┯━══◑━═━┉─◑━═━━══┯
*●• گھریلو جھگڑوں سے نجات •●*
*●•(میاں بیوی کے جھگڑے)•●*
╥────────────────────❥
*⊙⇨میاں بیوی کا تعلق گھر کی بنیاد ہے:-*
*★_ ہمارے گھروں سے ماحول اور معاشرے سے یہ لڑائی جھگڑے کیسے ختم ہوں، ان لڑائی جھگڑوں میں ایک بڑا رول میاں بیوی کے لڑائی جھگڑوں کا ہوتا ہے۔ میاں بیوی دونوں مل کر ایک گھر بنتے ہیں، اگر ان کے آپس کے درمیان بھی لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں تو گویا یہ گھر کے بے آباد ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ میاں بیوی کا تعلق کوئی کچا دھاگہ نہیں ہے ایک گہرا رشتہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اور انہوں نے تم سے پکا عہد لیا ہے ) اس لئے قرآن مجید نے بیوی کو کروٹ کی ساتھی کہا ہے ۔ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہوتا،*
*★_ میاں اور بیوی دونوں کو سمجھداری سے کام لینا چاہئے اور محبت و پیار کی زندگی گزار کر شیطان کو اس میں دخل اندازی کا موقع ہی نہیں دینا چاہئے۔ اینٹیں جڑتی ہیں تو مکان بن جاتے ہیں، دل جڑتے ہیں تو گھر آباد ہو جاتے ہیں ۔ یہ ذمہ داری خاوند کی بھی ہوتی ہے اور بیوی کی بھی ہوتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے کام لیں۔*
*★_ یہ اصول یا درکھیں ! جہاں محبت موٹی ہوتی ہے وہاں عیب پتلے ہوتے ہیں اور جہاں محبت پتلی ہوتی ہے وہاں عیب موٹے ہوتے ہیں۔ اس لئے شریعت نے نکاح کے بعد محبت کو اجر اور ثواب کا ذریعہ بتایا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی آپس میں جتنی محبت کریں گے، جتنا پیار کریں گے اتنا ہی اللہ رب العزت ان سے راضی ہوں گے۔ ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جب بیوی اپنے خاوند کو دیکھ کر مسکراتی ہے اور خاوند اپنی بیوی کو دیکھ کر مسکراتا ہے تو اللہ رب العزت ان دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ شادی کا مقصد:-*
*★_ارشاد باری تعالی ہے:-۔ وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿ سورة الروم - ۲۱﴾*
*"_اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم میں سے تمہارے لئے جوڑا بنایا، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کر سکو۔ اور تمہارے درمیان مودت و رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کیلئے ]*
*★_ تو معلوم ہوا کہ شادی کا مقصد یہ ہے کہ سکون حاصل ہو۔ اور جہاں آپ دیکھیں میاں بیوی کی زندگی میں سکون نہیں ہر وقت کا جھگڑا اور چیخ چیخ ہے، ہر وقت جلی کٹی کی باتیں ایک دوسرے کو کرتے رہتے ہیں۔ بحث مباحثہ میں الجھے رہتے ہیں، سمجھ لیں کہ کہیں نہ کہیں دال میں کالا ہے۔ بیوی کی طرف سے کوتاہی ہے یا میاں کی طرف سے کو تا ہی ہے اور عام طور پر ہمارا تجربہ یہی ہے کہ دونوں طرف سے کوتاہی ہوتی ہے۔*
*★_ ایک اصولی بات یاد رکھیں ! اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں شادی کا مقصد بتايا لتسكنوا اليها " تاکہ تم اپنی بیوی سے سکون پاؤ" ۔ جو بھی اپنے خاوند کے لئے سکون کا سبب بنے گی وہ اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی گزارے گی اور جو خاوند کی پر یشانی کا سبب بنے گی وہ خود بھی پریشانی اٹھائے گی۔ اس لئے کہ گھر بسانا عورت کے اختیار میں ہوتا ہے۔*
*★_ ہمارے بڑے کہا کرتے تھے کہ مرد اگر کسی لے کر گھر کو گرانا چاہے تو وہ نہیں گراسکتا عورت سوئی لے کر گھر کو گرانے لگے تو مرد سے پہلے گرا لیا کرتی ہے۔ اس لئے عورت کو گھر والی کہا جاتا ہے گھر کا بسانا عورت کے اوپر منحصر ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاوند سے محبت کا رشتہ مضبوط کریں ؛-*
*★_ یاد رکھئے ! خوبصورت تعلیم یافتہ اور مالدار بیوی کو بھی خاوند کے دل کی ملکہ بننے کے لئے سمجھداری سے کام کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا زندگی کے اس سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا رشتہ مضبوط کریں! بیوی کو چاہئے کہ وہ خاوند کو یقین دہانی کروائے، صرف محبت کا اظہار ضروری نہیں، اس کو محسوس بھی کروائیں کہ واقعی بیوی مجھ سے محبت کرتی ہے۔ خاوند کے سامنے سرد مہری دکھانا جھگڑے کی بنیاد ہوتا ہے، شیطان بھی کتنا مکار ہے کہ جب بیوی خاوند کے پاس ہوتی ہے تو اس پر عجیب شرم و حیا طاری کر دیتا ہے اور جب محفل میں بیٹھی ہوتی ہے تو پھر ان کے سامنے کھل کھلا کر ہنس رہی ہوتی ہے۔*
*★_ تو یہ ذہن میں رکھیں کہ شریعت نے جہاں محبت کے اظہار کرنے کے لئے کہا وہاں محبت کا اظہار کرنا بھی ثواب ہوتا ہے۔ کئی جگہوں پر ہم نے جھگڑوں کی بنیاد ہی یہ دیکھی کہ خاوند پیار بھی کرتا ہے اور محبت کا اظہا ر بھی کرتا ہے اور بیوی اپنے اندر دل دل میں خوش بھی ہے لیکن اظہار ایسے کرتی ہے کہ جیسے اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا، اظہار ایسے کرتی ہے کہ جیسے مجھے اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ یہ اتنا بڑا بلنڈر ہے کہ اس سے بڑا بلنڈر عورت اپنی زندگی میں نہیں کر سکتی۔*
*★_ محبت کا جواب ہمیشہ محبت سے دینا چاہئے ۔ جب خاوند چاہتا ہے کہ بیوی محبت کا اظہار کرے تو بیوی کے لئے تو یہ سنہری موقع ہے۔ ایسی بات کہے، ایسے الفاظ سے کہے کہ خاوند کا دل باغ باغ ہو جائے۔*
*★_ آپ ذرا سوچیے ! کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ سے اپنی محبت کا برملا اظہار فرماتی تھیں۔ چنانچہ بات چیت کے دوران ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "عائشہ! آپ مجھے مکھن اور کھجور کو ملا کر کھانے سے بھی زیادہ مرغوب ہو۔ عائشہ صدیقہ ( رضی اللہ عنہا) مسکرائیں اور فوراً جواب میں کہا: ”اے اللہ کے پیارے حبيب ! آپ مجھے مکھن اور شہد کو ملا کر کھانے سے بھی زیادہ مرغوب ہیں۔ نبی کریم ﷺ مسکرا پڑے اور فرمایا : عائشہ تیرا جواب بہت بہتر ہے۔*
*★_اب دیکھئے ! خاوند نے جو بات کہی ، بیوی نے ایک قدم آگے بڑھ کر بات کی۔ خاوند سے محبت کا اظہار نہیں کریں گی تو کس کے ساتھ کریں گی؟انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو محبت اظہار چاہتی ہے۔ یاد رکھئے عشق اور مشک چھپے نہیں رہ سکتے ہمیشہ اظہار مانگتے ہیں۔ جہاں بھی ہوں گے یہ اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ اسی طرح بیوی جب خاوند سے محبت کرتی ہے تو یہ سوچنا کہ اگر میں محبت کا اظہار کردوں گی تو خاوند کی نظر میں گر جاؤں گی یہ بہت بڑی غلطی ہے,*
*★_ کیسے ممکن ہے کہ ایک بندہ اپنے قول سے اور فعل سے محبت کا اظہار کر رہا ہو اور دوسرے بندے کی نظر میں اس کی قدر کم ہو رہی ہو؟ ہاں! جب خاوند چاہتا ہے کہ بیوی محبت کا اظہار کرے اور بیوی ایسے بن کر رہے کہ جیسے وہ تو بالکل ٹھنڈے برف والے دل کی مانند ہے، یہ عورت اپنا گھر برباد کرنے کی خود کوشش کر رہی ہے,*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اظہار محبت :-*
*★_ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کی محبت میں اشعار بنائے اور یہ ان کے شعر بڑے مشہور ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ عشاء کے بعد صحابہ کی مجلس سے فارغ ہو کر گھر تشریف لاتے تھے تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ مسکراتے چہرے کے ساتھ آتے تھے، سلام کرتے تھے، اس وقت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کو یہ شعر سناتی تھی کیا شعر سناتیں تھی۔ فرماتی تھیں:-*
*"_ (لَنَا شَمسَ وَلِلا فَاقِ شَمسٌ) اے آسمان ایک تیرا بھی سورج ہے اور ایک ہمارا بھی سورج ہے۔*
*(وَ شَمسِي خَيْرٌ مِنْ شَمسِ السَّمَاءِ) اور میرا سورج آسمان کے سورج سے بہت بہتر ہے،*
*(فَإِنَّ الشَّمسَ تَطْلُعُ بَعْدَ فَجْرِ) اس لئے کہ آسمان کا سورج تو فجر کے بعد طلوع ہوتا ہے،*
*(وَ شَمسِي طَالِعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ) اور میرا سورج تو میرے گھر میں عشاء کے بعد طلوع ہوتا ہے،*
*★_ اب سوچئے کہ بیوی اگر ان الفاظ سے خاوند کا استقبال کرے تو خاوند کے دل میں کسی قدر بیوی کی محبت آئے گی ! کوئی ہے آپ میں سے ایسی بیوی کہ جس نے کبھی خاوند کی محبت میں ایسے اشعار کہے ہوں یا کوئی فقرہ ہی ایسا بول دیا ہو۔ عورت یہ سمجھ لیتی ہے کہ بس خاوند کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اظہار کرے اور اپنے آپ کو سمجھتی ہے کہ میں جتنا اظہار نہیں کروں گی اتنی بڑی محبوبہ بنوں گی یہ بہت بڑی Misunderstanding ( غلط نہی) ہے۔ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے چاہئے کہ محبت کا اچھے انداز سے اظہار کیا جائے عمل سے بھی ، قول سے بھی فعل سے بھی ۔*
*★_ چنانچہ جب خاوند محبت کا اظہار کرے تو بیوی بھی جواب میں محبت کا اظہار ضرور کرے، ایسے الفاظ سے کہ خاوند کا دل مطمئن ہو جائے کہ میری بیوی مجھے ہی چاہتی ہے۔ بیوی کو ایسے زندگی گزارنی چاہیے کہ خاوند کو یقین دہانی کرائے کہ آپ ہی سے محبت کرتی ہوں۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ اپنی خوشی پر خاوند کی خوشی کو ترجیح دے:-*
*★_ دوسری عام طور پر غلطی یہ کہ اپنی خوشی پر خاوند کی خوشی کو ترجیح دینا۔ اس کو یہ فکر لگی رہے کہ خاوند کا دل اس سے خوش رہے۔ یہ نہیں کہ بس ہر وقت مجھے ہی خوش رہنا ہے۔ خاوند کی خوشی کا خیال رکھے۔ اس کا دل خوش ہوگا تو گھر کی ذمہ داریوں کو بھی قبول کرے گا، اس کی توجہ کا اطلاق باہر کی بجائے اپنا گھر بن جائے گا۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ سمجھتا ہو گا کہ گھر جا کر مجھے سکون ملے گا۔*
*★_ خاوند کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے، کئی دفعہ دیکھا کہ خاوند ایک بات سے منع کرتا ہے، بیوی سنی ان سنی کر دیتی ہے اور پھر وہی کام کرتی ہے۔ جب منع کرنے کے باوجود پھر وہی کام کیا جائے تو یہ چیز جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ اور جھگڑا نہ بھی ہو تو دل میں میل آنے کا سبب ضرور بن جاتی ہے۔*
*★_ خاوند کوئی کام کہے تو ذمہ داری سے کرو! ایک تیسری بات کہ اگر خاوند کوئی کام ذمہ لگائے اسے اس طرح کرو کہ خاوند بے فکر ہو جائے ۔ یہ نہیں جو کام اس نے ذمہ لگایا اس کو تو کیا نہیں اور دوسرے کاموں میں لگی رہی ۔ مثال کے طور پر: خاوند نے صبح دفتر جانا ہوتا ہے، اس وقت خاوند کے کپڑے تیار ہوں ، اس کا کھانا تیار ہو ، یہ بیوی کی ذمہ داری ہے ۔ اب خاوند کے دفتر کا وقت ہو گیا اور بیوی نے ابھی کپڑے ہی نہیں نکالے ۔ کیوں نہیں نکالے؟ جی میں سو کر ہی دیر سے اٹھی ہوں، تو یہ چیز الجھن کا سبب بنے گی۔ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے کہ مجھے اس موقع پر کیا کرنا ہے ۔ سونے کا، جاگنے کا کچھ اصول ہونا چاہئے۔*
*★_ کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ عورت کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا پڑتا ہے۔ خاوند کے لئے یہ سمجھ لینا کہ خود ہی کپڑے نکال لے گا اور تیار ہو کر دفتر میں چلا جائے گا اور اس وقت میری نیند میں خلل نہیں آنا چاہئے، یہ انتہائی بے وقوفوں والی بات ہے۔ یہ زندگی کی ساتھی ہے۔ اسے اپنی خدمت کے ذریعے خاوند کا دل جیتنا چاہیے۔ چنانچہ اگر خاوند کوئی بھی کام ذمہ لگائے تو اسے اپنا Charter of duty (فرض منصبی) سمجھے،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ فرمائش کرتے ہوئے مرد کی گنجائش کو دیکھنا چاہیے:-*
*★_ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بسا اوقات عورت مرد کی گنجائش سے بڑی فرمائش کر دیتی ہے۔ تو فرمائش کرتے ہوئے خاوند کی گنجائش کو بھی دیکھا کرو! اب اگر خاوند Afford ہی نہیں کر سکتا اور آپ نے ضد کر کے اگر کپڑے خرید بھی لئے تو پہن کر خاوند کو آپ خوش کیسے کر سکتی ہیں ؟ اس کا دل اگر دکھی ہو گا تو آپ نئے کپڑے لے کر اس کی محبت میں کوئی اضافہ نہیں کریں گی۔ تو یہ اصول کی بات یاد رکھیں کہ فرمائش ہمیشہ گنجائش کے مطابق ہونی چاہئے۔*
*★_ خاوند کی عطا پر شکر یہ ادا کریں ، آپ کی فرمائش کو اگر خاوند پورا کر دے تو آپ اس کا شکر یہ بھی ادا کریں ۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ خاوند بیوی کی ہر جائز ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور جواب میں بیوی کی زبان سے شکریہ کا لفظ ہی نہیں نکلتا۔ کیوں نہیں نکلتا ؟ اللہ جانے۔ یہ وہ بڑی بڑی غلطیاں ہیں جو ظاہر میں چھوٹی نظر آتی ہیں مگر دلوں میں فرق ڈال دیتی ہیں۔*
*★_ خاوند تحفہ لایا، پھل خرید کر لایا، خاص طور پر کوئی چیز اپنی بیوی کے لئے لایا اور بیوی اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے، ایسے سمجھے کہ ہاں ٹھیک ہے آگئی ہے کوئی بات نہیں۔ تو اس طرح اگر بے پرواہی کا اظہار کریں گی تو خاوند کے دل پر اس کی چوٹ لگے گی۔ جب خاوند تحفہ لائے تو آپ اس کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں اور خوشی کا اظہار کریں تا کہ اگلی دفعہ اس سے بہتر تحفہ کی مستحق بن سکیں ۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاوند کے آتے ہی گھر کا رونا دھونا نہ لے کر بیٹھ جائے :-*
*★_ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ خاوند جیسے ہی گھر میں آئے فورا اس کے سامنے رونا دھونا نہ لے کر بیٹھ جائے ۔ پہلے اس سے بات چیت کر کے یہ پوچھے کہ باہر اس کا وقت کیسے گزرا۔ وہ خوش گھر آیا ہے یا کسی بات کی وجہ سے پریشان گھر آیا ہے۔ یہ بات تو معلوم نہیں کرتیں بس خاوند کو دیکھتی ہیں تو اپنا روتا رونے بیٹھ جاتی ہیں۔*
*★_ پہلے آپ اس سے بات چیت کریں، اس سے پوچھیں ، اس کا اندازہ لگائیں کہ خاوند باہر سے کس کیفیت کے ساتھ آیا نہ ؟ کوئی کاروباری پریشانی کسی آدمی نے کسی معاملے میں ذہنی طور پر پریشان تو نہیں کر دیا، اس کو غصہ تو نہیں دلا دیا، خاوند اگر باہر ہی سے کسی پریشانی کے عالم میں آیا ہے تو اب بیوی کو چاہئے کہ پہلے اسکے دل کو خوش کرے ، اس سے میٹھی میٹھی پیار والی باتیں کرے، ہنسی خوشی باتیں کر کے، اس کے موڈ کو نارمل کرے، پھر اس کے بعد جو کہنا ہے کہے۔*
*★_ لیکن خاوند پر نظر پڑتے ہی شکوے شکایت کرنے بیٹھ جانا، تمہاری امی نے یہ کہہ دیا تمہاری بہن نے یہ کر دیا، میں تو اس گھر میں آ کر پریشان ہوگئی, تم مجھے کن مصیبتوں کے پہلے ڈال کر چلے گئے؟ اس قسم کی باتیں تو اسے اور زیادہ frustrate ( پریشان ) کرنے والی بات ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ موقع کی بات سونے کی ڈلیوں کی مانند ہوتی ہے اور بے موقع بات جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے, اگر کسی وقت آپ کا خاوند غصہ میں ہے تو پھر اس کے سامنے بالکل نرم ہو جائیں ۔ اتنی نفسیات ہر بیوی کو سمجھنی چاہیں۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨جب خاوند غصے میں ہو تو بیوی نرم ہو جائے :-*
*★_ رسی کا ایک سرا اگر کوئی ڈھیلا چھوڑ دے اور دوسرا کھینچے تو رسی کبھی نہیں ٹوٹتی ۔ رسی تبھی ٹوٹتی ہے جب ایک سرا ایک بندہ کھینچتا ہے اور دوسرا سرا دوسرا بندہ کھینچنا شروع کر دیتا ہے۔ اب خاوند کسی وقت غصہ میں ہے اور جواب میں بیوی صاحبہ نے بھی موڈ بنالیا، یہ تو محاذ جنگ کھولنے والی بات ہوگئی نا!*
*★_ اس لئے اگر خاوند غصہ میں ہے تو آپ نرم ہو جائیں اور اگر خاوند ناراض ہے تو آپ اس کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ محبت کے ایک بول سے خاوند راضی ہو جاتا ہے۔ روٹھا ہوا خاوند مسکرا پڑتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ سمجھداری سے کام لیں:-*
*★_ فقط یہ بات کہ میں خوبصورت ہوں، کافی نہیں ہوتی۔ خاوند کو خوش کرنے کے لئے چھلکتے ہوئے ، دمکتے ہوے حسن کی ضرورت نہیں ہوتی، سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کتنی ایسی عورتیں ہیں جو شکل کی نارمل سی ہوتی ہیں مگر اپنے خاوند کے دل پر راج کرتی ہیں۔ اس لئے بزرگوں نے مقولہ بنایا- وہی سہاگن جسے پیا چاہے، وہی سہاگن ہوتی ہے جسے خاوند پسند کرے ۔*
*★_ کیا عجیب بات ہے کہ لڑکی کی شکل صرف ایک ولیمہ کے دن لوگ دیکھتے ہیں اور باقی ساری عمر اس کی عقل دیکھی جاتی ہے۔ اور لڑکی کو پسند کرتے ہوئے بعض دفعہ ساس صاحبہ اس کی عقل دیکھتی ہی نہیں، فقط شکل پر ہی لٹو ہو جاتی ہیں اور کئی دفعہ خاوند صاحب ہی شکل پر لٹو ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ بھی سمجھاتے ہیں کہ نہیں تیری شادی اس کے ساتھ ٹھیک نہیں،*
*★_ نو جوان ضد کر لیتے ہیں کہ نہیں مجھے تو اس کے ساتھ ہی شادی کرنی ہے۔ اس لئے کہ کہیں ایک نظر دیکھی اور ظاہر کی شکل دیکھ کر وہ اچھی لگ گئی۔ اب ماں باپ کو بہت مجبور کر کے وہاں شادی کرواتے ہیں اور جب وہ گھر آتی ہے تو پھر انسان کو اس وقت اس کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ اتنی خوبصورت شکل کے اندر عقل کی تو رتی بھی نہیں تھی۔*
*★_ تو جب ساری زندگی عقل نے کام آنا ہے پھر اس کو کیوں نہیں دیکھتے ۔ اس لئے سمجھداری عقلمندی گھر آباد کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ حسن انتظام اور سلیقہ شعاری سے کام لیں:-*
*★_ عورت کو چاہئے کہ وہ حسن انتظام کے ذریعے اپنے گھر کو پر وقار بنادے ۔ جتنی عورت عقلمند ہو گی اتنی ہی وہ اپنے گھر کے اندر ہر چیز ترتیب سے رکھے گی۔ بے ترتیب چیزیں پھیلا دینا، گھر کو گندا رکھنا، بچوں کو گندا رکھنا، خود بھی گندی بنے رہنا اس چیز کا گھر برباد کرنے میں ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔*
*★_ گھر کی صفائی کے لئے کوئی قیمت بھی خرچ نہیں کرنی پڑتی، ہاں وقت نکال لیں گھر کو بھی صاف رکھیں، اپنے آپ کو بھی صاف رکھیں، اپنے بچوں کو بھی صاف ستھرا رکھیں۔ صفائی آدھا ایمان ہے۔(الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ) جب شریعت کہہ رہی ہے کہ صفائی آدھا ایمان ہے تو ہمیں بھی صفائی سے محبت ہونی چاہیے،*
*★_ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جو کہے کہ مجھے صاف ستھرا گھر اچھا نہیں لگتا، مجھے صاف ستھرا بچہ اچھا نہیں لگتا۔ یہ کیسے ممکن ہے! اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ صاف ستھرا ماحول، صاف ستھرے بچے، صاف ستھری بیوی ہمیشہ اس کے دل کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور صاف ستھرا رہنے کے لئے کوئی بہت قیمتی لباس کی بھی ضرورت نہیں، ایک عام قیمت کا لباس بھی اگر عورت پہنے لیکن صاف ستھرا ہو اور اس کی بناوٹ اگر پر کشش ہو تو وہ خاوند کے دل کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ اس کو حسن انتظام کہتے ہیں۔*
*★_ تو اپنے حسن انتظام سے اپنے گھر کے ماحول کو پر وقار بنائیں اور کفایت شعاری دکھائیں۔ اگر حسن انتظام نہیں ہوگا تو بد نظمی سے بے برکتی ہوتی ہے، کام الجھتے ہیں، وقت ضائع ہوتا ہے، چیزیں خراب ہو جاتی ہیں، نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھنا، وقت پر صاف کر دینا یہ اچھی عادت ہوتی ہے۔ تو عورت اس کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨خاوند کے ساتھ ضد بازی نہ کریں:-*
*★_ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ تابع فرمان عورتیں بلا خر اپنے خاوند کو اپنا تابع دار بنا لیتی ہیں۔ وہ عورتیں جو خاوند کی مرضی کو پورا کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ خاوند کے دل میں ان کیلئے اتنی محبت ہوتی ہے کہ پھر خاوند ان کی ہر مرضی کو پورا کر دکھاتا ہے۔*
*★_ فرمانبرداری، خدمت گزاری، وہ اچھی صفات ہیں کہ جن کی وجہ سے عورت اپنے خاوند کے دل کی ملکہ بن سکتی ہے۔ اس میں جو رکاوٹ بنتی ہے وہ انانیت ہے، ضد بازی ہے۔ ساری دنیا سے ضد کر لو! اتنا نقصان نہیں پہنچے گا جتنا خاوند کے ساتھ ضد بازی کا نقصان ہوتا ہے۔*
*★_ تو خاوند کے ساتھ ضد کر کے دنگل کا اعلان نہ کریں ! انجام ہمیشہ اس کا براہی ہوتا ہے۔ عاجزی اللہ رب العزت کو بھی پسند ہے اور عاجزی انسان کے مسائل کا حل بھی ہے۔ کوئی کام وقت پر نہ کر سکی، کوتاہی رہ گئی، کمی رہ گئی Sorry کر لینے میں کیا رکاوٹ ہے؟ معافی مانگ لینے میں کیا رکاوٹ ہے؟ غلطی کو مان لینے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ آگے سے ضد کر لینا، انا کا مسئلہ بنالینا، جھگڑا کر بیٹھنا، بحث کر بیٹھنا یہ چیز پھر انسان کے لئے پریشانیوں کا سبب بنتی ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ غصے میں آئے خاوند کو دلیل مت دیں:-*
*★_ کبھی بھی غصے میں آئے ہوئے خاوند کے سامنے logic (دلیل) مت دیں، کبھی بھی غصے میں آئے ہوئے خاوند کو طعنہ مت دیں۔ یہ تو آگ کے اوپر تیل ڈالنے والی بات ہے بلکہ پٹرول ڈالنے والی بات ہے۔ شیطان مردود یہی تو چاہتا ہے کہ خاوند غصہ میں پہلے ہی ہے، یہ اس کو اور غصہ دلائے اور خاوند زبان سے طلاق کا لفظ نکالے۔*
*★_ تو یہ ذہن میں رکھیں کہ جب بالفرض بلا وجہ ہی خاوند ناراض ہو گیا تو غصہ کی حالت میں کبھی اس کے سامنے logic نہیں دینی، خاموشی اختیار کرنی ہے، اگر بولنا ہے تو نرم بول بولنا ہے، دیکھنا ہے تو محبت سے دیکھنا ہے، ایسا کہ دوسرے بندے کا غصہ ہی بالکل ختم ہو جائے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨پرکشش لباس پہنیں :-*
*★_ لباس پہنو تو پر کشش پہنوا پرکشش کا یہ مطلب نہیں کہ آدھا جسم ننگا ہو اور آدھا جسم ڈھانپا ہو، شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے عورت ایسا لباس پہنے کہ اس کے جسم کے اوپر پرکشش لگے ۔ بے ڈھنگا لباس پہننا ، ایسا لباس کہ جس کو دیکھ کر بندہ ذرا بھی متوجہ نہ ہو، یہ بھی اچھی عادت نہیں ۔*
*★_ بعض نیک بیبیاں سادگی کے نام پر اپنے کپڑوں کی طرف سے بالکل ہی بے دھیان بن جاتی ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ خاوند جب بھی بیوی کی طرف دیکھتا ہے، وہ اسے پرکشش دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب اس کی بیوی پر کشش نہیں ہوتی تو صاف ظاہر ہے کہ اسے باہر بہت زیادہ پرکشش چیزیں نظر آجاتی ہیں۔ جو گندگی اسے باہر متوجہ کر سکتی ہے کیا وہ اچھائی بن کر اسے گھر میں متوجہ نہیں کر سکتی ؟*
*★_ تو لباس ایسا بنائیں کہ ہمیشہ پُرکشش ہو۔ رسم و رواج کو سامنے نہ رکھیں بلکہ اس کو سامنے رکھیں کہ یہ لباس میرے جسم کو پرکشش دکھائے ۔ میرے جسم پر پہنا ہوا خاوند کو پسند آجائے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاوند سے مخلص اور نیک نیت بنیں :-*
*★_ یہ اور بات ہے کہ کچھ عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کپڑے پہننے سے ان کے حسن میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جو کپڑے پہن لیتی ہیں ان کپڑوں کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے، ان کے چہروں پر معصومیت ہوتی ہے، ان کے چہروں پہ تقویٰ کا نور ہوتا ہے پھر ان کا لباس، جب وہ پہن لیتی ہیں تو وہ خود ہی خوبصورت نظر آنے لگ جاتا ہے۔*
*★_ تو عورت کو چاہئے کہ دل کی معصومیت سے اپنے خاوند کا دل جیت لیے۔ یہ دل کی معصومیت ہر خاوند کو اچھی لگتی ہے اور جب خاوند کا دل یہ سمجھتا ہے تا کہ میری بیوی دل سے بہت معصوم ہے، انتہا درجے کی مخلص ہے تو اس بیوی کو وہ ہمیشہ اپنی آنکھ کی پتلی بنا کے رکھتا ہے۔ جھوٹی عورت، کینہ پرور عورت، دھوکہ دینے والی، خاوند کو Miss guide (گمراہ) کرنے والی عورت ہمیشہ اپنا گھر برباد کر وا بیٹھتی ہے۔*
*★_ خاوند کے ساتھ کبھی جھوٹ کا معاملہ نہ برتیں۔ جس بندے کے ساتھ کبھی ایک دو گھنٹے کے لئے ملاقات ہے اس کے سامنے تو جھوٹ چل جاتا ہے۔ اور جس کے ساتھ چوبیس گھنٹے کا واسطہ ہو اس کے ساتھ جھوٹ نہیں چلتا ۔ ایک نہیں تو دو، دو نہیں تو تین دن بعد کبھی نہ کبھی جھوٹ کھل ہی جاتا ہے ۔*
*★_ اور جب خاوند کو یہ احساس ہو جائے کہ بیوی میرے سامنے جھوٹ بولتی ہے تو پھر بیوی کا مقام خاوند کی نظر میں گر جاتا ہے۔ اس لئے جھوٹ بولنا، خاوند کے بارے میں دل میں نفرت اور کینہ رکھنا، یہ عورت کی غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی ہوتی ہے۔ بلکہ جتنی نیک آپ ہوں گی اس کا اثر آپ کے خاوند کے دل پر پڑے گا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ باہر گھومنے پھرنے کی عادت نہ ڈالیں:-*
*★_ ایک اور بات جو جھگڑے کا باعث بنتی ہے وہ باہر گھومنے کی عادت ہے۔ عام طور مرد عورتوں کو گھومنے کی عادت ڈالتے ہیں اور کئی مرتبہ یہ عادت عورتوں کو ماں باپ کے گھر سے ہی پڑی ہوتی ہے باہر گھومنے کی۔ یہ باہر گھومنا از دراجی زندگی کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس کی کیا وجہ ؟*
*★_ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت جب باہر نکلتی ہے تو شیطان تانک جھانک کرنے والوں کو بھی ساتھ لگا دیتا ہے۔ اب دو قسم کی مصیبتیں سامنے آئیں، باہر کے مرد ہوں گے جو اس عورت کی تانک جھانک میں لگیں گے اور کسی کو اس کی شکل اچھی لگ گئی تو وہ اس کا اتا پتا کرے گا اسکو میسج کرنے کی کوشش کرے گا اور خواہ مخواہ اس کا گھر برباد کرے گا۔ اور خاوند کی نظر کسی غیر پر پڑ گئی تو خاوند اپنی بیوی کی بجائے اس کے ساتھ Attach زیادہ ہو جائے گا۔*
*★_تو میاں بیوی کا یہ سوچنا کہ آؤ! گھومتے پھرتے ہیں، یہ فرنگیوں کی طرز ہے، فرنگیوں کا طریقہ کار ہے۔ اس لئے ہم نے تو اس کا انجام ہمیشہ برا ہی دیکھا ہے۔ عورتیں اگر اپنے خاوند کے ساتھ باہر جانا چاہتی ہیں تو کسی پارک میں جانا یا کسی ایسی جگہ پر جانا جہاں پر عام مجمع نہ ہو بالکل ٹھیک ہے۔ مگر گھر کی بجائے چلو ! پیزا ہٹ پر جاکے کھانا کھا کے آتے ہیں، اچھا بھئی! آج ہم جا کر فلاں ہوٹل پر کھانا کھاتے ہیں، یہ جو مصیبت ہے اور زندگی کی ترتیب ہے یہ بہت ہی زیادہ انسان کے لئے نقصان دہ ہے۔*.
*★_ یا تو شیطان بیوی کو کسی گناہ میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، یا خاوند کو کسی گناہ میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تو اس لئے پبلک مقامات پر گھومنے کی ۔ عادت ڈالنا یہ عام طور پر جھگڑوں کا سبب بنتا ہے۔*
*"_ یاد رکھیں ! اچھی زندگی گزار نے کے لیے اگر خاوند کو گھر میں ہی چولہا گرم مل جائے اور گرم دل مل جائے ، تو اس کے سوا اس کو کوئی تیسری چیز نہیں چاہئے ہوتی ۔ آپ گھر میں ہی اس کو اچھے کھانے بنا کر دے دیں اور گھر میں ہی اس کو اپنے دل کی گرمی کا احساس دلا دیں کہ آپ کتنی محبت کرتی ہیں۔ تو پھر خاوند کو باہر گھومنے کی کیا ضرورت ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨خاوند سے ملاقات میں عذر نہ کریں:-*
*★_ یہ بھی دیکھا کہ کئی مرتبہ خاوند چاہتا ہے کہ بیوی سے ملاقات کروں، ملوں اور بیوی صاحبہ کے عذر بہانے ہی ختم نہیں ہوتے ۔ یہ چیز جھگڑے کا سبب بنتی ہے ۔ خاوند غصے میں ہو تو اس کو بھی عقلمندی سے ڈیل کرنا چاہئے اور خاوند پر جب شہوت کا بھوت سوار ہو تو اس کے ساتھ بھی عقلمندی کا معاملہ کرنا چاہئے ۔ جیسے بھی ہو، اس کے اس نشے کو اتارو،*
*★_ شریعت نے تو یہاں تک بھی کہا کہ عورت اگر اونٹ کے اوپر سوار ہے اور خاند اشارا کرے کہ نیچے آؤ! مجھے تمہاری ضرورت ہے، تو وہ اونٹ سے نیچے اترے، خاوند کی ضرورت کو پورا کرے اور پھر اونٹ پر دوبارہ چڑھ کر بیٹھے۔ شریعت نے کتنے خوبصورت اصول ہمیں بتا دیئے۔ اور یہاں تو میاں بیوی ایک ہی بستر پر ہیں اور بیوی کے بہانے نہیں ختم ہوتے ،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاوند پر شک نہ کریں:-*
*★_ ایک اور چیز جو جھگڑے کا سبب بنتی ہے وہ یہ کہ خاوند کبھی کبھی کام کی وجہ سے، دفتر کی وجہ سے، دین کے کام کی وجہ سے یا دوستوں کی وجہ سے گھر دیر سے آتا ہے، تو خاوند کے دیر سے آنے پر یہ شک دل میں رکھ لینا کہ باہر اس کا کسی کے ساتھ کوئی تعلق ہے، یہ انتہائی نقصان دہ بات ہے۔ جب بیوی خاوند کو کسی ایسے گناہ کا طعنہ دے جو اس نے نہیں کیا، تو اس پر خاوند کا طیش میں آنا ایک مرد ہونے کے ناطے ہمیشہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔*
*★_ کیا بیوی الزام برداشت کر سکتی ہے کہ خاوند اس کو کہے کہ تمہارا کسی غیر کے ساتھ تعلق ہے، اگر بیوی اس بات کو سن کر فوا بھڑک جاتی ہے کہ تم نے یہ بات کر کیسے دی؟ تو خاوند کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ اگر وہ دیر سے آیا تو دیر سے آنے کی تو سو وجوہات ہوتی ہیں۔ وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیں مارتا رہا، کھاتا پیتا رہا، یا دفتر میں دیر لگ گئی، یا کسی دین کے کام میں مسجد میں بیٹھا رہا تو دیر سے آنے کی تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہمیشہ اس سے ایک ہی نتیجہ نکالنا کہ جی خاوند دیر سے گھر آتا ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ دال میں کالا کالا ہے۔*
*★_ یہ بدگمانی میاں اور بیوی کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا بغیر کسی ٹھوس شواہد کے خاوند کے اوپر بدگمانی نہ کریں۔ بس زیادہ محبت دیں، تاکہ اس کو باہر کے بجائے اپنے گھر کے اندر محبت ملے۔ اگر گھر میں آپ جھگڑا کرنے کی عادی بن گئیں، ضد کرنے کی عادی بن گئیں اور صبح اپنے خاوند کا نہ ناشتا تیار کیا، نہ کپڑے دیئے اور خود ہی اٹھ کر اس نے اپنے کپڑے لئے اور پہنے اور اسی طرح گھر سے بھوکا چلا گیا، تو ایسا پریشان حال خاوند جب دفتر میں جائے گا اور وہاں دفتر میں کام کرنے والی کوئی بے پردہ لڑکی اس کو یہ لفظ کہہ دے کہ سر آج آپ بڑے پریشان نظر آتے ہیں، تو بس یہ ایک فقرہ خاوند کو اس کی طرف متوجہ کر کے رکھ دے گا ۔*
*★_ آپ اس کو گھر سے پریشان مت بھیجیں, اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: لتسكنوا اليها تا کہ خاوند تم سے سکون پائے ۔ جب آپ نے بغیر سکون کے اس کو گھر سے بھیج دیا تو بنیادی غلطی تو آپ نے کی۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ روٹھے شوہر کو منانے کی کوشش کریں:-*
*★_ اور اگر آپ محسوس کریں کہ شوہر روٹھا ہوا ہے تو اس کو منانے کی کوشش کریں۔ کبھی بھی ایسی صورت نہیں ہونی چاہئے کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ ناراضگی کی حالت میں سو جائے۔ نہیں ، جب تک ایک دوسرے سے معافی تلافی نہ کر لیں، Sorry نہ کر لیں، ایک دوسرے سے پیار محبت نہ کر لیں کبھی اس وقت تک مت سوئیں ۔*
*★_ غصے کی حالت میں جب ایک کا چہراہ ایک طرف ہو اور دوسرے کا دوسری طرف ہو، تو سمجھ لیں کہ ہم نے زندگی کے فاصلے طے کرنے کے لئے مختلف سمتوں کو قبول کر لیا۔ ایسی عورت جو ناراض شوہر کی پرواہ ہی نہیں کرتی، وہ شوہر کی موجودگی کے باوجود بیوگی کی زندگی گزار نے والی عورت ہوتی ہے۔ کئی ایسی بھی تو عورتیں ہوتی ہیں نا کہ جو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بیوہ ہوتی ہیں ۔*
*★_ یہ ایسی ہی عورتیں ہوتی ہیں ضدی، خواہ مخواہ خاوند کے ساتھ جھگڑا کر لینا، یہ چیز زندگی کو مشکل میں ڈال دیتی ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاوند کا دوسروں کی نظر میں وقار بڑھائیں:_*
*★_ اور کبھی کبھی جھگڑے کا سبب یہ بنتا ہے کہ خاوند برا ہوتا ہے مگر بیوی اس کی برائی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتی ہے۔ میکے بھی فون کر کے اپنی امی کو بتارہی ہے کہ کسی مصیبت میں آپ نے مجھے ڈال دیا۔ سہیلیوں کو بھی فون کر کے بتا رہی ہے کہ میں تو مصیبت میں پڑ گئی ۔ بچوں کے سامنے بھی باپ کی برائی کر رہی ہے ۔ اس کے منہ کے سامنی بھی اس کو برا کہتی ہے۔ جب آپ نے اس کی برائی کا اتنا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا تو آپ اس کی نظر میں کہاں سے اچھی رہیں؟ آپ نے بھی تو ثابت کر دیا کہ برائی میں اس نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔*
*★_ یاد رکھیں ! ہمیشہ اپنے خاوند کی دوسروں کے سامنے عزت بنائیں۔ خاوند آپ کا دل دکھائے، آپ کو پریشان کر دے، مگر پھر بھی آپ کی عادت یہ ہو، آپ کا خلق یہ ہونا چاہئے کہ دوسروں کے سامنے اس کا اچھا تذکرہ کریں, اس طرح بات کریں کہ دوسروں کی نظر میں خاوند کی عزت اور مقام بڑھ جائے، یہ گھر آباد کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨خاوند کو فیصلہ کن پوزیشن پر نہ لے جائیں :-*
*★_ ایک اور غلطی جو عام طور پر جھگڑے کا سبب بنتی ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو کبھی کبھی ایسی پوزیشن پہ لا کر کھڑا کر دیتی ہے کہ جہاں اسے ایک کو چھوڑنا پڑتا ہے اور دوسرے کو رکھنا پڑتا ہے۔ کبھی بھی اپنے خاوند کو ایسی پوزیشن پہ لا کر کھڑا مت کریں، کہ یا وہ آپ کو رکھے یا اپنی ماں کو رکھے، یا آپ کو رکھے یا اپنی بہن کو رکھے، کیوں اس پوزیشن پر آپ نے اس کو لا کھڑا کیا ؟ اب وہ جس طرف بھی قدم بڑھائے گا فساد ہی فساد ہے۔*
*★_ تو ایسی صورتحال پر بات کو نہ لائیں ۔ ہمیشہ خاوند کی ذمہ داریوں کا خیال کریں اگر وہ ایک ہی بیٹا ہے تو اپنی ماں کو کہاں بھیج دی گا ؟ آپ کو اس کی ماں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے مجاہدہ کرنا ہے۔ ہاں جب آپ اور آپ کے میاں باہم مل جائیں گے تو پھر بوڑھی ساس آپ لوگوں کو پریشان نہیں کر سکے گی۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨غیر مرد سے تنہائی میں بات نہ کریں:-*
*★_ ایک اور چیز جو جھگڑے کا سبب بنتی ہے: وہ ہے کسی غیر مرد کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا، یا فون پر بات کرنا ۔ یہ عورت کی اتنی بڑی غلطی ہوتی ہے کہ اس کا نتیجہ ہمیشہ بربادی ہوتی ہے۔*
*★_ یاد رکھیں ! مرد عورت کی ہر کوتاہی کو برداشت کر سکتا ہے، اس کے کردار کی برائی کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ تو غیر مرد کے ساتھ گفتگو کرنے سے ایسے گھبرائیں جیسے بچہ کسی شیر کو دیکھ کر یا بلی کو دیکھ کر گھبرایا کرتا ہے۔ اس معاملے میں اپنے کردار کو بے داغ رکھیں ۔*
*★_ جب مرد کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ میری بیوی پاکدامن ہے تو وہ پھر اس کی کڑوی کسیلی بھی آرام سے برداشت کر جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں ہے کہ کتنی خوبصورت لڑکیوں کو طلاقیں ہو جاتی ہیں، ان کا سبب یہی مصیبت بنتی ہے ۔ کسی کا فون آ رہا ہے، کسی کے میسج آ رہے ہیں کسی سے بات ہو رہی ہے۔ خاوند کو ذرا اس کا پتہ چلا تو بس یہ چیز میاں بیوی کے درمیاں فاصلے پیدا ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلیں :-*
*★_ خاوند کی اجازت کے بغیر کوئی کام بھی نہ کیا کریں اور خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے بھی نہ نکلا کریں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے: جو بیوی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلتی ہے جب تک لوٹ کر نہیں آتی اللہ کے فرشتے اس عورت کے اوپر لعنت برساتے رہتے ہیں_,*
*★_ اور ایک حدیث مبارکہ میں ہے: ” عورت کا خاوند اگر کسی جائز بات پر ناراض ہوا اور عورت اس کی پرواہ نہیں کرتی، اس کا خیال ہی نہیں کرتی، جب تک مرد ناراض ہے، اللہ تعالی اس عورت کی نمازوں کو بھی قبول نہیں فرماتے۔ حدیث پاک میں غلام کے بارے میں بھی یہی آیا ہے کہ اگر کوئی غلام اپنے گھر سے بھاگ جائے تو جب تک اپنے مالک کے پاس واپس نہ لوٹے اللہ اس کی نمازوں کو قبول نہیں فرماتے“۔*
*★_ حقیقت حال کو سمجھ کر دینی زندگی گزاریں گی تو انشاء اللہ یہ جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔ یہ باتیں تو وہ تھیں کہ عام طور پر عورتوں سے جو کوتاہیاں ہو جاتی ہیں، جن پر میاں اور بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں۔ بلا اجازت کام کرنا یا بغیر اجازت گھر سے جانا یہ بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙_ ایک صحابیہ کی بے مثال فرمانبرداری:-*
*★_ اب ایک حدیث مبارکہ پڑھ لیجئے ! نبی کریم ﷺ کے مبارک زمانے میں ایک میاں بیوی اوپر کی منزل پر رہتے تھے اور نیچے کی منزل پر بیوی کے ماں باپ رہتے تھے۔ خاوند کہیں سفر پر گیا اور اس نے بیوی کو کہہ دیا کہ تمہارے پاس ضرورت کی ہر چیز ہے، تم نے نیچے نہیں اترنا۔ چنانچہ یہ کہہ کر خاوند چلا گیا ۔*
*★_ اللہ کی شان دیکھیں کہ والد صاحب بیمار ہو گئے ۔ وہ صحابیہ عورت سمجھتی تھی کہ خاوند کی اجازت کی شریعت میں کتنی اہمیت ہے۔ اب یہ نہیں کہ اس نے سنا والد بیمار ہیں تو وہ نیچے آ گئی، نہیں ! اس نے اپنے خاوند کی بات کی قدر کی اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ میرے خاوند نے مجھے گھر سے نکلتے ہوئے منع کر دیا تھا (اس سے رابطہ بھی ممکن نہیں تھا اس زمانے میں کوئی سیل فون بھی نہیں ہوتے تھے کہ دوبارہ پوچھ لیا جاتا) تو اے اللہ کے نبی کیا اب مجھے نیچے جانا چاہئے؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، آپ کے خاوند نے چونکہ آپ کو منع کر دیا تو آپ نیچے نہ آئیں۔*
*★_ اب ذرا غور کیجئے، نبی کریم ﷺ خود ہی یہ بات فرما رہے ہیں کہ آپ خاوند کی اجازت کے بغیر نیچے مت آئیں۔ چنانچہ وہ نیچے نہیں آئی ۔ اللہ کی شان کہ اس کے والد کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی حتیٰ کہ والد کی وفات ہو گئی۔ جب والد کی وفات ہو گئی تو اس صحابیہ نے پھر پیغام بھجوایا، اے اللہ کے نبی ! کیا میں اپنے باپ کا چہرہ آخری مرتبہ دیکھ سکتی ہوں، میرے والد دنیا سے چلے گئے ، میرے لئے کتنا بڑا صدمہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا: چونکہ تمہارے خاوند نے تمہیں روک دیا تھا اس لئے تم او پر ہی رہو اور اپنے والد کا چہرہ دیکھنے کے لئے نیچے آنا ضروری نہیں، وہ صحابیہ اوپر ہی رہی،*
*★_ سوچیں اس کے دل پر کیا گزری ہوگی، کتنا صدمہ اس کے دل پہ ہوا ہو گا ! اس کے والد کا جنازہ پڑھایا گیا، اس کو دفن کر دیا گیا ۔ نبی کریم ﷺ نے اس بیٹی کی طرف پیغام پہنچایا، کہ اللہ رب العزت نے تمہارا اپنے خاوند کا لحاظ کرنے کی وجہ سے تمہارے باپ کے سب گناہوں کو معاف فرمادیا ۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨خلاصه کلام- :-*
*★_ اب اعادہ سبق کے طور پر ہم اب تک کی گئی ساری باتوں کا نچوڑ پھر بیان کر دیتے ہیں، تاکہ بیوی کو اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح یاد ہو جائیں۔ عورت کو چاہئے کہ وہ گھر میں زندہ دل بن کر رہے۔ جب شوہر آئے تو خندہ پیشانی سے اسکا استقبال کرے، اس کا دل باغ باغ ہو جائے۔ کھانے کے وقت دستر خوان پر اپنے شوہر سے دلچسپ باتیں کرے۔ جب ذہن میں بے فکری ہوتی ہے تو دال میں بھی قورمہ کا مزہ آتا ہے، تو بیوی اپنی شیریں زبانی سے اپنے خاوند کے غم کو ختم کر دے۔ اس کے جتنے بھی کام ہوں ان کو اپنے ہاتھوں سے کرے اور اس کو اپنے لئے سعادت سمجھے۔ خاوند کی خوشی کو اپنی خوشی، خاوند کے غم کو اپنا غم سمجھے, خرچ اخراجات کے معاملے میں کفایت شعاری سے کام لے۔*
*★_ برے وقت کے لئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ رقم الگ رکھنے کی کوشش کرے۔ اگر کبھی خاوند کو کوئی ضرورت ہو تو اس وقت وہ رقم اس کو پیش کر سکتی ہے اور اس کے دل میں اپنے لئے جگہ بنا سکتی ہے۔ویسے بھی اس جمع شدہ رقم میں سے کبھی خاوند کے کپڑے سی کر دے دیئے، سلوا کر دے دیئے، کبھی گھڑی تحفہ لے کر دے دی، حدیث پاک میں آیا ہے ہدیہ دو محبت بڑھے گی، یہ ہمیشہ خاوند کی ہی ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ ہدیہ دے ۔خاوند کی اس جمع شدہ رقم میں سے کبھی بیوی بھی اسے کوئی Personal چیز لے کر دے دے تو خاوند کی خوشی میں اضافہ ہوگا ۔*
*★_ یہ اصول یا د رکھیں کہ پہلے خاوند کو کھلائیں پھر خود کھائیں، پہلے خاوند کو پلائیں پھر خود پئیں۔ جس کام میں خاوند کی دلچسپی نہ ہو اسے بالکل ہی چھوڑ دیں، ایسی کبھی بھی نوبت نہ آنے دیں کہ تم منہ ادھر کر لو ہم ادھر منہ کر لیں گے، محبت کے میدان میں بازی کو ہار کر ہی انسان جیتا ہے۔ کبھی بھی شوہر کے ساتھ بد اعتمادی اور بے اطمینانی کا اظہار نہ کریں۔ جو عورت اپنا دل بھی سنوارتی ہے، اپنا جسم بھی سنوارتی ہے وہ ہمیشہ اپنے خاوند کی پسندیدہ بنتی ہے۔ اس کے لئے چھلکتے ہوئے حسن کی ضرورت نہیں ہوتی سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے،*
*★_ مرد کبھی بھی ضدی عورت کو پسند نہیں کرتا۔ جب بھی کوئی ایسی بات ہو تو ضد کو ختم کر کے ہمیشہ مرد کی بات کو مان لیا کریں ۔ پاکدامنی وہ صفت ہے کہ جس کی وجہ سے عورت اپنے خاوند کے دل پر راج کرتی ہے۔ خاوند کے آرام کا خیال رکھیں اس کو اپنا دوست بنائیں اور دوسرے کی نظر میں اس کی عزت بڑھائیں ۔ یہ وہ باتیں تھیں کہ عورت اگر ان باتوں کا خیال رکھے تو گھر کا ماحول پر سکون رہتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان محبت بڑھتی رہتی ہے۔ میاں بیوی دو انسان ہیں جنہوں نے مل کر زندگی گزارنی ہوتی ہے تو کبھی بیوی کی غلطی سے جھگڑا تو کبھی خاوند کی غلطی سے جھگڑا۔۔ امید ہے کہ عورتیں ان غلطیوں سے اپنے آپ کو بچا ئیں گی اور خوشی کے ماحول میں زندگی گزاریں گی۔ اللہ رب العزت تمام خواتین کو از دواجی زندگی میں خوشیاں نصیب فرمائے ۔*
╥────────────────────❥
*⊙_ بہترین شخص کون؟*
*★_ نبی ہم نے ارشاد فرمایا: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ", تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو تم میں سے اہل خانہ کے لئے بہتر ہے۔*
*"_ چنانچہ مرد کی اچھائی کا معیار اس کا بزنس نہیں، اس کا دفتر نہیں, اس کے دوستوں کی محفل نہیں ۔ مرد کی اچھائی کو پرکھنے کے لئے معیار اس کا اپنی بیوی سے تعلق ہے۔ اگر اس نے ان کو خوش رکھا، اور ان کے غم ختم کر دیئے، اور ان کو پر سکون زندگی دینے کی کوشش کی تو یقینا یہ اچھا انسان ہے ۔*
*★_ نبی ﷺ اس کی تصدیق فرما رہے ہیں۔ اور نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا۔" أَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي " میں تم سب میں سے اپنے اہل خانہ کے لئے زیادہ بہتر ہوں، گویا Practical (عملی) مثال بھی نبی ﷺ نے دی۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاوند کے اندر تحمل اور برداشت ہونی چاہیے:-*
*★_ عورت کو اللہ رب العزت نے مرد کی پسلی میں سے بنایا۔ اس کا مطلب یہ کہ اللہ رب العزت نے نہ تو سر میں سے بنایا کہ اس کو سر پر بٹھا کے رکھو، نہ اس کو پاؤں سے بنایا کہ اسکو پاؤں کے نیچے رکھو۔ اللہ رب العزت نے اسے پسلی سے بنایا کہ یہ تمہارے دل کے قریب ہے تم اس کو ہمیشہ اپنے دل کے قریب رکھو۔*
*★_ اس لئے خاوند کو متحمل مزاج ہونا چاہئے کیونکہ وہ گھر کا ذمہ دار ہے۔ ذرا سی بات پر غصے میں آجانا، ہر وقت غصے کی زبان بولنا، ہر وقت لہجہ بدل کر بیوی سے بات کہنا، یہ بیوقوف مردوں کا کام ہوتا ہے۔ یہ کوئی مردانگی نہیں ہوتی ۔ گھر کے اندر سو چھوٹی موٹی باتیں ہو جاتی ہیں، ایسی باتوں کو نظر انداز کر جاتا چاہیے۔درگزر سے کام لینا چاہئے ۔*
*★_ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنا لینا یہ کبھی بھی عقلمندی کی بات نہیں ہوتی ۔ مرد کتنا برا لگتا ہے کہ چھوٹی سی بات سے ناراض ہو کر بیٹھ جائے۔ اس لئے کہنے والے نے کہا ہے کہ:-*
*"To run a big show one should have a big heart"*
*(زیادہ بڑا شو دکھانے کے لئے دل بھی بڑا کرنا پڑتا ہے ) شادی کے بعد تو خاوند کو اپنا دل بہت بڑا کر لینا چاہئے۔*
*★_ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ:-*
*"High winds blow on high mountains"*
*(اونچے پہاڑوں کے اوپر آندھیاں بھی زیادہ تیز چلا کرتی ہیں ) زندگی میں اونچ نیچ تو ہوتی ہے۔ کبھی ماں کی طرف سے شکوے کبھی بہن کی طرف سے شکوے، کبھی بیوی کی طرف سے شکوے ، اب یہ ذمہ داری آدمی کی بنتی ہے کہ ان اچھے طریقے نبھائے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بیوی کو ماں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں:-*
*★_ کئی خاوندوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کو ماں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود ایک طرف ہو جاتے ہیں، انتہائی غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔ ہمیشہ اپنی پوزیشن کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اگر محسوس کر رہے ہوں کہ بیوی کی غلطی ہے تو اس کو پیار سے سمجھاؤ، اگر سمجھ رہے ہوں کہ امی ضرورت سے زیادہ اس وقت اس پر سختی کر رہی ہیں تو بڑے ادب کے ساتھ امی کی خدمت میں گزارش کرو، اپنی بیوی کی وکالت کرتے ہوئے ذرا بھی نہ شرماؤ! اس لئے کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی بعد میں بڑی بنا کرتی ہیں ۔*
*★_ تو بیوی کی حفاظت (Protect) کرنا خاوند کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب اس کو یوں کہنا کہ بھئی مجھے نہیں پتہ بس تم انہیں خوش کرو ۔ تو بیوی کوشش تو کرے گی کہ میرے خاوند کی والدہ ہے میں خوش کروں، مگر ہم نے کئی مرتبہ دیکھا کہ ساس بڑی گھاگ اور تجربہ کار ہوتی ہے۔ اونچ نیچ جانتی ہے، وہ ایسے اپنی کھیل کھیلتی ہے کہ اس لڑکی کو ناک آؤٹ کر کے رکھ دیتی ہے۔*
*★_ تو اس میں خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کا خیال رکھے اور اگر دیکھتا ہے کہ امی ضرورت سے زیادہ سختی کر رہی ہے یا امی نے اس کو مشکل میں ڈال دیا ہے تو ان کی باتوں کو پھر خود بلاک کرے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بیوی کے لیے مکان کا بندو بست کرے:-*
*★_ جب مرد یہ دیکھے کہ مشترکہ طور رہنے سے بیوی کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا۔ تو پھر الگ مکان حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس لئے کہ شریعت نے کہا ہے کہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کو الگ مکان یا کوئی کمرہ لے کر دے جس میں وہ کوئی سکھ کا سانس لے سکے ۔ بیوی کو سر چھپانے کے لئے جگہ لے کر دینا شرعاً خاوند کی ذمہ داری ہے۔*
*★_ ہمارے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی خاوند کو ذرا بھی گنجائش دے تو اس کو اپنی زندگی میں سب سے پہلے مکان خریدنا چاہئے ۔ بلکہ یہاں تک فرماتے تھے کہ لا ايمان لمن لا مكان له [ جس کا مکان نہیں اس کا ایمان ہی نہیں )_,*
*"_ تو ایک دن اس عاجز نے عرض کیا کہ حضرت ! یہ اتنی بڑی بات جو آپ فرماتے ہیں اس کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا، دیکھو! اگر کسی خاوند نے اپنا گھر نہیں خریدا اور اس کی بیوی کرائے کے مکان میں رہ رہی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ خاوند کی وفات ہو جائے، کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے، تو کرائے والے تو اس عورت کو وہاں نہیں رہنے دیں گے، وہ کہاں سے کرایہ دے گی؟ تو جب وہ اس کا سامان اس کے گھر سے نکالیں گے تو یہ عورت پریشانی کے عالم میں کفریہ بول بولے گی۔ اس کا ایمان ہی خطرے میں ہو جائے گا۔*
*★_ تو اس لئے فرماتے تھے کہ خاوند کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو سب سے پہلے سر چھپانے کی کوئی جگہ دے تا کہ اس میں وہ اپنی زندگی گزار سکے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بیوی کا دل جیتنے کی کوشش کریں :-*
*★_ یاد رکھیں ! جتنا محبت و پیار سے میاں بیوی رہتے ہیں اتنا ہی اللہ رب العزت ان سے خوش ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا:-*
*House is built by hands but home is built by hearts.*
*"_( اینٹیں جڑتی ہیں تو مکان بن جاتے ہیں ، جب دل جڑتے ہیں تو گھر آباد ہو جاتے ہیں )*
*★_ لہذا بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی سے رہنا، خاوند کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور خوش اخلاقی اس کو نہیں کہتے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسان ڈانٹ ڈپٹ کرتا پھرے، غصے ہوتا پھرے، تیوریاں چڑھاتا پھرے، بولنا چھوڑ دے، یہ چیزیں میاں بیوی کے درمیان ہونا انتہائی برا ہوتا ہے۔*
*★_ یاد رکھیں ! جو خاوند پیار کے ذریعے اپنی بیوی کا دل نہ جیت سکا وہ تلوار کے ذریعے بھی بیوی کا دل نہیں جیت سکتا, یہ سمجھنا کہ میں ڈانٹ ڈپٹ سے سب سیدھا کر دوں گا، یہ ہرگز ٹھیک نہیں ہوتا ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ سے الٹا کام بگڑتا ہے ۔ بیوی سہم جائے گی، چپ ہو جائے گی لیکن جب بیوی بھی اپنے خاوند کے خلاف گوریلا جنگ لڑنا شروع کر دے گی تو کیا فائدہ؟ اس لئے محبت و پیار ہی ازدواجی زندگی کے لئے بہترین عمل ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ مسکرانے کی سنت کو اپنائیں:-*
*★_ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی گھر کوئی چیز لاتے تھے، مسکراتے ہوئے آتے تھے اور اپنے اہل خانہ کو سلام کیا کرتے تھے۔ مسکراتے ہوئے آنا اور گھر والوں کو سلام کرنا، یہ اچھے ماحول کی ابتداء ہے ۔ جب خاوند مسکراتا ہوا آئے گا تو یقیناً بیوی بھی مسکرائے گی، اب دونوں محبت و پیار سے رہیں گے۔*
*★_ ایک مرتبہ میرے پاس ایک میاں بیوی کا معاملہ آیا، شادی کو تین سال ہو چکے تھے ، دونوں لکھے پڑھے اچھی فیملی کے بچے تھےاور دونوں نیک بھی تھے۔ وہ کہنے لگے کہ جی ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ کیوں نہیں ہو سکتا؟ کہنے لگے اس لئے کہ بس ہماری طبیعتیں نہیں ملتیں، ہم آپس میں ہر وقت بحث کرتے رہتے ہیں۔ کوئی دن زندگی کا ایسا نہیں کہ ہماری آپس میں بحث نہ ہوئی ہو۔ ہم تنگ آچکے ہیں اور ہم نے بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ہے کہ ابھی تو عمریں دونوں کی ایسی ہیں کہ کوئی نہ کوئی دوسری صورت بھی بن جائے گی تو کیوں ہم اپنی زندگیاں برباد کریں؟ ہم اپنے ماں باپ کو بتانا چاہتے تھے اس سے پہلے ہم نے آپ کو بتانا مناسب سمجھا، چونکہ آپ ہماری تربیت کے ذمہ دار ہیں ۔ میں نے ان سے چند منٹ بات کی اور figure out کیا ( کریدا) کہ مسئلہ کیا ہے؟*
*★_در اصل ان دنوں ان کے کام اور کاروبار کی پوزیشن اچھی نہیں تھی۔ خاوند کے ایک دو معاملات پھنس گئے تھے، کچھ ادائگیاں رک گئی تھیں اور وہ بہت ٹینشن میں تھا۔ اس لئے جب دفتر سے گھر آتا تھا تو بہت سنجید ہوتا تھا۔ بیوی کھانا پکا کے گھنٹے دو گھنٹے سے بھو کی بیٹھی ہے کہ خاوند آئے گا، میں مل کے کھانا کھاؤں گی۔ جب وہ خاوند کا چہرہ دیکھتی کہ اتنا سیریس ! تو نتیجہ یہ نکالتی کہ شاید میں اپنے خاوند کو پسند ہی نہیں ہوں اور جب وہ یہ سوچتی کہ میں اپنے میاں کو پسند ہی نہیں تو اسے غصہ آتا۔ چونکہ وہ خوبصورت بھی تھی ، نیک بھی تھی تعلیم یافتہ بھی تھی، اچھے گھرانے کی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ میرے اندر کیا کمی ہے کہ یہ خاوند میری طرف پیار سے نہیں دیکھتا ؟ چنانچہ بیوی پیچھے ہٹ جاتی، خاوند ویسے سیریس ہوتا اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ پھر خوب بحث مباحثہ ہونے لگتا۔*
*★_ میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں ! آپ لوگ اپنا یہ فیصلہ چھ مہینے کے لئے روک لیں اور میں آپ لوگوں کو ایک ایک کام ذمہ لگاتا ہوں، آپ نے وہ کام کرنے ہیں۔ پھر چھ مہینے کے بعد آپ سوچنا کہ ہم آپس میں اکٹھے رہ سکتے ہیں یا نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں نے خاوند کو کہا: جب آپ نے گھر آنا ہے تو نبی ﷺ کی سنت پر بھی عمل کرنا ہے کہ مسکراتے چہرے کے ساتھ آؤ اور سلام کرو، تم نے اس سنت کو چھوڑا تو اس کی بے برکتی سے تمہارے گھر سے خوشیاں روٹھ گئیں۔ بزنس نہیں چل رہا۔ جب آؤ تو ( وہ بیچاری گھنٹے دو گھنٹے سے انتظار میں ہے ) چہرے کے اوپر خوشی ہو، کھلا ہوا چہرہ ہو۔ انسان کے محبت سے اعصاب چھلک رہے ہوں، تو ویسے تو بڑی سنتوں کا خیال کرتے ہوں تو اس سنت کا خیال کیوں نہیں کرتے ؟*
*★_ جب اس نوجوان کو یہ بات سمجھائی تو وہ کہنے لگا: جی میں اس سنت پر ضرور عمل کروں گا۔ پھر میں نے بیوی کو کہا : اب آپ نے بھی ایک عمل کرنا ہے کہ جب خاوند آئے تو آپ نے ہمیشہ دروازے پر خاوند کا استقبال کرنا ہے اور خاوند کو مسکرا کر دیکھنا ہے، اس نے کہا: ٹھیک ہے۔*
*★_ میں نے کہا کہ یہ بات تو تھی جو میں نے آپ کو سنت کے مطابق بتائی۔ اب اس صورتحال میں ( جب آپ لوگوں کی طبیعتیں اتنی ایک دوسر سے دور ہو چکی ہیں ) ۔ خاوند کو ایک عمل اور بتاتا ہوں، آپ جب بھی گھر آئیں تو میاں بیوی ہی تو گھر میں رہتے ہیں اور تو کوئی نہیں تو مسکراتے چہرے کے ساتھ آئیں گے اور جب گھر میں آئیں گے تو آپ اپنی بیوی کو مسکرا کے دیکھ کر اس کا بوسہ لیں گے۔ اب یہ لفظ سن کر خاوند بڑا حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔ میں کہا: تمہاری اپنی ہی بیوی ہے، حیران کیوں ہو رہے ہو ؟ تمہیں نفلوں کا اتنا ثواب نہیں ملنا جتنا اس بوسے پر ملنا ہے۔ وہ کہنے لگا جی میں انشاء اللہ اس پر عمل کروں گا۔*
*★_ تین مہینے کے بعد دونوں نے ہنستے مسکراتے فون کیا۔ کہنے لگے : ہمیں تو یوں لگا ہے کہ ہم نے یہ تین مہینے ہنی مون کی طرح گزارے ہیں۔ اس لئے کہ جب خاوند گھر مسکراتا ہوا آتا تھا اور بیوی کو Kiss کرتا ( بوسہ لیتا ) تھا اور بیوی بھی مسکراتی تھی تو پھر سارے گھر میں مسکراہٹیں ہی آجاتی تھی Arguments ( بحث و تکرار ) ختم ہی ہو جاتے تھے۔ تو کئی دفعہ ایک چھوٹا سا عمل اجڑتے ہوئے گھر کے آباد کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ شوہر کی نرمی سے بیوی کی اصلاح:-*
*★_ میرے پاس ایک نو جوان آیا۔ انتہائی نیک، تہجد گزار متقی، پرہیز گار اس کو بیعت ہوئے ایک سال ہوا تھا مگر اللہ نے اس کی طبیعت میں نیکی رکھ دی اور وہ خوب تقویٰ کی زندگی گزار رہا تھا ۔ آیا تو بڑے غصہ میں تھا۔ پوچھا خیر تو ہے؟ کہنے لگا بس کیا کروں بیوی ایسی ہے کہ دین کی طرف آنے کو بالکل تیار ہی نہیں۔ نہ ٹی وی چھوڑتی ہے، نہ یہ چھوڑتی ہے، نہ وہ چھوڑتی ہے، پردے کا خیال نہیں کرتی، سلام نہیں کرتی، الٹا میں دین کی بات کروں تو آگے سے الٹی بات کر دیتی ہے۔ میں تنگ آچکا ہوں، بس حضرت آپ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟*
*★_ اصل میں اب وہ مجھ سے اجازت لینا چاہتا تھا کہ یا تو میں بیوی کی پٹائی کروں یا پھر بیوی کو میکے بھیج دوں۔ میں نے اس سے بات کی اور اس سے کہا: اچھا بتاؤ تمہاری شادی کیسے ہوئی ؟ پتہ چلا کہ یہ صاحب بھی ایک سال پہلے ویسے ہی تھے اور دونوں کی آپس میں ”لو میرج" تھی اور دونوں کا ایک سال تک افیئر ( معاشقہ) چلتا رہا۔ پسند کی شادی تھی، تو میں نے اسے سمجھایا کہ دیکھو! دونوں کا پس منظر ایک ہی جیسا تھا۔ فرق یہ کہ آپ کو نیک محفل ملی تو آپ یک دم بدل گئے۔ بیوی کو نہ یہ بیانات ملے، نہ یہ صحبتیں ملیں، نہ یہ خیر کی بات سننے کا موقع ملا ملا، تو بیوی کیسے اتنا جلدی بدل جائے گی ! وہ تو ٹائم لے گی تو کیوں اتنا پریشان ہوتے ہو؟*
*★_ کہنے لگا : بس میں کیا کروں بہت ہی بے دین ہے، وہ بہت ہی زیادہ فاسقہ ہے ۔ وہ بار بار یہی بات کہے۔ میں نے کہا: اچھا میں آپ کے ذمہ ایک کام لگاتا ہوں۔ میں نے کہا: اچھا یہ بتائیں کہ کبھی کھانا کھاتے ہوئے آپ نے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا ؟ کہنے لگا نہیں، میں نے کہا: کیوں ! کیا یہ سنت نہیں ہے؟ کہنے لگا: اچھا سنت ہے؟ میں نے کہا: ہاں بالکل جاؤ اور کھانا کھاتے ہوئے مٹھائی کا ڈبہ اگر دستر خوان پر پڑا ہو تو اس میں سے ایک گلاب جامن اٹھا کر اس کے منہ میں ڈال دینا۔ اب اس کی سانس جیسے رکی ہوئی ہے اور میری طرف دیکھ رہا ہے، کیوں کہ اس کی طبیعت میں تو سختی تھی، وہ تو پٹائی کے موڈ میں آیا تھا، جاؤ جا کر اس پر عمل کرو ! جی حضرت ۔*
*★_ پھر میں نے اس کی خوب اچھی طرح خبر لی اور اس کو سمجھایا کہ دیندار لوگوں کی بےجا طبیعت کی سختی اپنی بیویوں کو بے دین بنانے کا بڑا سبب ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کہاں کے اخلاق ہیں! جو تم سمجھتے ہو۔ بڑے تم اقامت دین کی کوششیں کرتے پھرتے ہو، جاؤ! پیار سے رہو، اور کل مجھے آکر بتانا کہ منہ میں لقمہ ڈالا، کہنے لگا: ٹھیک ہے۔*
*★_ اگلے دن آیا، اب چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ تھی، پوچھا کہ کیا ہوا ؟ کہنے لگا کہ حضرت ! دسترخوان لگا، پہلے تو میں کھانا ہی الگ کھا لیتا تھا, میں پاس بیٹھا, کھانا کھانے لگا۔ کھانے کے دوران میں نے گلاب جامن اٹھایا اور بیوی کے منہ کی طرف جو کیا تو بیوی حیران۔ میں نے اس سے کہا کہ میں آپ کے منہ میں گلاب جامن رکھنا چاہتا ہوں ۔ کہنے لگا خیر اس نے لے لیا لیکن یکدم اس کی حالت بدل گئی۔ وہ مجھے کہنے لگی: یہ تم نے کہاں سے سیکھا ؟ تو میں نے کہا کہ مجھے آج پتا چلا کہ یہ سنت ہے، وہ کہنے لگی: اچھا سنت اتنی اچھی ہوتی ہے؟چنانچہ اس نے دین کی باتیں خود پوچھنی شروع کر دیں اور دستر خوان سے اٹھ کر اس نے اس وقت کی جو نماز تھی، اس کو خود پڑھا۔*
*★_ جب خاوند کی اتنی سی محبت دینے پر وہ بچی دین کے قریب آگئی اور چند مہینوں میں وہ شرعی پردہ کرنے والی، تہجد گزار لڑکی بن گئی، تو خاوند اگر محبت پیار سے رہے تو بیوی کیوں نہیں اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو بدلے گی ؟ عموماً درمیان میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے جو رکاوٹ بنا ہوتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨شریعت دلوں کو جوڑتی ہے _,*
*★_ یہ بھی اکثر دیکھا ہے کہ نیک اور دیندار لوگوں کے گھروں میں آپس میں محبت و پیار ہوتا ہے۔ یہ دین دلوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُو وَ عَمِلُو الصَّلِحَت سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ) کہ جو لوگ ایمان لاکر نیک اعمال کریں اللہ ان کے دلوں میں محبتیں بھر دیں گے۔“*
*★_ اس لئے میں نوجوان بچوں کو سمجھاتا ہوں کہ اگر تم پر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہو تو گھروں میں دین کا ماحول پیدا کر لو۔ دینی ماحول کی وجہ سے دلوں میں محبتیں پیدا ہو جائیں گی ۔ کئی نو جوان آئے، کہنے لگے: جی کیا کریں؟ ہم میاں بیوی کی بنتی نہیں ہے۔ کیوں؟ بس جی ہمارے دل ایک دوسرے سے بہت کھٹے ہو گئے ۔ میں نے کہا: کہ تم دلوں کی ایلفی استعمال کرو۔ ایلفی چیزوں کو آپس میں جوڑ دیتی ہے ۔ اس طرح ایک ایلفی دلوں کو بھی جوڑ دیتی ہے اور وہ ایلفی شریعت ہے۔*
*★_ تم جاؤ دین والی زندگی گزارنی شروع کرو! اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے دلوں کو اسی طرح جوڑ دیں گے جیسے ایلفی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے۔ اور واقعی جو محبتیں، جو پیار دیندار جوڑے آپس میں کرتے ہیں، فسق و فجور میں زندگی گزارنے والوں کو اس کا پتہ ہی نہیں ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض دیندار نو جوانوں میں طبیعت کی سختی آجاتی ہے ۔ ایسا عجیب حال ہوتا ہے کہ بس ہر وقت رعب چلا رہے ہوتے ہیں ۔ ان کو لہجہ بدل کر بات کرنے کی عادت ہو جاتی ہے، یہ نارمل موڈ میں بات ہی نہیں کرتے اور بات بات پر آیت پڑھتے ہیں: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ،*
*★_ بھائی ! اللہ رب العزت نے مرد کو گھر میں بڑا بنایا مقام دیا، مگر اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ بس تم اب ڈنڈا ہی چلانا سیکھو ۔ تم اپنی پوزیشن کا خیال رکھو اور یہ دیکھو کہ نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا- خيركم خيركم لاهله ! تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر ہے _,*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ ایک خاتون کا انوکھا انداز شکایت:-*
*★_ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ابی بن کعب تشریف فرما تھے ۔ ایک خاتون آئی اور آکر کہنے لگی: امیر المومنین! میرا خاوند بہت نیک ہے، ساری رات تہجد پڑھتا رہتا ہے، اور سارا دن روزہ رکھتا ہے، اور یہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ بڑے حیران کہ خاتون کیا کہنے آئی ہے؟ اس نے پھر یہی بات دہرائی کہ میرا خاوند بہت نیک ہے ساری رات تہجد میں گزار دیتا ہے اور سارا دن روزہ رکھتا ہے۔ اس پر ابی بن کعب بولے : اے امیر المومنین! اس نے اپنے خاوند کی بڑے اچھے انداز میں شکایت کی ہے۔ کیسے شکایت کی ؟ امیر المومنین ! جب وہ ساری رات تہجد پڑھتا ر ہے گا اور سارا دن روزہ رکھے گا تو پھر بیوی کو وقت کب دے گا ؟ تو یہ کہنے آئی ہے کہ میرا خاوند نیک تو ہے مگر مجھے وقت نہیں دیتا۔*
*★_ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے خاوند کو بلایا تو اس نے کہا: ہاں میں مجاہدہ کرتا ہوں، یہ کرتا ہوں، وہ کرتا ہوں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب سے کہا کہ آپ ان کا فیصلہ کریں۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ان صاحب سے کہا کہ دیکھو! شرعاً تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارو ہنسی خوشی اس کے ساتھ رہو اور کم از کم ہر تین دن کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرو۔*
*★_ خیر وہ میاں بیوی تو چلے گئے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب سے پوچھا: آپ نے یہ شرط کیوں لگائی کہ ہر تین دن کے بعد بیوی سے ملاپ کرو؟ انہوں نے کہا : دیکھیں ! اللہ رب العزت نے مرد کو زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت دی۔ چنانچہ اگر چار شادیاں بھی کسی کی ہوں تو تین دن کے بعد پھر بیوی کا دن آتا ہے۔ تو میں نے اسے کہا کہ تم زیادہ سے زیادہ تین دن عبادت کر سکتے ہو، تین دن کے بعد ایک دن رات تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہیں گزارنا پڑے گا۔ تو دیکھو شریعت انسان کو کیا خوبصورت باتیں بتاتی ہے۔
╥────────────────────❥
*⊙⇨ نبی کریم ﷺ کا اپنی ازواج مطہرات سے رویہ:-*
*★_ نبی کریم ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہت محبت پیار سے رہتے تھے۔ ان سے ان کی دل لگی کی باتیں کرتے تھے۔ آپ سوچیے کہ نبی کریم ﷺ کے دل میں جہنم کا کیا نظارہ ہو گا، جسے آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ رب العزت کے خوف اور خشیت کا کیا عالم ہوگا! نبی ﷺ نے فرمایا : لوگو! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ وہ اللہ کے پیارے حبیب جنہوں نے جہنم کو آنکھوں سے دیکھا، جو اللہ کی عظمت سے واقف تھے، ان کے دل پر کسی قدر اللہ کی عظمت کا معاملہ رہتا ہو گا !*
*★_ لیکن وہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ جب اپنی بیوی کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان سے دل لگی کی باتیں کرتے تھے۔احادیث میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ ازواج مطہرات سے دل لگی اور ان کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔*
*★_ ایک میدان جنگ سے واپسی کا وقت تھا۔ اس وقت عورتیں اپنی ضرورت سے فارغ ہونے کیلئے اپنے خاوندوں کے ساتھ باہر نکل جاتی تھیں، ٹوائلٹ تو بنے نہیں ہوتے تھے۔ نبی ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گئے۔ رات کا وقت تھا، کھلا میدان تھا، نبی ﷺ اپنی اہلیہ کو فرماتے ہیں، جمیرا! آؤ دوڑ لگا ئیں۔ اب دیکھیں کتنی عجیب بات لگتی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ اپنی اہلیہ کے ساتھ دوڑنے لگے اور نبی ﷺ نے ان کو جیتنے دیا۔ جب وہ جیت گئیں تو بہت خوش ہو گئیں ۔ نبی ﷺ خاموش ہو گئے ۔*
*★_ اندازہ لگائیے کہ بیوی کو خوش کرنے کے لئے اگر اللہ کے حبیب ﷺ اس دوڑ میں تھوڑی دیر کے لئے پیچھے رہ سکتے ہیں تو کیا عام خاوند اپنی بیوی کے لئے خاموش نہیں ہو سکتا ؟کچھ عرصے کے بعد دوبارہ پھر اسی قسم کی صورت حال ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: عائشہ! دوڑیں۔ پھر جب دوڑ لگائی تو اب اللہ کے نبی ﷺ آگے بڑھ گئے، اور مسکرا کے فرمایا:- حميرا! " تلك وتلك" پہلے تم جیت گئی تھی اب میں جیت گیا۔ میں نے تمہارا حساب برابر کر دیا۔ تو دیکھو! بیوی کی دل لگی کے لئے ایسی باتیں ہیں,*
*★_ ایک مرتبہ عید کا دن تھا ، باہر کچھ حبشی نوجوان کھیل رہے تھے، دوڑ رہے تھے۔ تو نبی ﷺ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کہ عائشہ! کیا آپ یہ کھیل دیکھنا چا ہوگی ؟ فرمایا: جی دیکھنا چاہوں گی ۔ تو آپ اس طرح کھڑے ہو گئے کہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کو اپنی اوٹ میں لے لیا اور آپ کے بازو پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تھوڑی رکھی اور اس طرح وہ کھیل دیکھنے لگیں ۔*
*★_ نبی ﷺ کچھ دیر بعد پوچھتے ہیں کہ تم دیکھ رہی ہو بس کریں! فرمایا: نہیں ابھی اور دیکھنا چاہتی ہوں ۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہیں یہ کھیل بہت اچھا لگا۔*
*"_ اب دیکھئے ! کہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ ( پردے کی آیات نازل ہونے سے پہلے ) یہ کھیل خود اپنی بیوی کو دکھا رہے ہیں۔*
*★_ چنانچہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نبی ﷺ نے نو عورتوں کی کہانی سنائی کہ کنویں پر پانی بھرنے کے لئے نو عورتیں اکٹھی ہو ئیں۔ ایک نے کہا کہ تم بالکل آج کھری کھری بات سنا دو! تو ایک نے کہا: میرا خاوند ایسا ہے، ایسا ہے۔ دوسری نے کہا: میرا خاوند ایسا، تیسری نے کہا- ایسا ,*
*★_ اب دیکھو! اللہ کے پیارے حبیب اپنی بیوی کو ان عورتوں کی کہانی سنا رہے ہیں اور فرمایا کہ ان میں سے ایک عورت ”ام زرع" تھی۔ اس نے ابوزرع کے بارے میں کہا کہ وہ مجھے اتنا محبت سے رکھتا ہے، وہ مجھے اتنا کھلاتا ہے، اس نے مجھے سونے سے لاد دیا، اس نے مجھے اتنی محبت دی۔ یہ باتیں سنا کر نبی ﷺ نے فرمایا، عائشہ ! ابو زرع، ام زرع سے جتنی محبت کرتا تھا میں اس سے زیادہ تم سے محبت کرتا ہوں_,*
*★_ اب بتائیں کہ خاوند اگر ایسی بات بیوی سے کرے گا تو اس کی زندگی میں تو خوشیاں آجائیں گی۔ اس کو تو اپنا گھر بستا نظر آجائے گا۔*
*★_ انجشہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں وہ خواتین کے اونٹوں کی مہار پکڑ کے چل رہے تھے۔ تو انہوں نے ذرا تیز چلنا شروع کر دیا۔ ان کے پیچھے اونٹوں نے بھی بھاگنا شروع کر دیا۔ نبی ﷺ نے جب دیکھا کہ اونٹ تیزی سے بھاگ رہے ہیں تو انجشہ کو فرمایا کہ اونٹوں کو آہستہ چلاؤ ! اس کے اوپر ہمارے آبگینے سوار ہیں۔ کہ جیسے شیشے کی بنی ہوئی چیز کو ذرا نازک ہونے کی وجہ سے پیار سے ہینڈل کرنا چاہئے تو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے یہ لفظ استعمال کیا۔*
*★_ آپ سوچئے! جو اللہ کے پیارے محبوب ﷺ اونٹ کو تیز چلا کر بھی ان کو تکلیف نہیں دینا چاہتے وہ اپنی بیویوں کو کتنا خوش رکھتے ہوں گے!*
*★_چنانچہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمتہ اللہ کی بیوی ان کے بارے میں فرمایا کرتی تھیں کہ انہوں نے پوری زندگی کبھی مجھ سے لہجہ بدل کر ہی بات نہیں کی۔ کیا حسن معاشرت ہے! کیا حسن اخلاق ہے، فرماتی ہیں ناراض ہونا، غصے ہونا تو بڑی دور کی بات ہے ۔ انہوں نے کبھی میرے ساتھ لہجہ بدل کر بات نہیں کی۔ ہمیشہ محبت پیار کے لہجے میں بات کرتے تھے۔*
*®_ حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ_,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں _,*
╥────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
0 Comments