Gharelu Jhagdo Se Nijaat Saas Bahu Ke Jhagde -(Urdu)

 🎍﷽ 🎍
              ┯━══◑━═━┉─◑━═━━══┯
*●• گھریلو جھگڑوں سے نجات •●*
*◐ سسرال کے جھگڑے، ◐*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨_ سسرال کے جھگڑے، سسرال لڑکی کا اصلی گھر:-*

*★_ سسرال کے جھگڑے یہ اتنا پیچیدہ عنوان ہے کہ رسی کی ڈور کا سرا پکڑنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ کئی پہلو اس میں شامل ہوتے ہیں، مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرال میں ایک کھینچا تانی کا ماحول ہوتا ہے، ساس سے پوچھو تو وہ اپنی جگہ سچی، بہو سے پوچھو وہ اپنی جگہ سچی، نندوں سے پوچھو تو وہ اپنی جگہ سچی، سچی بھی سب ہوتی ہیں اور پریشان بھی سب ہوتی ہیں ۔ تو آخر کوئی نہ کوئی تو بات ہوتی ہے کہ یہ گھر کے اندر Tension ( تناؤ ) کی کیفیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی غیبتیں ہو رہی ہوتی ہیں، اختیارات کی جنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ گھر پر سکون ہونے کی بجائے، دنگا اور فساد کا ما حول نظر آتا ہے۔*

*★_ہر لڑکی کو ذہن میں یہ بات سوچنی چاہئے کہ میرا اصلی گھر سسرال ہے۔ بیٹی ہمیشہ پرائے گھر کی امانت ہوتی ہے، ماں باپ گو اسے پالتے ہیں لیکن بالآخر اسے دوسرے کا گھر جا کر بسانا ہوتا ہے۔ اس لئے بچی کے ذہن میں شروع سے یہ بات ڈالنی ہوتی ہے کہ "اپنا گھونسلہ اپنا..... کچا ہو یا پکا"،*

*★_ جب بچی شروع سے ہی گھر بسانے کی نیت لے کر جائے گی تو وہ گھر میں موجود جو پہلی خواتین ہیں، ان کے ساتھ اچھا تعلق بنا کر رکھے گی اور محبت پیار کے ساتھ رہے گی۔گھر میں پہلے سے موجود خواتین کو چاہئے کہ وہ اس نئی آنے والی بچی کو اپنے گھر کا ایک فرد سمجھیں۔ اتنی قربانی کر کے آئی، ماں باپ کو چھوڑا، بہن بھائی کو چھوڑا، میکے میں جہاں رہتی تھی وہاں اپنی سہیلیوں کو چھوڑا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اگر اس نے قربانی کی اور اپنے خاوند کی خاطر یہاں آگئی تو اس قربانی کی بھی تو آخر کوئی Value ( قدر ) ہوتی ہے۔*

*★_ اگر سب لوگ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو ان جھگڑوں کو ختم کیا جا سکتا ہے, عام طور پر جب کسی بچے کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر رہتا ہے اور بچی کو ایک آباد گھر کے اندر آنا پڑتا ہے، یہ اس کی ضرورت بھی ہے، لیکن یہاں آکر اس کو ایڈ جسٹمنٹ کا مسئلہ ہوتا ہے۔*

     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ ساس کی طرف سے جھگڑوں کے اسباب:-*

*★_ ہمیں پہلے یہ سوچنا ہے کہ یہ جھگڑوں کی بنیادی وجوہات کیا ہوتی ہیں تاکہ ان وجوہات کو ختم کیا جا سکے۔ تو سب سے پہلے ساس کی طرف سے جھگڑوں کے اسباب کیا ہیں,*

*★_(1) بدگمانی:- ساس کی طرف سے جھگڑوں کے اسباب میں سے پہلا سبب ”بد گمانی" ہوتا ہے کہ ساس کے دل میں ایک fear of unknown (انجانا خوف ) ہوتا ہے کہ یہ آنے والی لڑکی، کہیں میرے بیٹے کے دل پر قبضہ نہ کرلے اور اس کو لے کر کہیں دور نہ چلی جائے، لہذا جب وہ دیکھتی ہے کہ میاں بیوی آپس میں محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں تو ایسے حربے استعمال کرنا شروع کرتی ہے کہ میاں بیوی کی محبت زیادہ پکی نہ ہو۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے کو اس کی بیوی کے بارے میں شکایتیں لگانا شروع کر دیتی ہے، تا کہ اس بڑھتی محبت کو کم کر سکے۔ ذہن میں اس کے یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس لڑکی نے میرے بیٹے کے دل پر قبضہ کر لیا تو یہ مجھے دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دے گی ۔ لہذا محاذ آرائی شروع ہو جاتی ہے۔*

*★__(۲) حکمرانی:- دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بہو کے آنے سے پہلے ساس اپنے گھر میں All in all (سب کچھ) ہوتی ہے اس کا حکم چلتا ہے وہ گھر کی مالک ہے، بڑی ہے۔ جب بہو آتی ہے تو ساس اپنی اس حکومت کے اندر کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتی، لہذا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آنے والی لڑکی میری باندی بن کر رہے۔ خاوند کی بجائے میرے اشاروں پر چلے، جو میں چاہوں اس گھر میں وہی ہو۔*

*★_ بعض گھروں میں ہم نے یہ بھی سنا کہ ساس کی حکومت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اگر بہو کو کوئی چیز کھانی اور پینی ہے تو فرج کا دروازہ کھولنے سے پہلے ساس سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اب اگر آنے والی کسی بچی کو اس طرح محکوم بنادیا جائے کہ فرج میں کھانے پینے کی چیزوں میں بھی اس کا اختیار نہیں تو پھر جھگڑے نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا ؟*

*★_ اب بیوی اپنے خاوند کے لئے تو ہر قربانی برداشت کر لیتی ہے، لیکن بے جا دوسرے بندے کا اس کی Personal life (ذاتی زندگی) کے اندر اتنا دخل انداز ہونا اس کو بھی برا لگتا ہے۔ چنانچہ یہ آپس میں جھگڑے کی دوسری وجہ بن جاتی ہے۔*

*★_(۳) بیٹے کی کمائی پر استحقاق:- تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ماں یہ سمجھتی ہے کہ بیٹا جو کمائی کر رہا ہے وہ ساری کی ساری میری ہے، بہو یہ سمجھتی ہے کہ میرے میاں کی کمائی ہے، اس میں میرا بھی حق ہے۔ چنانچہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا پیدا ہونے کی تیسری وجہ ہوتی ہے۔*

*★_(۴) بد اعتمادی:- پھر چوتھی وجہ ساس کے دل میں یہ ڈر اور خطرہ بھی رہتا ہے کہ یہ بہو ہمارے گھر کی چیزیں اور پیسے اپنے میکے نہ بھیجے، اپنی بہن کو ، اپنے بھائیوں کو نہ بھیجے۔ چنانچہ اس پر بھی وہ شک کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور کئی دفعہ اس پر تلخی بھی ہو جاتی ہے۔*

*★_(۵) ساس کی تلخ مزاجی :- آپس کی رنجش کی بنیادی وجہ ساس کی تلخ مزاجی اور بڑھاپہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی جوانی کی زندگی گزار چکی ہوتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ آنے والی بچی، نوجوان ہے، اس نے اپنے میاں کے ساتھ ابتدائی طور پر زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے۔ تو شادی کے دنوں میں جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں تو ماں سمجھتی ہے کہ مجھے تو Ignore ( نظر انداز ) ہی کیا جارہا ہے، حالانکہ اس میں نظر انداز کرنے والی کوئی بات ہی نہیں ہوتی،*

*★_چنانچہ یہ جو میاں بیوی کی زندگی میں دخل اندازی ہو رہی ہوتی ہے یہ بھی آپس کی ٹینشن کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو عام طور پر ساس کی طرف سے ہوتی ہیں ۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ نندوں کی طرف سے جھگڑے کے اسباب:-*

*★_ بعض اوقات نندوں کی طرف سے بھی اس لڑائی جھگڑے کے اسباب ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بھابھی کے آنے سے پہلے نندیں اپنے گھر کے اندر بیٹیاں ہوتی ہیں، بے پرواہی کی زندگی گزارتی ہیں، کوئی اونچ نیچ کر بھی لیں تو ماں ہے، باپ ہے اور بھائی ہے، سب اس کی غلطیوں کو چھپاتے ہیں۔ اس کی کو تاہیوں سے درگزر کرتے ہیں اور اس کے عیبوں پر سب کے سب پردہ ڈالتے ہیں۔*

*★_ اب جب گھر میں ایک جیتا جاگتا انسان اور آجاتا ہے تو نندیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ ہماری ہر بات کو نوٹ کیا جا رہا ہے، ہم کس سے فون پر بات کر رہی ہیں؟ کس کا فون ہمیں آرہا ہے ؟ ہم کس وقت کیسے کپڑے پہن رہی ہیں ؟ کہاں جا رہی ہیں؟ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اوپر ایک نگران آنکھ آگئی ہے۔ ایک ویڈیو کیمرہ ہمارے او پر فکس ہو چکا ہے لہذا وہ اپنی آزادی کے اندر اس کو ایک پابندی سمجھتی ہیں ۔*
*★_ چنانچہ وہ کوشش کرتی ہیں کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اپنی بھابھی کو اپنے دباؤ میں رکھیں، تاکہ یہ بھابھی ہماری کوئی بات دیکھے بھی سہی تو اپنی زبان کو بند رکھے۔ یہ باہر ہماری کوتاہیوں کو کہیں بتا نہ دے۔ لہذا نند ، تین کام کرتی ہے۔ (١) ساس کو بھڑکاتی ہے، (٢) بھائی کو بیوی کے خلاف اکساتی ہے، (٣) اور اپنی بھابی کو دباتی ہے۔*

*★_ لہٰذا وہ ایک وقت میں تین کام کر رہی ہوتی ہے۔ اور میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے Catalyst ( عمل انگیز ) کا کام کرتی ہے۔ ایسی بات کر دیتی ہے کہ خاوند خواہ مخواہ بیوی سے ناراض ہوتا ہے، ایسی بات کر دیتی ہے کہ اس آنے والی لڑکی کو بھری محفل کے اندر شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ اس کی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر پیش کر دیتی ہے،*

*★_ تو گویا ماں بیٹی کا یہ تعاون اس بہو کے خلاف ایک محاذ بن جاتا ہے۔ اور بہو کو یوں نظر آتا ہے کہ اب میری نجات اس گھر سے باہر جانے میں ہے۔ چنانچہ وہ اپنے خاوند سے کہنا شروع کر دیتی ہے کہ یا تو مجھے الگ گھر لے کر دو یا پھر مجھے میکے چھوڑ کر آؤ! اب خاوند درمیان میں سینڈوچ بن جاتا ہے۔ ایک طرف ماں اور بہن اور دوسری طرف بیوی۔ جب بیوی کی طرف دیکھتا ہے کہ یہ محبت کرنے والی ہے، نیک نمازی ہے، خوبصورت بھی ہے، گھر بسانا بھی چاہتی ہے، میں اس کے پاس آتا ہوں تو مجھے محبتیں بھی دیتی ہے، تو خاوند کا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو جتنا خوش رکھ سکتا ہوں اسے خوش رکھوں،*

*★_ مگر دوسری طرف اس کی ماں اور بہن مل کر اس کی بیوی کی طرف سے عجیب وغریب رپورٹیں دیتی ہیں، نہ اس کو پکانا آتا ہے، نہ گھر کی صفائی کرنی آتی ہے، پتہ نہیں ماں باپ نے کیسے اس کو پال کر بڑا کیا، کہاں سے یہ گنوار اٹھ کر آگئی ؟ نہ اسے اس بات کا پتہ نہ اُس بات کا پتہ ۔ تو یہ ایک عجیب سی Situation ( صورتحال ) گھر کے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ بہو کی طرف سے جھگڑے کے اسباب:-*

*★_ اب بہو کی طرف سے جھگڑے کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟ عام طور پر جس نو جوان لڑکی کی شادی ہوتی ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ نا تجربہ کار لڑکی ہوتی ہے، اس کو ازدواجی زندگی کے لڑائی جھگڑوں کا ذرا پتہ نہیں ہوتا، وہ ماں کی محبتوں میں پلی، باپ کی شفقتیں سمیٹیں، بھائی کی محبتیں پائیں، ان محبتوں کے ماحول سے نکل کر ایک نئے گھر کے اندر آتی ہے تو توقعات یہی رکھتی ہے کہ جو ماں محبتیں دیتی تھی وہی ساس دے گی، جو ابو محبت دیتے تھے وہ مجھے سسر دیں گے۔ اور خاوند کے بارے میں تصور رکھتی ہے کہ یہ تو ہے ہی میری زندگی کا ساتھی۔ تو اس کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں،*

*★_ مگر اس کو وہاں آکر جو صورتحال نظر آتی ہے وہ کئی مرتبہ توقعات کے مطابق ہوتی ہے اور کئی مرتبہ توقعات کے خلاف ہوتی ہے۔ لہذا یہ نا تجربہ کار اور بھولی بھالی لڑکی نئے گھر میں آکر بہت ساری غلطیاں کرتی ہے, کھانے پکانے میں اتنی مہارت نہیں ہوتی، مہمان نوازیوں کا اتنا پتہ نہیں ہوتا, ماں باپ کے گھر میں پڑھنے لگی رہتی تھی۔ اپنے کاموں میں لگی رہتی تھی، گھر کے کاموں میں اتنا تعاون نہیں کیا ہوتا، چنانچہ یہاں آکر اس کے لئے صورت حال سخت ہو جاتی ہے۔ اور پھر عمر بھی چھوٹی ہوتی ہے، اس کو اتنا پتہ نہیں ہوتا کہ میں نے یہاں آکر کس طرح اپنے آپ کو بچ بچا کر رکھنا ہے؟*

*★_ یہ بھی نہیں سمجھتی کہ خاموشی کے کتنے فائدے ہوتے ہیں؟ کوئی نہ کوئی بات کر دیتی ہے، پھر اس کے ایک ایک لفظ کو پکڑ لیا جاتا ہے اور ایک لفظ کو پکڑ کر اس کے اوپر پوری داستان بنادی جاتی ہے۔ پھر اس بہو کے ذہن میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ میری شادی ہوئی، نکاح ہوا، میں بیٹی کی حیثیت سے اس گھر میں آئی ہوں، میں اس گھر میں لونڈی بن کر تو نہیں آئی، میں کہیں بھاگ کر تو نہیں آئی، تو وہ توقع کرتی ہے کہ اس گھر میں مجھے ایک Respect ( عزت) ملنی چاہئے۔*

*★_ اور خاوند کے بارے میں اس کے ذہن میں بھی ہوتا ہے کہ خاوند تو بس ایسا ہو کہ میری ہر بات پر آمین کہنے والا ہو۔ اس کے دل کے اندر یہ خواہش ہوتی ہے کہ ادھر میری زبان سے بات نکلے اور خاوند اس پر Yes (ہاں) کر دے, اور بعض اوقات اس بہو کے ذہن میں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے یا سہیلیوں نے اس کو غلط گائیڈ کیا ہوتا ہے کہ اگر تم سسرال جا کر ایک دفعہ دب گئی، تو ساری عمر تمہیں دبا کر ہی رکھیں گے۔ لہذا وہ بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑنا شروع کر دیتی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا اپنے میکے میں آکر تذکرہ کرتی ہے۔ کبھی بہن کے ساتھ، کبھی ماں کے ساتھ ۔ اب ادھر بہن اور ماں اس کو مشورے دیتی ہیں اور وہ پھر سسرال میں ریموٹ کنٹرول کھلونے کی طرح کھیل کھیل رہی ہوتی ہے ۔ یہ سب ناپسندیده صورتحال ہے۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙_ اسباب کا نچوڑ ... خود غرضی کی جنگ:-*

*★_ یوں لگتا ہے کہ ان تمام وجو ہات کو سامنے رکھیں تو لب لباب یہی نظر آتا ہے کہ ہر انسان، گھر کا ہر فرد، اپنی خود غرضی کی جنگ لڑ رہا ہے، ساس کو اپنے مفادات چاہئیں، نند کو اپنے چاہئیں، بہو کو اپنے چاہئیں اور اس وجہ سے اب گھر کے اندر لڑائی کی ایک فضا بن جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ حسن اخلاق سے رہنے کی تعلیم دینے میں کمی رہ جاتی ہے۔ اب یہ ذمہ داری تو سسر کی بھی ہوتی ہے کہ وہ گھر کا بڑا ہوتا ہے، وہ اپنی بیوی کو بھی سمجھتا ہے، بیٹی کو بھی سمجھتا ہے۔*

*★_ لہٰذا اس آنے والی لڑکی کو وہاں ایڈ جسٹ ہونے میں اس کو مورل سپورٹ دے ۔ اس کو back up (سہارا) دے، تاکہ وہ بچی محسوس کرے کہ میرے سر کے اوپر کوئی سایہ ہے، وہ اپنے آپ کو ہوا میں لٹکتا محسوس نہ کرے کہ معلوم نہیں کسی وقت ساس مجھے اپنے گھر واپس ہی بھیج دے،*

*★_ اب کئی مرتبہ سسر صاحب اپنی بیوی کے سامنے بات نہیں کر سکتے اور کئی مرتبہ اپنے بزنس میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وقت ہی نہیں ہوتا، جب مرد کے پاس وقت نہ ہو اور عورتیں گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ کو آپریٹ نہ کریں تو گھر کے اندر لڑائیاں نہیں ہوں گی تو اور کیا ہو گا؟ ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنے کی تعلیم کو عام کریں۔*

*★_حضرت محمد سلم نے فرمایا کہ میری امت کے لوگ نماز اور روزے کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ ایک دوسرے پر رحم کرنے کی وجہ سے جنت میں زیادہ جائیں گے ۔ تو ایک دوسرے کے ساتھ ایثار، رحم محبت ان اقدار کو گھر کے اندر بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨جھگڑے کیسے ختم ہوں- ساس کی ذمہ داریاں-*

*★_ تو آئیے ! ان تمام اسباب کے علاج کیا ہیں؟ ان تمام اسباب کے حل کیا ہیں؟ اس پر تھوڑی سی بات کرتے ہیں۔ جھگڑے تبھی ختم ہو سکتے ہیں جب ہر بندہ اپنی کچھ مخصوص ذمہ داریوں کو ذمہ داری سے ادا کرنے کی کوشش کرے۔*
*(1)_ ساس اپنے بڑے پن کا ثبوت دے:- سب سے پہلے ساس گھر کی ماں ہے، بڑی ہے، اس کی عزت اور احترام ہے، بڑوں کو بڑا ہی بن کر رہنا چاہئے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے۔ تو ساس کو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ آنے والی لڑکی پلاسٹک کا کھلونا نہیں، جیتا جاگتا انسان ہے۔ میں نے خود اسے پسند کیا، اپنے بیٹے کے لئے لے کر آئی، خود چل کر گئی تھی۔ اب اگر یہ آگئی ہے تو یہ بھی انسان ہے، اس میں یقیناً خو بیاں بھی ہوں گی اور خامیاں بھی ہوں گی ۔ تو مجھے جیسے اس کی خوبیوں کو قبول کرنا ہے اس کی خامیوں کو بھی قبول کرنا ہے اور پیار محبت سے اس کی اصلاح کرنی ہے۔*

*★_(2)_ بہو اور بیٹی کو برابر سمجھے :- جیسے اپنی بیٹی کے اندر خامیاں ہوتی ہیں تو ماں صبر کے ساتھ ان خامیوں کی اصلاح میں لگی رہتی ہے تو پھر بہو کے لئے کیوں یہ سمجھتی ہے کہ ایک دن میں یہ ٹھیک ہو جائے؟ بہو بھی اس کی بیٹی ہی کی ہم عمر ہے، اس کی بیٹی ہی کی طرح ہے۔ جو رویہ ساس اپنی بیٹی کے ساتھ رکھتی ہے وہی رویہ اگر اپنی بہو کے ساتھ رکھے تو گھر کے جھگڑے بالکل ہی ختم ہو جائیں۔ مصیبت یہاں یہ ہوتی ہے کہ بیٹی وہی غلطی کرتی ہے تو ماں اس غلطی کو چھپاتی پھرتی ہے اور اگر وہی غلطی بہو کر لیتی ہے تو ساس اس غلطی کو بتاتی پھرتی ہے۔ تو ابتدائی دنوں میں اس آنے والی بچی کی غلطیوں سے کچھ درگزر کرنا چاہئے۔*

*★_(3) ساس کی بنیادی غلطی :- اور اس میں ایک غلطی ساس کی یہ بھی ہوتی ہے کہ عام طور پر اس نے بہو کا جو انتخاب کیا ہوتا ہے تو فقط اس کی شکل کی خوبصورتی کو دیکھ کر کیا ہوتا ہے ۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ صرف ولیمہ کے دن لڑکی کی شکل کو دیکھا جاتا، ہے باقی پوری زندگی اس کی عقل کو دیکھا جاتا ہے ۔ تو جو چیز پوری زندگی دیکھی جانی تھی اس پر توجہ نہیں دیتی اور شکل کی حور پری ڈھونڈ کر اپنے گھر لے آتی ہے ۔ نہ تعلیم دیکھی نہ اس کے اخلاق دیکھے، تو اس وجہ سے پھر مصیبت پڑ جاتی ہے۔*

*★_(4) بہو کی غلطیوں پر درگزر کرے:- ساس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی چند دنوں میں بہو کو گھر کے اندر اپنے آپ کو ایڈ جسٹ ہونے کا موقع دے۔ اس کی غلطیوں سے درگزر کرے، نئی جگہ پر انسان بعض چیزوں کو نظر انداز کر جاتا ہے، بعض کاموں کو بھول جاتا ہے تو بہو سے اس قسم کی غلطیاں ہونا، کوئی انوکھی بات نہیں۔ لہذا اسے چاہیے کہ ابتدا میں اگر لڑ کی غلطیاں بھی کرے تو اس سے درگزر سے کام لے۔ اور یہی سمجھے کہ ہاں چند دنوں کے بعد جب یہ گھر میں سیٹ ہو جائے گی تو میں اس لڑکی کو سمجھالوں گی ۔*

*★(5)_ بہو کو خوشی سے گھر کی ذمہ داری دے:- گھر کے کام کاج میں بہو کو ہنسی خوشی ذمہ داری دے۔ مثال کے طور پر کھانا پکانا ہے تو یہ ضروری تو نہیں کہ ہر روز ساس سے ہی سارا کچھ پوچھ کے پکایا جائے گا۔ کبھی ساس یوں بھی کہہ دے کہ بیٹا اپنی مرضی کا کھانا پکالو! تو لڑکی کو تھوڑا سا اختیار ملے گا تو اس کا دل خوش ہوگا ۔ تو یہ ذمہ داری ساس کی بنتی ہے کہ وہ آنے والی لڑکی کو ہنسی خوشی ذمہ داری سونپے۔ اور ساتھ یہ بھی سوچے کہ جب میں بہو بن کر آئی تھی تو اس وقت میرے جذبات کیا تھے؟ اور میں بھی تو اپنی ساس کے بارے میں یہ سوچا کرتی تھی کہ ذرا ذمہ داری میرے اوپر ڈال کر تو دیکھے، مجھے کام دے کر دیکھے، میں کیسے نہیں کام کرتی؟ میں بھی ہر بات پر تنقید کو نا پسند کرتی تھی، ذرا ذراسی بات پر نکتہ چینی سے میر ادم گھٹتا تھا ۔ آج جب میں اپنی بہو کی ساس بن گئی ہوں تو میں اپنی بہو کے ساتھ وہی سلوک کیوں رکھوں ؟*

*★_(6)_ہر وقت کی تنقید سے گریز کرے:- نیت ہمیشہ اچھی رکھے، اللہ رب العزت نیت کی وجہ سے گھر کا ماحول اچھا کر دیتے ہیں۔ ہر بات پر بہو کو کاٹنے نہ دوڑے۔ اگر اس کے برے کام پر تنقید کرتی ہے تو اس کے اچھے کام پر تعریف بھی کیا کرے ۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ غلطی پر اس کی مٹی پلید کر دی اور اچھے کام کو ایسے نظر انداز کیا جیسے اس نے کیا ہی نہیں۔ یہی وجہ کہ کبھی بہن کی بیٹی کو بہو بنا کر لائی، کبھی بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر لائی، اتنی قریبی رشتہ داریاں ہوتی ہیں لیکن جیسے ہی وہ لڑکی گھر آتی ہے، اس کے ساتھ جھگڑے والا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو وہ بچی گھر میں قدم رکھتی ہے بس اس کی غلطیاں دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔ تو ساس کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر اپنے بڑے پن کا ثبوت دے اور اس بچی کا ایڈ جسٹ ہونے کے لئے ہر ممکن کا تعاون کرے۔ اگر اپنی بیٹی بھی اس کی شکایت کرے تو بیٹی کو سمجھا بجھا دیں، مگر گھر کے اندر خواہ مخواہ ماحول کو خراب نہ ہونے دے۔*

     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ جھگڑے کیسے ختم ہوں- بہو کی ذمہ داریاں:-*

*★_ بہو کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس آنے والی لڑکی نے بھی بہت ساری باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، وہ ایک نئے گھر میں آئی ہے اور اس نئے گھر میں اسے اپنی حیثیت منوانے کے لئے یقیناً بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔*
*(1)_ساس کو اپنی دشمن نہ سمجھے:- بہو ہمیشہ ایک موٹی سی بات یہ سوچے کہ ساس اگر میری دشمن ہوتی، تو مجھے اپنے گھر میں لاتی ہی کیوں؟ جب اس نے مجھے اپنے بیٹے کے لئے پسند کیا اور بہو بنا کر لائی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ میری دشمن نہیں بلکہ میری محسنہ ہے۔ اس کا میرے اوپر احسان ہے کہ اتنا اچھا بیٹا، ذمہ دار اور سمجھدار، اس کے لئے اس نے مجھے بیوی کے طور پر منتخب کیا۔ اگر وہ نہ کر دیتی تو یہ رشتہ نہ ہو سکتا، اگر یہ رشتہ ہوا ہے تو اس میں ساس کا میرے اوپر احسان ہے۔ جب بہو یہ ذہن لے کر آئے گی کہ ساس میری محسنہ ہے تو یقیناً وہ گھر میں آکر اس ساس کو ساس نہیں سمجھے گی بلکہ اپنی ماں سمجھے گی۔ اور ماں کے سمجھنے سے ہی سارے جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔*

*★_(2)_ماں بیٹے کی محبت میں کمی نہ آنے دے:- پھر بہو کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ میرے آنے سے پہلے یہ ہنستا بستا گھر تھا، آپس میں محبت پیار سے رہ رہے تھے اس بیٹے کو ماں نے محبتوں سے پالا، یہ ماں کے ساتھ اتنا زیادہ Attach ( مانوس ) تھا، اب میں اس گھر میں نئی آئی ہوں تو اس بیٹے کو اپنی ماں سے الگ نہیں کرنا، مجھے اس بیٹے کو اپنی ماں سے دور نہیں کرنا، میرے خاوند کے لئے یہ جنت ہے۔ اس کے قدموں میں اللہ رب العزت نے میرے خاوند کے لئے جنت بنائی ہے۔ لہذا میں نے ہمیشہ ان کو عزت دینی ہے اور ان کی خدمت کو مجھے اپنے لئے سعادت سمجھنی ہے ،*

*★_ جب بہو یہ سمجھے گی تو یقیناً وہ ماں بیٹے کی محبت میں کیل نہیں ٹھونکے گی۔ وہ بوڑھی ساس کو ستائے گی نہیں۔ بلکہ اگر خاوند اس کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارے اور اپنی ماں اور بہن کو بہت ہی چھوڑے رہے تو بہو کو یہ چاہئے کہ اپنے خاوند کو سمجھائے کہ اپنے ماں باپ کو نظر انداز کرنا اچھا نہیں ہوتا، اگر اس کا سگا بھائی اپنے ماں باپ سے لا پرواہی برتا تو اس کو کتنا برا لگتا، اب اس کا خاوند اگر ماں باپ کو نظر انداز )کر رہا ہے تو پھر اس کو کیوں اچھا لگتا ہے؟ تو بیوی کو چاہئے کہ وہ بھی یہ بات سمجھائے، تاکہ اس کا خاوند اپنے ماں باپ کے ساتھ وہی محبتیں رکھے جو شادی سے پہلے تھیں۔*

*★_(3)_ ساس سے لاپرواہی نہ برتے :- کئی جگہوں پر دیکھا، ساس بوڑھی ہے، نند گھر میں نہیں، تو پھر بہو گھر میں آتے ہی شیرنی بن جاتی ہے اور ساس کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتی ہے۔ کئی جگہوں پر ہمیں یہ خبر ملی کہ ساس کو اپنے وقت پر کھانا بھی نہیں دیا جاتا، بس یہ خاوند کو قابو کر لیتی ہیں اور اس کے بعد ساس کو ایک بڑھیا سمجھ کر کمرے کے ایک کونے میں پڑی رہنے دیتی ہیں۔ یہ چیز انتہائی بری ہے، شریعت نے ساس اور سسر کو ماں اور باپ کا درجہ دیا ہے۔*

*★_ آنے والی بہو یہ سوچے کہ اگر اس بوڑھی عورت کی میں خدمت کروں گی تو میں اپنے خاوند کو بھی راضی کروں گی اپنے خدا کو بھی راضی کروں گی ۔ اب اس کے لئے اپنی ساس کی خدمت کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔*

*★_(4)_ساس کا دل خوش کرنے کی کوشش کرے:- بہو کو چاہئے کہ ایسے مواقع تلاش کرے کہ وہ اپنی ساس کا دل خوش کر سکے ۔ بعض کام بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اگر ذاتی نا توجہ دی جائے تو دوسرے بندے کے دل میں جگہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ساس کوئی میڈیسن استعمال کرتی ہے تو وقت کے اوپر اس کو میڈیسن دے دینا، احتیاطی کھانا کھاتی ہے تو وہ بنا کر دے دینا، وضو کا پانی گرم کر کے دے دینا مصلیٰ بچھا کر دے دینا،*

*★_ یہ ان کے چھوٹے چھوٹے کام ہوں گے لیکن جب بہو ان کاموں کو کرے گی تو وہ سمجھے گی کہ یہ بہو نہیں میرے گھر کی بیٹی ہے، تو یقیناً ساس کا رویہ بہو کے ساتھ ماں جیسا ہو جائے گا۔ یہ بہو کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نئے گھر میں جا کر ساس کے دل میں اپنی جگہ بنائے، چنانچہ ایسے مواقع کو تلاش کرنا چاہئے کہ جس سے انہیں یہ محسوس ہو کہ یہ بیٹی بن کر ان کی ذاتی خدمت کو بھی اپنی سعادت سمجھتی ہے۔*

*★_(5)_ ساس کے تجربات سے فائدہ اٹھائے:- بہو کو چاہئے کہ کوئی بھی کام کرنا ہو تو ساس کے تجربہ سے فائدہ اٹھائے بلکہ اس سے مشورہ کر لیا کرے۔ یہ سوچے کہ اگر میں اپنی اس امی سے پوچھ کر مشورہ کر کے کام کروں گی تو یقیناً میں غلطیاں کم کروں گی۔ جب بغیر مشورہ کے کام کروں گی تو کوتا ہیاں زیادہ کروں گی۔ لہذا ساس کے مشورہ سے کام کرنا چاہئے, اس کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے بلکہ اس کے تبصرہ ۔ بلکہ اس کے تبصرہ سے سبق سیکھنا چاہئے,*

 *★_(6)_ ساس کو ہرانا ماں کو ہرانے کے برابر سمجھے :- اور ایک بڑی اہم بات یہ کہ اگر کھینچا تانی کا ماحول بن گیا اور یہ بہو جیت بھی گئی تو یہ یہی سمجھے کہ میں اپنی ماں کو ہرا چکی ہوں، جب بہو نے یہ ذہن میں رکھا کہ اس کھینچا تانی میں ساس کو ہرانے کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنی ماں کو ہرا دیا تو پھر اس کی عقل ٹھکانے رہے گی اور اس کھینچا تانی کے ماحول کو نہیں بننے دے گی۔*

*★_(7)_ خاوند سے ساس نند کی برائیاں ہرگز نہ کرے:- چغل خوری سے بچے، چغلیاں کرنا اللہ رب العزت کے ہاں انتہائی نا پسندیدہ کام ہے۔ اگر وہ گھر کے اندر کوئی کمی کوتاہی دیکھے بھی سہی تو خاوند کے سامنے ساس اور نند کی برائیاں نہ کرے۔ بھائی کے ذہن میں بہن کے بارے میں کوئی کسی قسم کی بات بٹھانا اور اس کا تاثر خراب کرنا کہ دل سے بہن کی محبت ہی نکل جائے، شرعاً یہ بھی جائز نہیں ہے، اگر کوئی کوتاہیاں دیکھتی ہے تو بہو کو چاہئے کہ وہ بھی دل بڑا کرے، نہ میکے میں بتائے نہ اپنے خاوند کو بتائے،*

*★_ تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ اپنے گھر میں Adjust ( سیٹ) ہو جائے گی تو پھر اللہ رب العزت اسے موقع دیں گے، یہ ماحول کو بھی اچھا بنا لے گی اور یہ گھر کے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بھی پیدا کر لے گی۔ چنانچہ اس کو چاہئے کہ یہ ابتدائی دنوں میں خاموش رہے، بس جو دیکھے اپنی زبان کو بند رکھے۔ یہ بات سو فیصد سچی ہے کہ گونگی اور بہری بہو سے کوئی بھی لڑائی نہیں کرتا، ہر کوئی اپنے آپ کو امن میں سمجھتا ہے، تو اس کو بھی چاہئے کہ ابتدائی چند دنوں میں گونگا اور بہرا بن کر گزار لے تاکہ دوسرے بندے اس کے قریب ہو سکیں ۔*

*★_(8) خاوند سے الگ مکان کا مطالبہ نہ کرے:- خاوند کو ہر گز یہ نہ کہے کہ مجھے الگ مکان چاہئے یا یہ کہ مجھے میکے چھوڑ کر آؤ! اپنی طرف سے کوشش یہی کرے کہ میں نے اس آباد گھر کو آبا درکھنا ہے۔ ہاں وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کا بنایا ہوا ایک نظام ہے، ایک بچے کی شادی ہوتی ہے، پھر دوسرے بچے کی ہوتی ہے۔ ایک بچے کا الگ گھر بنتا ہے، پھر دوسرے کا الگ گھر بنتا ہے۔ تو آنے والے وقت میں الگ گھر تو ہر ایک کا بننا ہی ہوتا ہے۔ اور نہیں تو ساس بوڑھی ہوتی ہے جب وہ قبر کا کونہ جا کر آباد کرتی ہے تو بہو کا ویسے ہی الگ گھر بن جاتا ہے۔ تو اس بارے میں بہو کو اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ یہی سمجھے کہ جتنا خدمت کا موقع اللہ نے مجھے دیا میں اس سعادت سے اپنے آپ کو کیوں محروم ہونے دوں؟ تو اس طرح گھر کے لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔*

*★_(9) خاوند سے جھگڑا نہ کرے:- کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ساس کی وجہ سے یا نند کی وجہ سے بہو تنگ ہوتی ہے تو وہ اپنے خاوند کو شکایت لگاتی ہے اور اپنے خاوند کے ساتھ بھی الجھنا شروع ہو جاتی ہے ۔ خاوند کے ساتھ جھگڑا کرنا، بیوی کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔ اس سے بڑی غلطی بیوی اپنی زندگی میں نہیں کر سکتی کہ جو اس کے سر کا سایہ ہے، اس کی تقویت کا سبب ہے، اس کی عزت کا نگران ہے، اس بندے کے ساتھ جھگڑا شروع کردے۔*

*★_ تو بہو کی کوتاہیوں میں سے یہ ایک بڑی کوتاہی ہوتی ہے کہ معاملات تو ساس اور نند خراب کر رہے ہیں اور یہ اپنے خاوند کے ساتھ منہ بسور کے اور روٹھ کے بیٹھ جاتی ہے۔ اب خاوند ابتدائی شادی کے دنوں میں محبت پیار کے موڈ میں ہوتا ہے اور بیوی صاحبہ نے شکل بنائی ہوتی ہے۔ تو الٹا خاوند کے دل میں بھی یہ اپنے لئے جگہ کم کر بیٹھتی ہے ۔ یہ غلطی بھی ہر گز نہیں کرنی چاہئے۔*

*★_(10)_ تنقید کو صبر سے برداشت کرے:- بہو کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ میں اس گھر میں نئی آئی ہوں اور ہر نئی چیز کو آزمایا اور پرکھا جاتا ہے۔ یہی بہو اپنے لئے سونے کا زیور خریدتی ہے تو کتنا پرکھتی ہے۔ تو گھر میں ایک نیا انسان آیا ہے تو ہر بندہ اس کو دیکھے گا، جانچے گا کہ یہ کیسے بیٹھتا اٹھتا ہے؟ کیسے بولتا ہے؟ کیسے اس کی زندگی کے شب وروز ہیں۔ تو وہ اس بات کو سمجھے کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں مجھے کسی نظر سے دیکھا جائے گا؟ اور اگر کوئی بات گھر کے لوگ میرے بارے میں کر دیتے ہیں تو یہ غلط نہی ہوتی ہے۔*

*★_ پھر یہ بھی سمجھے کہ ساس عمر میں زیادہ ہے اور جتنی عمر زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی بندے کے اندر تنقید کا مادہ بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور چڑ چڑا پن بھی زیادہ ہو جاتا ہے، لہٰذا اس چڑ چڑے پن کو عمر کا تقاضا سمجھے، یہ بھی سوچے کہ گھر میں جب میں غلطی کرتی تھی تو کئی مرتبہ میری امی مجھے تھپڑ بھی لگا دیتی تھی تو میں برداشت کرتی تھی ؟ تو اگر سگی ماں کا تھپڑ بھی برداشت کر لیتی تھی تو کیا ساس کا سمجھانا برداشت نہیں کر سکتی۔ ساس کے سمجھانے پر بھی اس کو غصہ آجاتا ہے تو یہ بھی ایک کو تا ہی ہوتی ہے۔*

*★_(11) شوہر کے مال پر فقط اپنا حق نہ جتائے:- کئی مرتبہ بہو یہ بجھتی ہے کہ خاوند جو کما رہا ہے وہ تو بحیثیت بیوی میرا حق ہے۔ اب یہ ماں، باپ اور بہنیں سب کا اس کے کندھوں پر کیوں بوجھ پڑ گیا ؟ تو اس میاں کے کندھوں پہ یہ بوجھ پہلے سے تھا، اب تو نہیں پڑا۔ یہ آنے والی لڑکی کی غلط بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے ماں باپ کو اس کے سر کا بوجھ سمجھے، یہ وہ رشتے ناطے ہیں جن کو نبھانا ہوتا ہے۔شادی کے بعد یہ تو نہیں ہو جاتا کہ بندہ ماں کو بھول جائے، بہن کو بھول جائے، باپ کو بھول جائے، تو لڑ کی یہ غلطی کبھی بھی نہ کرے کہ اپنے گھر کے ان افراد کو اپنے خاوند کے سر کا بوجھ سمجھے۔*

*★_(12) سرال میں میکے کے فضائل نہ بیان کرتی رہے :- یہ بھی جھگڑے کی بنیاد ہوتی ہے کہ سرال کے گھر میں کوئی بات دیکھی، فوراً کہہ اٹھے گی میرے امی ابو کے گھر میں تو ایسے نہیں ہوتا تھا، ہمارے گھر میں تو ایسا ہوتا تھا۔ وہ تو ہوتا تھا، اب آپ سسرال میں آچکی ہیں۔ سرال میں آکر بہو یہ سوچے کہ اب تو آپ کا گھر یہ ہے۔ تو بہو کی غلطیوں میں سے ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ وہ سرال میں بیٹھ کر دن رات اپنے میکے کے فضائل بیان کرتی ہے۔ جو پھر جھگڑے کا سبب بن جاتے ہیں۔ جو اس کا نصیب تھا وہ اسے مل گیا ۔ امیر گھر کی بیٹی تھی، اب جہاں آگئی ہے وہاں اپنے آپ کو ایڈ جسٹ کرنے کی کوشش کرے۔*

*★_(13)_ سسرال کی خوشی غمی میں برابر کی شریک ہو:- پھر ایک غلطی یہ بھی کرتی ہے کہ سرال کے گھر میں جو خوشی اور غمی ہوتی ہے اس میں برابر کی شریک نہیں ہوتی، پیچھے پیچھے رہتی ہے۔ تو جب ان کی خوشی اور غمی میں برابر کی شریک نہیں ہوگی تو صاف ظاہر ہے کہ پھر ان کو آپ پر اعتراض کا موقع ملے گا۔*

*★_(14) دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہے : - نئے گھر میں آکر لوگوں کے حالات کی ٹوہ میں لگے رہنا، تجس میں رہنا کہ میری نند کہاں سے آتی ہے؟ کہاں جاتی ہے؟ کس کے فون آتے ہیں؟ میری ساس کیا کرتی ہے؟ میرا سسر کیا کرتا ہے؟ ساس اور سسر کے درمیان جھگڑے تو نہیں؟ اس قسم کی ٹوہ میں لگ جانا، انتہائی برا کام ہوتا ہے۔ یہ شرعاً بھی حرام ہے۔ شریعت نے فرمایا: تجس میں نہ پڑو، دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا یہ عقل مندی نہیں ہوتی اپنے کام سے کام رکھے، دوسروں کے حالات کی ٹوہ میں رہنا اور دوسروں کے سامنے ان کے عیبوں کو کھولنا، شریعت نے اس چیز سے منع کر دیا ہے۔*

*★_(15) دوسروں پر رعب چلانے کی بجائے دل جیتنے کی کوشش کرے:- کئی دفعہ یہ بھی دیکھا کہ بہو جب گھر میں آتی ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ میں تو بڑے بھائی کی بیوی ہوں لہذا اب یہ میری نند جو ہے یہ تو میری خادمہ ہے، اس پر رعب چلاتی ہے۔ نند پر رعب چلانے سے پہلے اسکے دل کو جیتنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ بس یہ ہر ایک کے ساتھ محبت پیار کا تعلق رکھے اور اپنے خاوند کو پر سکون زندگی دے۔ بہو کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں شادی کرنے کا بنیادی مقصد فرمایا التسكنوا اليها " تاکہ تمہیں اپنی بیویوں سے سکون ملے،*.

*★_ تو جو بیوی اپنے خاوند کو سکون دے ہی نہیں سکتی وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ تو اپنے میاں کو جھگڑوں میں الجھا لینا، ہر وقت اس کے سامنے یہی باتیں چھیڑ کر بیٹھ جانا، انتہائی نالائقی ہوتی ہے۔بیوی کو چاہیے کہ اپنے خاوند کو ایسا پر سکون ماحول دے کہ دفتر اور دکان پر بیٹھے ہوئے بھی اس کا جی چاہے کہ میں ابھی اپنے گھر چلا جاؤں۔ تو گھر کے ماحول کو ایسا بھی نہیں بنانا چاہئے کہ خاوند گھر میں آکر الٹا پریشان ہو جائے ۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ روز محشر لوگ اپنے گناہوں کے مطابق اٹھیں گے:-*

*★_ قیامت کے دن لوگ اپنے اپنے گناہوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے ۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جو بندہ نا انصافی کرنے والا ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کو فالج زدہ شخص کی صورت میں قیامت کے دن کھڑا کریں گے ۔ جو مخلوق سے سوال کرتا ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسا بنائیں گے کہ اس کے چہرے کے اوپر ہڈیاں ہوں گی گوشت ہو گا ہی نہیں ۔ دور سے پتہ چلے گا کہ یہ اللہ کے در کو چھوڑ کر مخلوق سے مانگنے والا ہے۔اللہ تعالی نے اس کے چہرے کی اس رعنائی کو ختم کر دیا ہے۔*

*★_ جو دنیا میں تکبر کے بول بولنے والا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن چیونٹی جیسا سر عطا کریں گے، دوسرے لوگ اس کے اوپر اپنے پاؤں رکھ کر جائیں گے۔ اللہ تعالی ان کو مخلوق کے پاؤں میں مسل کر ان کو بتائیں گے کہ تمہارے تکبر کا ہم نے تمہیں یہ بدلہ دیا۔ جو لوگ دنیا میں جھوٹ بولتے ہوں گے قیامت کے دن ان کی زبان اونٹ کی طرح لمبی ہوگی اور لٹکی ہوئی ہوگی۔ جو گناہوں بھری زندگی گزاریں گے ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، جو نیکو کار ہوں گے ان کے چہرے چمکتے ہوئے ہوں گے۔*

*★_ جو شخص دوسروں کی غیبت کرتا ہوگا، اس کے لمبے لمبے ناخن ہوں گے اور قیامت کے دن اپنے چہرے کی خارش کر رہا ہو گا، اتنا خارش کرے گا کہ اس کا گوشت کٹ جائے گا اور ہڈیاں نظر آنے لگیں گی۔ اور جو شخص دوسروں کے ساتھ چغلخوری کا معاملہ کرتا ہوگا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسا کھڑا کریں گے کہ اس کے ایک کی جگہ، دو چہرے ہوں گے۔*

*★_ تو جیسا ہم دنیا میں کریں گے ویسا قیامت کے دن پائیں گے۔ تو اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم شریعت اور سنت کے احکام کو سامنے رکھیں اور گھر کے اندر محبت سکون کی زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔* 

     ╥────────────────────❥
*⊙⇨لڑکی کی زندگی کی اسائنمنٹ:-*

*★_ اچھی بہو وہ ہوتی ہے کہ میکے والے بھی اس کی تعریف کریں، سسرال والے بھی اس کی تعریف کریں۔ بچی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ میرے لیے Assignment (مشق) ہے، میں میکے میں ایسی زندگی گزاروں کہ جب میری شادی ہو تو میکے والوں میں، میری ماں بہن کی زبان سے میری تعریفوں کے پل بندھ رہے ہوں اور جب میں سسرال میں جاؤں تو میں ایسے بن کر رہوں کہ میری ساس اور نند کی زبان سے میری تعریفیں ہو رہی ہوں ۔*

*★_ یہ بچی کی زندگی کی اسائنمنٹ ہوتی ہے ۔ جب وہ یہ ذمہ داری لے کر جائے گی اور چاہے گی کہ میری تعریفیں ان کی زبان سے ہوں تو یقیناً وہ ان کے ساتھ محبت پیار سے رہے گی۔ جھگڑے اور فساد کی بجائے گھروں کے اندر محبتیں ہوں گی، الفتیں ہوں گی۔ دنیا کی زندگی بھی اچھی گزرے گی۔ یہ چھوٹا سا گھر انسان کی چھوٹی سی جنت بن جائے گا اور اللہ رب العزت بھی خوش ہوں گے۔*

*★_ تو انسان نے دنیا میں بھی پر سکون زندگی گزاری، محبتوں اور چاہتوں کی زندگی گزاری اور اس کے بدلے میں اللہ تعالٰی نے اس کی آخرت کو بھی بنا دیا ۔ لہٰذا سسرال کے جھگڑوں میں ساس ماں بن کر رہے اور بہو یہ سوچے کہ اب جو محبت مجھے ساس سے مل سکتی ہے وہ محبت مجھے کسی اور سے نہیں مل سکتی، جب اس طرح دونوں ایک دوسرے کے قریب آئیں گی تو گھر کے جھگڑے بالکل ہی ختم ہو جائیں گے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ سبق آموز واقعه :-*

*★_ ابن قیم رحمۃ اللہ نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ایک گلی سے گزر رہا تھا۔ میں نے ایک گھر کا دروازہ کھلا دیکھا، ایک ماں اپنے بیٹے سے ناراض ہو رہی تھی، اسے ڈانٹ رہی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ تو نکھٹو ہے، ضدی ہے، کوئی کام نہیں کرتا، بالکل بات نہیں مانتا، کام چور بن گیا ہے، اگر تو نے میری بات نہیں ماننی تو اس گھر سے دفعہ ہو جا۔ یہ کہہ کر ماں نے جو اس کو دھکا دیا تو وہ بچہ دروازے سے باہر گرا۔ ماں نے غصے سے اپنے دروازے کو بند کر لیا۔*

*★_ فرماتے ہیں: میں بھی اس بچے کو دیکھنے لگا! وہ رو رہا تھا، اسے مار پڑی تھی، جھڑ کیاں پڑی تھیں، پھر تھوڑی دیر میں اس نے گلی کے ایک طرف کو جانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ قدموں سے چل رہا تھا، کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ جب وہ گلی کے موڑ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ کچھ سوچتا رہا اور پھر اس نے واپس آنا شروع کیا۔ حتیٰ کہ اپنے ہی گھر کے دروازے پر آکر وہ بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے لئے اسے نیند آگئی۔*

*★_ کچھ دیر کے بعد والدہ نے کسی کام کے لئے دروازہ کھولا تو دیکھا، وہ ابھی دروازے ہی پر موجود تھا۔ ماں کا غصہ کم نہیں ہوا تھا، اس نے پھر ڈانٹنا شروع کر دیا۔ جاتے کیوں نہیں؟ تم نے میرا دل جلایا ہے، کام بالکل نہیں کرتے۔ جب ماں نے پھر ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی، بچے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہنے لگا: امی ! جب آپ نے مجھے گھر سے دھکا دے دیا تھا، میں نے سوچا تھا کہ میں یہاں سے چلا جاتا ہوں، میں کسی کا نوکر بن کر رہ جاؤں گا، کوئی مجھے کھانا دے دے گا ،لحاف دے دے گا، رہنے کی جگہ دے دے گا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں بازار میں جا کر بھیک مانگ لیتا ہوں، مجھے یہ سب چیزیں مل جائیں گی اور میں گلی کے موڑ پر بھی چلا گیا تھا لیکن وہاں جا کر میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے کھانا بھی ملے گا، کپڑے بھی ملیں گے، رہنے کی جگہ بھی مل جائے گی لیکن امی جو پیار مجھے آپ دیتی ہیں یہ پیار مجھے دنیا میں کوئی نہیں دے گا۔ یہ سوچ کر میں واپس آگیا ہوں ۔ امی تو مجھے مارے بھی تو میں تیرا ہی بیٹا ، گھر میں رکھے تو بھی تیرا ہی بیٹا۔*

*★_ جب بچے نے یہ بات کی ماں کی ممتا جوش میں آگئی، اس نے بچے کو اپنے سینے سے لگالیا، ماتھے کا بوسہ دیا کہ بیٹا تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ جو محبت تمہیں میں دے سکتی ہوں وہ تمہیں اور کوئی نہیں دے سکتا تو آؤ میرے گھر میں زندگی گزارو۔*

*★_ امام ابن قیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب اسی طرح انسان یہ سوچے کہ کیا مجھے دوسرے یہ محبتیں دیں گے ؟ تو پھر ان کے دل میں بھی انسان کی قدر ہوتی ہے۔ اس واقعہ کو ذہن میں رکھ کر بہو یہ سوچے کہ اس گھر کے اندر ( جہاں میں اپنے خاوند کے گھر میں آئی ہوں ) جو محبتیں مجھے ساس دے سکتی ہے وہ محبتیں مجھے کوئی نہیں دے سکتا۔ جب اس طرح وہ گھر میں آکر رہے گی تو یقیناً اس کو ماں سمجھے گی، اس کی خدمت کرے گی اور پھر ساس بھی اس کو اپنی بیٹی سمجھے گی،*

*★_ اللہ رب العزت گھروں کے ان جھگڑوں سے ہمیں محفوظ فرمالے اور اس فساد کے عذاب سے اللہ ہمیں محفوظ فرما کر پر سکون زندگی نصیب فرمائے تا کہ دنیا میں بھی ہم اللہ کے نیک بندے بن کر زندگی گزار سکیں اور آخرت میں بھی اللہ کے پاس جا کر ہم سرخرو ہو سکیں ۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس بیان کے اندر جو باتیں کہی گئیں اس کے مطابق ہمیں اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔*

*★_ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ساس بہو کی ذمہ داریاں یاد کر لے اور سوچے کہ اسے یوں کرنا چاہیے، یوں کرنا چاہئے تھا۔ اور بہو، ساس کی ذمہ داریاں یاد کرلے اور گھروں میں جا کر پھر جھگڑا شروع کر دیں، آپ یہ نہیں کرتیں آپ یہ نہیں کرتیں۔ بلکہ حق یہ بنتا ہے کہ ساس اپنی ذمہ داریوں کو یاد کر لے کہ مجھے یہ کرنا ہے، نند اپنی ذمہ داریاں اور بہو اپنی ذمہ داریاں یاد کرے کہ مجھے یہ کرنا ہے۔ تمام خواتین اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔*

*★_ جب آپ وہ کریں گی جو آپ کر سکتی ہیں دیکھ لینا اللہ رب العزت پھر وہ کر دیں گے جو اللہ کے اختیار میں ہے۔ اللہ دوسروں کے دلوں میں آپ کی محبتیں ڈال دیں گے۔ گھر کے جھگڑوں سے اللہ نجات عطا فرمائیں گے۔ اللہ رب العزت ہمیں ان جھگڑوں کے عذاب سے محفوظ فرما کر ہمیں الفت و محبت کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔*

*®_ حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ_,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں _,*         
╥────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments