SHAB E BARAAT KI HAQEEQAT-(URDU)

 

*🎍﷽ 🎍*              
      ┯━══◑━═━┉─○─┉━◐══┯
               *●•۔ شب براءت کی حقیقت •●*
                        *❂ پیش لفظ ❂*
       ▦══────────────══▦
*❂_ بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على خاتم الانبياء والمرسلين وعلى اله وأصحابه وأمته أجمعين_,"*
*"_اما بعد ! اللہ تعالی نے اپنے بے انتہا فضل ورحمت اور بندوں پر شفقت کی وجہ سے کچھ خاص مواقع ایسے عنایت فرماۓ ہیں جن میں بندوں کو مغفرت و رحمت اور ثواب حاصل کرنے کا سنہرا موقع حاصل ہوتا ہے ۔*

*❂_ ان موقعوں میں جس طرح رمضان مبارک اور شب قدر ہے، ایک موقع پندرہویں شعبان کی رات بھی ہے، جس میں اللہ تعالی کی طرف سے بے شمار لوگوں کی مغفرت کا ذکر روایتوں میں وارد ہوا ہے ۔ اس لئے اس رات کو لیلۃ البراءت کہتے ہیں ، یعنی جہنم اور عذاب سے چھٹکارے اور خلاصی کے فیصلہ کی رات۔*

*❂_شب براءت کی فضیلت میں جو روایات کتابوں میں مذکور ہیں ان میں اکثر کا ضعف معلوم ہے مگر چوںکہ وہ متعدد ہیں ، اور بعض کا ضعف ہلکا ہے اس لئے ان کے مجموعہ سے اس رات کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ یہی بات علماء محققین نے بیان فرمائی ہے ۔ لیکن بہت غلط سی باتیں بھی شب براءت کے متعلق کتابوں میں لکھی گئی ہیں اور لوگوں میں مشہور ہیں ، علماء محققین نے ان کی تردید کی ہے، اس کتاب کا مقصد صحیح اور غلط میں تمیز پیدا کرنا ہے،*

*❂_ اصل چیز شریعت میں کتاب وسنت اور صحابہ کرام کی زندگی ہے، جو چیز یہاں سے ملتی ہو اس کو مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے ، اور جو باتیں بے اصل ہیں ان کو چھوڑ دینا چاہیے, تفسیر و احادیث دونوں فنون میں محققین کی تحقیقات موجود ہیں ۔ ان سے خود فائدہ اٹھانا چاہئے اور لوگوں کو بھی فائدہ پہونچانا چا ہئے _، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس سے فائدہ پہنچاۓ اور میرے لئے ذریعہ نجات بناۓ ۔ آمین!*              
 ╥────────────────────❥ 
                        *❂ فضیلت ❂*
       ▦══────────────══▦
 *❂ _(۱) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی پندرھویں شعبان کی رات میں، یعنی چودھویں اور پندرھویں شعبان کی درمیانی رات میں اپنی تمام مخلوقات کی طرف توجہ فرماتے ہیں ، مشرک اور دشمنی رکھنے والے کے سوا مخلوق کی مغفرت فرماتے ہیں ۔*

*"_ طبرانی نے اوسط میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور بیہقی نے اس کو روایت کیا ہے _,"*
*🗂️_ الترغیب والترہیب، جلد ۲ صفحہ ۱۸،جلد ۳ صفحه ۴۵۹)*

*❂ _(۲) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالی پندرھویں شعبان کی رات میں اپنی مخلوق کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں ، سواۓ دو کے، (ایک) دشمنی رکھنے والا ( دوسرا) کسی (نفس محترم) کوقتل کرنے والا، اس کو امام احمد نے نرم سند کے ساتھ روایت کیا۔*
*🗂️_ (الترغیب والترہیب، جلد ۳ صفحہ ۴۲۰)*
       
*❂_(۳)_ علاء بن حارث سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔ ایک رات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے ،نماز پڑھی اور اتنا لمبا سجدہ کیا کہ میں نے سمجھا آپ کا انتقال ہو گیا۔ یہ دیکھ کر میں اٹھی اور آپ کے انگوٹھے کو حرکت دی ،تو آپ ﷺ ہلے اور واپس ہوۓ، جب آپ سجدہ سے اٹھے اور نماز سے فارغ ہوۓ تو فرمایا۔اے عائشہ یا فرمایا اے حمیراء ! کیا تم نے یہ سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے ساتھ بیوفائی کی غداری کی ،*
*"_ میں نے کہا- نہیں, یا رسول اللہ خدا کی قسم ! لیکن میں نے یہ سمجھا کہ آپ کا انتقال ہو گیا۔ اس لئے کہ آپ نے سجدہ طویل کیا، آپ نے فرمایا۔ جانتی ہو یہ کون سی رات ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔*
*"_ فرمایا یہ پندرھویں شعبان کی رات ہے۔ اللہ تعالی اس رات میں اپنے بندوں کی طرف توجہ فرماتے ہیں ۔ اور مغفرت طلب کرنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں ۔ اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتے ہیں ، اور دشمنی رکھنے والوں کو مؤخر کر دیتے ہیں ان کی حالت پر _،*
*"_ اس کو بھی بہیقی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ بھی جید مرسل ہے اور شاید علاء نے مکحول سے سنا ہو۔*
*🗂️_ الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحه ۴۶۲_,*

*❂"_ اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے سنا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ اعوذ بعفوك من عقابك واعوذ برضاك من سخطك وأعوذبك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك _,"*
*"_(ترجمہ): اے اللہ ! میں تیری سزا سے تیری عفو کی پناہ میں آتا ہوں، اور تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں ، تیرے (عذاب ) سے تیری پناہ میں آتا ہوں ، میں تیری پوری تعریف نہیں کر سکتا تو ویسا ہی ہے جیسی تو نے خود اپنی تعریف کی ۔*
*🗂️_ الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ ۱۱۹_*
  
*❂"_ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سوکر اٹھنے کے بعد نہیں پایا۔ میں باہر نکلی تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں تھے۔ آپ نے فرمایا ۔ کیا تم ڈر رہی تھیں کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے (یعنی تمہاری باری کے دن دوسری بیوی کے پاس چلے جائیں گے)*

*"_ میں نے کہا ۔ یا رسول اللہ میں نے سمجھا کہ آپ دوسری بیوی کے یہاں تشریف لے گئے ۔* 
*"_آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات میں قریبی آسان کی طرف نزول فرماتے ہیں ( یہ اترنا اللہ تعالی کی شان کے مطابق ہوتا ہے) اور بنو کلب کے قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ مغفرت فرماتے ہیں _"۔*
*🗂️_ترمذی جلد ۱ صفحہ ۱۵٦,*

*❂"_امام ترمذی نے فرمایا کہ امام بخاری نے اس حدیث کو ضعیف بتایا۔ (ایضا )*
   
 ╥────────────────────❥ 
                        *❂ _فائدہ _❂*
       ▦══────────────══▦
 *❂_ شب براءت کی فضیلت میں جتنی روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کوئی بھی ایسی نہیں جو کلام سے خالی ہو، چونکہ ضعیف روایات کئی ایک ہیں اور متعدد صحابہ سے مروی ہیں، بعض کی سند میں زیادہ کلام نہیں بعض کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں جگہ دی، محدثین کے اصول کے مطابق مجموعہ احادیث سے شب براءت کی فضیلت ثابت مانی جاۓ گی، یہی بات عام طور پر محدثین اور فقہاء میں مشہور ہے، اور یہی حق ہے۔*

*❂_علامہ ابن تیمیہ جو عام طور سے ایسی چیزوں کا انکار کر دیتے ہیں وہ بھی شب براءت کی فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں ۔فرماتے ہیں ، نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں اتنی احادیث اور آثار مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو فضیلت حاصل ہے"، اور بعض سلف نے اس رات کو نماز کے لئے خاص کیا ہے۔ ( فیض القدیر جلد ۲ صفحہ ۳۱۷)*

*❂_ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جو فضیلت اس رات کی ہے وہ یہ ہے کہ شروع رات ہی سے اللہ تعالی بندوں کی طرف توجہ فرماتے ہیں ، اور توبہ کرنے والوں ، استغفار کرنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں ، اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس موقع کو غنیمت سمجھے، اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہاۓ ۔ گناہوں سے باز رہنے کا اللہ کی بارگاہ میں عہد کرے،*

*❂_ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا طالب بنے ، اپنے لئے بھی ، تمام مسلمانوں کے لئے بھی، مردوں اور زندوں کے لئے بھی دعاۓ مغفرت کریں اور اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ضرور مغفرت فرمادیں گے ، اور رحم فرمائیں گے۔*

 ╥────────────────────❥ 
                    *❂ _بدنصیب لوگ ❂*
       ▦══────────────══▦
*❂"_حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اس مبارک رات میں بھی کچھ اللہ کے بندے اللہ تعالی کی مغفرت سے محروم رہتے ہیں۔ وہ ہیں:- مشرک، دشنی رکھنے والے ، شراب پینے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے لنگی یا پائجامہ وغیرہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے، زنا کرنے والے، محترم نفس کوقتل کرنے والے ،رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والے _,"*

*❂"_ اس لئے ہر مسلمان خیال کرے کہ ان گناہوں میں سے کوئی بھی گناہ اس کے اندر ہو تو خصوصیت سے اس سے توبہ استغفار کرے اور مغفرت کی دعا کرے، ورنہ یہ مبارک رات جس میں اللہ تعالی کی طرف سے رحمت اور مغفرت کی بارش ہوتی ہے، آ کر چلی جاۓ گی اور وہ اس سے محروم رہے گا،*

*❂"_اگر کسی کا حق دبایا ہے اور ستایا ہے، تکلیف دی ہے تو معافی بھی مانگے اور اس کا حق ادا کرے اس لئے کہ حقوق العباد کا ضابطہ یہ ہے کہ بندوں کے معاف کئے بغیر اللہ تعالی بھی معاف نہیں فرماتے _,"*

 ╥────────────────────❥ 
          *❂ شب براءت کی خصوصیت _❂*
       ▦══────────────══▦
*❂ "_ شب براءت کی خصوصیت یہ ہے کہ اول شب ہی سے مغفرت و رحمت کی بارش ہونے لگتی ہے اور صبح تک رہتی ہے اور بے شمار لوگوں کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ ورنہ اللہ تعالی کا قریبی آسمان کی طرف نزول ہر رات ہوتا ہے لیکن آخری تہائی حصہ میں مگر ہر رات اس کثرت سے مغفرت کا اعلان نہیں ( یہ بات حافظ زین الدین عراقی نے کہی)_,"*
*(فیض القدر جلد ۲ صفحہ ۳۱۷)*

*❂ "_ ہاں مگر یاد ر ہے کہ شب براءت کی روایات ضعیف ہیں اور ہر رات آخری تہائی حصہ میں نزول کی روایت بالکل صحیح ہے، اس لئے یوں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے قدردانوں کے لئے ہر رات مغفرت و رحمت حاصل کرنے کا موقع عنایت فرمایا ہے اور اللہ تعالی کی بے پایاں رحمت کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ ہر روز یہ موقع گنہگاروں کو ملا کرے ۔*

 ╥────────────────────❥ 
        *❂ _ ہر رات عبادت کی رات_ ❂*
       ▦══────────────══▦
*❂"_اسی لئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات اٹھ کر عبادت فرماتے تھے اور لمبی لمبی رکعات اور رکوع اور سجدہ والی نماز پڑھتے تھے، امت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے ۔* 

*❂"_حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہمارا رب تبارک و تعالٰی ہر رات قریبی آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اس کو دوں ، کون ہے جو مجھ سے مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں _,"*
*🗂️"_( بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۵۳ ،مسلم جلد۱، صفحہ ۲۵۸)*

*❂"_مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ پھر دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو قرض دے ایسی ذات کو جو نہ محتاج ہے نہ ظالم", صبح تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔* 
*🗂️( مشکوۃ- صفحہ ۱۰۵)*

*❂_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول شب میں سو جاتے اور آخری شب کو زندہ رکھتے (یعنی عبادت کرتے)_,"*
*🗂️( مشکوۃ- 109)* 

*❂_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی نماز پڑھتے تھے کہ آپ کے دونوں قدم پھول جاتے، کبھی فرماتی ہیں کہ پھٹ جاتے، کہا جاتا ہے کہ آپ اتنی کیوں محنت کرتے ہیں، آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہیں تو فرماتے، کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں _,"*
*🗂️_( بخاری شریف زجلد ١, صفحہ ١٥٢ )"*

*❂"_حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو آخری حصہ میں اپنی بیویوں کو بھی اٹھاتے تھے تا کہ وہ نماز پڑھیں، پھر وہ آیت تلاوت فرماتے جس کا ترجمہ یہ ہے:- اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر جمے رہو، ہم تم سے روزی نہیں مانگتے ہم تم کو روزی دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے ۔‘‘* 

*❂_شب براءت کی ضعیف احادیث کی وجہ سے اگر ہم عبادت کا اہتمام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے، تو تمام راتوں میں بھی ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے اس لئے کہ ہر رات آخری حصہ میں اللہ تعالی کا نزول ہوتا ہے اور دعا کے لئے بلایا جا تا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اس کا اہتمام کرتے تھے۔ قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب موجود ہے ، لیکن یاد رہے کوئی عبادت محض رواجی طور پر نہیں کرنی چاہیے_,"*   
      
 ╥────────────────────❥ 
     *❂_شب براءت میں قبرستان جانا_ ❂*
       ▦══────────────══▦
*❂__مذکورہ روایات میں سے ایک دو روایت میں رات کو اٹھ کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قبرستان جانا بھی مذکور ہے، یہ بات بھی شب براءت کی خصوصیات میں سے نہیں بلکہ دوسری صحیح روایات سے بھی آپ کا رات کے آخری حصہ میں قبرستان جانا ثابت ہے ۔*

*❂_"_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے یہاں رات کو رہنے کی باری ہوتی آخر رات میں بقیع ( مدینہ کے قبرستان) جاتے اور یہ فرماتے ۔*
*"_ اے مؤمنین کے قبرستان والو تم پر سلامتی ہو۔ تمہاری موت آ گئی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔ کل ( قیامت ) کی طرف تم جا رہے ہو، ہم بھی تمہارے ساتھ انشاءاللہ مل جائیں گے ۔ یا اللہ بقیع والوں کی مغفرت فرما_,"*
*(صحیح مسلم جلد ا صفحہ ۳۱۳)*

*❂_"_اس روایت یا اس جیسی صحیح روایات میں شب براءت یا کسی خاص رات کو قبرستان جانے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ جب بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنے کی باری ہوتی تو آپ قبرستان تشریف لے جاتے _,"*

*❂_"_ حضرت برید و اسلمی فرماتے ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تم کو زیارت قبور سے منع کیا کرتا تھا (لیکن اب کہتا ہوں کہ) قبروں کی زیارت کیا کرو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اس سے موت کی یاد آتی ہے_,"*
*( صحیح مسلم جلد ا صفحه ۳۱۴)*

*❂_"_اس حدیث میں دن اور رات کی بھی کوئی قید نہیں ، جب کسی کو موقع ہو قبرستان جانا چاہیے اور اپنی موت کو یاد کرنا چاہیے اور مرحومین کے لئے دعائے مغفرت و رحمت وغیر ہ کرنی چاہیے۔ لیکن صرف شب براءت میں اس عمل کو کر کے سال بھر کی فرصت نہیں سمجھ لینی چاہیے اور زیارت قبور کے لئے کسی خاص دن کی تخصیص ، (مثلاً جمعہ یا جمعرات) کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔ اس لئے ایسی تخصیص کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے_,"*

 ╥────────────────────❥ 
*❂_شب براءت میں کوئی خاص نماز ثابت نہیں_❂*
       ▦══────────────══▦
*❂"_حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ذکر کی جاتی ہے جس میں سو رکعات کی ایک نماز بتائی گئی ہے ۔ ابن الجوزی وغیرہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے _,"*
*( معارف السنن جلد ۵ صفحہ ۴۱۹)*
*"_امام ذہبی ابن عراق اور امام سیوطی ، ملا علی قاری وغیر ہ محدثین نے اپنی کتابوں میں ایسی نمازوں کی سخت تردید کی ہے ،*

*❂"_ ۔ غنیۃ الطالبین اگر چہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف ہے لیکن اس میں بہت سی باتیں بعد میں داخل کر دی گئی ہیں ۔ یہ بات امام ذہبی نے کہی ہے ( تقریر مولانا شبیر احمد ثانی شائع کردہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل صفحہ ۲۷۷) اس لئے یہ کتاب بھی معتبر نہیں رہی۔*

*❂"_ احادیث کے باب میں محدثین کا قول معتبر ہوتا ہے ، صوفیاء کرام اور واعظین کا نہیں، اس کی تصریح علماء حدیث نے کی ہے ۔*

*❂"_ملاعلی قاری نے شب براءت کی نمازوں کے بارے میں ایک خاص فصل قائم کی ہے اور ان کو ذکر کرکے ان کا بے اصل ہونا بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ نمازیں چوتھی صدی کے بعد ایجاد ہوئی ہیں ، اور بیت المقدس سے ان کی ابتداء ہوئی ہے ۔ پھر ان کے لئے حدیثیں وضع گھڑ لی گئیں۔ ( موضوعات کبیر صفحه ۳۳۰، تذکرۃ الموضوعات للنتنی صفحه ۴۵)*
    
 ╥────────────────────❥ 
              *❂_ منکرات اور بدعات _, ❂*
       ▦══────────────══▦
*❂"_اس موقع پر امت میں بہت سے بے بنیاد اعتقادات اور افعال رائج ہیں جو ناجائز اور بدعت ہیں ۔ان میں سے چند یہ ہیں: -*

*❂"_ (۱) زیادہ روشنی کرنا اور آتشبازی کرنا:-*
*"_ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (ماثبت بالسنت میں) لکھتے ہیں ۔ ایک بری بدعت جو ہندوستان کے اکثر شہروں میں رائج ہے یہ ہے کہ لوگ چراغ روشن کرتے ہیں ، اور گھروں کی دیواروں پر رکھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ نیز جمع ہوکر آگ کے ساتھ لہو ولعب کرتے ہیں ، پٹاخے پھوڑتے ہیں،*

*❂"_ یہ ایسی بات ہے جس کا ذکر کسی بھی معتبر کتاب میں نہیں ہے۔ اس کے متعلق کوئی حدیث ضعیف اور موضوع بھی نہیں ہے۔ اور ہندوستان کے سوا کہیں اس کا رواج نہیں۔*
*"_ غالباً یہ بدعت ہندوؤں کے تہوار دیوالی سے مسلمانوں نے لی ہے۔ اس لئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت سی بدعتیں آ گئی ہیں ۔ (ماثبت بالسنتہ صفحہ ۲۱۵)*

 *❂"_حدیث میں آیا ہے کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے_"۔(ابوداؤ دصفحہ ۵۵۹)*
*"_اس لئے مسلمانوں کو اس سے بالکل احتراز کرنا چاہئے اس میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا بالکل حرام ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں اس کے لئے جو پیسہ دیا جاۓ گا اس کا سخت گناہ ہوگا۔* 

*❂"_بعض علماء نے کہا کہ خاص راتوں میں ( شب برأت و شب قدر) زیادہ روشنی کرنا ( مسجد ہو یا گھر ) بہت بڑی بدعت ہے، شریعت میں اس کے مستحب ہونے کی کوئی دلیل نہیں ۔*
*"_غور کرنے کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تو شب براءت میں بھی چراغ نہیں تھا جیسا کہ گذشتہ روایات سے ظاہر ہے۔ اور آپ کے امتی اور آپ کی محبت کا دم بھرنے والے چراغ زیادہ کرنے میں ( روشنی زیادہ کرنے میں) ثواب سمجھتے ہیں ۔ کس قدر افسوس کی بات ہے ۔*            
    
 ╥────────────────────❥ 
               *❂_ منکرات و بدعات _❂*
       ▦══────────────══▦
*❂ "_(۲) حلوے کی رسم _"*
*"_ بعض لوگ حلوا پکانے کو ضروری سمجھتے ہیں ، اس کے بغیر ان کی شب براءت ہی نہیں ہوتی, یہ بالکل بے اصل اور غلط رسم ہے۔*

*❂ "_ بعض یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جب ( احد میں) دندان مبارک شہید ہوا تو حلوا نوش فرمایا۔ کوئی کہتا ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس دن شہید ہوئے تھے, ان کی فاتحہ ہے ۔*
*"_ یہ بالکل موضوع اور غلط قصہ ہے ۔ اس کا اعتقاد رکھنا بالکل جائز نہیں ۔ بلکہ عقلاً بھی ممکن نہیں اس لئے کہ احد کا واقعہ شوال میں پیش آیا نہ کہ شعبان میں _,"*

*❂ "_(۳) مردوں کا گھر میں آنے کا عقیدہ_,"*
 *"_بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ شب براءت میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ہمارے لئے کچھ پکا ہے یا نہیں۔ یہ بالکل بے اصل ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔*

*❂ "_ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ شب براءت سے پہلے کوئی مرتا ہے تو جب تک شب براءت میں اس کا فاتحہ نہ ہو وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا ( یعنی اس کی روہ بھٹکتی رہتی ہے) ۔ یہ بھی لغو اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے۔*

*❂"_ (۴) بعض لوگ اس موقعہ پر برتنوں کا بدلنا، گھروں کو رنگ و روغن کرنا کار ثواب سمجھتے ہیں ۔*

*❂"_(بعض جگہ پر خاص عبادت کا انتظام کیا جاتا ہے، کھانے پکائے جاتے ہیں، دعوت اڑائی جاتی ہیں، مسجدوں میں بھی رات بھر کھانے پکانے کا دور چلتا ہے، شور شرابا کیا جاتا ہے اور جو لوگ عبادت کرنے آتے ہیں ان کو اس سے پریشانی ہوتی ہے اور نہ ہی مسجد کے آداب کا لحاظ کیا جاتا ہے , یہ بھی ایک عام رواج بنتا جا رہا ہے، اس رات میں ان اعمال کا کوئی ذکر ہی نہیں بلکہ عبادت تو بغیر کسی التزام کے بھی کی جاسکتی ہے)*    
 ╥────────────────────❥ 
*❂_پندرہویں شعبان کا روزہ ثابت نہیں_❂*
       ▦══────────────══▦
*❂"_بعض حضرات پندرہویں شعبان کے روزہ کو سنت بتاتے ہیں ، ان کو ابن ماجہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے دھوکہ ہوا۔ یہ روایت معتبر نہیں ۔ اور روزہ کا ذکر اسی روایت میں ہے۔ یہ حدیث نمبر ۸ ہے۔ اس کے حاشیہ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں ایک راوی ابن ابی سبرہ بہت ہی ضعیف ہے۔ اس پر حدیث وضع کرنے کا الزام ہے _,"*
*(میزان الاعتدال للذہبی جلد ۴، صفحہ ۵۰۳)*

*❂"_ در مختار میں ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو اور وہ اصل عام کے تحت ہو اور یہ کہ اس کی سنیت پر اعتقاد نہ رکھا جائے_,"*
*(درمختار مع الشامی جلد ا صفحہ ۸۷ طبع نعمانی )*
*"_اور یہ حدیث تواشد ضعیف ہے، اور اس کا کوئی اور طریق بھی معلوم نہیں ۔*

*❂"_ اس لئے یہ روز نفل کی نیت سے رکھ سکتے ہیں ، سنت یا ثابت سمجھ کر نہیں ۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے عمل کی نسبت ہوگی جو آپ سے ثابت نہیں ۔ اور یہ بہت خطرناک بات ہے ۔حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تم کو معلوم نہ ہو میری طرف سے حدیث بیان نہ کرو، جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناۓ ۔ (مشکوۃ صفحہ ۳۵)*

*❂"_بیہقی نے شعب الایمان میں ایک راویت ذکر کی ہے۔ جس میں چودہ رکعت کی ایک نماز مذکور ہے۔ اس کے بعد ۱۴- ۱۴ مرتبہ سورۂ فاتحہ، اخلاص، معوذتین ، آیت الکرسی وغیرہ پڑھنا اور پھر صبح کو روزہ رکھنا اور اس روز ہ کا ثواب دو سال کے روزوں کے برابر ہوتا ہے، بیہقی نے اس کو ذکر کر کے امام احمد کا قول ذکر کیا کہ یہ حدیث موضوع معلوم ہوتی ہے اور یہ منکر ہے اس میں عثمان بن سعید جیسے لوگ مجہول ہیں ۔ (جن کا کچھ پتہ نہیں )*
*(شعب الایمان البیہقی، جلد 3 صفحہ ٣٨٧)* 
*"_ آلوسی نے بھی _بیہقی کا یہ کلام ذکر کیا ہے۔ ( روح جلد ۲۵،صفحہ ۱۱۱)*

*❂"_شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی اس حدیث کو نقل کر کے مذکورہ کلام نقل کیا اور لکھا کہ جوزقانی نے اس کو اباطیل میں نقل کیا اور ابن الجوزی نے موضوعات میں اور کہا کہ موضوع ہے (ما ثبت بالسنۃ صفحہ ۲۱۳ ،تحفه جلد ۲، صفحہ ۵۴)*

*❂_ مسئلہ:- ایک مسئلہ شب برأت کے بعد والے دن یعنی پندرہویں شعبان کے روزے کا ہے اس کو بھی سمجھ لینا چاہیے، "_وہ یہ ہے کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزے کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برأت کے بعد والے دن کو روزہ رکھو, لیکن یہ روایت ضعیف ہے، لہذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہویں شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں، البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزے رکھنے کی فضیلت ثابت ہے یعنی یکم شعبان سے 27 شعبان تک روزے رکھنے کی فضیلت ثابت ہے _,"*
*( البلاغ، جمادی الثانی / رجب 1417 ہجری)*          
 
 ╥────────────────────❥ 
 *❂_ شعبان کے روزے ثابت اور سنت ہیں_❂*
       ▦══────────────══▦
*❂_"_ہاں ماہ شعبان میں روزہ رکھنا کسی دن کی تخصیص کے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ شعبان میں روزے کثرت سے رکھتے تھے۔*
*"_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی مہینہ میں پورے مہینہ کا روزہ رکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں آپ کو روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ ( بخاری جلدا ، صفحہ ۲۲۴)*

*❂_"_ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھے ۔اس لئے شعبان میں کثرت سے روزہ رکھنا بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہوگا۔ البتہ اگر ضعف کا خطرہ ہوتو آدھے شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جائیں ۔*
*_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب آدھا شعبان رہ جاۓ تو روزہ مت رکھو ۔ ( ترمذی-١٥٥)*

*❂_"_اسی طرح رمضان کے خیال سے ایک دو روز قبل بھی روزہ نہ رکھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے۔ ہاں کسی کو مہینہ کے آخر میں روزہ رکھنے کی عادت ہو یا ہفتہ کے خاص دنوں میں اور وہ شعبان کے آخر میں آگئے تو شعبان کے آخر میں رکھ سکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ روزہ رمضان کی تعظیم کی وجہ سے نہیں ہے۔*
*( بخاری شریف جلد ۱ ، صفحہ ۲۵۲)*

*"❂__اسی طرح شک کے دن میں بھی ( 30 شعبان کو ) عام لوگوں کو روز نہیں رکھنا چاہیے ، بلکہ دو پہر کے قریب تک انتظار کرنا چاہیے،*       

 ╥────────────────────❥ 
                       *❂_خلاصہ _ ❂*
       ▦══────────────══▦
*❂_"_حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا- اے ابوذر ! جب تم مہینے کے تین روزے رکھوں تو تیرہویں چودھویں پندرہویں کے روزے رکھا کرو _," ( جامع ترمذی )*

*❂_"_ پندرھویں شعبان کے روزے کی حدیث بہت ضعیف ہے لیکن علماء صلحاء کا قدیم ایام سے اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ باہر بھی یہی مامول ہے کہ پندرھویں شعبان کی شب میں عبادت کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں، اس رات کی عبادت کے متعلق تو متعدد روایات ہیں لیکن روزہ کے متعلق صرف ایک حدیث ہے، اس لئے پندرھویں کے ساتھ اگر تیرہویں اور چودہویں کا روزہ بھی رکھ لیا جائے تو یہ ایام بیض کے روزے ہوجائیں گے _", ( فقہل عبادات -349)* 

*❂_"_ سند کے اعتبار سے پندرھویں شعبان کا روزہ کی روایت ضعیف ہے فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے استدلال درست ہے، پس اس روزہ کو بدعت کہنا درست نہیں جب کہ اس کے متعلق حدیث شریف موجود ہیں _" ( فتاوی محمودیہ - 10/204)* 

*❂_"_ پندرھویں شعبان کا روزہ مستحب ہے اگر کوئی رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کچھ حرج نہیں _", (فتاوی دارالعلوم دیوبند - 6/309)*

*❂_"_خلاصہ یہ ہے کہ محدثین کا مشہور قاعدہ ہے کہ ضعیف حدیث سے سنت نہیں تو استحباب ثابت ہونے کے لیے کافی ہے, لہذا جو لوگ شعبان میں کثرت سے روزے نہ رکھ سکتے ہوں وہ مستحب سمجھ کر صرف پندرھویں شعبان کا روزہ بھی رکھ سکتے ہیں _,"*
*"_ واللہ اعلم _,"*

*_ 📝_ ایڈمن کی ڈائری- حق کا دائی _,*
 ╭┄┅┅◐═══◐══♡◐♡══◐═══◐┅┅┄╮
          *❂_ شب براءت اور قرآن کریم _❂*
       ▦══────────────══▦
*❂_"_ کیا قرآن کریم میں شب براءت کا ذکر ہے؟ صحیح قول کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے، یعنی قرآن کریم میں شب براءت کا ذکر نہیں ۔*
*"_ سورۂ دخان میں ارشاد خداوندی ہے ۔ ہم نے اس کتاب کو مبارک رات میں نازل کیا بے شک ہم ڈرانے والے ہیں ۔ اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری طرف سے فیصلہ کر کے صادر کیا جا تا ہے۔ (آیت ٣-٤)*
*"_اس مبارک رات سے مراد شب قدر ہے جو رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے ۔ اس کو مبارک اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں پر بے شمار خیر و برکات نازل ہوتی ہیں۔ اور قرآن کریم کا شب قدر میں نازل ہونا سورۂ قدر میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔*

*❂_"_اسی طرح یہ بات بھی قرآن میں صاف مذکور ہے کہ رمضان کے مہینہ میں قرآن ( لوح محفوظ سے قریبی آسمان پر) نازل ہوا۔ ( سورۃ بقرہ رکوع ۲۳ آیت ۱۸۵ ) اس لئے آیات دخان کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر میں سال بھر کی موت و رزق کی تفصیل لوح محفوظ سے نقل کر کے فرشتوں کو دے دی جاتی ہے۔ ( ابنِ کثیر-)*
*"_ یہی بات جمہور مفسر مین سے مروی ہے، جن میں ابن عباس ، قتادہ، مجاہد, حسن بصری وغیرہ شامل ہیں۔ یہی قول جیسا کہ امام نووی نے فرمایا ہے صیح ہے، ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس نے اس رات سے مراد شب براءت کو لیا ہے جیسا کہ اکرمہ سے مروی ہے وہ مقصود سے دور چلا گیا۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ رمضان میں نازل ہوا ۔ ( ابن کثیر سورۂ دخان و معارف السنن، جلد ۵ صفحه ۴۲۰)*

*❂_"_قاضی ابوبکر فرماتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت نہیں جس سے ثابت ہو کہ رزق اور موت وحیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں، (معارف القرآن جلد ٧ ،صفحہ ۷۵۸)*

*❂_"_ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ذکر کی جاتی ہے کہ رزق اور موت وحیات وغیرہ کے فیصلے شب براءت میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالہ کیے جاتے ہیں ۔ (روح المعانی جلد ۲۵ صفحه ۱۱۳) لیکن اس روایت کی سند معلوم نہیں، اس لئے اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ (واللہ اعلم بالصواب )*

*❂_"_مشکوۃ میں ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیہقی کی الدعوات الکبیر کے حوالہ سے مذکور ہے اس میں شب براءت میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کے لکھے جانے اور اعمال پیش ہونے اور رزق نازل ہونے کا مضمون مذکور ہے مگر اس حدیث کا حال معلوم نہیں محدثین ومفسرین کے یہاں اس کا اعتبارنہیں ۔ ( واللہ اعلم بالصواب)*

*❂_"_شب براءت کی فضیلت چونکہ متعدد ضعیف روایتوں میں آئی ہے اور اس کے معارض کوئی آیت یا کوئی حدیث نہیں اس لئے اس کی فضیلت تو تسلیم کی جاۓ گی لیکن شب براءت میں رزق اور موت کے فیصلہ کی بات قرآن کے معارض ہے اس لئے یہ مقبول نہیں ہوگی ۔اس لئے محققین برابر اس کی تردید کرتے رہے ہیں ۔ اس مسئلہ میں واعظین کی بات کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ مفسرین اور محدثین کا انتہار ہوگا ۔*

*❂_"_ایک تنبیہ :- بعض لوگ بیانات میں یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ رجب اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا اور رمضان میری امت کا _,"*
*"_ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ (اخبار موضوعه ملاعلی قاری صفحه ۳۲۹)*

 *"___ الحمد الله اولا وأخراً _,"*

*_ 📝_ شب براءت کی حقیقت :- حضرت مولانا فضل الرحمٰن اعظمی _,"* 
 ╭┄┅┅◐═══◐══♡◐♡══◐═══◐┅┅┄╮
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
   http://www.haqqkadaayi.com
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
https://chat.whatsapp.com/DVebQi8m0ex8pmUPCFetos
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,*
https://chat.whatsapp.com/JbQKfPmYz7sCCEircfTwjx
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments