Noor E Hidayat- Tableeg Ke Aham Usool (Urdu)

: *❈❦ 2 ❦❈*      
               ☜█❈ *حق کا دائ*❈ █☞
               ☞❦ *نور -ے- ہدایت* ❦☜         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
         *☞__ ہر ایمان والا عظیم ہے:-*

*"❀_ مسلمان کا مرتبہ اس کے فضائل کے باقدر دل میں بیٹھتا چلا جائے, ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کتنا ہی گنہگار ہو لیکن اللہ تعالی پر ایمان لانے کی وجہ سے ہماری نگاہوں میں عظیم ہو, تبھی ہم اس کے ساتھ اخلاق کا معاملہ کر سکتے ہیں ,*

*"❀_ ہر مسلمان کی زیارت اپنے کو ممتاز سمجھتے ہوئے کریں کہ زیارت سے اللہ تعالی راضی ہوتے ہیں برکتیں حاصل ہوتی ہیں، رحمتیں آتی ہیں اور محبت بڑھتی ہے اور مسلمان کی محبت ایمان کو بڑھاتی ہے ،*

*"❀_ جب ایک ادنیٰ درجہ مسلمان کی زیارت سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اہل علم اور اہل ذکر مصائخ کی زیارت تو بہت عظیم ہے،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
             *☞__ عیب بینی سے بچیں:-*

*"❀_ اس دعوت میں ایک خاص چیز یہ بھی ہے کہ لوگوں کی کوتاہیوں، غلطیوں اور عیبوں پر نگاہ جانے سے بچا جائے اور اگر شیطان وسوسہ ڈال ہی دے تو توبہ و استغفار سے اور اس مسلم سے محبت اور اخلاق سے ملنے سے اس کمی کو پورا کیا جائے اور تین چیزوں کو کام میں لایا جائے:-*

*"❀_(١) جب ملے تو اس کو سلام کریں,*
*"_(٢) جب وہ آپ کے پاس ائے تو اس کو اچھی جگہ بٹھائے اور اس کا اکرام کریں،*
*"_(٣) اور کبھی کبھی اسے ہدیہ دیں،*

*"❀_توبہ و استغفار کے ساتھ یہ تین چیزیں مؤثر ہیں _,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
     *☞__اہل علم کو اپنا سرپرست سمجھیں:-*

*❀_ اس کام میں عام لوگوں کو نکلنے کی دعوت ضرور دی جائے لیکن یہ خیال رکھتے ہوئے کہ اگر یہ دعوت میں چلیں گے تو مجھ سے بہتر طریقے سے چلیں گے اور ان سے دین کے پھیلنے میں زیادہ مدد ملے گی اور اہل علم کو اپنا سرپرست سمجھ کر ان کی زیارت اور ان سے دعاؤں کا طالب بن کر ملا جائے ,*

*❀_ مشورہ تو ہر فن میں اس کے فن والوں سے لیا جاتا ہے، مثلاً کسی کو آنکھ کا آپریشن کے بارے میں مشورہ کرنا ہے تو وہ ہر ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا جو ہر عضو کا تھوڑا تھوڑا علاج کرتے ہیں بلکہ خاص آنکھ کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ہی سے مشورہ کرے گا، یہ تو دنیاوی مثال ہے،*

*❀_ اور دینی مثال یہ ہے کہ اگر کسی کو مسئلہ پوچھنا ہے تو اسے مفتی کے پاس جانا چاہیے, ہر عالم سے مسئلہ نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ مفتی مسائل کے فن کا ماہر ہے,* 

*❀_ اگر بغیر مشورہ لیے کوئی شخص مشورہ دینے لگے تو اس کی بات کو غور سے احترام سے سنا جائے اور اس کو مخلص اور خیر خواہ خیال کرے جس سے وہ یہ نہ سمجھے کہ میری بات کی قدر نہیں کی،*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
        *☞_نبوی اصول چھوڑنے کے نقصانات:-* 

*"❀_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں دین کو پھیلانے کے لیے کچھ بنیادی اصول قائم فرمائے، جب تک وہ اصول پورے طور پر زندہ رہے اور امت ان پر چلتی رہی اور کام کرتی رہی دین کا ہر جزو امت کے ہر فرد کی طرف پہنچ رہا تھا اور 100 فیصد دین دنیا میں پھیل رہا تھا،*

*"❀_ کچھ عرصے کے بعد دائرہ اسلام وسیع ہو جانے کی وجہ سے اور کثرت سے قوموں کے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے کچھ استنباطی شکلیں اختیار کرنا ضروری ہوئی لیکن وہ استنباطی شکلیں اتنی اہمیت پکڑ گئی کہ بنیادی اصول نگاہوں سے اوجھل ہوتے گئے جس کے تین نتائج اس امت پر مرتب ہوئے،* 

*"❀_ پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ دین پوری امت میں پہنچنا بند ہونے لگا بلکہ صرف افراد اس سے مستفید ہونے لگے، دوسرا نتیجہ یہ آیا کہ ہر ایک نے دین کا ایک جزو اپنی محنت کے لیے مخصوص کر لیا اور اصولی طریقے سے پورے دین پر اس کی محنت نہ رہی،* 

*"❀_ اور تیسرا نتیجہ یہ آیا کہ آپس میں اختلافات پیدا ہو کر ایک شعبے والے دوسرے شعبے والے سے ٹکرانے لگے اور بد زن ہونے لگے اور بجائے مددگار بننے کے مقابلے پر آنے لگے، جس سے دین کو بہت نقصان پہنچنے لگا،*

*"❀_ اس لیے بنیادی اصولوں کو زندہ کر کے سامنے رکھ کر چلنا ضروری ہے ,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
       *☞ _نبوی ترتیب کے بنیادی اصول-:-*

*"❀_1_ سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر امتی کو دائی بنایا، غریب ہو یا امیر کاشتکار ہو یا تاجر، ہر ایک دین کا دائی تھا کیونکہ جب سو فیصد امت دعوت دے رہی ہوگی تو دین سو فیصد انسانوں میں آ جائے گا، ہر ایک کی دعوت اس کے علم کے باقدر تھی،* 

*"❀_2- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سیکھنے سکھانے کا اصل مرکز مسجد کو بنایا، صحابہ رضی اللہ عنہم مسجد میں آ کر دین سیکھتے تھے، جس میں ان کے تین طبقات تھے:-*
*"❀_ ایک طبقہ وہ تھا جو بیوی بچوں اور دنیا کی مشغولی سے فارغ تھا یہ اصحاب صفہ میں داخل تھے، دوسرا طبقہ جو معمولی مشغلہ اپنی معصیت کے لیے کرتا لیکن اکثر وقت اس کا دین کے لیے فارغ تھا اس میں اکثر مہاجرین تھے،*
*"_ تیسرا انصار کا وہ طبقہ جو اپنی کھیتی باغات کے کاموں اور دوسرے مشعل میں مصروف ہوتے, کوئی رات کو کوئی دن میں کوئی آدھا کوئی آدھی رات سیکھنے میں لگاتا تھا،*

*"❀_ اسلام میں نئے آنے والے بڑھتے جا رہے تھے یہاں تک کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں بہت سے شہر فتح ہو چکے تھے اور قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں لیکن مسجد سے باہر کوئی عمارت دین سیکھنے کے لیے نہیں تھی،* 

*"❀_ اس میں خاص راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن آداب اور کیفیات کے ساتھ دین مسجد میں لیا جا سکتا ہے مسجد سے باہر لینا نا ممکن ہے، مثلاً مسجد میں دنیا کی باتوں سے حفاظت، ہنسی مذاق سے حفاظت، باوضو رہنا، ذکر کی کیفیت سے رہنا اور تکبیر اولیٰ سے نماز پڑھنے کا اہتمام وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو دین سیکھنے میں عظمت اور عظیمت پیدا کرتی ہیں اور آعمال کی توفیق کی طرف رہنمائی کرتی ہے ،*

*"❀_3- دین سیکھنے کے لیے بڑوں کو جو مقلف ہیں اور قران کریم میں مخاطب میں اول قرار دیا گیا ان سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم تو تجارت اور کھیتیوں میں ہونے کی وجہ سے معذور ہو اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھیج دیا کرو، اصحاب صفا ان کو بھی سکھایا کریں گے بلکہ بڑوں کو اہتمام سے بلایا جاتا، بوڑھا ہو یا جوان، کھیتی والا ہو یا تاجر، اس کو دین سیکھنے پر آمادہ کیا کیونکہ دین کو اپنے گھر میں کاروبار میں اپنے معاملات میں بڑا ہی نافذ کر سکتا ہے چھوٹوں کا کام نہیں اور جنت دوزخ کا یقین کر کے بڑا ہی چل سکتا ہے چھوٹا نہیں اور عوامر خداوندی کی عظمت بڑا ہی سمجھ سکتا ہے،*

*"❀_4- دین کو بغیر اجرت سیکھنے سکھانے کا نظام قائم فرمایا اور ہر شخص کو اپنے ماتحت کو دین سکھانے کا ذمہ دار قرار دیا، جب ہر شخص اپنے گھر میں دین سکھائے گا اور اپنے بچوں کو معلم بنائے گا تو اجرت اور معاوضہ کا سوال ہی نہیں ائے گا، اس طرح بغیر مال کے ہر شخص دین کا سکھانے اور سیکھنے والا بن سکتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام بنے،* 

*"❀_ کیونکہ دین انسانی زندگی کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسے جسمانی زندگی کے لیے ہوا اور پانی، حق تعالیٰ نے ہوا اور پانی تمام انسانوں کے لیے مفت ہی رکھا، ایسے ہی دین کو سیکھنا اور سکھانے کو بھی بغیر معاوضہ کے رکھا گیا تاکہ ہر غریب مسکین یتیم گاؤں کے رہنے والے دین سیکھ سکیں،*

*"❀_ دین سیکھنے سکھانے کے لیے نہ چندہ جمع کیا گیا نہ اس کی ترغیب دی گئی بلکہ ان کو فاقوں میں دین سیکھنا پڑتا تھا جس سے دین کی عظمت اور اہمیت ان کے دلوں میں بڑھتی تھی،*

*"❀__5_دین میں سب سے پہلے ایمانیات اس کے بعد اخلاقیات سکھائے جاتے تھے جس کا پتہ اس حدیث سے چلتا ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جو سوالات شاہ حبشہ نے کیے تھے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا تعلیم دیتے ہیں ؟ انہوں نے جو جوابات دیے وہ قابل غور ہیں کیونکہ احکامات پر عمل انہی صفاتوں( ایمان اور اخلاق) سے ہو سکتا ہے, ورنہ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنا آسان نہیں رہتا،*

*"❀_ اج ہمارے اس زمانے میں دین سیکھنے سکھانے کی ترتیب بدل جانے کی وجہ سے عمل کرنا مشکل ہو رہا ہے, اگر ان دو چیزوں( ایمان و اخلاق) کو پہلے سکھایا جائے تاکہ انسان کی ایمانی طاقت آخرت کے استہزار کے ساتھ صحیح کامل ہو جائے،* 

*"❀_ اخلاقیات اندر آ جائے تو پھر اخلاقی مسائل پر بھی عداوت کا اور ٹکراؤ کا میدان قائم نہیں ہوگا بلکہ صحابہ کرام کی طرح جزوی اختلافات کے باوجود اتفاق و اتحاد، الفت و محبت و اکرام باقی رہے گا،*

*"❀_ ان بنیادی اصولوں کو قائم کرتے ہوئے پھر استنباتی شکلیں مدارس اور خانقاہوں کی اور بچوں کی تعلیم دینے کی بہت مفید ثابت ہوں گی اور یہ شکلیں بھی بہت ضروری ہیں مگر ان کی ضرورت بنیادی اصولوں سے کم ہے،*

*"❀_ آج بنیادی چیزیں باقی نہ رہنے کی وجہ سے ایمان اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ فرائض کا اہتمام نفلوں سے گھٹ گیا جس کی وجہ سے دین اپنی اہمیت و عظمت کے ساتھ اور توکل اور تقویٰ کے ساتھ نہیں سیکھا جا رہا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین والوں میں اختلافات جس قدر عداوت کو پہنچے شاید دنیا والوں کے بھی نہ پہنچے ہوں،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
  *☞ _ دعوت کے میدان میں سیکھنا سکھانا- ایمانی صفات:-* 

*"❀__ اگر ہمارا سیکھنا سکھانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ترتیب پر آ جائے کہ ہم دعوت کے میدان میں چلتے ہوئے سیخ رہے ہوں اور سکھا رہے ہوں تو اب بھی دین کا ہر جزو اور ہر شعبہ سو فیصد امت میں زندہ ہو سکتا ہے اور علم و ذکر جو پورے دین کی ماں ہے اور ہر فرد کے لیے روح ایمانی کو تقویت دینے والا ہے، ہر کچے اور پکے گھر میں ہر قلب سلیم میں اپنی عظمت کے ساتھ داخل ہو سکتا ہے،* 

*"❀__ اعمال بغیر صفاتِ ایمانی کے کمزور اور بے جان ہے، یہ صفاتِ ایمانی تقویٰ، توکل، جہد فدنیا، قناعت صبر و شکر اور حبہ ہیں،*

*"❀__ جب یہ صفاتِ آعمال جھلکتی ہیں تو آعمال حسنہ وجود میں آتے ہیں اور رغبت کی کیفیات پیدا ہوتی ہے چلی جاتی ہے وہ جب یہ صفات مسلم کے اندر پیدا ہونی بند ہو جاتی ہے تو آعمال مشکل ہوتے چلے جاتے ہیں، آعمال صالحہ سے یقین پیدا ہونے کے بجائے دنیا کی چیزوں سے یقین بنتا چلا جاتا ہے، پھر دین پر دنیا رائج ہوتی چلی جاتی ہے،*

*"❀__ دنیا انسان کے دلو دماغ پر ایسا تسلط کرتی ہے اور قلب میں ایسی عظمت و محبت پیدا کر دیتی ہے کہ اس کے مقابلے میں فرائض کے ادا کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا،*

*"❀__ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز طریقہ صفات ایمانی پیدا کرنے والا ہے اور صفات ہی سے مومن مومن کے لیے عالیشان بنتا ہے اور امیر اور غریب کا اور غریب امیر کا ہمدرد بن جاتا ہے، ہر ایک کو آخرت کا فکر بڑھتا جاتا ہے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
        *☞ _ ہماری بے اصولیاں رکاوٹ ہیں:-* 

*"❀_ معافی چاہنا اور معاف کر دینا حق تعالی کو بہت محبوب ہے، جب یہ دونوں صفاتیں مسلم کے اندر آ جاتی ہیں تو اللہ تعالی اس کے لیے عفو اور کریم بن جاتا ہے،*

*"❀_ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جائے عوام ہوں یا خواص کہ اس دعوت کے ذریعے کیا چاہا جا رہا ہے اور اس پر کیا نتیجے مرتب ہوتے ہیں تو ہر ایک اس (دعوت کے) میدان میں چلنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے پر تیار ہو جائے _,*

*"❀_ لیکن ہم نا اہل اپنی بات کو سمجھا نہیں سکتے اور شیطان اور نفس جو ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، وہ ہمیں صحیح طریقے سے دعوت میں چلنے سے روک دیتا ہے،*

*"❀_ یہ دعوت دشمنوں کو دوست بنانے والی ہے لیکن ہماری بعض بے اصولیوں سے اپنے بھی غیر بن جاتے ہیں,*

*"❀_ ہم بات کو سمجھتے نہیں, حکمت اور مردم شناسی کو پیش پیش رکھ کر چلے تو انشاءاللہ تعالی ہر ایک اپنا بنتا چلا جائے گا،*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
    *☞ _اکرام مسلم سب سے بڑا ہتھیار ہے:-*

*"❀_ اکرام مسلم سب سے بڑا ہتھیار ہے جو دشمنوں کی گردنوں کو زیر کر دیتا ہے لیکن اس کے کرنے کے لیے نفس پر بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے, مقابل کی لعنت و حماقت کو برداشت کرنا اور اس کی اذیتوں پر تحمل کرنا پڑتا ہے، جس سے خود بھی بن جاتا ہے اور دوسروں کو بھی بنا دیتا ہے،*

*"❀_( ارشاد ہے کہ ) نیکی اور بدی برابر نہیں ہے تو اس چیز کے ساتھ بدلہ دو جو اچھی ہو، یہ بات ہر وقت پیش نظر رہے،*

*"❀_ ہم کسی مسلمان کو مخالف اور دین کا رد کرنے والا نہ سمجھیں بلکہ یوں سمجھیں کہ بہت سے احوال اس کے لیے ہماری بات قبول کرنے میں رکاوٹ ہیں,* 
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
              *☞ _ ادم قبولیت کی وجہ :-*

*"❀_ اگر وہی دین کی بات جو اس کو ایسا شخص کہے جس سے وہ عقیدت و محبت رکھتا ہے تو فوراً مان لے گا، معلوم ہوا کہ وہ دین کا مخالف نہیں بلکہ ہمارے احوال کی وجہ سے ہم سے ڈرتا ہے اور قبول کرنے میں تردد رکھتا ہے کہ کہیں وہ ہم سے دھوکہ نہ کھا جائے،*

*"❀_ لیکن ہر وہ مسلمان جو کلمہ پڑھنے والا ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد نہیں کر سکتا جبکہ اسے یہ یقین ہو جائے کہ بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بات ہے,*

*"❀_ مگر زمانہ حال کے طرز ترک نے لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا کیونکہ بہت سے فرشتے صفت ظاہری لوگوں نے دین سے بھی دنیا والوں کو دھوکہ دیا اور اپنی عزت اور اپنی دنیا کو بنانے کی کوشش کی، اس لیے دنیا ڈری ہوئی ہے اور یہ مثال مشہور ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
              *☞ _محرومی کے اسباب:-*

*"❀_ ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہم اپنے اپ کو سمجھا ہوا نہ سمجھیں تاکہ ہم اس کام کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں اور ترقی کرتے رہیں, جب آدمی اپنے اپ کو کامل سمجھ لیتا ہے تو اگے کی ترقی کے کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور شیطان اس کو وہیں سے گرا دیتا ہے،*

*"❀_حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ کا ایک ملفوظ ہے کہ مجھے کام کرنے والوں پر دو خطرے ہیں ایک یہ کہ کام نہ کر رہے ہوں اور سمجھیں کہ ہم کام کر رہے ہیں, کام تو چھ صفات کو اپنے اندر لانے کا نام ہے, اگر یہ چھ باتیں ہمارے اندر نہیں آ رہی ہیں تو چاہے کتنا ہی لوگ ہماری بات پر لبیک کہہ رہے ہوں تو ہمارا کام نہیں ہوا،*

*"❀_ دوسرا یہ کہ اسباب کے ہوتے ہوئے اسباب پر نگاہ نہ جائے یہ تو مشکل ہے مگر اسباب پر نگاہ جانے سے اللہ تعالی کی مدد ہٹ جاتی ہے،*

*"❀_بندے کو غور کرنے کے بعد ایک بات سمجھ میں آئی کہ اگر کسی شخص کی نگاہ اپنے اوپر پڑ جاتی ہے کہ میں کچھ کرنے والا ہوں اور میری وجہ سے دعوت چل رہی ہے چاہے کسی علاقے میں یا پوری دنیا میں، تو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس سے محروم نہ کر دے اور ایسا ہوتا ہوا دیکھا گیا ہے،* 

*"❀_ اگر لوگوں کی نگاہ کسی ایک شخص پر جم گئی کہ اس کی وجہ سے یہ دعوت کی گاڑی چل رہی ہے تو اللہ تعالی اس شخص کو ان میں سے اٹھا لیتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے،* 

*"❀_ کیونکہ یہ دونوں باتیں اسباب پر اعتماد کرنے کی ہے، حالانکہ اللہ تعالی ہی کر رہے ہیں کبھی اسباب کے پردے میں کبھی بغیر اسباب کے، ہر وقت نگاہ اور دل کا رخ اللہ تعالی ہی کی طرف رہنا چاہیے،* 

*"❀_ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی دین کی چیز کا استخفاف کیا گیا تو استخفاف کرنے والا بڑے خطرے میں آ جاتا ہے اور یہاں تک کہ بعض مرتبہ ایسے اعمال کرنے لگتا ہے یا ایسی باتیں کہنے لگتا ہے جو اس کے ایمان پر سخت جد ڈالتی ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
              *☞ _اعتراض سے بچا جائے :-*

*"❀_ کسی پر اعتراض کرنا اس دعوت کے مزاج کے خلاف ہے۔ بڑے حضرت جی نور اللہ مرقدہ کا مقولہ ہے۔ "اعتراض حرام ہے اور اصلاح فرض۔"*

*"❀_ اعتراض فساد کی طرف لے جاتا ہے اور دلوں میں عداوت پیدا کرتا ہے۔ اور اصلاح حزن اور غم کی طرف لے جاتی ہے۔ آج امت کے حال پر حزن اور غم کو بڑھانا چاہئے جو ہمارے اندر سے نکل گئی ہے۔*

*"❀_ اعتراضی شکلوں سے حفاظت کرنی چاہئے جو روز بروز ہمارے اندر پیدا ہو رہی ہیں۔ اعتراضات ہی کی وجہ سے آج امت ٹکڑے ٹکڑے ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہر شخص امت پر غم کھانے والا اور ایک ایک شخص پر رحم کھانے والا بن جائے تو یہ دعوت چلے گی,*

*"❀_ بلکہ اس دعوت میں تو یہاں تک چلنا ہے کہ دوسروں کو اعتراضات کا جواب بھی نہیں دینا ہے۔ نہ تحریر سے نہ تقریر سے اور نہ "کنایتہ نہ صراحت " اس سے بھی عداوت کا دروازہ کھلتا ہے بلکہ اعتراض کرنے والے کا اکرام کر کے اس کو قریب کیا جائے اور اپنے سے مانوس بنایا جائے پھر اس کے بعد اعتراض خود رفع ہو جائے گا اور بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
              *☞ _ حکمت اور تواضع :-*

*"❀_ نیز اس دعوت میں حکمت سیکھنی پڑتی ہے جو فہم میں معین و مددگار ہوتی ہے۔*

*"❀_ اصل تو حکمت اللہ تعالی کی عطا ہے جس کو بھی دے دیں۔ لیکن اس کا تعلق سیکھنے سے بھی ہے, صرف عطائی نہیں, جیسے کتاب سیکھی جاتی ہے۔ حکمت بھی سیکھی جاتی ہے۔ مگر یہ حکمت اس کو آتی ہے جس کے اندر صفات قدسیہ پیدا ہو جائیں اور صفات شہوانیہ مغلوب ہو جائیں۔*

*"❀_ لہٰذا حکمت کے ذریعہ لوگوں کے قلوب کو حق کے لئے انشراح کرانے میں حق تعالی کی طرف سے دعا کے ذریعہ مدد کی جائے ورنہ الفاظ حکمت منافق کی زبان پر بھی آجاتے ہیں،*

*"❀_ اس دعوت میں جس قدر تواضع اور انکساری بڑھتی رہے گی اپنا جہل کھلتا رہے گا۔ اور جہل کے بعد علم کا دروازہ کھلتا رہے گا کیونکہ اس سے طلب صادق پیدا ہوتی ہے اور طلب ہی ہر چیز کا دروازہ کھولتی ہے۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
         *☞ _ بڑوں کی صحبت اور مشورہ:-*

*"❀__ نیز جو اپنے کو بزرگوں کی نگرانی میں نہیں چلاتے ہیں شیطان ان کو بہکا دیتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے دنیا میں سب سے بڑے فتنے اٹھے ہیں۔*

*"❀__ حضور پاک ﷺ اللہ تعالٰی کی نگرانی میں چلتے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرتے تھے، جیسا کہ قرآن پاک میں حکم ہے،*

*"❀__ ایسے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم حضور پاک ﷺ کی نگرانی میں چلتے تھے, اسی طرح بعد میں آنے والے اپنے سے پہلے والوں کی نگرانی میں چلنے والے تھے۔ جس سے امت ایک دوسری سے جڑی ہوئی تھی اور ہدایت یافتہ تھی۔*

*"❀__ اب جب سے ہم نے اپنے بڑوں کی نگرانی اور مشورہ کو چھوڑا ہے اس وقت سے بکھر گئے اور گمراہی کے راستہ پر چل پڑے۔ ہر شخص اپنی رائے کو صحیح سمجھنے لگا جو ایک خطرہ عظیم ہے۔ شیطان نے اپنی رائے کو صحیح سمجھا تو خدا کا حکم بھی نہ مان سکا۔*

*"❀__ صرف یہ کہا کہ ہم نے از خود مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے فیض صحبت کے ذریعے اور ان کا کلام براہ راست سننے کے ذریعے سارے اصول اخذ کر لئے اور ہم کسی کے مشورہ کے محتاج نہیں یا بڑوں کی نگرانی کے محتاج نہیں، بڑی نادانی ہے اور بڑے خطرے کی چیز ہے, ایسا شخص نہ کبھی امت کو جوڑ سکتا ہے نہ جڑ سکتا ہے۔*

*"❀__ اس دعوت میں دو ہی بڑے کام ہیں ایک حق پر جوڑنا اور دوسرا جڑنا۔* 
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
            *☞ _(6) چھ نمبر اور کام :-*

*"❀_ یہ چھ نمبر خواہ منصوص من القرآن و حدیث قطعی نہ ہوں لیکن مستنبط من القرآن و حدیث اس درجہ پر ہیں کہ کوئی امت کا صحیح علم و یقین والا انکار نہیں کر سکتا اور ان پر اعتراض کی گنجائش نہیں رکھتا۔*

*"❀_ رہا طریقہ کار تو اس کی جو شکل اس میں اختیار کی گئی ہے جیسے گشت۔ تعلیم کے حلقے لگانا اور نکلنا اور نکالنا اس میں غور کرنے سے دو باتیں معلوم ہوں گی۔*

*"❀_ ایک یہ کہ دلوں کا رخ اللہ تعالی کی اور آخرت کی طرف بدلتا ہے یا نہیں تو تجربہ سے سب کے سامنے یہ بات آگئی کہ اس نظام میں منسلک ہونے والے کا رخ اللہ تعالی اپنی طرف بدل دیتے ہیں۔*

*"❀_ دوسرے اس طریقہ کار سے تواضع، محبت اور صفات حمیدہ پیدا ہوتی ہیں,*

*"❀_ لیکن یہ جب ہی ہیں جب کہ خالصتہ " اللہ تعالی کے لئے اور اصول کے مطابق نکلا جائے۔ اور کوئی اغراض درمیان میں نہ آئیں اور نکلنے کے بعد اپنے اوقات کو صحیح طریق سے امیر کی اطاعت میں گزارا جائے۔* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
           *☞ _ امتحان ترقی کا ذریعہ ہے:-*

 *"❀_ کبھی کبھی حق تعالٰی اس کام کے کرنے والوں پر ابتلا و امتحان کی شکل بھی لاتے ہیں جو کام کرنے والوں کے لئے مدد اور نصرت کا دروازہ کھولنے کے لئے ہوتی ہے۔ کبھی بغیر امتحان اور ابتلا کے نصرت غیبی نہیں آتی ۔ آیات قرآنی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام ابتلا والے اور امتحانانی میدان اس پر دلالت کر رہے ہیں۔*

*"❀_ نیز اس سے اخلاق میں ترقی ہوتی ہے۔ اسباب سے یقین ہٹتا ہے حکمت کے پردے کھلتے ہیں بصیرت بڑھتی ہے، غیبی نظام سمجھ میں آتا ہے اور حق تعالی شانہ کی بڑی حکمتیں اس کے اندر مضمر ہیں، جن کو ہماری عقل نہیں سمجھتی،*

*"❀_ لیکن اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے دعائیں اور آہ و زاری اس درجہ کرتے رہنا چاہئے کہ بے ساختہ زبان سے نکلے ” اللہ تعالی کی مدد کب آئے گی," صرف تکلیف سے نہیں بلکہ بے چینی اور بے قراری کے ساتھ زبانیں بے اختیار ہو کر یہ الفاظ کہنے لگیں۔ اس پر "خبردار اللہ کی مدد قریب ہے," وجود میں آئے گا۔ جب امتحانات ختم ہو جاتے ہیں تو خطرے کی گھاٹیاں شروع ہو جاتی ہیں اور یقین گھٹنے لگتا ہے۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
         *☞ _ امتحان ترقی کا ذریعہ ہے:-*

 *"❀_ حضور پاک ﷺ کا ۲۳ سالہ دور امتحان و ابتلا ہی میں گزرا ۔ ایسے ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ بھی، خلافت فاروقی میں وہ امتحان و ابتلا ختم ہو گیا اور ہر طرح کی آسانی اور سہولت کا دور شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ذرا سنبھلنا پڑا۔*

*"❀_ اسی طرح سے ہم نے مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کا زمانہ کچھ سنا کچھ دیکھا وہ بھی کسی قدر ابتلاء و امتحانات کا معلوم ہوتا تھا۔ لوگوں کا عام استقبال نہ تھا اور شاید ہی تین دن کے لئے کوئی لکھتا تھا۔ تعریف کرنے والے خال خال بدظنی کرنے والے اکثر۔ یہاں تک کہ علماء بھی مایوسی دلاتے تھے یا اس کام پر اشکالات کرتے تھے اور بہت سے اعتراضات کرتے تھے۔*

*"❀_ جماعتوں کا نہ تو استقبال تھا نہ کھانے کی دعوت بلکہ اپنی مسجدوں میں ان کا ٹھہرنا بھی ناگوار سمجھتے تھے۔ پیدل چلنا چنے چبانا پتے کھانا اور اس پر بھی بات سننے کے لئے کسی کا تیار نہ ہونا بڑا امتحان تھا,*

*"❀_ لیکن اب دور فاروقی کی طرح استقبال ہے لیکن اس زمانے میں بڑی بڑی کمائیوں کو چھوڑ کر اور اپنے عیش و آرام کے گھر کے نقشوں کو چھوڑ کر نکلنا بھی کوئی معمولی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس وقت فارغ زیادہ تھے, اس وقت مشغول زیادہ، یہ بھی ایک قربانی ہے،*

*❀"_ اس وقت کام کم تھا لہٰذا ذکر اور تہجد کے لئے وقت فارغ ہوتا تھا۔ اور اب کام زیادہ، جماعتوں کی مشغولی، تشکیل، ہدایات، روانگی وغیرہ اوقات کو اس قدر گھیر گئیں کہ ذکر کا پورا کرنا بھی مشکل اور رات کا تہجد پڑھنا بھی۔ یہ ایک فطری چیز ہے اس سے نا امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
    *☞ _کام کا پھیلاؤ ہی گہراؤ کا ذریعہ ہے:-* 

*❀_آج ایک فقرہ زبانوں پر آ رہا ہے کہ کام میں پھیلاؤ کی بجائے گہراؤ پیدا کرو۔ بندہ کو یہ فقرہ شیطان کا وسوسہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ نہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں کیا گیا اور نہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں کہ پھیلاؤ کو روک کر گہرائی میں لگو۔*

*❀_ ورنہ دعوت کا مزاج تو یہ ہے کہ پھیلاؤ کے ساتھ ہی گہرائی کی جس قدر کوشش اپنے لئے ہو سکے کرنی چاہئے کیونکہ پھیلاؤ کو روک کر گہرائی میں لگنے ہی سے دعوت ختم ہو جاتی ہے۔*

*❀_ دنیا والوں نے بھی اپنے کاروبار میں اس کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اپنی چیزوں کو پھیلانے میں کوشش بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور گہراؤ ان کا کم ہوتا چلا جاتا ہے،*

*❀_ یہ ایک قدرتی نظام ہے کہ جب پھیلاؤ زیادہ ہو گا تب گہرائی میں کمی آئے گی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نئے نئے شہر فتح ہوئے اور اسلام چاروں طرف پھیلا اس وقت گہرائی کی کیفیت کم ہو گئی اور لوگوں میں ہر چیز کی کیفیت گھٹ گئی۔ خود یہ آیت "( لايستوى منكم من انفق من قبل الفتح و قاتل) تم میں سے کوئی اس کے برابر نہیں جس نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور قتال کیا"_" اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ گہرائی فتح مکہ سے قبل تھی اس میں کمی آئی,*

*❀_ اس میں بہت سوں کا اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ پھیلاؤ کو روک کر گہراؤ میں لگنا دعوت کا مزاج نہیں ہے اور دعوت جب چلے گی تو پھیلاؤ ضرور ہو گا۔ دعوت ہے ہی پھیلانے کے لئے اور جو نئے نئے اسلام میں آئیں گے یا دعوت میں کھڑے ہوں گے ان کا گہراؤ پرانوں کی طرح نہیں ہو سکتا،*

*❀_ خلفائے راشدین کا دور بھی فرق دکھلا رہا ہے کہ جو گہراؤ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھا وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نہیں رہا اور جو ان کے زمانے میں تھا وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نہیں رہا لیکن اسلام اقصاء عالم میں پھیلتا چلا گیا لہٰذا لوگوں کو اس فقرہ سے دھوکا میں نہیں پڑنا چاہئے۔ لیکن کام کرنے والوں کو متوجہ ضرور کرتے رہیں کہ وہ اپنے اندر صفات حمیدہ اور یقین کو بڑھانے کی سعی کرتے ہوئے چلیں۔* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
        *☞ _انبیاء علیہم السلام کی سیاست:-*

*"❀_ اس ( دعوت ) میں ایک بہت بڑی چیز یہ شرط ہے کہ زمانہ حال کی سیاست میں نہ پڑا جائے کیونکہ یہ سیاست سیاست نبویہ سے بالکل علیحدہ ہے اور بہت بعید ہے۔*

*"❀_ جب بدر کی طرف جاتے ہوئے حضور پاک ﷺ کو راستہ ہی میں معلوم ہو گیا کہ ہمارے مقابلے کے لئے مکہ کے قریش نکل کھڑے ہوئے اور ظاہر تھا کہ وہ اپنی پوری طاقت اور اسباب کے ساتھ نکلے ہیں۔ اور مدینہ منورہ حضور پاک ﷺ کے قریب ہی تھا دو ہی منزل چلے تھے تو آپ ﷺ نے مدینہ منورہ سے اپنی طاقت کیوں نہیں بلائی؟ حالانکہ ہتھیار بھی منگوا سکتے تھے اور آدمی بھی بلا سکتے تھے کیا چیز مانع تھی؟ کیا سیاست تھی؟ اس میں کیا راز تھا؟ اسی طرح تمام غزوات اور اسفار ایک گہرا سبق اور گہری سیاست رکھتے ہیں، جو اس زمانہ کے اہل سیاست کے دماغوں پر ضرب لگاتی ہے۔*

*"❀_ غزوہ موتہ میں حضور پاک ﷺ کو جنگ کا نقشہ دکھلایا گیا اور یہ بھی جانتے تھے کہ جس تھوڑی سی تعداد کو ہم بھیج رہے ہیں وہ رومیوں کے مقابلے میں بہت کم ہے اور آپ ﷺ کے پاس اس وقت مسلمانوں کی تعداد کچھ کم نہ تھی, تو اس میں کیا راز تھا؟* 

*❀_سیاست دنیاوی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے مشرکین کی بھی ہو سکتی ہے لیکن لوگوں کے دلوں کا رخ اللہ کی طرف پھیرنے کے لئے نبی ہی کی سیاست ہو سکتی ہے۔ نبی کی سیاست سے لوگوں کے اندر توکل اور تقویٰ کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اور اس زمانہ کی سیاست سے بچنا ضروری ہے۔ اس سیاست سے تو امت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ غیروں پر کیا غالب آئیں گے، اپنوں کو بھی نہیں جوڑ سکتے۔*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
        *☞ _فروعی اختلافات سے اجتناب:-*

*"❀_ نیز فروعی اختلافات سے بچنے کی اس کام میں سخت ضرورت اور تاکید ہے۔ زمانہ کے فروعی اختلافات لڑائی اور جنگ و جدال کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔*

*"❀_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں فروعی اختلافات سے محبت اور اتفاق و اتحاد کم نہیں ہوتا تھا۔ اور اس سے مخالفت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اور آج مخالفت اس درجہ پر پہنچ گئی ہے کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے لگے۔ محبت کے بجائے عداوت پیدا ہو گئی۔*

*"❀_ اس لئے اس قید کو لگا کر امت کے اختلاف اور انتشار کو ختم کیا ہے۔ اہل حق کے تمام مذاہب اس کام کو کرتے چلے آتے رہے ہیں اور ان کے علماء بھی اس اصول کو پسند کر کے اس کام کی تائید فرماتے رہے ہیں۔*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ _بیان کے آداب :-*

*"❀_ اس کام میں سب سے بڑا خطرہ بیان کرنے والوں پر ہے، وہ یا تو اپنے بیانات اصول سے ہٹا دیتے ہیں۔ کسی پر رو کسی پر ضرب کسی پر اعتراض کسی کی تنقیص،*

*"❀_ یا پھر بیانات میں تواضع کی بجائے کبر کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ہمارے لئے بہت خطرہ کی چیز ہے، طریقہ بیان خوشامدانہ ہو جیسے چھوٹا بڑوں سے کوئی بات کہہ رہا ہو۔*

*"❀_ اس واسطے جب کسی چیز کی کمی کو بیان کریں اور کسی چیز کا نقص بیان کریں تو اس میں لفظ "ہم" استعمال کرنا چاہئے کہ ہم سے یہ قصور ہو رہا ہے، ہم میں یہ کمی ہے۔*

*"❀_ اور جب تعریف کا وقت آئے تو لفظ "آپ" استعمال کرنا چاہئے اور یہ چیز صرف رسما نہیں بلکہ اعتراف قصور کے جذبہ سے ہونی چاہئے۔ اپنا قصور اور اپنی کمی اوروں سے زیادہ سامنے ہو، تاکہ دوسروں کے قصور اور کمی کی وجہ سے ان پر اعتراض یا نفرت کی شکل پیدا نہ ہو کیونکہ وہ بھی اکرام کے خلاف ہے۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ __اکرام مسلم:-*

*"❀_ اکرام مسلم ایک اہم نمبر رکھا گیا ہے۔ اصل اکرام تین طبقات کا ہے۔ ایک اپنے ساتھی دوسرے علماء تیسرے عوام الناس، ان تینوں طبقات کا اکرام کرنے کی دل کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس کی مشق کرنی ہے۔*

*"❀_ اور وہ مشق ایسی نہیں کہ جیسے غیر مسلم قوتیں کرتی ہیں بلکہ ہر ایک کی کسی نہ کسی صفت حمیدہ کو سامنے رکھ کر کہ وہ صفت اللہ تعالی کو محبوب ہے۔*

*"❀_ کم از کم مسلمان میں اگر اور صفت نظر نہ آئے تو کلمہ گو ہونے کی صفت ضرور ملے گی اور یہ سب سے بڑی صفت ہے۔ اور اس کا لحاظ کر کے اکرام کرنا گویا کہ کلمے کا ہی اکرام ہے اور کلمہ کا اکرام اللہ تعالیٰ ہی کا‌ اکرام ہے۔*

*"❀_ساتھیوں کا اکرام:- جو اپنے ساتھیوں سے بے اکرامی یا بد خلقی سے پیش آئے تو یہ دوسروں کا کتنا ہی اکرام کرے ۔ اکرام اس کی صفت نہیں بنے گی اور ایک رسم ہی سمجھا جائے گا۔*

*"❀_ اپنے ساتھیوں کے اکرام میں اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کا اکرام بھی ہے۔ اس کے بعد خواص کفار کا بھی اکرام ہے ۔ جب عدی بن حاتم حضور پاک ﷺ کے پاس اسلام لانے سے پہلے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنی چادر پاک اس کے لئے بچھا دی اور اپنے صحابہ سے خطاب کر کے فرمایا "جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار آئے تو اس کا اکرام کرو _,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *☞ _اکرام کے اہم اصول:-*

*"❀_ اکرام میں چار چیزوں کا اصولی طریقہ سے لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ باقی چیزیں انہی کے اجزا ہیں۔*

*"❀_(الف) ایک اذیت پر صبر ۔*
*"_(ب ) اپنا مال ان پر خرچ کرنا۔*
*"_(ج) ہر ایک کے ساتھ انبساط طبق الوجیہ (مسکراتے چہرے) کے ساتھ لمنا۔*
*"_(و) اور معاملات میں نرمی کرنا۔۔*

*"❀_اگر ان چیزوں کی مشق کرتے ہوئے ہم اکرام سیکھیں گے اور اللہ تعالی سے دل کے ساتھ مانگیں گے تو انشاء اللہ یہ صفت حاصل ہوگی۔*

*"❀_ سب سے اونچے درجات اکرام کرنے والوں کے ہیں اور سب سے بڑی جاذبیت اکرام کرنے والوں میں ہے۔ دشمن بھی زیر ہو جاتے ہیں۔ پرائے بھی اپنے بن جاتے ہیں۔*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ _حصول علم میں ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم :-*

*"❀_علم کا نمبر بھی اس میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ امت کو اگر طریقہ نبوی سے علم کے سیکھنے سکھلانے کا معلوم ہو جائے تو سو فیصد امت میں علم زندہ ہو جائے اور اس دعوت میں اس طریق کو زندہ کرنا ہے۔*

*"❀_ ہمارے زمانے کا طریقہ خواص کے لئے ہے، عوام کے لئے نہیں۔ اس لئے ایک طبقہ علم کے بلند مرتبوں کو پہنچ رہا ہے کہ قرآن کے حقائق اور دقائق بیان کرتا ہے اور دوسرا طبقہ کلمہ سے بھی نا واقف ہے اور فرائض کو بھی نہیں جانتا اور امہات العقائد کی بھی خبر نہیں۔*

*"❀_اگر علم کا وہ طریق زندہ ہو جائے جس پر صحابہ کرام نے علم لیا تو دونوں طبقوں میں افادہ اور استفادہ کا تعلق بھی قائم ہو جائے گا اور ہر آدمی کے اندر بقدر ضرورت علم بھی آجائے گا۔*

*"❀_ چونکہ زمانہ کا رواج علم کے بارے میں اور اس کا نقشہ دماغوں میں دوسرا بن گیا ہے اس لئے تبلیغ والوں پر اعتراض یہ ہے کہ یہ علم کی طرف رغبت نہیں کرتے اور نہ لوگوں کو رغبت دلاتے ہیں۔*

*"❀_ دوسرے عوام الناس کو جن کو کلمہ اور نماز تک کے سیکھنے کی ضرورت ہے امهات العقائد جاننے کی ضرورت ہے حلال و حرام پہچاننے کی ضرورت ہے، معاملات کے علم کی ضرورت ہے، ان کو قرآن و حدیث کے وہ حقائق اور دقائق سنائے جا رہے ہیں کہ جو ان کے لئے بغیر پہلی چیزوں کے صحیح ہوئے زیادہ فائدہ نہیں رکھتے۔ جس چیز کی پہلے ضرورت ہے اس کا علم مقدم ہے۔*

*"❀_حضرت مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ علم کی نفی نہیں فرماتے تھے مگر ایک ترتیب بتلانا چاہتے تھے تاکہ ہر شخص اپنی ضرورت کا علم لینے والا بن جائے اور وہ علم اس کی ضرورت کو پورا کر دے۔ محض تفریح طلب نہ بنے۔ حضور پاک ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو طریق علم رکھتے تھے اس سے علم زیادہ مفید اور زیادہ عام ہو سکتا ہے۔ باقی طریق مفید ضرور ہیں مگر اس درجہ پر نہیں اور ان کی عمومیت بھی کم ہے۔* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ _ ذکر اللہ میں ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہم :-*

*"❀__ایسے ہی ذکر کا نمبر بہت اہم ہے اور یہ بھی ۱۰۰ فیصد امت میں اسی طریق سے عام ہو سکتا ہے جو طریق نبوی ﷺ سے تھا جس پر تمام صحابہ رضوان اللہ عنہم اپنے کاروبار، بیوی بچوں، مشاغل میں اللہ کا ذکر کرنے والے بنے۔*

*❀_"_ ان کی کثرت ذکر کی جو شکل اس زمانہ میں تھی وہ تو تمام اپنی ضرورتوں میں چلتے اور مشغلوں میں لگے ہوئے جاری تھی۔ چونکہ اس کا نقشہ اس زمانہ میں باقی نہیں رہا اس لئے دوسری شکلیں ایسی وجود میں آئیں جو بڑی فراغت کو چاہتی ہیں۔ اس میں بھی بہت بڑا فائدہ ہے لیکن عموم کم ہے اور ہر شخص نہیں چل سکتا۔*

*"❀__ حضرت مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقده اسی طریقہ نبوی ﷺ کے ذکر کو زندہ کرنا چاہتے تھے تاکہ پوری امت میں ذکر اللہ کا رواج پڑ جائے اور وہ علم دین کے ساتھ بھی اور دنیاوی علوم کے ساتھ بھی اور اپنے تمام مشغلوں کے ساتھ بھی چلتا رہے۔*

*"❀__ اس سے علم اور ذکر دونوں کے طبقوں میں الفت و محبت اور افادہ و استفادہ کی راہ قائم ہو جائے گی کیونکہ ہر مسلمان دونوں صنعتوں کا سخت محتاج ہے۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ تمام اعمال کی پابندی ضروری ہے:-*

*"❀_ اصل تو شروع کے دو ہی نمبر ہیں کلمہ اور نماز ۔ باقی تمام چیزیں انہی میں صحت اور حقیقت پیدا کرنے کے لئے ہیں اور انہی کو پھیلانے کے لئے ہیں۔*

*"❀_ صحیح دعوت پر چلنے والا وہ ہو گا جو ان ساری باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امت کے ساتھ جڑ کر چلے اور امت کو جوڑتے ہوئے چلے اور اس کا مقصد نہ اپنی دنیا بنانے کا ہو نہ عزت و شہرت بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے کلمہ کو بلند کرنا اور جہالت کو ختم کرنا ہو۔*

*"❀_ اپنی ساری حیثیتوں کو اس کے لئے قربان کریں لیکن اس میں بھی بہت بڑا خطرہ پیش آجاتا ہے کہ اپنی قربانیاں قابل تعریف و مدح نظر آنے لگتی ہیں اور دوسروں سے اکرام کا مطالب بن جاتا ہے۔ حالانکہ اس میں اکرام طلب کرنا نہیں بلکہ دوسروں کا اکرام کرنا سیکھنا ہے۔*

*"❀_ اگر ساتھی اکرام نہ کریں تو یہ دل میں خیال نہ آئے کہ میرا اکرام نہیں کیا اور اس کی وجہ سے کام میں سستی نہ پڑے ورنہ شیطان اس بات پر لے جائے گا کہ سارا کیا کرایا ضائع ہو جائے گا۔*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
               *☞ _ حب جاہ سے بچا جائے :-*

*"❀_ کبھی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ میں نے اپنی عمر دعوت کی قربانیوں اور مشغلوں میں لگا دی ادھر پھر بھی میری قدر نہیں کر رہے بلکہ اعتراف قصور بڑھتا رہے کہ ہائے! میں نے کچھ نہیں کیا اور معلوم نہیں کہ قیامت کے میدان میں میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا اور میری یہ محنت قبول ہوگی یا رائیگاں؟*

*"❀_ صحابہ رضوان اللہ عنم با وجود اپنی صحیح قربانیوں کے اپنے اندر نفاق کا خوف رکھتے تھے۔*

*"❀_ جب تک یہ صفت ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک صرف الفاظ ہی الفاظ ہیں حقیقت نہیں، اور امتحان کے موقع پر آدمی الفاظ بھول جاتا ہے اور دل کی حقیقت سامنے آجاتی ہے اور ایسا حال ہو جاتا ہے کہ طوطے کو سالوں کلمہ پڑھایا۔ وہ ہر وقت آنے والوں کے سامنے بولتا رہا لیکن جب بلی نے دبوچا تو کلمہ زبان سے نکلنے کی بجائے ”ٹاں ٹاں" نکلنے لگی۔*

*"❀_ اس لئے ہر چیز کی حقیقت کا دھیان رکھنا ہے۔ ابھی ہمارا یہ لفظ اور کلمہ کہ اللہ ہی سے ہوتا ہے غیر سے کچھ نہیں ہوتا طوطے کا پڑھانا ہے, محنت اس کو اپنے دل میں اتارنے کی کرنی ہے۔* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
               *☞ _گشت کے آداب اور اہمیت:-*

*"❀__ اس کام میں گشت ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ تمام انبیاء کرام علیم الصلوۃ والسلام کی نسبت ہے۔ حضور پاک ﷺ مکہ مکرمہ میں، طائف میں، موسم حج کے موقع پر مینی میں گشت ہی فرمایا کرتے تھے۔*

*"❀__ کبھی تنہا کبھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ گو وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ کبھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کبھی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ گویا کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں طریق سے گشت فرمایا ۔ سورہ یٰس میں تین آدمیوں کا دعوت دینے کے لئے جانا مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ دعوت دینے چلے یہ بھی مذکور ہے۔*

*"❀__ آج گشت کی اہمیت نکل گئی اور وہ چھوٹ گیا۔ صرف مسجدوں کا وعظ باقی رہ گیا۔ وہ بھی غنیمت ہے لیکن گشت کر کے لانے پر جو بات کی تاثیر ہے وہ بغیر گشت کے نہیں۔*

*"❀__ ہر ایک مغالطہ میں پڑ گیا اور یوں سمجھ لیا گیا کہ امت اتنا ایمان رکھتی ہے کہ ہمارے حلال و حرام فرائض و واجبات، حقوق و معاملات کے بیان سن کر عمل پر آجائے گی۔*

*"❀__ حالانکہ ایمان اس قدر کمزور ہو گیا کہ سن کر عمل پر آنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود کثرت وعظ و تقریر اور تحریروں کے امت گرتی چلی جا رہی ہے۔ ترقی پذیر نہیں۔ بد عملی کی طرف جا رہی ہے۔ عمل کی طرف نہیں بڑھ رہی۔*

*"❀__ اس لئے اس خیال کو دل میں جما کر کہ ایمان کمزور ہو چکا۔ موجودہ ایمان سے اعمال پر آنا دشوار ہو گیا، پہلے اس درجہ ایمان کی ضرورت ہے جو خواہشات کے خلاف حضور پاک ﷺ کی طرف کھینچ لے۔ اس لئے گشت بہت ضروری ہے۔* 

*"❀_ گشت میں اپنے لئے ذلت کی مشق ہے (اور تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے) اس سبق کو سیکھنا اور مشق کرنی ہے۔ دوسرے اخلاص کی مشق ہے تیسرے بصیرت حاصل کرنے کی مشق ہے چوتھے امت کا درد اور غم حاصل ہوتا ہے اور سنت انبیاء ہونا تو سب سے بڑی چیز ہے ہی،*

*"❀_ اور جس قدر جد و جہد اس میں پیش آتی ہے اور کسی عمل میں پیش نہیں آتی اور جس قدر صبر و تحمل کی صفات اس میں حاصل ہوتی ہیں اور کسی عمل میں نہیں ہوتیں۔ اگر یہ زندہ ہو جائے تو پورا دین زندہ ہو جائے گا۔*

*"❀_ مولانا محمد الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کا ایک ملفوظ ہے کہ ہم اس کام سے دو باتیں چاہتے ہیں۔*
*"_اول یہ کہ پوری امت جماعتیں بن بن کر گاؤں گاؤں، شہر شہر ملک ملک اقلیم اقلیم حضور پاک ﷺ کی چیزوں کو لے کر پھرنے کی سنت کو زندہ کر کے پائیدار کر دے،*
*"_ اور دوسری چیز یہ کہ ہر مسلمان کا دلی جذبہ یہ بن جائے کہ میرا کام اس دنیا میں اللہ کے راستہ میں جان دینے کے سوا اور کچھ نہیں،*

*"❀_ اور صحیح اصولوں، صحیح نیت اور صحیح جذبہ کے ساتھ گشت کیا جائے تو انسانوں میں دین اس طرح پھیلتا چلا جائے جیسے بارش کے ذریعے زمین پر سبزہ غلے، پھل پھول کھلتے چلے جاتے ہیں۔*

*"❀_ اور یہ گشت تمام کاموں کے ساتھ، مشغولیوں کے ساتھ خواہ دینی ہوں یا دنیاوی اہل و عیال رکھتے ہوئے ہر شخص کر سکتا ہے، جیسے صحابہ رضوان اللہ عنہم کرتے تھے۔ اگر یہ گشت زندہ ہو جائے تو دین زندہ ہو جائے اپنے اندر بھی اور دوسروں کے اندر بھی۔*

*"❀_ ترک لا یعنی ضروری ہے ورنہ اس سے دین کی رونق جاتی ہے اور یہ بھی بہت دشوار بن گئی ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہمارے لئے آسان فرمائے۔ ( آمین)*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ _ داعی کی آٹھ صفات_,*

*❀_ داعی میں یہ آٹھ صفاتیں ہونا چاہیے :-* 
*(1) امت کے ساتھ محبت کا ہونا۔*

*(۲) اپنی اصلاح کی نیت سے دعوت دینا۔*

*(۳) جان و مال وقت کی قربانی کا جذبہ ہونا۔*

*(۴) تکبر اور برائی کی بجائے عاجزی و انکساری کا ہونا۔*

*(۵) کامیابی ملنے پر اللہ کی مدد سمجھنا۔*

*(٦) لوگوں کے نہ ماننے پر نا امید نہ ہونا۔*

*(۷) لوگوں کے تکلیف دینے پر صبر کرنا۔*

*(٨) اور ہر نیک اعمال کے آخر میں استغفار کرتے رہنا 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *☞ _ استقامت کے سترہ اسباب_,*

*❀_ استقامت کے سترہ اسباب حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب نے تحریر فرماۓ:-* 

*❀_(1) جو اس کام کو دل کے ساتھ کرے گاوہ جمے گا۔*
*"_ (۲) جو روزانہ دعوت دے گا اس کے جذبات بنتے رہیں گے جو دعوت نہیں دے گا اس کے جذبات ٹوٹتے رہیں گے ۔*
*"_ (۳) جو ماحول میں رہے گا وہ جمے گا جو ماحول سے کٹے گا وہ کٹ جائے گا۔*
*"_ (۴) جو اس کام میں رخنہ ڈالے گا وہ کٹے گا۔*
*"_ (۵) امیر کی اطاعت اور مشوروں کا پابند رہنے والا جے گا۔*
*"_ (۲) جو کسی کے عیب دیکھے گا وہ کٹے گا جو اچھائیاں دیکھے گا وہ جمے گا۔*
*"_ (۷) جو تواضع اختیار کرے گا وہ جمے گا جو تکبر کے ساتھ چلے گا وہ نہیں جم سکتا ۔*
*"_ (۸) بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کام سے محروم ہو جاتا ہے۔ غیبت اغراض تنقید بد نظری شہوت..,*
*"_ (۹) جو مذاہب توجہ استغفار کے ساتھ چلے گا وہ جمے گا۔*
*"_ (۱۰) جو دوسروں کی غلطی اپنے اوپر لے گا وہ جمے گا جو دو سروں پر ڈالے گا وہ نہیں جم سکے گا۔*

*❀_ (11) جو حضور اکرم ﷺ کے ساتھ منافقت کرے گا نفع نہیں اٹھا سکے گا حتیٰ کہ ایمان بھی نصیب نہ ہو گا۔*
*"_ (۱۲) جو دوسروں کی غلط بات کی تاویل کر کے اچھے معنی مطلب کی طرف لے جائے گا وہ جمے گا، جو ہر بات کا الٹا مطلب لے گا وہ نہیں جمے گا۔*
*"_(۱۳) جو آدمی اللہ پاک سے ڈرتے اور مانگتے ہوئے چلے گا وہ جمے گا۔ جمنے کو مانگنا پڑے گا ورنہ ہل جائے گا۔ حضور ﷺ بھی استقامت کی دعا مانگتے تھے, حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی دعا مانگی "اے اللہ مجھے بت پرستوں کی بت پرستی سے بچا" حالانکہ ان سے بت پرستی کا امکان بھی نہ تھا۔ انہوں نے مانگا تو ہم کیا چیز ہیں۔*

*❀__ (۱۴) جو اخلاص سے قربانی دے گا۔ اللہ تعالی اسے ہر حالت میں جمائیں گے۔ ایسے موقعوں پر جب لوگوں کے قدم اکھڑ رہے ہوں گے اللہ تعالٰی اعلیٰ درجے کی رضا نصیب فرمائیں گے ۔*
*"_ (۱۵) جو یہ کہے گا میری وجہ سے کام ہو رہا ہے وہ محروم ہو جائے گا، جس کے متعلق لوگ یہ سمجھیں گے کہ اس کی وجہ سے کام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالی اسے اٹھا لیں گے۔*

*❀__(۱٦) حضرت جی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے جو نقل پر اکھڑے گا وہ اصل پر کیسے جمے گا ہم تو نقل کرنے والے ہیں۔*
*"_ (۱۷) جو پوری امت کے غم لے کر چلے گا اس کے قلب کی کیفیات کو اللہ پورے عالم پر ڈالیں گے۔*

*❀__صاف سی بات ہے کہ کوئی بھی کام صحیح صحیح اصولوں کے مطابق کرنے پر ہی صحیح نتیجہ دیتا ہے۔ تبلیغی کام کے اصول جاننے کے لئے ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں کہ بانی جماعت حضرت مولوی محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ کے قریبی اور بھروسے کے لوگوں سے کام کے اصول سیکھیں ۔*

*❀_حضرت مولوی سعید احمد خان رحمہ اللہ بڑے حضرت جی حضرت مولوی محمد الیاس کے بہت قریبی رفیق ہونے کے علاوہ خود بھی بڑے عالم تھے اور عمر بھر کا تبلیغی تجربہ رکھتے تھے ان کی ایک ایک بات ہمارے لئے قیمتی سرمایہ اور قابلِ قدر نعمت ہے۔ اپنے دو قریبی رفیقوں کو انہوں نے دعوت و تبلیغ کے متعلق ایک طویل خط لکھا تھا جس میں تبلیغ کے اہم اصولوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا تھا۔ اس خط کو ہم نے آپ کی خدمت میں نور ہدایت میں پیش کیا، اللہ تعالیٰ ہم سب ساتھیوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین،*

*💤_ حضرت مولانا سعید احمد خان صاحب رحمۃ اللہ,*
 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
 https://haqqkadaayi.blogspot.com  
*👆🏻ہماری پچھلی پوسٹ سائٹ پر دیکھیں,* 
https://chat.whatsapp.com/DsQk3786EvG3qjKxWF7Hsl
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوسٹ پانے کے لئے گروپ جوئن کریں _,*
https://chat.whatsapp.com/LV8KS9l627sKt8cJMIcdqC
*👆🏻 صرف اردو پوثٹ کے لیے لنک پر کلک کریں_,* 
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments