NOOR E HIDAYAT -URDU-(MALFUZAAT HAZRAT MOLANA ILYAAS REH.)

 *❈❦ 01 ❦❈*      
               ☜█❈ *حق کا دائ*❈ █☞
               ☞❦ *نور -ے- ہدایت* ❦☜         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                  
*🥀_ اعمال میں رسمیت تب آتی ہے' جب ان میں للاہیت اور بندوی کی شان نہیں رہتی اور نیت کے صحیح ہونے سے اعمال کا رخ صحیح ہو کر اللہ ہی کی طرف مڑ جاتا ہے اور رسمیت کے بجائے ان میں حقیقت پیدا ہو جاتی ہے اور ہر کام بندوی اور خدا پرستی کے جذبے سے ہوتا ہے_,*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ ہم لوگوں کو غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اصول کی پابندی کو بھی مشکل سمجھتے ہیں اور اس سے بچتے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی معمولی سے معمولی کام بھی اصول کی پابندی اور کام کا صحیح ڈھنگ اختیار کیے بنا پورا نہیں ہو پاتا،*

*❀_ جہاج کشتی ریل موٹر سب اصول ہی سے چلتے ہیں یہاں تک کہ ہانڈیاں روٹی تک بھی اصول ہی سے پکتی ہے،* 
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__ دین کی محنت فرائض میں شامل ہے فرائض کا درجہ نوافل سے بہت اونچا ہے بلکہ سمجھنا چاہیے کہ نوافل سے مقصود ہی فرائض کی تکمیل یا ان کی کمیوں کی تلافی ہوتی ہے،*

*❀__مگر کچھ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ فرائض سے تو لا پرواہی برتتے ہیں اور نوافل میں مشغول رہنے کا اس سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں،*

*❀__دعوت الالخیر (اچھائی کی طرف بلانا) امر بالمعروف (بھلائی کا حکم کرنا) نہں عن المنکر( برائی سے روکنا) دین کی تبلیغ کے یہ سب شعبے اہم فرائض میں سے ہیں*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__جب کوئی اللہ کا بندہ کسی بھلائی کے کام کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے تو شیطان طرح طرح سے اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی راہ میں مشکلات اور رکاوٹیں ڈالتا ہے لیکن اگر اس کی یہ رکاوٹیں ناکام رہتی ہیں اور خدا کا وہ بندہ بھلائی کے کام کو شروع کر ہی دیتا ہے تو پھر شیطان کی دوسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے اخلاص اور اس کی نیت میں خرابی ڈال دیتا ہے_*

*❀_ یا دوسرے طریقے سے اس بھلائی کے کام میں خود حصے دار بننا چاہتا ہے یعنی کبھی اس میں ریا اور شہرت کی خواہش کو شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی دوسری غرض کی ملاوٹ سے اس کی للہیت کو برباد کرنا چاہتا ہے اور اس میں وہ زیادہ تر کامیاب ہو جاتا ہے،*

*❀_ اس لیے دین کا کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس خطرے سے ہر وقت چوکنا رہے اور اس قسم کے شیطانی بھلاوے اور بہکاوے سے اپنے دل کی حفاظت کرتے رہیں اور اپنی نیتوں کا برابر جائزہ لیتے رہیں کیونکہ جس کام میں اللہ کی رضا و خوشی کے علاوہ کوئی دوسری غرض کسی وقت بھی شامل ہو جائے گی پھر وہ اللہ کے یہاں قبول نہیں،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ علم کا سب سے پہلا اور اہم تقاضہ یہ ہے کہ آدمی زندگی کا جائزہ لے، اپنے فرائض اور اپنی کوتاہیوں کو سمجھے اور ان کو ادا کرنے کی فکر کرنے لگے،*

*"❀_ لیکن اگر اس کے بجائے وہ اپنے علم سے دوسروں ہی کے اعمال کا جائزہ اور ان کی کوتاہیوں کو گننے کا کام لیتا ہے تو پھر یہ علمی گھمنڈ اور غرور ہے اور یہ اہلے علم کے لیے بڑی ہلاکت کی چیز ہے_,*

*"❀_اصلی اللہ کا ذکر یہ ہے کہ آدمی جس موقع پر اور جس حال اور جس کام میں ہو اس کے متعلق اللہ کے جو احکام ہو ان کی نگرانی اور ان پر عمل رکھے،* 
           
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ انسان کو اپنے علاوہ دوسری چیزوں پر جو فخر اور بڑائی حاصل ہے اس میں زبان کو خاص دخل ہے، اگر زبان سے آدمی اچھی باتیں کرتا ہے اور بھلائی ہی میں استعمال کرتا ہے تو یہ فوقیت اور برتری اس کو بھلائی میں حاصل ہوگی،*

*❀__ اگر زبان کو اس نے برائی کا سامان بنا رکھا ہے جیسے بری باتیں بکتا اور بنا وجہ لوگوں کو تکلیف دیتا ہے تو پھر اسی زبان کی بدولت برائی میں مشہور اور اونچا ہوگا،*

*❀__ یہاں تک کہ کبھی کبھی یہی زبان ادمی کو کتے اور صور سے بھی بدتر کر دیتی ہے حدیث شریف میں ہے کہ آدمی کو دوزخ میں اوندھے منہ ان کی بکواس ہی ڈالے گی، اللہ حفاظت کرے_,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ انسان کا قیام زمین کے اوپر بہت کم اور زمین کے نیچے اس کو اس سے بہت زیادہ قیام کرنا ہے یا یوں سمجھو کہ دنیا میں تو تمہارا قیام بہت تھوڑا ہے اور اس کے بعد جن جن مقامات پر ٹھہرنا ہے جیسے مرنے کے بعد پہلی صور پھونکے جانے تک قبر میں،*

*❀_اس کے بعد دوسرا سور پھونکے جانے تک اس حالت میں جس کو اللہ ہی جانتا ہے( اور یہ مدت بھی ہزاروں سال کی ہوگی) اور پھر ہزاروں سال ہی محشر میں اس کے بعد آخرت میں جس ٹھکانے کا فیصلہ ہو،* 

*"_ غرض یہ کہ دنیا سے گزرنے کے بعد ہر منزل اور ہر قیام دنیا سے سینکڑوں ہی گنا زیادہ ہے، پھر انسان کی کیسی غفلت ہے کہ دنیا کے چند روز قیام کے لیے وہ جتنا کچھ کرتا ہے ان دوسرے مقامات (موت کے بعد کے) کے لیے اتنا بھی نہیں کرتا،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ دیکھو سب جانتے اور مانتے ہیں کہ خدا غائب نہیں ہے بلکہ شاہد ہے اور ہر وقت شاہد ہے، تو اس کے حاظر ناظر ہوتے ہوئے بندوں کا اس میں نہ لگنا اور اس کے غیروں میں لگا رہنا (یعنی اس کے علاوہ میں لگے رہنا) سوچو کیسی بے نصیبی اور کتنی بڑی محرومی ہے اور اندازہ کرو کہ یہ چیز خدا کو کتنا غصہ دلانے والی ہوگی،*

 *❀_ اور خدا کے دین کے کام سے غافل رہنا اور اس کے حکموں کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے دنیا میں لگے رہنا ہی اس سے منہ موڑنا ہے اور اس کے علاوہ میں مشغولیت و مصروفیت ہے اور اس کے برعکس اللہ میں لگنا یہ ہے کہ اس کے دین کی مدد کرنے میں لگا رہے اور اس کی حکموں کی فرمانبرداری کرتا رہے،*

*❀_ مگر اس کا دھیان رکھنا پڑے گا کہ جو بات جتنی زیادہ اہم اور ضروری ہو اس کی طرف اسی قدر توجہ دی جائے اور یہ چیز معلوم ہوگی رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے اور معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے جس کام کے لیے سب سے زیادہ محنت کی اور سب سے زیادہ تکلیف برداشت کی وہ کام تھا کلمے کا پھیلانا، یعنی بندوں کو خدا کی بندگی کے لیے تیار کرنا اور اس کی راہ پر لگانا یہی کام سب سے زیادہ اہم رہے گا اور اس کام میں لگنا اعلیٰ درجے کا خدا میں لگنا ہوگا،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__ لوگوں نے اللہ کی غلامی اور بندگی کو انسانوں کی غلامی اور نوکری سے بھی کم درجہ دے رکھا ہے، غلاموں اور نوکروں کا عام حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے مالک کے کام میں لگا رہنا ہی اپنا کام اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اس کے بیچ میں دوڑتے بھاگتے جو کچھ ہاتھ لگ جاتا ہے کھا پی لیتے ہیں،*

*"❀__ لیکن اللہ پاک کے ساتھ اب بندوں کا یہ معاملہ رہ گیا ہے کہ مستقل طور پر تو اپنے کاموں اور پسند و مزیدار چیزوں میں اپنے لیے لگے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کچھ وقت اپنے ان ذاتی کاموں سے نکال کر خدا کا کوئی کام بھی کر لیتے ہیں، جیسے نماز پڑھ لیتے ہیں یا بھلائی کے کام میں چندہ دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس خدا اور دین کا مطالبہ ہم نے ادا کر دیا،*

*"❀__ حالانکہ بندگی کا حق یہ ہے کہ اصل میں اور مستقبل تو ہو دین کا کام اور اپنا کھانا پینا اس کے لیے سامان جٹانا اس کے بعد کی چیز ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب لوگ اپنے اپنے روزی کمانے کے سادھن اور کاروبار کو چھوڑ دیں، مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہو اس کی بندگی کے تحت ہو اور اس کے دین کی خدمت اور نصرت کا سب میں خیال رکھا جائے اور اپنے کھانے پینے کی حیثیت صرف ذمی ہو جس طرح ایک غلام کی اپنے مالک کے کاروبار میں ہوتی ہے،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ یہ بھی خیال رہے کہ اپنی اپنی نماز پڑھنا روزے رکھنا اگر چہ اعلیٰ درجے کی عبادتیں ہیں لیکن یہ دین کی نصرت نہیں ہے، دین کی نصرت تو وہی ہے جس کو قران کریم اور اللہ کے رسول ﷺ نے نصرت بتایا ہے اور اس کا اصلی اور مقبول ترین طریقہ وہی ہے جس کو آپ ﷺ نے رواج دیا،*

*❀_ اس وقت اس طریقے اور اس رواج کو تازہ کرنے کی اور پھر سے اس کو جاری کرنے کی کوشش کرنا ہی دین کی سب سے بڑی نصرت ہے، اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق دے_,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ ایک بے ٹھک میں فرمایا- ہماری اس تحریک کا مقصد ہے مسلمانوں کو سکھانا (یعنی اسلام کے پورے علمی و عملی نظام سے امت کو جوڑ دینا) یہ تو ہمارا اصل مقصد ہے, یہ چلت پھرت اور تبلیغی گشت تو اس مقصد کو پانے کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ نماز کی تلقین و تعلیم گویا ہمارے نصاب کی الف ب ت ہے،* 

*❀__ یہ بھی ظاہر ہے کہ ہمارے قافلے (جماعتیں) پورا کام نہیں کر سکتے, ان سے تو بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ ہر جگہ پہنچ کر اپنی کوشش سے ایک حرکت اور بیداری پیدا کر دیں اور غافلوں کو متوجہ کر کے وہاں کے مقامی اہل علم سے جوڑنے کی اور علماء و صلحاء، دین کی فکر رکھنے والوں کو عوام کی اصلاح پر لگا دینے کی کوشش کریں، ہر جگہ اصلی کام تو وہیں کے کام کرنے والے کر سکیں گے اور عوام کو زیادہ فائدہ اپنی جگہ کے اہل دین سے ہوگا،*

*❀_ البتہ اس کا طریقہ ہمارے ان ادمیوں( پرانے ذمہ داروں) سے سیکھا جائے جو ایک زمانے سے فائدہ پہنچانا اور فائدہ حاصل کرنا اور علم سیکھنا اور سکھانا کے اس طریقے پر عمل کرنے والے ہیں اور اس پر بڑی حد تک قابو پا چکے ہیں،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                       
*❀__ ہمارے کام کرنے والے اس بات کو مضبوطی سے یاد رکھیں کہ اگر ان کی دعوت و تبلیغ کہیں قبول نہ کی جائے اور الٹا برا بھلا کہا جائے الزامات لگائے جائیں تو مایوس اور رنجیدہ نہ ہوں اور ایسے موقع پر یہ یاد کر لیں کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص طور سے نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص سنت اور وراثت ہے خدا کی راہ میں ذلیل ہونا ہر ایک کو کہاں نصیب ہوتا ہے،* 

*❀__اور جہاں ان کا استقبال اعجاز و اکرام کیا جائے ان کی دعوت و تبلیغ کی قدر کی جائے اور طلب کے ساتھ ان کی باتیں سنی جائیں تو اس کو اللہ پاک کا فقط انعام سمجھیں اور ہرگز ان کی ناقدری نہ کریں،*

*❀__ ان طالبوں کی خدمت اور تعلیم کو اللہ کے اس احسان کا خاص شکریہ سمجھیں چاہے یہ چھوٹے سے چھوٹے طبقے کے لوگ ہوں، ہاں اس صورت میں اپنے نفس کے فریب سے بھی ڈرتے رہیں، نفس اس عزت اور مقبولیت کو اپنا کمال نہ سمجھنے لگے اور اس میں پیر پرستی کا بھی بڑا ڈر ہے اس لیے اس سے خاص طور سے خبردار رہیں،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                     
*❀_ سب کام کرنے والوں کو سمجھا دو کہ اس راہ میں بلاؤں اور تکلیفوں کو خدا سے مانگے تو ہرگز نہیں،*

*❀_ لیکن اگر اللہ پاک اس راہ میں مصیبت بھیج دے تو پھر اس کو خدا کی رحمت اور برائیوں کے کفارے کا اور درجات کے بلند ہونے کا ذریعہ سمجھا جائے، بندے کو اللہ سے ہمیشہ سکون و عافیت مانگنا چاہیے،*

*❀_ خدا کی راہ میں مصیبتیں تو انبیاء، صدیقین اور مقربین کی خاص غذا ہے _,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                       
*❀_ تبلیغ و دعوت کے وقت خاص طور پر اپنے باطن کا رخ اللہ پاک ہی کی طرف رکھنا چاہیے نہ کہ سننے والوں کی طرف،*

*❀_ گویا اس وقت ہمارا دھیان یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کسی کام اور اپنی ذاتی رائے سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے اور اس کے کام کے لیے نکلے ہیں، سننے والوں کی توفیق بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے،* 

*❀_جب اس وقت یہ دھیان ہوگا تو انشاءاللہ سننے والوں کے غلط برتاؤ سے نہ تو غصہ ائے گا اور نہ ہمت ٹوٹے گی,*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                      
*❀__ کیسا غلط رواج ہو گیا ہے دوسرے لوگ ہماری بات نہ مانے تو اس کو ہماری ناکامی سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس راہ میں یہ خیال کرنا بالکل ہی غلط ہے، دوسروں کا ماننا یا نہ ماننا تو ان کا کام ہے، ان کے کسی کام سے ہم کامیاب یا ناکام کیوں کیے جائیں،*

*❀__ ہماری کامیابی یہی ہے کہ ہم اپنا کام پورا کر دیں، اب اگر دوسروں نے نہ مانا تو یہ ان کی ناکامی ہے ، ہم ان کے نہ ماننے سے ناکامیاب کیوں ہو گئے ؟ لوگ بھول گئے، منوا دینے کو اپنا کام اور اپنی ذمہ داری سمجھنے لگے (جو اصل میں اللہ کا کام ہے) حالانکہ ہماری ذمہ داری صرف اچھے طریقے سے اپنی کوشش لگا دینا ہے منوانے کا کام تو پیغمبرو گے سپرد بھی نہیں کیا گیا,*

*❀__ ہاں نہ ماننے سے یہ سبق لینا چاہیے کہ شاید ہماری کوشش میں کمی رہی اور ہم سے حق ادا نہ ہو سکا جس کی وجہ سے اللہ پاک نے یہ نتیجہ ہمیں دکھایا اور اس کے بعد اپنی کوشش کی مقدار کو بڑھا دینے اور دعا و توفیق مانگنے میں بھی جتنا ہو سکے اضافہ کرنے کا پکا ارادہ کر لینا چاہیے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ ہاں ہمارے عام کام کرنے والے جہاں بھی جائیں وہاں کے حقانی عالموں و نیک لوگوں کی خدمت میں حاضری کی کوشش کریں لیکن یہ حاضری صرف فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے ہو اور ان حضرات کو سیدھے اس کام کی دعوت نہ دیں،*

*❀__ وہ حضرات جن دینی کاموں میں لگے ہوۓ ہیں ان کو وہ خوب جانتے ہیں اور ان کے منافع کا تجربہ رکھتے ہیں اور تم ان کو اپنی بات اچھی طرح سمجھا نہ سکو گے یعنی تم ان کو اپنی باتوں سے اس کا یقین نہیں دلا سکو گے کہ یہ کام ان کے دوسرے کاموں سے زیادہ دین کے لیے مفید اور زیادہ نفع دینا والا ہے،* 

*❀__نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تمہاری بات کو نہیں مانیں گے اور جب ایک دفعہ ان کی طرف سے نا ہو جائے گی تو پھر اس نا کو کبھی بھی ہاں میں بدلنا مشکل ہو جائے گا، پھر اس کا برا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ عقیدت مند عوام بھی تمہاری بات نہ سنے، یہ بھی ممکن ہے کہ تمہارے اندر ہچکچاہٹ پیدا ہو جائے،*

*❀__ اس لیے ان کی خدمت میں صرف فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہی جایا جائے لیکن ان کے ماحول میں نہایت محنت سے کام کیا جائے اور اصولوں کی زیادہ رعایت کی کوشش کی جائے, اس طرح امید ہے کہ تمہارے کام اور اس کے نتیجوں کی اطلاع خود بخود ان کو پہنچے گی اور وہ ان کو اس کام کی طرف بلانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں گی, پھر اگر اس کے بعد وہ خود تمہاری طرف اور تمہارے کام کی طرف متوجہ ہوں تو ان سے سرپرستی اور خبرگیری کی درخواست کی جائے اور ان کا دینی ادب اور احترام رکھتے ہوئے اپنی بات ان سے کہی جائے،* 
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__ اگر کہیں دیکھا جائے کہ وہاں کے علماء اور صلحاء اس کام کی طرف ہمدردانہ طور سے متوجہ نہیں ہوتے تو ان کی طرف سے بدگمانیوں کو دل میں جگہ نہ دی جائے بلکہ یہ سمجھا جائے چونکہ یہ دین کے خاص خادم ہیں اس لیے شیطان ان کا ہم سے زیادہ گہرا دشمن ہے (چور دھن دولت ہی پر تو اتا ہے),*

*"❀__ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ دنیا جو حقیر و ذلیل چیز ہے جب اس کے گرفتار اپنے دنیاوی کاموں پر اس کام کو ترجیح نہیں دے سکتے اور اپنے کاموں میں مصروفیات کو چھوڑ کر اس کام میں نہیں لگ سکتے تو اہل دین اپنے اعلی کاموں کو اس کام کے لیے کیسے اسانی سے چھوڑ سکتے ہیں،*

*"❀__ عرفہ نے کہا ہے کہ نورانی حجابات ظلمانی حجابات سے کئی درجہ زیادہ شدید ہوتے ہیں,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ جتنا بھی اچھے سے اچھا کام کرنے کی اللہ توفیق دے ہمیشہ اس کا خاتمہ استغفار پر کیا جائے، غرض ہمارے ہر کام کا آخری حصہ استغفار ہو یعنی یہ سمجھ کر کہ مجھ سے یقیناً اس کی ادائیگی میں کوتاہیاں ہوئی ہیں، ان کوتاہیوں کے لیے اللہ سے معافی مانگی جائے،*

*"❀_ رسول اللہ ﷺ نماز کے ختم پر بھی اللہ سے استغفار کیا کرتے تھے لہذا تبلیغ کا کام بھی استغفار پر ہی ختم کیا جائے،*

*"❀_ بندے سے کسی طرح بھی اللہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا, اس کے علاوہ ایک کام میں مشغولیت بہت سے دوسرے کاموں کے نہ ہو سکنے کی وجہ بن جاتی ہے, تو اس قسم کی چیزوں کے بدلے کے لیے بھی ہر اچھے کام کے خاتمے پر استغفار کرنا چاہیے,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__ اپ لوگوں کی یہ چلت پھرت اور ساری کوشش بیکار ہوگی اگر اس کے ساتھ علم دین اور ذکر اللہ کا پورا اہتمام اپ نے نہیں کیا گویا یہ علم و ذکر دو بازو ہیں جن کے بغیر اس فضا میں اڑا نہیں جا سکتا،*

*❀__ بلکہ سخت خطرہ اور پکا ڈر ہے کہ اگر ان دو چیزیں کی طرف سے غفلت برتی گئی تو یہ کوشش کہیں فتنہ اور گمراہی کا ایک نیا دروازہ نہ بن جائے دین کا اگر علم ہی نہ ہو تو اسلام و ایمان صرف رسمی اور نام کے ہیں اور اللہ کے ذکر کے بغیر اگر علم ہو بھی تو یہ سراسر ظلمت ہے،*

*❀_ اور اسی طرح اگر دین کے علم کے بغیر اللہ کے ذکر کی کثرت بھی ہو تو اس سے بھی بڑا خطرہ ہے، غرض کہ علم میں نور ذکر سے آتا ہے اور دین کے علم کے ذکر سے آتا ہے، دین کے علم کے ذکر کے بغیر حقیقی برکات و نتیجے حاصل نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات ایسے جاہل صوفیوں کو شیطان اپنے کام کا آلہ بنا لیتا ہے،*

*❀_ اس لیے علم و ذکر کی اہمیت کو اس سلسلے میں کبھی بھولا نہ جائے اور اس کا ہمیشہ خاص اہتمام رکھا جائے ورنہ آپ کی یہ تبلیغی تحریک بھی بس ایک آوارہ گردی ہو کر رہ جائے گی اور خدا نہ کرے اپ لوگ سخت گھاٹے میں رہیں گے،* 

*❀_ حضرت کا مطلب اس ہدایت سے یہ تھا کہ کام کرنے والے تبلیغ و دعوت کے سلسلے کی محنت اور مشقت، سفر و ہجرت، اصرار و قربانی ہی کو اصل کام نہ سمجھے جیسا کہ اج کل عام ہوا ہے بلکہ دین کو سیکھنے و سکھانے اور اللہ کے ذکر کی عادت ڈالنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کو اپنا ایک اہم فریضہ سمجھیں،* 

*❀_ دوسرے لفظوں میں صرف سپاہی اور والنٹیئر بننا نہیں بلکہ طالب علم دین اور اللہ کو یاد کرنے والا بندہ بھی بننا ہے،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                 *❀__ ہم دنیا میں نفس کی حمایت اور نفسانی خواہشات کے مطابق چلنے کے لیے نہیں بھیجے گئے جس سے یہ دنیا آدمی کے لیے جنت بن جاتی ہے بلکہ ہم نفس کی مخالفت اور اللہ کے احکام کی اطاعت کے لیے بھیجے گئے ہیں جس سے یہ دنیا مومن کے لیے سجن (قید کھانا) بن جاتی ہے،*

*❀_ اگر ہم بھی غیروں کی طرح نفس کی حمایت و طرفداری کر کے دنیا کو اپنے لیے جنت بنائیں گے تو ہم غیروں کی جنت پر قبضہ کرنے والے اور ہڑپنے والے ہوں گے،*

*❀_ اس صورت میں خدا کی مدد قبضہ کرنے اور ہڑپنے والوں کے ساتھ نہ ہوگی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگی جن کی جنت پر قبضہ کیا گیا یعنی غیروں کے ساتھ اللہ کی مدد ہوگی، فرمایا کہ اس بات میں اچھی طرح غور کرو،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀__ لوگ تبلیغ کی برکات کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ کام ہو رہا ہے حالانکہ کام اور چیز ہے اور برکات اور چیز ہے،*

*❀_ دیکھو رسول اللہ ﷺ کی پیدائش ہی سے برکات کا ظہور ہونے لگا تھا مگر کام بہت بعد میں شروع ہوا, اسی طرح یہاں سمجھو, میں سچ کہتا ہوں کہ ابھی تک اصلی کام شروع نہیں ہوا, جس دن کام شروع ہو جائے گا تو مسلمان 700 برس پہلے کی حالت میں لوٹ جائیں گے,*

*❀_ اور اگر کام شروع نہیں ہوا بلکہ اسی حالت پر رہا جس حالت پر ابھی تک ہے اور لوگوں نے اس کو دوسری تمام تحریکوں کی طرح ایک تحریک سمجھ لیا اور کام کرنے والے اس راہ سے بچھڑ گئے تو جو فتنے صدیوں میں آتے وہ مہینوں میں ا جائیں گے، اس لیے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے،* 
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__ اللہ کے احکام کی تلاش ضروری ہے برابر تلاش میں لگے رہنا چاہیے جیسے کسی کام میں مشغول ہونے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ کام دو چیزوں کو چاہتا ہے، ایک اس کام پر توجہ کو جس میں مشغول ہونا چاہتا ہے، دوسرے اور کاموں سے اس وقت غفلت کو،* 

*❀__نماز سے پہلے کچھ دیر نماز کا مراقبہ کرنا چاہیے، جو نماز بلا انتظار کے ہو وہ فس فسی ہے، تو نماز سے پہلے نماز کو سوچنا چاہیے، شریعت نے اسی واسطے فرائض سے پہلے سنتوں و نوافل اور اقامت وغیرہ بتائے ہیں تاکہ نماز کا مراقبہ اچھی طرح ہو جائے پھر فرض ادا کیا جائے،*

*❀__ مگر نہ تو ہم سنت و نوافل اور اقامت وغیرہ کے ان فائدوں اور مصلحتوں کو سمجھتے ہیں اور نہ ان سے یہ فائدے حاصل کرتے ہیں، اس لیے ہمارے فرائض بھی خراب ادا ہوتے ہیں،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ تبلیغ کے کام کرنے والوں کو اپنے دل میں وسعت پیدا کرنا چاہیے، جو اللہ کی رحمت کی وسعت پر نظر کر کے پیدا ہوگی، اس کے بعد تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے،*

*❀_ _ ہمارے سردار رسول اللہ ﷺ کے شروع کے زمانے میں (جب دین کمزور تھا اور دنیا طاقتور تھی) ان لوگوں کے گھر جا کر جن کے دلوں میں دین کی طلب نہیں تھی ان کی مجلسوں میں بے طلب پہنچ کر دعوت دیتے تھے طلب کا انتظار نہیں کرتے تھے, کچھ مقامات پر حضرات صحابہ کو خود سے بھیجا ہے کہ فلاں جگہ تبلیغ کرو,*

*❀_ _ اس وقت وہی کمزوری کی حالت ہے، تو ہم کو بھی بے طلب لوگوں کے پاس خود جانا چاہیے، ملحدوں دین سے پھر جانے والے، فاسقوں, گنہگاروں کے مجمعے میں پہنچنا چاہیے اور کلمہ حق بلند کرنا چاہیے ,*
           
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                      
*❀__ ہماری تبلیغ میں علم و ذکر کی بڑی اہمیت ہے بغیر علم کے نا عمل ہو سکے نہ عمل کی معرفت اور بغیر ذکر کے علم ظلمت ہی ظلمت ہے اس میں نور نہیں ہو سکتا مگر ہمارے کام کرنے والوں میں اس کی کمی ہے،*

*❀_ مجھے علم و ذکر کی کمی کا رنج ہے اور یہ کمی اس واسطے ہے کہ اب تک اہل علم اور اہل ذکر اس میں نہیں لگے ہیں، اگر یہ حضرات آ کر اپنے ہاتھ میں کام لے لیں تو یہ کمی بھی پوری ہو جائے مگر علماء اور اہل ذکر تو ابھی تک بہت کم ائے ہیں،*

*❀_ خلاصہ یہ ہے کہ اب تک جو جماعت تبلیغ کے لیے روانہ کی جاتی ہیں ان میں اہل علم اور اہل نسبت کی کمی ہے جس کا حضرت کو رنج تھا، کاش اہل علم اور اہل نسبت بھی ان جماعتوں میں شامل ہو کر کام کرتے تو یہ کمی پوری ہو جائے،*

*❀_الحمدللہ تبلیغ کے مرکز میں اہل علم اور اہل نسبت موجود ہیں مگر وہ چند گنتی کے ادمی ہیں، اگر وہ ہر جماعت کے ساتھ جایا کریں تو مرکز کا کام کون انجام دے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ خواب نبوت کا 46 وا حصہ ہے، کچھ لوگوں کو خواب میں ایسی ترقی ہوتی ہے کہ ریاضت و مجاہدہ سے نہیں ہوتی کیونکہ ان کو خواب میں صحیح علوم بتائے جاتے ہیں جو نبوت کا حصہ ہے، پھر ترقی کیوں نہ ہوگی،*

*"❀__ علم سے معرفت بڑھتی ہے اور معرفت سے قرب بڑھتا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس تبلیغ کا طریقہ مجھ پر خواب میں ظاہر ہوا اللہ تعالی کا ارشاد ہے:- ﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ ﴾[ آل عمران: 110] کی تفسیر خواب میں ملی کہ تم( یعنی اسلام لانے والی امت) انبیاء علیہ السلام کی طرح لوگوں کے واسطے ظاہر کیے گئے ہو, تمہارا کام بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہے*

*"❀__ اس کے بعد "تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ" فرما کر یہ بتلایا ہے کہ اس بھلائی کے حکم سے خود تمہارے ایمان کو ترقی ہوگی بس دوسروں کی ہدایت کا ارادہ نہ کرو، اپنے نفی کی نیت کرو،*

*"❀__اور "أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ" میں "انَّاس" سے مراد عرب نہیں بلکہ غیر عرب دوسرے لوگ ہیں کیونکہ عرب کے بارے میں تو فرما دیا گیا کہ ان کے متعلق ہدایت کا ارادہ ہو چکا ہے آپ ﷺ ان کی زیادہ فکر نہ کریں،*

*"❀__ تبلیغ کرنے والوں کو تو تبلیغ ہی سے ایمان کے پورا ہونے کا فائدہ حاصل ہو جاتا ہے چاہے مخاطب قبول کرے یا نہ کرے, اگر مخاطب قبول کر کے ایمان لے ائے تو اس کا اپنا بھی فائدہ ہوگا تبلیغ کرنے والے کا فائدہ اس پر موقوف نہیں,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀__ ایک خط میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کا یہ جملہ تھا کہ مسلمان دو ہی قسم کے ہوتے ہیں تیسری کوئی قسم نہیں، یا اللہ کے راستے میں خود نکلنے والے ہوں یا نکلنے والوں کی مدد کرنے والے ہوں، فرمایا- بہت خوب سمجھے ہیں، پھر فرمایا کہ نکلنے والوں کی مدد میں یہ بھی داخل ہے کہ لوگوں کو نکلنے پر تیار کریں اور ان کو بتائیں کہ تمہارے نکلنے سے فلاں عالم کے بخاری کے درس یا قران کے درس کا حرج نہیں ہوگا تو تم کو بھی اس کے درس کا ثواب ملے گا،*

*❀_ اس قسم کی نیتوں سے لوگوں کو اگاہ کرنا چاہیے اور ثواب کے راستے بتلانا چاہیے, ہماری تبلیغ کا حاصل یہ ہے کہ عام دیندار مسلمان اپنے اوپر والوں سے دین کو لے اور اپنے نیچے والوں کو دے، مگر نیچے والوں کو اپنا محسن سمجھے کیونکہ جتنا ہم کلمے کو پہنچائیں گے پھیلائیں گے اس سے خود ہمارا کلمہ بھی کامل اور منور ہوگا اور جتنوں کو ہم نمازی بنائیں گے اس سے خود ہمارے نماز بھی کامل ہوں گی،*

*❀_ تبلیغ سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک بڑی شرط یہ ہے کہ تبلیغ کرنے والے کو اس سے اپنا کامل ہونا مقصود ہو دوسروں کے لیے اپنے کو ہدایت دینے والا نہ سمجھے کیونکہ ہدایت دینے والا اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                      
*❀__ مسلمان کو علماء کی خدمت چار نیتوں سے کرنا چاہیے:-*
*1- اسلام کی نیت سے، چنانچہ صرف اسلام کی وجہ سے کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دیکھنے جائے یعنی صرف ملاقات کرے تو 70 ہزار فرشتے اس کے پاؤں تلے اپنے پر بازو بچھا دیتے ہیں، تو جب ہر مسلمان کی زیارت کی یہ فضیلت ہے تو علماء کی زیارت میں بھی یہ فضیلت ضروری ہے،*

*❀_2- یہ ہے کہ ان کے دل و جسم نبوت کے علوم کو اٹھائے ہوئے ہیں اس لحاج سے بھی وہ ادب کے قابل اور خدمت کے لائق ہیں،*
*3- یہ ہے کہ وہ ہمارے دینی کاموں کی نگرانی کرنے والے ہیں،*
*4- یہ کہ ان کی ضروریات کی تلاش کے لیے کیونکہ اگر دوسرے مسلمان ان کی دنیاوی ضرورتوں کو تلاش کر کے پورا کر دیں تو علماء اپنی ضرورتوں میں وقت لگانے سے بچ جائیں گے اور وہ وقت بھی علم دین کی خدمت میں خرچ کریں گے،*.

*❀_ مگر عام مسلمانوں کو چاہیے کہ بھروسے کے لائق علماء کی تربیت و نگرانی میں علماء کی خدمت کا فرض ادا کریں کیونکہ ان کو خود اس کا علم نہیں ہو سکتا کہ کون زیادہ امداد کا مستحق ہے اور کون کم ؟ اور اگر کسی کو خود اپنی تلاش سے اس کا علم ہو سکے تو وہ خود تلاش کرے,*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀__ حدیث میں ہے جو(کسی پر) رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا, زمین (پر رہنے) والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا، مگر افسوس لوگوں نے اس حدیث کو بھوک اور فاقہ والوں پر رحم کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے اس لیے ان کو اس شخص پر تو رحم آتا ہے جو بھوکا ہو پیاسا ہو ننگا ہو مگر مسلمانوں کے دین سے محرومی پر رحم نہیں آتا _,*

*❀_ گویا کہ دنیا کے نقصان کو نقصان سمجھا جاتا ہے پھر ہم پر آسمان والا کیوں رحم کرے ؟ جب ہمیں مسلمانوں کی دینی حالت کے بگڑنے پر رحم نہیں، فرمایا ہماری اس تبلیغ کی بنیاد اسی پر ہے اس لیے یہ کام شفقت کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرے گا، لیکن اگر یہ منشا نہیں کچھ اور منشا ہے تو پھر وہ گھمنڈ و غرور میں گھر جائے گا جس سے فائدے کی امید نہیں،*

*❀_ اور جو شخص اس حدیث کو سامنے رکھ کر تبلیغ کرے گا اس میں خلوص بھی ہوگا اس کی نظر اپنے عیبوں پر بھی ہوگی اور دوسروں کے عیبوں پر نظر کے ساتھ ان کی اسلامی خوبیوں پر بھی نظر ہوگی تو یہ شخص اپنے فائدے کا حامی نہ ہوگا بلکہ شکایت کرنے والا ہوگا اور اس تبلیغ کا غر یہی ہے نفس کی حمایت( مدد) سے الگ ہو کر نفس کی شکایت کا سبق ہمیشہ نظر کے سامنے رہے ,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ مسلمان دعا سے بہت غافل ہے اور جو کرتے ہیں ان کو دعا کی حقیقت معلوم نہیں مسلمانوں کے سامنے دعا کی حقیقت کو واضح کرنا چاہیے،*

*❀_ دعا کی حقیقت ہے اپنی ضرورتوں کو بلند بارگاہ میں پیش کرنا، پس جتنی بلند وہ بارگاہ ہے اتنا ہی دعاؤں کے وقت دل کو متوجہ کرنا اور دعا کے الفاظ کو روتے گڑگڑاتے آنسو بہاتے ہوئے ادا کرنا چاہیے اور یہ یقین و بھروسے کے ساتھ دعا کرنا چاہیے کہ ضرور قبول ہوگی،* 

*❀_کیونکہ جس سے مانگ رہا ہے وہ بہت سخی اور کرم کرنے والا ہے اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے, زمین اسمان کے خزانے سب اسی کے قبضے میں ہیں,* 
           
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ تقریر میں شرعی احکام کی مصلحتوں اور اسباب کو بیان نہ کرو بس یہ چیزوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دی جائے، ایک یہ کہ ہر عمل میں اللہ کی رضا و خوشی کا ارادہ کریں اور آخرت کا یقین رکھیں،*

*❀_ جو عمل بھی رضائے حق کے لیے اور آخرت کے یقین کے ساتھ ہو وہ آخرت میں مفید ہوگا، وہاں اس سے ثواب ملے گا یا عذاب دور ہوگا،*

*❀_ اس کے ساتھ کسی ایسے نفع کا ارادہ نہ ہو جو موت سے پہلے دنیا میں حاصل ہونے والا ہے, وہ نفع تو خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں وہ مقصود نہیں ہے, گو ان کا حاصل ہونا یقینی ہے اور اس کا یقین رکھنا بھی ضروری ہے مگر عمل سے ان کا ارادہ نہ کیا جائے،* 

*"م❀_تبلیغ کے کام کے لیے سیدوں کو زیادہ کوشش کے ساتھ اٹھایا جائے اور آگے بڑھایا جائے یہی حدیث کا تقاضا ہے، ان بزرگوں سے دین کا کام پہلے بھی بہت ہوا ہے اور آئیندہ بھی انہی سے زیادہ امید ہے ،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ کسی مسلمان کو کسی سے اللہ کے لیے محبت ہو یا اس سے کسی مسلمان کو اللہ کے لیے سچی محبت ہو تو یہ محبت اور نیک خیال ہی اخرت کے لیے ذخیرہ ہے،*

*❀_ اپنے خالی ہاتھ ہونے کا یقین ہی کامیابی ہے، کوئی بھی اپنے عمل سے کامیاب نہیں ہوگا صرف اللہ کے فضل سے کامیاب ہوگا،*

*❀_ مجھے اپنے اوپر استدراج کا ڈر ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ ڈر عین ایمان ہے، (حسن بصری رحمت اللہ کا ارشاد ہے کہ اپنے اوپر نفاق کا ڈر مومن ہی کو ہوتا ہے) مگر جوانی میں ڈر کا زیادہ ہونا اچھا ہے اور بڑھاپے میں اللہ سے نیک گمان اور امید کا زیادہ ہونا اچھا ہے، فرمایا- ہاں صحیح ہے ,*

*❀_اسلام میں ایک تو وسعت کا درجہ ہے, یہ وسعت تو اتنی ہے کہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہو جانا دار الاسلام میں پیدا ہو جانا ہے, کسی کی بات میں ٩٩ کفر کی وجہ موجود ہو اور ایک وجہ اسلام کی ہو تو اس کو مسلمان ہی کہا جائے گا مگر یہ حقیقی اسلام نہیں رسمی ہے،*

*❀_ اسلام یہ ہے کہ مسلمان میں لا الہ الا اللہ کی حقیقت پائی جائے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا بھروسہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بندگی کا پکا ارادہ دل میں پیدا ہو، معبود کو راضی کرنے کی فکر دل کو لگ جائے، ہر وقت یہ دھیان رہے کہ ہائے وہ مجھ سے راضی ہے یا نہیں ؟*      
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ دو چیزوں کی مجھے بڑی فکر ہے ان کا اہتمام کیا جائے، ایک ذکر دوسرے مال والوں کو زکوۃ کا صحیح مصرف سمجھایا جائے، ان کی زکوٰۃ صحیح جگہ خرچ نہیں ہوتی اکثر برباد جا رہی ہیں،*

*❀_ جو اللہ کے بھروسے تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں ان کی امداد بہت ضروری ہے، ان کو زکوۃ دی جائے تو ان میں حرصِ و لالچ پیدا نہ ہوگی، مال والوں کو ایسے لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے کہ کس کو کتنی ضرورت ہے، یہ جو پیشاور مانگنے والوں کو اور عام چندہ مانگنے والوں کو زکوۃ دیتے ہیں اکثر اس سے ان کی زکوٰۃ مصرف میں نہیں خرچ ہوا کرتی،*

*❀_علم سے عمل پیدا ہونا چاہیے اور عمل سے ذکر پیدا ہونا چاہیے تبھی علم ہے اور اگر علم سے عمل پیدا نہ ہو تو سراسر ظلم ہے اور عمل سے اللہ کی یاد پیدا نہ ہوئی تو فسفسہ ہے اور ذکر بلا علم بھی فتنہ ہے،*

*❀_لوگوں کو ہدیہ, صدقہ اور قرض کے فضائل صحابہ کے واقعات سے بتانا چاہیے, صحابہ مزدوری کر کر کے صدقہ کرتے تھے, ان میں صرف مالدار ہی صدقہ نہیں کرتے تھے غریب بھی مزدوری کر کے کچھ نہ کچھ صدقہ کیا کرتے تھے کیونکہ صدقے کے فضائل ان کی نظر میں تھے اور جب صدقے کا یہ درجہ ہے تو ہدیہ تو اس سے بھی افضل ہے,*

*❀_ اسی طرح قرض دینے کے بھی بہت فضائل ہیں جیسے جس وقت قرض کی مدت پوری ہو جائے اس کے بعد تنگ دست قرض لینے والے کو اگر مہلت دی گئی تقاضا نہ کیا گیا تو ہر دن صدقہ کا ثواب ملتا ہے،*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ تبلیغ میں حصہ لینے والوں کو چاہیے کہ قران و حدیث میں دین کی دعوت و تبلیغ پر جو اجر و ثواب کے وعدے کیے گئے ہیں اور جن انعامات کی خوشخبری سنائی گئی ہیں ان پر پورا یقین ہو، پورا یقین کرتے ہوئے انہی کی چاہت و امید میں اس کام میں لگے,*

*"❀_ اور اس کا بھی دھیان کیا کریں کہ ہماری اس حقیر کوششوں کے ذریعے اللہ پاک جتنوں کو دین پر لگا دیں گے اور پھر اس سلسلے سے جتنے لوگ قیامت تک دین پر چلیں گے اور جو بھی نیک عمل کریں گے تو ان کے اعمال کا جتنا ثواب ان کو ملے گا انشاءاللہ ان تمام ثوابوں کے مجموعے کے برابر اللہ تعالی اپنے وعدوں کے مطابق ہم کو بھی عطا فرمائیں گے بشرطیکہ ہماری نیت خالص اور ہمارا کام قابل قبول ہو،*

*"❀_ لوگوں کو جب اس تبلیغ کے کام کے لیے تیار کرنا ہو تو اچھی طرح اس کام میں لگنے کے فائدے اور آخرت میں ملنے والا اس کا اجر و ثواب بھی خوب تفصیل سے ان کو بتاؤ اور اس طرح بیان کرنے کی کوشش کرو کہ تھوڑی دیر کے لیے تو جنت کا کچھ سماں ان کی انکھوں کے سامنے آ جائے جیسا کہ قرآنِ مجید کا طریقہ ہے،*

*"❀_ اس کے بعد انشاءاللہ ان کے لیے آسان ہوگا کہ اس کام میں مشغولی کی وجہ سے تھوڑے بہت دنیا کے کاموں کے حرج اور نقصان کا جو ڈر انہیں ہوگا وہ اس کو نظر انداز کر سکیں گے،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ انسان کا فرق اپنے علاوہ دوسری مخلوق سے زبان کی وجہ سے ہے, ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ فرق بھلائی ہی میں ہو لیکن ہوتا ہے یہ برائی میں بھی،*

*❀__ یعنی جس طرح زبان کے صحیح استعمال اور اس سے اللہ کا اور دین کا کام لینے کی وجہ سے بھلائی و نیکی میں فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے، اسی طرح اس زبان کا بیزہ استعمال کرنے سے سور اور کتے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے،*.

*❀__ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ لوگوں کو ان کی ناک کے بل گھسیٹنے والی جہنم کی طرف زبان سے زیادہ کوئی چیز نہیں،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ امام عبدالوہاب شیرانی رحمۃ اللہ علیہ نے کتبیت حاصل کرنے کی ایک تدبیر لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے اللہ کی زمین پر جہاں جہاں جو نیکیاں مٹی ہوئی ہیں اور مردہ ہو گئی ہیں ان کا خیال کرے، پھر دل میں ان کے مٹنے کا ایک درد محسوس کرے اور روتے ہوئے گڑگڑاتے ہوئے ان کے زندہ اور جاری کرنے کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرے اور اپنے دن کی طاقت کو بھی ان کے زندہ کرنے کے لیے استعمال کرے،* 

*"❀__ اسی طرح جہاں جہاں جو برائی پھیلی ہوئی ہے ان کا بھی دھیان کرے اور پھر ان کے بڑھ جانے کی وجہ سے اپنے اندر ایک درد اور دکھ محسوس کرے اور گڑگڑاتے ہوئے اللہ تعالی سے اس کو مٹا دینے کے لیے دعا کرے اور اپنی ہمت و توجہ کو بھی ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے استعمال کرے،*

*"❀__امام عبدالوہاب شیرانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو شخص ایسا کرتا رے گا انشاءاللہ وہ زمانے کا کتب ہوگا،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ لوگوں کو شوق دلاؤ کہ دین سیکھنے سکھانے اور دین پھیلانے کے واسطے اپنے خرچ پر گھروں سے نکلے، اگر ان میں اس کی بالکل طاقت نہ ہوں یا وہ اتنی قربانی پر تیار نہ ہوں تو پھر جہاں تک ہو سکے انہی کے ماحول سے اس کا انتظام کرو،*

*❀_ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر دوسری جگہ سے ہی انتظام کر دو لیکن یہ بہرحال خیال رہے کہ ان میں اسراف نفس پیدا نہ ہو جائے،* 

*❀_یہ چیز (یعنی اپنی ضرورتوں کے بجائے اللہ تعالی کے بندوں پر نظر ہونا جس کا نام اصراف ہے) ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دینے والی ہے اور ان نکلنے والوں کو یہ بھی اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ اس راہ کی تکلیفوں بھوک پیاس وغیرہ کو اللہ کی رحمت سمجھیں,*

*❀_ اس راستے میں یہ تکلیفیں تو نبیوں اور صدیقین اور مقربین کی غذائیں ہیں،* 
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_ جنت تواضع اور انکساری کرنے والوں ہی کے لیے ہے، انسان میں اگر کبر (اپنے کو بڑا سمجھنے) کا کوئی حصہ ہے تو پہلے اس کو جہنم میں ڈال کر پھونکا جائے گا, جب خالص تواضع رہ جائے گا تب وہ جنت میں بھیجا جائے گا، بہرحال کبر کے ساتھ کوئی آدمی جنت میں نہیں جائے گا،* 

*"❀_ ابھی کام کا وقت باقی ہے، جلدی ہی دین کے لیے دو زبردست خطرے پیش ائیں گے ایک تحریک شدھی کی طرح کفر کی تبلیغی کوشش جو جو جاہلی عوام میں ہوگی اور دوسرا خطرہ ہے دین حق سے پھر جانا اور خدا کو نہ ماننا، جو مغربی حکومت و سیاست کے ساتھ آ رہا ہے، یہ دونوں گمراہیاں سیلاب کی طرح ائیں گی، جو کچھ کرنا ہے ان کے آنے سے پہلے کر لو،*

*"❀_ دین کے کام کرنے والوں کو چاہیے کہ گشت اور چلت پھرت کے قدرتی اثرات کو تنہائی کے ذکر و فکر کے ذریعے دھویا کریں،*  
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                      
*❀__ ہمارا کام دین کا بنیادی کام ہے اور ہماری تحریک حقیقت میں ایمان کی تحریک ہے،*

*❀__ اج کل عام طور سے جو اجتماعی کام ہوتے ہیں ان کے کرنے والے ایمان کی بنیاد کو قائم فرض کر کے امت کی اوپر کی تعمیر کرتے ہیں اور اوپر کے درجے کی ضروریات کی فکر کرتے ہیں، اور ہمارے نزدیک امت کی پہلی ضرورت یہی ہے کہ ان کے دلوں میں پہلے صحیح ایمان کی روشنی پہنچ جائے,*

*❀__ ہمارے نزدیک اس وقت امت کی اصل بیماری دین کی طلب و قدر سے ان کے دلوں کا خالی ہونا ہے، اگر دین کی فکر و طلب ان کے اندر پیدا ہو جائے اور دین کی اہمیت کا شعور و احساس ان کے اندر زندہ ہو جائے تو ان کی اسلامیت دیکھتے دیکھتے ہری بھری ہو جائے،*

*❀__ ہماری اس تحریر کا اصل مقصد اس وقت بس دین کی طلب و قدر پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے، نہ کہ صرف کلمہ اور نماز وغیرہ کا صحیح کرنا اور تعلیم و تربیت کرنا،* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ہمارے کام کے طریقے میں دین کے واسطے جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیت ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعے اپنے پرانے اور ٹھہرے ہوئے ماحول سے نکل کر ایک نئے نیک اور چلنے پھرنے والے ماحول میں آ جاتا ہے جس میں اس کے دینی جذبات کے بڑھنے کا بہت کچھ سامان ہوتا ہے،* 

*"❀_ اور اس سفر و ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں مصیبتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنی ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ کی رحمت خاص طور سے متوجہ ہوتی ہے،*

*"❀_ (جو اس راستے میں جدوجہد کرے گا اللہ ضرور بضرور اس کو ہدایت دے گا) اسی واسطے اس سفر و ہجرت کا زمانہ جس قدر لمبا ہوگا اسی قدر مفید ہو گا، یہ کام در حقیقت بہت بڑے درجے کا ہے، افسوس ! کہ لوگ اس کی حقیقت کو سمجھتے نہیں،*   
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ ہمارے اس کام کو سمجھنے اور سیکھنے کے لیے صحیح صحیح ترتیب یہ ہے کہ پہلے یہاں (نجام الدین مرکز) آکر کچھ قیام کیا جائے اور یہاں کے رہنے والو (تبلیغ کے پرانے زمینداروں) سے باتیں کی جائیں, اس کے بعد اپنی جگہ جا کر کام کیا جائے،*

*"❀__ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے جن بڑوں سے ہم دینی برکات حاصل کریں ان سے اپنا تعلق صرف اللہ کے لیے رکھے اور صرف اسی لائن کی ان باتوں و کاموں اور حالات سے مطلب رکھیں، باقی دوسری لائنوں کی ان کی نجی اور گھریلو باتوں سے بے تعلق بلکہ بے خبر رہنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ اپنا اپنا معاملہ ہے،* 

*"❀__ لا محالہ اس میں کچھ قدورتیں ہوں گی اور جب آدمی اپنی توجہ ان کی طرف چلائے گا تو وہ اس کے اندر بھی ائیں گی اور کسی وقت اعتراض بھی پیدا ہوگا جو دوری اور محرومی کا سبب ہو جائے گا، اسی لیے بزرگوں کی کتابوں میں سالک (سیدھے راستے پر چلنے والوں کو) بزرگوں کے گھریلو حالات پر نظر نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے,*   
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ علم والے اور عصر والے حضرات ایک سلسلہ یہ ہے شروع کریں کہ ہر جمعہ کو پہلے سے سوچ کر تے کر لیا کریں کہ ہم جمعہ فلاں محلے کی مسجد میں پڑھیں گے اور اس انتخاب میں غریب پچھڑی اور جاہل آبادی کا زیادہ دھیان رکھیں،* 

*"❀_جیسے جن محلوں میں دھوبی سکہ تانگا چلانے والے کلی اور سبزی بیچنے والے رہتے ہوں (جن میں دین سے جہالت اور غفلت اگرچہ بہت زیادہ ہیں لیکن نافرمانی اور انکار کی حالت پیدا نہیں ہوئی ہے) تو ایسے لوگوں کی ابادی کی مسجد پہلے سے تجویز کر لیں اور اپنے تعلق والوں اور ملنے جلنے والے لوگوں کو بھی اس کی اطلاع دے دیں اور ساتھ چلنے پر بھی انہیں ابھارے,*

*"❀_ پھر وہاں پہنچ کر جمعہ کی نماز سے پہلے محلے میں تبلیغی گشت کر کے لوگوں کو نماز کے لیے تیار کر کے مسجد میں لائیں، پھر تھوڑی دیر کے لیے انہیں روک کر دین کی اہمیت اور اس کے سیکھنے کی ضرورت سمجھا کر دین سیکھنے کے واسطے تبلیغی جماعت میں نکلنے کی دعوت دیں،*

*"❀_ اور ان کو سمجھائیں کہ اس تحریک پر وہ کچھ روز میں دین کا ضروری علم و عمل سیکھ سکتے ہیں، پھر اس دعوت پر اگر تھوڑے سے تھوڑے آدمی بھی تیار ہو جائیں تو کسی مناسب جماعت کے ساتھ ان کو بھیجنے کا بندوبست کریں،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                        
*❀_ اگر کسی جگہ کے کچھ غریب لوگ تبلیغی جماعت کے ساتھ نکلنے کو تیار ہو جائیں اور خرچ سے مجبور ہوں تو کوشش کر کے جہاں تک ہو سکے انہی کے ماحول سے کچھ امیروں کو بھی ان کے ساتھ کے لیے اٹھایا جائے اور ان کو یہ بھی بتایا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلنے والے غریبوں اور کمزوروں کی امداد کا اللہ کے یہاں کیا درجہ ہے،* 

*"❀_ لیکن ساتھ ہی پوری اہمیت سے یہ بات بھی ان کو یاد کرائی جائے کہ اگر وہ اپنے کسی غریب ساتھی کی مدد کرنا چاہیں تو اس کے اصول اور اس کا طریقہ اس راہ کے پرانے تجربے کار کام کرنے والوں سے ضرور معلوم کریں اور ان کے مشورے سے ہی یہ کام کریں،*

*"❀_ اصول کے خلاف اور غلط طریقے پر کسی کی مدد کرنے سے کسی وقت بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں, پھر دین کے لیے نکلنے والے غریب اور مجبور لوگوں پر خرچ کرنے کے کچھ اصول حضرت نے بیان فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ اس کو لکھ لو,* 
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞ _ دین کے لیے نکلنے والے غریب اور مجبور لوگوں پر خرچ کرنے کے اصول-

*"❀_١_مجبوروں کو اس طرح حکمت سے دیا جائے کہ وہ اس کو کسی مستقل سلسلہ نہ سمجھنے لگے اور ان میں اسراف پیدا نہ ہونے پائے،*
 
*"❀__٢-دینا تالیف کے لیے ہو یعنی دین سے لگاؤ اور تعلق پیدا کرنے کے واسطے ہو اس لیے صرف ضرورت پر ہی تالیف ہو پھر جیسے جیسے ان میں دین کی قدر و طلب اور اس کام سے تعلق میں لگاؤ بڑھتا جائے اسی قدر مالی امداد سے ہاتھ کھینچا جائے,*

*"❀__ اور ساتھ رہنے و بات چیت وغیرہ کے ذریعے یہ ہے جذبہ ان میں پیدا کیا جائے کہ وہ محنت مزدوری کر کے یہ کام کریں یا جس طرح اپنی دوسری ضرورتوں کے لیے قرض لیتے ہیں اس کو بھی ایک اہم ضرورت سمجھ کر موقع کے حساب سے اس کے لیے قرض لیں،* 

*"❀__اس راستے میں دوسرے کا احسان مند نہ ہونا عزیمت ہے, ہجرت کے وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسے فدائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پیش کی تھی تو حضور ﷺ نے قیمت طے کر کے قرض لی،*

*"❀__ لیکن جب تک رغبت و تعلق کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اس وقت تک مناسب طور پر ان کی مالی مدد کی جاتی رہے،*                        

*"❀_3_مالی امداد کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت ہی چھپے طور پر اور عزت و احترام کے ساتھ دیا جائے اور دینے والے امیر لوگ دین کی خدمت میں لگے ہوئے غریبوں کے قبول کر لینے کو ان کا احسان سمجھے اور ان کو اپنے سے بڑا سمجھیں کہ باوجود تنگی غریبی کے وہ دین کے لیے گھر سے نکلتے ہیں،*

*❀_ دین کے لیے گھر سے نکلنا ہجرت کی صفات ہے اور ان کی مدد کرنا نصرت کی صفات ہے اور انصار کبھی مہاجرین کے برابر نہیں ہو سکتے،*

*"❀_4_اس راستے میں کام کرنے والوں کی مدد زکوٰۃ و صدقات سے زیادہ تحفے کی صورت میں کی جائے، زکوٰۃ و صدقات کی مثال ہانڈی کے میل کچیل اور ردی حصے کی سی ہے کہ اس کو نکالنا ضروری ہے ورنہ ساری ہنڈیاں خراب رہیں گی اور تحفے کی مثال ایسے سمجھو جیسے کہ تیار خانے میں خوشبو ڈالی جائے اور اس پر چاندی سونے کے ورق لگا دیا جائے،*          

*"❀__ دین کے لیے گھر سے نکلنے والوں کی مدد کی ایک سب سے بڑی سورت یہ بھی ہے کہ ان کے گھر والوں کے پاس جا کر ان کے سودا وغیرہ اور ان کی ضرورتوں کی فکر کریں اور ان کو ارام پہنچانے کی کوشش کریں انہیں بتائیں کہ تمہارے گھر کے لوگ کیسے عظیم شان کام میں نکلے ہوئے ہیں اور وہ کتنے خوش نصیب ہیں،*

*"❀_ غرض یہ ہے کہ خدمت و ترغیب سے اتنا مطمئن کریں کہ وہ خود اپنے گھر سے نکلے ہوئے لوگوں کو لکھیں کہ ہم لوگ یہاں ہر طرح آرام سے ہیں تم اطمینان کے ساتھ دین کے کام میں لگے رہو ،*

*"❀_ مالی مدد کے سلسلے میں حالات جاننے کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے یعنی دین کے کام میں لگے رہنے والوں کے حالات پر غور کریں اور ان کی ٹوہ لگائیں کہ ان کی کیا ضرورت ہے اور ان کی گجر بسر کیسی ہے،*

*"❀_ حالات جاننے کی ایک صورت جس کو خاص طور سے رواج دینا چاہیے وہ یہ ہے کہ بڑے لوگ اپنی عورتوں کو دین کے واسطے نکلنے والے غریبوں کے گھروں میں بھیجا کریں، ان سے ان غریب گھر والوں کی حوصلہ افزائی اور دلداری بھی ہوگی اور ان کے اندرونی حالات کا بھی کچھ علم ہوگا ،*                    
*"❀_خدا کی راہ میں خرچ کرنے پر قران اور حدیث میں دنیاوی برکات کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ اس کا اجر نہیں نیکیوں کے اصل اجر کو تو دنیا برداشت ہی نہیں کر سکتی، وہاں کی خاص نعمتوں کی برداشت یہاں کہاں ؟*

*"❀_ اس دنیا میں تو پہاڑ جیسی سخت مخلوق اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے بڑے پیغمبر بھی ایک تجلی کی تاب نہ لا سکے,*

*"❀_ جنت کی نعمتیں اگر یہاں بھیج دی جائیں تو خوشی سے موت واقع ہو جائے, یہی حال وہاں کے عذاب کا ہے, اگر دوزخ کا ایک بچھو اس دنیا کی طرف رخ کرے تو یہ ساری دنیا اس کے زہر کی تیزی سے سوکھ جائے,*

*"❀_ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال قران پاک میں تو اس شخص سے دی گئی ہے جس نے ایک دانہ بویا اور اس سے 700 دانے پیدا ہوئے، تو یہ مثال دنیاوی برکات کی ہے اخرت میں اس کا جو اجر ملے گا وہ بہت اونچا ہوگا،*            
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*"❀_ اس راہ میں کام کرنے کی صحیح ترتیب یوں ہے کہ جب کوئی قدم اٹھانا ہو جیسے خود تبلیغ میں جانا ہو یا کسی کو بھیجنا ہو یا شکوک و شبہات رکھنے والے کسی شخص کو مطمئن کرنے کے لیے اس سے مخاطب ہونے کا ارادہ ہو تو سب سے پہلے اپنی نا اہلیت کا اور بے بسی اور وسائل میں اسباب سے اپنے خالی ہاتھ ہونے کا خیال کر کے اللہ کو حاضر ناظر اور قادر مطلق یقین کرتے ہوئے پوری گڑگڑاہٹ و رونے کے ساتھ اس سے عرض کریں،*

*"❀_ کہ اے اللہ تو نے بارہا بغیر اسباب کے بھی صرف اپنی پوری قدرت سے بڑے بڑے کام کر دیے, الہی بنی اسرائیل کے لیے تونے صرف اپنی قدرت سے ہی سمندر میں خشک راستہ پیدا کر دیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے تونے اپنی رحمت اور قدرت ہی سے اگ کو گلزار بنا دیا تھا اور اے اللہ ! تو نے اپنی چھوٹی چھوٹی مخلوق سے بھی بڑے بڑے کام لیے ہیں، ابابیل سے تو نے ابراہا کے ہاتھیوں والے لشکر کو ہار دلوائی اور اپنے گھر کی حفاظت فرمائی،*

*"❀_ اونٹ چرانے والے انپڑوں سے تو نے دین کو ساری دنیا میں چمکا یا اور کیسرو کسریٰ کی حکومتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرا دیا، پس اے اللہ ! اپنی اس پرانی سنت کے مطابق مجھ نکمے، ناکارہ اور عاجز و کمزور بندے سے بھی کام لے لے اور میں تیرے دین کے جس کام کا ارادہ کر رہا ہوں اس کے لیے جو طریقہ تیرے نزدیک صحیح ہے مجھے اس کی طرف رہنمائی فرما اور جن اسباب کی ضرورت ہو وہ صرف اپنی قدرت سے عطا فرما دے،* 

*"❀_ بس اللہ سے یہ دعا مانگ کر پھر کام میں لگ جائے، جو اسباب اللہ کی طرف سے ملتا رہے ان سے کام لیتا رہے اور صرف اللہ ہی کی قدرت و مدد پر پورا بھروسہ رکھے ہوئے اپنی کوشش کرتے رہے اور رو رو کر اس سے مدد اور قران پاک کا وعدہ کی درخواست بھی کرتا رہے بلکہ اللہ ہی کو اصل سمجھے اور اپنی کوشش کو اس کے لیے شرط اور پردہ سمجھے،*       
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*❀_خود کام کرنے سے بھی زیادہ توجہ اور محنت دوسروں کو اس کام میں لگانے اور انہیں کام سکھانے کے لیے کرنی چاہیے,*

*❀_ شیطان جب کسی کے متعلق یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ تو کام کے لیے کھڑا ہو ہی گیا ہے اور اب میرے بیٹاے بیٹھنے والا نہیں ہے تو پھر اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ خود تو لگا رہے مگر دوسروں کو لگانے کی کوشش نہ کرے، اس لیے وہ اس پر راضی ہو جاتا ہے کہ وہ شخص بھلائی کے کام میں پورے طور سے اس قدر مصروفیت سے لگ جائے کہ دوسروں کو دعوت پر لگانے کا اس کو ہوش ہی نہ ہو،*

*❀_اس لیے شیطان کو ہار اس طرح ہی دی جا سکتی ہے کہ دوسروں کو اٹھانے اور انہیں کام پر لگانے اور کام سکھانے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے اور دعوت الالخیر اور دلالت الالخیر کے کام پر اجر و ثواب کے جو وعدے قران و حدیث میں فرمائے گئے ہیں ان کا خیال اور دھیان کرتے ہوئے اسی کو اپنی ترقی اور تقرب کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کے لیے کوشش کی جائے،*     
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
               *☞ _دین میں ٹھہراؤ نہیں _,*                   
*❀__یا تو ادمی دین میں ترقی کر رہا ہوتا ہے اور یا نیچے گرنے لگتا ہے، اس کی مثال یوں سمجھیے کہ باغ کو جب پانی اور ہوا موافق ہو تو ہریالی و تازگی میں ترقی ہی کرتا رہتا ہے اور جب موسم موافق نہ ہو یا پانی نہ ملے تو ایسا نہیں ہوتا کہ یہ ہریالی اور تازگی اپنی جگہ پر ٹھہری رہے بلکہ اس میں کمی شروع ہو جاتی ہے یہی حالت آدمی کے دین کی ہوتی ہے،*

*❀_ لوگوں کو دین پر لانے اور دین کے کام میں لگانے کی ترکیبیں سوچا کرو (جیسے دنیا والے اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے ترکیبیں سوچا کرتے ہیں) اور جس کو جس طرح سے متوجہ کر سکتے ہو اس کے ساتھ اسی راستے سے کوشش کرو,* 

*❀_طبیعت مایوسی نا امیدی کی طرف زیادہ چلتی ہے کیونکہ مایوس ہو جانے کے بعد آدمی اپنے کو عمل کا ذمہ دار نہیں سمجھتا اور پھر اسے کچھ کرنا نہیں پڑتا, خوب سمجھ لو یہ نفس اور شیطان کا بڑا دھوکہ ہے,* 

*❀_ اسباب کی کمی پر نظر ڈال کر مایوس ہو جانا اس بات کی نشانی ہے کہ تم اسباب پرست ہو اور اللہ کے وعدوں اور اس کی غیب کی طاقتوں پر تمہارا یقین بہت کم ہے، اللہ پر بھروسہ کر کے اور ہمت کر کے اٹھو تو اللہ ہی اسباب پیدا کرتے ہیں ورنہ آدمی خود کیا کر سکتا ہے، مگر ہمت اور طاقت بھر کوشش شرط ہے،* 
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
          *☞ _ غیر قوموں کی پیروی نہ کریں _,*

*❀_ ذرا سوچو تو جس قوم کے آسمانی علوم (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا لایا ہوا علم ) کا چراغ، علوم محمدی (قران و سنت) کے سامنے بجھ گیا بلکہ اللہ کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا,*

*"❀_ اور براہ راست اس سے روشنی حاصل کرنے کو صاف منع فرما دیا گیا, اسی قوم کی احوا و امانی (یعنی ان عیسائی قوموں کے اپنے خود کے بنائے ہوئے نظریوں اور طریقوں کو) اس قوم و سنت کے حامل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا اختیار کر لینا اور اس کو صحیح کام کا طریقہ سمجھنا کتنا برا اور کس قدر اللہ کو غصہ دلانے والا ہوگا؟* 

*"❀_ اور عقل کے حساب سے بھی یہ بات کتنی غلط ہے کہ امت وہی (قران و سنت) کے محفوظ ہوتے ہوئے بھی جس میں زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی شعبوں کے متعلق پوری ہدایات موجود ہیں، غیر قوموں کے طور طریقوں کی پیروی کی جائے، کیا یہ علوم محمدی کی ناقدری نہیں ہے،*                     
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
       *☞ _بہت سادہ اور بہت نازک کام ہے _,*

*"❀_ہم جس دینی کام کی دعوت دیتے ہیں ظاہر میں تو یہ بڑا سادہ سا کام ہے لیکن حقیقت میں بڑا نازک کام ہے کیونکہ یہاں مقصود صرف کرنا کرانا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی کوشش کر کے اپنی مجبوری کا یقین اور اللہ تعالی کی قدرت و مدد پر بھروسہ پیدا کرنا ہے،* 

*"❀_ اللہ تعالی کا طریقہ یہی ہے کہ اگر اللہ کی مدد کے بھروسے پر اپنی ساری کوششیں ہم کریں تو اللہ تعالی ہماری کوشش اور حرکت ہی میں اپنی مدد کو شامل کر دیتے ہیں،*

*"❀_اپنے کو بالکل بیکار سمجھ کر بیٹھے رہنا تو جبریت ہے اور اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا قدوریت ہے (اور یہ دونوں گمراہیاں ہیں) اور صحیح اسلام ان دونوں کے درمیان ہے یعنی اللہ تعالی نے محنت اور کوشش کی جو حقیر سی طاقت اور صلاحیت ہمیں دے رکھی ہے اللہ کے حکم کو پورا کرنے میں اس کو تو پورا پورا لگا دیں اور اس میں کوئی کسر نہ چھوڑیں,*

*"❀_ لیکن نتیجے کے پیدا کرنے میں اپنے کو بالکل عاجز اور بے بس یقین کریں اور صرف اللہ تعالی کی مدد ہی پر بھروسہ کریں اور صرف اسی کو کام کرنے والا سمجھیں, فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے سے اس کی پوری تفصیل معلوم کی جا سکتی ہے مسلمانوں کو ہماری دعوت بس یہی ہے,*                       

    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                     *☞_زیارت کا مفہوم:-*

*"❀_ پنجاب کے ایک دیندار مسلمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جب پہلی دفعہ ائے تو اتفاق سے میں اس وقت ابن ماجہ شریف کا سبق پڑھا رہا تھا انہوں نے سلام کیا میں نے حدیث کے درس میں مشغولیت کی وجہ سے جواب نہیں دیا,*

*"❀_ پھر وہ وہیں بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد سبق ہی کے دوران انہوں نے کہا کہ میں فلاں جگہ سے ایا ہوں, میں نے اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا,* 

*❀_کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر چلنے لگے تو اب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں ائے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ زیارت کے لیے, میں نے کہا جس زیارت کی حدیث میں ترغیب اور فضیلت آئی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ کسی کی صرف صورت دیکھ لی جاۓ تو یہ ایسا ہے جیسے کسی کی تصویر دیکھ لی،*

*"❀_ شرعی زیارت یہ ہے کہ اس کی بات پوچھی جائے, اس کی سنی جائے اور آپ نے تو نہ کچھ کہی اور نہ میری کچھ سنی، انہوں نے کہا کہ کیا میں ٹھہر جاؤں ؟ میں نے کہا ضرور, چنانچہ وہ ٹھہر گئے اور پھر جب انہوں نے میری بات کو سنا اور سمجھا اور یہاں کے کام کو دیکھا تو اپنے بڑے بھائی... کو بلایا,*

*"❀_ اگر میں اسی وقت اسی طور پر تھوڑی بات ان سے کر لیتا تو جو کچھ بعد میں ہوا کچھ بھی نہ ہوتا اور بس وہ زیارت ہی کر کے چلے جاتے،*

*"❀_ فرمایا زمانے کے بدلنے سے دینی اصطلاحات کے معنی بھی بدل گئے اور ان کی روح نکل گئی، دین میں مسلم کی مسلم سے ملاقات کی فضیلت اس لیے ہے کہ ان میں دین کی باتیں ہوں، جس ملاقات میں دین کا کوئی ذکر نہ ہو وہ بے روح ہے،*              
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                 *☞_اصلاح کی ترتیب:-*

*"❀_ ہمارے نزدیک اصلاح کی ترتیب یوں ہے کہ (کلمہ طیبہ کے ذریعے ایمانی معاہدوں کو تازہ کرنے کے بعد) سب سے پہلے نمازوں کی درستگی اور پورے ہونے کی فکر کی جائے, نماز کی برکت پوری زندگی کو سدھارے گی نماز ہی کے صلاح اور کمال سے باقی زندگی پر صلاحیت اور کمال کا فیضان ہوتا ہے,*

*"❀_ ہماری اس دینی دعوت میں کام کرنے والے سب لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دینی چاہیے کہ تبلیغی جماعتوں کے نکلنے کا مقصد صرف دوسروں کو پہنچانا اور بتانا ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے سے اپنی اصلاح اور اپنی تعلیم و تربیت بھی مقصود ہے، اس لیے نکلنے کے زمانے میں علم اور ذکر میں مشغولیت کا بہت زیادہ اہتمام کیا جائے،*

*"❀_ دین کے علم اور اللہ کے ذکر کے اہتمام کے بغیر نکلنا کچھ بھی نہیں ہے، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ علم و ذکر میں یہ مشغولیت اس راستے کے اپنے بڑوں سے تعلق رکھتے ہوئے اور ان کی ہدایت و نگرانی میں ہو، انبیاء علیہ السلام کا علم و ذکر اللہ تعالی کے زیر ہدایت تھا اور صحابہ کرام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوری پوری نگرانی فرماتے تھے،*

*"❀_ اس لیے ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے بڑوں سے علم و ذکر لیا اور ان کی نگرانی اور رہنمائی میں پوری طرح سیکھا، ایسے ہی آج بھی ہم اپنے بڑوں کی نگرانی کے محتاج ہیں ورنہ شیطان کے جال میں پھنس جانے کا بڑا ڈر ہے،*           
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_ جو اللہ کی مدد و رحمت کی امید نہ رکھے گنہگار ہے _,* 

*"❀_دوستو ! ہمارا یہ کام (اصلاحی و تبلیغی کوشش) ایک طرح کا تسخیر کا عمل ہے (یعنی جو کوئی اس کام میں لگے گا اور اس کو اپنی دھن بنا لے گا اللہ تعالی اس کے کام بناتا رہے گا) اگر تم اللہ کے کام میں لگو گے تو زمین و آسمان اور فضا کی ہوائیں تمہارے کام انجام دیں گی،*

*"❀_ تم اللہ کے دین کے لیے گھر اور کاروبار چھوڑ کر نکلے تھے اب آنکھوں سے دیکھ لینا کہ تمہارے کاروبار میں کتنی برکت ہوتی ہے، اللہ کی مدد کر کے جو اس کی مدد و رحمت کی امید نہ رکھے وہ گنہگار اور بے نصیب ہے (آخری جملہ آپ نے ایسے انداز اور اتنے جوش میں کہا کہ مجلس میں حاضر رہنے والوں کے دل ہل گئے)* 

*"❀_ ہمارے اس کام کی صحیح ترتیب تو یہی ہے کہ پہلے قریب قریب جایا جائے اور اپنے ماحول میں کام کرتے ہوئے اگے بڑھا جائے لیکن کبھی کبھی کام کرنے والوں میں پکا ارادہ اور کام کی پختگی پیدا کرنے کے لیے شروع میں دور دور بھیج دیا جاتا ہے، ان لمبے سفروں سے پکا ارادہ اور کام کا عشق پیدا ہوگا،*

*"❀_ ہمارے اس کام میں پھیلاؤ سے زیادہ رسوخ اہم ہے لیکن اس کام کا طریقہ ایسا ہے کہ رسوخ کے ساتھ ہی پھیلاؤ بھی ہوتا جائے گا کیونکہ رسوخ بغیر اس کے پیدا ہی نہیں ہوگا کہ اس دعوت کو لے کر شہرو شہرو اور ملکوں ملکوں پھرا جائے،* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_ ایک نیاز مند سے ایک دن فرمایا (جن کو تبلیغ کے علاوہ کتابیں اور مجمون وغیرہ لکھنا ان کا خاص کام تھا )*

*"❀_ میں اب تک اس کو پسند نہیں کرتا تھا کہ اس تبلیغی کام کے سلسلے میں کچھ زیادہ لکھا پڑا جائے اور تحریر کے ذریعے اس کی دعوت دی جائے بلکہ میں اس کو منع کرتا رہا لیکن اب میں کہتا ہوں کہ لکھا جائے اور تم بھی خوب لکھو، مگر فلاں فلاں کام کرنے والوں کو میری یہ بات پہنچا کر ان کی رائے بھی لے لو (چنانچہ ان نامزد حضرات کو حضرت کی یہ بات پہنچا کر مشورہ طلب کیا گیا, ان حضرات نے اپنی رائے ظاہر کی کہ اس بارے میں اب تک جو طریقہ رہا ہے وہی اب بھی رہے ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے )*

*"❀_ پہلے ہم بالکل کشمہ پرسی کی حالت میں تھے کوئی ہماری بات سنتا نہیں تھا اور کسی کی سمجھ میں ہماری بات آتی نہیں تھی، اس وقت یہی ضروری تھا کہ ہم خود ہی چل پھر کر لوگوں میں طلب پیدا کریں اور عمل سے اپنی بات سمجھائیں، اس وقت بھی اگر تحریر کے ذریعے عام دعوت دی جاتی تو لوگ کچھ کا کچھ سمجھتے اور اپنے سمجھنے کے مطابق ہی رائے قائم کرتے اور اگر بات کچھ دل کو لگتی تو اپنی سمجھ کے مطابق کچھ سیدھی کچھ الٹی اس کے کام کی شکل بنا لیتے اور پھر جب نتیجے غلط نکلتے تو (دعوت کو) غلط کہتے,*

*"❀_ اس لیے ہم یہ بہتر نہیں سمجھتے کہ لوگوں کے پاس تحریر کے ذریعے دعوت پہنچے لیکن اللہ کے فضل و کرم اور اس کی مدد سے اب حالات بدل چکے ہیں، ہماری بہت سی جماعتیں ملک کے چاروں طرف نکل کر کام کا طریقہ دکھلا چکی ہیں اور اب لوگ کام کے طالب بن کر خود ہمارے پاس اتے ہیں اور اللہ تعالی نے ہمیں اتنے آدمی دے دیے ہیں کہ اگر الگ الگ سمتوں میں طلب ( مانگ) پیدا ہو اور کام سکھانے کے لیے جماعتوں کی ضرورت ہو تو جماعت بھیجی جا سکتی ہیں, تو اب ان حالات میں بھی کشمہ پرسی والے شروع زمانے ہی کے کام کے طریقے سے ہر ہر حصے پر جمے رہنا ٹھیک نہیں، اس لیے میں کہتا ہوں کہ تحریر کے ذریعے بھی دعوت دینی چاہیے،* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
    *☞_ اپنے بڑوں سے کام قدر کے ساتھ لو:-*

*"❀_ اب یہ کہنا چھوڑ دو کہ تین دن دو یا پانچ دن دو یا سات دن دو بس یہ کہوں کہ راستہ یہ ہے جو جتنا کرے گا اتنا پائے گا, اس کی کوئی حد نہیں کوئی سرا نہیں ہے,*.

*"❀_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام سب نبیوں سے آگے ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک رات اور ایک دن کے کام کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں پا سکے، پھر اس کی حد ہی کیا ہے ؟ یہ تو سونے کی کان ہے، جتنا کھودو گے اتنا نکلے گا،*

*❀_جذبات اور دل کا رخ بدلے بغیر زندگی کے کام بدلوانے کی کوشش غلط ہے، صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف پھیر دو پھر ان کی پوری زندگی اللہ کے حکموں کے ماتحت ہو جائے گی، لا الہ الا اللہ کا یہی مقصد ہے اور ہماری محنت کی یہی بنیاد ہے،*

*"❀_ لوگوں سے دین پر عمل کرانے کے لیے پہلے ان میں حقیقی ایمان آخرت کی فکر اور دین کی قدر پیدا کرو، اللہ کا انعام بہت ہے مگر اس کے یہاں غیرت بھی ہے وہ ناقدروں کو نہیں دیتا،*

*"❀_ تم بھی اپنے بڑوں سے دین کو قدر کے ساتھ لو اور اس قدر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان کو اپنا بہت بڑا محسن سمجھو اور پوری طرح ان کی تعظیم کرو, یہی منشا ہے اس حدیث کا جس میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے اپنے محسن کا شکر ادا نہ کیا اس نے اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
    *☞_ علم اور عمل کا جوڑ ہو (دیوبند کے طلبہ سے خطاب):-* 

*"❀_دوسری بات یہ ہے کہ ہمیشہ اس فکر میں لگے رہو اور اس فکر کے بوجھ کے ساتھ زندگی گزاروں کہ جو کچھ پڑھا ہے اور جو پڑھیں گے اس کے مطابق زندگی گزاریں گے، علم دین کا یہ پہلے ضروری حق ہے،*

*"❀_ دین کوئی فن اور فلسفہ نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا وہ طریقہ ہے جو انبیاء علیہ السلام لے کر ائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے جو عمل پر نہ ڈالے پناہ مانگی ہے اور اس کے علاوہ بھی عالم بے عمل کے لیے جو سخت سزا دینے کی وعید قران و حدیث میں ائی ہیں وہ آپ کے علم میں ہے,*

*"❀_ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ عالم کی بے عملی نماز نہ پڑھنا اور روزہ نہ رکھنا نہیں، یہ تو عام لوگوں کے عام گناہ ہیں، عالم کا گناہ یہ ہے کہ وہ علم پر عمل نہ کرے اور اس کا حق ادا نہ کرے، قران کریم میں اہل کتاب علماء کے متعلق فرمایا، ان کے وعدہ توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان کو لعنت کی ان کے دلوں کو سخت کر دیا،*

*"❀_ اللہ کی باتوں کو پھیلانے کی کوشش میں جان دینے کے شوق کو زندہ کریں اور اس کا طریقہ سیکھیں اور اس پر اللہ تعالٰی تعالی کی طرف سے جو وعدے ہیں یقین کے ساتھ ان سے امیدیں لگاتے ہوئے اور اس کے غیر سے بالکل امید نہ لگاتے ہوئے بلکہ غیروں سے امیدیں ختم کرتے ہوئے کام سیکھیں،*

*"❀_ جتنی ضرورت اس کی ہے کہ اللہ سے امید رکھی جائے اتنی ہی ضرورت اس کوشش کی ہے کہ اللہ کے علاوہ غیروں سے امید نہ رکھی جائے بلکہ بالکل نظر انداز کر کے کام کرنے کی مشق کی جائے، حدیث میں ہے کہ جو لوگ غیروں سے کچھ امید کر اچھے کام کریں گے قیامت میں ان سے کہہ دیا جائے گا کہ جاؤ انہی سے جا کر اپنا اجر لو،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_اپنی قدر کرو (دیوبند کے طلبہ سے فرمایا )*

*❀_تم اپنی قدر و قیمت تو سمجھو دنیا بھر کے خزانے بھی تمہاری قیمت نہیں، اللہ تعالی کے سوا کوئی بھی تمہاری قیمت نہیں لگا سکتا، تم انبیاء علیہ السلام کے نائب ہو جو ساری دنیا سے کہہ دیتے ہیں،*

*❀_ تمہارا کام یہ ہے کہ سب سے امیدوں کو ختم کرتے ہوئے اور صرف اللہ کے اجر پر یقین و بھروسہ رکھتے ہوئے تواضع اور تذلل (اپنے کو کم اور پست سمجھنا ) سے ایمان والوں کی خدمت کرو، اسی سے ابدیت کی تکمیل و تزںئین( آرائش) ہوگی،*

*❀_ اللہ تعالی نے ظاہر و باطن کی جو طاقتیں ہمیں دی ہیں مثلاً فکر و رائے اور ہاتھ پاؤں یہ سب اللہ تعالی کا انعام ہے اور اللہ کے کاموں میں اور اس کے دین کے لیے ان چیزوں کا استعمال کرنا بھی اس میں شامل ہے،,* 
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
      *☞_اپنی طاقتوں کا صحیح استعمال ہو:-*

*"❀_ اللہ نے جو ظاہر و باطن کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں ان کا صحیح استعمال یہ ہے کہ ان کو اسی کام میں لگایا جائے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طاقتیں لگائی اور وہ کام ہے اللہ کے بندوں کو اور خاص کر غافلوں اور بے طلبوں کو اللہ کی طرف لانا اور اللہ کی باتوں کو پھیلانے کے لیے جان کو بے قیمت کرنے کا رواج دینا،*

*"❀_ یہ کام اگر ہونے لگے (الحمدللہ آج حالات بن چکے ہیں) تو اب سے ہزاروں گنا زیادہ مدرسے اور ہزاروں گنا زیادہ ہی خانقاہیں قائم ہو جائیں بلکہ ہر مسلمان مدرسہ اور خانقاہ ہو جائے اور حضور صلی الہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی نعمتیں اس عام انداز میں بٹنے لگے جو اس کی شان کے مطابق ہے،*

*"❀_ اللہ کا کام کرنے اور اس کی مدد کے مستحق ہونے کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے اپ کو عاجز و لاچار سمجھے اور صرف اللہ ہی کو کام بنانے والا یقین کرے، اس کے بغیر مدد نہیں ہوتی، حدیث پاک میں ہے "میں انہی کے ساتھ ہوں جن کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں_,"* 

*"❀_ ہر مسلمان کے لیے اس کی لا موجودگی میں دعا کرنا حقیقت کے لیے دعا کرنا ہے، حدیث میں ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے خیر و فلاح کی کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ کے فرشتے کہتے ہیں کہ اللہ کے بندے یہی چیز اللہ تجھے بھی دے،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                   *☞_خیریت کا معیار :-*

*❀_ ہمارے اس کام ( دعوت تبلیغ) میں اخلاص اور سچے دل کے ساتھ اجتماعیت اور مل جل کر آپسی مشورے سے کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے اور اس کے بغیر بڑا خطرہ ہے،*

*❀ _حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیدہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہم سے فرماتے تھے کہ میں تمہاری نگرانی سے بے نیاز نہیں ہوں, میں بھی اپ لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ میرے حالات پر نظر رکھیے اور جو بات ٹوکنے کی ہو اس پر ٹوکیے،* 

*❀_ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے گورنروں کے پاس سے جب کوئی قاصد آتے تو اپ ان سے گورنروں کی خیریت پوچھتے اور ان کے حالات معلوم کرتے لیکن اس کا مطلب دینی خیریت اور دینی حال پوچھنا ہوتا تھا نہ کہ آج کل کے رواج کے مطابق مزاج پرسی،*

*❀_ چنانچہ ایک گورنر کے پاس سے آنے والے قاصد سے جب آپ نے گورنر کی خیریت پوچھی تو انہوں نے کہا- "وہاں خیریت کہاں ہے میں نے تو ان کے دسترخوان پر دو دو سالن جمع دیکھے", گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ جس طرز زندگی پر صحابہ کرام کو چھوڑ گئے تھے بس اس پر قائم رہنا ہی ان حضرات کے نزدیک خیریت کا معیار تھا،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
 *☞_ دین کے لیے کم سے کم پسینہ تو بہاؤ:-*

*"❀_ اللہ سے اس کا فضل و رزق وغیرہ مانگنا تو فرض ہے اور اپنی عبادت و خدمت کا دنیا ہی میں بدلہ چاہنا حرام ہے،*

*"❀_ تمام گناہ کفر ہی کی شاخیں ہیں اور اس کی اولاد ہیں اور اسی طرح تمام نیکیاں ایمان کی آل اولاد ہیں، ہمارے یہ تحریک درحقیقت ایمان کی تجدید اور اس کی تکمیل کی تحریک ہے،*

*"❀_ دینی کاموں کو بے مقصد یا اللہ کے حکم کی اطاعت کے ساتھ اور اللہ کی رضا اور آخرت کے ثواب کے سوا اور کسی مقصد کے لیے کرنا بھی دین کا لہو و لعیب بنانا ہے،*

*"❀_ فرمایا جن جگہوں کو حضور ﷺ نے جانوں کی بازی لگا کر اور صحابہ کرام نے دین کی راہ میں اپنے کو مٹا کر جو کچھ حاصل کیا تھا تم لوگ اس کو آرام سے لیٹے لیٹے کتابوں سے حاصل کرنا چاہتے ہو، جو انعامات اور نتیجے خون سے وابستہ تھے ان کے لیے کم سے کم پسینہ گرانا تو چاہیے،* 

*"❀_ وہاں حال یہ تھا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم بھی دین کی راہ میں اپنے کو مٹا دینے کے باوجود اور حضور ﷺ کی خلی ہوئی اور یقین خوش خبریوں کے باوجود اس دنیا سے روتے روتے ہوئے گئے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
        *☞_ _ نکلنے کے زمانے کی محنت:-*

*"❀_ یہ بھی ضروری ہے کہ خاص طور سے نکلنے کے زمانے میں صرف اپنے خاص کاموں میں مشغولیت رہے اور دوسرے تمام کاموں سے الگ رہا جائے, وہ خاص کام, ١- تبلیغی گشت, ٢- علم, ٣- ذکر, دین کے لیے گھر چھوڑ کر نکلنے والے اپنے ساتھیوں کی خاص طور سے اور اللہ تعالی کی عام مخلوق کی عام طور سے خدمت کی مشک,*

*"❀_٥- نیت کا صحیح ہونا اور اخلاص و احتساب ( اپنا محاسبہ کرنے ) کا اہتمام اور اتہام نفس (نفس کی شرکت کی تہمت) کے ساتھ بار بار اس اخلاص و احتساب کی تجدید کرنا،* 

*"❀_ یعنی اس کام کے لیے نکلتے وقت بھی یہ خیال کرنا اور سفر کے درمیان میں بھی بار بار اس خیال کو تازہ کرتے رہنا کہ ہمارا یہ نکلنا صرف اللہ کے لیے اور ان آخرت کی نعمتوں کے لالچ میں ہے جن کا وعدہ دین کی مدد کرنے اور اس راستے کی تکلیفیں اٹھانے پر فرمایا گیا ہے،*

*"❀_ یعنی بار بار اس دھیان کو دل میں جمایا جائے کہ اگر میرا یہ نکلنا خالص ہو گیا اور اللہ تعالی نے اس کو قبول فرما لیا تو اللہ تعالی کی طرف سے مجھے وہ نعمتیں ضرور ملیں گی جن کا وعدہ اس کام پر قران پاک اور احادیث میں فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہوں گی،* 

*"❀_ بہرحال ان اللہ کے وعدوں پر یقین اور ان کی امید کے دھیان کو بار بار تازہ کیا جائے اور اپنے سارے عمل کو اسی یقین اور اسی دھیان سے باندھا جائے، بس اسی کا نام "ایمان و احتساب" ہے اور یہی ہماری اعمال کی روح ہے,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
           *☞_مسکین غریبوں کی قدر کرو:-*

*❀_ اس سلسلے کا ایک اصول یہ ہے کہ آزاد روی اور خود رائے (من مرضی) نہ ہو بلکہ اپنے کو ان بڑوں کے مشوروں کا پابند رکھو جن پر دین کے بارے میں ان اکابرین نے بھروسہ ظاہر کیا جن کا اللہ کے ساتھ خاص تعلق جانا اور مانا رہا ہے*

*"❀_ رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا پیمانہ یہی تھا کہ انہی اکابر پر زیادہ بھروسہ کرتے تھے جن پر حضور ﷺ خاص بھروسہ فرماتے تھے اور پھر بعد میں وہ حضرات زیادہ بھروسے کے قابل سمجھے گئے جن پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے بھروسہ فرمایا تھا,*

*"❀_ دین میں بھروسے کے لیے بہت ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ انتخاب ضروری ہے ورنہ بڑی گمراہیوں کا بھی خطرہ ہے, عام طور پر کام کرنے والے لوگ بڑے آدمیوں اور نمایاں حیثیتوں کے پیچھے لگتے ہیں اور اللہ کے غریب اور خاص خستہ حال بندے اگر خود بھی آ جائیں تو ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے یہ مادیت ہے،* 

*"❀_ خوب سمجھ لو، جو خود بخود تمہارے پاس آگیا وہ اللہ کا دیا ہوا اور اس کا بھیجا ہوا ہے اور جس کے پیچھے لگ کر تم اسے لائے وہ تمہاری کمائی ہے، جو اللہ کی خالص عطا ہو اس کی قدر اپنے کمائی سے زیادہ ہونی چاہیے،*

*"❀_ ذرا سوچو تو رسول اللہ ﷺ نے دعا کی تھی، اے اللہ مجھے مسکین کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکین ہی کی حالت میں مجھے موت دے اور قیامت کے روز غریبوں کی جماعت میں مجھے اٹھا،* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
               *☞_ عورتوں سے خطاب:-*

*"❀_ حضرت گنگوئی نور اللہ مرقدہ کے نواسے حضرت حافظ محمد یعقوب صاحب گنگوئی اپنے گھرانے کی عورتوں کے ساتھ حضرت کی زیارت و عیادت کے لیے تشریف لائے، حضرت نے پردے کے پیچھے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (مختصر جملوں میں لکھا ہے),*

*"❀_ مجھے دین کی نعمت آپ ہی کے گھرانے سے ملی ہے، میں آپ کے گھر کا غلام ہوں، غلام کے پاس اگر کوئی چیز آ جائے تو اسے چاہیے کہ تحفے میں اپنے مالک کے سامنے پیش کر دے، مجھ غلام کے پاس آپ ہی کے گھر سے حاصل کیا ہوا وراثت نبوت کا تحفہ ہے، اس کے سوا اور اس سے بہتر میرے پاس کوئی سوغات نہیں ہے جسے میں پیش کر سکوں،*

*"❀_ دین کیا ہے ؟ ہر موقع پر اللہ کے حکموں کو تلاش کرتے ہوئے اور ان کا دھیان کرتے ہوئے اور اپنے نفس کے تقاضوں کی ملاوٹ سے بچتے ہوئے ان کو پورا کرنے میں لگے رہنا اور اللہ کے حکموں کی تلاش اور دھیان کے بغیر کاموں میں لگنا ہی دنیا ہے،*

*"❀_ میں عورتوں سے کہتا ہوں کہ دینی کام میں تم اپنے گھر والوں کی مددگار بن جاؤ انہیں اطمینان کے ساتھ دین کے کاموں میں لگنے کا موقع دے دو اور گھریلو کاموں کا ان کا بوجھ ہلکا کر دو تاکہ وہ بے فکر ہو کر دین کا کام کریں، اگر عورتیں ایسا نہیں کریں گی تو "حبالہ شیطان" ہو جائیں گی (یعنی شیطان کا جال و پھندا)*

*"❀_ دین کی حقیقت ہے جزبات کو اللہ کے حکموں کا پابند کرنا، صرف دینی مسائل کے جاننے کا نام دین نہیں ہے، یہودی علماء دین کی باتیں اور شریعت کو بہت جانتے تھے لیکن اپنے جزبات کو انہوں نے اللہ کے حکم کا پابند نہیں کیا تھا اس لیے مردود ہو گئے،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
           *☞__اللہ کے دین کی مدد کرو :-*

*"❀_ اسی بات چیت کے دوران حضرت سے کسی معاملے میں دعا کی درخواست کی گئی تو فرمایا، جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرے یعنی جذبات کو اللہ کے حکم کے تابع کر دے تو پھر اللہ تعالی اس کی تمام مشکلیں غیب کے پردے سے حل کرتے ہیں اور ایسے طریقوں سے اس کی مدد کرتے ہیں کہ خود اسے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا،*

*"❀_ اللہ کی خاص مدد حاصل کرنے کی یقینی اور شرطیہ ترتیب یہ ہے کہ اس کے دین کی مدد کی جائے،*

 *"❀_ "إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ" اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو تو ہلاک کرنے والی چیزیں تمہاری زندگی اور آرام کا سامان بن جائے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جی جان سے اللہ کے دین کی مدد کی، اللہ نے آگ کو گلزار بنا دیا، ایسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اس دریا نے جس کی خاصیت ڈبونا ہے سلامتی کے ساتھ ساحل تک پہنچا دیا,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_ ٢ جمادی الاولی ١٣٦٣ ( ٢٥-٤-١٩٤٤) دیوبند کے طلبہ کی جماعت کو خطاب:-*

*"❀_ اپنے تمام استادوں کی عزت اور ان سب کا ادب و احترام آپ کا خاص اور بڑا فرض ہے، آپ کو ان کی ایسی عزت کرنی چاہیے جیسے کہ دین کی اماموں کی کی جاتی ہے، وہ اپ لوگوں کے لیے نبوی علم کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، اگر ان کے درمیان کچھ جھگڑے بھی ہوں تب بھی ادب و عزت کا تعلق سب کے ساتھ برابر رہنا چاہیے چاہے محبت و عقیدت کسی کے ساتھ کم اور کسی کے ساتھ زیادہ ہو لیکن تعظیم میں فرق نہ انا چاہیے اور دل میں ان کی طرف سے برائی نہ آنا چاہیے،* 

*"❀_ قران مجید نے تو ہر مومن کا یہ حق بتایا ہے کہ ان کی طرف سے اپنے دلوں کو صاف رہنے کی اللہ تعالی سے دعا کی جایا کرے، رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے تم میں سے کوئی مجھے ایک دوسرے کی باتیں نہ پہنچایا کریں میں چاہتا ہوں کہ میں جب تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ سب کی طرف سے صاف ہو،*

*❀_ ان چیزوں کا اجر (یعنی چھوٹے بڑوں کے حقوق کی رعایت) ارکان سے کم نہیں ہے بلکہ زیادہ ہی ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی کا معاملہ بہت اہم ہے اور پھر اس درجے میں علم دین کے استادوں کے حقوق کا معاملہ زیادہ نازک ہے،*

*"❀_ تو ان طلباؤں کو میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ اپنی زندگی کے اس پہلو کی اصلاح کی خاص طور پر فکر کریں,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
 *☞_ کفر طاقتور ہے اجتماعی کوشش ہونی چاہیے:-*

*"❀_ پسند کو مباشرت کے برابر سمجھنا بڑا دھوکہ ہے اور شیطانی یہی کرتا ہے کہ ادمی کو پسند پر ہی کافی سمجھنے والا بنا دیتا ہے، اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کسی اچھے کام کو صرف اچھا سمجھ لینے سے اس کام میں شرکت نہیں ہوتی بلکہ اس میں لگنے اور اس کو کرنے ہی سے اس کا حق ادا ہوتا ہے،*

*"❀_ لیکن بہت سے لوگوں کو شیطان یہ دھوکہ دیتا ہے کہ وہ کام سے متفق ہو جانے کو کام میں لگ جانا اور شامل ہونا سمجھنے لگتے ہیں یہ شیطان کا بڑا دھوکہ ہے، ہماری یہ تحریک دشمنوں کو بھی دوست بنانے والی ہے، آ جائے جس کا جی چاہے،* 

*"❀_ بھائی ! اس وقت کفر و الحاد بہت طاقتور ہے، ایسی حالت میں منتشر اور انفرادی اصلاحی کوششوں سے کام نہیں چل سکتا، اس لیے پوری طاقت کے ساتھ اجتماعی کوشش ہونی چاہیے،*

*"❀_ کائنات کو تمہارا خادم اس لیے بنایا گیا تھا کہ تم اللہ تعالی کا کام کرو اور اس کی اطاعت و بندگی اور اس کی مرضی کے فروغ میں لگے رہو، جب سے تم نے اپنا یہ فرض چھوڑ دیا تو زمین و آسمان بھی تم سے پھر گئے،*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                 *☞_ حقیقت علم و ذکر:-*

*"❀_علم و ذکر کو مضبوتی سے تھامے کی زیادہ ضرورت ہے مگر علم و ذکر کی حقیقت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، ذکر کی حقیقت ہے لاپرواہی نہ ہونا اور دینی فرائض کی ادائیگی میں لگے رہنا سب سے اونچے درجے کا ذکر ہے،* 

*"❀_ اس لیے دین کی مدد اور اس کے پھیلانے کی کوشش میں لگے رہنا ذکر کا اونچا درجہ ہے، بشرطیکہ اللہ کے حکموں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہوئے ہو،* 

*"❀_ اور نفلی ذکر اس واسطے ہے کہ آدمی کے جو اوقات فرائض میں مشغول نہ ہو وہ بےکار باتوں میں نہ گزرے، شیطان یہ چاہتا ہے کہ فرائض میں لگنے سے جو روشنی پیدا ہوتی ہے اور جو ترقی حاصل ہوتی ہے وہ بیکار باتوں میں لگا کے اس کو برباد کر دے، اس سے حفاظت کے لیے نفلی ذکر ہے،* 

*"❀_ غرض یہ کہ فرائض سے جو وقت فارغ ہو اس کو نفلی ذکر سے پورا کیا جائے تاکہ شیطان بے کار باتوں میں مشغول کر کے ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے اور نفلی ذکر کا ایک خاص اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عام دینی کاموں میں ذکر کی شان پیدا ہوتی ہے اور اللہ کے حکموں کے پورا کرنے میں اور اس کے وعدوں کے شوق میں کام کرنے کی مہارت پیدا ہوتی ہے،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
            *☞__صرف جان لینا علم نہیں ہے:-*

*"❀_ فرائض میں لگنا یہاں تک کہ نماز میں پڑھنا بھی اگر اللہ کے حکموں اور وعدوں کے دھیان کے ساتھ نہ ہو تو اصلی ذکر نہیں بلکہ جسم کے کچھ حصوں کا ذکر ہے اور دل کی غفلت ہے اور حدیث میں دل ہی کے متعلق ہے کہ انسان کے وجود میں یہی وہ سینٹر ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہو تو پھر سب ٹھیک ہے اور اگر یہ خراب ہو تو سب خراب ہے,* 

*"❀_ تو اصل چیز ہے بس اللہ کے حکموں اور اس کے وعدوں کے دھیان کے ساتھ اللہ کے کاموں میں لگا رہنا یہی ہمارے نزدیک ذکر کا حاصل ہے اور علم سے مراد صرف دینی مسائل اور دینی علوم کا جاننا نہیں ہے،*

*"❀_ دیکھو یہود اپنی شریعت اور اپنے آسمانی علوم کے کیسے عالم تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبوں کے نائبوں تک کے حلیے اور نقشے یہاں تک کہ ان کے جسموں کے تل کے متعلق بھی ان کو علم تھا لیکن کیا ان باتوں کے صرف جان لینے نے ان کو فائدہ دیا ؟*

*"❀_(کچھ روایتوں میں ہے کہ) کچھ یہودی علماء نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بدن کے کسی خاص حصے پر تل یا تل کے قسم کا کوئی نشان دیکھ کر ان کے متعلق بتا دیا تھا کہ یہ شخص نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہے اور بیت المقدس ان کے دور میں فتح ہوگا,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                   *☞__ایمان کا تقاضا :-*

*❀__ایمان یہ ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس چیز سے خوشی اور آرام ہو بندے کو بھی اس سے خوشی اور آرام ہو اور جس چیز سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری اور تکلیف ہو بندے کو بھی اس سے ناگواری اور تکلیف ہو،*

*❀__ اور تکلیف جس طرح تلوار سے ہوتی ہے اسی طرح سوئی سے بھی ہوتی ہے، پس اللہ اور رسول کو ناگواری اور تکلیف کفر و شرک سے بھی ہوتی ہے اور گناہ سے بھی، اس لیے ہم کو بھی گناہ سے ناگواری اور تکلیف ہونا چاہیے،*

*❀__ فرمایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے یہاں جب مال غنیمت میں سے ان کا حصہ پہنچا (جو شاید مقدار میں زیادہ ہوگا اور اس سے ان کو دل بستگی کا اندیشہ ہوا ہوگا) تو پریشان ہو کر دعا فرمائی کہ اے اللہ اس گھر میں یہ پھر نہ ائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا (یعنی ان کی وفات ہوگئی)*

*❀__ نیت کے ساتھ مومن بندوں کی خدمت عبدیت کی سیڑھی ہے,* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
       *☞_ مومن کا روپیہ دین کے کام آئے:-*

*❀_ مشورہ بڑی چیز ہے, اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جب تم مشورے کے لیے اللہ پر بھروسہ کر کے جم کر بیٹھو گے تو اٹھنے سے پہلے تم کو نیکی کی توفیق مل جائے گی,*

*❀_ فرمایا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور اسی طرح دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی آمدنیاں بہت تھیں اور اپنے اوپر خرچ کرنے میں بھی وہ بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنے والے تھے، ان کا کھانا ان کا پہننا بہت معمولی تھا اور نہایت سادہ بلکہ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے،*

*❀_ اس کے باوجود ان میں سے بہت سے دنیا سے قرضدار گئے کیونکہ وہ اپنی ساری آمدنی دین کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے، دراصل مومن کا روپیہ اس لیے ہے کہ وہ اللہ کے کام ائے،*

*❀_ برکت یہ ہے کہ کوئی چیز عادتاً جس وقت اور جس حالت میں ختم ہو جانی چاہیے وہ اس میں ختم نہ ہو اور باقی رہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے باز اوقات کھانے وغیرہ میں برکت کے جو واقعات ہوئے ہیں ان کی قسم یہی تھی کہ اصل چیز ختم نہیں ہوتی تھی،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                  *☞_ اپنا محاسبہ کرو:-*

*"❀_ جو کام ہو چکا اس کا کیا ذکر کرنا, بس یہ دیکھو کہ جو کچھ ہم کو کرنا تھا اس میں سے کیا رہ گیا اور جو کچھ کیا جا چکا ہو اس میں کتنی اور کیسی کیسی کوتاہیاں ہوئی, اخلاص میں کتنی کمی رہی, اللہ تعالی کے حکم کی عظمت کے دھیان میں کتنا قصور ہوا, عمل کے آداب کی تلاش میں اور اتباع کی کوشش میں کتنا نقصان رہا،* 

*"❀_ان حکموں کے بغیر پچھلے کام کا ذکر مذاکرہ اور اس پر خوش ہونا بس ایسا ہے جیسے راستے چلنے والا مسافر کھڑا ہو کر پیچھے کی طرف دیکھنے لگے اور خوش ہونے لگے*

*"❀_ پچھلے کام کی صرف کوتاہیاں تلاش کرو اور ان کو پورا کرنے کی فکر کرو اور آئندہ کے لیے سوچو کہ کیا کرنا ہے، یہ مت سوچو کہ ایک شخص نے ہماری بات سمجھ لی اور اعتراف کر لیا ہے بلکہ اس پر غور کرو کہ ایسے کتنی لاکھ اور کروڑ باقی ہیں جن کو ہم ابھی اللہ کی بات پہنچا بھی نہیں سکے اور کتنے ہیں جو جانکاری اور اعتراف کے بعد بھی ہماری کوششوں کی کمی کی وجہ سے عمل پر نہیں پڑے،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
              *☞_ نماز دین کا ستون ہے:-*

*❀__ نماز کو حدیث میں دین کا ستون فرمایا گیا ہے, اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پر باقی دین معلق ہے اور وہ نماز ہی سے ملتا ہے،*

*❀__ نماز سے دین کا تفقہ بھی ملتا ہے اور عمل کی توفیق بھی ملتی ہے, پھر جیسی جس کی نماز ہوگی ویسے ہی اس کے حق میں عطا بھی ہوگی،اس لیے نماز کی دعوت دینا اور لوگوں کی نمازوں میں خشوع و خضو پیدا کرنے کی کوشش کرنا بالواسطہ پورے دین کے لیے کوشش کرنا ہے,*

*❀__ فرمایا- جو کام عوام مخلصین سے لیا جا سکتا ہو اور اس سے ان مخلصین کے درجے اور اجر میں ترقی کی امید ہو، وہ ان سے نہ لینا اور اس کو خود کرنا، ان مخلصوں کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے بلکہ ان پر ایک طرح کا ظلم ہے اور اللہ کے قانون کی ناقدری ہے،*

*"❀__ بھائی دین پر عمل بڑے تفقہ کو چاہتا ہے _,* 
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
    *☞_ اہلے حق کو دعوت کی زیادہ ضرورت:-* 

*❀_یہ بہت اہم اصول ہے کہ ہر طبقے کو دعوت اسی چیز کی دی جائے جس کا حق ہونا اور ضروری ہونا وہ خود بھی مانتا ہو اور عمل میں کوتاہی کو اپنی کوتاہی سمجھتا ہو, جب وہ طبقہ ان چیزوں پر عمل کرنے لگے گا تو اگلی چیزوں کا احساس خود بخود پیدا ہوگا اور ان کی ادائیگی کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی,*

*"❀_فرمایا:- جو جتنا زیادہ اہل حق ہیں، ان میں اتنی ہی زیادہ کام اور کوشش کی ضرورت ہے، ان کا دین کے واسطے اٹھنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہی اصل اور جد ہو سکتے ہیں ‌،*

*"❀_ افسوس ! جو لوگ دین کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں اور دین کے معاملے میں بالکل ہی غافل اور پچھڑے ہوئے ہیں ہم ان کو دیکھ دیکھ کر اپنی ذرا سی کوششوں و حرکت پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم اپنا حق ادا کر رہے ہیں،*

*"❀_ حالانکہ چاہیے یہ کہ اللہ کے جن بندوں نے دین کے لیے اپنے کو بالکل مٹایا تھا ہم ان کے نمونوں کو نظر کے سامنے رکھ کر ہمیشہ اپنے کو چھوٹا اور کوتاہی کرنے والا سمجھتے رہیں اور جتنا کر رہے اس سے زیادہ کرنے کے لیے ہر وقت حریص اور بے چین رہیں,*

*"❀_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ اس کی لالچ رہتی تھی کہ کسی طرح دین کی خدمت میں وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام پا لے,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
        *☞_ لمبی بات اور لمبا مطالبہ نہ ہو:-*

*❀__ تبلیغ کے آداب میں سے یہ ہے کہ بات بہت لمبی نہ ہو اور شروع میں لوگوں سے صرف اتنے عمل کا مطالبہ کیا جائے جس کو وہ بہت مشکل اور بڑا بوجھ نہ سمجھے، کبھی کبھی لمبی بات اور لمبا مطالبہ لوگوں کو منہ پھیرنے کی وجہ بن جاتا ہے،*

*❀__ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بس پہنچا دینے کا نام تبلیغ ہے, یہ بڑی غلط فہمی ہے, تبلیغ یہ ہے کہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کی حد تک لوگوں کو دین کی بات اس طرح پہنچائی جائے جس طرح پہنچانے سے لوگوں کے ماننے کی امید ہو, انبیاء علیہ السلام یہی تبلیغ لائے ہیں,*

*"❀__فرمایا- فضائل کا درجہ مسائل سے پہلے ہے, فضائل سے آعمال کے اجر پر یقین ہوتا ہے جو ایمان کا مقام ہے اور اسی سے آدمی عمل کے لیے تیار ہوتا ہے، مسائل معلوم کرنے کی ضرورت کا احساس تو تب ہی ہوگا جب وہ عمل پر تیار ہوگا، اس لیے ہمارے نزدیک فضائل کی اہمیت زیادہ ہے،* 
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
                 *☞__ محبت کا تقاضا :-*

*"❀_ فرمایا - اصلی محبت کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ محبت کرنے والے اور محبوب کے جذبات اور خواہشات تک میں پورا اتحاد ہوتا ہے،*

*"❀_ میرے بھائی مولانا محمد یحییٰ صاحب (رحمتہ اللہ) کا یہ حال تھا کہ باوجود یہ کہ وہ خانقاہ سے دور رہتے تھے لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ اچانک ان کے دل میں خانقاہ جانے کا تقاضہ پیدا ہوتا اور وہ فوراً چل دیتے اور جب دروازہ کھولتے تو حضرت گنگوئی (رحمتہ اللہ) کو انتظار میں بیٹھا پاتے,* 

*"❀_فرمایا کہ- اللہ تعالی سے جب کسی بندے کو سچی محبت ہو جاتی ہے تو پھر یہی معاملہ اللہ پاک کے ساتھ ہو جاتا ہے کہ اس کی خوشیاں بندے کی خوشیاں ہو جاتی ہیں اور جو باتیں اللہ کو ناپسند ہوتی ہے بندے کو بھی ان سے نفرت ہو جاتی ہے اور اس محبت کے پیدا کرنے کا طریقہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی فرمانبرداری ,*

*"❀_ جو لوگ دین دار اور دین کو جاننے والے ہونے کے باوجود دین کے پھیلانے کے لیے اور امت کی اصلاح کے لیے وہ کوشش نہیں کر رہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی تقاضہ ہے،*

*"❀_ ان کے بارے میں ایک روز حضرت کی زبان سے نکل گیا کہ ان لوگوں پر بڑا رحم اتا ہے, اس کے بعد دیر تک استغفار فرماتے رہے, پھر ارشاد فرمایا - میں نے استغفار اس پر کیا کہ میری زبان سے یہ دعوے کا کلمہ نکل گیا تھا کہ "مجھے ان لوگوں پر رحم اتا ہے",*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_ہماری مسجدیں مسجدِ نبوی کا نمونہ بنے:-*

*"❀__ فرمایا - مسجدیں مسجدِ نبوی کی بیٹیاں ہیں، اس لیے ان میں وہ سب کام ہونا چاہیے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ہوتے تھے،*

*"❀__ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد میں نماز کے علاوہ تعلیم و تربیت کا کام بھی ہوتا تھا اور دین کی دعوت کے سلسلے کے سب کام بھی مسجد ہی سے ہوتے تھے, دین کی تبلیغ یا تعلیم کے لیے قافلوں (جماعتوں) کی روانگی بھی مسجد ہی سے ہوتی تھی یہاں تک کہ فوجوں تک کا نظم بھی مسجد ہی سے ہوتا تھا, ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مسجدوں میں بھی اسی طریقے پر یہ سب کام ہونے لگے,*

*"❀__ صحیح کام کا طریقہ یہ ہے کہ جو کام نیچے درجے کے لوگوں سے لیا جا سکتا ہو وہ انہی سے لیا جائے, ان سے اونچے درجے کے لوگوں کا اس میں لگنا جبکہ نیچے درجے کے کام کرنے والے بھی نصیب ہوں بڑی غلطی ہے، بلکہ ایک طرح سے نعمت کی ناشکری ہے اور نیچے درجے والوں پر ظلم ہے،*

*"❀__ دین کی دعوت کا اہتمام میرے نزدیک اس وقت اتنا ضروری ہے کہ اگر ایک شخص نماز (نفل) میں مشغول ہو اور ایک نیا آدمی ائے اور واپس جانے لگے اور پھر اس کے ہاتھ آنے کی امید نہ ہو تو میرے نزدیک نماز (نفلی نماز) کو درمیان میں توڑ کر اس سے دین کی بات کر لینی چاہیے اور اس سے بات کر کے یا اس کو روک کر اپنی نماز پھر سے پڑھنی چاہیے,* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_ ہر اچھے سے اچھے کام کے ختم پر استغفار ہو :-*
*"❀_فرمایا- میری حیثیت ایک عام مومن سے اونچی نہ سمجھی جائے, صرف کہنے پر عمل کرنا بد دینی ہے, میں جو کچھ کہوں اس کو کتاب و سنت پر پیش کر کے اور خود غور و فکر کر کے اپنی ذمہ داری پر عمل کرو, میں تو بس مشورہ دیتا ہوں,*

*"❀_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ تم نے میرے سر بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے, تم سب میرے آعمال کی نگرانی کیا کرو, میرا بھی اپنے دوستوں سے بڑے اصرار اور منت سے یہ درخواست ہے کہ میری نگرانی کرو, جہاں غلطی کروں وہاں ٹوکو اور میری ہدایت و درستگی کے لیے دعائیں بھی کرو،* 

*"❀_فرمایا- شریعت میں جو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہر اچھے سے اچھے کام کے ختم پر استغفار کیا جائے، میرے نزدیک اس میں ایک راز یہ بھی ہے کہ شاید اس اچھے کام میں مشغولی اور مصروفیت کی وجہ سے کسی دوسرے حکم کو پورا کرنے میں کوتاہی ہو گئی ہو، خاص کر جب کسی کام کی لگن میں دل لگ جاتا ہے اور دل و دماغ پر وہ کام چھا جاتا ہے تو پھر اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں اکثر دیر ہو جاتی ہے,* 

*"❀_اس لیے ہمارے اس کام میں لگنے والوں کو خاص طور سے کام میں جمنے اور کام کے ختم پر استغفار کی کثرت اپنے اوپر ضروری کر لینی چاہیے،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
       *☞__کام حکمت اور بصیرت سے کریں:-*

*❀_ یہ بات ضروری ہے کہ اپنی محنتوں کے ساتھ ساتھ اس کام کی حقیقت اور اس کا طرز طریق اور اس کے اصول و آداب سمجھنے کی کوشش بھی کرتے رہیں اور اپنے بزرگوں سے تحقیق بھی کرتے رہیں، اللہ تعالی کی آیات اور احادیث نبوی سے متابعت کرتے رہیں تاکہ اس کام کو صرف تبدیلی طریقے پر نہیں بلکہ اپنے قلبی انشراح اور بصیرت کے ساتھ کرنے والے ہوں اور اس کام کی حقیقت ہم پر کھلتی چلی جائے،*

*"❀_ اور حکمت کے ساتھ ہمیں اس کام کو کرنا آ جائے تاکہ مسلمانوں کے عام طبقے کو بھی اور خواص کو بھی جو مختلف دینی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اپنی حکمت اور اخلاق کے ذریعے اس کی طرف متوجہ کر سکیں اور کسی کو اس بات پر اشکال نہ رہے اور اس اعتراض کا موقع نہ ملے کہ یہ کام پورے دین کے لیے اہم درجہ رکھتا ہے اور تمام شعبے اس کے اندر داخل ہیں،*

*"❀_ اپنے کو کم علم سمجھتے ہوئے اور محتاج جانتے ہوئے حق تعالی سے اس کی دعائیں بھی کر رہے ہوں کہ اللہ ہمیں یہ بات سمجھا دے کیونکہ شیطان آج بہت آسانی سے ہمیں اس بات پر مطمئن کر دیتا ہے کہ ہم اس کام کو سمجھ گئے،*

*"❀_ حالانکہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ کا یہ ملفوظ ہے کہ میں اس کام کا ہزارواں حصہ بھی لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتا اور جو کچھ پیش کیا اس کا ہزارواں حصہ بھی کسی نے نہیں سمجھا, تو جب ان کا یہ فرمانا ہے تو ہم کس درجے میں اس کو سمجھ سکتے ہیں,* 
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
           *☞_ دینی شعبوں سے تقابل نہ ہو:-*

*"❀_ ابھی تک تو ہمیں دعوت دینا بھی نہیں آئی اور اس کی حکمت اور بصیرت سے بھی واقفیت نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے بہت سے حضرات کو خصوصاً کسی دینی شعبوں کو چلانے والوں کے لیے ہماری دعوت اور ہمارے بیانوں سے اعتراض پیدا ہو جاتے ہیں کہ گویا ہم ان شعبوں کو ناقص سمجھ رہے ہیں یا ان کو حقیر سمجھ رہے ہیں،* 

*"❀_ اگر ہمیں دعوت کا صحیح صحیح طرز آ جائے تو ہر ایک ہمیں اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ کر خود بھی قریب ہوگا اور ہمیں بھی اپنے سے قریب کرے گا، مثلاً جب ہم دعوت کے نمبر کو اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں تو کبھی علم والوں کے شعبوں پر یعنی مدارس پر اس طرح فوقیت دیتے ہیں گویا وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، اور کبھی ذکر والوں کے مقابلے میں، جیسے کہ بہت سے تقریر کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت دوسرے انبیاء علیہ السلام کے مقابلے میں اس طرح بیان کرنے لگتے ہیں کہ دوسرے انبیاء علیہ السلام کی تنقید لازم آنے لگتی ہے اور ان کا یہ طرز بیان دین کے لیے بہت خطرناک ہے، ایسے ہی ہمارا طرز بیان بھی خطرناک ہو جاتا ہے ،*

*"❀_ طرز بیان یہ ہونا چاہیے کہ پہلے علم کے خوب فضائل بیان کریں اور علم والوں کے درجات بیان کریں جو آیات قرانی اور احادیث میں ائے ہیں اور اتنا بیان کریں کہ خود ہمارا دل علم اور علم والوں کی عظمت اور محبت سے بھر جائے، اس نسبت سے کہ یہ علم حق تعالی کی سنت ہے اور ہم اپنے کو علم اور علم والوں کا محتاج سمجھیں، پھر یہ کہیں کہ یہ علم پوری امت کے ہر فرد میں باقدر اس کی احتیاز اور ضروریات کے کیسے آ جائے اس کے لیے محنت ہے،*

*"❀_اگر اس علم اور اس محنت کو کرتے ہوئے علم کی اشاعت کرے تو امت کا کوئی فرد ایسا جاہل نہ رہے کہ اس کو ضرورت کے بقدر علم نہ پہنچا ہو عورت ہو یا مرد ہر ایک اس کا محتاج ہے، اس لیے ہم اس محنت میں اہل علم کے زیادہ محتاج ہیں،* 

*"❀_ ایسے ہی ذکر اللہ کی اور ذکر والوں کی خوب اہمیت بیان کریں جو قران و حدیث میں آئی ہے اور اس قدر ذوق و شوق کے ساتھ ہم بیان کرنے والے ہوں کہ ہمارا دل ذکر کی عظمت اور ذکر کرنے والوں کے احترام سے بھرپور ہو جائے اور متاثر ہو جائے، پھر یہ بیان کریں کہ ذکر کا تو امت کا ہر فرد محتاج ہے عورت ہو یا مرد، ان میں ذکر پھیلانے کے لیے ہم ذکر کرنے والوں کے محتاج ہیں،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_دین کے شعبوں میں تقابل نہیں تعاون ہو:-*

*"❀_ بیان میں ایک نمبر کو دوسرے نمبر کا مقابل نہ ٹھہرایا جائے (کیونکہ مقابلے سے تنقید کا شیوہ آ جاتا ہے) بلکہ معاون قرار دیا جائے کیونکہ دین کے تمام شعبے ایسے ہی ہیں جیسے انسان کے اعضاء جوارح،*

*"❀_ آنکھ سے دیکھنے کا کام زبان سے بولنے کا کام ہاتھ سے پکڑنے کانوں سے سننے پیروں سے چلنے دماغ سے سوچنے کا کام، یہ سارے کام انسان کے لیے ضروری ہیں، اگر ایک عضو میں بھی کمزوری ہوگی یا نقص ہوگا تو اس سے تمام جسم کو تکلیف ہوگی اور چیزوں سے استفادہ میں نقصان ہوگا، ان سب اعضاء کی سخت ضرورت ہے یہ سب اعضاء ایک دوسرے کے مددگار ہیں مقابل نہیں ہیں,*

*"❀_ اسی طرح سے اللہ کا ذکر اور علم عبادات خدمت اور معاملات سب ایک دوسرے کے معاون ہیں مقابل نہیں, معاون ہونے ہی کی وجہ سے دین مکمل ہوتا ہے, دعوت تو صرف ان تمام شعبوں کو دنیا میں پھیلانے اور عام کرنے ہی کے لیے ہیں،*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞_ دعوت میں ضعف کا تمام شعبوں پر اثر:-*

*"❀_ اگر دعوت میں ضعف یا نقص ہوگا تو اس کا اثر تمام دینی شعبوں پر پڑے گا اور شعبوں سے اس کا اثر حصول رضا پر ائے گا کہ کمزوری کے ساتھ یا نقص کے ساتھ شعبوں میں چلنے والا اللہ تعالٰی کی کامل رضا حاصل نہیں کر سکتا،*

*"❀_ اس کی مثال اس سے سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں ایک پھل ہے، ایک ان کے لیے درخت ہے، ایک درختوں کے لیے زمین ہے، مقصود بذات نا درخت ہے نہ زمین بلکہ پھل ہے لیکن پھل کے لیے موقوف علیہ درخت ہے کہ بغیر درخت کے پھل کا وجود نہیں ہوتا، گو حق تعالی شانہ اس پر قادر ہیں مگر اسباب دنیا سے انسان کو مربوط کیا ہے اور درخت بغیر زمین کے نہیں پائے جاتے،*

*"❀_ لیکن اگر زمین میں استعداد کمزور ہے تو اس کا اثر درخت پر پڑے گا اور درخت کی کمزوری کا اثر پھل کی کمزوری پر،*

*"❀_ اس لیے مقصد ہر وقت ہماری نگاہ کے سامنے اور نصب العین بن کر ہو کہ اللہ تعالی کو کامل طریقے سے راضی کرنے کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہو رہا ہو اور یہ یقین ہو کہ اپنے عوامر کے بجا لانے ہی سے اللہ تعالی راضی ہوتے ہیں,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙  
*☞__حاکم کی عظمت حکم پورا کرنے کا ذریعہ ہے:-*

*"❀_ یہ اللہ کا ذکر عوامر خداوندی کے لیے عظمت اور وقعت پیدا کرنے کے لیے ہے اور عامر کی عظمت عوامر سے پہلے ہے ورنہ عوامر کا پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے،*

*"❀_ بادشاہ کے احکامات اس قدر ہی لوگوں میں جاری ہو سکتے ہیں جس قدر کہ بادشاہ کا دبدبہ، اس کی عظمت اور اس کی محبت دلوں میں ہوگی،*

*"❀_ تو یہ دعوت بھی نازک طریقہ رکھتی ہے, اپنے کو پیسنا پڑتا ہے، اپنی حیثیت ختم کر دینی پڑتی ہے،*
 
*💤_ حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب رحمۃ اللہ کے تصنیف شدہ ملفوظات سے مذکور_,*
 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
    http://www.haqqkadaayi.com  
*👆🏻ہماری پچھلی پوسٹ سائٹ پر دیکھیں,* 
https://chat.whatsapp.com/DsQk3786EvG3qjKxWF7Hsl
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوسٹ پانے کے لئے گروپ جوئن کریں _,*
https://chat.whatsapp.com/LV8KS9l627sKt8cJMIcdqC
*👆🏻 صرف اردو پوثٹ کے لیے لنک پر کلک کریں_,* 
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments