▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*■ امھات المومنین ■*
*⚂ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ⚂*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حضرت*★_ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں، آپ کی والدہ کا نام ام رومان تھا، ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ از دی نام کے شخص سے ہوا، عبداللہ کی وفات کے بعد ام رومان کا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان سے حضرت ابوبکر کے ہاں عبدالرحمان اور عائشہ صدیقہ پیدا ہوئے، آپ نبوت کے پانچویں سال میں پیدا ہوئیں، یعنی جب آپ پیدا ہوئیں تو نبوت کا اعلان ہوئے چار سال گزر چکے تھے اور پانچواں سال گزر رہا تھا، گویا آپ نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو آپ کا گھرانہ مسلمان ہو چکا تھا_,*
*★_ عام بچوں کی طرح آپ بھی بچپن میں کھیل کود کی بہت شوقین تھیں، محلے کی بچیاں آپ کے پاس جمع ہو جاتیں، آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، نبوت کے دسویں سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی، ان کی وفات کے بعد آپ بہت غمگین رہنے لگے تھے، آپ کی یہ حالت صحابہ کرام سے چھپی ہوئی نہیں تھی، چنانچہ مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں،*
*★_ انہوں نے آپ سے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دوسرا نکاح فرما لیں_," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :- کس سے نکاح کروں ؟ حضرت خولہ نے عرض کیا :- بیوہ اور کنواری، دونوں طرح کی لڑکیاں ہیں، جس سے آپ پسند فرمائیں، اس کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے_," اس پر آپ نے فرمایا:- وہ کون ہیں ؟, حضرت خولہ نے عرض کیا :- بیوہ تو سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا ہیں اور کنواری ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ ہیں_," آپ نے ارشاد فرمایا:- ٹھیک ہے، تم ان کے بارے میں بات کرو _,"*
*★_ حضرت خولہ آپ کی مرضی پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات رکھی، جاہلیت کے دور میں دستور یہ تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں، اسی طرح اپنے منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے، اس بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا :- خولہ ! عائشہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہے, آپ سے اس کا نکاح کیسے ہو سکتا ہے_," حضرت خولہ یہ جواب سن کر آنحضرت کے پاس گئیں اور یہ بات آپ کو بتائی، اس پر آپ نے فرمایا :- ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں سے نکاح جائز ہے _,"*
*★_ حضرت خولہ نے یہ بات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتائی تو آپ نے فوراً منظور کرلی، اب ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی بات حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے طے ہوچکی تھی، اس لیے ان سے بھی پوچھنا ضروری تھا، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت جبیر بن مطعم کے پاس گئے اور ان سے فرمایا:- تم نے عائشہ کی نسبت اپنے بیٹے سے طے کی تھی، اس سلسلے میں تم کیا کہتے ہو ؟ اس وقت تک حضرت جبیر بن مطعم کا خاندان مسلمان نہیں ہوا تھا، اس لیے ان کی بیوی نے کہا :- اگر یہ لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بیٹا بے دین ہو جائے گا، لہذا اب ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں_," اس طرح یہ نسبت خود ان کی طرف سے ختم ہو گئی_,*
[6/5, 6:55 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز آپ کو پیش کر رہا ہے، آپ نے اس سے پوچھا :- یہ کیا ہے؟ اس نے کہا :- آپ کی بیوی ہے_," آپ نے ریشم کا کپڑا ہٹا کر دیکھا تو( تصویر میں) عائشہ صدیقہ تھیں_," ( بخاری)*
*★_ گویا رشتہ اللہ تعالی طے فرما چکے تھے، نکاح بہت سادگی سے ہوا، آپ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ آپ کی والدہ آئیں اور آپ کو جلدی سے تیار کرکے گھر لے گئیں جہاں تقریب نکاح ہو رہی تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نکاح پڑھا دیا،*
*"_ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- جب میرا نکاح ہوا مجھے پتا تک نہ چلا، میری والدہ نے باہر نکلنے سے روکا، تب مجھے اندازہ ہوا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے، اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا _,"*
*★_ نکاح کے وقت آپ کی عمر چھ سال تھی، مطلب یہ کہ اس وقت صرف نکاح ہوا تھا، رخصتی بعد میں ہوئی،*
*"_ کچھ مدت گزرنے پر مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا, حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی لیکن آپ ان سے یہی فرماتے رہے :- ابوبکر ! جلدی نہ کرو, امید ہے اللہ تعالی کسی کو تمہارا سفر کا ساتھی بنا دے_,' یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امید ہو گئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں گے، چنانچہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دے دی تو آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لے کر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، روانہ ہوتے وقت آپ دونوں نے اپنے اہل و عیال کو مکہ ہی میں چھوڑ دیا تھا_,*
*★_ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا، تاکہ دونوں گھرانوں کے لوگوں کو لے آئیں،*
*"_ یہ دونوں حضرات مکہ پہنچے تو ان کی ملاقات حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی, وہ بھی ہجرت کے لیے تیار تھے، چناچہ یہ حضرات ان دونوں گھرانوں کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، ان حضرات میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا اسامہ، ان کی بیوی ام ایمن، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، آپ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ( حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا تھا لیکن رخصتی پہلے ہو گئی تھی، جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی ) اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی ام رومان شامل تھے_,*
[6/6, 5:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی والدہ اونٹ کے کجاوے میں سوار تھیں، راستے میں ایک موقع پر ان کا اونٹ بدک گیا، اس پر ام رومان گھبرا گئی اورپکارا اٹھیں :- ہاے میری بچی ! اس وقت اللہ تعالی کی مدد پہنچی, غیب سے آواز آئی :- اونٹ کی نکیل چھوڑ دو_," رسی اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ہو اللہ کے ہاتھ میں تھی، آپ فرماتی ہیں، میں نے نقل چھوڑ دی، ایسا کرتے ہی اونٹ آرام سے ٹھہر گیا، کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچا _,*
*★_ آخر یہ قافلہ مدینہ پہنچ گیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کے آس پاس اپنے اہل و عیال کے لئے حجرے بنوا رہے تھے، حضرت سودہ، حضرت فاطمہ، اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کو انہین حجرو میں ٹھہرایا گیا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ماں باپ کے ہاں چلی گئیں، اس کے چند ماہ بعد شوال میں آپ کی رخصتی ہوئی، عرب کے لوگ شوال میں شادی کرنے کو برا سمجھتے تھے، بعد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتی تھیں :- "_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں نکاح کیا اور سوال میں میری رخصتی ہوئی، تو اب اس کے خلاف مسلمانوں کو کرنے کا کیا حق ہے_," مطلب یہ کہ شوال میں شادی بیاہ کرنا بالکل درست ہے، اسی طرح آجکل محرم کے مہینے میں شادی نہیں کی جاتی یہ بھی غلط ہے _,*
*★_ رخصتی سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صل وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا تھا :- اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی بیوی کو گھر کیوں نہیں لاتے_," آپ نے ارشاد فرمایا :- "_اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے_," یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- "_ آپ مجھ سے قرض لے لیں _," آپ نے ان کی یہ بات منظور فرما لی, ان سے قرض لے کر مہر ادا کیا, مہر 500 درہم تھا، رخصتی کی کیفیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں بیان کرتی ہیں :-*
*"_ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی کہ والدہ نے آکر مجھے آواز دی، مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کیوں بلا رہی ہیں، میں ان کے پاس پہنچی تو میرا ہاتھ پکڑ کر لے چلیں، میرا سر اور ہاتھ منہ دھوئے، گھر کے اندر انصار کی عورتیں بیٹھی تھیں، انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، یہ چاشت کا وقت تھا_,"*
*★_ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعوت کے لیے دودھ کے ایک پیالے کے سوا کچھ نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تھوڑا سا دودھ نوش فرمایا، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیا_,*
[6/6, 5:55 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ چند دوسری عورتوں کے ساتھ اس وقت وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی تھیں، وہ فرماتی ہیں :- اللہ کی قسم کوئی دعوت نہیں ہوئی, جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ کو دودھ دیا تو آپ شرمانے لگیں، اس پر میں نے کہا، حضور صل وسلم کا عطیہ واپس نہ کرنا _," چنانچہ سیدہ نے دودھ لے لیا اور پیا، پھر آپ نے فرمایا :- اپنی سہیلیوں کو بھی دو _," میں نے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول ! ہمیں بھوک نہیں ہے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کرو _," ( مسند احمد - 6/438)*
*★_ مطلب یہ تھا کہ اگر بھوک ہو تو یوں نہ کہو کہ ہمیں بھوک نہیں یہ جھوٹ ہو جائے گا، غرض اس قدر سادگی سے رخصتی ہوئی، حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :- اللہ کی قسم میری رخصتی میں نہ کوی اونٹ ذبح کیا گیا نہ کوئی بکری، ہاں کھانے کا ایک پیالہ تھا، وہ بھی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا_," ( مسند احمد -6/210)*
*★_سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چونکہ کم عمری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آ گئیں تھیں، اس لیے آپ کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوئی، اسی زمانے میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھا، آپ کا حجرا چونکہ مسجد کے ساتھ ہی تھا، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں سنتی رہتی تھیں، کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بلا جھجھک پوچھ لیتی تھیں_," ( بخاری 1/21)*
*★_ اس کی مثال یوں ہے کہ احادیث کی کتب میں بے شمار مسائل ایسے ہیں جو سیدہ کے پوچھنے سے امت کو معلوم ہوے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال گزارے اور ان نو سال میں خوب علم حاصل کیا، سیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھ پوچھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتی رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ بات پسند فرماتے تھے کہ وہ سوالات پوچھیں، تاکہ وہ دوسری عورتوں کو مسائل بتا سکیں_,*
[6/6, 6:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ امام زہری فرماتے ہیں :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں اور ان کے علاوہ باقی تمام عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم سب سے بڑا ہوا رہے گا_,"*
*"_ حضرت مسروق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خاص شاگرد تھے، وہ فرماتے ہیں :- عمر میں بوڑھے لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرائض ( میراث ) کے بارے میں معلوم کر لیا کرتے تھے _,"*
*★_ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی علمی الجھن پیش آتی تو ہم اس کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کرتے تھے، جب بھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا، انہیں اس مسئلے کے بارے میں ضرور معلوم ہوتا تھا_,"*
*"_ اس طرح بہت سے صحابہ اور تابعین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں،*
*★_ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی :- یا اللہ ! مجھ سے آسان حساب لینا _," حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- اے اللہ کے رسول ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اعمال نامہ دیکھ کر درگزر کر دیا جائے گا _," ( یعنی یہ ہے آسان حساب ),*
*"_ پھر فرمایا :- یقین جانو جس کے حساب میں چھان بین کی گئی, اے عائشہ وہ ہلاک ہوگیا, کیونکہ جس کے حساب کتاب کی چھان بین ہوگی، وہ حساب دے کر کامیاب نہیں ہو سکے گا _,"*
*★_ ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اے عائشہ ! قیامت کے دن لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن بغیر ختنہ کے اٹھائے جائیں گے _," ( یعنی جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں), یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو بڑے شرم کا مقام ہوگا، کیا مرد عورت سب ننگے ہوں گے، ایک دوسرے کو دیکھتے ہونگے _,"*
*"_ سیدہ کے جواب میں آپ نے فرمایا :- اے عائشہ ! قیامت کی سختی اس قدر ہوگی اور لوگ اس قدر بے حال ہوں گے کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہیں ہوگا، مصیبت اتنی ہوگی کہ کسی کو اس کا خیال تک نہیں آئے گا _,"*
[6/6, 6:30 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی :- اے اللہ ! مجھے مسکین زدہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں مجھے اس دنیا سے اٹھا لے اور قیامت میں میرا حشر مسکینوں میں کرنا _,"*
*"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- آپ نے ایسی دعا کیوں کی ؟ جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا :- اس لیے کہ بلاشبہ مسکین لوگ مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے_,"*
*"_ اس کے بعد آپ نے فرمایا :- اگر مسکین سائل کی حیثیت میں آئے تو اسے کچھ دیے بغیر واپس نہ لوٹاؤ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے دو _,"*
*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا :- اے اللہ کے رسول ! یہ جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے، .... اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں،... تو ان خوف زدہ لوگوں سے کون لوگ مراد ہیں، کیا وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوریاں کرتے ہیں _,"*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا :- اے صدیق کی بیٹی نہیں، اللہ کے اس فرمان سے ایسے مراد نہیں، بلکہ اس آیت میں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو روزہ رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور اس کے باوجود اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کے اعمال قبول ہی نہ کیے جائیں، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :- یہ لوگ نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں _,"*
*★_ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- جو شخص اللہ کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالی اس کی ملاقات کو محبوب رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالی کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں_,"*
*"_ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- یہ تو آپ نے بہت گھبرا دینے والی بات سنا دی، موت ہم سب کو تبعاً بری لگتی ہے، لہذا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم میں سے کوئی شخص اللہ تعالی کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا، لہذا اللہ تعالی بھی ہم میں سے کسی کی ملاقات کو پسند نہیں کرتے _,"*
*"_ اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- اس کا یہ مطلب نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اسے اللہ تعالی کی رضا اور اللہ تعالی کی طرف سے انعامات کی خوشخبری سنائی جاتی ہے، لہذا اس کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں رہ جاتی جو مرنے کے بعد اسے پیش آنے والی ہے، اس وجہ سے وہ اللہ تعالی کی ملاقات کو چاہنے لگتا ہے، لہذا اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو چاہتے ہیں، اور بلاشبہ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالی کے عذاب اور اللہ تعالی کی طرف سے سزا ملنے کی خبر دی جاتی ہے، لہذا اس کے نزدیک کوئی چیز اس سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد اسے پیش آنے والی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا _,"*
[6/12, 5:54 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ہاں عورتوں پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں جنگ نہیں یعنی حج اور عمرہ _,"*
*★"_ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- کوئی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا یہی بات ہے نا _," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- ہاں ! یہی بات ہے, کوئی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا _," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یونہی فرمایا ، اب حضرت عائشہ نے پوچھا:- اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گے _,"*
*"_ آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ مار کر فرمایا:- ہاں ! میں بھی جنت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں نہ ڈھانپ لے _," آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا _,*
*★_ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:- اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ لیلۃ القدر کی رات کون سی ہے یا یہ معلوم ہوجائے کہ آج لیلۃ القدر ہے تو میں کیا مانگوں _," آپ نے ارشاد فرمایا:- یہ دعا مانگو ..... اے اللہ ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، لہذا تو مجھے معاف فرما دے _,"*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سب بیویوں سے زیادہ محبت تھی، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ایک روز آپ سے پوچھا:- اے اللہ کے رسول ! آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے _," آپ نے فرمایا :- عائشہ _,"*
*"_اب انہوں نے پوچھا :- اے اللہ کے رسول ! میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے _," آپ نے فرمایا :- ان کے والد ابو بکر سے _," ( بخاری )*
[6/12, 6:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ کے لیے تشریف لے گئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیوار پر ایک اچھا سا پردہ لٹکا لیا، جب آپ واپس تشریف لائے تو اس پردے کو اس زور سے کھینچا کہ وہ پھٹ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- بے شک اللہ تعالی نے ہمیں حکم نہیں دیا کہ ہم پتھروں اور مٹی کو لباس پہنائیں _,*
*★_ ایک مرتبہ چند یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہوں نے دبی آواز میں السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہا، سام موت کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ انہوں نے موت کی بد دعا دی یعنی تم پر موت ہو،... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں صرف اتنا فرمایا :- وعلیکم ( یعنی اور تم پر موت ہو), آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا ہی فرمایا، لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما غصے میں آگئیں اور فرمانے لگیں :- تم پر موت ہو، اللہ کی لعنت ہو اور اللہ کا غضب نازل ہو_,"*
*"_ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اے عائشہ ٹھہرو ! نرمی اختیار کرو اور بد کلامی سے بچو _," عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :- آپ نے سنا نہی، انہوں نے کیا کہا ہے _," حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اور تم نے سنا میں نے کیا جواب دیا، میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی، اب اللہ تعالی میری بد دعا ان کے حق میں قبول فرمائیں گے... اور ان کی بد دعا میرے حق میں قبول نہیں ہوگی _,"*
*★_ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہہ دیا کہ ان کا قد چھوٹا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فوراً ٹوکا اور فرمایا :- یقین جان لو، تم نے ایسا کلمہ کہہ دیا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اسے بھی بگاڑ دے_,"*
*"_ ایک روز آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- اے عائشہ ! چھوٹے گناہوں سے بھی بچو، کیونکہ اللہ کی طرف سے ان کے بارے میں بھی پکڑ ہونے والی ہے _,"*
*★_ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ نصیحت فرمائی :- عائشہ ! اگر تو آخرت میں مجھ سے ملنا چاہتی ہے تو تجھے دنیا میں بس اتنا سامان کافی ہے جتنا مسافر اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور مالداروں کے پاس بیٹھنے سے پرہیز کر اور کسی کپڑے کو پرانا سمجھ کر پہننا مت چھوڑو جب تک کہ اس کو پیوند لگا کر نہ پہن لے _,"*
*"_حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:- خالہ جان اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نیا کپڑا اس وقت تک نہیں بناتی تھیں جب تک کہ پہلی بنائے ہوئے کپڑے کو پیوند لگا کر نہیں پہن لیتی تھیں اور جب تک کہ وہ خوب بوسیدہ نہیں ہو جاتا تھا _,"*
[6/12, 6:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- نبی کریم صل وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سب سے پہلی مصیبت امت میں یہ پیدا ہوئی کہ پیٹ بھر کر کھانے لگے،... جب پیٹ بھرتے ہیں تو بدن موٹے ہو جاتے ہیں اور دل کمزور ہوجاتے ہیں اور نفسانی خواہش زور پکڑ لیتی ہے _,"*
*★_ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا :- گناہوں کی کمی سے بہتر کوئی پونجی ایسی نہیں جسے تم لےکر اللہ تعالی سے ملاقات کرو، جسے یہ خوشی ہو کہ عبادت میں محنت کرنے والے سے بازی لے جائے، اسے چاہیے کہ خود کو گناہوں سے بچائے _,"*
*★_ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ایک خط لکھا، اس خط میں اپنے لئے نصیحت کرنے کی فرمائش کی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا :- تم پر سلام ہو، بعد سلام کے واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضگی کا خیال نہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کی رضا کا طالب ہو، اللہ تعالی اسے لوگوں کی شرارتوں سے بھی محفوظ فرما تے ہیں اور جو شخص اللہ تعالی کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی رکھنا چاہتا ہو تو اللہ تعالی اس کی مدد نہیں کرتے، اسے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں،... وااسلام علیک _," ( مشکوة )*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے دین کا علم دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے قریب ہے، ان میں صحابہ کرام بھی ہیں اور تابعین بھی، آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 48 سال اس دنیا میں گزارے... گویا 48 سال تک دین پھیلایا، آپ تقریباً 22 سو احادیث کی راویہ ہیں،*
*"_ آپ سے دین سیکھنے کے لیے آنے والے لوگوں میں عورتیں تو آپ کے سامنے بیٹھ جاتی تھیں... مرد حضرات پردے کے دوسری طرف بیٹھتے تھے،.. یہ لوگ آپ سے دینی سوالات کرتے تھے اور آپ انہیں جواب بتاتی تھیں _,"*
*★_ آپ ہر سال حج بیت اللہ کے لئے جاتی تھیں، اس موقع پر بھی لوگ دور دور سے آ کر آپ کے پاس جمع ہو جاتے، آپ اپنے خیمے میں بیٹھ جاتیں، سوالات پوچھنے والے خیمے سے باہر رہ کر پوچھتے، فتوے پوچھنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی،*
*"_ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم جیسے بڑے صحابہ بھی آپ سے مسائل معلوم کرنے والے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں ہوتے تھے، وہاں سے قاصد کے ذریعے مسائل معلوم کراتے اور ان پر عمل کرتے تھے، بہت سے لوگ خطوط کے ذریعے آپ سے سوالات پوچھتے تھے _,"*
[6/14, 8:59 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بہت سے لوگ خطوط کے ذریعے آپ سے سوالات پوچھتے تھے، عائشہ بنت طلحہ آپ کی خاص شاگرد تھیں، وہ خطوط پڑھ کر سناتیں اور پوچھتی :- اے خالہ جان ! میں اس خط کے جواب میں کیا لکھوں _," آپ فرماتیں :- اے بیٹا ! اس کے جواب میں یہ لکھ دو...... اور ہدیے کا بدلہ دے دو _,"*
*★_ حضرت اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟ آپ نے بتایا :- اپنے گھر میں کام کاج میں مشغول رہتے تھے اور نماز کا وقت آتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے، آپ اپنی جوتی کی مرمت خود کر لیتے تھے، اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے، اپنے گھریلو کام اس طرح کر لیتے تھے جس طرح عام لوگ کر لیتے ہیں،... آپ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنے کام خود کر لیتے تھے _,"*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا :- میں نے آپ صلی اللہ وسلم کو کبھی پورے دانتوں اور ڈاڑھوں کے ساتھ ہنستے نہیں دیکھا جس سے آپ کے حلق مبارک کو دیکھا جا سکتا، آپ تو بس مسکراتے تھے _,"*
*"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے کبھی کسی کو نہیں مارا، نہ کسی بیوی کو نہ کسی خادم کو، ہاں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اللہ کے دشمن کو مارا ہو تو اور بات ہے، اگر آپ کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی تو آپ اس کا بدلہ نہیں لیتے تھے، ہاں اللہ کے حکم کے خلاف کسی سے کوئی کام ہو جاتا تو آپ اللہ کے لئے اسے سزا دیتے تھے تے _,"*
*★_ آپ فرماتی ہیں:- سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجد سے فارغ ہوکر جب فجر کی دو سنت پڑھ لیتے اور میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مسجد میں جانے تک مجھ سے باتیں کر لیتے تھے یا داہنی کروٹ میں لیٹ جاتے _," ( مسلم )*
*★_ آپ فرماتی ہیں :- سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز ( نفل ) پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو پہلے مختصر دو رکعت پڑھتے تھے، اس کے بعد لمبی سورتوں سے نماز ادا فرماتے اور غیر فرض نمازوں میں جس قدر فجر کی دو رکعتوں کا خاص اہتمام فرماتے تھے اور کسی غیر فرض نماز کا اہتمام نہیں فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، فجر کی دو سنتیں ساری دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہیں _," ( مسلم)*
آپ فرماتی ہیں:- رسول اللہ صلی وسلم میری گود میں سر رکھ کر لیٹ کر قرآن کی تلاوت کر لیتے تھے، حالانکہ میں ان دنوں ایام سے ہوتی تھی
[6/14, 9:18 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹ بھرنے اور مزے دار چیزیں حاصل کرنے اور سامان جمع کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اے عائشہ ! اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ جلیں، مگر مقصد یہ ہے کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس کے قد کا حال یہ تھا کہ اس کی کمر کعبے تک پہنچ رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے رب نے آپ کو سلام فرمایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آم بندوں میں بندہ اور نبی بن کر رہیں اور آپ چاہیں تو نبی اور بادشاہ بند کر رہیں.... میں نے اس بارے میں جبرائیل علیہ السلام سے مشورہ لینے کے لیے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے اشارہ کیا کہ تواضع اختیار کریں، سو میں نے جواب دیا کہ میں نبی ہوتے ہوئے عام بندوں کی طرح رہنا چاہتا ہوں، یہ فرمانے کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا :- میں اس طرح کھانے کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے اور اس طرح بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے _,"*
*★"_ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:- میں ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے میرے لیے کھانا منگوایا، پھر فرمایا :- اگر میں پیٹ بھر کر کھا لوں تو رونا آ جاتا ہے_," میں نے یہ بات سن کر کہا :- یہ کیوں ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- میں اس حال کو یاد کرتی ہوں جس حال میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو چھوڑ کر تشریف لے گئے ہیں، اللہ کی قسم کسی روز بھی آپ صلی اللہ وسلم نے گوشت اور روٹی سے پیٹ نہیں بھرا _," ( ترمذی )*
*"_ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا :- ہم اگر چاہتے تو پیٹ بھر کر کھا لیتے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے _,"*
*★_ ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا :- اے میری بہن کے بیٹے, سچ جانو! ہم تین چاند دیکھ لیتے تھے اور گھر میں آگ نہیں جلتی تھی_," حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ نے پوچھا :- خالہ جان ! پھر آپ حضرات زندہ کیسے رہتے تھے ؟, آپ نے فرمایا :- کھجوروں اور پانی پر گزارہ کر لیتے تھے اور اس کے سوا یہ بھی ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہنے والے انصار اپنے دودھ اور جانوروں کا ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے، آپ ان کا دودھ ہمیں بھی پلاتے تھے _," (بخاری)*
*★_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر بغیر چراغ روشن کیے اور بغیر چولہا جلائے کئی کئی ماہ گزر جاتے تھے، اگر زیتون کا تیل مل جاتا تو تھوڑا سا ہونے کی وجہ سے چراغ میں ڈالنے کے بجائے اسے بدن پر مل لیتے تھے، چربی مل جاتی تو اسے کھانے میں استعمال کرلیتے تھے _،" ( بخاری)*
[6/14, 11:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( تہجد کی نماز کے وقت ) سو جاتی تھی اور میرے پاؤں آپ کے سامنے سجدے کی جگہ پھیلے ہوتے تھے، جب آپ سجدے میں جاتے تو میرے پاؤں کو ہاتھ لگا دیتے تاکہ میں پاؤں ہٹا لوں اور سجدے کی جگہ بن جائے، لہزا میں پاؤں سکیڑ لیتی، جب آپ سجدے سے فارغ ہو جاتے تو میں پاؤں پھیلا دیتی، اس زمانے میں گھر میں چراغ نہیں تھے_,"*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر سوتے تھے، وہ چمڑے کا تھا، اس میں کھجور کی چھال بھری تھی، جس تکیے پر آپ سہارا لگا کر بیٹھا کرتے تھے، اس میں بھی کھجور کی چھال ہوتی تھی_,"*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک گھر میں کپڑے بھی زیادہ نہیں تھے، بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ کا کپڑا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے پاک کیا تو آپ اسی کو پہن کر مسجد میں نماز کے لیے تشریف لے گئے، یعنی ابھی وہ کپڑا گیلا ہوتا تھا _,"*
*★_ حضرت نافع رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :- میں شام اور مصر کا مال دوسرے علاقوں میں تجارت کے لیے لے جاتا تھا، ایک مرتبہ عراق میں گیا، واپس آیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتایا :- میں پہلے تجارت کا سامان لے کر شام جاتا تھا، اس مرتبہ ایراق لے گیا.….. یعنی اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے_," حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:- تم نے ایسا کیوں کیا، تجارت کے لئے اپنا سابقہ علاقہ کیوں چھوڑتے ہو، میں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب اللہ جل شانہٗ تمہارے لئے کسی ذریعے رزق کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں تو جب تک وہ سبب خود ہی بدل نہ جائے یا دوسرا رخ اختیار نہ کر لے تو اسے نہ چھوڑو_,"*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ان چیزوں کی فضیلت حاصل ہے :- نکاح سے پہلے جبریل علیہ السلام میری تصویر لے کر آنحضرت صلی وسلم کے پاس آئے، میرے علاوہ اور ایسی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں آئی جس کے ماں باپ دونوں نے ہجرت کی ہو، اللہ تعالی نے آسمان سے میری برأت نازل فرمائی ( یعنی مجھ پر لگنے والے الزام کو جھوٹا قرار دیا ) ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حالت میں وحی آتی تھی کہ میں آپ کے ساتھ لحاف میں لیٹی ہوتی تھی، آپ صلی اللہ وسلم نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ میری گردن اور گود کے درمیان میں تھے اور دن میری باری کا تھا اور میرے ہی گھر میں دفن ہوئے، میں نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا، میں آنحضرت صل وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت میرے اور فرشتوں کے علاوہ وہاں کوئی موجود نہیں تھا _," (الاصابہ )*
*★_ آنحضرت صل وسلم فرماتے ہیں :- عائشہ کی فضیلت عورتوں میں ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے _," ثرید کو عرب میں تمام کھانوں میں فضیلت حاصل تھی، روٹی کو شوروے دار گوشت میں پکایا جاتا تھا، اسے ثرید کہتے ہیں _,"*
[6/14, 11:48 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک روز جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کیا، آپ صل وسلم نے ارشاد فرمایا :- اے عائشہ ! یہ جبرائیل ہیٹ، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں _," آپ نے جواب میں فرمایا :- وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ _,"*
*★_آپ اکثر روزے رکھتی تھیں، نفل نمازیں بھی بہت پڑھتی تھیں، چاشت کی نماز کا خاص خیال رکھتی تھیں، آپ چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں :- میرے ماں باپ بھی اگر قبر سے اٹھ کر آ جائیں، تب بھی میں اس نماز کو نہیں چھوڑوں گی _,"*
*★_ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمتہ اللہ صبح کے وقت گھر سے نکلتے تو سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر جاتے اور انہیں سلام کرتے، یہ ان کے بھائی کے بیٹے تھے، ایک مرتبہ وہاں گئے تو دیکھا کہ آپ کھڑی نفل پڑھ رہی ہیں، میں ان کے سلام پھیرنے کے انتظار میں کھڑا رہا.. یہاں تک کہ تھک گیا اور آپ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا آیا، میں نے دیکھا وہ اس وقت رو رہی تھیں _," ( صفتہ الصفوة )*
*★_ آپ حضور نبی کریم صلی اللہ وسلم کے ساتھ بھی تہجد پڑھی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اس کا اہتمام کرتی رہیں _," ( مسند احمد )*
*"_ آپ کثرت سے روزے رکھتی تھیں، ایک مرتبہ نو ذی الحجہ کو روزے سے تھیں، سخت گرمی کی وجہ سے سر پر پانی کے چھینٹے دے رہی تھیں، آپ کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھ کر عرض کیا :- اس شدید گرمی میں نفلی روزہ کوئی ضروری نہیں.. افتار کر لیں _," ( یعنی روزہ توڑ دیں) اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :- حضور نبی کریم صل وسلم نے فرمایا ہے، عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں _," ( مشکوة )*
*★_ شریعت نے جن چیزوں سے منع کیا ہے، آپ ان میں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی بچتی تھیں، راستے میں گھنٹی کی آواز آجاتی تو رک جاتی تاکہ آواز کانوں میں نہ آئے _, نیکیوں کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ برائیوں سے روکتی بھی تھیں, آپ نے ایک مکان کرائے پر دیا، کرایہ دار کے بارے میں آپ کو معلوم ہوا کہ وہ شطرنج کھیلتا ہے، آپ نے کہلوا بھیجا :- اس حرکت سے باز آجاؤ.... ورنہ مکان سے نکلوا دوں گی _,"*
[6/20, 7:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ ایک روز آپ کی مشہور شاگرد حضرت معاذہ عدویہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا :- یہ کیا بات ہے کہ عورتوں کی نمازیں خاص ایام میں چھوٹ جاتی ہیں وہ نہیں پڑے جاتی اور جو روزے چھوٹ جاتے ہیں وہ رمضان کے بعد رکھے جاتے ہیں_," اس سوال کے جواب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- اے معاذہ ! کیا تو آزاد خیال ہو گئی ہے _," ( اسلام کو اپنی سمجھ کا تابع کرنا چاہتی ہے اور اسلام کے احکامات کو سمجھے بغیر ماننا پسند نہیں کرتیں),*
*"_ آپ کا مطلب یہ تھا کہ دین کو عقل کے تابع نہیں کرنا چاہیے... جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ گمراہ ہیں،*
*★_ شریعت میں بعض اوقات وضو یا غسل کی جگہ تیمم کیا جاتا ہے، امت کے لئے اس میں بہت آسانی ہے،... یہ تیمم کا حکم بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے نازل ہوا, واقعے کی تفصیل یہ ہے، آپ فرماتی ہیں:-*
*"_ ہم رسول اللہ صلی وسلم کے ساتھ سفر میں گئے، بہت سے مسلمان ساتھ تھے، رات کے وقت مقام بیدا میں قیام کیا گیا، وہاں میرے ہار کی لڑی ٹوٹ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈنے کا حکم فرمایا، اس طرح نماز میں دیر ہوگئی اور وہاں پانی نہیں تھا، یعنی ہار گم نہ ہوتا تو سب لوگ آگے روانہ ہو جاتے اور پانی مل جاتا، اس پر کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے :- "_ آپ دیکھ رہے ہیں۔... آپ کی بیٹی نے کیا کیا, ان کے ہار کی وجہ سے آپ صل وسلم نے سب کو روک لیا ہے... اور یہاں قریب کہیں پانی نہیں ہے_,"*
*★_ ان کی ہی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور آپ کو ڈانٹنے لگے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ کمر میں کچوکے بھی مارے، اس وقت آنحضرت صلی وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ران پر سر رکھے سو رہے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس خیال سے حرکت تک نہ کی کہ آپ کی آنکھ کھل جائے گی اور آپ بے آرام ہوں گے، آپ سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی موجود نہیں تھا، لہزا اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرما دی، سب نے تیمم کیا اور نماز ادا کی، یہ سب دیکھ کر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ خوشی سے پکارے :- اے ابوبکر کے گھر والوں ! تم واقعی بہت برکت والے ہو، یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے _," یعنی پہلے بھی تم لوگوں کی وجہ سے برکتیں نازل ہو چکے ہیں _,*
*★_ پھر جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والے اونٹ کو اٹھایا گیا تو آپ کا ہار اس کے نیچے سے مل گیا، اس طرح امت کو تیمم کی سہولت ملی،*
[6/20, 8:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :- "_ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر قرآن کا علم رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا, نہ اسلام کے فرائض, حلال و حرام کا جاننے والا اور عرب کے واقعات کا جاننے والا آپ سے بڑھ کر کوئی دیکھا, آپ اہل عرب کے نسب کی بھی سب سے زیادہ واقف تھیں _,"*
*"_ اس کے علاوہ آپ حکمت بھی جانتی تھیں, لوگوں کو امراض کی دوائیی بتا دیتی تھیں،*.
*★_ اسی لیے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- اے اماں جان ! مجھے آپ کے فقیہ ہونے پر حیرت نہیں کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترم ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور نہ مجھے آپ کی شعردانی پر اور عرب کے واقعات سے واقفیت پر حیرت ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت میں آپ نے یہ سب سیکھ لیا، لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آپ کو طب سے کیوں کر واقفیت ہوگئی _,"*
*"_ اس سوال کے جواب میں آپ نے حضرت عروہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا :- عروہ بیٹا ! طب میں نے اس طرح سیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر میں بیمار ہوجاتے تھے اور لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علاج کے طریقے اور دعائیں بتاتے تھے اور میں ان کے ذریعے آپ کا علاج کرتی تھی _,"*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہایت سخی تھیں، ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کا بھی سخاوت میں بہت بڑا درجہ تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- "_ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء سے بڑھ کر کوئی سخی عورت نہیں دیکھی، لیکن دونوں کی سخاوت میں ایک فرق یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھوڑا تھوڑا جمع کرتی رہتی تھیں، یہاں تک کہ جب کافی مقدار جمع ہوجاتی تو ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتی تھیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ کل کے لئے کچھ بچا کے نہیں رکھتی تھیں _,"*
*★_ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتے ہیں :- "_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک روز 70 ہزار کی مالیت ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دی اور اپنا حال یہ تھا کہ تقسیم کرتے وقت آپ کے کرتے میں پیوند لگے ہوئے تھے _,"*
[6/20, 8:22 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک تھالی میں سچے موتی بھر کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجے، ان کی قیمت ایک لاکھ روپے تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ ہدیہ قبول کر کے اپنے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں تقسیم فرما دیا _,"*
*★_ ایک روز آپ کا روزہ تھا، اسی روز آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو بورے بھر کر ہدیہ کے طور پر بھیج دیے، اس مال کی مالیت دو لاکھ کے قریب تھی، آپ اسی وقت تقسیم کرنے بیٹھ گئیں، جب شام ہوئی تو اس میں سے ایک درہم بھی باقی نہیں بچا، روزہ افطار کرنے کا وقت آیا تو خادمہ سے فرمایا :- "افطار کے لئے کچھ لاؤ _," وہ زیتون کا تیل اور روٹی لے آئیں، اس وقت آپ کے پاس ایک خاتون ام ذرہ بیٹھی تھیں، ان کا بھی روزہ تھا، وہ بول اٹھیں :- "_ آپ نے آج اتنا مال تقسیم کیا اس میں سے ایک درہم اپنے لیے بھی رکھ لیا ہوتا، اس کا گوشت منگا لیتے، اس سے ہم افطار کر لیتے _,"*
*"_ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- اب کہنے سے کیا ہوتا ہے، اس وقت یاد دلایا ہوتا تو میں رکھ لیتی _,"*
*★_ ایک واقعہ آپ خود بیان فرماتی ہیں:- ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں، اس نے سوال کیا، اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں تھا، میں نے وہی اسے دے دی، اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کو دے دیا، خود نہ لیا، اس کے بعد چلی گئی، تھوڑی دیر بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم زنان خانے میں تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا :-*
*"_ جو شخص ان بچیوں کی پرورش میں تھوڑا بہت بھی مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا, تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی _,"*
*★_ ایک روز آپ کے گھر میں بکری ذبح کی گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر تشریف لے گئے، کچھ دیر بعد تشریف لائے تو دریافت فرمایا :- بکری کا کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- " وہ تو صدقہ کر دی گئی، بس ایک دستی بچی ہے _,"*
*"_ اس پر آپ نے فرمایا :- واقعہ یہ ہے کہ اس دستی کے علاوہ سب کچھ بچا ہوا ہے ؟", مطلب یہ تھا کہ جو اللہ کے راستے میں دے دیا، باقی تو وہی ہے، اور جو ہمارے پاس ہے اسے تو باقی کہنا درست نہیں _,*
[6/23, 5:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ اللہ تعالی سے بہت زیادہ ڈرنے والی، آخرت کی بہت فکر کرنے والی تھیں، ایک مرتبہ دوزخ کا خیال آگیا تو رونے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا تو بولیں :- دوزخ کا خیال آگیا، اس لئے رو رہی ہوں _,"*
*"_ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگیں:- اے اللہ کے رسول ! جب سے آپ نے منکر نکیر کی ہیبت ناک آواز کا اور قبر کے بھینچے جانے کا ذکر فرمایا ہے، اس وقت سے مجھے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی، دل کی پریشانی دور نہیں ہوتی _,",*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- اے عائشہ ! منکر نکیر کی آواز کا مومن کے کانوں کو دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے کسی کے سر میں درد ہو اور اس کی شفیق ماں اس کے سر کو آہستہ آہستہ دبائے اور وہ اس سے راحت پائے _,"*
*★_ پھر آپ نے فرمایا :- اے عائشہ ! اللہ کے بارے میں شک کرنے والوں کے بارے میں بڑی خرابی ہے اور وہ قبر میں اس طرح بھینچے جائیں گے جیسے انڈے پر پتھر رکھ کر دبا دیا جائے _,"*
*★_ آپ فرماتی ہیں کہ ایک روز آپ کے گھر میں ایک یہودی عورت آئی، اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا، ساتھ ہی اس نے کہا :- اللہ تعالی تجھے قبر کے عذاب سے پناہ میں رکھے _,"*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو میں نے آپ سے پوچھا :- اے اللہ کے رسول ! کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا :- قبر کا عذاب حق ہے _," اس کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے لگے _,"*
*★_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خالہ کی بے پناہ سخاوت کو دیکھ کر ایک دن کسی سے یوں کہہ دیا :- یا تو وہ اس طرح خرچ کرنے سے رک جائیں ورنہ میں ان کا ہاتھ روک دوں گا_,"*
*"_ یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک بھی پہنچ گئی، آپ نے فرمایا :- اچھا ؟ عبداللہ نے ایسا کہا ہے_," حاضرین میں سے کسی نے کہا :- جی ہاں ! انہوں نے ایسا ہی کہا ہے_," یہ سن کر آپ نے فرمایا :- "_ میں نے نذر مان لی، زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے کبھی نہیں بولوں گی _,"*
*"_ اس کے بعد ایک مدت سے بول چال بند رکھں، پھر کچھ حضرات درمیان میں پڑے، تب کہیں جا کر بولنا شروع کیا، آپ چونکہ نذر مان چکی تھی اور نثر نذر کے ٹوٹنے پر ایک غلام آزاد کرنا پڑتا ہے، اس لیے ایک غلام آزاد کر دیا، لیکن خوف خدا کا عالم یہ تھا کہ ایک غلام آزاد کرنے کے بعد بھی بار بار اس سلسلے میں غلام آزاد کرتی رہیں کہ شاید اب خطا معاف ہو جائے، اب معاف ہو جائے _,"*
[6/23, 6:27 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے عمر میں چند سال بڑی تھیں لیکن ان کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بعد میں ہوئی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پہلے آ گئی تھیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی تیاریوں میں حضرت عائشہ صدیقہ نے بھرپور حصہ لیا، ان کا مکان لیپا، بستر لگایا، اپنے ہاتھ سے کھجور کی چھال دھن کر تکیے بنائے، لکڑی کی الگنی تیار کی تاکہ اس پر پانی کی مشق اور کپڑے لٹکائے جائیں، آپ خود بیان کرتی ہیں :- فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیاہ سے اچھا میں نے کوئی بیاہ نہیں دیکھا _,"*
*★_ شادی کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جس گھر میں گئیں، اس میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، درمیان میں ایک دریچہ تھا، اس دریچے سے آپس میں بات چیت ہو جاتی،*
*"_ حدیث کی کتابوں میں کوئی صحیح واقعہ ایسا نہیں جس سے ثابت ہو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل آپس میں صاف نہیں تھے، احادیث سے یہی ثابت ہے کہ دونوں میں بے حد محبت اور میل ملاپ تھا_,"*
*★_ ایک تابعی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا_," حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- فاطمہ _,"*.
*"_ پھر فرمایا :- میں نے فاطمہ سے زیادہ اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا کسی اور کو نہیں دیکھا، جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چوم لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے _," ( مسلم)*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- ایک دن ہم سب بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آ گئیں، ان کی چال بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چال تھی، ذرا بھی فرق نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عزت سے ان کو پاس بٹھا یا، پھر دبی آواز میں ان کے کان میں کچھ فرمایا، وہ سن کر رونے لگیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیقراری دیکھ کر پھر کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں،*
*"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے ان سے کہا :- فاطمہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف تم سے راز کی باتیں کہتے ہیں اور تم روتی ہو_,"*.
*"_ پھر جب آپ صلی اللہ وسلم وہاں سے چلے گئے تو میں ان سے پوچھا :- فاطمہ ! آپ صل وسلم کیا فرما رہے تھے؟ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں :- "_میں باپ کا راز نہیں کھولوں گی_,"*
*"_ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو میں نے دوبارہ کہا :- فاطمہ ! میرا تم پر جو حق ہے, میں تمہیں اس کا واسطہ دیتی ہوں, اس دن کی بات مجھ سے کہہ دو_,"*
*"_ انہوں نے جواب دیا :- ہاں ! اب یہ ممکن ہے, میرے رونے کا سبب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلد وفات کی اطلاع دی تھی، اس پر میں رونے لگی، پھر آپ نے فرمایا، فاطمہ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم تمام دنیا کی عورتوں سے کی سردار بنو _," ( بخاری )*
*★_ اس حدیث سے حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی آپس کے محبت بھرے تعلقات ثابت ہوتے ہیں اور یہ واقعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے آخری حصے کا واقعہ ہے، اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان میں تو آپس میں ناراضگی تھی وہ بالکل غلط کہتے ہیں، اسی طرح وراثت وغیرہ کے معاملات نے ان پاک نفوس کو کوئی رنج و غیرہ نہیں پہنچایا تھا، ۔ یہ مقدس ہستیاں کیا زمین و جائیداد کے لیے جھگڑتیں، ہرگز نہیں _,*
[6/28, 8:58 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کی سب سے زیادہ دردناک واقعہ کی تفصیل بیان کرتی ہیں، آنحضرت صلی وسلم جب کسی سفر پر جاتے تو ازواج مطہرات میں قرعہ اندازی فرماتے، قرعہ اندازی میں جن کا نام نکل آتا آپ سفر میں انہیں ساتھ لے جاتے، شعبان پانچ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ وسلم غزوہ بنی مصطلق کے لئے روانہ ہوئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی، منافقوں کو اندازہ تھا کہ اس غزوے میں کوئی خوں ریز جنگ نہیں ہوگی چنانچہ ان کی اچھی خاصی تعداد اسلامی لشکر میں شامل ہو گئی، اس سے پہلے منافق لوگ اتنی بڑی تعداد میں اسلامی لشکر میں کبھی شامل نہیں ہوئے تھے _,"*
*★_ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام قرعہ نکلا تھا، لہذا آپ ساتھ تھیں، روانہ ہوتے وقت آپ نے اپنی بڑی بہن اسماء رضی اللہ عنہا کا ہار پہننے کے لیے لے لیا تھا، وہ آپ کے گلے میں تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں، بار بار ٹوٹ جاتی تھیں، اس زمانے میں پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا، اس پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے محمل میں سوار ہوتی تھیں، ڈولی کی قسم کی چیز کو محمل کہتے ہیں، آپ اس میں بیٹھ جاتیں اور محمل کو اونٹ پر رکھ دیا جاتا، اترنے کی ضرورت پیش آتی تو خادم محمل کو اٹھا کر زمین پر رکھ دیتے، اس طرح آپ محمل سے باہر نکل کر اپنی ضرورت سے فارغ ہو لیتیں _,"*
*★_ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر ایک جگہ لشکر نے پڑاؤ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے پچھلے پہر لشکر کو روانگی کا حکم فرما دیا، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم نہیں تھا، قافلہ کے روانہ ہونے سے کچھ دیر پہلے آپ قضاء حاجت کے لئے قافلے سے کچھ دور چلیں گئیں، فارغ ہو کر لوٹیی تو گلے پر ہاتھ رکھ کر ٹٹولا، معلوم ہوا ہار گلے میں نہیں تھا، آپ گھبراہٹ میں اس جگہ سے واپس گئیں اور ہار تلاش کرنے لگیں،*
*"_ بعض روایات میں ہے کہ ہار وہاں ٹوٹ کر گر گیا تھا اور اس کے دانے بکھر گئے تھے، ان دانوں کو جمع کرنے میں آپ کو دیر ہوگئی، جب آپ ہار کی تلاش میں واپس لوٹیں تھیں تو آپ کو اندازہ تھا کہ جلد لوٹ آئیں گی، اس لئے کسی کو نہ بتایا کہ وہ ہار کی تلاش میں جا رہی ہیں، نہ محمل اٹھانے والوں کو بتایا _,"*
*★_ ادھر لشکر روانگی کے لئے تیار تھا، لہذا سار بانو نے محمل اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا، اس زمانے میں آپ دبلی پتلی تھیں، آپ کا وزن بہت کم تھا، اس لئے محمل اٹھانے والوں کو پتہ نہ چلا کہ آپ اس میں نہیں ہیں، ان کا خیال یہی تھا کہ آپ محمل میں ہیں، اس طرح قافلہ وہاں سے آپ کے بغیر روانہ ہو گیا، آپ کو ہار کے دانے مل گئے تو آپ واپس لوٹیں اور یہ دیکھ کر پریشان ہوگیں کہ قافلہ وہاں سے جا چکا تھا، وہاں بالکل سناٹا تھا، آپ نے سوچا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گا کہ میں محمل میں نہیں ہوں تو آپ میری تلاش میں کچھ ساتھیوں کو اسی طرف بھیج دیں گے، یہ سوچ کر آپ نے چادر تانی اور ایک درخت کے نیچے لیٹ گئیں، لیٹتے ہی آپ کو نیند نے آ لیا _,"*
[6/28, 9:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے، ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ قافے کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا... تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے آپ کو پہچان لیا،،*
*"_ انہوں نے نظر پڑتے ہی "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھا،*.
*★_ ان کی آواز سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی آپ نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی،*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا -"ماں! سوار ہوجایئے! "*
*"_میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا: -"حَسْبِيَ اللّهُ وَ نِعْمَ الوَكِيْل." (اللہ تعالٰی کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے) پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ دوپہر کا وقت تھا،,*
*★_ اس اہم ترین واقعے میں اور بھی بہت سی حکمتیں موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی کتاب نہیں ہے، ورنہ ایک ماہ تک اپنی زوجہ محترمہ کو اور ان کے ماں باپ کو رلانے کی کیا ضرورت تھی، آپ فوراً ہی فرما دیتے کہ یہ بہت بڑا بہتان ہے، بلکہ یہ اعلان اللہ تعالی کی طرف سے تقریباً ایک ماہ بعد ہوا _,*
*★_ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو وحی نازل ہوتی تھی، اسے چھپانے کا اختیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا، جو کچھ نازل ہوتا تھا، وہ آپ دوسروں کو سناتے تھے، لہذا یہ پورا واقعہ مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر ہے_,"*
*★_ یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام چھپی اور غائب باتوں کا، ہر ہر چیز کا علم نہیں تھا، یہ جاہلوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اور ولی سب کچھ جانتے ہیں، صحیح عقیدہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہے یہ ہے کہ عالم الغیب ہر شے کا علم رکھنے والا صرف اللہ تعالی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق سے زیادہ علم عطا کیا تھا مگر عالم الغیب نہیں بنایا تھا، اگر عالم الغیب ہوتے تو اتنے دنوں تک وحی کا انتظار کیوں فرماتے _,"*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے تمام ازواج مطہرات کے پاس بیٹھے تھے، اس معمول میں قدرے فرق اس طرح آیا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ زیادہ وقت کے لئے بیٹھنے لگے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں کہیں سے شہد آ گیا، آپ کو چونکہ شہد بہت پسند تھا، اس لئے حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کو شہد پیش کرتی تھیں، سو اس وجہ سے قدرے زیادہ وقت لگ جاتا تھا _,"*
*★_ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کا ذکر کیا اور مشورہ کیا کہ اس سلسلے میں کوئی تدبیر کرنی چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت نفاست پسند تھے، ذرا سی بو بھی آپ کو ناگوار گزرتی تھی اور شہد کی مکھیاں جس قسم کے پھولوں سے رس چوستی ہیں، شہد کی مٹھاس میں اس قسم کے پھولوں کی لذت اور بو ہوتی ہے، عرب میں ایک پھول کا نام مغافیر ہے، یہ قدرے تیز بو والا پھول ہے، شہد کی مکھیاں عام طور پر وہاں اس پھول پر بیٹھتی ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو سمجھا دیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو پوچھنا چاہیے کہ آپ کے منہ سے یہ بو کیسی آ رہی ہے، جب آپ کو بتائیں کہ شہد کھایا ہے تو کہنا چاہیے کہ اس میں مغافیر کی بو ہے، ایسا ہی کیا گیا، جب آپ کو معلوم ہوا کہ منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا :- ٹھیک ہے ! اب میں شہد نہیں کھاؤں گا _,"*
*★_ اس پر اللہ تعالی نے فوراً یہ آیت نازل فرمائی :- "_ اے پیغمبر ! اللہ نے آپ کے لئے جو حلال کیا ہے، اسے اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو، اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور اس نے آپ کی قسم کا کفارہ مقرر کر دیا ہے، اللہ تعالی آپ کا مولا اور علم و حکمت والا ہے _," ( سورہ تحریم آیت 10 )*
*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر ابھی صرف 18 سال کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا، 11 ہجری میں ماہ صفر کی آخری تاریخوں میں ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لائے تو آپ کے سر میں درد تھا، وہاں سے آپ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے اور طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے بستر پر لیٹ گئے، تمام بیویوں کو آپ کی طبیعت کی خرابی کی خبر ہوگئی، سب آپ کے گرد جمع ہو گئیں، انہوں نے محسوس کیا کہ آپ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ سب نے خوشی سے اجازت دے دی، آپ وہاں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے آئے اور اس دنیا میں آخری وقت تک پھر وہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتقال کے وقت کی جس قدر بھی روایات ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت کی گئی ہیں _,"*
[7/4, 10:03 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سر درد کے ساتھ آپ کو بخار بھی ہو گیا تھا اور مرض میں روز بروز شدت آ رہی تھی، آپ کی ازواج مطہرات تیمارداری میں لگیں تھیں اور اللہ تعالی سے آپ کی صحت کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا وقت آ چکا تھا، وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک سیدہ عائشہ کی گود میں تھا، آپ فرماتی ہیں :- اچانک مجھے آپ کے بدن کا بوجھ محسوس ہوا، آپ کی آنکھیں دیکھیں وہ کھلی تھیں، میں نے آپ کا سر مبارک تکیے پر رکھ دیا اور رونے لگی _,"*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا اور یہ جنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے، ایک مرتبہ سیدہ نے خواب میں دیکھا تھا کہ تین چاند ٹوٹ کر آپ کے حجرے میں آ گرے ہیں، آپ نے اس خواب کا ذکر اپنے والد محترم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا، جب سرکار عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس حجرے میں دفن ہوئے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- "_ تین چاندوں میں سے ایک یہ ہے اور ان میں سب سے بہتر ہے_,"*
*"_ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ دوسرے دو چاند ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی_,"*
*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب آپ بیوہ تھیں، اسی عالم میں آپ نے اپنی زندگی کے پچاس سال بسر کیے، آپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس ہی سوتی رہیں، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو وہاں سونا چھوڑ دیا، تاہم حجرے میں آنا جانا نہ چھوڑا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی اور آپ کو بھی روضہ مبارک میں دفن کیا گیا، اس پر بھی آپ آتی جاتی رہیں اور اندر چہرہ ڈھانک کر نہیں رکھتی تھیں، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور آپ کو وہاں دفن کیا گیا تو پھر آپ پردہ کر کے وہاں آنے لگیں، اس بارے میں آپ فرماتی ہیں :- "_ اب یہاں بے پردہ آتے حیا آتی ہے _,*
*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے والد بزرگوار کو خلیفہ چنا گیا، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے ایک روز چاہا کہ وراثت حاصل کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجیں، لیکن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یاد دلایا :- "_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں فرمایا تھا, ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑتے ہیں، وہ صدقہ ہوگا _,"*
*"_یہ سن کر سب خاموش ہو گئیں,*
[7/4, 10:22 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دو سال تک خلیفہ رہے، 13 ہجری میں آپ کا انتقال ہو گیا، نزع کے وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھیں، آپ نے ان سے پوچھا :- اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بتایا :- تین سفید کپڑے_,"*
*"_ انہوں نے پوچھا :- آپ نے کس روز وفات پائی تھی ؟ سیدہ نے جواب دیا:- پیر کے روز _,"*
*"_ آپ نے پوچھا:- آج کون سا دن ہے ؟ انہوں نے بتایا :- آج پیر ہے ، اس پر ابو بکر صدیق نے فرمایا :- آج رات تک میرا بھی چل چلاؤ ہے _," پھر فرمایا :- مجھے انہیں کپڑوں میں دفن کیا جائے_," ان سے کہا گیا :- یہ پرانے کپڑے ہیں _," آپ نے فرمایا :- نئے کپڑوں کی ضرورت مردوں کی نسبت زندوں کو زیادہ ہے_," ( بخاری)*
*★_ آپ اسی روز انتقال کر گئے، آپ کو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا، یہ دوسرا چاند تھا جو آپ کے حجرے میں اتر آیا تھا _,"*
*★_ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تمام ازواج مطہرات کو بارہ ہزار درہم سالانہ دیا جاتا تھا، کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا :- آپ نے ان کے لیے یہ رقم کیوں مقرر کی ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :- یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب اور منظور نظر تھیں _,"*
*"_ عراق فتح ھوا تو مال غنیمت میں موتیوں کی ایک ڈبیہ بھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا :- اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں یہ موتی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دوں، کیونکہ سیدہ عائشہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت محبوب تھیں _,",*
*"_ سب نے خوشی سے اجازت دے دی, چنانچہ ڈبیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دی گئی،*
*★_ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ آنحضرت صل وسلم کے ساتھ دفن ہوں، لیکن آپ نے اس خواہش کا کبھی اظہار نہیں کیا تھا، جب آپ کا آخری وقت آ پہنچا تب یہ خواہش ظاہر کی اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور ان سے فرمایا :- ام المومنین کو میری طرف سے سلام کہنا اور ارض کرنا، عمر کی خواہش ہے کہ وہ اپنے رفیقوں کے پہلو میں دفن ہو _,"*
*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- وہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی لیکن عمر کی خوشی کے لئے ان کے لئے یہ اجازت دیتی ہوں _,"*
*"_چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ صدیق رضی اللہ عنہا کے حجرے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا، اس طرح اس حجرے میں تیسرا چاند اتر آیا _,"*
[7/6, 6:44 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ تمام مسلمانوں کی ماں تھیں، مسلمانوں کو ان سے بہت محبت تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنے ایک ماں ہونے کے ناطے بہت اہم کردار ادا کیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں عبداللہ ابن سبا نے اسلامی سلطنت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش شروع کی، یہ شخص یہودی تھا، بس ظاہر میں مسلمان تھا، اس نے سازش کا ایک جال چاروں طرف بچھا دیا، آج تک مسلمان اس سازش کے نقصانات بھگت رہے ہیں_,*
*★_ اس کی سازش کا اصل نکتہ یہ تھا کہ لوگوں میں کہتا پھرتا تھا :- لوگوں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے اصل جانشین دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں وصیت کر دی تھی کہ میرے بعد انہیں خلیفہ بنایا جائے _,*
*★"_ یہ بات لے کر اس نے سارے اسلامی ریاست کا دورہ کیا, ہر طرف یہ بات خوب پھیلائی, اس زمانے میں کوفہ, بصرہ اور مصر میں اسلامی فوج کی بڑی بڑی چھاؤنیاں تھیں, وہاں اس نے زیادہ کوشش کی اور اس نے بہت سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا، حج کا زمانہ آیا تو یہ سب لوگ حجاز پہنچ گئے اور وہاں بھی ان باتوں کو پھیلانے لگے _,*
*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ نے انہیں سمجھایا اور واپس جانے پر آمادہ کر لیا، یہ لوگ چلے تو گئے لیکن کچھ دور جا کر پھر لوٹ آئے، صحابہ کرام کو ان کے دوبارہ آنے کی اطلاع ملی تو فوراً ان کے پاس پہنچے، ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ نے ان سے پوچھا :- کیا بات ہے، تم پھر آگئے ؟*
*"_ اس پر ان میں سے ایک نے کہا :- ہمارے پاس ایک خط ہے, یہ خط مصر کے گورنر کے نام لکھا گیا ہے, اس خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ جب یہ لوگ مصر پہنچیں تو ان کے سرگنوں کو فوراً قتل کر دو، باقیوں کو قید میں ڈال دو اور یہ خط مروان بن حکم کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے _,"*
*★_ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کے ہاتھ سے لکھوایا ہے، مروان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے، اس خط پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مہر بھی لگی ہوئی تھی،*
*★_ اور اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیرے میں لے لیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ مجبوراً اپنے گھروں کو لوٹ گئیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ یہ خط انہوں نے نہیں لکھوایا، اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ خط جعلی تھا اور باغیوں نے خود لکھا تھا، سازشی لوگ اس قسم کے کام نہ کریں تو ان پر یقین کون کرے، بہرحال یہ ان کی چال تھی، وہ ہر حال میں عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا چاہتے تھے، تاکہ امت مسلمہ میں خانہ جنگیوں کا آغاز ہوجائے اور آخر کار انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو چالیس روز کے محاصرے کے بعد شہید کردیا _,*
[7/7, 6:53 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حج کے ارادے سے مکہ معظمہ گئی ہوئی تھیں، مدینہ منورہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، ہر طرف بے چینی پھیل گئی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حج سے فارغ ہو کر مکہ سے نکل چکی تھیں کہ مدینہ منورہ کی طرف سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما آگئے، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ قریشی ہیں، سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں شامل ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں اور اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف ہیں اور پھر عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، اسی طرح حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں، آپ بھی نبی کریم صل وسلم کے ہم زلف تھے، یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد تھے، صحابی رسول تھے،*
*★_ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو بتایا:- "_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فتنہ پروازوں نے شہید کردیا ہے اور شدید ابتری پیدا ہوگئی ہے، لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے_,"*
*"_اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- ہمیں سوچنا ہوگا کہ اب کیا کیا جائے _,"*
*"_ اب یہ حضرات واپس مکہ معظمہ آ گئے، لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو ان کے ارد گرد جمع ہونے لگے،*
*★_ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قرآن کریم کی آیت تلاوت کی، اس کا ترجمہ یہ ہے :-*
*"_ اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پس اگر ایک جماعت دوسری پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والی جماعت سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے تو دونوں میں صلح کرا دو _," ( سورہ الحجرات :-١.)*
*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو اللہ کا یہ حکم سنایا، آپ بہت بہادر تھیں، آنحضرت صلی اللہ کے زمانے میں بعض غزوات میں شریک رہ چکی تھیں، آپ غزوۂ بدر میں بھی گیں تھیں، غزوۂ احد میں جب مسلمان دشمنوں میں گھر گئے تھے اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ رہے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مشک کاندھے پر ڈال کر زخمیوں کو دوڑ دوڑ کر پانی پلا رہی تھیں، غزوہ خندق میں جب مسلمان گھیرے میں تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا زنانہ قلعے سے نکل کر جنگ کی حالت دیکھا کرتی تھیں _," ( مسند امام احمد)*
*★_ مطلب یہ کہ بہت ہی دلیر تھیں، مسلمانوں کی اصلاح کرنے کی خواہش مند تھیں، اس موقع پر اسی لئے آپ نے یہ آیت تلاوت کی، آپ نے ان سب سے یہ بھی فرمایا :- اللہ کی قسم ! عثمان مظلوم مارے گئے، میں ان کے خون کا بدلہ لونگی، افسوس ادھر ادھر کے آئے ہوئے بلوائیوں نے مدینہ کے غلاموں کے ساتھ ملکر بلوہ کیا، انہوں نے ناحق عثمان کی مخالفت کی، جس خون کو اللہ تعالی نے حرام کیا تھا، انہوں نے اس کو بہایا، جس گھر کو اللہ تعالی نے اپنے رسول کا دارالہجرت بنایا تھا، انہوں نے وہاں خوں ریزی کی اور جس مہینے میں خوں ریزی منع تھی، اس مہینے میں خوں ریزی کی، جس کا مال لینا جائز نہیں تھا، اسے لوٹا، اللہ کی قسم عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی بلوائیوں جیسے تمام لوگوں سے افضل ہے، جس وجہ سے یہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دشمن ہوئے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ اس سے پاک صاف ہیں _,"*
[7/9, 8:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عرب کے رئیسوں نے کئی لاکھ درہم اور سواریوں کے اونٹ مہیا کیے، پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قیام گاہ پر جلسہ ہوا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی :- اس وقت چونکہ سبائی لوگ اور باغی مدینہ منورہ ہی میں ہیں، اس لیے ادھر کا رخ کیا جائے _,"*
*"_ اس پر کچھ لوگوں نے مشورے دیے اور آخر طے یہ پایا کہ پہلے بصرہ چلا جائے.. آخر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس قافلے کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں، امہات المؤمنین اور عام مسلمانوں نے دور تک آ کر اس قافلے کو رخصت کیا، اس وقت وہ لوگ رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے :- آہ ! مسلمانوں پر کتنا نازک وقت آیا ہے _،*
*★_ اس موقع پر کچھ فتنہ پرور لوگ بھی اس جماعت میں شامل ہوگئے، اسلام کو اندر ہی اندر کمزور کرنے والے لوگ شروع سے چلے آرہے تھے، لیکن پہلے انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا، ان کی پہلی کوشش حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی صورت میں کامیاب ہوئی تھی... اور دوسری کوشش تھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی,.. اس کے بعد یہ عناصر اور زیادہ سرگرم ہو گئے, جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فوج لے کر مکے سے نکلی ہیں تو ان کے لئے فوج میں شامل ہونا آسان کام تھا _,*
*★_ آپ مکہ سے روانہ ہوئیں تو ایک بستی کے کتے لشکر پر بھونکنے لگے، اس مقام پر ایک روایت بیان کی جاتی ہے.. پہلے وہ روایت نقل کی جاتی ہے :-*
*"_ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے نہ جانے کون ہوگی جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے_,"*
*"_ حواب کسی بستی کا نام تھا، ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت وہ بیوی غلطی پر ہو گی، یہ روایت طبری جلد 3 کے صفحہ 475 پر ہے، اس کے بارے میں تین طرح کی باتیں لکھی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ بستی حواب کی ہی تھی مگر لوگوں نے آپ کو یہ معلوم نہیں ہونے دیا، دوسری روایت یہ ہے کہ وہ بستی حواب کی نہیں تھی، تیسری یہ کہ یہ روایت ہے ہی گھڑی ہوئی_,"*
*"_تینوں صورتوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بے قصور ٹھہری ہیں، اس طرح نکلنا دراصل آپ کا اجتہاد تھا اور ایسا آپ نے سورہ الحجرات کی آیت کے تحت کیا تھا،*
*★_ بعض روایات میں ہے کہ کتوں کا بھونکنا سن کر جب آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی بستی ہے اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ حواب کی بستی ہے، تو آپ نے فرمایا :- تب تو میں یہاں سے واپس جاتی ہوں_,"*
*"_ یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- آپ واپس جانا چاہتی ہیں... کیا خبر... اللہ تعالی آپ کے ذریعے لوگوں میں صلح کرا دے _,"*.
*"_کچھ اور لوگوں نے بھی کہا :- بلکہ آپ آگے بڑھیں، مسلمان آپ کو دیکھیں گے تو صلح کر لیں گے_,"*
*"_ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت کئی لوگوں نے یقین کے ساتھ کہا کہ یہ بستی کوئی اور ہے، حواب نہیں، ان روایت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس طرح نکلنے کا مقصد صرف مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا تھا، آپ جنگ کے ارادے سے نہیں نکلی تھیں_,*
[7/10, 8:35 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ ایک جماعت کو لے کر نکلیں ہیں، تو آپ مدینہ منورہ سے نکل کھڑے ہوئے، اس وقت کوفہ میں امیر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور پر سکون رہنے کی ہدایت کی_,"*
*★_ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ فرمایا، ان دونوں نے کوفہ کی جامع مسجد میں تقریر کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بیان کی... اس کے بعد انہوں نے کہا:-*
*"_ یہ سب ٹھیک ہے, لیکن اس وقت اللہ تعالی مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے _,*
*★_ مسلمان پریشان تھے، ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے، لوگوں کی الجھن یہ تھی کہ ان حالات میں وہ کس کا ساتھ دیں، ایسے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بصرہ کے قریب پہنچ گئیں، بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف تھے، انہوں نے صورتحال معلوم کرنے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا، یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے کہا :- ہمیں بصرہ کے والی عثمان بن حنیف نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کس لیے تشریف لائیں ہیں _,"*
*★_ ان کی بات کے جواب میں آپ نے فرمایا:- اللہ کی قسم ! مجھ جیسے لوگ کسی بات کو چھپا کر گھر سے نہیں نکلتے اور نہ کوئی ماں اصل بات بیٹوں سے چھپا سکتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ قبائل کے آوارہ لوگوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا... مدینہ حرم محترم ہے، ان لوگوں نے وہاں فتنہ برپا کیا اور فتنہ پروازوں کو پناہ دی، اس بنیاد پر وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ٹھرے، ان باتوں کے علاوہ ان لوگوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، معصوم خون کو حلال جان کر بہایا، جس مال کا انہیں لینا جائز نہیں تھا اسے لوٹا، حرم محترم کی بےعزتی کی، مقدس مہینے کی توہین کی ( یعنی ذوالحجہ میں حضرت عثمان کو شہید کیا) لوگوں کی آبرو ریزی کی.. مسلمانوں کو بے گناہ مارا پیٹا، ان کے گھروں میں زبردستی داخل ہوئے، میں مسلمانوں کو لے کر اس لیے نکلی ہوں کہ لوگوں کو بتاؤ.. ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کیا نقصان پہنچ رہے ہیں، ہم اصلاح کی دعوت لے کر نکلیں ہیں اور اس کا اللہ کے رسول نے ہر چھوٹے بڑے کو حکم دیا ہے، یہ ہے ہمارا مقصد _,"*
[7/11, 7:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان دونوں حضرات نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی ملاقات کی، پھر واپس بصرہ کی والی عثمان بن حنیف کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیا چاہتی ہیں، عثمان بن حنیف نے ان باتوں کا کوئی اثر نہیں لیا اور اپنی فوج لے کر میدان میں آگیئے،*
*"_ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑی پر اثر تقریر کی، آپ کی تقریر سن کر عثمان بن حنیف کی فوج سے بہت سے آدمی نکل کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف آگئے اور پکار اٹھے :- اللہ کی قسم! آپ ٹھیک کہتی ہیں _,"*
*★_ دوسرے روز دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں، بصرہ والوں کا سالار حکیم نامی ایک شخص تھا، اس نے جنگ شروع کرنے کی کوشش کی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی نیزے تانے خاموش کھڑے تھے، آپ حکیم اور اس کی فوج کو برابر روک رہی تھیں کہ جنگ شروع نہ کرو، ہمارا مقصد جنگ نہیں ہے، ہم اصلاح کے لئے آئے ہیں، پہلے ہماری بات سن لو، آپ کی ان باتوں کے باوجود حکیم باز نہ آیا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی اب بھی ہاتھ روکے کھڑے تھے، ادھر حکیم نے اپنے ساتھیوں کو للکارا، یہ حالات دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم فرمایا اور دوسرے میدان میں لا کھڑا کیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ ہرگز ہرگز جنگ کا نہیں تھا، آپ تو مسلمانوں میں صلح کرانے کی نیت سے نکلی تھیں_,*
*★_ دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ سو آدمی لے کر چلے تھے، آپ کوفہ پہنچے تو سات ہزار آدمی ان کے ساتھ ہو لئے، بصرہ پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد بیس ہزار ہو گئی، ادھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تیس ہزار آدمی تھے، دونوں جماعتیں میدان میں آمنے سامنے خیمہ زن ہو گئیں، ہر مسلمان کا دل ڈر رہا تھا کہ کل تک ان کی تلواریں دشمنوں کے سر اڑاتی رہی تھیں کہیں اب خود اپنوں کے سینوں کو نہ چھلنی کرنے لگیں_,*
*★_ اب دونوں طرف سے صلح کی کوشش شروع ہوئی، سبائی گروہ کے لوگ دونوں طرف کی فوجوں میں شامل ہو چکے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح بھی صلح نہ ہو تاکہ مسلمان آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور ان کی سازشوں کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملے، جبکہ نیک لوگوں کی پوری پوری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح دونوں گروہوں میں صلح ہو جائے،*
*★_ آخر صلح کی بات چیت شروع ہوئی، دونوں جماعتیں ہی یہ چاہتی تھی کہ جنگ نہ ہو، معاملات بات چیت کے ذریعے طے ہوجائیں، صلح کی بات ابھی جاری تھی، اس بات کی زیادہ امید ہو چلی تھی کہ صلح ہو جائے گی، بات چیت ہوتے ہوتے رات ہو گئی، چنانچہ دونوں فریق اپنے اپنے پڑاؤ میں چلے گئے _,*
*★_ اب کیا ہوا، سبائیوں نے حالات کا رخ دیکھ لیا، اندازہ لگا لیا کہ ان میں صلح کے امکانات روشن ہوچکے ہیں، یہ بات ان کی امیدوں کے بالکل خلاف تھی، وہ تو مسلمانوں میں جنگ کی آگ بھڑکا دینے پر تلے بیٹھے تھے، انہوں نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، اگر مسلمانوں میں صلح ہو جاتی تو پھر تو شامت انہیں کی آتی تھی، لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا وقت آنے سے پہلے مسلمانوں ہی کو کیوں نہ آپس میں لڑا دیا جائے، یہ فسادی لوگ پہلے ہی اپنے پروگرام کے مطابق دونوں طرف کے لشکر میں شریک ہو چکے تھے اور موقع کی تاک میں تھے، اب جو بات چیت روکی گئی اور دونوں لشکر اپنے اپنے پڑاؤ میں چلے گئے، تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹ نے لگے، بس ایسے سبائی لوگوں کے ایک گروہ نے اچانک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فوج پر حملہ کردیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھی یہ سمجھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، اسی طرح کچھ سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج پر حملہ کردیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی یہ سمجھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، بس اس طرح دونوں فریقوں میں جنگ شروع ہو گئی _,"*
[7/11, 8:09 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں تاکہ فوج کو روک سکے اور خون خرابہ نہ ہو، ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی فوج کو روکنے کی کوشش کی لیکن جنگ تو چھڑ چکی تھی، رک نہ سکی، خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں نے آپ کو اونٹ پر سوار دیکھ کر خیال کیا یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جنگ کے لیے تیار ہیں، حالانکہ آپ تو ان سب کو روکنے کے لیے اونٹ پر سوار ہوئیں تھیں، آپ کی فوج میں محمد بن طلحہ سوالوں پر افسر تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدل فوج کے افسر تھے، مجموعی طور پر پوری فوج کی قیادت حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کر رہے تھے،*
*★_ جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:- اے زبیر ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے پوچھا تھا، کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو، تو تم نے عرض کیا تھا، اے اللہ کے رسول ! ہاں میں علی کو دوست رکھتا ہوں، یاد کرو اس وقت تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ایک دن تم اس سے ناحق لڑو گے_," ( مستدرک حاکم )*
*★_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا :- ہاں ! مجھے یاد آگیا_", یہ کہہ کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ لڑائی سے الگ ہوگئے, انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے فرمایا:- اے پیارے بیٹے ! بے علی نے مجھے ایسی بات یاد دلا دی کہ جنگ کا تمام جوش ختم ہوگیا ہے، بے شک ہم حق پر نہیں ہیں، لہذا تم بھی جنگ سے باز آ جاؤ اور میرے ساتھ چلو_,*
*"_ اس پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:- میں تو میدان جنگ سے نہیں ہٹوں گا_,"*
*"_ اس پر وہ اکیلے ہی میدان جنگ سے نکل آئے اور بصرہ کی طرف چل پڑے, ایک سبائی ان کے تعاقب میں لگ گیا اور جب وہ ایک جگہ رک کر نماز ادا کرنے لگے تو انہیں شہید کر دیا _,"*
*★_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ارادہ بھی بدل گیا، وہ بھی میدان جنگ سے نکل آئے، اس حالت میں ایک تیر ان کے پاؤں میں آ کر لگا، زخمی حالت میں یہ وہاں سے نکل آئے، اس زخم سے آپ نے شہادت پائی,*
[7/11, 8:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ میدان جنگ میں عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں نے کئی بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن آپ کے ارد گرد جو جانثار ساتھی تھے، وہ انہیں منہ توڑ جواب دیتے رہے، سبائی لوگ دراصل آپ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے، لیکن کامیاب نہ ہوسکے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی شہید تو ہو رہے تھے لیکن انہوں نے آپ کی حفاظت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹایا، ان کی بہادری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی حیرت میں ڈال دیا، دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت پریشان بھی تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں کی بہادری کی وجہ سے جنگ طول پکڑتی جارہی تھی اور اس طرح دونوں طرف سے مسلمانوں کا نقصان ہو رہا تھا، گویا سبائی گروہوں کی سازش کامیاب ہو رہی تھی،*
*★_ ایسے میں حضرت علی رضی اللہ انہوں نے سوچا کہ اگر حالت یہی رہی تو نہ جانے نقصان کہاں تک پہنچ جائے، کیونکہ اس وقت حالت یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک ساتھی گرتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے اونٹ کی نکیل پکڑ رکھی تھی، وہ زخمی ہوئے تو فوراً ایک اور نے پکڑ لی، اس طرح ایک کے بعد ایک دیگرے ستر آدمیوں نے اپنے آپ کو قربان کر دیا، یہ حالات دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوچا، جب تک آؤٹ کو نہیں بیٹھا دیا جاتا اس وقت تک خوں ریزی نہیں روک سکے گی، اس لیے آپ کے اشارے پر ایک شخص نے پیچھے سے جاکر اونٹ پر وار کیا، اونٹ زخمی ہو کر بیٹھ گیا، جونہی اونٹ بیٹھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فوج ہمت ہار گئی، جنگ کا فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہو گیا،*
*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عزت اور احترام کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کیا، آپ کے دونوں صاحبزادے انہیں رخصت کرنے ایک منزل تک ساتھ آئے، رخصت کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- میرے بچوں ! ہماری یہ آپس کی کشمکش صرف آپس کی غلط فہمی کا نتیجہ تھی، ورنہ مجھ میں اور علی میں پہلے کوئی جھگڑا نہیں تھا _,"*
*"_حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کی تائید کی اور فرمایا :- یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اور ہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم اور توقیر ضروری ہے _"،*
*★_ اس طرح رجب کی پہلی تاریخ 36 ہجری کو سیدہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئیں، چونکہ آپ اس جنگ میں اونٹ پر سوار تھیں، اسی لئے مؤرخوں نے اس جنگ کو جنگ جمل کا نام دیا ہے _,*
*★_ مدینہ پہنچ کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے میں آگئیں، اس کے بعد لوگوں کو دین کی باتیں سکھاتی رہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تقریباً چھ سال رہی، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ چھ ماہ تک خلیفہ رہے، پھر انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی، وہ تقریبا 20 سال تک اسلامی مملکت کے تنہا خلیفہ رہے، ان کی خلافت کی مدت کے اختتام سے دو سال پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا، اس وقت آپ کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ تھی، آپ نے 17 رمضان المبارک 85 ہجری میں چند روز بیمار رہ کر کر یا اس دارفانی سے انتقال فرمایا،*
[7/11, 8:41 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر سن کر مسلمان اپنے گھروں سے نکل آئے، آپ کے جنازے میں اس قدر ہجوم تھا کہ رات کے وقت اس سے پہلے کبھی اتنا ہجوم نہیں دیکھا گیا، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جنازہ دیکھ کر فرمایا :- عائشہ صدیقہ کے لئے جنت واجب ہے، کیونکہ یہ حضور علیہ السلام کی سب سے پیاری بیوی تھیں، اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے_,"*
*★_حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام گورنر تھے کیونکہ مروان ان دنوں عمرے کے لیے مکہ مکرمہ گیا ہوا تھا, اس لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی, قاسم بن محمد بن ابی بکر, عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر, عبداللہ بن عتیق اور عبداللہ بن زبیر یعنی آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا، آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا,*
*★_ مدینہ منورہ میں اس روز قیامت برپا تھی، ہر آنکھ رو رہی تھی، لوگوں نے مدینہ منورہ کے کسی شخص سے پوچھا :- مدینہ کے لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا غم کتنا محسوس کیا_," اس نے جواب دیا :- وہ مسلمانوں کی ماں تھیں، ماں کے مرنے پر جتنا غم ہوتا ہے، اتنا ہی مدینہ کے مسلمانوں کو گم ہوا تھا _,"*
*★_ آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، لیکن آپ کو اس بات کا قطعاَ کوئی ملال نہیں تھا، آپ اس قدر قناعت پسند تھیں کہ صرف ایک جوڑا اپنے پاس رکھتی تھیں، اس کو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کے دل میں اللہ کا خوف کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، بہت جلد رونے لگ جاتی تھیں، ایک بار دجال کا خیال کر کے رونے لگیں،*
*★_ ایک روز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہا، آپ نے ارشاد فرمایا :-*
*"_ اے ام سلمہ ! مجھے عائشہ کے بارے میں اذیت نہ دو، اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی کے بستر میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی سوائے عائشہ کے_," ( مسند احمد 6/ 293)*
*★_ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے حجرہ مبارک کے دروازے پر پہنچے اور ابھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے والے تھے کہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اونچی آواز میں بات کرتے سنی، پس جب آپ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ کو پکڑ کر بولے :- اے ام رومان کی بیٹی ! تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے بات کرتی ہے _," یہ ہے کہ کر آپ نے انہیں مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور آپ کے درمیان میں آ گئے، جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے، تو آپ نے فرمایا :- دیکھو میں نے تمہارے اور تمہارے باپ کے درمیان میں آ کر تمہیں کیسے بچایا _," ( نسائ، ابو داؤد، مسند احمد)*
*★_ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- آؤ عائشہ ! دوڑ لگائیں _,"*
*"_سیدہ آپ کے ساتھ دوڑ پڑیں اور آپ سے آگے نکل گئیں, کچھ مدت بعد ایک اور موقع پر آپ نے انہیں دوڑنے کی دعوت دی، سیدہ آپ کے ساتھ دوڑ پڑیں لیکن اس مرتبہ آپ آگے نکل گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- عائشہ یہ اس روز کی دوڑ کا جواب ہے _," ( ابو داؤد- حدیث نمبر 2578)*
*★_ ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بدک گیا اور وہ انہیں لے کر ایک طرف کو بھاگ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر بے قرار ہوئے کہ آپ کے منہ سے نکل گیا :- عروساہ _," یعنی ہاے میری دلہن _,*
*★_ ایک مرتبہ کچھ حبشی لوگ کھیل تماشا دکھا رہے تھے، بہت سے مرد اور بچے ان کا کھیل دیکھ رہے تھے، آپ نے سیدہ سے فرمایا :- اے عائشہ ! کیا تم بھی یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- جی ہاں ! چنانچہ آپ نے انہیں اپنے کندھے کی اوٹ سے وہ کھیل دکھایا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا چہرہ آپ کے کندھے پر ٹکا دیا تھا، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :- عائشہ ! تم نے دیکھ لیا_," اس پر سیّدہ بولیں :- اے اللہ کے رسول ! جلدی نہ کریں، میں ابھی اور دیکھنا چاہتی ہوں_,"*
*"_ جب تک کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سیر نہیں ہو گئیں، اس وقت تک آپ انہیں کھیل دکھاتے رہے _,"*
*★_ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا اور انہوں نے سیدہ کو سلام کیا _,*
*"_ اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی بےگناہی کے ثبوت میں قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں، اللہ تعالی کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہو ،*
*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,6,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے ہمیں میسج کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*
▉
0 Comments