▤━─━─━▓━﷽━▓━─━─━▤
*⊙ رمضان المبارک ⊙*
┗───┯ ⊙———⊙——⊙—⊙—⊙
*☆▦★_رمضان المبارک کی آمد پر سرکار دو عالم ﷺ کا خطبہ استقبالیہ:-*
*▦☆"_ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم کو خطاب فرمایا کہ "اے لوگو ! ایک با عظمت مہینہ آپہنچا ہے، جو ماہ مبارک ہے، اس میں ایک رات ہے، جو ہزار ماہ سے بہتر ہے، اس ماہ کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کرنا تطوع (غیر فرض) قرار دیا ہے،*
*"▦☆_ اس ماہ میں جو شخص کوئی نیک کام کرے گا اس کو ایسا اجر و ثواب ملے گا جیسے اس کے علاوہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا کرتا اور فرض کا ثواب ملتا، اور جو شخص اس ماہ میں ایک فرض ادا کرے تو اس کو ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا،*
*"▦☆_ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، اور یہ آپس کی غمخواری کا مہینہ ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے, اس ماہ میں ہو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے تو یہ اس کی مغفرت کا اور دوزخ سے اس کی گردن کی آزادی کا سامان بن جائے گا، اور اس کو اسی قدر ثواب ملے گا جتنا روزہ دار کو ملے گا، مگر روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ ہوگی ۔*
*"▦☆_ حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ ! ہر شخص کو اتنا مقدر نہیں کہ وہ روزہ افطار کرا دے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالے یہ ثواب اس کو (بھی) دے گا جو پانی ملے ہوئے تھوڑے سے دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرادے، ( سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ) جو شخص رافطار کے بعد کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کے کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالے میرے حوض سے ایسا سیراب کریں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہو گا ، اور پھر جنت میں تو بھوک پیاس کا نام ہی نہیں)*
*▦☆"_ اس ماہ کا اول حصہ رحمت ہے، دوسرا حصہ مغفرت ہے، تیسرا حصہ دوزخ سے آزادی کا ہے، جس نے اس ماہ میں غلام کا کام ہلگا کر دیا تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیں گے۔*
*▦☆"_ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو، اُن میں سے دو کام ایسے ہیں کہ اُن کے ذریعہ تم اپنے پروردگار کو راضی کرو گے اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو, وہ دو کام جن کے ذریعہ خدائے پاک کی خوشنودی حاصل ہوگی یہ ہیں, (١)_ لا اله الا اللہ کا ورد رکھنا، (٢)_ اور خدائے پاک سے مغفرت طلب کرتے رہنا،*
*"_ اور وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے یہ ہیں :- (١)_جنت کا سوال کرنا (٢)_ دوزخ سے پناہ مانگنا "*
*📕_ (مشكورة المصابيح ص 173 الجوالہ بیہقی فی شع الایمان والترغيب والترهيب للمنذرى)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"☆▦☆_ روزہ بدنی عبادت ہے :-*.
*☆▦"_ انسان کی تخلیق عبادت اور محض عبادت کے لئے ہے، جیسا کہ سورہ ذاریات ( آیت 56) میں فرمایا گیا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنس إلا ليعبدون., اور میں نے انسان اور جن کو نہیں پیدا کیا مگر اس واسطے کہ وہ میری عبادت کریں_,"*.
*☆▦"_ روزہ بدنی عبادت ہے جو پہلی امتوں پر بھی فرض تھا، جیسا کہ سورہ بقرہ ( آیت 183) میں فرمایا ہے :-*
*"_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِب عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پر ہیز گار بنو، یہ روزے چند دن کے ہیں،*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ روزہ کی حکمت :-*
*"☆▦_ قرآن مجید میں لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ میں روزہ کی حکمت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، تقویٰ، صغیرہ و کبیرہ، ظاہرہ اور باطنہ گناہوں سے بچنے کا نام ہے، آیت کریمہ نے بتایا کہ روزہ کی فرضیت تقویٰ حاصل کرنے کے لئے ہے،*
*"☆▦_ پورے ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مہینہ کھانے پینے اور جنسی تعلقات کے مقتضی پر عمل کرنے سے اگر باز رہے تو باطن کے اندر ایک نکھار اور نفس کے اندر سدھار پیدا ہو جاتا ہے،*
*"☆▦_ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی مشروع کئے گئے ہیں ؟ ان روزوں کا مستقل ثواب ہے جو روایات حدیث میں مذکور ہے اور ثواب کے علاوہ نفلی روزوں کا یہ فائدہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھتے وقت جو عملی کوتاہیاں ہوئیں اور آداب کی رعایت ملحوظ نہ رہی اس کوتاہی کی تلافی ہو جاتی ہے۔*
*"☆▦_ جو گناہ انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ دو چیزیں گناہ کا باعث بنتی ہیں، ایک منہ دوسری شرمگاہ ۔ چنانچہ امام ترمذی نے حضرت ابو ہریر سے نقل کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ کون سی چیز دوزخ میں داخل کرانے کا ذریعہ بنے گی ؟ آپ نے جواب دیا: الفم و الفرج، یعنی منہ اور شرمگاہ، ان دونوں کو دوزخ میں داخل کرانے میں زیادہ دخل ہے، روزہ میں منہ اور شرمگاہ دونوں پر پابندی ہوتی ہے اور مذکورہ دونوں راہوں سے جو گناہ ہو سکتے ہیں روزہ اُن سے باز رکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اسی لئے تو ایک حدیث میں فرمایا: روزہ ڈھال ہے (گناہ سے اور آتش دوزخ سے بھی بچاتا ہے)۔ (بخاری ومسلم)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"☆▦☆_ روزہ کی حفاظت:-*
*"☆▦_ اگر روزہ کو پورے اہتمام اور احکام و آداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کیا جائے تو بلا شبہ گنا ہوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے، خاص روزہ کے وقت بھی اور اس کے بعد بھی،*
*☆▦"_ ہاں اگر کسی نے روزہ کے لوازم کا خیال نہ کیا، اور گناہوں میں مشغول رہتے ہوئے روزہ کی نیت کر لی اور کھانے پینے اور خواہش نفسانی سے باز رہا مگر حرام کمانے اور غیبت کرنے میں لگا رہا تو اس سے فرض تو ادا ہو جائے گا مگر روزہ کے برکات وثمرات سے محرومی رہے گی، جیسا کہ حدیث میں ارشادِ نبوی ﷺ نقل کیا ہے :۔جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے_," ( بخاری ان ابی ہریرہ - ١٦)*
*☆▦"_معلوم ہوا کہ کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتا بلکہ روزہ کو فواحش، منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھنا لازم ہے، روزہ منہ میں ہو اور آدمی بد کلامی کرے یہ اس کے لئے زیب نہیں دیتا، اسی لئے تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-*
*"_ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو گندی باتیں نہ کرے، شور نہ مچاے ، اگر کوئی شخص گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرنے لگے (تو اس کو جواب نہ دے بلکہ) یوں کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں (گالی گلوچ کرنا یا لڑائی لڑنا میرا کام نہیں ہے)_," (بخاری و مسلم )*
*☆▦"_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے لئے (حرام کھانے یا حرام کام کرنے یا غیبت وغیرہ کرنے کی وجہ سے)، پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لئے (ریا کاری کی وجہ سے) جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں_," (دارمی)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦_ روزہ اور صحت ▦*
*"☆▦_ روزہ میں جہاں ظاہر و باطن کا تزکیہ ہوتا ہے وہاں صحت وتندرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ حافظ منذری نے الترغيب التربيب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :-" جہاد کرو غنیمت حاصل ہوگی، روزے رکھو تندرست رہوگے سفر کرد مالدار ہو جاؤ گے _,"۔( رواه الطبرانی فی الاوسط ورواته ثقات)*
*☆▦"_ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا بالکل حق ہے، آنکھوں کے سامنے ہے، ڈاکٹر و اختبار بھی یہ بتاتے ہیں کہ روزہ کا صحت جسمانی سے خاص تعلق ہے اور رمضان میں جو ماجرا سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ بارہ چودہ گھنٹے خالی پیٹ رہ کر افطار کے وقت نرم گرم دال، پکوڑی، کچے پکے اور طرح طرح کی چیزیں چند منٹ کے اندر معدہ میں پہنچ جاتی ہیں، اور کچھ بھی کسی کو تکلیف نہیں ہوتی، یہ صرف روزہ کی برکت ہے، اگر طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس طرح خالی پیٹ اناپ شناپ بھرتی کر لینے کی وجہ سے معدہ سخت بیمار ہو جانا چاہیئے ۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_روزہ کی فضیلت:-*
*☆▦"_ ایک روزہ رکھ لینے پر خدائے پاک کی طرف سے کیا انعام ملتا ہے؟ اس کے بارے میں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لئے ایک دن روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے اتنی دور کر دیں گے جتنی دور کوئی شخص ستر سال تک چل کر پہنچے _," (بخاري ومسلم عن الى سعيد الخدری)*
*☆▦"_ اور خاص رمضان کے روزے کے بارے میں ارشاد نبوی ہے کہ :۔ شرعاً جسے روزہ چھوڑنے کی نہ ہو اور عاجزہ کرنے والا مرض بھی لاحق نہ ہو اس نے اگر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا تو عمر بھر روزے رکھنے سے بھی اس ایک روزہ کی تلافی نہ ہوگی اگر چہ (بطور قضاء) عمر بھر روزے بھی رکھ لے _," (المشكوة )*
*"☆▦_روزہ کا ایک خاص وصف حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روزہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:-*
*"_ انسان کے ہر عمل کا اجر (کم از کم) دس گنا بڑھا دیا جاتا ہے (لیکن) روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس قانون سے مستثنی ہے کیونکہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا بندہ میری وجہ سے اپنی خواہشوں کو اور کھانے پینے کو چھوڑ دیتا ہے ۔" (بخاری و مسلم)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ روزہ دار کے لئے جنت کا ایک خاص دروازہ:-*
*"☆▦_ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام ریان ہے، اس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے_," (مشکواۃ عن البخاري وسلم، ص ۱۷۳)*
*"▦_روزہ دار کو دو خوشیاں:-*
*☆▦"_ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی افطار کے وقت ہوتی ہے اور ایک خوشی اس وقت ہو گی جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا_," ( مشکواۃ -١٦ عن البخاري وسلم )*
*"☆▦_ در حقیقت رب کی ملاقات ہی تو عبادت کا مقصود اصلی ہے، اس وقت کی خوشی کا کیا کہنا جب عاجزہ بندے اپنے معبود سے ملاقات کریں گے، اللہ تعالیٰ ہم کو بھی یہ ملاقات نصیب فرمائے۔ ( آمین)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ رمضان اور قرآن:-*
*"☆▦_کلام الہی کو رمضان المبارک سے خاص تعلق ہے جیسا کہ سورۃ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے :-"_ شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِى _ " وہ ماہِ رمضان ہے جس میں قرآن "_ أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ،_," نازل کیا گیا ہے،*
*☆▦"_قیام رمضان یعنی نماز تراویح، یہ بھی قرآن شریف پڑھنے اور سننے کے لئے ہے، دن کو روزہ میں مشغولیت اور رات کو تراویح میں کھڑے ہو کر ذوق و شوق سے قرآن پڑھنا یا سننا, اس سے مومن کے قلب میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے، اور یہ دونوں شغل قیامت کے دن مومن کے کام آئیں گے،*
*☆▦"_ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :- " روزہ اور قرآن بندہ کے لئے بارگاہ خداوندی میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ اے رب ! میں نے اس بندہ کو دن میں کھانے پینے اور دوسری خواہشوں سے روک دیا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما لیجئے اور قرآن مجید عرض کرے گا کہ میں نے اسے رات کو سونے نہیں دیا، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرمائیے ، چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔ “ (مشكوة ص۱۷۳ عن البيهقى في شعب الايمان)*
*"☆▦_ ہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو سناتے اور وہ افضل الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی دو بار دور کیا، اس سے پہلے ایک بار دور کیا کرتے تھے ۔ (بخاری)*
*"☆▦_ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں حفاظ کرام کا ایک دوسرے کو سنانے کا جو مروج طریقہ ہے یہ مسنون ہے، رمضان میں ہمت کر کے حفظ وناظرہ خوب قرآن کی تلاوت کیا کریں،*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_رمضان میں صیام اور قیام :-*
*☆▦"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کا یقین رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان (کی راتوں میں) ایمان کے ساتھ اور ثواب کا یقین رکھتے ہوئے قیام کیا ( تراویح اور نفل میں مشغول رہا)، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب سمجھتے ہوئے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے_," (مشکواۃ المصابیح ص ۱۷۳، از بخاری موسلم)*
*☆▦"_ رمضان المبارک میں راتوں کو نمازیں پڑھتے رہنا قیام رمضان کہلاتا ہے, تراویح بھی اس میں داخل ہے، اور تراویح کے علاوہ جتنے نوافل پڑھ سکیں، پڑھتے رہیں, حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ وہ روزانہ تراویح با جماعت سے فارغ ہو کو صبح تک ایک قرآن مجید نماز میں کھڑے ہو کر ختم کر لیتے تھے، اور ایک قرآن مجید روزانہ دن میں ختم کرتے تھے، اس طرح سے رمضان میں ان کے اکسٹھ (61) ختم ہو جاتے تھے۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_نماز تراویح:-*
*☆▦"__نماز تراویح مردوں، عورتوں سب کے لئے بیس(20) رکعت سُنت موکدہ ہے، اور مردوں کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ مسجد میں باجماعت تراویح پڑھیں، حافظ ہوں تو خود قرآن سنائیں ورنہ دوسروں کا قرآن سنیں،*
*"☆▦_ رمضان میں قرآن پڑھنے اور سننے کا ذوق بڑھ جانا مومن کے ایمان کا تقاضا ہے، جو لوگ نماز تراویح میں سستی کرتے ہیں یا حافظ ریل کو تراویح پڑھانے کے لئے تجویز کرتے ہیں تاکہ جلدی فارغ ہو جائیں ( اگرچہ ریل چلانے میں قرآن کے حروف کٹ جائیں اور معنی بدل جائیں) ایسے لوگ سخت غلطی پر ہیں، سال میں ایک ماہ کے لئے تو یہ موقعہ نصیب ہوتا ہے اس میں بھی مسجد اور نماز سے لگاؤ نہ ہو، اور جلدی بھاگنے کی کوشش کریں جیسے جیل سے بھاگ رہے ہوں، بہت بڑی محرومی ہے، ایسے لوگ تراویح کے علاوہ کیا نفل پڑھتے, تراویح جو سنت مؤکدہ ہے اسی کو بد دلی سے پڑھتے ہیں، بلکہ پڑھنے کا نام کر کے جلد سے جلد ہوٹل میں جا کر لہو و لعب میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.*
*"☆▦_ بہت سی عورتیں روزے تو خوب رکھتی ہیں اور شب قدر میں بھی خوب جاگ لیتی ہیں لیکن تراویح پڑھنے میں سستی کرتی ہیں ۔ اے ماؤ بہنو! آخرت کے کاموں میں غفلت نہ برتو، تراویح پوری بیس رکعت پڑھا کرو، اگر بالفرض کسی وجہ سے مثلاً بچوں کے رونے چھینکنے یا اُن کے مریض ہونے کی وجہ سے شروع رات میں پوری تراویح نہ پڑھ سکو تو جب سحری کے لئے اٹھو اس وقت پوری کر لو، بلکہ اگر شروع رات میں پوری ہی نماز تراویح رہ جائے تو پوری بیس رکعتیں سحر کے وقت پڑھ لو ۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ رمضان آخرت کی کمائی کا مہینہ ہے اس میں خوب زیادہ عیادت کریں:-*
*"☆▦_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ جب (ماہ) رمضان داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیتے جاتے ہیں، اور بعض روایات میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور بعض روایات میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیتے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں، (اور ایک روایت میں ہے کہ ) رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں_,"*
*®_(مشکواۃ ص ۱۷۳، از بخاری ومسلم)*
*"☆▦_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، پھر درمضان کے ختم ہونے تک ان میں سے کوئی ایک دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیتے جاتے ہیں پھر (رمضان کے ختم ہونے تک) ان میں کا ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا، اور ایک ندا دینے والا پکارتا ہے کہ اے خیر کے تلاش کرنے والے آگے بڑھا اور اے برائی کے تلاش کرنے والے رک جا_,"*
*®_ (مشکواۃ ص ۷۳ عن الترندی)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ رمضان نیکیوں کا مہینہ ہے:-*
*"☆▦_۔ رمضان المبارک بہت ہی خیر و برکت کا مہینہ ہے اور آخرت کی کمائی کا بہت بڑا سیزن ہے، جیسے سردی کے زمانہ میں گرم کپڑوں والوں کی خوب کمائی ہوتی ہے، اسی طرح آخرت کی کمائی کے لئے بھی خاص خاص مواقع آتے رہتے ہیں۔*
*"☆▦_ رمضان المبارک نیکیوں کا مہینہ ہے، اس میں اجر و ثواب خوب زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے، نفل کا ثواب فرض کے برابرہ اور ایک فرض کا ستر فرضوں کے برابر ثواب ملتا ہے، جیسا کہ خطبہ نبوی ﷺ میں گزر چکا ہے، اس ماہ میں نیکیوں کی ایسی ہوا چلتی ہے کہ خود بخود طبیعتیں نیکی پر آ جاتی ہیں، اور اللہ کا منادی بھی نیکی کرنے والوں کو تھپکی دے دے کر آگے بڑھاتا ہے، لا محالہ ایسی صورت میں مومن بندے خوب زور شور سے نیکیوں میں لگ جاتے ہیں، جو شخص دوسرے مہینوں میں دو رکعت نماز پڑھنے سے جان چراتا ہے وہ رمضان المبارک میں پنج وقتہ نماز اور تلاوت کا پابند ہو جاتا ہے، اور نہ صرف پنجوقتہ فرض پڑھتا ہے بلکہ عشاء کے فرضوں کے بعد تراویح کی خوب لمبی لمبی بیس رکعتیں خوشی خوشی کے ساتھ ادا کر لیتا ہے، بہت سے شرابیوں کو دیکھا گیا ہے کہ اس ماہ میں شراب چھوڑ دیتے ہیں، اور حرام خور حرام کھانے سے باز آجاتے ہیں۔*
*"☆▦_ فرائض کا اہتمام تو بہر حال ضروری ہے، نفلی نماز، ذکر، تلاوت اور دیگر عبادات کی طرف بھی خصوصی توجہ کرنا چاہئے ، اس ماہ میں کوشش کریں کہ کوئی منٹ ضائع نہ ہو، لا اله الا اللہ اور استغفار کی کثرت کریں اور جنت کا سوال اور دوزخ سے محفوظ رہنے کی دعا بھی کثرت سے کریں، شاید کسی کے دل میں یہ خیال گذرے کہ جب شیاطین بند ہو جاتے ہیں تو بہت سے لوگ رمضان میں بھی گناہوں میں مبتلا کیوں نظر آتے ہیں ؟ بات اصل یہ ہے کہ انسان کا نفس گناہ کرانے میں شیطان سے کم نہیں ہے، جن لوگوں کو گناہوں کی خوب عادت ہو جاتی ہے انہیں گناہوں کا چسکا پڑ جاتا ہے، شیطان کے ترغیب دیتے بغیر بھی اُن کی زندگی کی گاڑی گناہوں کی پڑی پر چلتی رہتی ہے،*
*"☆▦_ گناہ تو انسان سے ہو ہی جاتا ہے مگر گناہ کا عادی بننا اور اس پر اصرار کرنا اور رمضان جیسے مہینہ میں گناہ کرنا بہت ہی زیادہ خطرناک ہے، جہاں گناہ کرانے کے لئے شیطان کے بہکانے کی بھی ضرورت نہ پڑے، وہاں شرارت نفس کا کیا حال ہو گا ؟*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦__ رمضان اور تہجد :-*
*"☆▦_ رمضان میں تہجد پڑھنا بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ تہجہ کے وقت سحری کھانے کے لئے تو اُٹھتے ہی ہیں، سحری کھانے سے پہلے یا بعد میں (جب تک صبح صادق نہ ہو) جس قدر میسر ہو سکے نوافل پڑھ لیا کریں، اس طرح پورے رمضان میں تہجد نصیب ہو سکتا ہے پھر عادت پڑ جائے تو بعد میں بھی جاری رکھ سکتے ہیں، ورنہ کم از کم رمضان میں تو تہجد کا اہتمام کر ہی لیں_,*
*☆▦_۔ _ روزه افطار کرانا :-*
*"☆▦_۔ فرمایا خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس نے روزہ دار کا روزہ کھلوایا یا مجاہد کو سامان دے دیا، تو اس کو روزہ دار اور غازی جیسا اجر ملے گا_,*
*®_(بیہقی فی الشعب عن زید بن خالد )*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_رمضان اور سخاوت:-*
*"☆▦_ رمضان المبارک سخاوت کا مہینہ بھی ہے، اس میں جس قدر فی سبیل اللہ خرچ کیا جائے کم ہے کیونکہ یہ مہینہ آخرت کی کمائی کا مہینہ ہے، اس میں روزہ افطار کرانے اور روزہ کھولنے کے بعد روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلانے کی بھی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے، اور اس ماہ کو غم خواری کا مہینہ فرمایا ہے، جیسا کہ خطبہ نبویہ ﷺ میں گذرا ، غریبوں کی امداد اعانت اس ماہ کے کاموں میں ایک اہم کام ہے،*
*☆▦"_ ایک حدیث میں ارشاد ہے :-" جب رمضان کا مہینہ آجاتا تھا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر قیدی کو آزاد فرما دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے تھے_," (مشكوة شريف)*
*☆▦"_ایک اور حدیث میں ہے :- " حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان المبارک میں تمام ایام سے زیادہ ہو جاتی تھی, رمضان میں ہر رات کو حضرت جبرئیل علیہ السّلام آپ سے ملاقات کرتے تھے (اور) آپ ان کو قرآن شریف سُناتے تھے، جب آپ سے جبرئیل ملاقات کرتے تھے تو آپ ﷺ اس ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے جو بارش لاتی ہے _," (متفق علیہ)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*✿"_ سحری کھانا:-*
*✿"_ فرمایا نبی اکرم صلی علیہ وسلم نےکہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے_," (بخاری ومسلم عن النشر)*
*✿"_ اور یہ بھی فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے_," (مسلم عن عمرو بن العاص )*
*"✿_ اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سحری کھانے والوں پر خدا اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں_," (طبرانی عن ابن عمر)*
*✿"_ روزہ میں بھول کر کھا پی لینا :-*
*✿"_ فرمایا رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص روزہ میں بھول کر کھاپ لے تو وہ روزہ پورا کر لے ، کیونکہ (اس کا کچھ قصور نہیں) اسے اللہ نے کھلایا اور پلایا _," (بخاری مسلم عن ابی ہریرہ)*
*✿"_ افطار میں جلدی کرنا:-*
*✿"_ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، یعنی غروب آفتاب ہوتے ہی فوراً روزہ کھول لیا کریں_," (بخاری ومسلم عن سہل)*
*✿"_ اور فرمایا رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بندوں میں مجھے سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں سب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے یعنی غروب آفتاب ہوتے ہی فوراً افطار کرتا ہے اور اسے اس میں جلدی کا خوب اہتمام رہتا ہے_," (ترمذی عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)*
*✿"_ اور فرمایا سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب ادھر سے (یعنی مشرق سے) رات آ گئی اور ادھر سے (یعنی مغرب سے) دن چلا گیا تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہو گیا( آگے انتظار کرنا فضول ہے بلکہ مکروہ ہے)_," (مسلم عن عمرو بن العاص )*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_کھجور اور پانی سے افطار:-*
*☆▦"_ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب تم روزہ کھول نے لگو تو کھجوروں سے افطار کرو، کیونکہ کھجور سراپا برکت ہے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لو، کیونکہ وہ (ظاہر و باطن کو) پاک کرنے والا ہے_," (ترمذی عن سلمان بن عامر)*
*"▦_ روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے:-*
*"☆▦_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالے رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (ابن ماجہ عن ابی ہریہ )*
*▦"_ سردی میں روزہ:-*
*"☆▦_ حضرت عامر بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ فرمایا سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ موسم سرما میں روزہ رکھنا مفت کا ثواب ہے (ترمذی)*
*"_ مفت کا ثواب اس لئے فرمایا کہ اس میں پیاس نہیں لگتی اور دن بھی چھوٹا ہوتا ہے۔*
*"▦_جنابت روزہ کے منافی نہیں:-*
*"☆▦_ فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہ رمضان المبارک میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت جنابت صبح ہو جاتی تھی، اور یہ جنابت احتلام کی نہیں( بلکہ بیویوں کے تھے مباشرت کرنے کی وجہ سے ہوتی تھی) پھر آپ غسل فرما کر روزہ رکھتے تھے_," (بخاری ومسلم )*
*"_ مطلب یہ ہے کہ صبح صادق سے قبل غسل نہیں فرمایا اور روزہ کی نیت کر لی ، پھر طلوع آفتاب سے قبل غسل فرما کر نماز پڑھ لی، اس طرح سے روزہ کا کچھ حصہ حالت جنابت میں گذرا، اس لئے کہ روزہ بالکل ابتداء صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر روزہ میں احتلام ہو جائے تو بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ جنابت روزه کے منافی نہیں ہے ۔*
*"▦_ روزہ میں مسواک:-*
*"☆▦_ فرمایا حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت روزہ اتنی بار سواک کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ جس کا میں شمار نہیں کر سکتا۔ (ترمذی)*.
*"_ مسواک تر ہو یا خشک روزہ میں ہر وقت کر سکتے ہیں، البتہ منجن, ٹوتھ پاؤڈر ،ٹوتھ پیسٹ یا کوئلہ وغیرہ سے روزہ میں دانت صاف کرنا مکروہ ہے۔*
*"▦_روزہ میں شرمہ لگانا:-*
*☆▦"_ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میری آنکھ میں تکلیف ہے کیا میں روزہ میں سرمہ لگا لوں ؟ فرمایا ، لگالو ۔ (ترمذی)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کیا جائے:-*
*☆▦"_ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے، اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو (بھی عبادت کے لئے) جگاتے تھے_," ( مشکواۃ شریف ص ۱۸۲، از بخاری ومسلم)*
*☆▦"_ ایک حدیث میں ہے کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کے اندر جتنی محنت سے عبادت کرتے تھے اس کے علاوہ دوسرے ایام میں اتنی محنت نہ کرتے تھے_," (مسلم عن عائشہ) (ض)*
*☆▦"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ جو فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ تہبند کس لیتے تھے ، علما نے اس کے دو مطلب بتائے ہیں، ایک یہ کہ خوب محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے اور راتوں رات جاگتے تھے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو کے محاورے میں محنت کا کام بتانے کے لئے بولا جاتا ہے کہ خوب کمر کس لو“ اور دوسرا مطلب تہبند کس کر باندھنے کا یہ بتایا کہ رات کو بیویوں کے پاس لیٹنے سے دور رہتے تھے، کیونکہ ساری رات عبادت میں گذر جاتی تھی، اور اعتکاف بھی ہوتا تھا، اس لئے رمضان کے آخری عشرہ میں میاں بیوی والے خاص تعلق کا موقع نہیں لگتا تھا ۔*
*"☆▦_ حدیث کے آخر میں فرمایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بہت محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے اور گھر والوں کو بھی اس مقصد کے لئے جگاتے تھے ، بات یہ ہے کہ جسے آخرت کا خیال ہو، موت کے بعد کے حالات کا یقین ہو، اجر و ثواب کے لینے کا لالچ ہو وہ کیوں نہ محنت اور کوشش سے عبادت میں لگے گا، پھر جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے اہل و عیال کے لئے بھی پسند کرنا چاہیئے۔*
*☆▦"_ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عام راتوں میں نمازوں کے اندر اتنا قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک سوج جاتے تھے، پھر رمضان کے اندر خصوصاً اخیر عشرہ میں تو اور زیادہ عبادت بڑھا دیتے تھے، کیونکہ یہ مہینہ اور خاص کر اخیر عشرہ آخرت کی کمائی کا خاص موقع ہے، آپؐ کی کوشش ہوتی تھی کہ گھر والے بھی عبادت میں لگے رہیں، لہذا ان کو بھی جگاتے تھے ،*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف:-*
*☆▦"_ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، وفات ہونے تک آپ کا یہ معمول رہا، آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں_," (مشکواۃ شریف ، صفحه ۱۸۳ از بخاری مسلم)*
*☆▦"_ رمضان المبارک کی ہر گھڑی اور منٹ و سیکنڈ کو غنیمت جاننا چاہئے، جتنا ممکن ہو اس ماہ میں نیک کام کر لو، اور ثواب لوٹ لو، پھر رمضان میں بھی آخری دس دن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔*
*"☆▦_رمضان کے آخری دس دن کو عشرہ اخیرہ کہا جاتا ہے ، ان میں اعتکاف بھی کیا جاتا ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ان میں اعتکاف فرماتے تھے اور آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں، آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کی بیویوں نے اعتکاف کا اہتمام کیا ،*
*"☆▦_ اعتکاف میں بہت بڑا فائدہ ہے، اس میں انسان یک سو ہو کر اپنے اللہ سے لو لگائے رہتا ہے، اور چونکہ رمضان کی آخری دس راتوں میں کوئی نہ کوئی رات شب قدر بھی ہوتی ہے، اس لئے اعتکاف کرنے والے کو عموماً وہ بھی نصیب ہو جاتی ہے ۔ مرد ایسی مسجد میں اعتکاف کریں جس میں پانچوں وقت جماعت سے نماز ہوتی ہو، اور عورتیں اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں، اپنے گھر میں جو جگہ نماز کے لئے مقرر کر رکھی ہو اُن کے لئے وہی مسجد ہے، عورتیں اسی میں اعتکاف کریں۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦_اعتکاف - چند مسائل:-*
*☆▦"_ رمضان کی بیسویں تاریخ کا سورج چھپنے سے پہلے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائیں اور عید کا چاند نظر آنے تک اعتکاف کی نیت سے عورتیں گھر کی مسجد میں اور مرد پنجوقتہ نماز با جماعت والی مسجد میں جم کر رہیں، اسی کو اعتکاف کہتے ہیں ، جم کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ عید کا چاند نظر آنے تک مسجد ہی کی حد میں رہے وہیں سوئے ، وہیں کھائے، قرآن پڑھے ، نفلی بڑھے تسبیح میں مشغول ہے، جہاں تک ممکن ہو، راتوں کو جاگے اور عبادت کرے، خاص کر جن راتوں میں شب قدر کی امید ہو، ان راتوں میں شب بیداری کا خاص اہتمام کرے ۔*
*"☆▦_مسئله : اعتکاف میں میاں بیوی کے خاص تعلقات والے کام جائز نہیں ہیں نہ رات میں نہ دن میں، اور پیشاب پاخانہ کے لئے اعتکاف کی جگہ سے نکلنا درست ہے.*
*☆▦"_ مسئلہ:- یہ جو مشہور ہے کہ جو اعتکاف میں ہو وہ کسی سے نہ بولے چالے یہ غلط ہے، بلکہ اعتکاف میں بولنا چالنا اچھی باتیں کرنا، کسی کو نیک بات بتا دینا اور برائی سے روک دینا ، بال بچوں اور نوکروں و نوکرانیوں کو گھر کا کام کاج بتا دینا یہ سب درست ہے اور عورت کے لئے اس میں آسانی بھی ہے کہ اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھی رہے اور وہیں سے بیٹھے بیٹھے گھر کا کام کاج بھی بتاتی رہے۔*
*☆▦"_مسئلہ : اگر اعتکاف میں عورت کو ماہواری شروع ہو جائے تو اس کا اعتکاف وہیں ختم ہو گیا، رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف میں اگر ایسا ہو جائے تو (کسی عالم سے مسائل معلوم کر کے) قضا کر لیں ۔*
*"☆▦_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اعتکاف معتکف کو گناہوں سے روکتا ہے، اور اس کے لئے ان سب نیکیوں کا ثواب (بھی) جاری رہتا ہے (جنہیں اعتکاف کے باعث انجام دینے سے قاصر رہتا ہے) (مشکواۃ المصابیح )*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ اگر روزہ دار کے پاس کوئی کھانے لگے تو روزہ دار کے لئے فرشتے دُعا کرتے ہیں:-*
*☆▦"_ حضرة ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ آنحضرت فخر عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ کے لئے کھانا منگایا آپ نے فرمایا کہ تم بھی کھاؤ! میں نے عرض کیا میں روزہ سے ہوں ! یہ سُن کر آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ جب روزہ دار کے پاس کھایا جائے تو اس کے لئے فرشتے مغفرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ کھانے والے فارغ ہوں_,"*
*®( مشكوراة المصابيح ما بجواله احمد و ترمذی)*
*☆▦"_ روزہ خود صبر کا نام ہے ۔ انسان جب روزہ کی نیت کر لیتا ہے تو یہ طے کر لیتا ہے کہ سورج چھپنے تک کوئی چیز نہیں کھاؤں گا پیوں گا۔ پھر جب روزہ دار کے سامنے کوئی شخص کھانے لگے تو روزہ دار کے صبر کی مزید فضیلت بڑھ جاتی ہے کیونکہ دوسرے کو کھاتا دیکھ کر جو نفس میں خصوصی تقاضا پیدا ہوتا ہے اس کو دباتا ہے اور روزہ پورا کئے بغیر کچھ نہیں کھاتا پیتا۔ اس کے اس خصوصی صبر کی وجہ سے یہ خصوصی فضیلت دی گئی کہ کھانے والا جب تک اس کے پاس کھائے اُس کے لئے فرشتے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ کن لوگوں کو روزہ رمضان چھوڑ کر بعد میں رکھنے کی اجازت ہے:-*
*"☆▦_ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لئے نماز کا ایک حصہ معاف فرما دیا ہے اور رمضان کے روزے نہ رکھنے کی بھی مسافر کو اجازت دی ہے اور اسی طرح دودھ پلانے والی عورت اور حمل والی عورت کو اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے (اور بعد میں قضا کرلے )_,"*
*®_(مشکواۃ شریف ما باب صوم المسافر)*
*"▦_ مریض کا حکم:-*
*"☆▦_رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دینا بھی بہت بڑا گناہ ہے ۔ اور جو فرض روزہ چھوڑنے کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے۔ البتہ جو شخص ایسا مریض ہو کہ روزہ رکھنے سے اُس کی جان پر بن آنے کا قوی اندیشہ ہو یا سخت مرض میں مبتلا ہوا اور روزے کی وجہ سے مرض کے طول پکڑ جانے کا غالب گمان ہو اس کے لئے جائز ہے کہ رمضان شریف کے روزے رمضان میں نہ رکھے اور اُس کے بعد جب اچھا ہو جائے قضا رکھ لے۔*
*"☆▦_ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے عام طور سے لوگ نہ جانتے ہوں۔ لیکن اس میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔*
*"_ اول یہ کہ معمولی معمولی مرض میں روزہ چھوڑ دیتے ہیں گو اس مرض کے لئے روزہ مضر بھی نہ ہو۔*
*"_ دوم یہ کہ فاسق اور بے دین بلکہ بددین ڈاکٹروں کے قول کا اعتبار کر لیتے ہیں، ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ روزہ نہ رکھئے گا۔ ان ڈاکٹروں کو روزوں کی نہ قیمت معلوم ہے نہ شرعی مسئلہ کی صحیح صورت کا علم ہے۔ نہ خود روزہ رکھنے کی عادت یہ ہے نہ اُن کے دل میں کسی مومن کے روزے کا درد ہے ایسے لوگوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ اس لئے مریض کو کسی ایسے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے فیصلہ کر نا چاہئے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ اور جو مسئلہ شریعیہ سے واقف ہو۔*
*"_ سوم یہ کوتاہی عام ہے کہ بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر رکھتے ہی نہیں اور بہت بڑی گناہگاری کا بوجھ لے کر قبریں چلے جاتے ہیں ۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_مسافر کا حکم:-*
*"☆▦_ مسافر جو مسافت قصر کے ارادے سے اپنے شہر یا بستی سے نکلا جب تک سفر میں رہے گا مرد ہو یا عورت چار رکعتوں والی نمازوں کی جگہ دو رکعتیں فرض پڑھے گا, ہاں اگر کسی ایسے امام کے پیچھے جماعت میں شریک ہو جائے جو مسافر نہ ہو تو پوری نماز پڑھنی ہوگی, نیز اگر کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کر لی تو مسافر کے حکم میں نہیں رہے گا اور پوری نماز پڑھتی ہوگی۔ مسافت قصر ٤٨ میل ہے۔ اتنی دور کا ارادہ کر کے روانہ ہو جانے پر شرعی مسافر ہے، شریعت نے نماز قصر کی بنیاد مسافت قصر پر رکھی ہے اگر چہ تکلیف نہ ہو تب بھی ۴۸ میل کا مسافر چار رکعت والے فرض کی جگہ دو رکعتیں پڑھنی چاہیے اگر پوری چار رکھتیں پڑھ لیں تو برا گیا۔*
*☆▦"_ مسئلہ: جس مسافر کے لئے چار رکعت والی نماز فرض کی جگہ دورکعت پڑھنا ضروری ہے اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ رمضان شریف کے موقع پر سفر میں ہو تو روزہ نہ رکھے۔ اور بعد میں گھر میں آکر چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کر لے۔ خواہ ہوائی جہاز یا موٹر کار سے سفر کیا ہو اور خواہ کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی ہو , اگر کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے گا تو مسافر نہ ہوگا۔*
*"☆▦_ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ جس طرح مرض کی حالت میں روزہ چھوٹ جانے پر بعد میں قضا نہیں رکھتے اسی طرح لوگ سفر میں روزہ چھوڑ کر بعد میں گھر آ کر قضا نہیں رکھتے اور گناہگار مرتے ہیں۔ اگر زیادہ تکلیف نہ ہو تو رمضان ہی میں روزہ رکھ لینا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ اور وجہ اُس کی یہ ہے کہ اول تو رمضان المبارک کی برکت اور نورانیت سے محرومی نہ ہوگی۔ دوسرے سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر روزہ رکھنے میں آسانی بھی ہوگی اور بعد میں تنہا روزے رکھنا مشکل ہوگا۔*
*☆▦"_ مسئله : ۴۸ میل سے کم سفر میں روزہ چھوڑنا درست نہیں۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ کا حکم:-*
*"☆▦_ جس طرح مریض اور مسافر کو رمضان میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے (جس کی شرطیں پہلے لکھی گئیں)، اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے لئے بھی جائز ہے کہ رمضان میں روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضا کرلے۔ بشرطیکہ روزہ رکھنے سے بچے کو دودھ نہ ملنے کی وجہ سے غذا سے محرومی ہوتی ہو۔*
*"☆▦_ اگر بچہ ماں کے دودھ کے علاوہ دوسری غذا کے ذریعہ گزارہ کر سکتا ہو ۔ مثلاً اوپر کا دودھ پینے سے یا دلیہ چاول وغیرہ کھانے سے بچہ کی غذا کا کام چل سکتا ہے تو دودھ پلانے والی عورت کو روزہ چھوڑنا حرام ہے۔ اور یہ مسئلہ بھی بچے کی عمر دو سال ہونے تک ہے۔ جب بچے کی عمر دو سال ہو جائے تو اُس کو عورت کا دودھ پلانا ہی منع ہے, اس میں روزہ چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔*
*☆▦"_ مسئله : دودھ پلانے والی کو شرط مذکور کے ساتھ رمضان کا روزہ نہ رکھنا اس صورت میں جائز ہے جبکہ بچہ کا باپ دوسری عورت کو معاوضہ دے کر دودھ پلانے سے عاجزہ ہو یا وہ بچہ ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ لیتا ہی نہ ہو ۔*
*"☆▦_ حاملہ:- جو عورت حمل سے ہو اُس کو بھی رمضان شریف میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ۔ فارغ ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے رکھ لے مگر شرط وہی ہے کہ روزہ رکھنے سے بہت زیادہ تکلیف میں پڑنے یا اپنے بچے کی جان کا اندیشہ ہو۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ فدیہ دینے کا حکم :-*
*☆▦"_ وہ عورت یا مرد جو مستقل ایسا مریض ہو کہ روزہ رکھنے سے جان پر بن آنے کا شدید خطرہ ہو اور زندگی میں اچھے ہونے کی امید ہی نہ ہو ۔*
*☆▦"_ یا وہ مرد و عورت جو بہت زیادہ بوڑھے ہو روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور روزے پر قادر ہونے کی کوئی امید نہیں یہ لوگ روزے کے بجائے فدیہ دیں لیکن بعد میں کبھی روزہ رکھنے کے قابل ہو گئے تو گذشتہ روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔ اور آئندہ روزے رکھنے ہوں گے اور جو فدیہ دیا ہے صدقہ میں شمار ہوگا۔*
*☆▦"_ مسئلہ : ہر روزے کا فدیہ یہ ہے کہ ایک سیر ۱۲ چھٹانک گیہوں یا اُس کی قیمت کسی مسکین کو دیوے یا فی روزہ ایک مسکین کو صبح شام پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیوے۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ حیض والی عورت بعد میں روزوں کی قضا کرے:-*
*☆▦"_ حضرت معاذہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ یہ کیا بات ہے کہ (رمضان کے مہینے میں) کسی عورت کو حیض آجائے تو (ان دنوں کے) روزوں کی قضا رکھتی ہے اور ( عموماً ہر مہینہ حیض آتا رہتا ہے۔ رمضان ہو یا غیر رمضان ان دنوں کی) نمازوں کی قضا نہیں پڑھتی (یہ نماز اور روزے میں فرق کیوں ہے؟ )*
*☆▦"_ یہ سُن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا- کیا تو نیچری ہوگئی ہے ؟ (جو احکام شریعت میں ٹانگ اڑاتی ہے)*
*"_ میں نے کہا- میں نیچری نہیں ہوں صرف معلوم کر رہی ہوں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ ہم تو اتنی بات جانتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہم کو حیض آتا تھا تو نمازوں کی قضا کا حکم نہ دیا جاتا تھا اور روزوں کی قضا کا حکم ہوتا تھا_,"*
*®_ (مسلم شریف ص ۳ ۱۵ج۱)*
*☆▦"_ حضرت معاذہؓ ایک تابعی عورت تھیں، بڑی عالمہ فاضلہ تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مذکورہ بالا سوال کیا تو انہوں نے اُن سے پوچھا کیا تو حرورية ہو گئی ہے ؟ حرورار ایک گاؤں تھا وہاں خوارج کا جمگھٹا تھا۔ یہ لوگ دین اور شریعت کو اپنی عقل کے معیار سے جانچنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنی سمجھ کی ترازو میں تولتے تھے اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت معاذہ سے فرمایا کہ تو دین میں اپنی عقل کا دخل دے رہی ہے ۔ یہ تو اُن لوگوں کا طریقہ ہے جو حرورار بستی میں رہتے ہیں،*
*"☆▦_بہت سے لوگ دین کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا تو منکر ہوتے ہیں یا اعتراض کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے اسلاف کی زبان میں نیچری کہلاتے ہیں کیونکہ اپنے نیچر کی پچتریپن میں لگانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں ۔ در حقیقت یہ ایک بہت بڑا کی روگ ہے جو دل میں حقیقی ایمان راسخ نہیں ہونے دیتا۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_نفلی روزوں کا ثواب اور عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھنے کا حکم:-*
*"☆▦_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ (نفل) روزہ رکھے جبکہ اُس کا شوہر گھر ہی ہو۔ ہاں اُس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے اور عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی کو گھر میں آنے کی اجازت دے۔ ہاں اگر شوہر کسی کے بارے میں اجازت دے تو عورت بھی اجازت دے سکتی ہے (کیونکہ مسلمان شوہر جس کے آنے کی اجازت دے گا وہ عورت کا محرم ہوگا)_,"*
*®_ (مشکواۃ شریف بحوالہ مسلم شریف )*
*"☆▦_ دین اسلام کامل اور مکمل دین ہے اس میں دونوں طرح کے حقوق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی رعایت رکھی گئی ہے, جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی عبادت ہے اسی طرح حقوق العباد کا ادا کرنا بھی عبادت ہے۔*
*☆▦"_ اس حدیث پاک میں حقوق العباد کی نگہداشت کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں اور آپس میں ایک ایسا تعلق ہے جو روزے میں نہیں ہوتا۔ اگر کوئی عورت ( نفلی) روزہ پر روزہ رکھتی چلی جائے اور شوہر کے خاص تعلق کا خیال نہ رکھے تو گناہ گار ہو گی ۔ شوہر کو خوش رکھنا اور اُس کے حقوق کا دھیان رکھنا بھی عبادت ہے,*
*☆▦"_ عورتوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ کسی عورت کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ شوہر گھر پر موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے۔ شوہر اگر اجازت دے تو نفلی روزہ رکھے البتہ روزانہ روزہ رکھنا پھر بھی منع ہے ۔*
*☆▦"_ تنبیہ ۔ فرض نماز اور فرض روزے کی ادائیگی میں شوہر کی اجازت کی ہر گز ضرورت نہیں ہے، وہ اجازت نہ دے تب بھی اُن کی ادائیگی فرض ہے اگر وہ اس سے روکے گا تو سخت گنہ گار ہوگا۔ اسی طرح رمضان کے جو روزے ماہواری کی مجبوری کی وجہ سے رہ جائیں تو اُن کی قضا رکھنا بھی فرض ہے۔ اگر شوہر روکے تب بھی قضا رکھ لیوے۔ اگر وہ روکے گا تو سخت گنہ گار ہوگا۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ روزانہ نفلی روزہ رکھنے کی ممانعت:-*
*"☆▦_ رحمتہ العالمین صل اللہ علی سلم نے فرمایا کہ جس نے روزانہ (نفلی) روزہ رکھا اُس نے نہ روزہ رکھا نہ بے روزہ رہا_," ( مسلم شریف)*
*"☆▦_ مطلب یہ ہے کہ روزانہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہو جاتی ہے۔ عادت ہو جانے سے مشقت نہیں ہوتی۔ جب مشقت نہ ہوئی تو روزہ کا مقصد ختم ہو گیا۔ اب یوں کہا جائے گا کہ کھانے پینے کے اوقات بدل دیئے ۔ اس صورت میں عبادت کی شان باقی نہ رہے گی۔ اگر کسی سے ہو سکے تو ایک دن روزہ رکھے ایک دن بے روزہ رہے۔ یہ بہت فضیلت کی بات ہے لیکن شرط وہی ہے کہ شوہر کی اجازت ہو اور اس قدر بے طاقت نہ ہو جائے کہ دوسری عبادات اور ادائیگی حقوق میں فرق آجائے۔*
*"☆▦_ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بڑے درجے کے صحابی تھے۔ یہ روزانہ روزہ رکھتے تھے اور راتوں رات نفل پڑھتے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ روزہ بھی رکھو اور بے روزہ بھی رہا کرو ۔ راتوں میں نفل نماز میں بھی کھڑے رہا کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور جو لوگ تمہارے پاس آئیں اُن کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری و مسلم)*
*"☆▦_ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا کمال یہ ہے کہ اپنے بدن اور اعضاء جسم اور بیوی بچوں اور مہمانوں کے حقوق کی نگہداشت کرتے ہوئے نفل عبادت کی جائے۔ خلاصہ یہ کہ شریعت کی حدود میں نفس و شیطان کے فریب سے بچتے ہوئے نفل نمازیں پڑھو اور نفل روزے رکھو، تلاوت بھی کرو اور ذکر بھی کرو اور کسی مخلوق کا حق واجب بھی ضائع نہ ہونے دو ۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ نفلی روزہ رکھ کر توڑ دینے سے اُس کی قضا لازم ہوتی ہے:-*
*"☆▦_ حضرت ابن شہاب زہری (تابعی) نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دو بیویوں یعنی حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نفلی روزہ رکھ لیا اور صبح ہو گئی۔ اس کے بعد اُن کی خدمت میں بطور ہدیہ کھانا پیش کر دیا گیا جسے انہوں نے کھا لیا اور روزہ توڑ دیا۔ اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے,*
*"☆▦_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم دونوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مسئلہ معلوم کرنے کا ارادہ کیا۔ اور حفصہ بات کرنے میں مجھے سے آگے بڑھ گئی اور وہ اپنے باپے کی بیٹی تھی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اور عائشہ نے نفلی روزہ رکھ لیا تھا اس حال میں صبح ہوئی کہ ہم دونوں روزہ دار تھیں، ہمارے لئے کھانے کا ہدیہ پیش کیا گیا ہم نے وہ کھانا کھا لیا اور روزہ توڑ لیا ( تو اب ہم کیا کریں)، اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس روزہ کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا_,"*
*®( موطا امام مالک وده طبع دار الاشاعت کراچی)*
*"☆▦_نفل نماز ہو یا روزہ ہو اس کی ادائیگی بندہ کے ذمہ لازم نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص نفل نماز شروع کر کے توڑ دے یا نفلی روزہ رکھ کر آفتاب غروب ہونے سے پہلے قصداً کچھ کھا پی لے یا ایسا کوئی عمل کرے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو پھر اس نماز اور اس روزہ کی قضا لازم ہو جاتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب تک نفل نماز یا نفل روزہ شروع نہ کیا تھا اس وقت تک وہ نفل تھا اور جب شروع کر دیا تو اس کا پورا کرنا واجب ہو گیا,*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_نفلی نماز و نفلی روزہ کی قضا کے مسائل:-*
*"☆▦_مسئله : نفل نماز کی ہر دو رکعت علیحدہ نماز شمار ہوتی ہے۔ اگر چار رکعت کی نیتباندھ کر نماز شروع کی تو جب تک تیسری رکعت شروع نہ کر دے دو ہی رکعت کا پورا کرنا واجب ہوگا۔ لہذا اگر کسی نے چار رکعت نفل کی نیت کی پھر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا تو کوئی گناہ نہیں ۔*
*☆▦"_مسئلہ: اگر کسی نے چار رکعت نفل کی نیت باندھی اور ابھی دو رکعتیں پوری نہ ہوئی تھیں کہ نماز توڑ دی تو فقط دو رکعت کی قضا پڑھے۔*
*"☆▦_ مسئله : اگر چار رکعت کی نیت باندھی اور دو رکعتیں پڑھ لیں ۔ پھر تیسری یا چوتھتی رکعت میں نماز توڑ دی تو اگر دوسری رکعت پر بیٹھ کر اس نے التحیات وغیرہ پڑھی ہے تو فقط دو رکعت کی قضا پڑھے۔ اور اگر دوسری رکعت پر نہیں بیٹھی اور بغیر التحیات پڑھے بھولے سے کھڑی ہو گئی یا قصداً کھڑی ہو گئی تو پوری چار رکعتوں کی قضا پڑھے۔*
*☆▦"_ مسئله : ظہر کی چار رکعت سنت کی نیت اگر ٹوٹ جائے تو پوری چار رکعتیں پھر سے پڑھنی چاہیے، دو رکعت پر بیٹھ کر التحیات پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو۔*
*"☆▦_ مسئلہ: اگر کسی عورت نے نفل نماز شروع کی پھر اُس کو نماز کے اندر وہ معذوری شروع ہو گئی جو عورت کو ہر مہینے پیش آتی ہے, تو نماز چھوڑ دے اور بعد میں اس نماز کی قضا پڑھے۔ اسی طرح اگر کسی عورت نے نفلی روزہ رکھ لیا اور کچھ وقت گذرنے کے بعد ہر مہینے والی معذوری پیش آگئی تو روزہ ختم ہو گیا۔ پاک ہونے کے بعد اس کی قضا کرے۔*
*☆▦"_ مسئله : نفل نماز یا روزہ شروع کر کے خود سے توڑ دینا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اس نیت سے ہو کہ بعد میں قضا کر لیں گے۔ ہاں اگر کسی کے یہاں کوئی مہمان آ گیا اور وہ اڑ گیا کہ جب تک صاحب خانہ ساتھ نہ کھائے میں نہ کھاؤں گا، تو اس کی دلداری کے لئے ( نفل) روزہ توڑ دینا جائز ہے لیکن بعد میں اُس کی قضا رکھنا لازمی ہے،*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ پیر اور جمعرات اور چاند کی ۱۴/۱۳/ ۱۵ تاریخ کے روزے:-*
*☆▦"_ رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھنا چاہیئے ۔ روزہ بہت بڑی عبادت ہے اور اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔ عید کے مہینہ کے چھ روزوے، پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے کی بھی فضیلت آتی ہے،*
*☆▦"_ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیر اور جمعرات کو بارگاہ خدا وندی میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں ۔ (ترمذی شریف)*
*☆▦"_ چاند کی تیره ، جوده، پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کی بھی فضیلت وارد ہوئی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے ۔*
*"▦_ بقر عید کی نویں تاریخ کا روزہ:-*
*"☆▦_ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ بقر عید کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ فرما دیں گے ۔*
*"▦_ عاشورا کا روزہ:-*
*☆▦"_ اور یوم عاشورا، یعنی محرم کی دس تاریخ کے بارے میں اللہ سے پختہ اُمید رکھتا ہوں کہ اس کے رکھنے کی وجہ سے ایک سال پہلے کے گناہوں کا کفارہ فرما دیں گے ۔ (مشکواۃ)*
*☆▦"_بقر عید کی نویں تاریخ سے پہلے جو آٹھ دن ہیں اُن کا روزہ رکھنے کی بھی فضیلت آتی ہے۔ ان روزوں کے علاوہ اور جس قدر نفل روزے کوئی شخص مرد ہو یا عورت رکھ لے گا اس کے حق میں اچھا ہو گا۔ قیامت کے دن نوافل کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جائے گی, اس لئے اس عبادت سے غافل نہ ہوں لیکن دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں اول یہ کہ اس عبادت کی وجہ سے کسی کی حق تلفی نہ ہو مثلاً بیوی بچوں کا خیال نہ رہے، کمزوری کی وجہ سے کما نہ سکے وغیرہ، یا دوسرے حقوق میں کوتاہی ہونے لگے مثلاً کوئی عورت روزے رکھنے کی وجہ سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع کرے،*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
۔ *▦_شب قدر کی فضیلت:-*
*☆▦"_ رمضان المبارک کا پورا مہینہ آخرت کی دولت کمانے کا ہے، پھر اس ماہ میں اخیر عشرہ اور بھی زیادہ محنت اور کوشش سے عبادت میں لگنے کا ہے، اس عشرہ میں شب قدر ہوتی ہے جو بڑی بابرکت رات ہے، قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، یعنی شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔"*
*☆▦"_ ہزار مہینے کے ۸۳ سال اور ہم مہینے ہوتے ہیں، پھر شب قدر کو ہزار مہینے کے برابر نہیں بتایا، بلکہ ہزار مہینے سے بہتر بتایا ہے، ہزار مہینے سے شب قدر کس طرح بہتر ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے، مومن بندوں کے لئے شب قدر بہت ہی خیر و برکت کی چیز ہے ایک رات جاگ کر عبادت کرلیں اور ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کا ثواب پالیں، اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے ؟ اسی لئے تو حدیث شریف میں فرمایا :- جو شخص شب قدر سے محروم ہو گیا، گویا پوری بھلائی سے محروم ہو گیا اور شب قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو_," (ابن ماجہ)*
*☆▦"_مطلب یہ ہے کہ چند گھنٹے کی رات ہوتی ہے، اور اس میں عبادت کر لینے سے ہزار مہینے سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب ملتا ہے، چند گھنٹے بیدار رہ کر نفس کو سمجھا بجھا کہ عبادت کر لینا کوئی ایسی قابل ذکر تکلیف نہیں جو برداشت سے باہر ہو، تکلیف ذراسی اور ثواب بہت بڑا،*
*☆▦"_۔ پہلی امتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں، اس اُمت کی عمر بہت سے بہت ۸۰-۰۷ سال ہوتی ہے اللہ پاک نے یہ احسان فرمایا کہ ان کو شب قدر عطا فرمادی اور ایک شبقدر کی عبادت کا درجہ ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ کر دیا، محنت کم ہوئی وقت بھی کم لگا، اور ثواب میں بڑی بڑی عمر والی اُمتوں سے بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام ہے کہ اس اُمت کو سب سے زیادہ نوازا ، اب یہ کیسی نادانی ہو گی کہ اللہ کی بہت زیادہ نوازش ہو اور ہم غفلت میں پڑے سویا کریں، رمضان کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہونے دو، خصوصاً آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرو اور اس میں بھی شب قدر میں جاگنے کی بہت زیادہ فکر کرو، بچوں کو بھی ترغیب دو ۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ شب قدر اور اس کی دُعا:-*
*☆▦"_ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول الله ارشاد فرمائیے کہ اگر مجھے پتہ چل جائے کہ فلاں رات کو شب قدر ہے تو میں کیا دعا کروں ؟ آپ نے فرمایا یہ دعاء کرو، اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تحِب الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِى، ( اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں، لہذا مجھے معاف فرمادیجئے )"*
*®_ مشکواۃ شریف -١٨٢ از احمد و ابنِ ماجہ و ترمذی)"*
*"☆▦_ دیکھے کیسی دعا ارشاد فرمائ ، نہ زر مانگنے کو بتایا نہ زمین نہ دهن دولت، کیا مانگا جائے ؟ معافی ! بات اصل یہ ہے کہ آخرت کا معاملہ سب سے زیادہ کھٹن ہے، وہاں اللہ کے معاف فرمانے سے کام چلے گا، اگر معافی نہ ہوئی اور خدانخواستہ عذاب میں گرفتار ہوئے تو دنیا کی ہر نعمت اور لذت اور دولت و ثروت بیکار ہوگی، اصل چیز معافی اور مغفرت ہی ہے،*
*☆▦"_ ایک حدیث میں ارشاد ہے:۔ جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے" (بخاری و مسلم)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ شب قدر کی تاریخیں:-*
*☆▦"_ شب قدر کے بارے میں حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو لہذا رمضان کی ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں ، ۲۷ ویں ، ۲۹ ویں رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصا ، ۲٧ ویں شب کو تو ضرور جاگیں کیونکہ اس دن شب قدر ہونے کی زیادہ امید ہوتی ہے ۔*
*☆▦"_ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اس لئے باہر تشریف لائے کہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرما دیں، مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لئے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی اطلاع دوں، مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین میرے ذہن سے اٹھالی گئی، کیا بعید ہے کہ یہ اٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو۔ (بخاری)*
*☆▦"_ اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ آپس کا جھگڑا اس قدر برا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ پاک نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے شب قدر کی تعیین اٹھالی، یعنی کسی رات کو شب قدر ہے مخصوص کر کے اس کا علم جو دے دیا گیا تھا وہ قلب سے اٹھا لیا گیا اگر چہ بعض وجوہ سے اس میں بھی اُمت کا فائدہ ہو گیا، جیسا کہ انشاء اللہ تعالٰی ہم بھی ذکر کریں گے، لیکن سبب آپس کا جھگڑا بن گیا جس سے آپس میں جھگڑے کی مذمت کا پتہ چلا ۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_۔ عید کے مہینے میں چھ روزے رکھنے کی فضیلت:-*
*☆▦"_ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ (نفل) روزے شوال (یعنی عید) کے مہینے میں رکھ لئے تو ( پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا۔ اگر ہمیشہ ایسا ہی کرے گا تو) گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔ (مسلم شریعت بحوالہ مشکواۃ شریف ص ۱۷۹)*
*☆▦"_اس مبارک حدیث میں رمضان مبارک گذرنے کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا عظیم ثواب بنایا گیا ہے ۔ ثواب دینے کے بارے میں اللہ پاک نے یہ مہربانی فرمائی ہے کہ ہر عمل کا ثواب کم از کم دس گنا مقرر فرمایا ہے, جب کسی نے رمضان کے تیس روزے رکھے اور پھر چھ روزے اور رکھ لئے تو یہ چھتیس روزے ہو گئے۔ چھتیس کو دس میں ضرب دینے سے تین سو ساٹھ ہو جاتے ہیں ۔ قمری کے حساب سے ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہوتا ہے لہذا چھتیس روزے پورے رکھنے پر اللہ تعالے کے نزدیک تین سو ساٹھ روزے شمار ہوں گے اور اس طرح پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر ہر سال کوئی شخص ایسا ہی کر لیا کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے ساری عمر روزے رکھنے والا مان لیا جائے گا۔*
*"☆▦_. اگر رمضان کے روزے چاند کی وجہ سے انتیس ہی رہ جائیں تب بھی یہ تیس ہی شمار ہوں گے کیونکہ ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ چاند نظر نہ آئے تو تیسواں روزہ بھی رکھے گا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف رمضان اور چھ شوال کے روزے رکھنے پر اس ثواب کی خوشخبری سنائی ۔*
*"☆▦_ بعض عور تیں سمجھتی ہیں کہ یہ ثواب اُسی وقت ملے گا جبکہ عید کے بعد دوسرے دن کم از کم ایک روزہ ضرور رکھ لے یہ غلط ہے۔ اگر دوسری تاریخ سے روزے شروع نہ کئے اور پورے ماہ شوال میں چھ روزے رکھ لئے تب بھی یہ ثواب مل جائے گا۔*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*▦"_ ماہ شعبان کے روزے :-*
*☆"_ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل (نفلی) روزے رکھتے چلے جاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا تھا کہ اب آپ بے روزہ نہیں رہیں گے اور جب روزے رکھنا چھوڑتے تو اتنے دن چھوڑتے چلے جاتے تھے کہ ہمیں خیال گذرنے لگتا تھا کہ اب آپ نفلی روزہ نہیں رکھیں گے۔*
*"☆_ اور فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں سوائے رمضان کے مہینے کے۔ اور میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی دوسرے مہینے میں (نفلی) روزے رکھے ہوں۔*
*☆"_ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ چند ایام کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے_,"*
*🗂️ (مشكاة المصابيح ص ۷۸ بحوالہ بخاری ومسلم)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_آخری رات میں بخششیں:-*
*☆"_ جس دن صبح کو عید یا بقر عید ہو اس رات کو بھی ذکر عبادت اور نفل نماز سے زندہ رکھنے کی فضیلت آئی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ رکھا، اُس دن اس کا دل مردہ نہ ہو گا جس دن دل مُردہ ہوں گے (یعنی قیامت کا دن),*
*®_ (الترغيب والترهيب للمنذری)*
*☆"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں امت محمدیہ کی مغفرت کر دی جاتی ہے ، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس سے شب قدر مراد ہے ؟*
*"_ فرمایا نہیں ! (یہ فضیلت آخری رات کی ہے، شب قدر کی فضیلتیں اس کے علاوہ ہیں)، بات یہ ہے کہ عمل کرنے والے کا اجر اس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب کام پورا کر دیتا ہے، اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے الہذا ابخشش ہو جاتی ہے_,"*
*®_ (مشکوۃ)*
⊙———⊙———⊙———⊙———⊙
*"▦_ عید کا دن :-*
*☆_حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالے علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیہ اسلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جو ہر اس بندہ کے لئے خدا تعالے سے رحمت کی دُعا کرتے ہیں جو کھڑے بیٹے اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو، پھر جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر سے فرماتے ہیں( کہ دیکھو ان لوگوں نے ایک ماہ کے روزے رکھے اور حکم مانا)، اور فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو! بتاؤ اس مزدور کی کیا جزا ہے جس نے عمل پورا کر دیا ہو ؟*
*"_ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب اس کی جزار یہ ہے کہ اس کا بدلہ پورا دے دیا جائے۔*
*"_ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے میرا فریضہ پورا کر دیا جو ان پر لازم تھا، اور اب دعا میں گڑ گڑانے کے لئے نکلے ہیں, قسم ہے میرے عزت و جلال اور کرم کی اور میرے علو و ارتفاع کی میں ضرور اُن کی دعا قبول کروں گا،*
*☆"_ پھر ( بندوں کو) ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا، لہٰذا اس کے بعد (عید گاہ سے) بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں۔*
*®_ (بیہقی فی الشعب)*
*"☆_ مسئلہ: عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے آج کے دن روزہ نہ رکھنا عبادت ہے ۔*
*☆"_ صدقة الفطر :- عید کے دن صدقہ فطر بھی ادا کریں جو صاحب نصاب پر واجب ہے، حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لئے ہے اور مسکینوں کی روزی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابو داؤد)*
•═══▦☆☆▦═══•
*Ref-📕 تحفہ خواتین _,* ┏─═┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄✪
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
*❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
0 Comments