SEERATUN NABI (URDU)- PART-1-2

 

✭﷽✭
                  *✿_سیرت النبی ﷺ_✿*
         *✭ SEERATUN NABI S.A.✭*
             *✿_सीरतुन नबी स. अ. _✿*
           *صلى الله على محمدﷺ*
            ▪•═════••════•▪                 
                        *POST-01*
                          ─┉●┉─
*┱✿_عنوان: 1_زم زم کی کھدائی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ١۲ بیٹے تھے - ان کی نسل اسقدر ہوئی کے مکہ مکرمہ میں نہ سما سکی اور پورے حجاز میں پھیل گئی - ان کے ایک بیٹے قیدار کی اولاد میں عدنان ہوئے - عدنان کے بیٹے معد اور پوتے کا نام نزار تھا - نزار کے چار بیٹے تھے - ان میں سے ایک کا نام مضر تھا - مضر کی نسل سے قریش بن مالک پیدا ہوئے" یہ فہر بن مالک بھی کہلائے - قریش کی اولاد بہت ہوئی - ان کی اولاد مختلف قبیلوں میں بٹ گئی - ان کی اولاد سے قصیّ نے اقتدار حاصل کیا - قصیّ کے آگے تین بیٹے ہوئے - ان میں سے ایک عبد مناف تھے جن کی اگلی نسل میں ہاشم پیدا ہوئے -
ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی " ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا " اس کا نام شیبہ رکھا گیا - یہ پیدا ہی ہوا تھا کہ ہاشم کا انتقال ہوگیا- ان کے بھائی مطلّب مکہ کے حاکم ہوئے - ہاشم کا بیٹا مدینہ منورہ میں پرورش پاتا رہا " جب مطلّب کو معلوم ہوگیا کہ وہ جوان ہوگیا ہے تو بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گئے - اسے لیکر مکہ مکرمہ پہنچے تو لوگوں نے خیال کیا یہ نوجوان ان کا غلام ہے - مطلّب نے لوگوں کو بتایا " یہ ہاشم کا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے " اس کے باوجود لوگوں نے اسے مطلّب کا غلام ہی کہنا شروع کردیا - اس طرح شیبہ کو عبدالمطلب کہا جانے لگا - انہیں عبدالمطلب کے یہاں ابوطالب حمزہ, عبّاس, عبداللہ, ابولہب, حارث, زبیر, ضرار, اور عبدالرحمن پیدا ہوئے- ان کے بیٹے عبداللہ سے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔
عبدالمطلب کے تمام بیٹوں میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ پاکدامن تھے - عبدالمطلب کو خواب میں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا گیا " یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کو, اس کنویں کو قبیلہ
جرہم کے سردار مضاض نے پاٹ دیا تھا - قبیلہ جرہم کے لوگ اس زمانہ میں مکہ کے سردار تھے " بیت اللہ کے نگراں تھے - انہوں نے بیت اللہ کی بے حرمتی شروع کردی - ان کا سردار مضاض بن عمرو تھا " وہ اچھا آدمی تھا اس نے اپنے قبیلے کو سمجھایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی نہ کرو مگر ان پر اثر نہ ہوا " جب مضاض نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہ ہوتا تو قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا- اس نے تمام مال و دولت تلواریں اور زرہیں وغیرہ خانۂ کعبہ سے نکال کر زمزم کے کنویں میں ڈالدیں اور مٹی سے اسکو پاٹ دیا - کنواں اس سے پہلے ہی خشک ہوچکا تھا-
اب اس کا نام و نشان مٹ گیا - مدتوں یہ کنواں بند پڑا رہا اس کے بعد بنو خزاعہ نے بنو جرہم کو وہاں سے مار بھگایا " بنو خزاعہ اور قصیّ کی سرداری کا زمانہ اسی حالت میں گذرا - کنواں بند رہا یہاں تک کے قصیّ کے بعد عبدالمطلب کا زمانہ آگیا" انہوں نے خواب دیکھا " خواب میں انہیں زمزم کے کنویں کی جگہ دکھائی گئی اور اس کے کھودنے کا حکم دیا گیا-
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالمطلب نے بتایا :-
" میں حجر اسود کے مقام پر سورہا تھا کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا - اس نے مجھ سے کہا "طیبہ کو کھودو "
میں نے اس پوچھا "طیبہ کیا ہے؟"
مگر وہ کچھ بتائے بغیر چلاگیا - دوسری طرف رات پھر خواب میں وہی شخص آیا " کہنے لگا "برہ کو کھودو "
میں نے پوچھا "برّہ کیا ہے" وہ کچھ بتائے بغیر چلے گیا-
تیسری رات میں اپنے بستر پر سورہا تھا کہ پھر وہ شخص خواب میں آیا - اُس نے کہا " مضنونہ کھودو "
میں نے پوچھا " مضنونہ کیا ہے؟" وہ بتائے بغیر چلا گیا -
اس سے اگلی رات میں پھر بستر پر سورہا تھا کہ وہی شخص پھر آیا اور بولا "زم زم کھودو " میں نے اس سے پوچھا "زم زم کیا ہے؟ " اس بار اس نے کہا:
" زمزم وہ ہے جس کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا, جو حاجیوں کے بڑے بڑے مجموعوں کو سیراب کرتا ہے "
عبدالمطلب کہتے ہیں, میں نے اس سے پوچھا
"یہ کنواں کس جگہ ہے؟ "
اس نے بتایا -
"جہاں گندگی اور خون پڑا ہے, اور کوّا ٹھونگیں مار رہا ہے"
دوسرے دن عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کے ساتھ وہاں گئے - اس وقت ان کے یہاں یہی ایک لڑکا تھا - انہوں نے دیکھا وہاں گندگی اور خون پڑا تھا اور ایک کوّا ٹھونگیں مار رہا تھا, اس جگہ کے دونوں طرف بُت موجود تھے اور یہ گندگی اور خون دراصل ان بتوں پر قربان کئیے جانے والے جانوروں کا تھا, پوری نشانی مل گئی تو عبدالمطلب کدال لے آئے اور کھدائی کے لئیے تیار ہوگئے لیکن اس وقت قریش وہاں آ پہنچے -انہوں نے کہا :
" اللہ کی قسم ہم تمہیں یہاں کھدائی نہیں کرنے دیں گے, تم ہمارے ان دونوں بُتوں کے درمیاں کنواں کھودنا چاہتے ہو جہاں ہم ان کے لئیے قربانیاں کرتے ہیں- "
عبدالمطلب نے ان کی بات سن کر اپنے بیٹے حارث سے کہا :
"تم ان لوگوں کو میرے قریب نہ آنے دو, میں کھدائی کا کام کرتا رہوں گا اس لئیے کہ مجھے جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس کو ضرور پورا کروں گا- "
قریش نے جب دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو رک گئے - آخر انھوں نے کھدائی شروع کردی - جلد ہی کنویں کے آثار نظر آنے لگے - یہ دیکھ کر انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور پکار اٹھے
" یہ دیکھو یہ اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر ہے "
جب قریش نے یہ دیکھا کہ انہوں نے کنواں تلاش کرلیا تو ان کے پاس آگئے اور کہنے لگے :
"عبدالمطلب اللہ کی قسم " یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اس پر ہمارا بھی حق ہے" اس لئیے ہم اس میں تمہارے شریک ہوں گے -"
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا :
" میں تمہیں اس میں شریک نہیں کرسکتا " یہ مجھ اکیلے کا کام ہے"
اس پر قریش نے کہا :
" تب پھر اس معاملے میں ہم تم سے جھگڑا کریں گے"
عبدالمطلب بولے :
" کسی سے فیصلہ کروالو "
انہوں نے بنوسعد ابن ہزیم کی کاہنہ سے فیصلہ کرانا منظور کیا - یہ کاہنہ ملک شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی - آخر عبدالمطلب اور دوسرے قریش اس کی طرف روانہ ہوئے - عبدالمطلب کے ساتھ عبدمناف کے لوگوں کی ایک جماعت تھی -
جبکہ دیگر قبائل قریش کی بھی ایک ایک جماعت ساتھ تھی - اس زمانہ میں ملک حجاز اور شام کے درمیان ایک بیابان میدان تھا , وہاں کہیں پانی نہیں تھا - اس میدان میں ان کا پانی ختم ہوگیا - سب لوگ پیاس سے بے حال ہوگئے, یہاں تک کہ انہیں اپنی موت کا یقین ہوگیا - انہوں نے قریش کے دوسرے لوگوں سے پانی مانگا لیکن انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا - اب انہوں نےادھر ادھر پانی تلاش کرنے کا ارادہ کیا -
عبدالمطلب اٹھ کر اپنی سواری کے پاس آئے, جوں ہی ان کی سواری اٹھی, اس کے پاؤں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا - انہوں نے پانی کو دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا - پھر عبد المطلب سواری سے اتر آئے - سب نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور اپنے مشکیزے بھر لیے - اب انہوں نے قریش کی دوسری جماعت سے کہا:"آؤ تم بھی سیر ہوکر پانی پی لو -" اب وہ بھی آگے آئے اور خوب پانی پیا - پانی پینے کے بعد وہ بولے:
" اللہ کی قسم.... اے عبدالمطلب! یہ تو تمہارے حق میں فیصلہ ہوگیا - اب ہم زمزم کے بارے میں تم سے کبھی جھگڑا نہیں کریں گے - جس ذات نے تمہیں اس بیابان میں سیراب کردیا، وہی ذات تمہیں زمزم سے بھی سیراب کرے گا، اس لیے یہیں سے واپس چلو -"
اس طرح قریش نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ عبدالمطلب پر مہربان ہے، لہٰذا ان سے جھگڑنا بے سود ہے اور کاہنہ کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، چنانچہ سب لوگ واپس لوٹے -
واپس اکر عبدالمطلب نے پھر کنویں کی کھدائی شروع کی - ابھی تھوڑی سی کھدائی کی ہوگی کہ مال، دولت، تلواریں اور زرہیں نکل آئیں - اس میں سونا اور چاندی وغیرہ بھی تھی - یہ مال ودولت دیکھ کر قریش کے لوگوں کو لالچ نے آگھیرا - انہوں نے عبدالمطلب سے کہا :
"عبدالمطلب! اس میں ہمارا بھی حصہ ہے -"
ان کی بات سن کر عبدالمطلب نے کہا :
"نہیں! اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، تمہیں انصاف کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے - آؤ پانسو کے تیروں سے قرعہ ڈالیں -"
انہوں نے ایسا کرنا منظور کرلیا - دو تیر کعبے کے نام سے رکھے گئے، دو عبدالمطلب کے اور دو قریش کے باقی لوگوں کے نام کے.... پانسہ پھینکا گیا تو مال اور دولت کعبہ کے نام نکلا، تلواریں اور زرہیں عبدالمطلب کے نام اور قریشیوں کے نام کے جو تیر تھے وہ کسی چیز پر نہ نکلے - اس طرح فیصلہ ہوگیا - عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کو سونے سے سجا دیا -
زمزم کی کھدائی سے پہلے عبدالمطلب نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! اس کی کھدائی کو مجھ پر آسان کردے، میں اپنا ایک بیٹا تیرے راستے میں ذبح کروں گا - اب جب کہ کنواں نکل آیا تو انہیں خواب میں حکم دیا گیا -
"اپنی منت پوری کرو، یعنی ایک بیٹے کو ذبح کرو -"
*_سیرت النبی ﷺ_,*
 ╨─────────────────────❥ 
*┱✿_عنوان:-2_ سو اونٹوں کی قربانی,
عبدالمطلب کو یہ حکم اسوقت دیا گیا جب وہ اپنی منّت بھول چکے تھے - پہلے خواب میں ان سے کہا گیا " منّت پوری کرو " انھوں نے ایک مینڈھا ذبح کرکے غریبوں کو کھلادیا " پھر خواب آیا " اس سے بڑی پیش کرو " اس مرتبہ انھوں نے ایک بیل ذبح کردیا - خواب میں پھر یہی کہا گیا اس سے بھی بڑی پیش کرو - اب انھوں نے اونٹ ذبح کیا - پھر خواب آیا اس سے بھی بڑی چیز پیش کرو - انھوں نے پوچھا " اس سے بھی بڑی چیز کیا ہے " تب کہا گیا :
" اپنے بیٹوں میں سے کسی کو ذبح کرو جیسا کہ تم نے منّت مانی تھی "
اب انھیں اپنی منّت یاد آئی - اپنے بیٹوں کو جمع کیا - ان سے منّت کا ذکر کیا - سب کے سر جھُک گئے " کون خود کو ذبح کرواتا " آخر عبداللہ بولے
" ابّاجان آپ مجھے ذبح کردیں "
یہ سب سے چھوٹے تھے - سب سے خوبصورت تھے - سب سے ذیادہ محبّت بھی عبدالمطلِّب کو انہیں سے تھی لہٰذا انھوں نے قرعہ اندازی کرنے کا ارادہ کیا - تمام بیٹوں کے نام لکھکر قرعہ ڈالا گیا - عبداللہ کا نام نکلا اب انھوں نے چُھری لی " عبداللہ کو بازو سے پکڑا اور انھیں ذبح کرنے کے لیے نیچے لٹادیا۔
جونہی باپ نے بیٹے کو لٹایا " عبّاس سے ضبط نہ ہوسکا, فوراً آگے بڑھے اور بھائی کو کھینچ لیا " اس وقت یہ خود بھی چھوٹے سے تھے " ادھر باپ نے عبداللہ کو کھینچا " اس کھینچا تانی میں عبداللہ کے چہرے پر خراشیں بھی آئیں " ان خراشوں کے نشانات مرتے دم تک باقی رہے -
اسی دوران بنو مخزوم کے لوگ آگئے انھوں نے کہا :
آپ اس طرح بیٹے کو ذبح نہ کریں , اس کی ماں کی زندگی خراب ہوجائے گی, "اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بیٹے کا فدیہ دے دیں "
اب سوال یہ تھا کہ فدیہ کیا دیا جائے, اس کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ قربان کردئے جائیں , اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے - پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے - اب اگر بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں -
عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ہے " دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے " ہر بار عبداللہ کا نام نکلتا چلا گیا , یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی - تب کہیں جاکر اونٹوں والی پرچی نکلی - اس طرح ان کی جان کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے - عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے - انھوں نے کعبے کے پاس سو اونٹ قربان کئیے اور کسی کو کھانے سے نہ روکا " سب انسانوں, جانوروں اور پرندوں نے ان کو کھایا -
امام زہری کہتے ہیں کہ عبدالمطلِّب پہلے آدمی ہے جنہوں نے آدمی کی جان کی قیمت سو اونٹ دینے کا طریقہ شروع کیا - اس سے پہلے دس اونٹ دیے جاتے تھے - اس کے بعد یہ طریقہ سارے عرب میں جاری ہوگیا - گویا قانون بن گیا کہ آدمی کا فدیہ سو اونٹ ہے - نبی کریمﷺ کے سامنے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے اس فدیہ کی تصدیق فرمائی، یعنی فرمایا کہ یہ درست ہے
اور اسی بنیاد پر نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت عبداللہ کی اولاد ہوں
حضرت عبداللہ قریش میں سب سے زیادہ حسین تھے ان کا چہرہ روشن ستارہ کی ماند تھا قریش کی بہت سی لڑکیاں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر حضرت عبداللہ کی حضرت آمنہ سے شادی ہوئ۔
حضرت آمنہ وہب بن عبدمناف بن زہرہ کی بیٹی تھیں شادی کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
یہ شادی کے لیئے اپنے والد کے ساتھ جارہے تھے راستہ میں ایک عورت کعبہ کے پاس بیٹھی نظر آئ، یہ عورت ورقہ بن نوفل کی بہن تھی۔ورقہ بن نوفل قریش کے ایک بڑے عالم تھے۔ورقہ بن نوفل سے ان کی بہن نے سن رکھا تھا کہ وقت کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہےاور انکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہوگی کہ ان کے والد کے چہرے میں نبوت کا نور چمکتا ہوگا۔جونہی اس نے عبداللہ کو دیکھا فوراﹰ اس کے ذہن میں یہ بات آئ، اس نے سوچا ہونہ ہو یہ وہ وہ شخص ہے جو پیدا ہونے والے نبی کے باپ ہوں گے ۔چنانچہ اس نے کہا:
"اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو میں بدلہ میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہاری جان کے بدلے میں ذبح کئے گئے تھے۔"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"میں اپنے باپ کے ساتھ ہوں۔ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔نہ ان سے الگ ہوسکتا ہوں اور میرے والد باعزت آدمی ہیں، اپنی قوم کے سردار ہیں۔"
بہر حال انک شادی حضرت آمنہ سے ہوگئ۔اپ قریش کی عورتوں میں نسب اور مقام کے اعتبار سے افضل تھیں -
حضرت آمنہ، حضرت عبداللٰہ کے گھر آگئیں - آپ فرماتی ہیں:
"جب میں ماں بننے والی ہوئی تو میرے پاس ایک شخص آیا، یعنی ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا - اس وقت میں جاگنے اور سونے کے درمیانی حالت میں تھی(عام طور پر اس حالت کو غنودگی کہاجاتاہے) - اس نے مجھ سے کہا:
"کہا تمہیں معلوم ہے، تم اس امت کی سردار اور نبی کی ماں بننے والی ہو۔"
اس کے بعد وہ پھر اس وقت آیا جب نبی صلی اللٰہ علیہ وسلم پیدا ہونے والے تھے - اس مرتبہ اس نے کہا:
"جب تمہارے ہاں پیدائش ہو تو کہنا:
"میں اس بچے کے لیے اللٰہ کی پناہ چاہتی ہوں، ہر حسد کرنے والے کے شر اور برائی سے - پھر تم اس بچے کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ ان کا نام تورات میں احمد ہے اور زمین اور آسمان والے ان کی تعریف کرتے ہیں، جب کہ قرآن میں ان کا نام محمد ہے، اور قرآن ان کی کتاب ہے - "(البدایہ والنہایہ)
ایک روایت کے مطابق فرشتے نے ان سے یہ کہا:
"تم وقت کے سردار کی ماں بننے والی ہو، اس بچے کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوگا، جس سے ملک شام اور بصرٰی کے محلات بھر جائیں گے - جب وہ بچہ پیدا ہوجائے گا تو اس کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ تورات میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں، اور انجیل میں ان کا نام احمد ہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں اور قرآن میں ان کا نام محمد ہے -"(البدایہ والنہایہ)
حضرت عبداللٰہ کے چہرے میں جو نورچمکتا تھا، شادی کے بعد وہ حضرت آمنہ کے چہرے میں آگیا تھا -
امام زہری فرماتے ہیں، حاکم نے یہ روایت بیان کی ہےاوراس کوصحیح قراردیا ہے کہ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے حضور نبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
"اے اللٰہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتایئے-"
آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور خوشخبری ہوں، جب میں اپنی والدہ کے شکم میں آیا تو انہوں نے دیکھا، گویا ان سے ایک نور ظاہر ہوا ہے جس سے ملک شام میں بصرٰی کے محلات روشن ہوگئے - "
حضرت آمنہ نے حضرت حلیمہ سعدیہ سے فرمایا تھا:
"میرے اس بچے کی شان نرالی ہے، یہ میرے پیٹ میں تھے تو مجھے کوئی بوجھ اور تھکن محسوس نہیں ہوئی۔"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ آخری پیغمبر ہیں جنہوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم کی آمد کی خوشخبری سنائی ہے - اس بشارت کا ذکر قرآن میں بھی ہے، سورہ صف میں اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں:
"اور اسی طرح وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے فرمایا کہ: اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات آچکی ہے، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والا ہیں، ان کا نامِ مبارک احمد ہوگا، میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔"
اب چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ بشارت سناچکے تھے، اس لیے ہر دور کے لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد کا بےچینی سے انتظار کررہے تھے، ادھرآپ کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت عبداللّٰہ انتقال کرگئے - سابقہ کتب میں آپ کی نبوت کی ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ آپ کے والد کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہوجائے گا - حضرت عبداللہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تجارت کے لیے گئے تھے، اس دوران بیمار ہوگئے اور کمزور ہوکر واپس لوٹے - قافلہ مدینہ منورہ سے گزرا تو حضرت عبداللہ اپنی ننھیال یعنی بنو نجار کے ہاں ٹھہرے - ان کی والدہ بنو نجار سے تھیں، ایک ماہ تک بیمار رہے اور انتقال کرگئے - انہیں یہیں دفن کردیا گیا -
تجارتی قافلہ جب حضرت عبداللہ کے بغیر مکہ مکرمہ پہنچا اور عبدالمطلب کو پتا چلا کہ ان کے بیٹے عبداللہ بیمار ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں اپنی ننھیال میں ہیں تو انہیں لانے کے لیے عبدالمطلب نے اپنے بیٹے زبیر کو بھیجا - جب یہ وہاں پہنچے تو عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا - مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں اپنے والد کی وفات کے چند ماہ بعد تشریف لائے -
_سیرت النبی ﷺ_,*
 ╨─────────────────────❥
*┱✿_ عنوان: -3_ماہِ نبوت طلوع ہوا,
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی آنول نال کٹی ہوئی تھی۔{آنول نال کو بچے پیدا ہونے کے بعد دایہ کاٹتی ہے۔}
آپ ختنہ شدہ پیدا ہوئے۔عبدالمطلب یہ دیکھ کر بےحد حیران ہوئے اور خوش بھی۔وہ کہا کرتے تھے، میرا بیٹا نرالی شان کا ہوگا۔{الہدایہ}
آپ کی پیدائش سے پہلے مکّہ کے لوگ خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔لیکن جونہی آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت قریب آیا۔بارشیں شروع ہوگئیں، خشک سالی دور ہوگئی۔درخت ہرے بھرے ہوگئے اور پھلوں سے لد گئے۔زمین پر سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔
پیدائش کے وقت آپ اپنے ہاتھوں پر جھکے ہوئے تھے۔سر آسمان کی طرف تھا۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے۔مطلب یہ کہ سجدے کی سی حالت میں تھے۔{طبقات}
آپ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔جیسا کہ ہم نماز میں اٹھاتے ہیں۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"جب میری والدہ نے مجھے جنم دیا تو ان سے ایک نور نکلا۔اس نور سے شام کے محلات جگمگا اٹھے۔" ( طبقات )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں:
"محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی پیدائش کے وقت ظاہر ہونے والے نور کی روشنی میں مجھے بصری میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں تک نظر آئیں۔"
علامہ سہلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ نے اللہ کی تعریف کی۔ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا ۔
"اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اللہ تعالیٰ کی بےحد تعریف ہے اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔"
آپ کی ولادت کس دن ہوئی؟ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ پیر کا دن تھا۔آپ صبح فجر طلوع ہونے کے وقت دنیا میں تشریف لائے۔
تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بہت سے قول ہیں۔ایک روایت کے مطابق 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ایک روایت 8 ربیع الاول کی ہے، ایک روایت 2 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔اس سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں۔زیادہ تر مورخین کا خیال ہے کہ آپ 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔تقویم کے طریقہ کے حساب سے جب تاریخ نکالی گئی تو 9 ربیع الاول نکلی۔مطلب یہ کہ اس بارے میں بالکل صیح بات کسی کو معلوم نہیں۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مہینہ ربیع الاول کا تھا اور دن پیر کا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو پیر کے دن ہی نبوت ملی۔پیر کے روز ہی آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے روز ہی آپ کی وفات ہوئی۔
آپ عام الفیل میں پیدا ہوئے۔یعنی ہاتھیوں والے سال میں۔اس سال کو ہاتھیوں والا سال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔
آپ کی پیدائش اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد ہوئی تھی -
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ
ابرہہ یمن کا عیسائی حاکم تھا - حج کے دنوں میں اس نے دیکھا کہ لوگ بیت اللہ کا حج کرنے جاتے ہیں - اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا :
" یہ لوگ کہاں جاتے ہیں "
اسے جواب ملا:
" بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جاتے ہیں "
اس نے پوچھا:
" بیت اللہ کس چیز کا بنا ہوا ہے"
اسے بتایا گیا :
" پتھروں کا ہے "
اس نے پوچھا :
" اس کا لباس کیا "
بتایا گیا
" ہمارے ہاں سے جو دھاری دار کپڑا جاتا ہے اس سے اس کی پوشاک تیار ہوتی ہے "
ابرہہ عیسائی تھا - ساری بات سن کر اس نے کہا ":
"مسیح کی قسم! میں تم لوگوں کے لیے اس سے اچھا گھر تعمیر کروں گا "
اس طرح اس نے سرخ " سفید " زرد " اور سیاہ پتھروں سے ایک گھر بنوایا - سونے اور چاندی سے اس کو سجایا اس میں کئی دروازے رکھوائے اس میں سونے کے پترے جڑوائے - اس کے درمیان میں جواہر لگوائے - اس مکان میں ایک بڑا سا یاقوت لگوایا - پردے لگوائے " وہاں خوشبوئیں سلگانے کا انتظام کیا - اس کی دیواروں پر اس قدر مشک ملا جاتا تھا کہ وہ سیاہ رنگ کی ہوگئیں - یہاں تک کہ جواہر بھی نظر نہیں آتے تھے۔
پھر لوگوں سے کہا:
" اب تمہیں بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جانے کی ضرورت نہیں رہی, میں نے یہیں تمہارے لیے بیت اللہ بنوادیا ہے لہٰذا اب تم اس کا طواف کرو "
اس طرح کچھ قبائل کئی سال تک اس کا حج کرتے رہے - اس میں اعتکاف کرتے رہے - حج والے مناسک بھی یہیں ادا کرتے رہے -
عرب کے ایک شخص نفیل خشمی سے یہ بات برداشت نا ہوسکی - وہ اس مصنوعی خانۂ کعبہ کے خلاف دل ہی دل میں کڑھتا رہا -آخر اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ ابرہہ کی اس عمارت کو گندہ کرکے چھوڑے گا -پھر ایک رات اس نے چوری چھپے بہت سی گندگی اس میں ڈال دی -ابرہہ کو معلوم ہوا تو سخت غضب ناک ہوا کہنے لگا :
"یہ کاروائی کسی عرب نے اپنے کعبہ کے لیے کی ہے , میں اسے ڈھادوں گا اس کا ایک ایک پتھر توڑدوں گا "
اس نے شام و حبشہ کو یہ تفصیلات لکھ دیں , اس سے درخواست کی کہ وہ اپنا ہاتھی بھیج دے - اس ہاتھی کا نام محمود تھا - یہ اس قدر بڑا تھا کہ اتنا بڑا ہاتھی روئے زمین پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا - جب ہاتھی اس کے پاس پہنچ گیا تو وہ اپنی فوج لیکر نکلا اور مکہ کا رخ کیا - یہ لشکر جب مکہ کے قرب و جوار میں پہنچا تو ابرہہ نے فوج کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے جانور لوٹ لیے جائیں - اس کے حکم پر فوجیوں نے جانور پکڑ لیے - ان میں عبدالمطلِّب کے اونٹ بھی تھے -
نفیل بھی اس لشکر میں ابرہہ کے ساتھ موجود تھا اور یہ عبدالمطلِّب کا دوست تھا - عبدالمطلِّب اس سے ملے - اونٹوں کے سلسلے میں بات کی - نفیل نے ابرہہ سے کہا :
" قریش کا سردار عبدالمطلِّب ملنا چاہتا ہے یہ شخص تمام عرب کا سردار ہے " شرف اور بزرگی اسے حاصل ہے - لوگوں میں اس کا بہت بڑا اثر ہے -لوگوں کو اچھے اچھے گھوڑے دیتا ہے, انہیں عطیات دیتا ہے, کھانا کھلاتا ہے- "
یہ گویا عبدالمطلِّب کا تعارف تھا - ابرہہ نے انہیں ملاقات کے لیے بلالیا - ابرہہ نے ان سے پوچھا
" بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں؟"
انہوں نے جواب دیا :
" میں چاہتا ہوں میرے اونٹ مجھے واپس مل جائیں "
ان کی بات سن کر ابرہہ بہت حیران ہوا - اس نے کہا :
" مجھے تو بتایا گیا تھا کہ آپ عرب کے سردار ہے " بہت عِزّت اور بزرگی کے مالک ہیں " لیکن لگتا ہے مجھ سے غلط بیانی کی گئی ہے- کیونکہ میرا خیال تھا آپ مجھ سے بیت اللہ کے بارے میں بات کریں گے جس کو میں گرانے آیا ہوں اور جس کے ساتھ آپ سب کی عِزّت وابستہ ہے - لیکن آپ نے تو سرے سے اس کی بات ہی نہیں کی اور اپنے اونٹوں کا رونا لیکر بیٹھ گئے - یہ کیا بات ہوئی "
اس کی بات سن کر عبدالمطلِّب بولے
"آپ میرے اونٹ مجھے واپس دے دیں بیت اللہ کے ساتھ جو چاہیں کریں " اس لیے کہ اس گھر کا ایک پروردگار ہے - وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا - مجھے اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں "
ان کی بات سن کر ابرہہ نے حکم دیا :
"ان کے اونٹ واپس دے دیے جائیں "
جب انہیں ان کے اونٹ واپس مل گئے " تو انھوں نے ان کے سموں پر چمڑے چڑھا دیے - ان پر نشان لگادیے - انہیں قربانی کے لیے وقف کرکے حرم میں چھوڑ دیا تاکہ پھر کوئی انہیں پکڑ لے تو حرم کا پروردگار اس پر غضب ناک ہو -
پھر عبدالمطلِّب حِرا پہاڑ پر چڑھ گئے - ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست تھے - انہوں نے اللہ سے درخواست کی :
"اے اللہ! انسان اپنے سامان کی حفاظت کرتا ہے، تو اپنے سامان کی حفاظت کر۔"
ادھر سے ابرہہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا۔وہ خود ہاتھی پر سوار لشکر کے درمیان موجود تھا۔ایسے میں اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ہاتھی بانوں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ اٹھا۔انہوں نے اس کے سر پر ضربیں لگائیں۔آنکس چبھوئے مگر وہ کھڑا نہ ہوا۔کچھ سوچ کر انہوں نے اس کا رخ یمن کی طرف کیا تو وہ فوراً اس طرف چلنے لگا۔اس کا رخ پھر مکہ کی طرف کیا گیا تو پھر رک گیا۔ہاتھی بانوں نے یہ تجربہ بار بار کیا۔آخر ابرہہ نے حکم دیا، ہاتھی کو شراب پلائی جائے تاکہ نشے میں اسے کچھ ہوش نہ رہ جائے اور ہم اسے مکہ کی طرف آگے بڑھاسکیں۔چنانچہ اسے شراب پلائی گئی، لیکن اس پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔
_سیرت النبی ﷺ_,*
 ╨─────────────────────❥
*┱✿_ عنوان:-4_ ابرہہ کا انجام,
ابرہہ کے ہاتھی کو اٹھانے کی مسلسل کوشش جاری تھی کہ اچانک سمندر کی طرف سے ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کو بھیج دیا۔وہ ٹڈیوں کے جھنڈ کی طرح آئیں۔
دوسری طرف عبدالمطلب مکہ میں داخل ہوئے ۔ حرم میں پہنچے اور کعبہ کے دروازے کی زنجیرپکڑ کر ابرہہ اور اس کے لشکر کےے خلاف فتح کی دعا مانگی۔ان کی دعا کے الفاظ یہ تھے۔
"اے اللہ! یہ بندہ اپنے قافلے اور اپنی جماعت کی حفاظت کررہا ہے تو اپنے گھر یعنی بیت اللہ کی حفاظت فرما۔ابرہہ کا لشکر فتح نہ حاصل کرسکے۔ان کی طاقت تیری طاقت کے آگے کچھ بھی نہیں، آج صلیب کامیاب نہ ہو۔"صلیب کا لفظ اس لیے بولا کہ ابرہہ عیسائی تھا اور صلیب کو عیسائی اپنے نشان کے طور پر ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
اب انہوں نے اپنی قوم کو ساتھ لیا اور حرا پہاڑ پر چڑھ گئے، کیونکہ ان کا خیال تھا، وہ ابرہہ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔یہ پرندے چڑیا سے قدرے بڑے تھے۔ان میں سے ہر پرندے کی چونچ میں پتھر کے تین تین ٹکڑے تھے۔یہ پتھر پرندوں نے ابرہہ کے لشکر پر گرانے شروع کیے۔جونہی یہ پتھر ان پر گرے، ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، بالکل اسی طرح جیسے آج کسی جگہ اوپر سے بم گرایا جائے تو جسموں کے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں۔ابرہہ کا ہاتھی محمود البتہ ان کنکریوں سے محفوظ رہا۔باقی سب ہاتھی تہس نہس ہوگئے۔ یہ ہاتھی 13 عدد تھے۔سب کے سب کھائے ہوئے نحوست کے مانند ہوگئے۔جیسا کہ سورۃ الفیل میں آتا ہے۔
ابرہہ اور اس کے کچھ ساتھی تباہی کا یہ منظر دیکھ کر بری طرح بھاگے۔لیکن پرندوں نے ان کو بھی نہ چھوڑا۔ابرہہ کے بارے میں طبقات میں لکھا ہے کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ ہوکر گرتا چلا گیا۔یعنی وہ بھاگ رہا تھا اور اس کے جسم کا ایک ایک حصہ الگ ہوکر گررہا تھا۔
دوسری طرف عبدالمطلب اس انتظار میں تھے کہ کب حملہ ہوتا ہے، لیکن حملہ آور جب مکہ میں داخل نہ ہوئے تو وہ حالات معلوم کرنے کے لیے نیچے اترے۔مکہ سے باہر نکلے، تب انہوں نے دیکھا، سارا لشکر تباہ ہوچکا ہے۔خوب مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا۔بےشمار سامان ہاتھ آیا ، مال میں سونا چاندی بھی بےتحاشا تھا۔
لشکر میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو واپس نہیں بھاگے تھے۔یہ مکہ میں رہ گئے تھے ان میں ابرہہ کے ہاتھی کا مہاوت بھی تھا جو محمود کو آگے لانے میں ناکام رہا تھا۔
ہمارے نبی .حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے چند دن بعد پیدا ہوئے۔آپ جس مکان میں پیدا ہوئے، وہ صفا پہاڑی کے قریب تھا۔.حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ میں ہوگی، یہ کعب پہلے یہودی تھے، اس لیے تورات پڑھا کرتے تھے۔
دنیا میں آتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روئے۔.حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ کہتی ہیں کہ جب .حضرت آمنہ کے ہاں ولادت ہوئی تو میں وہاں موجود تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاتھوں میں آئے۔یہ غالبآ دایہ تھی۔ان کا نام شفا تھا۔فرماتی ہیں: جب آپ میرے ہاتھوں میں آئے تو روئے۔
آپ کے دادا عبدالمطلب کو آپ کی ولادت کی اطلاع دی گئی۔وہ اس وقت خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔اطلاع ملنے پر گھر آئے۔بچے کو گود میں لیا۔اس وقت آپ کی والدہ نے ان سے کہا:
"یہ بچہ عجیب ہے، سجدے کی حالت میں پیدا ہوا ہے، یعنی پیدا ہوتے ہی اس نے پہلے سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر انگلی آسمان کی طرف اٹھائی۔"
عبدالمطلب نے آپ کو دیکھا۔اس کے بعد آپ کو کعبہ میں لے آئے۔آپ کو گود میں لیے رہے اور طواف کرتے رہے۔پھر واپس لاکر حضرت آمنہ کو دیا۔آپ کو عرب کے دستور کے مطابق ایک برتن سے ڈھانپا گیا، لیکن وہ برتن ٹوٹ کر آپ کے اوپر سے ہٹ گیا۔اس وقت آپ اپنا انگوٹھا چوستے نظر آئے۔
اس موقع پر شیطان بری طرح چیخا۔تفسیر ابن مخلد میں ہے کہ شیطان صرف چار مرتبہ چیخا، پہلی بار اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے اسے معلون ٹھہرایا، دوسری بار اس وقت جب اسے زمین پر اتارا گیا، تیسری بار اس وقت چیخا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور چوتھی مرتبہ اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔
اس موقع پر .حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"میں آٹھ سال کا تھا، جو کچھ دیکھتا اور سنتا تھا، اس کو سمجھتا تھا ۔ایک صبح میں نے یثرب یعنی مدینہ منورہ میں ایک یہودی کو دیکھا، وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر چلا رہا تھا۔لوگ اس یہودی کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:
"کیا بات ہے، کیوں چیخ رہے ہو؟ "
یہودی نے جواب دیا:
"احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے اور وہ آج رات پیدا ہوگئے ہیں۔"
.حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بعد میں 60 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے۔120 سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔گویا ایمان کی حالت میں 60 سال زندہ رہے۔بہت اچھے شاعر تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اشعار میں تعریف کیا کرتے تھے اور دشمنوں کی برائی اشعار میں بیان کرتے تھے۔غزوات کے موقع پر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو جوش دلاتے تھے۔اسی بنیاد پر انہیں شاعر رسول کا خطاب ملا تھا۔
.حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کی خبر دے دی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا تھا:
"تمہارے نزدیک جو مشہور چمک دار ستارہ ہے، جب وہ حرکت میں آئے گا، تو وہی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا ہوگا۔"
یہ خبر بنی اسرائیل کے علماء ایک دوسرے کو دیتے چلے آئے تھے اور اس طرح بنی اسرائیل کو بھی آنحضرت کی ولادت کا وقت یعنی اس کی علامت معلوم تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عالم مکہ میں رہتا تھا، جب وہ رات آئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو وہ قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا، اس نے کہا:
"کیا تمہارے ہاں آج کوئی بچہ پیدا ہوا ہے۔"
لوگوں نے کہا:
"ہمیں تو معلوم نہیں۔"
اس پر اس یہودی نے کہا:
"میں جو کچھ کہتا ہوں، اسے اچھی طرح سن لو، آج اس امت کا آخری نبی پیدا ہوگیا ہے اور قریش کے لوگوں! وہ تم میں سے ہے، یعنی وہ قریشی ہے۔اس کے کندھے کے پاس ایک علامت ہے( یعنی مہر نبوت)اس میں بہت زیادہ بال ہیں۔یعنی گھنے بال ہیں اور یہ نبوت کا نشان ہے۔نبوت کی دلیل ہے۔اس بچے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ دو رات تک دودھ نہیں پیے گا۔ان باتوں کا ذکر اس کی نبوت کی علامات کے طور پر پرانی کتب میں موجود ہے۔
علامہ ابن حجر نے لکھاہےکہ یہ بات درست ہے، آپ نے دودن تک دودھ نہیں پیاتھا-
یہودی عالم نے جب یہ باتیں بتائیں تولوگ وہاں سے اٹھ گئے-انہیں یہودی کی باتیں سن کر بہت حیرت ہوئی تھی-جب وہ لوگ اپنے گھروں میں پہنچےتوان میں سے ہر ایک نے اس کی باتیں اپنے گھرکےافرادکوبتائیں، عورتوں کوچونکہ حضرت آمنہ کےہاں بیٹاپیداہونےکی خبرہوچکی تھی، اس لیے انہوں نے اپنےمردوں کوبتایاں:
ذراچل کر مجھے وہ بچہ دکھاؤ-،،
لوگ اسےساتھ لیےحضرت آمنہ کےگھرکےباہرآئے، ان سے بچہ دکھانےکی درخواست کی-آپ نے بچےکوکپڑے سےنکال کرانہیں دےدیا-لوگوں نے آپ کےکندھے پرسے کپڑاہٹایا-یہودی کی نظر جونہی مہرنبوت پر پڑی، وہ فوراًبےہوش ہوکرگر پڑا، اسے ہوش آیاتو لوگوں نے اس سےپوچھا:
تمہیں کیاہوگیاتھا-،،
جواب میں اس نےکہا:
میں اس غم سے بےہوش ہواتھاکہ میری قوم میں سےنبوت ختم ہوگئ..اور اے قریشیو! اللہ کی قسم! یہ بچہ تم پر زبردست غلبہ حاصل کرےگا اور اس کی شہرت مشرق سے مغرب تک پھیل جائےگی-،،
_سیرت النبی ﷺ_,*
 ╨─────────────────────❥
*┱✿
عنوان: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ستارہ چمکا

ملک شام کاایک یہودی عیص مکہ سے کچھ فاصلے پر رہتا تھا۔وہ جب بھی کسی کام سے مکہ آتا، وہاں کے لوگوں سے ملتا تو ان سے کہتا: 
"بہت قریب کے زمانے میں تمہارے درمیان ایک بچہ پیدا ہوگا، سارا عرب اس کے راستے پر چلے گا۔ اس کے سامنے ذلیل اور پست ہوجائے گا۔وہ عجم اور اس کے شہروں کا بھی مالک ہوجائے گا۔یہی اس کا زمانہ ہے۔جو اس کی نبوت کے زمانے کو پائے گا اور اس کی پیروی کرے گا، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔جس خیر اور بھلائی کی وہ امید کرتاہے، وہ اس کو حاصل ہوگی اور جو شخص اس کی نبوت کا زمانہ پائے گا مگر اس کی مخالفت کرے گا، وہ اپنے مقصد اور آرزوؤں میں ناکام ہوگا۔"
مکہ معظمہ میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا، وہ یہودی اس بچے کے بارے میں تحقیق کرتا اور کہتا، ابھی وہ بچہ پیدا نہیں ہوا۔آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو عبدالمطلب اپنے گھر سے نکل کر اس یہودی کے پاس پہنچے۔اس کی عبادت گاہ کے دروازے پر پہنچ کر انہوں آواز دی۔عیص نے پوچھا: 
"کون ہے؟ "
انہوں نے اپنا نام بتایا۔پھر اس سے پوچھا:
"تم اس بچے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ "
اس نے انہیں دیکھا، پھر بولا: 
"ہاں! تم ہی اس کے باپ ہوسکتے ہو، بےشک وہ بچہ پیدا ہوگیا ہے جس کے بارے میں، میں نے تم لوگوں سے کہا کرتا تھا۔وہ ستارہ آج طلوع ہوگیا ہے جو اس بچے کی پیدائش کی علامت ہے... اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت اس بچے کو درد ہورہا ہے، یہ تکلیف اسے تین دن رہے گی، اور اس کے بعد یہ ٹھیک ہوجائے گا۔"
راہب نے جو یہ کہا تھا کہ بچہ تین دن تک تکلیف میں رہے گا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے تین دن تک دودھ نہیں پیا تھا اور یہودی نے جو یہ کہا تھا کہ ہاں! آپ ہی اس کے باپ ہوسکتے ہیں، اس سے یہ مراد ہے کہ عربوں میں دادا کو بھی باپ کہہ دیا جاتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خود فرمایا تھا: 
"میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔"
یہودی نے عبدالمطلب سے یہ بھی کہا تھا: 
"اس بارے میں اپنی زبان بند رکھیں، یعنی کسی کو کچھ نہ بتائیں، ورنہ لوگ اس بچے سے زبردست حسد کریں گے، اتنا حسد کریں گے کہ آج تک کسی نے نہیں کیا اور اس کی اس قدر سخت مخالفت ہوگی کہ دنیا میں کسی اور کی اتنی مخالفت نہیں ہوئی۔"
پوتے کے متعلق یہ باتیں سن کر عبدالمطلب نے عیص سے پوچھا: 
"اس بچے کی عمر کتنی ہوگی؟ "
یہودی نے اس سوال کے جواب میں کہا: 
"اگر اس بچے کی عمر طبعی ہوئی تو بھی ستر سال تک نہیں ہوگی۔بلکہ اس سے پہلے ہی 61 یا 63 سال کی عمر میں وفات ہوجائے گی اور اس کی امت کی اوسط عمر بھی اتنی ہوگی، اس کی پیدائش کے وقت دنیا کے بت ٹوٹ کر گر جائیں گے۔"
یہ ساری علامات اس یہودی نے گزشتہ انبیاء کی پیش گوئیوں سے معلوم کی تھیں اور سب سب بالکل سچ ثابت ہوئیں۔
قریش کے کچھ لوگ عمرو بن نفیل اور عبداللہ بن حجش وغیرہ ایک بت کے پاس جایا کرتے تھے۔یہ اس رات بھی اس کے پاس گئے، جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔انہوں نے دیکھا وہ بت اوندھے منہ گرا پڑا ہے۔ان لوگوں کو یہ بات بری لگی، انہوں نے اس کو اٹھایا، سیدھا کردیا مگر وہ پھر گرگیا۔انہوں نے پھر اس کو سیدھا کیا، وہ پھر الٹا ہوگیا۔ان لوگوں کو بہت حیرت ہوئی، یہ بات بہت عجیب لگی۔تب اس بت سے آواز نکلی۔
"یہ ایک ایسے بچے کی پیدائش کی خبر ہے، جس کے نور سے مشرق اور مغرب میں زمین کے تمام گوشے منور ہوگئے ہیں۔"
بت سے نکلنے والی آواز نے انہیں اور زیادہ حیرت زدہ کردیا۔
اس کے علاوہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایران کے شہنشاہ کسریٰ نوشیرواں کا محل ہلنے لگا اور اس میں شگاف پڑگئے۔نوشیرواں کا یہ محل نہایت مضبوط تھا۔بڑے بڑے پتھروں اور چونے سے تعمیر کیا گیا تھا۔اس واقعے سے پوری سلطنت میں دہشت پھیل گئی۔شگاف پڑنے سے خوفناک آواز بھی نکلی تھی۔محل کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر نیچے آگرے تھے۔
آپ کی پیدائش پر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ فارس کے تمام آتش کدوں کی وہ آگ بجھ گئی جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو بجھنے نہیں دیتے تھے، لیکن اس رات میں ایک ہی وقت میں تمام کے تمام آتش کدوں کی آگ آناً فاناً بجھ گئی۔آگ کے پوجنے والوں میں رونا پیٹنا مچ گیا۔
کسریٰ کو یہ تمام اطلاعات ملیں تو اس نے ایک کاہن کو بلایا۔اس نے اپنے محل میں شگاف پڑنے اور آتش کدوں کی آگ بجھنے کے واقعات اسے سناکر پوچھا: 
"آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔"
وہ کاہن خود تو جواب نہ دے سکا، تاہم اس نے کہا:
”ان سوالات کے جوابات میرا ماموں دے سکتا ہے، اس کا نام سطیح ہے ۔“
نوشیرواں نے کہا
”ٹھیک ہے، تم جا کر ان سوالات کے جوابات لاٶ۔“
وہ گیا، سطیح سے ملا، اسے یہ واقعات سناۓ، اس نے سن کر کہا:
”ایک عصا والے نبی ظاہر ہوں گے جو عرب اور شام پر چھا جائیں گے اور جو کچھ ہونے والا ہے، ہو کر رہے گا۔“
اس نے یہ جواب کسریٰ کو بتایا ۔ اس وقت تک کسریٰ نے دوسرے کاہنوں سے بھی معلومات حاصل کر لی تھیں، چنانچہ یہ سن کر اس نے کہا:
”تب پھر ابھی وہ وقت آنے میں دیر ہے۔“ (یعنی ان کا غلبہ میرے بعد ہو گا)
پیدائش کے ساتویں دن عبدالمطلب نے آپ کا عقیقہ کیا اور نام ”محمد“ رکھا۔ عربوں میں اس سے پہلے یہ نام کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ قریش کو یہ نام عجیب سا لگا۔چنانچہ کچھ لوگوں نے عبدالمطلب سے کہا:
”اے عبدالمطلب! کیا وجہ ہے کہ تم نے اس بچے کا نام اس ک باپ دادا کےنام پر نہیں رکھا بلکہ محمد رکھا ہے اور یہ نام نہ تمہارے باپ دادا میں سے کسی کا ہے نہ تمہاری قوم میں سے کسی کا ہے۔“
عبدالمطلب نے انہیں جواب دیا:
”میری تمنا ہے کہ آسمانوں میں اللہ تعالیٰ اس بچے کی تعریف فرمائیں اور زمین پر لوگ اس کی تعریف کریں۔“
(محمد کے معنی ہیں جس کی بہت زیادہ تعریف کی جاۓ۔)
اسی طرح والدہ کی طرف سے آپ کا نام احمد رکھا گیا۔ احمد نام بھی اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ ان دونوں ناموں کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی اور کوئی بھی یہ نام نہ رکھ سکا۔ احمد کا مطلب ہے سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔
علامہ سہیلی نے لکھا ہے آپ احمد پہلے ہیں اور محمد بعد میں۔ یعنی آپ کی تعریف دوسروں نے بعد میں کی، اس سے پہلے آپ کی شان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد و ثنا کرنے والے ہیں۔ پرانی کتابوں میں آپ کا نام احمد ذکر کیا گیا ہے۔
اپنی والدہ کے بعد آپ نے سب سے پہلے ثوبیہ کا دوھ پیا، ثوبیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی باندی تھیں۔ ان کو ابو لہب نے آپ کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کر دیا تھا۔ ثوبیہ نے آپ کو چند دن تک دودھ پلایا۔ انہیں دنوں ثوبیہ کے ہاں اپنا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو صرف نو دن تک دودھ پلایا۔ انکے بعد ثوبیہ نے پلایا۔ پھر دودھ پلانے کی باری حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی آئی۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی بستی سے روانہ ہوئیں۔ ان کے ساتھ ان کا دودھ پیتا بچہ اور شوہر بھی تھے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا دوسری عورتوں کے بعد مکہ میں داخل ہوئیں۔ ان کا خچر بہت کمزور اور مریل تھا ۔ ان کے ساتھ ان کی کمزور اور بوڑھی اونٹنی تھی۔ وہ بہت آہستہ چلتی تھی۔ ان کی وجہ سے حلیمہ رضی اللہ عنہا قافلے سے بہت پیچھے رہ جاتی تھیں۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ سب سے آخر میں مکہ میں داخل ہوئیں۔ 

_سیرت النبی ﷺ_,*
 ╨─────────────────────❥
*┱
 عنوان: حلیمہ سعدیہ ؓ کی گود 

اس زمانے میں عرب کا دستور یہ تھاکہ جب ان کے ہاں کوئی بچہ ہوتا تو وہ دیہات سے آنیوالی دائیوں کے حوالے کردیتے تھے تاکہ دیہات میں بچے کی نشوونمابہتر ہواوروہ خالص عربی زبان سیکھ سکے-
دائیوں کا قافلہ مکہ میں داخل ہوا_انہوں نے ان گھروں کی تلاش شروع کی جن میں بچے پیدا ہوئے تھے-اس طرح بہت سی دائیاں جناب عبد المطلب کے گھر بھی آئیں-نبی کریمﷺکو دیکھالیکن جب انہیں معلوم ہواکہ یہ بچہ تو یتیم پیدا ہواہے تو اس خیال سے چھوڑکر آگے بڑھ گئیں کہ یتیم بچے کے گھرانے سے انہیں کیاملے گا-اس طرح دائیاں آتی رہیں، جاتی رہیں...کسی نے آپ کو دودھ پلانامنظور نہ کیااور کرتیں بھی کیسے؟ یہ سعادت تو حضرت حلیمہؓ کے حصے میں آناتھی-
جب حلیمہ ؓ مکہ پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا، سب عورتوں کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیاہے اور اب صرف وہ بغیر بچے کے رہ گئیں ہیں اور اب کوئی بچہ باقی نہیں بچا، ہاں ایک یتیم بچہ ضرور باقی ہے جسے دوسری عورتیں چھوڑ گئیں ہیں-
حلیمہ سعدیہؓ نے اپنے شوہر عبد اللہ ابن حارث سے کہا: 
خدا کی قسم! مجھے یہ بات بہت ناگوار گزر رہی ہے کہ میں بچے کے بغیر جاؤں دوسری سب عورتیں بچے لے کر جائیں، یہ مجھے طعنے دیں گے، اس لیے کیوں نہ ہم اسی یتیم بچے کو لے لیں۔"
عبداللہ بن حارث بولے: 
"کوئی حرج نہیں! ہوسکتا ہے، اللہ اسی بچے کے ذریعے ہمیں خیروبرکت عطا فرمادیں۔"
چنانچہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا عبدالمطلب کے گھر گئیں۔جناب عبدالمطلب اور حضرت آمنہ نے انہیں خوش آمدید کہا۔پھر آمنہ انہیں بچے کے پاس لے آئیں۔آپ اس وقت ایک اونی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔وہ چادر سفید رنگ کی تھی۔آپ کے نیچے ایک سبز رنگ کا ریشمی کپڑا تھا۔آپ سیدھے لیٹے ہوئے تھے، آپ کے سانس کی آواز کے ساتھ مشک کی سی خوشبو نکل کر پھیل رہی تھی۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے، انہوں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔لیکن جونہی انہوں نے پیار سے اپنا ہاتھ آپ کے سینے پر رکھا، آپ مسکرادیے اور آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 
"میں نے دیکھا، آپ کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا، میں نے آپ کو گود میں اٹھا کر آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیانی جگہ پر پیار کیا۔پھر میں نے آپ کی والدہ اور عبدالمطلب سے اجازت چاہی، بچے کے لیے قافلے میں آئی۔میں نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹایا تو آپ دائیں طرف سے دودھ پینے لگے، پہلے میں نے بائیں طرف سے دودھ پلانا چاہا، لیکن آپ نے اس طرف سے دودھ نہ پیا، دائیں طرف سے آپ فوراً دودھ پینے لگے۔بعد میں بھی آپ کی یہی عادت رہی، آپ صرف دائیں طرف سے دودھ پیتے رہے، بائیں طرف سے میرا بچہ دودھ پیتا رہا۔
پھر قافلہ روانہ ہوا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 
"میں اپنے خچر پر سوار ہوئی۔آپ کو ساتھ لے لیا۔اب جو ہمارا خچر چلا تو اس قدر تیز چلا کہ اس نے پورے قافلے کی سواریوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔پہلے وہ مریل ہونے کی بنا پر سب سے پیچھے رہتا تھا۔میری خواتین ساتھی حیرانگی سے مخاطب ہوئیں: 
"اے حلیمہ! یہ آج کیا ہورہا ہے، تمہارا خچر اس قدر تیز کیسے چل رہا ہے، کیا یہ وہی خچر ہے، جس پر تم آئیں تھیں اور جس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل تھا؟ "
جواب میں میں ان سے کہا: 
"بےشک! یہ وہی خچر ہے، اللہ کی قسم! اس کا معاملہ عجیب ہے۔"
پھر یہ لوگ بنو سعد کی بستی پہنچ گئے، ان دنوں یہ علاقہ خشک اور قحط زدہ تھا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 
"اس شام جب ہماری بکریاں چر کر واپس آئیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے تھے جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا، ان میں سے دودھ بہت کم اور بہت مشکل سے نکلتا تھا۔ہم نے اس دن اپنی بکریوں کا دودھ دوہا تو ہمارے سارے برتن بھرگئے اور ہم نے جان لیا کہ یہ ساری برکت اس بچے کی وجہ سے ہے۔آس پاس کی عورتوں میں بھی یہ بات پھیل گئی، ان کی بکریوں بدستور بہت کم دودھ دے رہی تھیں۔
غرض ہمارے گھر میں ہر طرف، ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔دوسرے لوگ تعجب میں رہے۔اس طرح دو ماہ گزر گئے۔دو ماہ ہی میں آپ چلنے پھرنے لگے۔آپ آٹھ ماہ کے ہوئے تو باتیں کرنے لگے اور آپ کی باتیں سمجھ میں آتیں تھیں۔نو ماہ کی عمر میں تو آپ بہت صاف گفتگو کرنے لگے۔
اس دوران آپ کی بہت سی برکات دیکھنے میں آئیں۔حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: 
"جب میں آپ کو اپنے گھر لے آئی تو بنو سعد کا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا۔جس سے مشک کی خوشبو نہ آتی ہو، اس طرح سب لوگ آپ سے محبت کرنے لگے ۔جب ہم نے آپ کا دودھ چھڑایا تو آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے: 
اللہ اکبرکبیراوالحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا
یعنی اللہ تعالٰی بہت بڑاہے، اللہ تعالی کے لئے بے حد تعريف ہے، اور اس کےلئے صبح وشام پاکی ہے،، ۔
پھر جب آپ ﷺدو سال کے ہو گئے تو ہم آپ کو لےکر آپ کی والدہ کے پاس آئے، اس عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو ماں باپ کے حوالہ کردیا جاتاتھا ۔ادھر ہم آپکی برکات. دیکھ چکےتھے اور ہماری آرزو تھی کہ ابھی آپ کچھ اور مدت ہمارے پاس رہیں، چنانچہ ہم نے اس بارے میں آپ کی والدہ سے بات کی، ان سے یوں کہا ; 
،، آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم بچےکو ایک سال اوراپنے پاس رکھیں، میں ڈرتی ہوں، کہیں اس پر مکہ کی بيماريوں اور آب و ہوا کااثر نہ ہوجائے،، ۔
جب ہم نے ان سے باربار کہا تو حضرت آمنہ مان گئیں اورہم آپ کو پھر اپنے گھر لے آئے۔جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو باہر نکل کر بچو ں کو دیکھتے تھے ۔وہ آپ کو کھیلتے نظر آتے، آپ ان کے نزدیک نہ جاتے، ایک روز آپ نے مجھ سے پو چھا; 
،، امی جان " کیا بات ہے دن میں میرے بھائ بہن نظر نہیں آتے? آپ اپنے دودھ شریک بھائ عبداللہ اور بہنوں انیسہ اور شیما کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں; میں نے آپ کو بتایا، وہ صبح سویرے بکریاں چرانے جاتےہیں، شام کے بعد گھر آتے ہیں: یہ جان کر آپ نے فرمایا: 
"تب مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا کریں"
اسکے بعد آپ اپنے بھائ بہنوں کے ساتھ جانے لگے ۔آپ خوش خوش جاتے اور واپس آتے، ایسے میں ایک دن میرے بچے خوف زدہ انداز میں دوڑتے ہوئے آئے اور گھبرا کر بولے: 
"امی جان! جلدی چلئے… ورنہ بھائ محمدﷺ ختم ہو جائیں گے۔"
یہ سن کر ہمارے تو ہوش اڑ گئے، دوڑ کر وہاں پہنچے، ہم نے آپ کو دیکھا، آپ کھڑے ہوئے تھے، رنگ اڑا ہوا تھا، چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی - اور یہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ کو سینہ چاک کئے جانے سے کوئی تکلیف ہوئی تھی بلکہ ان فرشتوں کو دیکھ کر آپ کی حالت ہوئی تھی -"
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ہم نے آپ سے پوچھا:
"کیا ہوا تھا؟"
آپ نے بتایا:
"میرے پاس دو آدمی آئے تھے - وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے - (وہ دونوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام تھے) ان دونوں میں سے ایک نے کہا:
" کیا یہ وہی ہیں؟"
دوسرے نے جواب دیا:
"ہاں یہ وہی ہیں -" 
پھر وہ دونوں میرے قریب آئے، مجھے پکڑا اور لٹادیا - اس کے بعد انہوں نے میرا پیٹ چاک کیا اور اس میں سے کوئی چیز تلاش کرنے لگے - آخر انہیں وہ چیز مل گئی اور انہوں نے اسے باہر نکال کر پھینک دیا، میں نہیں جانتا، وہ کیا چیز تھی -"
اس چیز کے بارے میں دوسری روایات میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ایک دانہ سا تھا - یہ انسان کے جسم میں شیطان کا گھر ہوتا ہے اور شیطان انسان کے بدن میں یہیں سے اثرات ڈالتا ہے - 
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، پھر ہم آپ کو گھر لے آئے - اس وقت وہ میرے شوہر عبد اللہ بن حارث نے مجھے سے کہا:
"حلیمہ! مجھے ڈر ہے، کہیں اس بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، اس لیے اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو -"
میں نے کہا، ٹھیک ہے، پھر ہم آپ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے - جب میں مکہ کے بالائی علاقے میں پہنچی تو آپ اچانک غائب ہوگئے - میں حواس باختہ ہوگئی۔

_سیرت النبی ﷺ_,*
 ╨─────────────────────❥
عنوان: یہ غالب آئے گا

حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: ’’میں پریشانی کی حالت میں مکہ پہنچی، آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچتے ہی میں نے کہا: 
’’میں آج رات محمد کو لے کر آرہی تھی، جب میں بالائی علاقے میں پہنچی تو وہ اچانک کہیں گم ہوگئے۔ اب خدا کی قسم میں نہیں جانتی، وہ کہاں ہیں؟‘‘
عبدالمطلب یہ سن کر فورا کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے مل جانے کے لئے دعا کی۔ پھر آپ کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ورقہ بن نوفل بھی تھے۔ غرض دونوں تلاش کرتے کرتے تہامہ کی وادی میں پہنچے۔ ایک درخت کے نیچے انہیں ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ اس درخت کی شاخیں بہت گھنی تھیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ــ لڑکے تم کون ہو؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت تک قد نکال چکے تھے، اس لئے عبدالمطلب پہچان نہ سکے۔ آپ کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا: 
’’میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب بولے: 
’’تم پر میری جان قربان، میں ہی تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔‘‘
پھر انہوں نے آپ کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور رونے لگے، آپ کو گھوڑے پر اپنے آگے بٹھایا اور مکہ کی طرف چلے۔ گھر آکر انہوں نے بکریاں اور گائیں ذبح کیں اور مکے والوں کی دعوت کی۔ 
آپ کے مل جانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے پوچھا: 
’’حلیمہ! اب آپ بچے کو کیوں لے آئیں، آپ کی تو خواہش تھی کہ یہ ابھی آپ کے پاس اور رہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’یہ اب بڑے ہوگئے ہیں اور اللہ کی قسم میں اپنی ذمے داری پوری کرچکی ہوں، میں خوف محسوس کرتی رہتی ہوں، کہیں انہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، لہٰذا انہیں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘
حضرت آمنہ کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ بولیں:
’’مجھے سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟‘‘
تب انہوں نے سارا حال کہہ سنایا۔ حلیمہ سعدیہ نے دراصل کئی عجیب وغریب واقعات دیکھے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں، پھر سینۂ مبارک چاک کئے جانے والا واقعہ پیش آیا تو وہ آپ کو فوری طور پر واپس کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ چند واقعات حضرت حلیمہ رضیٰ اللہ عنہا اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت میرے پاس سے گزری۔ یہ لوگ آسمانی کتاب تورات کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، میں نے ان سے کہا، کیا آپ لوگ میرے اس بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘
ساتھ ہی میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بارے میں انہیں تفصیلات سنائیں۔ یہودی تفصیلات سن کر آپس میں کہنے لگے: 
’’اس بچے کو قتل کردینا چاہئے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے پوچھا
کیا یہ بچہ یتیم ہے؟
میں نے ان کی بات سن لی تھی کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر رہے ہیں، سو میں نے جلدی سے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
نہیں! یہ ریے اس بچے کے باپ
تب انہوں نے کہا
اگر یہ بچہ یتیم ہوتا تو ہم ضرور اسے قتل کر دیتے.
یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کہ انہوں نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں، ان کا دین سارے عالم میں پھیل جائے گا، ہر طرف ان کا بول بالا ہو گا، ان کی پیدائش اور بچپن کی یہ یہ علامات ہوں گی اور یہ کہ وہ یتیم ہوں گے. اب چونکہ ان سے حلیمہ سعدیہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہے تو انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے. اس طرح انہوں نے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.
اسی طرح ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، ایک مرتبہ وہ آپ کو عکاظ کے میلے میں لے آئیں. جاہلیت کے دور میں یہاں بہت مشہور میلہ لگتا تھا. یہ میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان میں لگتا تھا. عرب کے لوگ حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے، کھیلتے کودتے اور اپنی بڑائیاں بیان کرتے. حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو لییے بازار میں گھوم رہی تھیں کہ ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی. اسے آپ میں نبوت کی تمام علامات نظر آ گئیں. اس نے پکار کر کہا
لوگو، اس بچے کو مار ڈالو.
حلیمہ اس کاہن کی بات سن کر گھبرا گئیں اور جلدی سے وہاں سے سرک گئیں. اس طرح اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت فرمائی.
میلے میں موجود لوگوں نے کاہن کی آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا کہ کس بچے کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر انہیں وہاں کوئی بچہ نظر نہیں آیا. اب لوگوں نے کاہن سے پوچھا
کیا بات ہے، آپ کس بچے کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں
اس نے ان لوگوں کو بتایا
میں نے ابھی ایک لڑکے کو دیکھا ہے، معبودوں کی قسم وہ تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ تم سب پر غالب آئے گا.
یہ سن کر لوگ آپ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے لیکن ناکام رہے، حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لییے واپس آ رہی تھیں کہ ذی الحجاز سے ان کا گزر ہوا. یہاں بھی میلہ لگا ہوا تھا. اس بازار میں ایک نجومی تھا. لوگ اس کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آتے تھے وہ بچوں کو دیکھ کر ان کی قسمت کے بارے میں اندازے لگاتا تھا. حلیمہ سعدیہ اس کے نزدیک سے گزریں تو نجومی کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، نجومی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر نبوت نظر آ گئی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی خاص سرخی اس نے دیکھ لی. وہ چلا اٹھا.
اے عرب کے لوگو. اس لڑکے کو قتل کر دو. یہ یقیناً تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور تم پر غالب آئے گا.
یہ کہتے ہوئے وہ آپ کی طرف جھپٹا لیکن اسی وقت وہ پاگل ہو گیا اور اسی پاگل پن میں مر گیا
ایک اور واقعہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبشہ کے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزری. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حلیمہ سعدیہ کے ساتھ تھے اور وہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے جا رہی تھیں. ان عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی سرخی کو بھی دیکھا، انہوں نے حلیمہ سعدیہ سے پوچھا.
کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟
انہوں نے جواب میں کہا: 
"نہيں: کوئی تکلیف نہیں! یہ سرخی تو ان کی آنکھوں میں قدرتی ہے۔"
ان عیسائیوں نے کہا: 
"تب اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم اسے اپنے ملک لے جائیں گے،. یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے ۔ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔"
حلیمہ سعدیہ یہ سنتے ہی وہاں سے جلدی سےدور چلی گئیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کے پاس پہنچا دیا ۔
ان واقعات میں جو سب سے اہم واقعہ ہے،. وہ سینہ مبارک چاک کرنے والا تھا ۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر سلائی کے نشانات موجود تھے جیساکہ آج کل ڈاکٹر حضرات آپریشن کے بعد ٹانکے لگاتے ہیں، ٹانکے کھول دیئے جانے کے بعد بھی سلائی کے نشانات موجود رہتے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ اور کے خاوند نے فیصلہ کیا کہ اب بچے کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے... 
جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالہ کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۴سال تھی ۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ اس وقت عمر شریف پانچ سال تھی، ایک تیسری روایت کے مطابق عمر مبارک چھ سال ہو چکی تھی ۔
جب حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالے کیا، تو اس کے کچھ دنوں بعد حضرت آمنہ انتقال کر گئیں،والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت آمنہ کی وفات مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر ہوئی ۔آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔
ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر اپنے میکے مدینہ منورہ گئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ام ایمن بھی تھیں ۔ام ایمن کہتی ہیں، ایک دن مدینہ کے دو یہودی میرے پاس آئے اور بولے: 
"ذرا محمد کو ہمارے سامنے لاؤ، ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے سامنے لے آئیں ۔انہوں نے اچھی طرح دیکھا پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: 
"یہ اس امت کا نبی ہے، اور یہ شہر ان کی ہجرت گاہ ہے، یہاں زبردست جنگ ہوگی، قیدی پکڑے جائیں گے۔"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کو یہودیوں کی اس بات کا پتہ چلا تو آپ ڈر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں... مگر راستے ہی میں ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں ۔

╨─────────────────────❥
عنوان: نرالی شان کا مالک

حضرت آمنہ کے انتقال کے پانچ دن بعد ام ایمن آپ کو لے کر مکہ پہونچیں۔ آپ کو عبدالمطلب کے حوالے کیا۔آپ کے یتیم ہوجانے کا انہیں اتنا صدمہ تھا کہ بیٹے کی وفات پر بھی اتنا نہیں ہوا تھا۔
عبدالمطلب کے لیے کعبہ کے سائے میں ایک کالین بچھایا جاتا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کا احترام اس قدر تھا کہ کوئی اور اس قالین پر بیٹھتا نہیں تھا، چنانچہ ان کے بیٹے اور قریش کے سردار اس قالین کے چاروں طرف بیٹھتے تھے، لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہاں تشریف لاتے تو سیدھے اس قالین پر جا بیٹھتے۔ اس وقت آپ ایک تندرست لڑکے تھے، آپ کی عمر نو سال کے قریب ہو چلی تھی، آپ کے چچا عبدالمطلب کے ادب کی وجہ سے آپ کو اس قالین سے ہٹانا چاہتے تو عبدالمطلب کہتے ; 
میرے بیٹےکو چھوڑ دو، اللّٰہ کی قسم ! یہ بہت شان والا ہے۔ 
پھر وہ آپ کو محبت سے اس فرش پر بٹھاتے، آپ کی کمر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے، آپ کی باتیں سن سن کر حد درجے خوش ہوتے رہتے۔
کبھی وہ دوسروں سے کہتے; 
ُُ میرے بیٹے کو یہیں بیٹھنے دو، اسے خود بھی احساس ہے کہ اس کی بڑی شان ہے، اور میری آرزو ہے یہ اتنا بلند رتبہ پائے جو کسی عرب کو اس سے پہلے حاصل نہ ہوا ہو اور نہ بعد میں کسی کو حاصل ہوسکے۔
ایک بار انہوں نے یہ الفاظ کہے; 
" میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اس کے مزاج میں طبعی طور بلندی ہے.... اس کی شان نرالی ہوگی"۔
یہاں تک کہ عمر کے آخری حصے میں حضرت عبدالمطلب کی آنکھیں جواب دے گئی تھیں، آپ نابینا ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں ایک روز وہ اس قالین پر بیٹھے تھے کہ آپ تشریف لے آئے اور سیدھے اس قالین پر جا پہنچے۔ ایک شخص نے آپ کو قالین سے کھینچ لیا۔ اس پر آپ رونے لگے، آپ کے رونے کی آواز سن کر عبدالمطلب بے چین ہوئے اور بولے: 
"میرا بیٹا کیوں رو رہا ہے "
"آپ کے قالین پر بیٹھنا چاہتا ہے... ہم نے اسے قالین سے اتار دیا ہے۔"
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا: 
"میرے بیٹے کو قالین پر ہی بٹھا دو، یہ اپنا رتبہ پہچانتا ہے، میری دعا ہے کہ یہ اس رتبے کو پہنچے جو اس سے پہلے کسی عرب کو نہ ملا ہو، اس کے بعد کسی کو نہ ملے۔"
اس کے بعد پھر کسی نے آپ کو قالین پر بیٹھنے سے نہیں روکا۔‌
ایک روز بنو مدلج کے کچھ لوگ حضرت عبدالمطلب سے ملنے کے لئے آئے... ان کے پاس اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے ۔بنو مدلج کے لوگوں نے آپ کو دیکھا، یہ لوگ قیافہ شناس تھے، آدمی کا چہرہ دیکھ کر اس کے مستقبل کے بارے میں اندازے بیان کرتے تھے۔انہوں نے عبدالمطلب سے کہا: 
" اس بچے کی حفاظت کریں، اس لیے کہ مقام ابراہیم پر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کا نشان ہے، اس بچے کے پاؤں کا نشان بالکل اس نشان سے ملتا جلتا ہے، اس قدر مشابہت ہم نے کسی اور کے پاؤں کے نشان میں نہیں دیکھی... ہمارا خیال ہے... یہ بچہ نرالی شان کا مالک ہوگا.. . اس لیے اس کی حفاظت کریں۔"
مقام ابراہیم خانہ کعبہ میں وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ معجزے کے طور پر اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پیروں کے نشان پڑگئے تھے۔ لوگ اس پتھر کی زیارت کرتے ہیں ۔ یہی مقام ابراہیم ہے۔ چونکہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس لیے ان کے پاؤں کی مشابہت آپ میں ہونا قدرتی بات تھی۔
ایک روز حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ میں حجر اسود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ایسے میں ان کے پاس نجران کے عیسائی آگئے۔ان میں ایک پادری بھی تھا ۔ اس پادری نے عبدالمطلب سے کہا۔: 
"ہماری کتابوں میں ایک ایسے نبی کی علامات ہیں جو اسماعیل کی اولاد میں ہونا باقی ہے، یہ شہر اس کی جائے پیدائش ہوگا، اس کی یہ یہ نشانیاں ہوں گی۔"
ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ کوئی شخص آپ کو لے کر وہاں آپہنچا۔ پادری کی نظر جونہی آپ پر پڑی، وہ چونک اٹھا، آپ کی آنکھوں، کمر اور پیروں کو دیکھ کر وہ چلا اٹھا: 
" وہ نبی یہی ہیں، یہ تمہارے کیا لگتے ہیں ۔"
عبدالمطلب بولے
" یہ میرے بیٹے ہیں ۔"
اس پر وہ پادری بولا: 
" اوہ! تب یہ وہ نہیں... اس لیے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے والد کا انتقال اس کی پیدائش سے پہلے ہوجائے گا۔
یہ سن کر عبدالمطلب بولے: 
" یہ دراصل میرا پوتا ہے، اس کے باپ کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔"
اس پر پادری بولا:
" ہاں! یہ بات ہوئی نا... آپ اس کی پوری طرح حفاظت کریں۔"
عبدالمطلب کی آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو کہتے: 
"میرے بیٹے کو لے آؤ۔"
آپ تشریف لاتے تو عبدالمطلب آپ کو اپنے پاس بٹھاتے ۔ آپ کو اپنے ساتھ کھلاتے۔
بہت زیادہ عمر والے ایک صحابی حیدہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
" میں ایک مرتبہ اسلام سے پہلے، جاہلیت کے زمانے میں حج کے لئے مکہ معظمہ گیا۔وہاں بیت الله کا طواف کررہا تھا ۔ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا، جو بہت بوڑھا اور بہت لمبے قد کا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔اور کہہ رہا تھا، اے میرے پروردگار میری سواری کو محمد کی طرف پھیر دے اور اسے میرا دست و بازو بنادے۔میں نے اس بوڑھے کو جب یہ شعر پڑھتے سنا تو لوگوں سے پوچھا: 
"یہ کون ہے؟ "
لوگوں نے بتایا یہ عبدالمطلب بن ہاشم ہیں ۔ انہوں نے اپنے پوتے کو اپنے ایک اونٹ کی تلاش میں بھیجا ہے۔ وہ اونٹ گم ہوگیا ہے، اور وہ پوتا ایسا ہے جب بھی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں اسے بھیجاجاتا ہے تو وہ چیز لے کر ہی آتا ہے۔ پوتے سے پہلے یہ اپنے بیٹوں کو اس اونٹ کی تلاش میں بھیج چکے ہیں، لیکن وہ ناکام لوٹ آئے ہیں، اب چونکہ پوتے کو گئے ہوئے دیر ہوگئی ہے، اس لئے پریشان ہے، اور دعا مانگ رہےہیں ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کو لئے تشریف لا رہے ہے۔عبدالمطلب نے آپ کو، دیکھ کر کہا ؛ 
"میرے بیٹے ! میں تمہارے لئے اس قدر فکر مند ہوگیا تھا کہ شاید اس کا اثر کبھی میرے دل سے نہ جائے۔
عبدالمطلب کی بیوی کا نام رقیہ بنت ابو سیفی تھا ۔ وہ کہتی ہیں :
قریش کئی سال سے سخت قحط سالی کا شکار تھے. بارشیں بالکل بند تھیں. سب لوگ پریشان تھے، اسی زمانے میں، میں نے ایک خواب دیکھا، کوئی شخص خواب میں کہہ رہا تھا.
اے قریش کے لوگو. تم میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے، اس کے ظہور کا وقت آ گیا ہے. اس کے ذریعے تمہیں زندگی ملے گی، یعنی خوب بارشیں ہوں گی، سرسبزی اور شادابی ہوگی تم اپنے لوگوں میں سے ایک ایسا شخص تلاش کرو جو لمبے قد کا ہو، گورے رنگ کا ہو، اس کی پلکیں گھنی ہوں، بھنویں اور ابرو ملے ہوئے ہوں، وہ شخص اپنی تمام اولاد کے ساتھ نکلے اور تم میں سے ہر خاندان کا ایک آدمی نکلے، سب پاک صاف ہوں اور خوشبو لگائیں، وہ حجر اسود کو بوسہ دیں پھر سب جبل ابو قیس پر چڑھ جائیں. پھر وہ شخص جس کا حلیہ بتایا گیا ہے، آگے بڑھے اور بارش کی دعا مانگے اور تم سب آمین کہو تو بارش ہو جائے گی.
صبح ہوئی تو رقیقہ نے اپنا یہ خواب قریش سے بیان کیا. انہوں نے ان نشانیوں کو تلاش کیا تو سب کی سب نشانیاں انہیں عبد المطلب میں مل گئیں، چنانچہ سب ان کے پاس جمع ہوئے. ہر خاندان سے ایک ایک آدمی آیا. ان سب نے شرائط پوری کیں. اس کے بعد سب ابو قیس پہاڑ پر چڑھ گئے. ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے. آپ اس وقت نو عمر تھے. پھر عبد المطلب آگے بڑھے اور انہوں نے یوں دعا کی.
اے اللہ یہ سب تیرے غلام ہیں، تیرے غلاموں کی اولاد ہیں، تیری باندیاں ہیں اور تیری باندیوں کی اولاد ہیں، ہم پر جو برا وقت آ پڑا ہے، تو دیکھ رہا ہے، ہم مسلسل قحط سالی کا شکار ہیں. اب اونٹ، گائیں، گھوڑے، خچر اور گدھے سب کچھ ختم ہو چکے ہیں اور جانوروں پر بن آئی ہے. اس لیے ہماری یہ خشک سالی ختم فرما دے ہمیں زندگی اور سرسبزی اور شادابی عطا فرما دے
ابھی یہ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی. وادیاں پانی سے بھر گئیں لیکن اس بارش میں ایک بہت عجیب بات ہوئی اور وہ عجیب بات یہ تھی کہ قریش کو یہ سیرابی ضرور حاصل ہوئی مگر یہ بارش قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کی قریبی بستیوں میں بالکل نہ ہوئی. اب لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی. ایک قبیلے پر بارش اور آس پاس کے سب قبیلے بارش سے محروم.... تمام قبیلوں کے سردار جمع ہوئے، اس سلسلے میں بات چیت شروع ہوئی. ایک سردار نے کہا.
ہم زبردست قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں جب کہ قریش کو اللہ تعالٰی نے بارش عطا کی ہے اور یہ عبد المطلب کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے ہم سب ان کے پاس چلتے ہیں، اگر وہ ہمارے لیے دعا کر دیں تو شاید اللہ ہمیں بھی بارش دے دے.
یہ مشورہ سب کو پسند آیا، چنانچہ یہ لوگ مکہ معظمہ میں آئے اور عبد المطلب سے ملے. انہیں سلام کیا پھر ان سے کہا.
اے عبد المطلب ہم کئی سال سے خشک سالی کے شکار ہیں ہمیں آپ کی برکت کے بارے میں معلوم ہوا ہے، اس لیے مہربانی فرما کر آپ ہمارے لیے بھی دعا کریں، اس لیے کہ اللہ نے آپ کی دعا سے قریش کو بارش عطا کی ہے.
ان کی بات سن کر عبد المطلب نے کہا.
اچھی بات ہے میں کل میدان عرفات میں آپ لوگوں کے لیے بھی دعا کروں گا.
دوسرے دن صبح سویرے عبد المطلب میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے. ان کے ساتھ دوسرے لوگوں کے علاوہ ان کے بیٹے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے. عرفات کے میدان میں عبد المطلب کے لیے ایک کرسی بچھائی گئی. وہ اس پر بیٹھ گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے گود میں بٹھا لیا، پھر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی.
اے اللہ، چمکنے والی بجلی کے پروردگار، اور کڑکنے والی گرج کے مالک، پالنے والوں کے پالنے والے، اور مشکلات کو آسان کرنے والے. یہ قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کے لوگ ہیں، یہ بہت پریشان ہیں، ان کی کمریں جھک گئی ہیں، یہ تجھ سے اپنی لا چاری اور بے کسی کی فریاد کرتے ہیں اور جان و مال کی بربادی کی شکایت کرتے ہیں پس اے اللہ، ان کے لیے خوب برسنے والے بادل بھیج دے اور آسمان سے ان کے لیے رحمت عطا فرما تاکہ ان کی زمینیں سرسبز ہو جائیں اور ان کی تکالیف دور ہو جائیں.
عبد المطلب ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ایک سیاہ بادل اٹھا، عبد المطلب کی طرف آیا اور اس کے بعد اس کا رخ قبیلہ قیس اور بنو مضر کی بستیوں کی طرف ہو گیا. یہ دیکھ کر عبد المطلب نے کہا.
اے گروہ قریش اور مضر جاؤ تمہیں سیرابی حاصل ہو گی.
چنانچہ یہ لوگ جب اپنی بستیوں میں پہنچے تو وہاں بارش شروع ہو چکی تھی.
آپ سات سال کے ہو چکے تھے کہ آپ کی آنکھیں دکھنے کو آگئیں. مکہ میں آنکھوں کا علاج کرایا گیا لیکن افاقہ نہ ہوا. عبد المطلب سے کسی نے کہا.
عکاظ کے بازار میں ایک راہب رہتا ہے وہ آنکھوں کی تکالیف کا علاج کرتا ہے.
عبد المطلب آپ کو اس کے پاس لے گئے. اس کی عبادت گاہ کا دروازہ بند تھا. انہوں نے اسے آواز دی. راہب نے کوئی جواب نہ دیا. اچانک عبادت گاہ میں شدید زلزلہ آیا. راہب ڈر گیا کہ کہیں عبادت خانہ اس کے اوپر نہ گر پڑے. اس لئے ایک دم باہر نکل آیا.
اب اس نے آپ کو دیکھا تو چونک اٹھا. اس نے کہا.
اے عبد المطلب. یہ لڑکا اس امت کا نبی ہے. اگر میں باہر نہ نکل آتا تو یہ عبادت گاہ ضرور مجھ پر گر پڑتی. اس لڑکے کو فوراً واپس لے جاؤ اور اس کی حفاظت کرو. کہیں یہودیوں یا عیسائیوں میں سے کوئی اسے قتل نہ کر دے.
پھر اس نے کہا
اور رہی بات ان کی آنکھوں کی... تو آنکھوں کی دعا تو خود ان کے پاس موجود ہے.
عبد المطلب یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے.
ان کے اپنے پاس ہے، میں سمجھا نہیں. ہاں. ان کا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگائیں.
انہیں نے ایسا ہی کیا، آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں.
پرانی آسمانی کتابوں میں آپ کی بہت سی نشانیاں لکھی ہوئی تھیں. اس کی تفصیل بہت دلچسپ ہے.
یمن میں ایک قبیلہ حمیر تھا. وہاں ایک شخص سیف بن یزن تھا. وہ سیف حمیری کہلاتا تھا. کسی زمانے میں اس کے باپ دادا اس ملک پر حکومت کرتے تھے لیکن پھر حبشیوں نے یمن پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا. وہاں حبشیوں کی حکومت ہو گئی. ستر سال تک یمن حبشیوں کے قبضے میں رہا، جب یہ سیف بڑا ہوا تو اس کے اندر اپنے باپ دادا کا ملک آزاد کرانے کی امنگ پیدا ہوئی، چنانچہ اس نے ایک فوج تیار کی. اس فوج کے ذریعے حبشیوں پر حملہ کیا اور انہیں یمن سے بھگا دیا. اس طرح وہ باپ دادا کے ملک کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گیا، وہاں کا بادشاہ بن گیا. یہ یمن عرب کا علاقہ تھا. جب اس پر حبشیوں نے قبضہ کیا تھا تو عربوں کو بہت افسوس ہوا. 70 سال بعد جب یمن کے لوگوں نے حبشیوں کو نکال باہر کیا تو عربوں کو بہت خوشی ہوئی. ان کی خوشی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہی حبشیوں نے ابرہہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تھی. چاروں طرف سے عربوں کے وفد سیف کو مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے.
قریش کا بھی ایک وفد مبارک دینے کے لیے گیا. اس وفد کے سردار عبد المطلب تھے. یہ وفد جب یمن پہنچا تو سیف اپنے محل میں تھا. اس کے سر پر تاج تھا، سامنے تلوار رکھی تھی اور حمیری سردار اس کے دائیں بائیں بیٹھے تھے. سیف کو قریش کے وفد کی آمد کے بارے میں بتایا گیا، اسے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ کس رتبے کے ہیں. اس نے ان لوگوں کو آنے کی اجازت دے دی. یہ وفد دربار میں پہنچا. عبد المطلب آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے. انہوں نے بات کرنے کی اجازت چاہی، سیف نے کہا.
اگر تم بادشاہوں کے سامنے بولنے کے آداب سے واقف ہو تو ہماری طرف سے اجازت ہے
تب عبد المطلب نے کہا.
اے بادشاہ، ہم کعبہ کے خادم ہیں، اللہ کے گھر کے محافظ ہیں، ہم آپ کو مبارکباد دینے آئے ہیں. یمن پر حبشی حکومت ہمارے لیے بھی بوجھ بنی ہوئی تھی. آپ کو مبارک ہو، آپ کے اس کارنامے سے آپ کے بزرگوں کو بھی عزت ملے گی اور آنے والی نسلوں کو بھی وقار حاصل ہو گا.
سیف ان کے الفاظ سن کر بہت خوش ہوا، بے اختیار بول اٹھا.
اے شخص تم کون ہو، کیا نام ہے تمہارا؟
انہوں نے کہا.
میرا نام عبد المطلب بن ہاشم ہے.
سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا.
تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو.
عبد المطلب کی والدہ مدینے کے قبیلے خزرج کی تھیں اور خزرج کا قبیلہ دراصل یمن کا تھا. اس لیے سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا، تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو. پھر اس نے کہا.
ہم آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں.
اس کے بعد قریش کے وفد کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا. ان کی خوب خاطر مدارت کی گئی... یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا. ایک ماہ کی مہمان نوازی کے بعد سیف نے انہیں بلایا. عبد المطلب کو اپنے پاس بلا کر اس نے کہا.
اے عبد المطلب، میں اپنے علم کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز تمہیں بتا رہا ہوں، تمہارے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میں ہر گز نہ بتاتا، تم اس راز کو اس وقت تک راز ہی رکھنا جب تک کہ خود اللہ تعالٰی اس راز کو ظاہر نہ فرما دے. ہمارے پاس ایک پوشیدہ کتاب ہے وہ پوشیدہ رازوں کا ایک خزانہ ہے. ہم دوسروں سے اس کو چھپا کر رکھتے ہیں. میں نے اس کتاب میں ایک بہت عظیم الشان خبر اور ایک بڑے خطرے کے بارے میں پڑھ لیا ہے... اور وہ آپ کے بارے میں ہے.
عبد المطلب یہ باتیں سن کر حد درجے حیرت زدہ ہوئے اور پکار اٹھے.
میں سمجھا نہیں، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں.
سنو، عبد المطلب، جب تہامہ کی وادی یعنی مکہ میں ایسا بچہ پیدا ہو جس کے دونوں کندھوں کے درمیان بالوں کا گچھا (یعنی مہر نبوت) ہو تو اسے امامت اور سرداری حاصل ہو گی اور اس کی وجہ سے تمہیں قیامت تک کے لیے اعزاز ملے گا، عزت ملے گی.
عبد المطلب نے یہ سن کر کہا.
اے بادشاہ. اللہ کرے آپ کو بھی ایسی خوش بختی میسر آئے، آپ کی ہیبت مجھے روک رہی ہے، ورنہ میں آپ سے پوچھتا کہ اس بچے کا زمانہ کب ہو گا.
بادشاہ نے جواب میں کہا.
یہی اس کا زمانہ ہے، وہ اسی زمانے میں پیدا ہو گا یا پیدا ہو چکا ہے اس کا نام محمد ہو گا، اس کی والدہ کا انتقال ہو جائے گا، اس کے دادا اور چچا اس کی پرورش کریں گے. ہم بھی اس کے آرزو مند رہے کہ وہ بچہ ہمارے ہاں پیدا ہو، اللہ تعالٰی اسے کھلے عام ظاہر فرمائے گا اور اس کے لیے ہم میں سے (یعنی مدینے کے قبیلے خزرج میں) اس نبی کے مددگار بنائے گا (ہم میں سے اس نے اس لیے کہا کہ خزرج اصل میں یمن کے لوگ تھے) ان کے ذریعے اس نبی کے خاندان اور قبیلے والوں کو عزت حاصل ہو گی اور ان کے ذریعے اس کے دشمنوں کو ذلت ملے گی اور ان کے ذریعے وہ تمام لوگوں سے مقابلہ کرے گا اور ان کے ذریعے زمین کے اہم علاقے فتح ہو جائیں گے. وہ نبی رحمان کی عبادت کرے گا، شیطان کو دھمکائے گا. آتش کدوں کو ٹھنڈا کرے گا (یعنی آگ کے پجاریوں کو مٹائے گا) بتوں کو توڑ ڈالے گا، اس کی ہر بات آخری فرمان ہو گی، اس کے احکامات انصاف والے ہوں گے، وہ نیک کاموں کا حکم دے گا، خود بھی ان پر عمل کرے گا، برائیوں سے روکے گا، ان کو مٹا ڈالےگا ۔
عبد المطلب نے سیف بن یزن کو دعا دی۔پھر کہا۔
کچھ اور تفصیل بیان کریں۔
بات ڈھکی چھپی ہے اور علامتیں پوشیدہ ہیں مگر اے عبد المطلب اس میں شبہ نہیں کہ تم اس کے دادا ہو۔
عبد المطلب یہ سن کر فوراً سجدے میں گر گئے اور پھر سیف نے ان سے کہا۔
اپنا سر اٹھاؤ،اپنی پیشانی اونچی کرو،اور مجھے بتاؤ، جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے،کیا تم نے ان میں سے کوئی علامت اپنے ہاں دیکھی ہے؟
اس پر عبد المطلب نے کہا۔
ہاں میرا ایک بیٹا تھا،میں اسے بہت چاہتا تھا،
میں نے ایک شریف اور معزز لڑکی آمنہ بنت وہب عبد مناف سے اس کی شادی کر دی،وہ میری قوم کے انتہائی باعزت خاندان سے تھی،اس سے میرے بیٹے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا،میں نے اس کا نام محمد رکھا،اس بچے کا باپ اور ماں دونوں فوت ہو چکے ہیں۔اب میں اور اس کا چچا ابو طالب اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
اب سیف نے ان سے کہا۔
میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے،وہ واقعہ اسی طرح ہے۔ اب تم اپنے پوتے کی حفاظت کرو،اسے یہودیوں سے بچائے رکھو،اس لیے کہ وہ اس کے دشمن ہیں،یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالٰی ہر گز ان لوگوں کو ان پر قابو نہیں پانے دے گا اور میں نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے،اس کا اپنے قبیلے والوں سے ذکر نہ کرنا،مجھے ڈر ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے ان لوگوں میں حسد اور جلن نہ پیدا ہو جائے۔یہ لوگ سوچ سکتے ہیں،یہ عزت اور بلندی آخر انہیں کیوں ملنے والی ہے یہ لوگ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے اگر یہ لوگ اس وقت تک زندہ نہ رہے تو ان کی اولادیں یہ کام کریں گی اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ اس نبی کے ظہور سے پہلے ہی موت مجھے آ لے گی تو میں اپنے اونٹوں اور قافلے کے ساتھ روانہ ہوتا اور ان کی سلطنت کے مرکز یثرب پہنچتا،کیونکہ میں اس کتاب میں یہ بات پاتا ہوں کہ شہر یثرب ان کی سلطنت کا مرکز ہوگا، ان کی طاقت کا سرچشمہ ہو گا،ان کی مدد اور نصرت کا ٹھکانہ ہو گا اور ان کی وفات کی جگہ ہوگی اور انہیں دفن بھی یہیں کیا جائے گا اور ہماری کتاب پچھلے علوم سے بھری پڑی ہے۔مجھے پتا ہے اگر میں اسی وقت ان کی عظمت کا اعلان کروں تو خود ان کے لیے اور میرے لیے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔یہ ڈر نہ ہوتا تو میں اسی وقت ان کے بارے میں یہ تمام باتیں سب کو بتا دیتا۔عربوں کے سامنے ان کی سربلندی اور اونچے رتبے کی داستانیں سنا دیتا،لیکن میں نے یہ راز تمہیں بتایا ہے....تمہارے ساتھیوں میں سے بھی کسی کو نہیں بتایا۔
اس کے بعد اس نے عبد المطلب کے ساتھیوں کو بلایا،ان میں سے ہر ایک کو دس حبشی غلام،دس حبشی باندیاں اور دھاری دار یمنی چادریں،بڑی مقدار میں سونا چاندی،سو سو اونٹ اور عنبر کے بھرے ڈبے دییے۔پھر عبد المطلب کو اس سے دس گنا زیادہ دیا اور بولا۔
سال گزرنے پر میرے پاس ان کی خبر لے کر آنا اور ان کے حالات بتانا۔
سال گزرنے سے پہلے ہی اس بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔
عبد المطلب اکثر اس بادشاہ کا ذکر کیا کرتے تھے،آپ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو عبد المطلب کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح ایک عظیم سرپرست کا ساتھ چھوٹ گیا۔اس وقت عبد المطلب کی عمر 95 سال تھی۔تاریخ کی بعض کتابوں میں ان کی عمر اس سے بھی زیادہ لکھی ہے۔
جس وقت عبد المطلب کا انتقال ہوا۔آپ ان کی چارپائی کے پاس موجود تھے،آپ رونے لگے،عبد المطلب کو عجون کے مقام پر ان کے دادا قصی کے پاس دفن کیا گیا۔
مرنے سے پہلے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے بیٹے ابو طالب کے حوالے کیا۔اب ابو طالب آپ کے نگران ہوئے۔انہیں بھی آپ سے بے تحاشا محبت ہو گئی۔ ان کے بھائی عباس اور زبیر بھی آپ کا بہت خیال رکھتے تھے۔پھر زبیر بھی انتقال کر گئے تو آپ کی نگرانی آپ کے چچا ابو طالب ہی کرتے رہے۔
انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت محبت تھی۔جب انہوں نے آپ کی برکات دیکھیں، معجزے دیکھے تو ان کی محبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ یہ مالی اعتبار سے کمزور تھے۔دو وقت سارے گھرانے کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ساتھ کھانا کھاتے تو تھوڑا کھانا بھی ان سب کے لیے کافی ہو جاتا۔سب کے پیٹ بھر جاتے۔اسی لیے جب دوپہر یا رات کے کھانے کا وقت ہوتا تو اور سب دسترخوان پر بیٹھتے تو ابو طالب ان سے کہتے۔
ابھی کھانا شروع نہ کرو،میرا بیٹا آ جائے پھر شروع کرنا۔
پھر آپ تشریف لے آتے اور ان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔آپ کی برکت اس طرح ظاہر ہوتی کہ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی کھانا بچ جاتا،اگر دودھ ہوتا تو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پینے کے لیے دیا جاتا،پھر ابو طالب کے بیٹے پیتے،یہاں تک کہ ایک ہی پیالے سے سب کے سب دودھ پی لیتے،خوب سیر ہو جاتے اور دودھ پھر بھی بچ جاتا،ابو طالب کے لیے ایک تکیہ رکھا رہتا تھا،وہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے تو آ کر سیدھے اس تکیے کے ساتھ بیٹھ جاتے،یہ دیکھ کر ابو طالب کہتے۔
میرے بیٹے کو اپنے بلند مرتبے کا احساس ہے۔
ایک بار مکہ میں قحط پڑ گیا،بارش بالکل نہ ہوئی،لوگ ایک دوسرے سے کہتے تھے،لات اور عزی سے بارش کی دعا کرو،کچھ کہتے تھے تیسرے بڑے بت منات پر بھروسہ کرو،اسی دوران ایک بوڑھے نے کہا۔
تم حق اور سچائی سے بھاگ رہے ہو،تم میں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی نشانی موجود ہے، تم اسے چھوڑ کر غلط راستے پر کیوں جا رہے ہو۔
اس پر لوگوں نے اس سے کہا۔
کیا آپ کی مراد ابو طالب سے ہے؟
اس نے جواب میں کہا۔
ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔
اب سب لوگ ابو طالب کے گھر کی طرف چلے،وہاں پہنچ کر انہوں نے دروازے پر دستک دی،تو ایک خوبصورت آدمی باہر آیا،اس نے تہبند لپیٹ رکھا تھا، سب لوگ اس کی طرف بڑھے اور بولے۔
اے ابو طالب،وادی میں قحط پڑا ہے،بچے بھوکے مر رہے ہیں،اس لیے آؤ اور ہمارے لیے بارش کی دعا کرو۔
چنانچہ ابو طالب باہر آئے،ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،آپ ایسے لگ رہے تھے جیسے اندھیرے میں سورج نکل آیا ہو،ابو طالب کے ساتھ اور بھی بچے تھے لیکن انہوں نے آپ ہی کا بازو پکڑا ہوا تھا، اس کے بعد ابو طالب نے آپ کی انگلی پکڑ کر کعبے کا طواف کیا۔یہ طواف کر رہے تھے اور دوسرے لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے،جہاں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن پھر اچانک ہر طرف سے بادل گھر گھر کر آنے لگے،اس قدر زور دار بارش ہوئی کہ شہر اور جنگل سیراب ہو گئے۔
ابو طالب ایک بار ذی الحجاز کے میلے میں گئے،یہ جگہ عرفات سے تقریباً 8 کلو میٹر دور ہے۔ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،ایسے میں ابو طالب کو پیاس محسوس ہوئی۔انہوں نے آپ سے کہا۔
بھتیجے،مجھے پیاس لگی ہے۔
یہ بات انہوں نے اس لیے نہیں کہی تھی کہ آپ کے پاس پانی تھا....بلکہ اپنی بے چینی ظاہر کرنے کے لیے کہی تھی۔چچا کی بات سن کر آپ فورا سواری سے اتر آئے اور بولے۔
چچا جان آپ کو پیاس لگی ہے۔
انہوں نے کہا۔
ہاں بھتیجے۔پیاس لگی ہے۔
یہ سنتے ہی آپ نے ایک پتھر پر اپنا پاؤں مارا۔
╨─────────────────────❥
عنوان: شام کا سفر

جونہی آپ نے پتھر پر پاؤں مارا،اس کے نیچے سے صاف اور عمدہ پانی پھوٹ نکلا،انہوں نے ایسا پانی پہلے کبھی نہیں پیا تھا۔خوب سیر ہو کر پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا:
"بھتیجے!کیا آپ سیر ہوچکے؟"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہاں!"
آپ نے اسی جگہ اپنی ایڑی پھر ماری اور وہ جگہ دوبارہ ایسی خشک ہوگئی جیسے پہلے تھی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند سال اپنے دوسرے چچا زبیر بن عبد المطلب کے ساتھ بھی رہے تھے۔اس زمانے میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان چچا کے ساتھ ایک قافلے میں یمن تشریف لے گئے۔راستے میں ایک وادی سے گذر ہوا۔اس وادی میں ایک سرکش اونٹ رہتا تھا۔گزرنے والوں کا راستہ روک لیتا تھا مگر جونہی اس نے نبی کریم کو دیکھا تو فوراً بیٹھ گیا اور زمین سے اپنی چھاتی رگڑنے لگا۔آپ اپنے اونٹ سے اتر کر اس پر سوار ہوگئے،اب وہ اونٹ آپ کو لے کر چلا اور وادی کے پار تک لے گیا۔اس کے بعد آپ نے اس اونٹ کو چھوڑدیا۔
یہ قافلہ جب سفر سے واپس لوٹا تو ایک ایسی وادی سے اس کا گزر ہوا جو طوفانی پانی سے بھری ہوئی تھی،پانی موجیں مار رہا تھا۔یہ دیکھ کر آپ نے قافلے والوں سے فرمایا:
"میرے پیچھے پیچھے آؤ۔"
پھر آپ اطمینان سے وادی میں داخل ہوگئے،باقی لوگ بھی آپ کے پیچھے تھے۔اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت سے پانی خشک کردیا اور آپ پورے قافلے کو لیے پار ہوگئے۔قافلہ مکہ پہنچا تو لوگوں نے یہ حیرت ناک واقعات بیان کئے۔لوگ سن کر بول اٹھے:
"اس لڑکے کی تو کچھ شان ہی نرالی ہے۔"
ابن ہشام لکھتے ہیں،بنولہب کا ایک شخص بہت بڑا قیافہ شناس تھا یعنی لوگوں کی شکل و صورت دیکھ کر ان کے حالات اور مستقبل کے بارے میں اندازہ لگایا کرتا تھا۔مکہ آتا تو لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لاتے وہ انہیں دیکھ دیکھ کر ان کے بارے میں بتاتا تھا۔ایک بار یہ آیا تو ابو طالب آپ کو بھی اس کے پاس لے گئے اور اس وقت آپ ابھی نوعمر لڑکے ہی تھے۔ قیافہ شناس نے آپ کو ایک نظر دیکھا، پھر دوسرے بچوں کو دیکھنے لگا۔فارغ ہونے کے بعد اس نے کہا:
"اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ۔"
ابو طالب نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ قیافہ شناس نے ان کے بھتیجے کو عجیب نظروں سے دیکھا ہے لہٰذا وہ آپ کو لے کر وہاں سے نکل آئے تھے۔جب قیافہ شناس کو معلوم ہوا کہ آپ وہاں موجود نہیں ہیں تو وہ چیخنے لگا 
"تمہارا بُرا ہو،اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ جسے میں نے ابھی دیکھا ہے،اللہ کی قسم! وہ بڑی شان والا ہے۔"
ابو طالب نے نکلتے ہوئے اس کے یہ الفاظ سن لیے تھے۔
ابو طالب نے تجارت کی غرض سے شام جانے کا ارادہ کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ساتھ جانے کا شوق ظاہر فرمایا بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے جانے کے لئے خاص طور پر فرمائش کی۔ابو طالب نے آپ کا شوق دیکھ کر کہا:
"اللہ کی قسم!میں اسے ساتھ ضرور لے جاؤں گا،نہ یہ کبھی مجھ سے جدا ہوسکتا ہے،نہ میں اسے کبھی اپنے سے جدا کرسکتا ہوں۔"
ایک روایت میں یوں آیا ہے،آپ نے ابو طالب کی اونٹنی کی لگام پکڑلی اور فرمایا:
"چچا جان!آپ مجھے کس کے پاس چھوڑے جارہے ہیں؟میری نہ ماں ہے نہ باپ۔"
اس وقت آپ کی عمر مبارک نو سال تھی۔آخر ابو طالب آپ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔آپ کو اپنی اونٹنی پر بٹھایا۔راستے میں عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ کے پاس ٹھہرے۔خانقاہ کے راہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو چونک اٹھا۔اس نے ابو طالب سے پوچھا:
"یہ لڑکا تمہارا کون ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"یہ میرا بیٹا ہے۔"
یہ سن کر راہب نے کہا: 
"یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا۔"
یہ سن کر ابو طالب بہت حیران ہوئے،بولے:
"کیا مطلب...یہ کیوں میرا بیٹا نہیں ہوسکتا بھلا؟"
اس نے کہا:
"یہ ممکن ہی نہیں کہ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو،یہ نبی ہے۔"
مطلب یہ تھا کہ ان میں جو نشانیاں ہیں وہ دنیا کے آخری نبی کی ہیں اور ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ یتیم ہوں گے۔ان کے باپ کا انتقال اسی زمانے میں ہو جائے گا جب کہ وہ ابھی پیدا ہونے والے ہوں گے۔اس لڑکے میں آنے والے نبی کی تمام علامات موجود ہیں۔ان کی ایک نشانی یہ ہے کہ بچپن میں ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوجائے گا۔
اب ابو طالب نے اس راہب سے پوچھا:
"نبی کیا ہوتا ہے؟"
راہب نے کہا:
"نبی وہ ہوتا ہے جس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور پھر وہ زمین والوں کو ان کی اطلاع دیتا ہے...تم یہودیوں سے اس لڑکے کی حفاظت کرنا۔"
اس کے بعد ابو طالب وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک اور راہب کے پاس ٹھہرے۔یہ بھی ایک خانقاہ کا عابد تھا۔اس کی نظر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو یہی پوچھا:
"یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے؟"
ابو طالب نے اس سے بھی یہی کہا:
"یہ میرا بیٹا ہے۔"
راہب یہ سن کر بولا:
"یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،اس کا باپ زندہ ہو ہی نہیں سکتا۔"
ابو طالب نے پوچھا: 
"وہ کیوں...؟"
راہب نے جواب میں کہا:
"اس لیے کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے۔اس کی آنکھیں ایک نبی کی آنکھیں ہیں یعنی اس نبی جیسی جو آخری امت کے لئے بھیجے جانے والے ہیں،ان کی علامات پرانی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔"
اس کے بعد یہ قافلہ روانہ ہو کر بصری پہنچا۔یہاں بحیرا نام کا ایک راہب اپنی خانقاہ میں رہتا تھا۔اس کا اصل نام جرجیس تھا،بحیرااس کا لقب تھا۔ وہ بہت زبردست عالم تھا۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانے سے اس خانقاہ کا راہب،نسل در نسل یہ عالم فاضل خاندان ہی چلا آرہا تھا۔اس طرح اس زمانے میں ان کا سب سے بڑا عالم بحیرا ہی تھا۔
قریش کے لوگ اکثر بحیرا کے پاس سے گزرا کرتے تھے مگر اس نے کبھی ان سے کوئی بات نہیں کی تھی،مگر اس بار اس نے قافلے میں آپ کو دیکھ لیا تو پورے قافلے کے لئے کھانا تیار کروایا۔
بحیرا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بدلی سایہ کیے ہوئے تھی۔جب یہ قافلہ ایک درخت کے نیچے آ کر ٹھہرا تو اس نے بدلی کی طرف دیکھا،وہ اب اس درخت پر سایہ ڈال رہی تھی اور اس درخت کی شاخیں اس طرف جھک گئیں تھیں جدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ اس نے دیکھا،بہت سی شاخوں نے آپ کے اوپر جمگھٹا سا کرلیا تھا۔اصل میں ہوا یہ تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس درخت کے پاس پہنچے تو قافلے کے لوگ پہلے ہی سایہ دار جگہ پر قبضہ کر چکے تھے۔اب آپ کے لئے کوئی سایہ دار جگہ نہیں بچی تھی،چنانچہ آپ جب دھوپ میں بیٹھے تو شاخوں نے اپنا رخ تبدیل کرلیا اور آپ کے اوپر جمع ہوگئیں۔اس طرح آپ مکمل طور پر سائے میں ہوگئے۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا تھا۔آپ کی یہ نشانی دیکھ کر اس نے قافلے والوں کو پیغام بھجوایا۔
"اے قریشیو!میں نے آپ لوگوں کے لئے کھانا تیار کروایا ہے، میری خواہش ہے کہ آپ تمام لوگ کھانا کھانے آئیں یعنی بچے بوڑھے اور غلام سب آئیں۔"
بحیرا کا یہ پیغام سن کر قافلے میں سے ایک نے کہا:
"اے بحیرا...آج تو آپ نیا کام کررہے ہیں،ہم تو اکثر اس راستے سے گزرتے ہیں،آپ نے کبھی دعوت کا انتظام نہیں کیا،پھر آج کیا بات ہے۔"
بحیرا نے انہیں صرف اتنا جواب دیا:
"تم نے ٹھیک کہا،لیکن بس آپ لوگ مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا بہت اچھی بات ہے۔"
اس طرح تمام لوگ بحیرا کے پاس پہنچ گئے...لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نہیں تھے۔انہیں پڑاؤ ہی میں چھوڑ دیا گیا تھا۔


آپ کو قافلے کے ساتھ اس لئے نہیں لے جایا گیا تھا کہ آپ کم عمر تھے۔آپ وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ ادھر بحیرا نے لوگوں کو دیکھا اور ان میں سے کسی میں اسے وہ صفت نظر نہ آئی جو آخری نبی کے بارے میں اسے معلوم تھی،نہ ان میں سے کسی پر وہ بدلی نظر آئی،بلکہ اس نے عجیب بات دیکھی کہ وہ بدلی وہیں پڑاؤ کی جگہ پر ہی رہ گئی تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا بدلی وہیں ہے، جہاں اللہ کے رسول ہیں، تب اس نے کہا: 
"اے قریش کے لوگو! میری دعوت سے آپ میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔"
اس پر قریش نے کہا:
" اے بحیرا!جن لوگوں کو آپ کی اس دعوت میں لانا ضروری تھا،ان میں سے تو کوئی رہا نہیں...ہاں ایک لڑکا رہ گیا ہے جو سب سے کم عمر ہے۔"
بحیرا بولا:
"تب پھر مہربانی فرما کر اسے بھی بلالیں،یہ کس قدر بری بات ہے کہ آپ سب آئیں اور آپ میں سے ایک رہ جائے اور میں نے اسے آپ لوگوں کے ساتھ دیکھا تھا۔"
تب ایک شخص گیا اور آپ کو ساتھ لے کر بحیرا کی طرف روانہ ہوا۔اس وقت وہ بدلی آپ کے ساتھ ساتھ چلی اور تمام راستے اس نے آپ پر سایہ کئے رکھا۔بحیرا نے یہ منظر صاف دیکھا،وہ اب آپ کو اور زیادہ غور سے دیکھ رہا تھا اور آپ کے جسم مبارک میں وہ علامات تلاش کررہا تھا جو ان کی کتب میں درج تھیں۔
جب لوگ کھانا کھا چکے اور ادھر ادھر ہوگئے،تب بحیرا آپ کے پاس آیا اور بولا:
"میں لات اور عزی کے نام پر آپ سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں،جو میں پوچھوں،آپ مجھے بتائیں۔"
اس کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
"لات اور عزی (بتوں کے نام) کے نام پر مجھ سے کچھ نہ پوچھو!اللہ کی قسم!مجھے سب سے زیادہ نفرت انہی سے ہے۔"
اب بحیرا بولا:
"اچھا تو پھر اللہ کے نام پر بتائیں جو میں پوچھنا چاہتا ہوں۔"
تو آپ نے فرمایا:
"پوچھو! کیا پوچھنا ہے۔"
اس نے بہت سے سوالات کئے۔آپ کی عادات کے بارے میں پوچھا،اس کے بعد اس نے آپ کی کمر پر سے کپڑا ہٹا کر مہر نبوت کو دیکھا وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا کہ اس نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا۔اس نے فوراً مہر نبوت کی جگہ کو بوسہ دیا۔قریش کے لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے اور حیران ہورہے تھے۔آخر لوگ کہے بغیر نہ رہ سکے:
"یہ راہب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )میں بہت دلچسپی لے رہا ہے...شاید اس کے نزدیک ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔"
ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے کے بعد بحیرا ابو طالب کی طرف آیا اور بولا:
"یہ لڑکا تمہارا کیا لگتا ہے۔"
ابو طالب نے کہا:
"یہ میرا بیٹا ہے۔"
اس پر بحیرا نے کہا:
"نہیں!یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا،یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا باپ زندہ ہو۔"
ابو طالب کو یہ سن حیرت ہوئی،پھر انہوں نے کہا: 
"دراصل یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔"
"ان کا باپ کہاں ہے۔"
"وہ فوت ہوچکا ہے،اس کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔" 
یہ سن کر بحیرا بول اٹھا:
"ہاں!یہ بات صحیح ہے اور ان کی والدہ کا کیا ہوا؟"
"ان کا ابھی تھوڑے عرصہ ہی پہلے انتقال ہوا ہے۔"
یہ سنتے ہی بحیرا نے کہا:
"بالکل ٹھیک کہا...اب تم یوں کرو کہ اپنے بھتیجے کو واپس وطن لے جاؤ،یہودیوں سے ان کی پوری طرح حفاظت کرو،اگر انہوں نے انہیں دیکھ لیا اور ان میں وہ نشانیاں دیکھ لیں جو میں نے دیکھی ہیں تو وہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کریں گے تمہارا یہ بھتیجا نبی ہے، اس کی بہت شان ہے،ان کی شان کے بارے میں ہم اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہوا پاتے ہیں اور ہم نے اپنے باپ داداؤں سے بھی بہت کچھ سن رکھا ہے،میں نے یہ نصیحت کر کے اپنا فرض پورا کردیا ہے اور انہیں واپس لے جانا تمہاری ذمہ داری ہے۔"
ابو طالب بحیرا کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوگئے۔ آپ کو لے کر مکہ واپس آگئے۔اس واقعے کے وقت آپ کی عمر نو سال تھی۔
اس عمر کے لڑکے عام طور پر کھیل کود میں ضرور حصہ لیتے ہیں،ان کھیلوں میں خراب اور گندے کھیل بھی ہوتے ہیں،اللہ تعالٰی نے آپ کو اس سلسلے میں بھی بالکل محفوظ رکھا۔
جاہلیت کے زمانے میں عرب جن برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے،ان برائیوں سے بھی اللہ تعالٰی نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ایک واقعہ آپ نے خود بیان فرمایا:
"ایک قریشی لڑکا مکہ کے بالائی حصے میں اپنی بکریاں لئے،میرے ساتھ تھا۔میں نے اس سے کہا:
"تم ذرا میری بکریوں کا دھیان رکھو تاکہ میں قصہ گوئی کی مجلس میں شریک ہوسکوں،وہاں سب لڑکے جاتے ہیں۔"
اس لڑکے نے کہا:اچھا۔اس کے بعد میں روانہ ہوا۔ میں مکہ کے ایک مکان میں داخل ہوا تو مجھے گانے اور باجے کی آواز سنائی دی۔میں نے لوگوں سے پوچھا،یہ کیا ہورہا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک قریشی کی فلاں شخص کی بیٹی سے شادی ہورہی ہے۔میں نے اس طرف توجہ دی ہی تھی کہ میری آنکھیں نیند سے جھکنے لگیں،یہاں تک کہ میں سو گیا۔پھر میری آنکھ اس وقت کھلی جب دھوپ مجھ پر پڑی۔"
آپ واپس اس لڑکے کے پاس پہنچے۔تو اس نے پوچھا: تم نے وہاں جاکر کیا کیا؟میں نے اسے واقعہ سنا دیا۔دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا۔
مطلب یہ کہ قریش کی لغو مجلسوں سے اللہ تعالٰی نے آپ کو محفوظ رکھا۔
قریش کے ایک بت کا نام بوانہ تھا۔قریش ہر سال اس کے پاس حاضری دیا کرتے تھے۔اس کی بے حد عزت کرتے تھے۔اس کے پاس قربانی کا جانور ذبح کرتے،سر منڈاتے،سارا دن اس کے پاس اعتکاف کرتے۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ اس بت کے پاس حاضری دیتے، اس موقع کو قریش عید کی طرح مناتے تھے۔ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
"بھتیجے!آپ بھی ہمارے ساتھ عید میں شریک ہوں۔"
آپ نے انکار فرمادیا۔ابو طالب ہر سال آپ کو شریک ہونے کے لئے کہتے رہے،لیکن آپ ہر بار انکار ہی کرتے رہے۔ آخر ایک بار ابو طالب کو غصہ آگیا۔آپ کی پھوپھیوں کو بھی آپ پر بے تحاشہ غصہ آیا،وہ آپ سے بولیں:
"تم ہمارے معبودوں سے اس طرح بچتے ہو اور پرہیز کرتے ہو،ہمیں ڈر ہے کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔"
انہوں نے یہ بھی کہا:
"محمد!آخر تم عید میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟"
ان کی باتوں سے تنگ آکر آپ ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں دور چلے گئے۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:
"میں جب بھی بوانہ یا کسی اور بت کے نزدیک ہوا،میرے سامنے ایک سفید رنگ کا بہت قد آور آدمی ظاہر ہوا،اس نے ہر بار مجھ سے یہی کہا: 
"محمد! پیچھے ہٹو!اس کو چھونا نہیں۔"
╨─────────────────────❥
عنوان: فجار کی جنگ
★_
خانہ کعبہ میں تانبے کے دو بت تھے۔ان کے نام اساف اور نائلہ تھے۔طواف کرتے وقت مشرک برکت حاصل کرنے کے لئے ان کو چھوا کرتے تھے ۔
حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے، میں بھي آپ کے ساتھ تھا۔جب میں طواف کے دوران ان بتوں کے پاس سے گزرا تو میں نے بھی ان کو چھوا نبی پاک ﷺ نے فوراﹰ فرمایا:ان کو ہاتھ مت لگاؤ: 
اس کے بعد ہم طواف کرتے رہے،میں نے سوچا،ایک بار پھر بتوں کو چھونے کی کوشش کروں گا تاکہ پتا تو چلے،ان کو چھونے سے کیا ہوتاہے اور آپ نے کس لیے مجھے روکا ہے،چنانچہ میں نے ان کو پھر چھولیا،تب آپ نے سخت لہجے میں فرمایا:کیا میں نے تمہیں ان کو چھونے سے منع نہیں کیا تھا۔
اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں،نبی پاک ﷺ کبھی بھی کسی بت نہیں چھوا،یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرمادی اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔
اسی طرح الله تعالٰی حرام چیزوں سے بھي آپ کی حفاظت فرماتے تھے مشرک بتوں کے نام پر جانور قربان کرتےتھے،پھر یہ گوشت تقسیم کردیا جاتاتھا یا پکا کر کھلا دیا جاتاتھا، لیکن آپ نے کبھی بھی ایسا گوشت نہ کھایا،خود آپ نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں نے کبھی کوئی ایسی چیز نهیں چکھی جو بتوں کے نام پر ذبح کی گئی ہو،یہاں تک کہ الله تعالٰی نے مجھے نبوت عطا کردی: 
اسی طرح آپ سے پوچھا گیا: 
"کیا آپ نے بچپن میں کبھی بت پرستی کی؟ 
آپ نے ارشاد فرمایا نہیں " " 
آپ سے پھر پوچھاگیا: 
آپ نے کبھی شراب پی؟ 
جواب میں ارشادفرمایا: 
نہیں!حالانکہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ کتاب الله کیا ہے اور ایمان(کی تفصیل)کیا ہے: 
آپ ﷺ کے علاوہ بھی اس زمانے میں کچھ لوگ تھے جو جانوروں کے نام ذبح کیا گیا گوشت نہیں کھاتے تھے اور شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ۔
۞ 
بچپن میں آپ نے بکریاں بھي چرائیں۔آپ مکہ کے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔معاوضے کے طور پر آپ کو ایک سکہ دیا جاتاتھا۔آپ فرماتے ہیں: 
اللہ تعالٰی نے جتنے نبی بھیجے،ان سب نے بکریاں چرانے کا کام کیا۔میں مکہ والوں کی بکریاں قراریط (سکہ) کے بدلے چرایا کرتاتھا۔مکہ والوں کی بکریوں کے ساتھ آپ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔
پیغمبروں نے بکریاں کیوں چرائیں،اس کی وضاحت یوں بیان کی جاتی ہے:
اس کام میں الله تعالٰی کی زبردست حکمت ہے،بکری کمزور جانور ہے،لہٰذا جو شخص بکریاں چراتاہے،اس میں قدرتی طورپر نرمی،محبت اور انکساری کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ہر کام اور پیشے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاﹰ قصاب کے دل میں سختی ہوتی ہے،لوہار جفاکش ہوتاہے،مالی نازک طبع ہوتاہے،اب جو شخص بکریاں چراتا رہا،جب وہ مخلوق کی تربیت کا کام شروع کرےگا تو اس کی طبیعت میں سے گرمی اور سختی نکل چکی ہوتی ہے۔مخلوق کی تربیت کےلئے وہ بہت نرم مزاج ہوچکا ہوتاہے اور تبلیغ کے کام میں نرم مزاجی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
۞
عربوں میں ایک شخص بدر بن معشر غفاری تھا۔یہ عکاظ کے میلے میں بیٹھا کرتا تھا۔لوگوں کے سامنے اپنی بہادری کے قصے سنایاکرتاتھا۔اپنی بڑائیاں بیان کرتاتھا۔ایک دن اس نے پیر پھیلا کر اور گردن اکڑا کر کہا: 
میں عربوں میں سے سب سے زیادہ عزت دار ہوں اور اگر کوئی خیال کرتاہے کہ وہ زیادہ عزت والا ہے تو تلوار کے زور پر یہ بات ثابت کر دکھائے: 
اس کے یہ بڑے بول سن کر ایک شخص کو غصہ آگیا۔وہ اچانک اس پر جھپٹا اور اس کے گھٹنے پر تلوار دے ماری۔اس کا گھٹنا کٹ گیا۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ گھٹنا صرف زخمی ہواتھا۔اس پر دونوں کے قبیلے آپس میں لڑ پڑے۔ان میں جنگ شروع ہوگئی۔اس لڑائی کو فجار کی پہلی لڑائی کہا جاتاہے،اس وقت آپ ﷺ کی عمر 10 سال تھی۔
فجار کی ایک اور لڑائی بنو عامر کی ایک عورت کی وجہ سے ہوئی۔اس میں بنو عامر بنو کنانہ سے لڑے، کیونکہ کنانہ کے ایک نوجوان نے اس قبیلے کی کسی عورت کو چھیڑا تھا۔
فجار کی تیسری لڑائی بھی بنو عامر اور بنو کنانہ کے درمیان ہوئی۔یہ لڑائی قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ہوئی۔
فجار کی ان تینوں لڑائیوں میں نبي ﷺ نے کوئی حصہ نہیں لیا۔البتہ فجار کی چوتھی لڑائی میں آپ نے شرکت فرمائی تھی۔عربوں کے ہاں چار مہینے ایسے تھے کہ ان میں کسی کا خون بہانا جائز نہیں تھا،یہ مہینے ذوالقعدہ،ذوالحج، محرم،اور رجب تھے۔یہ لڑائیاں چونکہ حرمت کے ان مہینوں میں ہوئیں،اس لیے ان کا نام فجار کی لڑائیاں رکھا گیافجار کا معنے ہے گناہ، یعنی یہ لڑائیاں ان کا گناہ تھا۔چوتھی لڑائی جس میں نبی کریم ﷺ نےبھی حصہ لیا،اس کا نام فجار برّاض ہے یہ لڑائی اس طرح شروع ہوئی: 
قبیلہ بنو کنانہ کے براض نامی ایک شخص نے ایک آدمی عروہ کو قتل کردیا۔عروہ کا تعلق قبیلہ ہوازن سے تھا ۔یہ واقعہ حرمت والے مہینے میں پیش آیا۔براض اور عروہ کے خاندان کے لوگ یعنی بنو کنانہ اور ہوازن اس وقت عکاظ کے میلے میں تھے۔وہیں کسی نے بنو کنانہ کو یہ خبر پہنچادی کہ براض نے عروہ کو قتل کردیاہے۔یہ خبر سن کر بنو کنانہ کے لوگ پریشان ہوئے کہ کہیں میلےہی میں ہوازن کے لوگ ان پر حملہ نہ کردیں،اس طرح بات بہت بڑھ جائے گی،چنانچہ وہ لوگ مکہ کی طرف بھاگ نکلے۔ہوازن کو اس وقت تک خبر نہیں ہوئی تھی۔انہیں کچھ دن یا کچھ وقت گزرنے پر خبر ہوئی، یہ بنو کنانہ پر چڑھ دوڑےلیکن بنو کنانہ حرم میں پناه لے چکےتھے۔عربوں میں حرم کے اندر خون بہانا حرام تھا۔اس لئے ہوازن رک گئے۔اس دن لڑائی نہ ہوسکی لیکن دوسرے دن بنو کنانہ کے لوگ خود ہی مقابلے کے لئے باہر نکل آئے،ان کی مدد کرنے کے لیے قبیلہ قریش بھي میدان میں نکل آیا۔اس طرح فجار کی یہ جنگ شروع ہوئی۔یہ جنگ چار یا چھ دن تک جاری رہی،اب چونکہ قریش بھی اس جنگ میں شریک تھے،لہٰذا آپ ﷺ کے چچا آپ کو بھي ساتھ لے گئے مگر آپ نے جنگ کے سب دنوں میں لڑائی میں حصہ نہیں لیا البته جس دن آپ میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو بنی کنانہ کو فتح ہونے لگتی اور جب آپ وہاں نہ پہنچتے تو انہیں شکست ہونے لگتی۔آپ نے اس جنگ میں صرف اتنا حصہ لیا کہ اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے رہے اور بس۔
چھ دن کی جنگ کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔آخر دونوں گروہوں میں صلح ہوگئی لیکن یہ کافی خون خرابے کے بعد ہوئی تھی۔
★_
اس جنگ کے فوراﹰ بعد حلف الفضول کا واقعہ پیش آیا۔یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص اپنا کچھ مال لے کر مکہ آیا۔اس سے یہ مال عاص بن وائل نے خرید لیا۔یہ عاص بن وائل مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا۔اس کی بہت عزت تھی۔اس نے مال تو لے لیا،لیکن قیمت ادا نہ کی،زبیدی اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کرتا رہا،لیکن عاص بن وائل نے رقم ادا نہ کی۔اب یہ زبیدی شخص اپنی فریاد لے کر مختلف قبیلوں کے پاس گیا۔ان سب کو بتایا کہ عاص بن وائل نے اس پر ظلم کیا ہے،لہٰذا اس کی رقم دلوائی جائے۔اب چونکہ عاص مکہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا، اس لیے ان سب لوگوں نے عاص کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا،الٹا اسے ڈانٹ ڈپٹ کر واپس بھیج دیا۔جب زبیدی نے ان لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو دوسرے دن صبح سویرے وہ ابوقیس نامی پہاڑی پر چڑھ گیا۔قریش ابھی اپنے گھروں ہی میں تھے اوپر چڑھ کر اس نے بلند آواز سے چند شعر پڑھے جن کا خلاصہ یہ ہے: 
" اے فہر کی اولاد!ایک مظلوم کی مددکرو،جو اپنے وطن سے دور ہے اور جس کی تمام پونجی اس وقت مکہ کے اندر ہی ہے۔
اس زبیدی شخص کی یہ فریاد آپ ﷺ کے چچا زبیر بن عبد المطلب نے سن لی۔ان پر بہت اثر ہوا،انہوں نے عبداللہ بن جدعان کو ساتھ لیا اور اس آدمی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔پھر ان کے ساتھ بنو ہاشم،بنو زہرہ اور بنو اسد کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔یہ سب عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے۔یہاں ان سب کو کھانا کھلایا گیا۔اس کے بعد ان سب سے خدا کے نام پر حلف لیا گیا۔حلف کے الفاظ یہ تھے: 
ہم ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے رہیں گے اور اس کا حق اسے دلاتے رہیں گے۔ اس حلف کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔اس عہد اور حلف کے موقع پر الله کے رسول ﷺ بھی قریش کے ساتھ موجود تھے۔

╨─────────────────────❥

عنوان: نسطورا کی ملاقات★
★_
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عہد یعنی حلف الفضول کو بہت پسند فرمایا۔ آپ فرماتے تھے: 
’’میں اس عہد نامے میں شریک تھا۔ یہ عہد نامہ بنو جدعان کے مکان میں ہوا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس عہد نامے سے دست بردار ہوجائیں اور اس کے بدلے میں سو اونٹ لے لیں تو میں نہیں لوں گا۔ اس عہد نامے کے نام پر اگر کوئی آج بھی مجھے آواز دے تو میں کہوں گا۔ میں حاضر ہوں۔‘‘
آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر آج بھی کوئی مظلوم یہ کہہ کر آواز دے، اے حلف الفضول والو! تو میں اس کی فریاد کو ضرور پہنچوں گا۔ کیوں کہ اسلام تو آیا ہی اس لئے ہے کہ سچائی کا نام بلند کرے اور مظلوم کی مدد اور حمایت کرے۔
یہ حلف الفضول بعد میں بھی جاری رہا۔ 
مکہ میں آپ کی امانت اور دیانت کی وجہ سے آپ کو امین کہہ کر پکارا جانے لگا تھا۔ آپ کا یہ لقب بہت مشہور ہوگیا تھا۔ لوگ آپ کو امین کے علاوہ اور کسی نام سے نہیں پکارتے تھے۔
انہی دنوں ابوطالب نے آپ سے کہا:
’’اے بھتیجے! میں ایک بہت غریب آدمی ہوں اور قحط سالی کی وجہ سے اور زیادہ سخت حالات کا سامنا ہے، کافی عرصہ سے خشک سالی کا دور چل رہا ہے، کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ اپنا کام چلاسکیں اور نہ ہماری کوئی تجارت ہے، ایک تجارتی قافلہ شام جانے والا ہے، اس میں قریش کے لوگ شامل ہیں۔ قریش کی ایک خاتون خدیجہ بنت خویلد شام کی طرف اپنا تجارتی سامان بھیجا کرتی ہیں، جو شخص ان کا مال لے کر جاتا ہے وہ اپنی اجرت ان سے طے کرلیتا ہے، اب اگر تم ان کے پاس جاؤ اور ان کا مال لے جانے کی پیش کش کرو تو وہ ضرور اپنا مال تمہیں دے دیں گی، کیوں کہ تمہاری امانت داری کی شہرت ان تک پہنچ چکی ہے، اگرچہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم شام کے سفر پر جاؤ۔ یہودی تمہارے دشمن ہیں، لیکن حالات کی وجہ سے میں مجبور ہوں، اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں۔‘‘
یہاں تک کہہ کر ابوطالب خاموش ہوگئے، تب آپ نے فرمایا:
’’ممکن ہے، وہ خاتون خود میرے پاس کسی کو بھیجیں۔‘‘
یہ بات آپ نے اس لئے کہی تھی کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ایک بااعتماد آدمی کی ضرورت تھی اور اس وقت مکہ میں آپ سے زیادہ شریف، پاک باز، امانت دار، سمجھ دار اور قابل اعتماد آدمی کوئی نہیں تھا۔
ابوطالب اس وقت بہت پریشان تھے۔ آپ کی یہ بات سن کر انہوں نے کہا: 
’’اگر تم نہ گئے تو مجھے ڈر ہے، وہ کسی اور سے معاملہ طے کرلیں گی۔‘‘
یہ کہہ کر ابوطالب اٹھ گئے۔ ادھر آپ کو یقین سا تھا کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا خود ان کی طرف کسی کو بھیجیں گی اور ہوا بھی یہی۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا، پھر آپ سے کہا: 
’’میں نے آپ کی سچائی، امانت داری اور نیک اخلاق کے بارے میں سنا ہے اور اسی وجہ سے میں نے آپ کو بلوایا ہے، جو معاوضہ آپ کی قوم کے دوسرے آدمیوں کو دیتی ہوں،آپ کو ان سے دو گنا دوں گی۔‘‘
آپ نے ان کی بات منظور فرما لی۔پھر آپ اپنے چچا ابو طالب سے ملے۔انہیں یہ بات بتائی۔ ابو طالب سن کر بولے۔
یہ روزی تمہارے لئے اللہ نے پیدا فرمائی ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ ﷺ سیدہ خدیجہ ؓ کا سامان تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ سیدہ خدیجہ ؓ کے غلام میسرہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ روانگی کے وقت حضرت خدیجہ ؓ نے میسرہ سے کہا:
کسی معاملے میں ان کی نافرمانی نہ کرنا، جو یہ کہیں وہی کرنا، ان کی رائے سے اختلاف نہ کرنا۔‘‘
آپ ﷺ کے سب چچاؤں نے قافلے والوں سے آپ کی خبر گیری رکھنے کی درخواست کی۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ذمے داری کے لحاظ سے یہ آپﷺ کا پہلا تجارتی سفر تھا۔ گویا آپ ﷺاس کام میں بالکل نئے تھے۔
ادھر آپ روانہ ہوئے ادھر آپﷺ کا معجزہ شروع ہو گیا۔ ایک بدلی نے آپﷺ کے اوپرسایہ کر لیا۔آپﷺ کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ جب آپﷺ شام پہنچے تو بصری شہر کے بازار میں ایک درخت کے سائے میں اترے۔یہ درخت ایک عیسائی راہب نسطورا کی خانقاہ کے سامنے تھا۔ اس راہب نے میسرہ کو دیکھا تو خانقاہ سے نکل آیا۔ اس وقت اس نے آپﷺ کو دیکھا۔آپﷺ درخت کے نیچے ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس نے میسرہ سے پوچھا:
’’یہ شخص کون ہے جو اس درخت کے نیچے موجود ہے؟‘‘
میسرہ نے کہا:
’’یہ ایک قریشی شخص ہیں ۔حرم والوں میں سے ہیں۔‘‘
یہ سن کر راہب نے کہا:
اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کبھی کوئی آدمی نہیں بیٹھا۔‘‘
مطلب یہ تھا کہ اس درخت کے نیچے آج تک کوئی شخص نہیں بیٹھا، اللہ تعالی نے اس درخت کو ہمیشہ اس سے بچایا ہے کہ اس کے نیچے نبی کے سوا کوئی دوسرا شخص بیٹھے۔
اس کے بعد اس نے میسرہ سے پوچھا:
کیا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے؟‘‘
میسرہ نے جواب دیا:
ہاں بالکل ہے اور یہ سرخی ان کی آنکھوں میں مستقل رہتی ہے۔‘‘
اب نسطورا نے کہا:
’’یہ وہی ہیں‘‘۔
میسرہ نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور بولے‘
کیا مطلب۔۔یہ وہی ہیں۔۔کون وہی؟‘‘
’’یہ آخری پیغمبر ہیں ۔کاش میں وہ زمانہ پا سکتا جب انہیں ظہور کا حکم ملے گا،یعنی جب انہیں نبوت ملے گی۔‘‘
اس کے بعد وہ چپکے سے آپﷺ کے پاس پہنچا، پہلے تو اس نے آپﷺ کے سر کو بوسہ دیا پھر آپﷺ کے قدموں کو بوسہ دیا اور بولا:
میں آپﷺ پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے تورات میں فرمایا ہے۔‘‘
اس کے بعد نسطورا نے کہا:
اے محمدﷺمیں نے آپﷺ میں وہ تمام نشانیاں دیکھ لی ہیں ،جو پرانی کتابوں میں آپﷺ کی نبوت کی علامتوں کے طور پر درج ہیں ۔صرف ایک نشانی باقی ہے، اس لئے آپﷺ ذرا اپنے کندھے سے کپڑا ہٹائیں۔‘‘
آپﷺ نے اپنے شانہ مبارک سے کپڑا ہٹا دیا۔تب نسطورا نے وہاں مہر نبوت کو جگمگاتے دیکھا۔ وہ فورا مہر نبوت کو چومنے کے لیے جھک گیا، پھر بولا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہونکہ آپﷺ اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بارے میں حضرت عیسی ابن مریم علیہما السلام نے خوش خبری دی تھی اور انہوں نے کہا تھا:
میرے بعد اس درخت کے نیچے کوئی نہیں بیٹھے گا، سوائے اس پیغمبر کے جو امی (یعنی ان پڑھ)ہاشمی ،عربی اور مکی (یعنی مکہ کے رہنے والے)ہوں گے۔
قیامت میں حوض کوثر اور شفاعت والے ہوں گے۔‘‘
اس واقعے کے بعد آپﷺ بصری کے بازار تشریف لے گئے۔ وہاں آپﷺ نے مال فروخت کیا جو ساتھ لائے تھے اور کچھ چیزیں خریدیں۔
اس خرید و فروخت کے دوران ایک شخص نے آپﷺ سے کچھ جھگڑا کیا اور بولا:
لات اور عزی کی قسم کھاؤ۔
آپﷺ نے فرمایا:
میں نے ان بتوں کے نام پر کبھی قسم نہیں کھائی۔‘‘
آپﷺ کا یہ جملہ سن کر وہ شخص چونک اٹھا۔
 ╨─────────────────────❥


عنوان: سیدہ خدیجہ رضی الله عنها سے نکاح★_

★_
شاید وہ گزشتہ آسمانی کتاب کا کوئی عالم تھا اور اُس نے آپ کو پہچان لیا تھا، چناچہ بولا: 
"آپ ٹھیک کہتے ہیں۔"
اس کے بعد اس نے میسرہ سے علیحدگی میں ملاقات کی، کہنے لگا:
"میسرہ! یہ نبی ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہی ہے جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔"
میسرہ نے اس کی اس بات کو ذہن نشین کر لیا۔ راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہ رہے،ان کی وجہ سے میسرہ قافلے کے پیچھے رہ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے اگلے حصے میں تھے۔میسرہ ان اونٹوں کی وجہ سے پریشان ہوا تو دوڑتا ہوا اگلے حصے کی طرف آیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں آپ کو بتایا۔ آپ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے،ان کی کمر اور پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا۔ کچھ پڑھ کر دم کیا۔ آپ کا ایسا کرنا تھا کہ اونٹ اسی وقت ٹھیک ہوگئے اور اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے۔ اب وہ منہ سے آوازیں نکال رہے تھے اور چلنے میں جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔
پھر قافلے والوں نے اپنا سامان فروخت کیا۔اس بار انہیں اتنا نفع ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، چنانچہ میسرہ نے آپ سے کہا: 
"اے محمد! ہم سالہا سال سے سیدہ خدیجہ کے لئے تجارت کر رہے ہیں، مگر اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی نہیں ہوا جتنا اس بار ہوا ہے۔"
آخر قافلہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔میسرہ نے اس دوران صاف طور پر یہ بات دیکھی کہ جب گرمی کا وقت ہوتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر ہوتے تھے تو دو فرشتے دھوپ سے بچانے کیلیے آپ پر سایہ کیے رہتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے میسرہ کے دل میں آپ کی محبت گھر کر گئی اور یوں لگنے لگا جیسے وہ آپ کا غلام ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ اپ باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ آپ سیدھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ وہ اس وقت چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے دور سے آپ کو دیکھ لیا۔ آپ اونٹ پر سوار تھے اور دو فرشتے آپ پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظر دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ وہ سب بہت حیران ہوئیں۔ 
اب آپﷺ نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو تجارت کے حالات سنائے۔منافع کے بارے میں بتایا۔ اس مرتبہ پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے پوچھا: 
"میسرہ کہاں ہے؟"
آپ نے بتایا:
"وہ ابھی پیچھے ہے۔"
یہ سن کر سیدہ نے کہا:
"آپ فوراً اس کے پاس جائیے اور اسے جلد از جلد میرے پاس لائیے۔"
آپ واپس روانہ ہوئے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دراصل آپ کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پھر سے وہی منظر دیکھنا چاہتی تھیں۔ جاننا چاہتی تھیں کیا اب بھی فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں یا نہیں۔ جونہی آپ روانہ ہوئے، یہ اپنے مکان کے اوپر چڑھ گئیں اور وہاں آپ کو دیکھنے لگیں۔ آپ کی شان اب بھی وہی نظر آئی۔ اب اُنہیں یقین ہو گیا کہ اُن کی آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میسرہ کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میسرہ سے کہا:
"میں نے ان پر دو فرشتوں کو سایہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، کیا تم نے بھی کوئی ایسا منظر دیکھا ہے۔"
جواب میں میسرہ نے کہا:
"میں تو یہ منظر اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب قافلہ یہاں سے شام جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔"
اس کے بعد میسرہ نے نسطورا سے ملاقات کا حال سنایا۔ دوسرے آدمی نے جو کہا تھا، وہ بھی بتایا۔ جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کے لیے کہا تھا، پھر اونٹوں والا واقعہ بتایا۔ یہ تمام باتیں سننے کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو طے شدہ اجرت سے دوگنا دی۔ جب کہ طے شدہ اجرت پہلے ہی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی۔
ان تمام باتوں سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت حیران ہوئیں۔ اب وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے ملیں، یہ پچھلی کتابوں کے عالم تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں، جو کچھ خود دیکھا اورمیسرہ کی زبانی سنا تھا، وہ سب کہہ سُنایا۔ ورقہ بن نوفل اس وقت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے،اس سے پہلے وہ یہودی تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تمام باتیں سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا: 
"خدیجہ! اگر یہ باتیں سچ ہیں تو سمجھ لو، محمد اس امت کے نبی ہیں۔ میں یہ بات جان چکا ہوں کہ وہ اس امت کے ہونے والے نبی ہیں، دنیا کو انہی کا انتظار تھا۔ یہی ان کا زمانہ ہے۔"
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے تجارتی سفر صرف ایک بار ہی نہیں کیا چند سفر اور بھی کیے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک شریف اور پاک باز خاتون تھیں۔ نسب کے اعتبار سے بھی قریش میں سب سے اعلیٰ تھیں۔ اُنہیں قریش کی سیدہ کہا جاتا تھا۔ قوم کے بہت سے لوگ اُن سے نکاح خواہشمند تھے، کئی نوجوانوں کے پیغام اُن تک پہنچ چکے تھے، لیکن انہوں نے کسی کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تجارت کے سفر سے واپس آئے تو آپ ﷺ کی خصوصیات دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ متاثر ہو چکی تھیں لہٰذا انہوں نے ایک خاتون نفیسہ بنت منيه کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اُنہوں نے آکر آپ سے کہا کہ اگر کوئی دولتمند اور پاک باز خاتون خود آپ کو نکاح کی پیشکش کرے تو کیا آپ مان لیں گے۔
اُن کی بات سن کر آپ نے فرمایا: 
"وہ کون ہیں؟"
نفیسہ نے فوراً کہا:
"خدیجہ بنت خویلد۔"
آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ نفیسہ بنت منیہ سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا کے پاس آئیں۔ انہیں ساری بات بتائی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا عمرو بن اسد کو اطلاع کرائی، تاکہ وہ آکر نکاح کر دیں۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس سے پہلے دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی۔ ان کا پہلا نکاح عتیق ابن مائد سے ہوا تھا۔ اس سے بیٹی ہندہ پیدا ہوئی تھی۔ عتیق کے فوت ہو جانے کے بعد سیدہ کا دوسرا نکاح ابوہالہ نامی شخص سے ہوا۔ ابوہالہ کی وفات کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا ارادہ کر لیا۔ اس وقت سیدہ کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد وہاں پہنچ گئے، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کو لے کر پہنچ گئے۔ نکاح کس نے پڑھایا ، اس بارے روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ نکاح چچا ابوطالب نے پڑھایا تھا۔ مہر کی رقم کے بارے میں بھی روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ مہر کی رقم بارہ اوقیہ کے قریب تھی، دوسری روایت یہ ہے کہ آپ نے مہر میں بیس جوان اونٹنیاں دیں۔ 
نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت کھلائی اور اس دعوت میں آپ نے ایک یا دو اونٹ ذبح کیے۔ ﷺ
 ╨─────────────────────❥
_,*عنوان: تین تحریریں_★_

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35سال ہوئی تو مکہ میں زبردست سیلاب آیا۔ قریش نے سیلاب سے محفوظ رہنے کے لئے ایک بند بنا رکھا تھامگر یہ سیلاب اس قدر زبردست تھا کہ بند توڑکر کعبے میں داخل ہو گیا۔پانی کے زبردست ریلے اور پانی کے اندر جمع ہونے کی وجہ سے کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑگئے۔اس سے پہلے ایک مرتبہ یہ دیواریں آگ لگ جانے کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں اور یہ واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ ایک مرتبہ کوئی عورت کعبے کو دھونی دے رہی تھی کہ اس آگ میں سے ایک چنگاری اڑکر کعبے کے پردوں تک پہنچ گئی۔اس سے پردوں کو آگ لگ گئی اور دیواریں تک جل گئیں۔اس طرح دیواریں بہت کمزور ہو گئی تھیں،یہی وجہ تھی کہ سیلاب نے ان کو کمزور دیواروں میں شگاف کردیے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی جو دیواریں اٹھائی تھیں،وہ نو گز اونچی تھیں۔ان پر چھت نہیں تھی۔لوگ کعبے کے لئے نذرانے وغیرہ لاتے تھے۔یہ نذرانے کپڑے اور خوشبو ئیں وغیرہ ہوتی تھیں۔کعبے کے اندر جو کنواں تھا،یہ سب نذرانے اس کنوئیں میں ڈال دیئے جاتے تھے،کنواں اندرونی حصے میں دائیں طرف تھا۔ اس کو کعبے کا خزانہ کہا جاتا تھا۔ کعبے کے خزانے کو ایک مرتبہ ایک چور نے چرانے کی کوشش کی،چور کنوئیں ہی میں مر گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اس کی حفاظت کے لیے ایک سانپ کو مقرر کر دیا۔یہ سانپ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہتا تھا۔ کسی کو خزانے کے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ قریش بھی اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔اب جب کہ کعبے کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا مسئلہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کو بھیجا،وہ اس سانپ کو اٹھا لے گیا۔(البدایہ والنہایہ)
یہ دیکھ کر قریش کے لوگ بہت خوش ہوئے۔اب انہوں نے نئے سرے سے کعبے کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا۔اور پروگرام بنایا کہ بنیادیں مضبوط بنا کر دیواروں کو زیادہ اونچا اٹھایا جائے۔اس طرح دروازے کو بھی اونچا کردیا جائے گا تاکہ کعبے میں کوئی داخل نہ ہو۔ صرف وہی شخص داخل ہو جسے وہ اجازت دیں۔ 
اب انہوں نے پتھر جمع کیے۔ ہر قبیلہ اپنے حصے کے پتھر الگ جمع کررہا تھا۔چندہ بھی جمع کیا گیا۔چندے میں انہوں نے پاک کمائی دی۔ ناپاک کمائی نہیں دی۔مثلاًطوائفوں کی آمدنی،سود کی کمائی،دوسروں کا مال غصب کرکے حاصل کی گئی دولت چندے میں نہیں دی اور پاک کمائی انہوں نے بلاوجہ نہیں دی تھی۔ایک خاص واقعہ پیش آیا تھا۔جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کام میں صرف پاک کمائی لگائی جائے گی۔ وہ واقعہ یوں تھا:
ایک قریشی سردار ابو وہب عمرو بن عابد نے جب یہ کام شروع کرنے کے لیے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر اس کے ہاتھ سے نکل کر پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے اسے اٹھایا گیا تھا۔اس پر قریشی حیران وپریشان ہوئے۔آخر خود وہب کھڑا ہوا اور بولا:
"اے گروہ ِقریش ! کعبے کی بنیادوں میں سوائے پاک مال کے کوئی دوسرا مال شامل مت کرنا۔ بیت اللہ کی تعمیر میں کسی بدکار عورت کی کمائی،سود کی کمائی یا زبردستی حاصل کی گئی دولت ہرگز شامل نہ کرنا۔"
یہ وہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کا ماموں تھا اور اپنی قوم میں ایک شریف آدمی تھا۔
جب قریش کے لوگ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھورہے تھے تو ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ. بھی پتھر ڈھونے میں شریک تھے۔آپ پتھر اپنی گردن پر رکھ کر لا رہے تھے ۔تعمیر شروع کرنے سے پہلے قریش کےلوگوں نے خوف محسوس کیا کہ دیواریں گرانے سے کہیں ان پر کوئ مصیبت نہ نازل ہو جائے ۔آخر ایک سردار ولید بن مغیرہ نے کہا:”کعبہ کی دیواریں گرانے سے تمہارا ارادہ اصلاح اور مرمت کا ہے یا اس کو خراب کرنے کا„
جواب میں لوگوں نے کہا ظاہر ہے ہم تو مرمت اور اصلاح چاہتے ہیں; یہ سن کر ولید نےکہا;
"تب پھر سمجھ لو: اللہ تعالی اصلاح کرنے والوں کو برباد نہیں کرتا۔"
پھرولید ہی نے گرانے کے کام کی ابتدا کی لیکن اس نےبھی صرف ایک حصہ ہی ہی گرایاتاکہ معلوم ہو جائے کہ ان پر کوئ تباہی تو نہیں آتی ۔جب وہ رات خیریت سے گزر گئی. تب دوسرے دن سب لوگ اس کے ساتھ شریک ہو گئے اور پوری عمارت گرادی ۔یہاں تک کہ اسکی بنیاد تک پہنچ گئے۔یہ بنیاد ابراہیم علیہ السلام کےہاتھ کی رکھی ہوئ تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نےبنیادوں میں سبز رنگ کے پتھر رکھے تھے ۔یہ پتھر اونٹ کے کوہان کی طرح کے تھے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، ان لوگوں کے لئے انکو توڑ نا بہت مشکل کام. ثابت ہوا۔
دائیں کونے کے نیچے سے قریش کو ایک تحریر ملی، وہ تحریر سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی۔انہیں سریانی زبان نہیں آتی تھی، آخر ایک یہودی کو تلاش کرکے لایا گیا، اس نےوہ تحریر پڑھ کر انہیں سنائی تحریر یہ تھی ۔
"میں اللہ ہوں، مکّہ کا مالک جسکو میں نے اس دن پیدا. کیا جس دن میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، جس دن میں نے سورج اور چاند بنائے ۔میں نے اس کو یعنی. مکہ کو سات فرشتوں کے ذریعہ گھیر دیاہے۔اسکی عظمت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی"
جب تک کہ اس کے دونوں طرف پہاڑ موجود ہیں، ان پہاڑوں سے مراد ایک تو ابو قیس پہاڑ ہے جو کہ صفا پہاڑی کے سامنے ہے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ ہے جو مکہ کے قریب ہے اور جس کا رخ ابو قیس پہاڑ کی طرف ہے۔ اور یہ شہر اپنے باشندوں کے لیے پانی اور دودھ کے لحاظ سے بہت بابرکت اور نفع والا ہے"۔
یہ پہلی تحریر تھی۔ دوسری مقام ابراھیم سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:
"مکہ اللہ تعالیٰ کا محترم اور معظم شہر ہے۔ اس کا رزق تین راستوں سے اس میں آتا ہے"۔
یہاں تین راستوں سے مراد قریش کے تین تجارتی راستے ہیں۔ ان راستوں سے قافلے آتے جاتے تھے۔
تیسری تحریر اس سے کچھ فاصلے سے ملی۔ اس میں لکھا تھا:
"جو بھلائی بوئے گا لوگ اس پر رشک کریں گے یعنی اس جیسا بننے کی کوشش کریں گے اور جو شخص رسوائی بوئے گا وہ رسوائی اور ندامت پائے گا۔ تم برائیاں کرکے بھلائی کی آس لگاتے ہو، ہاں! یہ ایسا ہی ہے جیسے کیکر یعنی کانٹے دار درخت میں کوئی انگور تلاش کرے"۔
یہ تحریر کعبے کے اندر پتھر پر کھدی ہوئی ملی۔ کعبے کی تعمیر کے سلسلے میں قریش کو پتھروں کے علاوہ لکڑی کی بھی ضرورت تھی۔ چھت اور دیواروں میں لکڑی کی ضرورت تھی۔ لکڑی کا مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ ایک جہاز عرب کے ساحل سے آکر ٹکراگیا، آج اس مقام کو جدہ کا ساحل کہا جاتا ہے، پہ پہلے یہ مکہ کا ساحل کہلاتا تھا اس لیے کہ مکہ کا قریب ترین ساحل یہی تھا۔ ساحل سے ٹکرا کر جہاز ٹوٹ گیا۔ وہ جہاز کسی رومی تاجر کا تھا۔ اس جہاز میں شاہ روم کے لیے سنگ مرمر، لکڑی اور لوہے کا سامان لے جایا جارہا تھا۔ قریش کو اس جہاز کے بارے میں پتا چلا تو یہ لوگ وہاں پہنچے اور ان لوگوں سے لکڑی خرید لی۔ اس طرح چھت کی تعمیر میں اس لکڑی کو استعمال کیا گیا۔ آخر خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام حجر اسود تک پہنچ گیا۔ اب یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ حجر اسود کون اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھے گا۔
ہر قبیلہ یہ فضیلت خود حاصل کرنا چاہتا تھا۔
یہ جھگڑا اس حد تک بڑھا کہ مرنے مارنے تک نوبت آگئی۔ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تل گئے۔
قبیلہ عبد الدار نے تو قبیلہ عدی کے ساتھ مل کر ایک برتن میں خون بھرا اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبو کر کہا:
"حجر اسود ہم رکھیں گے"۔
اسی طرح دوسرے قبیلے بھی اڑگئے۔ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں۔

 ╨─────────────────────❥

عنوان: حجر اسود کون رکھےگا؟_★

آخروہ سب بیت اللہ میں جمع ہوئے-ان لوگوں میں ابوامیہ بن مغیرہ تھا-اس کانام حذیفہ تھا-قریش کےپورےقبیلےمیں یہ سب سےزیادہ عمروالاتھا-یہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہؓ کا باپ تھا-قریش کے انتہائی شریف لوگوں میں سےتھا-مسافروں کوسفرسامان اورکھاناوغیرہ دینے کےسلسلےمیں بہت مشہور تھا-جب کبھی سفر کرتاتواپنےساتھیوں کےکھانےپینےکاسامان خودکرتاتھا-
اس وقت اس شدیدجھگڑےکوختم کرنےکےلیےاس نےایک حل پیش کیا-اس نےسب سےکہا: 
اےقریش کےلوگواپناجھگڑاختم کرنےکےلیےتم یوں کروکہ حرم کےصفانامی دروازےسےجوشخص سب سےپہلےداخل ہو، اس سےفیصلہ کرالو-وہ تمہارےدرمیان جو فیصلہ کرے، وہ سب اس کومان لیں،،- 
یہ تجویزسب نےمان لی-آج اس دروازےکوباب السلام کہاجاتاہے-یہ دروازہ رکن یمانی اور رکن اسودکےدرمیانی حصے کے سامنےہے-
اللہ کی قدرت کہ اس دروازےسے سب سے پہلےحضورنبیﷺتشریف لائے-قریش نے جیسے ہی آپ کودیکھا، پکاراٹھے:
’’یہ تو امین ہیں، یہ تو محمد ہیں، ہم ان پر راضی ہیں۔‘‘
اور ان کے ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ قریش اپنے آپس کے جھگڑوں کے فیصلے آپ ہی سے کرایا کرتے تھے۔ آپ کسی کی بے جا حمایت نہیں کرتے تھے، نہ بلا وجہ کسی کی مخالفت کرتے تھے۔
پھر ان لوگوں نے اپنے جھگڑے کی تفصیل آپ کو سنائی۔ ساری تفصیل سن کر آپ نے فرمایا:
’’ایک چادر لے آؤ۔‘‘
وہ لوگ چادر لے آئے۔ آپ نے اس چادر کو بچھایا اور اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر قبیلے کے لوگ اس چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑلیں، پھر سب مل کر اس کو اٹھائیں۔‘‘
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چادر کو اٹھائے ہوئے وہ اس مقام تک آگئے جہاں حجر اسود کو رکھنا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم نے حجر اسود کو اٹھاکر اس کی جگہ رکھنا چاہا، لیکن عین اسی وقت ایک نجدی شخص آگے بڑھا اور تیز آواز میں بولا:
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے ایک کم عمر نوجوان کو اپنا راہنما بنالیا ہے، اس کی عزت افزائی میں لگ گئے ہو، یاد رکھو، یہ شخص سب کو گروہوں میں تقسیم کردے گا، تم لوگوں کو پارہ پارہ کردے گا۔‘‘
قریب تھا کہ لوگوں میں اس کی باتوں سے ایک بار پھر جھگڑا ہوجائے، لیکن پھر خود ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ لڑانے والا نہیں، لڑائی ختم کرنے والا ہے، چنانچہ حجر اسود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
مورخوں نے لکھا ہے، یہ نجدی شخص دراصل ابلیس تھا جو اس موقع پر انسانی شکل میں آیا تھا۔
جب کعبے کی تعمیر مکمل ہوگئی تو قریش نے اپنے بتوں کو پھر سے اس میں سجادیا - کعبے کی یہ تعمیر جو قریش نے کی، چوتھی تعمیر تھی - سب سے پہلے کعبے کو فرشتوں نے بنایا تھا - بعض صحابہ نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی کے اوپر تھا، جب عرش کو پانی پر ہونے کی وجہ سے حرکت ہوئی تو اس پر یہ کلمہ لکھا گیا:
لَا إِِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰه 
اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اللہ تعالٰی کے رسول ہیں - 
اس کلمے کے لکھے جانے کے بعد عرش ساکن ہوگیا - پھر جب اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے پانی پر ہوا کو بھیجا - اس سے پانی میں موجیں اُٹھنے لگیں، اور بخارات اٹھنے لگے - اللہ تعالیٰ نے ان بخارات یعنی بھاپ سے آسمان کو پیدا فرمایا - پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی جگہ سے پانی کو ہٹادیا، جگہ خشک ہوگئی، چنانچہ یہی بیت اللہ کی جگہ ساری زمین کی اصل ہے اور اس کا مرکز ہے - یہی خشکی بڑھتے بڑھتے سات براعظم بن گئی - جب زمین ظاہر ہوگئی تو اس پر پہاڑ قائم کیے گئے - زمین پر سب سے پہلا پہاڑ ابو قبیس ہے - 
پھر اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم فرمایا:
"زمین پر میرے نام کا ایک گھر بناؤ تاکہ آدم کی اولاد اس گھر کے ذریعے میری پناہ مانگے - انسان اس گھر کا طواف کریں، جس طرح تم نے میرے عرش کے گرد طواف کیا ہے، تاکہ میں ان سے راضی ہوجاؤں -" 
فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی - پھر آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی - اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی - اس طرح قریش کے ہاتھوں یہ تعمیر چوتھی بار ہوئی تھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی تو وحی کے آثار شروع ہوگئے، اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے۔ آپ جو خواب دیکھتے وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے سچے خوابوں کا سلسلہ اس لئے شروع کیا کہ اچانک فرشتے کی آمد سے کہیں آپ خوفزدہ نہ ہوجائیں۔ ان دنوں ایک بار آپ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: 
’’جب میں تنہائی مٰیں جاکر بیٹھتا ہوں تو مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔ کوئی کہتا ہے، اے محمد ۔۔۔۔ اے محمد۔۔۔‘‘
ایک بار آپ نے فرمایا:
’’مجھے ایک نور نظر آتا ہے، یہ نور جاگنے کی حالت میں نظر آتا ہے۔ مجھے ڈر ہے، اس کے نتیجے میں کوئی بات نہ پیش آجائے۔‘‘
ایک بار آپ نے یہ بھی فرمایا:
’’اللہ کی قسم! مجھے جتنی نفرت ان بتوں سے ہے، اتنی کسی اور چیز سے نہیں۔‘‘
وحی کے لئے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتے اسرافیل کو آپ کا ہم دم بنادیا تھا۔ آپ ان کی موجودگی کو محسوس تو کرتے تھے، مگر انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس طرح آپ کو نبوت کی خوش خبریاں دی جاتی رہیں۔ آپ کو وحی کے لیے تیار کیا جاتا رہا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں تنہائی کا شوق پیدا فرمادیا تھا، چنانچہ آپ کو تنہائی عزیز ہوگئی۔ آپ غار حرا میں چلے جاتے اور وہاں وقت گزارتے۔ اس پہاڑ سے آپ کو ایک بار آواز بھی سنائی دی تھی:
’’میری طرف تشریف لائیے۔ اے اللہ کے رسول۔‘‘
اس غار میں آپ مسلسل کئی کئی راتیں گزارتے۔ اللہ کی عبادت کرتے۔ کبھی آپ تین راتوں تک وہاں ٹھہرے رہتے، کبھی سات راتوں تک۔ کبھی پورا مہینہ وہاں گزاردیتے۔ آپ جو کھانا ساتھ لے جاتے تھے، جب ختم ہوجاتا تو گھر تشریف لے جاتے، یہ کھانا عام طور پر زیتون کا تیل اور خشک روٹی ہوتا تھا۔ کبھی کھانے میں گوشت بھی ہوتا تھا۔ غار حرا میں قیام کے دوران کچھ لوگ وہاں سے گزرتے اور ان میں کچھ مسکین لوگ ہوتے تو آپ انہیں کھانا کھلاتے۔
غار حرا میں آپ عبادت کس طرح کرتے تھے۔ روایات میں اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ علما کرام نے اپنا اپنا خیال ضرور ظاہر کیا ہے۔ ان میں سے ایک خیال یہ ہے کہ آپ کائنات کی حقیقت پر غور وفکر کرتے تھے اور یہ غور وفکر لوگوں سے الگ رہ کر ہی ہوسکتا تھا۔ 
پھر آخر کار وہ رات آگئی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور رسالت عطا فرمادی۔ آپ کی نبوت کے ذریعہ اپنے بندوں پر عظیم احسان فرمایا۔ وہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور تاریخ سترہ تھی۔ بعض علما نے یہ لکھا ہے کہ وہ رمضان کا مہینہ تھا، کیوں کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ آتھویں اور تیسری تاریخ بھی روایات میں آئی ہے اور یہ پہلا موقع تھا جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آپ کی خدمت مین حاضر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ آپ کے پاس نہیں آئے تھے۔ جس صبح جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے، وہ پیر کی صبح تھی اور پیر کی صبح ہی آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: 
’’پیر کے دن کا روزہ رکھو، کیوں کہ میں پیر کے دن پیدا ہوا، پیر کے دن ہی مجھے نبوت ملی۔‘‘
بہر حال اس بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اس وقت آپ کی عمر مبارک کا چالیس واں سال تھا۔ آپ اس وقت نیند میں تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لے آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑا تھا اور اس کپڑے میں ایک کتاب تھی۔

 ╨─────────────────────❥

✭﷽✭
                          *✿_سیرت النبی ﷺ_✿*
         *✭ SEERATUN NABI ﷺ.✭*
             *✿_सीरतुन नबी ﷺ. _✿*
                  *🌹صلى الله على محمدﷺ🌹*
            ▪•═════••════•▪                 
                        *PART- 2*
                          ─┉●┉─
                 
*┱✿_ عنوان: پہلی وحی
★__انہوں نے آتے ہی کہا:- ’’اقرأ۔ یعنی پڑھئے۔
آپ نے فرمایا: -’’میں نہیں پڑھ سکتا۔‘‘ (یعنی میں پڑھا لکھا نہیں)۔
اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو سینے سے لگاکر بھینچا۔ آپ فرماتے ہیں، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے موت کا گمان ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑدیا، پھر کہا:
’’پڑھیے۔ ’’یعنی جو میں کہوں، وہ پڑھیے۔ اس پر آپ نے فرمایا:
میں کیا پڑھوں؟‘‘
★_تب جبرائیل علیہ السلام نے سورۃ العلق کی یہ آیات پڑھیں:
ترجمہ: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! آپ (پر جو قرآن نازل ہوا کرے گا) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے (یعنی جب پڑھیں، بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر پڑھا کیجئے) جس نے مخلوقات کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قران پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے (جو چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور ایسا ہے) جس نے لکھے پڑھوں کو قلم سے تعلیم دی۔ (اور عام طور پر) انسانوں کو (دوسرے ذریعوں سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔
★_آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے ان آیتوں کو اسی طرح پڑھ دیا جس کے بعد وہ فرشتہ میرے پاس سے چلا گیا، ایسا لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہو، یعنی یہ کلمات مجھے زبانی یاد ہوگئے، اس کے بعد آپ گھر تشریف لائے۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب غار میں آئے تو پہلے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے:
’’اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔‘‘
★_آپ کی گھر تشریف آوری سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب معمول آپ کے لئے کھانا تیار کرکے ایک شخص کے ہاتھ آپ کے پاس بھجوادیا تھا مگر اس شخص کو آپ غٓار میں نظر نہ آئے۔ اس شخص نے واپس آکر یہ بات سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا کو بتائی۔ انہوں نے آپ کی تلاش میں آپ کے عزیزواقارب کے گھر آدمی بھیجے۔ مگر آپ وہاں بھی نہ ملے۔ اس لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پریشان ہوگئیں۔ وہ ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ آٓپ تشریف لے آئے۔ آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اس کی تفصیل سیدہ خدیجہ رضٰی اللہ عنہا سے بیان فرمائی۔ حضرت جبرائیل کا یہ جملہ بھی بتایا کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں۔
★_یہ سن کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’آپ کو خوش خبری ہو۔۔۔ آپ یقین کیجئے! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔‘‘
★_پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ غار والا سارا واقعہ انہیں سنایا۔ ورقہ بن نوفل پرانی کتابوں کے عالم تھے۔ ساری بات سن کر وہ پکار اٹھے:
’’قدوس۔۔۔ قدوس۔۔۔ قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، خدیجہ! اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں، ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرئیل آئے تھے جو موسی علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے۔ محمد اس امت کے نبی ہیں۔ یہ اس بات پر یقین کرلیں۔‘‘
قدوس کا مطلب ہے، وہ ذات جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ لفظ تعجب کے وقت بولا جاتا ہے جیسے ہم کہہ دیتے ہیں، اللہ۔۔۔ اللہ۔
★_ورقہ بن نوفل کو جبرئیل کا نام سن کر حیرت اس لئے ہوئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کے سر کو بوسہ دیا تھا اور پھر کہا تھا:
’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیں گے۔ میں آپ کی مدد کرتا، اس عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں، جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، آپ کو تکالیف پہنچائے گی۔ آپ کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں گی اور آپ کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کا ساتھ دوں گا، اللہ کے دین کی حمایت کروں گا۔‘‘
آپ یہ سن کر حیران ہوئے اور فرمایا:
’’میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی؟‘‘
جواب میں ورقہ نے کہا:
’’ہاں! اس لئے کہ جو چیز آپ لے کر آئے ہیں، اسے لے کر جو بھی آٓیا، اس پر ظلم ڈھائے گئے۔۔۔ اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں ضرور آپ کی پوری مدد کروں گا۔‘‘
ورقہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی کہا:
’’تمہارے خاوند بے شک سچے ہیں، درحقیقت یہ باتیں نبوت کی ابتدا ہیں۔۔۔ یہ اس امت کے نبی ہیں۔‘‘
★_لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ انہیں حجون کے مقام پر دفن کیا گیا۔ چونکہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی تھی۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :
" میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا ہے۔ان کے جسم پر سرخ لباس تھا"۔
★__ورقہ سے ملاقات کے بعد آپ گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک مدت تک جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے نہیں آئے۔ درمیان میں جو وقفہ ڈالا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ آپ کے مبارک دل پر جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ کر جو خوف پیدا ہوگیا تھا، اس کا اثر زائل ہوجائے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے آپ کے دل میں وحی کا شوق پیدا ہوجائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جبرئیل علیہ السلام کی آمد  کے بعد سلسلہ رک جانے کے بعد آپ کوصدمہ ہوا ۔ کئی بار آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے، تاکہ خود کو وہاں سے گرا کر ختم کردیں، لیکن جب بھی آپ ایسا کرنے کی کوشش کرتے، جبرائیل علیہ السلام آپ کو پکارتے:
" اے محمد! آپ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہے۔"
★_یہ کلمات سن کر آپ سکون محسوس کرتے، لیکن جب پھر وحی کا وقفہ کچھ اور گزجاتا تو آپ بے قرار ہوجاتے، رنج محسوس کرتے اور اسی طرح پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتے، چنانچہ پھر جبرائیل علیہ السلام آجاتے اور آپ کو تسلی دیتے، آخر دوبارہ وحی ہوئی ۔
سورہ مدثر کی پہلی تین آیات اتری۔
ترجمہ ۔: اے کپڑے میں لپیٹنے والے اٹھو ! (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیار ہوجاؤ ) پھر کافروں کو ڈراؤ اور پھر اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
★_اس طرح آپ کو نبوت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں ۔
"سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور اللہ کی طرف سے جو کچھ آنحضرت لے کر آئے، اس کی تصدیق کی۔ مشرکین کی طرف سے آپ کو جب بھی تکلیف پہنچی، صدمہ پہنچا، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دلاسا دیا۔‌"
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا ہیں۔جو آپ کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے آپ کی زبان سے نبوت ملنے کا ذکر سنتے ہی فوراً آپ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے ۔ بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہا ہیں۔جو آپ پر پہلے ایمان لائے، اور ان کے ایمان لانے کا واقع کچھ اس طرح ہے۔
★_ایک دن آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ ان کے ساتھ چھپ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ نئی بات دیکھ کر پوچھا:
"یہ آپ کیا کررہے ہیں "
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"یہ وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں، میں تمھیں بھی اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں، لات اور عزّٰی کی عبادت سے روکتا ہوں ۔‌
حضرت علی نے یہ سن کر عرض کیا ؛
" یہ ایک نئی بات ہے، اس کے بارے میں میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔اس لیے میں اپنے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، میں اپنے والد سے مشورہ کرلوں۔"
ان کا جواب سن کر آپ نے ارشاد فرمایا؛
"علی! اگر تم مسلمان نہیں ہوتے تو بھی اس بات کو چھپائے رکھنا۔"
انہوں نے وعدہ کیا اور اس کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ رات بھر سوچتے رہے۔آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی ۔سویرے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔
علماء نے لکھا ہے، اس وقت حضرت علی کی عمر ۸ سال کے قریب تھی اس سے پہلے بھی انہوں نے کبھی بتوں کی عبادت نہیں کی تھی۔ وہ بچپن ہی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔
★__لیکن احتیاط کے باوجود حضرت علی ؓ کے والد کو ان کے قبول اسلام کا علم ہوگیا۔ تو انہوں نے حضرت علیؓ سے اس کے متعلق استفسار کیا۔
اپنے والد کا سوال سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ابا جان! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا چکا ہوں اور جو کچھ اللہ کے رسول لے کر آئے ہیں، اس کی تصدیق کرچکا ہوں، لہذا ان کے دین میں داخل ہوگیا ہوں اور ان کی پیروی اختیار کرچکا ہوں۔ "
یہ سن کر ابوطالب نے کہا:
" جہاں تک ان کی بات ہے( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) تو وہ تمہیں بھلائی کے سواکسی دوسرے راستے پر نہیں لگائیں، لہذا ان کا ساتھ نہ چھوڑنا۔"
★_ابوطالب اکثر یہ کہا کرتے تھے‌:
" میں جانتا ہوں، میرا بھتیجا جو کہتا ہے، حق ہے، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریشی کی عورتیں مجھے شرم دلائیں گی، تو میں ضرور ان کی پیروی قبول کرلیتا۔‌۔"
★_عفیف کندی رضی اللہ عنہ ایک تاجر تھے، ان کا بیان ہے۔
" اسلام لانے سے بہت پہلے میں ایک مرتبہ حج کے لئے آیا ۔ تجارت کا کچھ مال خریدنے کے لئے میں عباس ابن عبدالمطلب کے پاس گیا۔ وہ میرے دوست تھےاور یمن سے اکثر عطر خرید کر لاتے تھے۔ پھر حج کے موسم میں مکہ میں فروخت کرتے تھے، میں ان کے ساتھ منیٰ میں بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان آیا۔ اس نے غروب ہوتے سورج کی طرف غور سے دیکھا، جب اس نے دیکھ لیا کہ سورج غروب ہوچکا تو اس نے بہت اہتمام سے وضو کیا، پھر نماز پڑھنے لگا۔ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرکے.... پھر ایک لڑکا آیا، جو بالغ ہونے کے قریب تھا ۔اس نے وضو کیا اور اس نوجوان کے برابر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا۔پھر ایک عورت خیمے سے نکلی اور ان کے پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے بعد ان نوجوان نے رکوع کیا تو اس لڑکے اور عورت نے بھی رکوع کیا۔نوجوان نے سجدے میں گیا تو وہ دونوں بھی سجدے میں چلے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے عباس بن عبدالمطلب سے پوچھا: -" عباس! یہ کیا ہوررہا ہے۔ "
انہوں نے بتایا :
"یہ میرے بھائی عبدالله کے بیٹے کا دین ہے۔ محمدﷺ کا دعویٰ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے اسے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ یہ لڑکا میرا بھتیجا ہے علی ابن طالب ہے اور یہ عورت محمدﷺ کی بیوی خدیجہ ہے۔ "
★_یہ عفیف کندی رضی اللہ عنہہ مسلمان ہوئے تو کہا کرتے تھے: -" کاش! اس وقت ان میں چوتھا آدمی میں ہوتا۔"
اس واقعے کے وقت غالباً حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا وہاں موجود نہیں تھے، اگرچہ اس وقت تک دونوں مسلمان ہوچکے تھے۔
★_حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہا غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے تھے، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے پہلے یہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہہ کے غلام تھے۔ شادی کے بعد انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی غلامی میں دے دیا تھا۔
★_یہ غلام کس طرح بنے، یہ بھی سن لیں ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کی والدہ انہیں لیے اپنے ماں باپ کے ہاں جارہی تھیں کہ قافلہ کو لوٹ لیا گیا۔ ڈاکو ان کے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کو بھی لے گئے۔ پھر انہیں عکاظ کے میلے میں بیچنے کے لیے لایا گیا۔ ادھر سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا نے حکیم بن حزام رضی الله عنہا کو میلے میں بھیجا ۔ وہ ایک غلام خریدنا چاہتی تھیں ۔ آپ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کی پھوپھی تھیں ۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا میلے میں آئے تو وہاں انہوں نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کر بکتے دیکھا، اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہا کو یہ اچھے لگے، چنانچہ انہوں نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے انہیں خرید لیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی یہ پسند آئے اور انہوں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کردیا۔اس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہا آپ صلی علیہ وسلم کے غلام بنے۔
★_ پھر جب آپ نے اسلام کی دعوت دی تو فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا تھا مگر یہ عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ ان کے والد ایک مدت سے ان کی تلاش میں تھے۔ کسی نے انہیں بتایا کہ زید مکہ میں دیکھے گئے ہیں ۔
ان کے والد اور چچا انہيں لینے فوراً مکہ معظمہ کی طرف چل پڑے۔ مکہ پہنچ کر یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایاکہ زید ان کے بیٹے ہیں۔
ساری بات سن کر آپ نے ارشاد فرمایا:
" تم زید سے پوچھ لو، اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہيں اور یہاں میرے پاس رہنا چاہیں تو ان کی مرضی۔"
زید رضی اللہ عنہہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا۔
★_اس پر باپ نے کہا:
" تیرا برا ہو زید ... تو آزادی کے مقابلے میں غلامی کو پسند کررہا ہے۔‌"
جواب میں حضرت زید رضی اللہ عنہا نے کہا ؛
" ہاں ! ان کے مقابلے میں میں کسی اور کو ہرگز نہیں چن سکتا۔‌"
آپ نے حضرت زید رضی اللّٰہ عنہہ کی یہ بات سنی تو آپ کو فوراً حجر اسود کے پاس گئے اور اعلان فرمایا‌۔: -" آج سے زید میرا بیٹا ہے۔"
ان کے والد اور چچا مایوس ہوگئے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ جب چاہیں زید سے ملنے آسکتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ملنے کے لیے آتے رہے۔
تو یہ تھے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہا جو غلاموں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔ حضرت زید واحد صحابی ہیں جن کا قران کریم میں نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔
★__مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے ہی دوست تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کے گھر آتے اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے۔
ایک دن حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کی ایک باندی وہاں آئی اور کہنے لگی:
"آج آپ کی پھوپھی خدیجہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام تھے۔"
★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جونہی حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کی باندی کی یہ بات سنی،چپکے سے وہاں سے اٹھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ اس پر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو وحی آنے کا پورا واقعہ سنایا اور بتایا کہ آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا:
"میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ بلکل سچ کہتے ہیں واقعی اللہ کے رسول ہیں۔" ‏آپ کے اس طرح فوراً تصدیق کرنے کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
★_اس بارے میں دوسری روایت یہ ہے کہ صدیق کا لقب آپ نے انہیں اس وقت دیا تھا جب آپ معراج کے سفر سے واپس تشریف لائے تھے مکہ کے مشرکین نے آپ کو جھٹلایا تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو سنتے ہیں فوری طور پر آپ کی تصدیق کی تھی اور آپ نے انہیں صدیق کا لقب عطا فرمایا تھا۔
غرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے آپ کی نبوت کی تصدیق فوری طور پر کر دی۔
★_حضرت ابو بکر صدیق رضي اللہ عنہ کا نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ رکھا، اس لیے کہ اس سے پہلے اُن کا نام عبدالكعبہ تھا۔ اس لحاظ سے ابوبکر صدیق وہ پہلے آدمی ہے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یوں بھی بہت خوبصورت تھے، اس مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لقب عتیق کر رکھا تھا۔ عتیق کا مطلب ہے خوبصورت اس کا ایک مطلب آزاد بھی ہے۔یہ لقب دینے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ان کی طرف دیکھ کر فرمایا تھا:-
" یہ جہنم کی آگ سے آزاد ہیں۔"
★_غرض اسلام میں یہ پہلا لقب ہے جو کسی کو ملا۔ قریش میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت بلند تھا آپ بہت خوش اخلاق تھے۔ قریش کے سرداروں میں سے ایک تھے۔ شریف، سخی اور دولت مند تھے۔ روپیہ پیسہ بہت فراخ دلی سے خرچ کرتے تھے۔ ان کی قوم کے لوگ انہیں بہت چاہتے تھے۔ لوگ ان کی مجلس میں بیٹھنا بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خواب کی تعبیر بتانے میں بہت ماہر اور مشہور تھے۔ چنانچہ علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے بہترین تعبیر بتانے والے عالم ہیں۔"
★_علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ خوابوں کی تعبیر بتانے میں بہت ماھر تھے اور اس سلسلے میں ان کی کتابیں موجود ہے اس کتاب میں خوابوں کی حیرت انگیز تعبیریں  درج ہیں۔ ان کی بتائی ہوئی تعبیریں بالکل درست ثابت ہوتی رہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس میدان کے ماہر اس بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر تعبیر بتانے والے فرما رہے ہیں۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نسب نامہ بیان کرنے میں بھی بہت ماھر تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس علم کے سب سے بڑے عالم تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم بھی اس علم کے ماہر تھے، وہ فرماتے ہیں:
"میں نے نسب ناموں کا فن اور علم اور خاص طور پر قریش کے نسب ناموں کا علم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہی حاصل کیا ہے، اس لئے کہ وہ قریش کے نسب ناموں کے سب سے بڑے عالم تھے۔
★_قریش کے لوگوں کو کوئی مشکل پیش آتی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رابطہ کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے کچھ نہ کچھ سوچ بچار اور کسی قدر وقفے کے بعد اسلام قبول کیا،سوائے ابوبکر کے، وہ بغیر ہچکچاہٹ کے فوراً مسلمان ہوگئے، ابوبکر سب سے بہتر رائے دینے والے ہیں۔ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے، اپنے معاملات میں ابوبکر سے مشورہ کیا کریں۔
★_نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ وزیر کے درجے میں تھے۔ آپ ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"اللہ تعالٰی نے میری مدد کے لئے چار وزیر مقرر فرمائے ہیں، ان میں سے دو آسمان والوں میں سے ہیں یعنی جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) اور دو زمین والوں میں سے ایک ابوبکر اور دوسرے عمر (رضی اللہ عنہما)۔"
★_ اسلام لانے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا تھا، خواب میں آپ نے دیکھا کہ چاند مکہ میں اُتر آیا ہے اور اس کا ایک ایک حصہ مکہ کے ہر گھرمیں داخل ہو گیا ہے۔ اور پھر سارے کا سارا ابوبکر رضی اللہ والوں کی گود میں آ گئا۔ آپ نے یہ خواب ایک عیسائی عالم کو سنایا۔ اُس نے اس خواب کی یہ تعبیر بیان کی کہ تم اپنے پیغمبر کی پیروی کرو گے جس کا دنیا انتظار کر رہی ہے اور جس کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ کہ پیروں کاروں میں سے سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہو گے۔
★_ایک روایت کے مطابق عالم نے کہا تھا:
"اگر تم اپنا خواب بیان کرنے میں سچے ہو تو بہت جلد تمہارے گاؤں میں سے ایک نبی ظاہر ہوں گے، تم اس نبی کی زندگی میں اس کے وزیر بنو گے اور ان کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہوؤ گے۔"
★_کچھ عرصہ بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو یمن جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یمن میں یہ ایک بوڑھے عالم کے گھر ٹھرے۔ اس نے آسمانی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کو دیکھ کر اس نے کہا:
میرا خیال ہے، تم حرم کے رہنے والے ہو اور میرا خیال ہے، تم قریشی ہو اور تیمی خاندان سے ہو۔"
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا:
"ہاں! تم نے بالکل ٹھیک کہا۔"
اب اس نے کہا:
"میں تم سے ایک بات اور کہتا ہوں… تم ذرا اپنا پیٹ پر سے کپڑا ہٹا کر دکھاؤ۔" حضرت ابو بکر صد یق اس کی بات سن کر حیران ہوئے اور بولے:
"ایسا میں اس وقت تک نہیں کروں گا، جب تک کہ تم اس کی وجہ نہیں بتا دو گے۔"
"_اس پر اس نے کہا:
"میں اپنے مضبوط علم کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ حرم کے علاقے میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے - ان کی مدد کرنے والا ایک نوجوان ہوگا اور ایک پختہ عمر والا ہوگا، جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے، وہ مشکلات میں کود جانے والا ہوگا، جہاں تک پختہ عمر کے آدمی کا تعلق ہے، وہ سفید رنگ کا کمزور جسم والا ہوگا - اس کے پیٹ پر ایک بال دار نشان ہوگا - حرم کا رہنے والا، تیمی خاندان کا ہوگا اور اب یہ ضروری نہیں کہ تم مجھے اپنا پیٹ دکھاؤ، کیونکہ باقی سب علامتیں تم میں موجود ہیں -
اس کی اس بات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹادیا - وہاں ان کی ناف کے اوپر سیاہ اور سفید بالوں والا نشان موجود تھا - تب وہ پکار اٹھا:
"پروردگارِ کعبہ کی قسم! تم وہی ہو۔"
 ╨─────────────────────❥
*┱✿_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت _,*
★__ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"جب میں یمن میں اپنی خریداری اور تجارتی کام کر چکا تو رخصت ہونے کے وقت اس کے پاس آیا۔ اس وقت اس نے مجھ سے کہا:-"میری طرف سے چند شعر سن لو جو میں نے اس نبی کی شان میں کہے ہیں۔"
اس پر میں نے کہا:-"اچھی بات ہے سناؤ۔"
تب اس نے مجھے وہ شعر سنائے، اس کے بعد جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا اعلان کر چکے تھے۔فوراً ہی میرے پاس قریش کے بڑے بڑے سردار آئے۔ ان میں زیادہ اہم عقبہ بن ابی معیط، شیبہ، ابو جہل اور ابوالبختری تھے۔ان لوگوں نے مجھ سے کہا:
"اے ابوبکر! ابو طالب کے یتیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہیں۔اگر آپ کا انتظار نہ ہوتا تو ہم اس وقت تک صبر نہ کرتے۔ اب جب کہ آپ آگئے ہیں، ان سے نبٹنا آپ ہی کا کام ہے ۔"
★_اور یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی دوست تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اچھے انداز سے ان لوگوں کو ٹال دیا اور خود آپ کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی۔ آپ باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا:
"اے ابوبکر! میں تمہاری اور تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں،اس لیے اللہ تعالٰی پر ایمان لے آؤ۔"
آپ کی بات سن کر میں نے کہا:
"آپ کے پاس اس بات کا ثبوت ہے۔"
آپ نے میری بات سن کر ارشاد فرمایا:-اس بوڑھے کے وہ شعر جو اس نے آپ کو سنائے تھے"
یہ سن کر میں حیران رہ گیا اور بولا:"میرے دوست! آپ کو ان کے بارے میں کس نے بتایا؟"
آپ نے ارشاد فرمایا:
"اس عظیم فرشتے نے جو مجھ سے پہلے بھی تمام نبیوں کے پاس آتا رہا ہے۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:"اپنا ہاتھ لایئے! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔"
★_آپ میرے ایمان لانے پر بہت خوش ہوئے، مجھے سینے سے لگایا ۔ پھر کلمہ پڑھ کر میں آپ کے پاس سے واپس آگیا۔
مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو سب سے پہلا کام کیا،وہ تھا اسلام کی تبلیغ۔ انہوں نے اپنے جاننے والوں کو اسلام کا پیغام دیا۔ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا،چنانچہ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر ان کے چچا حکم کو ہوئی تو اس نے انہیں پکڑ لیا اور کہا:-"تو اپنے باپ دادا کا دین چھوڑکر محمد کا دین قبول کرتا ہے، اللہ کی قسم! میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تو اس دین کو نہیں چھوڑے گا -"
اس کی بات سن کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-"اللہ کی قسم! میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا -"
ان کے چچا نے جب ان کی پختگی اور ثابت قدمی دیکھی تو انہیں دھوئیں میں کھڑا کرکے تکالیف پہنچائیں - حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ثابت قدم رہے - حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جنت میں ہر نبی کا ایک رفیق یعنی ساتھی ہوتا ہے اور میرے ساتھی وہاں عثمان ابن عفان ہوں گے -"
★_حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی - آپ کی کوششوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے - اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی - اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مسلمان ہوئے - جاہلیت کے زمانہ میں ان کا نام عبد الکعبہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبدالرحمن رکھا - یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"امیہ ابن خلف میرا دوست تھا، ایک روز اس نے مجھ سے کہا، تم نے اس نام کو چھوڑ دیا جو تمہارے باپ نے رکھا تھا -"
جواب میں میں نے کہا:-"ہاں! چھوڑ دیا -"
یہ سن کر وہ بولا:-"میں رحمٰن کو نہیں جانتا، اس لیے میں تمہارا نام عبدالالٰہ رکھتا ہوں -"
چناں چہ مشرک اس روز سے مجھے عبدالالٰہ کہہ کر پکارنے لگے۔
★_حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
”میں اکثر یمن جایا کرتا تھا، جب بھی وہاں جاتا عسکلان بن عواکف حمیری کے مکان پر ٹھہراکرتاتھا اور جب بھی میں اس کے ہاں جاتا وہ مجھ سے پوچھا کرتا تھا، کیا وہ شخص تم لوگوں میں ظاہر ہوگیا ہے جس کی شہرت اور چرچے ہیں، کیا تمہارے دین کے معاملے میں کسی نے مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ نہیں، ایسا کوئی شخص ظاہر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ وہ سال آگیا جس میں نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا۔ میں اس سال یمن گیا تو اسی کے یہاں ٹھہرا۔ اس نے یہی سوال پوچھا، تب میں نے اسے بتایا:
”ہاں ان کا ظہور ہوگیا ہے۔ ان کی مخالفت بھی ہورہی ہے۔“
★_حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے بارے میں نبیٔ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:-”تم زمین والوں میں بھی امانت دار ہو اور آسمان والوں میں بھی۔“
★_حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد حضر ت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے کوئی ہچکچاہٹ ظاہر نہ کی فوراً حضور نبیٔ کریم ﷺ کے پاس چلے آئے، آپ سے آپ کے پیغام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے انھیں بتایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۹ سال تھی۔ یہ بنی زہرہ کے خاندان سے تھے۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ آمنہ بھی اس خاندان سے تھیں۔ اسی لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے ماموں کہلاتے تھے۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بار فرمایا:
”یہ میرے ماموں ہیں، ہے کوئی جس کے ایسے ماموں ہوں۔“
★_حضر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے اور ان کی والدہ کو ان کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ بات انھیں بہت ناگوار گزری۔ ادھر یہ اپنی والدہ کے بہت فرماںبردار تھے۔ والدہ نے ان سے کہا:
”کیا تم یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے بڑوں کی خاطر داری اور ماں باپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔“
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
”ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔“
یہ جواب سن کر والدہ نے کہا:
”بس تو خدا کی قسم میں اسوقت تک کھانا نہیں کھاؤں گی جب تک محمد کے لائے ہوئے پیغام کو کفر نہیں کہوگے اور اساف اور نائلہ بتوں کو جا کر چھوؤگے نہیں۔“
★_اس وقت کے مشرکوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان بتوں کے کھلے منہ میں کھانا اور شراب ڈالا کرتے تھے۔
اب والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ سے کہا:
”خدا کی قسم ماں! تمھیں نہیں معلوم، اگر تمھارے پاس ایک ہزار زندگیاں ہوتیں اور وہ سب ایک ایک کرکے اس وجہ سے ختم ہوتیں، تب بھی میں نبی کریم ﷺ کے دین کو ہرگز نہ چھوڑتا۔ اس لیے اب یہ تمھاری مرضی ہے کھاؤ یا نہ کھاؤ۔“
★_جب ماں نے ان کی یہ مضبوطی دیکھی تو کھانا شروع کردیا، تا ہم اس نے اب ایک اور کام کیا ، دروازے پر آگئی اور چیخ چخ کر کہنے لگی:
”کیا مجھے ایسے مددگار نہیں مل سکتے جو سعد کے معاملے میں میری مدد کریں تاکہ میں اسے گھر میں قید کردوں اور قید کی حالت میں یہ مرجائے یا اپنے نئے دین کو چھوڑدے۔“
_حضرت سعد فرماتے ہیں، میں نے یہ الفاظ سنے تو ماں سے کہا:-”میں تمھارے گھر کا رخ بھی نہیں کروں گا۔“
★_اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ کچھ دن تک گھر نہ گئے۔ والدہ تنگ آگئی اور اس نے پیغام بھیجا:-”تم گھر آجاؤ، دوسروں کے مہمان بن کر ہمیں شرمندہ نہ کرو۔“
چناںچہ یہ گھر چلے آئے۔ اب گھر والوں نے پیار ومحبت سے سجھانا شروع کیا۔ وہ ان کے بھائی عامر کی مثال دے کر کہتی:-”دیکھو عامر کتنا اچھا ہے، اس نے اپنے باپ دادا کا دین نہیں چھوڑا۔“
لیکن پھر ان کے بھائی عامر بھی مسلمان ہوگئے۔ اب تو والدہ کے غیظ وغضب کی انتہا نہ رہی۔
★_ ماں نے دنوں بھائیوں کو بہت تکالیف پہنچائیں۔ آخر عامر رضی اللہ عنہ تنگ آکر حبشہ کو ہجرت کر گئے۔ عامر رضی اللہ عنہ کے حبشہ ہجرت کر جانے سے پہلے ایک روز حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ گھر آئے تو دیکھا ماں اور عامر رضی اللہ عنہ کے چاروں طرف بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں نے پوچھا:_”لوگ کیوں جمع ہیں؟“
لوگوں نے بتایا:
”یہ دیکھو تمہاری ماں نے تمہارے بھائی کو پکڑ رکھا ہے اور اللہ سے عہد کر رہی ہے کہ جب تک عامر بےدینی نہیں چھوڑے گا ، اس وقت تک یہ نہ تو کھجور کے سائے میں بیٹھے گی اور نہ کھانا کھائے گی اور نہ پانی پئے گی۔“
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا:
”اللہ کی قسم ماں!تم اس وقت تک کھجور کے ساۓ میں نہ بیٹھو اور اوراس وقت تک کچھ نہ کھاٶ پیو، جب تک کہ تم جہنم کا ایندھن نہ بن جاٶ۔“
★_غرض انہوں نے ماں کی کوئی پروا نہ کی اور دین پر ڈٹے رہے۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے حضرت طلحہ تیمی رضی اللہ عنہ بھی اسلام لے آئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لاۓ اور یہ آپ کے ہاتھ پرمسلمان ہوۓ۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے کا کھل کر اعلان کر دیا۔ ان کا اعلان سن کر نوفل ابن عدویہ نے انہیں پکڑ لیا۔ اس شخص کو قریش کا شیر کہا جاتا تھا۔ اس نے دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھ دیا۔ اس کی اس حرکت پر ان کے قبیلے بنوتمیم نے بھی انہیں نہ بچایا۔ اب چونکہ نوفل نے دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھا تھا اور دونوں کے جسم آپس میں بالکل ملے ہوۓ تھے ، اس لئے انہیں قرینین کہا جانے لگا، یعنی ملے ہوۓ۔
"_ نوفل بن عدویہ کے ظلم کی وجہ سےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:_”اے اللہ! ابن عدویہ کے شر سے ہمیں بچا۔“
★_حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے اسلام قبول کر لینے کا سبب اس طرح بیان کرتے ہیں:
”میں ایک مرتبہ بصریٰ کے بازار میں گیا، میں نے وہاں ایک راہب کو دیکھا، وہ اپنی خانقاہ میں کھڑا تھا اور لوگوں سے کہ رہا تھا:
”اس مرتبہ حج سے آنے والوں سے پوچھو، کیاان میں کوئی حرم کا باشندہ بھی ہے؟“
میں نے آگے بڑھ کر کہا:
”میں ہوں حرم کا رہنے والا۔“
میرا جملہ سن کر اس نے کہا:
”کیا احمد کا ظہور ہوگیا ہے؟“
میں نے پوچھا:
”احمد کون؟“
تب اس راہب نے کہا:
”احمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ۔۔۔ یہ اس کا مہینہ ہے، وہ وہ اس مہینے میں ظاہر ہو گا، وہ آخری نبی ہے۔ اس کےظاہر ہونے کی جگہ حرم ہے اور اس کی ہجرت کی جگہ وہ علاقہ ہے، جہاں باغات ہیں، سبزہ زار ہیں، اس لیے تم پر ضروری ہے کہ تم اس نبی کی طرف بڑھنے میں پہل کرو -"
اس راہب کی کہی ہوئی بات میرے دل میں نقش ہوگئی - میں تیزی کے ساتھ وہاں سے واپس روانہ ہوا اور مکہ پہنچا -
★_یہاں پہنچ کر میں نے لوگوں سے پوچھا:
"کیا کوئی نیا واقعہ بھی پیش آیا ہے؟"
لوگوں نے بتایا:
ہاں! محمد بن عبداللہ امین نے لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینا شروع کی ہے ابوبکر نے ان کی پیروی قبول کرلی ہے -"
میں یہ سنتے ہی گھر سے نکلا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا - میں نے انہیں راہب کی ساری بات سنادی - ساری بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ کو یہ پورا واقعہ سنایا - آپ سن کر بہت خوش ہوئے - اسی وقت میں بھی مسلمان ہوگیا -"
یہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں - یعنی جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی، ان میں سے ایک ہیں -
★_اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کلمہ پڑھا، ان میں سے پانچ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں - وہ یہ ہیں، حضرت زبیر، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم - بعض نے ان میں چھٹے صحابی کا بھی اضافہ کیا ہے - وہ ہیں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ -
★_ان حضرات میں حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کپڑے کے تاجر تھے - حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جانور ذبح کرتے تھے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر بنانے کا کام کرتے تھے -
★_ان کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایمان لائے، وہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
"میں ایک دن عقبہ بن ابی معیط کے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آگئے - ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے - آپ نے پوچھا:
" کیا تمھارے پاس دودھ ہے؟"
میں نے کہا:
"جی ہاں! لیکن میں تو امین ہوں -" (یعنی یہ دودھ تو امانت ہے) -
آپ نے فرمایا:
"کیا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس نے ابھی کوئی بچہ نہ دیا ہو؟"
میں نے کہا:
"جی ہاں، ایک ایسی بکری ہے -"
میں اس بکری کو آپ کے قریب لے آیا - اس کے ابھی تھن پوری طرح نہیں نکلے تھے - آپ نے اس کی تھنوں کی جگہ پر ہاتھ پھیرا - اسی وقت اس بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے -"
★_یہ واقعہ دوسری روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس بکری کے تھن سوکھ چکے تھے - آپ نے ان پر ہاتھ پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے -
★_حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے - وہ آپ کو ایک صاف پتھر تک لے آئے - وہاں بیٹھ کر اپ ﷺنے بکری کا دودھ دوہا - آپ نے وہ دودھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پلایا - پھر مجھے پلایا اور آخر میں آپ نے خود پیا - پھر آپ نے بکری کے تھن سے فرمایا:
"سمٹ جا -"
چنانچہ تھن فوراً ہی پھر ویسے ہوگئے جیسے پہلے تھے -
★_حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معجزہ دیکھا تو آپ سے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! مجھے اس کی حقیقت بتائیے -"
آپ نے یہ سن کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
"اللہ تم پر رحم فرمائے، تم تو جان کار ہو -"
★_یہ عبداللہ بن مسعود باپ کی بجائے، ماں کی طرف سے زیادہ مشہور تھے - ان کی ماں کا نام ام عبد تھا - ان کا قد بہت چھوٹا تھا - نہایت دبلے پتلے تھے - ایک مرتبہ صحابہ ان پر ہنسنے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
"عبداللہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے ترازو میں سب سے بھاری ہیں -"
"انہی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:
"اپنی امت کے لیے میں بھی اسی چیز پر راضی ہوگیا جس پر ابن ام عبد یعنی عبداللہ ابن مسعود راضی ہوگئے - اور جس چیز کو عبداللہ بن مسعود نے امت کے لیے ناگوار سمجھا، میں نے بھی اس کو ناگوار سمجھا -"
★_ آپ ان کی بہت عزت کرتے تھے - انہیں اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے، ان سے کسی کو چھپایا نہیں کرتے تھے، اسی لیے یہ آپ کے گھر میں آتے جاتے تھے - یہ نبی کریم کے آگے آگے یا ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے - آپ جب غسل فرماتے تو یہی پردے کے لیے چادر تان کر کھڑے ہوتے تھے - آپ جب سو جاتے تو یہی آپ کو وقت پر جگایا کرتے تھے - اسی طرح جب آپ کہیں جانے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کو جوتے پہناتے تھے - پھر جب آپ کہیں پہنچ کر بیٹھ جاتے تو یہ آپ کے جوتے اٹھاکر اپنے ہاتھ میں لے لیا کرتے تھے - ان کی انہی باتوں کی وجہ سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مشہور تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے والوں میں سے ہیں - انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔
★_حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
"دنیا تمام کی تمام غموں کی پونجی ہے، اس میں اگر کوئی خوشی ہے تو وہ صرف وقتی فائدے کے طور پر ہے۔"
★: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"آنحضرت ﷺ پر وحی آنے سے بھی تین سال پہلے سے میں اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھا کرتا تھا اور جس طرف اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتے،میں اسی طرف چل پڑتا تھا ـ اسی زمانہ میں ہمیں معلوم ہوا کہ مکہ معظمہ میں ایک شخص ظاہر ہوا ہے،اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے ـ یہ سن کر میں نے اپنے بھائی انیس سے کہا :
" تم اس شخص کے پاس جاؤ ،اس سے بات چیت کرو اور آکر مجھے اس بات چیت کے بارے میں بتاؤ "ـ
★_چنانچہ انیس نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی،جب وہ واپس آئے تو میں نے ان سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھاـ انہوں نے بتایا :
" اللہ کی قسم ! میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آ رہا ہوں جو اچھائیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے تمھیں اسی شخص کے دین پر پایا ہے ـ اس کا دعویٰ ہے کہ اسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ـ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ نیکی اور بلند اخلاق کی تعلیم دیتا ہےـ"
میں نے پوچھا :
"لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟"
انیس نے بتایا:
"لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کاہن اور جادوگر ہے مگر اللٰہ کی قسم وہ شخص سچا ہے اور وہ لوگ جھوٹے ہیں۔"
_یہ تمام باتیں سن کر میں نے کہا:
"بس کافی ہے، میں خود جاکر ان سے ملتا ہوں۔"
انیس نے فوراًکہا:
"ضرور جاکر ملو، مگر مکہ والوں سے بچ کر رہنا۔"
★_چنانچہ میں نے اپنے موزے پہنے، لاٹھی ہاتھ میں لی اور روانہ ہوگیا، جب میں مکہ پہنچا تو میں نے لوگوں کے سامنے ایسا ظاہر کیا، جیسے میں اس شخص کو جانتا ہی نہیں اور اس کے بارے میں پوچھنا بھی پسند نہیں کرتا - میں ایک ماہ تک مسجد حرام میں ٹھہرا رہا، میرے پاس سوائے زمزم کے کھانے کو کچھ نہیں تھا - اس کے باوجود میں زمزم کی برکت سے موٹا ہوگیا - میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئیں - مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا تھا - ایک رات جب حرم میں کوئی طواف کرنے والا نہیں تھا، اللّٰہ کے رسول ایک ساتھی(ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ) کے ساتھ وہاں آئے اور بیت اللٰہ کا طواف کرنے لگے - اس کے بعد آپ نے اور آپ کے ساتھی نے نماز پڑھی - جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں آپ کے نزدیک چلا گیا اور بولا:
"السلام علیک یا رسول اللّٰہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللٰہ علیہ وسلم اللّٰہ کے رسول ہیں -"
★_میں نے محسوس کیا، حضورنبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوگئے - پھر آپ نے مجھ سے پوچھا:
"تم کون ہو -"
میں نے جواب میں کہا:
’’جی میں غفار قبیلے کا ہوں‘‘
آپ نے پوچھا:
’’یہاں کب سے آئے ہوئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا:
تیس دن اور تیس راتوں سے یہاں ہوں‘‘۔
آپ نے پوچھا:
تمہیں کھانا کون کھلاتا ہے؟‘‘
میں نے عرض کی:
میرے پاس سوائے زمزم کے کوئی کھانا نہیں ،اس کو پی پی کر میں موٹا ہو گیا ہوں، یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں تک ختم ہو گئی ہیں اور مجھے بھوک کا بالکل احساس نہیں ہوتا‘‘۔
آپ نے فرمایا‘
مبارک ہو ،یہ زمزم بہترین کھانا اور ہر بیماری کی دوا ہے‘‘۔
★_زمزم کے بارے میں احادیث میں آتا ہے، اگر تم آب زمزم کو اس نیت سے پیو کہ اللہ تعالی تمہیں اس کے ذریعے بیماریوں سے شفا عطا فرمائے تواللہ تعالی شفا عطا فرماتا ہے اوراگر اس نیت سے پیا جائے کہ اس کے ذریعے پیٹ بھر جائے اور بھوک نہ رہے تو آدمی شکم سیر ہو جاتا ہے اور اگر اس نیت سے پیا جائے کہ پیاس کا اثر باقی نہ رہے تو پیاس ختم ہو جاتی ہے۔اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کو سیراب کیا تھا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جی بھر کر زمزم کا پانی پینا اپنے آپ کو نفاق سے دور کرنا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور منافقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ لوگ زمزم سے سیرابی حاصل نہیں کرتے۔
★_ہاں تو بات ہو رہی تھی حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی ۔۔۔کہا جاتا ہے ،ابوذر غفاری اسلام میں پیلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ کو اسلامی سلام کے الفاظ کے مطابق سلام کیا ۔ ان سے پہلے کسی نے آپﷺ کو ان الفاظ میں سلام نہیں کیا تھا۔
اب ابو ذرؓ نے آپﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ اللہ تعالی کے معاملے میں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں گھبرائیں گے اور یہ کہ ہمیشہ حق اور سچی بات کہیں گے چاہے حق سننے والے کے لئے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔
★_یہ حضرت ابو ذرؓ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد ملک شام کے علاقے میں ہجرت کر گئے تھے۔پھر حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں انہیں شام سے واپس بلا لیا گیا اور پھر یہ ربذہ کے مقام پر آ کر رہنے لگے تھے۔ ربذہ کے مقام پر ہی ان کی وفات ہوئی تھی۔
★_ان کے ایمان لانے کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ جب یہ مکہ معظمہ آئے تو ان کی ملاقات حضرت علیؓ سے ہوئی تھی اور حضرت علیؓ نے ہی ان کو آپ ﷺ سے ملوایا تھا۔
★_ابو ذر ؓ کہتے ہیں :
بیعت کرنے کے بعد نبی کریمﷺ انہیں ساتھ لے گئے۔ ایک جگہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے ایک دروازہ کھولا ،ہم اندر داخل ہوئے،ابو بکر صدیقؓ نے ہمیں انگور پیش کیے۔ اس طرح یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں آنے کے بعد کھایا۔‘‘
اس کے بعد نبیﷺ نے ان سے فرمایا:
اے ابو ذرؓ اس معاملے کو ابھی چھپائے رکھنا، اب تو تم اپنی قوم میں واپس جاؤ اور انہیں بتاؤ تاکہ وہ لوگ میرے پاس آ سکیں، پھر جب تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے خود اپنے معاملہ کا کھلم کھلا اعلان کر دیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آ جانا۔‘‘
★_آپﷺ کی بات سن کر حضرت ابو ذر غفاریؓ بولے:
’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی دے کر بھیجا، میں ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر پکار پکار کر اعلان کروں گا‘‘۔
حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں ’’میں ایمان لانے والے دیہاتی لوگوں میں سے پانچواں آدمی تھا‘‘۔غرض جس وقت قریش کے لوگ حرم میں جمع ہوئے، انہوں نے بلند آواز میں چلا کر کہا:
میں گواہی دیتا ہوں سوالے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالی کے رسول ہیں ‘‘۔
★_بلند آواز میں یہ اعلان سن کر قریشیوں نے کہا:
اس بددین کو پکڑ لو‘‘۔
انہوں نے حضرت ابو ذرؓ کے پکڑ لیا اور بے انتہا مارا۔ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں ،وہ لوگ ان پر چڑھ دوڑے۔ پوری قوت سے انہیں مارے لگے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس وقت حضرت عباس ؓ درمیان میں آگئے۔ وہ ان پر جھک گئے اور قریشیوں سے کہا:
تمہارا برا ہو ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے ان کا علاقہ تمہاری تجارت کا راستہ ہے۔‘‘
★_ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ قبیلہ غفار کے لوگ تمہارا راستہ بند کر دیں گے اس پر ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا۔
ابو ذر ؓ فرماتے ہیں اس کے بعد میں زم زمکے کنویں کے پاس آیا اپنے بدن سے خون دھویا اگلے دن میں نے پھر اعلان کیا:
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
★_انہوں نے پھر مجھے مارا ۔ اس روز بھی حضرت عباس ؓ ہی نے مجھے ان سے چھڑایا۔ پھر میں وہاں سے واپس ہوا اور اپنے بھائی انیس کے پاس آیا۔
[16/10, 12:00 pm] ★☝🏻★: ★__انیس نے مجھ سے کہا
تم کیا کر آئے ہو
میں نے جواب دیا
مسلمان ہو گیا ہوں، اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کر دی ہے.
اس پر انیس نے کہا
میں بھی بتوں سے بیزار ہوں اور اسلام قبول کر چکا ہوں
اس کے بعد ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے تو وہ بولیں
مجھے پچھلے دین سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں بھی اسلام قبول کر چکی ہوں، اللہ کے رسول کی تصدیق کر چکی ہوں.

,★_اس کے بعد ہم اپنی قوم غفار کے پاس آئے. ان سے بات کی، ان میں سے آدھے تو اسی وقت مسلمان ہو گئے. باقی لوگوں نے کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے ہم اس وقت مسلمان ہوں گے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ غفار کے باقی لوگ بھی مسلمان ہو گئے.
ان حضرات نے جو یہ کہا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائیں گے، ہم اس وقت مسلمان ہوں گے تو ان کے یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا:
"میں نخلستان یعنی کھجوروں کے باغ کی سرزمین میں جاؤں گا، جو یثرب کے سوا کوئی نہیں ہے، تو کیا تم اپنی قوم کو یہ خبر پہنچادو گے - ممکن ہے، اس طرح تمہارے ذریعے اللّٰہ تعالٰی ان لوگوں کو فائدہ پہنچادے اور تمہیں ان کی وجہ سے اجر ملے۔"

★_اس کے بعد نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ اسلم کے لوگ آئے - انہوں نے آپ سے عرض کیا:
"اے اللّٰہ کے رسول! ہم بھی اسی بات پر مسلمان ہوتے ہیں جس پر ہمارے بھائی قبیلہ غفار کے لوگ مسلمان ہوئے ہیں -"
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یہ سن کر فرمایا:
"اللّٰہ تعالٰی غفار کے لوگوں کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو اللّٰہ سلامت رکھے -"

★_یہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ ایک مرتبہ حج کے لیے مکہ گئے - طواف کے دوران کعبے کے پاس ٹھہر گئے - لوگ ان کے چاروں طرف جمع ہوگئے - اس وقت انہوں نے لوگوں سے کہا:
"بھلا بتاؤ تو! تم میں سے کوئی سفر میں جانے کا ارادہ کرتا ہے تو کیا وہ سفر کا سامان ساتھ نہیں لیتا؟"
لوگوں نے کہا:
"بے شک! ساتھ لیتا ہے -"
تب آپ نے فرمایا:
"تو پھر یاد رکھو! قیامت کا سفر دنیا کے ہر سفر سے کہیں زیادہ لمبا ہے اور جس کا تم یہاں ارادہ کرتے ہو، اسی لیے اپنے ساتھ اس سفر کا وہ سامان لے لو جو تمہیں فائدہ پہنچائے -"
لوگوں نے پوچھا:
"ہمیں کیا چیز فائدہ پہنچائے گی؟"
حضرت ابوذر غفاری بولے:
"بلند مقصد کے لیے حج کرو، قیامت کے دن کا خیال کرکے ایسے دنوں میں روزے رکھو جو سخت گرمی کے دن ہوں گے اور قبرکی وحشت اور اندھیرے کا خیال کرتے ہوئے، رات کی تاریکی میں اٹھ کر نمازیں پڑھو -"
[16/10, 12:04 pm] ★☝🏻★: ★_حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کے بعد حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ ایمان لائے - کہا جاتا ہے، دیہات کے لوگوں میں سے مسلمان ہونے والوں میں یہ تیسرے یا چوتھے آدمی تھے - ایک قول یہ ہے کہ پانچوے تھے-یہ اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے -

★_ان کے اسلام لانے کا واقعہ یوں ہے کہ انہوں نے خواب میں جہنم کو دیکھا - اس کی آگ بہت خوفناک انداز میں بھڑک رہی تھی - یہ خود جہنم کےکنارے کھڑے تھے - خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ انہیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے مگر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کا دامن پکڑ کر انہیں دوزخ میں گرنے سے روک رہے ہیں - اسی وقت گھبراہٹ کے عالم میں ان کی آنکھ کھل گئی - انہوں نے فوراًکہا:
"میں اللّٰہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خواب سچا ہے -"

★_ساتھ ہی انہیں یقین ہوگیا کہ جہنم سے انہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی بچا سکتے ہیں - فوراً ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آئے - انہیں اپنا خواب سنایا - ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا: 
"اس خواب میں تمہاری بھلائی اور خیر پوشیدہ ہے، اللّٰہ کےرسول موجود ہیں، ان کی پیروی کرو -"

★_چنانچہ حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ فوراً ہی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ سے پوچھا:
"اے محمد! آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں - "
آپ نے ارشاد فرمایا:
"میں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اللّٰہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، کوئی اس کے برابر کا نہیں اور یہ کہ محمد اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں اور تم جو یہ پتھروں کی عبادت کرتے ہو، اس کو چھوڑ دو - یہ پتھرنہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں - "
یہ سنتے ہی حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ مسلمان ہوگئے -
[16/10, 12:07 pm] ★☝🏻★: ★_ان کے والد کا نام سعید بن عاص تھا - اسے بیٹے کے اسلام قبول کرنے کا پتہ چلا تو آگ بگولہ ہوگیا - بیٹے کو کوڑے سے مارنا شروع کیا - یہاں تک کہ اتنے کوڑے مارے کہ کوڑا ٹوٹ گیا - پھر اس نے کہا:
"تو نے محمد کی پیروی کی، حالانکہ تو جانتا ہے، وہ پوری قوم کے خلاف جارہا ہے، وہ اپنی قوم کے معبودوں کو برا کہتا ہے -"
یہ سن کرحضرت خالدبن سعید رضی اللّٰہ عنہ بولے:
"اللہ کی قسم! وہ جو پیغام لے کر آئے ہیں، میں نے اس کو قبول کرلیا ہے -"
اس جواب پر وہ اورغضب ناک ہوا اور بولا:
"خداکی قسم! میں تیراکھانا پینابند کردوں گا -"
حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا:
"اگر آپ میرا کھانا پینا بند کردیں گے تو اللّٰہ تعالٰی مجھے روٹی دینے والا ہے -"

★_تنگ آکر سعید نے بیٹے کوگھر سے نکال دیا - ساتھ ہی اپنے باقی بیٹوں سے کہا:
"اگر تم میں سے کسی نے بھی اس سے بات چیت کی، میں اس کابھی یہی حشر کروں گا -"
حضرت خالد بن سعید رضی اللّٰہ عنہ گھر سے نکل کر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے - اس کے بعد وہ آپ کے ساتھ ہی رہنے لگے - باپ سے بالکل بے تعلق ہوگئے - یہاں تک کہ جب مسلمانوں نے کافروں کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کی تو یہ ہجرت کرنے والوں میں سے پہلے آدمی تھے.

★_ایک مرتبہ ان کا باپ بیمار ہوا، اس وقت اس نے قسم کھائی، اگر خدا نے مجھے اس بیماری سے صحت دے دی تو میں مکہ میں کبھی محمد کے خدا کی عبادت نہیں ہونے دوں گا.
باپ کی یہ بات حضرت خالد بن سعيد رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے کہا
اے اللہ، اسے اس مرض سے کبھی نجات نہ دینا
چنانچہ ان کا باپ اسی مرض میں مر گیا... خالد بن سعيد رضی اللہ عنہ پہلے آدمی ہیں، جنہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی.
[16/10, 12:11 pm] ★☝🏻★: ★_ان کے بعد ان کے بھائی عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے. ان کے مسلمان ہونے کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے خواب میں ایک نور دیکھا... نور زمزم کے پاس سے نکلا، اور اس سے مدینے کے باغ تک روشن ہو گئے اور اتنے روشن ہوئے کہ ان میں مدینے کی تازہ کھجوریں نظر آنے لگیں. انہوں نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا تو ان سے کہا گیا. زمزم عبد المطلب کے خاندان کا کنواں ہے اور یہ نور بھی انہی میں سے ظاہر ہوگا. پھر جب ان کے بھائی خالد رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے تو انہیں خواب کی حقیقت نظر آنے لگی. چنانچہ یہ بھی مسلمان ہو گئے.

★_ ان کے علاوہ سعید کی اولاد میں سے ریان اور حکم بھی مسلمان ہوئے. حکم کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ رکھا.

★_اسی طرح ابتدائی دنوں میں مسلمان ہونے والوں میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کا باپ ایران کے بادشاہ کسری کا گورنر تھا. ایک مرتبہ قیصر کی فوجوں نے اس کے علاقے پر حملہ کیا. اس لڑائی میں صہیب رضی اللہ عنہ گرفتار ہو گئے. انہیں غلام بنا لیا گیا. اس وقت یہ بچے تھے، چنانچہ یہ غلامی کی حالت میں ہی روم میں پلے بڑھے وہیں جوان ہوئے. پھر عرب کے کچھ لوگوں نے انہیں خرید لیا اور فروخت کرنے کے لیے مکہ کے قریب عکاظ کے بازار میں لے آئے. اس بازار میں میلہ لگتا تھا اس میلے میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی. میلے سے ایک شخص عبداللہ بن جدعان نے خرید لیا. 

★_اس طرح یہ مکہ میں غلامی کی زندگی گزار رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور ہو گیا، ان کے دل میں آئی کہ جا کر بات تو سنوں... یہ سوچ کر گھر سے نکلے، راستے میں ان کی ملاقات عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے ہوئی. انہوں نے ان سے پوچھا.
صہیب کہاں جا رہے ہو
یہ فوراً بولے.
میں محمد کے پاس جا رہا ہوں تاکہ ان کی بات سنوں اور دیکھوں.... وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں..
یہ سن کر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بولے.
میں بھی اسی ارادے سے گھر سے نکلا ہوں.
یہ سن کر صہیب رضی اللہ عنہ بولے.
تب پھر اکٹھے ہی چلتے ہیں.
اب دونوں ایک ساتھ قدم اٹھانے لگے.
 ╨─────────────────────❥
عنوان: اسلام کا پہلا مرکز*┱✿
*┱[16/10, 12:21 pm] ★☝🏻★: ★_حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے. آپ نے دونوں کو اپنے پاس بٹھایا. جب یہ بیٹھ گئے تو آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کریم کی جو آیات آپ پر اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں، وہ پڑھ کر سنائیں. ان دونوں نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا. اسی روز شام تک یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہے. شام کو دونوں چپکے سے چلے آئے، 

★_حضرت عمار رضی اللہ عنہ سیدھے اپنے گھر پہنچے تو ان کے ماں باپ نے ان سے پوچھا کہ دن بھر کہاں تھے. انہوں نے فوراً ہی بتا دیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں. ساتھ ہی انہوں نے ان کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اور اس دن انہوں نے قرآن پاک کا جو حصہ یاد کیا تھا وہ ان کے سامنے تلاوت کیا. ان دنوں کو یہ کلام بے حد پسند آیا. دونوں فورا ہی بیٹے کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے. اسی بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو الطیب المطیب کہا کرتے تھے یعنی پاک باز اور پاک کرنے والے.

★_اسی طرح حضرت عمران رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو کچھ عرصے بعد ان کے والد حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہو گئے. ان کے اسلام لانے کی تفصیل یوں ہے.
ایک مرتبہ قریش کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لئے آئے. ان میں حضرت حصین رضی اللہ عنہ بھی تھے. قریش کے لوگ تو باہر رہ گئے. حصین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا.
ان بزرگ کو جگہ دو.
جب وہ بیٹھ گئے تب حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے کہا.
یہ آپ کے بارے میں ہمیں کیسی باتیں معلوم ہو رہی ہیں، آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا. -اے حصین آپ کتنے معبودوں کو پوجتے ہیں؟ 
حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا. 
ہم سات معبودوں کی عبادت کرتے ہیں. ان میں سے چھ تو زمین میں ہیں، ایک آسمان پر 
اس پر آپ نے فرمایا.
اور اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو پھر آپ کس سے مدد مانگتے ہیں

★_حضرت حصین رضی اللہ عنہ بولے.
اس صورت میں ہم اس سے دعا مانگتے ہیں جو آسمان میں ہے.
یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا.
وہ تو تنہا تمہاری دعائیں سن کر پوری کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہو. اے حصین کیا تم اپنے اس شرک سے خوش ہو. اسلام قبول کرو، اللہ تعالٰی تمہیں سلامتی دے گا.
حضرت حصین رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی مسلمان ہو گئے. اسی وقت ان کے بیٹے حضرت عمران رضی اللہ عنہ اٹھ کر باپ کی طرف بڑھے اور ان سے لپٹ گئے.

★_اس کے بعد حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا.
انہیں ان کے گھر تک پہنچا کر آئیں.
حضرت حصین رضی اللہ عنہ جب دروازے سے باہر نکلے تو وہاں قریش کے لوگ موجود تھے. انہیں دیکھتے ہی بولے.
لو یہ بھی بے دین ہو گیا.
اس کے بعد وہ سب لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور صحابہ کرام نے حضرت حصین رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر تک پہنچایا.
[16/10, 12:25 pm] ★☝🏻★: ★_اسی طرح تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے. اس دوران جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا. وہ مکہ کی گھاٹیوں میں چھپ کر نمازیں ادا کرتا تھا. 

†_پھر ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کچھ دوسرے صحابہ کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں تھے کہ اچانک وہاں قریش کی ایک جماعت پہنچ گئی. اس وقت صحابہ نماز پڑھ رہے تھے. مشرکوں کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا، وہ ان پر چڑھ دوڑے، ساتھ میں برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایسے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا اور اس کو ایک ضرب لگائی. اس سے اس کی کھال پھٹ گئی، خون بہہ نکلا. یہ پہلا خون ہے جو اسلام کے نام پر بہایا گیا.

★_اب قریشی دشمنی پر اتر آئے. اس بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لے آئے تاکہ دشمنوں سے بچاؤ رہے. اس طرح حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا یہ مکان اسلام کا پہلا مرکز بنا. اس مکان کو دار ارقم کہا جاتا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دار ارقم میں تشریف لانے سے پہلے لوگوں کی ایک جماعت مسلمان ہو چکی تھی. اب نماز دار ارقم میں ادا ہونے لگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہیں پر نماز پڑھاتے، وہیں بیٹھ کر عبادت کرتے اور مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیتے. اس طرح تین سال گزر گئے. پھر اللہ تعالٰی نے آپ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم فرمایا.

★_ اعلانیہ تبلیغ کی ابتدا بھی دار ارقم سے ہوئی، پہلے آپ یہاں خفیہ طور پر دعوت دیتے رہے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے سورہ الشعراء میں آپ کو حکم فرمایا.
اور آپ اپنے نزدیک کے اہل خاندان کو ڈرائیے.
یہ حکم ملتے ہی آپ کافی پریشان ہوئے. یہاں تک کہ آپ کی پھوپھیوں نے خیال کیا کہ آپ کچھ بیمار ہیں چنانچہ وہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آپ کے پاس آئیں. تب آپ نے ان سے فرمایا.
میں بیمار نہیں ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے ڈراؤں. اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمام بنی عبد المطلب کو جمع کروں اور انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دوں.
یہ سن کر آپ کی پھوپھیوں نے کہا.
ضرور جمع کریں مگر ابو لہب کو نہ بلائیے گا کیونکہ وہ ہرگز آپ کی بات نہیں مانے گا.
[16/10, 12:29 pm] ★☝🏻★: ★_ابو لہب کا دوسرا نام عبد العزی تھا. یہ آپ کا چچا تھا اور بہت خوبصورت تھا مگر بہت سنگدل اور مغرور تھا.
دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی عبد المطلب کے پاس دعوت بھیجی. اس پر وہ سب آپ کے ہاں جمع ہو گئے. ان میں ابو لہب بھی تھا. اس نے کہا.
یہ تمہارے چچا اور ان کی اولادیں جمع ہیں تم جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو ، اور اپنی بے دینی کو چھوڑ دو، ساتھ ہی تم یہ بھی سمجھ لو کہ تمہاری قوم میں یعنی ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری خاطر سارے عربوں سے دشمنی لے سکیں، لہذا اگر تم اپنے معاملے پر اڑے رہے تو خود تمہارے خاندان والوں ہی کا سب سے زیادہ فرض ہو گا کہ تمہیں پکڑ کر قید کر دیں، کیونکہ قریش کے تمام خاندان اور قبیلے تم پر چڑھ دوڑیں، اس سے تو یہی بہتر ہو گا کہ ہم ہی تمہیں قید کر دیں. 
_اور میرے بھتیجے حقیقت یہ ہے کہ تم نے جو چیز اپنے رشتے داروں کے سامنے پیش کی ہے اس سے بد تر چیز کسی اور شخص نے آج تک پیش نہیں کی ہوگی.

★_ آپ نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی اور حاضرین کو اللہ کا پیغام سنایا. آپ نے فرمایا.
اے قریش. کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.
آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا.
اے قریش، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.

★_وہاں صرف آپ کے رشتے دار ہی جمع نہیں تھے بلکہ قریش کے دوسرے قبیلے بھی موجود تھے، اس لیے آپ نے ان کے قبیلوں کے نام لے لے کر انہیں مخاطب فرمایا یعنی آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے.
اے بنی ہاشم، اپنی جانوں کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ.... اے بنی عبد شمس، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاو، اے بنی عبد مناف، اے بنی زہرہ، اے کعب بن لوی، اے بنی مرو بن کعب، اپنی جانوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے صفیہ، محمد کی پھوپھی، اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.

★_ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ الفاظ بھی فرمائے.
نہ میں دنیا میں تمہیں فائدہ پہنچا سکتا ہوں نہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں. سوائے اس صورت کے کہ تم کہو لا الہ الا اللہ. چونکہ تمہاری مجھ سے رشتہ داری ہے اس لیے اس کے بھروسے پر کفر اور شرک کے اندھیروں میں گم نہ رہنا.
اس پر ابو لہب آگ بگولہ ہو گیا. اس نے تلملا کر کہا.
تو ہلاک ہو جائے. کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا.
پھر سب لوگ چلے گئے
[22/10, 9:28 am] ★☝🏻★: ★_اس کے بعد کچھ دن تک آپ ﷺخاموش رہے۔ پھر آپﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے آپ کو اللہ کی جانب سے اللہ تعالٰی کے پیغام کو ہر طرف پھیلا دینے کا حکم سنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ لوگوں کو جمع فرمایا۔ان کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں خاص طور پر تمہاری طرف اور عام طور پر سارے انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اللہ کی قسم! تم جس طرح جاگتے ہو، اسی طرح ایک دن حساب کتاب کے لئے دوبارہ جگائے جاؤ گے۔ پھر تم جو کچھ کررہے ہو، اس کا حساب تم سے لیا جائے گا۔ اچھائیوں اور نیک اعمال کے بدلے میں تمہیں اچھا بدلہ ملے گا اور برائی کا بدلہ برا ملے گا، وہاں بلاشبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہے۔اللہ کی قسم! اے بنی عبد المطلب! میرے علم میں ایسا کوئی نوجوان نہیں جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر اور اعلی کوئی چیز لے کر آیا ہو۔ میں تمہارے واسطے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ "

★_آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے کو سن کر ابو لہب نے سخت ترین انداز میں کہا:
"اے بنی عبد المطلب! اللہ کی قسم! یہ ایک فتنہ ہے اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا اس پر ہاتھ ڈالے، بہتر یہ ہے کہ تم ہی اس پر قابو پالو، یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر تم اس کی بات سن کر مسلمان ہوجاتے ہو، تو یہ تمہارے لئے ذلت و رسوائی کے بات ہوگی - اگر تم اسے دوسرے دشمنوں سے بچانے کی کرو گے تو تم خود قتل ہوجاؤگے -"
اس کے جواب میں اس کی بہن یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
"بھائی! کیا اپنے بھتیجے کو اس طرح رسوا کرنا تمہارے لیے مناسب ہے اور پھر اللہ کے قسم! بڑے بڑے عالم یہ خبر دیتے آرہے ہیں کہ عبدالمطلب کے خاندان میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں، لہٰذا میں تو کہتی ہوں، یہی وہ نبی ہیں -" 
ابولہب کو یہ سن کر غصہ آیا، وہ بولا:
"اللہ کی قسم یہ بالکل بکواس اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں کی باتیں ہیں - جب قریش کے خاندان ہم پر چڑھائی کرنے آئیں گے اور سارے عرب ان کا ساتھ دیں گے تو ان کے مقابلے میں ہماری کیا چلے گی - خدا کی قسم ان کے لیے ہم ایک تر نوالے کی حیثیت ہوں گے -"
اس پر ابوطالب بول اٹھے:
"اللہ کی قسم! جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم ان کے حفاظت کریں گے -" 

★_اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور تمام قریش کو اسلام کی دعوت دی - ان سب سے فرمایا:
"اے قریش! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے جھوٹا خیال کرو گے -" 
سب نے ایک زبان ہوکر کہا:
"نہیں! اس لیے کہ ہم نے آپ کو آج تک جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا -" 
اب آپ نے فرمایا:
"اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا، میں تمہیں اس زبردست عذاب سے صاف ڈرا رہا ہوں جو تمہارے سامنے ہے، میں تم لوگوں کو دو کلمے کہنے کی دعوت دیتا ہوں، جو زبان سے کہنے میں بہت ہلکے ہیں، لیکن ترازو میں بے حد وزن والے ہیں، ایک اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اب تم میں سے کون ہے جو میری اس بات کو قبول کرتا ہے -"

★_آپ کے خاموش ہونے پر ان میں سے کوئی نہ بولا تو آپ نے اپنی بات پھر دہرائی، پھر آپ نے تیسری بار اپنی بات دہرائی مگر اس بار بھی سب خاموش کھڑے رہے - اتنا ہوا کہ سب نے آپ کی بات خاموشی سے سن لی اور واپس چلے گئے -
 ★☝🏻★: ★_ایک دن قریش کے لوگ مسجد حرام میں جمع تھے، بتوں کو سجدے کررہے تھے، آپ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا:
"اے گروہ قریش! اللہ کی قسم! تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے راستے سے ہٹ گئے ہو -" 
آپ کی بات کے جواب میں قریش بولے:
"ہم اللہ تعالٰی کی محبت ہی میں بتوں کو پوجتے ہیں تاکہ اس طرح ہم اللہ تعالٰی کے قریب ہوسکیں -" 
(افسوس! آج کل ان گنت لوگ بھی قبروں کو سجدہ بالکل اسی خیال سے کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں) 
اس موقع پر اللہ تعالٰی نے ان کی بات کے جواب میں وحی نازل فرمائی:
ترجمہ: آپ فرمادیجیے! اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالٰی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے - (سورۃ آل عمران:آیت 31)

★_قریش کو یہ بات بہت ناگوار گزری - انہوں نے ابوطالب سے شکایت کی:
"ابوطالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا کہا ہے، ہمارے دین میں عیب نکالے ہیں، ہمیں بےعقل ٹھہرایا ہے، اس نے ہمارے باپ دادا تک کو گمراہ کہا ہے، اس لیے یا تو ہماری طرف سے آپ نپٹیے یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جایئے، کیونکہ خود آپ بھی اسی دین پر چلتے ہیں جو ہمارا ہے اور اس کے دین کے آپ بھی خلاف ہیں -"
ابو طالب نے انہیں نرم الفاظ میں یہ جواب دے کر واپس بھیج دیا کہ 
اچھا میں انہیں سمجھاؤں گا - 

★_ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا - حضرت جبرئیل نہایت حسین شکل و صورت میں بہترین خوشبو لگائے ظاہر ہوئے اور بولے:
"اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ آپ تمام جنوں اور انسانوں کی طرف سے اللہ تعالی کے رسول ہیں، اس لیے انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف بلایئے -" 
یہ حکم ملتے ہی آپ نے قریش کو براہ راست تبلیغ شروع کردی اور حالت اس وقت یہ تھی کہ کافروں کے پاس پوری طاقت تھی اور وہ آپ کی پیروی کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، کفر اور شرک ان کے دلوں میں بسا ہوا تھا - بتوں کی محبت ان کے اندر سرایت کرچکی تھی - ان کے دل اس شرک اور گمراہی کے سوا کوئی چیز بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے - شرک کی یہ بیماری لوگوں میں پوری طرح سماچکی تھی -

★_آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا یہ سلسلہ جب بہت بڑھ گیا تو قریش کے درمیان ہر وقت آپ ہی کا ذکر ہونے لگا - وہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آپ سے دشمنی پر اتر آئے - آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے - یہاں تک سوچنے لگے کہ آپ کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے، لیکن یہ لوگ پہلے ایک بار پھر ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے بولے:
"ابوطالب! ہمارے درمیان آپ بڑے قابل، عزت دار اور بلند مرتبہ آدمی ہیں، ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے، مگر آپ نے کچھ نہیں کیا، ہم لوگ یہ بات برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے معبودوں کو اور باپ داداؤں کو برا کہا جائے - ہمیں بےعقل کہا جائے - آپ انہیں سمجھا لیں ورنہ ہم آپ سے اور ان سے اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ختم نہ ہوجائے -
 ╨─────────────────────❥
*┱✿_ 
عنوان: کڑی آزمائش 

★_ قریش تو یہ کہہ کر چلے گئے، ابوطالب پریشان ہوگئے - وہ اپنی قوم کے غصے سے اچھی طرح واقف تھے - دوسری طرف وہ اس بات کو پسند نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی بھی شخص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا کرنے کی کوشش کرے، اس لیے انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: 
"بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے یہ، یہ کہا ہے، اس لیے اپنے اوپر اور مجھ پر رحم کرو اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈالو جس کو میں اٹھا نہ سکوں -" 

★_ ابوطالب کی اس گفتگو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ اب چچا ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، وہ بھی اب آپ کی مدد نہیں کرنا چاہتے، آپ کی حفاظت سے ہاتھ اٹھارہے ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا: 
"چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور یہ کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں، تو بھی میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خود اللہ تعالٰی اس کو ظاہر فرمادیں -" 
یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھرا گئی - آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے - پھر آپ اٹھ کر جانے لگے، لیکن اسی وقت ابوطالب نے آپ کو پکارا:
"بھتیجے! ادھر آؤ -" 
آپ ان کی طرف مڑے تو انہوں نے کہا:
"جاؤ بھتیجے! جو دل چاہے کہو، اللہ کی قسم میں تمہیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا -" 

★_جب قریش کو اندازہ ہوگیا کہ ابوطالب آپ کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں تو وہ عمارہ بن ولید کو ساتھ لےکر ابوطالب کے پاس آئے اور بولے:
"ابوطالب! یہ عمارہ بن ولید ہے - قریش کا سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور سب سے زیادہ حسین نوجوان ہے - تم اسے لےکر اپنا بیٹا بنالو اور اس کے بدلے میں اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردو، اس لیے کہ وہ تمہارے اور تمہارے باپ دادا کے دین کے خلاف جارہا ہے، اس نے تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان کی عقلیں خراب کردی ہیں - تم اسے ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے قتل کردیں... انسان کے بدلے میں ہم تمہیں انسان دے رہے ہیں -"
قریش کی یہ بےہودہ تجویز سن کر ابوطالب نے کہا:
"اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا - کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اونٹنی اپنے بچے کو چھوڑ کر کسی دوسرے بچے کی آرزومند ہوسکتی ہے -" 
ان کا جواب سن کر مطعم بن عدی نے کہا:
"ابوطالب! تمہاری قوم نے تمہارے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے اور جو بات تمہیں ناپسند ہے اس سے چھٹکارے کے لیے کوشش کی ہے - اب میں نہیں سمجھتا کہ اس کے بعد تم ان کی کوئی اور پیش کش قبول کرو گے -" 

★_جواب میں ابوطالب بولے:
"اللہ کے قسم! انہوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا - بلکہ تم سب نے مل کر مجھے رسوا کرنے اور میرے خلاف گٹھ جوڑ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، اس لیے اب جو تمھارے دل میں آئے کرلو -"
بعد میں یہ شخص یعنی عمارہ بن ولید حبشہ میں کفر کی حالت میں مرا۔ اس پر جادو کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ وحشت زدہ ہوکر جنگلوں اور گھاٹیوں میں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ اسی طرح دوسرا شخص مطعم بن عدی بھی کفر کی حالت میں مرا۔
 ★_غرض جب ابو طالب نے قریش کی یہ پیش کش بھی ٹھکرادی تو معاملہ حد درجے سنگین ہوگیا۔ دوسری طرف ابو طالب نے قریش کے خطرناک ارادوں کو بھانپ لیا، انہوں نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو بلایا، ان سے درخواست کی کہ سب مل کر آپ کی حفاظت کریں، آپ کا بچاؤ کریں۔ ان کی بات سن کر سوائے ابو لہب کے سب تیار ہوگئے۔ ابو لہب نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ بدبخت سختی کرنے اور آپ کے خلاف آواز اٹھانے سے باز نہ آیا۔ اسی طرح جو لوگ آپ پر ایمان لےآئے تھے ان کی مخالفت میں بھی ابو لہب ہی سب سے پیش پیش تھا۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف پہنچانے میں بھی یہ قریش سے بڑھ چڑھ کر تھا۔

★_ آپ کو تکالیف پہنچانے کے سلسلے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، ایک روز میں مسجد حرام میں تھا کہ ابو جہل وہاں آیا اور بولا: 
"میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اگر میں محمد کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ لوں، تو میں ان کی گردن ماردوں۔"
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ سن کر میں فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور آپ کو بتایا کہ ابو جہل کیا کہہ رہا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصے کی حالت میں باہر نکلے اور تیز تیز چلتے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے، یہاں تک کہ گزرتے وقت آپ کو دیوار کی رگڑ لگ گئی۔ اس وقت آپ سورة العلق کی آیت 1،2 پڑھ رہے تھے:
"ترجمہ: اے پیغمبر! آپ اپنے رب کا نام لے کر (قرآن) پڑھا کیجئے! وہ جس نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ جس نے انہیں خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔"

★_تلاوت کرتے ہوئے آپ اس سورت کی آیت 6 تک پہنچ گئے:
"ترجمہ: سچ مچ بے شک کافر آدمی حد سے نکل جاتا ہے۔"
یہاں تک کہ آپ نے سورة کا آخری حصہ پڑھا جہاں سجدے کی آیت ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ سجدے میں گرگئے۔ اسی وقت کسی نے ابو جہل سے کہا:
"ابو الحکم! یہ محمد سجدے میں پڑے ہیں۔"
یہ سنتے ہی ابو جہل فوراً آپ کی طرف بڑھا، آپ کے نزدیک پہنچا، لیکن پھر اچانک وآپس آگیا۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا:
"ابو الحکم! کیا ہوا؟"

★_جواب میں اس نے اور زیادہ حیران ہوکر کہا:
"جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں وہ نظر نہیں آرہا؟"
اس کی بات سن کر لوگ اور زیادہ حیران ہوئے اور بولے:
"تمہیں کیا نظر آرہا ہے ابو الحکم؟"
اس پر ابو جہل نے کہا:
"مجھے اپنے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق نظر آرہی ہے۔"
 ★_اسی طرح ایک دن ابو جہل نے کہا:
"اے گروہ قریش! جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، محمد تمہارے دین میں عیب ڈال رہا ہے، تمہارے معبودوں کو برا کہہ رہا ہے، تمہاری عقلوں کو خراب بتا رہا ہے اور تمہارے باپ داداؤں کو گالیاں دے رہا ہے، اس لئے میں خدا کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ کل میں محمد کے لئے اتنا بڑا پتھر لے کر بیٹھوں گا جس کا بوجھ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، جونہی وہ سجدے میں جائیں گے، میں وہ پتھر ان کے سر پر دے ماروں گا، اس کے بعد تم لوگوں کو اختیار ہے، چاہو تو اس معاملے میں میری مدد کرنا اور مجھے پناہ دینا، چاہو تو مجھے دشمنوں کے حوالے کر دینا، پھر بنی عبد مناف میرا جو بھی حشر کریں۔"
_یہ سن کر قریش نے کہا:
"اللہ کی قسم! ہم تمہیں کسی قیمت پر دغا نہیں دیں گے، اس لئے جو تم کرنا چاہتے ہو، اطمینان سے کرو۔"

★_دوسرے دن ابو جہل اپنے پروگرام کے مطابق ایک بہت بھاری پتھر اٹھا لایا اور لگا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے۔ ادھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عادت کے مطابق صبح کی نماز کے بعد وہاں تشریف لے آئے۔ اس وقت آپ کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔ آپ نماز کے لئے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہوا کرتے تھے، کعبے کو اپنے اور بیت المقدس کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے آتے ہی نماز کی نیت باندھ لی۔ ادھر قریش کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے؟ ابو جہل اپنے پروگرام میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟
پھر جونہی آپ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھایا اور آپ کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی وہ آپ کے نزدیک ہوا، ایک دم اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ چہرے کا رنگ اڑگیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے پیچھے ہٹ آیا۔ ادھر پتھر پر اس کے ہاتھ اس طرح جم گئے کہ اس نے چاہا، ہاتھ اس پر سے ہٹالے، لیکن ہٹا نہ سکا۔

★_ قریش کے لوگ فوراً اس کے گرد جمع ہوگئے اور بولے:
"ابو الحکم! کیا ہوا؟ "
اس نے جواب دیا:
"میں نے رات کو تم سے جو کہا تھا، اس کو پورا کرنے کے لئے میں محمد کی طرف بڑھا مگر جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، ایک جوان اونٹ میرے راستے میں آگیا۔ میں نے اس جیسا زبردست اونٹ آج تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک دم میری طرف بڑھا جیسے مجھے کھالے گا۔"

★_جب اس واقعے کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
"وہ جبرئیل علیہ السلام تھے اگر وہ میرے نزدیک آتا تو وہ ضرور اسے پکڑ لیتے۔"
★_ایک روز حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھےکہ ابوجہل آپ کے پاس آیا اور بولا: 
" کیا میں نے آپ کو اس سے منع نہیں کیا تھا، آپ جانتے نہیں، میں سب سے بڑے گروہ والا ہوں۔"
اس پر سورۃ العلق کی آیت ۱۷، ۱۸ نازل ہوئیں۔
ترجمہ: سو یہ اپنے گروہ کے لوگوں کو بلالے، اگر اس نے ایسا کیا تو ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلالیں گے۔
_حضرت ابن عباس رضی الله عنہہ فرماتے ہیں۔
" اگر ابوجہل اپنے گروہ کو بلاتا تو الله تعالٰی کے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ کر تہس نہس کردیتے۔"

★_ایک روز ابوجہل حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ سے مخاطب ہوا: 
" آپ کو معلوم ہے میں بطحا والوں کا محافظ ہوں اور میں یہاں ایک شریف ترین شخص ہوں۔ "
اس وقت اللہ تعالٰی نے سورہ دخان کی آیت 49 نازل فرمائی: 
" ترجمہ: چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے۔"
آیت کا یہ جملہ دوزخ کے فرشتے ابوجہل کو ڈالتے وقت پھٹکارتے ہوئے کہیں گے۔
ابولہب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی میں آگے آگے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں رکاوٹیں ڈالتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا تھا۔ اس کی بیوی ام جمیل بھی اس کے ساتھ شامل تھی، وہ جنگل سے کانٹے دار لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں بچھاتی، اس پر الله تعالٰی نے سورۃ اللھب نازل فرمائی ۔ اس میں ابولہب کے ساتھ اس کی بیوی کوبھی عذاب کی خبر دی گئ۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگئ، پتھر ہاتھ میں لیئے آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھی۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ تھے۔

★_ انہوں نے ابولہب کی بیوی کو آتے دیکھا تو فرمایا: 
" الله کے رسول! یہ عورت بہت زبان دراز ہے، اگر آپ یہاں ٹھرے تو اس کی بدزبانی سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔"
ان کی بات سن کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: 
" ابوبکر! فکر نہ کرو، وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی۔"
اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچ گئ۔ اسے وہاں صرف ابوبکر صدیق رضی الله عنہہ نظر آئے۔ وہ آتے ہی بولی: 
" ابوبکر! تمہارے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہیں، کہاں ہے تمہارا دوست جو شعر پڑتا ہے۔"
ابوبکر بولے: 
" کیا تمہیں میرے ساتھ کوئی نظر آرہا ہے۔"
"کیوں کیا بات ہے، مجھے تو تمہارے ساتھ کوئی نظر نہیں آرہا۔"
انہوں نے پوچھا:
"تم ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟"
جواب میں اس نے کہا:
"میں یہ پتھر اس کے منہ پر مارنا چاہتی ہوں،اس نے میری شان میں نازیبا شعر کہے ہیں۔"

★_ وہ سورة اللہب کی آیات کو شعر سمجھ رہی تھی۔
اس پر انہوں نے کہا: 
" نہیں! اللہ کی قسم! وہ شاعر نہیں ہیں۔ وہ تو شعر کہنا جانتے ہی نہیں، نہ انہوں نے تمہیں ذلیل کیا ہے۔"
یہ سن کر وہ وآپس لوٹ گئی۔ بعد میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
" اے اللہ کے رسول! وہ آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکی۔"
آپ نے ارشاد فرمایا:
"ایک فرشتے نے مجھے اپنے پروں میں چھپالیا تھا۔"
ایک روایت کے مطابق آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا تھا:
"میرے اور اس کے درمیان ایک آڑ پیدا کردی گئی تھی۔"
: ★_ابو لہب کے ایک بیٹے کا نام عتبہ تھا اور دوسرے کا نام عتیبہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح ابو لہب کے ان دونوں بیٹوں سے کردیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہوا اور سورۂ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہا:
" اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دوگے تو میں تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔"

★_چنانچہ ان دونوں نے انہیں طلاق دے دی۔( دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے لئے اس میں حکمت تھی گویا اللہ تعالٰی نے چاہا کہ یہ پاک صاحب زادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جاسکیں۔) یہ رشتہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر ختم کیا گیا، یعنی آپ دونوں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادیاں تھیں، اس لئے یہ قدم اٹھایا گیا۔ 

"_اس موقع پر عتیبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔ آپ صاحب زادیوں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے، ان حالات میں آپ نے اس کے حق میں بد دعا فرمائی:
" اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرمادے۔"

★_عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لوٹ آیا، اس نے اپنے باپ ابو لہب کو سارا حال سنایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک قافلے کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں یہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے۔ وہاں قریب ہی ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ راہب ان کے پاس آیا۔ اس نے انہیں بتایا:
"اس علاقے میں جنگلی درندے رہتے ہیں۔"
ابو لہب یہ سن کر خوف زدہ ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا یاد آگئی۔اس نے قافلے والوں سے کہا:
"تم لوگ میری حیثیت سے باخبر ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے۔"
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
"بےشک ہمیں معلوم ہے۔"
ابو لہب یہ سن کر بولا:
"تب پھر تم ہماری مدد کرو، میں محمد کی بد دعا کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا ہوں، اس لئے تم لوگ اپنا سامان اس عبادت گاہ کی طرف رکھ کر اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چاروں طرف تم لوگ اپنے بستر لگالو۔"

★_ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہی نہیں، انہوں نے اپنے چاروں طرف اپنے اونٹوں کو بھی بٹھادیا۔ اس طرح عتیبہ ان سب کے عین درمیان میں آگیا۔ اب وہ سب اس کی پاسبانی کرنے لگے۔
: ★_ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔نصف رات کے قریب ایک شیر وہاں آیا اور سوئے ہوئے لوگوں کو سونگھنے لگا۔ ایک ایک کو سونگھتے ہوئے وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمبی چھلانگ لگا کر عتیبہ تک پہنچ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اس نے اسے چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالا۔

★_تکالیف پہنچانے کا ایک اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی کچھ جانور ذبح کئے گئے تھے۔ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ ان جانوروں کی ایک اوجھڑی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ ایسے میں ابو جہل نے کہا: 
"کیا کوئی شخص ایسا ہے جو اس اوجھڑی کو محمد کے اوپر ڈال دے۔"

ایک روایت کے مطابق کسی نے کہا:
"کیا تم یہ منظر نہیں دیکھ رہے ہو تم میں سے کون ہے جو وہاں جائے جہاں فلاں قبیلے نے جانور ذبح کئے ہیں، ان کا گوبر، لید، خون اور اوجھڑی وہاں پڑے ہیں۔ کوئی شخص وہاں جاکر گندگی اٹھالائے اور محمد کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے۔ پھر جونہی وہ سجدے میں جائیں، وہ شخص گندگی ان کے کندھوں کے درمیان رکھ دے۔"

★_تب مشرکوں میں سے ایک شخص اٹھا۔ اس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ یہ گیا اور اوجھڑی اٹھالایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو اوجھڑی آپ پر رکھ دی۔
اس پر مشرکین زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ ہنسی سے بے حال ہوگئے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسے میں کسی نے حضرت فاطمة الزهراء رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی۔ وہ روتی ہوئی حرم میں آئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح سجدے میں تھے اور اوجھڑی آپ کے کندھوں پر تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اوجھڑی کو آپ پر سے ہٹایا۔ اس کے بعد آپ سجدے سے اٹھے اور نماز کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے حق میں بد دعا فرمائی:
"اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے، اے اللہ تو قریش کو ضرور سزا دے۔"

★_قریش جو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہورہے تھے، یہ بد دعا سنتے ہی ان کی ہنسی کافور ہوگئی۔ اس بد دعا کی وجہ سے وہ دہشت زدہ ہوگئے۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بھی بد دعا فرمائی:
"اے اللہ! تو عمرو بن ہشام کو سزا دے۔(یعنی ابو جہل کو)، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف کو سزا دے۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جن قریشیوں کا نام لیا تھا، میں نے انہیں غزوۂ بدر میں خاک و خون میں لتھڑا ہوا دیکھا، اور پھر ان کی لاشوں کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ 
╨─────────────────────❥
*┱✿_ قربانیاں ہی قربانیاں

★_اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
"ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرمارہے تھے، اس وقت آپ کا ہاتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ حجر اسود کے پاس تین آدمی بیٹھے تھے۔ جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرے اور ان کے قریب پہنچے تو ان تینوں نے آپ کی ذات با برکات پر چند جملے کسے۔ ان جملوں کو سن کر آپ کو تکلیف پہنچی۔ تکلیف کے آثار آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔دوسرے پھیرے میں ابو جہل نے کہا:
" تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت کرنے سے روکتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں، لیکن ہم تم سے صلح نہیں کر سکتے۔" جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میرا بھی یہی حال ہے۔"

"_پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ تیسرے پھیرے میں بھی انہوں نے ایسا ہی کہا۔ پھر چوتھے پھیرے میں یہ تینوں یک دم آپ کی طرف جھپٹے۔

★_حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ابو جہل نے ایک دم آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک گھونسہ اس کے سینے پر مارا۔ اس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ دوسری طرف سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا،تیسری طرف خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابی معیط کو دھکیلا۔ آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا:
"اللہ کی قسم! تم لوگ اس وقت تک نہیں مرو گے، جب تک اللہ کی طرف سے اس کی سزا نہیں بھگت لوگے۔"

★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"یہ الفاظ سن کر ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو خوف کی وجہ سے کانپنے نہ لگا ہو۔"
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
"تم لوگ اپنے نبی کے لئے بہت بُرے ثابت ہوئے۔"
یہ فرمانے کے بعد آپ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔
جب آپ اپنے دروازے پر پہنچے تو اچانک ہماری طرف مڑے اور فرمایا:
"تم لوگ غم نہ کرو، اللہ تعالٰی خود اپنے دین کو پھیلانے والا، اپنے کلمے کو پورا کرنے والا اور اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ بہت جلد تمہارے ہاتھوں ذبح کروائے گا۔"

★_اس کے بعد ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور پھر اللہ کی قسم غزوۂ بدر کے دن اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں ذبح کرایا۔
★: ★__ ایک روز ایسا ہوا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، ایسے میں عقبہ بن ابی معیط وہاں آگیا، اس نے اپنی چادر اتار کر آپ کی گردن میں ڈالی اور اس کو بل دینے لگا۔ اس طرح آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے فرمایا:
"کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے...اور جو تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آیا ہے۔"

"★_بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
"مجھے بتائیے! مشرکین کی طرف سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ بدترین اور سخت ترین سلوک کس نے کیا تھا؟"
جواب میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا فرمارہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اس سے پوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹا۔ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دھکیل کر ہٹایا۔"

"_یہ قول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ہے، انہوں نے یہی سب سے سخت برتاؤ دیکھا ہوگا، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سخت برتاؤ کیا گیا۔

★__ پھر جب مسلمانوں کی تعداد 38 ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: 
"اے اللہ کے رسول! مسجد الحرام میں تشریف لے چلئے تاکہ ہم وہاں نماز ادا کر سکیں۔"
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ابو بکر! ابھی ہماری تعداد تھوڑی ہے۔"
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ آخر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام صحابہ کے ساتھ مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ لوگوں کو کلمہ پڑھ لینے کی دعوت دی۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے شخص ہیں، جنہوں نے مجمعے میں کھڑے ہوکر اس طرح تبلیغ فرمائی۔
 ★_اس خطبے کے جواب میں مشرکین مکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ اور دوسرے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے سب سے زیادہ مارا پیٹا، مارپیٹ کی انتہا کردی گئی۔ عقبہ نے تو انہیں اپنے جوتوں سے ماررہا تھا۔ اس میں دوہرا تلا لگا ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ان جوتوں سے اتنی ضربیں لگائیں کہ چہرہ لہو لہان ہوگیا۔

★_ ایسے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو تمیم کے لوگ وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی مشرکین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے پر لٹایا اور بے ہوشی کی حالت میں گھر لے آئے۔ ان سب کو یقین ہوچکا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آج زندہ نہیں بچیں گے۔ اس کے بعد بنو تمیم کے لوگ واپس حرم آئے۔ انہوں نے کہا :
"اللہ کی قسم! اگر ابو بکر مرگئے تو ہم عقبہ کو قتل کر دیں گے۔"
یہ لوگ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد نے ان سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی، لیکن آپ بالکل بے ہوش تھے۔ آخر شام کے وقت کہیں جاکر آپ کو ہوش آیا اور بولنے کے قابل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا:
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟"

★_ گھر میں موجود افراد نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ادھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار اپنا سوال دہرا رہے تھے۔ آخر ان کی والدہ نے کہا:
"اللہ کی قسم! ہمیں تمہارے دوست کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اچھا تو پھر ام جمیل بنت خطاب کے پاس جائیں، ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرکے مجھے بتائیں۔"

"_ام جمیل رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، اسلام قبول کرچکی تھیں،لیکن ابھی تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ ان کے پاس پہنچیں، انہوں نے ام جمیل رضی اللہ عنہا سے کہا:
"ابو بکر محمد بن عبد اللہ کی خیریت پوچھتے ہیں۔"
ام جمیل رضی اللہ عنہا چونکہ اپنے بھائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرتی تھی، وہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے انہوں نے کہا:
"میں نہیں جانتی۔"
ساتھ ہی وہ بولیں:
"کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں؟"
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ نے فوراً کہا: 
"ہاں!"

★_اب یہ دونوں وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زخموں سے چور دیکھا تو چیخ پڑیں:
جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ یقیناً فاسق اور بد ترین لوگ ہیں، مجھے یقین ہے، اللہ تعالٰی ان سے آپ کا بدلہ لے گا۔"
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟"
ام جمیل رضی اللہ عنہا ایسے لوگوں کے سامنے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھیں جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، چنانچہ بولیں:
یہاں آپ کی والدہ موجود ہیں۔"
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوراً بولے:
"ان کی طرف سے بے فکر رہیں،یہ آپ کا راز ظاہر نہیں کریں گی۔"
اب ام جمیل رضی اللہ عنہا نے کہا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔"
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں۔"
"ام جمیل نے فرمایا: 
"دار ارقم میں ہیں۔"
یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بولے:
"اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل نہ لوں۔"
۔"
 ★_ان دونوں نے کچھ دیر انتظار کیا...تاکہ باہر سکون ہو جائیں...آخر یہ دونوں انہیں سہارا دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ ہوگئیں، جونہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو بےحد صدمہ ہوا۔ آپ نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگا لیا۔ انہیں بوسہ دیا۔ باقی مسلمانوں نے بھی انہیں گلے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
"آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ تو نہیں ہوا، سوائے اس کے کہ میرے چہرے پر چوٹیں آئی ہیں۔ یہ میری والدہ میرے ساتھ آئی ہیں، ممکن ہے اللہ تعالٰی آپ کے طفیل انہیں جہنم کی آگ سے بچالے۔"

"_نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اسی وقت ایمان لے آئیں، جس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کو بےحد خوشی ہوئی۔

★_ایک روز صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے۔ ایسے میں کسی نے کہا:
"اللہ کی قسم! قریش نے آج تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی زبان سے بلند آواز میں قرآن نہیں سنا۔ اس لئے تم میں سے کون ہے جو ان کے سامنے بلند آواز میں قرآن پڑھے۔"
یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
"میں ان کے سامنے بلند آواز سے قرآن پڑھوں گا_,"

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر صحابہ نے کہا
"ہمیں قریش کی طرف سے آپ کے بارے میں خطرہ ہے، ہم تو ایسا آدمی چاہتے ہیں جس کا خاندان قریش سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔"
اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
تم میری پروا نہ کرو، اللہ تعالی خود میری حفاظت فرمائیں گے۔"

★_دوپہر کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیت اللہ میں پہنچ گئے۔آپ مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوگئے۔اس وقت قریش اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اب انہوں نے بلند آواز سے قرآن پڑھنا شروع کیا۔
قریش نے یہ آواز سنی تو کہنے لگے، 
"اس غلام زاد کو کیا ہوا؟ "
کوئی اور بولا:
"محمد جو کلام لے کر آئے ہیں، یہ وہی پڑھ رہا ہے. "
یہ سنتے ہی مشرکین ان کی طرف دوڑ پڑےاور لگے انہیں مارنے پیٹنے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چوٹیں کھاتے جاتے تھے اور قرآن پڑھتے جاتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے سورۃ کا زیادہ تر حصہ تلاوت کرڈالا۔

★_اس کے بعد وہاں سے اپنے ساتھیوں کے پاس آگئے۔ان کا چہرہ اس وقت تک لہولہان ہوچکا تھا۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان بول اٹھے:
"ہمیں تمہاری طرف سے اسی بات کا خطرہ تھا، "
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم! اللہ کے دشمنوں کو میں نے اپنے لیے آج سے زیادہ ہلکا اور کمزور کبھی نہیں پایا۔اگر تم لوگ کہو تو کل پھر ان کے سامنے جا کر قرآن پڑھ سکتا ہوں-"
اس پر مسلمان بولے!
"نہیں، وہ لوگ جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں، آپ انہیں وہ کافی سنا آئے ہیں،"
 ★_ کفار کا یہ ظلم و ستم جاری رہا۔ایسے میں ایک دن حضور صلٰی اللہ علیہ وسلم صفا کی پہاڑی کے پاس موجود تھے۔ابوجہل آپ کے پاس سے گزرا۔اس نے آپ کو دیکھ لیا اورلگا گالیاں دینے، اس نے آپ کے سر پر مٹی بھی پہنکی۔عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ منظر دیکھا۔پھر ابو جہل آپ کےپاس سے چل کر حرم میں داخل ہوا۔وہاں مشرکین جمع تھے۔وہ ان کے سامنے اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا۔اسی وقت آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہوئے۔یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔تلوار ان کی کمر سے لٹک رہی تھی۔وہ اس وقت شکار سے واپس آئے تھے۔ان کی عادت تھی کہ جب شکار سے لوٹتے تو پہلے حرم جا کر طواف کرتے تھے پھر گھر جاتے تھے۔

"_حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حرم میں داخل ہونے سے پہلے عبداللہ بن جدعان کی باندی کے پاس سے گزرے، اسنے سارا منظر خاموشی سے دیکھا اور سنا تھا۔اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
"اے حمزہ! کچھ خبر بھی ہے، ابھی ابھی یہاں ابو حکم بن ہشام( ابو جہل)نے تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔وہ یہاں بیٹھے تھے، ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا، انہیں تکالیف پہنچائیں، گالیاں دیں اور بہت بری طرح پیش آیا، آپ کے بھتیجے نے جواب میں اسے کچھ بھی نہ کہا -"
ساری بات سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
"تم جو کچھ بیان کررہی ہو، کیا یہ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے -" 
اس نے فوراً کہا:
"ہاں! میں نے خود دیکھا ہے -" 

*★_ یہ سنتے ہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں آگئے - چہرہ غصے سے تمتما اٹھا - فوراً حرم میں داخل ہوئے، وہاں ابوجہل موجود تھا - وہ قریشیوں کے درمیان میں بیٹھا تھا، یہ سیدھے اس تک جاپہنچے - ہاتھ میں کمان تھی، بس وہی کھینچ کر اس کے سر پر دے ماری - ابوجہل کا سر پھٹ گیا - حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:
"تو محمد کو گالیاں دیتا ہے، سن لے! میں بھی اس کا دین اختیار کرتا ہوں - جو کچھ وہ کہتا ہے، وہی میں بھی کہتا ہوں، اب اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے جواب دے -" 
ابوجہل ان کی منت سماجت کرتے ہوئے بولا:
وہ ہمیں بےعقل بتاتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، ہمارے باپ دادا کے راستے کے خلاف چلتا ہے -"
یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بولے:
"اور خود تم سے زیادہ بے عقل اور بےوقوف کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر پتھر کے ٹکڑوں کو پوجتے ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں -" 

★_ان کے یہ الفاظ سن کر ابوجہل کے خاندان کے کچھ لوگ یک دم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور انہوں نے کہا:
"اب تمہارے بارے میں بھی ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ تم بھی بےدین ہوگئے ہو -" 
جواب میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"آؤ....کون ہے مجھے اس سے روکنے والا - مجھ پر حقیقت روشن ہوگئی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ حق اور سچائی ہے، اللہ کی قسم! میں انہیں نہیں چھوڑوں گا - اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ -" 
یہ سن کر ابوجہل نے اپنے لوگوں سے کہا:
"ابو عمارہ (یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) کو چھوڑدو، میں نے واقعی ان کے بھتیجے کے ساتھ ابھی کچھ برا سلوک کیا تھا -"

★_وہ لوگ ہٹ گئے - حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ گھر پہنچے - گھر آکر انہوں نے الجھن محسوس کی کہ یہ میں قریش کے سامنے کیا کہہ آیا ہوں... میں تو قریش کا سردار ہوں -
لیکن پھر ان کا ضمیر انہیں ملامت کرنے لگا، آخر شدید الجھن کے عالم میں انہوں نے دعا کی:
"اے اللہ! اگر یہ سچا راستہ ہے تو میرے دل میں یہ بات ڈال دے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے اس مشکل سے نکال دے، جس میں میں گھر گیا ہوں -"
★_وہ رات انہوں نے اسی الجھن میں گزاری - آخر صبح ہوئی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے - آپ سے عرض کیا:
"بھتیجے! میں ایسے معاملے میں الجھ گیا ہوں کہ مجھے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور ایک ایسی صورت حال میں رہنا، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا، یہ سچائی ہے یا نہیں، بہت سخت معاملہ ہے -" 

★_اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے - آپ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا - ثواب کی خوش خبری سنائی، آپ کے وعظ و نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کا نور عطا فرمادیا، وہ بول اٹھے:
"اے بھتیجے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کے رسول ہو - بس اب تم اپنے دین کو کھل کر پیش کرو -"

"_حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اسی واقعے پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اسے ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اسے لیے ہوئے چلتا پھرتا ہے۔ (سورة الانعام)

★_حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ خوشی ہوئی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے سگے چچا تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ قریش میں سب سے زیادہ معزز فرد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ قریش کے سب سے زیادہ بہادر، طاقت ور اور خوددار انسان تھے۔ اور اسی بنیاد پر جب قریش نے دیکھا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید قوت حاصل ہوگئی ہے تو انہوں نے آپ کو تکالیف پہنچانے کا سلسلہ بند کردیا، لیکن اپنے تمام ظلم و ستم اب وہ کمزور مسلمانوں پر ڈھانے لگے۔ 

★_کس قبیلے کا بھی کوئی شخص مسلمان ہوجاتا وہ اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجاتے، ایسے لوگوں کو قید کردیتے، بھوکا پیاسا رکھتے تپتی ریت پر لٹاتے، یہاں تک کہ اس کا یہ حال ہوجاتا کہ سیدھے بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہتا ۔ اس ظلم اور زیادتی پر سب سے زیادہ ابوجہل لوگوں کو اکساتا تھا ۔

"_ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ کا پورا نام بلال بن رباح تھا۔ یہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔

★_حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلے عبداللہ بن جدعان تیمی کے غلام تھے ۔ عبداللہ بن جدعان کے سو غلام تھے، یہ ان میں سے ایک تھے۔ جب اسلام کا آغاز ہوا اور اس کا نور پھیلا تو عبداللہ بن جدعان نے اپنے ٩٩ غلاموں کو اس خوف سے مکہ سے باہر بھجوا دیا کہ کہ کہیں وہ مسلمان نہ ہوجائیں ۔ بس اس نے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ اس کی بکریاں چرایا کرتےتھے ۔ اسلام کی روشنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ تک بھی پہنچی ۔ یہ ایمان لے آئے مگر انہوں نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔ ایک روز انہوں نے کعبہ کے چاروں طرف رکھے بتوں پر گندگی ڈال دی۔ ساتھ ہی وہ ان پر تھوکتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: 
"جس نے تمہاری عبادت کی وہ تباہ ہوگیا"

★_یہ بات قریش کو معلوم ہوگئی۔ وہ فورا عبداللہ بن جدعان کے پاس آئے... اور اس سے بولے: 
"تم بے دین ہوگئے ہو۔"
اس نے حیران ہوکر کہا: 
"کیا میرے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے؟ "
اس پر وہ بولے: 
"تمہارے غلام بلال نے آج ایسا ایسا کیا ہے۔"
"کیا!!! "
وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔
 ★__عبداللہ بن جدان نے فوراً قریش کو ایک سو درہم دیےتاکہ بتوں کی جو توہین ہوئی ہے، اس کے بدلے ان کے نام پر کچھ جانور ذبح کردیے جائیں۔ پھر وہ حضرت بلال رضی الله عنہ کی طرف بڑھا۔ اس نے انہیں رسی سے باندھ دیا۔ تمام دن بھوکا اور پیاسا رکھا۔ پھر تو یہ اس کا روز کا معمول بن گیا۔ جب دوپہر کے وقت سورج آگ برسانے لگتا تو انہیں گھر سے نکال کر تپتی ہوئی ریت پر چت لٹادیتا۔ اس وقت ریت اس قدر گرم ہوتی تھی کہ اگر اس پر گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا جاتا تو وہ بھی بھن جاتا تھا۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتا تھا، ایک وزنی پتھر منگاتا اور ان کے سینے پر رکھ دیتا تاکہ وہ اپنی جگہ پر سے ہل بھی نہ سکیں۔ پھر وہ بدبخت ان سے کہتا: 
" اب یا تو محمد کی رسالت اور پیغمبری سے انکار کر اور لات و عزیٰ کی عبادت کر ورنہ میں تجھے یہاں اسی طرح لٹائے رکھوں گا، یہاں تک کہ تیرا دم نکل جائے گا۔ "

★_حضرت بلال رضی الله عنہ اس کی بات کے جواب میں فرماتے: 
" احد.... احد ۔ "
یعنی الله تعالٰی ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔
جب حضرت بلال رضی الله عنہ کسی طرح اسلام سے نہ ہٹے تو تنگ آکر عبدالله بن جدعان نے انہیں امیہ بن خلف کے حوالے کردیا۔ اب یہ شخص ان پر اس سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھانے لگا۔ 

★_ایک روز انہیں اسی قسم کی خوفناک سزائیں دی جارہی تھیں کہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اس طرف سے گذرے ۔حضرت بلال رضی الله عنہ شدت تکلیف کی حالت میں احد احد پکار رہے تھے۔آپ نے انہیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا: 
" بلال! تمہیں یہ احد احد ہی نجات دلائےگا۔ "

★_پھر ایک روز حضرت ابوبکر رضی الله عنہ اس طرف سے گذرے۔ امیہ بن خلف نے انہیں گرم ریت پر لٹا رکھا تھا۔ سینے پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا تھا۔انہوں نے یہ دردناک منظر دیکھ کر امیہ بن خلف سے کہا: 
" کیا اس مسکین کے بارے میں تمہیں الله کا خوف نہیں آتا، آخر کب تک تم اسے عذاب دیے جاؤگے۔"
امیہ بن خلف نے جل کر کہا: 
" تم ہی نے اسے خراب کیا ہے، اس لیے تم ہی اسے نجات کیوں نہیں دلادیتے۔"
اس کی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی الله عنہ بولے: 
" میرے پاس بھی ایک حبشی غلام ہے، وہ اس سے زيادہ طاقتور ہے اور تمہارے ہی دین پر ہے، میں ان کے بدلے میں تمہیں وہ دے سکتا ہوں ۔"
یہ سن کر امیہ بولا: 
" مجھے یہ سودہ منظور ہے۔ "

★_یہ سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا حبشی غلام اس کے حوالے کردیا۔ اس کے بدلے میں حضرت بلال رضی الله عنہ کو لے لیا اور آزاد کردیا۔

"_ سبحان الله! کیا خوب سودہ ہوا، یہاں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا حبشی غلام دنیا کے لحاظ سے بہت قیمتی تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امیہ بن خلف نے غلام کے ساتھ دس اوقیہ سونا بھی طلب کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس کا یہ مطالبہ بھی مان لیا تھا چنانچہ آپ نے اسے ایک یمنی چادر اور کچھ سونا دیا تھا - ساتھ ہی آپ نے امیہ بن خلف سے فرمایا تھا:
"اگر تم مجھ سے سو اوقیہ سونا بھی طلب کرتے تو بھی میں تمہیں دے دیتا -"
 ★_حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سے غلام مسلمانوں کو خرید کر آزاد فرمایا تھا، یہ وہ مسلمان غلام تھے جنہیں اللہ کا نام لینے کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا - ان میں ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی والدہ حمامہ رضی اللہ عنہا تھیں - ایک عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ تھے - انہیں اللہ کا نام لینے پر بڑے بڑے سخت عذاب دیے جاتے - یہ قبیلہ بنی تیم کے ایک شخص کے غلام تھے - وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رشتے دار تھا - آپ نے اپنے رشتے دار سے خرید کر انہیں بھی آزاد فرمایا - ایک صاحب ابو فکیہ رضی اللہ عنہ تھے - یہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے - یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے -
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی ابتدا میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے - وہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے - 

★_ایک روز انہوں نے حضرت ابو فکیہ رضی اللہ عنہ کو گرم ریت پر لٹا رکھا تھا - ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے - اس وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے:
"اسے ابھی اور عذاب دو، یہاں تک کہ محمد یہاں آکر اپنے جادو سے اسے نجات دلائیں -" 
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے انہیں خرید کر آزاد کردیا - 

★_اسی طرح زنیرہ رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر اس قدر خوفناک سزائیں دی گئیں کہ وہ بےچاری اندھی ہوگئیں، ایک روز ابوجہل نے ان سے کہا:
جو کچھ تم پر بیت رہی ہے، یہ سب لات و عزی کر رہے ہیں.
یہ سنتے ہی زنیرہ رضی اللہ عنہا نے کہا.
ہر گز نہیں، اللہ کی قسم، لات و عزی نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ کوئی نقصان... یہ جو کچھ ہو رہا ہے، آسمان والے کی مرضی سے ہو رہا ہے. میرے پروردگار کو یہ بھی قدرت ہے کہ وہ مجھے میری آنکھوں کی روشنی لوٹا دے.

★_دوسرے دن وہ صبح اٹھیں تو ان کی آنکھوں کی روشنی اللہ تعالٰی نے لوٹا دی تھی.
اس بات کا جب کافروں کو پتا چلا تو تو وہ بول اٹھے.
یہ محمد کی جادوگری ہے.
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.
آپ نے زنیرہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کو بھی خرید کر آزاد کیا. اسی طرح نہدیہ نام کی ایک باندی تھیں. ان کی ایک بیٹی بھی تھیں. دونوں ولید بن مغیرہ کی باندیاں تھیں. انھیں بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آزاد کر دیا.

★_عامر بن فہیرہ کی بہن اور ان کی والدہ بھی ایمان لے آئی تھیں. یہ حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی باندیاں تھیں. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا.
ایمان لانے والے جن لوگوں پر ظلم ڈھائے گئے. ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بھی ہیں. کافروں نے انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوششیں کیں مگر یہ ثابت قدم رہے. انہیں جاہلیت کے زمانے میں گرفتار کیا گیا تھا، پھر انہیں ایک عورت ام انمار نے خرید لیا، یہ ایک لوہار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی دل جوئی فرماتے تھے. ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے. جب یہ مسلمان ہو گئے اور ام انمار کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے انہیں بہت خوفناک سزائیں دیں. وہ لوہے کا کڑا لے کر آگ میں گرم کرتی٬ خوب سرخ کرتی٬پھر اس کو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھ دیتی، آخر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی مصیبت کا ذکر کیا تو آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کے فوراً بعد اس عورت کے سر میں شدید درد شروع ہو گیا. اس سے وہ کتوں کی طرح بھونکتی تھی، آخر کسی نے اسے علاج بتایا کہ وہ لوہا تپا کر سر پر رکھوائے، اس نے یہ کام حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا. اب آپ وہ حلقہ خوب گرم کر کے اس کے سر پر رکھتے.
★__ حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا.
اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے.
میرے الفاظ سنتے ہی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔پھر آپ نے فرمایا۔
تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے٬ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھییاں کی جاتی تھیں، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں۔ ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دییے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے. اس دین اسلام کو اللہ تعالٰی اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔

★_حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔

★_ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔

★_علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں.
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف تشریف لے جا رہے تھے اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا۔
اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔
اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔
★_حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف سے گزرے، آپ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا.
اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما.

★_ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔
 ╨─────────────────────❥
┱✿__چاند  دو ٹکڑے ہو گیا _,"*

★_اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔
ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:
"اے محمد! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔"

"_مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔

★_اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:
"اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے ۔"
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
"ہاں!بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔"

"_آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کےاوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر،

★_ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لو اب گواہی دو۔"
ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:
"محمد نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"محمد نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔"

"_مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:
"ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔"
★__ چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:
"ہاں ہاں! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔"
یہ سنتے ہی مشرک بول اٹھے:
"بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔"
یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔ 

★_اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی۔
"ترجمہ: قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔

★_مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ 
اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:
"اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں۔ ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے...جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں۔"

★_ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔"
★__ ایک مشرک کہنے لگا:
"آپ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، لہٰذا آپ کو کیا حق ہے کہ نبی کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپ کی تصدیق کرتا۔"

★_اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ فرقان کی آیت 7 نازل فرمائی:
"ترجمہ: اور یہ کافر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔"

★__ پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے تو اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ یونس کی آیت نازل فرمائی:
"ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔"

★_اس کے بعد ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: 
"ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم جس رحمٰن کا ذکر کرتے ہو وہ رحمٰن یمامہ کا ایک شخص ہے، وہ تمہیں یہ باتیں سکھاتا ہے، ہم لوگ اللہ کی قسم! کبھی رحمٰن پر ایمان نہیں لائیں گے۔"

★__یہاں رحمٰن سے ان لوگوں کی مراد یمامہ کے ایک یہودی کاہن سے تھی۔ اس بات کے جواب میں اللہ تعالٰی نے سورة الرعد کی آیت 30 نازل فرمائی:
"ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔"
اس وقت آپ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپ وہاں سے اٹھ گئے۔
★__مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ انہوں نے آکر کہا:
"اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالٰی آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔"

"__یہ سن کر آپ نے عرض کیا:
"باری تعالٰی! آپ اپنی رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھیں۔"

★__دراصل آپ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے...رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالٰی کی عبادت کریں۔ اگر اللہ تعالٰی درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔

★__مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا: 
"ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔"
یہ سن کر یہودی عالم بولے:
"ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔"
قاصدوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:
"تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"کم درجے کے لوگوں نے۔"
اب انہوں نے کہا:
"تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔"
 ╨─────────────────────❥
┱✿__عنوان: تین سوال_,*

★__پہلے ان سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کرو جو پچھلے زمانے میں کہیں نکل گئے تھے۔ یعنی اصحاب کہف کے بارے میں پوچھو کہ ان کا کیا واقعہ تھا۔ اس لئے کہ ان کا واقعہ نہایت عجیب و غریب ہے، ہماری پرانی کتابوں کے علاوہ اس واقعے کا ذکر کہیں نہیں ملے گا...اگر وہ نبی ہیں تو اللہ تعالٰی کی طرف سے خبر پاکر ان کے بارے میں بتادیں گے...ورنہ نہیں بتا سکیں گے۔
پھر ان سے یہ پوچھنا کہ سکندر ذو القرنين کون تھا، اس کا کیا قصہ ہے۔ پھر ان سے روح کے بارے میں پوچھنا کہ وہ کیا چیز ہے۔ 
اگر انہوں نے پہلے دونوں سوالوں کا جواب دے دیا اور ان کا واقعہ بتادیا اور تیسرے سوال یعنی روح کے بارے میں بتادیا تو تم لوگ سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں، اس صورت میں تم ان کی پیروی کرنا۔"

★__یہ لوگ یہ تین سوالات لے کر واپس مکہ آئے اور قریش سے کہا:
"ہم ایسی چیز لے کر آئے ہیں کہ اس سے ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔"
اس کے بعد انہوں نے ان سب کو تفصیل سنائی۔ اب یہ مشرکین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انہوں نے آپ سے کہا:
"اے محمد! اگر آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو ہمارے تین سوالات کے جوابات بتادیں، ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ اصحاب کہف کون تھے؟ دوسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟ اور تیسرا سوال ہے کہ روح کیا چیز ہے؟"
آپ نے ان کے سوالات سن کر فرمایا:
"میں ان سوالات کے جوابات تمہیں کل دوں گا۔"

★_نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے میں ان شاءاللہ نہ فرمایا، یعنی یہ نہ فرمایا، ان شاءاللہ میں تمہیں کل جواب دوں گا۔ قریش آپ کا جواب سن کر واپس چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا انتظار کرنے لگے، لیکن وحی نہ آئی۔ دوسرے دن وہ لوگ آگئے، آپ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے، وہ لوگ لگے باتیں کرنے۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا:
"محمد کے رب نے انہیں چھوڑدیا۔"
ان لوگوں میں ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی تھی۔ اس نے بھی یہ الفاظ کہے:
"میں دیکھتی ہوں کہ تمہارے مالک نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور تم سے ناراض ہو گیا ہے۔"

★_نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی یہ باتیں بہت شاق گزریں۔ آپ بہت پریشان اور غمگین ہو گئے۔ آخر جبرئیل علیہ السلام سورہ کہف لے کر نازل ہوئے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو ہدایت کی گئی:
"اور آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ اس کو کل کردوں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا لیا کیجئے (یعنی ان شاءاللہ کہا کیجئے) آپ بھول جائیں تو اپنے رب کا ذکر کیا کیجئے اور کہہ دیجئے کہ مجھے امید ہے میرا رب مجھے (نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے) اس سے بھی نزدیک تر بات بتادے گا۔" (سورہ کہف)

"_مطلب یہ تھا کہ جب آپ یہ کہیں کہ آئندہ فلاں وقت پر میں یہ کام کروں گا تو اس کے ساتھ ان شاءاللہ ضرور کہا کریں۔ اگر آپ اس وقت اپنی بات کے ساتھ ان شاءاللہ ملانا بھول جائیں اور بعد میں یاد آجائے تو اس وقت ان شاءاللہ کہہ دیا کریں۔ اس لئے کہ بھول جانے کے بعد یاد آنے پر وہ ان شاء اللہ کہہ دینا بھی ایسا ہے جیسے گفتگو کے ساتھ کہہ دینا ہوتا ہے۔
 ★__ اس موقعے پر وحی میں دیر اسی بنا پر ہوئی تھی کہ آپ نے ان شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ جب جبرئیل علیہ السلام سورہ کہف لے کر آئے تو آپ نے ان سے پوچھا تھا:
"جبرئیل! تم اتنی مدت میرے پاس آنے سے رکے رہے اس سے تشویش پیدا ہونے لگی تھی۔"
جواب میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا:
"ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں داخل ہو سکتے ہیں،نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں، ہم تو صرف اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں، اور یہ جو کفار کہہ رہے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ کو چھوڑ دیا ہے تو آپ کے رب نے آپ کو ہرگز نہیں چھوڑا بلکہ یہ سب اس کی حکمت کے مطابق ہوا ہے۔"

★__پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اصحاب کہف کے بارے میں بتایا۔ ذوالقرنین کے بارے میں بتایا اور پھر روح کے بارے وضاحت کی۔ 
اصحاب کہف کی تفصیل تفسیر ابن کثیر کے مطابق یوں ہے:
"وہ چند نو جوان تھے، دین حق کی طرف مائل ہوگئے تھے اور راہ ہدایت پر آگئے تھے۔ یہ نوجوان پرہیزگار تھے۔ اپنے رب کو معبود مانتے تھے یعنی توحید کے قائل تھے۔ ایمان میں روز بروز بڑھ رہے تھے اور یہ لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دین پر تھے۔ لیکن بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پہلے کا ہے، اس لئے کہ یہ سوال یہودیوں نے پوچھے تھے اور اس کا مطلب ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں یہ واقعہ موجود تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔

★_قوم نے ان کی مخالفت کی۔ ان لوگوں نے صبر کیا۔ اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا۔ وہ مشرک تھا،اس نے سب کو شرک پر لگا رکھا تھا۔ تھا بھی بہت ظالم۔ بت پرستی کراتا تھا۔ وہاں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہ نوجوان اپنے ماں باپ کے ساتھ اس میلے میں گئے۔ وہاں انہوں نے بت پرستی ہوتے دیکھی۔ یہ وہاں سے بیزار ہو کر نکل آئے اور سب ایک درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ اس سے پہلے یہ لوگ الگ الگ تھے۔ ایک دوسرے کو جانتے نہیں تھے۔ آپس میں بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا، یہ سب بت پرستی سے بیزار ہو کر میلے سے چلے آئے ہیں۔ اب یہ آپس میں گھل مل گئے۔ انہوں نے اللہ کی عبادت کے لئے ایک جگہ مقرر کرلی۔ رفتہ رفتہ مشرک قوم کو ان کے بارے میں پتا چل گیا، وہ انہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے سوالات کئے تو انہوں نے نہایت دلیری سے شرک سے بری ہونے کا اعلان کیا۔ بادشاہ اور درباریوں کو بھی توحید کی دعوت دی۔

★_  انہوں نے صاف کہہ دیا، ہمارا رب وہی ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت کریں۔
ان کی اس صاف گوئی پر بادشاہ بگڑا۔ اس نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا۔
بادشاہ کا حکم سن کر ان میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہوئی، ان کے دل اور مضبوط ہوگئے لیکن ساتھ ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہاں رہ کر وہ اپنی دین داری پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اس لئے انہوں نے سب کو چھوڑ کر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کر لیا۔ جب یہ لوگ اپنے دین کو بچانے کے لئے قربانی دینے پر تیار ہوگئے تو ان پر اللہ تعالٰی کی رحمت نازل ہوئی۔ ان سے فرما دیاگیا:
"جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت ہوگی اور وہ تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرماوے گا۔"
★: پس یہ لوگ موقع پاکر وہاں سے بھاگ نکلے اور ایک پہاڑ کے غار میں چھپ گئے۔ قوم نے انہیں ہر طرف تلاش کیا، لیکن وہ نہ ملے...اللہ تعالٰی نے انہیں ان کے دیکھنے سے عاجز کردیا...بالکل اسی قسم کا واقعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا جب آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لی تھی، لیکن مشرکین غار کے منہ تک آنے کے باوجود آپ کو نہیں دیکھ سکے تھے ۔
اس واقعے میں بھی چند روایات میں تفصیل اس طرح ہے کہ بادشاہ کے آدمیوں نے ان کا تعاقب کیا تھا اور غار تک پہنچ گئے تھے، لیکن غار میں وہ ان لوگوں کو نظر نہیں آئے تھے۔ قرآن کریم کا اعلان ہے کہ اس غار میں صبح و شام دھوپ آتی جاتی ہے۔ 
یہ غار کس شہر کے کس پہاڑ میں ہے، یہ یقینی طور پر کسی کو معلوم نہیں...پھر اللہ تعالٰی نے ان پر نیند طاری کردی۔ اللہ تعالٰی انہیں کروٹیں بدلواتے رہے۔ ان کا کتا بھی غار میں ان کے ساتھ تھا۔

★__اللہ تعالٰی نے جس طرح اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلادیا تھا، اسی طرح انہیں جگادیا۔ وہ تین سو نو سال تک سوتے رہے تھے۔ اب تین سو نو سال بعد جاگے تو بالکل ایسے تھے جیسے ابھی کل ہی سوئے تھے۔

"★_ان کے بدن، کھال، بال، غرض ہر چیز بالکل صحیح سلامت تھی ۔یعنی جیسے سوتے وقت تھے، بالکل ویسے ہی تھے ۔کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی ۔وہ آپس میں کہنے لگے: " کیوں بھئی! بھلا ہم کتنی دیر تک سوتے رہےہیں؟ 
ایک نے جواب دیا: 
ایک دن یا اس سے بھی کم " 

"_یہ بات اس نے اس لیے کہی تھی کہ وہ صبح کے وقت سوئے تھے اور جب جاگے تو شام کا وقت تھا ۔اس لیے انہوں نے یہی خیال کیا کہ وہ ایک دن یا اس سے کم سوئے ہیں ۔پھر ایک نے یہ کہہ کر بات ختم کردی 
اس کا درست علم تو اللہ کو ہے " 

★_اب انہیں شدید بھوک پیاس کا احساس ہوا ۔انہوں نے سوچا، بازار سے کھانا منگوانا چاہیے ۔پیسے ان کے پاس تھے ۔ان میں سے کچھ وہ الله کے راستے میں خرچ کرچکے تھے، کچھ ان کے پاس باقی تھے ۔ایک نے کہا: 
ہم میں سے کوئی پیسے لے کر بازار چلاجائے اور کھانے کی کوئی پاکیزہ اور عمدہ چیز لے آئے اور جاتے ہوئے اور آتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑ جائے ۔سودا خریدتے وقت بھی ہوشیاری سے کام لے ۔کسی کی نظروں میں نہ آئے ۔اگر انہیں ہمارے بارے میں معلوم ہوگیا تو ہماری خیر نہيں ۔دقیانوس کے آدمی ابھی تک ہمیں تلاش کرتے پھررہے ہوں گے ۔

★_چنانچہ ان میں سے ایک غار سے باہر نکلا، اسے سارا نقشہ ہی بدلا نظر آیا۔اب اسے کیا معلوم تھا کہ وہ تین سو نو سال تک سوتے رہےہیں ۔اس نے دیکھا کوئی چیز اپنے پہلے حال پر نہيں تھی ۔شہر میں کوئی بھی اسے جانا پہچانا نظر نہ آیا ۔یہ حیران تھا، پریشان تھا اور ڈرے ڈرے انداز میں آگے بڑھ رہا تھا ۔اس کا دماغ چکرارہا تھا، سوچ رہاتھا، کل شام تو ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئےہیں پھر یہ اچانک کیا ہوگیاہے ۔جب زیادہ پریشان ہوا تو اس نے اپنے دل میں فیصلہ کیا، مجھے جلد از جلد سودا لےکر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جانا چاہیے ۔آخر وہ ایک دکان پر پہنچا، دکان دار کو پیسے دیے اور کھانے پینے کا سامان طلب کیا ۔دکان دار اس سکے کو دیکھ کر حیرت زده رہ گیا ۔اس نے وہ سکہ ساتھ والے دکان دار کو دکھایا اور بولا: 
بھائی ذرا دیکھنا! یہ سکہ کس زمانے کا ہے؟ 
اس نے دوسرے کو دیا ۔اس طرح سکہ کئی ہاتھوں میں گھوم گیا ۔کئی آدمی وہاں جمع ہوگئے ۔
 ★__آخر انہوں نے اس سے پوچھا: 
تم یہ سکہ کہاں سے لائے ہو؟ تم کس ملک کے رہنے والے ہو؟ 
جواب میں اس نے کہا: 
میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں، کل شام ہی کو تو یہاں سے گیا ہوں، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے ۔وہ سب اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور بولے: 
یہ تو کوئی پاگل ہے، اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے چلو ۔
آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔وہاں اس سے سوالات ہوئے ۔اس نے تمام حال کہہ سنایا ۔
بادشاہ اور سب لوگ اس کی کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔آخر انہوں نے کہا: اچھا ٹھیک ہے ۔تم ہمیں اپنے ساتھیوں کے پاس لے چلو....وہ غار ہمیں بھی دکھاؤ ۔

★__چنانچہ سب لوگ اس کے ساتھ غار کی طرف روانہ ہوئے ۔ان نوجوانوں سے ملے اور انہیں بتایا کہ دقیانوس کی بادشاہت ختم ہوئے تین صدیاں بیت چکی ہیں اور اب یہاں الله کے نیک بندوں کی حکومت ہے ۔بہرحال ان نوجوانوں نے اپنی بقیہ زندگی اسی غار میں گزاری اور وہیں وفات پائی ۔بعد میں لوگوں نے ان کے اعزاز کے طورپر پہاڑ کی بلندی پر ایک مسجد تعمیر کی تھی ۔

"_ایک روایت یہ بھي ہےکہ جب شہر جانے والا پہلا نوجوان لوگوں کو لےکر غار کے قریب پہنچا تو اس نے کہا: 
تم لوگ یہیں ٹھہرو، میں جاکر انہيں خبر کردوں ۔
اب یہ ان سے الگ ہوکر غار میں داخل ہوگیا ۔ساتھ ہی الله تعالٰی نے ان پر پھر نیند طاری کردی...بادشاہ اور اس کے ساتھی اسے تلاش کرتے رہ گئے...نہ وہ ملا اور نہ ہی وہ غار انہیں نظر آیا، الله تعالٰی نے ان کی نظروں سے غار کو اور ان سب کو چھپادیا ۔

★_ان کے بارے میں لوگ خیال ظاہر کرتے رہے کہ وہ سات تھے، آٹھواں ان کا کتا تھا، یا وہ نو تھے، دسواں ان کا کتا تھا ۔بہرحال ان کی گنتی کا صحیح علم الله ہی کو ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے ارشاد فرمایا: 
انکے بارے میں زیادہ بحث نہ کریں اور نہ ان کے بارے کسی سے دریافت کریں (کیونکہ ان کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے باتیں کرتے ہیں ۔کوئی صحیح دلیل ان کے پاس نہیں)
 ★__ مشرکین کا دوسرا سوال تھا، ذوالقرنین کون تھا۔ذوالقرنین کے بارے تفصیلات یوں ملتی ہیں " ذوالقرنین ایک نیک، خدا رسیدہ اور زبردست بادشاہ تھا۔ انہوں نے تین بڑی مہمات سر کیں، پہلی مہم میں وہ اس مقام تک پہنچے، جہاں سورج غروب ہوتا ہے، یہاں انہیں ایک ایسی قوم ملی جس کے بارے میں اللہ نے انہیں اختیار دیا کہ چاہیں تو اس قوم کو سزا دیں، چاہیں تو ان کے ساتھ نیک سلوک کریں۔
ذولقرنین نے کہا کہ 
" جو شخص ظالم ہے، ہم اسے سزا دیں گے اور مرنے کے بعد الله تعالیٰ بھی اسے سزا دیں گے، البتہ مومن بندوں کونیک بدلہ ملے گا۔"

★_دوسری مہم میں وہ اس مقام تک پہنچے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، وہاں انہیں ایسے لوگ ملے، جن کے مکانات کی کوئی چھت وغیرہ نہیں تھی۔ تیسری مہم میں وہ دو گھاٹیوں کے درمیان پہنچے، یہاں کے لوگ ان کی بات نہیں سمجھتے تھے۔انہوں نے اشاروں میں یا ترجمان کے ذریعے یاجوج ماجوج کی تباہ کاریوں کا شکوہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے اور یاجوج ماجوج کے درمیان بند بنادیں ۔ذوالقرنین نے لوہے کی چادریں منگوائیں ۔ پھر ان سے ایک دیوار بنادی۔ اس میں تانبا پگھلا کر ڈالا گیا۔ اس کام کے ہونے پر ذوالقرنین نے کہا: 
" یہ الله کا فضل ہے کہ مجھ سے اتنا بڑا کام ہوگیا ۔"
__قیامت کے قریب یاجوج ماجوج اس دیوار کو توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

★_ذوالقرنین کے بارے میں مختلف وضاحتیں کتابوں میں ملتی ہیں۔ قرنین کے معنی دو سمتوں کے ہیں۔ ذوالقرنین دنیا کے دو کناروں تک پہنچے تھے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا۔ 
بعض نے قرن کے معنی سینگ کے لیے ہیں، یعنی دو سینگوں والے۔ ان کا نام سکندر تھا۔لیکن یہ یونان کے سکندر نہیں ہیں جسے سکندراعظم کہا جاتا ہے۔ یونانی سکندر کافر تھا جبکہ یہ مسلم اور ولی الله تھے۔ یہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ خضر علیہ السلام ان کی فوج کا جھنڈا اٹھانے والے تھے۔

★__تیسرے سوال یعنی روح کے بارے میں الله تعالٰی نے ارشاد فرمایا: 
" یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہے، آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے قائم ہے، یعنی روح کی حقیقت اسی کے علم میں ہے، اس کے سوا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
روح کے بارے میں یہودیوں کی کتابوں میں بھی بالکل یہی بات درج تھی کہ روح الله کے حکم سے قائم ہے۔ اس کا علم الله ہی کے پاس ہے اور اس نے اپنے سوا کسی کو نہیں دیا۔ یہودیوں نے مشرکوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے روح کے متعلق کچھ بتایا تو سمجھ لینا، وہ نبی نہیں ہیں۔ اگر صرف یہ کہا کہ روح الله کے حکم سے قائم ہے تو سمجھ لینا کہ وہ سچے نبی ہیں۔ آپ نے بالکل یہی جواب ارشاد فرمایا۔
 ╨─────────────────────
┱✿_ عنوان: مشرکین کی گستاخیاں

★__ ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ رضی الله عنہم کے ساتھ مسجد حرام میں تشریف فرما تھے۔ایسے میں قبیلہ زبید کا ایک شخص وہاں آیا۔اس وقت نزدیک ہی قریش مکہ بھی مجمع لگائے وہاں بیٹھے تھے۔ قبیلہ زبید کا وہ شخص ان کے نزدیک گیا اور اردگرد گھومنے لگا۔پھر اس نے کہا: 
"اے قریش! کوئی شخص کیسے تمہارے علاقے میں داخل ہوسکتا ہے اور کوئی تاجر کیسے تمہاری سرزمین پر آسکتا ہے جبکہ تم ہر آنے والے پر ظلم کرتے ہو؟ "

★__یہ کہتے ہوئے جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھےتو آپ نے اس سے فرمایا: 
" تم پر کس نے ظلم کیا۔"
اس نے بتایا: 
" میں اپنے اونٹوں میں سے تین بہترین اونٹ بیچنے کے لیے لے کر آیا تھا مگر ابوجہل نے یہاں ان تینوں اونٹوں کی اصل قیمت سے صرف ایک تہائی قیمت لگائی۔اور ایسا اس نے جان بوجھ کر کیا، کیونکہ وہ جانتا ہے وہ اپنی قوم کا سردار ہے۔ اس کی لگائی ہوئی قیمت سے زیادہ رقم کوئی نہیں لگائے گا، مطلب یہ کہ اب مجھے وہ اونٹ اس قدر کم قیمت پر فروخت کرنے پڑیں گے، یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ میرا تجارت کا یہ سفر بے کار جائےگا۔"

★_نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پوری بات سن کر فرمایا: 
" تمہارے اونٹ کہاں ہیں۔"
اس نے بتایا: 
" یہیں خزورہ کے مقام پر ہیں۔"
آپ اس وقت اٹھے،اپنے صحابہ کو ساتھ لیا، اونٹوں کے پاس پہنچے۔ آپ نے دیکھا، اونٹ واقعی بہت عمدہ تھے۔ آپ نے اس سے ان کا بھاؤ کیا اور آخر خوش دلی سے سودا طے ہوگیا۔ آپ نے وہ اونٹ اس سے خریدلیے۔ پھر آپ نے ان میں سے دو زیادہ عمدہ فروخت کردیے اور ان کی قیمت بیوہ عورتوں میں تقسیم فرمادی۔ وہیں بازار میں ابوجہل بیٹھا تھا ۔اس نے یہ سودا ہوتے دیکھا، لیکن ایک لفظ بول نہ سکا۔ آپ اس کے پاس آئے اور فرمایا:
" خبردار عمرو! ( ابوجہل کا نام)اگر تم نے آئندہ حرکت کی تو بہت سختی سے پیش آوں گا۔"
یہ سنتے ہی وہ خوف زدہ انداز میں بولا: 
" محمد! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا... میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔"
 ★__اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے لوٹ آئے۔ادھر راستے میں امیہ بن خلف ابوجہل سے ملا۔ اس کے ساتھ دوسرے ساتھی بھی تھے۔ان لوگوں نے ابوجہل سے پوچھا: 
"تم تو محمد کے ہاتھوں بہت رسوا ہوکر آرہے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو تم ان کی پیروی کرنا چاہتے ہو یا تم ان سے خوف زدہ ہوگئے ہو۔"
اس پر ابوجہل نے کہا: 
" میں ہرگز محمد کی پیروی نہیں کرسکتا، میری جو کمزوری تم نے دیکھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں نے محمد(صلی الله علیہ وسلم)کو دیکھا تو ان کے دائیں بائیں بہت سارے آدمی نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور بھالے تھےاور وہ ان کو میری طرف لہرا رہے تھے۔اگر میں اس وقت ان کی بات نہ مانتا تو وہ سب لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑتے۔"

★_ابوجہل ایک یتیم کا سرپرست بنا، پھر اس کا سارا مال غضب کرکے اسےنکال باہر کیا۔ وہ یتیم حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ابوجہل کے خلاف فریاد لے کر آیا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم اس یتیم کو لیے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ آپ نے اس سے فرمایا:
" اس یتیم کا مال واپس کردو۔"
ابوجہل نے فوراً مال اس لڑکے کے حوالے کردیا۔ 

★__مشرکین کو یہ بات معلوم ہوئی تو بہت حیران ہوئے، انہوں نے ابوجہل سے کہا: 
"کیا بات ہے؟ تم اس قدر بزدل کب سے ہوگئے کہ فوراً ہی مال اس لڑکے کے حوالے کردیا۔"
اس پر اس نے کہا: 
" تمہیں نہیں معلوم! محمد صلی الله علیہ وسلم کے دائیں بائیں مجھے بہت خوفناک ہتھیار نظر آئےتھے۔ میں ان سے ڈر گیا۔ اگر میں اس یتیم کا مال نہ لوٹاتا تو وہ ان ہتھیاروں سے مجھے مار ڈالتے۔"

★_قبیلہ خشعم کی ایک شاخ اراشہ تھی۔ اس کے ایک شخص سے ابوجہل نے کچھ اونٹ خریدے، لیکن قیمت ادا نہ کی۔ اس نے قریش کے لوگوں سے فریاد کی۔ ان لوگوں نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا مذاق اڑانے کا پروگرام بنالیا۔انہوں نے اس اراشی سے کہا: 
" تم محمد کے پاس جاکر فریاد کرو۔"
ایسا انہوں نے اس لیے کہا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

★_اراشی حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ نے فوراً اسے ساتھ لیا اور ابوجہل کے مکان پر پہنچ گئے۔ اس کے دروازے پر دستک دی۔ابوجہل نے اندر سے پوچھا: 
" کون ہے؟ "
آپ نے فرمایا: 
" محمد! "
ابوجہل فوراً باہر نکل آیا۔آپ کا نام سنتے ہی اس کا چہرہ زرد پڑھ چکا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا:‌
" اس شخص کا حق فوراً ادا کردو"۔
اس نے کہا: 
" بہت اچھا! ابھی لایا۔"
اس نے اسی وقت اس کا حق ادا کردیا۔اب وہ شخص واپس اسی قریشی مجلس میں آیا اور ان سے بولا: 
" الله تعالیٰ ان( یعنی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم)کو جزائے خیر دے۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میرا حق مجھے دلوادیا۔"
 ★__مشرک لوگوں نے بھی اپنا ایک آدمی ان کے پیچھے بھیجا تھا اور اس سے کہا تھا کہ وہ دیکھتا رہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کیا کرتے ہیں، چنانچہ جب وہ واپس آیا تو انہوں نے اس سے پوچھا: 
" ہاں! تم نے کیا دیکھا؟ "
جواب میں اس نے کہا: 
" میں نے ایک بہت ہی عجیب اور حیرت ناک بات دیکھی ہے۔"

’’اللہ کی قسم! محمد نے جیسے ہی اس کے دروازے پر دستک دی تو وہ فورا اس حالت میں باہر نکل آیا گویا اس کا چہرہ بالکل بے جان اور زرد ہورہا تھا۔ محمد نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو، وہ بولا، بہت اچھا۔ یہ کہہ کر وہ اندر گیا اور اسی وقت اس کا حق لاکردے دیا۔‘‘

★__قریشی سردار یہ سارا واقعہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ اب انہوں نے ابوجہل سے کہا: 
’’تمہیں شرم نہیں آتی، جو حرکت تم نے کی، ایسی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’تمہیں کیا پتا، جونہی محمد نے میرے دروازے پر دستک دی اور میں نے ان کی آواز سنی تو میرا دل خوف اور دہشت سے بھر گیا۔ پھر میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت قدآور اونٹ میرے سر پر کھڑا ہے، میں نے آج تک اتنا بڑٓ اونٹ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگر میں ان کی بات ماننے سے انکار کردیتا تو وہ اونٹ مجھے کھالیتا۔‘‘

★__کچھ مشرک ایسے بھی تھے جو مستقل طور پر آپ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: یہ لوگ جو آپ پر ہنستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو معبود قرار دیتے ہیں، ان سے آپ کے لئے ہم کافی ہیں (سورۃ الحجر آیت95)۔

"__ان مذاق اڑانے والوں میں ابوجہل، ابولہب، عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ (جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چچا تھا) اور عاص بن وائل شامل تھے۔

★__ابولہب کی حرکات میں سے ایک حرکت یہ تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گندگی پھینک جایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ یہی حرکت کرکے جارہا تھا کہ اسے اس کے بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا، حضرت حمزہ رضٰی اللہ عنہ نے وہ گندگی اٹھاکر فورا ابولہب کے سر پر ڈال دی۔

★__اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گندگی ڈال جایا کرتا تھا۔ عقبہ نے ایک روز آپ کے چہرہ مبارک کی طرف تھوکا، وہ تھوک لوٹ کر اسی کے چہرے پر آپڑا۔ جس حصے پر وہ تھوک گرا، وہاں کوڑھ جیسا نشان بن گیا۔
 ★__ایک مرتبہ عقبہ بن ابی معیط سفر سے واپس آیا تو اس نے ایک بڑی دعوت دی۔ تمام قریشی سرداروں کو کھانے پر بلایا۔ اس موقعے پر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلایا مگر جب کھانا مہمانوں کے سامنے چنا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کردیا اور فرمایا:
’’میں اس وقت تک تمہارا کھانا نہیں کھاوٗں گا جب تک کہ تم یہ نہ کہو، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

★__چوں کہ مہمان نوازی عرب کے لوگوں کی خاص علامت تھی اور وہ مہمان کو کسی قیمت پر ناراض نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے عقبہ نے کہہ دیا: 
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھالیا۔ کھانے کے بعد سب لوگ اپنے گھر چلے گئے۔ عقبہ بن ابی معیط، ابی بن خلف کا دوست تھا۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ عقبہ نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ ابی بن خلف اس کے پاس آیا اور بولا: 
’’عقبہ! کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟‘‘
جواب میں اس نے کہا:
’’خدا کی قسم! میں بے دین نہیں ہوا (یعنی مسلمان نہیں ہوا ہوں)۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک معزز آدمی میرے گھر آیا اور اس نے یہ کہہ دیا کہ میں جب تک اس کے کہنے کے مطابق توحید کی گواہی نہیں دوں گا، وہ میرے ہاں کھانا نہیں کھائے گا، مجھے اس بات سے شرم آئی کہ ایک شخص میرے گھر آئے اور کھانا کھائے بغیر چلا جائے۔ اس لئے میں نے وہ الفاظ کہہ دیے اور اس نے کھانا کھالیا، لیکن سچ یہی ہے کہ میں نے وہ کلمہ دل سے نہیں کہا تھا۔‘‘

★_یہ بات سن کر ابی بن خلف کا اطمینان نہ ہوا، اس نے کہا:
’’میں اس وقت تک نہ اپنی شکل تمہیں دکھاؤں گا، نہ تمہاری شکل دیکھوں گا جب تک کہ تم محمد کا منہ نہ چڑاؤ، ان کے منہ پر نہ تھوکو اور ان کے منہ پر نہ مارو۔‘‘
یہ سن کر عقبہ نے کہا: 
’’یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘
اس کے بعد جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بدبخت کے سامنے آئے، اس نے آپ کا منہ چڑایا، آپ کے چہرہ مبارک پر تھوکا، لیکن اس کا تھوک آپ کے چہرہ مبارک تک نہ پہنچا بلکہ خود اس کے منہ پر آکر گرا۔ اس نے محسوس کیا، گویا آگ کا کوئی انگارہ اس کے چہرے پر آگیا ہے۔ اس کے چہرے پر جلنے کا نشان باقی رہ گیا اور مرتے دم تک رہا۔ 

★_اسی عقبہ بن معیط کے بارے میں سورہ فرقان کی آیت 37 نازل ہوئی: 
ترجمہ: جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا اور کہے گا، کیا ہی اچھا ہوتا، میں رسول کے ساتھ دین کی راہ پر لگ جاتا۔ 
اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: 
’’جس روز ظالم آدمی جہنم میں کہنی تک اپنا ایک ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، پھر دوسرے ہاتھ کو کاٹ کر کھائے گا، جب دوسرا کھاچکے گا تو پہلا پھر اُگ آئے گا اور وہ اس کو کاٹنے لگے گا۔ غرض اسی طرح کرتا رہے گا۔‘‘

★_اسی طرح حکم بن عاص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسخرہ پن کرتا تھا۔ ایک روز آپ ﷺچلے جارہے تھے۔ یہ آپ کے پیچھے چل پڑا۔ آپ کا مذاق اڑانے کے لئے منہ اور ناک سے طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگا۔ آپ چلتے چلتے اس کی طرف مڑے اور فرمایا:
’’تو ایسا ہی ہوجا۔‘‘
چنانچہ اس کے بعد یہ ایسا ہوگیا تھا کہ اس کے منہ اور ناک سے ایسی ہی آوازیں نکلتی رہتی تھیں۔ ایک ماہ تک یہ بے ہوشی کی حالت میں رہا۔ اس کے بعد مرنے تک اس کے منہ اور ناک سے ایسی ہی آوازیں نکلتی رہیں۔ 

★_اسی طرح عاص بن وائل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا:
’’محمد! اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو (نعوذ باللہ) یہ کہہ کر دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، خدا کی قسم ہماری موت صرف زمانے کی گردش اور وقت کے گزرنے کی وجہ سے آتی ہے۔‘‘
 ★_اسی عاص بن وائل کا ایک واقعہ اور ہے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مکہ میں لوہار کا کام کرتے تھے، تلواریں بناتے تھے۔ انہوں نے عاص بن وائل کو کچھ تلواریں فروخت کی تھیں، ان کی اس نے ابھی قیمت ادا نہیں کی تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اس سے قیمت کا تقاضا کرنے کے لئے گئے تو اس نے کہا:
’’خباب! تم محمد کے دین پر چلتے ہو، کیا وہ یہ دعوی نہیں کرتے کہ جنت والوں کو سونا، چاندی، قیمتی کپڑے، خدمت گار اور اولاد مرضی کے مطابق ملے گی؟‘‘
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بولے: 
’’ہاں! یہی بات ہے۔‘‘
اب عاص نے ان سے کہا:
’’میں اس وقت تک تمہارا قرض نہیں دوں گا جب تک کہ تم محمد کے دین کا انکار نہیں کروگے۔‘‘
جواب میں حضرت خباب بن ارت ؓ نے فرمایا:
اللہ کی قسم میں محمدﷺ کا دین نہیں چھوڑ سکتا‘‘

★__اسی طرح ان مذاق اڑانے والوں میں سے ایک اسود بن یغوث بھی تھا۔ یہ حضور ﷺ کا ماموں زاد تھا۔ جب بھی مسلمانوں کو دیکھتا تو اپنے ساتھیوں سے کہتا:
’’دیکھو!تمہارے سامنے روئے زمین کے وہ بادشاہ آرہے ہیں جو کسری اور قیصر کے وارث بننے والے ہیں۔‘‘
یہ بات وہ اس لئے کہتا تھا کیونکہ صحابہ ؓ میں سے اکثر کے لباس پھٹے پرانے ہوتے تھے ،وہ مفلس اور نادار تھے اور آپﷺ یہ پیش گوئی فرما چکے تھے کہ مجھے ایران اور روم کی سلطنتوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔
_اسود آپﷺ سے یہ بھی کہا کرتا تھا:
’’محمد! آج تم نے آسمانوں کی باتیں نہیں سنائیں،آج آسمان کی کیا خبریں ہیں۔‘‘
یہ اور اس کے ساتھی جب آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ ؓ کو دیکھتے تو سیٹیاں بجاتے تھے،آنکھیں مٹکاتے تھے۔

★_اسی قسم کا ایک آدمی نضر بن حارث تھا۔ یہ بھی آپﷺ کا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔
ان میں سے اکثر لوگ ہجرت سے پہلے ہی مختلف آفتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوئے۔
ان مذاق اڑانے والوں میں سے ایک حضرت خالد بن ولیدؓ کا باپ ولید بن مغیرہ بھی تھا۔ یہ ابو جہل کا چچا تھا۔قریش کے دولت مند لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔حج کے زمانے میں تمام حاجیوں کو کھانا کھلاتا تھا، کسی کو چولہا نہیں جلانے دیتا تھا،لوگ اس کی بہت تعریف کرتے تھے، اس کے قصیدے پڑھتے تھے ، اس کے بہت سے باغات تھے۔ایک باغ تو ایسا تھا جس میں تمام سال پھل لگتا تھا ،لیکن اس نے آپﷺ کو اس قدر تکالیف پہنچائیں کہ آپﷺ نے اس کے لئے بددعا فرما دی۔ اس کے بعد اس کا تمام مال ختم ہو گیا،باغات تباہ ہو گئے، پھر حج کے دنوں میں کوئی اس کا نام لینے والا بھی نہ رہا۔
 ★__ایک روز جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس تشریف لائے ،اس وقت آپﷺ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، جبرائیل علیہ السلام نے آ کر عرض کیا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپﷺ کو مذاق اڑانے والوں سے نجات دلاؤں۔‘‘
ایسے میں ولید بن مغیرا ادھر سے گزرا۔جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ سے پوچھا:
آپﷺ اسے کیسا سمجھتے ہیں ؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا
اللہ تعالی کا برا بندہ ہے‘‘۔
یہ سن کر جبرائیل علیہ السلام نے ولید کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا اور بولے:
میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا‘‘۔

★_ پھر عاص بن وائل سامنے سے گزرا تو جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا:
اسے آپﷺ کیسا آدمی پاتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا :
یہ بھی ایک برا بندہ ہے‘‘۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیر کی طرف اشارہ کیا اور پھر بولے:
میں نے اسے انجام تک پہنچا دیاہے۔‘‘
اس کے بعد اسود وہاں سے گزرا۔ اس کے بارے میں آپﷺ نے یہی فرمایا کہ برا آدمی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اور بولے:
میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے ۔‘‘

★_ پھر حارث بن عیطلہ گزرا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا :’’میں نے اسے انجام تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
اس واقعے کے بعد اسود بن یغوث اپنے گھر سے نکلا تو اس کو لو کے تھپیڑوں نے جھلسا دیا۔ اس کا چہرہ جل کر بالکل سیاہ ہو گیا۔ جب یہ واپس اپنے گھر میں داخل ہوا تو گھر کے لوگ اسے پہچان نہ سکے۔ انہوں نے اسے گھر سے نکال دیااور دروازے بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ زبردست پیاس میں مبتلا ہو گیا، مسلسل پانی پیتا رہتا تھا،یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا۔

★__حارث بن عیطلہ کے ساتھ یہ ہوا کہ اس نے ایک نمکین مچھلی کھا لی، اس کے بعد اسےشدید پیاس نے آلیا۔یہ پانی پیتا رہا، یہاں تک کہ اس کا بھی پیٹ پھٹ گیا۔
_ولید بن مغیرہ ایک روز ایک شخص کے پاس سے گزرا وہ شخص تیر بنا رہا تھا ۔ اتفاق سے ایک تیر اس کے کپڑوں میں الجھ گیا۔ولید نے تکبر کی وجہ سے جھک کر اس کا تیر نکالنے کی کوشش نہ کی اور آگے بڑھنے لگا تو
وہ تیر اس کی پنڈلی میں چبھ گیا۔ اس کی وجہ سے زہر پھیل گیا اور وہ مر گیا۔
عاص بن وائل کے تلوے میں ایک کانٹا چبھا۔ اس کی وجہ سے اس کے پیر پر اتنا ورم آگیا کہ وہ چکی کے پاٹ کی طرح چپٹا ہو گیا۔ اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
حضرت ابن عباس ؓکی روایت کے مطابق یہ لوگ ایک ہی رات میں ہلاک ہوئے تھے۔
 ★__نبی کریمﷺ نے محسوس فرمایا کہ قریش مکہ مسلمانوں کو بے تحاشا تکالیف پہنچا رہے ہیں اور مسلمانوں میں ابھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس بارے میں کچھ کہہ سکیں ، چنانچہ آپﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا :
تم لوگ روئے زمین پر ادھر ادھر پھل جاؤ ،اللہ تعالی پھر تمہیں ایک جگہ جمع فرما دے گا ‘‘۔
ہم کہاں جائیں؟ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا۔
آپﷺ نے ملک حبشہ کی طرف اشار ہ کر تے ہوئے فرمایا:
تم لوگ ملک حبشہ کی طرف چلے جاؤ، اس لئے کہ وہاں کا باشاہ نیک ہے وہ کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا، وہ سچائی کی سر زمیں ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالی تمہاری ان مصیبتوں کا خاتمہ کر کے تمہارے لئے آسانیاں پیدا کر دے۔‘‘

★_حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اپنے دین کو بچانے کے لئے ادھر سے ادھر کہیں گیا، چاہے وہ ایک بالشت ہی چلا اس کے لئے جنت واجب کر دی جاتی ہے۔
چنانچہ اس حکم کے بعد بہت سے مسلمان اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنے وطن سے ہجرت کر گئے۔ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کی اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے تنہا ہجرت کی۔ جن لوگوں نے بیوی بچوں سمیت ہجرت کی ،ان میں حضرت عثمان غنی ؓ بھی تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی یعنی آپﷺ کی صاحب زادی حضرت رقیہؓ بھی ہجرت کر گیئں۔
حضرت عثمان غنی ؓ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے شخص ہیں۔

★__اسی طرح حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہجرت کی. حضرت عامر ابن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی. جن صحابہ نے تنہا ہجرت کی، ان کے نام یہ ہیں. حضرت عبد الرحمن ابن عوف، حضرت عثمان ابن مظعون، حضرت سہیل ابن بیضاء، حضرت زبیر ابن العوام اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم.

★_کفار کو جب ان کی ہجرت کا پتا چلا تو وہ تعاقب میں دوڑے، لیکن اس وقت تک یہ حضرات بحری جہاز پر سوار ہو چکے تھے. وہ جہاز تاجروں کے تھے، اس طرح یہ حضرات حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے. کچھ عرصے بعد ان لوگوں نے ایک غلط خبر سنی، وہ یہ تھی کہ تمام قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں. اس اطلاع کے بعد حبشہ کے بہت سے مہاجرین مکہ روانہ ہوئے. نزدیک پہنچ کر پتا چلا کہ اطلاع غلط تھی. اب انہوں نے حبشہ جانا مناسب نہ سمجھا. اور کسی نہ کسی کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں داخل ہو گئے.

★_پناہ حاصل کرنے والے ان مہاجرین نے جب اپنے مسلمان بھائیوں پر اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم و ستم دیکھا تو انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ ہم پناہ کی وجہ سے اس ظلم سے محفوظ رہیں. لہٰذا انہوں نے اپنی اپنی پناہ لوٹا دی اور کہا کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا سامنا کریں گے.
 ╨─────────────────────❥ 
┱✿[*★_عنوان: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لاتے ہیں_,*

★__حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت تک اسلام دشمنی پر کمر باندھے ہوئے تھے. ایک روز وہ مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک قریشی شخص سے ہوئی. ان کا نام حضرت نعیم ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ تھا. یہ اس وقت تک اپنی قوم کے خوف سے اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تلوار تھی. یہ پریشان ہو گئے، ان سے پوچھا کہ کیا ارادے ہیں، وہ بولے.
محمد کو قتل کرنے جا رہا ہوں_,"
یہ سن کر حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا.
پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں.

★__یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جلال میں آ گئے. بہن کے گھر کا رخ کیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن کا نام فاطمہ تھا، ان کے شوہر حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ تھے، یہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی بھی تھے. ادھر خود حضرت سعید کی بہن حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں.

★_بہن کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے دستک دی. اندر سے پوچھا گیا. کون ہے
انہوں نے اپنا نام بتایا تو اندر یک لخت خاموشی چھا گئی.
اندر اس وقت حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن پڑھا رہے تھے. انہوں نے فوراً قرآن کے اوراق چھپا دیے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اٹھ کر دروازہ کھولا. 

★__حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً بولے.
اے اپنی جان کی دشمن میں نے سنا ہے تو بے دین ہو گئی ہے.
ساتھ ہی انہوں نے انہیں مارا. ان کے جسم سے خون بہنے لگا. خون کو دیکھ کر بولیں.
عمر، تم کچھ بھی کر لو، میں مسلمان ہو چکی ہوں. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا.
یہ کون سی کتاب تم پڑھ رہے تھے، مجھے دکھاؤ.
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں.
یہ کتاب تمہارے ہاتھ میں ہر گز نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ تم ناپاک ہو، پہلے غسل کر لو، پھر دکھائی جا سکتی ہے.

★__آخر انہوں نے غسل کیا، پھر قرآن مجید کے اوراق دیکھے. جیسے ہی ان کی نظر بسم اللہ الرحمن الرحیم پر پڑی، ان پر ہیبت طاری ہو گئی. آگے سورہ طہ تھی، اس کی ابتدائی آیات پڑھ کر تو ان کی حالت غیر ہو گئی. بولے.
مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس لے چلو.
حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما ادھر ادھر چھپے ہوئے تھے، ان کے الفاظ سن کر سامنے آ گئے، بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مارا پیٹا تھا، اس کا مطلب ہے صرف حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ چھپے ہوئے تھے.
بہرحال اس موقع پر وہ سامنے آ گئے اور بولے.
اے عمر، تمہیں بشارت ہو، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ، دو آدمیوں میں سے ایک کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما، یا تو عمرو ابن ہشام (ابو جہل) کے ذریعے یا پھر عمر بن خطاب کے ذریعے.
★__ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا تھا.
ان دونوں میں سے جو تجھے محبوب ہو، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا بدھ کے روز مانگی تھی. جمعرات کے روز یہ واقعہ پیش آیا. حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما انہیں دار ارقم لے گئے.
دروازے پر دستک دی گئی. اندر سے پوچھا گیا. کون ہے؟. انہوں نے کہا. عمر ابن خطاب. یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بتائی گئی کہ دروازے پر عمر بن خطاب ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا.
دروازہ کھول دو، اگر اللہ تعالٰی نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے تو ہدایت پا لے گا.

★__دروازہ کھولا گیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی، پھر دو صحابہ نے انہیں دائیں بائیں سے پکڑ کر آپ کی خدمت میں پہنچایا. آپ نے فرمایا.
انہیں چھوڑ دو.
انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا. وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کرتے کا دامن پکڑ کر انہیں اپنی طرف کھینچا اور فرمایا.
اے ابن خطاب. اللہ کے لیے ہدایت کا راستہ اختیار کرو.
انہوں نے فوراً کہا.
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.

★_ان کے یہ الفاظ سنتے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے خوشی سے بے تاب ہو کر اس قدر زور سے تکبیر کہی، مکہ کے گوشے گوشے تک یہ آواز پہنچ گئی. آپ نے تین بار ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا.
اے اللہ، عمر کے دل میں جو میل ہے، اس کو نکال دے، اور اس کی جگہ ایمان بھر دے.

★_اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ قریش کے پاس پہنچے، انہیں بتایا کہ وہ اسلام لے آئے ہیں. قریش ان کے گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے.
لو عمر بھی بے دین ہو گیا ہے.
عتبہ بن ربیعہ آپ پر جھپٹا، لیکن آپ نے اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا، پھر کسی کو ان طرف بڑھنے کی جرات نہ ہوئی. اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا.
اللہ کی قسم، آج کے بعد مسلمان اللہ تعالٰی کی عبادت چھپ کر نہیں کریں گے.
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے ساتھ دار ارقم سے نکلے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار ہاتھ میں لیے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہتے جا رہے تھے.
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
یہاں تک کہ سب حرم میں داخل ہو گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قریش سے فرمایا.
تم میں سے جس نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی، میری تلوار اس کا فیصلہ کرے گی.
 ╨─────────────────────❥ 
★: بایکاٹ
★_اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام مسلمانوں نے کعبہ کا طواف شروع کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آگے آگے رہے۔مسلمانوں نے کعبہ کے گرد نماز ادا کی۔سب نے بلند آواز سے قرآن کی تلاوت بھی کی۔جبکہ اس سے پہلے مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تھے۔
اب تمام قریش نے مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے خاندان والوں سے کہا:
"تم ہم سے دو گنا خون بہا لے لو اور اسکی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمہیں فائدہ پہنچ جائے۔"

★_آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔اس پر قریش نے غصے میں آکر یہ طے کیا کہ تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور ساتھ ہی انہوں نے طے کیا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں نہ آنے دیا جائے تاکہ وہ کوئی چیز نہ خرید سکیں۔ان سے شادی بیاہ نہ کیا جائے اور نہ ان کے لیے کوئی صلح قبول کی جائے۔ان کے معاملے میں کوئی نرم دلی نہ اختیار کی جائیں،یعنی ان پر کچھ بھی گزرے، ان کے لیے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہونے دیا جائے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ بنی ہاشم کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قتل کرنے کے لیے قریش کے حوالے نہ کردیں - 

★_قریش نے اس معاہدے کی باقاعدہ تحریری لکھی، اس پر پوری طرح عمل کرانے اور اس کا احترام کرانے کے لیے اس کو کعبے میں لٹکادیا - 
اس معاہدے کے بعد ابولہب کو چھوڑ کر تمام بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی طالب میں چلے گئے، یہ مکہ سے باہر ایک گھاٹی تھی - ابولہب چونکہ قریش کا پکا طرفدار تھا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن بھی تھا، اس لیے اسے گھاٹی میں جانے پر مجبور نہ کیا گیا - یوں بھی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے میں قریش کا ساتھ دیا تھا، ان کی مخالفت نہیں کی تھی - 

★_نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک 46 سال تھی -
 بخاری میں ہے کہ اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بہت مشکل اور سخت وقت گزارا - قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی - سب لوگ بھوک سے بےحال رہتے تھے - یہاں تک کہ انہوں نے گھاس پھوس اور درختوں کے پتے کھاکر یہ دن گزارے -
 ★__ جب بھی مکہ میں باہر سے کوئی قافلہ آتا تو یہ مجبور اور بےکس حضرات وہاں پہنچ جاتے تاکہ ان سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لیں لیکن ساتھ ہی ابولہب وہاں پہنچ جاتا اور کہتا:
"لوگو! محمد کے ساتھی اگر تم سے کچھ خریدنا چاہیں تو اس چیز کے دام اس قدر بڑھا دو کہ یہ تم سے کچھ خرید نہ سکیں، تم لوگ میری حیثیت اور ذمے داری کو اچھی طرح جانتے ہو -" 

★_چنانچہ وہ تاجر اپنے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاتے اور حضرات ناکام ہوکر گھاٹی میں لوٹ آتے - وہاں اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتا تڑپتا دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ادھر بچے انہیں خالی ہاتھ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگتے ۔ابولہب ان تاجروں سے سارا مال خود خرید لیتا ۔

"_یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے خاندان کے لوگ قریش کے اس معاہدے کے بعد حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خود اس گھاٹی میں چلے آئے تھے ۔یہ بات نہیں کہ قریش مکہ نے انہیں گرفتار کرکے وہاں قید کردیاتھا ۔

★_اس بائیکاٹ کے دوران بہت سے مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلےگئے ۔یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی ۔اس ہجرت میں اڑتیس مردوں اور بارہ عورتوں نے حصہ لیا ۔ان لوگوں میں حضرت جعفر بن ابوطالب رضی الله عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہا بھي تھیں ان میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبیداللہ بن جحش اور اس کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہا بھی تھے ۔یہ عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر اسلام سے پھرگیاتھا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کرلیاتھا ۔اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔اس کی بیوی ام حبیبہ رضی الله عنہا اسلام پر رہیں ۔ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح فرمایا ۔
 ╨─────────────────────❥
★: عنوان: نجاشی کے دربار میں

★__ان مسلمانوں کو حبشہ میں بہترین پناہ مل گئی، اس بات سے قریش کو اور زیادہ تکلیف ہوئی ۔انہوں نے ان کے پیچھے حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ اور عمارہ بن ولید کو بھیجا تاکہ یہ وہاں جاکر حبشہ کے بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں (حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ بعد میں مسلمان ہوئے) یہ دونوں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے بہت سے تحائف لے کر گئے ۔بادشاہ کو تحائف پیش کیے ۔تحائف میں قیمتی گھوڑے اور ریشمی جبے شامل تھے ۔بادشاہ کے علاوه انہوں نے پادریوں اور دوسرے بڑے لوگوں کو بھی تحفے دیے...تاکہ وہ سب ان کا ساتھ دیں ۔بادشاہ کے سامنے دونوں نے اسے سجدہ کیا، بادشاہ نے انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھالیا ۔

★__اب انہوں نے بادشاہ سے کہا: 
ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آپ کی سرزمین پر آئے ہیں ۔یہ لوگ ہم سے اور ہمارے معبودوں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے آپکا دین بھی اختیار نہیں کیا۔یہ ایک ایسے دین میں داخل ہوگئے ہیں، جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ اب ہمیں قریش کے بڑے سرداروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں۔"

★_یہ سن کر نجاشی نے کہا: -" وہ لوگ کہاں ہیں۔"
انہوں نے کہا: -" آپ ہی کے ہاں ہیں۔"
نجاشی نے انہیں بلانے کے لیے فوراً آدمی بھیج دیے۔ایسے میں ان پادریوں اور دوسرے سرداروں نے کہا: 
" آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ زیادہ جانتے ہیں۔"

★_نجاشی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا: 
" پہلے میں ان سے بات کروں گا کہ وہ کس دین پر ہیں۔"
اب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: 
" نجاشی سے میں بات کروں گا۔"
ادھر نجاشی نے تمام عیسائی عالموں کو دربار میں طلب کرلیا تھا تاکہ مسلمانوں کی بات سن سکیں۔ وہ اپنی کتابیں بھی اٹھالائے تھے۔

★_مسلمانوں نے دربار میں داخل ہوتے وقت اسلامی طریقے کے مطابق سلام کیا، بادشاہ کو سجدہ نہ کیا، اس پر نجاشی بولا: -" کیا بات ہے،تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ "
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ فوراً بولے: 
" ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، الله تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک رسول بھیجے ہیں... اور ہمیں حکم دیا کہ الله کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو، اللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ہم نے آپ کو وہی سلام کیا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔"
نجاشی اس بات کو جانتا تھا، اس لیے کہ یہ بات انجیل میں تھی۔
[21/11, 11:23 am] ★☝🏻★: ★__ اس کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"اللہ کے رسول نے ہمیں نماز کا حکم دیا ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔"
اس وقت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نجاشی کو بھڑکانے کے لیے اس سے کہا:"یہ لوگ ابن مریم یعنی عیسٰی علیہما السلام کے بارے میں آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ انہیں اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔"
_اس پر نجاشی نے پوچھا:
"تم لوگ عیسیٰ ابن مریم اور مریم علیہما السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟"
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یعنی کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔"

★_پھر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کے دربار میں یہ تقریر کی:
"اے بادشاہ!ہم ایک گمراہ قوم تھے، پتھروں کو پوجتے تھے،مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے۔پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہمارا ہر طاقت ور آدمی،کمزور کو دبا لیتا تھا۔ یہ تھی ہماری حالت، پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا،جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں، یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں۔ ہم ان کا حسب نسب، ان کی سچائی اور پاک دامنی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں، اس کی عبادت کریں اور یہ کہ اللہ کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں،ہم انہیں چھوڑ دیں۔ 

انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں ، روزے رکھیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے،امانت پوری کرنے، رشتے داروں کی خبر گیری کرنے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے، برائیوں اور خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم دیا، اسی طرح گندی باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی ، ان پر ایمان لائے اور جو تعلیمات وہ لے کر آئے، ان کی پیروی کی۔ بس اس بات پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی تاکہ ہمیں پھر پتھروں کی پوجا پر مجبور کر سکے۔ ان لوگوں نے ہم پر بڑے بڑے ظلم کیے۔ نئے سے نئے ظلم ڈھائے، ہمیں ہر طرح تنگ کیا۔

"_ آخر کار جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ ہمارے دین کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تو ہم آپ کی سرزمین کی طرف نکل پڑے، ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا۔ ہم تو یہاں یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔"
[ ★__ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر نجاشی نے کہا:--"کیا آپ کے پاس اپنے نبی پر آنے والی وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟"
"ہاں ! موجود ہے۔" جواب میں حضرت جعفر بولے ۔
"وہ مجھے پڑھ کر سنائیں۔"نجاشی بولا۔
اس پر انہوں نے قرآن کریم سے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات پڑھیں۔ آیات سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نجاشی بولا:
"ہمیں کچھ اور آیات سناؤ۔"
_اس پر حضرت جعفر نے کچھ اور آیات سنائیں ۔تب نجاشی نے کہا: 
"اللہ کی قسم! یہ تووہی کلام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لےکر آئے تھے ۔خداکی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔"

★__ اس طرح قریشی وفد ناکام لوٹا ۔دوسری طرف مکہ کے مسلمان اسی طرح گھاٹی شعب ابی طالب ميں مقیم تھے ۔وہ اس میں تین سال تک رہے، یہ تین سال بہت مصیبتوں کےسال تھے، اسی گھاٹی میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، یہ حالات دیکھ کر کچھ نرم دل لوگ بھی غمگین ہوتے تھے، ایسے لوگ کچھ کھانا پینا ان حضرات تک کسی نہ کسی طرح. پہنچا دیا کرتے تھے، ایسے میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔معاہدے کے الفاظ میں سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہيں بچا، آنحضرت صلی اللہﷺ نے یہ بات ابو طالب کو بتائی،

★_  ابوطالب فوراﹰ گئے اور قریش کے لوگوں سے کہا ۔
تمہارے عہد نامے کو دیمک نے چاٹ لیا ہےاور یہ خبر مجھے میرے بھتیجے نے دی ہے۔اس معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، اگر بات اسی طرح ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہوجاتاہے، لیکن اگر تم اب بھی باز نہ آئے تو پھر سن لو،. اللہ کی قسم! جب تک ہم میں آخری آدمی بھی باقی ہے، اس وقت تک ہم محمد ﴿صلی اللہﷺ ﴾کو، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔،، 
یہ سن کر قریش نے کہا: 
“ہمیں تمہاری بات منظور ہے… ہم معاہدے کو دیکھ لیتے ہیں۔”

★_انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی ۔صرف اللہ کا نام باقی تھا ۔اس طرح مشرک اس. معاہدے سے باز آگئے۔یہ معاہدہ جس شخص نے لکھا تھا، اس کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔
معاہدہ کا یہ حال دیکھنے کے بعد قریشی لوگ شعب ابی طالب پہنچے۔ انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے کہا: 
" آپ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں۔ وہ معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔"
 ╨─────────────────────❥
★: عنوان: غم کا سال

★__اس طرح تین سال بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور ظلم کا یہ باب بند ہوا۔
اس واقعے کے بعد نجران کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔نجران ان کی بستی کا نام تھا۔ یہ بستی یمن اور مکہ کے درمیان واقع تھی اور مکے سے قریباً سات منزل دور تھی۔ اس وفد میں بیس آدمی تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں انہیں ان مہاجرین سے معلوم ہوا تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ 

★__ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس وقت حرم میں تھے۔ یہ لوگ آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ 
ادھر قریش مکہ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے کان آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وفد کی بات چیت کی طرف لگادیے۔
جب نجران کے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرچکے تو آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ قرآن کریم کی کچھ آیات پڑھ کر سنائیں۔ آیات سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کے دلوں نے اس کلام کی سچائی کی گواہی دے دی-,

★_۔چنانچہ فوراً ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ ان لوگوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور خبریں پڑھ رکھی تھیں۔ اس لیے آپ کو دیکھ کر پہچان گئے کہ آپ ہی نبی آخرالزماں ہیں۔

★_اس کے بعد یہ لوگ اٹھ کر جانے لگے تو ابوجہل اور چند دوسرے قریشی سرداروں نے انہیں روکا اور کہا: 
" خدا تمہیں رسوا کرے، تمہیں بھیجا تو اس لیے گیا تھا کہ تم یہاں اس شخص کے بارے میں معلومات حاصل کرکے انہیں بتاؤ مگر تم اس کے پاس بیٹھ کر اپنا دین ہی چھوڑ بیٹھے... تم سے زیادہ احمق اور بے عقل قافلہ ہم نے آج تک نہیں دیکھا۔"
اس پر نجران کے لوگوں نے کہا: 
" تم لوگوں کو ہمارا سلام ہے... ہم سے تمہیں کیا واسطہ، تم اپنے کام سے کام رکھو،ہمیں 
اپنی مرضی سے کام کرنے دو۔"

"_اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں ان کی تعریف بیان فرمائی۔
 ★__اسی طرح قبیلہ اَزد کے ایک شخص جن کا نام ضماد تھا مکہ آئے۔ یہ صاحب جھاڑ پھونک سے جنات کا اثر زائل کیا کرتے تھے۔ مکہ کے لوگوں کو انہوں نے یہ کہتے سنا کہ محمد پر جن کا اثر ہے۔ یہ سن کر انہوں نے کہا: 
" اگر میں اس شخص کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے شفا عطا فرمادے۔"
اس کے بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کا بیان ہے،میں نے آپ سے کہا: 
" اے محمد! میں جھاڑ پھونک سے علاج کرتا ہوں، لوگ کہتے ہے کہ آپ پر جنات کا اثر ہے۔اگر بات یہی ہے تو میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں۔"

★__ان کی بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
" تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتاہے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالٰی گمراہی نصیب کرتا ہے،اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔"
انہوں نے آپ کی بات سن کر کہا: 
" یہ کلمات میرے سامنے دوبارہ پڑھیے۔"
آپ نے کلمہ شہادت تین مرتبہ دہرایا۔تب انہوں نے کہا: 
" میں نے کاہنوں کے کلمات سنے ہیں۔جادوگروں اور شاعروں کے کلمات بھی سنے ہیں۔مگر آپ کے ان کلمات جیسے کلمات کبھی نہیں سنے۔ اپنا ہاتھ لایئے،میں اسلام قبول کرتا ہوں۔"

★_چنانچہ ضماد رضی اللہ عنہ نے اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔آپ نے فرمایا: 
" اپنی قوم کے لیے بھی بیعت کرتے ہو۔"
جواب میں انہوں نے کہا: 
"ہاں! میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔"
اس طرح یہ صاحب جو آپ پر سے جنات کا اثر اتارنے کی نیت سے آئے تھے، خود مسلمان ہوگئے۔ ایسے اور بھی بہت سے واقعات پیش آئے۔
 ★__نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کو دس سال کا عرصہ گذر چکا تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال کرگئیں۔اس سے چند دن پہلے ابوطالب فوت ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو حجون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے،انتقال کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 65 سال تھی۔ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں ہوا تھا۔ اس سال کو سیرت نگاروں نے عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔ کیونکہ ہر موقعے پر ساتھ دینے والی دو ہستیاں اس دنيا سے رخصت ہوگئ تھیں۔

★__  آپ ہر وقت غمگین رہنے لگے،گھر سے بھی کم نکلتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شادی کے بعد پچیس سال تک آپ کے ساتھ رہیں۔اتنی طویل مدت تک آپ کا اور ان کا ساتھ رہا تھا۔

★_ابوطالب جب بیمار ہوئے تھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے ملنے کے لیے آئے۔
اس وقت قریش کے سردار بھی وہاں موجود تھے۔آپ نے چچا سے فرمایا: 
" چچا! لا الله الا اللہ پڑھ لیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کی شفاعت کرسکوں۔"
اس پر ابوطالب نے کہا: 
" خدا کی قسم بھتجے! اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میرے بعد لوگ تمہیں اور تمہارے خاندان والوں کو شرم اور عار دلائیں گے اور قریش یہ کہیں گے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ کہہ دیاتو میں یہ کلمہ پڑھ کر ضرور تمہارا دل ٹھنڈا کرتا۔ میں جانتا ہوں، تمہاری یہ کتنی خواہش ہے کہ میں یہ کلمہ پڑھ لوں... مگر میں اپنے بزرگوں کے دین پر مرتا ہوں۔"

★_اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
"آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ جسے الله چاہے، ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پانے والوں کاعلم بھی اسی کو ہے۔"(سورۃ القصص: آیات 56 )

"_اس طرح ابوطالب مرتے دم تک کافر ہی رہے، کفر پر ہی مرے۔ حضرت عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں، میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: " اے الله کے رسول! ابوطالب ہمیشہ آپ کی مدد اور حمایت کرتے رہے، کیا اس سے انہیں آخرت میں فائدہ پہنچے گا۔" جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
"ہاں!مجھے ان کی قیامت کے دن کی حالت دکھائی گئی۔ میں نے انہیں جہنم کے اوپر والے حصے میں پایا، ورنہ وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔"( بخاری مسلم)
 ★_ابوطالب کے مرنے پر آپ صلیّ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
" خدا کی قسم! میں اس وقت تک آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا، جب تک کہ مجھے اللہ تعالٰی ہی اس سے نہ روک دے۔"
اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: 
" پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔اگرچہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں،اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد یہ لوگ دوزخی ہیں۔"( سورۃ التوبہ۔آیت ۱۱۳ )

"_اس سے بھی ثابت ہوا کہ ابوطالب ایمان پر نہیں مرے۔

★_حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال رمضان کے مہینے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات کے چند ماہ بعد آپ نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی۔آپ سے پہلے ان کی شادی ان کے چچا کے بیٹے سکران رضی الله عنہا سے ہوئی تھی۔ حضرت سکران رضی الله عنہا دوسری ہجرت کے حکم کے وقت ان کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئےتھے۔ پھر مکہ واپس آگئے تھے۔اس کے کچھ عرصہ ہی بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ جب حضرت سودہ رضی الله عنہا کی عدت کا زمانہ پورا ہوگیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان 
سے نکاح فرمایا۔ 

★_اس نکاح سے پہلے حضرت سودہ رضی الله عنہانے ایک عجیب خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر سکران رضی الله عنہا سے یہ خواب بیان کیا۔ خواب سن کر سکران رضی اللہ عنہا نے کہا: 
" اگر تم نے واقعی یہ خواب دیکھا ہے تو میں جلد ہی مرجاؤں گا۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے۔"
دوسری رات انہوں نے پھر خواب دیکھا کہ وہ لیٹی ہوئی ہے، اچانک چاند آسمان سے ٹوٹ کر ان کے پاس آگیا۔ انہوں نے یہ خواب بھی اپنے شوہر کو سنایا، وہ یہ خواب سن کر بولے: 
" اب شاید میں بہت جلد فوت ہوجاؤں گا۔"

★_اور اسی دن حضرت سکران رضی الله عنہا انتقال کرگئے۔ شوال کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے نکاح فرمایا۔
  ╨─────────────────────❥
★:   
عنوان: طائف کا سفر

★_ابو طالب کے انتقال کے بعد قریش کھل کر سامنے آ گئے۔ ایک روز انہوں نے آپ کو پکڑ لیا، ہر شخص آپ کو اپنی طرف کھینچنے لگا…اور کہنے لگا:
"یہ تو وہی ہے جس نے ہمارے اتنے سارے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا۔"

ایسے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تڑپ کر یکدم آگے آگئے۔ اس بھیڑ میں گھس گئے۔ کسی کو انہوں نے مار کر ہٹایا،کسی کو دھکا دیا، وہ ان لوگوں کو آپ سے ہٹاتے جاتے اور کہتے جاتے تھے:
"کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے۔" 
اس پر وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں اتنا مارا کہ وہ مرنے کے قریب ہوگئے۔ ہوش آیا تو حضور اکرم صلی اللہ ھو علیہ وسلم کی خیریت معلوم کی، پتا چلا کہ خیریت سے ہیں تو اپنی تکلیف کو بھول گئے۔

★__شوال ۱۰ نبوی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ اس سفر میں صرف آپ کے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے۔ طائف میں ثقیف کا قبیلہ آباد تھا۔ آپ یہ اندازہ کرنے کے لئے طائف تشریف لے گئے کہ قبیلہ ثقیف کے دلوں میں بھی اسلام کے لیے کچھ گنجائش ہے یا نہیں۔ آپ یہ امید بھی لے کر گئے تھے کہ ممکن ہے، یہ لوگ مسلمان ہو جائیں اور آپ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔
طائف پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے اس قبیلے کے سرداروں کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ یہ تین بھائی تھے۔ ایک کا نام عبدیالیل تھا۔ دوسرے کا نام مسعود تھا۔ تیسرے کا نام حبیب تھا۔ ان تینوں کے بارے میں پوری طرح وضاحت نہیں ملتی کہ یہ بعد میں مسلمان ہوگئے تھے یا نہیں۔
بہر حال! آپ نے ان تینوں سے ملاقات کی۔ اپنے آنے کا مقصد بتایا،اسلام کے بارے میں بتایا، انہیں اسلام کی دعوت دینے کے ساتھ مخالفوں کے مقابلے میں ساتھ دینے کی دعوت دی۔

★_ ان میں سے ایک نے کہا:
"کیا وہ تم ہی ہو جسے خدا نے بھیجا ہے؟" ساتھ ہی دوسرے نے کہا:
" تمارے علاوہ خدا کو رسول بنانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا تھا؟"اس کے ساتھ ہیں تیسرا بول اٹھا:
"خدا کی قسم! میں تم سے کوئی بات چیت نہیں کروں گا، کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو تمہارے ساتھ بات چیت کرنا بہت خطرناک ہے(یہ اس نے اس لیے کہا تھا کی وہ لوگ جانتے تھے، کسی نبی کے ساتھ بحث کرنا بہت خطرناک ہے) اور اگر تم نبی نہیں ہو تو تم جیسے آدمی سے بات کرنا زیب نہیں دیتا۔"
 ★_ آپ ان سے مایوس ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ان تینوں نے اپنے یہاں کے اوباش لوگوں کو اور اپنے غلاموں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ آپ کے گرد جمع ہوگئے۔ راستے میں بھی دونوں طرف لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جب آپ ان کے درمیان سے گزرے تو وہ بد بخت ترین لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسانے لگے۔ یہاں تک کہ آپ جو قدم اٹھاتے،وہ اس پر پتھر مارتے۔ آپ کے دونوں پاؤں لہولہان ہو گئے۔ آپ کے جوتے خون سے بھر گئے۔ جب چاروں طرف پتھر مارے گئے تو تکلیف کی شدت سے آپ بیٹھ گئے… ان بدبخت اوباشوں نے آپ کی بغلوں میں بازو ڈال کر آپ کو کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا… جونہی آپ نے چلنے کے لئے قدم اٹھائے، وہ پھر پتھر برسانے لگے۔
ساتھ میں وہ ہنس رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔

★__زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا یہ حال تھا کہ وہ آپ کو پتھروں سے بچانے کے لئے خود کو ان کے سامنے کر رہے تھے، اس طرح وہ بھی لہو لہان ہو گئے، لیکن اس حالت میں بھی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر تھی، اپنی کوئی پروا نہیں تھی۔ ان کے اتنے زخم آئے کہ سر پھٹ گیا۔

★_آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بستی سے نکل کر ایک باغ میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ان بدبخت ترین لوگوں سے چھٹکارا ملا۔ آپ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اس وقت تک زخموں سے بالکل چور ہو چکے تھےاور بدن لہو لہان تھے۔ آپ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی:
اے اللہ! میں اپنی کمزوری، لا چاری اور بے بسی کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا ساتھی ہے اور تو ہی میرا رب ہے اور میں تجھ ہی پر بھروسہ کرتا ہوں... اگر مجھ پر تیرا غضب اور غصہ نہیں ہے تو مجھے کسی کی پروا نہیں۔"

★_اُسی وقت اچانک آپ نے دیکھا کہ وہاں باغ کے مالک عتبہ اور شیبہ بھی موجود ہیں۔وہ بھی دیکھ چکے تھے کہ طائف کے بدمعاشوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ انہیں دیکھتے ہی آپ اٹھ کھڑے ہوئے، کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ وہ دونوں اللہ کے دین کے دشمن ہیں۔ ادھر ان دونوں کو آپ کی حالت پر رحم آگیا۔ انہوں نے فوراً اپنی نصرانی غلام کو پکارا۔ اس کا نام عداس تھا۔ عداس حاضر ہوا تو انہوں نے اسے حکم دیا:
اس بیل سے انگور کا خوشہ توڑو اور ان کے سامنے رکھ دو۔"
 ★_عداس نے حکم کی تعمیل کی۔ انگور آپ کو پیش کیے۔ آپ نے جب انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو فرمایا:
"بسم اللہ!"
عداس نے آپ کے منہ سے بسم اللہ سنا تو اس نے اپنے آپ سے کہا: "اس علاقے کے لوگ تو ایسا نہیں کہتے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "تم کس علاقے کے رہنے والے ہو،تمہارا دین کیا ہے؟"
عداس نے بتایا کہ وہ نصرانی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے اس کے منہ سے نینویٰ کا نام سن کر آپ نے فرمایا:
" تم تو یونس (علیہ السلام) کے ہم وطن ہو جو متی کے بیٹے تھے۔"

★__عداس بہت حیران ہوا،بولا:
"آپ کو یونس بن متی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا، خدا کی قسم جب میں نینویٰ سے نکلا تھا تو وہاں دس آدمی بھی ایسے نہیں تھے جو یہ جانتے ہوں کہ یونس بن متی کون تھے۔ اس لیے آپ کو یونس بن متی کے بارے میں کیسے معلوم ہو گیا؟"
اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وہ میرے بھائی تھے،اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالٰی ہی نے مجھے ان کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی قوم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔"
آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سنتے ہی عداس فوراً آپ کے نزدیک آگیا اور آپ کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔
باغ کے مالک عتبہ اور شیبہ دور کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے انہوں نے عداس کو آپ کے قدم چومتے دیکھا تو میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:
"تمہارے اس غلام کو تو اس شخص نے گمراہ کردیا۔"

★_پھر عداس ان کی طرف آیاتو ایک نے اس سے کہا:
"تیرا ناس ہو،تجھے کیا ہوگیا تھا کہ تو اس کے ہاتھ اور پیر چھونے لگا تھا۔"
اس پر عداس بولا:
"میرے آقا! اس شخص سے بہتر انسان پوری زمین پر نہیں ہوسکتا، اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جو کوئی نبی بتا سکتا ہے۔"
یہ سن کر عتبہ نے فوراً کہا:
"تیرا برا ہو،اپنے دین سے ہرگز مت پھرنا۔"
"_ان عداس کے بارے میں آتا ہے کہ یہ مسلمان ہوگئے تھے۔

★__ عتبہ اور شیبہ کے باغ سے نکل کر آپ قرن ثعالب کے مقام پر پہنچے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے سر اٹھایا تو ایک بدلی آپ پر سایہ کئے نظرآئی۔ اس بدلی میں آپ کو جبرئیل علیہ السلام نظر آئے،انہوں نے آپ سے کہا:
"آپ نے اپنی قوم یعنی بنی ثقیف کو جو کہا اور انہوں نے جو جواب دیا، اس کو اللہ تعالیٰ نے سُن لیا ہے اور مجھے پہاڑوں کے نگراں کے ساتھ بھیجا ہے، اس لئے بنی ثقیف کے بارے میں جو چاہیں،اس فرشتے کو حکم دیں۔"
اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! اگر آپ چاہیں تو میں ان پہاڑوں کے درمیان اس قوم کو کچل دوں یا انہیں زمین میں دھنسا کر ان کے اوپر پہاڑ گرا دوں۔"
 ╨─────────────────────❥

عنوان: جنات سے ملاقات★_

★_پہاڑوں کے فرشتے کی بات کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا:
’’نہیں! مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالی ان کی اولاد میں ضرور ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ تعالی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹہرائے گے۔‘‘
اس پر پہاڑوں کے فرشتے نے جواب دیا:
’’اللہ تعالی نے جیسا آپﷺ کو نام دیا ہے آپﷺ حقیقت میں رؤف و رحیم ہیں یعنی بہت معاف کرنے والے اور بہت رحم کرنے والے ہیں۔‘‘

★__طائف کے اسی سفر سے واپسی پر ۹ جنوں کا آپﷺ کے پاس سے گزر ہوا۔وہ نصیبین کے رہنے والے تھے۔ یہ شام کے ایک شہر کا نام ہے۔آپﷺ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ جنات نے آپﷺ کی قرات کی آواز سنی تو اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ پہلے وہ یہودی تھے۔
طائف سے واپسی پر آپﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو حرم میں آئے اور بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ اس کے بعد گھر تشریف لے گئے۔
ادھر ۹ جن جب اپنی قوم میں گئے تو انہوں نے باقی جنوں کو آپﷺ کے بارے میں بتایا،چنانچہ وہ سب کے سب مکہ پہنچے۔ انہوں نے حجون کے مقام پر قیام کیا اور ایک جن کو آپﷺ کی خدمت میں بھیجا ۔اس نے آپﷺ سے عرض کیا:
’’میری قوم حجون کے مقام پر ٹھہری ہوئی ہے آپﷺ وہاں تشریف لے چلیے۔‘‘

★__آپﷺ نے اس سے وعدہ فرمایا کہ آپﷺ رات میں کسی وقت حجون آیئں گے۔ حجون مکہ کے ایک قبرستان کا نام تھا۔ رات کے وقت آپﷺ وہاں پہنچے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ آپﷺ کے ساتھ تھے۔ حجون پہنچ کر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گرد ایک خط کھینچ دیا اور فرمایا:
اس سے باہر مت نکلنا،اگر تم نے دائرے سے باہر قدم رکھ دیا تو قیامت کے دن تک تم مجھے نہیں دیکھ پاؤ گے اور نہ میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘
ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے ان سے یہ فرمایا:
میرے آنے تک تم اسی جگہ رہو۔تمہیں کسی چیز سے ڈر نہیں لگے گا، نہ کسی چیز کو دیکھ کر ہول محسوس ہو گا۔‘‘

★_اس کے بعد آپﷺ کچھ فاصلے پر جا کر بیٹھ گئے۔ اچانک آپﷺ کے پاس بالکل سیاہ فام لوگ آئے۔ یہ کافی تعداد میں تھے اور آپﷺ پر ہجوم کر کے ٹوٹے پڑ رہے تھے، یعنی قرآن پاک سننے کی خواہش میں ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔
اس موقع پر حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے چاہا کے آگے بڑھ کر ان لوگوں کو آپﷺ کے پاس سے ہٹا دیں، لیکن پھر انہیں آپﷺ کا ارشاد یاد آگیا اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ 

★_ادھر جنات نے آپﷺ سے کہا:
اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم جس جگہ کے رہنے والے ہیں یعنی جہاں ہمیں جانا ہے وہ جگہ دور ہے ، اس لئے ہمارے اور ہماری سواریوں کے لئے سامان سفر کا انتظام فرما دیجیے۔‘‘
جواب میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا :
ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو،جب تمہارے ہاتھوں میں پہنچے گی تو پہلے سے زیادہ پر گوشت ہو جائے گی اور یہ لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔‘‘
اس طرح جنات آپﷺ پر ایمان لائے۔
 ╨─────────────────────❥
 *★_: طفیل بن عمرو دوسی ؓ کا قبول اسلام_,*

★_طفیل بن عمرو دوسیؓ ایک اونچے درجے کے شاعر تھے۔ یہ ایک مرتبہ مکہ آئے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر قریش ان کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے طفیل بن عمرو دوسیؓ سے کہا:
آپ ہمارے درمیان ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ ہمارے درمیان اس شخص نے اپنا معاملہ بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس نے ہمارا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ہم میں پھوٹ ڈال دی ہے۔اس کی باتوں میں جادو جیسا اثر ہے،اس نے دو سگے بھائیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ اب ہمیں آپ کی اور آپ کی قوم کی طرف سے بھی پریشانی لاحق ہو گئی ہے،اس لئے اب آپ نہ تو اس سے کوئی بات کریں اور نہ اس کی کوئے بات سنیں‘‘۔
انہوں نے ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے
’’نہ میں محمد کی کوئی بات سنوں گا اور نہ ان سے کوئی بات کروں گا۔‘‘

★_دوسرے دن طفیل بن عمرو دوسی ؓ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے کانوں میں کپڑا ٹھونس لیاکہ کہیں ان کی کوئے بات ان کے کانوں میں نہ پہنچ جائے۔ آپﷺ اس وقت کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔یہ آپﷺ کے قریب ہی کھڑے ہو گئے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ آپﷺ کا کچھ کلام ان کے کانوں میں پڑ جائے۔چنانچہ انہوں نے ایک نہایت پاکیزہ اور خوب صورت کلام سنا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگے: ’’میں اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہوں۔اس لئے ان صاحب کی بات سن لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر یہ اچھی بات کہتے ہیں تو میں قبول کر لو ں گا اور بری بات ہوئی تو چھوڑ دوں گا ۔‘‘

★_کچھ دیر بعد آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلے تو انہوں نے کہا :
اے محمد! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے، اسی لئے میں آپ کی باتوں سے بچنے کے لئے کانوں میں کپڑا ٹھونس لیا تھا، مگر آپ اپنی بات میرے سامنے پیش کریں۔‘‘
یہ سن کر آپﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت فرمائے،قرآن سنکر طفیل بن عمرو دوسی ؓ بول اٹھے:
اللہ کی قسم میں نے اس سے اچھا کلام کبھی نہیں سنا‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گئے۔ پھر انہیوں نے عرض کیا :
اے اللہ کے نبی ﷺ! میں اپنی قوم میں اونچی حیثیت کا مالک ہوں،وہ سب میری بات سنتے ہیں۔۔۔مانتے ہیں، میں واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دوں گا۔اس لئے آپﷺ میرے لئے دعا فرمائیں۔‘‘
اس پر آپﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی۔

★_پھر وہ واپس روانہ ہو گئے۔ اپنی بستی کے قریب پہنچے تو وہاں انہیں پانی کے پاس قافے کھڑے نظر آئے۔ عین اس وقت ان کی دونوں آنکھوں کے درمیاں چراغ کی مانند ایک نور پیدا ہو گیا اور ایسا آپﷺ کی دعا کی وجہ سے ہوا تھا۔ رات بھی اندھیری تھی۔ اس وقت انہوں نے دعا کی:
’’ اے اللہ ! اس نور کو میرے چہرے کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا فرما دے۔ مجھے ڈر ہے، میری قوم کے لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ دین بدلنے کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ گئی -

"_چنانچہ اسی وقت وہ نور ان کے چہرے سے ان کے کوڑے میں آگیا -اب ان کا کوڑا کسی قندیل کی طرح روشن ہوگیا -
اسی بنیاد پر حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کو ذی النور کہا جانے لگا...یعنی نور والے_,"
: ★_ وہ گھر پہنچے تو ان کے والد ان کے پاس آئے-انہوں نے ان سے کہا: 
آپ میرے پاس نہ آئیں،اب میرا آپ سے کوئی کوئی تعلق نہیں اور نہ آپ کا مجھ سے کوئی تعلق رہ گیا ہے -
یہ سن کر ان کے والد نے پوچھا: 
کیوں بیٹے! یہ کیا بات ہوئی؟ 
انہوں نے جواب دیا: 
میں مسلمان ہوگیاہوں،میں نے محمدﷺ کا دین قبول کرلیاہے-یہ سنتے ہی ان کے والد بول اٹھے: 
بیٹے جو تمہارا دین ہے،وہی میرا دین ہے -
تب طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے انہیں غسل کرنے اور پاک کپڑے پہننے کے لیے کہا-جب وہ ایسا کرچکے تو ان پر اسلام پیش کیا -وہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے -پھر ان کی بیوی ان کے پاس آئیں-انہوں نے بھي اسلام قبول کرلیا -
اب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں پر اسلام پیش کیا.....وہ لوگ بگڑ گئے -

★_ان کا یہ حال دیکھ کر حضرت طفیل بن عمرو رضی الله عنہ پھر حضور نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے عرض کیا: 
اے اللّٰہ کے رسول!قومِ دوس مجھ پر غالب آگئی،اس لئے آپ ان کےلئے دعا فرمائیے -
آپﷺ نے دعا فرمائی: 
اے الله! قوم دوس کو ہدایت عطا فرما،انہیں دین کی طرف لے آ -

★_حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ پھر اپنے لوگوں میں گئے-انہوں نے پھر دین اسلام کی تبلیغ شروع کی....وہ مسلسل انہیں تبلیغ کرتے رہے، یہانتک کہ حضور نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے-آخر وہ لوگ ایمان لے آئے-حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ انہیں ساتھ لے کر مدینہ آئے،اس وقت تک غزوہ بدر، غزوہ احد، اور غزوہ خندق ہوچکے تھے اور نبی کریم ﷺ خیبر کے مقام پر موجود تھے -حضرت طفیل بن عمرو دوسی کے ساتھ ستر، اسی گھرانوں کے لوگ تھے،ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے-چونکہ یہ لوگ وہاں غزوہ خیبر کے وقت پہنچے تھے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے تمام مسلمانوں کے ساتھ ان کا بھی حصہ نکالا-اگرچہ وہ جنگ میں شریک نہيں ہوئے تھے ۔
 ╨─────────────────────❥
*★_:     معراج کا سفر
★_طائف کے سفر کے بعد معراج کا واقعہ پیش آیا جو حضور نبی کریم ﷺ پر اللّٰہ تعالیٰ کا خاص انعام اور نبوت کا بہت بڑا معجزہ ہے۔یہ واقعہ اس طرح ہواکہ حضور ﷺ مکہ معظمہ میں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر رات کے آرام فرمارہےتھے کہ الله تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا وہ آپ کو مسجد الحرام لے گئے پھر وہاں سے براق پر سوار کرکے مسجد اقصیٰ لےگئے جہاں تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ کی اقتداء میں نماز اداکی۔اس کے بعد آپ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور آپ الله تعالٰی سے ہم کلام ہوئے ۔اس سفر کی کچھ اہم تفصیلات یہ ہیں:

★_حضور نبی کریم ﷺ بیت المقدس پہنچنے سے پہلے حضرت جبرئیل کے ساتھ چلے جارہےتھے کہ راستے میں ایک سرسبز علاقے سے گزر ہو۱۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے کہا: 
یہاں اترکر دو رکعت نماز پڑھ لیجیے ۔
آپ نے براق سے اترکر دو رکعتیں ادا کیں ۔جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا،آپ کو معلوم ہے یہ کونسا مقام ہے ۔آپ نے فرمایا نہیں۔تب جبرئیل علیہ السلام نے کہا: 
یہ آپ نے طیبہ یعنی مدینہ منورہ میں نماز پڑھی ہے اور یہی آپ کی ہجرت گاہ ہے ۔(یعنی مکہ سے ہجرت کرکے آپ یہیں آنا ہے) 

★__اس کے بعد براق پھر روانہ ہوا۔اس کا ہر قدم جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں پڑتا تھا۔ایک اور مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ یہاں اترکر نماز پڑھیے۔آپ نے وہاں بھی دو رکعت اداکی۔انہوں نے بتایا: آپ نے مدین میں نماز پڑھی ہے۔
اس بستی کا نام مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین کے نام پر رکھاگیا تھا۔
انہوں نے اسی مقام پر قیام کیا تھا۔اس کے بعد وہاں آبادی ہوگئ تھی۔حضرت شعیب علیہ السلام اسی بستی میں مبعوث ہوئے تھے۔

★_اس کے بعد پھر آپ اسی براق پر سوار ہوئے۔ایک مقام پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے کہا،اب یہاں اتر کر نماز پڑھیے؛ آپ یہاں اترکر نماز پڑھیے؛ آپ دو رکعت نماز ادا کی۔جبرئیل علیہ السلام نے بتایا، یہ بیت اللحم ہے ۔
بیت اللحم بیت المقدس کے پاس ایک بستی ہے جہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔
اسی سفر میں آپ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کا حال دیکھا۔یعنی آپ کو آخرت کی مثالی شکل کے ذریعے مجاہدین کے حالات دکھائے گئے۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا :
یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہیں اللہ نے ان کی ہر نیکی کا ثواب سات سو گنا کردئے ہیں ۔
 ★_اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دنیا لائی گئی،دنیا ایک حسین و جمیل عورت کی صورت میں دکھائی گئی۔اس عورت نے آپ سے کہا :
اے محمد! میری طرف دیکھیے میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں؛ 
آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا :
یہ کون ہے؟ 
انہوں نے بتایا :
یہ دنیا ہے اگر آپ اس طرف توجہ دیتے تو آپ کی امت آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو اختیار کرلیتی۔
اس کے بعد آپ نے راستے میں ایک بڑھیا کو دیکھا آپ نے پوچھا :
یہ کون ہے؟
جبرئیل علیہ السلام نے بتایا :
یہ دنیا ہی ہے،دنیا کی عمر کا اتنا حصہ ہی باقی رہ گیا ہے جتنا کہ اس بڑھیا کا ہوسکتا ہے۔

★_اس کے بعد امانت میں خیانت کرنے والے فرض نماز کو چھوڑنے والے،زکوۃ ادا نہ کرنے والے، بدکاری کرنے والے، رہزنی کرنے والے،( ڈاکہ ڈالنے والے )دکھائے گئے ۔ان کے بھیانک انجام آپ کو دکھائے گئے۔
امانت میں خیانت کرنے والے اپنے بوجھ میں اضافہ کیے جارہے تھے اور بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔فرض نمازوں کو چھوڑنے والوں کے سر کو کچلا جارہا تھا۔ان کے سر ریزہ ریزہ ہو رہے تھے اور پھر اصل حالت میں آجاتے تھے کچلنے کا عمل پھر شروع ہوجاتا تھا غرض انہیں ذرہ بھر مہلت نہیں دی جارہی تھی۔

★_اپنے مال میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام آپ نے دیکھا کہ ان کے ستر پر آگے اور پیچھے پھٹے ہوئے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے وہ اونٹوں اور بکریوں کی طرح چررہے تھے ..... اور زقوم درخت کے کڑوے پتے اور کانٹے کھا رہے تھے، زقوم درخت کے بارے میں آتا ہے کہ اس قدر کڑوا اور زہریلا ہے کہ اس کی کڑواہٹ کا مقابلہ دنیا کا کوئی درخت نہیں کرسکتا اس کا ایک ذرہ دنیا کے میٹھے دریاؤں میں ڈال دیا جائے تو تمام دریا کڑوے ہو جائیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دنیا میں مذاق اڑانے والوں کو بھی یہ درخت کھلایا جائے گا۔اس درخت کے پتوں اور کانٹوں کے علاوہ وہ لوگ جہنم کے پتھر چباتے نظر آئے۔

★_بدکاروں کا انجام آپ نے دیکھا کہ ان کے سامنے دسترخوان لگے ہوئے تھےان دسترخوانوں میں سے کچھ نہایت بہترین بھنا ہوا گوشت تھا، کچھ میں بالکل سڑا ہوا گوشت تھا ۔وہ اس بہترین گوشت کو چھوڑ کر سڑا ہوا بدبودار گوشت کھا رہے تھے اور بہترین گوشت نہیں کھا رہے تھے۔
ان کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتلایا
"یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس پاک اور حلال عورتیں تھیں لیکن وہ ان کو چھوڑ کر بدکار عورتوں کے پاس جاتے تھے، یا یہ وہ عورتیں تھیں جن کے خاوند تھے،لیکن وہ ان کو چھوڑ کر بدکار مردوں کے پاس جاتی تھیں۔"

★_سود کھانے والوں کا انجام آپ کو یہ دکھایا گیا کہ وہ خون کے دریا میں تیر رہے تھے اور پتھر نگل رہے تھے۔
آپ کو ایسے عالموں کا انجام دکھایا گیا جو لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے اور خود بے عمل تھے،ان کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے،اور جیسے ہی کٹ جاتے تھے،فوراً پیدا ہو جاتے تھے اور پھر اسی طرح کاٹے جانے کا عمل شروع ہو جاتا تھا۔یعنی انہیں ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں مل رہی تھی۔
چغل خوروں کے ناخن تانبےکےتھے اور وہ ان سے اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے تھے۔
 مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کی نماز میں امامت فرمانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی، جلیل القدر انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کرائی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کا حال دکھایا گیا۔ آپ کا گزر جنت کی ایک وادی سے ہوا۔ اس سے نہایت بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی اور مشک سے زیادہ خوشبودار ٹھنڈی ہوا آرہی تھی اور ایک بہترین آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ آواز کہہ رہی تھی:
"میرے عشرت کدے میں ریشم،موتی،سونا،چاندی،مونگے،شہد، دودھ اور شراب کے جام و کٹورے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔"
اس پر اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں؛
"ہر وہ مؤمن مرد اور عورت تجھ میں داخل ہوگا جو مجھ پر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھتا ہو،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراتا ہوگا،،،، نہ مجھ سے بڑھ کر یا میرے برابر کسی کو مانتا ہوگا۔ سن لے،، جس کے دل میں میرا ڈر ہے، اس کا دل میرے خوف کی وجہ سے محفوظ رہتا ہے، جو مجھ سے مانگتا ہے میں اسے محروم نہیں رکھوں گا، جو مجھے قرض دیتا ہے یعنی نیک عمل کرتاہے اور میری راہ میں خرچ کرتا ہے میں اسے بدلہ دوں گا، جو مجھ پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے اس کی جمع پونجی کو اس کی ضرورت کے لئے پورا کرتا رہوں گا، میں ہی سچا معبود ہوں، میرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میرا وعدہ سچا ہے، غلط نہیں ہوتا، مؤمن کی نجات یقینی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی برکت دینے والا ہے اور سب سے بہترین خالق یعنی پیدا کرنے والا ہے۔"
یہ سن کر میں نے کہا:
"بس اے میرے پروردگار میں خوش اور مطمئن ہوں۔"

★_دوزخ کا حال یہ دکھایا گیاکہ آپ وادی میں پہنچے۔وہاں آپ نے ایک بہت بدنما آواز سنی۔ آپ نے بدبو بھی محسوس کی۔ آپ نے پوچھا: 
" جبریئل! یہ کیا ہے؟ "
انہوں نے بتایا: 
یہ جہنم کی آواز ہے، یہ کہہ رہی ہے " اے میرے پروردگار!مجھے وہ غذا دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ میری زنجیریں اور بیڑیاں، میری آگ، میرے شعلے، گرمی، گرم ہوا، پیپ اور عذاب کے دوسرے ہیبت ناک سامان بہت بڑھ گئے ہیں، میری گہرائی اور اس گہرائی میں آگ کی تپش یعنی میرا پیٹ اور اس کی بھوک بہت زیادہ ہے، اس لیے مجھے میری وہ خوراک دے جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔"
جہنم کی اس پکار کے جواب میں الله تعالٰی نے فرمایا: 
"ہر کافر اور مشرک، بدطینت، بدمعاش اور خبیث مرد اور عورت تیری خوراک ہیں۔"
یہ سن کر جہنم نے جواب دیا: 
بس! میں خوش ہوگئی۔"

★_اسی سفر میں آپ کو دجال کی صورت دکھائی گئی۔ اس کی شکل عبدالعزی ابن قطن جیسی تھی۔
یہ عبدالعزٰی جاہلیت کے زمانے میں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہی مرگیا تھا۔

★_آپ کو وہاں کچھ لوگ دکھائے گئے۔ان کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پتھروں کی طرح کے بڑے بڑےانگارے تھے۔ یعنی اتنے بڑے بڑے تھے کہ ایک ایک انگارے میں ان کا ہاتھ بھرگیا تھا۔ وہ لوگ انگاروں کو اپنے منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ نے یہ منظر دیکھ کر جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: 
" جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ " جواب میں انہوں نے بتایا: 
"یہ وہ لوگ ہیں جو زبردستی اور ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے تھے۔"
اس کے بعد آپ نے کچھ لوگ دیکھے، جن کے سامنے ایک طرف بہترین قسم کا گوشت رکھا تھا۔ دوسری طرف سڑا ہوا بدبودار گوشت تھا۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر بدبودار گوشت کھا رہے تھے۔ آپ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا: 
" یہ کون لوگ ہے۔"
انہوں نے بتایا: 
" یہ وہ لوگ ہیں جن کو الله تعالٰی نے پاک دامن عورتیں یعنی بیویاں دی دی تھیں مگر یہ انہیں چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔یا وہ ایسی عورتیں ہیں جو اپنے خاوند کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے پاس جاتی تھیں۔ "

★_آپ نے وہاں ایسے لوگ دیکھے جو اپنے ہی جسم سے پہلوﺅں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ان سے کہا جارہا تھا:
" یہ بھی اسی طرح کھاؤ جس طرح تم اپنے بھائی کا گوشت کھایا کرتے تھے۔"
آپ نے دریافت فرمایا: 
" یہ کون لوگ ہے؟ "
جبرئیل علیہ السلام نے کہا: 
" یہ وہ لوگ ہے جو ایک دوسرے پر آوازے کسا کرتے تھے۔": جہنم دکھانے کے بعد آپ کو جنت دکھائی گئ۔آپ نے وہاں موتیوں کے بنے ہوئے گنبد دیکھے۔وہاں کی مٹی مشک کی تھی۔آپ نے جنت میں انار دیکھے، وہ بڑے بڑے ڈولوں جتنے تھے۔اور جنت کے پرندے اونٹوں جتنے بڑے تھے۔ساتوں آسمانوں کی سیر کی سیر کے بعد آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، یہ بیری کا ایک درخت ہے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں ایک چشمہ دیکھا۔اس سے دو نہریں پھوٹ رہی تھیں۔ایک کا نام کوثر اور دوسری کا نام رحمت۔آپ فرماتے ہیں، میں نے اس چشمے میں غسل کیا۔
ایک روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے جنت کی چار نہریں نکل رہی ہیں۔ان میں سے ایک نہر پانی کی،دوسری دودھ کی، تیسری شہد کی اور چوتھی نہر شراب کی ہے۔
اسی وقت سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ نے جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا یعنی جس شکل میں الله تعالٰی نے بنایا تھا۔ان کے چھ سو پر ہیں اور ہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے۔ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی تعداد میں گر رہے تھے کہ ان کا شمار الله ہی کو معلوم ہے۔ 
پھر ایک بدلی نے آپ کو آکر گھیر لیا۔ آپ کو اسی بدلی کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا۔جبرئیل وہی رہ گئے۔( بدلی کی جگہ بعض روایات میں ایک سیڑھی کے ذریعے اٹھانے کا ذکر بھی آیا ہے۔)یہاں آپ نے صریر اقلام( یعنی لوح محفوظ پر لکھنے والے قلموں کی سرسراہٹ )کی آوازیں سنیں۔ یہ تقدیر کے قلم تھے اور فرشتے ان سے مخلوق کی تقدیریں لکھ رہے تھے۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگےنہیں گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان سے اوپر ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عرش اعظم کے دائیں طرف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ساتویں آسمان کے اوپر گئے۔ وہاں ایک نہر پر پہنچے۔اس میں یاقوتوں، موتیوں اور زبرجد کے خیمے لگے تھے۔ اس نہر میں ایک سبز رنگ کا پرندہ تھا۔ وہ اس قدر حسین تھا کہ اس جیسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا: 
"یہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالٰی نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔"
آپ فرماتے ہیں، میں نے دیکھا، اس میں یاقوت اور زمرد کے تھالوں میں رکھے ہوئے سونے اور چاندی کے جام تیر رہے تھے۔ اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، میں نے ایک جام اٹھایا۔اس نہر سے بھر کر پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔
آپ فرماتے ہیں، جبرائیل علیہ السلام مجھے لیے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔اس کے پاس حجاب اکبر ہے۔ حجاب اکبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے کہا: 
" میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ہوگیا۔ اب آپ آگے تشریف لے جائیں۔"
آپ فرماتے ہیں، میں آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں سونے کے ایک تخت تک پہنچ گیا۔ اس پر جنت کا ریشمی قالین بچھا تھا۔اسی وقت میں نے جبرائیل علیہ السلام کی آواز سنی...وہ کہہ رہے تھے: 
" اے محمد! الله تعالٰی آپ کی تعریف فرما رہا ہے۔آپ سنیے اور اطاعت کیجئے۔آپ کلام الہیٰ سے دہشت زدہ نہ ہوں۔"
چنانچہ اس وقت میں نے حق تعالٰی کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد مجھے الله کا دیدار ہوا۔ میں فوراً سجدے میں گرگیا۔پھر الله نے مجھ پر وحی اتاری، وہ یہ تھی: 
" اے محمد! جب تک آپ جنت میں داخل نہیں ہوجائیں گے،اس وقت تک تمام نبیوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔اسی طرح جب تک آپ کی امت جنت میں داخل نہیں ہوگی، تمام امتوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔"
اس کے علاوہ الله تعالٰی نے فرمایا: 
" اے محمد!ہم نے کوثر آپ کو عطا فرما دی ہے۔اس طرح آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہوگئی ہے کہ تمام جنتی آپ کے مہمان ہوگے۔"
اس کے بعد پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔پچاس نمازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے کم کرائی گئیں۔یہاں تک کہ ان کی تعداد پانچ کردی گئ تاہم الله تعالٰی نے فرمایا: 
" اے محمد! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا ثواب دس کے برابر ہوگا اور اس طرح ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ملے گا۔آپ کی امت میں سے جو شخص بھی نیکی کا ارادہ کرے اور پھر نہ کرسکے، تو میں اس کے حق میں صرف ارادہ کرنے پر ایک نیکی لکھوں گا اور اگر اس نے وہ نیک عمل کر بھی لیا تو اسے دس نیکیوں کے برابر لکھوں گا اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دوگا اور اگر اس نے وہ بدی کرلی تو اس کے نتیجے میں ایک بدی لکھوں گا۔"
آپ فرماتے ہیں،میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: 
" صدقے کا صلہ دس گنا ہے اور قرض کا صلہ اٹھارہ گنا ہے۔"
میں نے جبرائیل سے پوچھا: 
" یہ کیا بات ہے کہ قرض دینا صدقے سے افضل ہے؟ "
جواب میں انہوں نے کہا: 
" اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل جسے صدقہ دیاجاتا ہے، وہ مانگتا ہے تو اسی وقت اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔جب کہ قرض مانگنے والا اسی وقت قرض مانگتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہ ہو۔
 ★_جہنم دکھانے کے بعد آپ کو جنت دکھائی گئ۔آپ نے وہاں موتیوں کے بنے ہوئے گنبد دیکھے۔وہاں کی مٹی مشک کی تھی۔آپ نے جنت میں انار دیکھے، وہ بڑے بڑے ڈولوں جتنے تھے۔اور جنت کے پرندے اونٹوں جتنے بڑے تھے۔ساتوں آسمانوں کی سیر کی سیر کے بعد آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، یہ بیری کا ایک درخت ہے۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں ایک چشمہ دیکھا۔اس سے دو نہریں پھوٹ رہی تھیں۔ایک کا نام کوثر اور دوسری کا نام رحمت۔آپ فرماتے ہیں، میں نے اس چشمے میں غسل کیا۔

"_ ایک روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے جنت کی چار نہریں نکل رہی ہیں۔ان میں سے ایک نہر پانی کی،دوسری دودھ کی، تیسری شہد کی اور چوتھی نہر شراب کی ہے۔
اسی وقت سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ نے جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا یعنی جس شکل میں الله تعالٰی نے بنایا تھا۔ان کے چھ سو پر ہیں اور ہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے۔ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی تعداد میں گر رہے تھے کہ ان کا شمار الله ہی کو معلوم ہے۔ 

★_پھر ایک بدلی نے آپ کو آکر گھیر لیا۔ آپ کو اسی بدلی کے ذریعے اوپر اٹھا لیا گیا۔جبرئیل وہی رہ گئے۔( بدلی کی جگہ بعض روایات میں ایک سیڑھی کے ذریعے اٹھانے کا ذکر بھی آیا ہے۔)یہاں آپ نے صریر اقلام( یعنی لوح محفوظ پر لکھنے والے قلموں کی سرسراہٹ )کی آوازیں سنیں۔ یہ تقدیر کے قلم تھے اور فرشتے ان سے مخلوق کی تقدیریں لکھ رہے تھے۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جبرئیل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ سے آگےنہیں گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان سے اوپر ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ عرش اعظم کے دائیں طرف ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ساتویں آسمان کے اوپر گئے۔ وہاں ایک نہر پر پہنچے۔اس میں یاقوتوں، موتیوں اور زبرجد کے خیمے لگے تھے۔ اس نہر میں ایک سبز رنگ کا پرندہ تھا۔ وہ اس قدر حسین تھا کہ اس جیسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا: 
"یہ نہر کوثر ہے جو اللہ تعالٰی نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔"

★_ آپ فرماتے ہیں، میں نے دیکھا، اس میں یاقوت اور زمرد کے تھالوں میں رکھے ہوئے سونے اور چاندی کے جام تیر رہے تھے۔ اس نہر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، میں نے ایک جام اٹھایا۔اس نہر سے بھر کر پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔
آپ فرماتے ہیں، جبرائیل علیہ السلام مجھے لیے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔اس کے پاس حجاب اکبر ہے۔ حجاب اکبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے کہا: 
" میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ہوگیا۔ اب آپ آگے تشریف لے جائیں۔"

★_آپ فرماتے ہیں، میں آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ میں سونے کے ایک تخت تک پہنچ گیا۔ اس پر جنت کا ریشمی قالین بچھا تھا۔اسی وقت میں نے جبرائیل علیہ السلام کی آواز سنی...وہ کہہ رہے تھے: 
" اے محمد! الله تعالٰی آپ کی تعریف فرما رہا ہے۔آپ سنیے اور اطاعت کیجئے۔آپ کلام الہیٰ سے دہشت زدہ نہ ہوں۔"
چنانچہ اس وقت میں نے حق تعالٰی کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعد مجھے الله کا دیدار ہوا۔ میں فوراً سجدے میں گرگیا۔پھر الله نے مجھ پر وحی اتاری، وہ یہ تھی: 
" اے محمد! جب تک آپ جنت میں داخل نہیں ہوجائیں گے،اس وقت تک تمام نبیوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔اسی طرح جب تک آپ کی امت جنت میں داخل نہیں ہوگی، تمام امتوں کے لیے جنت حرام رہے گی۔"
اس کے علاوہ الله تعالٰی نے فرمایا: 
" اے محمد!ہم نے کوثر آپ کو عطا فرما دی ہے۔اس طرح آپ کو یہ خصوصیت حاصل ہوگئی ہے کہ تمام جنتی آپ کے مہمان ہوگے۔"
: ★__اس کے بعد پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔پچاس نمازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے کم کرائی گئیں۔یہاں تک کہ ان کی تعداد پانچ کردی گئ تاہم الله تعالٰی نے فرمایا: 
" اے محمد! ہر روز یہ پانچ نمازیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا ثواب دس کے برابر ہوگا اور اس طرح ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ملے گا۔آپ کی امت میں سے جو شخص بھی نیکی کا ارادہ کرے اور پھر نہ کرسکے، تو میں اس کے حق میں صرف ارادہ کرنے پر ایک نیکی لکھوں گا اور اگر اس نے وہ نیک عمل کر بھی لیا تو اسے دس نیکیوں کے برابر لکھوں گا اور جو شخص کسی بدی کا ارادہ کرے اور پھر اس کو نہ کرے تو بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دوگا اور اگر اس نے وہ بدی کرلی تو اس کے نتیجے میں ایک بدی لکھوں گا۔"

★_آپ فرماتے ہیں،میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا: 
" صدقے کا صلہ دس گنا ہے اور قرض کا صلہ اٹھارہ گنا ہے۔"
میں نے جبرائیل سے پوچھا: 
" یہ کیا بات ہے کہ قرض دینا صدقے سے افضل ہے؟ "
جواب میں انہوں نے کہا: 
" اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل جسے صدقہ دیاجاتا ہے، وہ مانگتا ہے تو اسی وقت اس کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔جب کہ قرض مانگنے والا اسی وقت قرض مانگتا ہے جب اس کے پاس کچھ نہ ہو۔

★_حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے دوران جہنم کے داروغہ مالک کو دیکھا۔ وہ انتہائی سخت طبیعت کا فرشتہ ہے۔ اس کے چہرہ پر غصہ اور غضب رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کیا۔ داروغہ نے سلام کا جواب دیا۔ خوش آمدید بھی کہا،لیکن مسکرایا نہیں۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا؛
"یہ کیا بات ہے کہ میں آسمان والوں میں سے جس سے بھی ملا،اس نے مسکرا کر میرا استقبال کیا، مگر داروغہ جہنم نے مسکرا کر بات نہیں کی۔"
اس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
"یہ جہنم کا داروغہ ہے،جب سے پیدا ہوا ہے،آج تک کبھی نہیں ہنسا، اگر یہ ہنس سکتا تو صرف آپ ہی کے لیے ہنستا۔"

★_یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جاگنے کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی....بعض لوگ معراج کو صرف ایک خواب کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف روح گئی تھی جسم ساتھ نہیں گیا تھا.... اگر یہ دونوں باتیں ہوتیں تو پھر معراج کے واقعے کی بھلا کیا خصوصیت تھی۔خواب میں تو عام آدمی بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے....معراج کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سمیت آسمانوں پر تشریف لے گئے....لہذا گمراہ لوگوں کے بہکاوے میں مت آئیں۔اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر یہ صرف خواب ہوتا، یا معراج صرف روح کو ہوتی تو مشرکین مکہ مزاق نہ اڑاتے۔جب کہ انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور مزاق بھی اڑایا۔خواب میں دیکھے کسی واقعے پر بھلا کوئی کیوں مزاق اڑاتا۔

★_معراج کے بارے میں اس مسئلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔۔۔۔اس بارے میں دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں۔اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ ہم خاموشی اختیار کریں،کیونکہ یہ ہمارے اعتقاد کا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہم سے قیامت کے دن یہ سوال پوچھا جائے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے بعد آسمانوں سے واپس زمین پر تشریف لے آئے۔جب اپنے بستر پر پہنچے تو وہ اسی طرح گرم تھا جس طرح چھوڑ کر گئے تھے۔ یعنی معراج کا یہ عجیب واقعہ اور اتنا طویل سفر صرف ایک لمحے میں پورا ہوگیا، یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دوران کائنات کے وقت کی رفتار کو روک دیا جس کے باعث یہ معجزہ نہایت تھوڑے وقت میں مکمل ہوگیا۔
╨─────────────────────❥
*★_ نماز کی ابتداء _,★*

★_معراج کی رات کے بعد جب صبح ہوئی اور سورج ڈھل گیا تو جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔انہوں نے امامت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تاکہ آپ کو نمازوں کے اوقات اور نمازوں کی کیفیت معلوم ہوجائے۔معراج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح شام دو دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور رات میں قیام کرتے تھے،لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ فرض نمازوں کی کیفیت اس وقت تک معلوم نہیں تھی۔
جبرئیل علیہ السلام کی آمد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ سب لوگ جمع ہوجائیں..... چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کی اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔

★_ یہ ظہر کی نماز تھی....اسی روز اس کا نام ظہر رکھا گیا۔اس لیے کہ یہ پہلی نماز تھی جس کی کیفیت ظاہر کی گئی تھی-چونکہ دوپہر کو عربی میں ظہیرہ کہتے ہیں اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے یہ نام اس بنیاد پر رکھا گیا ہو،کیونکہ یہ نماز دوپہر کو پڑھی جاتی ہے-اس نماز میں آپ نے چار رکعت پڑھائی اور قرآن کریم آواز سے نہیں پڑھا - 
اسی طرح عصر کا وقت ہوا تو عصر کی نماز ادا کی گئی-سورج غروب ہوا تو مغرب کی نماز پڑھی گئی-یہ تین رکعت کی نماز تھی، اس میں پہلی دو رکعتوں میں آواز سے قرأت کی گئی-آخری رکعت میں قرأت بلند آواز سے نہیں کی گئی-اس نماز میں بھی ظہر اور عصر کی طرح حضرت جبریل علیہ السلام آگے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے اور صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں- اس کا مطلب ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقتدی بھی تھے اور امام بھی- 
رہا یہ سوال کہ یہ نماز کہاں پڑھی گئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں پڑھی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، کیونکہ اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا-حضور صلی اللّہ علیہ وسلم جب تک مکہ معظمہ میں رہے اسی کی سمت منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے-

★_جبرائیل علیہ سلام نے پہلے دن نمازوں کے اول وقت میں یہ نماز پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ معلوم ہوجائے،نمازوں کے اوقات کہاں سے کہاں تک ہیں- 
اس طرح یہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں اور ان کے پڑھنے کا طریقہ بھی آسمان سے نازل ہوا-آج کچھ لوگ کہتے نظر آتے ہیں... نماز کا کوئی طریقہ قرآن سے ثابت نہیں...لہٰذا نماز کسی بھی طریقے سے پڑھی جاسکتی ہے...ہم تو بس قرآن کو مانتے ہیں...ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں...نماز کا طریقہ بھی آسمان سے ہی نازل ہوا اور ہمیں نماز اسی طرح پڑھنا ہوں گی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پڑھتے رہے-

"_یہ بھی ثابت ہوگیا کہ فرض نمازیں پانچ ہیں،حدیث کے منکر پانچ نمازوں کا انکار کرتے ہیں وہ صرف تین فرض نمازوں کے قائل ہیں- لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں صرف تین نمازوں کا ذکر آیا ہے-حالانکہ اول تو ان کی یہ بات ہے ہی جھوٹ دوسرے یہ کہ جب احادیث سے پانچ نمازیں ثابت ہیں تو کسی مسلمان کے لیے ان سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی- 

★_پانچ نمازوں کی حکمت کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے پانچ حواس یعنی پانچ حسیں رکھیں ہیں-انسان گناہ بھی انہی حسوں کے ذریعے سے کرتا ہے-(یعنی آنکھ، کان، ناک، منہ، اعضاء و جوارح یعنی ہاتھ پاؤں) لہٰذا نمازیں بھی پانچ مقرر کی گئیں تاکہ ان پانچوں حواسوں کے ذریعے دن اور رات میں جو گناہ انسان سے ہوجائیں، وہ ان پانچوں نمازوں کے ذریعے دھل جائیں اس کے علاوہ بھی بے شمار حکمتیں ہیں-
یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج کے واقعے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر جانا ثابت کرتا ہے کہ آسمان حقیقت میں موجود ہیں- 

★_موجودہ ترقی یافتہ سائنس کا یہ نظریہ ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ کائنات ایک عظیم خلا ہے-انسانی نگاہ جہاں تک جاکر رک جاتی ہے، وہاں اس خلا کی مختلف روشنیوں کے پیچھے ایک نیلگوں حد نظر آتی ہے-اسی نیلگوں حد کو انسان آسمان کہتا ہے- 
لیکن اسلامی تعلیم نے ہمیں بتایا ہے کہ آسمان موجود ہیں اور آسمان اسی ترتیب سے موجود ہیں،جو قرآن اور حدیث نے بتائی ہے-قرآن مجید کی بہت سی آیات میں آسمان کا ذکر ہے بعض آیات میں ساتوں آسمان کا ذکر ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان ایک اٹل حقیقت ہے نہ کہ نظر کا دھوکہ- 
الحمد للہ معراج کابیان تکمیل کو پہنچا-اس کے بعد سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم بہ قدم میں ہم معراج کے بعد کے واقعات بیان کریں گے-ان شاءاللہ-
╨─────────────────────❥

*"_عنوان: کامیابی کی ابتدا_,★*

★_ حج کے دنوں میں مکہ میں دور دور سے لوگ حج کرنے آتے تھے، یہ حج اسلامی طریقے سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں کفریہ اور شرکیہ باتیں شامل کر لی گئی تھیں، ان دنوں یہاں میلے بھی لگتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسلام کی دعوت دینے کے لیے ان میلوں میں بھی جاتے تھے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں پہنچ کر لوگوں سے فرماتے تھے۔
کیا کوئی شخص اپنی قوم کی حمایت مجھے پیش کر سکتا ہے،کیونکہ قریش کے لوگ مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں۔

★_نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم منی کے میدان میں تشریف لے جاتے۔لوگوں کے ٹھکانے پر جاتے اور ان سے فرماتے۔
لوگو،اللہ تعالٰی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاقب کرتے ہوئے ابو لہب بھی وہاں تک پہنچ جاتا اور ان لوگوں سے بلند آواز میں کہتا۔
لوگو، یہ شخص چاہتا ہے تم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دو۔

★_نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ذو الحجاز کے میلے میں تشریف لے جاتے اور لوگوں سے فرماتے۔
لوگو!لا الہ الا اللہ کہہ کر بھلائی کو حاصل کرو۔
ابو لہب یہاں بھی آ جاتا اور آپ کو پتھر مارتے ہوئے کہتا۔
لوگو!اس شخص کی بات ہرگز نہ سنو، یہ جھوٹا ہے۔

★_نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ کندہ اور قبیلہ کلب کے کچھ خاندانوں کے پاس گئے۔ان لوگوں کو بنو عبداللہ کہا جاتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا۔
لوگو!لا الہ الا اللہ پڑھ لو....فلاح پا جاؤ گے۔
انہوں نے بھی اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم بنو حنیفہ اور بنو عامر کے لوگوں کے پاس بھی گئے۔ان میں سے ایک نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام سن کر کہا۔
اگر ہم آپ کی بات مان لیں،آپ کی حمایت کریں اور آپ کی پیروی قبول کر لیں پھر اللہ تعالٰی آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ سرداری اور حکومت ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گی۔
یعنی انہوں نے یہ شرط رکھی کہ آپ کے بعد حکمرانی ان کی ہوگی۔جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔
سرداری اور حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے سونپ دیتا ہے۔

"_اس کے بعد اس شخص نے کہا۔
تو کیا ہم آپ کی حمایت میں عربوں سے لڑیں،عربوں کے نیزوں سے اپنے سینے چھلنی کرا لیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو سرداری اور حکومت دوسروں کو ملے۔نہیں، ہمیں آپ کی ایسی حکومت اور سرداری کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس طرح ان لوگوں نے بھی صاف انکار کر دیا۔
: ★__بنو عامر کے یہ لوگ پھر اپنے وطن لوٹ گئے۔وہاں ان کا ایک بہت بوڑھا شخص تھا۔بوڑھا ہونے کی وجہ سے وہ اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ حج کے لیے نہیں جا سکا تھا۔جب اس نے ان لوگوں سے حج اور میلے کے حالات پوچھے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا بھی ذکر کیا اور اپنا جواب بھی اسے بتایا۔
بوڑھا شخص یہ سنتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور افسوس بھرے لہجے میں بولا۔
اے بنی عامر۔تم سے بہت بڑی غلطی ہوئی....کیا تمہاری اس غلطی کا کوئی علاج ہو سکتا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسماعیل علیہ السلام کی قوم میں سے جو شخص نبوت کا دعوٰی کر رہا ہے،جھوٹا نہیں ہو سکتا۔وہ بالکل سچا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کی سچائی تمہاری عقل میں نہ آ سکے۔

★_اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو عبس، بنو سلیم، بنو غسان، بنو محارب، بنو فزارہ، بنو نضر، بنو مرہ اور بنو عذرہ سمیت کئی قبیلوں سے بھی ملے، ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور بھی برے جوابات دیے، وہ کہتے۔
آپ کا گھرانہ اور آپ کا خاندان آپ کو زیادہ چاہتا ہے، اسی لیے انہوں نے آپ کی پیروی نہیں کی۔

★_عرب قبیلوں میں سب سے زیادہ تکلیف یمامہ کے بنو حنیفہ سے پہنچی۔مسیلمہ کذاب بھی اسی بد بخت قوم کا تھا جس نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا۔اسی طرح بنو ثقیف کے قبیلے نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت برا جواب دیا۔
ان تمام تر ناکامیوں کے بعد آخر کار اللہ تعالٰی نے اپنے دین کو پھیلانے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اکرام کرنے اور اپنا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ فرمایا۔

★__آپ صلی اللہ علیہ و سلم حج کے دنوں میں گھر سے نکلے۔وہ رجب کا مہینہ تھا۔عرب حج سے پہلے مختلف رسموں اور میلوں میں شریک ہونے کے لیے مکہ پہنچا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سال بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختلف قبیلوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم عقبہ کے مقام پر پہنچے۔
عقبہ ایک گھاٹی کا نام ہے۔جس جگہ شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔یہ گھاٹی ادی مقام پر ہے۔مکہ سے منی کی طرف جائیں تو یہ مقام بائیں ہاتھ پر آتا ہے۔اب اس جگہ ایک مسجد ہے۔

★_وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات مدینہ کے قبیلے خزرج کی ایک جماعت سے ہوئی۔اوس اور خزرج مدینہ منورہ کے مشہور قبیلے تھے۔یہ اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔یہ بھی دوسرے عربوں کی طرح حج کیا کرتے تھے۔یہ حضرات تعداد میں کل چھ تھے،ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد آٹھ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھا تو ان کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے فرمایا۔
میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
وہ بولے۔
ضرور کہیں۔
فرمایا۔
بہتر ہوگا کہ ہم لوگ بیٹھ جائیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس بیٹھ گئے۔ان لوگوں نے جب آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں سچائی ہی سچائی اور بھلائی ہی بھلائی نظر آئی.... ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔
میں آپ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں....میں اللہ کا رسول ہوں۔
یہ سنتے ہی انہوں نے کہا۔
اللہ کی قسم..آپ کے بارے میں ہمیں معلوم ہے۔یہودی ایک نبی کی خبر ہمیں دیتے رہے ہیں اور ہمیں اس سے ڈراتے رہے ہیں (یعنی وہ کہتے رہے ہیں کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں) آپ ضرور وہی ہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے پہلے وہ آپ کی پیروی اختیار کرلیں۔
 ★__ اصل میں بات یہ تھی کہ جب بھی یہودیوں اور مدینے کے لوگوں میں کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا تو یہودی ان سے کہا کرتے تھے۔
بہت جلد ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے،ان کا زمانہ نزدیک آ چکا ہے۔ہم اس نبی کی پیروی کریں گے اور ان کے جھنڈے تلے اس طرح تمہارا قتل عام کریں گے جیسے قوم عاد اور قوم ارم کا ہوا تھا۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم تمہیں نیست و نابود کر دیں گے۔اسی بنیاد پر مدینے کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کے بارے میں معلوم تھا....اور اسی بنیاد پر انہوں نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات مان لی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی اور مسلمان ہو گئے۔

★_پے در پے ناکامیوں کے بعد یہ بہت زبردست کامیابی تھی....اور پھر یہ کامیابی تاریخی اعتبار سے بھی بہت بڑی ثابت ہوئی۔اس بیعت نے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا،گویا اللہ تعالٰی نے ان کے ذریعے ایک زبردست خیر کا ارادہ فرمایا تھا۔اسلام قبول کرتے ہی انہوں نے عرض کیا۔
ہم اپنی قوم اوس اور خزرج کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ ان کے درمیان زبردست جنگ جاری ہے، اس لیے اگر اللہ تعالٰی آپ کے ذریعے ان سب کو ایک کر دے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی۔

★_اوس اور خزرج دو سگے بھائیوں کی اولاد تھے۔پھر ان میں دشمنی ہو گئی۔لڑائیوں نے اس قدر طول کھینچا کہ ایک سو بیس سال تک وہ نسل در نسل لڑتے رہے، قتل پر قتل ہوئے....
اس وقت انہوں نے اپنی دشمنی کی طرف اشارہ کیا تھا،لہذا انہوں نے کہا۔
ہم اوس اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیں گے۔ہو سکتا ہے اللہ تعالٰی آپ کے نام پر انہیں ایک کر دے۔اگر آپ کی وجہ سے وہ ایک ہو گئے،ان کا کلمہ ایک ہو گیا تو پھر آپ سے زیادہ قابل عزت اور عزیز کون ہوگا۔

★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات کو پسند فرمایا۔پھر یہ حضرات حج کے بعد مدینہ منورہ پہنچے۔
╨─────────────────────❥

*💕ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd 💕,*
 ╨─────────────────────❥
      _ *✍🏻 Haqq Ka Daayi_*
    http://www.haqqkadaayi.com
*Telegram*_ https://t.me/haqqKaDaayi
 ╚═════════════┅┄ ✭✭
*ʀєαd, ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd ,*
 ╨─────────────────────❥
      _ *✍ Haqq Ka Daayi_*
    http://www.haqqkadaayi.com
*Telegram*_ https://t.me/haqqKaDaayi
 ╚═════════════┅┄ ✭✭

Post a Comment

0 Comments