :۔*
*❀__"_سینہ چوڑا - سینہ اور پیٹ ہموار“۔ (ہند بن ابی ہالہ)**"_ سینہ چوڑا“۔ (براء بن عازب)**"_مونڈھوں کا درمیانی فاصلہ عام پیمانے سے زیادہ"۔ (ہند بن ابی ہالہ۔ براء بن عازب)**"_ کندھوں کا درمیانی حصہ پر گوشت"۔ ' (حضرت علی رض)*

*❀___بازو اور ہاتھ :-*
*”_ کلائیاں دراز ۔۔۔ ہتھیلیاں فراخ ۔۔۔۔ انگلیاں موزوں حد تک دراز“۔ (ہند بن ابی ہالہ)**"_ ریشم کا دبیزیا بار یک کوئی کپڑا یا کوئی اور چیز ایسی نہیں جسے میں نے چھوا ہو اور وہ حضور ﷺ کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و گداز ہو۔ (حضرت انس رضی)*

 *❀___قدم :-*
*"_پنڈلیاں پر گوشت نہ تھیں ۔۔۔۔ ہلکی ہلکی شتی ہوئی_," (جابر بن سمرة)**”_ہتھیلیاں اور پاؤں پر گوشت - تلوے قدرے گہرے ۔۔۔۔۔ قدم چکنے کہ پانی نہ ٹھہرے_," (ہند بن ابی ہالہ)**"_ایڑیوں پر گوشت بہت کم".(جابر بن سمرة)*
 
*❥❥_ ایک جامع لفظی تصویر :-*
*❀__"_یوں تو حضور ﷺ کے متعدد رفقاء نے حضور ﷺ کی شخصیت کے مرقعے لفظوں میں پیش کئے ہیں لیکن ام معبد نے جو تصویر مرتب کی ہے اس کا جواب نہیں،*

*❀__"_ وادی ہجرت کا سفر طے کرتے ہوۓ مسافر حق جب اپنی‌منزل اول (غار ثور) سے چلا تو پہلے ہی روز قوم خزاعہ کی اس نیک نہاد بڑھیا کا خیمہ راہ میں پڑا۔ حضور ﷺ اور آپ کے ہمراہی پیاسے تھے۔ فیضان خاص تھا کہ مریل سی بھوکی بکری نے اس لمحہ وافر مقدار میں دودھ دیا۔ حضور ﷺ نے بھی پیا ہمراہی نے بھی اور‌ اور کچھ بچ رہا،*

*❀___ ام معبد کے شوہر نے گھر آکر دودھ دیکھا تو اچنبھے سے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا۔ ام معبد نے سارا حال بیان کیا۔ وہ پوچھنے لگا کہ اچھا اس قریشی نوجوان کا نقشہ تو بیان کرو۔ یہ وہی تو نہیں جس کی تمنا ہے۔ اس پر ام معبد نے حسین ترین الفاظ میں تصویر کھینچی ۔ ام معبد کو نہ تو کوئی تعارف تھا۔ نہ کسی طرح کا تعصب بلکہ جو کچھ دیکھا من و عن کہہ دیا۔ اصل عربی میں دیکھنے کی چیز ہے (ملاحظہ ہو: زاد المعاد جلد۱ ص ۳۰۷) اس کا جو ترجمہ مولف ” رحمتہ للعالمین ﷺ" نے کیا ہے اس کو ہم یہاں لے رہے ہیں۔*

*❀__"_جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:-*
*"ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے - (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) - نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی - اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے - وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے - بال نہایت سیاہ تھے - وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے - ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی - اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے - سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے -" (زاد المعاد جلد۱ ص ۳۰۷)* 

*❥❥_:-"_لباس:--*
*❀__آدمی کی شخصیت کا واضح اظہار اس کے لباس سے بھی ہوتا ہے, اس کی وضع قطع، قصر و طول رنگ معیار' صفائی اور ایسے ہی مختلف پہلو بتا دیتے ہیں کہ کسی لباس میں ملبوس شخصیت کس ذہن و کردار سے آراستہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے لباس کے بارے میں حضور ﷺ کے رفقاء نے جو معلومات دی ہیں وہ بڑی حد تک حضور ﷺ کے ذوق کو نمایاں کر دیتی ہیں۔*

*❀__ حضور ﷺ نے لباس کے معاملہ میں در حقیقت اس آیت کی عملی شرح پیش فرمائی ہے:- يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ _, ( اعراف، ۲٦)**"_ اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارے ستر ڈھانکنے والا اور تمہیں زینت دینے والا لباس تمہارے لیے مقرر کیا ہے۔ اور لباس تقویٰ بهترین لباس ہے_,"*

*❀__ سو حضور ﷺ کا لباس ساتر تھا، زینت بخش تھا اور بائیں ہمہ لباس تقویٰ تھا۔ اس میں ضرورت کا بھی لحاظ تھا۔ وہ چند کڑے اخلاقی اصولوں کی پابندی کا مظہر بھی تھا اور ذوق سلیم کا ترجمان بھی۔حضور ﷺ کو کبر و ریا سے بعد تھا۔ اور ٹھاٹھ باٹھ سے رہنا پسند نہ تھا۔*

 *❀__ فرمایا:- میں تو بس خدا کا ایک بندہ ہوں اور بندوں کی طرح لباس پہنتا ہوں_," ریشم دیبا اور حریر کو مردوں کے لیے آپ نے حرام قرار دیا۔ ایک بار تحفہ میں آئی ہوئی ریشمی قبا پہنی اور پھر فوراً اضطراب کے ساتھ اتار پھینکی (مشکوۃ)،*

*❥❥_ تہ بند، قمیض اور عمامہ کی لمبائی چو نکہ علامت کبر تھی اور یہ طریق لباس متکبرین میں رائج تھا، اس لیے اس سے سخت تنفر تھا۔ • ( بہت سی روایات ہیں، مثلاً سالم کی روایت اپنے والد سے، مندرجہ ابو داؤر' نسائی، ابن ماجہ، لباس شهرت پر وعید از ابن عمر۔ مندرجہ ترندی۔ احمد ، ابو داؤد. ابن ماجہ _,"*

*❀___ دوسری قوموں خصوصاً مذہبی طبقوں کے مخصوص فیشنوں کی تقلید اور نقالی کو بھی حضور نے ممنوع ٹھرایا_," ( مثلاً روایت ابن عمر مندرجہ احمد و ابو داؤد) تا کہ امت میں اپنی خودی اور عزت نفس برقرار رہے، نیز فیشن اور لباس کی تقلید نظریات و کردار کی تقلید پیدا کرنے کا سبب نہ بن سکے،*

*❀__ چنانچہ حضور ﷺ نے اسلامی تمدن کے تحت فیشن، آداب اور ثقافت کا ایک نیا ذوق پیدا کر دیا۔ لباس میں موسمی تحفظ ستر، سادگی نظافت و نفاست اور وقار کا حضور ﷺ کو خاص لحاظ تھا۔ اب ہم حضور ﷺ کے لباس پر ایک نگاہ ڈالیں،:-* 

*❀__ کرتا (قمیض) بہت پسند تھا۔ کرتے کی آستین نہ تنگ رکھتے نہ زیادہ کھلی۔ درمیانی ساخت پسند تھی۔ آستین کلائی اور ہاتھ کے جوڑ تک پہنچتی۔ سفر (خصوصاً جہاں) کے لئے جو کرتا پہنتے اسکے دامن اور آستین کا طول ذرا کم ہوتا۔ قمیض کا گریبان سینہ پر ہو تا جسے کبھی کبھار (موسمی تقاضے سے) کھلا بھی رکھتے اور اسی حالت میں نماز پڑھتے،*

*❀__ کرتا پہنتے ہوۓ سیدھا ہاتھ ڈالتے پھر الٹا۔ رفیقوں کو اس کی تعلیم دیتے۔ داہنے ہاتھ کی فوقیت اور اچھے کاموں کیلئے داہنے ہاتھ کا استعمال حضور ﷺ کی سکھائی ہوئی اسلامی ثقافت کا ایک اہم عنصر ( بنیاد) ہے۔* 

*❥❥_:- عمر بھر تہ بند (لنگی) استعمال فرمایا، جسے ناف سے ذرا نیچے باندھتے اور نصف ساق تک (نخنوں سے ذرا اونچا) سامنے کا حصہ قدرے زیادہ جھکا رہتا۔*

*★_ پاجامہ ( سراویل) دیکھا تو پسند کیا۔ آپ ﷺ کے صحابی پہنتے تھے ایک بار خود خرید فرمایا (اختلاف ہے کہ پہنا یا نہیں) اور وہ آپ کے ترکہ میں موجود تھا۔ اس کی خریداری کا قصہ دلچسپ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیے ہوۓ حضور ﷺ بازار گئے اور بزازوں کے ہاں تشریف لے گئے۔ چار درہم پر پاجامہ خریدا۔ بازار میں اجناس کو تولنے کے لیے ایک خاص وزان مقرر تھا۔ وزن کرانے گئے اور اس سے کہا کہ اسے جھکتا ہوا تو لو، وزان کنے لگا کہ یہ الفاظ میں نے کسی اور سے کبھی نہیں سنے۔*.

*★_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے توجہ دلائی۔ تم اپنے نبی پاک کو پہچانے نہیں ؟ ۔ وہ ہاتھ چومنے کو بڑھا تو آپ ﷺ نے روکا کہ یہ عجمیوں کا (یعنی غیر اسلامی) طریقہ ہے, بہرحال وزن کرایا اور پاجامہ خرید کر لے چلے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ اسے پہنیں گے ؟ تعجب غالباً اس بنا پر ہوا ہو گا کہ ایک تو دیرینہ معمول میں ایسی نمایاں تبدیلی عجیب لگی۔ دوسرے پاجامہ اہل فارس کا پہناوا تھا۔ اور تشبہ سے حضور ﷺ کو اجتناب تھا (حالانکہ دوسرے تمدنوں کے اچھے اجزا کو حضور ﷺ قبول فرماتے تھے) آپ نے جواب دیا: "ہاں پہنوں گا۔ سفر میں بھی، حضر میں بھی، دن کو بھی رات کو بھی۔ کیونکہ مجھے حفظ ستر کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے زیادہ ستر پوش لباس کوئی نہیں۔"**®_( المواہب ج 1 ص ۶ - ۳۳٦)*

*❥❥_سر پر عمامہ باندھنا خاص پسند تھا، نہ بہت بھاری ہوتا تھا۔ نہ چھوٹا۔ ایک روایت کے لحاظ سے، گز لمبائی ہوتی تھی۔ عمامہ کا شملہ بالشت بھر ضرور چھوڑتے جو پیچھے کی جانب دونوں شانوں کے درمیان اڑس لیتے۔ تمازت آفتاب سے بچنے کے لیے شملہ کو پھیلا کر سر پر ڈال لیتے۔ اسی طرح موسمی حالات تقاضا کرتے تو آخری پل ٹھوڑی کے نیچے سے لے کر گردن کے گرد لپیٹ بھی لیتے۔ کبھی عمامہ نہ ہو تا تو کپڑے کی ایک رهجی (رومال) پٹی کی طرح سرسے باندھ لیتے. ” ( ایک رائے یہ ہے کہ ایسا بیاری خصوصاً درد سر کی حالت میں ہوا)*

*❀___ عمامہ کو تیل کی چکنائی سے بچانے کے لیے ایک خاص کپڑا (عربی نام قناع) بالوں پر استعمال کرتے، ۔ سفید کے علاوہ زرد ( غالباً مٹیلا، خاکستری مائل یا ستری) رنگ کا عمامہ بھی باندھا ہے۔ اور فتح مکہ کے موقع پر سیاہ بھی استعمال فرمایا۔*.

*❀___ عمامہ کے نیچے کپڑے کی ٹوپی بھی استعمال میں رہی۔ اور اسے پسند فرمایا۔ نیز روایات میں ہے کے عمامہ کے ساتھ ٹوپی کا یہ استعمال گویا اسلامی ثقافت کا‌ مخصوص طرز تھا اور اسے آپ ﷺ نے مشرکین کے مقابلے پر امتیازی فیشن قرار دیا۔*

*❀___ عمامہ کے علاوہ کبھی خالی سفید ٹوپی بھی اوڑھتے ۔ گھر میں اوڑھنے کی ٹوپی سر سے چپٹی ہوئی ہوتی۔ سفر پر نکلتے تو اٹھی ہوئی باڑ والی ٹوپی استعمال فرماتے۔ سوزنی نما سلے ہوئے کپڑے کی دبیز ٹوپی بھی پہنی ہے۔*
 
*❥❥_:- اوڑھنے کی چادر ۴ گز لمبی سوا دو گز چوڑی ہوتی تھی۔ کبھی لپیٹ لیتے کبھی ایک پلو سیدھے بغل سے نکال کر الٹے کندھے پر ڈال لیتے، یہی چادر کبھی کبھار بیٹھے ہوئے ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیتے اور بعض مواقع پر اسے تہ کر کے تکیہ بھی بنا لیتے۔ معزز ملاقاتیوں کی تواضع کے لیے چادر اتار کر بچھا بھی دیتے۔ یمن کی چادر جسے جبرہ کہا جاتا تھا بہت پسند تھی، اس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے لیے سیاہ چادر (غالباً بالوں کی) بھی بنوائی گئی اسے اوڑھا تو پسینے کی وجہ سے بو دینے لگی۔ چنانچہ نظافت کی وجہ سے پھر اسے نہیں اوڑھا۔*

*❀_ نیا کپڑا خدا کی حمد اور شکر کے ساتھ بالعموم جمعہ کے روز پہنتے۔ فاضل جوڑے بنوا کر نہیں رکھتے تھے۔ کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے۔ ان کی مرمت کرتے، احتیاطاً گھر میں دیکھ لیتے کہ مجمع میں بیٹھنے کی وجہ سے (مجالس اور نمازوں میں میلے کچیلے لوگ بھی آتے تھے اور صفائی کا عام معیار بھی آپ ﷺ ہی نے مسلسل تربیت کر کر کے برسوں میں بلند کیا) کوئی جوں وغیرہ نہ آگسھی ہو۔*

*❀"_ جہاں ایک طرف فقر و سادگی کی وہ شان تھی۔ وہاں دوسری طرف آپ کو رہبانیت کا سدباب بھی کرنا تھا اور اس اصول کا مظاہرہ بھی مطلوب تھا کہ ”اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت (رزق) کا اثر اس کے بندے سے عیاں ہو،_," مختصر یہ کہ معمول عام سادگی تھا, سو حضور ﷺ نے کبھی کبھار اچھا لباس بھی زیب بدن فرمایا ۔ آپ ﷺ کا مسلک اعتدال تھا اور انتہا پسندی سے امت کو بچانا مطلوب تھا۔* 

*❀_کپڑوں کے لیے سب سے بڑھ کر سفید رنگ مرغوب خاطر تھا۔ فرمایا ”حق یہ ہے کہ تمہارے لیے مسجدوں میں بھی اللہ کے سامنے جانے کا بہترین لباس سفید لباس ہے_," ( ابو داؤد، ابنِ ماجہ)*
*"_ فرمایا ۔ سفید کپڑے پہنا کرو اور سفید ہی کپڑے سے اپنے مردوں کو کفن دو کیونکہ یہ زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہیں_," ( عن سمرہ ( احمد) ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ)*

*❥❥_:- سفید کے بعد سبز رنگ بھی پسندیدہ تھا۔ لیکن بالعموم اس شکل میں کہ ہلکی سبز دھاریاں ہوں۔ اس طرح خالص شوخ سرخ رنگ بہت ہی ناپسند تھا (لباس کے علاوہ بھی اس کے استعمال کو بعض صورتوں میں ممنوع فرمایا) لیکن ہلکے سرخ رنگ کی دھاریوں والے کپڑے آپ ﷺ نے پہنے، ہلکا زرد (مٹیالا یا شتری) رنگ بھی لباس میں دیکھا گیا۔*

*❀__ حضور ﷺ کا جوتا مروجہ عربی تمدن کے مطابق چپل یا کھڑاؤں کی سی شکل کا تھا، جس کے دو تسمے تھے۔ ایک انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی کے درمیان رہتا۔ دوسرا چھنگلیا اور اس کے ساتھ والی انگلی کے بیچ میں۔ جوتے پر بال نہ ہوتے تھے۔ یہ ایک بالشت ۲ انگل لمبا تھا، تلوے کے پاس سے سات انگل چوڑا اور دونوں تسموں کے درمیان پہنچے پر سے دو انگل کا فاصلہ تھا۔*

*❀__ کبھی کھڑے ہو کر پہنتے، کبھی بیٹھ کر بھی، پہنتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں ڈالتے پھر بایاں اور اتارتے ہوۓ پہلے بایاں پاؤں نکالتے پھر دایاں۔*

*❀__ جرابیں اور موزے بھی استعمال میں رہے۔ سادہ اور معمولی بھی اور اعلی قسم کے بھی۔ شاہ نجاشی نے سیاہ رنگ کے سادہ موزے بطور تحفہ بھیجے تھے۔ انہیں پہنا اور ان پر مسح فرمایا ۔ دحیہ کلبی نے بھی موزے تحفہ میں پیش کئے تھے، ان کو آپ نے گھٹنے تک استعمال فرمایا۔*
 
*❥❥_ چاندی کی انگوٹھی بھی استعمال فرمائی، جس میں کبھی چاندی کا نگینہ ہوتا تھا کبھی حبشی پتھر کا، بعض روایات میں آتا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پر چاندی کا پتر یا پالش چڑھا ہوا تھا۔ دوسری طرف یہ واضح ہے کہ لوہے کی انگوٹھی (اور زیور) سے آپ نے کراہت فرمائی ہے۔*

*❀_ انگوٹھی بالعموم داہنے ہی ہاتھ میں پہنی۔ کبھی کبھار بائیں میں بھی۔ درمانی اور شہادت کی انگلی میں نہ پہنتے۔ چھنگلیا میں پہننا پسند تھا۔نگینہ اوپر کی طرف رکھنے کی بجاۓ ہتھیلی کی طرف رکھتے ۔ انگوٹھی پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ ترتیب وار نیچے سے اوپر کو تین سطروں میں کندہ تھے۔ اس سے حضور ﷺ خطوط پر مہر لگاتے تھے۔

*❀__ محققین کی یہ راۓ قرین صحت ہے کہ انگوٹھی مہر کی ضرورت سے بنوائی تھی۔ اور سیاسی منصب کی وجہ سے اس کا استعمال ضروری تھا۔*
 
*❥❥__ وضع قطع اور آرائش:-*
*❀__ حضور ﷺ اپنے بال بہت سلیقے سے رکھتے، ان میں کثرت سے تیل کا استعمال فرماتے، کنگھا کرتے مانگ نکالتے، لبوں کے زائد بال تراشنے کا اہتمام تھا۔ اس معاملہ میں رفقاء کو تربیت دیتے۔ مثلاً ایک صحابی کو پراکنده مو دیکھا تو گرفت فرمائی۔ ایک صحابی کی ڈاڑھی کے بے ڈھب بال دیکھ کر فرمایا کہ ان کو سنوار کر رکھو۔*

*❀__ فرمایا کہ جو شخص سر یا ڈاڑھی کے بال رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ان کو سلیقے اور شائستگی سے رکھے۔ مثلاً ابو قتادہ کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا "ان کو سنوار کے رکھو_," (روایت ابو ہریرہ -ابو داؤد)*

*❀__ یہ تاکید یں حضور ﷺ نے اس لیے فرمائی تھیں کہ بسا اوقات مذہبی لوگ صفائی اور شائستگی کے تقاضوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً رنگ تصوف جب بڑھتا ہے اور رہبانیت ابھرتی ہے تو غلیظ اور غیر شائستہ رہنا علو مرتبت کی دلیل بن جاتا ہے۔ اس خطرے کا سد باب فرمایا ۔*

*❀__ سفر و حضر میں سات چیزیں ہمیشہ ساتھ رہتیں اور بستر کے قریب -(۱) تیل کی شیشی (٢) کنگھا (ہاتھی دانت کا بھی) (۳) سرمہ دانی (سیاہ رنگ کی) (۳) قیچی (۵) مسواک (٦) آئینہ (٧) لکڑی کی ایک پتلی کھبچی۔*

*❀__ سرمہ رات کو سوتے ہوۓ (تا کہ زیادہ نمایاں نہ ہو) تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگاتے۔ آخر شب میں حاجات سے فارغ ہو کر وضو کرتے لباس طلب فرماتے اور خوشبو لگاتے، ریحان کی خوشبو پسند تھی۔ مہندی کے پھول بھی بھینی خوشبو کی وجہ سے مرغوب تھے۔ مشک اور عود کی خوشبو سب سے بڑھ کر پسندیدہ رہی۔ گھر میں خوشبودار دھونی لیا کرتے، ایک عطر دان تھا جس میں بہترین خوشبو موجود رہتی اور استعمال میں آتی* 

*❥❥_ کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے دست مبارک سے خوشبو لگاتیں، مشہور بات ہے کہ آپ جس کوچے سے گزر جاتے تھے، دیر تک اس میں مہک رہتی تھی اور فضائیں بتاتی تھیں کہ "گزر گیا ہے ادھر سے وہ کاروان بہار“۔*

*❀_خوشبو ہدیہ کی جاتی تو ضرور قبول فرماتے اور کوئی اگر خوشبو کا ہدیہ لینے میں تامل کرتا تو ناپسند فرماتے۔ اسلامی ثقافت کے مخصوص ذوق کے ماتحت آپ نے مردوں کے لیے ایسی خوشبو پسند فرمائی جس کا رنگ مخفی رہے اور مہک پھیلے اور عورتوں کے لیے وہ جس کا رنگ نمایاں ہو، مہک مخفی رہے۔*

*❀__رفتار:-*
*❀_حضور ﷺ کی چال عظمت و وقار، شرافت اور احساس ذمہ داری کی ترجمان تھی۔ چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے۔ ڈھیلے ڈھالے طریق سے قدم گھسیٹ کر نہیں۔ بدن سمٹا ہوا رہتا۔ دائیں بائیں دیکھے بغیر چلتے۔ قوت سے آگے کو قدم اٹھاتے۔ قامت میں آگے کی طرف قدرے جھکاؤ ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اونچائی سے نیچے کو اتر رہے ہیں' ہند بن ابی ہالہ کے الفاظ میں ہے کہ گویا زمین آپ ﷺ کی رفتار کے ساتھ لپٹی جا رہی ہے"۔*

*❀__ رفتار تیز ہوتی، قدم کھلے کھلے رکھتے، آپ ﷺ معمولی رفتار سے چلتے مگر بقول حضرت ابو ہریرہ ”ہم مشکل سے ساتھ دے پاتے۔ حضور کی رفتار یہ پیغام بھی دیتی جاتی تھی کہ زمین پر گھمنڈ کی چال نہ چلو۔ (سورہ -لقمان ۱۸:- اور نہ زمین میں اکڑ کر چل)* 

*❥❥__ تکلم :-*
*❀__ تکلم انسان کے ایمان کردار اور مرتبے کو پوری طرح بے نقاب کر دیتا ہے۔ موضوعات اور الفاظ کا انتخاب، فقروں کی ساخت، آواز کا اتار چڑھاؤ لہجہ کا اسلوب اور بیان کا زور یہ ساری چیزیں واضح کرتی ہیں کہ متکلم کس پاۓ کی شخصیت کا علمبردار ہے۔*

*❀__ حضور ﷺ کے منصب اور ذمہ داریوں کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کا بھاری بوجھ اگر کسی دوسری شخصیت پر ڈالا گیا ہوتا۔ تو وہ تفکرات میں ڈوب کر رہ جاتا اور اسے خلوت محبوب ہو جاتی۔ لیکن حضور ﷺ کے کمالات خاص میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک طرف آپ تفکرات اور مسائل مہمہ کا پہاڑ اٹھاۓ ہوۓ ہوتے اور طرح طرح کی پریشانیوں سے گزرتے، لیکن دوسری طرف لوگوں میں خوب گھلنا ملنا بھی رہتا اور دن رات گفتگوؤں کا دور چلتا۔ مزاج کی سنجیدگی اپنی جگہ تھی اور تبسم و مزاح اپنی جگہ ۔*

*❀__ اضداد میں عجیب توازن تھا جس کی مظہر حضور ﷺ کی ذات تھی۔ ایک عالمی تحریک کی ذمہ داری ایک سلطنت کے مسائل ایک جماعت اور معاشرہ کے معاملات اور پھر اپنے خاصے بڑے کنبے کی ذمہ داریاں اچھا خاصا پہاڑ تھیں، جنہیں حضور ﷺ کے کندھے اٹھاۓ ہوۓ تھے۔*

*❀__ چنانچہ امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ کے حوالہ سے بتاتے ہیں کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم متواتر پریشانیوں میں رہتے۔ ہمیشہ مسائل پر غور کرتے، کبھی آپ ﷺ کو بے فکری کا کوئی لمحہ نہ ملا۔ دیر دیر تک خاموش رہتے اور بلا ضرورت فضول بات چیت نہ کرتے ۔" ( شمائل ترندی۔ باب كيف كان كلام رسول اللہ ﷺ)* 
 
*❥❥_:-_ لیکن آپ ایک داعی تھے۔ اور ایک تحریک کے سربراہ، اس لیے تبلیغ و تعلیم اور تزکیہ اور سیاسی انتظام چلانے کے لیے لوگوں سے رابطہ ضروری تھا جس کے لیے سب سے اہم ذریعہ تکلم ہے۔ لہذا دوسری صورت حال حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یوں رہتی کہ”_ جب ہم دنیوی معاملات کا ذکر کر رہے ہوتے تو حضور ﷺ بھی اس ذکر میں حصہ لیتے، جب ہم آخرت پر گفتگو کرتے تو حضور بھی ہمارے ساتھ اس موضوع پر تکلم فرماتے۔ اور جب ہم لوگ کھانے پینے کی کوئی بات چھیڑتے تو حضور بھی اس میں شامل رہے_," ( شمائل ترندی۔ باب كيف كان كلام رسول الله صلى الله علیہ و سلم).*

*❀_ اس کے باوجود آپ ﷺ نے خدا کی قسم کھا کر یہ اصولی حقیقت بیان فرمائی کہ میری زبان سے حق کے ماسوا کوئی بات ادا نہیں ہوتی، قرآن نے بھی وما ينطق عن الهوى کی گواہی دی۔ یعنی آنحضور ﷺ اپنی خواہش نفس سے شرعی احکام نہیں دیتے تھے۔*

*❀_ گفتگو میں الفاظ اتنے ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے کہ سننے والا آسانی سے یاد کر لیتا بلکہ الفاظ ساتھ ساتھ گنے جا سکتے تھے۔ ام معبد نے کیا خوب تعریف بیان کی کہ گفتگو جیسے موتیوں کی لڑی پروئی ہوئی، الفاظ نہ ضرورت سے کم نہ زیادہ ---- نہ کوتاہ سخن نہ طویل گو"۔ تأکید ، تفہیم اور تسہیل حفظ کے لیے خاص الفاظ اور کلمات کو تین بار دہراتے تھے۔*

*❀_ بعض امور میں تصریح سے بات کرنا مناسب نہ سمجھتے تو کنایہ میں فرماتے مکروہ اور فحش اور غیر حیا دارانہ کلمات سے تنفز تھا۔ گفتگو میں بالعموم ایک مسکراہٹ شامل رہتی۔ عبداللہ بن حارث کا بیان ہے کہ "میں نے حضور سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں دیکھا_,"* 
 
*❥❥_:- بات کرتے ہوئے بار بار آسمان کی طرف دیکھتے ۔ گفتگو کے دوران میں کسی بات پر زور دینے کے لیے ٹیک سے اٹھ کر سیدھے ہو بیٹھتے اور خاص جملوں کو بار بار دہراتے، حاضرین کو کسی بات سے ڈراتے تو تکلم کے ساتھ ساتھ زمین پر ہاتھ مارتے۔ بات کی وضاحت کے لیے ہاتھوں اور انگلیوں کے اشارات (Gestures) سے بھی مدد لیتے۔ مثلاً دو چیزوں کا اکٹھا ہونا واضح کرنے کے لیے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملا کر دکھاتے،*

*❀_ کبھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم دگر آرپار کر کے مضبوطی یا جمعیت کا مفہوم نمایاں کرتے، کسی شے یا سمت میں اشارہ کرنا ہوتا تو پورا ہاتھ حرکت میں لاتے۔ کبھی ٹیک لگاۓ ہوۓ اہم معاملات پر بات کرتے تو سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ کی پشت پر رکھ کر انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیتے۔*

*❀_ تعجب کے موقعوں پر ہتھیلی کو الٹ دیتے کبھی سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے اندرونی حصے پر مارتے کبھی سر ہلاتے اور ہونٹوں کو دانتوں سے دباتے۔ کبھی ہاتھ کو ران پر مارتے ۔*

*❀_حضور ﷺ کے کلام کا جہاں ادبی معیار بہت بلند تھا۔ وہاں اس میں عام فہم سادگی بھی تھی اور پھر کمال یہ کہ کبھی کوئی گھٹیا اور بازاری لفظ استعمال میں نہیں لیا اور نہ کبھی مصنوعی طرز کی زبان پسند فرمائی، کہنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے اپنی دعوت اور اپنے مشن کی ضروریات سے خود اپنی ایک زبان پیدا فرمائی تھی۔ ایک اسلوب بیان تھا۔*

*❀_ ایک مرتبہ بنو فہد کے لوگ آۓ تو گفتگو ہوتی رہی۔ جس کے دوران میں آنے والوں نے تعجب سے کہا۔ ”اے اللہ کے نبی ! ہم آپ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، ایک ہی مقام میں پرورش پاتے ہیں، پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ ایسی عربی میں بات کرتے ہیں کہ جس (کی لطافتوں) کو ہم میں سے اکثر نہیں سمجھ سکتے؟ فرمایا اور خوب فرمایا "میری لسانی تربیت خود الله عز وجل نے فرمائی ہے۔ اور میرے ذوق ادب کو خوشتر بنا دیا۔ نیز میں نے قبیلہ سعد کی فصاحت آموز فضا میں پرورش پائی ہے_,"*    
*❥❥_:_ ایک موقعے پر کسی ملاقاتی سے بات ہوئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تعجب سے سن رہے تھے۔ پوچھا اس شخص نے آپ سے کیا کہا اور آپ نے کیا فرمایا؟ حضور ﷺ نے وضاحت کی۔ اس پر جناب صدیق کہنے لگے۔ ”میں عرب میں گھوما پھرا ہوں اور فصحاء عرب کا کلام سنا ہے۔ لیکن آپ سے بڑھ کر کلام فصیح کسی اور سے نہیں سنا_,"*

*❀_اس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بار کہنے لگے۔ ”اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا بات ہے کہ آپ فصاحت میں ہم سب سے بالا تر ہیں۔ حالانکہ آپ ہم سے کبھی الگ نہیں ہوۓ۔ فرمایا "میری زبان اسمعیل علیہ السلام کی زبان ہے جسے میں نے خاص طور سے سیکھا ہے اسے جبریل مجھ تک لاۓ اور میرے ذہن نشین کر دی_,"*

*❀_مطلب یہ ہے کہ حضور کی زبان معمولی عربی نہ تھی۔ بلکہ خاص پیغمبرانہ زبان تھی جس کا جوڑ اسماعیلی زبان سے ملتا تھا اور جبریل علیہ السلام جس زبان میں قرآن لاتے تھے وہ بھی وہی پیغمبرانہ زبان تھی۔*

*❀_ حضور ﷺ کی امتیازی شان یہ تھی کہ آپ کو "جوامع الکلم " عطا کئے گئے تھے۔ خود فرمایا کہ "اعطیت بجوامع الكلم _," جوامع الکلم حضور ﷺ کے وہ مختصر ترین کلمے ہیں جو معنوی لحاظ سے بڑی وسعت رکھتے ہیں۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معانی پیش کرنے میں سرور عالم اپنی مثال آپ تھے، اور اسے خصوصی عطیات رب میں شمار کیا۔*     

        ─━━━════●■●════━━━─
                       *❥❥__خطابت :-*
*❀"_وعظ و تکلم ہی کا ایک اہم جز خطابت ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم پیغام کے حامل تھے۔ اور اس کے لیے خطابت ناگزیر ضرورت تھی۔ خطابت یوں بھی عربوں کی دولت تھی۔ پھر قریش تو اس صفت سے خاص طور پر مالا مال تھے۔ عرب اور قریش کے خطیبانہ ماحول سے حضور بہت بلند رہے، فریضہ قیادت نے جب بھی تقاضا کیا آپ کی زبان کبھی نسیم سحر کی طرح کبھی آب جو کی طرح اور کبھی تیغ برق دم کی طرح متحرک ہو جاتی۔*

*❀_ وعظ و تقریر کی کثرت سے آپ نے پرہیز کیا۔ اور معاشرہ کی ضروریات اور اس کے ظرف کو دیکھ کر اعتدال سے قوت خطابت کا استعمال کیا۔ مسجد میں خطابت فرماتے تو اپنے چھڑی پر سہارا لیتے اور میدان جنگ میں تقریر فرمانا ہوتی تو کمان پر ٹیک لگاتے۔ کبھی کبھار سواری پر سے خطاب کیا ہے۔*

*❀_ تقریر میں جسم دائیں بائیں جھوم جاتا۔ ہاتھوں کو حسب ضرورت حرکت دیے، تقریر میں بعض مواقع پر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یا محمد کی جان ہے کہہ کر قسم کھاتے، لہجے میں بھی اور چہرے پر بھی دل کے حقیقی جذبات جھلکتے اور سامعین پر اثر انداز ہوتے۔ دلوں کو ہلا دیتے تھے۔*

*❥❥_:- حنین و طائف کے معرکہ کے بعد حضور ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا۔ تو مؤلفۃ القلوب کی قرآنی مد کے تحت نو مسلم رؤسائے مکہ کو اس میں بہت سا حصہ دیا تا کہ ان کے دل مزید نرم ہوں اور وہ احسان کے رشتے سے اسلامی ریاست کے ساتھ مربوط تر ہو جائیں، انصار میں کچھ لوگوں نے عجیب سے احساسات کی رو دوڑا دی کہا گیا کہ : " رسول اللہ نے قریش کو خوب انعامات دیئے اور ہمیں محروم رکھا، مشکلات میں ہم یاد آتے ہیں اور حاصل غنیمت دوسرے لوگ لے جاتے ہیں"۔*

*❀_ یہ چرچے حضور کے کانوں تک بھی پہنچے۔ ایک چرمی خیمہ نصب کیا گیا۔ اور اس میں انصار کا اجتماع بلایا گیا۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں نے ایسی باتیں کہی ہیں؟ جواب ملا کہ” آپ نے جو سنا وہ صحیح ہے مگر یہ باتیں ہم میں سے ذمہ دار لوگوں نے نہیں کہیں، کچھ نوجوانوں نے ایسے فقرے کہے ہیں"*

*❀_ واقعہ کی تحقیق کے بعد آپ ﷺ نے یہ تقریر کی: کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم لوگ پہلے گمراہ تھے، خدا نے میرے ذریعے سے تم کو ہدایت دی؟ تم منتشر اور پراگندہ تھے خدا نے میرے ذریعے سے تم کو متحد اور متفق کیا ؟ تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعے سے تم کو آسودہ حال کیا؟ ( ہر سوال پر انصار کہتے جاتے تھے کہ بلاشبہ اللہ اور رسول کا بہت بڑا احسان ہم پر ہے)۔*

*❀"_نہیں تم یہ جواب دو کہ اے محمد ! تم کو جب لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تمہاری تصدیق کی، تم کو جب لوگوں نے چھوڑ دیا تو ہم نے پناہ دی۔ تم جب مفلس ہو کر آئے تھے تو ہم نے ہر طرح کی مدد کی۔ تم جواب میں یہ کہتے جاؤ اور میں یہ کہتا جاؤں گا کہ ہاں تم سچ کہتے ہو۔ لیکن اے گروہ انصار ! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد کو لے کر اپنے گھروں کو جاؤ"*

*❀_ کلام کا اتار چڑھاؤ دیکھئے ، خنجر خطابت کی اس دھار کو دیکھئے جو نازک جذبات سے صیقل کی گئی تھی، پھر اس کی روانی دیکھئے مطالب کے موڈ دیکھئے، پھر یہ غور کیجئے کہ کس طرح خطیب نے بالآخر مطلوبہ کیفیت سامعین میں پوری طرح ابھار دی ۔ انصار بے اختیار چیخ اٹھے کہ ”ہم کو صرف محمد درکار ہیں"۔*   

*❥❥_:- ابتدائی دور دعوت میں کوہ صفا کے خطبہ کے علاوہ متعدد بار آپ نے قریش کے سامنے تقاریر فرمائی ہیں۔ اس دور کے ایک خطبہ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو: :- قافلے کا دیدبان اپنے ساتھیوں کو کبھی غلط اطلاع نہیں دیا کرتا۔ خدا کی قسم اگر (بفرض محال) میں اور سب لوگوں سے جھوٹ کہنے پر تیار بھی ہو جاتا تب بھی تم سے غلط بات ہرگز نہ کہتا۔ اگر (بفرض محال) میں دوسرے تمام لوگوں کو ہلاکت و خطرہ سے دو چار کر دیتا تو بھی تم کو کبھی خطرہ میں مبتلا نہ کرتا۔*

*❀"_ اس خدا کی قسم جس کے سوا اور کوئی الہ نہیں، میں تمہاری طرف خصوصیت سے اور تمام انسانوں کی طرف جامع طور سے خدا کا مقرر کردہ رسول ہوں۔ بخدا تم کو لازماً مرنا ہے جیسے کہ تم سو جاتے ہو اور پھر مرنے کے بعد تم کو جی اٹھنا ہے۔ جیسے کہ تم نیند سے بیدار ہو جاتے ہو، تم سے لازماً تمہارے کاموں کا حساب لیا جانا ہے اور تمہیں بھلے کا بدلہ بھلا اور برے کا بدلہ برا ضرور ملتا ہے پھر یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہو گی یا پیشہ کے لیے دوزخ "۔*

*❀"_کیا ہی سادہ انداز بیان ہے, کتنی عقلی اور جذباتی اپیل ہے۔ داعی کی خیر خواہی ایک ایک لفظ سے ٹپکی پڑتی ہے۔ پھر یقین کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ چھوٹے سے اس خطبے میں تمثیل ( مثال) سے بھی کام لیا گیا ہے" توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی دعوت پوری طرح سموئی ہوئ ہے۔*

*❀"_ حضور کے معرکۃ الآرا خطبے دو اور ہیں جن میں سے ایک فتح مکہ کے موقع پر اور دوسرا حجتہ الوداع کے موقع پر دیا گیا، ان خطبوں کا مزاج انتہائی انقلابی ہے اور ان میں ایمان اخلاق اور اقتدار تینوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ حجتہ الوداع کا خطبہ تو گویا ایک دور نو کے افتتاح کا اعلان ہے۔*    
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-_ عام سماجی رابطہ :-*

*❀"_ بڑے بڑے کام کرنے والے لوگ بالعموم رابطہ عام کے لیے وقت نہیں نکال سکتے اور نہ ہر طرف توجہ دے سکتے ہیں۔ بعض بڑے لوگوں میں خلوت پسندی اور خشکی مزاج پیدا ہو جاتی ہے اور کچھ کبر کا شکار ہو کر اپنے لیے ایک عالم بالا بنا لیتے ہیں۔ مگر حضور ﷺ انتہائی عظمت کے مقام پر فائز ہو کر اور تاریخ کا رخ بدلنے والے کارنامے انجام دے کر عوامی حلقوں سے پوری طرح مربوط تھے ۔ اور جماعت اور معاشرہ کے افراد شخصی اور نجی تعلق رکھتے تھے ،*

*❀"_ علیحدگی پسندی یا کبر یا پیوست کا شائبہ تک نہ تھا، آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اور سلام کہنے میں پہل کرتے۔ کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلام ضرور کہلواتے۔ کسی کا سلام پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے کو بھی اور لانے والے کو بھی جدا جدا سلام کہتے۔ ایک بار لڑکوں کی ٹولی کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا۔ عورتوں کی جماعت کے قریب سے ہو کر نکلے تو ان کو سلام کیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے گھر کے لوگوں کو بھی سلام کہتے ۔*

*❀"_ احباب سے معانقہ بھی فرماتے اور مصافحہ بھی۔مصافحہ سے ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک دوسرا خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرتا۔ مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔ مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتے۔ کندھوں پر سے پھاند کر بیچ میں گھسنے سے احتراز فرماتے۔ فرمایا ۔ اسی طرح بیٹھتا ہوں، جس طرح خدا کا ایک بندہ بیٹھتا ہے،*

*❀"_ اپنے زانو ساتھیوں سے بڑھا کر نہ بیٹھتے کوئی آتا تو اعزاز کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے۔ آنے والا جب تک خود نہ الٹھتا آپ مجلس سے الگ نہ ہوتے۔*   

*❥❥__ اہل مجلس کی گفتگو میں غیر متعلق موضوع نہ چھیڑتے بلکہ جو سلسلہ کلام چل رہا ہوتا اسی میں شامل ہو جاتے۔ چنانچہ نماز صبح کے بعد مجلس رہتی اور اس میں صحابہ سے خوب باتیں ہوتیں۔ جاہلیت کے قصے چھڑ جاتے اور ان پر خوب ہنسی بھی ہوتی۔*

*❀_ صحابہ شعر بھی پڑھتے۔جس موضوع سے اہل مجلس کے چہروں سے اکتانے کا اثر محسوس ہوتا اسے بدل دیتے۔ ایک ایک فرد مجلس پر توجہ فرماتے تاکہ کوئی یہ نہ محسوس کرے کہ کسی کو اس پر آپ نے فوقیت دی ہے۔ دوران تکلم کوئی شخص غیر متعلق سوال چھیڑ دیتا تو اسے نظر انداز کر کے گفتگو جاری رکھتے اور سلسلہ پورا کر کے پھر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے۔*

*❀_ خطاب کرنے والے کی جانب سے اس وقت تک رخ نہ پھیرتے جب تک وہ خود منہ نہ پھیر لیتا۔ کان میں کوئی سرگوشی کرتا تو جب تک وہ بات پوری کر کے منہ نہ ہٹا لیتا آپ برابر اپنا سر اسی کی طرف جھکائے رکھتے۔ کسی کی بات کو کبھی نہ کائتے۔ الا یہ کہ حق کے خلاف ہو۔ اس صورت میں یا تو ٹوک دیتے یا چہرے پر ناگواری آجاتی یا اٹھ کر چلے جاتے۔*

*❀_ ناپسند تھا کہ کھڑے کھڑے کوئی اہم بحث چھیڑ دی جائے۔ نا پسندیدہ باتوں سے یا تو اعراض فرماتے ورنہ گرفت کرنے کا عام طریقہ یہ تھا کہ براہ راست نام لے کر ذکر نہ کرتے ۔ بلکہ عمومی انداز میں اشارہ کرتے یا جامع طور پر نصیحت کر دیتے۔*

*❀_ انتہائی تکدر کی صورت میں جو فقط دینی امور میں ہوتا تھا احباب کو احساس دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ یہ طریق اظہار تھا کہ یا تو شخص متعلق کے آنے پر سلام قبول نہ کرتے یا عدم التفات دکھاتے۔*        

*❥❥__ ناپسندیدہ آدمی کے آنے پر بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ چنانچہ ایک بار کوئی آیا جسے آپ ﷺ اپنے گروہ کا برا آدمی سمجھتے تھے۔ مگر آپ نے بے تکلفی سے بات چیت کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس پر تعجب ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:-*
*"_ قسم ہے کہ قیامت کے دن خدا کے حضور وہ شخص بدترین آدمی کا مقام پائے گا جس سے لوگ اس کی بد سلوکی کے ڈر سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیں"( المواہب ج ا ص ۲۹١ بخاری)*

*❀"_ کسی کی ملاقات کو جاتے تو دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اطلاع دینے اور اجازت لینے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے۔ جواب نہ ملتا تو بغیر کسی احساس تکدر کے واپس چلے آتے۔ رات کو کسی سے ملنے جاتے تو اتنی آواز میں سلام کہتے کہ اگر وہ جاگتا ہو تو سن لے اور سو رہا ہو تو نیند میں خلل نہ آئے۔*

*❀"_ بدن یا لباس سے کوئی شخص تنکا یا مٹی وغیرہ ہٹاتا تو شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماتے مسح الله عنک مانکرہ (خدا تم سے ہر اس شے کو دور کرے جو تمہیں بری لگے)*

*❀"_ ہدیہ قبول کرتے اور جواباً ہدیہ دینے کا خیال رکھتے۔ کسی شخص کو اتفاقاً کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو اسے بدلہ لینے کا حق دیتے اور کبھی عوض میں کوئی ہدیہ دیتے۔ کوئی شخص نیا لباس پہن کر سامنے آتا تو فرماتے:- خوب سے خوب دیر تک پہنو بوسیدہ کرو, بد سلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے۔*

*❀"_ دوسرے کے قصور معاف کر دیتے تو اطلاع کے لیے اپنا عمامہ علامت کے طور پر بھیج دیتے،*     
*❥❥__ کوئی پکارتا تو خواہ وہ گھر کا آدمی ہو یا رفقاء میں سے ہمیشہ "لبیک" (حاضر ہوں) کہتے۔ بیماروں کی عیادت کو اہتمام سے جاتے۔ سرہانے بیٹھ کر پوچھتے۔ تمہاری طبیعت کیسی ہے؟ بیمار کی پیشانی اور نبض پر ہاتھ رکھتے۔ کبھی سینے اور پیٹ پر دست شفقت پھیرتے اور کبھی چہرے پر،*

*❀"_ کھانے کو پوچھتے۔ بیمار کسی چیز کی خواہش کرتا تو اگر مضر نہ ہوتی تو منگوا دیتے۔ تسلی دیتے اور فرماتے- "فکر کی کوئی بات نہیں۔ خدا نے چاہا تو جلد صحت یاب ہوں گے، شفا کے لیے دعا فرماتے۔*

*❀"_ حضرت سعد کے لیے تین بار دعا کی۔ مشرک چچاؤں کی بیمار پرسی بھی کی۔ ایک یہودی بچے کی عیادت بھی فرمائی (جو ایمان لے آیا) اس کام کے لیے کوئی دن اور وقت مقرر نہ تھا۔ جب بھی اطلاع ملتی اور وقت ملتا تشریف لے جاتے۔*

*❀"_ ایک بار حضرت جابر بیمار پڑے۔ رسول خدا ﷺ اپنے رفیق خاص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لئے ہوئے پیدل خاصی دوری تک چل کر گئے، حضرت جابر بے ہوش پڑے تھے۔ آپ نے دیکھا۔ پھر وضو کیا۔ پانی کے چھینٹے دیئے، دعا کی اور مریض کی حالت سنبھلنے لگی، چنانچہ حضرت جابر نے بات چیت کی اور اپنے ترکہ کے متعلق مسائل پوچھے۔*    

*❥❥_:-_تواضع کی انتہا یہ تھی کہ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی تک کی عیادت فرمائی۔ جب کسی شخص کی وفات ہو جاتی تو تشریف لے جاتے، عالم نزع میں بلایا جاتا یا از خود اطلاع پا کر پہنچتے تو توحید اور توجہ الی اللہ کی تلقین کرتے۔ میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے، صبر کی نصیحت کرتے اور چلانے اور پکا کرنے سے روکتے۔*

*❀"_ سفید کپڑوں میں اچھا کفن دینے کی تاکید کرتے اور تجہیز و تکفین میں جلدی کراتے۔ جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ چلتے۔ مسلمانوں کے جنازے خود پڑھاتے اور مغفرت کے لیے دعا کرتے۔ کوئی جنازہ گزرتا۔۔ تو چاہے وہ غیر مسلم کا ہو ۔ کھڑے ہو جاتے (بیٹھے رہنے کی روایت بھی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیام کا طریقہ منسوخ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ ملاحظہ ہو زادالمعاد ج ۱ ص ۱۳۴۵),*

*❀_ تلقین فرماتے کہ میت کے گھر والوں کے لیے لوگ کھانا پکوا کر بھجوائیں ( آج یہ الٹی رسمیت مسلط ہے کہ میت والے گھر میں دوسروں کی ضیافت ہوتی ہے) نا پسند تھا کہ باقاعدہ مجلس تعزیت کا سلسلہ ایک رسمی ضابطے کے طور پر کئی کئی روز جاری رہے۔*

*❀_ کوئی مسافر سفر سے واپس آتا اور حاضری دیتا تو اس سے معانقہ کرتے، بعض اوقات پیشانی چوم لیتے, کسی کو سفر کے لیے رخصت فرماتے تو کہتے کہ بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ محبت آمیز بے تکلفی میں کبھی کبھی احباب کے ناموں کو مختصر کر کے بھی پکار لیتے، جیسے یا ابا ہریرہ کی بجائے ”ابا ہر" حضرت عائشہ کو کبھی کبھار "عائش" کہہ کر پکارتے۔*     

*❥❥_:- بچوں سے بہت دلچسپی تھی۔ بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے پیار کرتے دعا فرماتے، ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لے لیتے۔ ان کو بہلانے کے لیے عجیب سے کلمے فرماتے، ایک معصوم بچے کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا " یہ بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں،*

*❀_ بچوں کے نام تجویز کرتے، بچوں کو قطار میں جمع کر کے انعامی دوڈ لگواتے کہ دیکھیں کون ہمیں پہلے چھو لیتا ہے، بچے دوڑتے ہوئے آتے تو کوئی سینہ پر گرتا کوئی پیٹ پر ۔ بچوں سے دل لگی بھی کرتے۔ مثلاً حضرت انس کو کبھی کبھی پیار سے کہا "یا ذالاذنين" ! (او دوکانوں والے)،*

*❀_ عبد اللہ بن بشیر کے ہاتھ ان کی والدہ نے ہدیہ کے طور پر انگور حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجے۔ صاحبزادے میاں راستے میں کھا گئے۔ بعد میں معاملہ کھلا تو آپ پیار سے عبد اللہ کے کان پکڑ کر کہتے "یا غدر ! یا غدر": (او دھو کے ہاز او دھوکے باز)*

*❀_ سفر سے آرہے ہوتے تو جو بچہ راستے میں ملتا اسے سواری پر بٹھا لیتے، چھوٹا ہوتا تو آگے بڑا ہوتا تو پیچھے، فصل کا میوہ پہلی بار آتا تو دعائے برکت مانگ کر کم عمر بچے کو دے دیتے، آپ کے پیش نظر تھا کہ یہی نئی پود آئندہ تحریک اسلامی کی علم بردار ہو گی۔*

*❀"_ بوڑھوں کا احترام فرماتے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ضعیف العمر والد کو (جو بینائی سے بھی محروم ہو چکے تھے) بیعت اسلام کے لیے آپ کی خدمت میں لائے۔ فرمایا۔ انہیں کیوں تکلیف دی۔ میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔*       

*❥❥_ میل جول کی زندگی میں آپ کے حسن کردار کی تصویر حضرت انسؓ نے خوب کھینچی ہے وہ فرماتے ہیں: میں دس برس تک حضور ﷺ کی خدمت میں رہا اور آپ نے مجھے کبھی اف تک نہ کہی۔ کوئی کام جیسا بھی کیا نہیں کہا کہ یہ کیوں کیا۔ اور کوئی کام نہ کیا تو نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا۔*

*❀_ یہی معاملہ آپ کا خادموں اور کنیزوں کے ساتھ رہا۔ آپ نے ان میں سے کسی کو کبھی نہیں مارا۔ اس کی تصدیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ازواج یا خادموں میں سے نہ کبھی کسی کو مارا نہ کسی سے کوئی ذاتی انتقام لیا ۔*

*❀_ خالص نجی زندگی: اکثر بڑے لوگ وہ کہلاتے ہیں جو پبلک لائف کے لیے ایک مصنوعی کردار کا چغہ پہنے رکھتے ہیں جو نجی‌زندگی میں اتر جاتا ہے۔ باہر دیکھئے تو بڑی آن بان ہے گھر پہنچے تو انتہائی پستی میں جا گرے۔ باہر سادگی اور تواضع دکھائی، گھر کو پلٹے تو عیش وعشرت میں ڈوب گئے۔*

*❀_ حضور ﷺ کو دیکھئے تو ایک ہی رنگ گھر میں بھی ہے اور گھر سے باہر بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول خدا اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا:-*

*❀_ آپ آدمیوں میں سے ایک آدمی تھے۔ اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود ہی کر لیتے۔ بکری کا دودھ خود دو ہتے اور اپنی ضرورتیں خود ہی پوری کر لیتے۔ نیز اپنے کپڑوں کو خود ہی پیوند لگا لیتے۔ اپنے جوتے کی مرمت کر لیتے اور یہ کہ اپنے ڈول کو ٹانکے لگا لیتے, بوجھ اٹھاتے، جانوروں کو چارہ ڈالتے، کوئی خادم ہوتا تو اس کے ساتھ مل کر کام کرا دیتے (مثلاً) اسے آٹا پسوا دیتے۔ کبھی اکیلے ہی مشقت کر لیتے۔ بازار جانے میں عار نہ تھی۔ خود ہی سودا سلف لاتے اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر اٹھا لاتے۔*

*❥❥_:_لوگوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ رسول خدا ﷺ جب گھر میں ہوتے تو کیا رنگ رہتا؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں : (سب سے زیادہ نرم خو، متبسم، خندہ جبیں) اور کبھی کسی خادم کو جھڑکا نہیں" حق یہ ہے کہ رسول خدا سے بڑھ کر کوئی بھی اپنے اہل و عیال کے لیے شفیق نہ تھا۔(مسلم)*

*❀"_ایک بار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول خدا ﷺ گھر میں آتے تو اپنا وقت تین طرح کی مصروفیتوں میں صرف کرتے۔ کچھ وقت خدا کی عبادت میں صرف ہوتا۔ کچھ وقت اہل و عیال کے لیے تھا اور کچھ وقت اپنے آرام کے لیے۔ پھر انہی اوقات میں سے ایک حصہ ملاقاتیوں کے لیے نکالتے جن میں مسجد کی عام مجالس کے علاوہ خصوصی گفتگو کرنے والے احباب یا مہمان آ آکر ملتے یا کچھ لوگ ضروریات و حاجات لے کر آتے_," (شمائل ترندی) دیکھا جائے تو آرام کے لیے بہت ہی کم وقت رہ جاتا تھا۔*

*❀"_ ازواج مطہرات کے نان و نفقہ اور مختلف ضروریات کا انتظام بھی آپ کو کرنا ہوتا پھر ان کی تعلیم و تربیت بھی آپ کے ذمہ تھی۔ پھر انہی کے ذریعے طبقہ خواتین کی اصلاح کا کام جاری رہتا۔ عورتیں اپنے مسائل لے کر آتیں اور ازواج مطہرات کی معرفت دریافت کرتیں۔*

*❀"_ اس کے باوجود گھر کی فضا کو آپ نے کبھی خشک اور بو جھل نہ بننے دیا۔ اور نہ اس میں کوئی مصنوعی انداز پیدا ہونے دیا۔ گھر ایک انسانی گھر کی طرح تھا جس کی فضا میں فطری جذبات کا مدو جزر رہتا، حضور آتے تو نسیم کے جھونکے کی طرح آتے اور ایک عجیب شگفتگی پھیل جاتی۔ بات چیت ہوتی، کبھی کبھی قصہ گوئی بھی ہوتی، اور دلچسپ لطائف بھی وقوع میں آتے،*    

*❥❥_ گھریلو زندگی کے اس فطری اتار چڑھاؤ کو بعض لوگ اسلامیت کے تصور سے فروتر پاتے ہیں اور خصوصاً نبی کریم ﷺ کے گھر کا نقشہ کچھ ایسا ذہن میں رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر انسانی پلتے رہتے تھے جن میں نہ کوئی جذبہ تھا نہ خواہش ۔۔۔۔ حالانکہ وہ گھر انسانوں کا گھر تھا۔ اور اس میں سارے انسانی جذبات کام کرتے تھے، مگر اس گھر میں معصیت نہ تھی۔ اس لحاظ سے وہ نمونے کا گھر تھا۔*

*❀"_ راتوں کو جب حضور بستر پر ہوتے تو اہل و عیال سے عام باتیں ہوتیں۔ کبھی گھریلو امور کبھی عام مسلمانوں کے مسائل پر ۔ یہاں تک کہ کبھی قصہ کہانی بھی سناتے۔ ایک بار آپ نے حضرت عائشہؓ سے ام زرع کی کہانی بیان کی۔ اس کہانی میں گیارہ عورتیں اپنے اپنے خاوندوں کا کردار آپس میں بیان کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک عورت ام زرع اپنے خاوند ابو زرع کا من موہنا کردار پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی ادبی لحاظ سے بڑی دلچسپ ہے۔ خاتمے پر حضور ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں بھی تمہارے حق میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ ابو زرع ام زرع کے لیے تھا۔*

*❀"_ اسی طرح کسی دوسرے موقع پر کوئی قصہ سنایا تو سننے والیوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ تو خرافہ کے قصوں جیسا ہے (عرب میں خرافہ کی ایک روایتی شخصیت تھی جس سے بہت سے حیرت ناک قصے منسوب تھے) حضور نے کہا کہ جانتی بھی ہو کہ خرافہ کی کیا حقیقت تھی۔ پھر آپ نے خرافہ کی روایتی شخصیت کا قصہ بھی بیان کیا کہ بنو عذرہ کے اس آدمی کو جن پکڑ کر لے گئے تھے اور کچھ عرصہ کے بعد واپس چھوڑ گئے۔ (شمائل ترمذی)۔*

*❀"_ عمر بھر معمول رہا کہ رات کے دوسرے نصف حصے کے اوائل میں بیدار ہو کر مسواک اور وضو کے بعد تہجد ادا فرماتے۔ ( زادالمعاد)* 
*"_ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے بعض اوقات اتنا لمبا قیام فرماتے کہ قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ (شمائل ترمذی)۔*
*"_ صحابہ نے اس مشقت پر عرض کیا کہ اللہ تعالی نے تو آپ کو غفران خاص سے نوازا ہے۔ پھر اس قدر حضور ﷺ جان کیوں گھلاتے ہیں۔ فرمایا: "۔ کیا میں خدا کا احسان شناس اور شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (شمائل ترمذی)۔*      

*❥❥__ گھر اور اس کے ساز و سامان کے متعلق آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ زندگی اس طرح گزاری جائے۔ جیسے مسافر گزارتا ہے، فرمایا کہ میری مثال اس مسافر کی سی ہے جو تھوڑی دیر کے لیے سائے میں آرام کرے اور پھر اپنی راہ لے۔ مراد یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو منتہا بنائیں اور دنیوی زندگی کو ادائے فرض یا امتحان کے طور پر گزاریں۔ اور جنہیں یہاں کسی بڑنے نصب العین کے لیے جد و جہد کرنی ہو ان کے لیے کیا موقع ہے کہ اعلیٰ درجہ کے مسکن بنائیں اور ان کو ساز و سامان سے آراستہ کریں اور پھر ان میں مگن رہ کر لطف اٹھائیں۔*

*❀"_ چنانچہ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے نہ اعلیٰ درجہ کی عمارتیں بنائیں۔ اور نہ ان میں اسباب جمع کئے اور نہ ان کی زینت آرائش کی۔ ان کے گھر بس "بہترین مسافرانہ قیام گاہیں تھیں"۔ ان میں گرمی سردی سے بچنے کا اہتمام تھا، جانوروں کی مداخلت سے بچاؤ کا انتظام تھا پردہ داری کا بندوبست تھا۔ اور حفظان صحت کے ضروری پہلو ملحوظ تھے۔*

*❀"_ حضور ﷺ نے مسجد کے ساتھ ازواج کے لیے حجرات (چھوٹے چھوٹے کمرے) بنوا لیے تھے۔ بجز صفائی کے اور کسی طرح کی آرائش نہ تھی۔ صفائی میں ذوق نبوت یہاں تک تھا کہ صحابہ کو تاکید فرمائی ۔ گھروں کے آنگن صاف رکھو" ( ترمذی)*

*❀"_ سازو سامان میں چند برتن نہایت سادہ قسم کے تھے۔ مثلاً ایک لکڑی کا پیالہ (بادیہ) تھا۔ جس پر لوہے کے پتر لگے تھے اور کھانے پینے میں اس کا بکثرت استعمال ہوتا تھا۔ خوراک کا سامان جمع تو کیا ہوتا روز کا روز بھی کافی مقدار میں میسر نہ ہوا۔*        

*❥❥_:-_ بستر چمڑے کے گدے پر مشتمل تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ بان کی بنی ہوئی چار پائی رکھتے۔ ٹاٹ کا بستر بھی استعمال میں رہا۔ جو دوہرا کر کے بچھایا جاتا۔ ایک بار چو ہرا کر کے بچھایا گیا تو صبح دریافت فرمایا کہ آج کیا خصوصیت تھی کہ مجھے گہری نیند آئی اور تہجد چھوٹ گئی۔ معلوم ہونے پر حکم دیا کہ بستر کو پہلے ہی حال پر رہنے دیا جائے۔*

 *❀"_ زمین پر چٹائی بچھا کر بھی لیٹنے کا معمول تھا۔ بعض اوقات چارپائی کے نشانات بدن پر دیکھ کر رفقائے خاص (مثلا حضرت عمر و عبداللہ بن مسعود) رو دیئے۔ ذرا حضرت عمر کا چشم دید نقشہ سامنے لائیے۔ واقعہ ایلاء کے زمانے میں انہوں نے حضور کو اس عالم میں دیکھا کہ : ” آپ کھری چارپائی پر لیٹے ہیں اور جسم پر نشان پڑ گئے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھا تو ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے ہیں۔ ایک کونے میں کسی جانور کی کھال کیلی سے لٹک رہی ہے، یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے"۔*

*❀"_ حضور ﷺ نے رونے کا سبب پوچھا تو عرض کیا کہ قیصر و کسرئی تو عیش کریں اور آپ کا یہ حال رہے"۔ فرمایا " عمر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ وہ دنیا لے جائیں اور ہمیں آخرت ملے"۔ ( المواہب اللدنیہ ج ا ص ۳۴۰ نیز صحیح مسلم باب في الرجل يطلق امراته روایت عبد اللہ، ابن عباس)*

*❀"_کھانے پینے کا ذوق بہت نفیس تھا۔ گوشت سے خاص رغبت تھی، زیادہ ترجیح دست گردن اور پیٹھ کے گوشت کو دیتے، نیز پہلو کی ہڈی پسند تھی، شرید (گوشت کے شوربے میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر یہ مخصوص عربی کھانا تیار کیا جاتا تھا) تناول فرمانا مرغوب تھا۔ پسندیدہ چیزوں میں شہد، سرکہ، خربوزہ ککڑی لوکی کھچڑی، مکھن وغیرہ اشیاء شامل تھیں۔ دودھ کے ساتھ کھجور (بہترین مکمل غذا بنتی ہے) کا استعمال بھی اچھا لگتا اور مکھن لگا کے کھجور کھانا بھی ذوق میں شامل تھا۔*        

*❥❥_:_ مریضوں کی پر ہیزی غذا کے طور پر حریرہ کو اچھا سمجھتے اور تجویز بھی فرماتے۔ میٹھا پکوان بھی مرغوب خاص تھا۔ اکثر جو کے ستو بھی استعمال فرماتے۔ ایک مرتبہ بادام کے ستو پیش کئے گئے تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ امراء کی غذا ہے۔ گھر میں شوربا پکتا تو کہتے کہ ہمسائے کے لیے ذرا زیادہ بنایا جائے۔*

*❀"_ پینے کی چیزوں میں نمبر ایک پر میٹھا پانی تھا۔ اور بطور خاص دو روز کی مسافت سے منگوایا جاتا۔ دودھ پانی ملا دودھ (جسے کچی لسی کہا جاتا ہے) اور شہد کا شربت بھی رغبت سے نوش فرماتے۔*

*❀"_ مشکیزے یا پتھر کے برتن میں پانی ڈال کر کھجور بھگو دی جاتی اور اسے متواتر دن بھر استعمال کرتے لیکن وقت زیادہ ہونے پر چونکہ نشہ ہونے کا اندیشہ ہو جاتا لہذا پھکوا دیتے۔ بہ روایت ابو مالک اشعری یہ فرمایا بھی کہ میری امت میں سے بعض لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دیں گے،*

*❀"_ افراد کا الگ الگ بیٹھ کر کھانا نا پسند تھا، اکٹھے ہو کر کھانے کی تلقین فرمائی، میز کرسی پر بیٹھ کر کھانے کو اپنی شان فقر کے خلاف سمجھتے، اسی طرح دستر خوان پر چھوٹی چھوٹی پیالیوں اور طشتریوں میں کھانا رکھا جانا بھی خلاف مزاج تھا۔ سونے چاندی کے برتنوں کو بالکل حرام فرما دیا تھا۔ کانچ مٹی تانبے اور لکڑی کے برتنوں کو استعمال میں لاتے رہے۔ دستر خوان پر ہاتھ دھونے کے بعد جوتا اتار کر بیٹھتے۔*

*❀"_ سیدھے ہاتھ سے کھانا لیتے اور اپنے سامنے کی طرف سے لیتے۔ برتن کے وسط میں ہاتھ نہ ڈالتے۔ ٹیک لگا کر کھانا پینا بھی خلاف معمول تھا, دو زانو یا اکڑوں بیٹھتے۔ ہر لقمہ لینے پر بسم اللہ پڑھتے۔ نا پسندیدہ کھانا بغیر عیب نکالے خاموشی سے چھوڑ دیتے۔ زیادہ گرم کھانا نہ کھاتے، کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے لیتے اور ان کو لتھڑنے نہ دیتے۔ کبھی کبھار میوہ یا پھل کھڑے ہو کر یا چلتے ہوئے بھی کھا لیا۔ دو پھل اکٹھے بھی کھائے۔ مثلاً ایک ہاتھ میں خربوزہ لیا اور دوسرے میں کھجور، کھجور کی گٹھلی الٹے ہاتھ سے پھینکتے۔*      

*❥❥_:- دعوت ضرور قبول فرماتے اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا آدمی (بات چیت کرتے ہوئے یا کسی اور سبب سے) ساتھ ہوتا تو اسے لے تو جاتے مگر صاحب خانہ سے اس کے لیے اجازت لیتے۔ مہمان کو کھانا کھلاتے تو بار بار اصرار سے کہتے کہ اچھی طرح بے تکلفی سے کھاؤ۔*

*❀"_ کھانے کی مجلس سے بہ تقاضائے مروت سب سے آخر میں اٹھتے ۔ دوسرے لوگ اگر پہلے فارغ ہو جاتے تو ان کے ساتھ ہی آپ بھی اٹھ جاتے۔ فارغ ہو کر ہاتھ ضرور دھوتے۔ دعا کرتے جس میں خدا کی نعمتوں کے لیے ادائے شکر کے کلمات ہوتے، نیز طلب رزق فرماتے اور صاحب خانہ کے لیے برکت چاہتے۔*

*❀"_ کھانے کی کوئی چیز آتی تو حاضر دوستوں کو باصرار شریک کرتے اور غیر حاضر دوستوں کا حصہ رکھ دیتے۔ پھل وغیرہ کھانے کی مجلس میں ایک ایک دانہ لینے کی تربیت آپ نے دی۔*

*❀"_ پانی غٹ غٹ کی آواز نکالے بغیر پیتے اور بالعموم تین بار پیالہ منہ سے الگ کر کے سانس لیتے اور ہر بار آغاز " بسم اللہ" سے اور اختتام "الحمد لله والشکرللہ" پر کرتے۔ عام طریقہ بیٹھ کر پانی پینے کا تھا۔ مگر کبھی کبھی کھڑے ہو کر بھی پیا ہے۔ پینے کی چیز مجلس میں آتی تو بالعموم داہنی جانب سے دور چلاتے اور جہاں ایک دور ختم ہوتا دوسرا وہیں سے شروع کرتے۔*

*❀"_ بڑی عمر کے لوگوں کو ترجیح دیتے مگر داہنے ہاتھ والوں کے مقررہ استحقاق کی بنا پر ان سے اجازت لے کر ہی ترتیب توڑتے، احباب کو کوئی چیز پلاتے تو خود سب سے آخر میں پیتے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا یا ان کو سونگھنا نا پسند تھا۔ سانس میں بو کا ہونا چونکہ خلاف مزاج تھا اس لیے کچی پیاز اور لہسن کا استعمال ہمیشہ نا پسند رہا۔*     
*❥❥_:- کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانکنے کا حکم دیا ہے۔ کوئی نیا کھانا سامنے آتا تو کھانے سے پہلے اس کا نام معلوم فرماتے۔ زہر خورانی کے واقعہ کے بعد معمول ہو گیا تھا کہ اگر کوئی اجنبی شخص کھانا کھلاتا تو پہلے ایک آدھ لقمہ خود اسے کھلاتے۔*

*❀_ ذوق کی اس نفاست کے ساتھ دوسری طرف اکثر اوقات فقر و فاقہ کا عالم در پیش رہا۔ جس کی تفصیل ہم دوسری جگہ دیں گے۔ فرمایا- میرا کھانا پینا ایسا ہے جیسے (خدا کے) کسی بندے کا ہونا چاہیے۔*

*❀_ نشست و برخاست:- کبھی اکڑوں بیٹھتے، کبھی دونوں ہاتھ زانوؤں کے گرد حلقہ زن کر لیتے، کبھی ہاتھوں کے بجائے کپڑا (چادر وغیرہ) لپیٹ لیتے۔ بیٹھے ہوئے ٹیک لگاتے تو بالعموم الٹے ہاتھ پر ۔ فکر یا سوچ کے وقت بیٹھے ہوئے زمین کو لکڑی سے کریدتے۔*

*❀_ سونے کے لیے سیدھی کروٹ سوتے اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنا رخسار رکھ لیتے۔ کبھی چت بھی لیٹتے اور پاؤں پر پاؤں بھی رکھ لیتے۔ مگر ستر کا اہتمام رکھتے۔ پیٹ کے بل اوندھا لیٹنا سخت نا پسند تھا اور اس سے منع فرماتے تھے۔ ایسے تاریک گھر میں سونا پسند نہ تھا جس میں چراغ نہ جلایا گیا ہو۔ کھلی چھت پر جس کی پردے کی دیوار نہ ہو سونا اچھا نہ سمجھتے،*

*❀_ وضو کر کے سونے کی عادت تھی اور سوتے وقت مختلف دعائیں پڑھنے کے علاوہ آخری تین سورتیں (سورہ اخلاص اور معوذتین) پڑھ کر بدن پر دم کر لیتے۔ رات میں قضائے حاجت کے لیے اٹھتے تو فارغ ہونے کے بعد ہاتھ منہ ضرور دھو لیتے۔ سونے کے لیے ایک تہ بند علیحدہ تھا۔ کرتا اتار کر لٹکا دیتے۔*     

*❥❥_:- بشری حاجات:-*
*"_ضرورت کے لیے چونکہ اس دور میں گھروں میں بیت الخلاء نہ تھے اس لیے حضور ﷺ جنگل جاتے۔ عموماً اتنی دور تک جاتے کہ نظروں سے اوجھل ہو جاتے۔ ایسی نرم زمین تلاش کرتے کہ چھینٹے نہ اڑیں۔*

*❀_"_ موقع حاجت پر پہلے بایاں قدم رکھتے پھر دایاں۔ بیٹھتے ہوئے زمین کے بالکل قریب ہو کر مقام ستر سے کپڑا کھولتے۔ کسی ٹیلے وغیرہ کی آڑ ضرور لیتے۔*

*❀_"_ ضرورت کے لیے ہمیشہ جوتا پہن کر اور سر ڈھک کر نکلتے۔ قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنے سے اجتناب تھا۔ رفع حاجت کے وقت انگوٹھی الگ کر دیتے۔(واضح رہے کہ اس پر خدا اور رسول کے اسماء کندہ تھے), آب دست بالالتزام بائیں ہاتھ ہی سے کرتے۔ جائے ضرورت سے الگ ہوتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں اٹھاتے پھر بایاں۔*

*❀_"_ غسل کے لیے پردہ ضروری قرار دیا تھا۔ گھر میں نہاتے تو کپڑے کا پردہ تانا جاتا۔ کبھی بارش میں نہاتے تو تہ بند باندھ لیتے۔ چھینک پست آواز سے لیتے اور ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے۔*       

*❥❥_:_ سفر:- سفر کے لیے جمعرات کو روانگی زیادہ پسند تھی۔سواری کو تیز چلاتے۔ پڑاؤ سے صبح کے وقت کوچ کرنا معمول رہا۔ سفر میں جو اجتماعی کام در پیش ہوتے ان میں ضرور حصہ لیتے۔*

*❀"_ چنانچہ ایک بار کھانا تیار کرنے کی مہم تھی۔ سارے ساتھیوں نے کام تقسیم کئے۔ آپ نے بھی لکڑیاں چننا اپنے ذمہ لیا۔ کہا گیا کہ آپ تکلیف نہ کریں، ہم سب اس کام کے لیے کافی ہیں۔ فرمایا کہ مجھے امتیاز پسند نہیں،*

 *❀"_ سفر میں اپنی سواری پر باری باری کسی نہ کسی پیادہ ساتھی کو شریک کرتے، سفر سے رات میں واپس آنا پسند نہ تھا۔ آتے، تو سیدھے گھر جانے کے بجائے مسجد میں جا کر نفل ادا کرتے۔ گھر میں اطلاع ہو جانے کے بعد اطمینان سے جاتے۔*

*❀"_ جذبات : انسانیت کا کوئی تصور ہم جذبات کو الگ رکھ کر نہیں کر سکتے۔ حضور ﷺ میں بھی انسانی جذبات بہترین اسلوب پر کار فرما تھے ۔ آپ بہت ہی صاحب احساس ہستی تھے اور خوشی میں خوشی اور غم میں غم سے متاثر ہوتے۔*     

*❥❥_:_ حضور ﷺ ان نام نہاد بڑے لوگوں میں سے نہ تھے۔ جو دنیا جہان کے غم میں گھلے جاتے ہیں لیکن گھر کے لیے سنگ دل اور تغافل کیش ثابت ہوتے ہیں۔ باہر کی زندگی پر ہنگامہ ہوتی ہے۔ گھر کی پھیکی اور بد مزہ، آپ کو ازواج کے ساتھ سچی محبت تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک ہی پیالہ میں پانی پیتے اور جہاں وہ منہ لگاتیں، وہیں منہ لگاتے۔*

*❀"_ انصار کی بچیوں کو بلواتے تاکہ وہ ان کے ساتھ کھیلیں۔ حبشیوں کے ورزشی کرتب اس انداز سے دکھائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ٹھوڑی آپ کے کندھے پر تھی۔ بار بار پوچھتے کہ کیا تم سیر ہو گئی ہو؟" وہ کہتیں ”ابھی نہیں! دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔*

*❀"_ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرانے کے لیے آپ ﷺ اپنا گھٹنا بڑھا دیتے اور اس پر آنجناب اپنا پیر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔ ایک مرتبہ سفر میں ناقہ کا پاؤں پھسلا اور حضور ﷺ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا دونوں گر پڑے۔ ابو طلحہ ساتھ تھے۔ دوڑے ہوئے آپ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے خاتون کی طرف توجہ کرو،*

*❀"_ اسی محبت کی وجہ سے ایک بار شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی، جس پر عتاب آیا کہ "حلال شے کو حرام نہ کرو _"*     

*❥❥_:-_ اپنے بچوں کے لیے بھی حضور ﷺ کے جذبات بڑے گہرے تھے۔ حضرت ابراہیم کو رضاعت کے لیے ایک لوہار کے گھر میں مدینہ کے بالائی حصے میں رکھا گیا تھا۔ ان کو دیکھنے کے لیے خاصہ فاصلہ چل کر تشریف لے جاتے۔ گھر میں دھواں بھرا ہوتا مگر وہاں بیٹھتے اور بچے کو گود میں لے کر پیار کرتے۔*

*❀"_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آتیں تو اٹھ کر استقبال کرتے۔ خود تشریف لے جاتے۔ اپنی کہتے، ان کی سنتے، ان کے صاحبزادوں حضرت حسن و حسینؓ سے بہت ہی پیار تھا۔ ان کو گود میں لیتے ان کو کندھوں پر سوار کرتے، ان کے لیے گھوڑا بنتے۔ حالت نماز میں بھی ان کو کندھوں پر بیٹھنے دیتے،*

*❀"_ ایک بار اقرع بن حابس نے آپ کو جناب حسن کا بوسہ لیتے دیکھا تو تعجب سے کہا کہ میرے تو دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا مگر آپ بوسہ لیتے ہیں۔ فرمایا "جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا"۔*

*❀"_ حضرت ابراہیم صاحبزادے کی وفات ہوئی تو صدمہ سے آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اسی طرح ایک صاحبزادی کی وفات آپ ﷺ کی موجودگی میں ہوئی۔ ام ایمن (کنیز) چلا چلا کے رونے لگیں۔ حضور ﷺ نے منع فرمایا۔ تو وہ کہنے لگیں کہ آپ خود بھی تو رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا رونا منع نہیں ہے۔ یہ رونا جس رقت کی وجہ سے ہے وہ اللہ کی ایک رحمت ہے۔*

*❀"_ اپنی صاحبزادی ام کلثوم کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اس وقت بھی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عثمان بن مظعون کی میت کے سامنے بھی آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں اور آپ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اپنے رونے کی کیفیت کو خود بیان فرمایا۔ "آنکھیں اشک آلود ہیں، دل غم زدہ ہے، مگر ہم اپنی زبان سے اس کے ماسوا کچھ نہیں کہتے جو ہمارے رب کو پسند ہے"۔*   

*❥❥_:-_ غم کی حالت میں اکثر زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے "حسبی الله نعم الوکیل"، رونے میں اونچی آواز نہ نکلتی، بلکہ ٹھنڈا سانس لیتے۔ اور ہانڈی کے ابلنے جیسی آواز سینے سے نکلتی۔*

 *❀_"_ایک بار عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمائش کر کے قرآن سنا۔ وہ جب سورہ نساء کی اس آیت پر پہنچے۔ "فكيف اذا .. ( النساء - ۴۱) (اس وقت کیا حال ہو گا جب کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کو اٹھا کر کھڑا کریں گے اور ان لوگوں پر تمہیں گواہ بنا کے لائیں گے ) تو آنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا_,"*

*❀_"_ یہ رقت سر چشمہ ہے ان جذبات ہمدردی و شفقت کا جو حضور ﷺ کو ساری انسانیت سے تھی۔ اور خصوصاً اسلامی جماعت کے افراد سے ! حیرت ہے کہ اس نزاکت احساس کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ نے مشکلات و مصائب کے مقابلے میں کس درجہ کے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔*

*❀_"_ذوق مزاح:- ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم خندہ روئی کی صفت سے متصف تھے، بلکہ فرمایا:- تیرا اپنے بھائی کے سامنے مسکراتے ہوئے آنا بھی ایک کار خیر ہے،*        

*❥❥_:- آپ کی یہ شان بھی بیان ہو چکی ہے۔ کہ عظیم کارنامے انجام دینے والی شخصیت کے لئے لازمی وصف ہے کہ وہ فرائض حیات کے بوجھ کو اپنے تبسم سے گوارا بنا دے اور ساتھیوں کے دلوں میں گھر کر لے۔ آپ کا حال یہ تھا کہ آپ اپنے بے تکلفانہ انداز مزاح سے پیش آتے تھے کہ رفقاء کے دلوں میں آپ کی محبت رچ بس گئی تھی۔*

*❀"_ آپ ہنسی دل لگی کی باتیں کرتے۔ اور مجلس میں شگفتگی کی فضا پیدا کر دیتے۔ مگر توازن و اعتدال ہمیشہ ملحوظ رہتا، مزاع کا رنگ آٹے میں نمک کی طرح ہلکا رہتا اور اس میں بھی نہ تو خلاف حق کبھی کوئی بات شامل ہوتی، نہ کسی کی دلآزاری کی جاتی اور نہ ٹھٹھے لگا کر ہنسنا معمول تھا۔ غنچوں کا سا تبسم ہوتا جس میں زیادہ سے زیادہ دانتوں کے کیلے دکھائی دیتے حلق نظر نہ آتا۔*

*❀"_ ایک بار تعجب سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ "آپ ہم سے مذاق بھی فرما لیتے ہیں؟ ارشاد فرمایا۔" ہاں مگر میں خلاف حق کوئی بات نہیں کہتا"*
*"_ ایک بار کسی سائل نے سواری کا اونٹ مانگا۔ فرمایا ہم تمہیں اونٹنی کا ایک بچہ دیں گے، سائل نے حیرت سے کہا کہ میں اسے لے کر کیا کروں گا۔ فرمایا: ہر ایک اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔*

*❀"_ ایک بڑھیا نے آکر عرض کی کہ میرے لیے دعا کیجئے کہ خدا مجھے جنت عطا فرمائے، حضور ﷺ نے مزاحا کہا۔ "اے ام فلاں ! جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جا سکتی"۔ وہ روتی ہوئی اٹھ کر جانے لگی۔ حاضرین سے فرمایا۔ اسے کہو کہ خدا تعالٰی اسے اس بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اس کا ارشاد ہے کہ جنت میں جانے والیوں کو اللہ تعالٰی جوانی سے سرفراز فرمائے گا۔*      

*❥❥_:-_زاہر (یا زہیر) نامی ایک بدوی تھے۔ ان سے بے تکلفی تھی۔ آپ ﷺ اپنے اس بدوی دوست کو شہر سے متعلق کاموں میں امداد دیتے اور وہ دیہات سے متعلق حضور ﷺ کے کام کر لاتا۔ نیز مخلصانہ جذبے سے ہدیے دیتا (جن کی قیمت حضور ﷺ با صرار ادا فرماتے) چنانچہ فرماتے کہ زاہر دیہات میں ہمارا گماشتہ ہے اور ہم شہر میں اس کے گماشتہ ہیں۔*

*❀__"_ یہی زاہر ایک دن بازار میں اپنا کچھ سودا بیچ رہے تھے۔ حضور ﷺ نے پیچھے سے جا کر چیکے سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے اور پوچھا بتاؤ میں کون ہوں۔ وہ پہلے تو کچھ نہ سمجھے۔ پھر جب معلوم ہوا تو فرط اشتیاق میں حضور ﷺ کے سینے سے اپنے کندھے ملتے رہے۔ پھر حضور ﷺ نے مزاحا کہا کہ کون اس غلام کو خرید تا ہے۔ زاہر کہنے لگے- یا رسول اللہ ! مجھ جیسے ناکارہ غلام کو جو خریدے گا۔ گھاٹے میں رہے گا۔ فرمایا تم خدا کی نگاہ میں ناکارہ نہیں ہو۔*

*❀__"_ ایک موقع پر مجلس میں کھجوریں کھائی گئیں۔ آپ مزاح کے طور پر گٹھلیاں نکال نکال کر حضرت علی کے آگے ڈالتے رہے۔ آخر میں تھلیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے ان سے کہا کہ تم نے تو بہت کھجوریں کھائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گٹھلیوں سمیت نہیں کھائیں۔*

*❀__"_ بعد کے لوگوں کو اس رنگ مزاح کا حال سن کر تعجب ہوتا تھا کیونکہ ایک تو مذہب کے ساتھ تقشف کا تصور ہمیشہ موجود رہا ہے اور خدا پرستوں اور متقیوں کی ہمیشہ رونی صورتیں اور خشک طبیعتیں لوگوں کے سامنے رہی ہیں، دوسرے حضور ﷺ کی عبادت رب، حضور ﷺ کی خشیت، حضور ﷺ کی بھاری ذمہ داریوں اور حضور ﷺ کے تفکرات کا خیال کرتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس نمونہ انسانیت نے ان مسکراہٹوں کے لیے زندگی کے نقشے میں کیسے جگہ پیدا کی۔*

*❀__"_ چنانچہ ابن عمر سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ کے رفقاء بھی ہنسا کرتے تھے ؟" انہوں نے فرمایا ”ہاں بنستے تھے اور ان کے دلوں میں پہاڑ سے زیادہ بڑا ایمان تھا۔ (یعنی ہنسی دل لگی ایمان و تقویٰ کی نقیض نہیں ہے)_"*        

*❥❥_:-_ تفریحات : متوازن زندگی کا ایک لازمی جزء تفریحات (جائز حدود میں) بھی ہیں۔ مزاح کی طرح یہ جزء ساقط ہو جائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور جس نظام حیات میں تفریحات کی گنجائش نہ رکھی گئی ہو اسے کوئی معاشرہ دیر تک اٹھا نہیں سکتا۔ حضور ﷺ کو بھی بعض تفریحات پسند تھیں اور جائز حدوں میں ان کے لیے راستے نکالے۔*

*❀__" شخصی طور پر آپ کو باغوں کی سیر کا شوق تھا۔ کبھی تنہا اور کبھی رفقاء کے ساتھ باغوں میں چلے جاتے اور وہیں مجلس آرائی بھی ہو جاتی۔*

*❀__" تیرنے کا مشغلہ بھی تھا۔ اور احباب کے ساتھ کبھی کبھار تالاب میں تیرا کرتے، دو دو ساتھیوں کے جوڑ بنائے جاتے اور پھر ہر جوڑ کے ساتھی دور سے تیر کر ایک دوسرے کی طرف آتے۔ ایک موقع پر اپنا ساتھی حضور ﷺ نے جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پسند کیا۔*

*❀__" وقفے کے بعد بارش پڑتی تو تہ بند باندھ کر پھوار میں نہایا کرتے۔ کبھی تفریحا کسی کنوئیں میں پاؤں لٹکا کے اس کے دہانے پر بیٹھتے۔ دوڑوں اور تیر اندازی کے مقابلے کراتے اور اکھاڑے میں خود پوری دلچسپی سے شریک رہتے ایسے موقعوں پر ہنسی بھی ہوتی۔*.        

*❥❥_:_ مسرت کے موقعوں پر پسند تھا کہ دف بجائی جائے یا بچیاں گیت گا لیں۔ چنانچہ عید کی تقریب پر حضرت عائشہ کے پاس دو لڑکیاں گیت گا رہی تھیں۔ حضور ﷺ قریب ہی لیٹے تھے۔ ابوبکر صدیق آئے تو غصے میں ڈانٹا کہ خدا کے رسول کے گھر میں یہ کیا شیطانی ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ انہیں گانے دو۔ *® (_ روایت عائشہ، مسلم - باب ما يقول الجواري في العيد ملاحظہ ہو)*

 *❀_"_ ایسی ہی ایک بزم عروسی میں بچیاں گا رہی تھیں, حضرت عامر بن سعد نے بعض حاضرین اسے بطور اعتراض کہا کہ اے صحابیان رسول! اے شرکائے بدر ! تمہارے سامنے یہ کچھ ہو رہا ہے؟ جواب ملا۔ جی چاہے تو بیٹھ کر سنو ورنہ چلے جاؤ۔ ہمیں رسول اللہ نے اس کی اجازت دی ہے"*
*®_ ( مشکوۃ باب اعلان نکاح)*

*❀_"_ تفریحات میں ایک دروازہ گناہ اور تعیش کی طرف کھلتا ہے۔ اس کا حضور ﷺ نے سد باب کیا۔ یہاں گانے کا ذکر ہے۔ عرب میں رباب بکثرت رائج تھا مگر اس کا نام نہیں لیا، صرف دف کا نام لیا۔ گانے کا مضمون دیکھئے تو کوئی شوخی نہیں کوئی جنسیت نہیں، گناہ کی بات نہیں، صرف محبت کے سادہ کلمے ہیں۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ کسی قینہ (گانے والی لونڈی) یا گویے کو یا کوئی طائفہ بلا لیتے۔ نہیں صرف چھوٹی بچیوں میں سے کہا کہ کسی مناسب لڑکی کو بلوا لیتے۔*

*❀_"_ وہ لوگ زیادتی کرتے ہیں جو استثنیٰ کو پھیلا کر کلی اصول بنا لیتے ہیں اور انتہا پسندانہ باتیں کرتے ہیں۔ ایسے اجتہادات کی گنجائش حضور ﷺ نے نہیں چھوڑی۔*     

*❥❥_:- ازاں جملہ حضور ﷺ نے شعر سے بھی دلچسپی لی ہے۔ عرب میں جو شعر پرستی رائج تھی، اس سے تو آپ کو بعد تھا۔ آپ کو نغمہ الہام کی جاذبیتیں اتنا موقع ہی نہ دیتیں تھیں کہ شعر و سخن کی طرف زیادہ توجہ ہو۔ مگر دوسری طرف ذوق شعر سے قدرت نے محروم نہیں رکھا۔ اچھے شعر (بلحاظ مقصد) کی قدر فرماتے تھے بلکہ کہنا چاہیے کہ حضور ﷺ نے ایک نیا ذوق معاشرے کو دیا۔ اور ایک نیا معیار نقد مقرر فرمایا ۔*

*❀"_ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک سو سے زیادہ مجالس میں شریک ہوا ہوں، جن میں جاہلیت کے قصے بھی ہوتے تھے اور صحابہ شعر بھی سنایا کرتے، شاعران عرب کے کلام میں سے ایک بار لبید کا یہ مصرعہ پسندیدگی سے پڑھا :- الاكل شيني ما خلا الله باطل". ( آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے) دوسرا مصرعہ ہے:۔ وكل نعيم لا محالة زائل". (دنیا کی ساری نعمتیں زائل ہو جانے والی ہیں)*

*❀"_حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے ایک سفر میں یکے بعد دیگرے فرمائش کر کر کے امیہ ابن ابی ملت کے سو شعر سنے۔۔ آخر میں فرمایا کہ یہ شخص اسلام لانے کے قریب پہنچ گیا تھا۔*

*❀"_ بعض اوقات خود بھی (خصوصاً میدان جنگ میں) بلا ارادہ شعر کے انداز پر کلمات فرمائے ہیں۔ حضرت حسان اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم سے دشمنان اسلام کے ہجویہ اشعار کے جواب میں شعر کہلاتے اور کبھی کبھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو اپنے منبر پر بٹھا کر ان سے پڑھواتے اور کہتے کہ یہ اشعار دشمنوں کے حق میں تیر سے زیادہ سخت ہیں, یہ بھی فرمایا کہ "مومن تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور زبان سے بھی"۔*    

*❥❥_:- چند متفرق ذوقیات :- آخر میں ہم بعض ایسے خاص ذوقیات و اطوار کا ذکر کرتے ہیں۔ جنہیں کسی دوسرے عنوان کے تحت نہیں لیا جا سکا۔ کسی سے چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور کوئی چیز دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے۔ خطوط لکھواتے تو سب سے پہلے بسم اللہ لکھواتے۔ پھر مرسل کا نام اور اس کے نیچے مرسل الیہ کا نام ہوتا ۔ اس کے بعد اصل مضمون لکھا جاتا۔ خاتمے پر مہر لگواتے۔*

*❀"_ حضور اوہام پسندی سے پاک تھے اور شگون نہ لیتے تھے۔ البتہ اشخاص اور مقامات کے اچھے نام پسند آتے۔ برے نام پسند نہ کرتے۔ سفر میں اقامت کے لیے ایسا ہی مقام انتخاب کرتے جس کے نام میں خوشی یا برکت یا کامیابی کا مفہوم ہوتا۔ اسی طرح جس شخص کے نام میں لڑائی جھگڑے یا نقصان کا معنی شامل ہوتا اسے کام نہ سونپتے۔ ایسے آدمیوں کو نامزد کرتے جن کے ناموں میں خوشی یا کامیابی کا مفہوم پایا جائے۔ بہت سے ناموں کو تبدیل بھی فرمایا۔*

*❀"_ سواریوں میں سے گھوڑا بہت پسند تھا۔ فرماتے گھوڑے کے ایال میں قیامت تک کے لیے خیرو برکت ہے۔ گھوڑے کی آنکھ منہ ناک کو اہتمام سے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے۔*

*❀"_شور ہنگامہ اور ہڑبونگ اچھی نہ لگتی۔ ہر کام میں سکون و وقار اور نظم و ترتیب چاہتے، نماز تک کے بارے میں کہا کہ تمہارے لیے سکون و وقار لازم ہے، یوم عرفہ کو ہجوم تھا بڑا شور و ہنگامہ تھا۔ لوگوں کو اپنے تازیانہ سے اشارہ کرتے ہوئے نظم و سکون کا حکم دیا اور فرمايا - جلدی مچانے کا نام نیکی نہیں ہے_" ( بخاری و مسلم)*   

*❥❥_ اخلاق :- حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا بیان یہاں کسی ضمنی عنوان کے تحت کیا نہیں جا سکتا۔ وہاں تو پوری زندگی حسن خلق ہی کی تفسیر ہے۔ جس کے متعلق حضرت عائشہ نے فرمایا تھا۔ "کان خلقه القرآن" انس بن مالک کا یہ قول بہت ہی جامع ہے کہ " احسن الناس ہونے کی کیفیت یہ تھی کہ کسی کو عمر بھر تکلیف نہیں پہنچائی۔ ماسوا ان باتوں کے جو حکم الہی کے تحت تھیں اور دوسروں کی زیادتیوں پر کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہر کسی سے عفو فرمایا۔ یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے بے داد گروں کو معاف کیا اور منافقین و اشرار سے در گزر کیا۔*

*❀"_ اجود الناس ہونے کا عالم یہ تھا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ بھی کسی نے مانگا آپ نے کبھی نہ نہیں کی۔ موجود ہوا تو دے دیا، کبھی قرض لے کر دیا۔ نہیں موجود ہوا تو دوسرے وقت آنے کو کہا، یا سکوت اختیار کیا،*

*❀"_ اشجع الناس ہونے کے لیے فی الجملہ یہ امر کافی ہے کہ نظریہ حق کو لے کر تن تنہا اٹھے اور زمانے بھر کی مخالفتوں اور مظالم کے مقابلے میں جمے کھڑے رہے۔ کبھی کسی خطرناک ترین موقع پر بھی خوف یا کمزوری کا اظہار نہ کیا۔ غار ثور ہو یا احد و حنین کے معرکے ہر موقع پر یقین محکم کا مظاہرہ فرمایا۔*    

 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
 
              *⚂_مکی دور- وہ نوجوان ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥-- عرب کے ایک ممتاز مہذب اور اعلیٰ روایات رکھنے والے خاندان میں، سلیم الفطرت والدین کے قران السعدین سے ایک انوکھا سا بچہ یتیمی کے سائے میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک غریب مگر شریف ذات کی دایہ کا دودھ پی کر دیہات کے صحت بخش ماحول کے اندر فطرت کی گود میں پلتا ہے۔ وہ خاص انتظام سے صحرا میں تگ و دو کرتے کرتے زندگی کی جولان گاہ میں مشقتوں کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کرتا ہے اور بکریاں چرا کر گلہ بانی اقوام کی تربیت پاتا ہے۔*

*❀"_ بچپن کی پوری مسافت طے کرنے سے پہلے یہ انوکھا بچہ ماں کے سایہ شفقت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ دادا کی ذات کسی حد تک والدین کے اس خلاء کو شیر کرنے والی تھی لیکن یہ سہارا بھی چھین لیا جاتا ہے۔ بالآخر چچا کفیل بنتے ہیں۔ یہ گویا مادی سہاروں سے بے نیاز ہو کر ایک آقائے حقیقی کے سہارے گراں بہا فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی تیاری کرائی جارہی ہے۔*

*❀"_جوانی کے دائرے میں قدم رکھنے تک یہ انوکھا بچہ عام بچوں کی طرح کھلنڈرا اور شریر بن کر سامنے نہیں آتا، بلکہ بوڑھوں کی سی سنجیدگی سے آراستہ نظر آتا ہے۔ جوان ہوتا ہے تو انتہائی فاسد ماحول میں پلنے کے باوجود اپنی جوانی کو بے داغ رکھتا ہے۔ عشق اور نظر بازی اور بدکاری جہاں نوجوانوں کے لیے سرمایہ افتخار بنے ہوئے ہوں، وہاں وہ اپنے دامان نظر تک کو ایک آن بھی میلا نہیں ہونے دیتا۔*

*❀"_ جہاں گلی گلی شراب کشید کرنے کی بھٹیاں لگی ہوں، گھر گھر شراب خانے کھلے ہوں، جہاں مجلس مجلس دخت رز کے قدموں میں ایمان و اخلاق نچھاور کئے جاتے ہوں، اور پھر جہاں اپنی بلا نوشیوں کے چرچے فخریہ قصیدوں اور شعروں میں کئے جاتے ہوں، وہاں یہ جدا گانہ فطرت کا نوجوان کبھی قسم کھانے کو بھی شراب کا ایک قطرہ تک اپنی زبان پر نہیں رکھتا۔*

*❥❥_ جہاں قمار قومی مشغلہ بنتا چلا آ رہا تھا وہاں یہ ایک مجسمہ پاکیزگی تھا کہ جس نے کبھی مہروں کو ہاتھ سے نہ چھوا، جہاں داستان گوئی اور موسیقی کلچر کا لازمہ بنے ہوئے تھے وہاں کسی اور ہی عالم کا یہ نوجوان لہو و لعب سے بالکل الگ تھلگ رہا۔ اور دو مرتبہ ایسے مواقع پیدا ہوئے بھی کہ یہ نوجوان ایسی مجالس تفریح میں جا پہنچا، لیکن جاتے ہی ایسی نیند طاری ہوئی کہ سمع و بصر کا دامن پاک رہا۔*

*❀"_جہاں بتوں کے سامنے سجدہ پاشی عین دین و مذہب قرار پا چکی تھی وہاں خانوادہ ابراہیمی کے اس پاکیزہ مزاج نوجوان نے نہ غیر اللہ کے سامنے کبھی اپنا سر جھکایا نہ اعتقادا کوئی مشرکانہ تصور اپنے اندر جذب کیا، بلکہ ایک مرتبہ بتوں کے چڑھاوے کا جانور پکا کر لایا گیا تو اس نے وہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔*

*❀"_ جہاں قریش نے زمانہ حج میں اپنے آپ کو عرفات جانے سے مستثنیٰ کر لیا تھا وہاں اس ممتاز مرتبے کے قریشی نے کبھی اس من گھڑت استثنیٰ سے فائدہ نہ اٹھایا۔ جہاں اولاد ابراہیم نے مسلک ابراہیمی کو بگاڑ کر دوسری خرابیوں کے ساتھ کعبہ کا طواف حالت عربانی میں کرنے کی ایک گندی بدعت پیدا کرلی تھی، وہاں اس حیا دار نوجوان نے کبھی اس بدعت کو اختیار نہ کیا۔*

*❀"_ جہاں جنگ ایک کھیل تھی اور انسانی خون بہانا ایک تماشا تھا، وہاں احترام انسانیت کا علمبردار یہ نوجوان ایسا تھا کہ جس کے دامن پر خون کی ایک چھینٹ نہ پڑی تھی۔۔۔ نو عمری میں اس نوجوان کو حرب فجار نامی جنگ عظیم میں شرکت کا موقع پیش آیا اور اگر چہ اس نے قریش کے بر سر حق ہونے کی بنا پر اس میں حصہ لیا لیکن پھر بھی کسی انسانی جان پر خود ہاتھ نہیں اٹھایا۔*

*❀"_ پھر اس پاکباز و عفیف نوجوان کی دلچسپیاں دیکھئے کہ عین بہک جانے والی عمر میں وہ اپنی خدمات اپنے ہم خیال نوجوانوں کی ایک اصلاح پسند انجمن کے حوالے کرتا ہے جو حلف الفضول کے نام سے غریبوں اور مظلوموں کی مدد اور ظالموں کی چیرہ دستیوں کے استیصال کے لیے قائم ہوئی تھی۔ اس کے شرکاء نے اس مقصد کے لیے حلفیہ عہد باندھا۔ آپ ﷺ دور نبوت میں اس کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے کہ: اس معاہدہ کے مقابلے میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں اس سے نہ پھرتا۔ اور آج بھی ایسے معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں"*    

*❥❥_:-_ پھر اس نوجوان کی صفات اور صلاحیتوں کا اندازہ اس سے کیجئے کہ تعمیر کعبہ کے موقع پر حجر اسود نصب کرنے کے معاملے میں قریش میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اور تلواریں میانوں سے باہر نکل آتی ہیں، لیکن تقدیر کے اشارے سے اس قضیے کو چکانے کا شرف اسی نوجوان کے حصے میں آتا ہے۔ انتہائی جذباتی تناؤ کی اس فضا میں یہ جج اور صلح کا علمبردار ایک چادر بچھاتا ہے اور اس پر پتھر کو اٹھا کر رکھ دیتا ہے اور پھر دعوت دیتا ہے کہ تمام قبیلوں کے لوگ مل کر اس چادر کو اٹھاؤ۔ چادر پتھر سمیت متحرک ہو جاتی ہے اور جب موقع پر جا پہنچتی ہے تو وہ نوجوان اس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کر دیتا ہے۔ جھگڑے کا سارا غبار چھٹ جاتا ہے اور چہرے خوشی اور اطمینان سے چمک اٹھتے ہیں۔*

*❀_ یہ نوجوان میدان معاش میں قدم رکھتا ہے تو تجارت جیسا پاکیزہ اور معزز مشغلہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کوئی بات تو اس نوجوان میں تھی کہ اچھے اچھے اہل سرمایہ نے یہ پسند کیا کہ یہ نوجوان ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے اور کاروبار کرے۔ پھر سائب، قیس بن سائب مخزومی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جن دوسرے لوگوں کو اس نوجوان کے حسن معاملت کا عملی تجربہ ہوا۔ انہونے اسے "تاجر امین" کا لقب دیا۔*.

*❀_ عبداللہ بن ابی الممساء کی گواہی آج بھی محفوظ ہے کہ بعثت سے قبل خرید و فروخت کے معاملہ میں اس تاجر امین سے طے ہوا کہ آپ ٹھہریں میں ابھی پھر آؤں گا۔ لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔ تیسرے روز اتفاقاً عبد اللہ کا گزر اسی مقام سے ہوا تو دیکھا کہ وہ تاجر امین وعدہ کی ڈوری سے بندھا اسی جگہ کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ" تم نے مجھے زحمت دی۔ میں اسی مقام پر تین دن سے موجود ہوں“۔ (ابو داؤد)*

*❀_ پھر دیکھئے کہ یہ نوجوان رفیقہ حیات کا جب انتخاب کرتا ہے تو مکہ کی نو عمر شوخ و شنگ لڑکیوں کو ایک ذرا سا خراج نگاہ تک دیئے بغیر ایک ایسی خاتون سے رشتہ مناکحت استوار کرتا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاندان اور ذاتی سیرت و کردار کے لحاظ سے نہایت اشرف خاتون ہے۔ اس کا یہ ذوق انتخاب اس کے ذہن، اس کی روح، اس کے مزاج اور اس کی سیرت کی گہرائیوں کو پوری طرح نمایاں کر دیتا ہے۔ پیغام خود وہی خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھیجتی ہیں۔ جو اس یکتائے روزگار نوجوان کے کردار سے متاثر ہوتی ہیں اور یہ نوجوان اس پیغام کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرتا ہے۔*    

*❥❥_:_ پھر کسی شخص کے ذہن و سیرت کو اگر اس کے حلقہ احباب کا جائزہ لینے سے جانچا جا سکتا ہے تو آئیے دیکھئے کہ اس عربی نوجوان کے دوست کیسے لوگ تھے۔ غالباً سب سے گہری دوستی اور سب سے زیادہ بے تکلفانہ رابطہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تھا۔ ایک ہم عمری اوپر سے ہم مذاجی !*

*❀"_ اس نوجوان کے دوستوں میں ایک شخصیت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی تھی، جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور حرم کے منصب رفادہ پر فائز تھے۔ ہجرت کی آٹھویں برس تک یہ ایمان نہیں لائے۔ لیکن پھر بھی آنحضرت ﷺ سے گہری محبت رکھتے تھے اور اسی محبت کے تحت ایک مرتبہ پچاس اشرفیوں کا ایک قیمتی حلہ خرید کر مدینہ میں اگر پیش کیا۔ مگر آنحضور نے باصرار قیمت ادا کر دی۔*

*❀"_ پھر حلقہ احباب کے ایک رکن ضماد بن ثعلبہ ازدی تھے جو طبابت و جراحی کا کام کرتے تھے۔ اس نوجوان کے حلقہ احباب میں کیا کوئی ایک بھی دوں فطرت پست ذوق اور کمینہ مزاج آدمی دکھائی دیتا ہے؟ مکہ کے اشرار میں سے کسی کا نام اس فہرست میں ملتا ہے ؟ ظالموں اور فاسقوں میں سے کوئی اس دائرے میں سامنے آتا ہے؟*.

*❀"_ پھر دیکھئے کہ یہ یکتائے زمانہ نوجوان گھر بار کی دیکھ بھال، تجارت اور دنیوی معاملات کی گونا گوں مصروفیات سے فارغ ہو کر جب کبھی کوئی فرصت کا وقت نکالتا ہے، تو اسے تفریحات و تعیشات میں صرف نہیں کرتا اسے کوچہ گردی میں اور مجلس آرائیوں اور گپوں میں نہیں کھپاتا، اسے سو سو کر اور غفلت میں بے کار پڑے رہ رہ کر بھی نہیں گزارتا، بلکہ سارے ہنگاموں سے کنارہ کر کے اور سارے مشغلوں کو تج کر حرا کی خلوتوں میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کا ذکر اپنی فطرت مطہرہ کی راہنمائی کے مطابق کرتا ہے۔*

*❀"_ کائنات کی گہری حقیقتوں کو اخذ کرنے کے لیے اور انسانی زندگی کے غیبی رازوں کو پالینے کے لیے عالم انفس و آفاق میں غور و فکر کرتا ہے اور اپنی قوم اور اپنے ابناء نوع کو اخلاقی پستیوں سے نکال کر مرتبہ ملکوتی پر لانے کی تدبیریں سوچتا ہے۔ جس نوجوان کی جوانی کی فرصتیں اس تحنث میں صرف ہو رہی ہوں کیا اس کی فطرت کے بارے میں انسانی بصیرت کوئی رائے قائم نہیں کر سکتی۔*    

*❥❥_:_ ہونے والا آخری نبی ﷺ اس نقشہ زندگی کے ساتھ قریش کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے اپنے ہی مکی معاشرے کی گود میں پلتا ہے، جوان ہوتا ہے اور پختگی کے مرتبے کو پہنچتا ہے۔ کیا یہ نقشہ زندگی بول بول کر نہیں بتا رہا تھا کہ یہ ایک نہایت ہی غیر معمولی عظمت رکھنے والا انسان ہے؟ کیا اس اٹھان سے اٹھنے والی شخصیت کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کی کچھ بھی گنجائش کسی پہلو سے ملتی ہے کہ نعوذ باللہ یہ کسی جھوٹے اور فریبی آدمی کا نقشہ ہو گا؟*

*❀"_ ہر گز نہیں! ہرگز نہیں! خود قریش نے اسے صادق و امین دانا و حکیم اور پاک نفس و بلند کردار تسلیم کیا۔ اور بار بار تسلیم کیا اس کے دشمنوں نے اس کی ذہنی و اخلاقی عظمت کی گواہی دی اور سخت ترین کشمکش کرتے ہوئے دی! دائی برحق کے نقشہ زندگی کو خود قرآن نے دلیل بنا کے پیش کیا, *"_ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ( آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔ یونس ۔ ۱٦)*

*❀"_ لیکن اپنی قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا جب نبوت کے منصب سے کلمہ حق پکارتا ہے تو زمانہ کی آنکھوں کا رنگ معا بدل جاتا ہے اور اس کی صداقت و دیانت اور اس کی شرافت و نجابت کی قدر و قیمت بازار وقت میں یکا یک گرا دی جاتی ہے۔ کل تک جو شخص قوم کا مایہ ناز فرزند تھا آج وہ اس کا دشمن اور مخالف بن جاتا ہے۔*

*❀"_ کل تک جس کا احترام بچہ بچہ کرتا تھا، آج وہ ایک ایک قدردان کی نگاہوں میں مبغوض ٹھرتا ہے۔ وہ شخص جس نے چالیس سال تک اپنے آپ کو ساری کسوٹیوں پر کھرا ثابت کر کے دکھایا تھا، توحید نیکی اور سچائی کا پیغام سناتے ہی قریش کی نگاہوں میں کھوٹا سکہ بن جاتا ہے۔ کھوٹا وہ نہ تھا بلکہ ان کی اپنی نگاہوں میں ٹیڑھ تھی اور ان کے اپنے معیار غلط تھے!*      

*❥❥__ کیا قریش کی آنکھیں اتنی اندھی تھیں کہ وہ ماحول کی تاریکیوں میں جگمگاتے ہوئے ایک چاند کی شان نہیں دیکھ سکتی تھیں؟ کیا ان کی محفل میں وہ اونچے اخلاقی قدو قامت رکھنے والے ایک زعیم ( سردار) کو نہیں پہچان سکتی تھیں؟ کیا خار و خس کے ہجوم میں ایک گلدستہ شرافت و عظمت ان سے اپنی قدر و قیمت نہیں منوا سکا ہو گا؟*

*❀"_ نہیں نہیں قریش خوب پہچانتے تھے کہ محمد ﷺ کیا ہیں ؟ مگر انہوں نے جان بوجھ کر آنکھوں پر پٹی رکھ لی ! مفاد اور تعصبات نے ان کو مجبور کیا کہ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ جب کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے اندھا بن جاتا ہے تو اس سے بڑی بڑی مصیبتیں اور تباہیاں رونما ہوتی ہیں, "_ اور ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ (الاعراف : ۱۷۹)*

*❀"_ آج اگر کسی طرح ہم مشرکین مکہ سے بات کر سکتے تو ان سے پوچھتے کہ تمہارے خاندان کے اس چشم و چراغ نے جو دعوت دی تھی وہ فی نفسہ کیا برائی کی دعوت تھی؟ کیا اس نے تم کو چوری اور ڈاکے کے لیے بلایا تھا؟ کیا اس نے تمہیں ظلم اور قتل کے لیے پکارا تھا؟ کیا اس نے تمہیں بیواؤں اور کمزوروں پر جفائیں ڈھانے کی کوئی اسکیم پیش کی تھی؟ کیا اس نے تم کو باہم دگر لڑانے اور قبیلے قبیلے میں فساد ڈلوانے کی تحریک چلائی تھی؟ کیا اس نے مال سمیٹنے اور جائداد بنانے کے لیے ایک جماعت کھڑی کی تھی؟ آخر تم نے اس کے پیغام میں کیا کبھی دیکھی؟ اس کے پروگرام میں کون سا فساد محسوس کیا؟ کیوں تم پرے باندھ کر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے؟*

*❀"_ قریش کو جس چیز نے جاہلیت کے فاسد نظام کے تحفظ اور تبدیلی کی رو کی مزاحمت پر اندھے جنون کے ساتھ اٹھا کھڑا کیا وہ یہ ہرگز نہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر و کردار میں کوئی رخنہ تھا یا آپ ﷺ کی دعوت میں کوئی خطرناک مفسدہ تھا ، بلکہ وہ چیز صرف کریش کی مفاد پرستی تھی !*   

*❥❥_:- قریش سالہا سال کے جمے ہوئے عربی معاشرے کے سانچے میں اپنے لیے ایک اونچا مقام قیادت حاصل کر چکے تھے، تمام سیاسی اور مذہبی مناصب ان کے ہاتھ میں تھے، اقتصادی اور کاروباری لحاظ سے ان کی سیادت کا سکہ رواں تھا۔ پوری قوم کی چودھراہٹ انہیں حاصل تھی۔ ان کی یہ چودھراہٹ اسی مذہبی و تمدنی و معاشرتی سانچے میں چل سکتی تھی جو جاہلی دور میں استوار تھا۔ اگر وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر مجبور تھے کہ اپنی چودھراہٹ کا تحفظ کریں تو پھر وہ اس پر بھی مجبور تھے کہ جاہلی نظام کو بھی ہر حملے اور ہر تنزل سے بچائیں۔*

*❀"_قریش جہاں سیاسی و معاشرتی لحاظ سے چودھری تھے وہاں وہ عرب کے مشرکانہ مذہب کے پروہت مذہبی استھانوں کے مہنت اور مجاور اور تمام مذہبی امور کے ٹھیکہ دار بھی تھے۔ یہ مذہبی ٹھیکہ داری، سیاسی و معاشرتی چودھراہٹ کی بھی پشتیباں تھی اور بجائے خود ایک بڑا کاروبار بھی تھی۔ اس کے ذریعے سارے عرب سے نذریں اور نیازیں اور چڑھاوے کھنچے چلے آتے تھے۔ اس کی وجہ سے ان کی دامن بوسیاں ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ سے ان کے قدموں کو چھوا جاتا تھا۔*

*❀"_ مذہب جب ایک طبقے کا کاروبار بن جاتا ہے تو اس کی اصل روح اور مقصدیت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور گوناگوں رسمیات کا ایک نمائشی طلسم قائم ہو جاتا ہے۔ اصولی تقاضے فراموش ہو جاتے ہیں اور مذہبی کاروباریوں کی اپنی بنائی ہوئی ایک شریعت آہستہ آہستہ نشود نما پا جاتی ہے۔*

*❀"_ معقولیت ختم ہو جاتی ہے اندھی عقیدتیں اور فضول اوہام ہر طرف چھا جاتے ہیں۔ استدلال غائب ہو جاتا ہے اور جذباتی ہیجانات عقل کا گلا گھونٹ لیتے ہیں۔ مذہب کا عوامی و جمہوری مزاج کافور ہو جاتا ہے اور ٹھیکہ دار طبقے کا تحکم معاشرہ کے سینہ پر سوار ہو جاتا ہے۔ حقیقی علم مٹ جاتا ہے۔ ہوائی باتیں مقبول عام ہو جاتی ہیں۔ اعتقاد و احکام کی سادگی ہوا ہو جاتی ہے۔*      

*❥❥_:- جب کبھی مذاہب میں بگاڑ پیدا ہوا ہے تو ہمیشہ وہ اس نہج پر ہوا ہے۔ جاہلی عرب میں یہ بگاڑ بالکل اپنی انتہائی شکل پر پہنچا ہوا تھا۔ اسی بگاڑ پر قریش کی منت گری اور مجاوری کی ساری گدیاں قائم تھیں۔ یہ زرخیز گدیاں اپنی بقا کے لیے اس بات کی محتاج تھیں کہ فاسد مذہبیت کے ڈھانچے کو جوں کا توں قائم رکھا جائے۔ اور اس کے خلاف نہ کوئی صدائے احتجاج و اختلاف اٹھنے دی جائے اور نہ کسی دعوت تغیر و اصلاح کو برپا ہونے دیا جائے۔ پس قریش اگر دعوت محمدی ﷺ کے خلاف تلملا کر نہ اٹھ کھڑے ہوتے تو اور کیا کرتے؟*

*❀"_اور پھر حال یہ تھا کہ قریش کا کلچر نہایت فاسقانہ کلچر تھا۔ شراب اور بدکاری، جوا اور سود خواری عورتوں کی تحقیر و تذلیل اور بیٹیوں کا زندہ دفن کرنا آزادوں کو غلام بنانا اور کمزوروں پر ظلم ڈھانا, یہ سب اس کلچر کے لوازم تھے۔ قریش کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے اس اپنی تہذیبی قفس کو توڑ کر ایک نئی فضا میں پرواز کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ انہیں فوراً محسوس ہو گیا کہ دعوت محمد ﷺ ان کی عادات ان کی خواہشات ان کے فنون لطیفہ اور ان کے محبوب کلچر کی دشمن ہے چنانچہ وہ جذباتی ہیجان کے ساتھ اس کی دشمنی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔*

*❀"_ در حقیقت یہی وجوہ و اسباب ہمیشہ دعوت حق کے خلاف کسی بگڑے ہوئے سماج کے ارباب اقتدار اور مذہبی ٹھیکہ داروں اور خواہش پرستوں کو متحدہ محاذ بنا کر اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔*

*❀"_ بعثت نبوی ﷺ سے قبل ذہین لوگوں میں اس مذہب اس معاشرے اور اس ماحول کے بارے میں نوامیس الہی کے تحت اضطراب پیدا ہو چکا تھا اور فطرت انسانی اس کے خلاف جذبہ احتجاج کے ساتھ انگڑائی لے رہی تھی۔ ہم ابھی اوپر جن حساس افراد کا ذکر کر چکے ہیں ان کی روحوں کے ساز سے تبدیلی کا دھیما دھیما نغمہ بلند ہونے لگا تھا۔*     
* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                      
*⚂_مکی دور- تاریک ماحول میں چند شرارے ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_تاریک ماحول میں چند شرارے :-*
*❀"_ قریش اپنے ایک بت کے گرد جمع ہو کر تقریب عید منا رہے تھے، اس خداوندہ سنگیں کی تعریف و تعظیم ہو رہی تھی، اس پر چڑھاوے چڑھائے جا رہے تھے، اس کا طواف ہو رہا تھا اور اس عالم میں چار آدمی یعنی ورقہ بن نوفل، عبید اللہ بن جحش، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو بن نفیل اس ہنگامہ لا یعنی سے بیزار الگ تھلگ بیٹھے ایک خفیہ میٹنگ کر رہے تھے ۔*

*❀"_ ان لوگوں کے خیالات یہ تھے کہ ہماری قوم ایک بے بنیاد مسلک پر چل رہی ہے, اپنے دادا ابراہیم کے دین کو انہوں نے گنوا دیا ہے, یہ جس مجسمہ سنگیں کا طواف کیا جا رہا ہے یہ نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے، نہ ضلع دے سکتا ہے۔ ساتھیو! اپنے دلوں کو ٹٹولو تو خدا کی قسم تم محسوس کرو گے کہ تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے، ملک ملک گھومو اور کھوج لگاؤ دین ابراہیم علیہ السلام کے سچے پیروؤں کا_," ( سیرت ابن ہشام -٢٤٢)*

*❀"_ بعد میں ان میں سے ورقہ بن نوفل عیسائی ہو گیا۔ عبداللہ بن جحش جیسا تھا ویسا ہی رہا مگر اس کے ذہن میں الجھن رہی۔ کچھ عرصے بعد اسلام لایا۔ پھر مہاجرین حبشہ کے ساتھ حبش میں ہجرت کی اور اس کے ساتھ اس کی اہلیہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا (بنت ابو سفیان) بھی ہجرت میں گئیں۔ وہاں جانے کے بعد عبید اللہ دوبارہ نصرانی ہو گیا اور اسی حالت میں موت واقع ہوئی*

*❀"_ زید بن عمرو نے نہ یہودیت قبول کی نہ نصرانیت، لیکن اپنی قوم کا دین ترک کر دیا۔ بت پرستی چھوڑ دی، مردار اور خون اور استھانوں کے ذبیحوں سے پر ہیز شروع کر دیا۔ بیٹیوں کے قتل سے لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتا رہا اور کہا کرتا کہ میں تو ابراہیم کے رب کا پرستار ہوں۔*     

*❥❥_:-_ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے بوڑھے سردار زید بن عمرو کو کعبے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے دیکھا اور وہ کہہ رہا تھا۔ اے قریش کے لوگو! قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں زید بن عمرو کی جان ہے۔ میرے سوا تم میں سے کوئی بھی ابراہیم کے دین پر قائم نہیں رہا۔ پھر کہنے لگا اے خدا ! اگر میں جانتا کہ تجھے کون سے طریقے پسند ہیں تو میں انہیں طریقوں سے تیری عبادت کرتا۔ لیکن میں نہیں جانتا۔ پھر ہتھیلیاں ٹیک کر سجدہ کرتا_," ( سیرتِ ابن ہشام- ٢٤٢)*

*❀"_ اپنے ملنے والوں کے سامنے وہ اکثر یہ اشعار پڑھتا :- ( ترجمہ) رب ایک ہونا چاہیے یا سینکڑوں رب بنا لیے جائیں؟ میں اس مذہب پر کیسے چلوں جب کہ مسائل حیات کئی معبودوں میں بانٹ دیئے گئے ہوں۔ میں نے لات و عزیٰ سب کو ترک کر دیا ہے اور مضبوط اور صبر کیش شخصیتیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ مگر ہاں، اب میں اپنے رب رحمن کا عبادت گزار ہوں تاکہ وہ بخشش فرمانے والا آقا میرے گناہوں کو معاف کردے، سو تم اللہ ہی کے تقویٰ کی حفاظت کرو۔ جب تک اس صفت کو قائم رکھو گے کبھی گھاٹے میں نہ پڑو گے۔," (سیرت ابن ہشام- ۲۴۴)*

*❀"_ بچارے زید کی بیوی صفیہ بنت الحضرمی ہمیشہ اس کے پیچھے پڑی رہتی۔ بسا اوقات وہ خالص ابراہیمی دین کی جستجو کے لیے مکہ سے نکل کھڑے ہونے کا ارادہ کرتا، لیکن اس کی جورو خطاب بن نفیل کو آگاہ کر دیتی اور وہ اسے دین آپائی کے چھوڑنے پر سخت ست کہتا۔ زید کی والہیت کا عالم یہ تھا کہ سجدہ گاہ کعبہ میں داخل ہوتی تو پکار اٹھتا۔ لبیک , اے خداوند برحق میں تیرے حضور اخلاص مندانہ عبادت گزارنہ اور غلامانہ انداز سے حاضر ہوں۔ پھر کہتا۔ "میں کعبہ کی طرف منہ کر کے اسی ذات کی پناہ طلب کرتا ہوں جس کی پناہ ابراہیم علیہ السلام نے ڈھونڈی تھی" ( ایضا -٢٤٨)*

*❀"_ خطاب بن نفیل زید کے در پے آزار رہا۔ یہاں تک کہ مکہ کی ہلائی جانب شہر بدر کر دیا اور زید نے مکہ کے سامنے حرا کے پاس جا دھونی رمائی۔ پھر خطاب نے قریش کے چند نوجوانوں اور کچھ کمینہ خصلت افراد کو اس کی نگرانی پر مامور کر دیا اور ان کو تاکید کی کہ خبردار اسے مکہ میں داخل نہ ہونے دو۔*       

*❥❥_:_ چنانچہ تنگ آکر زید بن عمرو نے وطن چھوڑا اور موصل الجزیرہ اور شام وغیرہ میں ہے آمیز ابراہیمی دین کی جستجو میں مارا مارا پھرتا رہا۔ آخر کار وہ دمشق کے علاقہ بلقاء میں ایک صاحب علم راہب کے پاس پہنچا اور اس سے گم گشتہ مسلک ابراہیمی کا سراغ پوچھا۔*

*❀_"_ راہب نے کہا کہ "آج تجھے اس مسلک پر چلنے والا کوئی ایک شخص بھی نہ ملے گا۔ البتہ ایک نبی کے ظہور کا وقت آپہنچا ہے جو اسی جگہ سے اٹھے گا۔ جہاں سے نکل کر تو آیا ہے۔ وہ دین ابراہیمی کا علمبردار بن کے اٹھے گا, جا کر اس سے مل۔ ان دنوں اس کی بعثت ہو چکی ہے"۔*

*❀_"_ زید نے یہودیت و نصرانیت کو خوب دیکھ بھال لیا اور ان کی کوئی چیز اس کے دل کو نہ لگی۔ وہ راہب کی ہدایت کے مطابق مکہ کی طرف لپکا۔ بلاد لخم میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا_" ( سیرت ابن ہشام - ٥٠, ٢٤٩)*

*❀_"_ اس طرح کے حساس افراد کے ذہنی مدوجزر کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماحول ایک زندگی بخش پیغام کے لیے مضطرب ہو رہا تھا۔ تاریخ جس انقلابی قوت کو مانگ رہی تھی وہ اپنے ٹھیک وقت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی صورت میں کونپل نکالتی ہے۔*

*❀_"_ آپ ﷺ ایک منفی صدائے احتجاج بن کر اور اپنے انفرادی ذہن و کردار کی فکر لے کر نمودار نہیں ہوئے۔ بلکہ ایک جامع مثبت نظریہ و مسلک کے ساتھ ساری قوم اور سارے ماحول کی اجتماعی تبدیلی کے لیے میدان میں اترے۔*     

      ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
              
      *⚂_مکی دور- دعوت کا خفیہ دور ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥-_دعوت کا پہلا خفیہ دور :-*

*❀"_ مقدمہ اور نبوت کے طور پر آنحضور رویائے صادقہ سے نوازے گئے۔ کبھی غیبی آوازیں سنائی دیتیں، کبھی فرشتہ دکھائی دیتا، یہاں تک کہ عرش الٰہی سے پہلا پیغام آ پہنچا۔ جبرائیل آتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ "اقرا باسم ربک الذی خلق" (پڑھو {اے نبی ﷺ} اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیقی کی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ (العلق)*

*❀"_ وحی الٰہی کے اولین تجربے میں ہیبت و جلال کا بہت سخت بوجھ آپ ﷺ نے محسوس کیا۔ پھر حضرت جبرائیل نے آنحضرت کو سینے سے لگا کر بھینچا اور پھر کہا پڑھو۔ غرض یہ کہ آخر کار آپ سہمے سہمے جبریل کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو دوہراتے رہے۔ یہاں تک کہ پہلا کلام وحی یاد ہو گیا۔*

*❀"_ گھر آکر اپنی رفیقہ رازداں سے واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے تسلی دی کہ آپ کا خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔ ورقہ بن نوفل نے تصدیق کی کہ یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا۔ بلکہ مزید یہ کہا کہ یقیناً لوگ آپ کی تکذیب کریں گے، آپ کو تنگ کریں گے آپ کو وطن سے نکالیں گے اور آپ سے لڑیں گے۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں خدا کے کام میں آپ کی حمایت کروں گا"۔*.

*❀"_ اب گویا آپ خدا کی طرف سے دعوت حق پر باقاعدہ مامور ہو گئے۔ اور آپ پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی۔ یہ دعوت سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے سامنے آئی اور وہی اس پر ایمان لانے والوں میں سے پہلی ہستی قرار پائیں۔*      

*❥❥_:-پھر یہ کام خفیہ طور پر دھیمی دھیمی رفتار سے چلنے لگا۔ آپ کے بچپن کے ساتھی اور پوری طرح ہم مذاہ و ہم مزاج حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو آپ کے چچا ذاد بھائی تھے، ان کے سامنے جب پیغام حق آیا تو انہوں نے کسی تامل و توقف کے بغیر اس طرح لبیک کہی جیسے پہلے سے روح اسی چیز کی پیاسی تھی۔ علاوہ بریں زید رضی اللہ عنہ رفیق مسلک بنے جو آپ کے پروردہ غلام تھے اور آپ کی زندگی اور کردار سے متاثر تھے۔*

*❀"_ آپ پر قریب ترین لوگوں کا ایمان لانا آپ کے اخلاص اور آپ کی صداقت کا بجائے خود ایک ثبوت ہے۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جو کئی برس سے آپ کی پرائیویٹ اور پبلک لائف سے اور آپ کے ظاہر و باطن سے پوری طرح واقف تھیں۔ ان سے بڑھ کر آپ کی زندگی اور کردار اور آپ کے ذہن و فکر کو جاننے والا کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ ان قریب ترین ہستیوں نے بالکل آغاز میں آپ کے بلاوے پر لبیک کہہ کر گویا ایک شہادت پہنچا دی، دعوت کی صداقت اور داعی کے اخلاص کی۔*

*❀"_حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تحریک محمدی کا سپاہی بنتے ہی اپنے حلقہ اثر میں زور شور سے کام شروع کر دیا اور متعدد اہم شخصیتوں، مثلاً حضرت عثمان، حضرت زبیر حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت سعد بن وقاص، حضرت طلحہ رضوان اللہ علیم اجمعین کو اس انقلابی حلقہ کا رکن بنا دیا۔*

*❀"_ حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت ارقم، حضرت سعد بن زید ( انہی زید بن عمرو کے بیٹے جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ یہ والد کی زندگی سے متاثر تھے) حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبیدہ، صہیب رومی رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسلامی تحریک کے ابتدائی خفیہ دور میں سابقین اولین کی صف میں آچکے تھے!*  

*❥❥_:- نماز کا وقت آتا تو آنحضرت ﷺ کسی پہاڑ کی کھائی میں چلے جاتے اور اپنے رفقاء کے ساتھ چھپ چھپا کر سجدہ عبودیت بجا لاتے۔ صرف چاشت کی نماز حرم میں پڑھتے کیونکہ یہ نماز خود قریش کے ہاں بھی مروج تھی۔ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی درہ میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ آپ کے چچا ابو طالب نے دیکھ لیا۔ اس نئے انداز کی عبادت کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے اور بڑے غور سے دیکھتے رہے۔ نماز کے بعد آپ سے پوچھا کہ یہ کیا دین ہے جس کو تم نے اختیار کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارے دادا ابراہیم کا یہی دین تھا_, یہ سن کر ابو طالب نے کہا کہ میں اسے اختیار تو نہیں کر سکتا لیکن تم کو اجازت ہے اور کوئی شخص تمہارا مزاحم نہ ہو سکے گا"۔ (سیرت النبی علامہ شبلی ج ا ص ۱۹۳)*

*❀"_ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بھی تحریک اسلامی کے اسی خفیہ دور میں ایمان لائے، یہ بھی انہی مضطرب لوگوں میں سے تھے جو بت پرستی چھوڑ کر محض فطرت سلیم کی رہنمائی میں خدا کا ذکر کرتے اور اس کی عبادت بجا لاتے۔ ان تک کسی ذریعے سے آنحضور ﷺ کی دعوت کا نور پہنچ گیا۔ انہوں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ جا کر صحیح معلومات لائیں۔*

*❀"_ انہوں نے آنحضور ﷺ سے ملاقات کی، قرآن سنا اور بھائی کو بتایا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا ہے۔ لوگ اسے مرتد کہتے ہیں، لیکن وہ مکارم اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور ایک عجیب کلام سناتا ہے جو شعر و شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا طریقہ تمہارے طریقے سے ملتا جلتا ہے،*

*❀"_ اس اطلاع پر خود آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اخفاء کے مشک حق کی خوشبو کو ہوا کی لہریں لے اڑی تھیں اور خدا کے رسول ﷺ کے لیے بد نام کن القاب تجویز کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا لیکن پھر بھی ماحول ابھی پر سکون تھا ابھی وہ خطرے " کا پورا پورا اندازہ نہیں کر پایا تھا۔*     
*❥❥_:- دیکھئے ، ایک اور اہم تاریخی حقیقت کہ تحریک کے ان اولین علمبرداروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اعلیٰ درجے کے مذہبی و قومی مناصب پر مامور ہو۔ یہ حضرات اغراض کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور مفاد کی ڈوریوں سے بندھے ہوئے نہ تھے۔ ہمیشہ ایسے ہی آزاد فطرت نوجوان تاریخ میں بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے اگلی صفوں میں آیا کرتے ہیں۔*

*"❀_ تحریک اپنے اس خفیہ دور میں قریش کی نگاہوں میں درخور اعتناء نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ چند نوجوانوں کا سر پھرا پن ہے، الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں، چار دن میں دماغوں سے یہ ہوا نکل جائے گی، ہمارے سامنے کوئی دم مار سکتا ہے؟*

*"❀_ مگر بر سر اقتدار طبقہ تخت قیادت پر بیٹھا اپنے زعم قوت میں مگن رہا اور سچائی اور نیکی کی کونپل تخت کے سائے میں آہستہ آہستہ جڑیں چھوڑتی رہی اور نئی پتیاں نکالتی رہی، یہاں تک کہ تاریخ کی زمین میں اس نے اپنا ایک مقام بنا لیا۔*

*❀"_ قریش کا اعتقاد یہ بھی تھا کہ لات منات اور عزی جن کے آگے ہم پیشانیاں رگڑتے اور چڑھاوے پیش کرتے ہیں اور جن کے ہم خدام بارگاہ ہیں، اپنے احترام اور مذہب بت پرستی کی خود حفاظت کریں گے اور ان کی روحانی مار ہنگامہ کو ختم کر دے گی۔*   

*❥❥_:- دعوت عام :- تین برس اسی طرح گزر گئے۔ لیکن مشیت الہی حالات کے سمندر کو بھلا یخ بستہ کہاں رہنے دیتی؟ اس کی سنت تو ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ باطل کے خلاف حق کو اٹھا کھڑا کرتی ہے اور پھر ٹکراؤ پیدا کرتی ہے۔ (مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں) (الانبیاء ۱۸) )*

*❀"_ اس سنت کے تحت یکایک دوسرے دور کے افتتاح کے لیے حکم ہوتا ہے۔ " پس اے نبی ! جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پرواہ نہ کرو, (الحجر: ۹۴)*

*❀"_ آنحضور ﷺ اپنی ساری ہمت و عزیمت کو سمیٹ کر نئے مرحلے کے متوقع حالات کے لیے اپنے آپ کو تیار کر کے کوہ صفا پر آکھڑے ہوتے ہیں، اور قریش کو عرب کے اس خاص اسلوب سے پکارتے ہیں جس سے وہاں کسی خطرے کے نازک لمحے قوم کو بلایا جاتا تھا۔ لوگ دو ڑ کر آتے ہیں، جمع ہو جاتے ہیں اور کان منتظر ہیں کہ کیا خبر سنائی جانے والی ہے۔*

*❀"_ آپ ﷺ نے بآواز بلند پوچھا۔ ”اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک حملہ آور فوج چلی آرہی سے تو کیا تم مجھے اعتبار کرو گے ؟ ہاں کیوں نہیں؟ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ بولتے پایا ہے"۔ یہ جواب تھا جو بالاتفاق مجمع کی طرف سے دیا گیا۔*
*"_تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خدا پر ایمان لاؤ۔۔۔۔ اے بنو عبد المطلب ! اے بنو عبد مناف ! اے بنو زہرا ! اے بنو تمیم ! اے بنو مخزوم ! اے بنو اسد ! ورنہ تم پر سخت عذاب نازل ہو گا"*     

*❥❥ _ان مختصر الفاظ میں آپ ﷺ نے اپنی دعوت بر سر عام پیش کر دی۔ آپ کے چچا ابو لہب نے یہ سنا تو جل بھن کر کہا کہ "غارت ہو جاؤ تم آج ہی کے دن ! ۔۔۔ کیا یہی بات تھی جس کے لیے تم نے ہم سب کو یہاں اکٹھا کیا تھا ؟" ابو لہب اور دوسرے اکابر بہت برہم ہو کر چلے‌ گئے۔*

*"❀_ دیکھئے ! ابولہب کے الفاظ میں دعوت نبوی ﷺ کے صرف ناقابل اعتناء ہونے کا تاثر جھلک رہا ہے، ابھی کوئی دوسرا رو عمل پیدا نہیں ہوا۔ شکایت صرف یہ تھی کہ تم نے ہمیں بے جا تکلیف دی اور ہمارا وقت ضائع کیا؟*

*❀"_دعوت عام کی مہم کا دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ آنحضور ﷺ نے تمام خاندان عبد المطلب کو کھانے پر بلوایا۔ اس مجلس ضیافت میں حمزہ، ابو طالب اور عباس جیسے اہم لوگ بھی شریک تھے۔ کھانے کے بعد آپ ﷺ نے مختصر سی تقریر کی اور فرمایا کہ میں جس پیغام کو لے کر آیا ہوں یہ دین اور دنیا دونوں کا کفیل ہے، _اس مہم میں کون میرا ساتھ دیتا ہے؟*

*❀"_ بالکل ابتدائے دعوت میں آنحضور اس حقیقت کا شعور رکھتے تھے کہ وہ دنیا سے کٹا ہوا مذہب لے کر نہیں آئے بلکہ دنیا کو سنوارنے والا دین لے کے آئے ہیں۔ آپ ﷺ کی دعوت پر سکوت چھا گیا۔ اس سکوت کے اندر تیرہ برس کا ایک لڑکا اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ ”اگرچہ میں آشوب چشم میں مبتلا ہوں، اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں، اگرچہ میں ایک بچہ ہوں، لیکن میں اس مہم میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جو آگے چل کر اساطین تحریک میں شمار ہوئے۔*

*❀"_ یہ منظر دیکھ کر حاضرین میں خوب قہقہہ پڑا! اس قہقہے کے ذریعے گویا خاندان عبد المطلب یہ کہہ رہا تھا کہ یہ دعوت اور یہ لبیک کہنے والا کون سا کارنامہ انجام دے لیں گے۔ یہ سب کچھ ایک مذاق ہے ایک جنون ہے، اور بس! اس کا جواب تو صرف ایک خندہ استہزاء سے دیا جا سکتا ہے۔*     

*❥❥_:-اس دوسرے واقعہ پر ماحول کا سکون نہیں ٹوٹا, زندگی کے سمندر کے ننگوں اور گھڑیالوں نے کوئی انگڑائی نہیں لی۔ لیکن اس کے بعد یہ تیسرا قدم اٹھا تو اس نے معاشرہ کو ہسٹریا کے اس دورے میں مبتلا کر دیا جو آہستہ آہستہ شروع ہو کر روز بروز تند و تیز ہو تا گیا !*

 *❀"_اس تیسرے اقدام کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل ایک اور واقعہ کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ مخالف ماحول کی خطرناک سنگینی کی وجہ سے نماز چوری چھپے پڑھی جاتی تھی۔ آنحضور ﷺ اور رفقائے تحریک شہر سے باہر وادیوں اور گھاٹیوں میں جا جا کر نماز ادا کرتے۔*

*❀"_ ایک دن ایک گھائی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دوسرے رفقائے نبوی ﷺ کے ساتھ نماز میں تھے کہ مشرکین نے دیکھ لیا۔ عین حالت نماز میں ان مشرکین نے فقرے کسنے شروع کئے، برا بھلا کہا اور نماز کی ایک ایک حرکت پر پھبتیاں چست کرتے رہے، جب ان لا یعنی باتوں کا کوئی جواب نہ ملا تو زچ ہو کر لڑنے پر اتر آئے۔*

*❀"_ اس دنگے میں ایک مشرک کی تلوار نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو زخمی کر ڈالا۔ یہ تھی خون کی سب سے پہلی دھار جو مکہ کی خاک پر خدا کی راہ میں بہی ! یہ جاہلی معاشرے کا سب سے پہلا جنوں آمیز خونین رد عمل تھا اور اس رد عمل کے تیور بتا رہے تھے کہ مخالفت اب تشدد کے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔*    

*❥❥_ تحریک کی زیر سطح رو نے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے چالیس موتی اکٹھے کر لیے تھے۔ اب گویا اسلامی جماعت ایک محسوس طاقت بن چکی تھی۔ کھلم کھلا کلمہ حق کو پکارنے کا حکم آ ہی چکا تھا۔ اس کی تعمیل میں آنحضور ﷺ نے ایک دن حرم کعبہ میں کھڑے ہو کر توحید کا اعلان کیا۔*

*❀"_ لیکن مذہبیت جب بگڑتی ہے، تو اس کی اقدار اس طرح تہ و بالا ہو جاتی ہیں کہ وہ گھر جو پیغام توحید کے مرکز کی حیثیت سے استوار کیا گیا تھا آج اس کی چار دیواری کے اندر خدائے واحد کی وحدت کی پکار بلند کرنا اس مرکز توحید کی توہین کا موجب ہو چکا تھا۔ بتوں کے وجود سے کعبے کی توہین نہیں ہوتی تھی، بتوں کے آگے پیشانیاں رگڑنے سے بھی نہیں، ننگے ہو کر طواف کرنے، سیٹیاں اور تالیاں بجانے سے بھی نہیں، غیر اللہ کے نام پر ذبیحے پیش کرنے سے بھی نہیں، مجاوری کی فیس اور پر وہتی کا ٹیکس وصول کرنے سے بھی نہیں ۔۔۔۔ لیکن اس گھر کے اصل مالک کا نام لیتے ہی اس کی توہین ہو گئی تھی!‌*

*❀"_کعبہ کی توہین حرم کی بے حرمتی! توبہ توبہ کیسی خون کھولا دینے والی بات ہے کیسی جذبات کو‌ مشتعل کر دینے والی حرکت ہے! چنانچہ کھولتے ہوئے خون اور مشتعل جذبات کے ساتھ چاروں طرف سے کلمہ توحید کو سننے والے مشرکین اٹھ آتے ہیں، ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ نبی ﷺ یہ گھیرے میں آجاتے ہیں،*

*❀"_حارث بن ابی ام ہالہ کے گھر میں تھے، شور و شغب سن کر آنحضور ﷺ کو بچانے کے لیے دوڑے لیکن ہر طرف سے تلواریں ان پر ٹوٹ پڑیں اور وہ شہید ہو گئے۔ عرب کے اندر اسلام اور جاہلیت کی کشمکش میں یہ پہلی جان تھی جو حمایت حق میں قربان ہوئی۔*      

*❥❥_:- دیکھا آپ نے! ایک دعوت جو معقول اور پر سکون انداز سے دی جا رہی تھی، اس پر غور کر کے رائے قائم کرنے اور استدلال کا جواب دلائل سے دینے کے بجائے اندھے جذباتی اشتعال سے دیا جاتا ہے۔*

*❀"_ سیدنا محمد ﷺ کلمہ حق آپنی تلوار سے منوانے نہیں اٹھتے۔ لیکن مختلف طاقت معا تلوار سونت کے آجاتی ہے۔ یہی ایک فاسد نظام کے مفاد پرست مخالفین کی علامت ہے کہ معقولیت کے جواب میں اشتعال اور دلیل کے جواب میں تلوار لیے میدان میں اترتے ہیں۔ مخالفین میں اتنا ظرف نہیں تھا کہ وہ کم سے کم چند ہفتے چند دن چند لمحے حرم سے اٹھنے والی صدا پر پر سکون طریقے سے غور و فکر کر سکتے۔*

*❀"_ یہ تسلیم کرتے کہ محمد ﷺ کو بھی ان کی طرح کسی نظریے فلسفے عقیدے پر ایمان رکھنے، کسی مذہب پر چلنے اور ان کی قائم کردہ صورت مذہب سے اختلاف کرنے کا حق ہے، کم سے کم امکان کی حد تک یہ مانتے کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر غلطی موجود ہو اور محمد ﷺ ہی کی دعوت سے حقیقت کا سراغ مل سکتا ہو۔ کسی نظام فاسد کے سربراہ کاروں میں اتنا ظرف باقی نہیں رہتا، ان میں اختلاف کے لیے قوت برداشت بالکل ختم ہو جاتی ہے، ان کی غور و فکر کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔*

*❀"_ذرا اندازہ کیجئے کہ کیسی تھی وہ فضا جس میں ہم سب کی دنیوی و اخروی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دینے والا داعی حق بے سرو سامانی کے عالم میں اپنا فرض ادا کر رہا تھا؟*

*❀"_ ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے پاکیزہ جذبات اور پاکیزہ حسرتوں اور تمناؤں کے مسالے سے بنے ہوئے حرم پاک کے اندر مکہ والوں کی اس حرکت کے وقوع نے آنے والے دور مستقبل کا ایک تصور تو ضرور دلا دیا اور ایک بے گناہ کے خون سے آئندہ ابواب تاریخ کی سرخی تو جمادی، لیکن یہ اصل زور تشدد کا افتتاح نہیں تھا۔*     

*❥❥_:_گندا پروپیگنڈہ:-۔ نی ﷺ کی دعوت کو پایہ اعتبار سے گرانے کے لیے گالی دینے کے کمینہ جذبہ کے ساتھ پروپیگنڈہ کے ماہر استادوں نے گوناں گوں القلاب گھڑنے شروع کئے۔ مثلاً یہ کہا جانے لگا کہ اس شخص کی بات کیوں سنتے ہو یہ تو (نعوذ باللہ ) " مرتد" ہے، دین اسلاف کہ جس کے ہم اجارہ دار ہیں یہ اس کے دائرہ سے باہر نکل گیا ہے اور اب اپنے پاس سے ایک انوکھا دین گھڑ لایا ہے۔*

 *❀"_کوئی استدلال نہیں بس اپنی گدیوں پر بیٹھے بیٹھے کفر کا فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تو "صابی" ہو گیا ہے صائیت چونکہ اس وقت کی مشرکانہ سوسائٹی میں ایک بدنام اور نا پسندیدہ مسلک تھا اس لیے کسی کا نام صابی دھر دینا ویسی ہی گالی تھا جیسے آج کسی مسلمان کو یہودی یا خارجی یا نیچری کہہ دیا جائے۔*

*❀"_ حق کے خلاف دلائل کے لحاظ سے بودے لوگ جب منفی ہنگامے اٹھاتے ہیں تو ان کی پرو پیگنڈے کی مہم کا ایک ہتھیار ہمیشہ اس طرح کے بد نام کن القاب، ناموں اور اصطلاحوں کا چسپاں کرنا ہوتا ہے۔ گلی گلی، مجلس مجلس مکہ کے پروپیگنڈسٹ ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے تھے کہ دیکھو جی! یہ لوگ صابی ہو گئے ہیں، بے دین ہو گئے ہیں۔ باپ دادا کا دین دھرم انہوں نے چھوڑ دیا ہے، نئے نئے عقیدے اور نئے ڈھنگ گھڑ کر لا رہے ہیں،*

*❀"_ یہ آندھی جب اٹھ رہی ہو گی تو تصور کیجئے کہ اس میں راستہ دیکھنا اور سانس لینا عام لوگوں پر کتنا دو بھر ہو گیا ہو گا۔ اور داعیان حق کے مختصر سے قافلہ کو کس آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو گا ! مگر آندھیاں ارباب عزیمت کے راستے کبھی نہیں روک سکتیں!*     

*❥❥_:-دلائل کے مقابلہ میں جب گالیاں لائی جارہی ہوں تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ دلائل تو اپنی جگہ جمے رہتے ہیں لیکن جو گالی مقابلے پر لائی جاتی ہے وہ جذباتی حد تک دو چار دن کام دے کر بالکل بے اثر ہو جاتی ہے اور انسانی فطرت اس سے نفور ہونے لگتی ہے, چنانچہ آنحضور ﷺ کے لیے ایک گالی اور وضع کی گئی۔ آپ کو ” ابن ابی کبشہ" کہا جاتا تھا۔*

*❀"_ ابی کبشہ ایک معروف مگر بد نام شخصیت تھی۔ یہ شخص تمام عرب کے دینی رجحانات کے خلاف "شعرای" نامی ستارے کی پرستش کرتا تھا۔ ابن ابی کبشہ کے معنی ہوئے ابی کبشہ کا بیٹا یا ابی کبشہ کا پیرو (نعوذ باللہ)، دل کا بخار نکالنے کے لیے مکہ کے مریضان جذباتیت نے کیا کیا ایجادیں نہیں کیں!*

*❀"_ کسی صاحب دعوت یا کسی نقیب تحریک کی ذات پر جب اس طرح کے وار کئے جاتے ہیں تو اصل مطلوب اس شخصیت کو کرب دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت گالی دی جاتی ہے اس نظریہ و مسلک کو اور اس کام اور تنظیم کو جس کی روز افزوں یلغار سے سابقہ پڑا ہوتا ہے، مگر کیا ایک اٹھتے ہوئے سیلاب کے‌ آگے گوبر کے پشتے باندھ کر اس کو روکا جا سکتا ہے!*

*❀"_مسشرکین مکہ دیکھ رہے تھے کہ وہ گندگی کے جو جو بند بھی باندھتے ہیں ان کو یہ دعوت بہائے لیے جارہی ہے اور ہر صبح اور ہر شام کچھ نہ کچھ آگے ہی بڑھتی جاتی ہے تو انہوں نے پروپیگنڈے کے دوسرے پہلو اختیار کئے۔ ایک نیا لقب یہ تراشا کہ یہ شخص (نعوذ بالله) در حقیقت پاگل ہو گیا ہے۔*

*❀"_ بتوں کی مار پڑنے سے اس کا سر پھر گیا ہے۔ یہ جو باتیں کرتا ہے وہ ہوش و حواس اور عقل و حکمت کی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک مالیخولیا ہے کہ جس کے دورے پڑنے پر کبھی اسے فرشتے نظر آتے ہیں، کبھی جنت اور دوزخ کے خواب دکھائی دیتے ہیں کبھی وحی اترتی ہے اور کبھی کوئی انوکھی بات منکشف ہو جاتی ہے۔ یہ ایک سر پھرا آدمی ہے، اس لیے اس کی باتوں پر عام لوگوں کو دھیان نہیں دینا چاہیے اور اپنا دین ایمان بچانا چاہیے۔*     

*❥❥_:- ہمیشہ سے یہ ہوا کہ داعیان حق کا زور استدلال توڑنے کے لیے یا تو ان کو پاگل کہا گیا ہے یا سفیعہ و احمق! ہوشمند تو بس وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی دنیا بنانے اور زمانے کی ہاں میں ہاں ملانے اور اپنی خواہشوں کا سامان تسکین کرنے میں منہمک رہیں، باقی وہ لوگ جو تجدید و اصلاح کی مہم اٹھا کر جان جوکھموں میں ڈالیں، ان کو دنیا پرست اگر احمق اور پاگل نہ کہیں تو آخر ان کی ڈکشنری میں اور کون سا لفظ موزوں ہو سکتا ہے۔*

*❀"_ مشرکین مکہ نے ایک اور طنر گھڑی۔ کہنے لگے کہ یہ مدعی نبوت در حقیقت جادو کے فن کی بھی سمجھ رکھتا ہے۔ یہ اس کا فنی کمال ہے کہ دو چار باتوں میں ہر ملنے والے پر اپنا جادو کر دیتا ہے، نظر بندی کی حالت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ذرا کوئی اس کی ہاتوں میں آیا نہیں کہ جادو کے جال میں پھنسا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے بھلے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں!*

*❀"_ ہاں مگر ایک سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا تھا کہ کبھی احمقوں، پاگلوں اور جادوگروں نے بھی آج تک مذہبی و تمدنی تحریکیں چلائی ہیں اور کبھی کاہنوں نے خدا پرستی اور توحید اور مکارم اخلاق کا درس دینے کے لیے فن ساحری کو استعمال کیا ہے؟ کبھی جادو کے زور سے دلوں اور دماغوں، روحوں اور سیرتوں کو بھی بدلنے کی کوئی مثال سامنے آئی؟*

*❀" لیکن یہ سکہ بند الزام ہے ایسا کہ ہر دور میں ہر صاحب دعوت پر لگایا گیا ہے۔ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خود دعوت میں صداقت نہیں کہ اس کی فطری کشش کام کرے۔ داعی کے استدلال میں کوئی وزن نہیں کہ جس سے قلوب مسخر ہو رہے ہوں بلکہ سارا کھیل کسی پر اسرار قسم کی فریب کاری اور ساحری پر مبنی ہے اور یہ اس کا اثر ہے کہ بھلے چنگے لوگ توازن کھو بیٹھتے ہیں۔*     

*❥❥_:- لوگ اکابر قریش کے سامنے آنحضرت ﷺ کی الہامی تقاریر اور آیات قرآنی خصوصاً پیش بھی تو کرتے ہوں گے کہ یہ اور یہ باتیں کہی گئی ہیں۔ کلام کے وہ جو ہر شناس آخر یہ تو محسوس کر لیتے ہوں گے کہ خود یہ کلام موثر طاقت ہے۔ اس پر بہشیں ہوتی ہوں گی اور رائیں قائم ہوتی ہوں گی۔*.

*❀"_ اس کلام کے اعجاز کی توجیہہ کرنے کے لیے انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ”اجی کیا ہے، بس شاعری ہے، الفاظ کا ایک آرٹ ہے ادیبانہ زور ہے۔ محمد ﷺ درجہ اول کے آرٹسٹ اور لسان خطیب ہیں، ان کی شاعری کی وجہ سے کچے ذہن کے نوجوان بہک رہے ہیں"۔* 

*❀"_اے قریش مکہ ! شاعر تو دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، کیا کوئی ایسا انوکھا شاعر کبھی پیدا ہوا جو اس بے داغ سیرت اور عظیم کردار کا حامل ہو جس کا مظاہرہ محمد ﷺ اور ان کے رفقاء کر رہے تھے۔ کیا شاعری کے طلسم‌ باندھنے والوں نے کبھی ایسی دینی مہمات بھی برپا کی ہیں جیسی تمہارے سامنے ہو رہی تھی؟*

*❀"_ قریش کے سامنے بھی یہ سوال تھا۔ اس کا جواب دینے کے لیے انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کہانت کا ایک اور الزام باندھا۔ کابن لوگ کچھ مذہبی انداز و اطوار رکھتے تھے، ایک عجیب پر اسراری فضا بناتے تھے۔ چلوں اور احتکانوں اور وظیفوں اور منتروں میں ان کی زندگی گزرتی تھی۔ کاہن کہنے سے قریش کا مدعا یہی تھا کہ آنحضور ﷺ نے بھی بس اسی طرح کا ایک ڈھکوسلہ بنا رکھا ہے۔ تاکہ لوگ آئیں، مرید بنیں، ان پر کہانت کا سکہ بھی چلے اور پیٹ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ (معاذ اللہ )*    

*❥❥_:- اور قرآن اس سارے پروپیگنڈے کی دھواں دھاریوں کو محیط ہو کر آسمانی بلندیوں سے پکار کر کہہ رہا تھا کہ: "_ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ، وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ "*
*"_ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔ اور نہ یہ کسی کا ہن کا قول ہے۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔ (الحاقہ ۴۱ -۴۲)*

*❀"_انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ _ ,(الفرقان - ۹) "_ دیکھو یہ لوگ کیسے کیسے محاورے اور فقرے چست کرتے ہیں، کیسے کیسے نام دھرتے ہیں، کیا کیا تشبیہیں گھڑتے ہیں اور کہاں کہاں سے اصطلاحیں ڈھونڈ کے لاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ کر کے پھر یکا یک کیسا پلٹا کھاتے ہیں ؟ "*

*❀"_ دیکھئے ! اب ایک اور شوشہ تراشا جاتا ہے۔ دین ابراہیمی کے نام لیوا فرماتے ہیں کہ یہ کوئی جن ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر آتا ہے اور وہ آ کر عجیب عجیب باتیں بتاتا ہے یا یہ کہ وہ سکھا پڑھا جاتا ہے۔ کبھی مکہ کے ایک رومی و نصرانی غلام (جابر یا جبرا یا جبر) کا نام لیا جاتا ہے (جو آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دین کی باتیں سنانے جاتا ہے اور تنہائی میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ وعظ اور لیکچر نوٹ کراتا ہے۔*

*❀"_ ایک موقع پر وفد اکابر قریش نے خود آنحضور سے کہا کہ: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یمامہ میں کوئی شخص "الرحمٰن" نامی ہے جو تمہیں یہ سب کچھ سکھاتا پڑھاتا ہے۔ خدا کی قسم ہم اس "الرحمٰن" پر ایمان نہیں لائیں گے۔*      

*❥❥_:- ان ہوائی شوشوں سے یہ ظاہر کرنا مطلوب تھا کہ یہ کسی بیرونی طاقت اور کسی غیر شخص کی شرارت ہے جو ہمارے مذہب اور معاشرے کو تباہ کرنے کے در پے ہے اور محمد ابن عبد اللہ تو محض آلہ کار ہے۔ یہ کسی طرح کی سازش ہے۔ دوسری طرف اس میں یہ تاثر بھی شامل تھا کہ کلام کا یہ حسن و جمال نہ محمد کا کمال ہے نہ خدا کی عطا و بخشش، یہ تو کوئی اور ہی طاقت گل کھلا رہی ہے۔ تیسری طرف اس کے ذریعے کذب اور افترا علی اللہ کا الزام بھی دائی حق پر چسپاں ہو رہا تھا۔*

*❀"_ اس کے جواب میں قرآن نے تفصیلی استدلال کیا ہے, مگر اس کا چیلنج قطعی طور پر مسکت ثابت ہوا کہ انسانوں اور جنوں کی مشترکہ مدد سے تم اس طرح کی کوئی سورۃ یا ایسی چند آیات ہی بنا کر لاؤ۔*

*❀"_ ضمنا مزید ایک دعویٰ یہ بھی سامنے آیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے، اصل میں پرانے قصے کہانیاں ہیں جن کا مواد کہیں سے جمع کر کے زور دار زبان میں ڈھالا جا رہا ہے، یہ ایک طرح کی افسانہ طرازی ہے اور داستان گوئی ہے،*

*❀"_ دعوت حق پر "اساطیر الاولین" کی پھبتی کسنے میں یہ طنز بھی شامل تھا کہ ”اگلے وقتوں کی ان کہانیوں کے ذریعے آج کے مسائل کی عقدہ کشائی کہاں ہو سکتی ہے ، زمانہ کہیں سے کہاں آ چکا ہے ،*      

*❥❥_:- واضح رہے کہ یہ ساری مہم کسی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سوچی سمجھی ہوئی شرارت کے طور پر چلائی جا رہی تھی، انہوں نے مل کر یہ قرار داد طے کی تھی کہ "_داعی کی بات سنو ہی نہیں، اس پر غور کرو ہی نہیں۔ کہیں خیالات میں تزلزل نہ آجائے۔ کہیں ایمان خراب نہ ہو جائے۔ بس ہاؤ ہو کا خوب شور مچا کر اس میں رخنہ اندازی کرو، اس میں گڑ بڑ ڈالو اور اسے مذاق پر دھر لو، اس طریقے سے قرآن کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اور آخری فتح تمہاری ہو گی_,"*

*❀"_عاص بن وائل نے آنحضور ﷺ کی دعوت و تحریک کی تحقیر کرتے ہوئے زہریلے کلمات کہے، طعنہ دیا گیا تھا آنحضور ﷺ کی اولاد نرینہ نہ ہونے پر اور عرب میں فی الواقع یہ طعنہ کچھ معنی رکھتا تھا،*

*❀"_مگر عاص جیسوں کی نگاہیں یہ نہیں سمجھ سکتیں کہ انبیاء جیسی تاریخ ساز ہستیوں کی اصل اولاد ان کے عظیم الشان کارنامے ہوتے ہیں، ان کے دماغوں سے نئے ادوار تہذیب جنم لیتے ہیں اور ان کی دعوت و تعلیم کی وراثت سنبھالنے اور ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے رفقاء اور پیرو کار گروہ در گروہ موجود ہوتے ہیں وہ جس خیر کثیر کو لے کے آتے ہیں اس کی طاقت اور اس کی قدر وقیمت کسی کی نرینہ اولاد کے بڑے سے بڑے شکر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔*

*❀"_ چنانچہ اس طعنہ کے جواب میں سورہ کوثر نازل ہوئی جس میں عاص اور اس کے ہم کیشوں کو بتایا گیا کہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کو "کوثر " عطا کیا ہے اسے خیر کثیر کا سر چشمہ بنایا ہے، اسے قرآن کی نعمت عظمی دی ہے، اس پر ایمان لانے والوں اور اطاعت کرنے والوں، اس کے کام کو پھیلانے اور جاری رکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت ہے اور اس کے لیے عالم آخرت میں حوض کوثر کا تحفہ مخصوص کر رکھا ہے۔*

*❀"_ جس سے ایک بار اگر کسی کو اذن نوش مل گیا تو وہ ابد تک پیاس نہ محسوس کرے گا۔ پھر فرمایا کہ اے نبی ﷺ ابتر تو ہیں تمہارے دشمن کہ جن کا باعتبار حقیقت کوئی نام لیوا اور پانی دیوا نہیں ہے اور جن کے مرجانے کے بعد کوئی بھول کے یاد بھی نہ کرے گا کہ فلاں کون تھا اور جن کے لیے تاریخ انسانی کے ایوان میں کوئی جگہ نہیں۔*     

*❥❥_:- جو لوگ آنکھوں دیکھتے ایک امر حق کو نہیں ماننا چاہتے وہ اپنے اور داعی کے درمیان طرح طرح کے نکتے اور لطیفے اور باتوں میں سے باتیں نکال نکال کر لاتے ہیں، اسلاف کی سکہ بند مذہبیت کے یہ مخالفین آنحضور ﷺ سے ایک تو بار بار یہ پوچھتے تھے کہ تم اگر نبی ہو تو آخر کیوں نہیں ایسا ہوتا کہ تمہارے نبی ہونے کی کوئی واضح نشانی تمہارے ساتھ ہو، کوئی ایسا معجزہ ہو جسے دیکھنے والوں کے لیے نبوت مانے بغیر چارہ ہی نہ رہے۔*

*❀"_کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ۔ (الفرقان ۲۰) سیدھی طرح آسمان سے فرشتوں کے جھنڈ اتریں، ہمارے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیں، اور خدا تمہارے ذریعے پیغام بھیج کر اپنے آپ کو منوانے کے بجائے خود ہی کیوں نہ ہمارے سامنے آجائے اور ہم دیکھ لیں کہ یہ ہے ہمارا رب جھگڑا ختم ہو جائے۔*

*❀"_ پھر وہ یہ کہتے کہ جو کچھ تم پیش کر رہے ہو یہ اگر واقعی خدا کی طرف سے ہوتا تو چاہیے یہ تھا کہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہمارے دیکھتے دیکھتے آسمان سے اترتی بلکہ تم خود سیڑھی کے ذریعے کتاب لیے ہوئے اترتے اور ہم سر تسلیم خم کر دیتے کہ تم سچے نبی ہو۔*

*❀"_ اسی سلسلے میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا تھا کہ قرآن خطبہ بہ خطبہ اور قطعہ بہ قطعہ کیوں نازل ہوتا ہے۔ سیدھی طرح ایک ہی بار پوری کی پوری کتاب کیوں نہیں نازل ہو جاتی؟*

*❀"_ دراصل انہیں یہ صورت بڑی کھلتی تھی کہ جتنے سوال وہ اٹھاتے تھے ، جو جو شرارتیں کرتے تھے ، جس جس پہلو سے مین میخ نکالتے تھے اس پر وحی کے ذریعے حسب موقع تبصرہ ہوتا اس کا تجزیہ کیا جاتا اور پورے زور استدلال سے ان کی مخالفانہ کاوشوں کی جڑیں کھود دی جاتیں۔*      

*❥❥_:-پھر وہ یہ پھبتی کستے کہ تم جو گوشت پوست کے بنے ہوئے ہماری طرح کے ایک آدمی ہو ، تمہیں بھوک لگتی ہے، معاش کے در پے ہو، روٹی کھاتے ہوں، گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، پھٹے حالوں رہتے ہو، تمہارے اوپر طرح طرح کی زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ کیسے یہ بات عقل میں آئے کہ تم اللہ کے پیارے اور اس کے معتمد نمائندنے اور دنیا کی اصلاح کے ذمہ دار بنا کر بھیجے گئے ہو۔*

*❀"_ تم واقعی اگر ایسے چیدہ روز گار ہوتے تو فرشتے تمہارے آگے آگے ہٹو بچھ کی صدا لگاتے باڈی گارڈ بن کر ساتھ چلتے جو کوئی . گستاخی کرتا لٹھ سے اس کا سر پھوڑ دیتے۔ تمہاری یہ شان اور یہ ٹھاٹھ دیکھ کر ہر آدمی بے چون و چرا مان لیتا کہ اللہ کا پیارا ہے اور نبی ہے۔ اتنا ہی نہیں تمہارے لیے آسمان سے خزانہ اترتا اور اس خزانہ کے بل پر تم شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ عیش کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ تمہارے بسنے کے لیے سونے کا ایک محل ہو تا، تمہارے لیے کوئی چشمہ جاری ہوتا کوئی نہر بہائی جاتی، تمہارے پاس پھلوں کا کوئی اعلیٰ درجے کا بالغ ہو تا آرام سے بیٹھے اس کی کمائی کھاتے۔ اس نقشے کے ساتھ تم نبوت کا دعوی لے کے اٹھتے تو ہم سب بسر و چشم مانتے کہ واقعی یہ کوئی منتخب زمانہ اور مقبول ربانی ہستی ہے۔*

*❀"_ برخلاف اس کے حال یہ ہے کہ ہم لوگ کیا مال کے لحاظ سے کیا اولاد کے لحاظ سے تم سے منزلوں آگے ہیں، اور تمہارا حال جو کچھ ہے وہ سامنے ہے، ایک تم ہی نہیں، تمہارے ارد گرد جو ہستیاں جمع ہوئی ہیں وہ سب ایسے لوگ ہیں جو ہماری سوسائٹی کے سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، کوتاہ نظر اور کم علم ہیں۔ تم لوگوں کو ہمارے مقابلے میں کوئی بھی تو وجہ فضیلت حاصل نہیں۔*

*❀"_ بتاؤ اے محمد ! کہ ایسی صورت میں کوئی معقول آدمی کیسے تمہیں نبی مان لے ! چنانچہ حال یہ تھا کہ جدھر سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ہوتا۔ پھبتیاں کسی جائیں، انگلیاں اٹھا اٹھا کر اور اشارے کر کر کے کہتے کہ ذرا دیکھنا ان صاحب کو یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول مقرر فرمایا ہے! خدا کو کسی آدم زاد سے رسالت کا کام لینا ہی تھا تو کیا لے دے کے یہی شخص رہ گیا تھا ! کیا حسن انتخاب ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریک کے علمبرداروں پر بہ حیثیت مجموعی یہ فقرہ چست کیا جاتا تھا کہ_ " أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا_", (الانعام ۔۵۳) کیا یہی ہیں وہ ممتاز ہستیاں جنہیں اللہ نے مراتب خاص سے نوازنے کے لیے ہمارے اندر سے چھانٹ لیا ہے۔*       

*❥❥_:- پھر کہا جاتا کہ اے محمد! وہ جس عذاب کی روز روز تم دھمکیاں دیتے ہو۔ اور جس کے ذریعے اپنا اثر جمانا چاہتے ہو، اسے لے کیوں نہیں آتے؟ اسے آخر کس چیز نے روک رکھا ہے؟ چیلنج کر کر کے کہتے کہ,"_ فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ _," ( الشعراء۔ ۱۸۷) کیوں نہیں تم آسمان کا کوئی ٹکڑا توڑ گراتے ہم جیسے نافرمان کافروں پر ؟ اگر تم سچے ہو تو ہمارا خاتمہ کر ڈالو۔*

*❀"_ پھر یہ دین اسلاف کے ٹھیکہ دار یہ نکتہ چھانٹتے کہ اے محمد ! جب تم بتاتے ہو کہ خدا قادر و صاحب اختیار اور قاہر و جبار ہے تو کیوں نہیں وہ ہم کو اپنی طاقت کے زور سے اس ہدایت کے راستے پر چلاتا کہ جس پر چلنے کے لیے تم ہمیں کہتے ہو۔ وہ ہمیں موحد اور نیک دیکھنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں موحد بنا دے اور نیکی پر چلا دے، اس کو کس نے روک رکھا ہے۔* 

*❀"_ اسی طرح وہ قیامت کا مذاق اڑاتے۔ بڑے ڈرامائی انداز میں دریافت کرتے کہ ذرا یہ تو فرمائیے کہ یہ حادثہ کب واقعہ ہونے والا ہے ؟ کچھ اتا پتا دیجئے کہ اس اعلان کو کب پورا ہوتا ہے ؟ قیامت کب تک آپہنچنے والی ہے؟ کیا کوئی تاریخ اور کوئی گھڑی معین نہیں ہوئی؟ ان چند مثالوں سے جن کی تفصیل قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے، اندازہ کیجئے کہ دنیا کے سب سے بڑے محسن اور انسانیت کے عظیم ترین خیر خواہ کو کیسی فضا سے سابقہ آپڑا تھا۔*

*❀"_ عالم بالا کی طرف سے یقین دہانی کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے کلمات سے خود سامان تسکین فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ اس مرحلے سے گزرنے کے لیے بار بار ہدایات دی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک جامع ہدایت یہ آئی کہ "_خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ_," (اے نبی ﷺ نرمی و در گزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو_," (الاعراف 144)*

*❀"_ یعنی اعصاب کو جھنجھوڑ دینے والے اور دل و جگر کو چھید ڈالنے والے اس دور کے لیے آنحضور ﷺ کو تین تقاضوں کا پابند کر دیا گیا۔ ایک یہ کہ بد زبانیوں سے بے نیازی کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ حق بات کہنے کی ذمہ داری ہر حال میں پوری کی جائے گی۔ تیسرے یہ کہ کمینہ اور بد اخلاق اور جہالت زدہ اشخاص کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں! اور قرآن اور تاریخ دونوں گواہ ہیں کہ آنحضور نے ان ہدایات کی حدود سے بال برابر تجاوز کئے بغیر یہ پورا دور گزار دیا۔*    

*❥❥_:- کبھی کبھی قریش کو سوچ بچار سے کوئی عقلی قسم کی دلیل بھی ہاتھ آجاتی تھی۔ ایک بات وہ یہ کہتے تھے کہ ہم کب بتوں کو خداوند تعالٰی کے مقام پر رکھتے ہیں، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ جن بزرگوں کی ارواح کے منظر ہیں وہ اللہ کے دربار میں ہمارے لیے سفارش کرنے والے ہیں اور ان بتوں کے آگے سجدہ و قربانی کر کے ہم صرف اللہ کے حضور تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔*

*❀"_ اسی طرح ایک بات وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارے نزدیک زندگی صرف اسی دنیا کی زندگی ہے, کوئی اور عالم پیش آنے والا نہیں ہے اور نہ ہمیں دوبارہ زندہ کیا جانے والا ہے، پھر آخر ہم ایک ایسے دین کو کیونکر تسلیم کریں جو کسی دوسری دنیا کا تصور دلا کر اس دنیا کے مفاد اور اس کی دلچسپیوں سے ہمیں محروم کرنا چاہتا ہے۔*

*❀"_ اسی طرح ایک بات وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہم دعوتِ محمد (ﷺ) کو مان لیں اور موجودہ مذہبی و معاشرتی نظام کو ٹوٹ جانے دیں اور اپنے قائم شدہ تسلط کو اٹھا لیں تو پھر تو ہم میں سے ایک ایک شخص کو دن دہاڑے چن چن کر اچک لیا جائے گا، "_(نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا) وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ (القصص- ٥٧)*

*❀"_یہ دو تین مثالیں اس امر واقعہ کو عرض کرنے کے لیے مجملا لے لی گئی ہیں، کہ شرارتوں اور خباثتوں کے بیچ بیچ میں وہ کچھ نہ کچھ دلیل بازی بھی کرتے جاتے تھے لیکن اس دلیل بازی کا تار تار قرآن الگ کر کے دکھا دیتا تھا اور اس کی ہر موقع پر دھجیاں اڑتی رہتی تھیں۔*      
*❥❥_:- گالم گلوچ کی یہ مہم قریش کے جنون و مخالفت کے تیز ہونے کے ساتھ غنڈہ گردی کا رنگ اختیار کرتی چلی جا رہی تھی۔ منفی شرارت کے علمبردار جب تضحیک و دشنام کو ناکام ہوتے دیکھتے ہیں تو پھر ان کا اگلا قدم ہمیشہ غنڈہ گردی ہوتا ہے۔ مکہ والوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو زچ کرنے کے لیے وہ کمینہ حرکتیں کی ہیں کہ صاحب رسالت ﷺ کے علاوہ کوئی اور داعی ہو تا تو بڑی سے بڑی اولوالعزمی کے باوجود اس کی ہمت ٹوٹ جاتی اور وہ قوم سے مایوس ہو کر بیٹھ جاتا۔*

*❀"_ لیکن رسول خدا ﷺ کی شرافت اور سنجیدگی، غنڈہ گردی کے چڑھے ہوئے دریا میں سے بھی پاک دامن کو کنول کی طرح صحیح سلامت لیے آگے ہی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ وہ حرکات جو بالکل روز مرہ کا معمول بن گئیں، یہ تھیں کہ آپ کے محلہ دار پڑی جو بڑے بڑے سردار تھے بڑے اہتمام سے آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے۔ نماز پڑھتے وقت شور مچاتے اور ہنسی اڑاتے، حالت سجدہ میں اوجھڑیاں لا کے ڈالتے، چادر کو لپیٹ کر گلا گھونٹتے، محلے کے لونڈوں کو پیچھے لگا دیتے کہ تالیاں پیٹیں اور غوغا کریں۔ قرآن پڑھنے کی حالت میں آپ کو قرآن کو اور خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے۔*

*❀"_اس معاملے میں ابو لہب کے ساتھ ساتھ ابولہب کی بیوی بہت پیش پیش تھی۔ وہ بلاناغہ کئی سال تک آپ کے راستے میں غلاظت اور کوڑا کرکٹ اور کانٹے جمع کر کر کے ڈالا کرتی تھی اور آنحضور ﷺ روزانہ بڑی محنت سے راستہ صاف کرتے۔ آپ کو اس کمبخت نے اس درجہ پریشان رکھا کہ اللہ تعالی نے آپ کی تسکین کے لیے یہ خوشخبری سنائی کہ مخالف محاذ کی اس لیڈرہ کے شوہر نامدار کے ایذا رساں ہاتھ ٹوٹ جانے والے ہیں اور خود یہ بیگم صاحبہ بھی دوزخ کے حوالے ہونے والی ہیں۔*

*❀"_ ایک مرتبہ حرم میں آنحضور ﷺ مصروف نماز تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے چادر آپ کے گلے میں ڈالی اور اسے خوب مروڑ کر گلا گھونٹا۔ یہاں تک کہ آپ گھٹنوں کے بل گر پڑے، اسی شخص نے ایک مرتبہ حالت نماز میں آپ پر اوجھ بھی ڈالی تھی۔*     

*❥❥_:- ایک مرتبہ آپ ﷺ راستہ چلتے جا رہے تھے کہ کسی شقی نے سر پر مٹی ڈال دی، اسی حالت میں آپ ﷺ صبر و استقامت کے ساتھ چپ چاپ گھر پہنچے، معصوم بچی فاطمہ نے دیکھا تو آپ کا سر دھوتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ مارے غم کے روتی جاتی تھیں۔ آپ نے اس ننھی سی جان کو تسلی دی کہ جان پدر! روؤ نہیں، خدا تیرے باپ کو بچائے گا -*

*❀"_ایک اور مرتبہ آپ حرم میں مصروف نماز تھے کہ ابو جہل اور چند اور رؤسائے قریش کو توجہ ہوئی۔ ابو جہل کہنے لگا : کاش اس وقت کوئی جاتا اور اونٹ کی اوجھ نجاست سمیت اٹھالا تا تا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سجدہ میں جاتا تو اس کی گردن پر ڈال دیتا۔ عقبہ نے کہا کہ یہ خدمت انجام دینے کے لیے بندہ حاضر ہے۔ اوجھ لائی گئی اور آپ کے اوپر حالت سجدہ میں ڈال دی گئی،*

*❀"_ اب ٹھٹھے مار مار کر ہنسی اڑائی جاری تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ہوئی تو آپ دوڑی آئیں اور پاکباز باپ کی معصوم بچی نے وہ سارا بار غلاظت آپ کے اوپر سے ہٹایا ساتھ ساتھ عقبہ کو بد دعائیں بھی دیتی جاتی تھیں۔*

*❀"_کانٹے بچھا کر چاہا گیا کہ تحریک حق کا راستہ رک جائے! گندگی پھینک کر کوشش کی گئی کہ توحید اور حسن اخلاق کے پیغام کی پاکیزگی کو ختم کر دیا جائے۔ آنحضور ﷺ کو بوجھ تلے دبا کر یہ توقع کی گئی کہ بس اب سچائی سر نہ اٹھا سکے گی۔ آپ کا گلا گھونٹ کر یہ خیال کیا گیا کہ بس اب وحی الٰہی کی آواز بند ہو جائے گی۔*

*❀"_ کانٹوں سے جس کی تواضع کی گئی وہ برابر پھول برساتا رہا! گندگی جس کے اوپر اچھالی گئی وہ معاشرے پر مسلسل مشک و عنبر چھڑکتا رہا! جس پر بوجھ ڈالے گئے وہ انسانیت کے کندھے سے باطل کے بوجھ متواتر اتارتا رہا۔ جس کی گردن گھونٹی گئی، وہ تہذیب کی گردن کو رسمیات کے پھندوں سے نجات دلانے میں مصروف رہا۔ غنڈہ گردی ایک ثانیہ کے لیے بھی شرافت کا راستہ نہ روک سکی،*  

*❥❥_:_حمایتیوں کو توڑنے کی کوششیں :-*
*❀"_دعوت حق کے مخالفین جب پانی سر سے گزرتا دیکھتے ہیں تو ایک مہم یہ شروع کرتے ہیں کہ تحریک یا اس کے قائد اور علمبرداروں کو سوسائٹی میں ہر قسم کی موثر حمایت و ہمدردی سے محروم کرا دیا جائے۔ براہ راست اثر نہ ڈالا جا سکے تو بالواسطہ طریق سے دباؤ ڈال کر تبدیلی کے سپاہیوں کو بے بس کر دیا جائے۔*

*❀"_ ادھر داعی حق آنحضور ﷺ اپنے چچا ابو طالب کی سرپرستی میں تھے اور یہ سرپرستی جب تک قائم تھی گویا پورے ہاشمی قبیلہ کی عصبیت آنحضور ﷺ کے ساتھ تھی۔ مخالفین دعوت نے اب پورا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ کسی طرح ابو طالب پر دباؤ ڈال کر آنحضور ﷺ کو اس کی سر پرستی سے محروم کر دیا جائے،*

*❀"_ دباؤ ڈالنے کا یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ مگر مخالفین کو ہر بار ناکامی ہوئی۔ ایک زور کریش کا وفد آنحضور ﷺ کے چچا کے پاس پہنچتا ہے، یہ لوگ اپنا مدعا یوں بیان کرتے. ہیں:-*
*”_اے ابوطالب ! تیرا بھتیجا ہمارے خداوندوں اور ٹھاکروں کو گالیاں دیتا ہے، ہمارے مذہب میں عیب چھانٹتا ہے، ہمارے بزرگوں کو احمق کہتا ہے اور ہمارے اسلاف کو گمراہ شمار کرتا ہے، اب یا تو تم اس کو ہمارے خلاف ایسی زیادتیاں کرنے سے روکو یا ہمارے اور اس کے درمیان سے تم نکل جاؤ ۔ کیونکہ تم بھی (عقیدہ و مسلک کے لحاظ سے) ہماری طرح اس کے خلاف ہو۔ اس کی جگہ ہم تمہارے لیے کافی ہوں گے"*

*❀"_ابو طالب نے ساری گفتگو ٹھنڈے دل سے سنی اور نرمی سے سمجھا بجھا کر معاملہ ٹال دیا اور وفد کو رخصت کر دیا۔ آنحضور ﷺ بدستور اپنے مشن کی خدمت میں لگے رہے اور قریش پیچ و تاب کھاتے رہے!*       

*❥❥_:- مخالفین پھر آتے ہیں "اے ابو طالب ! تم ہمارے درمیان عمر شرف اور قدر و قیمت کے لحاظ سے ایک بڑا درجہ رکھتے ہو۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ اپنے بھتیجے سے ہمیں بچاؤ لیکن تم نے یہ نہیں کیا۔ اور خدا کی قسم جس طرح ہمارے باپ دادا کو گالیاں دی جا رہی ہیں، جس طرح ہمارے بزرگوں کو احمق قرار دیا جا رہا ہے اور جس طرح ہمارے معبودوں پر حرف گیری کی جا رہی ہے، اسے ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ الا آنکہ تم اسے باز رکھو یا پھر ہم اس سے بھی اور تم سے بھی لڑیں گے۔ یہاں تک کہ ایک فریق کا خاتمہ ہو جائے۔*

*❀"_ ابو طالب نے آنحضور ﷺ کو بلایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ پھر لجاجت سے کہا کہ بھتیجے! مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کا اٹھانا میرے بس سے باہر ہو_,"*

*❀"_ اب ایسی صورت آگئی تھی کہ پاؤں جمانے کیلئے سہارے کا جو ایک پتھر حاصل تھا وہ بھی متزلزل ہوا جاتا تھا۔ بظاہر تحریک کے لیے انتہائی خطر ناک لمحہ آگیا تھا، لیکن دوسری طرف دیکھئے اس جذبہ صادقہ اور اس عزیمت مجاہدانہ کو کہ جس سے سرشار ہو کر آنحضور ﷺ یہ جواب دیتے ہیں:۔ چچا جان! خدا کی قسم۔ یہ لوگ اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر چاہیں کہ اس مشن کو چھوڑ دوں تو میں اس سے باز نہیں آسکتا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ تعالٰی اس مشن کو غالب کر دے یا میں اسی جد و جہد میں ختم ہو جاؤں"*

*❀"_ یہاں وہ اصلی طاقت بول رہی ہے جو تاریخ کو الٹ پلٹ کے رکھ دیتی ہے اور مزاحمتوں اور شرارتوں کو کچلتی ہوئی اپنے نصب العین تک جا پہنچتی ہے، افسوس کہ قریش اسی طاقت کا راز نہ پاسکے! ابو طالب اسی طاقت کی سحر آفرینی سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ "بھتیجے ! جاؤ جو کچھ تمہیں پسند ہے اس کی دعوت دو میں کسی چیز کی وجہ سے تم کو نہیں چھوڑوں گا_"*     

*❥❥_ایک اور وفد عمارہ بن ولید کو ساتھ لے کر پھر آتا ہے۔ اب کے یہ لوگ ایک اور ہی منصوبے کے ساتھ آتے ہیں۔ ابو طالب سے کہتے ہیں کہ دیکھئے یہ عمارہ بن ولید ہے جو قریش میں سے ایک مضبوط اور خوبصورت ترین جوان ہے, اسے لے لیجئے۔ اس کی عقل اور اس کی طاقت آپ کے کام آئے گی, اسے اپنا بیٹا بنا لیجئے اور اس کے عوض میں محمد (ﷺ) کو ہمارے حوالے کر دیجئے۔ جس نے کہ آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔ اور آپ کی قوم کا شیرازہ درہم برہم کر دیا ہے۔ اور ان کے بزرگوں کو احمق ٹھرایا ہے, اسے ہم قتل کر دینا چاہتے ہیں۔ سیدھا سیدھا ایک آدمی کے بدلے میں ہم ایک آدمی آپ کو دیتے ہیں۔*

*❀"_ وفد کی گفتگو سن کر یقیناً ابو طالب کے جذبات پر بڑی چوٹ لگی اور کہا کہ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تمہارے بیٹے کو تو میں لے کر پالوں پوسوں اور میرے بیٹے کو تم لے جاکر تلوار کے نیچے سے گزار دو۔ ابد تک ایسا نہیں ہو سکتا۔*

*❀"_ معاملہ بڑھ گیا۔ کشمکش کی فضا گرم تر ہو گئی اور خود وفد کے اتفاق رائے کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اب قریش نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء پر سختیاں کرنے کے لیے ان تمام قبائل کو اکسانا شروع کیا جن میں تحریک اسلامی کا کوئی فرد پایا جاتا تھا۔ مظلم ڈھائے جانے لگے، اسلام سے ہٹانے کے لیے ظلم وزیادتی سے کام لیا جانے لگا۔*.

*❀"_ لیکن اللہ نے اپنے رسول کو ابو طالب کی آڑ کھڑی کر کے بیچا رکھا تھا۔ ابو طالب نے قریش کے بگڑے تیور دیکھ کر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے سامنے آنحضور ﷺ کی پشت پناہی کے لیے اپیل کی۔ لوگ جمع ہوئے اور حمایت محمد ﷺ کے لیے تیار ہو گئے۔ مگر ابولہب نے سخت مخالفت کی اور بات طے نہ ہو سکی۔*    

*❥❥_:- آگے چل کے جب تحریک حق نے مخالفین کی صفوں میں سے حمزہ اور عمر جیسی دو ہستیاں چن لیں تو پیچ و تاب کی نئی لہر اٹھی۔ محسوس کیا گیا کہ محمد ﷺ کی چلائی ہوئی ہوا تو اب گھر گھر میں نگہت پاش ہو رہی ہے، کچھ کرنا چاہیے۔ ابو طالب کی بیماری کی حالت میں یہ لوگ پھر پہنچے۔ اب کی اسکیم یہ تھی کہ معاہدہ ہو جائے۔ وفد نے کہا کہ جو کچھ صورت حالات ہے اسے آپ جانتے ہیں، اپنے بھتیجے کو بلوائیے، اس کے بارے میں ہم سے عہد لیجئے اور ہمارے بارے میں اس کا عمد دلوائیے۔ وہ ہم سے باز رہے ہم اس سے باز رہیں۔ وہ ہم سے اور ہمارے مذہب سے واسطہ نہ رکھے، ہم اس سے اور اس کے مذہب سے واسطہ نہیں رکھیں گے"۔*

*❀"_ رسول پاک ﷺ بلوائے جاتے ہیں، بات ہوتی ہے اور آپ سارا مطالبہ سننے کے بعد جواب دیتے ہیں، اے اشراف قریش میرے اس ایک کلمہ کو مان لو تو پھر عرب و عجم سب تمہارے زیر نگیں ہوں گے۔*

*"❀_ابو جہل نے تنک کر کہا۔ ”ہاں! تیرے باپ کی قسم ! ایک کیوں دس کلمے چلیں گے،" کوئی دوسرا بولا: یہ شخص تو خدا کی قسم تمہاری مرضی کی کوئی بات مان کر دینے کا نہیں اس کے بعد یہ لوگ مایوس ہو کر چلے گئے۔*

*❀"_ لیکن اس وفد کی گفتگو نے چند حقیقتوں کو نمایاں کر دیا۔ ایک یہ کہ اب تحریک اسلامی کو وہ ایک ایسی طاقت ماننے پر مجبور ہو گئے تھے جس کو اکھیڑنے کی سعی رائیگاں سے زیادہ بہتر سمجھوتہ کی کوئی راہ نکالنا تھا، دوسرے یہ کہ قریش ساری شرارتوں اور زیادتیوں کو آزمانے کے بعد اب اپنی بے بسی کو محسوس کر رہے تھے۔*      

*❥❥_:- انسان اعظم (صلی اللہ علیہ و سلم) اولاد آدم کی جس سب سے بڑی خدمت میں مصروف تھے اس کو ناکام بنانے کے لیے مخالفین جن مختلف تدبیروں سے کام لے رہے تھے ان سب کے علی الرغم دعوت کا کام جاری تھا اور کلمہ حق کو نپلیں نکال رہا تھا۔*

 *❀"_مکہ مرکز عرب تھا اور ہر طرف سے قافلے آتے جاتے اور داعی حق کے لیے کام کا نت نیا میدان فراہم کرتے۔ سرداران مکہ کی جو دھونس خود باشندگان مکہ پر چلتی تھی وہ باہر سے آنے والوں پر نہیں چل سکتی تھی۔ تشویش ناک موقع اس پہلو کے لحاظ سے حج کا تھا۔ قبائل عرب جوق در جوق مع اپنے سرداروں کے مکہ میں اکٹھے ہوتے اور نبی اکرم ﷺ اپنا پیغام پھیلانے کے لیے خیمہ بہ خیمہ گردش میں مصروف ہو جاتے۔*

*❀"_ چنانچہ ایک سال موسم حج کی آمد آمد تھی کہ ولید بن مغیرہ کے ہاں قریشان کرام جمع ہوئے اور سر جوڑ کر سوچ بچار میں مصروف ہو گئے، جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے سازش کی جاتی ہے۔ دل جس بات کو نہیں مانتے اسی کو لے کر مخالفانہ ہنگامہ جاری رکھنے کی اسکیم بنتی ہے۔ چنانچہ اس مجلس میں طے ہو گیا کہ مختلف پارٹیاں مکہ کو آنے والے راستوں پر چوکیاں لگادیں۔ اور آنے والے ہر وفد کو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور آپ کی دعوت کے بارے میں چوکنا کر دیں۔*

 *❀"_چنانچہ اسی منصوبہ پر عمل کیا گیا، لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔ آنحضور ﷺ کا چرچا عرب کے کونے کونے تک پھیل گیا اور جن کو کچھ نہیں معلوم تھا ان کو بھی معلوم ہو گیا کہ ایک نئی دعوت ایسی اٹھی ہے اور اس کی علمبردار شخصیت محمد ﷺ کی ہے۔*     

*❥❥_:- ربیعہ بن عبادہ کا بیان ہے کہ ”میں منیٰ میں اپنے باپ کے ساتھ موجود تھا جب کہ میں ایک نوخیز لڑکا تھا۔ اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عربی قبیلوں کی اقامت گاہوں میں جا جا کر رکتے اور فرماتے، ”اے بنی فلاں ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ تم سے کہتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ اور کسی کو شریک نہ کرو اور اس کے علاوہ ان بتوں میں سے جس جس کی بھی عبادت کر رہے ہو اس سے الگ ہو جاؤ اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ میری تصدیق کرو اور میری حمایت کرو یہاں تک کہ میں اللہ کی طرف سے ساری بات کھول کر رکھ دوں جس کے ساتھ اس نے مجھے مامور کیا ہے"۔*

*❀"_ ایک شخص عدنی حلہ اوڑھے آنحضور کے ساتھ ساتھ لگا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ اپنی بات فرما چکتے تو یہ شخص اپنی ہانکنا شروع کر دیتا۔ کہ: اے بنی فلاں ! یہ شخص تم کو لات و عزیٰ سے ہٹا کر بدعت و گمراہی کی طرف کھینچ لے جانا چاہتا ہے۔ پس نہ اس کی سنو نہ اس کی بات مانو_," وہ نوجوان یہ منظر دیکھ کر اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے جو آنحضور ﷺ کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اور آپ کی بات کی تردید کر رہا ہے۔ جواب ملتا ہے کہ یہ آپ کا اپنا ہی چچا ابو لہب ہے۔"*

*❀"_ نبی اکرم ﷺ حج کی طرح میلوں کے اجتماعات میں بھی تشریف لے جاتے تھے، تا کہ انسانی اجتماع سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک مرتبہ بازار ذوالجاز میں پہنچے اور لوگوں کو حق کا پیغام سنا کر کلمہ طیبہ کی دعوت دی۔ ابو جهل ساتھ لگا تھا۔ کم بخت کو بغض و کینہ نے اتنا پست کر دیا تھا کہ مٹی اٹھا اٹھا کر آپ پر پھینکتا اور ساتھ ساتھ پکارتا کہ لوگو! اس کے قریب میں نہ آنا۔ یہ چاہتا ہے کہ لات و عزیٰ کی پرستش چھوڑ دو۔*

*❀"_ مخالفانہ پروپیگنڈہ کی اس طوفانی مہم سے ابو طالب کو تشویش بھی لاحق ہوئی کہ کہیں عرب کے عوام اجتماعی مخالفت پر نہ اتر آئیں۔ انہوں نے ایک طویل قصیدہ لکھ کر کعبہ میں آویزاں کیا جس میں ایک طرف یہ صفائی دی کہ میں نے دعوت محمد ﷺ کو قبول نہیں کیا، لیکن دوسری طرف یہ اعلان بھی کیا کہ کسی قیمت پر محمد کو نہیں چھوڑ سکتا اور اس کے لیے اپنی جان تک دے دوں گا۔*    

*❥❥_:- جب کبھی کوئی اہم شخصیت مکہ میں وارد ہوتی تو تحریک اسلامی کے مخالفین اس کو رسول اللہ ﷺ کے اثر سے بیچانے کے لیے پورا جتن کرتے، مگر بسا اوقات اثر الٹا ہوتا، اس قسم کے چند خاص واقعات کا تذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔*

*❀"_ طفیل بن عمرو دوسی ایک مرد شریف اور ایک شاعر لبیب تھا ۔ ایک مرتبہ وہ آیا، بعض افراد قریش اس کے پاس پہنچے ، کہنے لگے کہ طفیل ! دیکھو تم ہمارے شہر میں آئے ہو اور یہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سرگرمیاں ہمارے لیے ناقابل برداشت بنی ہوئی ہیں۔ اس شخص نے ہماری وحدت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور ہمارے مفاد کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ اس کی باتیں جادو گروں جیسی ہیں۔ اور یہ بیٹے اور باپ میں بھائی اور بھائی میں شوہر اور بیوی میں جدائی ڈلوا رہا ہے۔ ہمیں تمہارے اور تمہاری قوم کے بارے میں اندیشہ ہے کہ تم کہیں شکار نہ ہو جاؤ ۔ پس بہتر یہ ہے کہ اس شخص سے نہ تو بات کرنا اور نہ اس کی کوئی بات سننا۔*

*❀"_طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ ان لوگوں نے اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ میں پوری طرح قائل نہ ہو گیا کہ نہ بات کروں گا نہ سنوں گا، چنانچہ جب میں مسجد حرام کی طرف جاتا تو کانوں میں روئی ٹھونس لیتا۔*

*❀"_ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس عبادت میں کھڑے تھے تو میں بھی قریب جا کر کھڑا ہوا۔ میں نے بہت ہی خوب کلام سنا۔ پھر دل میں میں نے کہا کہ میری ماں مجھے روئے، خدا کی قسم میں ایک صاحب عقل آدمی ہوں، شاعر ہوں، برے بھلے کی پہچان کر سکتا ہوں۔ پھر کیا چیز مجھے ان باتوں کے سننے سے روک سکتی ہے جنہیں یہ کہتا ہے۔ جو پیغام یہ لایا ہے وہ اگر بھلا ہو گا تو میں قبول کر لوں گا، اگر برا ہو گا تو چھوڑ دوں گا۔*      

*❥❥_:- اسی سوچ بچار میں کچھ وقت گزر گیا۔ اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے، طفیل ساتھ ہو گیے، راستے میں سارا قصہ سنایا کہ مجھے پروپیگنڈہ کے کسی چکر میں ڈال رکھا گیا ہے۔ پھر مکان پر پہنچ کر درخواست کی کہ اپنا پیغام ارشاد فرمائیے۔*

*❀"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہے کہ "خدا کی قسم ! نہ اس سے بڑھ کر اچھا کلام میں نے کبھی سنا نہ اس سے بڑھ کر سچا پیغام۔*

*❀"_ اور پھر وہ بتاتے ہیں کہ میں اسلام لے آیا اور حق کی گواہی دی۔ ان طفیل دوسی رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلہ میں جاکر پر جوش طریق سے دعوت کا کام کیا اور پورا قبیلہ متاثر ہوا۔ ان کے تبلیغی جوش کا یہ عالم تھا کہ گھر پہنچ کر جونہی ضعیف العمر والد سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے کہ نہ آپ میرے نہ میں آپ کا ! انہوں نے پوچھا۔ ” بیٹے یہ کیوں؟“ جواب دیا کہ اب میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کر لیا ہے اور آپ کی پیروی کرلی ہے، والد نے کہا کہ بیٹے! جو تیرا دین ہے وہی میرا بھی ہو گا۔ فورآ نها کر اسلام قبول کیا۔*

*❀"_ طفیل رضی اللہ عنہ نے اسی طرح اپنی بیوی کو دعوت دی۔ اور اس نے بھی لبیک کی۔ پھر قبیلہ میں دعوت عام کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں آکر حضور ﷺ کی خدمت میں روداد بیان کی۔ اور اپنے قبیلہ کی خرابیاں بیان کر کے دعائے عذاب کی درخواست کی۔ مگر حضور ﷺ نے ہدایت کی دعا کی اور طفیل رضی اللہ عنہ کو تاکید کی کہ واپس جا کر اپنے لوگوں میں دعوت جاری رکھو اور خاص نصیحت کی کہ ان کے ساتھ نرمی بر تو،*       

*❥❥_:- اعشیٰ بن قیس بھی ایک ممتاز شاعر تھا، اس نے رسول اللہ ﷺ کا چرچا سنا اور اس ارادے سے مکہ کا رخ کیا کہ جا کر اسلام قبول کرے۔ اس نے آنحضور ﷺ کی شان میں قصیدہ بھی کہا تھا۔ اب جونہی یہ مکہ کی حدود میں پہنچا ایک قریشی مشرک نے آ گھیرا اور ان کے مقصد کے بارے میں کھوج کرید کی۔*

*"❀_ اس نے بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جا کر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر بات چل پڑی۔ مشرک حیلہ طراز نے اعشیٰ کی دکھتی رگوں کو ٹٹولنے کے لیے کہا کہ دیکھو محمد (ﷺ) تو زنا کو حرام ٹھراتا ہے۔ یہ وار اوچھا پڑا تو پھر کہا کہ وہ تو شراب سے بھی روکتا ہے۔ یہاں تک کہ باتوں باتوں میں اعشیٰ کے ارادے کو کمزور کر دیا۔*

*❀"_ چنانچہ اس نے یہ منوالیا کہ اس مرتبہ تو تم واپس چلے جاؤ اور اگلے برس آکر اسلام قبول کر لینا۔ اعشیٰ واپس چلا گیا اور قبل اسکے کہ وہ مکہ لوٹتا بد نصیب کی موت واقع ہو گئی۔*      

*❥❥_:- سب سے زیادہ دلچسپ واقعہ مرد اراشی کا ہے۔ یہ مکہ آیا' ساتھ اونٹ تھا جس کا سودا ابو جہل نے چکا لیا۔ مگر قیمت کی ادائیگی میں لیت و لعل کیا۔ اب یہ قریش کے مختلف لوگوں کے پاس گیا کہ کوئی اونٹ کی قیمت اسے دلوا دے۔ وہاں ایک مجلس آراستہ تھی۔ اراشی نے اہل مجلس سے اپیل کی کہ آپ میں سے کوئی میری رقم ابو جہل سے دلوا دے، میں ایک مسافر بے وطن ہوں اور میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔*

*❀"_ اہل مجلس میں سے کسی کو جرات نہ تھی کہ وہ ابو جہل سے جاکر ایک مسافر کا حق دلوائیں۔ اس لیے بات ٹالنے کے لیے اشارہ کر کے کہنے لگے کہ وہ دیکھتے ہو ایک شخص (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) بیٹھا ہے۔ اس کے پاس جاؤ وہ وصولی کرا دے گا۔ دراصل یہ ایک طرح کا استہزاء تھا۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ سلم سے ابو جہل کو جو‌ عدادت تھی وہ ظاہر تھی۔*

*❀"_ اراشی آنحضور ﷺ کے پاس پہنچا اور اپنا ماجرا بیان کر کے مدد طلب کی۔ آنحضور ﷺ اٹھے اور فرمایا میرے ساتھ آؤ۔ وہ لوگ دیکھنے لگے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ حرم سے نکل کر ابو جہل کے گھر پر آئے۔دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی۔ کون ہے؟ فرمایا: محمد ! باہر آؤ میرے پاس ! ابو جمل نکلا۔ چہرے کا رنگ بالکل اڑا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا۔ اس شخص کا حق اسے دے دو۔ چنانچہ بے چون و چرا ابو جہل نے ادائیگی کر دی۔*

*❀"_ اراشی خوش خوش حرم کی اس مجلس کی طرف پلٹا اور واقعہ سنایا۔ یہ اثر تھا اس عظیم کیریکٹر کا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں جلوہ گر تھا۔ اس کا اعتراف خود ابو جہل نے کیا۔ اور اہل مجلس سے آکر کہا۔ کہ اس ( محمد ) نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا میں نے اس کی آواز سنی۔ اور یکا یک ایک رعب مجھ پر طاری ہو گیا۔*     

*❥❥_:- مہاجرین جش کے ذریعے اسلام کا پیغام ایک نئے علاقے میں جا پہنچا تو وہاں سے ۲۰ عیسائیوں کا ایک وفد مکہ آیا۔ یہ لوگ مسجد حرام میں آنحضور ﷺ کی خدمت میں آئے، بیٹھے بات کی اور سوالات پوچھے۔ آنحضور ﷺ نے قرآن سنایا اور دعوت حق پیش کی۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اللہ کی پکار کو قبول کیا۔ ایمان لائے اور نبی اکرم ﷺ کی تصدیق کی۔*

*"❀_ جب یہ اٹھ کر نکلے تو باہر قریشی مخالفین مسجد کے گرد منڈلا رہے تھے۔ ابو جہل نے اس گروہ کو نشانہ علامت بنالیا کہ تم بھی کیا احمق لوگ ہو جو اپنے دین کو خیر باد کہہ دیا۔ وفد والوں نے جواب دیا: "آپ لوگوں کو ہماری طرف سے سلام عرض ہے ہمیں آپ کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرنا۔ ہمارا راستہ الگ، آپ کا راستہ الگ ! ہم اپنے آپ کو ایک بھلائی سے محروم نہیں رکھنا چاہتے"۔*

*"❀_ بیعت عقبہ ثانیہ کی ساری کارروائی رات کی تاریکی میں بڑے اہتمام اخفا کے ساتھ اسی وجہ سے عمل میں لائی گئی تھی کہ اشرار مکہ کی طرف سے سخت مزاحمت تھی۔ اہل وفد جب بیعت کی مجلس سے فارغ ہو کر قیام گاہوں میں پہنچے تو سرداران قریش نے ان کو وہاں جا لیا۔ ان کی مخبری کا نظام ایسا مضبوط تھا کہ انہوں نے بیعت کا قصہ بیان کر کے کہا کہ تم ہمارے آدمی (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو نکال لے جانا چاہتے ہو اور اس کے ہاتھ پر تم نے ہمارے خلاف جنگ کرنے کا پیمان باندھا ہے۔خوب سمجھ لو کہ تم لوگ اگر ہمیں اور اہل عرب کو لڑا دو گے تو تم سے بڑھ کر قابل نفرت ہماری نگاہوں میں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا"۔*

*"❀_ انصار نے بات کو چھپانے کی کوشش کی، چنانچہ اس وقت تو بات ٹل گئی اور انصاری قافلہ روانہ ہو گیا۔ لیکن قریش بعد میں برابر تجس میں لگے رہے۔ اور پوری اطلاع پالی۔ انصاری قافلہ کا تعاقب کیا گیا اور سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو ان کے ہاتھ آگئے۔ یہ دونوں اپنے اپنے قبیلوں پر دوران بیعت نقیب مقرر ہوئے تھے۔ منذر تو تھے ہی کمزور آدمی سعد بن عبادہ کو قریش نے پکڑ لیا۔ اور ان کے ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ دیئے اور گرفتار کر کے مکہ لے گئے، مکہ پہنچ کر خوب مارا۔ ان کے بال پکڑ کر جھنجھوڑا ۔*      

*❥❥_:- سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا خود اپنا بیان ہے کہ اسی حالت میں قریش کا ایک آدمی آیا جس کا چہرہ روشن اور وجاہت دار تھا۔ لمبا اور خوب صورت! میں نے دل میں کہا کہ اگر اس قوم میں کوئی خیر باقی ہے تو اس کی توقع اسی شخص سے کی جاسکتی ہے۔ جب وہ قریب آیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر زور سے مجھے تھپڑ لگایا۔ اب دل میں میں نے سمجھ لیا کہ اس گروہ میں بھلائی کی کوئی رمق باقی نہیں۔*

*❀"_ آخر ایک شخص نے نرمی کے ساتھ پوچھا کہ کیا تمہارا کوئی آدمی قریش میں ایسا نہیں کہ جس سے تمہارا کوئی بھائی چارہ یا کوئی عہد و پیمان ہو؟ میں نے جبیر مطعم اور حارث بن حرب کے نام لیے۔ اس نے کہا کہ پھر پکارو ان کے نام اور جو تعلق ان کے ساتھ ہے اسے بیان کرو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہی شخص انہیں ڈھونڈنے نکلا۔ وہ دونوں پاس ہی مل گئے اور انہوں نے آکر مجھے چھڑایا۔*

*❀"_ اسلام کی مخالفت کی مہم کا ایک سرخیل نفر بن حارث بھی تھا۔ یہ اپنی تجارت کے لیے اکثر فارس جاتا۔ وہاں سے شاہان عجم کے تاریخی قصص بھی جمع کر لاتا۔ اور ادبی انداز کی کہانیاں بھی۔ چنانچہ اس نے مکہ میں قرآن کے انقلابی ادب کے مقابلے پر حجم کے سفلی ادب کا اڈہ قائم کیا اور لوگوں کو دعوت دیتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے عاد و ثمود کے پھیکے قصے کیا سنتے ہو آؤ میں تم کو رستم و اسفند یار کی سرزمین کی چٹ پٹی کہانیاں سناؤں۔*.

*❀"_ نفر بن حارث کو ایک مستقل انسانی کردار بنا کر قرآن نے ہمارے سامنے یوں رکھا ہے کہ:- وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا،(لقمان ۲)*
*"_ اور لوگوں میں ایک کردار ایسا بھی ہے جو دل بہلاوے کے افسانوں کا خریدار ہے تا کہ ان کے ذریعے (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے بغیر سمجھے بوجھے بہکائے اور اس کا مذاق اڑائے۔"*      

*❥❥_:- یہ نفر بن حارث وہ ہے جس نے ایک مجلس میں ابو جہل کے سامنے دعوت محمدی کے موضوع پر یہ تقریر کی تھی:۔ اے گروہ قریش! تمہارے اوپر ایک ایسا معاملہ آپڑا ہے کہ آگے چل کر اس کے خلاف تمہارا کوئی حیلہ کارگر نہ ہو گا۔ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تمہارے درمیان ایک من موہنا نوخیز لڑکا تھا، تم سب سے بڑھ کر راست گو تم سب سے بڑھ کر امانت دار ! یہاں تک کہ جب اس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے اور اس نے تمہیں اپنا وہ پیغام دیا تو اب تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہے، کہتے ہو کہ وہ کا ہن ہے ۔۔۔۔ کہتے ہو کہ وہ شاعر ہے ۔۔۔۔۔ اور کہتے ہو کہ وہ دیوانہ ہے ۔۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بات بھی درست نہیں ہے ۔ اے گروہ قریش! اپنے موقف پر غور کرو۔ کیونکہ بخدا تمہارے سامنے ایک امر عظیم آچکا ہے"۔*

*❀"_نفر بن حارث کی یہ تقریر بتاتی ہے کہ وہ دعوت محمدی ﷺ کی عظمت کو بھی سمجھتا تھا۔ اور محسن انسانیت کے کردار کی رفعت سے بھی آگاہ تھا۔ وہ اپنے ضمیر کو پامال کر کے حضور ﷺ کے پیغام کی مخالفت کے لیے شیطانی ترکیبیں نکالتا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ ایک بامقصد تحریک کے سنجیدہ پیغام کے مقابلے میں عام لوگوں کے لیے سفلی ادب میں زیادہ کشش ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس نے سفلی ادب کے ایک مکتب کی ابتداء کر دی۔*

*"❀_ نفر بن حارث کہا کرتا تھا کہ ”_میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ دلچسپ کہانیاں پیش کرتا ہوں۔ پھر جب وہ‌ عجمی داستانیں بیان کرتا تو کہتا کہ آخر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی باتیں کس پہلو سے میری باتوں سے زیادہ خوش آئند ہیں۔ دوسری طرف وہ حضور کے کلام پر اساطیر الاولین کی پھبتی کستا۔*

*"❀_ اتنا ہی نہیں اس نے گانے بجانے والی ایک فنکار لونڈی بھی خرید کی تھی۔ لوگوں کو جمع کر کے کھانے کھلاتا۔ پھر اس لونڈی سے گانے سنواتا۔ جس نوجوان کے متعلق معلوم ہو جاتا کہ وہ اسلام کی طرف راغب ہو رہا ہے تو اس کے ہاں اس فن کار لونڈی کو لے جاتا اور اسے ہدایت کرتا کہ ذرا اسے کھلا پلا اور موسیقی سے شاد کام کر۔ آرٹ اور کلچر کے ایسے مظاہرے کے بعد طنزاً کہتا کہ محمد (ﷺ) جس کام کی طرف بلاتے ہیں، وہ مزیدار ہے یا یہ ؟*
*®_(سیرت المصطفی از مولانا ادریس کاندھلوی ج ا ص ۱۸۸)*

*"❀_ لیکن پیغام حق اور ایک با مقصد تحریک کے مقابلے میں یہ سب نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ چار دن ہما ہمی رہی اور پھر یہ سارے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے۔*       

*❥❥_:- چنانچہ اپنے اس حربے میں ناکام ہو کر یہی نفر بن حارث سرداران قریش کے مشورے سے یہودیوں کے مولویوں کے پاس مدینہ پہنچا کہ تم علم رکھتے ہو تو ہم بے علموں کو بتاؤ کہ ہم تحریک اسلامی سے کیسے عہدہ برآ ہوں۔ اور کیسے داعی حق کو زچ کریں۔ علمائے یہود نے سکھایا کہ اس شخص سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرو اور روح کی حقیقت پوچھو۔ چنانچہ فیصلہ کن انداز سے یہ سوالات رکھے گئے۔ وحی ربی نے اطمینان بخش جواب دے دیئے۔ لیکن کفر کی ہٹ کا کیا علاج!*

*❀"_ابتدائی خفیہ مرحلے سے نکلنے کے بعد اسلامی تحریک جب تیزی سے پھیلنے لگی۔ اور پھر آگے چل کر جب پرو پیگنڈے اور تشدد کی مختلف تدبیریں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ تو پھر ایسی کوششیں ہونے لگیں۔ کہ کسی طرح سمجھوتہ کی راہ نکلے اور کچھ مان کر اور کچھ منوا کر قضیہ ختم کیا جاسکے۔ مگر اصولی تحریکوں میں اتنی لچک ہوتی ہی نہیں کہ لین دین کر کے کوئی درمیانی راہ پیدا کر لی جائے۔*

*❀"_ ان کی ایک شرط مصالحت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اصنام و آلہ کے خلاف زبان نہ کھولیں اور ان کے مذہب سے تعرض نہ کریں۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ وعظ بھی کرنا چاہیں اور جیسی کچھ اخلاقی نصیحتیں فرمانا چاہیں گوارا کر لی جائیں گی۔ یعنی "لا الہ " نہ کہیں محض اللہ کا نام لینے کی گنجائش ہو سکتی ہے۔*

*❀"_اسی طرح ان کی طرف سے خواہش کی گئی کہ : "_ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ _," (يونس -۱۵) یعنی اس قرآن کو تو بالائے طاق رکھ دو اور کوئی دوسرا قرآن لاؤ۔ یا اس میں رد و بدل کر لو ( تا کہ کچھ ہمارے تقاضوں کے لیے بھی گنجائش نکلے),*

*❀"_ اس کا جواب وحی الہی کے الفاظ میں حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ دلوایا گیا کہ "میرا یہ اختیار نہیں۔ کہ اس (قرآن) کو بطور خود بدل لوں۔ جو کچھ مجھ پر وحی کیا جاتا ہے، اس کے ماسوا کسی اور چیز کی پیروی نہیں کر سکتا۔ میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تو یوم عظیم (قیامت) کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو کوئی غلط بات (اپنی طرف سے گھڑ کر) اللہ تعالی سے منسوب کر دے _," (یونس ۱۵)*       

*❥❥_:- مصالحت کی راہ نکالنے کے لیے مخالفین تحریک نے حضور ﷺ کے سامنے ایک مطالبہ یہ بھی رکھا کہ اگر آپ اپنے حلقے سے ہمارے معاشرے کے گھٹیا لوگوں، ہمارے غلاموں اور کل کے لونڈوں کو نکال دیں تو پھر ہم آپ کے پاس آ کے بیٹھیں اور آپ کی تعلیمات کو سنیں، آخر موجودہ حالت میں ہمارے مرتبے سے یہ بعید ہے کہ ہم کوئی استفادہ کر سکیں۔ پنچ لوگوں نے ہمارا راستہ روک رکھا ہے۔ یہاں ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ تحریک کے خواص بنے بیٹھے ہیں۔ اور ان کو بڑی قربت حاصل ہے۔ انہی لوگوں کے بارے میں وہ اکثر طنزاً کہا کرتے تھے کہ یہ ہیں وہ ہستیاں جو قیصر و کسریٰ کی جانشین بننے والی ہیں۔*

*❀"_۔ قبل اس کے کہ حضور ﷺ کے دل پر اس فریب کارانہ خواہش کا کوئی اثر ہوتا قرآن نے آپ پر واضح کیا کہ یہ تو معاندین کی محض ایک چال ہے جیسی کہ وہ جملہ انبیاء کے خلاف چلتے رہتے ہیں۔ مثلا ٹھیک ایسی ہی بات نوح علیہ السلام کے سامنے بھی رکھی گئی تھی (ہود۔ ۲۷) پس آپ ان ساتھیوں کو معاندین کی خوشنودی کے لیے اپنے قریب سے ہرگز محروم نہ کریں جو صبح و شام خدا کا نام پکارنے والے ہیں (الانعام ۔ ۵۲)*

*❀"_ بلکہ ہدایت دی گئی کہ اخلاص کے یہ پیکر جو طرح طرح کی مصیبتیں اٹھا رہے ہیں، ان کو اپنے سایہ شفقت میں رکھو۔ "_وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ_," اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں، ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ۔ (الشعراء ۳۱۵)*

*❀"_ بلکہ ایک موقع پر ایک ذی اثر مخالف سے گفتگو کرتے ہوئے حضور ﷺ نے ایک نابینا رفیقی (ابن ام مکتوم) کی مداخلت کو نا پسند کیا تو اتنی سی بات پر تنبیہ آگئی۔ (سورہ عبس ۱ تا ۱۰)*     

*❥❥_:- اسی سلسلے میں ایک بار معاندین قریش کی مجلس میں غور و فکر ہو رہا تھا۔ اور دوسری طرف رسول خدا ﷺ حرم میں تنہا تشریف فرما تھے۔ عقبہ بن ربیعہ نے اہل مجلس سے کہا کہ اگر تم لوگ پسند کرو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جا کر بات کروں اور اس کے سامنے ایسی صورتیں پیش کروں جن میں سے ممکن ہے کہ کسی کو وہ چاہے تو قبول کر لے۔ اور پھر ہم اسے اپنا کر دیں۔ اور وہ ہمارے مقابلے سے باز آجائے۔*

*❀"_ یہ صریح طور پر سودا بازی کی ایک تجویز تھی۔ اور یہاں تک اگر قریش آپہنچے تھے تو در حقیقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے اور تحریک کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے زچ ہو کر آپہنچے تھے۔ مجلس کی رضا مندی سے عقبہ نے حضور سے جا کر یوں گفتگو کی :-*

*"❀_اے برادر زادے! تمہارا جو کچھ مرتبہ ہمارے درمیان ہے وہ تم خود جانتے ہو، خاندان بھر میں تمہارا مقام بلند ہے اور نسب کے لحاظ سے تم ایک شان رکھتے ہو"۔ اس خوشامد آمیز مگر مبنی بر حقیقت باتوں کے بعد عتبہ نے شکایت کی کہ تم نے قوم کو بڑی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے، ان کے اکابر کو احمق قرار دیا ہے، ان کے معبودوں اور ان کے دین میں عیب لگایا ہے۔ ان کے گزرے ہوئے آبا و اجداد کی تکفیر کر ڈالی ہے۔ اب میری بات سنو اور میں جو جو کچھ پیش کش کرتا ہوں، ان ساری صورتوں پر غور کرو۔ شاید کہ تم ان میں سے کوئی بات قبول کر لو۔*

*"❀_ حضور نے فرمایا۔ ” تم کہو اے ابو الولید! میں سنوں گا۔ " عقبہ نے حسب ذیل صورتوں کی پیش کش کی: اگر اس سارے ہنگامے سے تمہارا مقصود دولت ہو تو پھر ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیں کہ تم ہم سب سے بڑھ کر مالدار ہو جاؤ۔*
*"_اگر تم اس کے ذریعے سرداری و قیادت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنے اوپر سردار مقرر کیے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ تمہارے بغیر ہم کسی بھی معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔*

*❀"_ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کیئے لیتے ہیں۔ اور اگر یہ اس وجہ سے ہے کہ تم پر کسی جن وغیرہ کا سایہ ہوتا ہے اور وہ تم پر مسلط ہو جاتا ہے تو پھر ہم کچھ چندہ وغیرہ کر کے تمہارے لیے علاج کا سامان کریں۔ پھر یا تو تمہیں اس سے نجات دلا دیں یا ناکامی ہو تو معذور سمجھیں۔*       

*❥❥_:- پوری پیش کش کو سن کر حضور نے فرمایا:۔ " ابو الولید! کیا تم اپنی بات کہہ چکے ؟" اس نے کہا۔ "ہاں"۔ فرمایا "تو اب میری سنو۔ اس نے کہا۔ "کہو ! حضور ﷺ نے پوری پیش کش کو ایک طرف ڈال کر قرآن کی آیات سنانی شروع کیں ( حم السجده ١ تا ٥)*

*❀_"_حضور ﷺ جب تک سناتے گئے، عقبہ دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر ان پر ٹیک لگائے ہوئے چپ چاپ توجہ سے سنتا رہا۔ حضور ﷺ نے سجدہ تلاوت آنے پر قرأت رو کی اور سجدہ کیا۔ پھر فرمایا۔ "ابو الولید ! تم نے سن لیا جو کچھ سنا۔ اب تو جانے اور یہ "۔*

*"❀__عقبہ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ انہوں نے نظر پڑتے ہی کہا کہ عقبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے۔ اب وہ رنگ نہیں جو جاتے وقت تھا۔ تشویش کے ساتھ انہوں نے ماجرا پوچھا۔ عقبہ نے کہا :۔ "ماجرا یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ جیسا کبھی نہیں سنا۔ بخدا نہ وہ شعر ہے، نہ جادو ہے اور نہ کہانت ہے۔ اے گروہ قریش! میری بات مانو اور اس کی ذمہ داری مجھ پر رہنے دو۔ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اس کے پیچھے نہ پڑو، خدا کی قسم جو کلام میں نے اس سے سنا ہے اس سے یقیناً کوئی بڑا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اگر اہل عرب نے اس سے نمٹ لیا تو دوسروں کے ذریعے تمہیں اس سے نجات ہو جائے گی اور اگر وہ عرب پر چھا گیا تو اس کی سلطنت تمہاری سلطنت ہوگی۔ اور اس کی طاقت تمہاری طاقت ہو گی۔ اور تم اس کے واسطے سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر خوش نصیب ہو جاؤ گے"*

*❀_"_ عقبہ کی بات سن کر مجلس میں یوں مذاق اڑایا گیا کہ ابو الولید اس کی زبان کا جادو تو تم پر بھی چل گیا _,"*
*"_ عقبہ نے کہا کہ اس کے متعلق میری رائے تو یہی ہے جو میں نے کہہ دی۔ اب تم جو چاہو کرو۔*     

*❥❥_:-ایک کوشش اس سلسلے میں اور کی گئی۔ بڑے بڑے زعماء ---- عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو سفیان بن حرب، نفر بن حارث، ابو البختری بن ہشام، اسود بن مطلب، زمعہ بن اسود، ولید بن مغیرہ، ابو جہل بن ہشام، عبد اللہ بن ابی امیہ' عاص بن وائل۔ نبیہ اور منبہ ابنائے حجاج (بنو سہم) امیہ بن خلف... غروب آفتاب کے بعد کعبہ کے پاس جمع ہوئے انہوں نے رسول خدا کو بلوا بھیجا۔ حضور ﷺ اچھی توقعات کے ساتھ جلد جلد آپہنچے۔ انہوں نے اپنی اسی پیش کش کو جو پہلے عقبہ کے ذریعے پہنچائی گئی تھی، ایک بار پھر دہرایا۔ اسے سن کر حضور نے یہ جواب دیا:-*

*"❀_ تم لوگ جو کچھ کہہ رہے ہو، میرا معالمہ اس سے مختلف ہے۔ میں جو دعوت تمہارے سامنے لے کے اٹھا ہوں۔ اسے اس لیے نہیں پیش کر رہا کہ اس کے ذریعے تم سے مال و دولت حاصل کروں یا تمہارے اندر سرداری حاصل کروں یا تمہارے اوپر بادشاہت قائم کروں۔ مجھے تو خدا نے تمہارے سامنے اپنا پیغامبر بنا کر اٹھایا ہے۔ اس نے مجھ پر کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لیے بشیر و نذیر بنوں،*

*❀"_ سو میں نے خدا کی ہدایات تم تک پہنچا دی ہیں اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کیا ہے۔ اب جو کچھ میں لایا ہوں اگر اسے تم قبول کر لو تو وہ تمہارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے اور اگر تم اسے میری طرف واپس پھینک دو تو میں اللہ کے حکم کے انتظار میں صبر دکھاؤں گا۔ یہاں تک کہ خدا میرے اور تم لوگوں کے درمیان اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ “*

*❀"_ یہ جواب سن کر جب انہوں نے دیکھا کہ آگے بڑھنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ تو طرح طرح کی حجتیں نکالنا شروع کیں۔ مثلاً یہ کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہماری یہ سر زمین بہت ہی تنگ ہے۔ اس میں پانی کی کمی ہے اور یہاں کی زندگی بہت کٹھن ہے۔ تم خدا سے کہو کہ وہ ان پہاڑوں کو ہٹا دے اور ہماری زمین کو کشادہ کر دے اور اس میں شام و عراق کی طرح دریا چلا دے۔ پھر یہ کہا کہ خدا ہمارے آباؤ اجداد کو اٹھا کھڑا کرے۔ اور ان میں قصی بن کلاب ضرور شامل ہو کیونکہ وہ مرد بزرگ بڑا راست باز تھا۔*      

*❥❥_:-_ ہم اس سے تمہاری دعوت کے بارے میں دریافت کریں گے کہ یہ حق ہے یا باطل؟ پھر ہمارے اسلاف کرام زندہ ہو کر اگر تمہاری تصدیق کر دیں اور تو وہ باتیں کر دکھائے جن کا مطالبہ ہم نے کیا ہے تو ہم تمہاری تصدیق کریں گے اور خدا کے ہاں تمہارا یہ مرتبہ ہمیں تسلیم ہو گا کہ اس نے تمہیں واقعی رسول بنا کے بھیجا ہے۔*.

*❀"_ پھر کہا کہ یہ بھی نہیں کرتے تو ہم پر عذاب ہی وارد کرا دو۔ حضور ﷺ مطالبات پر بار بار اپنی وہی بات دوہراتے چلے گئے اور کہتے گئے کہ: ان کاموں کے لیے مجھے نہیں اٹھایا گیا،*.

*❀"_ آخر جب حضور ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ ہی ساتھ عبد اللہ بن ابی (جو حضور ﷺ کا پھوپھی زاد بھائی تھا) بھی اٹھ کھڑا ہوا اور آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تمہاری قوم نے تمہارے سامنے کچھ باتیں رکھیں۔ لیکن تم نے کوئی پیش کش بھی مان کر نہیں دی۔ اب تو خدا کی قسم میں تمہارے اوپر ایمان نہیں لانے کا خواہ تم آسمان پر سیڑھی لگا کر اس پر چڑھتے ہوئے دکھائی کیوں نہ دے جاؤ اور پھر آنکھوں کے سامنے اترو اور تمہارے ساتھ چار فرشتے بھی آکر تمہاری صداقت کی گواہی کیوں نہ دے دیں۔ خدا کی قسم اگر میں ایسا کروں بھی تو میرا قطعاً یہ خیال نہیں کہ میں حقیقتاً تمہاری تصدیق کروں گا۔*

*❀"_ ایسے ہی واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ سفر طائف کے بعد جب حضور ﷺ نے مکہ سے نکل کر آس پاس کے قبائل میں میں پیغام پہنچانا شروع کیا تو ایک بار قبیلہ بنو عامر بن صعصہ کے ہاں بھی پہنچے اور سردار قبیلہ بحیرہ بن فراس سے ملاقات کی۔ اس نے حضور ﷺ کی دعوت سنی۔ پھر ساتھیوں سے کہنے لگا۔ ”بخدا اگر قریش کا یہ نوجوان میرے ہاتھ آجائے تو میں اس کے ذریعے سارے عرب کو مٹھی میں لے لوں" پھر آپ کو خطاب کر کے پوچھا کہ اگر ہم لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں اور تم مخالفین پر غالب آجاؤ تو کیا یہ وعدہ کرتے ہو کہ تمہارے بعد یہ سارا سلسلہ میری تحویل میں آجائے گا؟*
*"_ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ :- یہ تو خدا کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے گا میرے بعد مقرر کرے گا"*

*❀"_بخیرہ نے اس پر یہ کہا کہ کیا خوب! اس وقت تو عرب کے سامنے ہم سینہ سپر ہوں اور جب تمہارا کام بن جائے تو مفاد کوئی دوسرا حاصل کر لے جائے۔ جاؤ ہم کو اس سلسلے سے کوئی مطلب نہیں"*     

*❥❥_:- براه راست آنحضور ﷺ کے خلاف تو ہر گھڑی اور ہر ہر سانس گونا گوں زیادتیاں کی ہی جاتی رہیں۔ لیکن آپ کے رفقاء کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں وہ بھی بالواسطہ آپ ہی کے حساس قلب کو چھلنی کرنے والی تھیں۔ اب دیکھئے کہ کس پر کیا گزری؟*

*❀"_ خباب بن الارت تمیمی رضی اللہ عنہ جاہلیت کے دور میں غلام بنا کر بیچ ڈالے گئے تھے۔ اور ام نمار نے ان کو خریدا تھا۔ یہ جس وقت ایمان لائے قریش نے جلتے انگارے بچھا کر ان کو اس بستر آتشیں پر لٹایا۔ اور چھاتی پر ایک شخص کھڑا ہو گیا تا کہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ انگارے پیٹھ کے نیچے ہی ٹھنڈے ہو گئے۔*

*❀"_ بعد میں خباب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ پیٹھ دکھائی تو برص کی طرح کے سفید داغ اس پر نمایاں تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے یہ لوہار تھے۔ اسلام لانے کے بعد جب انہوں نے لوگوں سے واجب الوصول اجرتوں کا تقاضا کیا تو جواب ملا کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرو گے، ایک کوڑی بھی نہیں ملے گی۔ یہ گویا معاشی چوٹ لگائی جارہی تھی۔ مگر حق کا یہ سپاہی کہتا کہ تم لوگ جب تک مر کر زندہ نہ ہو جاؤ ایسا نہیں ہو سکتا۔*

*❀"_ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بن رباح حبشی امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ جب سورج ٹھیک نصف النہار پر آجاتا تو عرب کی تپتی ریت پر ان کو لٹایا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ امیہ اس حالت میں ان سے کہتا کہ اسلام سے باز آجاؤ ورنہ اسی طرح ختم ہو جاؤ گے۔ حضرت بلال جواب میں صرف احد ! احد" پکارتے۔*

*❀"_ امیہ کا غصہ اور بھڑک گیا۔ اس نے آپ کے گلے میں رسی ڈال کر شہر کے لونڈوں کو ساتھ لگا دیا۔ وہ آپ کو گلی گلی گھسیٹتے پھرتے لیکن یہ عاشق جانباز اسی طرح احد ! احد " ! پکارتا پھرتا۔ کبھی آپ کو گائے کی کھال میں لپیٹا جاتا، کبھی اپنی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھایا جاتا۔ حضرت ابو بکر نے امیہ بن خلف سے ایک غلام کے عوض میں خرید کر آزاد کر دیا۔* 
*❥❥_:- عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ قحطانی الاصل تھے۔ ان کے والد یاسر رضی اللہ عنہ یمن سے اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ ایک گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے تھے۔ دو بھائی تو واپس چلے گئے اور یاسر ابو حذیفہ مخزومی سے حلیفانہ تعلقات قائم کر کے مکہ میں ہی رہ پڑے اور یہیں شادی کر لی۔*

*❀"_ یاسر رضی اللہ عنہ سمیت تقریباً سارا ہی گھرانا اسلام لے آیا۔ چونکہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا کوئی قبیلہ مکہ میں نہ تھا اس لیے ان پر خوب ستم ڈھائے جاتے۔ انہیں قبول اسلام کے جرم کی سزا یوں دی جاتی کہ ان کو بھی جلتی زمین پر لٹایا جاتا۔ اور قریش ان کو اتنا مارتے کہ بار بار بے ہوش ہو جاتے۔ ان کے والدین پر بھی اسی طرح طبع آزمائی کی جاتی۔*

*❀"_ پانی میں ان کو غوطے بھی دیے جاتے۔ اور انگاروں پر بھی تڑپایا جاتا ۔ حضور ﷺ ان کے سر پر دست شفقت پھیر کر خاص دعا کرتے اور بشارت دیتے۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے کہ عمار سر سے پیر تک ایمان سے بھرا ہوا ہے۔*

*❀"_ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کو اسلام لانے پر ابو جہل نے نہایت وحشیانہ طریق سے برچھی مار کر ہلاک کر دیا ۔ یہی اولین خاتون ہے جو راہ حق میں شہید ہوئی۔ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد تھے وہ بھی ظلم سہتے سہتے شہید ہو گئے۔*     

*❥❥_:- صہیب رضی اللہ عنہ بھی عمار کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ان کو اس بے دردی سے مارا جاتا تھا کہ دماغی توازن بار بار درہم برہم ہو جاتا۔ دور ہجرت میں قریش نے ان کو اس شرط پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اپنا سارا مال و اسباب دے جائیں۔ انہوں نے بخوشی منظور کیا اور خالی ہاتھ نکل گئے۔*

*"❀_ ابو فکہیہ جہنی رضی اللہ عنہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ اور اسلام لانے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہمعصر۔ امیہ کو اطلاع ہوئی تو پاؤں میں رسی ڈلوا کر لوگوں سے کہا کہ تپتی ریت پر لٹانے کے لیے گھسیٹ کر لے جاؤ۔ راستے میں ایک گیبریلا دکھائی دیا۔ تو امیہ نے ان سے کہا کہ "یہی تو تیرا خدا نہیں"۔ انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔کہ میرا اور تیرا دونوں کا خدا اللہ تعالٰی ہے۔*

*"❀_ اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھوٹا کہ لوگ یہ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ مگر بچ گئے۔ ایک بار اتنا بھاری پتھر ان کے سینے پر لاد دیا کہ بے حال ہو جانے کی وجہ سے زبان باہر نکل آئی، کبھی ان کو لوہے کی بیٹریاں پہنا کر جلتی زمین پر الٹا لٹایا جاتا۔ ان کو بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کرا دیا۔*

*"❀_حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو عمر کے لحاظ سے بھی قابل احترام تھے اور مال و جاہ رکھتے تھے, جب اسلام لائے تو ان کے اپنے چچا نے رسی سے باندھ کر پیٹا۔*
*"_حضرت زہیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی سزا دینے کے لیے ان کے چچا چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیتے تھے ۔ مگر وہ پوری عزیمت سے فرماتے۔ میں کفر تو اب ہرگز نہیں کروں گا"۔*     

*❥❥_:- سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو (یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسیوں میں باندھ دیا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ظالمانہ کارروائیاں روا رکھی گئیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے پر حرم میں پہلی مرتبہ بآواز بلند قرآن پڑھا۔ سورہ رحمٰن کی تلاوت آپ نے شروع ہی کی تھی کہ کفار ٹوٹ پڑے اور منہ پر طمانچے مارے گئے۔ مگر پھر بھی تلاوت جاری رکھی اور زخمی چہرے کے ساتھ واپس ہوئے۔*

*❀"_ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ولید بن مغیرہ کی پناہ میں ہونے کی وجہ سے ابتداء مامون تھے۔ لیکن رسول خدا کے اصحاب پر جو امتحانی گھڑیاں گزر رہی تھیں ان کو دیکھ کر عثمان رضی اللہ عنہ کے دل میں احساس پیدا ہوا کہ میں ایک مشرک کے سایہ حمایت میں امن چین سے کیوں رہوں جب کہ میرے ساتھی یہ کچھ بھگت رہے ہیں۔*

*❀"_ انہوں نے ولید بن مغیرہ سے بات کی کہ میں پناہ واپس کرتا ہوں۔ ولید نے سمجھایا کہ" بھتیجے میری قوم کا کوئی فرد تمہارے ساتھ بد سلوکی نہ کر بیٹھے "۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میں تو اللہ کی پناہ میں رہوں گا اور اس کے ماسوا اور کسی کی پناہ مجھے گوارا نہیں۔ کعبہ میں جاکر انہوں نے بآواز بلند ولید بن مغیرہ کی پناہ واپس کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد قریش کی مجلس میں جا بیٹھے۔*

*❀_اس پر ایک شخص اٹھا اور اس نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو ایک تھپڑ ایسا مارا کہ ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔ اس پر ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم اگر میری پناہ میں رہتے تو آنکھ سے یوں ہاتھ نہ دھو بیٹھتے۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری جو آنکھ بچ رہی ہے وہ بھی قربان ہونے کو تیار ہے۔ میں اس ہستی کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ صاحب عزت و مقدرت ہے۔*      
*❥❥_:_حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے دعوت حق کو قبول کیا تو انقلابی روح سے سرشار ہو کر سیدھے حرم پہنچے اور وہاں جا کر بآواز بلند اپنے نئے عقیدے کا اعلان کیا۔ قریش سٹ پٹا گئے اور کہنے لگے کہ یہ کون بے دین ہے، مارو اسے۔ چنانچہ مار پیٹ شروع ہو گئی۔ ارادے یہ تھے کہ ان کو جان سے مار دیا جائے ۔ مگر حضور ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا اتفاقاً گزر ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو قبیلہ غفار کا آدمی ہے اور تمہیں تجارت کے لیے اسی قبیلہ کی حدود سے ہو کر جانا ہوتا ہے۔ کچھ ہوش کرو۔ لوگ باز آگئے۔*
*"_ دوسرے روز انہوں نے پھر عقیدے کا اعلان کیا۔ اور پھر مار کھائی۔*

*"❀_حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا ایمان لائیں تو ان کے اعزہ و اقارب نے انہیں چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا۔ اس حالت میں وہ ان کو کھانے کے لیے روٹی کے ساتھ شہد دیتے اور پانی نہ پلاتے تا کہ حدت کا دو گونہ عذاب بھگتیں۔ تین دن مسلسل اسی عالم میں گزر گئے۔ انتہائی کرب کے لمحوں میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلام کو چھوڑ دو۔ ان کے حواس اس درجہ متاثر ہو چکے تھے کہ وہ اس بات کو سمجھ تک نہ سکتی تھیں۔ پھر ظالموں نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خدائے واحد کا انکار کر دو. جب وہ مدعا سمجھ گئیں تو کہا کہ خدا کی قسم میں تو اپنے عقیدہ پر قائم ہوں۔*

*❀"_ خالد بن العاص کے قبول اسلام پر ان کے باپ نے اس قدر مارا کہ سر زخمی ہو گیا۔ ان کو فاقہ کا عذاب بھی دیا گیا۔غرضیکہ کون تھا جسے اس بھٹی میں نہ ڈالا گیا ہو ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے چچا حکم بن العاص نے رسیوں میں جکڑ دیا ۔ یہی سلوک طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا۔*

*"❀_ ولید رضی اللہ عنہ بن ولید، عیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ اور سلمہ رضی اللہ عنہ بن ہشام کو انتہائی از یتیں دی گئیں اور پھر ان کو ہجرت سے بھی روکا گیا۔ جور و استبداد کا انتہائی مظاہرہ وہ بھی تھا جو اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روا رکھا۔*

*"❀_ ایک طرف اس زہرہ گداز سلسلہ تشدد کو دیکھئے اور دوسری طرف تحریک اسلامی کے علمبرداروں کی استقامت ملاحظہ فرمائیے۔ کہ مرد عورتیں، غلام اور لونڈیاں جو بھی اس مئے حق سے سرشار ہو گیا، پھر اس کا قدم پیچھے نہیں ہٹا۔ مظالم کسی ایک فرد کو بھی ارتداد کی راہ پر نہ ڈال سکے۔ جو کوئی اسلام کی پکار پر لبیک کہہ دیتا۔ اس کے اندر سے بالکل ایک نیا انسان نمودار ہو جاتا اور اس کے سینے میں نئی قوتیں جاگ اٹھتیں۔*      

       ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
           
                      *⚂_ہجرت حبشہ ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥ - ہجرت حبشہ :-*
*"_ ہر مصیبت کی برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے۔ امتحان کی جن کٹھن گھڑیوں سے تحریک اسلامی کے علمبرداروں کو سابقہ در پیش تھا ان کو برداشت کرنے میں انہوں نے ہمیشہ کے لیے یاد گاری نمونہ قائم کر دیا۔ لیکن ظلم و استبداد کی رد کہیں تھمنے میں نہیں آرہی تھی۔ بلکہ روز بروز زور پکڑتی جارہی تھی۔*

*❀"_ حضور ﷺ اپنے رفقاء کا حال دیکھ دیکھ کر کڑھتے، مگر کوئی زور نہیں چلتا تھا۔ سہارا تھا تو خدا کے ایمان کا تھا۔ آخرت کے یقین کا تھا سچائی کی آخری فتح کی قوی امیدوں کا تھا، سوز بھری دعاؤں کا تھا۔ حضور ﷺ اپنے رفیقوں کو تسلی ولاتے کہ خدا کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا۔ حالات بتا رہے تھے کہ نظام حق کی تاسیس یہاں نہیں ہونے کی۔ بلکہ کسی دوسرے گوشہ زمین کو یہ سعادت ملنے والی ہے۔*

*"❀_ تحریک اسلامی کی تاریخ میں پہلے بھی ہمیشہ ہجرت کا باب ضرور شامل رہا ہے۔ سو اندازہ ہو چلا تھا کہ محسن انسانیت اور اس کے رفیقوں کو بھی وطن چھوڑنا ہو گا۔ ایک علاقے کے لوگ اگر نا اہل ثابت ہوں تو دعوت کسی دوسری آبادی کو مخاطب بنا لیتی ہے۔ لیکن جب تک خدا کی طرف سے واضح طور پر اذن نہ ہو جائے، انبیاء کی یہ شان نہیں ہوتی ہے کہ اولین مرکز دعوت کو چھوڑ دیں۔*

*❀"_ تاہم حضور ﷺ جبر اور صبر کی آویزش کو ایسے مراحل میں داخل ہوتے دیکھ رہے تھے جہاں انسانی صبر کا پیمانہ چھلک سکتا ہے۔ مسلمان بے چین تھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ ان حالات میں حضور نے صحابہ کو مشورہ دیا کہ ”زمین میں کہیں نکل جاؤ خدا جلد ہی تم کو کسی جگہ یکجا کر دے گا"۔ پوچھا گیا کہ کدھر جائیں۔ حضور نے ملک حبش کی طرف اشارہ کیا۔*

*❀"_ دراصل رسول خدا ﷺ کے علم میں تھا کہ وہاں کی بادشاہت انصاف پر قائم ہے اور عیسائیت کی مذہبی بنیادوں پر چل رہی ہے۔ آپ کے سامنے یہ امکان تھا کہ شاید یہی علاقہ دار الہجرت بننے کے لیے موزوں ہو۔ اسی لیے آپ نے اس ملک کے بارے میں فرمایا کہ وه سرزمین راستی ہے،*      

*❥❥_:- نبوت کے پانچویں سال حضور ﷺ کی انقلابی جماعت کے گیارہ مردوں اور چار عورتوں کا قافلہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت رات کی تاریکی میں حبشہ کو روانہ ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ یعنی رسول خدا ﷺ کی صاحبزادی جناب رقیہ رضی اللہ عنہا بھی اس اولین سفر ہجرت پر نکلیں۔ حضور ﷺ نے اس مبارک جوڑے کے متعلق فرمایا۔ لوط اور ابراہیم (علیہما السلام) کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جس نے خدا کی راہ میں وطن چھوڑا۔*

*❀"_ اس قافلے کے نکلنے کے بعد جب قریش کو خبر ہوئی تو تعاقب میں آدمی دوڑے، مگر جب وہ بندرگاہ (جدہ) پہنچے تو معلوم ہوا ان کو عین وقت پر کشتیاں تیار مل گئی تھیں اور وہ رسائی سے باہر ہیں۔ یہ مہاجرین تھوڑا عرصہ (رجب سے شوال تک) حبشہ میں ٹھرے۔ ایک افواہ پہنچی کہ قریش نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ یہ سب پلٹ آئے۔ مگر مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ افواہ غلط تھی۔*

*❀"_ اب سخت مشکل پیش آگئی کچھ لوگ چھپ کر شہر میں آئے اور کچھ کسی کی حمایت حاصل کر کے داخل ہوئے۔ اس طرح لوٹ آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ پہلے سے بڑھ کر استبداد ہونے لگا۔ دوبارہ بہت بڑا قافلہ جس میں ۸۵ مرد اور ۱۷ عورتیں شامل تھیں، حبشہ جا پہنچا، وہاں ان کو پر امن فضاء ملی اور وہ اطمینان سے اسلام کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے لگے۔*

*❀"_ اب دیکھئے کہ دشمنان حق کا کینہ کہاں تک پہنچتا ہے۔ ان لوگوں نے ایک مجلس میں سارے معاملے پر غور کر کے منصوبہ بنایا اور عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص کو سفارت کے لیے مامور کیا کہ یہ شاہ حبش سے جا کر بات کریں اور مہاجرین کو واپس لائیں۔ اس مقصد کے لیے نجاشی اور اس کے درباریوں کے لیے گراں بہا تحائف تیار کئے گئے۔ اور بڑے سرو سامان کے ساتھ سفارت روانہ ہوئی۔*      

*❥❥_:-_جبشہ پہنچ کر یہ لوگ درباریوں اور پادریوں سے سازش کرنے میں مشغول ہو گئے۔ اور ان کو رشوتیں دیں۔ ان کے سامنے معاملہ کی یہ صورت رکھی کہ ہمارے شہر میں چند سر پھرے لوگوں نے ایک مذہبی فتنہ اٹھا کھڑا کیا ہے۔ اور یہ تمہارے مذہب کے لیے بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ہمارے آبائی دھرم کے لیے ، ہم نے ان کو نکال دیا تھا تو اب یہ یہاں آپ کی پناہ میں آپڑے ہیں۔ ان کو یہاں لگنے نہیں دینا چاہیے۔ اس مقصد میں آپ ہم سے تعاون کریں۔*
۔
*❀"_ ان کی اصل کوشش یہ تھی کہ دربار میں سارا قضیہ زیر بحث نہ آنے پائے۔ اور مہاجرین کو سرے سے بات کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ بادشاہ یک طرفہ بات سن کر ان کو ہمارے حوالے کر دے۔ اسی مقصد کے لیے رشوت اور ساز باز کے طریقے اختیار کئے گئے تھے۔ یہ لوگ جب درباریوں کو روغن قاز مل چکے تو نجاشی کے سامنے تحائف لے کر پیش ہوئے۔*

*❀"_ پھر اپنی غرض بیان کی کہ مکہ کے اشراف نے ہم کو آپ کی خدمت میں اس لیے بھیجا ہے کہ آپ ہمارے آدمیوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں۔ درباریوں اور پادریوں نے بھی تائید کی۔ مگر نجاشی نے یک طرفہ دعوے پر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ اور صاف کہا کہ ان لوگوں سے دریافت احوال کئے بغیر میں ان کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا۔ دوسرے دن دربار میں دونوں فریق طلب کئے گئے۔*

*❀"_ مسلمانوں کو جب طلبی کا پیغام پہنچا تو ان کے در میان مشورہ ہوا کہ بادشاہ عیسائی ہے اور ہم لوگ اپنے اعتقاد اور مسلک میں اس سے اختلاف رکھتے ہیں تو آخر کیا کہا جائے۔ لیکن فیصلہ یہی ہوا کہ ہم دربار میں وہی کچھ کہیں گے جو کچھ خدا کے نبی ﷺ نے ہم کو سکھایا ہے۔ اور اس میں ایک سرمو فرق نہ لائیں گے ۔۔۔۔۔ جو ہو سو ہو۔*

 *❀"_اندازہ کیجئے کہ ان لوگوں کا ایمان کیسا محکم تھا۔ اتنے سنگین حالات میں حق اور راستی پر قائم رہنے کا عزم خدا کی دین ہے۔*     

*❥❥_:- پھر جب یہ حضرات دربار میں پہنچے تو مقررہ آداب کے مطابق نجاشی کو سجدہ کرنے سے اجتناب کیا۔ درباریوں نے اس طرز عمل پر بُرا منایا ۔ اور سوال کیا گیا کہ آخر تم لوگوں نے سجدہ کیوں نہیں کیا۔*

*❀"_ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ( متکلم وفد) نے پوری جرأت سے جواب دیا کہ ہم لوگ سوائے اللہ کے کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ اور خود رسول اللہ ﷺ کو بھی سیدھے سادے طریق سے سلام ہی کہتے ہیں۔*
*❀"_ غور کیجئے کن نازک حالات میں سچی توحید کا یہ انقلابی مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ حریف جس طاقت کے سامنے چاپلوسی کر رہے تھے، یہ لوگ اس کے رو برو اصول پسندانہ خود داری کا رنگ دکھا رہے تھے۔*

*❀"_ اب سفارت مکہ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہ مہاجرین ہمارے بھگوڑے مجرم ہیں۔ انہوں نے ایک نیا دین گھڑ لیا ہے اور ایک تخریبی طوفان اٹھا کھڑا کیا ہے۔ لہذا ان کو ہمارے حوالے کیا جائے۔*

*❀"_ نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ اور عیسائیت اور بت پرستی کے علاوہ وہ کون سا دین ہے جو تم لوگوں نے اختیار کیا ہے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے ترجمان بن کے اٹھے اور انہوں نے نجاشی سے اجازت طلب کی کہ پہلے وہ سفارت مکہ سے کچھ سوالات کر لیں۔*     

*❥❥_:- اجازت ملنے پر یوں مکالمہ ہوا۔حضرت جعفر رضی اللہ عنہ - کیا ہم کسی کے غلام ہیں جو آقا سے بھاگ آئے ہوں؟ اگر ایسا ہو تو ہمیں واپس کیا جانا چاہیے" عمرو بن العاص- نہیں، یہ لوگ کسی کے غلام نہیں۔ آزاد شرفا ہیں"۔*
*❀"_ حضرت جعفر "کیا ہم کسی کو ناحق قتل کر کے آئے ہیں؟ اگر ایسا ہو تو آپ ہمیں اولیائے مقتول کے حوالے کر دیں"۔*
*"_عمرو بن العاص- نہیں۔ انہوں نے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بھایا۔*

*❀"_حضرت جعفر- "کیا ہم کسی کا کچھ مال لے کر بھاگے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم اس کی ادائیگی کرنے کو تیار ہیں"۔ عمرو بن العاص- نہیں۔ ان کے ذمہ کسی کا ایک حبہ بھی نہیں"،*
*❀"_ اس جرح سے جب مسلمانوں کی اخلاقی پوزیشن پوری طرح صاف ہو گئی۔ تو حضرت جعفر نے یہ تقریر کی:-*

*❀"_ اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے ۔ بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، قوی لوگ کمزوروں کو کھا جایا کرتے تھے۔ اسی اثنا میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت، سچائی اور دیانت سے ہم لوگ پہلے سے آگاہ تھے، اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی۔ اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ سچ بولیں، خونریزی سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسایوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں، نماز پڑھیں، روزے ر رکھیں۔ صدقہ دیں۔*

*❀"_ ہم اس پر ایمان لائے۔ شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے باز آئے۔ اس جرم میں ہماری قوم ہماری جانوں کی دشمن ہو گئی۔ اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ پھر اسی گمراہی میں لوٹ جائیں۔ پس ہم اپنا ایمان اور اپنی جانیں لے کر آپ کی طرف بھاگ کر آئے ہیں۔ اگر ہماری قوم ہم کو وطن میں رہنے دیتی تو ہم نہ نکلتے۔ یہ ہے ہماری روداو !"*    

*❥❥_:-_ بات سچی ہو اور کہنے والا دلی جذبات کے ساتھ اسے کہے تو لازماً وہ اثر کرتی ہے۔ نجاشی جیسے خدا ترس بادشاہ کا دل موم ہو گیا۔ اب وہ کہنے لگا کہ ذرا اس کتاب کا بھی کوئی حصہ سناؤ ۔ جو تم لوگوں پر اتری ہے۔ چنانچہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کا ایک حصہ پڑھا۔*

*"❀_ آیات الہی کو سن کر بادشاہ کے دل پر رقت طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ وہ بے اختیار پکار اٹھا۔ "خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں۔ بلکہ اس پر مستزاد یہ کہا کہ محمد ﷺ تو وہی رسول ہیں جن کی خبر یسوع مسیح نے دی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس رسول کا زمانہ ملا۔ ساتھ ہی فیصلہ دیا کہ مہاجرین کو واپس نہیں کیا جا سکتا۔ کارروائی ختم ہو گئی۔ اور سفارت ناکام لوٹی۔*

*"❀_ بعد میں ان لوگوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ ایک کوشش اور کی جانی چاہیے۔ نجاشی عیسائی ہے اور اگر حضرت عیسیٰ کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ دربار میں نمایاں کرایا جائے تو ممکن ہے کہ بادشاہ کے اندر مذہبی تعصب کی آگ بھڑک اٹھے۔*

*"❀_ دوسرے دن عمرو بن العاص پھر دربار میں پہنچے اور نجاشی کے کان بھرنے کے لیے یہ الزام تراشا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت خراب عقیدہ رکھتے ہیں۔ نجاشی نے پھر مسلمانوں کو طلب کر لیا۔ ان کو جب صورت حالات معلوم ہوئی تو کچھ تردد ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے "ابن اللہ " ہونے کا انکار کرنے پر نجاشی کا رد عمل نہ جانے کیا ہو۔ لیکن عزیمت نے کہا کہ جو امر حق ہے اسے صاف صاف پیش کر دو۔*    

*❥❥_:- حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ : ہمارے پیغمبر نے بتایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور پیغمبر ہیں۔ اور کلمتہ اللہ ہیں"۔ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کہ واللہ ! جو تم نے کہا ہے عیسیٰ اس سے اس تنکے بھر بھی زیادہ نہیں ہیں۔*

*❀"_ پادری جو سازش کا شکار اور رشوت اور ہدایا سے مسخر تھے، دل ہی دل میں بہت پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نتھنوں سے سانس کی خرخراہٹ سنائی دینے لگی۔ نجاشی نے ان کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ حکم دیا کہ تمام تحائف واپس کر دیئے جائیں۔ مکہ کا وفد پوری طرح خائب و خاسر ہو کر لوٹا۔*     

    * ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
               *⚂_ حضرت عمر کا اسلام ⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- عمر رضی اللہ عنہ مفتوح ہو جاتے ہیں:-*
*❀"_ تشدد کی اس داستان کا وہ باب سب سے ممتاز ہے، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غیظ و غضب سے مرتب ہوا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ ستائیسویں سال میں تھے جب کہ نبوت محمدی ﷺ کا علم بلند ہوا۔ اسلام جلد ہی آپ کے گھرانے میں نفوذ کر گیا۔ آپ کے بہنوئی سعید رضی اللہ عنہ پہلے پہل اسلام لائے، ان کے اثر سے آپ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی مسلمان ہو گئیں۔*

*❀"_خاندان کی ایک اور با اثر شخصیت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی دعوت حق پر لبیک کہی۔ اول اول ان کو اسلام کے اس نفوذ کا حال معلوم نہیں ہو سکا' جونہی علم ہوا تو یہ آپے سے باہر ہو گئے اور اسلام لانے والوں کے دشمن بن گئے۔ لبینہ رضی اللہ عنہا ان کے خاندان کی کنیز تھیں، ان کو مارتے مارتے تھک جاتے تو دم لینے کے لیے الگ ہوتے، پھر تازہ دم ہو کر مارنا شروع کر دیتے۔ آخر ایک دن تہیہ کر لیا کہ کیوں نہ اصل دائی حق ﷺ ہی پر ہاتھ صاف کر لیا جائے۔*

*❀"_ وہ تلوار لے کر چلے، راستے میں نعیم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مد بھیٹر ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو اور بہن اور بہنوئی سے نمٹ لو، پھر کسی اور طرف جانا۔ فوراً پلیٹے اور بہن کے گھر پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ آہٹ ہوئی تو خاموش ہو گئیں اور قرآن کے اوراق چھپا لیے۔*

*❀"_ حضرت عمر نے پوچھا کہ یہ کیا پڑھا جا رہا تھا۔ بہن نے ٹالا، کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تم دونوں مرتد ہو چکے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی پر ٹوٹ پڑے۔ بہن بچ بچاؤ کے لیے آئیں تو ان کو مارا۔ ان کا جسم لہو لہان ہو گیا۔ لیکن ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ عزیمت مندانہ انداز سے کہنے لگیں۔ عمر! جو کچھ کر سکتے ہو، کرو! لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا"۔*     

*❥❥_:- ایک خاتون اور وہ بھی بہن، ایک پیکر جذبات ! جسم زخمی! کپڑے خون آلود ۔ آنکھوں میں آنسو اور زبان پر یہ عزیمت مندانہ بول ! اندازہ کیجئے کہ اسلام نے کیسی روح اندر تک پیدا کر دی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ کی قاہرانہ طاقت نے اس مظلومانہ منظر کے سامنے ہار مان لی۔ ہیرے کا جگر پھول کی پتی سے کٹ گیا۔*.

*"❀__ فرمایا۔ ”جو تم پڑھ رہی تھیں، مجھے بھی لا کر سناؤ"۔ وہ گئیں اور اجزائے قرآن نکال لائیں۔ جب یہ الفاظ سامنے آئے کہ امنوا بالله و رسوله" تو بے اختیار پکار اٹھے۔ "اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمداً عبده و رسوله" ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر تحریک حق کے مرکز خانہ ارقم کی طرف چلے۔ وہاں جا کر خدا کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔*

*"❀__ اس واقعہ پر مسلمانوں نے مارے خوشی کے ایسا نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کا سارا ماحول گونج اٹھا۔ داعیان حق اٹھے اور مکہ میں پھیل گئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی قوت بڑھ گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لاتے ہی کعبہ میں پہلی مرتبہ علانیہ نماز با جماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا۔*

*❀_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکہ کے نوجوانوں میں اپنے جوش اور ذہانت کی وجہ سے امتیازی مقام رکھتے تھے۔ ان کا کردار روح اخلاص سے مملو تھا۔ وہ جاہلیت کے دور میں تھے تو پورے اخلاص سے تحریک اسلامی کے دشمن تھے نہ کہ کسی ذاتی مفاد کی بنا پر۔ اور جب حقیقت کھل گئی اور فطرت سلیمہ سے پردے اٹھ گئے تو پوری شان اخلاص سے تحریک اسلامی کا علم اونچا کر دیا۔*        

*❥❥_:-_ عمر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت سچائی کے پیغام پر لبیک کہے اور پھر کوئی نیا مدو جزر پیدا نہ ہو، یہ کیسے ممکن تھا انہوں نے تہیہ کر لیا کہ ایک بار فضا کو چیلنج کر کے رہیں گے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ (جو اس وقت لڑکے تھے مگر معاملات کو سمجھتے تھے) کا بیان ہے کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو معلوم کیا کہ قریش کا کون سا آدمی بات کو اچھی طرح نشر کر سکتا ہے۔ انہیں جمیل بن معمر جمحی کا نام بتایا گیا۔ وہ علی الصباح اس کے ہاں پہنچے اور میں بھی ساتھ گیا کہ دیکھوں کیا کرتے ہیں۔*

*❀"_ اس سے جا کر کہنے لگے کہ اے جمیل تمہیں معلوم ہے کہ میں اسلام لاچکا ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے دین میں شامل ہو گیا ہوں۔ وہ اپنی چادر تھامتے ہوئے مسجد حرام کے دروازے پر پہنچا۔ اور وہاں گلا پھاڑ کر اعلان کیا کہ اے گروہ قریش ! سنو ! عمر بن خطاب صابی ہو گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی پیچھے سے آپہنچے اور انہوں نے پکار کر کہا۔ غلط کہتا ہے۔ میں مسلمان ہوا ہوں اور میں نے اعلان کیا ہے کہ ایک اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔*

*❀"_ اہل قریش ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ والد سے خوب لڑے۔ اور والد ان سے لڑے اور اسی ہاتھا پائی میں سورج سر پر آگیا۔ اسی اثنا میں ایک قریشی سردار یمنی حلہ اوڑھے ہوئے نمودار ہوا۔ اور اس نے پوچھا۔ قصہ کیا ہے؟ اس نے بات سنی اور کہا کہ "اس شخص نے اپنے لیے ایک راستہ پسند کر لیا ہے، تو اب تم کیا چاہتے ہو؟ سوچو تو سہی کہ کیا بنو عدی بن کعب اپنے آدمی کو یوں تمہارے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں۔ چھوڑ دو اسے۔ یہ تھے عاص بن وائل، انہوں نے حضرت عمر کو اپنی پناہ میں لے لیا _" (سیرت ابن ہشام - ١/٣٧٠-٧١)*   

*❥❥_:- اس کے ساتھ ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جوش ایمانی نے اپنے اظہار کا ایک راستہ اور بھی نکالا۔ انہوں نے ایمان لانے کی پہلی ہی رات کو سوچا کہ رسول خدا ﷺ کی مخالفت میں انتہائی متشدد کون ہے؟ معلوم ہوا کہ ابو جہل سے بڑھ کر سخت کوئی دوسرا نہیں۔*

*❀"_ صبح ہوتے ہی ابو جہل کے ہاں بھی جا پہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا ابو جہل نکلا اور خوش آمدید کہہ کر مدعا پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں یہ اطلاع دینے آیا ہوں کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لے آیا ہوں۔ اور آپ کے پیغام کی سچائی کو تسلیم کر چکا ہوں۔ ابو جہل نے بھنا کر دروازہ بند کر لیا۔ اور کہا کہ خدا کی مار تجھ اور تیری اس اطلاع پر "۔*

*❀"_ تیسری طرف انہوں نے تحریک اسلامی کا ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ۔ مار تو کھائی مگر اس کے جواب میں حرم میں علی الاعلان نماز ادا کرنے کا آغاز کر دیا۔ بقول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ : ”ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے قبل اس پر قادر نہ تھے کہ کعبہ میں نماز ادا کر سکیں۔ عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو قریش سے لڑ کر کعبہ میں نماز ادا کی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی۔*

*❀"_ ایک طرف تشدد کا وہ زور دیکھئے اور دوسری طرف یہ سماں ملاحظہ ہو کہ اسلام کے دشمنوں میں سے بہترین عنصر کو چھانٹ رہا تھا۔*     

*❥❥_:_ایسا ہی واقعہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا ہے۔ مکہ کا یہ نوجوان ذہانت، شجاعت اور اثر کا مالک تھا۔ حضور ﷺ کے چاچاؤں میں سے جناب ابو طالب کے بعد ایک یہی چاچا ایسے تھے جن کو اختلاف کے باوجود آپ سے محبت تھی۔ عمر میں بھی صرف دو تین برس زیادہ تھی اور ہم عمری کی وجہ سے بچپن میں چچا بھتیجا ہم جولی رہے تھے۔*

*❀__ ایک دن کا واقعہ ہے کہ کوہ صفا کے پاس ابو جہل نے حضور ﷺ پر دست درازی کی اور بہت دریدہ دہنی سے کام لیا۔ حضور ﷺ نے صبر سے اس اذیت کو برداشت کیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ حضرت حمزہ شکار پر گئے ہوئے تھے۔ کمان اٹھائے ہوئے واپس آئے تو اس لونڈی نے قصہ سنایا اور کہا کہ "ہائے اگر تم خود دیکھ سکتے کہ تمہارے بھیجے پر کیا گزری؟ یہ سن کر حمزہ کی حمیت جاگ اٹھی۔*

*❀__ سیدھے قریش کی مجلس میں پہنچے جہاں ابو جمل بیٹھا تھا۔ حرم میں جا کر ابو جہل کے سر پر کمان ماری اور کہا کہ کیا تم نے محمد (ﷺ) کو گالی دی تھی۔ اگر ایسا ہے تو میں بھی اس کے دین پر ہوں اور جو کچھ وہ کہتا ہے وہی کچھ میں بھی کہتا ہوں۔ اب اگر ہمت ہے تو میرے مقابلے پر آؤ"۔*

*❀__ ابو جہل کی حمایت میں بنی مخزوم کا ایک شخص مجلس سے اٹھا مگر ابو جہل نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ جانے دو میں نے ابو عمارہ کے بھتیجے کو بہت گندی گالیاں دی ہیں۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسلام پر ڈٹ گئے اور قریش نے محسوس کر لیا کہ رسول خدا ﷺ کی قوت بڑھ گئی ہے۔*      
       ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
            
           *⚂ _بائیکاٹ اور نظر بندی _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- دشمنان حق یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ حق کا سیلاب آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور بڑی بڑی اہم شخصیتوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اس پر ان کا اضطراب اور بڑھ جاتا۔ محرم ٧ نبوی میں مکہ کے تمام قبائل نے مل کر ایک معاہدہ کیا کہ خاندان بنو ہاشم سے بائیکاٹ کیا جائے اور کوئی شخص نہ ان سے قرابت رکھے نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق رکھے۔ نہ لین دین کرنے، نہ ان سے ملے جلے۔ اور نہ کھانے پینے کا کوئی سامان ان تک پہنچنے دے۔ الا آنکہ بنو ہاشم محمد (ﷺ) کو ہمارے سپرد کر دیں اور ان کو قتل کرنے کا ہمیں حق دے دیں۔*

*"❀_ قبائلی دور کے لحاظ سے یہ فیصلہ انتہائی سنگین تھا اور ایک آخری کارروائی کی نوعیت رکھتا تھا۔ بنو ہاشم بے بس ہو کر شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہو گئے۔ گویا پورا خاندان تحریک اسلامی کے داعی کی وجہ سے ایک طرح کی قید اور نظر بندی میں ڈال دیا گیا۔ اس نظر بندی کا دور تقریباً تین برس تک طویل ہوا۔ اور اس دور میں جو احوال گزرے ہیں ان کو پڑھ کر پتھر بھی پگھلنے لگتا ہے۔*

*❀"_ درختوں کے پتے نگے جاتے رہے۔ اور سوکھے چمڑے ابال ابال کر اور آگ پر بھون بھون کر کھائے جاتے رہے۔ حالت یہ ہو گئی کہ بنو ہاشم کے معصوم بچے جب بھوک کے مارے بلکتے تھے تو دور دور تک انکی درد بھری آوازیں جاتی تھیں۔ قریش ان کی آوازوں کو سنتے تو مارے خوشی کے جھوم جھوم جاتے۔*

*❀"_ ناکہ بندی اتنی شدید تھی کہ ایک مرتبہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے) نے کچھ گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ چوری چھپے بھیجا، راستہ میں ابو جہل نے دیکھ لیا اور گیہوں چھیننے کے در پے ہوا۔ اتفاق سے ابو البختری بھی آ گیا۔ اس کے اندر کسی اچھے انسانی جذبے نے کروٹ لی۔ اور اس نے ابو جہل سے کہا کہ چھوڑو بھی ایک بھتیجا ہے تو تم اسے بھی اب روکتے ہو،*     
* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
    
*❥❥_:- اسی طرح ہشام بن عمرو چوری چھپے کچھ غلہ بھیج دیتے تھے۔ یہی ہشام بن عمرو اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف داعی اول بنے۔ پہلے یہ زہیر بن ابی امیہ کے پاس گیے۔ اس سے بات کی کہ کیا تم اس بات پر خوش ہو کہ تم کھاؤ پیو، کپڑا پہنو، شادی بیاہ کرو اور تمہارے ماموؤں کا یہ حال ہو کہ وہ نہ خرید و فروخت کر سکیں، نہ شادی بیاہ کے تعلقات قائم کر سکیں۔ اگر معاملہ ابوالحکم ابن ہشام کے ماموں اور ننہال کا ہوتا اور تم نے اسے ایسے معاہدے کی دعوت دی ہوتی تو وہ کبھی اس کی پرواہ نہ کرتا۔*

*"❀_ _ یہ سن کر زہیر نے کہا۔ ”میں کیا کروں، میں تو اکیلا آدمی ہوں۔ خدا کی قسم ! اگر کوئی دوسرا میرے ساتھ ہوتا تو میں اس معاہدے کی منسوخی کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا اور اسے ختم کر کے دم لیتا"۔ ہشام بن عمرو نے کہا۔ کہ دوسرا ساتھی تو تمہیں مل گیا ہے"۔ زہیر نے پوچھا کون؟" ہشام نے کہا۔ " میں "!*

*"❀_ _ پھر ہشام مطعم بن عدی کے پاس پہنچے اور اسی طرح تحریک کی۔ اس نے بھی وہی جواب دیا ۔ کہ ”اکیلا ہوں کیا کروں ؟" ہشام نے وہی جواب دیا کہ دوسرا میں ہوں، مطعم نے کہا ۔ کہ اب کسی تیسرے کو ڈھونڈنا چاہیے۔ ہشام نے بتایا کہ وہ تو میں نے مہیا کر لیا ہے، اس نے پوچھا کون؟ ہشام نے بتایا کہ زہیر بن ابی امیہ، مطعم کہنے لگا کہ پھر کسی چوتھے کو حاصل کرنا چاہیے,* 

*"❀_ _اس طرح ابو البختری اور زمعہ بن الاسود تک پہنچ کر ہشام نے بات کی۔ غرض بائیکاٹ کے معاہدے کے خاتمے کی تحریک اندر ہی اندر جب کام کر چکی تو ان سب لوگوں نے ایک جگہ بیٹھ کر طریق کار طے کیا۔ اسکیم یہ بنی کہ بر سر عام ہشام ہی بات چھیڑے گا۔ چنانچہ ہشام نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا۔ پھر لوگوں کی طرف آیا اور کہا کہ مکہ والو! کیا یہ زیبا ہے کہ ہم کھانے کھائیں اور لباس پہنیں، اور بنو ہاشم بھوک سے تڑپ رہے ہوں، نہ وہ کچھ خرید سکیں اور پھر اس نے اپنا عزم ان الفاظ میں پیش کر دیا:۔ خدا کی قسم! میں اس وقت تک نہ بیٹھوں گا جب تک کہ تعلقات کو توڑ دینے والی اس ظالمانہ تحریر کو چاک چاک نہ کرلوں"۔*

*"❀_ _ ابو جہل بھنا کر اٹھا اور چیخ کر بولا۔ " جھوٹے ہو تم۔ خدا کی قسم تم اسے چاک نہیں کر سکتے"۔ زمعہ بن الاسود نے ابو جہل کو جواب دیا۔ "تم خدا کی قسم ! سب سے بڑھ کر جھوٹے ہو۔ یہ معاہدہ معلوم ہے جس ڈھب سے لکھا گیا ہے ہم اسے پسند نہیں کرتے" ابو البختری بھی بول اٹھا " سچ کہا زمعہ نے ہم کو پسند نہیں جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے اور نہ ہم اس کو مانتے ہیں"۔ مطعم نے بھی تائید مزید کی۔ " تم دونوں ٹھیک کہہ رہے ہو اور غلط کہتا ہے جو اس کے علاوہ کچھ کہتا ہے"۔ ہشام نے بھی یہی بات کہی۔ اکثریت کو یوں مخالف پا کر ابو جہل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اور معاہدہ چاک کر دیا گیا۔ لوگ جب اسے دیوار کعبہ سے اتارنے لگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کہ اسے دیمک چاٹ چکی تھی۔ صرف "باسمک اللهم" کے الفاظ سلامت تھے_,"*
*"_®(سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص ۲۹ - ۱۳)*   
* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵             
                  *⚂   غم کا سال _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:_ دور نظر بندی کا خاتمہ ہو گیا۔ اور ایک بار پھر خدا کے نبی ﷺ اپنے گھرانے سمیت آزادی کی فضا میں داخل ہوے ۔ لیکن اب اس سے بھی سخت تر دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔ اس سال میں اولین سانحہ یہ پیش آیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کی وفات ہو گئی۔ اس طرح وہ ایک ظاہری سہارا بھی چھن گیا جو حضور ﷺ کو اپنے سایہ شفقت میں لیے ہوئے دشمنوں کے لیے پوری استقامت سے آخر دم تک مزاحم رہا تھا۔*

*"❀__اسی سال دو سرا صدمہ حضور ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رحلت کا اٹھانا پڑا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا محض حضور ﷺ کی بیوی ہی نہ تھیں۔ بلکہ سابقون الاولون میں تھیں۔ اور انہوں نے دور رسالت سے قبل بھی موانست و غمگساری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اور اولین وحی کے نزول سے لے کر تا دم آخر راہ حق میں حضور ﷺ کے ساتھ سچی رفاقت کا حق ادا کر کے دکھلا گئیں۔*

*❀_ تحریک حق کی حمایت میں مال بھی خرچ کیا۔ قدم قدم پر مشورے بھی دیئے اور دلی جذبے سے تعاون دکھایا۔ بجا طور پر کہا گیا ہے کہ "وہ حضور ﷺ کے لیے وزیر تھیں ،*

*"❀__ ایک طرف تو یکے بعد دیگرے یہ دو صدمے حضور ﷺ کو سہنے پڑے اور دوسری طرف ان ظاہری سہاروں کے ہٹ جانے کی وجہ سے مخالفت کا طوفان اور زیادہ چڑھاؤ پر آگیا۔ انہیں غم انگیز حالات کی وجہ سے یہ سال سال اندوہ یا عام الحزن کے نام سے موسوم ہوا۔*        

*❥❥_:- اب قریش انتہائی ذلیل حرکتوں پر اتر آئے۔ لونڈوں کے غول پیچھے لگا دیئے جاتے جو شور مچاتے اور حضور ﷺ نماز پڑھتے تو وہ تالیاں پیٹتے۔ راستہ چلتے ہوئے حضور ﷺ پر غلاظت پھینک دی جاتی۔ دروازے کے سامنے کانٹے بچھائے جاتے۔ کھلم کھلا گالیاں دی جاتیں۔ پھبتیاں کسی جاتیں۔ آپ کے چہرہ مبارک پر خاک پھینکی جاتی۔ بلکہ بعض خبیث بد تمیزی کی اس آخری حد تک پہنچے کہ آپ کے رخ انور پر تھوک دیتے۔*

*❀__ ایک بار ابو لہب کی بیوی ام جمیل پتھر لیے حضور کی جستجو میں حرم تک اس ارادے سے آئی کہ بس ایک ہی وار میں کام تمام کر دے۔ مگر حضور ﷺ اگرچہ حرم میں سامنے ہی موجود تھے لیکن خدا نے اس کی نگاہ کو رسائی نہ دی۔ اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے دل کا بخار نکال کر چلی آئی۔*
 
*❀__ اس طرح ایک بار ابو جہل نے پتھر سے حضور ﷺ کو ہلاک کر دینے کا ارادہ کیا۔ اور اسی ارادے میں حضور ﷺ تک پہنچا بھی۔ مگر خدا نے ابو جہل کو خوف و مرعوبیت کے ایسے عالم میں ڈالا کہ وہ کچھ کر نہ سکا۔*.

*❀__ ایک بار دشمنان حق بیٹھے یہی تذکرہ کر رہے تھے کہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے معاملے میں ہم نے جو کچھ برداشت کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران حضور تشریف لے آئے۔ ان لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا تم ایسا کہتے ہو۔ حضور ﷺ نے پوری اخلاقی جرأت سے فرمایا۔ ہاں! میں ہوں جو یہ اور یہ کہتا ہے! بس یہ کہنا تھا کہ چاروں طرف سے دھاوا بول دیا گیا۔*.

*❀__ عبد اللہ بن عمرو بن عاص کا بیان ہے کہ قریش کی طرف سے اس سے بڑھ کر حضور ﷺ کے خلاف میں نے کوئی دراز دستی نہیں دیکھی۔ حملہ آور رک گئے تو خدا کے رسول ﷺ نے پھر اسی فوق الانسانی جرأت سے کام لے کر ان کو ان الفاظ سے متنبہ کیا کہ "میں تمہارے سامنے یہ پیغام لایا ہوں کہ تم ذبح ہو جانے والے ہو۔ یعنی استبداد کی یہ چھری جو تم مجھ پر تیز کر رہے ہو، تاریخ میں کام کرنے والا قانون الہٰی بالآخر اس سے خود تم کو ذبح کر ڈالے گا۔ تمہارا یہ زور و اقتدار جو ظلم کے رخ پڑ گیا ہے، یہ یکسر ختم ہو جانے والا ہے۔*    

*❥❥_:-حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ عقبہ بن معیط ابو جہل اور امیہ بن خلف حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب حضور ﷺ ان کے سامنے سے گزرتے تو وہ کلمات بد زبانوں پر لاتے ۔ تین بار ایسا ہی ہوا۔*

*❀"_ آخری مرتبہ حضور ﷺ نے چہرہ متغیرہ کے ساتھ کہا کہ بخدا تم بغیر اس کے باز نہ آؤ گے کہ خدا کا عذاب جلد تم پر ٹوٹ پڑے"۔*

*❀"_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہیبت حق تھی کہ یہ سن کر ان میں سے کوئی نہ تھا جو کانپ نہ رہا ہو۔ یہ فرما کر حضور ﷺ اپنے گھر کو چلے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگ ساتھ ہو لیے۔*

*❀"_ اس موقعہ پر حضور ﷺ نے ہم سے خطاب کر کے فرمایا: تم لوگوں کو بشارت ہو۔ اللہ تعالی یقیناً اپنے دین کو غالب کرے گا اور اپنے کلمہ کی تکمیل کرے گا۔ اور اپنے دین کی مدد کرے گا۔ اور یہ لوگ جنہیں تم دیکھتے ہو اللہ تعالی بہت جلد تمہارے ہاتھوں سے ذبح کرائے گا۔*

*❀"_ غور کیجئے کہ بظاہر کس انگیز ماحول میں یہ بشارت دی جا رہی تھی اور پھر کس شان سے یہ بہت ہی جلد پوری ہوئی ۔۔۔۔ گویا تحریک حق نے ہتھیلی پر سرسوں جما دی۔*      

       ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
            
              *⚂_طائف میں دعوت حق _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- ایک روز رسول اکرم ﷺ علی الصباح گھر سے نکلے اور خدا کا پیغام سنانے کے لیے مکہ کے مختلف کوچوں میں گھومے پھرے لیکن وہ ایک دن پورا ایسا گزرا کہ آپ کو ایک آدمی بھی ایسا نہ ملا جو بات کو سنتا۔*

*"❀_ نئی اسکیم یہ اختیار کی گئی تھی کہ آپ کو جب آتے دیکھا جائے۔ تو لوگوں کو چاہیے کہ ادھر ادھر سٹگ جائیں۔ باتیں سننے سے بات پھیلتی ہے اور مخالفت کرنے سے اور بحشیں چھیڑنے سے وہ اور زیادہ ابھرتی ہے۔ اسکیم کامیاب رہی۔ جو لوگ ملے بھی انہوں نے استہزاء اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا۔*.

*"❀_ اس روز آپ پورا دن گزار کر جب پلٹے تو اداسی کا ایک بھاری بوجھ آپ کے سینے پر لدا ہوا تھا۔ سخت تھکن تھی ۔۔۔۔ ایسی گھٹن جو کسی کی خیر خواہی کرنے والے کو اس وقت ہوتی ہے کہ جس کی وہ خیر خواہی کر رہا ہو، وہی خود محسن کشی پر اتر آئے۔*

*"❀_۔ شاید اسی دن سے آپ کے دل میں یہ رجحان پیدا ہو گیا تھا کہ اب مکہ سے باہر نکل کر کام کرنا چاہیے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر سرور عائم مکہ سے پیدل چلنے اور راستے میں جو قبائل آباد تھے ان سب کے سامنے خدا کا پیغام پیش کیا۔*     

*❥❥_:- طائف ایک بڑا سر سبز قطعہ تھا۔ پانی' سایہ کھیتیاں، باغات نسبتا ٹھنڈا مقام۔ لوگ بڑے خوشحال تھے اور دنیا پرستی میں بری طرح مگن۔ انسان ایک مرتبہ معاشی خوشحالی پا لے تو پھر وہ خدا فراموشی اور اخلاق باختگی میں دور تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال اہل طائف کا تھا۔ مکہ والوں میں تو پھر بھی مذہبی سربراہی اور ملکی قیادت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے کسی قدر اخلاقی رکھ رکھاؤ ہو سکتا تھا لیکن طائف کے لوگ پوری طرح لا ابالی ڈھب کے تھے۔ اور پھر سود خواری نے ان کے اچھے انسانی احساسات کو بالکل ملیا میٹ کر دیا تھا۔*

*"❀_ حضور ﷺ گویا مکہ سے بد تر ماحول میں قدم رکھ رہے تھے۔ محسن انسانیت ﷺ طائف میں پہنچے تو پہلے ثقیف کے سرداروں سے ملاقات کی۔ یہ تین بھائی تھے ۔۔۔۔ عبد یالیل، مسعود اور حبیب۔ ان میں سے ایک کے گھر میں قریش ( بنی جمح) کی ایک عورت تھی۔ اس وجہ سے ایک طرح کی لحاظ داری کی توقع ہو سکتی تھی۔*

*"❀_ حضور ﷺ ان کے پاس جا بیٹھے۔ ان کو بہ طریق احسن اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا۔ اور اپنی دعوت پر گفتگو کی اور ان سے اقامت حق کے کام میں حمایت طلب کی۔ اب جواب سنئے جو تینوں کی طرف سے ملتا ہے:-*
*"_ایک :۔ "اگر واقعی خدا نے ہی تم کو بھیجا ہے تو بس پھر وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے۔"*

*❀"_ دوسرا بولا: "ارے کیا خدا کو تمہارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور مناسب آدمی نہ مل سکا۔ تیسرا بولا : " خدا کی قسم! میں تجھ سے بات بھی نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر تو اپنے کہنے کے مطابق واقعی اللہ کا رسول ہے، تو پھر تجھ ایسے آدمی کو جواب دینا سخت خلاف ادب ہے۔ اور اگر تم نے خدا پر افتراء باندھا ہے تو اس قابل نہیں ہو کہ تم سے بات کی جائے"۔*     

*❥❥_:- زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے جو انسانیت کے محسن کے سینے میں پے در پے پیوست ہوتے چلے گئے۔ آپ نے تحمل سے اپنے دل پر سارے زخم سہہ لیے اور ان کے سامنے آخری بات یہ رکھی کہ تم اپنی یہ باتیں اپنے ہی تک رکھو اور کم سے کم عوام کو ان سے متاثر نہ کرو۔ مگر انہوں نے اپنے ہاں کے گھٹیا اور بازاری لونڈوں اور نوکروں اور غلاموں کو ہلا کر آپ کے پیچھے لگا دیا۔ کہ جاؤ اور اس شخص کو بستی سے نکال باہر کرو۔*

*❀"_ ایک غول کا غول آگے پیچھے ہو لیا۔ یہ لوگ گالیاں دیتے شور مچاتے اور پتھر مارتے تھے۔ حضور ﷺ جب نڈھال ہو جاتے تو بیٹھ جاتے۔ لیکن طائف کے غنڈے آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیتے۔ اور پھر ٹخنوں پر پتھر مارتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ خون بے تحاشا بہہ رہا تھا، اور جوتیاں اندر اور باہر سے لتھڑ گئیں۔*

*"❀_ اس نادر تماشا کو دیکھنے کے لیے بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ غنڈوں کا غول اس طریقے سے آپ کو شہر سے نکال کر ایک باغ کے احاطے تک لے آیا۔ جو ربیعہ کے بیٹوں عقبہ اور شیبہ کا تھا۔ آپ نے بالکل بے دم ہو کر انگور کی ایک بیل سے ٹیک لگا لی۔ باغ کے مالک آپ کو دیکھ رہے تھے اور جو کچھ آپ پر بیتی اس کا بھی کچھ مشاہدہ کر چکے تھے۔*

*❀"_یہی وہ موقع تھا جب کہ دوگانہ پڑھنے کے بعد آپ کے ہونٹوں سے ذیل کی درد بھری دعا نکلی: الہٰی اپنی قوت کی کمی اپنی بے سروسامانی اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ درماندہ بیکسوں کا پروردگار تو ہی ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے آخر تو مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے۔ کیا اس حریف بیگانہ کے جو مجھ سے تر شروئی روا رکھتا ہے یا ایسے دشمن کے جو میرے معاملے پر قابو رکھتا ہے۔ لیکن اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو پھر مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ بس تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ میں اس بات کے مقابلے میں کہ تیرا غضب مجھ پر پڑے یا تیرا عذاب مجھ پر وارد ہو تیرے ہی نور و جمال کی پناہ طلب کرتا ہوں جس سے ساری تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس کے ذریعے دین و دنیا کے جملہ معاملات سنور جاتے ہیں، مجھے تو تیری رضامندی اور خوشنودی کی طلب ہے ۔ بجز تیرے کہیں سے کوئی قوت و طاقت نہیں مل سکتی"*    

*❥❥_:-اتنے میں باغ کے مالک بھی آپہنچے، ان کے دلوں میں ہمدردی کے جذبات امڑ آئے تھے۔ انہوں نے اپنے نصرانی غلام کو پکارا۔ اس کا نام عداس تھا۔ پھر ایک طشتری میں انگوروں کا خوشہ رکھوا کر بھجوایا۔ عداس انگور پیش کر کے آنحضور ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے ہاتھ انگور کی طرف بڑھاتے ہی "بسم اللہ " کہا، عداس کہنے لگا! " خدا کی قسم! اس طرح کی بات اس شہر کے لوگ تو کبھی نہیں کہتے"۔*

*"❀_ آنحضرت ﷺ نے پوچھا۔ کہ " تم کس شہر کے آدمی ہو ۔ اور تمہارا دین کیا ہے ؟" اس نے بتایا کہ میں نصرانی ہوں اور نینوا کا باشندہ۔ آپ نے فرمایا " تو تم یونس بن متی جیسے مرد صالح کی بستی کے آدمی ہو ؟" عداس نے حیرت سے پوچھا۔ "آپ کو کیسے معلوم کہ یونس بن متی کون ہے ؟" آپ نے کہا۔ ”وہ میرا بھائی ہے، وہ بھی نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں"۔*

*❀"_ یہ سنتے ہی عداس آپ کے ہاتھ پاؤں کو چومنے لگا۔ ربیعہ کے بیٹوں میں سے ایک نے یہ ماجرا دیکھا تو اس نے عداس کے واپس جانے پر ملامت کی کہ یہ کیا حرکت تم کر رہے تھے۔ تم نے اپنا دین خراب کر لیا ہے۔ عداس نے گہرے تاثر کے ساتھ جواب دیا۔ ”میرے آقا! اس سے بڑھ کر زمین میں کوئی چیز بھلی نہیں۔ اس شخص نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا"۔*

*❀"_ در حقیقت اب جناب ابو طالب کی وفات کے بعد مکہ میں آپ ظاہری لحاظ سے بالکل بے سہارا تھے اور دشمن شیر ہو گئے تھے۔ آپ ﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ طائف میں سے شاید کچھ اللہ کے بندے اٹھ کھڑے ہوں۔ وہاں یہ صورت پیش آئی۔ وہاں سے پھر آپ نخلہ میں قیام پذیر رہے، وہاں سے واپس آئے اور غار حرا میں تشریف فرما ہوئے۔ یہاں سے مطعم بن عدی کو پیغام بھجوایا کہ کیا تم مجھے اپنی حمایت میں لے سکتے ہو ؟ "*      

*❥❥_:-_عرب کے قومی کردار کی ایک روایت یہ تھی کہ حمایت طلب کرنے والے کو حمایت دی جاتی تھی۔ خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو ، مطعم نے پیغام قبول کر لیا۔ بیٹوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر حرم میں چلو خود رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لایا۔ اور مکہ میں آ کر اونٹ پر سے اعلان کیا کہ میں نے محمد (ﷺ) کو پناہ دی ہے۔ مطعم کے بیٹے آپ کو تلواروں کے سائے میں حرم میں لائے۔ پھر گھر میں پہنچایا۔*

*"❀_ طائف میں حضور ﷺ پر جو کچھ گزری اسے مشکل ہی سے روایات کے الفاظ ہم تک منتقل کر سکتے ہیں۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ "یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ پر احد کے دن سے بھی سخت دن کوئی گزرا ہے؟*
*"_ فرمایا:۔ تیری قوم کی طرف سے اور تو جو تکلیفیں پہنچیں سو پہنچیں، مگر سب سے بڑھ کر سخت دن وہ تھا جب میں نے طائف میں عبدیالیل کے بیٹے کے سامنے دعوت رکھی اور اس نے اسے رد کر دیا اور اس درجہ صدمہ ہوا کہ قرن اشعالب کے مقام تک جا کر بمشکل طبیعت سنبھلی"*
*®_ المواجب، جلد ا ص ۵۶،*

*❀"_زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے آپ ﷺ کے نڈھال اور بے ہوش ہو جانے پر طائف سے کندھوں پر آپ کو اٹھا کر شہر کے باہر پہنچایا، دل اندوہ گیں کے ساتھ عرض کرنے لگے کہ آپ ان لوگوں کے لیے خدا سے بد دعا کریں۔ فرمایا:۔ "میں ان کے لیے کیوں بد دعا کروں۔ اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور خدائے واحد کی پرستار ہوں گی"*

*"❀_اسی سفر میں جبریل علیہ السلام آتے ہیں اور اطلاع دیتے ہیں کہ پہاڑوں کا انچارج فرشتہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اگر آپ اشارہ کریں تو وہ ان پہاڑوں کو آپس میں ملا دے جن کے درمیان مکہ اور طائف واقع ہیں اور دونوں شہروں کو پیس کر رکھ دے۔*

*"❀_اسی پاس انگیز فضا میں جنوں کی جماعت آ گر قرآن سنتی ہے اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لاتی ہے۔ اس طرح سے خدا نے یہ حقیقت واضح کی کہ اگر تمام انسان دعوت حق کو رد کر دیں تو ہماری مخلوقات ایسی موجود ہیں کہ آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔*     

        ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                          
                  *⚂_ _ سفر معراج __⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:"_ طائف کے تجربہ کے بعد گویا حضور ﷺ اس آخری امتحان سے گزر گئے۔ قانون الہٰی کے تحت ناگزیر تھا کہ اب نئے دور کے دروازے کھل جائیں اور طلوع سحر کی بشارت دی جائے۔ یہی بشارت دینے کے لیے حضور ﷺ کو معراج سے سرفراز کیا گیا۔*

*❀"_معراج کی حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ کو قرب الٰہی کا انتہائی بلند مقام نصیب کیا گیا۔ سابق انبیاء کو بھی موقع بہ موقع شرف دیا جاتا رہا تھا کہ وہ غیبی حقائق کا مشاہدہ کریں اور قرب خداوندی میں پہنچ کر عنایات خاص سے بہرہ مند ہوں۔ قرآن میں جہاں ایک طرف ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کو ملکوت السموات والارض کا مشاہدہ کرایا گیا تھا وہاں موسیٰ علیہ السلام کو طور پر بلایا گیا اور وہاں خداوند تعالیٰ نے ایک نور افگن درخت کی اوٹ سے "انی انا اللہ" کہہ کر ہم کلامی سے سرفراز کیا۔ اور پھر دوسرے موقع پر ایسے ہی لمحہ قرب میں شریعت کے احکام تفویض کئے ۔*

*❀"_ گویا کسی نہ کسی نوع کی معراج جلیل القدر انبیائے سلف کو بھی حاصل ہوتی رہی تھی۔ حضور کی معراج اپنے اندر شان کمال رکھتی ہے۔ واقعہ طائف اور ہجرت کے درمیان اس واقعہ سے زیادہ اہم اور ممتاز واقعہ کوئی دوسرا پیش نہیں آیا۔*

*❀"_ اس کی جب اطلاع آپ نے دی تو مکہ بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ آپ نے مجمع عام میں اپنے مشاہدات بیان کئے۔ بیت المقدس کا پورا نقشہ کھینچ دیا۔ راستے کی ایسی قطعی علامات بتائیں کہ جن کی بعد میں تصدیق ہو گئی۔ اس لمحہ قرب میں جو خاص وحی کی گئی وہی سورہ بنی اسرائیل کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے۔ اس سورہ کا آغاز ہی واقعہ اسراء کے تذکرے سے ہوتا ہے۔ اور پھر پوری سورہ میں معراج کی روح رچی بسی ہے۔*      

     ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                       
                   *⚂_ ہجرت کا حکم _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- طائف قریب تھا اور دور ہو گیا۔ یثرب ( مدینہ منورہ) دور تھا مگر قریب آگیا۔*

*❀"_ یثرب اس روز بالکل قریب آگیا جس روز (نبوت کے گیارہویں سال) چھ انقلابیوں کے ایک جتھے نے حضور ﷺ سے پیمان وفا باندھا۔ پھر دوسرے سال ۱۱٢ افراد نے تحریک اسلامی کی علمبرداری کے لیے باقاعدہ گفت و شنید کرکے پہلی بیعت عقبہ کی گرہ باندھی اور اسلامی توحید اور اخلاقی حدود کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے سر لی۔*

*❀"_ پھر حج کے موقع پر ایک بڑی جماعت حاضر ہوئی اور اس نے رات کی تاریکی میں ایک خفیہ مجلس کے اندر دوسری بیعت عقبہ استوار کی جو پوری طرح سیاسی روح سے مملو تھی۔ اسی میں حضور ﷺ کا ہجرت کر کے مدینہ منورہ جانا طے ہوا اور اس والہانہ پیش کش کے ساتھ طے ہوا کہ انصار مدینہ آپ کے لیے دنیا جہان سے لڑائی مول لینے کو تیار ہیں۔*

*❀"_ شاید یہی دور ---- سفر طائف تا ہجرت ہے, جس میں سورہ یوسف نازل ہوئی تھی اور جس نے حدیث دیگراں کے پردے میں علمبردار حق کو بشارت دی اور اس کے مخالفین کو ان کے گھٹیا اور ظالمانہ طرز عمل سے آگاہ کر کے ان کا انجام ان کے سامنے رکھ دیا۔*      

*❥❥_:_ آخری بیعت عقبہ (یعنی ذی الحجہ ۱۳ بعد بعثت) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ اللہ عزو جل نے اب تمہارے لیے بھائی پیدا کر دیے ہیں اور ایک ایسا شہر فراہم کر دیا ہے جہاں تم امن سے رہ سکتے ہوں_," (ابن ہشام بحوالہ ابن اسحاق)*

*❀"_ یہ حکم ملتے ہی سب سے پہلے حضرت عامر بن ربیعہ العنزی اپنی بیوی لیلی بنت ابی حسمہ کے ساتھ لکلے۔ پھر حضرت عمار بن یاسر اور حضرت بلال اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے ہجرت کی، پھر حضرت عثمان بن عفان اپنی اہلیہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پھر مہاجرت کا ایک سلسلہ چل ۔ پڑا اور لوگ پے در پے اس نئے دارالہجرت کی طرف جانے گئے ، حتیٰ کہ پورے پورے کنبے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔*

*❀"_ رفقاء کو مدینہ بھیجنے کے باوجود آنحضور ﷺ نے اپنے مقام دعوت کو نہیں چھوڑا۔ اذن الہٰی کے منتظر رہے، اب کوئی مسلمان بھی مکہ میں نہیں رہا تھا، سوائے ایسے لوگوں کے جنہیں قریش نے روک رکھا تھا یا ابتلا میں ڈال رکھا تھا۔ البتہ رفقائے خاص میں حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما باقی تھے۔*

*❀"_ ان حالات میں قریش نے اندازہ کر لیا کہ اب جب کہ مسلمانوں کو ایک ٹھکانہ مل گیا ہے اور ایک ایک کر کے سب لوگ جاچکے ہیں، قریب ہے کہ محمد ﷺ بھی ہاتھ سے نکل جائیں۔ اور پھر ہمارے دائرہ اثر سے باہر رہ کر قوت پکڑیں اور سارا پچھلا حساب چک جائے۔ یہ لوگ مکہ کے پبلک حال دار الندوہ میں جمع ہوئے اور سوچنے لگ گئے کہ اب محمد ﷺ کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔*        

*❥❥_:- مختلف رائے کے بعد ابو جہل نے یہ تجویز کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک مضبوط اور معزز نوجوان لیا جائے اور سب کو تلواریں دی جائیں۔ پھر یکبارگی اس (محمد ﷺ) پر حملہ کر کے کام تمام کر دیں۔ بس ہمیں اس طرح سے چھٹی مل سکتی ہے۔ اس طریقے سے محمدؐ کا خون تمام قبائل پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف اتنے سارے قبائل سے بدلہ لینے کی جرأت نہ کر سکیں گے۔ بس اس پر اتفاق آراء ہو گیا اور یہ سازشی میٹنگ برخاست ہو گئی۔*

*❀"_ اسی میٹنگ کی کارروائی پر قرآن نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:۔ "_اور یاد کرو اس گھڑی کو جب کہ کفار تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید میں ڈالیں یا قتل کر دیں یا باہر نکال دیں۔ وہ اپنی سی تدبیر لڑاتے ہیں اور اللہ جواباً دوسری تدبیر کرتا ہے اور اللہ تدبیر کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے"۔ (الانفال ۔ ۳۰)*

*"❀_ آنے والی پر اسرار رات سامنے تھی۔ حضور ﷺ اپنے محبوب ترین رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی‌اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ جاکر راز دارانہ طریق سے اطلاع دی کہ ہجرت کی اجازت آگئی ہے۔ جناب صدیق نے معیت کی درخواست کی جو پہلے سے قبول تھی۔ اس سعادت کے حصول پر فرط مسرت‌سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔*

*❀"_ انہوں نے ہجرت کے لیے دو اونٹنیاں پہلے سے خوب اچھی طرح فربہ کر رکھی تھیں پیش کش کی کہ حضور ﷺ دونوں میں سے جسے پسند فرمائیں ہدیہ ہے۔ مگر حضور ﷺ نے باصرار ایک اونٹنی (جس کا نام جدعاء تھا) قیمتاً لی۔*       

*❥❥_:- رات ہوئی تو حضور ﷺ بحکم الہی اپنے مکان پر نہ سوئے۔ اور دوسرے محبوب ترین رفیق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر بلا خوف سو جانے کی ہدایت فرمائی۔ ساتھ ہی لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کیں کہ صبح کو یہ مالکوں کو ادا کر دی جائیں۔ اس اخلاق کی کتنی ایک مثالیں تاریخ کے پاس ہیں کہ ایک فریق تو قتل کی سازش کر رہا ہے۔ اور دوسرا فریق اپنے قاتلوں کو امانتوں کی ادائیگی کرنے کی فکر میں ہے۔*

*❀"_ پھر حضور ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے ۔ جناب اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا نے جلدی سے اپنا کمر بند پھاڑا اور ایک ٹکڑے میں کھانے کی پوٹلیاں باند ھیں اور دوسرے ٹکڑے سے مشکیزہ کا منہ باندھا_ دو مسافران حق کا یہ قافلہ رات کی تاریکی میں گامزن ہو گیا۔*

*❀"_ آج دنیا کا سب سے بڑا محسن و خیر خواہ (ﷺ) بغیر کسی قصور کے بے گھر ہو رہا تھا! محسن انسانیت ﷺ کلیجہ کٹا ہو گا، آنکھیں ڈبڈبائی ہوں گی، جذبات امڑے ہوں گے ، مگر خدا کی رضا اور بندگی کا مشن چونکہ اس قربانی کا بھی طالب ہوا اس لیے انسان کامل نے یہ قربانی بھی دے دی۔ آج مکہ کے پیکر سے اس کی روح نکل گئی تھی، آج اس چمن کے پھولوں سے خوشبو اڑی جارہی تھی، آج یہ چشمہ سوکھ رہا تھا۔ آج اس کے اندر سے با اصول اور صاحب کردار ہستیوں کا آخری قافلہ روانہ ہو رہا تھا۔*

*❀"_ دعوت حق کا پودا مکہ کی سرزمین سے اگا۔ لیکن اس کے پھلوں سے دامن بھرنا مکہ والوں کے نصیب میں نہ تھا۔ پھل مدینہ والوں کے حصہ میں آئے، ساری دنیا کے حصہ میں آئے؟ مکہ والے آج دھکیل کر پیچھے ہٹائے جا رہے تھے ۔ اور مدینہ والوں کے لیے اگلی صف میں جگہ بنائی جارہی تھی۔ جو اپنے آپ کو اونچا رکھتے تھے ان کو پستی میں دھکیلنے کا فیصلہ ہو گیا اور جن کو مقابلتاً نچلے درجے پر رکھا جاتا تھا وہی لوگ اٹھا کر اوپر لائے جا رہے تھے۔*

*❀"_ حضور ﷺ نے آخری نگاہ ڈالتے ہوئے مکہ سے یہ خطاب فرمایا :: خدا کی قسم، تو اللہ کی سب سے بہتر زمین ہے۔ اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب، اگر یہاں سے مجھے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا_," ترمذی اور مسند کی روایت ہے کہ مکہ سے نکلتے وقت حضور ﷺ حزورہ کے مقام پر کھڑے ہوئے بیت اللہ کی طرف رخ کیا اور بڑے درد کے ساتھ فرمایا ۔ (سیرت سرور عالم ج ۲ ص ۷۲۴)*    

*❥❥_:-چند لمحوں بعد حضور ﷺ غار ثور میں تھے۔ راستہ خود حضور ﷺ نے تجویز فرمایا تھا اور عبداللہ بن اریقط کو اجرت دے کر گائیڈ مقرر کیا۔ تین روز آپ غار میں رہے۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ رات کو مکہ کی ساری خبریں پہنچا آتے۔ عامر بن فہیرہ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام) بکریوں کا ریوڑ لے کے اسی طرف نکلتے اور اندھیرا ہو جانے پر غار کے سامنے جا پہنچتے تا کہ دونوں مہاجر ضرورت کے مطابق دودھ لے لیں۔*

*❀"_ ادھر قریش نے حضور ﷺ کے مکان کا محاصرہ رات بھر رکھا۔ اور پورے شہر کی ناکہ بندی کا کڑا انتظام بھی کیا۔ مگر جب اچانک ان کو یہ معلوم ہوا کہ جس کی تلاش تھی وہ تو نکل گیا ہے، تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ حضور ﷺ کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پا کر بہت سٹپٹائے اور ان پر غصہ نکال کر چلے گئے۔*

*❀"_ تلاش کے لیے چاروں طرف آدمی دوڑائے، کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک گروہ دوڑ دھوپ کرتے ہوئے عین غار ثور کے دروازے پر آپہنچا۔ ان کے قدم اندر دکھائی دینے لگے۔ کتنا نازک تاریخی لمحہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تشویش ہوئی کہ اگر یہ لوگ غار میں داخل ہو گئے تو گویا پوری تحریک خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایسے لمحات میں صحیح انسانی فطرت کے اندر جیسا احساس پیدا ہونا چاہیے ، ٹھیک ایسا ہی احساس جناب صدیق کا تھا۔*

*"❀_ مگر چونکہ حضور ﷺ کے ساتھ حق تعالیٰ کے کچھ وعدے تھے اور اس کی طرف سے حفاظت و نصرت کی یقین دہانی تھی اس لیے پردہ غیب کے پیچھے تک دیکھنے والا دل جانتا تھا کہ خدا ہمیں صحیح سلامت رکھے گا۔ پھر بھی ٹھیک اسی طرح وحی سکینت نازل ہوئی جیسی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، ارشاد ہوا ۔"_ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا _," فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے (التوبہ ۴۰)۔*

*❀"_ چنانچہ آنے والا گروہ غار کے دہانے ہی سے واپس لوٹ گیا۔ تین روز غار میں رہنے کے بعد حضور ﷺ جناب صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں اپنے رہبر اور عامر بن فہیرہ کو لے کر نکلے۔ تعاقب سے بچنے کے لیے عام راستہ چھوڑ کر ساحل کا لمبا راستہ اختیار کیا گیا۔*.    

*❥❥_:-_ ادھر مکہ میں اعلان کیا گیا کہ دونوں مہاجروں میں سے جس کسی کو بھی کوئی شخص قتل کر دے یا گرفتار کر لائے، اس کے لیے سو اونٹ کا انعام ہے۔ لوگ برابر تلاش میں تھے,*

*"❀_ سراقہ بن مالک بن جعشم کو خبر ملی کہ ایسے ایسے دو آدمی ساحل کے راستہ پر دیکھے گئے ہیں۔ اس نے نیزہ لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا۔ قریب آکر سراقہ جب تیزی سے جھپٹا تو اس کے گھوڑے کے اگلے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ سراقہ نے دو تین بار کی ناکام کوشش کے بعد عفو چاہی، نیز درخواست کی کہ ایک تحریر امان لکھ دیجئے۔ گویا اس نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ان ہستیوں کے طفیل ایک نیا دور نمودار ہونے والا ہے۔ امان لکھ دی گئی اور فتح مکہ کے دن کام آئی۔*

*❀"_ اسی موقع پر حضور ﷺ نے سراقہ کو ایک بشارت بھی دی کہ "اے سراقہ اس وقت تیری کیا شان ہو گی جب تو کسریٰ کے کنگن پہنے گا“۔*
*"_یہ پیش گوئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں فتح ایران کے موقع پر پوری ہو گئی۔*

*❀"_ اسی سفر میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کاروان تجارت کے ساتھ شام سے واپس آتے ہوئے ملاقی ہوئے۔ انہوں نے حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں کی خدمت میں سفید لباس ہدیہ کیا۔*
*"_ اسی سفر میں بریدہ اسلمی بھی ستر ہمراہیوں کے ساتھ سامنے آئے۔ یہ بھی درحقیقت انعام کے لالچ میں نکلے تھے۔ جب سامنا ہوا تو بریدہ کے دل کی کایا پلٹ گئی۔ تعارفی گفتگو ہی میں جب حضور ﷺ نے ایک کلمہ بشارت "خرج سهمک" (تیرا حصہ نکل آیا) فرمایا تو بریدہ مع ستر ساتھیوں کے ایمان لے آئے،*

*❀"_ پھر بریدہ رضی اللہ عنہ نے یہ خواہش کی کہ حضور ﷺ مدینہ میں داخلے کے وقت آپ کے آگے آگے ایک جھنڈا ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ نے اپنا عمامہ نیزے پر باندھ کر بریدہ کو دیا اور اس جھنڈے کو لہراتے ہوئے یہ قافلہ دارالہجرت میں داخل ہوا۔*   

       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 189,* 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
 ⚂⚂⚂.
        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *■ محسن انسانیت ﷺ ■*
 ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           
          *⚂_ مدینہ کی مختلف فضا _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:- تاریخی لحاظ سے یہ صورت واقعہ بجائے خود بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ مدینہ کی سیاسی و مذہبی فضا مکہ سے بالکل مختلف تھی۔ پہلی بات یہ کہ مکہ اور اس کے ماحول کی ساری آبادی باہم دگر مربوط تھی اور مذہبی قبیلوں اور معاہداتی بندھنوں سے بندھی ہوئی تھی اور قریش کا اس پر پورا تسلط تھا۔ لیکن مدینہ اور اس کے ماحول میں دو مختلف عناصر آباد تھے ۔ جن کے درمیان کھچاؤ موجود تھا۔*

*"❀_ مدینہ یثرب کے نام سے قدیم شہر تھا۔ اور یہاں یہودی بکثرت آکر آباد ہوئے۔ یہاں جوں جوں ان کی نسل پھیلتی گئی مدینہ کے آس پاس ان کی نئی بستیاں قائم ہوتی گئیں۔ اور ساتھ کے ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے جنگی قلعے تعمیر ہوتے گئے۔ چنانچہ پورا علاقہ یہود کے مذہبی وسیاسی تسلط میں تھا۔*

*❀"_دوسرا عصر انصار کا تھا۔ ان کا اصل وطن یمن تھا اور قحطان کا خاندان ان کا نسلی سرچشمہ تھا۔ جس زمانے میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی اور بچے کھچے لوگ ادھر ادھر منتشر ہوئے تھے، اس زمانے میں قحطان کے قبیلے میں سے اوس اور خزرج نام کے دو بھائی یثرب آپہنچے اور یہاں آباد ہو گئے۔*

*"❀_ ہو سکتا ہے کہ بعد میں اور لوگ بھی آئے ہوں۔ تاہم انہی نو واردوں کے ذریعے اس علاقے میں نئے عصر کا اضافہ ہوا۔ بعد میں نسل بڑھتی گئی۔ اور آہستہ آہستہ ایک نئی طاقت ابھرنے لگی۔ شروع شروع میں ان لوگوں نے یہودی معاشرے اور تمدن سے منقطع رہ کر پنپنا چاہا، لیکن پہلے کی جمی ہوئی طاقت کے زور و اثر سے دب کر ان سے دوستانہ معاہدہ استوار کر لیا۔ معاہدانہ تعلقات دیر تک خوش اسلوبی سے چلتے رہے۔*

*"❀_ لیکن یہود نے جونہی یہ محسوس کیا کہ انصار کی روز افزوں ترقی ان کے اقتدار کے لیے ایک خطرہ بنتی جارہی ہے تو انہوں نے حلیفانہ تعلق توڑ لیا۔*     

*❥❥_:_یہود کے اندر ایک عیاش رئیس فطیون نامی اٹھا۔ اس نے جبر و قوت سے اپنا یہ حکم نافذ کر دیا کہ اس کی حدود میں جو لڑکی بھی بیاہی جائے وہ اس کے شبستان عیش سے گزر کر ازدواجی زندگی کے دائرے میں داخل ہو، یہود کے بگاڑ کا اس سے اندازہ کیجئے کہ انہوں نے فطیون کے اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔*

*❀"_ آخر ایک دن اس شیطانی حکم نے انصار کی غیرت کو بھی چیلنج کر دیا۔ مالک بن عجلان کی بہن کی شادی ہو رہی تھی کہ عین بارات کے دن وہ بھائی کے سامنے سے پورے انداز بے حجابی کے ساتھ گزرا۔ مالک نے ملامت کی تو اس نے کہا کہ کل جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ اس سے زیادہ شدید ہے۔ چنانچہ مالک نے فطیون کو جا کر قتل کر دیا اور شام کی طرف بھاگ گیا۔*

*❀"_ وہاں غسانی حکمران ابو جبلہ کا سکہ چل رہا تھا۔ اسے یہ حالات جب معلوم ہوئے تو اس نے حملہ کیا اور بڑے بڑے یہودیوں کو قتل کیا۔ اور اوس و خزرج کو خلعت و انعام سے نوازا۔ ان واقعات نے یہود کا زور توڑ دیا ۔ اور انصار کی طاقت بڑھا دی۔*

*❀"_ غرض یہود کے مقابلے میں انصار کا معاملہ برابر کی چوٹ کا معاملہ تھا۔ لیکن اصول و مقصد کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کا اتحاد مضبوط بنیاد نہیں رکھتا تھا۔ آپس کی کش مکش نے دیمک بن کر طاقت کو چاٹنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث واقع ہوئی اور فریقین کے نہایت قیمتی افراد ایک دوسرے کی تلواروں کا لقمہ ہو گئے۔ اس طرح یہود کے سامنے وہ پھر بے زور ہو کر رہ گئے۔ اسی حالت سے مجبور ہو کر انہوں نے قریب کے زمانے میں قریش کے سامنے حلیفانہ تعلقات کی درخواست رکھی تھی لیکن بعض وجوہ سے یہ کوشش ناکام رہی۔*     

*❥❥_:- دوسری طرف یہود کے تفوق کی ایک وجہ ان کی مذہبی سیادت بھی تھی۔ ان کے پاس تورات تھی، اور وہ ایک مستقل مذہبی نظام کے علمبردار تھے، ان کے پاس ایک سرمایہ اعتقاد تھا۔ ایک اخلاقی ضابطہ تھا، فقہی احکام تھے، مذہبی قانون تھا، کچھ روایات تھیں اور عبادات کی انجام دہی کا طریقہ تھا۔*

*❀"_ انصار اس پہلو سے تہی دامن تھے۔ اور وہ اس دائرے میں ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تھے، انہی کے "بیوت المدروس" (یہودیوں کے مذہبی تعلیم کے مراکز) سے وہ استفادہ کرتے تھے۔ حد یہ کہ اگر کسی انصاری کی اولاد زندہ نہ رہتی تھی تو وہ نذر ہی یہ مانتا تھا کہ اگر بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی بنایا جائے گا۔ انصار میں اس پہلو سے احساس کمتری موجود تھا اور ان کی غیرت و حمیت اس پر کرب محسوس کرتی تھی۔*

*❀"_ ان کے حقائق کو سامنے رکھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مدینہ کے ماحول میں یہود اور انصار کے درمیان کھچاؤ تھا اور تعلقات کی گہرائی میں حریفانہ اور رقیبانہ جذبات کام کر رہے تھے۔ اسی سلسلے میں یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہود انصار کے سامنے اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ آخری نبی جلد ہی مبعوث ہونے والا ہے، وہ آئے تو پھر ہم اس کے ساتھ ہو کر تمہاری خبر لیں گے۔*.
*❀"_ یہود کی اس پیش گوئی نے انصار کو بھی اس پیغمبر موعود کا منتظر بنا دیا تھا۔ اور ان کے اندر ایک شعوری رجحان یہ کام کر رہا تھا کہ اگر وہ نبی آجائے تو وہ آگے بڑھ کر اس کا دامن تھام لیں۔ چنانچہ یہی ہوا کہ پیش گوئی سنانے والے خود تو محروم رہے اور جن کو وہ دھمکیاں دیا کرتے تھے وہ نبی آخر زماں کے حلقہ رفاقت میں آئے۔ یہود جن کو پڑوانا چاہتے تھے ان کے ہاتھوں سے خود پٹ گئے۔*

*"❀_ مدینہ کی اس فضا اور اس کے پس منظر کو سامنے رکھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیوں یہ ماحول مکہ کے مقابلے میں تحریک اسلامی کو زیادہ راس آیا۔*    

 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
     *⚂_ تحریک اسلامی مدینہ میں _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_:-تحریک اسلامی مدینہ میں :-*
*❀_ مکہ نے دعوت حق سنی اور مسلسل ۱۳ سال سنی اس کا پورا استدلال سامنے آیا۔ اس کے نور سے بھری ہوئی ایک لا مثال شخصیت کا کردار اس کے سامنے جگمگاتا رہا۔ اس کے علمبرداروں نے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے " احد احد" کی صدا بلند کی، مگر مکہ کی اجتماعی فضا نے شروع سے آخر تک ایک ہی رٹ لگائے رکھی نہیں منظور"۔*

*"❀_لیکن مدینہ تک گل دعوت کی حکمت کا پہلا جھونکا ہی پہنچا ہو گا کہ اس کی روح وجد میں آکر پکار اٹھی "لبیک"۔ مدینہ کا پہلا نوجوان جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام سے بہرہ اندوز ہوا سوید بن صامت تھا۔ یہ ایک ذہین شاعر تھے، ایک ماہر سوار تھے ، بہادر جنگجو تھے، ایسے نوجوان بالعموم انقلابی حرکت کے سپاہی بنا کرتے ہیں اور تعمیر و ترقی کی ہر دعوت پر لبیک کہتے اور پھر اپنا سب کچھ لگا دیا کرتے ہیں۔*.

*❀"_ جب یہ مکہ میں آے تو سرور عالم ﷺ نے حسب معمول مل کر دعوت پیش کی۔ سوید نے بتایا کہ ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے یعنی صحیفہ لقمان، اس کا کچھ حصہ انہوں نے سنایا بھی۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سنایا، دیکھئے بے تعصبی کا مظاہرہ کہ سوید کی فطرت سلیم فوراً پکار اٹھی کہ یہ کلام خوبی میں بڑھا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کلام کا پیغام اس کے دل میں گھر کر گیا۔ لیکن افسوس کہ جانے کے بعد جلد ہی وہ خزرجیوں کے ہاتھوں مارے گئے،*    

*❥❥_ متاثر ہونے والا دوسرا یثربی نوجوان ایاس بن معاذ تھا۔ یہ مدینہ کے ایک وفد کار کن تھے، وفد کا مقصد یہ تھا کہ خزرج کے خلاف قریش سے حلیفانہ معاہدہ کریں اور امداد حاصل کریں۔ دائی حق نے ان لوگوں تک بات پہنچانے کا موقع نکالا۔ اسلام کا تعارف کرایا۔ اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ ایاس بن معاذ جو اس وقت لڑکپن کے عالم میں تھے، کہنے لگے :- کیا ہی پاکیزہ فطرت بول رہی ہے کہ "اے ساتھیو! تم جس غرض کے لیے آئے ہو اس سے یہ زیادہ بہتر ہے"۔*

*❀"_ سردار وفد ابوالحیسر نے مٹی اٹھا کر ان کے منہ پر ماری۔ ساتھ ہی کہا۔ "ہم اس مطلب کے لیے نہیں آئے۔ ابوالحسیر کو فکر تھی قریش کی حمایت حاصل کرنے کی اور وہ خوب سمجھتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مانی تو قریش کے دلوں کے دروازے الٹا اور بند ہو جائیں گے۔*

*❀"_ ایاس چپ ہو گیے لیکن ان کے دل کی مٹی میں دعوت کا بیج پڑ گیا تھا۔ یہ لوگ واپس لوٹ گئے۔ اور افسوس کہ مدینہ کا یہ بیدار دل نوجوان بھی جلد ہی جنگ بعاث کی لپیٹ میں آ کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ دم آخر خدا کا ذکر اس کے لب پر تھا۔*

*❀"_ نبوت کے گیارھویں سال حج کے لیے مدینہ سے جو گروہ آیا اس سے ایک نشست میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ آپ کی دعوت سن کر وہ لوگ آپس میں کہنے لگے۔ "اے ساتھیو! جان لو کہ قطعی طور پر یہ وہی نبی ہے جس کے بارے میں یہود تمہارے سامنے پیش گوئی کرتے رہتے ہیں۔ سو اب وہ کہیں تم سے آگے نہ بڑھ جائیں"۔*.

*❀"_ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کھول دیئے اور انہوں نے دین حق کو اپنے سینوں میں جذب کر لیا۔ پھر وہ کہنے لگے: ہم لوگوں نے اپنی قوم کا ساتھ چھوڑا, دوسری کسی قوم میں ہمارے لوگوں کی طرح دشمنی اور خرابی نہ ہو گی۔ شاید کہ آپ کی ذات کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کو پھر جوڑ جاڑ دے۔ ہم ان کے پاس جائیں گے اور آپ کے دین کی طرف ان کو دعوت دیں گے اور ان کے سامنے اپنا وہ تاثر رکھ دیں گے، جو اس دین کے لیے آپ کے سامنے ہم نے ظاہر کیا ہے۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دین پر جمع کر دیا تو اس کے بعد آپ سے زیادہ قوت رکھنے والا کوئی دوسرا نہ ہوگا _,"*

*❥❥_ مکہ کے لوگوں نے جس دعوت کو موجب تفرقہ گردانا مدینہ کے لوگوں نے اس میں اپنے لیے اتفاق و اتحاد کی بنیاد پہلی نظر ڈالتے ہی دیکھ لی۔ اسلامی تحریک کے علمبرداری کے لیے مدینہ کی یہ پہلی جماعت جس کی تشکیل مکہ میں ہو رہی تھی۔ چھ افراد پر مشتمل تھی۔ (1) ابو الہیثم بن تیہان (۲) اسعد بن زرارہ (۳) عوف بن‌حارث (۴) رافع بن مالک بن عجلان (۵) قطبہ بن عامر (4) جابر بن عبد الله -*

*❀"_ یہ لوگ لوٹ کر گئے تو ماحول میں ایک نئی حرکت انہوں نے پیدا کر دی۔ دعوت اسلام پھیلنے لگی اور خوب مقبول ہوئی۔ انصار کے گھرانوں میں سے کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا نہ ہو رہا ہو۔*

*❀"_بیعت عقبہ اولیٰ:- اگلے سال یعنی نبوت کے بارھویں برس بارہ افراد کا وفد آیا اور آکر بیعت کی۔ اس بیعت کو اصطلاحاً بیعت النساء" یعنی زنانہ بیعت کہتے ہیں۔ اس سے مفہوم یہ ہے کہ اس بیعت میں صرف بنیادی باتوں کا اقرار لیا گیا تھا۔ اور جنگ و تصادم کا کوئی سوال سامنے نہ تھا۔ اس ایمانی اقرار کے اجزاء یہ تھے:-*

*❀"_ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ، چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے, کسی کے خلاف جانتے بوجھتے کوئی من گھڑت بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گے، اور کسی معروف معاملے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کریں گے _,"*

*"❀_یہ لوگ فارغ ہو کر اٹھے تو پیغمبر خدا نے مصعب بن عمیر بن ہاشم کو مدینہ میں فریضہ دعوت کی انجام دہی پر مامور کیا۔ ان کے ذمے لگایا کہ وہاں جا کر لوگوں کو قرآن پڑھائیں اسلام کی تعلیم دیں۔ دین کی سوجھ بوجھ پیدا کریں۔ چنانچہ وہ نماز کی امامت بھی کراتے تھے اور اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس کے اصول اخلاق کی تعلیم بھی دیتے تھے۔*
*❥❥_ دو لیڈروں کا قبول اسلام:- ایک دن اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ (جن کے مکان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مامور کردہ داعی مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اقامت گزیں تھے)، دعوتی مہم کے سلسلے میں اپنے ساتھ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو لے کر بنی عبد الاشہل اور بنی ظفر کے گھروں تک جانے کے لیے نکلے۔ دونوں مرق نامی کنوئیں کے متصل بنی ظفر کے احاطے میں پہنچے۔ بعض لوگ جو اسلام لا چکے تھے ان کے گرد جمع ہو گئے ۔*

*❀"_ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر دونوں بنی عبد الاشہل کے لیڈر تھے اور ابھی تک اپنی قوم کے مسلک مشرکانہ پر قائم تھے۔ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے کار دعوت پر سعد بن معاذ جلے بھنے تو تھے ہی، جونہی دونوں صاحبوں کے ادھر آنے کی اطلاع ملی انہوں نے اسید کے کان میں پھونکا کہ یہ دونوں ہم میں سے کمزور افراد کو اپنے ہم نوا بنانے آتے ہیں۔ لہذا جا کر ان کی خبر لو اور ان کو منع کر دو کہ ہمارے گھروں میں نہ آیا کریں۔ اگر اسعد بن زرارہ میرا خالہ زاد اور عزیز نہ ہوتا تو تمہارے بجائے میں خود اس سے نپٹ لیتا۔*.

*"❀_ چنانچہ جونہی مدینہ کے حلقہ اسلامی کی یہ مجلس لگی۔ سعد بن معاذ کی تلقین کے زیر اثر اسید بن حضیر بھالا تانے ہوئے ان دونوں داعیان اسلام کی طرف لپکے۔ پھر ٹھٹک کر بد زبانی کرتے ہوئے کہا کہ "تمہارے یہاں آنے کا مطلب کیا ہے؟ تم ہمارے کمزور آدمیوں کو بے وقوف بناتے ہو۔ اگر تمہیں اپنی جانوں کی ضرورت ہے تو ہم سے کنارہ کرو"۔*

*❀"_ مصعب بن عمیر رضی اللہ علیہ نرمی سے کہنے لگے کہ کیا تم ذرا بیٹھ نہیں جاتے کہ پہلے غور سے سنو، پھر اگر بات پسند آئے تو مانو۔ نا پسند ہو تو اس سے باز رہو"۔ چنانچہ وہ کچھ ٹھنڈے پڑ گئے، بھالا نیچے ڈال دیا۔ اور تحریک اسلامی کے دونوں داعیوں کے پاس سکون سے بیٹھ گیا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی۔ اور قرآن پڑھ کر سنایا۔*

*❥❥_ دونوں حضرات کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخاطب کے بولنے سے قبل اس کے چہرے سے قبول اسلام کا جذبہ پڑھ لیا۔ آخر اسید کی زبان کھلی: "کیا ہی خوب ہے یہ کلام ہے بہت ہی پیارا ! پوچھا۔ " تم لوگ اسلام میں داخل ہوتے وقت کیا صورت اختیار کرتے ہو ؟" دونوں نے کہا کہ جاؤ جا کر نہاؤ۔ پاک صاف ہو جاؤ اور اپنے کپڑے دھو ڈالو۔ پھر حق کی صداقت کی گواہی دو اور نماز ادا کرو۔*

*❀_"_ اسید جو ابھی ابھی بھالا تانے کھڑے تھے اب خود اسلام کا زندگی بخش بھالا ان کے سینے میں اتر چکا تھا۔ اٹھے نہاے دھویے اور آکر دو رکعتیں نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر بات چھیڑی اور اسید نے کہا کہ میرے ساتھ کا ایک شخص اور ہے، اگر وہ بھی تمہارے ساتھ ہو جائے تو اس کے قبیلے کا کوئی آدمی سرتابی نہ کرے گا، میں اس وقت اس کو بلا لیتا ہوں۔ وہ ہے سعد بن معاذ۔*

*"❀__ چنانچہ فوراً بھالا اٹھائے سعد بن معاذ کے ہاں پہنچے۔ وہاں مجلس لگی تھی۔ انہوں نے دیکھتے ہی ساتھیوں سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسید کا چہرہ وہ نہیں ہے جو تم لوگوں سے اٹھ کر جاتے وقت تھا۔ پھر سعد نے اسید سے پوچھا؟ کہو کیا کر کے آئے ؟*

*"❀__ اسید بن حضیر نے بے ساختہ جواب دیا۔ میں نے دونوں سے بات کی۔ سو خدا کی قسم! ان کی طرف سے کسی طرح کا اندیشہ محسوس نہیں کیا۔ اور انہیں میں نے منع کر دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم وہی کریں گے جو تمہیں پسند ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سعد بن معاذ کے جذبات کو حرکت میں لانے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ بنی حارثہ اسعد بن زرارہ کے قتل کے درپے ہیں اور وہ لوگ یہ جانتے ہوئے اس بات کی جسارت کر رہے ہیں کہ تمہارا عزیز ہے اور اس طرح وہ تمہاری تحقیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہیں۔*

*"❀__ سعد بن معاذ بنی حارثہ کی طرف سے ایسی حرکت کا خوف محسوس کرتے ہوئے غضب ناک ہو کر لپکے اور بھالا اسید کے ہاتھ سے لے لیا۔ لیکن وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اسلام کے دونوں علمبردار سکون سے ہیں۔ سمجھ گئے کہ اسید کا منشا اس چال سے صرف یہ ہے کہ میں براہ راست ان کی بات سنوں۔*  

      
*❥❥_:- اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم لوگ ہمارے پاس آتے ہو تو ایسی بات لے کر ہمارے گھروں میں آتے ہو جس سے ہمیں نفرت ہے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے نرمی کے اسی انداز سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ذرا سنبھلو بات سنو پسند ہو تو مانو نہیں تو پھر ہم وہ چیز تمہارے سامنے نہیں لائیں گے جس سے تمہیں نفرت ہو ۔*

*"❀__ سعد بن معاذ کہنے لگے- "تم نے بات انصاف کی کک"۔ سعد بن معاذ ٹھنڈا پڑ گیے، بھالا نیچے ڈال دیا اور بیٹھ گیے، سنانے والے نے حق کا پیغام سنایا۔ اور قرآن پڑھا۔ دوبارہ وہی کیفیت پیش آئی۔ سعد بن معاذ کے بولنے سے قبل ان کے چہرے سے قبول اسلام کا جذبہ جھلکنے لگا۔ یہ دوسرا سردار بھی چند لمحوں میں اسلام کے محاذ پر کھڑا تھا۔*

*"❀_ سعد بن معاذ "حیات نو " لے کر پلٹے تو اہل مجلس نے دور سے دیکھتے ہی آپس میں کہا کہ چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ آتے ہی انہوں نے یوں خطاب کیا: "اے بنی عبد الاشہل ! میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے" سب کہنے لگے کہ تم ہمارے سردار ہو۔ تمہاری رائے ہم سے پختہ ہے، خوبیوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ بابرکت ہو ۔*

*"❀_ سعد بن معاذ نے کہا۔ ”تو پھر جب تک تم لوگ خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام " ! ۔۔۔۔ پھر کیا تھا پورے قبیلے کے مرد و زن میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے دائرے سے باہر نہ رہا۔*

*❀_ ان دو لیڈروں کے ذریعے جب تحریک حق کی طاقت یکا یک اتنی بڑھ گئی تو دعوت کی مہم نے بھی زور پکڑا اور ایک ایک قبیلے اور ایک ایک گھر میں صبح اسلام کی تجلیاں بکھر گئیں۔*        

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *■ محسن انسانیت ﷺ ■* ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           
                    ★ *پوسٹ–146_* ★
                 *⚂_ بیعت عقبہ ثانیہ _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ بیعت عقبہ ثانیہ:-*
*❀"_ اسی دوران میں حج کا زمانہ آ گیا۔ اب کے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد مکہ پہنچی۔ مدینہ کی کھیتی خوب فصل دے رہی تھی۔ یہ نئے جذبہ دینی سے سرشار ہو کر آنے والے حجاج، قریش سے بچ بچ کر راتوں کی تاریکی میں اپنے قائد محبوب سے ملے۔ اس بار پھر عہد وفا از سر نو استوار کیا گیا۔ لیکن اب کی معملہ "بیعت النساء" سے بہت آگے تک جا پہنچا۔*

*"❀_ پہلی بیعت میں سیاسی پہلو صرف ایک نکتے سے نمایاں ہوتا تھا، یعنی یہ اقرار کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معروف احکام سے سرتابی نہیں کریں گے"۔ لیکن اس مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے اور یہی معنی سامنے رکھ کر بیعت ثانیہ استوار کی گئی۔*

*❀"_ گفتگو میں تحریک اسلامی کے ان سپاہیوں نے پیش آئند ممکنات کا پورا اندازہ کر کے یہ کہا کہ لوگوں (یعنی یہود) کے ساتھ ہمارے معاہدانہ روابط ہیں اور ہمیں ان روابط کو توڑنا ہو گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہم یہ کر چکیں اور پھر اللہ تعالٰی آپ کو غلبہ عطا کر دے، تو آپ اپنے خاندان والوں کی طرف لوٹ جائیں۔ اور ہمیں چھوڑ دیں"۔*

*"❀_ اس اندیشے کے جواب میں مسکراتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا۔ " تمہارا خون میرا خون ہے، تمہارے دشمن میرے دشمن ہیں، میں تمہارا اور تم میرے! جس سے تمہاری جنگ اس سے میری جنگ، جس سے تمہاری صلح اس سے میری صلح "۔*
  ,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

                 *⚂_ بیعت عقبہ ثانیہ _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ عباس بن عبادہ نے کہا: "اے خزرج والو! جانتے ہو کہ اس ہستی کے ساتھ کس بات کا پیمان باندھ رہے ہو ؟ یہ لوگوں میں سے سرخ وسیاہ سے جنگ کا پیمان ہے،" اہل وفد نے پوری ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے جواب دیا کہ ”ہاں ہم اپنے مالوں کی تباہی اپنے سرداروں کے قتل کے علی الرغم آپ ﷺ کے ساتھ پیمان باندھ رہے ہیں"۔*

*"❀_اس بیعت کی خاص نوعیت ہی کی وجہ سے اس کا نام "بیعت حرب" پڑ گیا۔ اس بیعت کی ایک مرکزی شرط یہ تھی کہ ہم تنگلی میں آسانی میں، خوشی میں اور رنج میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے، حضور ﷺ کو حضور ﷺ کے فرمان کو اپنے آپ پر ترجیح دیں گے، یہ کہ ہم ارباب امر سے کش مکش نہیں کریں گے۔ اور یہ کہ ہم اللہ کے دین کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔*

*"❀_ یہ بیعت گویا اسلامی قصر ریاست کی پہلی اینٹ تھی۔ اور ساتھ کے ساتھ کتاب تحریک میں لکھے جانے والے باب ہجرت کا دیباچہ ! اس بیعت کے ذریعے مستقبل کی اسلامی ریاست کے لیے گویا اسکے ہونے والے شہریوں نے برضا و رغبت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو قبول کر لیا۔ علاوہ بریں سمع و طاعت کا نظم استوار ہو گیا۔*

*"❀_اس موقع پر صرف ایک پیمان ہی نہیں باندھا گیا۔ بلکہ اجتماعی نظم کی بنیاد بھی اٹھا دی گئی۔ اسلامی تحریک کے قافلہ سالار نے شہری جماعت کی رائے سے بارہ نقیب مقرر کئے۔ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے! ان نقیبوں کو مامور کیا گیا کہ تم اپنی قوم کے سارے معاملات کے ذمہ دار ہو، بالکل اسی طرح جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے حواری ذمہ دار تھے اور جیسے خود میں اپنی پوری جماعت کا ذمہ دار ہوں۔ یہ گویا آنحضرت ﷺ کے نائب تھے۔ ان کے تقرر سے منظم معاشرہ کی تعمیر کا کام باقاعدہ شروع ہو گیا۔*

*"❀_ قریش کے کان میں بھنک پڑی تو سٹپٹا گئے، وفد جا چکا تھا، اس لیے تعاقب کیا اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر لائے۔ ان پر انہوں نے اپنا غصہ نکالا۔ لیکن سانپ نکل گیا تھا اب لکیر پیٹنے سے کیا حاصل تھا ،*
 ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           
              
     *⚂_مدینہ میں تحریک کا نیا دور _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_مدینہ میں تحریک کا نیا دور :-*
*"❀_ یہ وفد مکہ سے بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد مدینہ لوٹا تو دعوت کا کام علی الاعلان بہت ہی زور و شور سے شروع ہو گیا۔ نوجوان جب کسی تبدیلی کے نقیب بن کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے مقابلے میں بڑھاپے سے گزرتی ہوئی نسل دیر تک جم نہیں سکتی۔ اور اگر جمے بھی تو اس کا دور زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا، مکہ میں بھی، اور خاص طور پر مدینہ میں نوجوان طاقت دعوت اسلامی کے جھنڈے اٹھائے آگے آگے بڑھ رہی تھی۔ نوجوان طاقت نے کیا کیا کچھ نہ کیا ہو گا۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔*

*"❀_ بڑے بوڑھوں میں سے ایک بزرگ تھے، عمرو بن الجموح جن کا تعلق بنی سلمہ سے تھا۔ ان بڑے میاں نے اپنے گھر میں لکڑی کا ایک بت مناۃ نامی فراہم کر رکھا تھا، یہ اس کی عبادت کرتے تھے۔ اور اس کی جھاڑ پونچھ میں لگے رہتے تھے۔ بنی سلمہ کے دو نوجوان معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو دعوت حق پر ایمان لا کر تحریک اسلامی کے کارکن بن چکے تھے۔ موخر الذکر خود انہی بڑے میاں کے صاحبزادے تھے۔*

*"❀_ یہ دونوں رات کی تاریکی میں جاتے اور بڑے میاں کے خداوند کو بنی سلمہ کے گڑھے میں الٹا کر ڈال آتے جہاں لوگ غلاظت اور کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے۔ صبح ہوتی تو عمرو بن الجموح چلاتا کہ یہ کون ہے جس نے رات ہمارے خداوندوں پر دراز دستی کی ہے"۔ پھر وہ اپنے خداوند کو دھو دھا کر سنگھاسن پر لا بٹھاتا۔ اگلی رات پھر یہی حادثہ پیش آتا۔ بڑے میاں پھر اسی چکر میں پڑے بڑبڑاتے پھرتے۔ ایک دن عمرد نے تنگ آکر اپنی تلوار بت کے ساتھ لٹکا دی۔ اور اسے خطاب کر کے کہا کہ ”خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ کون تیرے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے، سو اگر تجھ میں کس بل ہے تو پھر خود ہی اپنا بچاؤ کر یہ تلوار موجود ہے"۔*

*"❀_ شام ہوئی اور عمرو سو گیا۔ دونوں نوجوان رات کو آئے اور عمرو کے خداوند کو ایک اندھے کنوئیں میں جا کر لٹکا آئے۔ صبح اٹھ کر عبرت کا یہ نقشہ دیکھتے ہی عمرو کے دل نے کروٹ لی اور وہی عمرد اسلام کی صفوں میں آ شریک ہوا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مدینہ کی کسی طرح کایا پلٹ رہی تھی۔*
*®_تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۵۱ - ۵۹,*

*❥❥_۔ مدینہ نے جب کھلے دل سے دعوت حق کو لبیک کہی تو سرور عالم ﷺ کو امید کی ایک نئی جھلک نظر آئی۔ بیعت عقبہ اولیٰ نے اس امید کو مستحکم کر دیا۔ پھر مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے خود وہاں رہ کر اور کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد بیعت عقبہ ثانیہ والے موسم حج سے کچھ قبل آکر حضور ﷺ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ مدینہ کے مسلمانوں کی تفصیل بیان کی، ان کی قوت کا حال بتایا۔ اور خوش خبری دی کہ وہ امسال بڑی تعداد میں آ رہے ہیں۔*

*"❀_ اس رپورٹ نے حضور ﷺ کو غور و فکر کی دعوت دی۔ یہ صورت فی الواقع بڑی خوش آئند تھی کہ مدینہ کے مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے دن دن رات رات بڑھ رہے تھے اور پھر یہود کی طرف سے اس طرح کی سنگین مخالفت کا ان کو سامان نہیں کرنا پڑ رہا تھا جیسے ان کے کئی ساتھیوں کو قریش کی طرف سے درپیش تھی۔*

*"❀_ اور اہل یثرب مکہ والے رفقاء کے لیے بالعموم کڑھتے تھے, ان کو بہت زیادہ سہولتیں میسر تھیں۔ ان کے ہاں کھیتیاں تھیں، حضور ﷺ سوچتے تھے کہ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ مکہ کے رفقاء مدینہ چلے جائیں۔ اور قریش کے مظالم سے نجات پا کر دین کے تقاضے پورے کریں۔*

*❀_ چنانچہ آنے والے وفد میں جو لوگ محرم تھے ان سے آپ ﷺ نے اس خیال کا اظہار بھی فرما دیا, یوں تو ہجرت حبشہ سے مہاجرین کے لوٹ آنے کے بعد ہی سے اکا دکا رفقاء آپ کی اجازت سے مدینہ جاتے رہے۔ لیکن بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد رفتار تیز ہو گئی اور تقریباً طے ہو گیا کہ دوسرا دار الہجرت مدینہ ہی ہو گا۔*

*❥❥_سرداران مکہ دیکھ رہے تھے کہ تحریک اسلامی نے ایک نیا مضبوط مرکز پیدا کر لیا ہے۔ ان کی نگاہوں میں مستقبل بڑا بھیانک ہو ہو کر آنے لگا۔ وہ اپنی جگہ خوب سمجھ رہے تھے کہ اب اگر مدینہ میں کلمہ حق کی جڑ لگ جاتی ہے تو ہمارے حدود اثر سے باہر ہی یہ کلمہ ایک ناقابل شکست طاقت بن کر ایک دن ہماری ہی خبر لے گا۔ اور ہمیں کو اپنے کرتوتوں کا حساب پائی پائی ادا کرنا ہو گا۔*

*"❀_وہ اس خطرے کو بھی محسوس کر رہے تھے ۔ کہ شام کی تجارتی شاہراہ چونکہ مدینہ سے ہو کر گزرتی ہے اس لیے مدینہ کا نیا اسلامی مرکز شاہراہ کی ناکہ بندی کر سکے گا۔ اور اس طرح ان کی معاشی شاہ رگ کٹ جائے گی۔ ان پر اندر ہی اندر گھبراہٹ کا شدید دورہ پڑ چکا تھا۔ مگر سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کریں کیا ؟*

*"❀_ چنانچہ پہلا مہاجر جب مدینہ کے ارادے سے نکلا تو مکہ والوں نے اس کے ساتھ جفا کارانہ معلمہ کیا ۔ یہ اولین مہاجر ابو سلمہ عبداللہ بن الاسد مخزومی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ بیوی بچے کو اونٹ پر سوار کر کے نکلے۔ ان کی بیوی بنو مغیرہ میں سے تھیں، وہ لوگ عین روانگی کے وقت تندی میں آئے اور ام سلمہ کے اونٹ کی مہار یہ کہہ کر ابو سلمہ سے چھین لی کہ اسے ہم تیرے ساتھ در در پھرنے کے لیے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔*

*"❀_ اس جذباتی صورت حالات نے ابو سلمہ کے قبیلہ والوں میں سخت رد عمل پیدا کر دیا۔ انہوں نے بنو مغیرہ سے کہا کہ اگر تم ہمارے آدمی سے اس کی جورو کو یوں چھینتے ہو تو پھر ہم اپنا ننھا بچہ اس کی گود میں نہ رہنے دیں گے۔ چنانچہ شوہر بیوی اور بچہ تینوں باہم دگر بچھڑ گئے اور اس عالم میں ابو سلمہ نے کوچ کیا۔*

*"❀_ ام سلمہ نت صبح کو آ کر شہر سے باہرای موقع پر زار و قطار رونے لگتیں۔ آخر سال بھر کے بعد کسی کو رحم آگیا۔ اور اس نے بنو مغیرہ سے کہہ سن کر اونٹ پر سوار کرا کے ام سلمہ کو بچے سمیت مدینہ روانہ کرا دیا اور وہ تن تنہا چل کھڑی ہوئیں، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک مقام پر عثمان بن طلحہ مل گئے اور انہوں نے اس مہاجرہ کو حوالی مدینہ میں پہنچا دیا۔*

*❥❥_ ہجرت حبشہ کے تلخ تجربے کے بعد اب پالیسی یہ ٹھہری کہ خدا پرستانہ نظام ندگی کے علمبرداروں کو اپنے قابو سے نکلتے ہوئے روکا جائے۔ وہ نکلیں تو ایسی حالت میں نکلیں کہ ان کا کنبہ قبیلہ مکہ والوں کے پاس رہے۔ یہ پالیسی شروع میں ذرا ڈھیلی ڈھالی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس میں سختی بڑھتی گئی۔*

*"❀_ حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ، ہشام بن عاص بن الوائل رضی اللہ عنہ دور آخر میں ایسے عالم میں چھپ چھپا کر نکلے کہ ہر وقت دھڑکا تھا کہ کہیں گرفتار نہ ہو جائیں۔ حضرت عمر اور عیاش رضی اللہ عنہم بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔*
۔
*"❀_ مکہ سے ایک سازشی وفد ان کے پیچھے روانہ ہوا۔ یہ ابو جہل بن ہشام اور حارث بن ہشام پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ جا کر عیاش سے ملے اور کہا کہ تمہاری والدہ کا حال ابتر ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تم سے نہ ملے گی سر کے بال نہ سنوارے گی اور چلچلاتی دھوپ میں کھڑی رہے گی۔*

*"❀_ ساتھیوں نے سمجھایا کہ یہ واضح طور پر ایک چال ہے، تم ایک بار مکہ والوں کے پھندے میں پھنس گئے تو یہ تمہیں دین سے ہٹا دیں گے۔ عیاش کو ایک لالچ یہ بھی تھا کہ وہ مالدار آدمی تھے اور کچھ مال نکال لانا چاہتے تھے۔ حضرت عمر نے پیش کش کی کہ میں اس سے زیادہ مال رکھتا ہوں۔ اور تم مجھ سے آدھا مال لے لو۔ ان دونوں کے ساتھ نہ جاؤ ۔ عیاش نہ مانے۔*

*❥❥_:- حضرت عمر نے کہا کہ اچھا اگر یہی طے ہے تو میری اصیل اونٹنی لے جاؤ جہاں کوئی اندیشہ محسوس ہو، بھاگ نکلنا۔ مگر مکی سازشیوں نے راستے میں ایسی چال چلی کہ اصیل اونٹنی سے فائدہ اٹھانا بھی عیاش کے بس میں نہ رہا اور ان کی مشکیں کس لی گئیں۔*

*"❀_ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دست خاص سے ایک خط ہشام بن العاص کو لکھا اور اس میں مشہور آیت درج کی۔ اس خط کو مکہ کے پاس "ذی طوی" نامی موقع پر ہشام نے پڑھا۔ بار بار غور کیا اور جب بات پا لی کہ اس میں اشارہ خود اس کی جانب ہے تو فوراً اونٹ لیا۔ کجاوا کسا اور روانہ ہو گیے،*

*"❀_ لیکن اس سے زیادہ مضبوط روایت یہ ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لا چکے تو ایک دن مجلس میں ان دونوں محبوسین کا ذکر چھڑا۔ آپ نے فرمایا ۔ " عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص کو نجات دلانے کے لیے کون مجھے اپنی خدمات سونپتا ہے ؟"*

*"❀_ ولید بن مغیرہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ ولید حکم نبوئی کے مطابق مکہ روانہ ہو گئے۔ چھپتے چھپاتے آبادی کے قریب آئے۔ ایک عورت کھانا لے جاتی نظر آئی۔ پوچھا۔ ”اللہ کی بندی کدھر کو جا رہی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”یہاں دو قیدی ہیں یہ کھانا ان کے لیے ہے"۔ ولید پیچھے ہو لیے۔ وہی دونوں تھے اور ایک بے چھت کے مکان میں بند تھے۔*

*"❀_ شام ہو گئی تو یہ دیوار پھاند کر اترے۔ ان کی بیڑیوں کے نیچے پتھر رکھ کر اپنی تلوار سے ان کو کاٹ ڈالا۔ پھر باہر نکال کر دونوں کو اونٹ پر بٹھالیا اور راہ فرار اختیار کی۔*     

  
*❥❥__اسی طرح اکثر لوگ خود اگر نکلے بھی تو مکہ والوں نے ان سے ان کے اموال رکھوا لیے, لیکن ہجرت کے اس درجہ جگر آزما ہونے کے باوجود مرد ہی نہیں، خواتین بھی برابر جادہ فرض پر اقدام کر رہی تھیں۔*

*"❀_ مہاجرین کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر قریش اپنی بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے، جب بجز ایسے چند افراد کے کوئی باقی نہ رہا جنہیں قریش کے جبر نے محصور کر رکھا تھا یا جن کو کسی مفاد یا مصلحت نے باندھ رکھا تھا، تو اس وقت آپ کو آسمانی حکومت کی طرف سے پروانہ ہجرت ملا۔*.

*❀"_ آپ ﷺ نکلے تو ایسے عالم میں نکلے جب کہ مکہ والے آپ کو زندہ دیکھنے کے روادار نہ تھے اور جب نکلنے کی گھڑی آگئی تو خون کی پیاسی تلواروں کے گھیرے میں سے آپ بے خوفی کی شان سے نکل گئے۔*

*"❀_مہاجرین کی تعداد جوں جوں بڑھ رہی تھی مدینہ میں زندگی کی رو زور پکڑ رہی تھی۔ دعوت حق کا اجالا آہستہ آہستہ پڑھتا جا رہا تھا۔ اور جتنا جتنا اسلام دلوں کی دنیاؤں کو فتح کرتا جاتا تھا۔ اسلام کا پیغام لانے والے محسن کی محبت بڑھتی جاتی تھی۔ خصوصاً بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد سے مدینہ کی چشم انتظار ہر دم مکہ سے آنے والے راستہ پر لگی رہنے لگی۔*

    
*❥❥_ ہوا کی لہریں یہ اطلاع بھی کسی نہ کسی طرح لے آئیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے نکل چکے ہیں اور جادہ ہجرت کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اس خبر پر مدینہ میں اشتیاق کے جذبات اضطراب کی حد کو پہنچ گئے ہوں گے۔ انتظار کی بے چینیاں زور پکڑ گئی ہوں گی۔*

*"❀_ سوچو کہ ہر طرف کیا چرچے ہوں گے؟ کیا استفسارات ہوا کرتے ہوں گے ؟ کیسی گفتگو میں محفلوں کی رونق رہتی ہوں گی؟ جذبات و احساسات کا کیا عالم ہو گا ۔ مشرکین کا یہود کا انصار کا مسلمانوں کا۔*

*"❀_چھوٹے چھوٹے بچوں کی زبانوں پر یہی بات رہنے لگی کہ رسول ﷺ آرہے ہیں، رسول ﷺ آرہے ہیں۔ لوگ ہر صبح گھروں سے نکلتے اور شہر سے باہر جمع ہو کر انتظار کرتے۔ جب گرما کا سورج اونچا ہو جاتا اور دھوپ قابل برداشت نہ رہتی تو حسرت زدہ ہو کر لوٹ جاتے۔*

*"❀_ یوم قدومت کو بھی لوگ اسی طرح جمع ہو کر لوٹ رہے تھے کہ ایک یہودی نے قلعے پر سے دیکھا اور مژدہ سنایا۔ کہ اہل یثرب والو تمہیں جس بزرگ کا انتظار تھا وہ آپہنچے" ۔ تمام شہر تکبیرات سے گونج اٹھا۔ لوگ بے تابانہ وار دوڑے۔ اکثر انصار خوب ہتھیار لگا لگا کر نکلے۔*

*❥❥__اولین قیام مقام قبا میں ہوا جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مضافاتی آبادی تھی۔ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کے خاندان نے نعرہ ہائے مسرت کے ساتھ استقبال کیا اور اسی خاندان کو شرف میزبانی حاصل ہوا۔*

*"❀_ یہ گھر دراصل تحریک اسلامی کا ایک مرکزی اڈہ (CENTRE) تھا۔ مہاجرین میں اکثر کے لیے منزل اول میں گھر بنا اور بعض مہاجر صحابی اس وقت بھی یہیں مقیم تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امانتوں کی ادائی کے بعد روانہ ہو کر یہیں کاروان محبوب کے ساتھ آملے۔*.

*"❀_ یہاں چودہ روز قیام رہا۔ اور مہاجرین جوق در جوق شرف ملاقات کو آرہے تھے۔ لوگ اس ہستی کو دیکھنا چاہتے تھے۔ جس کا پیغام ان کے سینوں میں گھر کر چکا تھا۔ اس کے چہرے کی ایک جھلک نگاہوں کے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے تھے، اس کے منہ سے میٹھے بول سننا چاہتے تھے، اس کی دعائے خیر سے حصہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ غائبانہ عقیدت اب محسن انسانیت کو رو در رو دیکھنا چاہتی تھی۔*

*❀"_ سلام ملاقاتیں گفتگوئیں، دعائیں، مجلسیں کیا کچھ نہ ہو گا۔ قبا میں آپ نے اپنے ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ ایک ایک مسلمان اس تعمیر کی مہم میں شریک تھا اور خود دنیا کا سب سے بڑا تاریخ ساز ایک معمولی مزدور کی طرح بھاری بھر کم پتھر اٹھا اٹھا کر لا رہا تھا۔ کام ہو رہا تھا اور گیت گایا جا رہا تھا،*
*"_( ترجمہ) یعنی کامیاب وہ ہے جو مسجدیں تعمیر کرے۔ اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھے اور راتوں کو (عبادت کے لیے) جاگے_,"*

 *❀"_یہ مسجد محض اینٹ پتھر اور گارے اور پھونس کا مجموعہ نہ تھی۔ اس میں خاتم النبین ﷺ سے لے کر ایک عامی مسلمان تک ہر ایک نے بہترین جذبات صرف کئے تھے۔ اسی لیے اس کی شان میں قرآن نے کہا۔ "لمسجد امس على التقوى". یہ ایسی مسجد ہے کہ اس کی بنیاد تقویٰ پر استوار کی گئی ہے۔*

                *❥❥_ چودہ روز بعد انسان اعظم ﷺ نے صحابہ کرام سمیت مدینہ کا رخ کیا۔ قبا سے مدینہ تک دو رویہ انصار خیر مقدم کے لیے صفیں باندھے کھڑے تھے۔ آپ کے ننھیالی رشتہ داروں نے خاص اشتیاق سے ہتھیار لگائے۔ عورتیں چھتوں پر جمع تھیں اور ترانہ خیر مقدم گا رہی تھیں۔ اور چھوٹی بچیوں کے غول گھوم رہے تھے یہ لڑکیاں دف بجا بجا کر گاتی پھرتی تھیں۔*

*"❀_ ذرا تصور میں لائیے اس تاریخی گھڑی کو جو مدینے کے نصیب میں آئی تھی۔ گلیوں کی خاک کے ذرے ذرے میں دل دھڑک رہے ہوں گے۔ دیواروں کے درزوں کو آنکھیں مل گئی ہوں گی۔ ہوا کے جھونکوں میں انسانی احساسات پیدا ہو گئے ہوں گے۔ عارضی قیام کے لیے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کی قسمت جاگی۔ سات ماہ نبی اکرم ﷺ کا قیام ہیں رہا۔*

*"❀_ جونہی ذرا سکون ہوا اور مسافرت کی کیفیت ختم ہوئی تو سرور عالم ﷺ تعمیری اقدامات کی طرف متوجہ ہوئے۔ اولین مہم مسجد کی تعمیر کی تھی۔ دو یتیم بچوں کی افتادہ زمین خریدی گئی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے قیمت ادا کی۔ اس زمین پر مسجد نبوی کی تاسیس ہوئی۔*

*"❀_ مسجد کی اہمیت صرف بطور معبد ہی کے نہ تھی۔ بلکہ اسے اسلامی نظام تمدن و ریاست کا سرچشمہ و مرکز بننا تھا۔ وہ حکومت کا دربار مشورے کا ایوان سرکاری مہمان خانہ، جمهوری دار العلوم اور قومی لیکچر ہال کی حیثیت سے برپا کی گئی۔*

*❥❥_اس اولین تعمیری اقدام پر وہی قبا والا نقشہ پیش آیا۔ کون مسلمان ہو گا جس نے اس میں دل و جان سے حصہ نہ لیا ہو گا۔ خود سرور عالم ﷺ پتھر اور گارا اٹھا اٹھا کر لاتے۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک مسلمان مارے جذبات کے پکار اٹھا کہ : ( ترجمہ) یعنی اگر خدا کا نبی اس کام میں یوں لگ جائے اور ہم بیٹھے دیکھتے رہیں تو ہمارا کیا کرایا غارت ہوا۔*

*"❀_ کام کی گرما گرمی میں کوئی بیہودہ گوئی نہ تھی۔ بلکہ آنحضور ﷺ سمیت سب کے سب یہ صدا بلند کر رہے تھے۔ لا عيش الا عيش الآخرة اللهم ارحم الأنصار والمهاجره یعنی آخرت کی ابدی زندگی ہی زندگی ہے۔ اور وہ نہ ہو تو پھر زندگی بیچ ہے۔ اے اللہ ! تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔*.

*❀"_ یہ تھی اسپرٹ اور یہ تھیں دعائیں جو مسجد نبوی کی تعمیر کا اصل مسالہ بنیں۔ مسجد کے ساتھ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گارے اور پھونس کے حجرے (کوارٹرز) تعمیر ہو گئے۔ آپ ﷺ اپنے انہی کوارٹرز میں منتقل ہو گئے۔*

*"❀_ مدینہ میں حضرت رسالت مآب ﷺ کی تشریف آوری سے از خود دعوت کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ اور اس سات ماہ کے عرصے میں تحریک حق نے قبیلے قبیلے اور گھر گھر سے جان نثار حاصل کر لیے،*

*❥❥_ انفرادی دعوت کے علاوہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی طور سے کام کا آغاز جس خطاب عام سے کیا وہ ان الفاظ پر مشتمل تھا۔ (حمد و ثنا کے بعد) "لوگو! اپنی جانوں کے لیے وقت پر کچھ کمائی کر لو, خوب جان لو خدا کی قسم تم میں سے ہر ایک پر موت وارد ہو گی۔ اور وہ اپنے گلے کو اس حال میں چھوڑ کر رخصت ہو گا کہ کوئی اس کا چرواہا نہ رہے گا۔ پھر اسے اس کے پروردگار کی طرف سے ایسے عالم میں خطاب کیا جائے گا جب کہ بیچ میں کوئی ترجمان نہ ہو گا۔ کہا جائے گا کہ کیا تجھ تک میرا رسول نہیں پہنچا تھا جس نے بات تجھ تک پہنچائی ہو۔ پھر کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا اور تجھ پر نوازش نہیں کی تھی؟ تو پھر اپنی جان کے لیے تو نے کیا اندوختہ کیا؟*

*"❀_ پس وہ دیکھے گا دائیں ہائیں ، لیکن کچھ نہ دکھائی دے گا۔ پھر سامنے کی طرف نگاہ ڈالے گا۔ مگر بجز جہنم کے اور کچھ سامنے نہ آئے گا۔ سو جس کو بھی توفیق ہو کہ وہ کھجور کی ایک پھانک کے عوض بھی اپنے چہرے کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے کچھ کر سکتا ہو تو کرے۔*

*"❀_ جو اتنا بھی نہ کر سکے وہ کوئی بھلی بات کہہ کر ہی بچاؤ کرے۔ کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے اور تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں وارد ہوں"۔( سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص ۱۸)*

*❥❥_ دوسرا خطاب عام جو آپ ﷺ نے فرمایا یہ تھا: "ساری تعریف اللہ کے لیے ہے۔ میں اس کی حمد کرتا ہوں۔ اسی سے مدد چاہتا ہوں! ہم سب اپنے دلوں کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں کے مقابلے میں اللہ ہی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ ہدایت سے محروم کر دے اس کے لیے کوئی رہنما نہیں۔*

*❀"_ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کہ جو ایک ہے اور جس کے ساتھ کوئی دوسرا حصہ دار نہیں کوئی اور قابل عبادت و طاعت ہستی نہیں۔ بلا شبہ بہترین بیان الله تبارک و تعالیٰ کی کتاب ہے، جس شخص کے دل کے لیے اللہ نے اس کو محبوب بنا دیا اور جسے کفر کے بعد اسلام میں داخل کیا۔ اور جس نے اور سارے انسانی بیانوں کے مقابلے میں اسے اپنے لیے پسند کر لیا' اس نے فلاح پائی۔*

*❀"_ یہ بہترین بیان ہے اور سب سے زیادہ موثر ۔ تم وہی کچھ پسند کرو جو اللہ کو پسند ہے اور اللہ سے اخلاص کے ساتھ محبت کرو۔ اللہ کے کام سے تغافل نہ بر تو اور تمہارے دل اس کے لیے سخت نہ ہونے پائیں۔*

*"❀_ چونکہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ جو کچھ پیدا کرتا ہے اس میں سے بہتر کو چھانٹتا اور منتخب کرتا ہے، سو اس نے اعمال میں سے بہترین اور بندوں میں سے برگزیدہ ترین اور بیانوں میں سے پاکیزہ ترین کو متعین فرما دیا ہے۔ نیز انسانوں کو جو کچھ دیا گیا ہے اس سب میں سے کچھ حلال ہے، کچھ حرام۔ پس اللہ کی غلامی اختیار کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دو۔ اس کے غضب سے اس طرح بچو جیسا کہ بچنے کا حق ہے۔*

*"❀_ اور اللہ کے حضور میں وہ سارے پاکیزہ اقوال سچ کر دکھاؤ جن کو تم اپنی زبانوں سے ادا کرتے ہو۔ اور اللہ کی رحمت کے ذریعے ایک دوسرے سے محبت کا رشتہ استوار کرو. یقیناً اللہ ناراض ہوتا ہے اگر اس کے ساتھ باندھے ہوئے (ایمان کے) عہد کو توڑا جائے۔ اور تم پر سلامتی ہو"*.
*®_(سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص ۱۱۹ ۱۱۸)*

*❥❥_ اسلامی ریاست کی تاسیس:- تیسرا تعمیری اقدام اور شاید سیاسی لحاظ سے سب سے بڑا تعمیری اقدام یہ تھا کہ ریاست چلانے کے لیے مدینہ کے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا گیا۔ ایک تحریری معاہدہ استوار کیا گیا جس کی نوعیت در حقیقت ایک باقاعدہ تحریری دستور کی ہے۔ اس کو بجا طور پر دنیا کا پہلا تحریری دستور کہا جاتا ہے۔*

*"❀_ اس دستوری معاہدے کے ذریعے مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو اساسی اہمیت حاصل ہو گئی۔ سیاسی قانونی اور عدالتی لحاظ سے آخری اختیار (Authority) محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ‌آگیا۔*

*"❀_دفاعی لحاظ سے مدینہ اور اس کے نواح کی پوری آبادی ایک متحدہ طاقت بن گئی اور اس کے کسی عصر کے لیے قریش کی حمایت کے دروازے بند ہو گئے۔ نیز دفاعی لحاظ سے بھی مرکزی اور فیصلہ کن اختیار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا۔ اس دستوری معاہدہ سے باضابطہ طور پر اسلامی ریاست اور اسلامی نظام حیات کی تاسیس واقع ہو گئی۔*

*"❀_ نظام مواخات : مدینہ کے معاشرہ کا ایک بڑا مسئلہ سینکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ تھا۔ گھر بار چھوڑ چھاڑ کر مسلسل لوگ اکھڑے چلے آرہے تھے اور چند ہزار کی آبادی رکھنے والی متوسط سی بستی کو انہیں اپنے اندر جذب کرنا تھا۔ مدینہ کے معاشرے اور اس کے صدر ریاست نے جس کمال حکمت سے حل کیا اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں نہیں ملتی۔*

*❥❥_ محض ایک اخلاقی اپیل کے ذریعے اس پر پیچ مسئلے کو چند روز میں حل کر لیا گیا۔ سرور عالم ﷺ نے عقیدے اور نظریے اور مقصد کی صحیح معنوں میں ایک نئی برادری پیدا کر دکھائی اور ایک ایک انصاری کے ساتھ ایک ایک مہاجر کا برادرانہ رشتہ قائم کر دیا۔ انصار کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے مال، مساکن باغات اور کھیت آدھوں آدھ بانٹ کر رفقاء مقصد کو دے رہے تھے بلکہ بعض تو یہاں تک تیار ہو گئے کہ دو دو بیویوں میں سے ایک ایک کو طلاق دے کر اپنے دینی بھائیوں کے نکاح میں دے دیں۔*

*"❀_ دوسری طرف مہاجرین کی خود داری کا نقشہ یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں کھیت یا بازار کا راستہ دکھا دو ہم تجارت یا مزدوری کر کے پیٹ پال لیں گے۔* 

*"❀_ بلخصوص نو عمر مہاجرین جو اپنے آپ کو تعلیم کیلئے وقف کرنا چاہتے تھے ان کی اقامت گاہ "صفہ " (مسجد نبوی کا ایک چبوترہ) تھی۔ تعمیری کام کے سلسلے میں یہ ایک اہم ادارہ تھا۔ اصحاب صفہ کی کفالت سوسائٹی کرتی تھی۔ اور آنحضور ﷺ خود ان کی ضروریات کی تعمیل میں سرگرم رہتے۔*

*❀"_۔ مدینہ میں جس نئے معاشرہ کی اٹھان ہو رہی تھی اسے دیکھ دیکھ کر شیطان بری طرح تلملا رہا تھا۔ وہ اپنے کچھ فداکار اور جاں نثار میدان میں لانا چاہتا تھا۔ انہوں نے داعی حق اور تحریک اسلامی اور اس کے کارکنوں کے خلاف پھبتیاں کسیں ، مذاق اڑائے نت نئے سوالات اور اعتراضات گھڑ گھڑ کرکٹ بیتیاں کیں، الزامات لگائے، مخبریاں اور جاسوسیاں کیں۔*

*"❀_ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو باہم دگر لڑانے کے منصوبے تیار کئے۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کیں۔ اور جنگ اور ایمر جنسی کے حالات میں سخت قسم کی غداریاں کیں۔ اپنی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا۔*

*❥❥__ ابتداء میں یہود کو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام سے بڑی اچھی امیدیں تھیں۔ ان کا اندازہ یہ تھا کہ آہستہ آہستہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفقاء کو اپنے اندر جذب کر لے جائیں گے۔ یہود کا ذہن حق پرستانہ طرز پر نہیں سوچ رہا تھا، بلکہ یہ خالص سوداگرانہ طرز فکر تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ اجڑے پکڑے لوگ جو سینکڑوں کی تعداد میں اکھڑے چلے آرہے ہیں۔ ان کو ہم اپنے باڑے کی بھیڑیں بنا سکیں گے۔*

*"❀_ اسی امید پر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدات استوار کر لیے اور اس سیاسی تنظیم کو گوارا کر لیا، جو مدینہ میں قائم کی جارہی تھی۔ ان کا اندازہ یہ تھا کہ یہ سیاسی طاقت جو اپنی کو نپلیں نکال رہی ہے یہ تو بس ہماری جیب میں ہے۔ ہماری پیری اور مشیخت کی گدیاں اس کو چار جانب سے احاطہ کئے ہوئے ہیں اور ہمارے علم و تقویٰ کے ساتھ اپنا دامن اس کے اوپر پھیلائے ہوئے ہے۔*

*"❀_ مگر کچھ ہی مدت کے تجربے سے ان کی خوش فہمیوں کا خاتمہ ہونے لگا۔ انہیں اسلامی جماعت نے جتلا دیا کہ یہ کوئی سستا شکار نہیں ہے، یہ ایسی مضبوط طاقت ہے کہ شکاری اس کے ہاتھوں خود شکار ہو کے رہ جانے والے ہیں۔ ان کی نگاہوں کے سامنے آہستہ آہستہ ایک انقلابی مزاج کی ریاست پروان چڑھنے لگی۔ اور یہ ریاست اپنے وجود میں ایک قلعے کی طرح مضبوط بنتی گئی،*

*"❀_ چنانچہ اندر ہی اندر ان میں ایک حاسدانہ ابال پیدا ہونے لگا حتیٰ کہ مرتبہ کمال تک پہنچ کر اس نے غداری کی صورت اختیار کرلی۔*.

*❥❥__ یہودیوں میں ایک بزرگ عبد اللہ بن سلام تھے ۔ قبل اسلام ان کا نام حصین تھا۔ یہ بلند پایہ عالم و متقی تھے اور مذہبی لیڈر تھے، ان کا تعلق بنی قینقاع سے تھا۔ حضور ﷺ سے ملاقات کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی دعوت دی اور متاثر کر لیا۔ چنانچہ سب تحریک اسلام کے حلقے میں داخل ہو گئے۔*

*"❀_ ان کے قبول اسلام کی داستان سنئے جسے ان سے ان کے ایک عزیز نے روایت کیا ہے۔ ”میں نے جب اللہ کا پیغام لانے والی ہستی کے بارے میں سنا تو آپ کی صفات، آپ کے نام اور آپ کے زمانے کو پہچان لیا۔ کیونکہ ہم اس کے انتظار میں تھے۔ سو اس اطلاع پر میں دل ہی دل میں خوشی محسوس کر رہا تھا، لیکن زبان سے کچھ نہیں کہتا تھا۔*

*❀"_ آخرکار رسول خدا ﷺ مدینہ پہنچے۔ جب آپ قبا میں بنی عمرو بن عوف کے گھرانے میں پہنچے تو ایک شخص آیا اور اس نے آپ کی تشریف آوری کی اطلاع مجھے اس عالم میں دی کہ میں اپنے کھجور کے درخت کی چوٹی پر چڑھا کام میں مصروف تھا۔ میری پھوپھی خالدہ بنت حارث نیچے بیٹھی تھیں۔ میں نے جونہی تشریف آوری کی خبر سنی تکبیر بلند کی، پھوپھی نے میری تکبیر سن کر مجھ سے کہا۔ ”خدا تجھے غارت کرے۔ تجھے اگر موسیٰ بن عمران کی آمد کا مژدہ ( خوشخبری) بھی ملا ہوتا تو تو اس سے بڑھ کر اظہار مسرت نہ کرتا۔*

*❀"_ میں نے کہا : پھوپھی جان! خدا کی قسم! یہ موسیٰ بن عمران کے بھائی ہیں۔ اور ان ہی کے دین پر کاربند ہیں۔ یہ وہی پیغام لائے ہیں جو موسیٰ لائے تھے " اس پر وہ کہنے لگیں ”اے میرے برادر زادے! کیا یہ وہی نبی ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے۔ کہ وہ قیامت کی گھڑی کے قریب اٹھایا جائے گا؟ میں نے کہا کہ ہاں یہی تو وہ ہے"*

*❀"_ پھر میں خدا کا سندیسہ لانے والے کی خدمت میں پہنچا اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور ان کو بھی دعوت دی سو وہ بھی حلقہ اسلامی میں داخل ہو گئے۔*

*❥❥_ یہ نو مسلم عالم ( عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ) چونکہ یہود کی کمزوریوں کے راز داں، ان کی حاسدانہ نفسیات اور ان کے ذلیل کردار کے رمز شناس تھے۔ اس لیے خوب سمجھتے تھے کہ میرے ذہنی انقلاب پر کیا تاثر دیا جائے گا۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ ان پستیوں پر سے تصنع کے پردے اٹھوا دیئے جائیں۔ دل ہی دل میں ایک ڈرامے کا نقشہ بنا کر انہوں نے اپنے اسلام کو مخفی رکھا۔*

*"❀_ مناسب موقع پر محسن انسانیت ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یہود ایک باطل زدہ گروہ ہیں۔ اور ان کے فساد احوال کو بے نقاب کرنے کے لیے آپ مجھے اپنے گھر میں پس پردہ بٹھا دیں اور ان کی نگاہوں سے مخفی رکھ کر ان کی رائے میرے بارے میں دریافت فرمائیں۔ اور پھر ملاحظہ فرمائیں کہ میرے اسلام لانے سے ناواقف ہوتے ہوئے مجھے کیا مقام دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان کو میرے قبول اسلام کا علم ہو گیا تو پھر وہ مجھ پر بہتان باندھیں گے اور عیب جوئی کریں گے۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے ایسا ہی کیا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو گھر میں آڑ کے پیچھے بٹھا دیا۔ اور ادھر یہودی بزرگ آپہنچے ۔ باتیں ہوئیں۔ سوالات پوچھتے رہے اور جواب دیئے جاتے رہے۔ آخر میں رسول خدا ﷺ نے پوچھا۔ "حصین بن سلام تم میں سے کیسے آدمی ہیں؟" کہنے لگے کہ وہ ہمارے سردار ہیں۔ اور ہمارے ایک سردار کے فرزند ہیں۔ ہمارے ایک مرد جلیل ہیں، ایک بلند پایہ عالم ہیں۔*

*"❀_ جب وہ سب کچھ کہہ چکے تو عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اوٹ سے باہر آگئے اور ان کو مخاطب کر کے کہا: ”اے گروہ یہود! خدا کا خوف کرو۔ اور جو دین حضور ﷺ کے ذریعے آیا ہے اسے اپنا لو۔ کیونکہ خدا کی قسم! تم خوب سمجھتے ہو کہ آپ ﷺ اللہ کے فرستادہ ہیں۔ تم حضور ﷺ کے اسم گرامی اور آپ کی صفات کا تذکرہ اپنے ہاں تورات میں لکھا دیکھتے ہو، سو میں تو گواہی دیتا ہوں کہ حضور ﷺ خدا کے فرستادہ ہیں۔ اور آپ پر ایمان لاتا ہوں اور آپ کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کو پہچانتا ہوں۔*

*"❀_ یہود پردہ اٹھا دینے والے اس ڈرامے کو دیکھ کر بہت سٹپٹائے اور کہنے لگے۔ ”تم جھوٹے ہو"۔ اور پھر عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے درپے ہو گئے۔ ابھی چند ثانیے پہلے جس شخص کو سید اور عالم اور مرد جلیل قرار دیا گھڑی بھر میں اس کو جھوٹا آدمی کہہ رہے تھے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے حضور ﷺ سے کہہ نہیں دیا تھا کہ یہ ایک باطل زدہ گروہ ہے۔ یہ سرکشی، جھوٹ اور برائی سے آراستہ لوگ ہیں۔ اس دلچسپ طریقے سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے اسلام کا اعلان کیا۔*

       
*❥❥__ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی بن اخطب یہ روداد بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے والد اور چچا کی نگاہ میں ساری اولاد سے زیادہ چہیتی تھی اور دونوں ہمہ وقت ساتھ رکھتے تھے۔ جب رسول خدا ﷺ مدینہ آئے اور قبا میں قیام فرمایا ۔ تو میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر بن اخطب ملاقات کے لیے گئے،*

*"❀_ جب لوٹے تو غروب آفتاب کا وقت تھا۔ معلوم ہو تا تھا کہ بہت تھکے ماندے اور پریشان خاطر ہیں۔ وہ بہت دھیمے انداز سے چلے آرہے تھے۔ میں معمول کے مطابق مسکراتی ہوئی ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ لیکن بخدا پریشانی کے مارے دونوں میں سے کسی نے میری طرف التفات نہ کیا۔*

*"❀_ میرے چچا ابو یاسر والد سے کہہ رہے تھے۔ کیا یہ وہی (پیغمبر موعود) ہے؟" والد نے کہا ”ہاں خدا کی قسم " چچانے پھر پوچھا۔ "کیا تم نے اسے پہچان لیا ہے۔ اور یقین کر لیا ہے؟ والد نے جواب دیا ”ہاں“۔ اس پر چچا نے دریافت کیا۔ ”پھر اس کے لیے تمہارے دل میں کیا جذبہ ہے؟" والد نے کہا: ” دشمنی ہی دشنی ۔۔۔ جب تک زندہ ہوں خدا کی قسم!*

*"❀_یہ تھا یہود کا اصل ذہن ! یعنی خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے آنے والا داعی حق ہے۔ خدا کا پیغام لانے والا ہے۔ اس کا ہر بول اس کی سچائی پر گواہ ہے, اس کا پورا کردار اس کے مرتبہ کو نمایاں کر رہا ہے, اس کا چہرہ اور اس کی وجاہت اس کی نبوت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ سمجھتے ہی نہیں خلوتوں میں زبان سے اقرار تک کرتے ہیں۔ لیکن ایمان و اطاعت کی راہ اختیار کرنے کی بجائے مخالفت و عداوت کا عزم باندھتے ہیں۔ یہ فطرت یہود کے ہاں عام تھی،*
 ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           
                
              *⚂_ مناظرانہ سوالات _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے تحریک اسلامی میں شامل ہو جانے کے بعد یہود نے مناظرانہ بحثوں اور کاوشوں کے مور چے جمانے پر پوری پوری توجہ صرف کر دی۔، مگر یہ ساری کارروائی بھی کھلے مورچوں سے نہیں، منافقت کے پردوں سے جاری کی گئی۔ یہ بہروپئے تحریک اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہوتے۔ پھر باتوں باتوں میں گریہ مسکینی کے طرز سے ہونٹ لٹکا لٹکا کر سوالات سامنے لاتے۔*

*"❀_ ایک اجتماع میں حضور رسالت مآب ﷺ کے سامنے انہوں نے یہ سوال رکھا: "خلق کو جب خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو آخر خود خدا تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟*

*"❀_ دیکھا آپ نے ذہن کا ٹیڑھ ! ۔۔۔ یہود خود اسی خدا پر ایمان رکھنے کے دعوے دار تھے ، اس کے پیغمبروں کے معتقد اور اس کی کتاب کے علمبردار تھے۔وہ خدا کو پہلے سے جانتے تھے، اس کی صفات سے آگاہ تھے۔لیکن اسی خدا کی طرف جب اسلام نے بلایا تو خدا کے بارے میں ان کے دلوں میں بڑا بھاری اشکال پیدا ہو گیا۔ اور ان کے سوال کا گویا ظاہری مدعا یہ تھا کہ اگر یہ اشکال رفع ہو جائے تو پھر ان کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ کھل جائے۔ لیکن سوال کا ٹیڑھ بتا رہا ہے کہ مقصود طلب ہدایت نہیں بلکہ لوگوں کو ہدایت سے بچنے کے لیے راہ فرار دکھانا ہے۔*

*"❀_ آنحضور ﷺ نے اس ٹیڑھے سوال کا جواب بہت ہی سیدھے طریق سے دیا۔ یعنی سنجیدگی سے سورہ اخلاص پڑھ دی۔ ”کہو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے ۔ اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں ، وہ کسی کا محتاج نہیں، نہ اس کی کوئی اولاد ہے ، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ۔اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں ۔*

*❥❥__آئیے آپ کو ایک اور دلچسپ مجلس گفتگو میں لے چلیں۔ یہود کے بعض نامور مولوی ایک دن حضور ﷺ کے حلقہ میں آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے چار سوالوں کا جواب دیجئے۔ پھر ہم آپ کی دعوت مان لیں گے۔ اور آپ کی اطاعت قبول کرلیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب اس عہد کی ذمہ داری تم پر ہے۔ پوچھو جو کچھ پوچھنا ہے۔*

*"❀_ ا۔ بچہ ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے جب کہ وہ اپنے باپ کے نطفہ سے تشکیل پاتا ہے؟ ۲۔ آپ کی نیند کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ ۳ اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) نے کیا چیزیں اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور کیوں؟ چوتھا سوال پوچھا گیا کہ روح (فرشتہ وحی) کیا ہے؟*

*"❀_ حضور ﷺ نے سکون سے ایک ایک سوال کا جواب دیا۔ اور آخری سوال کے جواب میں فرمایا کہ تم خود اس بارے میں جانتے ہو کہ وہ "جبریل" ہے اور وہی میرے پاس آتا ہے۔ سب سوالات ہو چکے۔ جواب سامنے آگئے۔ ان جوابوں میں سے کسی کی تردید نہیں کی گئی۔ بلکہ ہر ایک پر کہا گیا۔ اللهم نعم " یعنی ٹھیک اے ہمارے اللہ !*

*"❀_ آپ توقع کریں گے کہ ان جوابات کے بعد انہوں نے دلوں کے دروازے اسلام کے لیے کھول دیئے ہوں گے۔ ہرگز نہیں ! آخری بات پر وہ کہنے لگے: لیکن اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) جبریل تو ہمارا دشمن ہے، وہ ایک فرشتہ ہے کہ جب آتا ہے تو مصیبت اور خون خرابے کا پیغام لے کے آتا ہے"۔ مراد یہ تھی کہ وہ جب خدا کی طرف سے دین کی علمبرداری کا مطالبہ لاتا ہے تو ایک کشمکش ناگزیر ہو جاتی ہے، طرح طرح کے نقصانات سر پڑتے ہیں۔ اس سے ہماری نہیں بنتی۔ بس اس فرشتے کی دشمنی آڑے نہ آئی ہوتی تو پھر ہم آپ کا ضرور ساتھ دیتے اور آپ کے نقش قدم پر چلتے۔*.

*❥❥__یعنی دعوت ٹھیک ، پیغام برحق تحریک درست ، مگر اس کے پس منظر میں جس فرشتے کو خدا نے لا ڈالا ہے اس سے ہماری صاحب سلامت ختم ہو چکی ہے۔ لہذا جہاں وہ ہو گا وہاں ہم نہیں آسکتے ! چاہے فرشتہ خدا کا مقرر کردہ اور مقرب ہو۔ کیا ہی ٹیڑھی کھو پڑیاں تھیں ان لوگوں کی!*

*"❀_ اس کا جواب محسن انسانیت ﷺ نے قرآن کے الفاظ میں ایسا دیا کہ بس سننے والوں کو ہمیشہ یاد رہا ہو گا۔ فرمایا۔ کہو (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کہ جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو وہ کان کھول کر سن لے کہ ) قرآن کو اللہ تعالی نے تمہارے دل پر اپنے فرمان کے تحت اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اور ایمان لانے والوں کے لیے (عداوت اور مصیبت اور خون خرابے کا پیغام نہیں ہلکہ) ذریعہ ہدایت‌و بشارت ہے_, (البقرہ ۹۷)*

*"❀_ ایک اور بحث پیدا ہو گئی۔ سرور عالم ﷺ نے کسی موقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر سلسلہ انبیاء میں فرمایا۔ اس پر یہودی حلقوں میں بڑا چرچا ہوا۔ ہر طرف کہا جانے لگا کہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی انوکھی بات سنی؟ کہتے ہیں کہ سلیمان بن داؤد بھی پیغمبر تھے! خدا کی قسم وہ تو محض ایک جادوگر (نعوذ باللہ) تھے۔*

*"❀_ چنانچہ قرآن نے اس واہیات چرچے کی تردید کی کہ جادو گری تو ایک کافرانہ حرکت ہے اور حضرت سلیمان نے کبھی یہ حرکت نہیں کی۔ چاہ بابل کے جو قصے مشہور ہیں وہ تو شیطان کے کرشمے تھے۔*

*❥❥_حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے طور طریقوں کے مقابلے میں یہود کے بعض طریقوں کو پسند فرماتے، مثلاً مشرکین ہالوں میں مانگ نکالتے تھے اور یہود نہیں نکالتے تھے۔ سو آپ نے اس معاملے میں مشرکین کی مخالفت کی اور یہود کی موافقت ! جن معاملات میں قرآن میں کوئی حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد نہیں ہوتا تھا ان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اہل کتاب کی موافقت کرتے,*

*"❀_ مدینہ کے یہودی عاشورا کے دن کا روزہ رکھتے تھے، آپ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھا اور مسلمانوں کے لیے عاشورا کا روزہ رکھنا پسند فرمایا۔ کسی یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ کھڑے ہو جاتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لیے قبلہ نماز بیت المقدس تھا۔ یہ ایک کھلی ہوئی علامت تھی کہ تحریک اسلامی مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب سے زیادہ اقرب تھی۔*

*"❀__ امر واقعہ در حقیقت یہ تھا کہ یہودیت کا قالب تو اس مذہب کے مفاد پرست مولویوں اور پیروں نے پوری طرح مسخ کر ڈالا تھا۔ اور یہ قالب بے جان بھی ہو چکا تھا۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام جس دین کو لائے تھے وہ وہی اسلام تھا جسے سارے ہی انبیاء نے شرائط کے تھوڑے بہت تفاوت کے ساتھ پیش کیا تھا اور اب اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سامنے رکھ رہے تھے بلکہ ایک نظام کی صورت میں برپا کر رہے تھے۔*

*"❀__ یہی رشتہ تھا جس کی بنا پر حضور ﷺ کو بھی امیدیں تھیں کہ یہود اسلامی جد و جہد کو جوں جوں سمجھیں گے اس کا خیر مقدم کریں گے۔ اور اس کام کو اپنا کام سمجھیں گے۔ انہی امیدوں کی فضا میں قرآن نے اپنی دعوت یوں پیش کی تھی کہ اصل سوال گروہ بندیوں کا نہیں اصول و عمل کا ہے۔*  
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           
                   *⚂_ تحویل قبلہ _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_۔ اور یکایک تحریک اسلامی ایک انقلابی موڑ مڑ گئی۔ یہ موڑ تھا تحویل قبلہ کا واقعہ ! ۔ مکہ میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا تاکہ نظریہ اسلامی کی علمبردار جماعت کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہو۔اب دور مکہ کی وہ ضرورت ختم ہو چکی تھی جس کے تحت بیت المقدس کو عارضی طور پر قبلہ بنا لیا گیا تھا۔ مسلمانوں کا ذہنی رابطہ قبلہ ابراہیمی ہی سے اقرب تھا اور خود حضور ﷺ اسی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے اور یہی وجہ تھی کہ حضور کا قلب حقیقت شناس پہلے سے اس تبدیلی کا منتظر رہا۔*

*"❀_سولہ مہینے تک مدینے میں بیت المقدس کے رخ نماز ادا کی جاتی رہی۔ رجب یا شعبان ۲ھ کا واقعہ ہے کہ ابن سعد کی روایت ہے کے بموجب سرور عالم ﷺ بشر بن براء بن معرور کے ہاں دعوت پر گئے تھے، وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھا چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکا یک وحی کے ذریعے یہ آیت نازل ہوئ . کہا گیا کہ لو ہم تمہیں اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ سو (اب) مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں بھی تم ہو، اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو",*

*"❀_ اس حکم کے سنتے ہی خدا کے سب سے زیادہ اطاعت شعار بندے حالت نماز ہی میں رخ بدل لیتے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ ہی آپ کا اتباع کرنے والے تمام نمازی نئے قبلہ کی طرف مڑ جاتے ہیں۔*

*"❀_ بیت المقدس مدینے سے سیدھا شمال میں ہے اور مکہ جنوب میں۔ حالت نماز میں قبلہ کی تبدیلی کے معنی یہ ہوئے کہ امام کو مقتدیوں کے سامنے سے سیدھا پیچھے کی طرف آنا پڑا ہو گا۔ اور نمازیوں کی صف کو بالکل الٹے قدموں گھومنا پڑا ہو گا۔ اس کے بعد مدینہ اور آس پاس کی بستیوں میں عام منادی کرا دی گئی۔ براء بن عازب کا بیان ہے کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع میں تھے اور وہ اعلان سنتے ہی اسی حالت میں کعبہ کی طرف مڑ گئے۔*

*❥❥__حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ بنی سلمہ کے ہاں یہ اطلاع دوسرے روز نماز صبح کے دوران میں پہنچی، لوگ ایک رکعت پڑھ کر دوسری میں تھے کہ منادی کی پکار سنی اور اسے سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رخ بدل لیا۔ (تفہیم القرآن ج ١ ص ١١٩ تا ١٢١ )*

*"❀_ اس تبدیلی پر جو ہنگامہ بر پا ہونے والا تھا اس کے بارے میں پہلے سے قرآن نے آگاہ کر دیا۔ (البقره: ١٤٢، ترجمہ)"_ اب یہ بےوقوف لوگ کہیں گے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ان ( مسلمانوں ) کو اس قبلے سے رخ پھیرنے پر آمادہ کردیا جس کی طرف وہ منہ کرتے چلے آرہے تھے؟ آپ کہہ دیجیے کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کی ہیں ۔ وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دیتا ہے _,"*

*"❀_انہیں بتایا کہ پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنانے سے غرض یہ تھی کہ عربیت کے بت کو توڑا جائے۔ کیونکہ عرب اپنے قومی دائرہ سے باہر کی کسی چیز کی قدر ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اب بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ گھما دینے کا مدعا یہ ہے کہ اسرائیلیت کا بت بھی ٹوٹ جائے۔ ایک کام پہلے ہو چکا تھا دوسرا اب کر دیا گیا۔ عربیت کے پرستار پہلے چھٹ چکے تھے اور اسرائیلیت کے پرستار اب چھٹ جائیں گے۔*.

 *"❀_اب اس حلقہ میں وہی لوگ رہیں گے جن کی نگاہ میں اصل احترام اللہ کے فرمان اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کا ہے۔ رسول ﷺ کا دامن پورے اعتماد کے ساتھ تھام کر چلنے والوں کو ان تمام بے اصول افراد کو ان افراد سے چھانٹ کر الگ کرے گا جو اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہوں کہ مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں اور اصل مرکز اطاعت ہے،*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙           
                  *⚂_ اذان کی ابتداء _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ مدینہ میں جب اذان کی ابتداء ہوئی تو چونکہ یہود کے روایتی مسلک کے خلاف یہ بھی نظام مذہب میں ایک بدعت تھی، لہذا وہ اس پر بھی بڑا پیچ و تاب کھاتے۔ خصوصاً وہ دیکھ رہے تھے کہ اذان کے کلمات اسلام کی پوری انقلابی دعوت اور اس کے بنیادی نظریے کو جامعیت سے سامنے لے آتے ہیں اور دن میں پانچ مرتبہ ان کا پکارا جانا ۔۔۔ اور اونچی اور خوش آئند آواز میں پکارا جانا ۔۔۔۔ ایک موثر ذریعہ نشر و اشاعت ہے۔*.

 *"❀_یہ آواز ان کی عورتوں ان کے بچوں اور ان کے غلاموں کے کانوں میں پڑتی، ہر روز پڑتی اور پانچ پانچ بار پڑتی۔ تصور کیجئے کہ جب یہ انوکھی آواز بلالی سوز و ساز کے ساتھ گونجتی ہو گی تو مدینہ کی ساری فضا میں سناٹا چھا جاتا ہو گا۔ اپنوں پرایوں کے دل متوجہ ہو جاتے ہوں گے۔*

*"❀_ خصوصاً ان کو وہ فرق محسوس ہوتا ہوگا جو ناقوس بجانے اور اذان پکارنے میں تھا۔ اور جس کے بارے میں خود ان کے عوام بھی کچھ نہ کچھ احساس کرتے ہوں گے۔ ناقوس کی آواز میں نہ لفظ تھے نہ معنی تھے، بخلاف اس کے اذان کی آواز چند بولوں اور چند کلموں پر مشتمل تھی جن میں عام فہم معانی موجزن تھے،*

 *"❀_ ناقوس کی آواز میں انسانی جذبات کا اظہار نہیں تھا۔ لیکن اذان کی پکار میں انسانی قلب کا سوز و گداز کار فرما ہوتا تھا۔ اس فرق کو محسوس کر کے یہود بجائے اس کے کہ یہ اعتراف کر لیتے کہ اذان فی الواقع عبادت کی دعوت دینے کا بہتر اور موثر ذریعہ ہے اور اس کے کلمات قدر و قیمت رکھتے ہیں، وہ چڑ میں مبتلا ہو گئے۔*

*"❀_ اپنی مجلسوں میں، صحبتوں میں وہ اذان پکارنے والے کی آواز کو عجیب و غریب تشبیہیں دیتے۔ وہ نقلیں اتارتے اور اذان کے کلمات کو بگاڑ بگاڑ کر سامان تضحیک پیدا کرتے۔* 

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙              
         *⚂_ بد تمیزیوں کی آخری حد _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_۔ بد تمیزیوں کی آخری حد یہ تھی کہ خود اللہ میاں کو بھی (نعوذ باللہ) نشانہ بنا لیا گیا۔ مثلاً جب یہ آیت اتری که "من ذالذي يقرض الله قرضا حسنًا". یعنی کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو بجائے اس کے کہ اس کے سیدھے صاف مفہوم کو اخذ کیا جاتا، یہود نے یہ کہہ کر مذاق اڑانا شروع کیا- لوگو! سنتے ہو اب تو اللہ میاں بھی قلاش ہو گئے ہیں، لو اب وہ بندوں سے قرض مانگنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔*

*"❀_ خدا سے بے خوفی اور بے شرمی کی اس سے زیادہ ناپاک مثالیں کم ملتی ہیں۔ اسی طرح قرآن میں جہاں مکھی اور مچھر یا ایسی ہی بظاہر حقیر چیزوں کا بطور مثال تذکرہ ہوا ہے اور ان کے وجود سے کوئی استدلال کیا گیا ہے، وہاں یہ لوگ طنز و تحقیر کا طوفان مچانے کا موقع پا لیتے۔*

*"❀_ کہتے کہ ان کا خدا بھی عجیب ہے کہ جسے مثال دینے کے لیے بھی ملتی ہیں تو ایسی حقیر چیزیں ملتی ہیں۔ اس استہزاء میں یہ استدلال بھی شامل ہوتا کہ قرآن خدا کا کلام کیسے ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس کے اندر ان گھٹیا چیزوں کا تذکرہ ہے۔*

*"❀_ ان لوگوں کو کیا خوب جواب ملا کہ (البقرہ : ۲٦) : "ہاں! اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیل دے۔ جو لوگ حق بات کے قبول کرنے والے ہیں وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے اور جو ماننے والے نہیں ہیں وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار ؟*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙               
                *⚂_ مدینہ میں حالات _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ صلح حدیبیہ پر جب مسلمان مکہ گئے تو ان کے بدن بار بار کی علالتوں نے ایسے چور چور کر دیے تھے کہ اہل مکہ کی طرف سے طعنے دیئے گئے "_اور جاؤ نا مدینہ _," انہی طعنوں کا رد عمل تھا کہ رسول اللہ کے ارشاد کے تحت مسلمان اکڑ اکڑ کر چلتے تھے۔*

*"❀_ انہی حالات کی بناء پر حضور فرماتے تھے کہ "ان شان الهجرة لشدید». یعنی ہجرت کا معاملہ بڑا سنگین ہے کوئی کھیل نہیں! اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک بدو نے آکر سرور عالم کے ہاتھ پر بیعت کی، لیکن مدینہ آتے ہی بخار نے آلیا۔ اس نے اس کو اسلام کی بدشگونی قرار دیا اور اصرار کر کے بیعت ختم کرائی اور چلا گیا۔ اس واقعہ پر حضور نے فرمایا کہ مدینہ سنار کی بھٹی کی مانند ہے کہ کھوٹ میل کو اگل دیتی ہے اور زر خالص کو الگ کر لیتی ہے _,(بخاری)*

*"❀_۔ یہی دور تھا جب کہ حضور سرور عالم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا کی کہ ”اے اللہ ! ہمارے لیے مدینہ کو ویسا ہی دلکش بنا دے جیسے مکہ کو بنایا تھا یا اس سے بھی زیادہ۔ اور ہمارے لیے اس کے پیمانوں (یعنی غلے اور پیداوار) میں برکت عطا فرما۔ اور اس پر آئی ہوئی وہا کو جحفہ (میقات اہل شام) کی جانب منتقل کر دے۔" ( سیرت ابن ہشام -٢ /٢٢١)*

*"❀_دوسری طرف فقر و فاقہ کی کیفیت حد درجہ تشویش ناک تھی ، نئی جگہ آکر معاشی زندگی کی نیو ڈالنا اور پھر اس میں کسب حلال کا اہتمام کرنا اور وہ بھی اس عالم میں جب کہ ایک تحریک لمحہ لمحہ اتفاق مال کے مطالبات لیے سامنے کھڑی ہو، ایسے حالات میں جو ابتلاء پیش آسکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ علمبرداران حق پر جو کچھ گزری اس کی درد ناک روداد سے تاریخ سیرت اور احادیث کے ذخائر بھرے پڑے ہیں۔*

*❥❥_ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس دور ابتلاء کا حال یوں بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ بھوک کی مصیبت میں گھل گھل کر جب تنگ آگئے تو سہارا حاصل کرنے کے لیے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے، حال بیان کیا اور پیٹ کھول کر دکھائے کہ کئی روز کے فاقے کی وجہ سے (معدے میں ہونے والی ایک خاص جلن کو روکنے کے لیے) پتھر باندھ رکھے تھے۔ اس پر تاریخ کی اس عظیم ترین شخصیت نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ ایک نہیں دو پتھر بندھے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر اپنا دکھڑا بیان کرنے والوں کی تسلی ہو گئی_," (شمائل ترمذی باب ما جاء فی عیش النبی ﷺ)*

*"❀_ ایک مرتبہ اسی حال میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بے وقت آئے اور چاہا کہ تسکین حاصل کرنے کے لیے اپنی تکلیف بیان کریں، مگر پھر خیال ہوا کہ اس سے قائد اسلام کو خواہ مخواہ مزید پریشانی ہو گی۔*

*"❀_ تھوڑی دیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپہنچے۔ وہ بھی اسی امتحان کا شکار تھے۔ باعث آمد پوچھا گیا۔ تو انہوں نے صاف صاف عرض کیا کہ بھوک کے مارے بے تاب ہوں۔ حضور ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا کہ میرا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ طے پایا کے اپنے رفیق مقصد ابوالہیشم کے ہاں چلیں*

*"❀_ حضرت ابوالیشم رضی اللہ عنہ باغات کے مالک اور خوشحال تھے۔ تینوں اپنے رفیق کے ہاں پہنچے تو وہ بے چارے خادم نہ ہونے کے سبب خود ہی پانی لینے گئے ہوئے تھے۔ آئے تو فرط مسرت سے لپٹ گئے اور باغ میں لے جاکر دستر خوان بچھایا۔ اور کھجوریں توڑ کر حاضر کیں۔ کھجوریں کھا کر ان فاقہ کشان راہ حق نے ٹھنڈا پانی پیا اور خدا کا شکر ادا کرتے، اور ابو الہیثم کے لیے دعائے خیر کرتے واپس ہوئے۔ ( ایضاء)*

       
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر بیان کیا کہ تحریک محمدی ﷺ کا میں ہی وہ رکن ہوں جس کے ہاتھ سے ایک دشمن حق کا پہلا خون گرا، میں ہی ہوں جس نے اولین تیر پھینکا۔ ہم لوگوں نے ایسی حالت میں کام کیا ہے کہ ہم درختوں کے پتے اور کیکر کی پھلیاں کھایا کرتے تھے اور اس وجہ سے منہ کے کنارے زخمی ہو جاتے تھے اور اجابت اونٹوں اور بکریوں کی مینگنیوں کی شکل اختیار کر جاتی تھی_,"*

*"❀_ حضور ﷺ کے رفیق خاص حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب میں منبر نبوی ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے درمیان بھوک اور فاقہ کی شدت کے مارے بے ہوش پڑا رہتا اور لوگ مجھ کو جنون زدہ سمجھ کر (بطور علاج) پاؤں سے میری گردن دباتے تھے، حالانکہ مجھے جنون نہیں ہوتا تھا، وہ محض بھوک کا عالم ہو تا تھا۔ " ( شمائل ترمندی۔ ماجاء فی عیش رسول اللہ ﷺ)*

*"❀_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کا بیان کردہ ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ چلے جا رہے تھے۔ اور کسی آیت کا مفہوم زیر بحث تھا باتیں کرتے کرتے اور ساتھ چلتے چلتے یکایک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ فاقہ کشی نے نوبت یہاں تک پہنچادی تھی۔*

*"❀_ اس عالم میں حضور ﷺ اگرچہ بیت المال میں آنے والی دولت کو ساتھ کے ساتھ رفقاء کو سنبھالنے کے لیے صرف کرتے جاتے تھے مگر دائرہ صرف اتنا وسیع تھا کہ بیت المال کی آمدنیاں اور انصار اور خوشحال مہاجرین کے فراخدلانہ انفرادی صدقات بدرجہ ادنیٰ بھی کافی نہ ہوتے تھے۔ عام فاقہ زدہ مہاجرین کے ساتھ ساتھ اصحاب صفہ کا مستقل دار الاقامہ ضرورت مند تھا مہمان آتے تھے، بدوی لوگ وقتاً فوقتاً اسلام لانے زیارت کرنے اور احکام معلوم کرنے آتے ، سائل آ آکر سوال کرتے اور مسلسل نئے مہاجرین کی آمد رہتی۔ ان حالات میں بیت المال بیچارہ بھی کیا کر سکتا تھا۔*

*❥❥_ جب صحابہ کرام اور اہل حاجت کی ضروریات کا دباؤ شدید ہوتا تھا، قائد تحریک یا تو اعانت کے لیے اپیل کر دیتے اور لوگ جذبہ صادق سے اپنا مال نچوڑ دیتے یا پھر قرض لینا پڑتا۔ قرض اپنی جماعت کے اندر سے کچھ زیادہ مل نہ سکتا تھا۔ لہذا یہودی مالداروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ یہودیوں کا حال یہ تھا کہ یہ لوگ پکے مہاجن اور سود خور تھے اور ان کے سودی جال تمام علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو وہ جس غرض سے قرض دیتے تھے وہ سود سے زیادہ بڑی چیز تھی وہ یہ تھی کہ روپے اور احسان داری کے زور سے ان پر قابو پایا جائے اور اس ذہنیت کے ساتھ وہ قرض خواہی میں بالکل شمائیلا کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے اور توہین و تذلیل پر اتر آتے، یہی حال مشرکین کا تھا۔*

*"❀_ اس تلخ تجربے سے خود سرور عالم ﷺ کو بھی گزرنا پڑا اور آپ کے ساتھیوں کو بھی۔ بہت سارے واقعات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ آہ ! دنیا کی بھلائی کے لیے زندگیوں کی بازی لگا دینے والوں نے یہ سب کچھ بھی بھگتا۔ مگر اس مفلوک الحالی پر بھی اپنے ایمان اور مقصد کے بارے میں تحریک کے سپاہیوں میں کوئی تزلزل نہیں آیا۔*

*"❀_محسن انسانیت ﷺ نے اپنے قریبی رفیق اور ذاتی نائب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دے رکھا تھا کہ تحریک اور اس کے سپاہیوں کی ضرورت پر وہ آمدنیوں کو بے دریغ صرف کریں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اسی طریق کار پر کار بند رہتے تھے۔ ایک مرتبہ نوے ہزار درہم کی رقم آئی اور ایک بوریئے پر ڈھیر لگا دی گئی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے سرور عالم ﷺ نے اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کرا دیا۔ اور ایک حصہ باقی نہ رہا۔ تقسیم ہو چکنے کے بعد ایک سائل آگیا۔ تو اس کے لیے قرض لینے کا حکم دیا۔*

*"❀_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کسی موقع پر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے سامنے کھجوروں کا ایک ڈھیر لگا پڑا تھا۔ حضور ﷺ نے دریافت کیا یہ کیسا مال ہے؟ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اسے مستقبل کی نادیدہ ضرورتوں کے لیے روک رکھنے کا ارادہ ہے۔ فرمایا کیا تم نچنت ہو گئے ہو کہ کل قیامت کے دن کہیں اس مال کو یوں روک رکھنے کے بدلے جہنم کا دھواں تم تک پہنچے۔ خرچ کرو۔ اے بلال ! اور تخت اقتدار کے مالک کی طرف سے کسی طرح کا اندیشہ نہ کرو"۔*

*❥❥_حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے کہ مدینہ کا ایک مشرک ان کے پاس آیا۔ اور خود پیش کش کی کہ میرے پاس وافر مال موجود ہے۔ جب ضرورت ہو مجھ سے لے لیا کریں۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے قرض لینا شروع کر دیا۔*.

*"❀_ یکایک ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ وضو کر کے اذان کہنے کی تیاری میں تھے کہ وہ مابین اپنے ساتھ کچھ اور کاروباریوں کو لیے ہوئے آیا اور چلایا کہ " او حبشی "! حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے۔ وہ بہت گرم ہوا اور برا بھلا کہنے لگا اور انتباہ دیا کہ مہینہ ختم ہونے کو ہے، اگر قرضہ وقت پر ادا نہ کیا تو (عرب کے جاہلی طریقے کے مطابق) تم کو غلام بنا لوں گا۔ اور تمہارا وہی حال ہو گا جو پہلے تھا۔*

*"❀_ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھ پر وہی کچھ گزری جو ایسے عالم میں ہر شریف آدمی پر گزرتی ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز کے بعد اپنا دکھڑا سنانے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور ادائیگی کی کوئی تدبیر نہ پاکر روپوش ہو جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ جب قرض ادا کرنے کا کچھ انتظام ہو جائے گا تو میں واپس آجاؤں گا۔*

*"❀_ لیکن پیشتر اس کے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنے ارادے کو عمل میں لاتے، اگلی ہی صبح نبی اکرم ﷺ کی طرف سے بلاوا آیا۔ حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حاکم فدک کی طرف سے سامان سے لدی ہوئی چار اونٹنیاں ہدیہ کھڑی ہیں۔ قرض خواہ کو بلا کر حساب بے باق کر دیا گیا۔ اور بقیہ مال حسب معمول مستحقین میں تقسیم کر دیا گیا۔*.

*❥❥_ حضرت جابر بن عبد اللہ اسلمی رضی اللہ عنہ تحریک اسلامی کی ایک اور بزرگ ترین ہستی ہیں۔ یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اور خاصے خوشحال تھے۔ پھر بھی حالات و ضروریات کے تحت ایک یہودی مہاجن سے وقتاً فوقتاً قرض لینے پر مجبور ہو جاتے۔*

*"❀_ ایک سال کھجوروں پر پوری طرح پھل نہ آیا اور قرضہ وقت پر ادا نہ ہو سکا۔ یہودی مہاجن سے بہ مشکل اگلی فصل تک کے لیے مہلت مانگی۔ اگلی مرتبہ پھر فصل خراب ہوئی۔ مزید مہلت دینے سے مہاجن نے انکار کر دیا۔*

*"❀_ آخر جابر رضی اللہ عنہ بھی اپنی کہانی سنانے اپنے آقا ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ حضور ﷺ چند صحابہ کو ساتھ لے کر یہودی کے گھر تشریف لے گئے اور اس سے اپیل کی کہ وہ جابر کو مہلت دے دے۔ اس نے انکار کیا۔ حضور ﷺ تھوڑی دیر کے لیے ادھر ادھر گھومے اور ایک بار پھر آ کر اس سے گفتگو کی۔ لیکن پھر بھی اس کو کسی طرح جو تک نہ لگ سکی ۔*

*"❀_ پھر تھوڑی دیر کے لیے آپ ﷺ سو گئے۔ جاگے تو پھر جا کر وہی ذکر چھیڑا۔ مگر وہ ظالم نہ پسیجا۔ آخر کار آپ ﷺ جابر رضی اللہ عنہ کی کھجوروں کے جھنڈ میں جا کر کھڑے ہوئے اور ان سے فرمایا کہ کھجوریں توڑو، کھجوریں توڑی گئیں تو توقع سے بہت زیادہ نکلیں۔ قرضہ بھی ادا ہو گیا اور خاصی مقدار بھی بچ رہی۔*

*❥❥_حضور ﷺ کی ایک ذاتی زرہ ایک یہودی قرض خواہ کے پاس رہن تھی۔ آخر دم تک آپ ﷺ کے پاس اس کو فک کرانے کے لیے اندوختہ نہ ہو سکا۔ ایک مرتبہ سرور عالم ﷺ سے ایک یہودی قرض خواہ مطالبہ کرنے آیا ۔ اپنے یہودیانہ مزاج کے مطابق اس نے نہایت تندی سے گفتگو کی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے احساس ولایا کہ تم دیکھتے نہیں کہ کس ہستی سے ہم کلام ہو۔*

*"❀_ وہ کہنے لگا کہ میں تو اپنا حق طلب کر رہا ہوں۔ حضور ﷺ اپنے صحابہ کو فرماتے ہیں کہ تم لوگوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ پھر اس کا حساب بے باق کرنے کا حکم دیا اور اس کے حق سے کچھ زیادہ دلوا دیا۔*

*"❀_ زید بن سعنہ کا دلچسپ واقعہ ان حالات پر مزید روشنی ڈالتا ہے۔ یہ یہودی عالم تھے۔ اور دیانت داری سے حضور پاک ﷺ کے دعوائے نبوت کا جائزہ مختلف علامات کی روشنی میں لے رہے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک بدو آیا اور حضور ﷺ سے آ کر ملا۔ اس نے بیان کیا کہ میری قوم مسلمان ہو چکی ہے۔ اور میں نے ان کو دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم اگر اسلام لاؤ گے تو اللہ تعالی تم کو بھرپور رزق دے گا۔ لیکن بد قسمتی سے الٹا قحط پڑ گیا ہے۔ اب اگر ان کو سہارا نہ پہنچایا جائے تو اندیشہ ہے کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہو جائیں گے۔*

*"❀_ حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مستفسرانہ نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ فی الوقت کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ زید بن سعنہ نے پیش کش کی کہ مجھ سے ۸۰ مثقال سونا لے لیں۔ اور اس کے عوض میں وقت معین پر کھجوریں دے دیں۔ معالمہ طے ہو گیا اور حضور ﷺ نے سونا لے کر بدوی کے حوالے کر دیا۔*

*❥❥__ زید بن سعنہ کا بیان ہے کہ مقررہ میعاد میں جب دو تین دن باقی رہ گئے تو وہ حضور ﷺ سے ایسے عالم میں دو چار ہوئے کہ آپ ﷺ اپنے چند رفقاء سمیت کسی کے جنازے کی نماز سے فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس تشریف فرما تھے۔ زید نے حضور ﷺ کے کرتے اور چادر کے پلوؤں کو کھینچتے ہوئے نہایت تر شروئی سے کہا۔ "اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرا قرضہ ادا نہیں کرتے! خدا کی قسم میں تم سب اولاد عبدالمطلب کو خوب جانتا ہوں کہ پکے نادہند ہو"۔*

*"❀_ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زید کو گرم نگاہوں سے گھورا اور کہا ۔ کہ " او خدا کے دشمن کیا بکتا ہے ! خدا کی قسم مجھے (حضور ﷺ سے) اندیشہ نہ ہوتا تو تیری گردن اڑا دیتا۔ " سرور عالم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ ”ایسے موقع پر آپ کو چاہیے کہ ایک طرف مجھے حسن و خوبی سے ادائے قرض کرنے کی تلقین کرتے۔ دوسری طرف اس شخص کو مطالبہ کرنے کے بہتر طریقہ کی نصیحت کرتے۔ "*

*"❀_ پھر فرمایا کہ ”اب جاؤ اور جا کر اس کا حساب ادا کر دو اور ڈانٹنے کے بدلے میں بیس صاع (مدینہ کا ایک معروف پیمانہ) کھجوریں مزید دو۔"*
*"_در اصل زید بن سعنہ کی طرف سے صاحب نبوت کا آخری امتحان تھا۔ حضرت عمر سے اپنا تعارف کرایا اور ان کو گواہ بنا کر اسلام قبول کیا۔ اور اپنا آدھا مال ملت اسلامیہ پر صدقہ کر دیا۔*.

*"❀_ یہ زید یہودی مہاجنوں کی صف سے بالکل الگ اپنا مقام بلند رکھتے تھے لیکن ان کے واقعہ سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مدینہ منورہ میں تحریک اور اس کے افراد کی مالی مشکلات کسی درجے کی تھیں اور ان کے زیر اثر آئے دن قرض اٹھانا پڑتا تھا۔ اور قرض خواہوں کی طرف سے سختیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔*
   
*❥❥_ یہود اور مالدار مشرکین نے ایک طرف تو مہاجنی محاذ تحریک اسلامی کے خلاف کھول رکھا تھا۔ دوسری طرف وہ ایک اور مہم میں بھی مصروف تھے۔ وہ یہ تھی کہ لوگوں کو "انفاق فی سبیل اللہ" سے روکا جائے تاکہ ان کی تحریک مالی کمزوری کی وجہ سے ختم ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک تو وہ ترغیب انفاق کی آیت کا مذاق اڑاتے تھے کہ لوجی، مسلمانوں کا خدا بھی دیوالیہ ہو کر قرض مانگنے نکل کھڑا ہوا ہے۔ کبھی کہتے کہ اسلامی تحریک کے خدا کا ہاتھ بند ہے۔*

*"❀_ یہ باتیں یہودیوں سے چل کر منافقین کی زبانوں پر چڑھ جاتیں اور پوری فضا کو غبار آلود کر دیتیں۔ دوسری طرف وہ انفاق کرنے والوں سے مل مل کر کہتے کہ دیکھو کیوں اپنا مال غارت کر رہے ہو۔ مکہ کے چند کنگالوں کو کھلا پلا کر تم کیا حاصل کرو گے۔ اپنے بال بچوں کی خدمت کرو کاروبار چلاؤ ۔ آخر مال کا یہ کیا احمقانہ مصرف تم نے ڈھونڈا ہے۔*

*"❀_ ان یہود اور منافقین ہی کے بارے میں قرآن نے کہا کہ یہ لوگوں کو کنجوسی کی تعلیم دیتے ہیں۔*
*"❀_یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تا کہ یہ منتشر ہو جائیں۔ (المنافقون : ۷)*
*"❀_ یہود کے کارندوں میں یہ سرگوشیاں ہوتی تھیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر مال خرچ کرنے سے باز آجاؤ، تا آنکہ یہ سب چھٹ چھٹا جائیں"*

*"❀_ کتنی دور اندیشانہ اسکیم تھی۔ یعنی ایک طرف سے جذبہ انفاق کے سر چشمے کو بند کر دیا جائے۔ اور دوسری طرف مہاجن بن کر اپنے پنجے کی گرفت تحریک اسلامی کی گردن پر کسی جائے۔ اسکیم کامیاب ہو جاتی تو ایمان و استدلال اور عمل و کردار کے میدان میں مقابلہ کیے بغیر سر پر منڈلاتے ہوئے انقلاب کو شکست دی جا سکتی تھی۔ مگر معاملہ ایک خدائے دانا و بینا اور ایک حاکم قادر و توانا سے تھا۔ اس کی گہری تدابیر نے دشمنان حق کی چالوں کو شکست دے دی۔*
*®_(سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۱۸۸)*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           
                *⚂_ منافقین کی حرکات _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__بے بسی اور بزدلی کے عالم میں آدمی کے اندر کام کرنے والے حریفانہ جذبات ہمیشہ حسد اور کینہ کی راہ سے اسے نفاق کے کمینے پن تک لے جاتے ہیں، وہ مخالف پر سامنے سے وار کرنے کے بجائے پیچھے سے وار کرتا ہے۔ وہ کھلم کھلا سامنے آنے کے بجائے نقب زنی کی اسکیمیں بناتا ہے۔*

*"❀_ یہود نے بھی اسی بزدلانہ موقف کو سنبھال لیا۔ چونکہ براہ راست حملہ کرنے کی طاقت نہیں تھی، اس وجہ سے نفاق کا خفیہ محاذ پر عمل کیا۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر بہت سے لوگ اپنا مستقبل بنانے کے لیے اسی چور دروازے سے اندر داخل ھونے لگے۔ اس چور دروازہ کا افتتاح بہر حال یہودی ذہن نے کیا۔ ان کے اچھے اچھے سردار تھے، جو اسلامی جماعت کی صفوں میں اپنے حریفانہ جذبات کو اسلام کے بہروپ میں چھپائے ہوئے داخل ہونے لگے ۔*

*"❀_ بنی قینقاع میں سے نمایاں مرتبے کے حسب ذیل سردار دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ (۱) سعد ابن حنیف (۲) زید بن نصیت (۳) نعمان بن اوفی ابن عمرو (۴) رافع بن حریمله (۵) رفاعہ بن زید بن تابوت (۶) سلسلہ ابن برہام (۷) کنانہ ابن صوریا۔*

*"❀_ ان میں سے زید بن نصیت وہ شخص ہے جو بنی قینقاع کے بازار میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لڑائی پر آمادہ ہو گیا تھا۔ پھر یہی تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے کھو جانے پر طعنہ دیا تھا کہ یوں تو آسمان کی خبریں دیتے پھرتے تھے۔ لیکن اتنا پتا نہیں کہ اونٹنی اس وقت کہاں ہے"۔*

*"❀_ اس کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ بخدا میرا حال یہ ہے کہ میں بجز اس کے کچھ نہیں جانتا جو کچھ کہ اللہ تعالیٰ مجھے بتا دے، اور اب اللہ تعالٰی نے مجھے اونٹنی کے بارے میں اطلاع دے دی ہے۔ سو وہ اس وادی میں ہے اور ایک درخت کے ساتھ اس کی باگ الجھ گئی ہے"۔ چنانچہ رفقاء تلاش کو گئے تو بالکل یہی صورت واقعہ آنکھوں سے دیکھی۔*

*❥❥_ ان میں سے رافع بن حریملہ کا مقام نفاق اتنا بلند تھا کہ جس دن وہ مرا تو سرور عالم (صلی اللہ علیہ و سلم) نے خود فرمایا کہ ” آج منافقین کے سرخیلوں میں سے ایک سرخیل مرگیا ہے"۔*

*"❀__ ایسا ہی مقام رفاعہ بن زید بن تابوت کا تھا۔ چنانچہ غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر طوفان صرصر اٹھا اور لوگ کچھ گھبرا گئے تو حضور ﷺ نے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ طوفان منافقین کے ایک سرخیل کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے متحرک ہوا ہے۔ لوگ مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ رفاعہ کی روح اسی طوفان کی لہروں کے ساتھ پرواز کر چکی تھی ،*
*"®_(سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۱۷۵ ۱۷۴)*

*"❀__دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ منافقین کی صفوں میں جتنے بھی لوگ شریک ہوئے سب کے سب پختہ سال اور خوش حال لوگ تھے۔ ان کے سامنے مفاد تھے اور ان کے مزاج بالعموم غلط جذبات کے سانچے میں ڈھل کر پتھر کی طرح سخت ہو چکے تھے۔ نوجوان طاقت تحریک اسلامی کے ساتھ تھی۔ بروئے تحقیق صرف ایک نوجوان منافقین میں ملتا ہے جس کا نام قش بن عمرو بن سہل تھا۔*

*"❀__ منافقین کا گروپ محدود نہ تھا بلکہ در حقیقت یہ اپنے حلقوں سے منافقین بھرتی بھی کرتے، اسلامی جماعت کے اندر سے کمزور افراد کو تلاش کر کر کے ان کو متاثر بھی کرتے اور ان کو استعمال میں لاتے، شکوک و شبہات پھیلا کر اور مسلمانوں کی مجلسوں میں سنجیدہ معاملات میں استہزاء و تضحیک کے پہلو پیدا کر کر کے فضا کو خراب کرنے کے درپے رہتے۔*

*"❀__ مسجد میں جا کر تمام اہم گفتگوئیں سنتے اور پھر آکر اپنی مجالس میں رپورٹ کرتے۔ راتوں کو سازشی مجالس میں بیٹھ کر شرارت کے نئے منصوبے بناتے اور نئے نئے طریقوں سے ان کو عمل میں لاتے۔ یوں تو اپنے انداز و اطوار کی وجہ سے نفاق کا پیدا کردہ یہ بے ڈھنگا کردار نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کی نگاہ میں پہچانا جاتا تھا اور اس کے ساتھ ہر مرحلے پر وحی الٰہی کی روشنی ان کے خیالات، ان کی حرکات اور ان کی کارروائیوں اور سازشوں بلکہ ان کے مجرمانہ ضمیر کی خاص خاص علامات کو نمایاں کرتی رہتی تھی۔*  

*❥❥_ ایک موقع پر مسجد نبوی میں ان منافقین کی حرکات حد برداشت سے باہر ہو گئیں۔ مجمع عام میں یہ ٹولی کی ٹولی بالکل الگ دھڑا بنی بیٹھی تھی۔ اور اپنی جگہ الگ کھسر پھسر کر رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر سرور عالم صلی اللہ علیہ و وسلم نے ان کو مسجد نکل جانے کا حکم دیا۔*

*"❀__ ان منافقین کی خود اپنی مرکزی قیادت عبداللہ بن أبی کی ذات گرامی" میں مرتکز تھی۔ یہ شخص جو واقعہ افک میں فتنہ کی بارود کو فتیلہ دکھانے والا تھا، اس کی رگ رگ میں اسلامی انقلاب کے خلاف بغض و کینہ کا آتشیں لاوا بھرا پڑا تھا۔ اس لاعلاج بغض و کینہ کی بنیاد کیا تھی، یہ اسید بن حضیر کی زبانی سنئے۔ جنہوں نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر عبد اللہ بن أبی کی ایک شرانگیزی پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد انسانیت کی خدمت میں عرض کیا۔*

*"❀__یا رسول اللہ ﷺ ! اس شخص (کے دکھی جذبات) کی رعایت فرمائیے۔ مدینہ میں جب آپ ﷺ کا ورود ہوا تھا تو اس موقع پر ہم اس کو بادشاہت کی مسند پر بٹھانے کی پوری تیاریاں کر چکے تھے اور اس کے لیے تاج تیار ہو رہا تھا۔ آپ کی آمد سے اس کا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا۔ بچارا اسی کی جلن نکال رہا ہے۔ " ( تقسیم القرآن- سورہ نور کا دیباچہ)*

 *"❀__ عبداللہ بن أبی اول روز سے منافقت میں مبتلا ہو گیا تھا اور مرتے دم تک اسی میں مبتلا رہا۔ اول اول اسلام لے آیا تا کہ اس نئی طاقت کے نظام کے اندر اپنی جگہ بنا سکے لیکن اس نظام کے اندر سے تو جدھر بھی کوئی راستہ جاتا تھا وہ ایمان اور عمل کے بل پر طے ہو سکتا تھا۔ سو عبد اللہ بن أبی کے لیے نفاق کے سوا کوئی دوسرا مقام نہ تھا۔*  

*❥❥__ابتداء" میں یہ نفاق مخفی رہا۔ لیکن ایک دن اچانک اس کے دل کا ناسور پھٹ پڑا اور گندہ متعفن مادہ بہنے لگا۔ ہوا یہ کہ حضور پاک ﷺ سعد بن عبادہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ حضور ﷺ گدھے پر سوار تھے اور اپنے پیچھے آپ ﷺ نے اسامہ بن زید بن حارثہ کو بٹھا لیا۔*

*"❀_ یہی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ راستہ میں ایک جگہ عبد اللہ بن أبی مجلس جمائے بیٹھا تھا۔ اس کے گرد قبیلے کے لوگ حلقہ زن تھے ۔ سرور عالم (صلی اللہ علیہ و سلم) کا گزر ہوا تو اسے برا لگا اور منہ پھیر لیا ۔ حضور قریب پہنچے تو سلام کہا۔ پھر ذرا دیر کے لیے رکے اور قرآن کا کچھ حصہ پڑھا۔ اور خدا کی طرف دعوت دی۔ خدا کی یاد دلائی۔ اور اس کے غضب سے ڈر دلایا۔*

*"❀_ اسامہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن أبی دم سادھے بیٹھا رہا اور کوئی بات نہیں کی لیکن جب حضور ﷺ بات سے فارغ ہو کر چلنے لگے تو بڑے گستاخانہ اور بازاری سے انداز میں منہ پھاڑ کے کہا کہ ”اے فلاں! ۔۔۔ بات کرنے کا تیرا یہ ڈھنگ ٹھیک نہیں ۔۔۔۔ اپنے گھر میں بیٹھ اور جو کوئی تیرے پاس جائے تو بس اس کو اپنی بات سنا دیا کر ۔۔۔۔۔ اور جو کوئی تیرے پاس نہ آئے اسے تنگ نہ کیا کر اور ان کے گھر میں آکر ایسی دعوت نہ سنا کہ جو اسے ناگوار ہو"۔*

*"❀_ دیکھیے ان الفاظ کو, پرکھیے اس انداز بیان کو ! لفظ لفظ زہر میں بجھا ہوا ہے۔ اور حرف حرف سے سڑانڈ اٹھ رہی ہے۔ کتنے دل چھیدنے والے بول ہیں۔ کیسے اشتعال دلانے والے جذبات ہیں۔*

*❥❥_حضور ﷺ نے اپنے مقام کی بلندیوں سے پستی کی اس بڑبڑاہٹ کو سنا ۔۔ اس کریم النفس ہستی کو غصہ کی بجائے رحم ہی آیا ہو گا۔ مجلس میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جو مسلم جماعت کے رکن تھے۔ ان کی غیرت نے اپنا فرض ادا کیا اور انہوں نے منافق اعظم کو تنک کر جواب دیا۔ " حضور ﷺ کیوں نہ آئیں۔ ہم آپ ﷺ کو چاہتے ہیں، آپ ہمارے گھروں اور ہماری مجلسوں میں آئیں گے۔ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ ہی کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سربلندی عطا فرمائی ہے اور آپ ہی کے ذریعے سے ہدایت عطا کی ہے"۔*

 *"❀__اس تجربے سے گزرنے کے بعد قائد انسانیت ﷺ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں پہنچے ۔ انہوں نے چہرہ کا ایک خاص رنگ دیکھ کر استفسار کیا۔ آپ نے واقعہ بیان کیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے بھی وہی واقعاتی پس منظر بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مدینہ لے آیا۔ ورنہ ہم اس کے لیے تاج تیار کرا رہے تھے۔ آپ نے تو اگر اس کی بادشاہت کا خواب درہم برہم کر دیا۔ مدعا یہ تھا کہ اس کا یہ رد عمل قدرتی ہے اسے کچھ اہمیت نہ دینی چاہیے۔*

*"❀__ یہ شخص نفاق کے پورے ڈرامے کا مرکزی ہیرو بن کر تاریخ کے اسٹیج پر کام کرتا رہا۔ سب سے آگے یہ تھا۔ اس کے پیچھے موٹے موٹے یہودی بزرگ تھے۔ ان کے پیچھے شعوری طور پر نفاق کا کھیل کھیلنے والے عوام تھے۔ ان کے پیچھے ادھ کچرے اور تھڑولے مسلمان تھے۔ اور سب سے آخر میں جاہل اور نا سمجھ بدوی تھے۔ تحریک اسلامی کے خلاف جو بھی رد عملی حرکت نمودار ہوتی تھی، اس میں درجہ بدرجہ ان مختلف عناصر کا حصہ ہوتا تھا۔*

*"❀_ _ مدینہ میں مسلم جماعت جن جن مخالفتوں اور مزاحمتوں سے دو چار ہوئی، اور سرور عالم ﷺ کو جن جن شرارتوں کے طوفانی ریلیوں کا سامنا کرنا پڑا ان سب میں یہود کے زیر اثر نفاق کی اس فاسد طاقت کا بڑا بھاری پارٹ شامل رہا ہے۔ کمانڈ اگرچہ سارے محاذ مخالفت پر یہود کی رہی لیکن جتنے بھی منفی فتنے محسن انسانیت کا راستہ روکنے کے لیے اٹھے ان میں عملاً بہت بڑا حصہ منافقین کا تھا۔ جو یہود کے آلہ کار بن کر کام کرتے رہے۔* 

*❥❥_ ایک اہم تاریخی روایت سابق مذہبی و معاشرتی تصورات کے مطابق یہ چلی آرہی تھی کہ متبنی (منہ بولے بیٹے) کی مطلقہ سے حقیقی بہو کی طرح نکاح کرنا ناجائز ہے۔ اس روایت کو ختم کرنے کے لیے مثبت الہٰی نے واقعات کو بڑی عجیب و غریب صورت سے نشوونما دی اور پھر ایک انقلابی نتیجے تک پہنچایا۔*

*"❀__ ہوا یہ کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو دس برس کی عمر میں غلام بن کر بکے تھے۔ اور جن کو حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ہدیہ کیا تھا حضور ﷺ کے گھر میں متبنی کی حیثیت رکھتے تھے۔ بعد میں زید رضی اللہ عنہ کے باپ اور بھائی ان کو لیٹے آئے اور حضور ﷺ نے اذن بھی دیا کہ چاہو تو جا سکتے ہو لیکن زید رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ سے اب اتنی گہری محبت ہو چکی تھی کہ اس رشتے کا ٹوٹنا گوارا نہ ہوا۔*

*"❀__ چونکہ اصلا اشراف عرب میں سے تھے اس لیے مکہ کے کچھ بزرگوں نے جناب زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا (حضور کی پھوپھی زاد بہن) کو ان کے نکاح میں دینا تجویز کیا۔ لیکن زینب کے بھائی اس رشتہ پر راضی نہ ہوئے، کیونکہ نکاح کے لیے جو معیار اور پیمانے اس ماحول میں رائج تھے، ان پر یہ جوڑا پورا نہیں اترتا تھا۔*

*"❀__ جاہلی ذہن کی نگاہ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے دامن حیات پر گویا غلامی کے دھبے کا اثر ابھی باقی تھا۔ اور پھر ان کی بے سرو سامانی بجائے خود ایک نقص تھی۔ اسلام آیا تو اس نے اس ذہن کو بھی بدلنا ضروری سمجھا اور محسن انسانیت ﷺ نے خاندانی امتیازات کی روکیں نکاح و ازدواج کے راستے سے ہٹا کر پورے اسلامی معاشرے کو ایک خاندان میں بدل دینے کی کوشش فرمائی۔*

*"❀__ چنانچہ فی الواقع یہ دیواریں قطعی طور پر ڈھے گئیں اور کفو " کا ایک نیا مفہوم پیدا ہو گیا۔ آپ نے بڑی تاکید سے لوگوں کا ذوق نگاہ بدلا۔ اور ان کو سکھایا کہ عورتوں کو نکاح میں لینے کے لیے مرتبہ اول پر ان کے دین اور کردار کو دیکھو۔ باقی چیزوں کا لحاظ بعد میں ہے۔*  

*❥❥_ حضور ﷺ بھی چاہتے تھے کہ یہ نکاح ہو۔ لیکن جب اس میں مجرد ایک جاہلی رجحان رکاوٹ بنا تو یہ چیز خدا اور رسول کی نگاہ میں ناپسندیدہ قرار پائی۔ اس سلسلے میں اشارۃً سورہ احزاب میں گرفت کی گئی۔*

*"❀_ (احزاب - ۳۶) مطلب یہ تھا کہ جب ایک مسلم اور مسلمہ کے درمیان رشتہ ازدواج کے قیام کے لیے دروازے کھول دیئے گئے ہیں تو اب اپنے راستے میں پرانے جاہلی تصورات کو اہمیت دے دے کر حائل کرنا خدا و رسول کی رہ نمائی اور ان کے فیصلوں کے مقابلے میں ایک طرح کی خود سری ہے اور ایسی خود سری گمراہی پر منتج ہوتی ہے۔*

*"❀_ حت زینب رضی اللہ عنہا کے بھائی ان آیات کو سن کر اشاروں میں بات کو پا گئے اور نکاح کے لیے تیار ہو گئے۔ گویا شرف وذلت کے جاہلی معیار کی زنجیر ٹوٹ گئی۔ اللہ تعالی نے اس واقعے کے ذریعے متبنی کے بارے میں غلط تصور رائج کو بھی توڑنے کا ارادہ فرمالیا۔ بعد میں ہوا یہ کہ زوجین میں سازگاری نہ ہو سکی اور اب رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایات آنے لگیں لیکن معاملات سلجھنے کے بجائے بگڑتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ بالآخر زید رضی اللہ عنہ طلاق دینے کا ارادہ آپ ﷺ کے سامنے ظاہر کرنے لگے۔*

*"❀_ اس پر آپ ﷺ کو بڑی تشویش ہوئی کہ ایک ایسا نکاح ٹوٹ رہا ہے جو معاشرے میں ایک نئی انقلابی مثال قائم کرنے کے لیے کیا کیا تھا۔ نیز اس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور مشورے کو بڑا دخل تھا اور آپ ہی چونکہ زید کی طرف سے ولی تھے اس لیے آپ کی بڑی ذمہ داری تھی۔ آپ نے بار بار اس رابطے کو بچانے اور حضرت زید کو طلاق سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن آخر کار یہ ساری کوشش ناکامی کی سرحد کو آپنچی،*
*❥❥....اور جس طرح کی شکایات پیدا ہو گئی ہوں گی ان کے ازالے کی ایک ہی صورت ممکن تھی اور وہ یہ کہ آپ ﷺ خود زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے نکاح میں لے لیں۔ شریعت میں پوزیشن بالکل صاف تھی اور اس معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن سابق جاہلی تاثرات کے تحت اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اچنبھا ہو گا اور ساتھ ہی مخالفین پروپیگنڈے کا ایک موضوع پالیں گے لیکن مرضی الہٰی یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت سے متبنیٰ کی جو غلط پوزیشن چلی آرہی تھی اس کی نفی خود آپ ﷺ ہی کے ذریعے پوری ہدایت و صراحت سے کر دی جائے تاکہ اس رسمیت کی جڑ بالکل کٹ جائے۔*

*"❀__ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے مخفی خیال اور نظر کو اٹھا کر بر سر عام رکھ دیا ۔ فرمایا: "_ وَ تُخۡفِیۡ فِیۡ نَفۡسِکَ مَا اللّٰہُ مُبۡدِیۡہِ وَ تَخۡشَی النَّاسَ ۚ (احزاب - ۳۷) انداز تنبیہہ کا ہے۔ تم اپنے دل کے پردہ خفا میں وہ بات لیے ہوئے ہو جسے اللہ کھول دینے والا ہے ۔۔۔۔۔ اور تم لوگوں سے اندیشہ کرتے ہو، یعنی ایک بات جو خدا کی شریعت میں روا ہے اسے لوگوں کے جاہلی تصورات کے اندیشے سے دل میں چھپائے رکھنا اللہ کو نا پسند ہے۔ اسے سامنے آنا چاہیے اور اس کو واقع ہونا چاہیے۔*

 *"❀__مقصود اس سے یہ تھا کہ منہ بولے بیٹوں کے بارے میں وہ غلط قید جو لگی چلی آرہی ہے۔ وہ مسلمانوں کے اوپر سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔ اس زنجیر جاہلیت کو کاٹنے کے لیے بھر پور ضرب لگانے کی یہ شکل اختیار کی گئی کہ حضور ﷺ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا رشتہ نکاح خود اللہ تعالیٰ نے بطور خاص قائم فرما دیا۔*.

*"❀__ بس اس واقعہ کا ہونا تھا کہ مدینہ کے دشمنان حق کے حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ لوگ پرو پیگنڈا کرنے لگے, اس کے ساتھ ساتھ زیب داستان کے لیے افسانے بھی گھڑ لیے گئے، اس واقعہ کے سلسلے میں صحیح معنوں میں گندا پروپیگنڈا کیا گیا اور محسن انسانیت ﷺ کے اخلاقی مرتبے پر ہلہ بولا گیا۔*  

*❥❥_ انسانیت کے سب سے بڑے خیر خواہ پر کئی روز تک کیسی سخت کرب کی گھڑیاں گزری ہوں گی۔ یہود کا یہ پروپیگینڈا بے چارے مسلمانوں کے لیے بھی بے حد پریشانیوں کا موجب ہوا ہو گا۔ ان کو راہ چلتے چھیڑا جاتا ہو گا۔ ان پر فقرے کے جاتے ہوں گے۔ اور ان کو شبہات کے چکر میں ڈالا جاتا ہو گا۔ ان میں وہ مسلم بھی تھے جو اپنے کچے پن کی وجہ سے گھبرا اٹھتے ہوں گے۔ ان میں منافق بھی تھے اور وہ اپنے بن کر عجیب طرح کی دو رنگی باتیں کرتے ہوں گے۔*

*"❀_ اس حالت میں مسلمانوں کی تسکین اور تربیت کے لیے اللہ تعالی نے چند حقائق ان کے ذہن نشین کرائے۔ ان کو بتایا کہ نبی پر کسی ایسی بات میں کوئی مضائقہ نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کر دیا ہو۔(احزاب۔ ۱۳۸), اس اقدام کا مقصد بھی واضح کر دیا کہ مسلمانوں کے لیے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ سے نکاح کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے (احزاب۔ ۳۷),* 

*"❀_یہ اعلان بھی کر دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ (احزاب۔ ۴۰), آخر میں خود حضور ﷺ سے خطاب فرما کر کہا کہ کافروں اور منافقوں کی نہ مانو اور ان کی دل آزاریوں کو بالائے طاق رکھ دو۔ اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ اور اللہ ہی کار سازی کے لیے کافی ہے۔ (احزاب - ۴۸)*

*"❀_ منافقین کے لیے زیادہ سے زیادہ میدان فتنہ اتنا ہی تھا کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف لاوا پکاتے رہیں۔ ایک اخلاقی تحریک کے لیے تباہی کا سب سے زیادہ کارگر اور سہل ترین حربہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس کی بہترین شخصیت کو داغدار کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں اقتدار طلبی اور نفسانیت کے الزامات پہلے ہی عائد کئے جاچکے تھے۔ لیکن در حقیقت معالمہ ایک الزام یا دوسرے الزام تک محدود نہیں تھا۔ شوشہ بازی کی ایک مہم (Whispering Campaign) اور سرد مہم برابر چلائی جاتی رہی۔*

*❥❥__ بعد کے دور میں جب کہ زکوٰۃ کا نظام وصول و صرف باضابطہ طور پر قائم ہو گیا۔ حضور ﷺ پر ایک گھٹیا الزام یہ بھی عائد کیا گیا تھا کہ آپ بیت المال میں آنے والے صدقات کو من مانے طریق سے اڑا دیتے ہیں۔ صورت واقعہ یہ تھی کہ تمام اندوختوں اور کاروباری سرمایوں اور مویشی اور زرعی پیداواروں میں سے جب باضابطہ خدا کے حاجت مند بندوں کا حق لیا جانے لگا تو ڈھیروں دولت ایک مرکز پر سمٹنے اور سرکار دو عالم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے باران رحمت کی طرح تقسیم ہونے لگی۔*

*"❀_ دولت کی اس بہتی گنگا کو دیکھ کر زرپرستوں کے منہ میں پانی بھر آتا اور وہ چاہتے کہ جاہلی دور کی طرح آج بھی اس گنگا سے وہی ہاتھ رنگیں جو پہلے سے مضبوط مالی حیثیت کے مالک ہیں، لیکن اسلامی تحریک کے قائم کردہ نظام معیشت نے دولت کے بہاؤ کا رخ غریب طبقوں کی طرف پھیر دیا تھا اور ارباب جاہ و حشم اس انقلاب پر کڑھتے تھے، وہ فی نفسہ اسلامی نظام معیشت پر تو حملہ کر نہ سکتے تھے۔ بس دل کا بخار نکالنے کے لیے محسن انسانیت ﷺ کو نشانہ بنا لیتے۔*

*"❀_ ان کا یہ کہنا تھا کہ دولت اپنے حامیوں اور اپنے چہیتوں میں خرچ کی جا رہی ہے۔ اور مہاجرین کو خاص طور پر نوازا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدائی خزانے کے بل پر دوست نوازی اور کنبہ پروری ہو رہی ہے۔* 

*"❀_۔ غور فرمائیے یہ الزام کہ اس شخصیت پر لگایا جا رہا تھا جس نے صدقہ کی آمدنی کو خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے نہیں ، پورے خاندان بنی ہاشم کے لیے بمنزلہ حرام کے قرار دے لیا تھا۔ یہ شان بے لوثی جس کی کوئی مثال تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔*

*"❀_ پھر یہی لوگ تھے جن کی تعریف قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ یہ اپنی باتوں سے نبی ﷺ کی ذات کو دکھ دیتے ہیں (توبہ ۔ 61)*
 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
        *⚂_ حضرت عائشہ پر بہتان تراشی _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آپ بیتی:-*
*"❀_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بہتان تراشی کی گئی، اس طوفان عظیم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سفینہ قلب و روح پر جو کچھ گزری اس کی مستند تفصیل حدیث، سیرت اور تاریخ کی اہم کتابوں میں محفوظ ہے۔ میرے سامنے اس وقت زاد المعاد (ملاحظہ ہو ، جلد ۲ صفحہ ۱۵ ۱۱۳) اور سیرت ابن ہشام (ملاحظہ ہو جلد سوم ) جیسے مستند ماخذ ہیں ، لہذا اس کو مستعار لیتا ہوں_,"*

*"❀_ مدینہ پہنچ کر میں بیمار ہو گئی اور ایک مہینے کے قریب پلنگ پر پڑی رہی۔ شہر میں اس بہتان کی خبریں اڑ رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے کانوں تک بھی بات پہنچ چکی تھی۔ مگر مجھے پتہ نہ تھا۔ البتہ جو چیز مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی وہ توجہ میری طرف نہ تھی جو بیماری کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔*

*"❀_ آپ ﷺ گھر میں آتے تو بس یہ پوچھ کر رہ جاتے کیسی ہیں یہ ؟ اس سے زاید کوئی کلام نہ کرتے۔ اس سے مجھے شبہ ہوتا کہ کوئی بات ہے ضرور ۔ آخر آپ ﷺ سے اجازت لے کر میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی تاکہ وہ میری تیمار داری اچھی طرح کر سکیں۔ ایک روز رات کے وقت حاجت کے لیے میں مدینے کے باہر گئی۔ اس وقت تک ہمارے گھروں میں یہ بیت الخلاء نہ تھے اور ہم لوگ جنگل ہی جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ مسطح بن اثاثہ کی ماں بھی تھیں جو میرے والد کی خالہ زاد بہن تھیں۔*

*"❀_(دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے خاندان کی کفالت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ذمے لے رکھی تھی، مگر اس احسان کے باوجود مسطح بھی ان لوگوں میں شریک ہو گئے تھے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف اس بہتان کو پھیلا رہے تھے)*

*"❀_ راستے میں ان کو ٹھوکر لگی۔ اور بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا: غارت ہو مسطح ! میں نے کہا : اچھی ماں ہو جو بیٹے کو کوستی ہو اور بیٹا بھی وہ جس نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا بیٹا ! کیا تجھے اس کی باتوں کی کچھ خبر نہیں؟ پھر انہوں نے سارا قصہ سنایا کہ افتراء پرواز لوگ میرے متعلق کیا باتیں اڑا رہے ہیں۔*

   
*❥❥_(منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہو گئے تھے ان میں مسطح، حسان بن ثابت مشہور شاعر اسلام اور حمنہ بنت جحش (حضرت زینب کی بہن) کا حصہ سب سے نمایاں تھا۔)*
*"❀_ یہ داستان سن کر میرا خون خشک ہو گیا۔ وہ حاجت بھی بھول گئی جس کے لیے آئی تھی، سیدھی گھر گئی اور رات بھر رو رو کر کائی،*

*"❀_ اس موقع پر ابن ہشام کی لی ہوئی روایت میں یہ الفاظ بڑے اہم ہیں کہ ”رونے کا عالم یہ رہا کہ مجھے اندیشہ ہو گیا کہ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔*

*"❀_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کرب میں جان گھلا رہی تھیں لیکن شہر بھر میں چہ میگوئیوں کا ایک چکر چل رہا تھا۔ ان کی طرف سے سب سے بڑھ کر سے بڑھ کر صفائی دے سکنے والے ان کے والد اور شوہر ہی ہو سکتے تھے جو ان کے ذہن و کردار کا قریبی اور تفصیلی علم و تجربہ رکھتے تھے، مگر اس طرح کے بہتان جب ظالم لوگ لگا دیتے ہیں تو جو جتنا قریبی ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ پیچیدگی میں پڑ جاتا ہے۔ اس کی صفائی بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ والد اور شوہر دم بخود تھے اور چار جانب سے زبانوں کے چھوڑے ہوئے تیر کھا رہے تھے۔*

*"❀_ انسانیت کے محسن اعظم پر یہ گھڑیاں جس درجہ شاق گزری ہوں گی ۔۔۔ ذاتی لحاظ سے بھی، اور تحریک کے مفاد کے لحاظ سے بھی ۔۔۔۔۔ ان کا کچھ تھوڑا اندازہ ہر شریف اور حساس اور ذمہ دار آدمی کر سکتا ہے۔ صبر و سکوت سے بہت کام لیا۔ لیکن اس نازک معالمہ کو موجودہ حالت میں معلق تو نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ ادھر یا ادھر کوئی ایک فیصلہ ناگزیر تھا۔ سو حضور ﷺ نے غیر جانب دارانہ طریق سے تحقیق شروع کی۔*

*"❀_ اپنے دو قریبی رفقاء حضرت علیؓ اور حضرت اسامہ بن زید کو طلب فرمایا ۔ اور ان سے رائے طلب کی۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ آپ کی زوجہ محترمہ ہیں اور ہم ان کے بارے میں بجز خیر کے کچھ نہیں پاتے، یہ سب کچھ کذب اور باطل ہے جسے پھیلایا جا رہا ہے"۔*

   
*❥❥_ حضرت علیؓ نے بالکل دوسرے ہی پہلو سے مسئلے کو لیا۔ اور فرمایا : یا رسول اللہ ! عورتوں کی کمی نہیں۔ آپ اس کے بجائے دوسری بیوی کر سکتے ہیں۔ یوں آپ لونڈی کو بلا کر تحقیق فرمالیں, اس میں حضرت علیؓ کا منشاء یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ حضور ﷺ پریشان رہیں، کیوں نہ ایسی بیوی کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر لیں جس کے بارے میں ایک طوفان اٹھا دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے خاص رشتے کی وجہ سے اس معاملے کے تحریکی پہلو کی بہ نسبت حضور ﷺ کی ذاتی پریشانی کو زیادہ اہمیت دی اور وہ رائے دی جس سے آپ اس ذہنی الجھن سے نکل کر مطمئن ہو جائیں۔*

*"❀_ تاہم حضرت علیؓ کے مشورہ کا دوسرا جز سرور عالم ﷺ نے قبول فرما لیا اور اس کے مطابق گھر کی خادمہ کو طلب کیا گیا۔ اس نے کہا : "خدا کی قسم میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتی اور میں اس کے علاوہ اور کوئی نقص عائشہ میں نہیں نکال سکتی کہ میں آٹا گوندھتی تھی اور کہہ کر جاتی کہ ذرا اسے دیکھتی رہنا اور وہ پڑی پڑی سو جاتیں اور بکری آکر آٹا کھا جاتی۔*

*"❀_ اس بے ساختہ بیان میں خادمہ نے جتنی مکمل صفائی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دے دی تھی اس پر کوئی دوسرا بیان مشکل ہی سے اضافہ کر سکتا ہے۔ اس نے ایک ایسی بھولی بھالی اور سادہ منش لڑکی کا حقیقی نقشہ پیش کر دیا جس نقشے میں کسی شر کو انسانی عقل نصب نہیں کر سکتی۔۔*

*"❀_ اس کے ساتھ ساتھ دوسرا اقدام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ مجلس عام میں خطاب فرمایا۔ حمد و ثنا کے بعد بڑے درد بھرے الفاظ زبان سے نکلے۔ "_ آخر ان لوگوں کا مدعا کیا ہے جو مجھے میرے اہل خانہ کے بارے میں دکھ دیتے ہیں اور ان کے متعلق خلاف واقعہ باتیں کہتے پھرتے ہیں، خدا کی قسم ان کے بارے میں بجز بھلائی کے کوئی اور بات میرے علم میں نہیں ہے اور وہ یہ بات ایک ایسے شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی طرف سے بھی بھلائی کے سوا میرے علم میں کوئی اور بات نہیں ہے اور اس نے میرے گھر میں بھی میری موجودگی کے بغیر کبھی قدم نہیں رکھا۔"*
*( سیرت ابنِ ہشام جلد ٣/ ٣٤٥)"*

 *"❀_دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں:۔ کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جو میرے گھر والوں کے بارے میں مجھے ایذا دیتا ہے،*
*(زاد المعاد جلد ۲ ص ۱۱۴)*

*❥❥_ یہ سن کر قبیلہ اوس کے سردار اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر عرض کیا : "یا رسول اللہ ﷺ ! اگر ایسے لوگ ہمارے قبیلے کے ہوں تو ہم ان سے نمٹ لیں گے اور اگر ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہوں، تو آپ حکم دیں، خدا کی قسم! ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں"۔*

 *"❀_دوسری طرف سے خزرجیوں کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھنا کر اٹھے اور کہا ”جھوٹ کہتے ہو، بخدا ہم ان کی گردنیں نہیں ماریں گے۔ ہاں ہاں! خدا کی قسم ! تم نے یہ بات اسی بنا پر کہی ہے کہ ان کا تعلق خزرج سے ہے "۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا یہ خلاف توقع جواب اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو سخت ناگوار گزرا۔ شدت جذبات میں بول اٹھے: ” غلط تم کہتے ہو ۔ بخدا! بلکہ تم خود منافق ہو، جبھی منافقوں کی وکالت و حمایت کرتے ہو ؟*  
*( سیرت ابن ہشام ج ۳ ص ٣٤٥)* 

*"❀_ یہ ناخوشگوار تر صورت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ اوس و خزرج کے درمیان کھچاؤ پیدا کرنے کے لیے بھی تو متواتر فتنہ کی بارود بچھائی جا رہی تھی۔ تب ہی ذرا سی بات پر جذباتی ہیجان پیدا ہو گیا اور جماعت کے دو گونہ عناصر متحرک ہو گئے۔ کچھ ادھر سے اٹھے کچھ ادھر سے ، اور قریب تھا کہ اوس و خزرج باہم دگر گتھ جائیں۔ دونوں قبیلوں کو شیر و شکر کرنے والے قائد جلیل کو یہ گوارا نہ تھا کہ برسوں کی محنت سے بندھا ہوا یہ شیرازہ اس کی ذات کی وجہ سے درہم برہم ہو جائے اور خود تحریک ہی کی چولیں ہل جائیں۔ آپ منبر سے اتر آئے۔ لوگوں کو ٹھنڈا کیا۔ اور مجلس برخاست برخاست کر دی۔*

*"❀_حضور ﷺ کے لیے جماعت کے اس کمزور پہلو کا یہ نیا تجربہ پہلی پریشانی میں کتنے اضافہ کا موجب بن گیا ہو گا۔ یہ در اصل عصبیت کی وہی بارود پھٹ رہی تھی جسے عبداللہ بن أبی غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر دلوں کی گہرائیوں میں بچھا چکا تھا۔*

*❥❥_کہانی کا آخری حصہ بھی، خود اس کہانی کے مرکزی کردار (حضرت عائشہؓ) کی زبانی ہی سنیے:-*
*"_اس بہتان کی افواہیں کم و بیش ایک مہینے تک شہر میں اڑتی رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضور ﷺ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں آپ کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ام رومان رضی اللہ عنہا (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آکر بیٹھ گئے۔*

*"❀_ _ حضور ﷺ نے فرمایا۔ عائشہ مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا اور اگر تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔ بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا ہے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔*

*❀_ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے ۔( بے گناہ آدمی سے اسی فطری کیفیت کی توقع کرنی چاہیے۔) میں نے اپنے والد سے عرض کیا، آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا۔ بیٹی! میری کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں کیا کہوں۔*

*❀_ اس پر میں بولی، آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے۔ اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔۔۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں ۔۔۔۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی ---- تو آپ لوگ مان لیں گے۔*

*❥❥_ میں نے اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر یاد نہ آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہی تھی کہ "فصبر جمیل _,(یوسف ۱۸)*
*"_(اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب کہ حضرت یعقوب کے سامنے ان کے بیٹے بن یامین پر چوری کا التزام بیان کیا گیا تھا)*

*"❀_ یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی، میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے۔ اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالٰی میری برأت ظاہر فرما دے گا۔*

*"❀_ اتنے میں یکا یک حضور ﷺ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی۔ حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئے۔ میں تو بالکل بے خوف تھی مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھول دے۔*

*"❀_ وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور ﷺ بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ ! اللہ نے تمہاری برأت نازل فرما دی اور اس کے بعد حضور ﷺ نے دس آیتیں سنائیں۔ میری والدہ نے کہا اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو، میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا! بلکہ اللہ تعالی کا شکر کرتی ہوں جس نے میری برأت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا_,"*
*"®_تفہیم القرآن - ماخوذ از ماہنامہ ترجمان القرآن جلد ۴۵ ص ۱۰-۹)*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙              
              *⚂_ مسجد ضرار کی تعمیر _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ ایسا ہی ایک موقع غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں آیا جہاں یہود کے آلہ کار بننے والے منافقین نے عبد اللہ بن ابی کے زیر اشارت مهاجرین و انصار میں خوف ناک حد تک اشتعال پیدا کر دیا۔ حضور ﷺ نے اس موقع پر بھی بڑی حکمت سے صورت حالات کو سنبھالا۔*

*"❀_ اس طرح کے فتنوں میں سب سے بڑھ کر منظم فتنہ وہ تھا جس نے مسجد ضرار کی صورت میں ظہور کیا۔ اس فتنہ کا اصل بانی مبانی قبیلہ خزرج کا ایک شخص ابو عامر راہب تھا۔ حضور ﷺ کے مدینہ آنے سے قبل یہ اپنے علم کتاب اور تقشف کی وجہ سے بہت با اثر تھا۔ حضور جب مدینہ آکر مرجع خاص و عام بن گئے تو ابو عامر کے اثر و رسوخ کا چراغ گل ہو گیا۔ دل ہی دل میں وہ کڑھتا۔*

*"❀_ بدر کے واقعہ نے جو مستقبل اس کے سامنے نمایاں کیا اس کا مشاہدہ کر کے اس کی آنکھوں میں نشتر اتر گئے۔ اس نے ایک طرف جنگ احد کے لیے سرداران مکہ کو اکسایا دوسری طرف عرب کے مختلف سرداروں سے ساز باز کی, تیسری طرف خود انصار کو رسول اکرم ﷺ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی دعوت دی اور چوتھی جانب ہرقل روم کو فوجیں چڑھا لینے کی دعوت دی۔*
*(۔تفسیر ابن کثیر جلد ۴ ص ۸-۳۸۷)*

*"❀_ اس نے منافقین سے یہ ساز باز کی کہ حضور ﷺ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متوازی اڈہ کھڑا کیا جائے۔ چنانچہ اسی منصوبہ کے تحت مسجد ضرار کھڑی کی گئی۔ اس مرکز فساد کے بانیوں نے حضور ﷺ سے بڑے ڈرامائی انداز میں یہ درخواست کی ہم نے یہ مسجد ایسے کمزوروں اور معذوروں کے لیے تعمیر کی ہے جو زیادہ دور نہیں جاسکتے۔ نیز اندھیری راتوں اور بارش اور طوفان کی صورت میں آس پاس کے لوگ اس میں آسانی سے جمع ہو سکیں گے۔ آپ اس میں چلیں، اس کا افتتاح فرمائیں اور اسے برکت اندوز کریں۔*

*❥❥__ حضور ﷺ اس وقت تبوک روانہ ہو رہے تھے، لہذا آپ نے اس معاملے کو واپسی تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ واپسی میں وحی کے ذریعے آپ کو متنبہ کر دیا گیا کہ: اور وہ لوگ جنہوں نے (اسلامی معاشرہ کو) ضرر پہنچانے کفر کرنے، مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور پہلے سے خدا اور رسول کے خلاف جنگ کرنے والوں کو گھات لگانے کا اڈہ فراہم کرنے کے لیے مسجد کھڑی کی ہے۔... اور ہاں وہی جو قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ (اس کام میں) ہم نے تو فقط نیک مقاصد ملحوظ رکھے ہیں (ان کی حقیقت یہ ہے کہ) اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعی طور پر جھوٹے ہیں۔ اس میں آپ ہرگز ہرگز کبھی قیام نہ فرمائیں۔*

*"❀_ ہاں وہ مسجد (یعنی مسجد قبا) کہ جس کی بنیاد اول روز سے پر ہیز گاری (کے جذبات) پر رکھی گئی ہے۔ وہی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات کے خواہاں ہیں کہ پاکیزگی اختیار کریں۔ اور اللہ پاکیزگی چاہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے"۔*
*®_ (التوبہ آیات - ۱۰۷- ۱۰۸)* 

*"❀_ چنانچہ مسجد کے مقدس نام سے قائم ہونے والا یہ ناپاک اڈا فرمان نبوت کے تحت جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ تا کہ اس کے ساتھ اس کی منحوس تاریخ بھی ملیامیٹ ہو کر رہ جائے۔ ( سیرت ابنِ ہشام- 4/185),* 

*"❀_مختصر یہ کہ الہٰی ہدایت کے ان ٹھیکیداروں اور انبیاء کے وارثوں نے شرانگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ان پریشان کن حرکتوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ان کی وہ تخریبی سازشیں تباہ کن تھیں جو ہر موقع جنگ پر اسلامی دفاع کو نقصان پہنچانے کیلئے عمل میں لائی جاتی رہیں۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙               
      *⚂_ نظام انصاف میں رخنہ اندازی _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__نظام انصاف میں رخنہ اندازی :-*

 *"❀_ مدینہ کی اسلامی ریاست کا وہ دستوری معاہدہ جس کے تحت مسلمان مہاجرین و انصار اور یہود کے قبائل ایک سیاسی ہیئت اجتماعیہ میں جمع ہوئے تھے، اس میں تسلیم کر لیا گیا تھا کہ سیاسی اور عدالتی لحاظ سے اختیار اعلیٰ (Final Authority) محمد ﷺ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ دستاویز آج تک محفوظ ہے اور اس میں حسب ذیل دو واضح دفعات موجود ہیں۔*
*®( سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص ۱۲۱ تا ۱۲۳)*

*"❀_(ترجمہ) :(1)_ اور یہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو اللہ اور محمد م کی طرف رجوع کیا جائے۔*
*❀_(2)_ اور یہ کہ اس نوشتہ کو قبول کرنے والوں کے درمیان کوئی نیا معاملہ یا جھگڑا پیدا ہو جائے جس پر فساد رونما ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے اللہ تعالی کی طرف اور اس کے رسول محمد ﷺ کی طرف لوٹایا جائے گا۔*

*"❀_ اس دستوری بیان کے بعد معاہد یہودی قبائل پر شرعاً اخلاقاً اور سیاسی و قانونی حیثیت سے یہ فرض عائد ہو گیا کہ وہ اس نظام عدل و قانون کو کامیاب بنانے میں پوری طرح تعاون کریں اور اس کی وفادارانہ اطاعت کریں جو سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سرکردگی میں چل رہا تھا۔*

*"❀_ اوپر سے معاہدانہ ذمہ داری انہوں نے بہ رضا و رغبت قبول کی تھی۔ لیکن جہاں انہیں یہ محسوس ہوا کہ اسلامی ریاست کے بے لاگ قانون کی زدان کے کسی مفاد پر پڑتی ہے اور ان کی کوئی شخصیت اس کی لپیٹ میں آتی ہے، تو وہ اپنی معلہدانہ سیاسی اخلاقی اور شرعی ذمہ داریوں اور معاشرے اور انسانیت کے مجموعی مفاد کو یکسر نظر انداز کر کے الٹے راستے پر پڑ جاتے رہے۔*

*❥❥__ یہود کے ایک شادی شدہ مرد نے کسی منکوحہ یہودیہ سے زنا کیا۔ معاملہ یہود کے سرداروں کے سامنے آیا۔ یہ اکابر بیت مدراس میں جمع ہوئے اور آپس میں صلاح ٹھہرانے کے بعد ایک آدمی کو سرور عالم ﷺ کی خدمت میں دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ ایسی حرکت پر کیا سزا دی جائے گی۔*

*"❀_ انہوں نے پیشتر سے رائے قائم کرلی کہ اگر ہماری رواجی سزا ( تحمیہ) بتائی جائے تو محمد (ﷺ ) کو ایک بادشاہ سمجھو اور بات مان لو۔ لیکن اگر کتاب الہی کے مطابق رجم کی شرعی حد جاری کرنے کو کہیں تو پھر وہ (اپنے علم صحیح اور اپنی جرأت حق اور اتباع فرمان الہی کی رو سے) نبی ہیں اور ان سے بچنا کہ تمہارا جو کچھ قائدانہ اثر باقی ہے وہ بھی نہ جاتا رہے۔*

*"❀_ سو آدمی پہنچا اور اس نے پیغام دیا۔ اور اکابر یہود کی طرف سے پیش کش کی کہ ہم آپ کو حکم بناتے ہیں۔ یہ پیش کش دستوری معاہدے سے ٹکراتی تھی۔ معاہدے کی رو سے حضور ﷺ مستقل طور پر مدینہ کے حکم اور عدلیہ کے سربراہ تھے ہی۔ غالباً یہی وجہ ہوئی کہ حضور ﷺ اٹھ کر سیدھے بیت مدراس تشریف لے گئے، اور جا کر یہود سے فرمایا کہ اپنے عالموں کو لاؤ۔ عبد اللہ بن صوریا کو پیش کیا گیا۔ بعض روایتوں کے مطابق اس شخص کے ساتھ ابو یاسر بن اخطب اور وہب بن یہودا بھی تھے۔ دوران گفتگو سب نے عبد اللہ ہر صوریا کو علم تورات میں فاضل ترین مستند شخصیت قرار دیا۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے اس عالم سے علیحدگی میں گفتگو کی اور خدا کا خوف دلا کر بنی اسرائیل کے زریں ابواب تاریخ کی یاد تازہ کرا کے دریافت کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ شادی شدہ زانی کے لیے تورات میں رجم کا حکم آیا ہے؟" اس نے جواب دیا "اللهم نعم" ! ہاں! بخدا! وحی سے جو حقیقت حضور ﷺ پر آشکارا تھی۔ اس کی تصدیق فریق مخالف کی طرف سے بھی ہو گئی۔*

*❥❥_ لیکن مجلس عام میں یہودی سردار اور علماء کج بحثی کرتے رہے۔ ان کو اصرار تھا کہ ہمارے قانون شریعت میں زنا کی سزا تمیہ ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم کے مطابق یہودی زائیوں کا منہ کالا کر کے ان کو گدھے پر سوار کرتے اور بستی میں گھماتے۔ تورات کا حکم رجم انہوں نے بالائے طاق ڈال دیا تھا۔*.

*"❀_ ان کے اندر جب زنا کی وبا پھیلی اور ان کے اونچے طبقوں تک کے لوگ اس اخلاقی فساد میں ملوث ہو گئے تو معاشرے نے شریعت کا ساتھ دینے کے بجائے مجرم کی حمایت کا رخ اختیار کر لیا اور سزا میں کمی کر دی۔*

*"❀_ اب اکابر یہود کو اندیشہ یہ تھا کہ اگر تورات کے قانون رجم کا احیا ہو جاتا ہے تو پھر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ آج تم کل ہماری باری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رجم کی سزا کا نفاذ رکوانا چاہتے تھے ۔ مجبوراً حضور ﷺ نے مجلس عام میں ان سے تورات منگوائی۔(  ‌ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰٮةِ فَاتۡلُوۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞ (آل عمران۔۹۳)*

*"❀_ ایک یہودی عالم نے متعلقہ مقام کی قرأت کی۔ اس نسخہ میں آیت رجم موجود تھی اور اس ستم گر عالم نے آیت پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھ ڈالا۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (مشہور یہودی عالم جو ایمان لے آئے تھے) نے لپک کر اس کا ہاتھ بٹا دیا اور حضور ﷺ کو دکھایا کہ "اے پیغمبر خدا! ملاحظہ کیجئے یہ رہی آیت رجم _,*

*❥❥_ حضور ﷺ نے اس مکاری پر یہود کو سخت ملامت کی اور یہ کہہ کر مجرموں پر حد جاری کر دی کہ میں پہلا شخص ہوں جو خدا کے حکم اور اس کی کتاب اور اس پر عمل پیرا ہونے کے مسلک کی تجدید کرتا ہوں"۔*
*®_(سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص - ۱۹ ۱۹۶۲ )*

*"❀_ یہ وہ لوگ تھے جو بغلوں میں قانون الہی لیے ہوئے من گھڑت رواجی قانون کا کھوٹا سکہ چلا رہے تھے اور اس کردار کے ساتھ وہ اس مقدس ہستی کے مقابلے کو نکلے تھے جو قانون الہٰی کا بے لاگ طریقے سے احیا کرنے اٹھی۔*

*"❀_ اور قرآن کا یہ نغمہ حق فضاؤں میں گونج رہا تھا کہ:- "_ قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡـكِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰى شَىۡءٍ حَتّٰى تُقِيۡمُوا التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ؕ _" (المائده - 68)*
*"❀_ کہہ دو اے اہلِ کتاب ! اس وقت تک تمہاری کوئی بنیاد ہی نہیں ہے جب تک کہ تم تورات اور انجیل کو اور اللہ کی طرف سے جو کچھ قوانین نازل ہوئے ہیں ان کو نافذ نہ کر دکھاؤ۔*
*"_جب تک تمہارے عقیدہ و عمل میں یہ بھاری مخالفت موجود ہے۔ تمہاری کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ تم ایک بے معنی اور بے وزن ٹولی ہو ۔* 

*"❀_یہودی معاشرہ کے فساد عام کا ایک بڑا مظہر یہ تھا کہ ان میں اعلیٰ اور ادنی طبقوں کی تقسیم مستقل طور پر قائم ہو چکی تھی اور قانونی مساوات یکسر ختم ہو گئی تھی، با اثر لوگوں کے لیے قانون الگ تھا اور کمزور کے لیے الگ انصاف کی ندی پھٹ کر الگ الگ دھاروں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ان کے قاضی اور مفتی میزان عدل کے پلڑے نابرابر کر چکے تھے ۔*

*❥❥__ مجموعی طور پر سارے عرب میں انصاف میں دو رنگی پائی جاتی تھی۔ با اثر طبقوں کے لیے‌ قانون دو سرا تھا۔ کمزوروں اور عام لوگوں کے لیے دوسرا۔*.

*"❀_ فتح مکہ کا موقع تھا کہ فاطمہ نامی ایک مخزومی عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی، چونکہ وہ با اثر قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، اس لیے قریش کے لوگ اس کی گرفتاری پر بڑے بے چین ہوئے، اور ان کے تصور میں یہ بات سما نہ رہی تھی کہ ایسی عورت پر بھی قانون کا وہی حکم عقوبت چل جائے جو عام لوگوں کے لیے ہے۔*

*"❀_ ان لوگوں نے مشورہ کیا کہ رسول خدا ﷺ سے کہہ کہا کر اسے چھڑا لیا جائے۔ مگر آگے ہو کر بات کون کرے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سفارشی بنایا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے جا کر مدعا عرض کیا۔ حضور ﷺ کے چہرے کا رنگ بات سن کر متغیر ہو گیا اور فرمایا۔ "کیا تم اللہ کی ایک حد کے بارے میں (اسے رکوانے کی) سفارش کرتے ہو ؟"*

*"❀_ بس اتنے ہی پر اسامہ رضی اللہ عنہ کو احساس ہو گیا اور انہوں نے معافی طلب کی۔ دن ختم ہونے پر حضور ﷺ نے مجمع میں خطاب فرمایا_,"*

*"❀_ تم سے پہلے کے لوگوں کا ایک سبب ہلاکت یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی ممتاز آدمی چوری کرتا تو وہ اس سے چشم پوشی کر لیتے اور جب کوئی کمزور درجے کا آدمی یہی جرم کرتا تو اس پر سزا نافذ کر دیتے۔ میں اپنے بارے میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں"*
*®_(مسلم .)*

    
*❥❥__ یہی مروجہ زہنیت ام حارثہ کے معاملے میں بھی سامنے آئی۔ اس عورت نے کسی کا دانت توڑ ڈالا۔ مقدمہ حضور ﷺ کے سامنے لایا گیا۔ حضور ﷺ نے قصاص کا حکم سنایا۔ ام ربیع (غالباً مجرمہ کی بہن تھیں، لیکن اس معاملہ میں روایات میں کچھ التباس ہو گیا ہے) نے یہ فیصلہ سنا تو حضور ﷺ سے تعجب سے پوچھا کہ کیا فلانی سے بھی قصاص لیا جائے گا۔ خدا کی قسم اس سے قصاص نہیں لیا جا سکتا۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے فرمایا۔ "اری ام ربیع ! قصاص تو خدائی نوشتہ ہے "! مگر وہ کہنے لگی کہ "نہیں! خدا کی قسم اس سے ہرگز قصاص نہیں لیا جا سکتا"۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس درجے کی مجرمہ کا دانت کیسے توڑا جا سکتا ہے۔*

*"❀_ ادھر عملاً یہ ہوا کہ فریقین کے درمیان دیت ( جرمانہ) پر معاملہ طے ہو گیا۔ اس طرح حکم قصاص (جس میں دیت کی گنجائش بھی شامل تھی) بھی پورا ہو گیا۔ اور ام ربیع کی بات بھی رہ گئی۔*

*"❀_ چنانچہ بطور لطیفہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ کہ خدا کے ایسے بندے بھی ہیں کہ جب وہ قسم کھا لیں تو خدا ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے۔_,*
*®_ مسلم، باب القصاص )*

      ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

                 *⚂_ قتل کی سازشیں _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ پھر قتل کی سازشی تدبیریں اختیار کی گئیں، ٹھیک یہی راہ مکہ کے ارباب جہالت نے اختیار کی تھی۔ اور اب اسی ناپاک راستے پر مدینہ کے یہود اور منافقین بھی گامزن ہو نکلے۔*.

*"❀_ ایک مرتبہ عمرو بن امیہ ضمری نے قبیلہ عامر کے دو آدمی قتل کر دیئے تھے ان کی دیت وصول کرنے کیلئے نیز معاہدانہ زمہ داریوں کی یاد دہانی کیلئے رسول خدا ﷺ بنو نضیر کے ہاں پہنچے۔ وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کو ایک گڑھی کے سائے میں بٹھایا،*

*"❀_ پھر وہ لوگ علیحدگی میں مل کر یہ منصوبہ باندھنے لگے کہ کوئی شخص جاکر اوپر سے پتھر (چکی کا پاٹ) گرا دے اور حضور ﷺ کی زندگی کا خاتمہ کر دے۔ عمرو بن جحاش بن کعب نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی۔ ادھر حضور پر انکا ارادہ بد منکشف ہو گیا اور آپ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔*
*®_ ( سیرت ابن ہشام جلد ۲ ص ۱۹۲۔ رحمتہ للعالمین از قاضی سلمان منصور پوری جلد ا ص ۱۸۰)*

*"❀_مشهور یهودی سردار کعب بن اشرف جس کا باپ قبیلہ طے سے تھا اور جس کی ماں یہود کے مال دار اور مقتداء ابو رافع بن ابی حقیق کی بیٹی تھی' اپنے اس دو گونہ تعلق کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان یکساں رسوخ رکھتا تھا۔ ایک طرف وہ مالی قوت رکھتا تھا، دوسری طرف اس کی شاعری کی بھی دھاک تھی۔ اسکے سینے میں اسلام کے خلاف بڑا زہریلا لاوا بھرا تھا۔ اس نے حضور ﷺ کی دعوت کی اور کچھ آدمیوں کو مامور کر دیا کہ جب حضور ﷺ آئیں تو وہ ان کو قتل کر دیں۔*.

*❥❥_جس زمانے میں بنو قریظہ سے حضور ﷺ نے تجدید معاہدہ کی اس زمانے میں بنو نضیر نے حضور ﷺ کو پیغام بھجوایا کہ آپ اپنے ساتھ تین آدمی لا ئیں اور ہم بھی اپنے تین عالم پیش کریں گے۔ آپ اپنی بات اس مجلس میں بیان کریں۔ اگر ہمارے عالموں نے آپ کی تصدیق کر دی تو ہم سب بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضور ﷺ روانہ ہوئے تو راستہ میں آپ کو اطلاع ہو گئی کہ یہود تلواریں باندھے اس ارادے سے آپ کے منتظر ہیں کہ آپ کو قتل کر دیا جائے۔ آپ واپس آگئے۔*

*"❀_ فتح خبیر کے موقع پر ایک یہودی عورت زینب بنت الحرث (زوجہ سلام بن مشکم) نے ایک بکری کا گوشت بھون کر تیار کیا اور اس میں زہر ملا دیا۔ پھر یہ معلوم کیا کہ حضور ﷺ کو کون سا حصہ زیادہ مرغوب ہے۔ پھر جب معلوم ہو گیا کہ دست کا گوشت خاص طور سے پسند ہے تو اس نے اس میں باقی گوشت سے زیادہ مقدار میں بہت ہی تیز قسم کا مسلک زہر ملا دیا۔*

*"❀_ پھر یہ گوشت حضور ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے تحفے میں بھیجا۔ حضور ﷺ نے لقمہ منہ میں رکھا (شاید کچھ حصہ نگلا بھی گیا ہو) اور جلد ہی تھوک دیا۔ فرمایا : کہ اس گوشت نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے"*

*"❀_ پھر خود بھی نہیں کھایا اور ساتھیوں کو بھی روک دیا۔ بعد میں اس یہودیہ کو بلایا گیا تو اس نے اقرار کر لیا۔ حقیقت یہ تھی کہ اس کے پیچھے بہت سے یہود کی سازش کام کر رہی تھی۔ حضور نے جب مجلس عام میں ان کو بلوا کر بات کی تو انہوں نے بھی اعتراف کیا۔ مگر بات یہ گھڑی کی ہم نے آپ کی جانچ کرنا چاہی تھی کہ آپ اگر سچے نبی ہوں گے تو آپ پر حقیقت منکشف ہو جائے گی۔ ورنہ ہم کو نجات مل جائے گی۔*

*❥❥_تبوک سے جب حضور ﷺ کی واپسی ہوئی اور منافقین کے دل اس مہم کی کامیابی سے بھنے جا رہے تھے کیونکہ ان چھپے دشمنوں کے ارمان کچھ اور تھے تو انہوں نے حضور ﷺ کے قتل کی ناپاک سازش باند ھی، اس سازش میں بارہ آدمی شریک ہوئے۔*

*"❀_سازش کی مجلس میں طے پایا کہ حضور ﷺ جب عقبہ سے گزریں تو ان کو نیچے گرا دیا جائے۔ اسی منصوبے کے مطابق یہ بارہ مفسدین حضور ﷺ کے ساتھ ساتھ لگے رہے۔ حضور ﷺ جب عقبہ کے قریب پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ جو لوگ بطن وادی کے کشادہ راستہ سے ہو کر جانا چاہیں وہ ادھر سے جا سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے عقبہ کا راستہ لیا۔ صحابہ کی کثیر تعداد بطن وادی کی طرف چلی گئی۔*

*"❀_ مگر سازشی گروہ بطور خاص حضور کے ساتھ رہا۔ حضور ﷺ کی نگاہ یوں بھی دلوں کی گہرائی میں اتر کر مخفی جذبات کو پڑھ لینے والی تھی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے غیبی اشارہ دے کر آپ ﷺ کو اس حال سے مطلع بھی کر دیا۔ آپ ﷺ نے دو رفیقوں کو ساتھ لیا۔ ایک حضرت حذیفہ بن یمان تھے، دوسرے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم،*

*"❀_ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آگے رہیں اور ناقہ کی مہار تھامیں اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ وہ پیچھے پیچھے چلیں۔ جب عقہ کا خاص مقام آگیا تو سازشی ٹولی لپکتی ہوئی آئی۔ رات کی تاریکی بھی تھی اور انہوں نے چہروں پر نقابیں بھی ڈال رکھی تھیں۔ حضور ﷺ کو آہٹ ہوئی تو ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کو پیچھے لوٹا دیں۔*.

      
*❥❥_ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ لیک کر گئے اور ان لوگوں کا اونٹ دکھائی دیا اور انہوں نے اپنا ترکش اس کی تھو تھنی پر مارا۔ وہ لوگ حضرت حذیفہ کو جب پہچان گئے تو سمجھے کہ راز فاش ہو گیا۔ اور پیچھے بھاگ کر لوگوں میں گھل مل گئے۔*

 *"❀_حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ واپس ہوئے تو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ اس مقام سے اونٹ کو تیز ہنکا کر نکال لے چلو۔ پھر حضرت حذیفہ سے پوچھا کہ کیا تم نے ان لوگوں کو پہچانا۔ انہوں نے کہا کہ فلاں اور فلاں کی سواری تو پہچان لی۔ مگر آدمی نہیں پہچانا۔ حضور نے پوچھا کہ تم نے ان کا عندیہ سمجھا۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ حضور نے ان کو خود آگاہ کیا کہ یہ ہمیں عقبہ سے گرا دینا چاہتے تھے۔*.

 *"❀_ صبح ہوئی تو حضور ﷺ نے اشارہ غیبی کے مطابق نام بہ نام ان بارہ سازشیوں کو طلب کیا۔ اور ہر ایک کے دلی جذبات اور مجلس سازش میں کہی ہوئی اس کی باتوں کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اور باری باری ہر ایک سے صفائی طلب کی۔*

*"❀_ ان کے جواب بڑے دلچسپ رہے ہوں گے۔ مثلاً حصن بن نمیر کہنے لگا کہ "مجھے یقین نہ تھا کہ آپ کو اس کی خبر ہو گی۔مگر آج معلوم ہوا کہ واقعی آپ خدا کے رسول ہیں۔ اس سے قبل میں سچا مسلمان نہ تھا۔ اب صدق دل سے اسلام لاتا ہوں"۔*

*"❀_ سب نے اس طرح کی مختلف باتیں بنائیں، عذر کیے اور بعض نے معافی چاہیں۔حضور ﷺ نے سب سے درگزر فرمایا، روایات ہیں کہ حضور ﷺ نے ان اشخاص کے نام صرف حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو راز داری سے بتا دیئے تھے ۔ اور عام مسلمانوں پر فاش نہیں کیئے۔*

     
*❥❥_ انہیں واقعات میں سے یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے آپ ﷺ پر جادو کا ایک حملہ بھی کیا تھا۔ بہادر دشمن وہ ہوتا ہے جو کھل کر مقابلہ کرے۔ اور اگر وہ جان کے در پے ہو تو چلینج کر کے کھلم کھلا حملہ آور ہو۔ لیکن یہودیوں میں اتنا بل تو نہ تھا۔ چنانچہ وہ سازش کی راہ پر پڑے، جو بزدلوں اور کمینہ فطرت لوگوں کی راہ ہوتی ہے۔*

*"❀_ لیکن اس سے آگے جادو ٹونوں، وخلیفوں اور جھاڑ پھونکوں کے زور سے وہ لوگ کسی پر حملہ کرتے ہیں، سو ان لوگوں نے بغض کے مارے یہ گھٹیا حرکت بھی حضور ﷺ کے خلاف کر ڈالی۔ بنی زریق کا ایک شخص لبید بن اعصم یہودیوں کا حلیف تھا۔ اور منافقانہ شخصیت کا حامل۔ اس کے ہاتھوں عمل سحر کرایا گیا۔*

*"❀_ ایک یہودی لڑکا اپنی اچھی فطرت کی وجہ سے حضور ﷺ کی طرف مائل تھا۔ اور آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ اس کو مجبور کر کے بعض یہودیوں نے حضور ﷺ کے سر کے بال اور کنگھی کے دندانے حاصل کئے ۔ اور ان پر جادو کا عمل کر کے بارہ گرہوں والا گنڈا بنایا گیا اور زروان نامی کنوئیں میں اسے رکھوایا گیا۔*

*"❀_ احادیث میں آتا ہے کہ اس عمل سحر کی وجہ سے حضور ﷺ ایک عجیب سی کیفیت محسوس کرتے، کسی کام کا خیال فرماتے کہ وہ کر لیا ہے۔ حالانکہ نہ کیا ہوتا۔ جنسی میلان پر بھی کچھ اثرات تھے۔ القائے ربانی سے آپ اس عمل سحر سے آگاہ ہوئے۔ وہ گنڈا نکلوایا گیا اور آپ کی طبیعت معمول پر آگئی،*
*®_(تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۵۷۲ و ج ۷)،*

*❥❥_ فتح مکہ کے موقع پر فضالہ بن عمیر کے سینے میں بھی انتقام کی بجلی کو ندی۔ دل ہی دل میں حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ باندھا۔*

*"❀_ حضور ﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ فضالہ نمودار ہوا۔ قریب آیا تو آپ ﷺ نے بلایا۔ ”فضالہ ! تم ہو ؟" اس نے جواب دیا ”ہاں! یا رسول الله فضالہ ! فرمایا کیا بات تم نے اپنے دل میں ٹھان رکھی ہے؟ فضالہ نے گھبرا کر جواب دیا ”کچھ بھی نہیں۔ میں تو خدا کا ذکر کر رہا ہوں"۔*

*"❀_ حضور ﷺ یہ جواب سن کر ہنس پڑے اور نصیحت کی کہ خدا سے مغفرت طلب کرو"۔ اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ فضالہ کے سینے پر رکھ دیا اور اس کا دل ٹھکانے آگیا۔ فضالہ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے جب اپنا ہاتھ میرے سینے سے اٹھالیا تو خداکی مخلوق میں میرے لیے حضور ﷺ سے بڑھ کر اور کچھ محبوب نہ رہا ۔*

*"❀_ فضالہ اس قلبی انقلاب سے گزر کر گھر چلے گئے فاتح مکہ بلکہ فاتح عرب کے خلاف ایک شخص قتل کا ارادہ باندھ کر آتا ہے اور اس کی بارگاہ سے نئی زندگی لے کر روانہ ہوتا ہے۔ قریش اور یہود اور منافقین سب کے سب اپنی چالیں چلتے رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ اور آخر دم تک اپنے بندے اور اپنے رسول کی حفاظت فرمائی۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *⚂_ ہلاکت انگریز غداریاں _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ اوپر ہم نے مدینہ کی اسلام دشمن طاقتوں کی جن شرارتوں کا ذکر کیا ہے وہ اخلاقی اور قانونی لحاظ سے سنگین جرائم کی تعریف میں آتی ہیں۔ اور اگر ان پر سخت ترین کارروائی کی جاتی تو دین وسیاست کے بہترین اصول عدل کے عین مطابق ہوتی۔ مگر حضور پاک ﷺ نے بڑا ہی ٹھنڈا اور صابرانہ رویہ اختیار کیا۔*

*"❀_ جس تحریک کے سامنے اصل مقصود انسانیت کی اخلاقی اصلاح و تعمیر ہو وہ اقتدار کی تلوار اور قانون کے ڈنڈے پر سارا انحصار نہیں کر سکتی۔ انسانوں کے ذہن و کردار کی تبدیلی کا کام تلواروں اور کوڑوں سے کبھی نہیں ہوتا۔ عقلی دلیل اور اخلاقی اپیل سے ہوتا ہے۔ اس راہ میں غصہ کے بجائے تحمل اور انتقام کے بجائے صبر زیادہ کارگر ہوتا ہے۔*

*"❀_ انسانیت کے محسن اعظم نے تاریخ کی فضاؤں کو حسن اخلاق سے روشن کرنا چاہا۔ مخالفوں کی زیادتیوں اور فتنہ سازیوں پر اعلی ترین درجے کا صبر دکھایا۔ اتنے بڑے عفو اور اتنی بڑی چشم پوشی کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی،*

*"❀_ لیکن مخالف طاقتوں نے بھی جرم و شرارت کی آخری حد کو چھوئے بغیر دم نہ لیا۔ انہوں نے ایک بار نہیں بار بار باغیانہ غداری کے کھلے کھلے اقدامات کئے ۔ لیکن مہلک جرائم کے مقابلے میں بھی حد درجہ کا متحمل دکھایا اور آخر دم تک یہ کوشش جاری رکھی کہ دشمن طاقت کی حق شرافت بیدار ہو، اس کی سوچنے کی طاقتیں جاگ اٹھیں ، وہ معقولیت کی طرف مڑ جائے اور ایک ہار دوسری بار تیسری بار سنبھل جائے ۔*.

*"❀_ مگر جو لوگ ٹیڑھے راستے پر پڑ گئے تھے ان کی آنکھیں نامرادی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے پہلے نہیں کھل سکیں۔*

*❥❥__ قریش مکہ نے عبد اللہ بن أبی کو کار آمد ترین آدمی پا کر اسے ایک خفیہ خط بھیجا اور اس کے ذریعہ مدینہ کے فاسد اور کمزور عناصر کو اپنے اثر میں لینے کے لیے ایک ہمہ گیر پیغام بھیجا۔ لکھا کہ :-*
*"❀_ تم لوگوں نے ہمارے آدمی (یعنی محمد ﷺ ) کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم اسے مار ڈالو یا مدینہ سے نکال باہر کرد. درنہ ہم سب مل کر تمہارے خلاف چڑھائی کریں گے اور تم کو قتل کریں گے ۔ اور تمہاری عورتوں کو اپنے لیے سامان عشرت بنائیں گے _,"*
*®_(سنن ابو داؤد باب خبر النفير)*
 .
*"❀_ عبداللہ بن أبی اگر ایماندار اور شریف شہری ہوتا تو وہ فوراً اس خط کو حضور ﷺ تک پہنچاتا اور اس کی دلی خواہش یہ ہوتی کہ قریش کی دھمکی کے مقابلے میں سارے مدینہ کے جذبات حمیت کو صف آرا کر دیا جائے۔ لیکن غداری تو اس کی روح میں رچی بسی تھی۔ وہ اپنی محرومی اقتدار کا انتقام لینے کے لیے اس پر تل گیا کہ قریش کا منشاء پورا کر دیا جائے۔*

*"❀_ لیکن یہ راز بہت جلد کھل گیا اور حضور ﷺ مطلع ہو گئے ۔ خود عبداللہ بن أبی کے پاس تشریف لے گئے اور اسے سمجھایا کہ تم لوگوں کے اپنے ہی بیٹے، بھتیجے اور بھانجے اپنی پوری قوت شباب کے ساتھ دین حق کی علمبرداری کر رہے ہیں اور اگر کوئی ایسی ویسی صورت پیدا ہو گئی، تو تم دیکھو گے کہ تمہاری ہی اولادیں تمہارے مقابلے میں کھڑی ہیں۔ تمہیں اپنے ہی بچوں سے لڑنا ہو گا۔*

*"❀_ عبداللہ بن أبی کی سمجھ میں یہ بات بیٹھ گئی اور وہ اپنے منصوبے سے باز آگیا۔*_

  
*❥❥_ واضح رہے کہ جنگ بدر کے بعد قریش نے پھر ایسا ہی ایک خط عبداللہ بن أبی کو بھیجا تھا۔ اسی فتنہ گر نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر سخت غدارانہ اقدام یہ کیا کہ جب بنو نضیر کی بار بار کی عہد شکنی اور تخریبی حرکات پر اسلامی ریاست کی طرف سے ان کو دس روز کے اندر اندر مدینہ کی حدود سے نکل جانے کا حکم ہوا اور وہ اس کے لیے تیاریاں بھی کرنے لگے،*

*"❀_ تو عبد اللہ بن أبی نے ان کو کہلا بھیجا کہ خبردار! اس حکم کی تعمیل نہ کرنا اور اپنی بستی کو نہ چھوڑنا۔ ہم دو ہزار آدمیوں کی کمک لے کر آرہے ہیں۔ اور پھر یہ امید بھی دلائی کہ ایک طرف بنو قریظہ تمہاری مدد کریں گے اور دوسری طرف بنو غطفان تمہارے حلیف ہیں۔*

*"❀_ چنانچہ بنو نضیر نے حضور ﷺ کو کہلا بھیجا کہ ہم یہاں سے نہیں جا سکتے۔ آپ کا جو جی چاہے کریں۔ بالآخر اسلامی حکومت کو اپنا حکم منوانے کے لیے فوجی کارروائی کرنی پڑی ۔*

*"❀_ پھر اسی شخص نے جنگ احد کے انتہائی نازک اور فیصلہ کن موقع پر یہ گل کھلایا کہ جب اسلامی فوج مدینہ سے نکل کر شوط کے مقام پر پہنچی تو یہ تین سو منافقین کو لے کر مدینہ لوٹ گیا۔ یہ حرکت اسلامی فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھی۔ کہتا یہ تھا کہ جب ہماری رائے پر عمل نہیں کیا جاتا اور اختیارات دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں تو ہم اپنی گردنیں کیوں کٹوائیں۔*
*"❀_دراصل عبداللہ بن أبی کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نہ نکلا جائے۔*

*❥❥__غدارانہ ساز باز کے لحاظ سے دوسری نمایاں شخصیت ابو عامر کی تھی۔ ہم مسجد ضرار کے سلسلے میں اس کا تعارف کرا چکے ہیں۔ اس فتنہ گر نے معرکہ بدر کے بعد نبی اکرم ﷺ کی فتح سے جل بھن کر مکہ کا سفر کیا اور ابو سفیان سے مل کر قریشی سرداروں کو انتقام کے لیے بھڑکایا۔*

 *"❀_جنگ احد کی آگ کو دہکانے میں اس کا بھی حصہ تھا۔ یہ خود بھی قریشی لشکر کے ساتھ میدان جنگ میں اس زعم کے ساتھ اترا کہ میرے کہنے پر قبیلہ اوس کے لوگ اسلام کا ساتھ چھوڑ کر قریش کی طرف آجائیں گے۔ اس نے میدان جنگ میں اوس والوں کو پکارا۔ مگر اس کو وہ جواب ملا کہ دماغ درست ہو گیا۔ اور تو اور خود اس کے فرزند حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نہایت اخلاص اور جاں نثاری سے سرور عالم (صلی اللہ علیہ و سلم) کے اشاروں پر سر بکف کھڑے تھے۔*

*"❀_ پھر احد کے بعد یہ ہرقل روم کے پاس پہنچا تا کہ وہاں سے فوجیں چڑھا لائے۔ ادھر منافقین کو در پردہ بھروسہ دلایا گیا تھا کہ تم تیار رہنا۔ میں کمک لے کے آرہا ہوں۔*

*❀_ اس شخص کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے مقام حنین کے قریب حضور ﷺ کو اذیت دینے کے لیے گڑھے کھدوائے تھے۔ چنانچہ آپ ایک گڑھے میں گرے اور متعدد چوٹیں آئیں۔*

*❥❥__ غدارانہ سرگرمیوں کا تیسرا بڑا امام کعب بن اشرف تھا۔ اور اس کا تذکرہ بھی اوپر ہم کر چکے ہیں۔ اس شخص نے ایک طرف مدینہ میں وظیفے جاری کر کر کے کرائے کے پھٹو پیدا کر رکھے تھے۔ اور دوسری طرف مکہ والوں کو مدینہ پر چڑھائی کے لیے بھڑکاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے اثر و رسوخ اپنے فن اور اپنی دولت کو خوب خوب استعمال کیا۔*

*"❀_ اس کی تحریک سے ابو سفیان اور دوسرے لوگوں نے غلاف کعبہ کو تھام کر بدر کا انتقام لینے کا حلف لیا۔ اس سازشی ماحول نے اسلامی جماعت کو خاص حفاظتی انتظامات اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ حضور ﷺ راتوں کو جا گا کرتے تھے۔ اور اپنے رفقاء کو باری باری پہرے پر مامور کرتے۔*

*"❀_ اسی دور کا واقعہ ہے کہ ایک بار آپ ﷺ نے مجلس عام میں فرمایا، " آج کوئی اچھا آدمی پہرہ دے" ۔ یہ اشارہ سن کر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہتھیار لگائے اور رات بھر پہرہ دیا۔ حال یہ تھا کہ صحابہ صبح تک ہتھیار لگائے لگائے سویا کرتے تھے۔*

*"❀_ اور غالباً یہی وہ دور ہے۔ جس سے حضور کا یہ ارشاد تعلق رکھتا ہے کہ : خدا کی راہ میں ایک دن کا پہرہ دینا دنیا و مافیہا کے مقابلے میں بہتر ہے۔* *"_اور یہ کہ: (خدا کی راہ میں) ایک دن رات کا پہرہ دینا مہینے بھر کے (نفلی) روزوں اور شبانہ قیام نماز سے افضل ہے۔"*
*®_ ریاض الصالحین_,"*

*❥❥__ یوں تو مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس برس کا جو زمانہ گزارا ہے اس کا بیشتر حصہ ایسا ہے کہ نازک اور ہنگامی صورت حالات (State of Emergency) چھائی رہی لیکن حق و باطل کی باہم آویزش جب جب بھی (تھوڑے تھوڑے وقفوں پر بار بار ایسا ہوتا رہا) معروف معنوں میں جنگ کی صورت اختیار کرتی، یہود اور منافقین غدارانہ حرکتوں میں لگ جاتے۔*

*"❀_ احد کا واقعہ ہم اوپر بیان کر ہی آئے ہیں کہ اسلامی فوج میدان جنگ کی طرف مارچ کر رہی ہے اور راستے میں سازشیوں کا لیڈر عبد اللہ بن أبی تین سو آدمیوں کو الگ کر کے واپس لے جاتا ہے۔ اگر حضور ﷺ اور آپ کے جان نثاروں کی جگہ کوئی دنیاوی طاقت اس صورت حالات سے دو چار ہوتی کہ تین ہزار دشمنوں والے مقابلے پر جانے والی کل ایک ہزار ہوں اور اس میں سے بھی تین سو آدمی یکایک الگ ہو جائیں، اور بقیہ سات سو میں بھی کچھ افراد شرانگیزی کے لیے گھلے ملے رہ جائیں تو شاید وہیں دل ٹوٹ جاتے اور ہمتیں جواب دے جاتیں۔*

*"❀_ چنانچہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ دل شکستہ ہو کر واپسی کی سوچنے لگے تھے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمت بندھانے سے رک گئے۔ مگر خدا پر ایمان روح صداقت کی برتری کا این اخلاقی قوت کی کامیابی کا تصور اور غیبی امداد پر بھروسہ علمبرداران اسلام کا اصل سرمایہ تھا۔ اور وہ اسی عزم کے ساتھ میدان احد کی طرف بڑھتے چلے گئے۔*

*"❀_ پھر میدان احد میں جب ایسا سخت وقت بھی آیا اور نبی کریم ﷺ کی شہادت کی خبر اڑی تو منافقین نے اس تجویز کے لیے حامی پیدا کرنے چاہے کہ عبداللہ بن أبی کی منت سماجت کر کے اسے آمادہ کیا جائے کہ وہ ابو سفیان سے امان لے دے۔*.

*❥❥_ پھر اس موقع پر مسلمانوں کو اللہ تعالی نے ان کی کمزوریوں پر گرفت کرنے کے لیے ایک طرح کی جو ہزیمت دی تھی، اس پر ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد ( ﷺ ) اگر نبی ہوتے تو کیوں ہزیمت کھاتے۔ یہ تو دنیاوی حکمرانوں کا سا معالمہ ہوا کہ کبھی جیت ہو گئی کبھی ہار۔*

*"❀_ اس پروپیگنڈے کے نتیجے انہیں مسلمانوں کے اندر شبہات پیدا ہو بھی گئے۔ بعض لوگ اس طرح سوچنے لگے کہ ہم جب خدا کی راہ میں لڑنے گئے تھے اور خدا کے پیغمبر کی قیادت میں تھے تو پھر آخر ہمیں زک کیوں ہوئی ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے قرآن نے کہا کہ " (آل عمران (۱۶۵) یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی لائی ہوئی ہے (ینی تمہاری بعض کمزوریاں رنگ لائی ہیں)*

*"❀_اور منافقین نے سب سے بڑھ کر اپنے جوہر جنگ احزاب (غزوہ خندق) کے موقع پر دکھائے۔ میدان بدر کے اولین معرکے میں قریش کی قوت کو کاری ضرب لگ چکی تھی۔ اس کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے بڑی تیاریوں سے فوج کشی کی اور ۵ ھ میں وہ اپنی اور اپنے سارے حامیوں اور مدینہ کے سازشیوں کی قوتیں مجتمع کر کے اور مختلف قبائل کو اکسا اکسا کر لائے۔ گویا ہر طرف سے لشکروں (احزاب) نے آکر مسلمانوں کو گھیر لیا۔*

*"❀_ یہ بڑا ہی فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اور اس کے بعد قریش اور دوسرے دشمنان اسلام کا زور ٹوٹ گیا۔ ۔ جنگ احزاب کے خاتمے کے دن ہی در حقیقت فتح مکہ کا دروازہ کھل گیا تھا، اسلامی تحریک کے پاسبانوں کو سب سے زیادہ اضطراب انگیز حالات اسی موقع پر پیش آئے مگر المبرداران حق کے لیے اللہ تعالٰی کی تائید خاص تھی۔ اس لیے ایک طرف خندق کی نئی دفاعی تدبیر دوسری طرف قریش اور بنو قریظہ کی ساز باز توڑنے میں نعیم بن مسعود کا حکیمانہ کمال، تیسری طرف حضور ﷺ اور آپ کے تربیت یافتہ قائدین اور پوری جماعت کا مضبوط مجاہدانہ کردار اور چوتھی طرف مشیت کی بھیجی ہوئی آندھی نے یہ نتیجہ دکھایا کہ دشمن یکا یک میدان سے اس طرح رخصت ہو گیا جیسے پل بھر میں بدلیاں چھٹ جاتی ہیں۔*

*❥❥__پھر ایک موقع غزوہ تبوک کا ہے۔ منافقین نے ہرقل روم کے دربار میں رسائی حاصل کر کے اسے اکسانے کی کوششیں کی تھیں۔ خبر اڑی کہ ہرقل نے چالیس ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کر دیا ہے۔ حالات کچھ عجیب تھے۔*

*"❀_ قحط کا زمانہ تھا۔ درختوں میں پھل تیار تھے۔ موسم سخت گرم تھا۔ فوج بڑی تعداد میں زیادہ فاصلے پر روانہ کی جانی تھی۔ مگر مالیات کا پہلو کمزور تھا۔ اور سواری، ساز و سامان اور نان و نفقہ کی حد درجہ قلت تھی۔ اسی لیے اسے "جیش عسرت" کا نام بھی دیا گیا ہے۔*

 *"❀_منافقین نے اس حالت کو دیکھ کر اور یہ اندازہ کر کے کہ اس معرکے میں غنیمت ہاتھ آنے کا کم ہی امکان ہے، عدم تعاون کی پالیسی اختیار کی اور جھوٹے عذر گھڑ گھڑ کر بیٹھ رہے۔*

*"❀_ الجد بن قیس نے آکر حضور ﷺ سے کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ مجھے عورتوں کی طرف بہت زیادہ رغبت ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ بنی مریم الاصفر کی عورتوں کو دیکھ کر فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں لہٰذا مجھے معذور رکھئے۔*

*"❀_ یہ لوگ خود تو رہے ہی تھے' ہر کسی سے کہتے پھرتے تھے کہ خدا خدا کرو دیوانے ہو گئے ہو۔ اس جھلستی گرمی میں تم جہاد کرنے چلے ہو۔ انہوں نے ایک اڈا سولیم یہودی کے مکان پر بنا رکھا تھا۔ اس میں لوگ جمع ہوتے تو ان کو غزوہ میں جانے سے روکتے۔ آخر اس اڈے کا ناپاک وجود ہی ختم کر دیا گیا۔*

   
*❥❥__پھر لشکر کی روانگی کے بعد ان لوگوں نے ایک اور فتنہ پیدا کر دیا۔ حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اہل بیت کی دیکھ بھال کے لیے بطور ذاتی نائب کے چھوڑا تھا۔ یہ لوگ کہنے لگے کہ آج کل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت حضرت علی کے بارے میں مکدر ہے اس لیے ان کو ساتھ نہیں لیا۔*

*"❀_ حضرت علی کی غیرت کو اس نشتر نے ابھار دیا۔ اور ہتھیار لگا کر آپ حضور پاک ﷺ سے جا ملے اور منافقین کی شرانگیزی کا قصہ بیان کیا۔ حضور ﷺ نے انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیجا کہ مدینہ میں ان لوگوں سے خدشہ ہے۔*

*"❀_ تبوک پہنچ کر ساتھ جانے والے منافقین (اور کچھ نہ کچھ تعداد فتنہ انگیزی کے لیے ہمیشہ شریک ہوتی تھی) نے حق کے سپاہیوں کو یہ کہہ کر ڈرانا شروع کیا کہ بنو اصفر کے شیر دل جنگ آزماؤں کو تم لوگوں نے عربوں پر قیاس کر رکھا ہے۔ کل تم پر اپنی غلط فہمی کا حال کھل جائے گا جب کہ تم سب کے سب غلام بن کے جکڑے ہوئے ہو گے۔ باز پرس کی گئی تو کہنے لگے کہ ہم تو مذاق مذاق میں کچھ باتیں کر رہے تھے کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا۔*

*"❀_رومی لشکر تو آیا ہی نہیں تھا۔ لیکن اس قسم سے ایک طرف رومیوں کو اندازہ ہو گیا کہ مدینہ پوری طرح چوکنا ہے اور ہمارے مقابلے پر آنے کی طاقت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ایلہ، جرہا اور دومتہ الجندل کے علاقے زیر اثر آجانے سے بیرونی حملہ کے امکانات کم ہو گئے۔*

        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ اس سفر میں دو مواقع پر حضور ﷺ نے چشموں سے بلا اجازت پانی پینے سے فوج کو منع کر دیا تھا۔ لیکن بعض منافقوں نے حکم عدولی کر کے اپنے دلی روگ کو عیاں کر دیا۔۔ اسی سفر میں عقبہ کے مقام پر حضور ﷺ کو ہلاک کر دینے کی ناکام سازش کی گئی۔ جس کا حال ہم بیان کر چکے ہیں۔ اہل نفاق کی اتنی غداریوں اور سازشوں کے باوجود حضور ﷺ اس مہم میں کامیابی حاصل کر کے واپس ہوئے، اور بڑی شان سے آپ در گزر کرتے گئے۔*

*"❀_ تین مخلص ساتھی کعب بن مالک, ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع جو تساہل ( غفلت ) کی وجہ سے رہ گئے تھے، انہوں نے اعتراف تصور کیا اور ان کو پچاس دن تک حکم الٰہی کے انتظار میں معاشرہ سے الگ رہنا پڑا۔ اس امتحان سے یہ لوگ اس خوبی سے گزرے کہ انہوں نے اپنے آپ کو زریں کردار سے مالا مال کر لیا۔ ان کی بھی توبہ قبول ہوئی ۔*

*"❀_ مگر منافقین کہتے تھے کہ عجب بے وقوف لوگ ہیں، ہماری طرح کوئی عذر کر دیتے خواہ مخواہ اپنے آپ کو وباں میں ڈال لیا ہے، اب بھگتیں۔*

*"❀_ اندازہ کیجئے کہ اسلامی ریاست اور اسلامی تحریک کو کیسے کیسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور نوع انسانی کو فلاح کا راستہ دکھانے والی ہستی کو پیروان موسیٰ اور ان کی امت کے منافقین کے ہاتھوں کیسی کیسی غدارانہ کارروائیوں سے سابقہ پیش آیا۔ مگر اسلامی ریاست کا پھیلاؤ بڑھتا ہی گیا۔ تحریک حق کی شعائیں فضا میں پھیلتی ہی چلی گئیں اور محمد ﷺ کا پیغام گونجتا ہی چلا گیا۔ اخلاص پھولا اور پھلا مگر غداریوں کے جھاڑ جھنکاڑ پھل تو کیا لاتے ان کی جڑیں ہی کٹ گئیں۔*

       ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

      *⚂_ قریش کی ذلیل انتقامی حرکات_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ مدینہ کے ابتدائی دور میں جنگ چھڑنے سے قبل قبیلہ اوس کے ممتاز سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کرنے کے لیے مکہ معظمہ گئے۔ امیہ بن خلف سے چونکہ ان کے دیرینہ تعلقات تھے ، اس لیے اس کے ہاں قیام کیا۔ وہ امیہ کو لے کر کعبہ کا طواف کرنے گئے۔*

*"❀_ اتفاقاً ابو جہل بھی ادھر آ نگلا۔ اس نے پکار کر امیہ سے پوچھا کون ہے تمہارے ساتھ ؟" امیہ نے بتایا کہ سعد ہیں۔ ابو جہل نے غضب ناک ہو کر کہا کہ تم لوک ان بدمذہبی (صابی) لوگوں کو پناہ دیتے ہو"۔ پھر سعد سے کہا کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم کعبہ میں قدم رکھ سکو۔ اگر تم امیہ کی حمایت میں نہ ہوتے تو آج زندہ بیچ کر جا نہ سکتے،*

*"❀_ دیکھئے کہ سیاسی انتقام کا جذبہ قریش کے ایک لیڈر کو یہاں تک لے آیا ہے کہ وہ خدا کے گھر کے دروازے اس کے بندوں پر بند کرتا ہے۔ اور ان کو ایک عبادت سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ گویا کعبہ بھی ان لوگوں کی ایک جاگیر تھی۔ اور حرم کی تولیت کو انہوں نے در حقیقت اپنی سیاسی قوت کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔*

*"❀_ ادھر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی کوئی درویش تو تھے نہیں۔ ان کے اندر اسلام کی روح حمیت کار فرما تھی اور وہ مدینہ کی سیاسی قوت کے معنی جانتے تھے۔ انہوں نے مختصر لفظوں میں ایسا جواب دیا کہ ابو جہل اور قریش کے سامنے ایک خطرہ عظیم نمودار ہو گیا۔ سعد نے کہا:۔ "اگر تم نے ہم کو حج سے روکا تو ہم تمہارا مدینہ کا (تجارت) راستہ روک دیں گے"۔*

*❥❥_ دوسرے لفظوں میں یہ قریش کی معاشی شاہ رگ کو کاٹ دینے کی دھمکی تھی۔ اس دھمکی نے سارے مکہ کو چونکا دیا۔ بعد میں مدینہ کی پالیسی سعد رضی اللہ عنہ کے اسی قول کے مطابق تشکیل پائی اور قریش ہے بس ہو کر آخری باری کھیل جانے پر تیار ہو گئے۔*

*"❀_ ابو جہل جذباتی ہیجان میں کہنے کو تو یہ کہہ گیا، لیکن اس بے جا دھمکی سے قریش کے اثر کو سخت دھکا لگا۔ قرآن نے ان کی حرم کی اس ٹھیکہ داری کو جس کے بل پر وہ بندگان خدا کو خانہ خدا میں داخلہ سے روک رہے تھے، بھر پور تنقید کا نشانہ بنایا ۔ مختلف مواقع پر یہ آیات نازل ہوئیں:*

*"❀_ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے رو کے اور (اس طریقے سے) ان کی ویرانی کے در پے ہو"۔ (بقرہ ۔ (۱۱۴)*
*"❀_ لوگ پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو اس میں لڑنا بہت برا ہے۔ مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے"۔ (بقرہ ۳۱۷)*
*"❀_ لیکن اب کیوں نہ وہ (یعنی اللہ تعالی) ان پر عذاب نازل کرے۔ جب کہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں"۔ (الانفال ۔ ۳۲)*

*"❀_ اور قرآن کی یہ بات تمام عرب میں آہستہ آہستہ پھیلتی گئی اور قریش کی مذہبی دھاک کا زور کم ہوتا گیا۔ خود صلح حدیبیہ (ذیقعدہ ٦ھ) کے موقع پر قریش نے معاہدے کا بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا۔*

*❥❥_ سرور عالم ﷺ نے فقط عمرہ کے ارادے سے یہ سفر کیا۔ کوئی نفیر جنگ نہیں ہوئی۔ رضا کارانہ طور پر لوگ عمرہ کے لیے نکلے۔ قربانی کے جانور ساتھ لیے گئے۔ اور جنگی ضرورت سے اسلحہ بندی کے بغیر محض معمولی حفاظتی ہتھیاروں کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا۔*

*"❀_ ذوالحلیفہ کے مقام پر مشہور مقررہ شعار کے مطابق قربانی کے اونٹوں کو نشان زد کیا گیا۔ اور ان کے گلے میں قلادے ڈالے کئے۔ اس سے ایک نظر میں دیکھنے والے کو اندازہ ہو سکتا تھا کہ یہ اونٹ حرم میں قربانی پیش کرنے کے لیے لے جائے جا رہے ہیں۔ یہ جنگی سواریاں نہیں ہیں۔*.

*"❀_ راستے ہی میں مخبر بشر بن سفیان الکھی کے ذریعے اطلاع مل گئی کہ بنی کعب بن لوی جنگی تیاری کر رہے ہیں اور کسی قیمت پر حرم میں نہ جانے دیں گے۔ حدیبیہ پہنچ کر حضور ﷺ نے پیغام بھجوایا کہ ہم لڑنے نہیں آئے۔ عمرہ کرنے آئے ہیں۔*

*"❀_ بدیل بن ورقاء خزاعی نے مصالحت کی کوشش کی۔ پھر عروہ بن مسعود نے گفت و شنید کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد بنی کنانہ کا ایک شخص حلیس بات چیت کرنے کے لیے بیچ میں آیا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے جب قلادہ والے اونٹوں کا ایک سیلاب وادی میں متحرک دیکھا تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور اس نے اپنا یہ تاثر قریش سے یان کیا۔ تو انہوں نے یہ کہہ کر اس کی بڑی حوصلہ شکنی کی کہ تم دیہاتی آدمی ان معالمات کو کیا جانو، حلیس کو اس پر بڑا ربج ہوا۔*

*"❀_ اس نے کہا:- "اے قریش! ہمارا تمہارا یہ معاہدہ نہیں۔ نہ اس پر ہم نے حلیفانہ تعلق قائم کیا ہے۔ کیا خدا کے گھر سے ایسے شخص کو روکا جائے گا جو اس کی شان بڑھانے کے لیے آیا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں حلیس کی جان ہے تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو موقع دو کہ جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں کریں۔ ورنہ ہم اپنے تمام گروہوں کو واپس لے جاتے ہیں_,*

      
*❥❥__ قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر بنو بکر کو ہتھیار بھی فراہم کئے اور رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر خزاعیوں سے لڑے۔ بنی خزاعہ نے حرم میں جا کر پناہ لی اور بنو بکر کے سردار کو پکار کر کہا کہ "اے نوفل ! دیکھو اب ہم حرم میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب باز آجاؤ ۔۔۔ خدا کے لیے ! خدا کے لیے !!*

*"❀_ مگر وہ فتح کے نشے میں بہک رہا تھا۔ اس نے کہا " آج کوئی خدا نہیں۔ اے بنو بکر! اپنا پورا پورا بدلہ لو! کیا حرم کے احترام میں اپنی عزتوں کا انتقام لینا فراموش کر دو گے"۔ چنانچہ ان ظالموں نے حرم میں خونریزی کی اور کچھ خزاعی بمشکل جانیں بچا کر بدیل بن ورقاء اور اس کے غلام رافع کے مکان میں جا چھپے۔*

*"❀_ قریش نے قبائلی رقابتوں کے تحت جذباتی ہیجان میں آکر یہ ایسی بڑی حماقت کی کہ جس کا خمیازہ انہیں نقدا نقد بھگتنا پڑا۔ یہی واقعہ فتح مکہ کا محرک ہوا۔ قریش نے قطعاً نہ سوچا کہ تحریک اسلامی کی لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتی ہوئی طاقتور رو کے مقابلے میں ان کی قوت اخلاقی اور سیاسی دونوں لحاظ سے حد درجہ گر چکی ہے۔ اور ان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔*

*"❀_ عمرو بن سالم خزاعی مدینہ روانہ ہو گئے اور سرور عالم ﷺ کے حضور میں جاکر بنو بکر اور قریش کے مظالم کا دکھڑا سنایا ۔ حضور ﷺ مسجد میں سر مجلس تشریف رکھتے تھے۔ عمرو بن سالم نے عربی روایت کے مطابق اپنی داستان درد کو دل شگاف اشعار میں بیان کیا۔*

*❥❥__ نبی کریم ﷺ نے جواب دیا: نصرت یا عمرو بن سالم". تمہاری امداد کی جائے گی۔ اب قریش کی آنکھیں کھلیں کہ ہم نے کیسی ہلاکت انگیز حرکت کر ڈالی۔ اور ابو سفیان دوڑا دوڑا مدینہ پہنچا کہ تجدید عہد کرائے۔ وہاں وہ ایسی حوصلہ شکن فضا سے دو چار ہوا کہ جس کا وہ شاید تصور بھی نہ رکھتا ہو گا۔*

*"❀_ وہ اپنی بیٹی ام المومنین حضرت ام جیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جا کر بستر پر بیٹھنے لگا تو بیٹی نے لپک کر بستر اٹھا دیا کہ تم مشرک ہو کر خدا کے رسول کے پاک بستر پر نہیں بیٹھ سکتے۔*

*"❀_ پھر وہ حضرت ابو بکر صدیق, حضرت عمر اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے ممتاز صحابہ سے جا جا کر ملا اور ہر ایک سے مدد حاصل کرنا چاہی۔ حد یہ کہ اس نے حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سفارش کے لیے کہا اور جب یہ بھی نہ ہو سکا تو چاہا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ (عالم طفلی کے باوجود) ہی کو حضرت فاطمہ اس کی اجازت دے دیں۔*

*"❀_ کوئی صورت نہ پا کر بد حواسی میں اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے کے مطابق مسلمانوں کے مجمع میں اپنی طرف سے یک طرفہ جوار (یعنی مصالحانہ ذمہ داری) کا اعلان کر دیا۔ اور بغیر حضور ﷺ کی طرف سے جوابی قبولیت حاصل کیسے مکہ واپس چلا گیا۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                        *⚂_ فتح مکہ_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ ابو سفیان نامراد لوٹا اور چند ہی دن بعد یک ایک مکہ نے دیکھا کہ ایک عظیم لشکر اس کے دروازے پر دستک دے رہا ہے،*

*"❀_ جلد ہی حضور ﷺ نے اعلان کر دیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیار ہو جائیں اور اپنے گھر میں بھی نظم دیا کہ ہتھیار تیار کر دیں۔ لیکن یہ امر بالکل راز میں رکھا کہ کدھر کا ارادہ ہے حتیٰ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی علم نہ ہو سکا۔ جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے حضور ﷺ کے لیے اسلحہ تیار کئے تھے ۔*

*"❀_ غالباً قیاس سے بعض لوگوں نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ مکہ پر چڑھائی ہونے والی ہے۔ کیونکہ اتنا بڑا لشکر کسی اور طرف لے جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور چونکہ ان کا کوئی قبیلہ حمایت کے لیے نہ تھا۔ اس لیے انہوں نے ان کے بچاؤ کے لیے مدینہ کی تیاریوں کا حال ایک خفیہ خط کے ذریعے قریش کو لکھ بھیجا تا کہ وہ احسان کی بنا پر ان کے اہل و عیال سے تعرض نہ کریں۔*

*"❀_ اس کے ساتھ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس اطلاع کے باوجود اسلامی فوج کی فتح یقینی ہے اور ان کا خط نتیجہ کے اعتبار سے کوئی بڑا نقصان اسلام کو نہ پہنچا سکے گا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح خارجی حالات اور ذہنی تاثرات میں گھر کر کبھی کبھار کسی صالح ترین آدمی سے بھی انتہائی درجہ کی لغزش ہو سکتی ہے۔*

*"❀_ حضور ﷺ کو اس خفیہ خط کا علم فوق انعام ذرائع سے ہوا۔ اور آپ کے فرستادوں نے روضہ خارغ میں جا کر مکہ جانے والی ایک عورت کی چوٹی سے اسے برآمد کیا۔ اتنی بڑی خطا سے حضور ﷺ نے اس لیے در گزر فرمائی کہ حاطب مخلص تھے ۔ بدری صحابی تھے۔ ایمان اور حسن کردار رکھتے تھے۔ اور یہ ایک لغزش ان سے یہ تقاضائے بشریت ہو گئی تھی۔*

*❥❥_ حضور ﷺ نے دس ہزار سپاہیوں کا لشکر عظیم ساتھ لے کر 10 رمضان کو مدینہ سے کوچ کیا۔ آپ ﷺ نے ایک عظیم فوجی جرنیل کی حیثیت سے ایسا ہیر پھیر کا راستہ اختیار کیا کہ قریش کی جو گشتی ٹولی دیکھ بھال کے لیے نکلی تھی۔ وہ کسی اور طرف ماری ماری پھرتی رہی۔ اور مسلم فوج نے یکایک مکہ کے سامنے جا پڑاؤ ڈالا۔*

*"❀_ حضور ﷺ جمعہ پہنچے تو آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ مع اہل و عیال آملے۔ پھر مقام ابواء میں پہنچے تو ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب (یہ دوسرے ابو سفیان ہیں جو حضور کے چچا زاد بھائی بھی تھے اور حلیمہ سعدیہ کے واسطے سے رضاعی بھائی ہیں) اور عبد اللہ بن ابی امیہ (حضور ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بھائی) نے حاضر ہو کر بارگاہ میں حاضری کی اجازت مانگی۔*

*"❀_ انہوں نے قریبی عزیز ہو کر اسلام کی مخالفت میں جو شدید اذیتیں حضور ﷺ کو دی تھیں ان کی بنا پر آپ ﷺ نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ابو سفیان نے عالم یاس میں کہا کہ اگر معافی نہ ملے تو میں ہال بچوں کو عرب کے آتشیں ریگستان میں لے جاؤں گا۔ اور ہم سب بھوکے پیاسے رہ کر مر جائیں گے۔*

*"❀_ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بھائی کی سفارش کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں کو مشورہ دیا کہ حضرت یوسف کے بھائیوں کے الفاظ میں طلب غلو کریں چنانچہ انہوں نے جاکر وہی کہا "بخدا ! اللہ نے آپ کو ہم پر برتری بخشی اور واقعی ہم خطا کار تھے، حضور ﷺ کا دل ان الفاظ سے پگھل گیا۔ اور آپ نے بھی وہی حضرت یوسف علیہ السلام والا جواب ديا- "تم پر آج کے دن کوئی گرفت نہیں ہے۔ خدا تمہیں معاف کرے اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے،*

*❥❥_ مرالظہران کے مقام میں پہنچ کر جب فوجی کیمپ لگایا گیا تو بطور مصلحت رات کو سرور عالم ﷺ نے حکم دیا کہ ہر سپاہی اپنے لیے علیحدہ آگ روشن کرے۔ ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا جیسے اکابر دیکھ بھال کے لیے نکلے، بلندی سے دس ہزار چولہوں کو روشن دیکھا تو سکتے میں رہ گئے کہ اتنا بڑا لشکر مکہ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔*

*"❀_ پاس ہی سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ گزرے، آوازیں پہچان کر ابو سفیان کو پکارا۔ بات چیت ہوئی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج لے کر آپہنچے ۔ اب قریش کی خیر نہیں ،*

*"❀_ ابو سفیان نے پوچھا کہ اب چارہ کار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ خچھر پر بیٹھ جاؤ اور چل کے حضور ﷺ سے بات چیت کی جائے۔ پھر آگے بڑھیں تو فوجی طریق سے قدم قدم پر سپاہیوں نے پو چھا۔ "کون جا رہا ہے ؟" حضرت عباس رضی اللہ عنہ تعارف کراتے تو راستہ مل جاتا۔*.

*"❀_ قریب پہنچے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور ابو سفیان کو پہچان کر پکار اٹھے کہ او دشمن خدا آج تجھ پر قابو ملا۔ دوڑے دوڑے قتل کی اجازتہ لینے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی خچھر تیز کر لیا۔ حضرت عمر نے پہلے پہنچ کر اپنی بات کی اور حضرت عباس نے اپنا موقف بتایا کہ میں ابو سفیان کو پناہ دے کر لایا ہوں۔*

*"❀_ اور مکہ کا سب سے بڑا لیڈر حالات سے مجبور ہو کر اسلام کے دائرے میں داخل ہو چکا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے ارشاد سے ابو سفیان کو ایک ٹیلے پر لے گئے تاکہ وہ ایک ہار جیش اسلام کی عظمت کا منظر دیکھ لے۔ ابو سفیان ہر دستے کے بارے میں پوچھتے جاتے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اس مقام سے گزرے تو سپاہیانہ جوش میں آکر پکار اٹھے کہ " آج گھمسان کا دن ہے۔ آج کے دن کعبہ کا ماحول معرکہ کے لیے کھول دیا جائے گا۔*.

       
*❥❥_ آخر میں حضور ﷺ کی سواری سادگی کی شان کے ساتھ گزری جس کے آگے آگے زبیر بن العوام علم اٹھائے ہوئے تھے ۔ حضور ﷺ کو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے نعرہ کا علم ہوا تو فوراً ان سے علم واپس لے کر ان کے بیٹے کے سپرد کرا دیا۔ اور فرمایا کہ "آج کا دن کعبہ کی عظمت کا دن ہے"۔ اور برو وفا کا دن ہے*

*"❀_ پھر یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جو کوئی بھی مسجد حرام میں داخل ہو گا۔ یا ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے گا اور جو کوئی بھی مقابلہ کے لیے ہتھیار نہ اٹھائے گا۔ اس کے لیے امن ہے ۔۔، بشرطیکہ کسی قابل تعزیر جرم کا مجرم نہ ہو ۔*

*"❀_ خود ابو سفیان ہی نے مکہ میں آگے بڑھ کے اس اعلان کو بآواز بلند پکارا۔ یہ سن کر ہند بن عقبہ (زوجہ ابوسفیان) اس کی مونچھ کھینچ کر چلائی کے اے بنی کنانہ ! اس کم بخت کو قتل کر دو۔ یہ کیا بک رہا ہے۔ وہ گالیاں دیتی رہی۔ لوگ جمع ہو گئے۔ ابو سفیان نے کہا کہ اب ایسی باتوں سے کچھ حاصل نہ ہو گا کیونکہ محمد ﷺ کا مقابلہ کرنے کی تاب اب کسی میں نہیں۔*

*"❀_ جب شہر میں حضور ﷺ کا داخلہ ہوا تو دنیا بھر کے فاتحین کے بر عکس سر مارے عجز کے خدا کے سامنے اس طرح جھک رہا تھا کہ پیشانی کجاوے کو چھو رہی تھی اور زبان سورہ فتح کی تلاوت میں مصروف تھی۔*

       
*❥❥_ حضور ﷺ کے اس عفو و کرم کو دیکھ کر انصار میں بعض لوگوں نے یہ چہ میگوئیاں پھیلائیں کہ آخر آپ ﷺ پر اپنی قوم اور اپنے وطن کی محبت غالب آہی گئی۔ دراصل انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں محسن انسانیت ﷺ ان سے جدا ہو کر اب مکہ والوں میں نہ رہنے لگیں۔ اور وہ اپنی محبوب ہستی کے قرب سے محروم ہو جائیں۔*

*"_ آپ ﷺ نے ان سے خطاب کیا اور فرمایا ۔ خدا کی قسم! ایسا نہیں ہے۔ میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے خدا کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی۔ اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے"۔ انصار پر رقت طاری ہو گئی اور انہوں نے معذرت طلب کی۔ خدا اور رسول نے ان کی معذرت قبول کی۔*

*"❀_ پہلے آپ ﷺ اس تاریخی مقام خیف میں گئے جہاں قبیلہ کے ساتھ نظر بندی کے دن گزارے تھے۔ پھر حرم پہنچے ۔ خاص الخاص رفقاء کا ایک حلقہ ساتھ تھا۔ حجر اسود کا استلام کیا۔ ہاتھ میں قوس ( کمان) لیے حرم میں نصب شدہ ایک ایک بت کے پاس جا کر پکارتے "حق آگیا اور باطل سٹک گیا۔ اور باطل کو تو میدان چھوڑنا ہی ہے" (پنی اسرائیل ۔ 81)*

*"❀_ قوس کے اشارہ سے ایک ایک بت گر گیا۔ پھر کعبہ کی کنجی منگا کر دروازہ کھلوایا۔ اندر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیهم السلام کی تصویریں بنی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر دکھائے گئے تھے۔ ان کو مٹانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا کفار کو غارت کرے۔ یہ دونوں خدا کے پیغمبر تھے اور انہوں نے جوا کبھی نہیں کھیلا تھا۔ بعد میں آپ کے حکم سے وہ تمام اصنام بھی توڑ ڈالے گئے جو مدتوں سے آس پاس نصب تھے ۔*.

*❥❥_ پھر آپ ﷺ نماز و ذکر میں مصروف رہے۔ مسجد کے سامنے ہجوم عام جمع تھا۔ اور لوگ اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے مضطرب تھے۔ ان سے آپ نے خطاب فرمایا: ایک خدا کے سوا کوئی الہ نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کو مدد دی۔ اسی اکیلے نے تمام لشکروں کو شکست دی! آج تمام کبر و غرور خون کے تمام دعوے مالوں کے تمام مطالبے میرے قدموں کے نیچے ہیں۔ البتہ حرم کعبہ کی تولیت اور حجاج کی آب رسانی کے عہدے اس سے مستثنیٰ ہیں۔*

*"❀_ اے قریش! اب خدا نے تمہارے جاہلیت کے غرور اور نسب کے فخر کو مٹا دیا۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ۔ " پھر قرآن کی آیت پڑھی:۔ لوگو! میں نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ اور تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے۔ کہ تم باہم دگر پہچانے جاؤ۔ لیکن معزز خدا کے نزدیک وہی ہے جو پرہیز گاری میں پیش پیش ہو ۔ بلاشک اللہ دانا اور باخبر ہے" (الحجرات: ۱۳)*

*"❀_ پھر ایک قانونی اعلان کیا۔ ”خدا نے شراب کی خرید و فروخت حرام کر دی ہے"۔*
*"_پھر حضور ﷺ نے پوچھا:۔ تم کو معلوم ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟". ان الفاظ کے گونجتے ہی ظلم، کبر، تشدد اور خونخواری کی وہ ساری گندی تاریخ قریش کی نگاہوں کے سامنے سے ایک فلم کی طرح گزر گئی ہو گی، جسے انہوں نے بیس اکیس برس میں تیار کیا تھا۔ ان کے ضمیر پھٹ جانے کو ہوں گے۔*

*"❀_ بے بسی اور ندامت کے عالم میں وہ لوگ پکار اٹھے- تو شریف بھائی ہے۔ اور ایک شریف بھائی کا بیٹا ہے" ۔ جواہا آواز آئی۔ "تم پر آج کچھ گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو۔*

*❥❥_ کیا قریش کی تاریخ ظلم و جنگ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی مخلص بھی اس جواب کی توقع کر سکتا ہے؟ مگر جو کوئی بھی اس رحمت عالم ﷺ کی شان کریمی کو سمجھتا ہو وہ حضور ﷺ سے اس جواب کی امید باندھے گا، کوئی اور ہوتا تو آج اکڑ کر مکہ میں داخل ہوتا۔ ایک ایک واقعہ کا انتظام لیتا۔ چن چن کے ان افراد کو تلوار کا لقمہ بناتا جنہوں نے ذرا بھی کوئی زیادتی کی ہوتی۔*

*"❀_ لیکن فاتح چونکہ محسن انسانیت ﷺ تھے، اس لیے انہوں نے انسانوں کو فتح کرنا چاہا۔ اور زمینوں پر قابو پانے سے بڑھ کر دلوں کو جیتنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ مہاجرین سے کہا کہ وہ اپنے اپنے مکانوں اور املاک سے دست بردار ہو جائیں۔*

*"❀_ شان لطف و احسان کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو گا کہ کعبہ کی کنجی قیامت تک کے لیے انہی عثمان بن طلحہ کو تفویض فرمائی جن سے ایک بار در کعبہ کھلوانے کی خواہش حضور ﷺ نے دعوت کے ابتدائی دور میں کی تو انہوں نے سختی سے انکار کر دیا تھا۔*

*"❀_ اس موقع پر آپ ﷺ نے مستقبل پر نگاہ جماتے ہوئے عثمان سے فرمایا۔ ایک دن آئے گا کہ یہ کنجی میرے اختیار میں ہو گی۔ اور میں جسے چاہوں گا تفویض کروں گا۔ " عثمان کی نگاہ اتنی دور رس کیسے ہوتی۔ انہوں نے کہا۔ "شاید اس روز تمام افراد ترین ہلاک ہو چکے ہوں گے"۔*
*"_ فرمایا۔ نہیں! وہ تو قریش کی سچی عزت کا دن ہو گا۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے کنجی دیتے ہوئے جب عثمان بن طلحہ کو برسوں پہلے کی وہ بات بطور لطیفہ یاد دلائی تو وہ پکار اٹھے۔ کہ " ہے شک آپ خدا کے رسول ہیں"۔ آپ نے فرمایا ۔ کہ آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے"۔*

*❥❥__اس کے بعد حضور ﷺ کے حکم سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کعبہ پر چڑھ کر اذان دی۔ یہ اذان گویا اسلامی انقلاب کی کامیابی کا اعلان تھا۔ وہی کعبہ جہاں خدا کے بندوں کے لیے خدا کا نام پکارنا جرم بن گیا تھا اور اس سے روکنے کے لیے کتنی ہی سختیاں حضور ﷺ اور حضور ﷺ کے ساتھیوں نے جھیلیں۔ آج اس کی بلندیوں پر سے بآواز بلند اللہ کی بڑائی پکاری جا رہی تھی۔ اور کوئی قوت نہ تھی جو مزاحم ہو سکے ۔*

*"❀_ اس لمحے ابو سفیان بن حرب, عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام جیسے اکابر کعبہ کے متصل ایک گوشے میں بیٹھے اپنی ہاری ہوئی بازی کا تصور کر رہے تھے۔ عتاب نے جلے دل سے کہا کہ اچھا ہوا کہ خدا نے اسید کو اس آواز کے سننے کے لیے زندہ نہ رکھا۔ حضور ان لوگوں کے پاس پہنچے اور جو جو باتیں انہوں نے کی تھیں۔ ان کے سامنے دوہرا دیں۔ یہ لوگ شرمندہ ہوئے۔*

*"❀_ پھر حضور ﷺ نے ام ہائی کے مکان پر غسل کر کے آٹھ رکعت نماز بطور شکرانہ فتح پڑھی۔ فتح کے دوسرے روز کوہ صفا پر سے حضور ﷺ نے دوسرا خطاب عام فرمایا، پہلے اللہ کی حمد و ثنا کی اور پھر مختصر کلمات میں حرم کی حرمت کو بیان کیا اور اسے ہمیشہ کے لیے قائم کر دیا اور اس کے احکام بیان کیے۔*.

*"❀_ یوں تو عام معافی کا اعلان کر دیا گیا اور اس اعلان نے دلوں کو ایسا مسخر کیا کہ کسی میں تاب مقاومت نہ رہی لیکن مجرمین خاص کے بارے میں نام لے کر آپ نے فرما دیا کہ یہ لوگ جہاں بھی پائے جائیں قتل کر دیئے جائیں۔ اس فہرست مجرمین میں چند مردوں اور چند عورتوں کے نام شامل تھے ۔ لیکن حضور ﷺ نے ان میں سے بھی اکثر کی جان بخشی کر دی۔*

*❥❥__ ایک تحقیقی رائے یہ بھی ہے کہ صرف ایک شخص عبدالعزی کو ہلاک کیا گیا۔ یہ مخلص مسلمان ہوا ۔ وصولی صدقات کے لیے ایک اور مسلم ساتھی کے ساتھ میں اسے بھیجا گیا۔ سفر ہی میں نزاع ہوئی اور مسلم ساتھی کو قتل کر کے نیز صدقہ کے مویشیوں کو بھی ساتھ لے کر بھاگ آیا۔ دوہرے بھاری بھاری فوجداری جرائم اس کے ذمے تھے۔*

*"❀_ صفوان بن امیہ اسلامی تحریک کے کٹر مخالفوں میں تھے۔ بھاگ کر یمن جاتے ہوئے جدہ پہنچے تھے۔ کہ عمیر بن وہب جمحی حضور ﷺ سے معافی کی منظوری لے کر جدہ سے واپس لائے۔ بعد میں اسلام اختیار کیا۔*

*"❀_ عکرمہ بن ابو جہل بھی یمن بھاگ گئے تھے ۔ ان کی زوجہ ام حکیم بنت الحارث (ابو جہل کی بھتیجی) خود مسلمان ہوئیں اور اپنے شوہر کے لیے حضور ﷺ سے معافی کی منظوری لی۔ خود جا کر لائیں۔ عکرمہ کو جب معافی کی خوش خبری ملی تو انہیں سخت تعجب ہوا کہ ان جیسے مخالف کو بھی محمد ( ﷺ) نے معاف کر دیا۔ حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔*

*"❀_ عبد الله بن سعد بن ابی سرح مسلمان تھے اور ان کو کتابت وحی کا موقع بھی ملا تھا۔ مگر منحرف ہو کر مخالف محاذ سے تعاون کرنے لگے۔ یہاں تک کہ استخفاف کے لیے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وحی تو دراصل مجھ پر آتی تھی۔ محمد ( ﷺ) تو مجھ سے سن کر لکھوا لیتے تھے ۔ جرم سخت تھا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے باصرار سفارش ہونے پر حضور ﷺ نے بہ حیثیت حاکم اعلیٰ ان کو معافی دے دی۔ معافی کے بعد پھر یہ " مسلمان ہوئے۔*

*❥❥_ مقیس بن صبابه (یا صبانہ) منافقانہ طور پر اسلامی جماعت میں شریک ہوا اور دھوکے سے ایک انصاری کو قتل کر کے بھاگ آیا تھا۔ اس اقدام کا محرک یہ ہوا کہ مقیس کا بھائی غلطی سے اس انصاری کے ہاتھوں مارا گیا۔ حضور ﷺ نے اس کی دیت دلوا دی۔ اس کے باوجود اس نے انصاری کو قتل کیا۔ ارتداد اور فریب دہی کے علاوہ تنہا یہ ارتکاب قتل ہی سزائے موت کے لیے کافی وجہ جواز تھا۔*

*"❀_ ہبار بن الاسود وہ شخص ہے جس نے دوسری مخالفانہ حرکات کے علاوہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا پر ہجرت کے وقت حملہ کر کے اتنی اذیت دی تھی کہ ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ پہلے چھپا رہا، پھر خود ہی پیش ہو کر عاجزی سے اعتراف قصور کیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سخت شرمندگی کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی کلمہ اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا۔ حضور نے فرمایا : ”میں نے ہبار کو معاف کر دیا“۔*

*"❀_ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی سامنے آیا اور اسلام قبول کیا۔ حضور ﷺ نے اس سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا حال سنا۔ اس کا جرم بھی معاف کیا اور اسے مشورہ دیا کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو کہ اس سے زخم تازہ ہوتے ہیں۔*.

*"❀_ یہ شخص اسلام لانے کے بعد جنگ یرموک میں شریک ہوا اور اس کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب کو اس نے تیر سے ہلاک کیا۔ کہتا تھا کہ میں نے سب سے اچھے آدمی کو قتل کر کے جو گناہ کیا ہے، اب سب سے برے آدمی کو قتل کر کے کفارہ ادا کر دیا ہے۔*

*"❀_ عبد الله بن زبعری مشهور جاہلی شاعر جس نے شعر کی قوت کو اسلام کے خلاف اشتعال پھیلانے میں استعمال کیا تھا۔ پیش ہوا اور اسلام لایا۔ معافی دے دی گئی۔ کعب بن زہیر نے بھی اسلامی تحریک اور اس کے داعی کے خلاف ہجویہ شاعری کا محاذ گرم رکھا تھا۔ 9 ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ حاضر ہوا۔ اسلام قبول کیا اور تلافی کے سچے جذبے سے قصیدہ بانت سعاد پیش کیا۔ حضور ﷺ نے معافی دی اور اپنی چادر انعام میں عطا فرمائی۔*

*❥❥_ قیام مکہ ہی کے زمانے میں ایک بار حضور ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ فضالہ بن عمیر چھپ کر ارادہ قتل سے آئے، حضور ﷺ خود ہی پاس جا پہنچے اور ان کے دل کی بات بتا دی۔ فضالہ اس گرفت پر شرمسار ہوئے، آپ ﷺ نے استغفار کے لیے کہا اور ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا۔ معا اس کے دل کی دنیا بدل گئی۔ ارادہ قتل کے مجرم سے یہ سلوک اور کس سے متوقع ہو سکتا ہے۔*

 *"❀_ عورتوں میں سب سے بڑی مجرمہ ہند بنت عقبہ تھی۔ جس نے سرگرمی سے مخالفتیں کی تھیں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا مثلہ کیا تھا۔ بلکہ ان کا کلیجہ چبا گئی تھی۔ چہرہ چھپانے کے لیے نقاب پہن کر حاضر خدمت ہوئی۔ حالات سے مجبور ہو کر یہ اسلام قبول کرنے آئی۔ لیکن اس لمحے بھی ڈھٹائی سے عجیب عجیب ٹیڑھی باتیں حضور ﷺ سے کیں، پھر یہ گستاخانہ انداز کلام کوئی بھی دوسرا ہوتا تو اسے گوارا نہ کرتا۔*

*"❀_ چند مردوں اور عورتوں کے متعلق احادیث اور کتب سیرت کی روایات میں خاصا اختلاف ہے۔ لیکن قطعیت سے ان میں سے کسی کا سزائے موت پانا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے کٹر دشمنوں کے لیے ایسے عفو عام کی مثال اس درجہ کی فتح کاملہ حاصل کرنے کے بعد کسی اور کی زندگی سے تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔*

*"❀_ سرزمین مکہ کی فتح سے بڑھ کر عظیم فتح یہ تھی کہ حضور ﷺ مقام صفا کی بلندی پر بیٹھے تھے اور لوگ جوق در جوق آکر اسلام قبول کر رہے تھے۔ ان سے توحید ورسالت کے اقرار کے ساتھ خصوصی طور پر بعض رائج‌ الوقت خرابیوں سے اجتناب کا عہد بھی لیا جاتا۔*

*"❀_ بیعت کے اجزاء یہ تھے:- میں خدا کے ساتھ کسی کو بھی اس کی ذات اور اس کی صفات اور عبادت اور استعانت کے استحقاق میں شریک نہ کروں گا۔ چوری نہ کروں گا۔ زنا نہ کروں گا۔ خون ناحق نہ کروں گا۔ لڑکیوں کو بلاک نہ کروں گا۔ کسی پر بہتان نہ لگاؤں گا۔ معروف کے دائرے میں حسب استطاعت خدا کے رسول کی اطاعت کروں گا۔*

*❥❥_ پندرہ روز یا کم و بیش قیام رکھنے کے بعد جب مکہ سے حضور ﷺ روانہ ہوئے تو اصل تعمیری کام کے لیے طریق معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مامور کیا کہ وہ لوگوں کو اسلامی نظام حیات اسلامی عقائد اسلامی اخلاق اسلامی قانون اور اسلامی ثقافت کی تعلیم دیں۔ اسلامی عدلیہ کا نظام آپ کے اپنے ہاتھوں حد جاری کرنے کے اس مشہور واقعہ سے ہوا۔ جس میں فاطمہ بنت ابی الاسد کو چوری کے جرم میں بڑے سفارشی دباؤ کو مسترد کر کے سزا دی گئی۔*

*"❀_ حنین و طائف سے فارغ ہونے کے بعد مکہ آکر حضور ﷺ نے عتاب رضی اللہ عنہ بن اسید کو نائب حاکم مقرر کیا۔ اور ایک درہم یومیہ کا معاوضہ ان کے لیے طے کر دیا۔*

*"❀_ فتح مکہ، تحریک اسلامی کی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ اب گویا نظام حق کے راستے سے سب سے بڑی مزاحم طاقت ہٹ گئی تھی۔ عرب کی دیرینہ جاہلی قیادت کا علم سر نگوں ہو گیا تو پھر نظام جاہلی کا بر قرار رہنا اور جاہلیت کے گرد عوام کا سمٹے رہنا ممکن نہ رہا۔ عوام الناس کی بہت سی پیچید گیاں فتح مکہ نے ختم کر دیں۔*

*"❀_ بہت سے قبائل اسلام کی طرف بڑھنے سے اس لیے معذور تھے کہ قریش کے ساتھ یا تو ان کے حلیفانہ تعلقات تھے یا معاشی طور پر وہ ان کے دست نگر اور مقروض تھے۔ یا ان کی سماجی برتری سے مرعوب اور مذہبی لحاظ سے ان کی پروہتی سے مسحور تھے ۔ قریش کی عظمت کا بت جب ٹوٹ گیا تو ان کے راستے صاف ہو گئے۔*

*❥❥_ بہت سے عوامی حلقوں میں یہ اعتقاد پھیلا ہوا تھا کہ مکہ میں صرف وہی غالب رہ سکتا ہے جس نے خدا کی تائید حاصل ہو۔ اور جو طاقت حق پر نہ ہو اسے مکہ میں فروغ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کا اعتقاد ابرہہ کے حملہ کے بعد سے بہت قوی ہو گیا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قریش مقبول الہٰی ہیں۔*

*"❀_ چنانچہ لوگ کہا کرتے تھے۔ کہ "_اسے اپنی قوم سے نمٹ لینے دو۔ اگر اس نے قوم کو زیر کر لیا تو وہ نبی صادق ہے، اس اعتقاد کے مطابق ہی اب رائے عام کا مرجع اسلامی تحریک بن گئی۔ نہ صرف مکہ کے لوگوں نے بلکہ آس پاس کے قبائل کے وفود نے آکر خوشی خوشی اپنے آپ کو اسلامی تحریک کا خادم اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت کا پیرو بنایا۔ اب دعوتی اور تعلیمی کام کے لیے میدان بالکل صاف ہو گیا۔ اور ایک ایک مسلمان کے لیے ہر طرف موقع نکل آیا کہ وہ تحریک حق کا پیغام عوام تک پہنچائے۔ اب کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں تھا۔*

*"❀_ فتح مکہ کا اثر دوسرے قبائل پر تو یہ پڑا کہ ان کے وفود نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آ آکر اسلامی تحریک کے سایہ دامن میں داخل ہوتے گئے لیکن بنو ہوازن اور بنو ثقیف پر فتح مکہ کا اثر الٹا پڑا۔ کیونکہ ایک طرف انہیں اپنی افرادی کثرت، اپنی معاشی طاقت اور اپنی جنگی مہارت پر بڑا بھروسہ تھا۔ اور دوسری طرف اسلامی انقلاب کے رد عمل میں پڑ کر مسلسل مخالفانہ اور حریفانہ کارروائیاں کرنے کی وجہ سے وہ اب اپنی شان مزاحمت کی تکمیل پر مجبور تھے۔*

*"❀_ انہوں نے آخر معرکہ لڑنے کے لیے اپنی ساری قوت حنین یا اوطاس نامی وادی میں (طائف اور مکہ کے درمیان) سمیٹ لی تھی۔ صرف بنو کعب اور بنو کلاب نے پوری طرح علیحدگی اختیار کی تھی۔ سرور عالم ﷺ کو بنو ہوازن کی ان تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ آپ نے عبد اللہ بن ابی حدرد کو بطور جاسوس بھیج کر مصدقہ معلومات حاصل کیں۔*

       * ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

                    *⚂_ معرکہ حنین _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__اب مقابلہ کے لیے تیاری ہونے لگی۔ جنگی ضروریات کے لیے حضور ﷺ نے عبداللہ بن ربیعہ سے ۳ ہزار درہم کی رقم قرض لی۔ اور صفوان بن امیہ رئیس مکہ سے اسلحہ جنگ (خصوصاً ۱۰۰ زرہیں) مستعار لیے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محسن انسانیت ﷺ کسی غیر معمولی جنگی تیاری کے ساتھ نہیں نکلے تھے۔ اور آپ ﷺ کو پہلے ہی سے کسی خونریزی کا خیال نہ تھا۔ موقع پر نئی تیاریوں کی ضرورت پیش آئی۔*.

*"❀_ کتنا نادر واقعہ ہے کہ ایک فاتح جس نے مکمل طور پر قریش کو زیر کر لیا تھا اور جو ان سے مال اور اسلحہ بالجبر وصول کر سکتا تھا، اسے اس مقام عظمت پر ہوتے ہوئے بھی اخلاقی اصولوں کا اتنا پاس تھا کہ جو کچھ لیا قرض اور مستعار لیا۔ اسلامی تحریک کا امتیاز اس کی یہی اخلاقی روح ہے۔*.

*"❀_ شوال ۸ ھ میں مسلم فوج بارہ ہزار کی تعداد میں مکہ سے مارچ کرتی ہے۔ انسان بہر حال انسان ہے۔ حق کے ان سپاہیوں کے دلوں میں کسی نہ کسی نوع سے یہ تاثر ابھرا کہ آج ہم مکہ کے فاتح ہیں۔ ہماری تعداد کثیر ہے اور ہمارے ساتھ سامان جنگ بافراط ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسا احساس کمزور کرنے ہی کا موجب ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو خیال نہ رہا کہ وہ شہنشاہ حقیقی کے سپاہی ہیں جسے اپنے بندوں کی طرف سے غرور کی ایک رمق بھی گوارا نہیں۔*

*"❀_ اس تاثر پر چند لمحوں کے لیے ایسی گرفت ہوئی کہ تاریخی یاد گار بن گئی اور قرآن نے انسانیت کے لیے اسے درست عبرت بنا دیا۔ ہوا یہ کہ مسلم فوج میں اب کی بار مکہ سے ایک نیا عنصر شامل ہوا تھا۔ مقدمتہ الجیش میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے زیر کمان نو مسلم نوجوان تھے۔ پہلے ہی حملے میں جب اچانک ہر طرف سے تیروں کا مینہ برسا تو مقدمتہ الجیش بکھر گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ گھبراہٹ میں مسلم فوج کے تمام دستے منتشر ہونے لگے۔ ایک وقت آیا کہ حضور ﷺ اپنی جگہ پر تن تنہا کھڑے رہ گئے۔*

*❥❥_ یہ لمحہ ان لمحوں میں سے ایک ہے جن کی نزاکت نے حضور ﷺ کی عزیمت و پامردی اور یقین و اعتماد کی شہادت بہم پہنچائی ہے۔ ہمت سے ساتھیوں کو پکارا اور سواری سے اتر کر جلال بھرے انداز میں فرمایا: انا النبي لا كذب، انا ابن عبدالمطلب،*

*"❀_حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے قریب ہی سے صدا بلند کی۔ یا معشر الانصار! یا اصحاب الشجره! اتنا سننا تھا کہ ہر طرف سے مسلمان لپکے اور اپنے مرکز استقامت کے گرد جمع ہو گئے۔ پھر جو لڑے تو آنا فانا رنگ بدل گیا۔ اور دشمن کے قدم اکھڑ گئے۔ اسلامی دستے نے بازی جیت لی۔*

*"❀_طائف بڑا ہی محفوظ مقام تھا۔ کیونکہ اس کے گرد فصیل موجود تھی۔ لیکن ترتیب ایسی اختیار کی کہ طائف پر حملہ ایسے رخ سے کیا گیا جدھر سے اہل طائف کو گمان نہ گزرا ہو گا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک دستہ لے کر پہلے روانہ ہوئے۔ بعد میں حضور ﷺ بہ نفس نفیس پوری فوج لے کے پہنچے۔*

*"❀_حضور ﷺ نے سوچا کہ طائف اسلام کے زیر نگیں آئے ہوئے عرب کے درمیان ایک جزیرہ اختلاف بن کر تو رہ نہیں سکتا۔ اسے اگر اس وقت مسخر کیا گیا تو دو طرفہ نقصان ہو گا۔ اور اگر چھوڑ دیا گیا تو حالات اہل طائف کے اندر رضا کارانہ جذ بہ اطاعت ابھار دیں گے۔ بلکہ دلوں کے دروازے اسلام کے انقلابی نظریے کے لیے کھل جائیں گے۔*

 *"❀_چنانچہ آپ نے دین کی مصلحت اور اہل طائف کی فلاح کو ملحوظ رکھ کر محاصرہ اٹھا لیا۔ یہ ایک واضح ترین ثبوت ہے کہ حضور ﷺ خونریزی سے بچنے کی کتنی فکر رکھتے تھے۔ ساتھیوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کے لیے بد دعا کیجئے ۔ مگر آپ نے یہ دعا کی کہ "اللهم اهد ثقیفا وانت بهم" (اے اللہ ! تو ثقیف کو راستی کی ہدایت دے اور ان کو ہمارے ساتھ ملا دے)،*.

*"❀_ یہ دعا اس طائف کے باشندوں کے لیے کی جارہی تھی، جس نے پتھر مار مار کر ایک دن حضور ﷺ کے خون سے اپنی گلیوں کی مٹی کو لالہ زار کیا تھا۔ یہ دعا بھی اسی رحمت بھرے ذہن کی ترجمانی ہے جس نے قوت سے جہاں بھی کام لیا چارو ناچار لیا۔ مگر جس نے عفو اور احسان کے دریا بہانے میں کہیں بھی کوتاہی نہیں کی۔*

*❥❥__ جعرانہ میں بے شمار مال غنیمت ۲۴ ہزار اونٹ ٤٠ ہزار بکریاں، ٤ ہزار اوقیہ چاندی جمع تھا۔ اس میں سے قرآنی قانون کے مطابق پانچواں حصہ معاشرہ کے حاجت مند طبقوں اور اجتماعی ضرورتوں کے لیے بیت المال میں لیا گیا اور بقیہ فوج میں تقسیم کر دیا گیا۔*

*"❀_ قرآن نے تالیف قلب کی جو مد رکھی ہے، اس کے تحت حضور ﷺ نے مکہ کے باشندوں اور ان کے لیڈروں کو دل کھول کر بہت سا مال دیا۔ مقصود یہ تھا کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔ ان سے زیادہ حرماں نصیب اس وقت آسمان کے نیچے کون ہو گا۔ جن کی قیادتوں کے تخت الٹ گئے تھے۔ اور جن کے لیے تاریخ کی ساری فضا ہی نے رنگ بدل لیا تھا، ان کے احساسات کا عالم کیا ہؤا ہوگا جب وہ سرور عالم ﷺ کے قرابت دار ہوتے ہوئے پچھلی صفوں میں کھڑے تھے۔ اور انصار اور مہاجرین حضور ﷺ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔*

*"❀_ کیسا عجیب سماں ہو گا کہ ابوسفیان، حکیم بن حزام، نفر بن حارث، صفوان بن امیہ اقرع بن حابس اور ان جیسے دوسرے اکابر اسی شخص کے ہاتھوں سے آج عطیات حاصل کر رہے تھے جسے انہوں نے برسوں گالیاں دی تھیں، جھوٹا کہا تھا مذاق اور طنز کا نشانہ بنایا تھا، بدنی اذیتیں دی تھیں، قید میں ڈالا تھا، قتل کرنا چاہا تھا، گھر سے نکالا تھا اور جس کے خلاف تلوار اٹھا کر اسے امن و چین کا ایک لمحہ بسر کرنے کا موقع نہ دیا تھا۔ کیا انسان نوازی کی ایسی کوئ مثال تاریخ میں کہیں ملتی ہیں؟*

*"❀_ انصار نے جب دریائے کرم کو قریش کے حق میں اس طرح امڈتے دیکھا تو ان کے بعض عناصر تھوڑی دیر کے لیے ادنیٰ جذبات کی لپیٹ میں آگئے۔ ان کا تاثر یہ تھا کہ شاید حضور ﷺ نسلی اور وطنی تعلق کی بنا پر ان لوگوں کو نواز رہے ہیں اور ہمیں پس پشت ڈال دیا ہے۔ کہا گیا کہ حق کی حمایت میں جان جوکھموں میں پڑنے کے لیے تو ہم ہیں اور ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے۔ لیکن داد و دہش کے وقت قریش مقدم ہو گئے ہیں۔*

*❥❥__ یوں سوچنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ حضور ﷺ نے اپنے اہل بیت پر یہ بارش نہیں کی تھی۔ قربانیاں دینے والے قرابت مند مہاجرین تک کو نہیں نوازا تھا۔ خود کوئی امتیازی استفادہ نہیں کیا تھا۔ تو پھر اگر قریش کے ساتھ یہ خصوصی سلوک ہو رہا تھا تو اس کی بنیاد کسی عظیم مصلحت پر ہو گی۔ بات حضور ﷺ تک پہنچی تو جیسے کہ ہم پورا واقعہ پہلے بیان کر چکے ہیں، ایک شامیانہ تانا گیا اور انصار کو جمع کیا گیا۔ حضور ﷺ نے ان کے سامنے دل ہلا دینے والی مختصری تقریر کی،*

*"❀_ تقریر کا آخری جملہ یہ تھا۔ کہ "اے انصار ! کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اور لوگ تو اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد( ﷺ) کو ساتھ لے کر جاؤ," انصار کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر ڈاڑھیوں کو تر کر رہے تھے۔ آخری بات سن کر وہ چیخ اٹھے کہ ہم کو صرف محمد ﷺ درکار ہیں"۔*
*"_ پھر آپ ﷺ نے انہیں نرمی سے وہ مصلحت سمجھائی جس کے تحت قریش کی دلجوئی ضروری تھی۔*

*"❀_ ادھر ٦ ہزار اسیران جنگ قسمت کے فیصلے کے منتظر تھے۔ حضور ﷺ پورے دو ہفتے تک منتظر رہے کہ کوئی ان کے بارے میں آکر شاید بات چیت کرے۔ مال غنیمت کی تقسیم بھی اسی لیے روکے رکھی۔ مگر جب کوئی نہ آیا تو تقسیم عمل میں آگئی۔*

*"❀_ تقسیم کے بعد حلیمہ سعدیہ (حضور کی رضاعی والدہ) کے قبیلہ کے معززین کا وفد زہیر بن صرد کی سرداری میں قیدیوں کے متعلق بات چیت کرنے حاضر ہوا۔ زہیر نے حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر بڑی موثر تقریر کی اور کہا:۔ جو عورتیں چھپروں میں محبوس ہیں، ان میں آپ کی پھوپھیاں ہیں۔ ان میں آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم ! اگر سلاطین عرب میں سے کسی نے ہمارے خاندان میں دودھ پیا ہو تا۔ تو ان سے بہت کچھ امیدیں ہوتیں۔ آپ سے تو ہمیں اور بھی زیادہ توقعات ہیں"۔*

*❥❥_ حضور ﷺ نے وضاحت کی کہ میں تو خود منتظر تھا کہ کوئی آئے۔ مجبوراً تقسیم کر دی گئی۔ اب جو قیدی بنی ہاشم کے حصے میں آئے ہیں ان کو میں تمہارے حوالے کرتا ہو۔ باقیوں کے لیے مسلمانوں کے مجمع عام میں نماز کے بعد بات کرنا۔ نماز کے بعد زہیر نے اپنی درخواست دہرائی۔ آپ نے فرمایا۔ ”مجھے صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے البتہ میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں"۔*

*"❀_ فوراً مہاجرین و انصار بول اٹھے کہ ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ صرف بنی سلیم اور بنی فزارہ کے لیے یہ تجربہ بڑا انوکھا تھا کہ لڑ کر مفتوح ہونے والے دشمن کے قیدی مفت میں رہا کر دیئے جائیں۔ آخر حضور ﷺ نے ان کو ٦ اونٹ فی قیدی دے کر بقیہ کو بھی رہا کرا دیا۔ پورے ۲ ہزار قیدی آزاد ہو گئے۔*

*"❀_ متعدد قیدیوں کو حضور ﷺ نے کپڑے بھی دیئے۔ عام فاتحین کے بخلاف نہ صرف قیدیوں کی جان بخشی کی بلکہ بلا فدیہ ان کو بطور احسان کے رہا کر دیا۔ اصل مقصود یہاں لوگوں کو بلاک کرنا یا غلام جمع کرنا نہیں تھا۔ مقصود تو صرف نظام حق کی اقامت اور دلوں کو اس کے لیے ہموار کرنا تھا۔*

*"❀_ اس مہم سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے عمرہ ادا کیا اور عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مکہ کی امارت کا منصب سونپا اور مدینہ واپس تشریف لے گئے۔*

      ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
                *⚂_ محسن انسانیت ﷺ _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ وہ تمام جنگی اقدامات جو مدینہ کی اسلامی حکومت کی طرف سے عمل میں آئے۔ ان سارے معرکوں کو سامنے رکھیئے اور ان سیاسی حالات کو بھی نگاہوں میں تازہ کر لیجئے جن کے تحت یہ کارروائیاں واجب ہو گئی تھیں، تو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ ایک ایسے شخص کو جو حصول جاہ و جلال کے بجائے محض حق اور سچائی کا فروغ چاہتا ہے۔ جو بزور شمشیر اپنا اثر پیدا کرنے کے بجائے دلیل اور اخلاق سے دنیا کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ جو انتقام کے بجائے در گزر سے اور تشدد کے بجائے لطف و احسان سے کام لیتا ہے*

*"❀_ جو خون بہانے والی تلوار کے بجائے معاہدہ لکھنے والے قلم سے مسائل حل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے انقلابی دشمن حریفوں نے سخت مجبور کر کے میدان جنگ میں طلب کیا۔ کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ وہ چین سے بیٹھ سکا ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس عالم میں حضور ﷺ نے کیسے وہ عظیم تعمیری کارنامہ سر انجام دے لیا جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا۔ اور انسانیت کو ایک نئے نقشے پر ڈھال دیا،*

*"❀_ وہی ہستی اس لحاظ سے انسانیت کی عظیم ترین محسن ہے کہ اس نے سلامتی کے پیغام کو پورے عرب میں اور پھر ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے تلواروں کی چھاؤں میں سے اپنا راستہ نکالا اور انتہائی جنگ پسند حریفوں کی مزاحمت کو توڑ کر نظام عدل کو برپا کیا اور اسے تکمیل دی۔*

*"❀_دیکھو کہ ہماری فلاح و بہبود کے لیے حضور ﷺ کن ازیتوں کن مشکلوں، کن آویزشوں اور کن طوفانی ہنگاموں سے گزرے اور عزیمت آموز انداز سے گزرے۔ کسی شجاعت سے ہر حریف کے چیلنج کو قبول کیا اور ظلم و فساد کی ہر طاقت کی سرکوبی کی۔ بکھرے ہوئے قبائل کو ایک کر دیا۔ ان کو جاہلی قیادت سے نجات دلائی۔ ان کو تعلیم و تزکیہ سے گزارا۔ امن کا ماحول فراہم کیا۔ قانون کی عملداری قائم کی۔ معاشرہ کو اخوت و مساوات کی بنیادوں پر استوار کیا۔ حکومت کے لیے شورائیت کے اصول کو سنگ اساس بنا کر جمہوری دور کا آغاز کر دیا۔*

*❥❥_ حضور ﷺ کے جنگی اقدامات کو دیکھیں تو معرکہ بدر سے لے کر فتح مکہ تک (فتح خیبر سمیت) کل پانچ بڑے معرکے ہوئے۔ جو در اصل حقیقت کے لحاظ سے سارے کے سارے مدافعانہ ہی تھے۔ لیکن ان میں سے اول الذکر تین تو اسی صورت میں لڑے گئے جب کہ دشمن نے چڑھائی کر کے مدینہ پر دھاوا بولا۔ لے دے کے دو ہی کاروائیاں مدینہ سے خود حضور ﷺ نے پیش قدمی کر کے کیں۔ یعنی ایک فتح مکہ (مع جنگ حنین) کے لیے اور دوسری فتح خبیر کے لیے۔*

*"❀_ بس ان دو ہی اقدامات میں فیصلہ ہو گیا۔ مدت کے لحاظ سے دیکھیں تو معرکہ بدر سے فتح مکہ تک کل زمانہ ٦ برس کا ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے عظیم تبلیغی و تعلیمی اور تعمیری و اصلاحی کارنامے میں ۲۳ برس کی لمبی مدت کھپائی اور اس میں سے فقط ٦ برس ایسے ہیں کہ جن میں تعلیم انسانیت کے مختلف کاموں کے ساتھ ساتھ حریفوں کی شمشیر جنگ پسند کا مقابلہ بھی مجبورآ کرنا پڑا۔*

 *"❀_انتہائی مبالغہ سے اندازہ کریں تو بھی سارے کے سارے معرکوں میں مجموعی طور پر ۱۵ ہزار سے زیادہ افراد حضور ﷺ کا مقابلہ کرنے نہ آئے ہوں گے، ان میں سے صرف ۷۵۹ جانوں کو راستہ سے ہٹانے کے لیے عرب کی کئی لاکھ کی پوری آبادی سنور سدھر جاتی ہے۔ دس برس کے عرصے میں جو تاریخ کی وسعتوں میں بہت ہی محدود دکھائی دیتا ہے، عرب جیسے صحرا کو زندگی کے ایک مدرسہ فلاح میں بدل دینا اور تمام بکھرے ہوئے قبائل اور انتہائی وحشی، سر پھرے اور جنگجو افراد کو اس میں داخل کر لینا اور پھر ان کو عظیم سچائیوں اور پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دینے میں کامیاب ہو جانا نہ صرف تعلیم دینا بلکہ نوع انسانی کے لیے ان کو معلم و مربی بنا دینا شاید حضور ﷺ کی نبوت کا سب سے بڑا حمتی معجزہ ہے۔*

 *"❀_ پس یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو جاتا ہے کہ اسلام کی انقلابی تحریک کے خلاف جاہلیت کی کش مکش کا فیصلہ ہونے میں جنگی معرکوں کا کتنا بھی اثر پڑا ہو لیکن بہر حال فیصلہ کا اصل میدان رائے عام کا میدان تھا ۔۔۔۔۔ بلکہ ذرا روحانی زبان میں بات کہیں تو دلوں کا میدان تھا۔ عرب کے لاکھوں مرد و زن مفتوح ہوئے تو اسی میدان میں دلیل اور اخلاق کے اسلحہ سے مفتوح ہوئے۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *⚂_ دلیل کی قوت _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ہم آخری قسطوں میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہر طرف سے مخالفتوں اور مزاحمتوں کے نت نئے طوفانوں کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک قلیل مدت میں دس بارہ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی کثیر التعداد اولاد آدم اسلامی نظام حیات کے سائے میں آگئی۔*

*"❀_ حقیقت یہ ہے کہ دعوت اگر حق ہو، تحریک اگر انسانی فلاح پر مبنی ہو، اور اس کے علمبردار اگر مخلص اور ایثار پیشہ ہوں تو مخالفتیں اور مزاحمتیں ہمیشہ انقلابی قافلہ کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ ہر رکاوٹ ایک سنگ میل بن جاتی ہے۔ راستے کا ہر کا نٹا رہبری کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچائی اگرچہ ایک اقلیت کے ساتھ ابھرتی ہے لیکن اکثریت کو فتح کر لیتی ہے۔*

*"❀_ آئیے دیکھیں کہ تحریک اسلامی نے کن کن قوتوں سے کام لے کر رائے عام کے دائرہ میں تیزی سے قدم بڑھانے کے راستے بنائے۔*
*"❀_(١)_ دلیل کی قوت:- تحریک اسلامی کی سب سے بڑی قوت دلیل کی قوت تھی۔*

*"❀_ تحریک اسلامی نے اپنی دعوت پیش کی تو سوتی ہوئی عقلوں کو چونکایا۔ دماغوں کو جھنجوڑ کر بیدار کیا۔ آنکھیں کھول کر دیکھنے اور کان کھول کر سننے کی تلقین کی۔ نظام کائنات میں تدبر کرنے کی ترغیب دلائی۔ زمین وآسمان کے احوال کا تجزیہ کرنے کا سبق دیا۔ نت نئے سوال چھیڑ چھیڑ کر فکروں میں تحریک پیدا کی۔ ذہنی تقلید کے بندھنوں کو توڑا۔ فضول روایات و رسوم کے جال پارہ پارہ کیے۔ آباء پرستی اور ماضی پرستی کے سحر کو باطل کیا۔*

*"❀_ الغرض اس نے جاہلیت کے مسلط کردہ عقلی جمود کو توڑ دیا۔ اس طرح جو جو روھیں جاگتی گئیں اور جن لوگوں کی عقلیں انگڑائیاں لے کر اٹھنے لگیں ان کے سامنے زندگی کی بنیادی سچائیاں رکھیں اور اپنے استدلال کے زور سے یکے بعد دیگرے ان کو متاثر کر کے چھوڑا ۔* 

*❥❥___تحریک اسلامی نے خدائے واحد کو خالق مالک رازق، حاکم اور ہادی کی حیثیت سے پیش کیا تو اس زور استدلال سے پیش کیا کہ جوابی اوہام کے اسلحہ کند ہو کر رہ گئے۔ اس نے انسانی قوت مشاہدہ کو اکسا کر دعوت دی کہ زمین و آسمان کی نیرنگیوں پر نگاہ ڈالو۔ چاند تاروں کی گردش پر غور کرو۔ موسموں، ہواؤں اور بارشوں کے نظام میں کاوش کرو۔ نباتات کی روئیدگی و بالیدگی کے مناظر ہے سبق لو۔ حیوانات کی نشو نما اور ان کے تناسل میں دماغ کھپاؤ۔ انسانی گروہوں کی رنگا رنگی اور تمدنوں کے مدوجزر کا مطالعہ کرو۔ اپنے نفوس و اذہان کی گہرائیوں میں جھانکو ۔۔۔ تم دیکھو گے کہ ہر طرف اٹل قوانین اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہر دائرہ وجود میں ایک نظم کی کار فرمائی ہے۔*

*"❀_ یہ قانون یہ نظم، نیز توافق یہ تعاون' یہ وحدت یہ ارتقاء آپ سے آپ بطور ایک اتفاقی حادثے کے نمودار نہیں ہوا۔ چیزیں اپنے آپ کو خود تجویز نہیں کرتیں۔ اپنا نقشہ خود نہیں بناتیں۔ بے شعور اور بے جان مادہ اونچے موجودات کی تخلیق آپ سے آپ نہیں کرتا۔ عناصر باہمی مشورے سے توافق نہیں کرتے۔ بلکہ بالاتر ہستی فعال و مختار اور حکیم و خبیر ہستی، ایک ناظم ایک ڈائریکٹر ایک حکمران اور ایک قانون ساز کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔*

*"❀_ تمام قوتیں اور عناصر اسی کی تسبیح کہتے ہیں۔۔ تمام موجودات اس کے حضور سجدہ ریز ہیں۔ تمام مخلوق اس کے طبعی دین کی پابند ہے۔ عظیم سورجوں سے لے کر ننھے سالموں تک ہر شے اس کی بارگاہ میں مسلم کی حیثیت سے سر انقیاد خم کئے ہوئے ہے۔*

*"❀_ پھر اسلامی تحریک نے بتایا کہ اگر اتنے بڑے کارخانہ وجود کے اوپر ایک سے زیادہ مالک اور منتظم ہوتے تو ان کے درمیان ٹکراؤ ہو جاتا۔ اور یہ یک رنگی اور ہم آہنگی کسی طرح قائم نہ رہتی جس کا مشاہدہ تم کر رہے ہو۔ گویا کتاب کائنات کا ہر ورق خدا کی ہستی ہی پر نہیں بلکہ اس کی توحید پر اور اس کی مختلف صفات پر محکم دلائل سے بھرا پڑا ہے۔*

*❥❥_ پھر اسلامی تحریک نے دلیل کے زور سے واضح کیا کہ یہ کائنات جو پوری کی پوری خدا کے دین اور قانون میں جکڑی ہوئی ہے اور جس کا ہر ذرہ اس کے سامنے سر جھکائے حاضر ہے، تم خدا کی بندگی کرو گے تو ساری کائنات تمہارے لیے مسخر ہو جائے گی، اور تم اگر خدا سے بغاوت اور کفر کرو گے تو نظام کائنات سے تمہارا نظام تمدن بے ربط ہو جائے گا،*

*"❀_اس کائنات میں انسان کے لیے بھی فلاح کی واحد راہ یہی ہے کہ وہ خدا کے دین اور خدا کے قانون کا پابند ہو کر رہے۔ تم جو خدا کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتے ہو۔ اس کے رزق پر پلتے ہو۔ اور ہاں تم کہ جن کے بدن کا عضو عضو اور جن کے اعضاء کا ذرہ ذرہ مسلم بن کر خدائی قانون میں جکڑا ہوا ہے، تمہارے لیے زندگی کی کوئی سیدھی راہ ہے تو خدا کی بندگی ہی کی راہ ہے۔ تمہاری فطرت کا خمیر اسی بندگی کے عہد سے اٹھایا گیا ہے اور تمہارے ضمیروں میں احساس عبودیت پیوست ہے۔*

*"❀_ پھر اسلامی تحریک نے اسی زور استدلال سے یہ حقیقت بھی اجاگر کی کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی احتیاج ہر ہر ذرے کو ہے۔ وہی عناصر کی تقدیریں مقرر کرنے والا ہے، دوسرے موجودات کی طرح انسان بھی اس کی ہدایت کا اسی طرح محتاج ہے جیسے وہ روشنی، ہوا اور پانی کا محتاج ہے۔*

*"❀_ خدا نے اپنی ہدایت سے مخلوق کو بہرہ مند کرنے کے لیے وحی کا نظام مقرر کیا ہے۔ انسان چونکہ شعور سے بہرہ مند ہے اس لیے اس کے لیے وحی کی وہ تکمیلی صورت مقرر کی گئی ہے جس کے تحت اس کے شعور کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ پھر اسلامی تحریک نے اپنی اصولی دعوت کے اس جز کو بھی دلیل ہی کے زور سے قابل قبول بنایا کہ جب اس کائنات میں علت و معلول اور سبب و نتیجہ کا قانون کام کر رہا ہے تو انسان کے اخلاقی اعمال کو بھی اس جامع قانون کے تحت کسی تکمیلی نتیجہ تک پہنچنا چاہیے۔*

*❥❥__اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی دکھایا کہ انسان کی اس محدود امتحانی زندگی میں محدود قانون مکافات کے تحت اس ارضی زندگی کے بعد کسی نئے دور حیات میں انسانی اعمال کے نتائج کو بھر پور طریق سے ظہور کرنا ہے۔ خدائی عدل جو ہر طرف کار فرما ہے، اس کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ جو جیسا کرے ویسا بھرے۔ اس طرح اس نے حیات بعد الموت اور محاسبہ آخرت اور جزا و سزا کا تصور دیا۔*

*"❀_ پھر ان ساری بنیادی سچائیوں کو ثابت کرنے کے لیے اس نے پچھلی پوری انسانی تاریخ پیش کر دی۔ ایک ایک قوم کی داستان کو لیا اور دکھایا کہ جن انسانی گروہوں نے زندگی کا نظام ان حقائق پر اٹھایا، انہوں نے فلاح پائی۔ اور جنہوں نے ان سے روگردانی کی وہ خوار و رسوا ہو کر ملیا میٹ ہو گئیں۔*

*"❀_ جن افراد نے ان کو قبول کیا، ان کے دل و دماغ روشن ہو گئے اور ان کے کردار جگمگا اٹھے، اور جنہوں نے ان کی مخالفت کی وہ پستیوں میں گرتے چلے گئے۔ دکھایا کہ یہ وہ سچائیاں ہیں جن کی دعوت ہر دوسر تاریخ میں ہر قوم کے سامنے ایک ہی طرز کے لوگوں نے بار بار پیش کی اور ان کو غالب کرنے کے لیے بے لوث جذبہ اخلاص کے ساتھ جان و مال کی ساری متاع نچھاور کر دکھائی۔*

*"❀_ اسلامی تحریک کی یہ اساسی دعوت اپنے پورے استدلالات کے ساتھ قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسے بڑے حسن تکرار سے پیش کیا گیا۔ اسے دلربا تصریف آیات کے ساتھ لایا گیا۔ اس کے لیے بہترین ادبی زبان استعمال کی گئی۔ اس میں جذبات لطیف کا رس گھول دیا گیا۔ مخالفانہ اعتراضات کو ساتھ کے ساتھ صاف کیا گیا۔ منکروں اور حریفوں کی نکتہ آفرینیوں اور طنز و استہزاء کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا گیا۔*

*"❀_ پھر کہیں عبرت دلائی۔ کہیں تنبیہ کی، کہیں شرم دلائی۔ کہیں چیلنج کیا۔ کہیں نرمی اور لطافت سے دلوں کو پکھلایا۔ کہیں استفہام کا انداز اختیار کیا۔ کہیں استعجاب کا رنگ بھرا۔ غرضیکہ مختلف اسالیب سے انسانی ذہن کو اس طرح گھیرا کہ ارباب شعور کے لیے کوئی راہ فرار کھلی نہ رہنے دی۔*

*"❀_ اگر بازی تلوار کے زور سے فتح کی جانے کی ہوتی تو آخر استدلال کے اتنے اہتمام کی ضرورت ہی کیا تھی جو قرآن کے دو تہائی بلکہ زائد حصے میں پھیلا ہوا ہے۔ در حقیقت اسلامی تحریک کی بے پناہ قوت استدلال نے اپنے مخاطبوں کو بے دم کر دیا۔ اور ان میں سے اہل سعادت نے قبول حق کے لیے دلوں کے دروازے کھول دیئے اور اہل زیغ مجبور ہوئے کہ دلیل کی بازی ختم کر کے تشدد کے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئیں۔ جو بھی دعوت و تحریک اپنے مخاطبوں کو اس مرحلے پر پہنچا دیتی ہے وہ آخر کار میدان مار لے جاتی ہے۔* 

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
       *⚂_مسلم کردار کی اخلاقی قوت_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ مسلم کردار کی اخلاقی قوت :- کوئی دعوت بھی اگر صرف لفظی دعوت ہو اور اس کے ساتھ اخلاقی زور موجود نہ ہو تو وہ کیسی ہی زریں کیوں نہ ہو۔ اور تھوڑی دیر کے لیے دلوں پر کتنا ہی سحر کیوں نہ طاری کرلے، آخر کار دھوئیں کے مرغولوں کی طرح فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ پر الفاظ سے کبھی کوئی اثر نہیں ڈالا جا سکتا۔ اور اکیلی زبان کبھی انقلاب نہیں اٹھا سکتی۔*

*"❀_ الفاظ جبھی موثر ہوتے ہیں جب کہ عمل کے لغت کے رو سے ان کے کچھ معنی ہوں۔۔ دلیل جب کردار کے بغیر آئے اپیل جب اخلاص سے خالی ہو، اور تنقید جب اخلاقی لحاظ سے کھوکھلی ہو تو انسانیت اس سے متاثر نہیں ہوا کرتی۔ کردار کی اخلاقی طاقت ہی کسی دعوت میں اثر بھرتی ہے۔ عمل کی شہادت کے بغیر زبان کی شہادت بیکار ثابت ہوتی ہے۔*

*"❀_ حق یہ ہے کہ "اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ (الصف . ۳) اسلامی تحریک کی دعوت نری منطقی دعوت نہ تھی۔ وہ سراسر ایک پیغام عمل تھی اور وہ ایک خاص طرز کا انسان بنانے آئی تھی۔ اور وہ انسان اس نے اول روز سے بنانا شروع کر دیا۔ اس انسان کا طرز فکر، اس کے اخلاقی اوصاف اور اسی کا من موہنا کردار تھا جو اس کے دلائل کو حقیقی وزن، اس کی اپیلوں کو سچی جاذبیت اور اس کی تنقیدوں کو گہرا اثر دینے والا تھا۔*

*"❀_ حضور سرور کائنات ﷺ نے مکہ میں اپنی انفرادیت کی شان دکھائی تھی اور مدینہ میں آکر آپ نے اپنی اجتماعیت کا جلوہ دکھایا ۔ آپ ﷺ نے انسان کی تعمیر کے اصل کام سے کبھی غفلت نہیں برتی۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کے جذبے میں اسے کبھی فراموش نہیں کیا۔ ایک ایسے معاشرہ کے درمیان جس کی نگاہوں میں کمانے اور کھانے پینے سے زیادہ اونچا کوئی مقصد نہ تھا جس کی ہر مجلس ایک میکدہ اور ایک قمار خانہ اور رقص گاہ تھی۔ جہاں شجاعت کا استعمال دنگے فساد قتل انتقام در انتظام اور لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اور جہاں تمدن ایک ایسے جنگل میں بدل گیا تھا جس کے کچھاروں میں انسانی درندے دھاڑتے رہتے تھے۔ اور شریف اور مسکین لوگ ان کے لیے ستے شکار‌بنے ہوئے تھے،*

*❥❥__ وہاں جناب محمد ﷺ جب انسانیت کے ایک صالح قافلے کو لیے ہوئے نمودار ہوئے تو اس کا وجود اول روز سے ماحول میں انتہائی نمایاں تھا۔ لوگ انسانیت کے اس نئے نمونے کو اچنبھے سے دیکھتے اور اسے ہر پہلو سے مختلف اور ممتاز پاتے۔ پھر اس کی پوری نشوو نما ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی اور اس کی تعلیم و تربیت کا سارا کام از اول تا آخر عوام الناس نے خوب اچھی طرح دیکھا۔*

*"❀_ خواص اور عوام ہر صبح اور ہر شام دیکھتے تھے کہ کلمہ اسلام کے بعد دیگرے اچھے اچھے افراد کو کھینچتا چلا جاتا ہے۔ یکایک دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ اٹھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس انقلابی تحریک کے سپرد کر دیتے ہیں۔*

*❀"_ وہی جو پہلے محمد ﷺ کے خلاف دانتوں اور ناخنوں تک کا زور صرف کر کے لڑ رہے ہوتے ہیں، اچانک وہی سر افگندہ ہو جاتے ہیں، جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ پھر جو کوئی بھی کلمہ حق کو قبول کرتا ہے آناً فاناً اس کے ذہن و کردار میں خوشگوار تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔*

*"❀_ اس کی دوستیاں اور دشمنیاں بدل جاتی ہیں۔ اس کی عادات اور اس کے ذوق میں انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے مشاغل نیا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کی پہلی دلچسپیاں ختم ہو جاتی ہیں اور نئی دلچسپیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ پھر وہ معا انتہائی فعال اور سرگرم شخصیت سے آراستہ ہو جاتا ہے۔ اس میں ایک نئی طاقت ابھر آتی ہے۔ اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اس کے ضمیر کا چراغ پوری لو دینے لگتا ہے۔ گویا اس کے اندر سے بالکل ایک دوسرا آدمی نمودار ہو جاتا۔*

*❥❥_ قاتل آتے اور انسانی جان کے محافظ بن جاتے۔ چور آتے اور امین بن جاتے۔ زانی آتے اور عفت و حیا کے پیکر بن جاتے۔ ڈاکو آتے اور صلح و آشتی کے معلم بن جاتے۔۔ سود خوار آتے اور انفاق کرنے والے بن جاتے۔ کند ذہن آتے اور ان کے اندر سے اعلیٰ قابلیتوں کے سوتے ابل پڑتے۔ ادنی سماجی مرتبوں سے اٹھتے اور شرف کی بلندیوں کو چھو لیتے۔ جیسے یہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق بن گئے ہوں۔*

*"❀_ جیسے یہ مٹی کے پتلے نہ ہوں، بلکہ کسی دوسرے جوہر سے انہوں نے وجود پایا ہو۔ یہ خدا کے پرستار رسول اللہ ﷺ کے دیوانے، شمع صداقت کے پروانے، نیکی کے نقیب بھلائی کے داعی بدی کے دشمن، ظلم کے مخالف - یہ رکوع وسجدہ میں قرار پانے والے، یہ قرآن پڑھتے ہوئے گریہ بے تاب میں کھو جانے والے یہ دنوں کو مقصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے اور راتوں کو اللہ سے لو لگانے والے،*

*"❀_ مسکینوں کو کھانا کھلانے والے مسافروں کی خبر گیری کرنے والے، یتیموں اور بیواؤں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے، لہو و لعب سے بے تعلق، تعیشات سے مجتنب فضول بحثوں سے کنارہ کش، سنجیدگی و وقار کے پیکر، شائستگی وسلیقہ کے مجسمے اور یہ محفل ہستی میں اجنبی بن جانے والے لوگ یہ اپنی ہی بستیوں میں رہ کر غریب الوطن ۔۔۔۔، آخر کیسے ممکن تھا کہ سارے عرب کی نگاہیں ان پر مرتکز نہ ہو جائیں۔*

*"❀_ یہ داعیان اسلام ! جو بغیر کسی لوث کے دین کی خدمت میں ہمہ تن محو تھے ۔ کسی معاوضے کے بغیر تحریک کے ہمہ وقتی کارکن تھے۔ اور دنیا کی بھلائی کے لیے اپنے مفاد کو بالکل بالائے طاق ڈالے ہوئے تھے۔ یہ اپنے مقدس نصب العین کے لیے دماغوں کی کاوشیں، جسموں کی طاقتیں، جیبوں کے مال اور وقت آنے پر اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں تک صرف کرنے والے لوگ تھے۔*

*❥❥_ نہ ان کو معاش کی فکر تھی۔ نہ تن بدن کا ہوش تھا۔ نہ راتوں کی نیند کا خیال نہ بیوی بچوں میں مگن رہنے کی مہلت نہ کھیل تماشوں سے دل بہلانے کی فرصت، انہوں نے ہنستے مسکراتے مخالفوں کی گالیاں سنیں۔ خوشی خوشی فاقے کاٹے۔ روحانی مسرت کے ساتھ وطن چھوڑے۔ صبر کے موقع پر انتہائی درجہ کا صبر دکھایا اور مقابلہ کرنے کا وقت آیا تو مضبوط ہاتھوں سے مقابلہ کیا۔*

*"❀_ احد احمد کہتے تپتی ریت پر لوٹ گئے۔ وجد آفرین شعر پڑھتے پڑھتے سولیوں پر لٹک گئے۔ گھائل ہو کر گرے تو مائل پرواز روح جھوم کر پکار اٹھی رب کعبہ کی قسم ! میں تو مراد پا گیا۔ یہ کردار ہو اور پھر بھی دنیا سرنگوں نہ ہو جائے۔ اس مسلم کردار نے ہر موقع پر ایسی زریں مثالیں قائم کیں کہ زندگی کی پیشانی ان کے نور سے یوم آخر تک جگمگاتی رہے گی۔*

*"❀_ اس کردار کے مربی نے مکہ سے روانہ ہوتے ہوئے اپنے قاتلوں کی امانتوں کی واپسی کا اہتمام کیا۔ اسی کردار نے زنا کا جرم سرزد ہو جانے پر بطور خود پیش ہو کر اقرار جرم کیا۔ اور اسلامی عدالت سے باصرار انتہائی مسلمین سزائے موت اپنے لیے قبول کی تاکہ وہ خدا کے حضور میں پاک ہو کر پیش ہو سکے۔ اس کردار کو قبول اسلام کے چند ہی منٹ بعد جب ایک پیکر حسن نے دعوت عیش دی تو اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اب میں خدا اور رسول کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔*

*"❀_ انصار نے اپنے گھر بار اور مال و متاع آدھوں آدھ بانٹ کر مہاجرین کے سامنے رکھ دیئے، کیا عوام کے دل اس مساوات کا سماں دیکھ کر کھنچتے نہ ہوں گے کہ ادنیٰ ترین غلام خاندانی ہستیوں کے ساتھ اور غریب طبقوں کے افراد اہل ثروت کے ساتھ اور گھروں سے اجڑ کر آنے والے لوگ مدینہ کے مقامی باشندوں کے ساتھ صف واحد میں کھڑے ہیں۔ ہر ایک کو اہمیت حاصل ہے۔ ہر ایک کی عزت ہوتی ہے۔ ہر ایک کی رائے وزن رکھتی ہے اور ہر ایک کو ذمہ داریاں اٹھانے اور جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔*

*❥❥_ یہ ایک برادری ہے جس کے سارے افراد اچھے حالات میں بھی شریک رہتے ہیں اور تکلیف اور مصیبت میں بھی حصہ دار بنتے ہیں۔ ان کے غم مشترک ان کی مسرتیں مشترک! ان کا سوچنا مشترک اور ان کے اقدام مشترک, بھوک کا دور ہے تو اس میں سب سے بڑا حصہ دار سوسائٹی کا قائد ہے اور خوشحالی کا دور آتا ہے، تو اس میں سب سے کم حصہ وہ اپنے لیے لیتا ہے۔*

*"❀_ اس کردار کی تصویریں قرآن نے کھینچ کھینچ کر بار بار مخالفین کو بھی اور عوام کو بھی یہ احساس دلایا کہ دیکھو انسانیت کا یہ نمونہ جو نظریہ حق کے نور سے بنتا ہے کتنا افضل ہے۔ اور امن و سلامتی کا حصول اگر ممکن ہے تو اسی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کردار کو تحریک اسلامی نے اپنی دعوت کی سچائی کی دلیل بنا کر سامنے رکھا۔ پھر بار بار اس کردار کا تقابل جاہلی کردار سے بھی کیا۔ اہل کتاب کے کردار سے بھی کیا اور منافقین کے کرداروں سے بھی کیا۔ دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر دکھایا کہ دیکھو اور خود رائے قائم کرو۔*

*"❀_۔خود سرور کائنات ﷺ نے اپنی جماعت کے ایک ایک فرد پر پوری طرح توجہ کی۔ اور بہترین موقع پر کبھی نصیحت سے، کبھی گرفت سے، کبھی ناراضی سے، کبھی اظہار خوشنودی سے کام لے لے کر مسلم کردار کو نشوو نما دی۔ جس میں جیسی صلاحیتیں دیکھیں اور مزاج کی جیسی ساخت پائی اس کو اس کی ضروریات کے مطابق مشورے دیے اور جس میں جس نوعیت کی کمزوری دیکھی اس کے سامنے دین حق کا ویسا ہی اخلاقی تقاضا بیان کیا۔*

*"❀_ غیر مسلم والدین کی اطاعت کی تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کڑا حکم بھی دیا گیا کہ اسلام کے خلاف کسی کی کوئی اطاعت نہیں کی جاتی۔ اس کردار کی شان یہ تھی کہ وہ نہ ایران کی پر شکوہ تہذیب سے متاثر ہوا اور نہ روم کے ٹھاٹھ دار تمدن کے سامنے اس کا دل پسیجا۔ وہ بڑے بڑے درباروں میں اپنی بددیانہ شان کے ساتھ قالینوں کو روندتا ہوا بغیر اپنی گردن جھکائے پہنچا۔ اور کہنے کی بات اس طرح کی جیسے وہ بونوں کے درمیان کھڑا بات کر رہا ہو، اس کردار کو جب ذہنی لحاظ سے اتنا مستحکم بنا دیا گیا اور ہر قسم کے احساس کمتری سے اسے ہالا تر کر دیا گیا تو پھر اسے حریفوں نے میدان جنگ میں بھی پکارا تو اس نے شجاعت و استقامت کی زندہ جاوید نظیریں قائم کردیں۔*

*❥❥_ اس مسلم کردار کے بے شمار کٹر مخالفین ہوں گے۔ جو اس کا طنز و استہزاء کرتے ہوئے دل ہی دل میں محسوس کرتے ہوں گے کہ یہ ہم سے ہزار درجے افضل اور برتر ہے۔ بے شمار حریف ظاہر مخالفت کرنے کے باوجود باطن میں رشک کرتے ہوں گے کہ کاش کہ ہم بھی اس برادری میں شامل ہوتے۔ اس کردار کو گالیاں دینے والے اس کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے کبھی کبھی لمحہ فکریہ میں پڑ کر اپنے آپ سے کہتے ہوں گے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔*

*"❀__ کتنی محبت بھری زندگی تھی۔ کتنی ہلکی پھلکی، کتنی پر امن اور کتنی اطمینان بخش صحیح معنوں میں حیات طیبہ !ایسی کئ مثالیں نت نئی مثالیں جس انسانی ماحول میں نمودار ہوتی رہی، کیا دنیا کو ان کا ایثار دیکھ دیکھ کر ان سے محبت نہ ہوتی ہوگی،؟*

*"❀__ یہاں ہم چند مثالیں بیان کریں گے کہ کس طرح اسلام کا مقناطیس ہر چہار جانب سے بکھرے ہوئے ذرات انسانیت کو اپنی طرف کھینچتا چلا گیا۔ پہلے مکہ کے دور کو لیجئے۔ مشہور شاعر طفیل دوسی آتا ہے اور قریش اسے حضور ﷺ سے ملنے سے باز رکھتے ہیں۔ آخر وہ خود حاضر ہوتا ہے۔ اور قرآن کی چند آیات سن کر محض ان کے اثر سے اسلام قبول کر لیتا ہے۔*

*"❀__ عمرو بن عبسہ حضور کا چرچا سن کے آتے ہیں اور اسلام دل میں جگہ پا لیتا ہے۔ حضور ﷺ کے بچپن کے ساتھی ضماد بن ثعلبہ ناصح اور چارہ گر بن کے آتے ہیں ، مگر زبان مبارک سے خدا کی حمد کے چند بول سن کر ہی مفتوح ہو جاتے ہیں۔ ایک صحرائی قبیلہ جس کا پیشہ ڈاکہ زنی ہے، اس کا ایک نوجوان ابوذر اسلام کا چرچا سن کے آتا ہے اور مخالف ماحول سے بچ بچ کر حضور ﷺ تک پہنچتا ہے۔ دعوت سنتا ہے اور تحریک حق کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ اس میں پکا ایک ایک جذبہ اٹھتا ہے اور وہ حرم میں جا جا کر کلمہ حق کا اعلان کرتا ہے۔ پھر جو جو شخص تحریک اسلامی کے حلقہ میں داخل ہو تا گیا، وہ اپنے اپنے دائرہ اثر میں خود ایک داعی بنا گیا۔* 

*❥❥_ بعض کے اثر سے قبیلے کے قبیلے اسلام کو قبول کرتے گئے۔ سوید بن صامت حضور ﷺ سے ملاقات کرتے ہیں اور گہرا اثر لے کے جاتے ہیں'۔ ایاس بن معاذ مدینہ سے آکر حضور ﷺ کی دعوت کے قائل ہو جاتے ہیں' اور پھر مدینہ میں نظام حق کی طلب پیدا کرتے ہیں۔۔ نجران سے ۲۰ عیسائیوں کا وفد آکر حضور ﷺ سے اسلام کے پیغام کا شعور حاصل کرتا ہے۔ اور باوجودیکہ قریش ان کو ورغلاتے ہیں، یہ لوگ حق کی روشنی کو سینوں میں جذب کر کے رخصت ہوتے ہیں۔ مہاجرین حبشہ سے یمن کے لوگ متاثر ہو کر اسلام کو سینوں میں جگہ دیتے ہیں اور انہی کے ذریعہ شاہ نجاشی کا دل ایمان سے منور ہو جاتا ہے۔*

*"❀_ مدینہ میں اوس اور خزرج کے لوگ تو حضور ﷺ کی آمد سے پہلے ہی تیزی سے اسلام میں آرہے تھے اور حضور ﷺ کے ہجرت کر کے آ جانے کے بعد تو کوئی گھر خالی نہ رہا جس میں اسلام کی روشنی نہ جا پہنچی ہو، حیرت ناک یہ تھا کہ یہود کے ایک عالم عبد اللہ بن سلام حضور ﷺ کے ایک سادہ سے خطاب کو سن کر قریب آجاتے ہیں۔ اور تھوڑے سے غور و فکر کے بعد فیصلہ کر کے سرور عالم ﷺ کی خدمت میں شہادت حق ادا کرتے ہیں۔*

*"❀_ اس طرح عیسائیوں میں سے ایک نامور راہب و عالم ابو قیس صرمہ بن ابی انس تحریک اسلام کی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔ جبیر بن مطعم بدر کے قیدیوں کو چھڑانے آئے تھے اور حضور ﷺ کی زبان سے چند آیات کو توجہ سے سننے کا موقعہ ملا۔ حقیقت ایسی منکشف ہوئی کہ انہوں نے محسوس کیا کہ جیسے دل پرواز کر گیا ہے۔ قریش کے غلام ابو رافع مکہ کی طرف سے سفیر بن کر مدینہ آئے تو سینہ اسلام کے لیے کھل گیا۔ واپس جانے پر تیار نہ تھے۔ حضور ﷺ نے سمجھایا کہ سفیر کو روکا نہیں جا سکتا۔ تم واپس جاؤ اور پھر اسلام کی کشش ادھر کھینچے تو مدینہ آجاؤ۔ چنانچہ وہ مکہ گئے اور واپس مدینہ آ گئے۔*

 *"❀_بنو قریظہ کے خلاف ان کے جرائم کی سزا دینے کے لیے چڑھائی ہوتی ہے تو اس عالم میں ان کے ایک فرد عمرو بن سعد اسلام قبول کرتے ہیں۔ ثمامہ بن اثال حنفی رئیس یمامہ قید ہو کر آتے ہے اور حضور ﷺ کے طرز عمل سے متاثر ہو کر اسلامی جماعت کا ایک فرد بن جاتے ہیں۔ غزوہ احد برپا ہے کہ عمرو بن ثابت اصیرم (بنی عبد الاشہل) عین اسی لمحے حق کے سامنے سر تسلیم خم کر کے سیدھے معرکہ میں شریک ہو جاتے ہیں اور شہادت سے فائز ہوتے ہیں۔ معرکہ خندق کے کٹھن حالات میں نعیم بن مسعود تحریک اسلامی کے قدموں میں آگرتے ہیں،*

*"❀_ ابو العاص، مدینہ آتے ہیں، تو بالکل غیر متوقع طور پر اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔ حضرت خالد اور عمرو بن عاص جیسے ممتاز افراد ( صلح حدیبیہ اور جنگ موتہ کے درمیان) یکایک قریش سے ٹوٹ کر اسلامی ریاست کے ساتھ آملتے ہیں۔ جاہلیت کے محاذ سے لڑتے لڑتے اندر سے دل اکتا چکے تھے ، سو یکایک ان کو تحریک اسلامی نے کھینچ لیا۔ فضالہ فتح مکہ کے موقع پر اور شیبہ بن ابی طلحہ معرکہ حنین کے موقع پر حضور ﷺ کے قتل کے ارادے کر کے پہنچے مگر خود ہی تیغ حق سے گھائل ہو گئے۔*

*❥❥_ وفد ہوازن و بنو سعد کے آنے پر حضور ﷺ نے مالک بن عوف کو یاد کیا اور خواہش کی کہ وہ اسلام لائیں۔ پیغام پہنچنے پر مالک بن عوف ثقیف سے چھپ کر اگلے ہی دن حاضر ہو گئے اور اسلامی محاذ پر آ گئے۔ قبیلہ طے پر اسلامی دستہ نے فتح پائی تو حاتم طائی کی بیٹی قیدیوں میں مدینہ لائی گئی۔ اس نے حضور ﷺ سے حسن سلوک کی درخواست کی۔ جسے قبول فرما کر آپ نے اسے سواری کا انتظام کر کے واپس بھیجوایا۔*

*"❀_ انہوں نے اپنے بھائی عدی بن حاتم کو جن کے دل میں اسلام کے خلاف غصہ کی آگ مشتعل تھی، سارا حال سنایا اور مدینہ حاضر ہونے کی تلقین کی۔ عدی آیے اور آگر پہلے خود حالات کا پورا جائزہ لے کر جب محسوس کر لیا کہ حضور ﷺ خدا کے سچے نبی ہیں تو حلقہ اسلام میں داخل ہو گیے،*

*"❀_ کعب بن زہیر جنہوں نے حضور ﷺ اور اسلامی تحریک کے خلاف شاعری کا محاذ کھول رکھا تھا از خود مدینہ آے اور عرض کیا کہ تائب ہو کر مسلمان ہوا ہوں امان دیجئے۔ امان مل گئی۔ پھر انہوں نے وہ قصیدہ پڑھا جو تاریخی حیثیت اختیار کر گیا۔*

*"❀_ عبداللہ ذوالبجادین کو دیکھئے کہ یہ بھولا بھالا نوجوان مدینہ سے چلنے والی نسیم کے جھونکوں سے متاثر ہو جاتا ہے مگر چچا کے ڈر سے اپنے ارمان کو سینے میں کچھ عرصہ دبائے رکھتا ہے۔ چچا سے مایوسی ہو جاتی ہے تو چچا اس کے مال و جاہ اس کے دیے ہوئے لباس اور گھر کے ماحول کو سلام وداع کہہ کر کمبل پوش بنا ہوا مدینہ پہنچتا ہے اور زندگی اسلامی تحریک کے حوالے کر دیتا ہے۔*

*"❀_ بحرین کے قبیلہ عبدالقیس کے ایک تاجر منقذ بن حبان کاروباری سفر پر نکلے۔ مدینہ راستے میں پڑتا تھا۔ وہاں کچھ وقت کے لیے ٹھہرے۔ حضور ﷺ کے پیش نظر یہ نقشہ کار تو رہتا ہی تھا کہ بیرون حجاز کے علاقوں سے رابطہ بڑھانے کے ذرائع پیدا ہوں اور کام کے آدمی وہاں بھی تحریک کو حاصل ہوں۔ اس لیے اطلاع ملتے ہی خود تشریف لے گئے۔ دعوت پیش کی اور منقذ نے قبول کی۔ گھر گئے تو بحث و تمحیص کے بعد ان کے والد بھی حلقہ اسلامی میں آگئے۔ بعد میں قبیلہ کے عام لوگوں نے بھی ان کی دعوت سے اسلام اختیار کیا۔*.

*❥❥_ متعدد لوگوں نے بادشاہتیں، سیادتیں اور عہدے چھوڑ کر اپنے آپ کو خدا کی عبودیت کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ ان مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دعوت حق کی کھیتی کسی طرح اگ رہی تھی۔ آج یہاں بیج پھوٹا کل وہاں اخلاص نے کونپل نکالی۔ صبح ادھر کوئی کلی چٹک گئی۔ شام ادھر کسی نے آنکھ کھولی۔ جیسے شام کو آسمان پر تارے جگمگاتے ہیں۔ پہلے ایک پھر دو چار پھر دس ہیں، پھر سو پچاس، پھر ہزاروں لاکھوں بلکہ ان گنت گویا ریت کے ذرے خواب جمود سے ایک ایک کر کے چونک رہے تھے۔*
 
*"❀_لوگ جوق در جوق خود آگے بڑھ بڑھ کر تحریک کے دھارے پر پہنتے چلے گئے، ایسے لوگوں میں جب کوئی ایک بھی مسلم بن جاتا تو پھر وہ اپنے قبیلے اور اپنے علاقے میں خود ایک داعی و معلم بھی ہوتا۔ اس کی ذات میں تحریک کا ایک مقامی مرکز کھل جاتا۔ وہ اپنے قول اور اپنے کردار سے کتنے ہی دوسرے ساتھیوں کو بسا اوقات پورے کے‌ پورے قبیلوں کو اسلام کی بارگاہ میں لا پیش کرتا ۔*

*"❀_ علاوہ ازیں خود مدینہ کے مرکز دعوت کی سرگرمیاں بھی اور اس کے علاقائی کارکنوں کی کوششیں بھی بے شمار ایسے آدمی پیدا کرتی جاتیں جو اگرچہ براہ راست اسلامی تحریک کے حلقہ میں فوراً شامل نہ ہوتے لیکن اس کے ساتھ ہمدردی اور حمایت کا رویہ اختیار کر لیتے۔ اور ایسے لوگوں کی ہمدردیاں اور حمایتیں بھی اپنی جگہ بڑا کام کرتیں۔ ایسے حامیان تحریک غیروں اور مخالفوں میں بھی بیٹھ کر بات کر سکتے تھے اور ان کی بات سننے میں کسی طرح کا تعصب حائل نہ ہوتا۔*

*"❀_ ایسے لوگ قریش مکہ کے درمیان بھی بکثرت تھے۔ یہود میں بھی تھے اور بدوی قبائل میں بھی ایسے ہی افراد تھے جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کو معاہدہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت تھی جس نے جنگ احد کے بعد ابو سفیان کو پلٹ کر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرنے سے روکا۔ ایسی ہی ایک شخصیت وہ بھی تھی جس نے حضور کے زمانہ نظر بندی میں شعب ابی طالب کو جانے والے غلہ کو رکوانے کی مخالفت کی۔ اور ایسی ہی شخصیتیں تھیں جنہوں نے سرے سے بائیکاٹ کے اس ناپاک معاہدے کو ختم کرایا جو حضور ﷺ کے خاندان کے خلاف باندھا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک شخصیت یہود میں بھی تھی۔ جس نے یہودی ہوتے ہوئے اپنی جان تحریک اسلامی میں لگا دی۔ اور دوسرے یہودیوں کو بھی احساس دلانے کی کوشش کی۔*

*❥❥_ یک مثال تو خود مدینہ ہی کی تھی۔ اور شاید سب سے بڑی اور شاندار مثال ہے۔ کہ ایک نوجوان سوید بن صامت مکہ جا کر رسول خدا ﷺ سے کلمہ اسلام کی روشنی حاصل کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ بہت سی تعداد متاثر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مدینہ اسلامی تحریک کا مرکز بننے کے قابل ہو جاتا ہے۔*

*"❀_ طفیل دوسی اپنے مزاج کی وجہ سے اگرچہ قبیلہ کو جلد متاثر نہ کر سکے، لیکن ان کی وجہ سے یمن میں تحریک اسلامی کا تعارف ہو گیا۔ اور مہاجرین حبشہ سے متاثر ہو کر قبیلہ اشعر نے کسی خارجی تحریک کے بغیر اپنے آپ کو اسلام کے محاذ پر پیش کر دیا۔ ضماد بن ثعلبہ کی دعوت سے پورا قبیله ازد شنوه حلقه اسلام میں آگیا۔*

*"❀_ حضرت ابوذر غفاری اسلامی نظریہ انقلاب کی روح سے سرشار ہو کر مکہ سے لوٹے تو ان کی دعوت سے ان کا آدھا قبیلہ نظام حق کا علمبردار بن گیا۔ اور بقیہ آدھا حضور ﷺ کے مدینہ جانے پر مسلمان ہوا۔ پھر اسی قبیلہ غفار کے اثر سے قبیلہ اسلم میں بھی اسلام نے نفوذ کیا۔ اور آہستہ آہستہ یہ پورا قبیلہ بھی جاہلیت سے کٹ کر اسلامی انقلاب کا علمبردار بن گیا۔ منقذ بن حبان مدینہ سے صداقت کا نور جذب کر کے اپنے وطن بحرین پہنچے تو دعوت حق کا کام شروع کر دیا اور لوگ متاثر ہونے لگے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد یہ ۱٤ مسلم رفیقوں کا وفد لے کر مدینہ حاضر ہوئے۔*

*"❀_ غرضیکہ بات وہی انجیل کی سامنے آتی ہے کہ خدا کی بادشاہت (دعوت حق) کی مثال خمیر کی سی ہے کہ ایک عورت نے ذرا سا خمیر آٹے میں ملا دیا اور وہ سارے کا سارا خمیر ہو گیا۔ جہاں کہیں اسلام پہنچتا اور مناسب تعداد متاثر ہوتی، وہاں لازماً مسجد کی بناء ڈالی جاتی۔ مسجد صرف ایک عبادت گاہ ہی کی حیثیت نہ رکھتی تھی۔ بلکہ وہ اسلام کا تمدنی مرکز ہوتی تھی۔ اور بہ یک وقت تعلیم گاہ دارالمشورہ سماجی اجتماع گاہ اور مہمان خانہ کا کام بھی دیتی تھی۔*.

*"❀_ مساجد جہاں عوامی ادارات کی حیثیت رکھتی تھیں۔ وہاں انہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتی تھی۔ مدینہ سے جن حضرات کو کسی علاقہ یا بستی میں سول افسر بنا کر بھیجا گیا، وہی وہاں کی مسجد کے امام صلوۃ بھی ہوتے تھے۔ جو قبائل مدینہ کے ایڈ منسٹریشن سے باہر ہوتے ان کی مسلم آبادی امام کے تقرر کے لیے حضور ﷺ سے مشورہ لیتی۔ اور پھر حضور ﷺ کے بتائے ہوئے معیار پر خود کسی آدمی کا انتخاب کر لیتی۔*

*❥❥_ عوام میں دعوت و تعلیم کا جو وسیع کام مذکورہ بالا براہ راست طریق پر ہوا اس کے ساتھ جو دوسرے بڑے بڑے اقدامات موثر حد تک مکمل ہوئے ان میں سے ایک مدینہ کے سیاسی اثرات کی توسیع کا کام تھا جو بیشتر معاہدات اور حلیفانہ تعلقات کے ذریعے عمل میں آیا ۔*

*❀_ معاہدانہ رابطے کے ذریعے حضور ﷺ کا حکومت کے دائرہ اثر کو وسیع کرنا اور اس معاملے میں غیر معمولی حد تک توجہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ جنگ و جدل سے انتہائی ممکن حد تک بچ کے رہنا چاہتے تھے اور امن و آشتی کی فضا چاروں طرف قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ ایسی پر سکون فضا میں دعوت حق کا ٹھنڈا کام بخوبی ہو سکے۔ اور جنگی جذبات بیچ میں حائل نہ ہوں۔*

*❀_ جنگی کارروائیاں جہاں کہیں بقائے ریاست، بقائے امن یا بقائے اسلام کے لیے ناگزیر ضرورت بن گئیں، وہاں تو آپ نے کسی درجے کی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ لیکن اگر جنگ سے بچ کے نکلا جا سکتا ہو اور ریاست کا سیاسی تحفظ و استحکام اور دعوت کے لیے کھلا میدان امن و آشتی سے حاصل کرنا ممکن ہو تو پھر آپ نے لازماً صلح و آشتی کا راستہ اختیار کیا۔ خود ریاست کا وجود تلوار کے زور سے نہیں، بلکہ دستوری معاہدے کے بل پر قائم ہوا۔ اور پھر اس کے تحفظ کے لیے اور اس کے اثرات کی توسیع کے لیے آپ نے حلیفانہ روابط کو اتنے بڑے پیمانے پر ذریعہ بنایا کہ جنگی کارروائیاں ان کے مقابلے میں بالکل ہلکا تناسب رکھتی تھیں۔*

*❀_۔ معاہدات استوار کرنا اور حلیفانہ تعلقات قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ خصوصاً جب کہ مذہبی اختلافات, سیاسی تعصبات, کھلی مخالف طاقتیں موجود ہوں اور معاملہ بالعموم ایسے قبائل اور عناصر سے ہو جو سابق تعلقات نہ رکھنے کی وجہ سے بالکل اجنبی ہوں۔ اس کام کے لیے بڑی سیاسی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن محسن انسانیت ﷺ نے اس دائرہ کار میں جس درجے کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ مہارت اور ڈپلومیٹک قابلیت کا نمونہ پیش کیا ہے، اس کی مثال کہیں نہیں مل سکتی۔ اور اس وجہ سے نہیں مل سکتی کہ حضور ﷺ نے اتنے وسیع تعلقات مختلف حالات میں پیدا کرتے ہوئے کسی بھی موقع پر نظریہ حق اپنے اخلاقی اصولوں اور اپنے سیاسی مرتبے کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچنے دیا۔*

*❥❥_ سیاست آج ایک مکروہ مشغلہ اس لیے بن کر رہ گئی ہے کہ سیاست کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسا ٹینک ہے کہ جدھر کو حرکت کرتا ہے، انسانیت کی قیمتی قدروں کو روند تا چلا جاتا ہے۔ مگر حضور ﷺ نے ڈپلومیسی اور سیاست کا بالکل مفہوم بدل کے رکھ دیا۔ اور ان کاموں کو نہ صرف آلائشوں سے پاک کر دیا۔ بلکہ نیکی اور عبادت کی روح سے سجا دیا۔*.

*"❀_ اسلامی اصولوں کے ساتھ سیاسی اور ڈپلومیٹک سرگرمیوں کو جاری رکھنا اور پھر ان میں غیر معمولی درجے کی کامیابی حاصل کرنا اور اس کے ذریعے بیشمار بکھرے ہوئے قبائل کو اپنے گرد مجتمع کر لینا آج کتابوں کے اوراق میں پڑھتے ہوئے آسان معلوم ہوتا ہے۔ مگر ریگستان عرب میں جب عملاً یہ سب کام ہو رہا ہو گا، تو کرنے والا ہی جان سکتا ہے کہ کیسی کٹھن مہم ہوگی۔*

*"❀_ معاہدانہ روابط کا یہ سلسلہ نہ صرف اس لحاظ سے دعوت کی توسیع میں مددگار تھا کہ حلیف قبائل میں حق کے داعیوں کو آمدورفت اور عوام سے گھلنے ملنے کے کھلے مواقع حاصل ہو جاتے تھے۔ اور خود ان قبائل کے افراد کا رابطہ بھی مدینہ سے بڑھ جاتا تھا، جوں جوں لوگ محسن انسانیت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کے اخلاق اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوتے گئے مدینہ ان کی امیدوں کا مرکز بنتا گیا۔ اور اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا تھا کہ ان کے دل بھی اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے۔*

*"❀_ گویا دین کی دعوت اور سیاسی اثرات کی توسیع دونوں کام ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے ! یہ حقیقت ذہن میں رکھ کر ان معاہدانہ تعلقات کا جائزہ لیجئے جو حضور نے بڑے وسیع پیمانے پر قائم کر دکھائے۔ اور اس کام میں آپ کی رفتار کار حیرت انگیز حد تک تیز رہی، باوجودیکہ ذرائع رسل و رسائل کے لحاظ سے حالات سخت نا موافق تھے۔*

*"❀_ جب ہم محسن انسانیت ﷺ کی مقدس شخصیت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو نسبی، خونی، صہری رضاعی اور ولائی علائق کا دائرہ بڑا وسیع پاتے ہیں۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ دوستی اور رفاقت اور عام شخصی تعلقات کا حلقہ روز افزوں دیکھتے ہیں۔ ان کے حقوق ادا کرتے ہیں اور ان کو استحکام دیتے ہیں۔ بعید ترین رشتوں کا بھی اتنا احترام اور لحاظ حضور ﷺ کو تھا کہ جماعت کو تاکید کی کہ جب تم مصر کو فتح کرو تو اس کے باشندوں سے حسن سلوک کرنا کیونکہ ان کی طرف سے تم پر صلہ رحمی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وضاحت فرمائی کہ حضرت اسماعیل کی والدہ انہی میں سے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان وسیع ذاتی تعلقات نے بھی اسلامی تحریک کے فروغ اور دعوت حق کے عوامی نفاذ کو بڑھانے میں بڑا بھاری اثر ڈالا ہے۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *⚂_ حضور ﷺ کے ازدواجی تعلقات _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━
*"❀_ حضور ﷺ کے ازدواجی تعلقات کے موضوع پر چونکہ متعصب مشرقین نے اعتراضات کا ایک خارزار پیدا کر دیا ہے کہ حضور ﷺ نے متعدد نکاح کیے اور اسلام نے تعداد ازدواج کو روا رکھا۔ پہلی بات یہ ذہن نشین کرنے کی ہے کہ انسانیت کا پہلا دور تاریخ (جسے ہم حضور ﷺ کے زمانے تک پھیلا ہوا پاتے ہیں) تکثیر نسل کا دور ہے۔ زمین کے قطعات جب ویران پڑے تھے۔ جہاں آبادی تھی وہاں چھدھری تھی، اور رزق کے ذرائع و وسائل کا میدان بھی کھلا پڑا تھا،*
 
*"❀_ اسی لیے اس دور کے کسی بھی تمدن کو لیں اور کسی بھی مذہب کو دیکھیں۔ انسانی معاشروں میں تعداد ازدواج بہت بڑے بڑے پیمانوں پر پوری طرح مروج رہا۔ خود شرائع الیہ نے بھی اس کی اجازت دی اور بہت سے جلیل القدر انبیاء علیھم السلام جن میں خود انبیائے بنی اسرائیل نمایاں ہیں، نے کئی کئی نکاح کیے۔ اکا دکا انبیاء نے ذاتی رجحان اور مخصوص حالات کی بنا پر گھر بار کے بکھیڑوں سے کنارہ کشی کی اور اپنے آپ کو ہمہ تن دعوت حق کے کام میں ہی لگایا ہے ۔ مگر اکثریت نے دعوت کے ساتھ ہی گھریلو زندگی اختیار کی اور بھر پور طریقے سے اختیار کی۔*

*"❀_ حضور تکثیر نسل اور تعداد ازدواج کے اسی دور کے آخر میں آتے ہیں۔ اور آپ ﷺ ہی کے ذریعے پہلی مرتبہ فرمان الہی سے تعداد ازدواج ( چار شادیوں) پر پابندی عائد ہوئی۔ حضور ﷺ نے جو بھی شادیاں کیں وہ اسی رخصت و اجازت سے کیں۔ جو شریعت اللہ میں چلی آ رہی تھی،*

*"❀_ دوسری بات یہ سامنے رہے کہ حضور ﷺ کے اکثر و بیشتر نکاح جنسی داعیہ کے زیر اثر نہیں بلکہ تحریک اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے پیش نظر عمل میں آئے۔ ان کی نوعیت دعوتی اور سیاسی ہے، حضور ﷺ کا اپنا ارشاد محفوظ ہے کہ (روایت سهل بن سعد) میرے اندر عورتوں کے لیے کوئی جنسی طلب موجود نہیں ہے_,*

*"❀_ واقعہ یہ ہے کہ صحیح معنوں میں شادیاں حضور ﷺ نے دو ہی کی ہیں۔ ایک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے دوسری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ بقیہ نکاحوں کے لیے بعض اہم اجتماعی مصالح پیش آتے رہے۔ اور ان مصالح کی خاطر حضور ﷺ نے اپنی مصروف ترین زندگی اور انتہائی فقیرانہ معاشرت پر بھاری بوجھ دلا کر انسانیت کے لیے قربانی دی ہے۔*

*❥❥_ خیال کیجئے کہ ایک نوجوان جو 25 پرس تک عفت مآبی اور حیاداری کا نمونہ اس معاشرے میں پیش کرتا ہے، جس میں شراب اور زنا کلچر کے بڑے قابل فخر کر پہلو بنے ہوئے تھے۔ 25 برس کو پہنچ کر بھی لذت پسندی کا عام معیار چھوڑ کر کسی نو عمر حسینہ کے بجائے 40 سال کی ایک بیوہ کا انتخاب کرتا ہے،*

*"❀_ اور پھر ازدواجی لحاظ سے عمر کے بہترین 25 برس اسی ایک خاتون کے ساتھ گزار کر پچاس سال پورے کر لیتا ہے۔ کیا اس کے بارے میں وہ گھٹیا باتیں سوچی جا سکتی ہیں، جن کا چرچا معترضین نے کیا ہے۔ پھر ازدواج کی کثرت کا دور 55 سے 59 سال کا دور ہے۔ عرب جیسے گرم ملک کے لحاظ سے اس عمر میں جنسی رجحانات انحطاط کی طرف جاچکے ہوتے ہیں۔*

*"❀_ پھر خود ازدواج کی عمروں کو دیکھیے تو دو کے علاوہ بقیہ کی عمریں بوقت نکاح 20 سال سے اوپر تھیں۔ اور پانچ کی عمریں تو 36 تا 50 برس تھیں۔ کیا حضور ﷺ کے لیے نوجوان ترین اور حسین ترین لڑکیوں کی کمی تھی؟‌*.

*"❀_ پھر ایسا گھٹیا اعتراض اٹھانے والوں کو سوچنا چاہیے تھا کہ وہ ہستی جس نے اپنے سر پر اتنے بڑے کام کا بوجھ اٹھایا تھا۔ کہ نہ دن کو سکون میسر تھا اور نہ رات کو آرام کا کوئی لمحہ اور وہ مجسمہ عفت و حیا کہ جس نے انسانیت کو پردے کا عظیم بابرکت قانون عطا کیا اور آدم زاد کو قلب و نظریں قابو رکھنا سکھایا۔ اور وہ ہستی کہ جس کے اوقات کا زیادہ حصہ ریاست اور معاشرہ کے وسیع مسائل میں کھپ جاتا تھا اور جس کے نجی اوقات پیروں کو متورم کر دینے والے لمبے لمبے قیام صلوۃ میں صرف ہوتے تھے۔ آخر کیسے اس کے بارے میں وہ فضول باتیں سوچی جا سکتی ہیں۔*.

*❥❥_پھر لذت پسند بادشاہوں اور فاتحوں کی سی کوئی بات ان میں نہیں دکھائی دیتی۔ نہ وہ جابر و ظالم ہے، نہ ان کو شراب اور موسیقی اور فاخرہ لباسوں سے دلچسپی ہے۔ بلکہ الٹا انہوں نے معاشرہ کو ان نفسانیت انگیز تفریحات سے پاک کیا۔ نہ انہوں نے ازواج کو دنیوی عیش و عشرت کے سامان فراہم کر کے دیے اور نہ ریشم اور سونے سے ان کے بدنوں کو سجایا۔ بلکہ اپنی درویشانہ زندگی کے رنگ میں ان کو بھی رنگ دیا۔*.

*"_ پھر ان کی ایسی ناز برداری کبھی نہیں کی کہ ان کی خوشنودی تحریک کے مفاد پر مقدم ہو جائے, یا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سے اصول بھی ترک کرنا پڑے، بلکہ ایسے موقعوں پر ان کی سختی سے تادیب کی۔ اور ایک موقع پر تو نان و نفقہ کا معیار بلند کرنے کے مطالبے پر ہی صاف صاف ان سے کہہ دیا کہ اس فقیری میں ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ میں رخصت کیے دیتا ہوں۔ کیا یہ سارے احوال مل جل کر ان لغو اعتراضات کا پوری طرح قلع قمع نہیں کر دیتے؟*

*"❀_ حضور ﷺ کے متعدد نکاح جن خاص ضرورتوں پر مبنی تھے وہ یہ تھیں : قبائلی نظام کا خاصا ہے کہ دائرہ عصبیت بڑا محدود ہوتا ہے اور اس کی سرحدات بہت ہی مضبوط رکھی جاتی ہیں۔ بکھرے ہوئے بے شمار قبائل کو جوڑنے کے لیے جہاں انسانیت گیر نظریہ کی ضرورت تھی وہاں قائد کی ایسی شخصیت بھی مطلوب تھی جو سب کے لیے نہیں تو بیشتر اہم قبائل کے لیے اپنائیت رکھتی ہو۔ یہ سیاسی ضرورت بعض ازدواجی علائق کے لیے داعی بنی۔*

*"❀_ مثلاً ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے معاملے کو لیجئے۔ یہ بنو مصطلق کے قبیلے کی خاتون ہیں۔ پورا قبیلہ نہایت طاقتور تھا اور ڈاکہ زنی اور لوٹ مار میں معروف خود حضرت جویریہ کا والد نامی رہزن تھا۔ اسلامی حکومت سے اس قبیلہ نے شروع ہی سے سخت عداوت اختیار کی۔ یہ نہ نظم کو قبول کرنے پر تیار تھے نہ معاہدانہ روابط کے لیے آمادہ۔ بلکہ مخالفت کے ہر محاذ پر موجود۔ آخر اس قبیلہ کو فوجی طاقت سے دبایا گیا۔ حضرت جویریہ قیدیوں میں آئیں۔ حضور سے ان کا نکاح ہوا تو جماعت کے لوگوں نے پورے قبیلہ کے قیدیوں کو رہا کر دیا کہ یہ لوگ رسول خدا ﷺ کے سسرالی رشتہ دار بن گئے ہیں اور اب ہم ان کو قید میں نہیں رکھ سکتے۔*

*"❀_ اس نکاح کی برکت دیکھئے کہ پورا قبیلہ رہزنی چھوڑ کر امن پسند اور مطبع نظام بن گیا۔* 

*❥❥_ اسی طرح ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ کو لیجئے۔ نجد کا علاقہ جہاں انتہائی سیاسی اہمیت رکھتا تھا (کیونکہ قریش کا ایک تجارتی راستہ عراق جانے کے لیے ادھر سے بھی گزرتا تھا) وہاں دعوت کے لیے اس کی زمین بے حد سنگلاخ ثابت ہوئی۔ یہاں کے لوگوں نے ایک دعوتی و تعلیمی وفد کے ستر قیمتی افراد کو شہید کر دیا تھا۔ پھر متعدد بار اہل نجد نے اسلام کے خلاف فتنہ انگیزیاں کی تھیں۔*

*❀"_ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سردار نجد کی اہلیہ کی بہن تھیں۔ حضور ﷺ سے نکاح کے ہوتے ہی فضا بدل گئی۔ اور نجد مدینہ کے زیر اثر ہوتا گیا۔*

*"❀_پھر ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں غور کیجئے کہ یہ قریش کے سردار اعلیٰ ابو سفیان کی صاحبزادی تھیں۔ اس نکاح کے بعد ابو سفیان پھر کبھی حضور ﷺ کے خلاف میدان میں نہیں آئے اور ان کا زور مخالفت ٹوٹ گیا۔ بڑی حد تک اس نکاح نے فتح مکہ کا راستہ ہموار کر دیا۔*

*"❀_ اسی طرح ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو لیجئے۔ یہ ایک اونچے یہودی سردار (حی بن اخطب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے خاندانی مرتبے کے پیش نظر یہ کسی طرح موزوں نہ ہوتا کہ ان کو کسی معمولی گھر میں جگہ ملتی۔ حضور ﷺ نے ان سے نکاح کیا، تو پھر یہود کبھی مخالفانہ محاذ کا احیاء کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے اذن سے یہودی اعزہ کی مالی خدمت بھی کرتی رہتی تھیں۔*

*"❀_ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے پس منظر میں دوسرے محرکات کے علاوہ ایک سبب یہ بھی کام کر رہا تھا کہ اسلامی معاشرہ کے لیے جن رفقائے خاص کو حضور ﷺ نے اپنا مشیر بنا کر قیادت کی ترتیب دی۔ ان میں سے چار سر کردہ ساتھیوں سے آپ نے گہرے ذاتی علائق قائم کیے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں آپ نے نکاح کیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو یکے بعد دیگرے دو صاحبزادیاں نکاح میں دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر کو جناب فاطمہ سے زینت بخشی۔ اندرین صورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس حلقہ قرابت سے باہر نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ حضور ﷺ نے ان کی صاحبزادی کو بھی اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس طرح حضور نے مرکزی کڑی بن کر مستقبل کے ان قائدین کو باہم دگر مربوط کر دیا۔*

*❥❥_ تحریک اسلامی کامیابی سے اپنے مراحل جبھی طے کر سکتی ہے جب کہ مردوں کے حلقے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حلقے میں بھی متوازی طور پر کام جاری ہو ۔ یہ کام بغیر اس کے کیسے ہو سکتا تھا کہ عورتوں کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے خود انہی کی صنف میں سے کچھ ذہین خواتین کو بطور قائد اور کارکن کے تیار کر دیا جائے۔*

*"❀_ اسلامی نظام حجاب کے ساتھ یہ ضرورت صرف دائرہ ازدواج ہی میں پوری ہو سکتی ہے یعنی جہاں ہر مسلم فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کی مستورات کو تحریک اسلامی کی خدمات کے لیے تیار کرے۔ وہاں پیغمبر اور قائد کے لیے زیادہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کو نمونہ کا گھر بنائے۔ اور اپنے اہل بیت کو خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے تیار کرے۔ یہی ضرورت ہے جس کے تحت خود قرآن میں حضور ﷺ کی ازواج و بنات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔*

*"❀_ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرت حفصہ اور ام سلمہ خواتین میں علمی اور ذہنی قیادت کے قابل بنیں اور بقیہ ازواج نے بھی اخلاقی حیثیت سے اپنے آپ کو قابل تقلید نمونہ بنایا۔*

*"❀_بسا اوقات ازدواجی روابط میں حضور ﷺ کو دوسرے فریق کی تالیف قلب کا غیر معمولی اہتمام بھی کرنا پڑا۔ مثلاً اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح خود آپ ہی نے باصرار زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کیا تھا اور مقصود یہ تھا کہ خاندانی امتیازات کی تنگ حد بندیاں ٹوٹ جائیں۔ نکاح بد قسمتی سے ناکام ہو گیا اور نوبت طلاق تک پہنچی۔ حضرت زینب کی دل شکستگی ظاہر ہے اور حضور ﷺ اس میں اپنی ذمہ داری بھی محسوس کرتے ہوں گے۔ اپنے نکاح میں لے کر بہترین شکل میں تلافی فرما سکتے تھے ۔*

*"❀_ مگر جاہلیت کی ایک غلط روایت حائل تھی۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اور رواجا ایسی صورت میں باپ بیٹے کے سے حقوق ہر معاملے میں آڑے آتے تھے۔ اس ریت کو خداوند تعالی نے توڑ دیا۔ اور باذن خاص حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو آپ کے نکاح میں دیا ۔*

*❥❥_ پہلے ہم نے ام حبیبہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہا کے نکاح کی سیاسی مصلحت بیان کی ہے مگر اس کی بھی ایک وجہ تالیف قلب تھی۔ یہ عبید اللہ سے بیاہی ہوئی تھیں اور انسی کے ساتھ ہجرت کر کے چلی گئیں۔ وہاں شوہر نصرانی ہو گیا اور شراب نوشی میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ ام حبیبہ نے اسلام پر بڑا ثبات دکھایا۔*

*"❀_ بہرحال غریب الوطنی میں شوہر کا ترک اسلام کرنا اور پھر مر جانا دوہرا صدمہ تھا۔ حضور ﷺ نے قاصد خاص (عمرو بن امیہ الضمری) کو شاہ نجاشی کے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع پہنچی تو اتنی خوشنود ہوئیں کہ مژدہ سنانے والی شاہی لونڈی کو اپنے زیور دے دیئے۔ شاہ نجاشی نے خود نکاح پڑھایا۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ماموں کے لڑکے خالد بن سعید بن ابی العاص کو وکیل بنایا۔ چار سو دینار مہر شاہ نجاشی نے اپنے ہاں سے ادا کیا اور ضیافت کی۔ بعض روایات کے بموجب مدینہ میں تجدید نکاح کی گئی اور ولیمہ بھی ہوا۔*

*"❀_ اسی طرح ام المساکین زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا بن الحارث ہلالیہ (بن بکر بن ہوازن) حضور ﷺ کے پھوپھی زاد عبداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں۔ ان کی شہادت (غزوہ احد) میں ہوئی تو حضور ﷺ نے ان کو بیوگی سے نکال کر اپنے حرم میں لے لیا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ خالص گھریلو معاملہ تھا اور تالیف قلب کے ساتھ اس میں خاندانی پہلو بھی ملحوظ ہوں گے۔*

*"❀_ بروئے تحقیق جملہ گیارہ نکاح حضور ﷺ نے کیے۔ اس سے زائد کی کمزور روایات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ ان میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا قبل ہجرت (دسویس سال نبوت میں) اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا صرف ۳ ماہ ازدواج نبوی میں رہ کر ۳ ھ میں فوت ہوئیں۔ حضور ﷺ کی عمر کا بالکل آخری دور ہے جس میں کل 4 ازواج مطہرات بیک دم حرم میں تھیں اور ان میں سے بھی ایک (حضرت سودہ رضی اللہ عنہا) دنیوی رغبتوں سے بالکل بے نیاز ہو گئی تھیں۔ لیکن جب قانون الہی نے پابندی عائد کر دی تو اس کے بعد پھر آپ ﷺ نے کوئی نکاح نہیں کیا۔*

*❥❥_ عام مسلمانوں کے مقابلے میں قانون نے ایک استثنا آپ کو دیا۔ عام مسلمانوں کو تو یہ حکم تھا کہ اگر چار سے زیادہ کسی کی بیویاں ہوں تو وہ زائد تعداد کو طلاق دے دے۔ لیکن حضور ﷺ کو اجازت دی گئی کہ زائد ازواج کو پاس رکھیں۔ اس استثنا کی وجہ یہ تھی کہ ازواج النبی ﷺ کو ضروریات دینی کے تحت امہات المومنین قرار دے کر محرمات میں داخل کر دیا گیا تھا۔ اب اگر ان میں سے کچھ کو حضور ﷺ سے طلاق دلوائی جاتی تو وہ بالکل تنہا ہو کے رہ جاتیں۔*

*"❀_ اب حضور ﷺ کے ازدواجی علائق کی سیاسی اہمیت کو دیکھئے کہ ان کی وجہ سے ایک طرف مکہ کے قبائل اور مہاجر برادری سے اور دوسری طرف عام قبائل عرب سے قائد نظام کو جو رشتہ یگانگت حاصل ہوا اس کی وسعت ظاہر کرنے کے لیے ہم متعلقہ خاندانوں اور قبائل کے نام درج کرتے ہیں۔ (١) بنی اسد بن عبد العزی (۲) بنی عامر بن لؤی (۳) بنی تمیم۔ (۴) بنی عدی۔ (۵) بنی مخزوم (۲) بنی امیہ (۷) بنی اسد بن خزیمہ (۸) بنو مصطلق (۹) یہود عرب (۱۰) بنو کلاب کلب و سلیم (١١) بنو کنده,*

*"❀_ بے شمار مزاحمتوں اور باغیانہ عزائم کو ان تعلقات نے ختم کر دیا۔ بلکہ بہت ہی دیرینہ تاریخی عداوتیں تک بے اثر ہو گئیں۔ سوچیے کہ ایک عظیم نصب العین جس سے ساری انسانیت کو بہرہ مند ہونا تھا،‌ ایک نظام عدل و امن اور ایک عالمگیر رابطہ اخوت کیا اتنی قیمتی چیز نہ تھا کہ اس کے لیے اگر تعداد ازدواج سے عرب کے قبائلی ماحول میں راستہ ہموار ہوتا ہو تو کیا جائے۔*
*"_ پھر پورے عرب کو وحدت اور نظم اور امن اور تمدن کی راہ پر ڈالنے کے لیے اگر یہ تدبیر بین طور پر مفید رہی تو آخر اس پر لے دے کیوں؟*

*"❀_ در حقیقت دیکھا جائے تو یہ حضور ﷺ کا ایثار عظیم تھا کہ آپ نے انسانی بھلائی کے مشن کو کامیاب کرنے کے لیے اپنی وسیع مصروفیات کے ساتھ آخری عمر میں عیالداری کا اتنا بوجھ اٹھایا۔ اور اپنے عالم فقر میں کن مشکلوں سے اہل بیت کے نان و نفقہ کے انتظامات کیے اور گھر داری کے کتنے جھمیلوں کو اپنے سر لیا۔ کوئی آج تصور نہیں کر سکتا کہ ان سارے حالات کی یکجائی سے کسی آدم زاد کو کوئی لمحہ عشرت تو کیا آرام و سکون کی کوئی گھڑی بھی ہاتھ آسکتی ہے۔*

*"❀_ امر واقعہ یہ ہے کہ اپنے اعلیٰ مقصد کی خاطر حضور ﷺ کا یہ ایثار تھا کہ تعدد ازدواج کا بار اٹھایا۔ گویا جہاں تک تحریک اسلامی کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے محسن انسانیت کے وسیع ذاتی تعلقات نے ضرور راستے صاف کیے ہوں گے۔ اور عوام کے لیے اسلام کی طرف بڑھنا آسان کر دیا ۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *⚂_ عوام خود آگے بڑھتے ہیں _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ کسی بھی اصولی انقلابی تحریک کی طرح محسن انسانیت ﷺ کے کارنامے کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ دور جب کہ اسلامی تحریک خود عوام کے قریب جا جا کر ان کو پکارتی تھی۔ دوسرا وہ دور جبکہ عوام خود آگے بڑھنے لگے۔ اور اسلام کے دروازے پر خود دستک دینے لگے کہ ہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ یہ دو سرا دور دور توسیع ہوتا ہے۔ اور یہ جب آچکتا ہے تو پھر تمام مزاحمتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اور تمام منفی رجحانات میدان چھوڑ دیتے ہیں۔*

*"❥❥__ مگر اس دور تک پہنچنے کے لیے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے بڑے بڑے جتن کیے اور خون پسینہ ایک کر دیا۔ ایک طرف فکری دعوت کے میدان میں ثابت کر دیا کہ دلیل کی قوت ہمارے ساتھ ہے۔ دوسری طرف اخلاقی دائرے میں دھاک بٹھا دی کہ اسلام کا بنایا ہوا انسان بهترین نمونہ انسانیت ہے۔ تیسری طرف سیاسی بصیرت کے لحاظ سے اپنا سکہ جما دیا کہ ہم لوگ معاملات کی گرہوں کو کھولنا باندھنا جانتے ہیں۔ اور چوتھی طرف میدان کارزار میں اپنا لوہا منوا لیا کہ ہم مزاحمتوں سے نمٹ سکتے ہیں اور ظلم و جور کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔*

*"❥❥__ دماغوں کو متاثر کیا۔ دلوں کو جھنجوڑا۔ جذبات کو ساتھ لیا۔ سعادت مند روحوں کو مشفق بنا کر گلے لگالیا۔ غیر جنگ پسند قبائل کو معاہداتی نظام میں منسلک کیا اور جنگ جو مخالفین کا جنگی زور توڑ کر راستہ صاف کیا۔ تب کہیں جا کر وہ وقت آیا کہ عوام ہر چہار جانب سے نئے مرکز امید کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ دور اس سال سے شروع ہوتا ہے جسے ”عام الوفود " کا عنوان دیا گیا ہے۔ یعنی وہ سال جس میں عرب کے گوشے گوشے سے قبائل نے اپنے وفود مدینہ بھیجے قبول اسلام کے لیے، اطاعت کا عہد باندھنے کے لیے، محض تحقیق و تفتیش اور حالات کو سمجھنے کے لیے !*.

*"❥❥__ یہ دور فتح مکہ کے بعد کے تین سالوں ۸-۹-۱۰ ھ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ گویا محسن انسانیت ﷺ کی کاشت کردہ فصل کے برگ و بار لانے کا موسم تھا۔ گو اجمال ہمیں ملحوظ ہے۔ لیکن سیرت کا یہ باب اتنا اہم ہے کہ وفود کا تذکرہ سامنے آنا چاہیے۔ کیونکہ وفود کی آمد اور ان کی بات چیت اور ان کے تاثرات میں نہایت ہی مفید اسباق ملتے ہیں۔ پھر یہی بیان اس حقیقت کو واضح کر سکتا ہے کہ کس طرح عوام الناس چاروں طرف سے آ آکر اسلام کے قدموں میں گرے۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *⚂_ مدینہ میں وفود کی آمد_⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ کتابوں میں مدینہ آنے والے وفود کی تعداد کم سے کم ۱۵ اور زیادہ سے زیادہ ۱۰۴ ملتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف اہم اور نمایاں وفود کا تذکرہ کریں گے۔ عام الوفود سے قبل ۵ ھ میں ہی اکا دکا وفود آنے لگے تھے۔*

*"❀__(1) - وفد قبیله مزينه : یہ بہت بڑا قبیلہ تھا اور اوپر جا کر اس کا سلسلہ نسب قریش سے مل جاتا تھا۔ مشہور صحابی نعمان بن مقرن اسی قبیلے سے تھے۔ ۵ھ میں اس قبیلہ کے چار سو افراد کا عظیم وفد نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اسلام کا پیمان باندھا۔ غالباً مدینہ آنے والا سب سے پہلا نمائندہ عوامی وفد یہی تھا۔ مدینہ سے واپسی پر ان کو زاد راہ کے طور پر کھجوریں دی گئیں۔*

*"❀__(2) - وفد قبیلہ بنو تمیم : یہ وفد بھی ابتدائی دور میں آیا اور بڑے کروفر سے آیا۔ اس وفد کے افراد مسجد میں داخل ہوئے تو بڑے اکھڑ طریقے سے حجرے کے قریب آواز دی۔ محمد اے محمد ! (ﷺ ) باہر آؤ ! چنانچہ وحی الہی (سورۃ الحجرات) نے ان کو شائستگی کا درس بھی دیا۔ یہ لوگ یوں تو اسلام کو دل دے کے ہی گھروں سے چلے تھے ۔ مگر ابھی عربی مفاخرت کا رنگ مزاجوں میں باقی تھا۔*

*"❀__ انہوں نے خواہش کی کہ فریقین کے خطیب اور شعراء مجمع میں فصاحت اور معنی آفرینی کے جوہر دکھائیں۔ در حقیقت عرب کے بعض اونچے قبائل کسی قیادت کو جبھی قبول کر سکتے تھے کہ اس کی ذہنی برتری کے وہ قائل ہو جائیں۔ حضور ﷺ نے بھی اس مخاطبت و مفاخرت کی دعوت کو مصلحت دیکھ کر قبول کر لیا،*

*"❀__ خطاب اور قصیدے سن کر وفد نے اعتراف کیا کہ ہمارے خطیب اور شاعر سے رسول خدا کے خطیب اور شاعر بر تر ہیں۔ اس اعتراف کے بعد تمام افراد اسلام کے سایہ رحمت میں آگئے۔* 

*❥❥_(3)_ وفد بنی عبد القيس:- علاقہ بحرین میں دعوت اسلامی کا آغاز بذریعہ منقذ بن حبان ابتداء ہی میں ہو گیا۔ حلقہ اثر وسیع ہونے لگا۔ ۵ ھ میں تیرہ آدمیوں کا وفد مدینہ آیا۔ حضور ﷺ کے پوچھنے پر انہوں نے جب بتایا کہ ہم خاندان ربیعہ کے افراد ہیں۔ تو حضور ﷺ نے "مرحبا! لا خذايا ولا ندامی" کہہ کر ان کی عزت افزائی کی۔ وفد کی طرف سے درخواست کی گئی کہ چونکہ ہمارا علاقہ زیادہ دور ہے۔ اور راستے میں دشمنوں کی آبادیاں ہیں۔ اس لیے ہم چار مہینوں کے علاوہ سفر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چند متعین باتیں بتا دیجئے۔ جن پر ہم کاربند رہیں۔ اور اپنے لوگوں کو بتائیں۔*.

*"❀_ نبی اکرم ﷺ نے توحید، نماز، روزہ اور ادائے خمس کی تلقین فرمائی اور شراب سازی سے اجتناب کے لیے چار قسم کے مروج ظروف دباء ، ختم، نقیر، مرفت کا استعمال ممنوع ٹھہرایا۔ وفد کے لوگ بحرین کی جاہلی ثقافت کے متعلق حضور ﷺ کی معلومات سن کر بڑے حیران ہوئے۔*

*"❀_اس وفد میں ایک شخصیت جارود بن العلاء کی بھی تھی۔ جارود مسیحی تھا۔ اس نے عرض کیا کہ میں ایک مذہب پر چل رہا ہوں۔ اسے چھوڑ کر اگر آپ کے دین پر آؤں تو کیا آپ ضامن بنتے ہیں۔ (یعنی کوئی اخروی وبال تو نہ آئے گا) حضور ﷺ نے فرمایا ۔ ”ہاں میں ضامن ہوں۔ کیونکہ جس دین کی طرف میں دعوت دیتا ہوں۔ یہ تمہارے مذہب سے افضل ہے"۔ جارود فوراً مسلمان ہو گیا اور اس کے ہم مذہب ساتھی بھی حلقہ اسلامی میں داخل ہو گئے۔*

*❥❥_ (4)_ نمائندہ بنو سعد ( بن بکر) :- قبیلہ نے ضمام بن ثعلبہ کو نمائندہ بنا کر بھیجا۔ یہ شتر سوار عجب سارہ انداز سے مسجد نبوی میں آے اور اصحاب نبی سے پوچھا۔ "تم میں سے عبد المطلب کا فرزند (یعنی اولاد) کون ہے؟ لوگوں نے حضور ﷺ کی طرف اشارہ کیا۔*

*"❀_ وہ رسول خدا ﷺ کے پاس پہنچے اور کہا- اے عبد المطلب کے بیٹے ! کچھ باتیں سختی سے پوچھوں گا۔ برا نہ ماننا۔ حضور ﷺ نے اجازت دی۔ پھر انہوں نے قسم دلا دلا کر دین کی چند بنیادی باتوں (توحید، رسالت، نماز، حج، زکوۃ وغیرہ) کے بارے میں پوچھا۔ کہ کیا آپ ایسا کہتے ہیں؟*

*"❀_ حضور ﷺ تصدیق فرماتے گئے۔ سارے جواب لے کر کہا۔ "میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ مجھ کو میری قوم نے بھیجا ہے۔ میں جاتا ہوں۔ اور جو کچھ آپ نے بتایا ہے اس میں نہ میں ذرہ بھر اضافہ کروں گا نہ کمی اور اونٹ پر سوار ہو کر روانہ ہو گیا۔*
*"_ ان کے جانے کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہتا ہے تو اس فلاح پائی".*

*"❀_ واپس جا کر انہوں نے قوم میں طوفانی اندازہ سے دعوت دی کہ لوگو! میں خدا اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں۔ لات و عزیٰ وغیرہ کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ لوگوں نے ڈرایا کہ تم پر ایسی باتوں کی وجہ سے ان ہتوں کی مار نہ پڑے اور جنون یا جذام نہ ہو جائے۔ ضمام رضی اللہ عنہ نے کہا، "خدا کی قسم ! یہ نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضرر ! " شام ہونے سے پہلے پہلے سارا قبیلہ اسلامی تحریک میں شامل ہو گیا۔*

*❥❥_(5)_ وفد اشعرين (یمن):- یمن کا یہ ایک معزز قبیلہ تھا اور ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ اس کے ایک فرد تھے۔ ان تک دعوت حق مکی دور میں طفیل دوسی اور مہاجرین حبشہ کے واسطے سے پہنچ چکی تھی۔ متاثرین میں سے تین اشخاص ہجرت کا عزم باندھ کر مدینہ چلے کہ حضور ﷺ سے فیضان حاصل کریں گے اور تحریک حق کو تعاؤن پہنچائیں گے۔*

*"❀_ بحری سفر تھا۔ راستے میں مخالف ہوا چلی اور جہاز جبش کے ساحل سے جا لگا۔ وہاں یہ لوگ ہجرت اولی کی سعادت پانے والی اسلامی جماعت سے جا ملے۔ کچھ زمانہ وہاں رہ کر جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں چند نو مسلم حبشیوں کو بھی ساتھ لے کر یہ مدینہ کو روانہ ہوئے۔ اور فتح خیر کے موقع پر ( 7 ہجری ) بارگاہ رسالت میں جا حاضر ہوئے۔*.

*"❀_ ان کے جذبہ بے اختیار کا یہ عالم تھا کہ منزل مقصود پر پہنچے تو یہ نغمہ مسرت زبانوں سے ابلا پڑتا تھا کہ :۔ ( ترجمہ) کل ہم اپنے رفیقوں سے جاملیں گے۔ یعنی محمد (ﷺ) سے اور ان کی جماعت سے ،*

 *"❀_حضور ﷺ کو اطلاع ہوئی تو احباب سے کہا۔ "تمہارے ہاں یمن سے کچھ لوگ آتے ہیں (خیال رہے کہ) ہے لوگ بہت رقیق القلب اور نرم دل ہوتے ہیں۔" پھر فرمایا ۔ ایمان ہے تو یمن کا ! حکمت ہے تو یمن کی !" پھر ملاقات ہوئی باتیں ہوئیں، سوالات سامنے آئے جوابات دیئے گئے۔ اور مدینہ کی فضا میں ایک نیا رنگ چھا گیا۔ -*

*❥❥_(6)_- وفد دوس (یمن):- ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ طفیل دوسی رضی اللہ عنہ مکہ کے ابتدائی دور دعوت میں اسلام لائے تھے۔ انہوں نے جاتے ہی زور شور سے دعوت کا کام کیا۔ اور ان کے والد اور بیوی تو فوراً ان کے ساتھ ہو گئے۔ کچھ دوسرے افراد بھی متاثر ہوئے، مگر قبیلہ پرے بھاری اخلاقی انحطاط میں پڑ گیا تھا۔ اور بدکاری پھیل گئی تھی۔ ایسے حالات میں ان کی تندی مزاجی اور جوشیلے پن کی وجہ سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔*

*"❀_یہ حضور ﷺ سے آ کر ملے اور قوم کی شکایت کر کے دعا کی تمنا کی۔ آپ ﷺ نے ان کو نرم انداز دعوت کی تلقین کی اور دوس کی اصلاح کے لیے خدا سے دعا کی، اب جو طفیل دوسی رضی اللہ عنہ نے جا کر کام شروع کیا تو راستے کھلتے گئے اور 5 ھ میں بہت سے گھروں میں اسلام داخل ہو گیا یہاں تک کہ ٧ ھ میں ۸۰ خاندان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ اور انہی مہاجرین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسی گراں قدر شخصیت بھی تھی۔*

*"❀_(7)_ وقد صداء:- اس قبیلہ میں سے پہلے پہل زیاد بن حارث صدائی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آے تھے، پھر انہوں نے جا کر کچھ اثر ڈالا۔ ۸ ھ میں ۱۵ آدمیوں کا ایک وفد پورے قبیلے کا نمائندہ بن کر حاضر ہوا۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ان کے میزبان تھے۔ انہوں نے کھانے کے علاوہ ان کے لیے کپڑوں کا انتظام بھی کیا۔ ان لوگوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر اسلامی تحریک میں شرکت کی بیعت باندھی۔ اور قبیلہ کی طرف سے بھی تعاون کی پیش کش کی۔*

*"❀_ اس وقد کے واپس جانے پر کام تیزی سے ہوا۔ حجتہ الوداع کے موقع پر اس قبیلے کے بہت سے افراد مکہ پہنچے۔ فتح مکہ سے قبل کے دور میں یہی وفود ایسے سامنے آتے ہیں کہ جن کا تذکرہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ فتح مکہ کے بعد تو گویا ایک عوامی سیلاب تھا ۔ جو ہر چہار طرف سے اسلام کا ساتھ دینے کے لیے امڑ پڑا۔ اور ۱۰ھ میں کثیر تعداد میں وفود مدینہ پہنچے،*

*❥❥_(8)_ وقد ثقیف (طائف):- حضور ﷺ جب فتح مکہ کے سفر سے واپس ہوئے تو عروہ بن مسعود ثقفی حاضر ہو کر حلقہ اسلامی میں داخل ہوئے اور بنو ثقیف میں دعوت پھیلانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضور ﷺ نے ثقیف کے کبر و غرور کے پیش نظر احتیاط کا مشورہ دیا۔ اور اندیشہ ظاہر کیا کہ وہ لوگ تمہیں قتل نہ کریں۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کو اپنے اثر و رسوخ پر پوا اعتماد تھا۔ لہٰذا با اصرار کام کرنے کی اجازت لی۔*

*"❀_ واپس جاتے ہی مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر اسلام کی پکار بلند کی۔ ان کی توقع کے خلاف ہر طرف سے تیر اندازوں شروع ہو گئی اور ایک تیر کھا کر وہ شہید ہو گئے۔ بنو ثقیف کرنے کو تو یہ حرکت کر بیٹھے۔ مگر اس ظالمانہ اقدام نے ان کے ضمیروں میں حرکت بھی پیدا کر دی۔ وہ معالمہ کو ٹھنڈے دل سے سوچنے پر مجبور ہو گئے۔*

*"❀_ مہینہ بھر بعد انہوں نے ایک اجتماع کیا۔ جس میں صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اس سوال پر غور کیا گیا کہ آیا ہم لوگ پورے عرب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جو اسلام کے زیر نگین ہو چکا ہے۔ بالآخر طے پایا کہ مدینہ میں کسی نمائندہ کو بھیجا جائے۔ بعد میں پورا وفد تیار کیا گیا۔ عثمان بن ابی العاص، اوس بن عوف اور بہر بن خرشہ (بنی مالک میں سے) حکم ابن عمرو بن وہب اور شرجیل ابن غیلان (حلیف قبیلوں کی طرف سے) وفد میں شریک ہوئے۔ عبدیالیل سردار طائف ان کو لے کے مدینہ گیا۔*

*"❀_ یاد کیجئے کہ یہ وہی عبدیالیل ہے جس نے بارہ سال قبل حضور ﷺ کی دعوت سننے سے انکار کر دیا تھا اور ارباشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا تھا، تبوک سے رسول اکرم ﷺ کی واپسی پر یہ وفد مدینہ پہنچا۔ ان کے لیے مسجد کے متصل خیمہ نصب کیا گیا۔ خالد بن سعید بن العاص فریقین کے درمیان ذریعہ گفتگو رہے۔ ان لوگوں نے عجب عجب شرطیں پیش کیں۔*

*❥❥_(8)_ وقد ثقیف (طائف):- ( پچھلے پارٹ سے جاری):-*
*"❀_ایک شرط یہ تھی کہ تین برس تک ان کا بت "لات" منهدم نہ کیا جائے۔ پھر اس مدت کو گھٹاتے گھٹاتے وہ ایک مہینہ تک لائے۔ انہوں نے یہ اندیشہ پنہاں ظاہر کر دیا کہ ہمارے بتوں کو اگر کہیں معلوم ہو گیا کہ ان کو توڑا جانے والا ہے تو ممکن ہے کہ وہ تمام باشندوں کا خاتمہ کر دیں۔ حضرت عمر یہ سن رہے تھے۔ ان سے چپ نہ رہا گیا۔ عبدیالیل کو مخاطب کرکے کہا۔ "کیسی جہالت کی باتیں کر رہے ہو۔ تمہارے یہ معبود تو محض پتھر ہیں"۔*
 
*"❀۔ عبدیالیل نے بھنا کر کہا کہ اے ابن خطاب ہم تم سے بات کرنے نہیں آئے۔ ہمارا معاملہ رسول اللہ سے ہے۔ بہر حال حضور ﷺ نے یہ شرط جب کسی قیمت پر قبول نہ کی۔ تو وہ اس پر راضی ہو گئے کہ انہدام کی کارروائی ہم سے نہ کرائی جائے۔ بلکہ حضور ﷺ اپنے آدمی بھیجیں۔ چنانچہ ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو نامزد کر دیا گیا۔*

*"❀_ پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں نماز ادا کرنے سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ”جس دین میں نماز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں"*
*"_ ایک رکن وفد نے یہ بھی درخواست کی کہ رسول خدا! ہمیں زنا کی اجازت دیجئے۔ اس کے بغیر تو ہمارے لیے کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ پھر وہ کہنے لگے۔ کہ اچھا ہمارے لیے سود کی لین دین کی تو گنجائش چھوڑئیے۔ اسی طرح شراب پینے کی چھوٹ مانگی۔*.

*"❀_ انداز ایسا تھا گویا کہ رسول خدا نے کوئی دکان لگا رکھی تھی کہ جس میں سے ہر ایک اپنی اپنی پسند کا سودا خرید سکتا تھا۔ کہ جو چیز چاہے چھوڑے اور جو چیز چاہے لے۔ حضور ﷺ ان مطالبوں کے جواب میں قرآن کی آیات پڑھ کر بتاتے گئے کہ یہ تو خدائی ضابطہ ہے نہ کہ کسی کا من گھڑت،* 

*❥❥_(8)_ وقد ثقیف (طائف):- ( پچھلے پارٹ سے جاری):-*
*❀_ جب یہ فضول شرائط مسترد ہو گئیں تو پھر اہل وفد مشورہ کر کے اس نتیجے پر پہنچے۔ کہ اگر ہم اسلام کے مطالبات نہیں مانتے تو ہمارا حشر بھی ایک دن مکہ والوں کا سا ہوگا۔ مجبوراً سر اطاعت خم کیا۔ اور معاہدہ لکھا گیا۔*.

*"❀_ حضور ﷺ نے صرف دو ہاتوں میں ان کو ڈھیل دے دی۔ یعنی کچھ مدت کے لیے ان سے زکوٰۃ کی وصولی نہ کی جائے گی اور ان کو جہاد میں شرکت پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ لیکن حضور ﷺ کی توقع کے مطابق جب اسلام نے دلوں میں گھر کر لیا تو یہ تقاضے از خود پورے ہونے لگے۔*

*"❀_ وفد میں ایک مخلص نوجوان عثمان بن ابی العاص شریک تھے۔ یہ فارغ اوقات میں اسلام کی حقیقت شریعت کے احکام اور نظام اسلامی کے تقاضوں کا علم حاصل کرتے۔ انہیں کو امیر مقرر کیا گیا۔ یہ لوگ جب واپس پہنچے تو پہلے تو انہوں نے ڈرامائی طریق سے مخالفانہ تاثر بیان کیا۔ کہ محمد (ﷺ) نے بڑی ناقابل قبول شرطیں پیش کی ہیں لہٰذا جنگ کی تیاری کرو۔*

*"❀_ دو روز تک خاصی جوشیلی فضا قائم رہی۔ آخر کار لوگ خود ہی کہنے لگے کہ بھلا ہم محمد (ﷺ) سے کیا لڑیں گے۔ جب کہ سارا عرب اس کی اطاعت کر رہا ہے جاؤ جو کچھ وہ کہے اسے قبول کرو۔ یوں فضا تیار کر کے اہل وفد نے پھر اپنا حقیقی تاثر بیان کیا۔ ہم نے محمد ( ﷺ) کو تقویٰ ، وفا، رحم اور صدق میں بہت اونچا پایا ہے اور ہمارا سفر بہت ہی بابرکت رہا۔*.

*"❀_ وہی طائف جو ایک دن داعی حق پر پتھر پھینک رہا تھ رہا تھا، آج اسی کے اشارے سے ان کا جاہلی نظام خود ان کی آنکھوں کے سامنے مسمار کیا جا رہا تھا۔*

*❥❥_(9)_ وفد بنی حنفیه : یہ لوگ علاقہ یمامہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان تک اسلام ثمامہ بن اثال کی دعوت سے پہنچا۔ اور پھر یہ لوگ خود مدینہ آ کر نبی اکرم ﷺ سے ملے اور اسلامی تحریک کے سائے میں داخل ہوئے ۔ اس وفد کے ساتھ مسیلمہ کذاب بھی آیا تھا۔ اس نے ادھر ادھر کی باتیں کہیں کہ اگر محمد ﷺ یہ بات طے کریں کہ اپنا جانشیں مجھے بنائیں گے تو میں بیعت کروں گا۔*

*"❀_ دراصل نبوت محمدی ﷺ کی عظیم الشان کامیابیوں کو دیکھ کر اس شخص کے منہ میں پانی بھر آنے لگا تھا اور اس نے نہ جانے کب سے یہ سوچنا شروع کر دیا ہو گا کہ کچھ ادبی عبارات کو اگر بطور الہام پیش کیا جائے اور مقابلے پر ایک علم نبوت بلند کر دیا جائے تو کچھ کھیل بنایا جا سکتا ہے۔ انہی خیالات کی وجہ سے اس کا ذہن سوداگرانہ بن گیا تھا۔ اس کا منشاء یہ تھا کہ یا تو مجھ سے سودا کر لو۔ ورنہ پھر میں پورا ڈھونگ رچاؤں گا۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے اس کا ذہن پڑھ لیا۔ اور کھجور کی جو چھڑی اس وقت ہاتھ میں تھی اسے آگے کر کے فرمایا۔ کہ میں تو اس چھڑی کے دینے کی شرط پر بھی بیعت نہیں لینا چاہتا۔*
*"_وفد واپس چلا گیا۔ واپس جاکر مسیلمہ نے واقعی نبوت کا اعلان کر دیا۔ اس کی شریعت میں نماز معاف تھی اور شراب اور زنا حلال تھے،*

*❀_(10) - وفد بنی طے :- قبیلہ طے کے لوگ زید الخیل کی سرکردگی میں حاضر ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے سامنے اسلام کا کلمہ حق پیش کیا۔ اور الہامی نظام حیات کی دعوت دی۔ سردار سمیت وفد نے دل و جان سے اسے قبول کرلیا، زید الخیل (جن کا نام حضور ﷺ نے زید الخیر کر دیا) شاعر و خطیب بھی تھے۔ اور بہادر بھی۔*

*❥❥_ عدی بن حاتم بھی اسی ( بنی طے) قبیلے کے سرداروں میں سے تھے۔ مذہباً عیسائی تھے اور حضور ﷺ کے خلاف ان کے دل میں ایک طوفان عناد بھرا تھا۔ مقابلہ کی تیاری میں تھے۔ لیکن اچانک اسلامی فوجیں یمن کے علاقے میں جا پہنچیں تو بھاگ کر شام چلے گئے۔ ان کی بہن گرفتار ہو کر مدینہ پہنچیں تو رسول اللہ سلم کے حسن سلوک اور مجموعی کردار سے بے حد متاثر ہوئیں۔*

*"❀__ انہوں نے عدی بن حاتم کو باصرار مدینہ بھیجوایا اور تاکید کی کہ جلد الجلد رسول اللہ ﷺ سے جا ملو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی وفد بنی طے کے ساتھ ہی مدینہ پہنچے تھے۔ ان کے سامنے اب سوال یہ تھا کہ یہ شخص محض ایک بادشاہ ہے یا نہیں؟ پہنچے تو مسجد میں ہی حضور ﷺ سے ملاقات ہوئی۔ آپ اٹھے اور عدی کو اپنے گھر کی طرف لے چلے۔*

*"❀__ راستے میں ایک بڑھیا نے رسول خدا ﷺ سے یاست کرنی چاہی۔ تو آپ نے کافی وقت اسے دیا۔ اور پوری توجہ صرف کی۔ پھر گھر پہنچے تو خود زمین پر بیٹھے اور عدی کو با اصرار گدے پر بٹھایا، ان دو باتوں سے عدی کو یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور محض دنیاوی پادشاہ نہیں ہیں۔*

*"❀__پھر حضور ﷺ کی باتوں نے مزیز وثوق دلایا۔ دوران گفتگو میں حضور ﷺ نے بھانپ لیا کہ عدی کے ذہن میں اب کیا الجھنیں باقی ہیں۔ اور پھر ان کو بڑی خوبی سے صاف کیا۔ عدی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو حق کو جلد پہچان لینے کے بعد یہ اطمینان بھی چاہتے ہیں کہ اس کی کامیابی کے عملی امکانات کافی حد تک موجود ہیں۔ اور جلد کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔* 

*❥❥_ یہ اندازہ کر کے حضور ﷺ نے فرمایا- شاید تمہیں اسلام میں داخل ہونے سے روکنے والی چیز اس کے ماننے والوں کی تنگ حالی ہے ! سو خدا کی قسم! عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دولت کے فوارے چھوٹیں گے۔ یہاں تک کہ اسے لینے والے نہیں ملیں گے۔*

*"❀_ اور اگر تم کو یہ چیز اسلام میں آنے سے روکتی ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔ اور ان کے مخالفین بہت ہیں، تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ خدا کی قسم ! وہ وقت آنے والا ہے کہ تم سن لو گے کہ ایک عورت تنہا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر قادسیہ سے اس مسجد کی زیارت کے لیے چلی اور بخیریت پہنچی۔ یا شاید تمہارے لیے یہ خیال مانع ہے کہ سلطنت اور اقتدار دوسروں کے پاس زیادہ ہے۔ سو خدا کی قسم ! ایسا عنقریب ہو گا کہ تم خود سن لوگے کہ سر زمین ہابل کے قصور اسپید مسلمانوں نے فتح کر لیے۔ اس پہلو سے جب عدی کے شبہات کا ازالہ ہو گیا تو انہوں نے فوراً اپنے آپ کو تحریک اسلامی کے حوالے کر دیا۔*

*"❀_ اس گفتگو سے ذیل کے اہم نتائج نکلتے ہیں۔ اسلام صرف اخلاقی اصلاح ہی کی دعوت نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے پروگرام میں معاشی فلاح بھی شامل ہے اور سیاسی انقلاب بھی۔ وہ آخرت کی بھلائی کو دنیوی معاملات کی درستی سے الگ کر کے نہیں لیتا۔ اسلامی تحریک اگر تکمیلی مدارج تک پہنچ جائے۔ تو اس سے لازماً یہ نتیجہ نکالے جائیں کہ:-* 
*(1) معاشی ذرائع و وسائل اتنی ترقی کر جائیں اور ان کو ایسے صحیح عادلانہ طریق سے تقسیم کیا جائے کہ معاشرے میں کوئی محتاج نہ رہے۔*

*❀_(۲) سیاسی لحاظ سے اتنی مضبوط حکومت پیدا ہو کہ مخالفین اسے تر نوالہ نہ بنا سکیں۔ بلکہ الٹا وہ ہر مختلف طاقت کا زور توڑ سکے۔*
*(۳) داخلی امن کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ اگر ایک عورت بھی ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا سفر کرے اور انسانی آبادیوں اور ویرانوں سے گزرے تو اس کی جان عزت اور مال کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہی ایک اسلامی نظام سلطنت کی خوبیاں ہیں۔*

*❥❥_(11)_ وفد بنی الحرث (یا بنی الحارث) بن کعب :-*
*"❀_یہ علاقہ نجران کے لوگ تھے۔ ان اطراف میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ۱۰ ھ میں بہ طور خاص جا کر اسلام کی دعوت دی تھی۔ انہوں نے دعوت قبول کر لی۔ حضرت خالد ان کو اسلام کی تعلیم و تربیت دینے کے لیے کچھ عرصہ ٹھہرے اور حضور ﷺ کو بذریعہ خط کامیابی کی اطلاع دی۔*

*"❀_ مدینہ سے اس خط کے جواب میں حکم گیا کہ واپس آ جاؤ اور قبیلے کے چند سرکردہ افراد کو ساتھ لے آؤ۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ یہ قبیلہ اپنے دور جاہلیت میں بھی کچھ اچھی اقدار رکھتا تھا۔ چنانچہ وفد آیا تو حضور ﷺ نے بات چیت کے دوران میں پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ”تم لوگ اپنے دشمنوں کے خلاف میدان جنگ میں ہمیشہ کامیاب ہوتے رہے ہو اور تمہیں کبھی شکست نہیں ہوئی۔ "*

 *"❀_انہوں نے بتایا کہ ”ہم لوگ کسی کے خلاف خود جارحانہ اقدام نہیں کرتے۔ لڑنے کے لیے مجتمع ہو جائیں تو پھر تفرقہ میں نہیں پڑتے بلکہ اتحاد رکھتے ہیں اور اپنی طرف سے کبھی کسی ظلم کی ابتداء نہیں کرتے"۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے ان کی اس حکمت عملی کی تصدیق کی۔ وفد کے ایک ممتاز فرد قیس بن حصین کو ان لوگوں پر امیر مقرر کیا گیا۔*

*❥❥_(12)_ وفد نجران:-*
*"❀__ محسن انسانیت ﷺ نے قلم کو بھی بڑے پیمانے پر ذریعہ دعوت بنایا۔ اور خاص خاص لوگوں کو مکاتیب روانہ فرمائے۔ چنانچہ نجران کے عیسائیوں کو بھی خط کے ذریعے کلمہ حق پہنچایا۔ نامہ مبارک میں ایجاز ممتنع سے کام لے کر پہنچانے کی بات حضور ﷺ نے ان لفظوں میں پہنچائی،*

*"❀__ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے الہٰ (معبود) کے نام سے آغاز کرتا ہوں۔ پھر اس کے بعد میں تم کو بندوں کی عبادت سے خدا کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تمہیں بندوں کی آقائی سے خدا کی آقائی کی طرف پکارتا ہوں۔۔۔۔۔,*

*❀_ اسقف نے خط پڑھا تو اس کے بدن میں کپکپی سی طاری ہو گئی۔ اس نے پہلے خاص خاص اکابر کو بلا کر رائے لی۔ پھر پوری وادی کے عوام کا اجتماع طلب کیا۔ وادی میں تہتر بستیاں تھیں اور آبادی اتنی تھی کہ ایک لاکھ سپاہ نکل سکتی تھی۔ بہت بھاری اجتماع منعقد ہوا۔ یہ امکان اکابر کے پیش نظر تھا کہ شاید یہ وہی آخری نبی موعود ہیں جو بنو اسماعیل میں سے اٹھنے والے ہیں۔*

*"❀__ مشورہ عام کے بعد قرار داد یہ ہوئی کہ اکابر کا ایک وفد مدینہ جائے اور صاحب مکتوب سے بات چیت کرے اور جائزہ لے ۔ چنانچہ شرجیل، عبداللہ اور جبار کو خصوصیت سے نامزد کیا گیا۔ یہ پہلا وفد تھا جو سیاسی اطاعت اور جزیہ ادا کرنے کے وعدے پر ایک فرمان امن و حقوق حاصل کر کے واپس ہوا۔*

*❥❥_ وفد فرمان حاصل کر کے واپس ہوا تو اسقف اور اعلیٰ سردار اس کے استقبال کے لیے بہت دور تک آئے۔ فرمان راستے ہی میں اسقف کو پیش کر دیا اور وہ اسے چلتے چلتے پڑھنے لگا۔ اس کا چچیرا بھائی بشر بن معاویہ بھی فرمان کی طرف اس درجہ متوجہ ہوا کہ اونٹنی سے گر پڑا۔ اس کی زبان سے نکلا۔ ” برا ہو اس شخص کا جس کی وجہ سے ہم مصیبت میں پڑ گئے ہیں"۔ ظاہر ہے کہ اس کا اشارہ کدھر تھا۔*

*"❀_ اسقف نے سختی سے کہا۔ "یہ کیا کہہ رہے ہو۔ خدا کی قسم ! وہ تو نبی مرسل ہے"۔ اب بشر کے دل میں انقلاب آگیا۔ اور اس نے یہ عزم ظاہر کیا کہ ”اچھا تو اب خدا کی قسم میں ناقہ کا پالان اس کی بارگاہ میں جا کر ہی اتاروں گا۔ اسقف اس کے پیچھے پیچھے اونٹنی دوڑاتا ہوا پکارتا رہا۔ کہ میری بات تو سنو۔ میرا مدعا تو سمجھو، میں نے کسی مصلحت سے وہ فقرہ کہہ دیا تھا۔ بشر نے ایک نہ سنی اور کہا تو یہ کہا کہ ”تمہارے ذہن سے اتنی بڑی غلط بات نکل ہی نہیں سکتی۔*

*"❀_ اپنی دھن کا پکا بشر محسن انسانیت ﷺ کی خدمت میں جا کر اسلام لایا۔ وہیں مقیم ہو گیا۔ اور خدا تعالیٰ نے اس کو مرتبہ شہادت نصیب کیا۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ ابن علقمہ رضی اللہ عنہ کے نام سے بھی مذکور ہے۔*
*"_ وفد مقامی سرداروں سمیت واپس پہنچا تو وہاں کے ایک اور تارک الدنیا راہب کے کانوں میں سارے حالات و واقعات کی بھنک پڑی۔ اور اسے معلوم ہوا کہ ایک نبی ایسا ایسا اٹھا ہے۔*

*"❀_ یہ بھی والہانہ جذبے سے سرشار ہو کر مدینہ کو روانہ ہو گیا۔ ایک پیالہ ایک عصا ایک چادر حضور ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر کے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ پھر مدینہ میں کچھ عرصہ ٹھہر کر اسلام کے نظام فکر و عمل کی تعلیم حاصل کی۔ اور حضور ﷺ سے اجازت لے کر واپسی کا وعدہ کر کے نجران گیے لیکن حضور ﷺ کی زندگی میں واپس پہنچ نہ سکے،*

*❥❥_(14)_ وفد بنو اسد : بنو اسد نامی قبیلہ جنگی مہمات میں قریش کا بڑا اہم دست و باز تھا۔ 9ھ میں اس قبیلہ کی سفارت مدینہ پہنچی اور انہوں نے اپنا اسلام پیش کیا۔ عربوں کے انداز غرور کی بو اس میں موجود تھی۔ اس لیے احسان دھرنے کے انداز میں ارکان وفد نے حضور ﷺ سے کہا کہ آپ نے کوئی مہم تو ہماری طرف بھیجی نہ تھی۔ ہم تو از خود اسلام لائے ہیں۔*

*"❀_ اس ذہنیت کو توڑنے کے لیے وحی الٰہی نے حضور ﷺ سے کہلوایا کہ لا تمنوا علی اسلامکم یعنی اپنے اسلام لانے کا احسان میری ذات پر نہ دھرو ۔ یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان نصیب کیا۔*

*"❀_ پھر اس وفد نے پرندوں سے فال لینے، کہانت (امور آئندہ کی پیشگوئیاں کرنا) اور ضرب الحمی ( یعنی قیمت یا بھاؤ مقرر کرنے کے بعد گاہک جنس یا زمین کو دور سے کنکری مارتا اور جس مال کو کنکری لگ جاتی وہ اس کا ہو جاتا) کے بارے میں حکم دریافت کیا۔ حضور ﷺ نے تینوں امور کی مخالفت فرمائی۔*.

*"❀_ آخر میں انہوں نے خط یا تحریر کے بارے میں سوال کیا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز, حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ تہ کسی نہ کسی نبی ہی کا آغاز کردہ فن ہے اور اس سے اچھا علم اور کیا ہو گا۔ اس قبیلہ سے بھی نبوت کا ایک مدعی کاذب طلیحہ بن خویلد خلافت صدیقی کے دور میں اٹھا تھا۔*

*❥❥_ (15)_ وفد بنو فزاره: یہ ایک مضبوط اور سرکش قبیلہ تھا۔ معینہ بن حصن اسی کے ایک فرد تھے، 9 ہجری میں حضور ﷺ جب تبوک سے واپس آرہے تھے تو ان کے وفد نے آکر اسلام کی بیعت کی۔ رسول خدا ﷺ نے ان لوگوں سے علاقہ کے عام حالات پوچھے تو انہوں نے قحط سالی کا رونا رویا۔ اور درد بھرے انداز میں کہا کہ "یا رسول اللہ ہماری بستیاں تباہ ہو گئیں، مویشی ہلاک ہو گئے۔ باغ اجڑ گئے۔ بال بچے سوکھ کر کاٹا ہو گئے۔ خدا سے آپ ہمارے لیے سفارش کیجئے۔ اور خدا آپ سے ہماری سفارش کرے"۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے ٹوکا کہ خدا کے پاس تو میں سفارش کرتا ہوں۔ مگر وہ کون ہو سکتا ہے کہ جس کے آگے خدائے ذوالجلال سفارش کرے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی عظمت جلال سارے آسمان و زمین کو احاطہ میں لیے ہوئے ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے لیے باران رحمت کی دعا کی۔ جو قبول ہوئی۔*

*"❀_(16)_ وفد بنو عامر: یہ خاندان عرب کے مشہور قبیلہ قیس عیلان کی شاخ تھا۔ اس میں تین بڑے سردار تھے۔ عامر بن طفیل، اربد بن قیس اور جبار بن سلمی۔ اچھا خاصا بڑا وفد ان سرداروں کی معیت میں آیا۔ اول الذکر دونوں سردار جاہ طلب تھے۔ خصوصاً عامر پہلے ہی شرپسندی دکھا چکا تھا۔ اس وقت بھی یہ دونوں باہم ایک خوف ناک سازش قتل بنا کے آئے تھے۔*

*"❀_ وفد حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ تو حضور ﷺ کو "سیدنا" کہہ کر مخاطب کیا۔ حضور ﷺ نے اس انداز تکلم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا۔ "السید اللہ " (آقا تو خدا ہی ہے)۔ انہوں نے پھر کچھ تعریفی کلمات کہے۔ حضور ﷺ نے پھر متنبہ کیا کہ دیکھو بات کرتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ شیطان کہیں بہکا نہ لے جائے۔*

        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥_ عامر بن طفیل نے حضور ﷺ کے کام کو مجرد ایک سیاسی ملک گیری اور سلطنت سازی کا کام سمجھتے ہوئے باقائدہ سودا کرنے کے لیے شرائط رکھیں کہ: (1) اہل بادیہ پر آپ حکومت کریں اور شہر میرے زیر اقتدار ہوں۔ (۲) یا اپنے بعد مجھے جانشین نامزد کیجئے۔ (۳) ورنہ میں غطفان کو لے کر چڑھائی کروں گا۔*

*"❀__ عامر نے اربد کو اس پر تیار کر رکھا تھا کہ میں تو محمد (ﷺ) کو باتوں میں لگا رکھوں گا۔ اور تم موقع پاکر کام تمام کر دینا۔ مگر رعب نبوت کے سبب سے اربد بالکل ساکت و صامت رہا۔ دونوں ناکام واپس ہوئے۔ حضور ﷺ کی نگاہ نے ان دونوں کے دلوں کو پڑھ لیا تھا۔ سو آپ نے دعا کی کہ اے خدا! ان کے شر سے بچایئو۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ عامر طاعون کے حملہ کا شکار ہو گیا۔ اور اربد بن قیس پر بجلی گری اور اسے خاکستر کر گئی۔*

*"❀__(17)_ وقد عذره :- صفر 9 ہجری میں اس قبیلہ کے بارہ افراد حاضر ہوئے۔ حمزہ بن نعمان بھی ان میں شامل تھے انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم لوگ عذرہ کی اولاد میں سے ہیں۔ جو ماں کے واسطے سے قصی کے بھائی تھے۔ رسول خدا ﷺ نے بڑی مسرت سے خیر مقدم کیا۔ ان سب نے اپنے سینے اسلام کے لیے کھول دیئے۔*

*"❀__ ان کو حضور نے مژدہ سنایا کہ شام ختم ہو جائے گا۔ اور ہر قل ملک کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ ان لوگوں کو حضور ﷺ نے کاہنوں سے اخبار غیب دریافت کرنے سے منع کیا۔ اور بجز ابراہیمی قربانی کے دوسری تمام رسمی اور اوہامی قربانیوں سے روک دیا۔ روانگی کے وقت وفد کو معمول کے مطابق زاد راہ دیا گیا۔* 

*❥❥_(18)_ وفد کنده :- علاقہ یمن کا ایک معیار قبیلہ تھا۔ حضرت اشعف ابن قیس اسی (یا ساٹھ) سواروں کا وفد لے کے حاضر ہوئے۔ یہ ایک اعلیٰ درجہ کے ریشمی جبے پہن کر بزم نبوت میں پہونچے، باتیں ہوئیں۔ حضور ﷺ نے دریافت کیا۔ کیا تم لوگ مسلمان ہو چکے ہو ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ حضور ﷺ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ پھر یہ ریشم کیوں ؟ سچے ایمان کی یہ زریں مثال دیکھیے کہ ان لوگوں نے فوراً ریشم کو پارہ پارہ کر کے اپنے لباسوں سے الگ کر دیا۔*

*❀_(19)_- وقد ازد:- بنی ازد بھی علاقہ یمن میں رہتے تھے۔ ان کا وفد صرد بن عبد اللہ ازدی کی قیادت میں آیا۔ ان لوگوں نے دعوت اسلام پر لبیک کہی۔ حضرت صرد قبیلہ کے امیر مقرر ہوئے۔*

*"❀_(20)_ وفد جرش :- یمن کے اکثر علاقے اور اضلاع اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکے تھے۔ لیکن بیچ بیچ میں سرکش عناصر بھی تھے۔ شہر جرش ایسے ہی قبائل کے قبضے میں تھا۔ اور یہاں مضبوط حفاظتی قلعہ موجود تھا۔ سرکش طاقتوں کو ہموار کرنے کے لیے حضرت صرد ازدی کو جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، قبیلہ کی فوجی قیادت بھی سونپی اور کارروائی کی اجازت بھی دی۔ انہوں نے جرش والوں کو لیے محاصرے کے بعد شکست دی۔ اس کارروائی کے بعد جرش والوں کا وفد مدینہ آیا۔*

*❀_(21)__ وفد ہمدان :- یہ قبیلہ یمن میں آباد تھا۔ ان میں اشاعت اسلام کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا۔ وہ وہاں چھ (6) ماہ تک رہے ۔ اسلام نہ پھیلا ۔ نبی ﷺ نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اس قبیلہ میں اشاعت اسلام کے لیے مامور فرمایا۔ ان کے فیضان سے تمام قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہو گیا۔،*.

*★_ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط جب نبی ﷺ نے سنا تو سجدہ شکر ادا کیا اور زبان مبارک سے فرمایا: السلام علی همدان (همدان کو سلامتی ملے)، یہ وفد انہی لوگوں کا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ایمان لا چکے تھے اور دیدار نبوی ﷺ سے مشرف ہونے آئے تھے۔*

*❥❥_(22) - قاصد فروة الجذامی : فروۃ معان کے مقام پر سلطنت روم کی طرف سے علاقہ کے گورنر تھے اور اس علاقہ میں شام اور عرب دونوں طرف کے حصے شامل تھے۔ ان تک دعوت پہنچی تو اپنے عہد و جاہ کو خطرے میں ڈال کر داخل اسلام ہوئے۔ قاصد کے زریعے اپنے اسلام کی اطلاع بھی حضور ﷺ کو دی۔ اور ایک سفید خچر بطور ہدیہ روانہ فرمایا۔*

*"❀_ جب رومی حکومت کو اطلاع ہوئی تو ان کو گرفتار کر کے مقام عفرا میں صلیب پر لٹکایا گیا۔ مگر اتنا مضبوط ایمان خدا نے اپنے اس بندے کو عنایت کیا کہ خوشی خوشی تخت حکومت سے اٹھ کر تختہ دار پر جا کھڑے ہوئے _,*

*"❀_(23)_ وفد تجيب : یہ یمن کے خاندان کندہ کا ایک ذیلی وفد تھا۔ یہ پہلے سے اسلام لا چکے تھے اور اپنے آپ کو اس کے تقاضوں کے سانچے میں عملاً ڈھال رہے تھے۔ تیرہ افراد شریک وفد ہو کر آئے اور اپنے ساتھ زکوٰۃ کے اموال اور مویشی بھی از خود لائے۔ عرض کیا کہ اللہ کا حق حاضر ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اموال واپس لے جاؤ۔ اور مقامی مستحقین پر صرف کرو۔*

*"❀_ انہوں نے بیان کیا کہ مقامی مستحقین کو دے دلا کر یہ اموال بچ رہے ہیں۔ اس موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ "یا رسول اللہ ! عرب کا کوئی وفد وفد تجیب کی شان کا نہیں آیا۔ " حضور ﷺ نے فرمایا۔ "ہدایت خدا کے اختیار میں ہے وہ جس کے لیے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے۔ اس کا دل ایمان کے لیے کھول دیتا ہے"۔*

*"❀_ ان لوگوں نے کچھ سوال کیے۔ اور ان کے جواب بارگاہ رسالت سے لکھوا لیے۔ پھر یہ اس شوق میں جلد جلد واپس ہو گئے کہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو یہاں کی معلومات اور اظہار و احوال جا کر بتائیں۔ ان کے ساتھ بنی ابدی کا ایک نوجوان بھی تھا۔ جسے وفد نے اپنے اسباب اور سواریوں پر نگراں بنا کے چھوڑا تھا۔ اسے حضور ﷺ نے بطور خاص بلایا۔ اس نے عرض کیا کہ میری صرف ایک تمنا ہے کہ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ حضور ﷺ نے بطور خاص دعا فریائی ۔ یمن میں جب آگے چل کر ارتداد پھیلا۔ تو اس نوجوان نے پورے قبیلے کو سنبھالے رکھا۔ اس وفد کو بھی زاد راہ بطور ہدیہ عطا ہوا۔*

*❥❥_(24)_ وفد بنی سعد ہذیم (قضاعه): اس قبیلہ کے چند آدمی وفد کی صورت میں مدینہ پہنچے۔ ان میں بعض افراد اخلاص اور شعور سے مسلمان ہوئے تھے اور بعض سیاسی حالات کی وجہ سے، بہر حال انہوں نے دست نبوت پر بیعت کی۔ حضور ﷺ کے حکم سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے چاندی کی صورت میں زاد راہ دیا۔ ان کی واپسی پر سارے قبیلہ نے دعوت اسلام قبول کی۔*

*"❀_(25)_ وفد بهراء : یہ بھی علاقہ یمن کا ایک قبیلہ تھا۔ تیرہ آدمیوں کا وفد مرکز اسلام میں بھیجا۔ یہ لوگ پہلے سے متاثر تھے۔ وہاں نبوت کے انوار دیکھ دیکھ کر یقین سے مالا مال ہوئے، اسلام قبول کیا اور کچھ دن قیام کر کے فرائض و احکام سیکھے اور پھر واپس چلے گئے۔ ان کو بھی معمول کے مطابق زاد راہ عنایت ہوا۔*

*"❀_(26)_ وفد ذی مره: اس قبیلہ سے بھی تیرہ افراد کا وفد اسلامی دارالحکومت میں پہنچا جس کے سردار حارث بن عوف تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ سے اپنا تعارف کراتے ہوئے بیان کیا کہ ہم لؤی بن غالب کی اولاد ہیں اور آپ ﷺ سے نسبی تعلق رکھتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ان کے علاقے کا حال پوچھا تو انہوں نے قحط سالی کا خوف ناک نقشہ کھینچ کر دعا کی درخواست کی۔ واپس پہنچنے پر معلوم ہوا کہ عین دعائے رسول ﷺ ہی کے دن بارش ہوئی۔ اور زمین سر سبز و شاداب ہو گئی۔ نظام اسلامی کا علم حاصل کرنے کے لیے یہ وفد بھی چند روز مقیم رہ کر رخصت ہوا اور زاد راہ سے نوازا گیا۔*

*"❀_(27)_ وفد خولان :- دس آدمیوں کا یہ وفد ایمان سے مالا مال ہو کر بڑے مخلصانہ جذبات کے ساتھ بارگاہ نبوت میں پہنچا۔ یہ لوگ جاہلیت میں "عم انس" نامی بت کی پرستش کرتے تھے۔ انہوں نے پرانے قصے بیان کیے کہ عم انس کے نام پر کتنی کتنی بڑی قربانیاں دی جاتی تھیں اور کیا کیا رسوم ادا ہوتی تھیں۔ دوران قیام میں انہوں نے نئی اسلامی زندگی کے بارے میں ضروری علم حاصل کیا اور جاتے ہوئے ان کو بھی زاد راہ عطا ہوا۔* 

*❥❥_(28)_ وفد محارب : یہ لوگ اسلام سے قبل نہایت تند خو اور بد اخلاق تھے۔ ابتدائی دور دعوت میں جب حضور ﷺ نے قبائل میں جا جا کر پیغام حق دیا تھا تو ان کے ہاں بھی پہنچے اور انہوں نے ناشائستہ رویہ اختیار کیا تھا۔ دس افراد کا وقد تائب ہو کر حاضر ہوا۔*.

*❀━ ایک مجلس میں حضور ﷺ نے بغور ایک شخص کو دیکھ کر پہچانا تو اسے تنبہ ہوا، وہ خود ہی بولا کہ حضور شاید میرے بارے میں کچھ خیال فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ مجھ سے ایک بار عکاظ میں ملے تھے اور میں نے آپ ﷺ سے بڑی گھٹیا گفتگو کی تھی۔ اور آپ کا پیغام بھونڈے طریقے سے رد کر دیا تھا۔*

*"❀━ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی ہم سے زیادہ آپ کا اور اسلام کا دشمن نہ تھا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایمان و اطاعت کی توفیق دی۔ پھر اس نے اپنی سابق غلطی کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ۔ کہ اسلام دور کفر کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔*

*❀━(29)_ وفد غسان:- غسان اگر چہ نسلا عربوں کا قبیلہ تھا۔ مگر مذہب نصرانیت اختیار کر کے قیصر کی طرف سے عربی علاقہ پر حکمران تھا۔ 10 ہجری میں اس قبیلہ کے تین افراد مدینہ آکر حضور ﷺ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندان کے لوگ تو موجودہ جاہ و حشم کو چھوڑ کر مشکل ہی سے قبول حق کریں گے۔*

*"❀━ حضور ﷺ نے انہیں زاد راہ دے کر رخصت کیا۔ انہوں نے جاکر دعوت دی۔ مگر بے نتیجہ رہی۔ تینوں نے حالات سے مجبور ہو کر اپنا اسلام پوشیدہ رکھا۔ ان میں سے ایک صاحب جنگ یرموک کے موقع پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملے اور اپنے اسلام پر قائم ہونے کی خبر دی۔ بقیہ دونوں کا پہلے ہی انتقال ہو گیا تھا۔*

 
*❥❥.(30)_ وفد سلامان :- سات آدمیوں کا وفد مدینہ آیا جس میں حبیب ابن عمر بھی شامل تھے۔ ان کے دریافت کرنے پر حضور ﷺ نے بتایا کہ نماز کو ٹھیک وقت پر ادا کرنا سب سے بہتر عمل ہے۔ انہوں نے بھی قحط سالی کا حال بیان کر کے دعا کی درخواست کی۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی اور بعد میں تصدیق ہوئی کہ اسی روز باران رحمت کا نزول ہوا۔*

*❀(31)_ وفد بنی عبس: یہ بھی علاقہ یمن کا قبیلہ تھا۔ ان کا وفد بھی 10 ہجری میں آیا۔ ان لوگوں نے دریافت کیا کہ ہم نے معلمین اسلام سے سنا ہے کہ جو ہجرت نہ کرے اس کا اسلام قبول نہیں ہوتا۔ ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ مال مویشی ہی ہمارا ذریعہ معیشت ہیں۔ اب اگر ہجرت کرنا ضروری ہو تو ہم ان کو بیچ کر آجائیں۔*

*"❀_ جذبہ ایمان دیکھئے کہ ایک اشارے پر اپنے اموال اور اپنا علاقہ چھوڑنے پر تیار ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جہاں رہو خدا سے ڈرتے رہو۔ در حقیقت صورت معاملہ یوں تھی کہ ابتدائی دور میں جب مرکز اسلام کو مضبوط کرنے کے لیے قوت کو یکجا کرنا اور ملک بھر میں کام کرنے کے لیے افراد کا تیار کرنا مطلوب تھا۔ تو ہجرت کر کے مرکز میں آنا فرض کیا گیا۔ یہ مرحلہ طے ہو گیا۔ اور بعد میں قوت کا ملک بھر میں پھیلے رہنا اور اپنے اپنے علاقہ میں دعوت کو پھیلانا ضروری ٹھہرا تو ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی۔ "لا هجرة بعد الفتح" کا حکم اسی دوسرے دور سے متعلق ہے۔*

*❀(32)_ وقد غامد :- 10 ہجری میں غامد کا وفد آیا جو دس افراد پر مشتمل تھا۔ یہ سب کے سب اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت أبی ابن کعب رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ نے مامور فرمایا کہ ان کو قرآن کی تعلیم دیں، پھر ان کو زاد راہ دے کر رخصت فرمایا۔*

*❀(33)_ وفد بنى المنتفق :- اس قبیلہ میں سے نہیک بن عاصم اور لقیط بن عامر بصورت وفد مرکز اسلام میں پہنچے۔ مسجد میں پہنچے تو حضور ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ خطبہ کے ختم ہونے پر لقیط نے کھڑے ہو کر قیامت اور جنت و دوزخ کے متعلق کچھ سوالات کیے اور حضور ﷺ نے تفصیل سے جواب دیئے۔*

*"❀_ پھر انہوں نے انبیاء اور اسلاف کے متعلق کچھ باتیں دریافت کیں۔ ایک سوال براہ راست حضور ﷺ سے یہ کیا کہ آیا آپ کو علم غیب حاصل ہے ؟ حضور ﷺ نے جواب دیا کہ مفاتیح غیب خدا تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہیں۔*

    
*❥❥ _(34) _ وفد عبد القيس نمبر ۲: - پہلے وفد عبد القیس کا ذکر ہو چکا ہے جو ۵ ھ میں آیا تھا۔ ان کا دوسرا وفد جو چالیس افراد پر مشتمل تھا 10 ہجری میں مدینہ حاضر ہوا۔*

*❀_(35)_ طارق بن عبداللہ اور اس کے ساتھی:- یہ طارق بن عبد اللہ وہ شخص ہیں جنہوں نے سوق الحجاز میں وہ منظر بھی دیکھا تھا کہ حضور ﷺ قبائل میں دعوت دیتے پھر رہے ہیں اور آپ ہی کا سگا چچا پیچھے پیچھے کنکریاں پھینکتا ہوا کہتا جاتا ہے کہ لوگو! اس پر ایمان نہ لانا۔ یہ (نعوذ باللہ ) جھوٹا ہے۔*

*"❀_۔ پھر یہی طارق بن عبد اللہ ربذہ سے ایک گروہ کے ساتھ کھجوروں کی خریداری کے لیے مدینہ آئے۔ ان کی اقامت گاہ پر حضور ﷺ کا گزر ہوا۔ آپ ﷺ نے ان کا اتا پتا پوچھا اور مدعائے سفر معلوم کیا، پھر ایک اونٹ کا سودا کیا۔ اور قیمت بھیجوا دینے کا وعدہ کر کے چلے آئے۔ بعد میں طارق اور اس کے ساتھیوں کو کھٹکا ہوا کہ بغیر جان پہچان کے ہم نے اونٹ دے دیا۔ نہ جانے کیا صورت ہو۔*

*"❀_ اس قافلے کی ایک معزز خاتون نے کہا کہ اس شخص کا چہرہ روشن میں نے دیکھا تھا۔ وہ کبھی دھوکا کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ قیمت ادا نہ کرے تو میں ضامن ہوں۔ تھوڑی دیر میں آدمی آیا اور اونٹ کی قیمت کی کھجوریں الگ ادا کیں اور ہدیہ کی الگ دی، ان لوگوں کے دل مفتوح ہو گئے۔ بعد میں یہ شہر میں آئے تو مسجد میں حضور ﷺ خطبہ دے رہے تھے ۔ اور صدقہ کی تاکید فرما رہے تھے۔ اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی دعوت کو راستہ ملا۔*

*❥❥_ (36)_ عمرو بن معد یکرب نمائنده بنی زبید: بنی زبید کے لوگوں تک جب نظام نو کے چرچے پہنچے تو انہوں نے اپنے سردار عمرو بن معدی کرب سے کہا کہ ہم سنتے ہیں کہ قریش میں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نامی نبی بن کر حجاز میں اٹھا ہے۔ تم جاؤ اور جا کر معلوم کرو۔ اگر وہ تمہاری رائے میں واقعی نبی ہو تو پھر ہم سب ایمان لائیں۔ چنانچہ یہ شخص آیا اور اس نے اسلام قبول کیا۔ حضور ﷺ کے انتقال کے بعد اس نے ارتداد کیا،*

*"❀_(37)- قاصد من جانب ملوک حمیر:- حمیر ایک شاہی خاندان تھا۔ اس کی طرف سے قاصد ایک خط لایا ۔ اس خط میں کچھ لوگوں کے قبول اسلام اور ترک شرک کی اطلاع تھی۔ حضور ﷺ نے اس کے جواب میں ایک تفصیلی فرمان ملوک حمیر کے نام بھجوایا ۔ اس میں ان کو بنیادی احکام لکھوائے۔ مسلمانوں سے زکوٰۃ لینے اور غیر مسلمانوں سے جزیہ وصول کرنے کی ہدایات درج کرائیں۔ نیز لوگوں کی مذہبی آزادی کا حق ثبت فرمایا اور وضاحت کی کہ جو لوگ یہودی یا نصرانی رہنا چاہیں ان کا مذہب جبراً تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔*.

*"❀_ اس کے ساتھ ساتھ فرمان میں لکھوایا کہ زرعہ ذویزن کی طرف ہمارے نمائندہ افسر معاذ بن جبل، عبد اللہ بن زید، مالک بن عبادہ، عقبہ بن نمر مالک بن مرہ رضی اللہ عنہم اور کچھ دوسرے لوگ روانہ کیے جا رہے ہیں۔ اس جماعت کے سربراہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ ہمارے احکامات پہنچائیں گے اور صدقہ و جزیہ کی رقوم جمع کر کے لائیں گے۔*

*❥❥_(38)_ وفد نخع : یہ بھی یمن ہی کا ایک قبیلہ تھا۔ یہ اکثر روایات کے بموجب آخری وفد ہے جو ااھ (محرم) میں مدینہ آیا۔ اس میں دو سو آدمی شریک تھے۔ دراصل یہ لوگ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کر چکے تھے۔ دلوں کے انقلاب نے تقاضا کیا تو یہ مرکز اسلام میں پہنچے۔ رسول اکرم ﷺ کے سامنے اپنا اسلام پیش کیا، ایک رکن وفد نے اپنے خوابوں کی تعبیریں دریافت کیں اور مختصر قیام کے بعد واپس ہو گئے۔*

*"❀_ ان وفود کی آمد اس کثرت سے اور اتنی پے در پے ہوئی ہے کہ صحیح معنوں میں یدخلون فی دین اللہ افواجا (سورہ النصر : ۲) کا مفہوم سامنے آجاتا ہے۔ در حقیقت انسانی فطرت خود حق کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ عوام الناس کے راستے میں رکاوٹ تھی تو سابق جاہلی قیادت تھی۔ وہ جب ہٹ گئی اور ساتھ ہی جب ان کو یہ اطمینان ہو گیا کہ مدیہ کی اسلامی طاقت ایک مضبوط طاقت ہے اور اس کے ہاتھوں سے واقعی، خیر و فلاح پھیل رہی ہے تو پھر ان کے سینے سچائی اور نیکی کے پیغام کے لیے پوری طرح کھل گئے۔ انہوں نے خود اپنے اندر سے اس نور صداقت کی پیاس محسوس کی۔ اس پیاس سے بیتاب ہو ہو کر مدینہ کی طرف لپکے۔یوں اجالا پھیلتا چلا گیا۔ اور ظلمتیں دور ہوتی چلی گئیں۔*

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *⚂__بین الاقوامی دعوت کا آغاز _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
            *❥❥_بین الاقوامی دعوت کا آغاز :-*

*"❀__ نبی اکرم ﷺ کی قائم کردہ جس جماعت کو تحریک اسلامی چلانے کی سعادت حاصل ہوئی اس کا دائرہ قومی و ملکی ہی نہ تھا۔ بلکہ وہ ایسی خیرامتہ تھی۔ جو "اخرجت للناس" کے مرتبے پر فائز کی گئی تھی۔ اور جسے شہداء علی الناس" قرار دیا گیا تھا۔ یعنی تمام انسانیت کو حق اور راستی عدل اور اخوت کے نظام کا راستہ دکھانے والی جماعت،*

*"❀__ اہل عرب کی اصلاح و تربیت اور ان کی ریاستی سطح پر تنظیم فی نفسہ آخری مقصود نہ تھی۔ بلکہ پیش نظر یہ تھا کہ ایک اسلامی ریاست اٹھے اور تمام ذرائع و وسائل کو کام میں لا کر دنیا بھر کی قوموں اور مملکتوں کو نظام حق کی دعوت دے۔ آخر وہ کروڑوں بندگان خدا جو اس دور بادشاہت میں چھوٹے چھوٹے طبقوں اور خاندانوں کے اقتدار تلے پس رہے تھے اور جنہیں نہ سوچنے کی آزادی مہیا تھی، نہ معاشی فراغت حاصل تھی اور نہ جن کے کچھ سیاسی حقوق تھے۔*

*"❀__ ان کی مظلومانہ حالت سے کوئی بھی تحریک اصلاح کیسے آنکھیں بند کر سکتی ہے۔ کسریٰ کے نام ارسال کردہ خط میں حضور ﷺ نے خود ہی اپنی دعوت کے بین الانسانی پیمانے کو ان الفاظ سے اجاگر کر دیا ہے کہ میری حیثیت یہ ہے کہ میں سارے انسانوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔*

*"❀__حق تعالٰی نے بادشاہتوں اور مذہبی طبقوں کے ہاتھوں علاقائی قومیتوں میں بٹی ہوئی انسانیت کے لیے بین الاقوامی دور کا افتتاح خود محسن انسانیت ہی کے ہاتھوں کرایا۔ اور ایک کلمہ صداقت جغرافی نسلی، لسانی اور سیاسی حد بندیوں کو توڑتا ہوا بہت جلد وقت کی معلوم و مربوط دنیا کے تینوں براعظموں پر چھا گیا۔*

*❥❥_ حضور ﷺ ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے کہ جس کے چند ہی صدیوں بعد دنیا کے سرے مادی لحاظ سے مل جانے والے تھے۔ اس موقع کے آنے سے مناسب وقت پہلے اسلام کے نظام حق کی بین الاقوامی دعوت اٹھا دی گئی۔ تاکہ انسانیت جوں جوں مادی طور پر قریب ہوتی جائے ذہنی اور نظریاتی اور اخلاقی و مقصدی لحاظ سے بھی ایک رشتے میں پروئی جا سکے، بیچ کا یہ وقت دعوت کے پھیلانے اور اقوام عالم کے دور نو کے لیے تیار کرنے کو بمشکل کافی ہو سکتا تھا۔*

*"❀_ تحریک اسلامی اپنی اصولی فطرت کے لحاظ سے تقاضا کرتی تھی کہ اس کی دعوت کی کرنیں عرب کی حدود میں پابند نہ رہے بلکہ زمین کے گوشے گوشے تک پہنچے، اس کے ساتھ ساتھ عملی ضرورت بھی یہی تھی کہ اسلام عرب کے ارد گرد بھی نور افگن ہو۔*

*"❀_ محسن انسانیت ﷺ کی رفتار کار ہمارے لیے حیران کن ہے کہ تیرہ برس کی مدت میں ابتدائی دعوت دے کر افراد کار تیار کرنے کا کام مکمل فرمالیا۔ اور پھر آٹھ برس کے اندر اندر اسلامی ریاست عملاً زمین کے نقشے پر کھڑی کر کے مخالفت کے سارے محاذ توڑ دیے اور پھر اپنی زندگی ہی میں دعوت کی لہریں آس پاس کی سلطنتوں میں پہنچا دیں۔*

*"❀_ صلح حدیبیہ (٦ھ) نے اندرون ملک کے تصادموں سے فراغت دے کر حضور ﷺ کے لیے یہ موقع فراہم کیا کہ عرب سے باہر بھی کام کی ابتداء کر دی جائے۔ عمرۃ القضاء ادا کرنے کے فوراً بعد یعنی یکم محرم ۷ ھ کو حضور ﷺ نے ملحقہ سلطنتوں کے حکمرانوں کو اسلامی نظام کا پیغام خصوصی قاصدوں کے ذریعے بھجوایا۔*

*❥❥_ یہ بات آج کے دور میں قابل غور معلوم ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے دوسرے ملکوں کے عوام تک کلمہ حق پہنچانے کے بجائے آخر شاہی درباروں کو کیوں مخاطب فرمایا۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ عوام الناس کے کوئی شہری حقوق اس دور کے بادشاہوں کے مقابلے میں نہ تھے اور انہیں وہ اساسی آزادی ہی مہیا نہ تھی جس سے کام لے کر وہ اپنے ہارے میں خود کوئی فیصلہ کر سکیں۔*

*"❀_ پھر یہ بادشاہتیں اس امر کا موقع دینے پر بھی قطعاً تیار نہ تھیں کہ دوسرے ملک کے اجنبی لوگ آکر ان کی رعیت سے میل جول رکھیں اور ان کو موجودہ مذہب سے برگشتہ کریں۔ ان کے سیاسی اقتدار مروجہ مذاہب کے بل پر ہی چل رہے تھے اور وہ مذہبی پیشواؤں کے طبقوں کا تعاون حاصل کر کے حکمرانی کر رہے تھے۔*

*"❀_ پھر جہاں دعوت حق قبول کرنے والوں میں مروجہ نظام کے خلاف باغیانہ رجحان پیدا کر کے نئے نظام کی اقامت کا انقلابی داعیہ ابھارا جاتا ہو۔ وہاں کیسے ممکن تھا کہ بادشاہتیں اپنے عوام میں اسلامی دعوت کو چپ چاپ پھیلنے کا موقع دیتیں۔ اس دور کی بادشاہی قیادت تو گویا خداوند بنی بیٹھی تھی اور ایک پتہ بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہل سکتا تھا۔*

*"❀_ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر نہ صرف یہ کہ نبی اکرم ﷺ نے اسلامی دعوت کا مخاطب خود فرماں رواؤں کو بنایا بلکہ اپنے نامہ ہائے مبارک میں صراحت سے ان کو پوری قوم کا نمائندہ قرار دے کر عوام کے برے اور بھلے کی ذمہ داری ان پر ڈالی۔ حضور ﷺ نے خطوط لکھواتے ہوئے ایک طرف مروجہ آداب کا اہتمام کیا۔ یعنی بطور خاص مهر کرنے کے لیے انگوٹھی بنوائی اور اس میں "محمد رسول اللہ" کے الفاظ کندہ کرائے۔*

*"❀_ دوسری طرف اپنا ایک خاص اسلوب و نہج پیدا کیا۔ ہر خط کا آغاز خدائے رحمن و رحیم کے نام سے فرمایا۔ پھر مرسل کی حیثیت سے اپنا اسم مبارک لکھوایا ۔ پھر مکتوب الیہ کا نام۔ پھر کم سے کم اور انتہائی محتاط اور نپے تلے الفاظ میں مدعا بیان فرمایا۔ اس دور کے لحاظ سے جو سفارتی زبان آپ نے خطوط کے لیے اختیار کی ہے وہ حضور ﷺ کی ذہنی برتری کو ہمارے سامنے واضح کر کے آج بھی حیران کر دینے والی ہے۔*

     
*❥❥_ دعوت کے علاوہ ان مخطوط کی ترسیل کا ایک بڑا مدعا یہ بھی تھا کہ آس پاس کے حکمرانوں کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ اب عرب پہلے کی طرح کی کوئی کھلی چراگاہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک باضابطہ حکومت کے زیر نظام ہے۔ ایک کار فرما طاقت جو ہر لحاظ سے چوکس اور مضبوط ہے۔ وہ کسی پرانی سلطنت سے دبنے والی بھی نہیں۔ بلکہ وہ چیلنج کر رہی ہے۔ اور چیلنج کرنے کا دم خم اس میں موجود ہے،*

*"❀_ہر قل یا قیصر رومی سلطنت کے مشرقی حصے کا تاجدار تھا اور قسطنطنیہ اس کا دارالحکومت تھا، دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ نے نامہ مبارک دے کر اس کے دربار میں بھیجا۔ دحیہ بیت المقدس کے مقام پر جا کر اس سے ملے۔ سفیر مدینہ کے اعزاز میں ہرقل نے بڑا بھاری دربار منعقد کیا اور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں بہت سی تفصیلات دریافت کیں*

*"❀_۔ پھر دریافت کرایا کہ اگر مکہ کا کوئی اور آدمی اس علاقے میں آباد ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ اتفاق کی بات کہ حضور ﷺ کے مخالف محاذ کا قائدہ ابو سفیان انہی دنوں تجارت کے سلسلہ میں شام میں پہنچا تھا۔ اسے مع تجارتی ساتھیوں کے دربار میں لایا گیا۔ ہر قل نے ان لوگوں سے کہا کہ میں ابو سفیان سے کچھ سوالات کروں گا۔ اگر کوئی بات غلط ہو تو تم لوگ بتا دینا۔*

*"❀_ ابو سفیان کا اپنا قول تھا کہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ ساتھی میرے جھوٹ کو ظاہر کر دیں گے تو شاید میں اس موقع پر کچھ باتیں گھڑتا۔ لیکن خدا نے صورت حالات ایسی پیدا کر دی کہ رسول خدا اور اسلام کے دشمن کی زبان سے بھی سچ نکلا۔* 

*❥❥__ پھر قیصر نے حضور ﷺ کے خاندان نسب اخلاق حضور ﷺ کے رفقائے تحریک کے حالات اور ان کی رفتار ترقی، جنگوں میں مسلم جماعت کی پوزیشن اور اسلام کی تعلیمات اور دوسری چیزیں دریافت کیں۔ ساری باتیں سن کر کہا کہ "ابو سفیان! اگر تم نے سچ سچ جواب دیے ہیں تو وہ شخص ایک روز اس جگہ کا مالک ہو گا۔ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں۔ کاش میں حاضر خدمت ہو سکتا۔ اور اس نبی کے پاؤں دھویا کرتا۔ "*

*"❀_ اس کے بعد نامہ مبارک پڑھا گیا جس پر درباری بہت سٹپٹائے۔ کیونکہ ہر قل کی ذہنی کیفیت نے انہیں بوکھلاہٹ میں ڈال دیا‌ تھا۔ انہوں نے مکہ والوں کو جلدی جلدی باہر نکال دیا۔ اس مکالمہ نے خود ابو سفیان کے دل پر اسلام کی عظمت کا نقش ثبت کر دیا۔*

*"❀_ خسرو پرویز کسریٰ ایران کی بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا۔ حضور ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر اس کی طرف نامہ دعوت بھجوایا۔ خسرو کسریٰ غصے میں بھر گیا اور نامہ نبوت کو یہ کہہ کر چاک کر دیا کہ ہماری رعیت کا ایک فرد یہ جرأت دکھاتا ہے۔*

*"❀_ کم بخت کو پوری طرح معلوم نہ تھا کہ عرب کتنے بڑے انقلاب سے گزر رہا ہے۔ اور کیسی بھاری نظریاتی قوت نشود نما پا رہی ہے۔ اس نے اپنے گورنر یمن باذان کو مامور کیا کہ مکتوب نگار کو فوراً گرفتار کر کے حاضر کرو، باذان نے ایک فوجی دستہ اس مہم پر روانہ کیا۔ یہ دستہ مدینہ پہنچا اور ان کے سردار نے حضور ﷺ تک مدعا پہنچایا۔*

*"❀_ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کل صبح آکر پھر ملوں۔ صبح یہ لوگ حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے ان کو خبر دی کہ آج رات خدا نے تمہارے بادشاہ کی مہلت حیات ختم کر دی ہے اور وہ اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے۔ جاؤ اور جا کر تحقیق کر لو۔*

*❥❥_ اس پیش گوئی کی صحت معلوم ہونے اور محسن انسانیت ﷺ کی تعلیم اور کردار کا حال جاننے پر باذان اسلامی نظام اخوت میں شریک ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ‌ دربار اور علاقے کے بہت سے لوگ بھی ایمان سے مالا مال ہوئے۔*

*❀_حضور ﷺ نے کسریٰ کے رویے کی روداد سن کر فرمایا۔ اس نے میرے خط کو چاک چاک کر کے در حقیقت اپنی سلطنت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ حضور ﷺ کے الفاظ میں قضائے الہیٰ بول رہی تھی۔*

*❀_ دس پندرہ برس کے اندر اندر چار پانچ ہزار برس کی قدیمی سلطنت, مضبوط اور وسیع اور بڑے ٹھاٹھ ہاتھ رکھنے والی سلطنت, اسلام کے قدموں میں مفتوح پڑی تھی۔ علاوہ ازیں جن دوسرے چھوٹے چھوٹے والیوں تک دعوت بھیجی گئی۔ ان میں سے ایک تو فروہ بن عمرو رومی سلطنت کا گورنر تھا۔ جس نے اسلام قبول کر کے نہ صرف عہده و جاہ پر لات ماری بلکہ جان بھی شہادت حق میں لگا دی۔*

*❀_ دوسرا نجد کا حکمران ثمامہ تھا جو ٦ ھ میں اسلام میں داخل ہوا۔ تیسرا جبلہ غسانی ٧ ھ میں اسلام لایا۔ چوتھا دومتہ الجندل کا حاکم اکیدر بھی مسلمان ہوا ۔ پانچواں ذوالکلاح حمیری جو قبیلہ حمیر کا بادشاہ تھا اور اپنے آپ کو خدا کہلاتا اور لوگوں سے سجدے کراتا تھا۔آخر کار یہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا۔ اس نے اسلام لانے کی خوشی میں اٹھارہ ہزار غلام آزاد کیے تھے۔* 
 
*❥❥ _ان واقعات سے ظاہر ہے کہ دعوت حق کے اس قلمی محاذ سے بھی بڑے اہم نتائج پیدا ہوئے اور یہ تدبیر فروغ اسلام میں بہت کارگر ہوئی۔ اولا یہ ہوا کہ ارد گرد کی سلطنتوں میں اسلام کا پیغام بہ حیثیت ایک موضوع اور مبحث کے جا پہنچا اور محدود حلقوں میں سہی، اس پر سوچا جانے لگا۔ پھر یہ اسلام کی صداقت اور اس کے مطابق فطرت ہونے کا ایک ثبوت ہے کہ اہل جاہ و اقتدار کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی حالت میں مسلمان ہوئی، جب کہ مسلم جماعت تمدنی لحاظ سے بہت پیچھے تھی۔*

*"❀_ ان لوگوں کے ساتھ ان کے زیر اثر عوام میں بھی اسلام کو راستہ ملنے لگا۔ مکاتیب نبوی ﷺ کے جو مخاطب اسلام میں نہیں آسکے۔ ان کے ذہنوں پر بھی خاصے اچھے اثرات پڑ گئے۔ پھر اس بین الاقوامی دور کے افتتاح سے خود اندرون ملک کی فضا ہموار ہونے میں مدد ملی۔ سب سے بڑا فائدہ اس مہم کا یہ ہوا کہ مسلم جماعت کے سامنے ایک وسیع دائرہ کار شروع ہی سے آگیا،* 

*"❀_ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب میں اسلامی سلطنت کے چھا جانے کے باوجود ان لوگوں نے کمریں نہیں کھولیں ۔ عیش و عشرت میں نہیں پڑے۔ ان میں یہ اطمینان پیدا نہ ہوا کہ کرنے کا کام ہم نے مکمل کر دیا ۔ کلمہ حق سے ان کی لگن گھٹنے نہیں پائی۔ حضور ﷺ نے اپنے اپنے رفقاء کو سفارتی معاملات میں ڈال کر ان کو آنے والی ذمہ داریوں کے لیے اچھی خاصی تربیت دے لی۔*

*"❀_ وہ اجنبی حلقوں میں پہنچے۔ ٹھاٹھ دار تمدنوں کے دائروں میں داخل ہوئے۔ مرعوب کن شاہی درباروں میں پہنچے، بھری مجلسوں میں انہیں مکالمہ و بحث کا تجربہ ہوا وقت کے حکمرانوں اور درباریوں کی نفسیات سمجھنے کا ان کو موقع ملا اور پھر جس اطمینان مضبوطی سے اپنے مسلک کی برتری کے لیے سادگی اور ہدویت کے ساتھ اپنی عزت کے احساس اور بیان حق کے لیے جس جرات اظہار کا انہوں نے مظاہرہ کیا اس نے ان کی صلاحیتوں کو اور زیادہ اجاگر کر دیا۔اور ان کا کردار اور زیادہ نکھر گیا۔*

*"❀_بین الاقوامی دعوت کی یہ مہم جس کا حضور نے آغاز فرمایا تھا۔ اسے تکمیل دینے کی سعادت آپ کے جانشین صحابہ، رفقاء اور آپ کی تربیت دادہ جماعت کے حصے میں آئی۔*
 
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*⚂__تحریک اسلامی کا اجتماع عظیم (حج) _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥ تحریک اسلامی کا اجتماع عظیم ( حج) :-*
*"❀_ حج اسلام کی ایک عظیم درجے کی بنیادی عبادت ہے۔ حرم پاک جو دعوتِ ابراہیمی کا مرکز تھا اور جس کے ذرے ذرے پر دین کی تاریخ کے قیمتی نقوش ثبت ہیں، جس کی فضا میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعائیں رچی بسی ہیں اور پھر جس کے پورے ماحول میں خود محسن انسانیت ﷺ کے کارنامہ حیات کے ابواب بکھرے ہوئے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے اسلامی دعوت اور تحریک کا عالمی مرکز اور قبلہ قرار پایا۔ ہر صاحب توفیق مسلمان کے لیے عمر بھر میں کم از کم ایک بار اس مرکز پر مقررہ ایام حج میں حاضری دینا، شعائر و مناسک ادا کرنا، قربانی کی سنت ابراہیمی کو تازہ کرنا انبیاء کی تاریخ کے نقوش اور برکات سے بہرہ اندوز ہونا، دنیا بھر سے آنے والے نظریہ حق کے علمبرداروں اور اسلامی نظام اخوت کے رفقاء سے رابطہ پیدا کرنا اور ہر طرف سے منہ موڑ کر کامل عاجزی کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینا فرض ہے۔*

*"❀_ فرضیت حج کا یہ حکم 9ھ میں نازل ہوا۔ حضور ﷺ نے اسی سال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر تین سو رفقاء کے ساتھ مکہ روانہ فرمایا کہ وہ ان کو اپنی امارت میں حج ادا کرائیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک دوسری ذمہ داری سونپی کہ وہ سورہ التوبہ (پہلی ۴ آیات) حج کے اجتماع میں سنائیں اور حکم خداوندی کے مطابق ضروری اعلانات لوگوں تک پہنچا دیں۔*

*"❀_ قابل اعلان امور یہ تھے۔ کہ ایک تو سابق جاہلانہ شرک پر قائم رہ کر جن لوگوں نے حضور ﷺ یا اسلامی ریاست سے معاہدہ کر کے مفادات محفوظ کر رکھے تھے۔ ان کے سامنے اعلان کر دیا گیا کہ چار ماہ کی مہلت ہے۔ اس کے بعد تمام ایسے معاہدات بحکم خداوندی کالعدم ہو جائیں گے۔ اس دوران میں وہ اپنے لیے راہ عمل خود طے کرلیں کہ آیا ان کو اس ریاست کی شہریت ترک کر دینی ہے یا جنگ کرنی ہے یا پھر اسلامی ریاست کے اندر بہ حیثیت مسلم کے رہنا ہے۔*

*"❀_ یہ رعایت بھی دی گئی کہ اگر کوئی مشرک اس مدت میں مدینے آکر اسلام کو سمجھنا چاہے تو اس کو بحفاظت آنے جانے کا موقع ہو گا۔ پھر مشرکین میں سے بھی ان لوگوں کو الگ رعایت دی گئی جنہوں نے دیانت داری سے ایفاء عہد کیا تھا۔ ان کے معاہدات کو ان کی مقررہ مدتوں تک کے لیے بحال رکھا گیا۔ اصل زد ان مشرکین پر تھی جنہوں نے اسلام کے مخالف دشمنی اور جنگ کے خوف ناک محاذ بنائے ۔ تصادم کرتے ہوئے ساری اخلاقی حدیں توڑ دیں۔ پھر قول و قرار سے بار بار پھرے اور ہر قسم کے لحاظ و مروت کو بالائے طاق رکھ دیتے رہے۔ یہ وہ مشرک تھے جنہوں نے راہ حق کو روکنا چاہا۔ جنہوں نے دین حق میں عیب نکالے ۔ جنہوں نے رسول پاک ﷺ کو گھر سے نکالنے کے منصوبے باندھے اور جنہوں نے جنگ و جدل میں پہل کی۔*
 
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥ _ اب ہم اس عظیم الشان اجتماع حج کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی۔ اور جس میں اسلامی تحریک کی انسانی قوت کا ایک سمندر حضور ﷺ کی نگاہوں کے سامنے موجزن ہوا۔ ۱۰ ھ میں جب حضور ﷺ نے حج کا ارادہ فرمایا تو تمام علاقوں میں اس کی اطلاع بھیج دی گئی۔ اسلامی انقلاب کے علمبرداروں کے قافلے ہر طرف سے مدینہ میں اکٹھے ہونے لگے۔ بندگان الہٰی کا یہ قافلہ چلا تو راستے میں بھی مختلف قبائل کی جماعتیں آ آ کر اس دریائے رواں میں شامل ہوتی گئیں۔*

*"❀_ ازواج مطہرات سب کی سب حضور ﷺ کے ساتھ تمھیں۔حضور ﷺ نے ذو الحلیفہ سے احرام باندھا۔ اور پھر یہیں سے وہ پکار بلند کی جو بارگاہ الہٰی میں حاضری دینے والے حجاج کی روحوں کی صدا ہوتی ہے۔"لبیک اللهم لبیک ........" ہم حاضر ہیں ! اے ہمارے اللہ ! ہم حاضر ہیں ! تیرا کوئی شریک نہیں۔ ہم تیری بارگاہ میں حاضر ہیں۔ محمد ﷺ تیرے لیے ہے۔ نعمت تیرے قبضے میں ہے۔ بادشاہی تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں"۔*

*"❀_ مکہ کے قریب جا کر ذی طوی میں کچھ دیر قیام فرمایا ۔ پھر اس کثیر التعداد مسلم جماعت کو ساتھ لیے ہوئے مکہ کی بالائی جانب سے داخل ہوئے، طواف کیا۔ صفا و مروہ تشریف لے گئے۔ وہاں سے کعبہ کی طرف رخ کر کے خدا کی توحید کی پکار پھر بلند کی۔ نویں ذوالحجہ کو وادی نمرہ میں اترے۔ دن ڈھلنے کے بعد عرفات تشریف لے گئے۔ پہاڑی پر چڑھ کر قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ نشر فرمایا۔ چاروں طرف مکبر کھڑے تھے جو ایک ایک جملہ کو دہراتے جاتے تھے اور اس تدبیر سے حضور ﷺ کے ارشادات سارے مجمع کے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔*

*"❀_ غور کیجئے۔ کیا سماں ہو گا۔ نبی اکرم ﷺ کا دل اس منظر کو دیکھ کر کیا کیفیت محسوس کرتا ہوگا۔ آج گویا ساری عمر کی کاشت کاری کے نتیجہ میں ایک فصل پورے جوبن کے ساتھ لہلا رہی تھی۔ ایک لاکھ چوالیس ہزار یا بعض روایات کے بموجب ایک لاکھ چوبیس ہزار کا ایک آہنگ مجمع زمین پر اپنی مثال آپ تھا۔ صحابہ کی آنکھیں جب اس محبوب ہستی کو پہاڑی کی بلندیوں پر اتنے مجمع کثیر کے درمیان دیکھتی ہوں گی تو ان کے دلوں کی پرواز کہاں تک نہ ہو رہی ہو گی۔*
 
*❥❥ _ نبی اکرم ﷺ نے دو خطبے اس موقع پر دیئے۔ پہلا عرفات کی پہاڑی سے 9 ذی الحجہ کو دوسرا 10 ذی الحجہ کو، ان خطبوں کے بعض مضامین روایات میں باہم مل جل گئے ہیں، یہ خطبات کئی حیثیتوں سے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ اولاً حضور ﷺ نے جماعت کے سب سے بڑے دینی اجتماع میں خطاب فرمایا اور ایسے دور میں فرمایا جب کہ آپ کا پیش کرده کلمہ حق تناور درخت بن کر برگ و بار لانے لگا تھا۔*

*"❀_ حضور ﷺ کی فراست نبوت سمجھ رہی تھی کہ جماعت سے خطاب کا یہ آخری موقع ہے۔ اس لیے گویا الوداعی وصیتیں فرمائیں جن کا ہر ہر لفظ بیش قیمت ہے۔ ملکی کام کے تکمیلی مرحلے پر آجانے کے بعد یہی موقع تھا کہ تحریک اسلامی کی طرف سے انسانیت کے نام کوئی پیغام اور کوئی منشور دیا جاتا۔ سو آپ نے اس فریضے کو با حسن وجوہ ادا کیا۔ رابعاً یہ خطبے حضور ﷺ کے کمال خطابت اور آپ کی شان فصاحت کے بھی نادر نمونے ہیں۔ اور ان کے ذریعے اس مقدس شخصیت کی عظمتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔*

*"❀_ یہ پیش نظر رہے کہ ان خطبوں کا ایک حصہ مخصوص ملکی حالات و مسائل سے متعلق ہے اور ایک حصہ بین الانسانی منشور پر مشتمل ہے۔ نفس مضمون خود ہی اس تقسیم کو واضح کر دے گا۔* 
 
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                    *⚂_ خطبہ عرفات _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
                 *❥❥ __خطبہ عرفات :-*
*❀----- تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اس سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں۔ اور اس کے حضور اظہار ندامت کرتے ہیں۔ ہم اپنے دلوں میں فتنہ انگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں کے مقابلے میں اس کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے اسے کوئی دوسرا گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہی ہدایت کی توفیق نہ دے اسے کوئی راہ راست پر نہیں چلا سکتا۔*

*"❀۔۔۔۔۔ اور میں اعلان کرتا ہوں اس حقیقت کا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں اعلان کرتا ہوں اس حقیقت کا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔*
*"_اللہ کے بندو! میں تم کو اس کی عبادت کی نصیحت کرتا ہوں اور ترغیب دلاتا ہوں۔ میں آغاز کلام اس بات سے کرتا ہوں جو باعث خیر ہے۔*

*"❀_ اس (تمہید) کے بعد (میں کہتا ہوں کہ) اے لوگو! میری باتیں غور سے سنو۔ میں تم کو وضاحت سے بتاتا ہوں۔ کیونکہ میں ایسا نہیں سمجھتا کہ اس سال کے بعد میں تم سے اس مقام پر ملاقات کر سکوں۔*
*"_ اے لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے لیے (باہم دگر) حرام کر دیئے گئے ہیں تا آنکہ تم اپنے رب کے حضور جاکے پیش ہو جاؤ ۔۔ جیسے کہ تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں تمہارا یہ دن حرام ہے،*
*"_ آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی ! اے اللہ تو خود گواہ رہیو!*

*"❀_ سو جس کسی کے قبضے میں کوئی امانت ہو تو اسے اس کے مالک کو ادا کر دے۔ دور جاہلیت کی سودی رقمیں کالعدم کر دی گئیں۔ اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سودی مطالبات کو کالعدم کرتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔ دور جاہلیت کے تمام خونوں کے مطالبات قصاص کا لعدم کر دیئے گئے اور سب سے پہلے میں عمار بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون کا مطالبہ ساقط کرتا ہوں ۔ دور جاہلیت کے تمام اعزازات اور مناصب کالعدم کیے جاتے ہیں ماسوائے سداتہ (کعبہ کی دیکھ بھال کا شعبہ) اور سقایہ (حاجیوں کے لیے شعبہ آب رسانی) کے۔* 
 
*❥❥ _ قتل عمد میں قصاص لیا جائے گا ( جو لاٹھی اور پتھر سے قتل کیا جائے وہ قتل عمد کے مشابہ ہے) اور اس کی دیت سو اونٹ مقرر کی جاتی ہے ۔ جو اس میں اضافہ کرے سو وہ اہل جاہلیت میں شامل ہوگا،*

*"❀_ اے لوگو! شیطان (نظام حق کے چھا جانے کے بعد) اس بات سے تو نا امید ہو گیا ہے کہ اب تمہاری اس سر زمین میں اس کی عبادت کی جائے گی۔ لیکن وہ اس پر بھی خوش ہو گا کہ اس کے علاوہ ان دوسرے گناہوں میں اس کی اطاعت کی جائے جن کو تم ہلکا سمجھتے ہو۔*

*"❀_ اے لوگو ! مہینوں (یعنی حرام مہینوں) کا ادل بدل کفر کے طرز عمل میں اضافہ ہے۔ اور اس کے ذریعے کفار اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں کہ ایک سال کسی مہینے کو حلال کر دیتے ہیں اور دوسرے سال حرام ٹھہرا لیتے ہیں۔ تاکہ (آگے پیچھے کر کے) خدا کے حرام کردہ مینوں کی فقط گنتی پوری کر دیں۔*


*"❀_یقینا آج زمانہ پھر پھرا کر اسی حالت پر آگیا ہے۔ جو اس وقت تھی۔ جب کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یعنی اللہ کی بارگاہ میں مہینوں کی تعداد قطعی طور پر بارہ ہے۔ اور جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے یہ تعداد اس کی کتاب (نوشتہ تقدیر) میں اسی طرح ثبت ہے۔ ان میں چار مہینے حرام ہیں---- تین متواتر، یعنی ذو قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک اکیلا الگ یعنی رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔*

*"❀_ آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی اے اللہ تو خود بھی گواہ رہیو !!*
 
*❥❥ --- اے لوگو! تمہاری خواتین کو تمہارے مقابلے میں کچھ حقوق دیے گئے ہیں۔ اور تمہیں ان کے مقابلے میں حقوق دیئے گئے ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ تمہاری خواب گاہوں میں تمہارے علاوہ کسی کو نہ آنے دیں۔ اور کسی ایسے شخص کو گھر میں تمہاری اجازت کے بغیر داخل نہ ہونے دیں جس کا داخل ہونا تمہیں پسند نہ ہو۔ اور کسی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں۔ اگر وہ کوئی ایسی بات کریں تو تم کو اللہ نے اجازت دی ہے کہ( ان کی اصلاح کے لیے) ان کو جدا کر سکتے ہو ۔ خوابگاہوں سے الگ کر سکتے ہو ۔ اور ایسی بدنی سزا دے سکتے ہو جو نشان ڈالنے والی نہ ہو۔ پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت میں چلیں تو قائدے کے مطابق ان کا نان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے۔*

*"❀_ یقیناً خواتین تمہارے زیر تکین ہیں جو اپنے لیے بطور خود کچھ نہیں کر سکتیں ۔ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر اپنی رفاقت میں لیا ہے۔ اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت تصرف میں لیا ہے۔ سو خواتین کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ اور بھلے طریق سے ان کی تربیت کرو۔*
*"_ آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ تو خود بھی گواہ رہیو !!*

*"❀_ اے لوگو! مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لیے اس کے بھائی کا مال (لینا) اس کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں !*
*"-- آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچادی۔ اے اللہ ! تو خود بھی گواہ رہیو !!*
*"_ سو میرے بعد کہیں (اس اخوت کو ترک کر کے) پھر کافرانہ ڈھنگ اختیار کر کے ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔*

*"❀۔۔ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک اس پر کار بند رہو گے کبھی راہ راست سے نہ ہٹو گے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب !!*
*"_۔۔۔۔۔ آگاہ رہو کہ میں نے بات پہنچا دی۔ اے اللہ تو خود بھی گواہ رہیو !!*
 
*❥❥_ اور تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تو اب تم بتاؤ کیا کہو گے؟*
*"_ لوگوں نے پکار کر کہا: "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا، امت کو نصیحت کرنے کا حق ادا کر دیا۔ حقیقت سے سارے پردے اٹھا دیے ۔ اور امانت اللہی کو ہم تک کما حقہ پہنچا دیا "*
*"_ اے اللہ ! تو گواہ رہیو ! اے اللہ ! تو گواہ رہیو !! اے اللہ ! تو گواہ رہیو !!!*

*"❀_ جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ بعض سامعین کے مقابلے میں بعض غیر حاضر لوگ ان باتوں کو زیادہ اچھی طرح یاد رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔*
*"_- اے لوگو ! اللہ تعالی نے میراث میں سے ہر وارث کے لیے حصہ مقرر کر دیا ہے۔ اور ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔*

*"❀_ جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا۔ یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا۔ تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے، اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہو گا۔*
*"_۔ تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہو۔ اور اس کی رحمتیں نازل ہوں۔*
 
*❥❥_ مینی میں خطبہ _*"
*❀---- اے لوگوں ! میرے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے اور نہ تمہارے بعد کوئی اور امت برپا کی جانے والی ہے۔ پس غور سے سنو اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو ۔*
*"_ نماز پنجگانہ قائم کرتے رہو ۔ ماہ رمضان کے روزے رکھتے رہو۔ اپنے اموال کی زکوۃ دلی رغبت سے ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے حرم پاک کا حج کرتے رہو اور اپنے امراء و حکام کی اطاعت پر کار بند رہو ۔ --- تاکہ اپنے رب کی جنت میں جگہ پا سکو "۔*

*"❀_ یہ ہمارے محبوب نبی ﷺ کا آخری پیغام ہے اور اس میں ہم ہی مخاطب بنائے گئے ہیں۔ اس کی نوعیت پیغمبر پاک ﷺ کی وصیت کی سی ہے۔ اس کے ایک ایک بول پر حضور ﷺ نے درد بھرے انداز سے آواز بلند کی ہے کہ میں نے بات پہنچا دی ہے۔،*

*"❀_ہمیں چاہیے کہ اسے پڑھ کر ہماری روحیں چونک جائیں۔ ہمارے جذبے جاگ اٹھیں۔ ہمارے دل دھڑکنے لگیں۔ اور ہم اپنی اب تک کی روش پر نادم ہو کر اور کافرانہ نظاموں کی مرعوبیت کا قلادہ گردنوں سے نکال کر محسن انسانیت ﷺ کا دامن تھام لیں۔ اس مشن کو لے کے اٹھ کھڑے ہوں جس کی کامیابی کے لیے حضور ﷺ نے وہ وہ اذیتیں بھگتی ہیں کہ اتنے بڑے صبر اور حلم کی مثال نہیں ملتی۔*

*"❀_ حضور نے حج کے تمام ارکان و مناسک باطمینان ادا فرمائے۔جماعت کے عام لوگوں سے بکثرت میل جول رہا۔ لوگوں نے اس موقعہ پر کثرت سے مسائل پوچھے۔ اور بالآخر طواف وداع کے بعد اس مبارک سفر سے واپسی ہوئی۔*
 
*❥❥_ حجتہ الوداع میں جس انداز سے نبی اکرم ﷺ نے حصہ لیا۔ اپنی جماعت سے جس طرح خطاب فرمایا۔ لوگوں کو جس طرح مختلف تاکیدیں اور وصیتیں کیں وہ سب بتا رہی تھیں کہ حضور ﷺ اجتماعی طور پر الوداع کہہ رہے ہیں۔ واپسی میں غدیر خم (ایک تالاب) کے پاس پڑاؤ ڈالا اور وہاں پھر ایک خطاب خاص رفقاء سے کیا۔ اس میں وہی الوداعی رنگ اور زیادہ ابھر آیا۔ بول ایسے ہیں کہ ان کو سن کر دلوں پر رقت طاری ہو گئی ہو گی۔*

*❀__ پہلے اپنی محکم سنت کے مطابق خدا کی حمد و ثنا کی ۔ پھر فرمایا : اس کے بعد (کہنا یہ ہے کہ) اے لوگو ! میں بہرحال ایک انسان ہوں۔ شاید جلد ہی میرے پاس خدا کا بلاوا لے کر قاصد آپہنچے اور میں لبیک کہوں۔ میں ذمہ داری کے دو بوجھ تمہارے اندر چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک خدا کی کتاب ہے۔ جس میں ضابطہ ہدایت اور روشنی و حکمت ہے سو خدا کی کتاب کو تھام لو۔ اور اسی سے رہنمائی حاصل کرو۔ (پھر قرآن کی طرف بہت ہی ترغیب و تشویش دلائی) پھر فرمایا۔ اور دوسرے میرے گھر کے لوگ ہیں اپنے گھر کے لوگوں کے بارے میں میں تمہیں خدا ہی کی یاد دلاتا ہوں"۔*

*❀__اس خطبہ میں حضور ﷺ نے ایک تو ان ضلالتوں کا دروازہ بند کیا۔ جو انبیاء کو فوق البشر اور غیر بشر قرار دینے والوں نے پیدا کیں۔ اور جن کی انتہا یہ ہوئی کہ جو ہستیاں خدا کو "لم یلد و لم یولد" کی شان کے ساتھ منوانے آئی تھیں، غلو پسندوں نے انہی کو اٹھا کے خدا کی اولاد اور خدائی میں شریک بنا ڈالا۔ نیز ان کو قانون موت سے ماوراء فرض کر کے غیبوبیت کے تصورات تراشے اور ان کے لیے حیات جسمانی و عنصری کے دوام کے عقیدے پیدا کیے۔*

*❀__ حضور ﷺ نے رخصت کا لمحہ آنے سے قبل رفقاء کو آگاہ کر دیا کہ میں انسان ہوں اور انسانوں کی طرح موت کا قانون مجھ پر بھی نافذ ہو گا۔ پھر تاکید یہ فرمائی کہ کتاب الہی کو اساسی ضابطہ حیات کی حیثیت سے قائم رکھنا اسی سے رہنمائی لے کر زندگی کا نظام چلانا۔ یہ تم لوگوں کے لیے بہت بو جھل ذمہ داری ہے۔ اس لیے اس ذمہ داری کا اچھی طرح احساس کرو۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال اپنے گھر والوں اور اپنے ان قریبی عزیزوں کے بارے میں بغیر کسی صراحت کے توجہ دلائی کہ ان سے متعلق بھی تم پر کچھ ذمہ داریاں ہیں۔*

*"❀__ ایک طرف حضور ﷺ کے اہل و عیال، آپ کی نجی زندگی کے شاہد اور آپ کے معمولات کو قریب سے دیکھنے والے اور آپ کی تعلیمات کے پوری طرح امانت دار تھے۔ اور اس لحاظ سے وہ امت کے لیے ایک قیمتی ذریعہ تعلیم تھے۔ دوسری طرف حضور ﷺ نے نہ ان کے لیے خزانے جمع کیے۔ نہ میراث سمیٹی۔ نہ جائیداد بنائی بلکہ زندگی میں بھی ان کو درویشانہ معاشرت سے گزارا۔ اور ان کا مستقبل بھی بغیر کسی سرو سامان کے اللہ کے حوالے کر دیا۔ ظاہر بات ہے کہ حضور کے بعد ان کے بارے میں جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔*
 
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                    *⚂_ سفر آخرت _⚂*  
        ─━━━════●■●════━━━─
*❥❥__ماہ صفر ١ا ھ کے آغاز ہی سے سفر آخرت کے لیے محسن انسانیت ﷺ کی روح پاک نے تیاریاں شروع کر دیں۔ ایک روز احد تشریف لے گئے اور شہدائے احد کے لیے دعائی، واپس آکر پھر ذیل کا خطبہ دیا۔*

*"❀_لوگو! میں تم سے پہلے رخصت ہونے والا ہوں۔ اور خدا کے سامنے تمہارے متعلق شہادت دینے والا ہوں۔ واللہ ! میں حوض کوثر کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے سلطنتوں کے خزانوں کی کنجیاں تفویض کر دی گئی ہیں (یعنی مختلف ممالک دعوت حق کے نتیجے میں فتح ہونے والے ہیں) مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے۔ ڈر یہ ہے کہ دنیوی مفاد کی کشمکش میں نہ پڑ جاؤ۔"*

*"❀_ پھر آدھی رات کو بقیع میں جاکر اہل قبور کے لیے دعاء مغفرت فرمائی اور فرمایا کہ ”ہم بھی جلد ہی تم سے آملنے والے ہیں"۔*
*"_ پھر ایک روز بطور خاص رفقائے جماعت کو جمع کیا اور خطاب فرمایا کہ :-*
*"_ مرحبا ! اے مسلمانو! اللہ تمہیں اپنی رحمت میں رکھے۔ تمہاری شکستہ دلی دور فرمائے۔ تمہیں رزق دے، تمہاری مدد کرے، تمہیں عروج دے، تمہیں بامن و امان رکھے۔ میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں۔ اور تم کو اللہ ہی کی نگرانی میں سونپتا ہوں، تم کو اسی سے ڈراتا ہوں کیونکہ میں کھلا کھلا متنبہ کرنے والا ہوں۔*

*"❀_ دیکھو اللہ کی بستیوں میں اس کے بندوں کے درمیان تکبر اور سرکشی کی روش اختیار نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اور تمہیں فرمایا ہے (آیت تلک الدار الآخرة ...... الخ القصص - ۸۳ تلاوت فرمائی) کہ یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے خاص کریں گے۔ جو زمین میں سرکشی اور فساد مچانے کی نیت نہ رکھتے ہوں۔ اور عاقبت (کی کامیابی) تو ہے ہی متقین کے لیے ، سلام ہو تم سب پر اور ان سارے لوگوں پر جو اسلام قبول کر کے میری بیعت میں داخل ہوں گے"*
 
*❥❥_ گورستان بقیع سے واپسی پر ہی ہلکا ہلکا درد سر شروع ہوا۔ پھر صفر کی انتیسویں تاریخ کو ایک جنازہ کے ساتھ جاتے آتے ہوئے اس میں شدت آئی۔ مرض کے ابتدائی ہلکے حملے کے دوران میں گیارہ روز تک مسجد میں تشریف لا کر خود ہی نماز کی امامت فرماتے رہے۔ شدت مرض میں گھر کے اندر بالکل صاحب فراش رہنے کی مدت ایک ہی ہفتہ ہے۔ تکلیف بڑھنے پر ازواج سے اجازت لے کر حضرت عائشہ ہی کے حجرے میں آگئے۔*

*"❀_مرض الموت میں بھی تحریک حق کی ذمہ داریاں پوری طرح سامنے رہیں۔ تبوک اور موتہ کے معرکے حصول مقصد کے لحاظ سے ابھی تکمیل طلب تھے۔ اگر ذرا بھی ڈھیل برتی جاتی تو مخالف سلطنت شیر ہو جاتی۔ اس لیے اسی حالت میں تاریخ ۲٦ صفر لوگوں کو غزوہ روم کی تیاری کا حکم دیا اور دوسرے دن حضرت اسامہ بن زید کو اس مہم کا افسر اعلیٰ مقرر فرما دیا، فرمایا ۔ جاؤ اللہ کے نام سے, اپنے باپ کے مقام شہادت تک پہنچو.....,۔ اپنے ہاتھوں سے علم تیار فرما کر بریدہ بن خصیب اسلمی کو سونپا۔*

*"❀_ دو ایک آدمیوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی کم عمری (اور کچھ خاندانی مرتبے) کی بناء پر چہ میگوئیاں کیں کہ ایسے ایک لڑکے کو بڑے بڑے مہاجرین و انصار پر امیر کیوں مقرر کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے سنا تو سخت رنجیدہ ہوئے اور سخت تکلیف کے باوجود سر پر پٹی باندھ کر مسجد میں تشریف لائے۔ اور ٹھیک غدیر خم کے سے انداز میں خطاب کیا کہ:-*

*"❀_مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسامہ کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہی ہیں۔ اس سے پہلے اسکے باپ کے امیر مقرر ہونے پر بھی تم لوگ اعتراض اٹھا چکے ہو۔۔ حالانکہ خدا کی قسم وہ اس منصب کا مستحق تھا۔ اور اسکے بعد اس کا بیٹا بھی اسکا اہل ہے۔ وہ (زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) بھی ہم کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ اور اسکے بعد اسکا بیٹا (اسامہ بن زید) بھی ہمیں سب سے زیادہ محبوب ہے"*
 
*❥❥_ اس سے قبل (وفات سے پانچ یوم پہلے) سات مثک پانی ڈلوایا۔ اس غسل سے طبیعت ذرا ہلکی ہوئی تو سہارا لے کر مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں صحابہ کرام سے آخری خطاب فرمایا:-*
*"_ تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں۔ جنہوں نے انبیاء و صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں، دیکھو میں نے بات پہنچا دی الہیٰ تو خود اس کا گواہ رہیو _,*

*"❀_پھر نماز پڑھائی اور نماز کے بعد پھر فرمایا: میں تم کو انصار کے حق میں خاص تاکید کرتا ہوں۔ یہ لوگ میرے جسم کے پیرہن اور میرے لیے زاد راہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کر دیں اور اب (تم پر)‌ ان کے حقوق باقی ہیں۔ دوسرے لوگ پھیلیں گے اور یہ جہاں کے تہاں ہی رہ جائیں گے۔ ان میں سے اچھا کام کرنے والوں کی قدر کرو اور لغزش کرنے والوں سے درگزر کرو۔*

*"❀_خدا نے اپنے بندے کو اختیار دیا۔ کہ وہ چاہے تو دنیا و مافیہا کو قبول کرلے اور چاہے تو وہ کچھ قبول کرے جو خدا کی بارگاہ میں ہے, تو اس بندے نے وہی کچھ انتخاب کر لیا جو اس کے لیے خدا کی بارگاہ میں ہے۔ "*

*"❀_یوں تو اس زمانے کی ساری گفتگوؤں میں الوداعی رنگ جھلک رہا تھا۔ لیکن آخری فقرے میں اشارہ بڑا ہی صریح تھا۔ جسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فورآ پا گئے۔ اور زار و قطار رونے لگے۔*
 
*❥❥__ نماز کی جماعت میں شرکت سے جب معذوری ہو گئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ امامت پر مامور فرما دیا۔ مرض کی شدت بڑھنے سے جماعت میں اضطراب بڑھتا گیا اور لوگ پریشانی میں بار بار مسجد کا چکر لگاتے، تسکین دہانی کے لیے حضور ﷺ حضرت علیؓ اور حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کندھوں کا سہارا لے کر پاؤں گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے۔ اور منبر سے نچلے زینے پر بیٹھ کر بالکل آخری خطاب یہ فرمایا کہ:-*

*"❀_ لوگو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم میری موت سے ڈرتے ہو۔ جتنے بھی انبیاء مبعوث ہو چکے ہیں کیا کوئی بھی ان میں سے ہمیشہ زندہ رہا۔ میں خدا سے ملنے والا ہوں اور تم بھی خدا سے ملنے والے ہو۔ میں وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین کے ساتھ بھلائی کرو اور میں وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین آپس میں حسن سلوک کریں"۔*

*"❀_ پھر سورہ عصر پڑھ کر فرمایا : تمام معاملات خدا کے حکم پر چلتے ہیں۔ جس کام میں تاخیر ہو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۔ کسی کی عجلت پسندی کی وجہ سے خدا جلدی نہیں کرتا۔ اور میں وصیت کرتا ہوں کہ انصار کے ساتھ بھلائی کرو۔ انہوں نے تم سے پہلے مدینہ کو اپنا وطن بنایا اور ایمان کو اپنے اوپر لازم کر لیا۔ کیا انہوں نے پھلوں میں تم کو اپنا شریک نہ بنایا ؟ کیا انہوں نے تمہاری خاطر مکانوں میں وسعت نہ دی؟ کیا انہوں نے باوجود احتیاج کے تم کو اپنے آپ پر ترجیح نہ دی؟ دیکھو اپنے آپ کو ان پر ترجیح نہ دو۔ سنو کہ میں پہلے جاتا ہوں اور تم بھی مجھ سے آملو گے۔ حوض پر ملنے کا وعدہ ہے"،*

*"❀_ ان خطبات کو مختلف روایات میں مختلف اوقات سے متعلق کیا گیا ہے۔ مگر ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے اور شاید امر واقعہ یہی ہو کہ یہ ساری باتیں ایک ہی خطبہ میں کہی گئی ہیں۔ سوموار کے روز مزاج اقدس نے آخری بار سنبھالا لیا ۔ مسواک کی۔ پردہ اٹھا کر صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھا اور مسکرائے ۔۔۔۔ اس کے چند ہی لمحوں بعد "اللهم الرفيق الاعلى " (یانی الرفيق الاعلیٰ) تین بار فرمایا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آغوش میں سر رکھے رکھے خدائے حی و قیوم سے جاملے ۔ "*
 
*❥❥_ آہ! ہم سب کے سب خدا ہی کے مملوک ہیں اور ہمیں بھی پلٹ کر اسی کے حضور جانا ہے" آج وہ ہستی دنیا سے رخصت ہو رہی تھی جس نے انسانیت کو حیات نو سے مالا مال کیا۔ اور جس نے زندگی کے قافلے کو راہزنوں کے نرغے سے نکال کر صراط مستقیم پر لانے کے لیے خوفناک اذیتیں سہیں۔ سنگین مراحل پار کیے ۔ مشکلات کے پہاڑ کاٹے اور پھر اس کارنامے کا کوئی صلہ وصول نہیں کیا۔*

*"❀_ یہ سانحہ کتنا بڑا ہو گا۔ ان رفیقوں کے لیے ۔۔۔۔ عمر بھر کے ساتھیوں کے لیے ۔ جو حضور ﷺ کو ایک نظر دیکھنے سے بھی نئی طاقت حاصل کرتے تھے۔ ان کی نگاہوں میں زمین و آسمان گھوم گئے ہوں گے۔ تاریخ میں زلزلہ آگیا ہو گا ! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بے حس و حرکت ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کا دل ایسا شق ہوا کہ اسی صدمہ سے انتقال کر گئے۔*

*"❀_ یہ عظیم صدمہ یوں بھی ایک کوہ غم تھا، مصیبت یہ کہ یہ نہایت ہی خطرناک حالات میں پیش آیا۔ جب کہ ایک طرف رومی حکومت کی طرف سے جنگ کا خطرہ موجود تھا اور اسی لیے جیش اسامہ روانہ ہو رہا تھا۔ دوسری طرف فتنہ ارتداد اور مانعین زکوة کی شورش تھی۔ تیسری طرف تحریک اسلامی اردگرد کی سلطنتوں کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ہلکا سا چیلنج بھی دے چکی تھی۔ اور داخلی مشکل یہ کہ نفاق کی دبی ہوئی روکے ابھر آنے کا اندیشہ تھا۔ مگر حضور ﷺ کی تربیت کا کمال تھا کہ آپ کی تربیت دادہ جماعت نے اپنے جذبات پر فوراً قابو پا لیا۔ اور یاس اور انتشار کا شکار ہونے سے بیچ کر اپنی اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی کی فکر کی۔*

*"❀_ محسن انسانیت جیسی ہستیوں کی وفات پر رنج و غم کرنے سے زیادہ عظیم ذمہ داری جانشینوں پر یہ ہوتی ہے کہ وہ اس تحریک اور نظام کے تحفظ و استحکام کی فکر کریں جس کا شیرازہ ایسے ہی لمحوں پر غفلت اور کوتاہی کرنے سے بکھر بھی سکتا ہے۔ وہ ہستی جو برسوں پورے کام کی روح رواں بنی رہتی ہے۔ اور تمام ساتھیوں کے کامل اعتماد اور گہری محبتوں کا مرکز ہوتی ہے، اس کے اٹھ جانے سے بڑا بھاری خلا اچانک پیدا ہو جاتا ہے۔ جسے اگر بر وقت ٹھیک سے نہ بھر لیا جائے تو بڑے خوف ناک نتائج پیش آسکتے ہیں۔ حضور ﷺ کی تیار کردہ جماعت نے اپنے احساس ذمہ داری اور اپنی مضبوطی کردار کا بے مثال ثبوت اس واقعہ سے پیش کیا کہ فوراً اس خلاء کو بھر لیا۔ اور نظم کے بندھن ڈھیلے نہ پڑنے دیے، جانشینی کے لیے کوئی کشمکش نہیں ہوئی۔ تلوار نہیں چلی۔ شور و ہنگامہ نہیں ہوا۔*. 
 
*❥❥_ سقیفہ بنی ساعدہ میں مختصر سی گفتگو کے بعد اسلام کی شورائی جمہوریت کے تحت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ جس کی توثیق مسجد نبوی کے اجتماع عام میں پوری جماعت کے عوامی اجتماع نے بشرح صدر کر دی۔*

*❀_ حضور ﷺ کے بعد حضور ﷺ کے عظیم دعوتی نصب العین کو پھیلانے اور حضور ﷺ کی آغاز کردہ مہمات کو تکمیل تک پہنچانے میں جس عزم و بصیرت اور حسن کردار کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زریں خدمات انجام دیں۔ اور جس شان سے حضرت فاروق، حضرت عثمان، حضرت علیؓ اور صف قیادت کے دوسرے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا بھر پور تعاون حضور ﷺ کے جانشین امیر جماعت کو بہم پہنچایا اس کی مثالیں انسانیت کے پاس کم ہی ہوں گی۔*..

*❀_ محسن انسانیت کی تیار کردہ جماعت نے ثابت کر دیا کہ وہ بہترین نمونہ انسانیت ہیں، وہ بے لوث کردار رکھتے ہیں' وہ زہانت و بصیرت میں اپنا نمونہ آپ ہیں اور سخت ترین حالات میں اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہونے والے نہیں۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے چند ہی برس میں اسلامی تحریک کی شعاعیں دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیں اور اسلامی نظام عدل کا سایہ رحمت جس رفتار سے حضور ﷺ نے خطہ ارضی پر پھیلایا تھا۔ اس میں قطعاً کوئی فرق نہیں آنے دیا۔*

*❀_ دنیا میں اگر آج ہم مسلمانوں کا وجود ہے تو یہ اس ہستی کی جانفشانیوں کے طفیل ہے۔ آج اگر سچائی اور نیکی کا کلمہ ہمارے سینوں میں نور افگن ہے تو یہ اسی مقدس وجود کا فیضان ہے۔ آج اگر زندگی کی صلاح و فلاح کے لیے ایک اصولی ضابطہ انسانیت کے سامنے موجود ہے تو یہ محمد ﷺ کی جد و جہد کا ثمرہ ہے۔ آج اگر زندگی کا ایک بہترین نمونہ معیار ہماری نگاہوں کے سامنے ہے تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا پیش کردہ ہے۔*

*❀_۔ ہمارے بس میں نہیں کہ حضور ﷺ کے احسانات کا کسی ادنیٰ درجے میں بھی کوئی بدلہ حضور ﷺ کو ادا کر سکیں۔ اس لیے اے خداوند بر تر ہم عاجز بندے تجھی سے یہ درخواست کرتے ہیں تو ہمارے جذبہ کو قبول فرما کر اپنے خزانہ رحمت سے ہمارا بدلہ ادا فرما۔ حضور ﷺ کی روح پر رحمتیں نازل فرما۔ برکات بھیج، سلامتی کی پھواریں برسا درجات و مراتب کو بلند فرما، حضور ﷺ کی دعوت پیغام اور تحریک کو پھر عروج دے، اسے توسیع عطا فرما۔ اور اپنے زیادہ سے زیادہ بندوں کو اسلامی نظام کے سایہ رحمت سے بہرہ مند کر، ہر ایک مسلم بندے کو اس سعادت کی توفیق دے کہ حضور ﷺ کی دعوت کی مقدس امانت کے سچے امانت دار بنیں۔ اسے بنی نوع انسانی تک پہنچائیں۔ حضور کی جاری کردہ تحریک حق کو پھر ایک زندہ حقیقت بنائیں۔ اور تن من دھن صرف کر کے حضور ﷺ کے پیش کردہ نظام عدل کو زمین پر استوار کر دیں۔ حضور ﷺ کے مشن کی تکمیل میں حصہ لینا بھی حضور ﷺ کی ممنونیت کا بہترین اظہار ہے۔ اللهم صل على محمد و على ال محمد و بارک و سلم _,"*

*❀_ الحمدللہ مکمل ہوا _____,"*
 
       *📔 محسن انسانیت ﷺ , 544,*
 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/FKxSPwjh0W2IBafzv6QMxa
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل سبھی پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
 https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments