╭•═════•✭﷽✭•════•╮
* *««منکرات رمضان»»* *
▦══─────────────══▦
*☞- عام طور پر کچھ برائیاں اج کے دور میں رمضان کے مبارک ماہ میں باکثرت مسلمانوں سے صادر ہوتی ہے:-*
*★_1_ کثرت سے سونا :- رمضان میں اتنا سوتے ہیں کہ سال بھر اتنا نہیں سوتے یہ غفلت کی علامت ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے ،*
*2_ کثرت سے کھانا:- سحر اور افطار میں ہمیشہ اعتدال سے کام لینا چاہیے، جب آدمی زیادہ کھاتا ہے تو شہوانیت ابھرتی ہے اور پھر گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے، لہذا روزے کے مقصد کو سمجھتے ہوئے کھانے میں قدر احتیاط کرنا چاہیے کیونکہ روزے کا مقصد نفس کو کمزور کر کے گناہوں سے بچنا ہے،*
*★_3_ رات میں جاگنا کھیل کود میں وقت برباد کرنا:- اکثر نوجوان رات میں محفل بٹھاتے ہیں کرکٹ والیوال کیرم بورڈ وغیرہ کھیلنا یا رات دیر تک تفریحی کرنا ہوٹلوں چوراہوں پر بیٹھنا یہ سب امور خلاف شرع ہے، ان سے بالکل احتیاط ضروری ہے،*
*★_4_ لوگوں کے سامنے اپنے روزے میں شدت بھوک یا پیاس کا مظاہرہ کرنا :- بعض لوگ اپنے روزے میں شدتیں بھوکے پیاس کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھوک لگی ہے پیاس لگے ہے وغیرہ، یہ بھی غلط ہے رمضان صبر کا مہینہ ہے لہذا صبر کرنا چاہیے،*
*★_5_ فضولیات اور ٹی وی یا موبائل فون:- فضولیات (موسیقی کی چیزیں) اور ٹی وی, موبائل سے بالکل بچنا چاہیے بلکہ ٹی وی کو گھر سے باہر کر دینا چاہیے کیونکہ ٹی وی دین کے لیے ٹی بی ہے,*
*★_6_ تراویح سے جی چرانا:- تراویح سے جی چرانا یا اس طرح پڑھنا کہ جب امام رکوع میں جائے تب شامل ہونا اور تب تک بیٹھے رہنا یا باتیں کرتے رہنا جو کئی گناہوں کا سبب ہے،*
*"_ مسجد میں بات کرنے کا گناہ, لوگوں کو تکلیف پہنچانے کا گناہ, لوگوں کی نماز سے خشوع وخضوع کے چلے جانے کا سبب بننے کا گناہ اور رمضان جیسے افضل ماہ کی بے حرمتی کا گناہ، لہذا نفس سے مجاہدہ کر کے مکمل تراویح ادا کریں،*
*★_7_ کمسن بچوں سے روزہ رکھوانا:- بعض لوگ کمسن بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں فوٹو کھنچواتے ہیں اور اخبارات میں چھپواتے ہیں، ان میں دو بڑی خرابیاں ہیں:-*
*١_ تصویر کھینچوانا, ٢_ بچوں کے ذہن میں نو عمری سے ہی ریاکاری دکھاوے کے بیج بو دینا، عبادت میں اخلاص ضروری ہے، اس لیے اس غلط رسمیات سے پرہیز کیا جائے،*
*★_8_عورتوں کا تراویح نہ پڑھنا :- بہت سی عورتیں تراویح کی نماز نہیں پڑھتی ہیں اور اس کو صرف مردوں کا کام سمجھتی ہیں، حالانکہ نمازِ تراویح بالغ مرد عورت سب کے لیے سنت مؤکدہ ہے،*
*★_9_ دعوتِ افطار کا رواج:- دعوتِ افطار اب یہ عبادت کی شکل چھوڑ کر رواض اور فیشن کی شکل اختیار کیے جا رہا ہے دعوت افطار بہت اچھا کام ہے، دعوت افطار بہت اچھا کام ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ خارجی خرابیاں ایسی شامل ہو گئی ہیں کہ ریاکاری دکھاوا، فضول خرچی کی وجہ سے یہ عبادت دعوتِ رحمانی سے محرومی کا سبب ثابت ہو رہی ہے، افطار عبادت افطار پارٹی ہوتی جا رہی ہے، جماعت چھوٹ رہی ہے، کم سے کم مسجد کی جماعت تو افطار کی نظر ہو ہی جاتی ہے، افطار کے وقت دعاؤں کا اہتمام نہیں ہوتا، غیروں کی شرکت ہونے لگی، بے پردگی، بے شرمی اور دیگر خرابیوں کی وجہ سے اللہ معاف کرے بعض دعوتیں تو شرکت کے لائق بھی نہیں ہوتی ہیں،*
*★_10_ ختم تراویح کے دن مسجدوں میں ڈیکوریشن:- ختم تراویح کے دن مسجدوں میں ڈیکوریشن، سجاوٹ میں فضول خرچی اور دیگر غیر ضروری انتظامات میں وقت کی بربادی کے ساتھ ساتھ منتظم کی تراویح تک ترک ہو جاتی ہے اور عبادات کی طرف سے عام طور پر توجہ ہٹ کر اسراف میں لگ جاتی ہے، اس لیے اس فضول لائٹنگ ڈیکوریشن سجاوٹ وغیرہ سے بچنا بھی بے حد ضروری ہے،*
*★_11_ تقسیمِ مٹھائی اور ہدیہ :- ختمِ تراویح کے دن تقسیمِ مٹھائی اور حفاظ کرام کو ہدیہ دینے کے لیے جو عام چندے کی صورت اختیار کی جاتی ہیں ان میں بہت ساری خرابیاں ہیں، کتنے ہی لوگ جبرن نامی کے خوف سے دیتے ہیں، کتنے ہی لوگ جن کے پاس مالی انتظام نہیں ہوتا لیکن اپنی عزت رکھنے کی خاطر انہیں اپنی اوقات سے بڑھ کر حصہ لینا پڑتا ہے،*
*★_12_ اجرت پر تراویح وغیره:- اللہ تعالی سے شرم و حیا کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی بھی دینی عبادت کو دنیا کے حصول کے لیے مقصود نہ بنائے اور معمولی دنیوی نفع کی لالچ میں آخرت کا خطیر نفع قربان نہ کرے۔*
*"_ آج کل رمضان المبارک میں تراویح سنانے کے عوض بڑی آمدنی کا رجحان بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس کے لیے بڑے بڑے شہروں میں اچھی اچھی جگہیں تلاش کی جاتی ہیں۔*
*"_ قرآن کریم ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے چند کوڑیوں کے عوض فروخت کر دیا جائے محض قرآن کی تلاوت پر اجرت مقرر کرنا قرآن کریم کی کھلی ہوئی توہین اور ناقدری ہے۔ اور اس سلسلہ میں جو فرضی تاویلات اور حیلے اپنائے جاتے ہیں وہ بھی نا قابل توجہ ہیں اس لیے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے لکھا ہے کہ دیانات (فیما بینہ و بین اللہ معاملات) میں حیلوں کا اختیار کرنا واقعی حلت کے لیے مفید نہیں ہے۔ (امداد الفتاوی ج ۳۸۵/۱)*
*★_ بہت سے لوگ حفاظ کی مالی پریشانی کا ذکر کرتے ہیں کہ ختم پر اس کی اعانت ہو جاتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ وہ پہلے سے فقیر تھا یا تراویح میں قرآن ختم کرتے ہی غریب ہو گیا ؟ اگر پہلے سے ہی پریشان تھا جیسا تو ختم سے پہلے اس کی مدد کیوں نہیں کی گئی؟ کسی غریب کی مدد کرنا کبھی بھی منع نہیں ہے۔ منع تو یہ ہے کہ ان کو قرآن کی اجرت کھلائی جائے۔*
*★_ بعض لوگ یہ بہانہ ڈھونڈتے ہیں کہ اگر اجرت نہ دی جائے تو مساجد میں ختم قرآن کا رواج ختم ہو جائے گا۔ حالانکہ قرآن کریم کوئی ایسا شرعی واجب یا لازم نہیں ہے کہ اس کے کے لیے ایک ناجائز معاملہ کا ارتکاب کیا جائے۔ پھر یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ اس سے ختم قرآن کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ اس لیے کہ امت میں الحمد للہ ایسے حفاظ کی کمی نہیں ہے جو خود اپنے قرآن کی حفاظت کے لیے مساجد تلاش کرنے کے فکر مند نہ رہتے ہوں۔*
*"_ اگر دینے دلانے کا رواج بالکل ختم ہو جائے تو خود بخود حفاظ کے دل سے طمع اور لالچ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لیے شامی میں نقل کیا گیا ہے کہ اجرت پر تلاوت کے ذریعہ ایصال ثواب کرانے پر اجرت لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہیں۔ (شامی زکریا / ۷۷)*
*"_ کیونکہ دینے والے کے ارادے سے بھی لینے والے کو حوصلہ ملتا ہے۔ اگر اس معاملہ میں دینے والے شریعت پر عمل کرتے ہوئے دینے سے منع کر دیں تو لینے والوں کو مطالبہ کا حوصلہ ہو ہی نہیں سکتا۔*
*👈🏻_ اگر مخلص حافظ نہ ملے؟ ( یعنی بغیر اجرت تراویح پڑھانے والا حافظ نہ ملے ؟ )*
*★_ بالفرض اگر کسی جگہ بلاعوض پڑھانے والا مخلص حافظ نہ مل سکے تو فتویٰ یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو کرایہ دار حافظ سے پورا قرآن سننے کے بجائے "الم ترکیف" سے تراویح پڑھ لینی چاہیے۔*
*★_ حکیم الامت حضرت تھانوی تحریر فرماتے ہیں: جہاں فقہاء نے ایک ختم کو سنت کہا ہے جس سے ظاہراً سنت مؤکدہ مراد ہے، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں لوگوں پر ثقیل ہو وہاں الم ترکیف وغیرہ سے پڑھ دے۔ پس جب ثقبل جماعت کے محذور سے بچنے کے لیے اس سنت کے ترک کی اجازت دے دی، تو استیجار علی الطاعة ( عبادت پر اجرت لینے ) کا محذور اس سے بڑھ کر ہے۔ اس سے بچنے کے لیے کیوں نہ کہا جاوے گا کہ الم ترکیف سے پڑھ لے۔ ( امداد الفتاوی ١/٤٨٤),*
*📗_ اللہ سے شرم کیجئے -١٤٤,*
*👈🏻_ 13_ بچوں کو پہلا روزہ رکھوانے میں ہونے والی رسمیات:-*
*★_ ہماری طرف یہ رواج ہے کہ جب بچے کو پہلا روزہ رکھواتے ہیں تو افطار کے وقت اس کے گلے میں ہار ڈالتے ہیں، کھانا پکا کر دوست احباب رشتہ داروں کو کھلاتے ہیں، وہ بدلے میں بچے کو روپیہ پیسہ (گفٹ) دیتے ہیں، کھانا مسجد میں بھی افطار کے لیے بھجواتے ہیں، کیا ایسا کھانے کا ثبوت کسی حدیث سے ثابت ہے یا نہیں اور کیا یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں ؟*
*★_ اسے رسم کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں, اس کو ثواب سمجھ کر کرنا دین میں اپنی طرف سے زیادتی کرنے کی وجہ سے بدعت اور ناجائز ہے بلکہ ثواب نہ سمجھتے تو بھی اس کا ترک لازم ہے کیونکہ یہ ایسی رسم بن چکی ہے کہ جس کی قباہت اہل علم پر ظاہر ہے, (احسن الفتاوی -١/٣٧٠)*
*★_14_ عام طور پر مسجدوں میں اعتکاف کے لیے کوئی نہیں بیٹھتا جبکہ آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ الل کفایہ ہے،*
*"_ بعض لوگ بوجھ اتارنے کے لیے معذور قسم کے لوگوں کو روٹی کپڑے پیسے وغیرہ کا لالچ دے کر اعتکاف میں بٹھا دیتے ہیں,*
*★_15_ بعض حضرات بلکہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ رمضان میں اس لیے نیکی (نہ روزہ نہ نماز نہ زکواۃ وغیرہ ) کی ہمت نہیں کرتے کہ رمضان کے بعد کہاں یہ سب ہوگا ؟ یا یہ کہ سدھر جائیں گے وغیرہ,*
*"_ یہ سب شیطانی وساوس ہیں، رمضان تو خوب عبادت سے گزارنے، پھر سال بھر اتنا سب کچھ نہ کرے مگر اتنا ضرور کرے کہ فرائض سنت، تلاوت، صلہ رحمی، حرام سے دوری اور دعوت تبلیغ میں لگنے کا اہتمام سال بھر ہونا چاہیے، اللہ ہماری مدد فرمائے اور ہمیں اخلاص اور ہمت کے ساتھ تمام معمولات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہم سے راضی ہو جائے (آمین یا رب العالمین)*
*"__ الحمدللہ پوسٹ مکمل ہوئی _,*
*📗__ رمضان کس طرح گزاریں،*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
*❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
▉
0 Comments