*✦- عمر ثانی- عمر بن عبدالعزیز -✦*
┗─────────────❀
*✺ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ✺*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خواب دیکھ رہے تھے ۔ خواب سے بیدار ہوئے تو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ سے خواب کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:- میری اولاد میں سے ایک شخص ہوگا، اس کی پیشانی پر زخم کا نشان ہوگا۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا_,*
*★_ اس خواب کے بعد آپ اکثر فرمایا کرتے تھے:- میری اولاد میں سے وہ کون ہے جو زخمی پیشانی والا ہوگا_,*
*"_ دراصل اس وقت آپ کی اولاد میں سے کسی کی پیشانی پر بھی زخم کا نشان نہیں تھا۔ لہٰذا اس خواب کی تعبیر سمجھ میں نہیں آرہی تھی لیکن یہ خواب تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا، کسی عام آدمی کا خواب تو تھا نہیں ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس کی کوئی تعبیر نہ ہو۔*
*★_ دوسری طرف آپ نے ہدایت فرمادی تھی کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی خلیفہ نہیں بنے گا۔ یعنی آپ نے اپنی اولاد کو خلافت سے محروم کر دیا تھا۔ آپ نے جب یہ خواب اپنے گھر والوں کو سنایا تھا تو خوشی تو انھیں بھی ہوئی تھی لیکن تعبیر سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ البتہ اب سب لوگ خواب کی تعبیر کا انتظار کر رہے تھے۔ آپ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تو اکثر اپنے والد محترم کا قول دہرایا کرتے تھے- کاش ! مجھے معلوم ہوتا کہ حضرت عمر کی اولاد میں سے وہ کون ہے جس کے چہرے پر زخم کا نشان ہو گا، وہ میری سیرت کو اپنائے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک رات گشت پر تھے۔ آپ نے کسی عورت کو کہتے سنا:- بیٹی دودھ میں پانی ملا دے۔ صبح ہونے والی ہے ۔“*
*"_ جواب میں لڑکی کی آواز سنائی دی:- ماں ! میں دودھ میں پانی کیسے ملاؤں۔ امیر المومنین نے تو دودھ میں پانی ملانے سے منع کر رکھا ہے،*
*"_اس پر ماں کی آواز سنائی دی:-امیر المومنین کون سا دیکھ رہے ہیں,*
*"_بیٹی کا جواب سنائی دیا۔ماں! امیر المومنین نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے۔“*
*★_ لڑکی کی باتیں سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے ۔ صبح ہوئی تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت عاصم کو بلا کر رات کا واقعہ سنایا اور فرمایا:- جاؤ ! پوچھو! وہ لڑکی کون ہے۔ حضرت عاصم گئے، معلوم ہوا، اس لڑکی کا تعلق بنی ہلال سے ہے، انھوں نے آکر والد محترم کو بتایا ۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- بیٹا جاؤ! اس لڑکی سے نکاح کر لو .... وہ یقیناً اس قابل ہے کہ اس سے ایک ایسا شخص پیدا ہو جو سارے عرب کی قیادت کرے ۔“*
*★_ والد محترم کا حکم سن کر حضرت عاصم نے اس لڑکی سے نکاح کر لیا۔ اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس بچی کا نکاح عبدالعزیز بن مروان بن حکم سے ہوا۔ ان سے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ پیدا ہوئے۔آپ مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔*
*★_ بچپن میں آپ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے, حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کی والدہ کے چچا تھے۔ ان کے پاس سے واپس اپنی ماں کے پاس آتے تو ان سے کہتے :- ماں میں اپنے ماموں ( یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ) جیسا بننا چاہتا ہوں،*
*★_ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کچھ بڑے ہوئے تو ان کے والد عبدالعزیز بن مردان مصر کے گورنر بنا دیے گئے۔ ان کے بڑے بھائی عبد الملک بن مروان اس وقت امیر المومنین تھے۔ آپ کے والد تو مصر چلے گئے ۔ بعد میں انھوں نے اپنی بیوی کو بھی مصر بلا لیا۔ وہ بچے کو لے کر مصر جانے لگیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:- اس بچے کو میرے پاس چھوڑ جاؤ،*
*★_ چنانچہ آپ کو ماموں کے ہاں چھوڑ دیا گیا۔ والدہ مصر چلی گئیں۔ عبد العزیز نے بچے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: بچے کو ماموں نے اپنے پاس رکھ لیا ہے_, یہ سن کر عبد العزیز نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور یہ بات انھوں نے اپنے بھائی امیر المومنين عبد الملک بن مروان کو لکھ بھیجی۔ عبد الملک نے ان کا ایک ہزار دینار ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔*
*★_ کچھ عرصہ بعد آپ اپنے والد سے ملنے مصر آئے ۔ اپنے بھائی اصبغ بن عبدالعزیز کے ساتھ گھوڑے دیکھنے کے لیے اصطبل میں چلے گئے اور ایک گھوڑے پر سوار ہو گئے ۔ گھوڑا شوخ تھا۔ اس نے اپنے سوار کو نیچے گرا دیا۔ آپ کی پیشانی پر چوٹ لگی اور خون تیزی سے بہنے لگا۔ آپ کے بھائی اصبغ نے جو یہ دیکھا تو بجائے گھبرانے اور پریشان ہونے کے زور زور سے بنسنے لگے۔*
*★_ عبدالعزیز بن مروان کو معلوم ہوا تو دوڑ کر آئے. دیکھا کہ ان کا چھوٹا بیٹا بھائی کے بری طرح زخمی ہونے پر قہقہے لگارہا ہے۔ انھوں نے غصے میں آکر کہا:- تمہارے بھائی کی پیشانی پر زخم آگیا زخم سے خون بہہ رہا ہے اور تم ہنس رہے ہو، اس پر اصبغ نے کہا:- بابا جان! یہ بات نہیں ہے کہ نہ تو میں ان کے گرنے پر پریشان ہوں، نہ چوٹ لگنے پر اصل بات یہ ہے کہ ہمارے گھرانے میں یہ بات مشہور ہے کہ ایک پیشانی پر زخم کے نشان والا عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا اور آج تک ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کون ہے سو آج معلوم ہو گیا۔ وہ یہی میرے بھائی ہیں تو آج اس خواب کی تمام علامتیں پوری ہوگئی ہیں۔ اللہ کی قسم ! یہی بنی امیہ کے زخمی پیشانی والے ہیں۔*
*★_ عبد العزیز بن مروان یہ سن کر خوش ہوئے اور بولے:- " جس شخص سے یہ امیدیں ہوں اس کی تعلیم و تربیت مدینہ منورہ ہی میں ہونی چاہئے _,*
*★_ اس زخم کی وجہ سے عبد الملک کے بیٹے آپ سے حسد کرنے لگے، لیکن عبد الملک آپ سے بہت محبت کرتے تھے، انھیں اپنے پاس بٹھاتے، آپ کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے اور انھیں اونچی جگہ بٹھاتے، کوئی اعتراض کرتا کہ آخر آپ اس بچے کو اتنی عزت کیوں دیتے میں تو کہتے- تمہیں کیا پتا ! اس بچے کا کیا مقام ہے یہ خلیفہ ہوں گے، کیونکہ یہ بنی مردان کے زخمی پیشانی والے ہیں اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے خواب کی تعبیر ہیں، جب زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گی تو یہ اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے، پھر میں کیوں نہ انھیں اونچی جگہ پر بٹھاؤں ۔*
*★_ مدینہ اس وقت علم کا مرکز تھا۔ علم کے اس مرکز میں آپ نے علم حاصل کیا۔ قرآن کریم حفظ کیا۔ ان کے استاد صالح بن کیسان تھے۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے حضرت عمر کو ان کی شاگردی میں دے دیا۔ صالح بن کیسان اس وقت کے مشہور محدث تھے ۔ یہ کیسے استاد تھے ۔ اس واقعے سے اندازہ ہو جاتا ہے۔*
*★_ ایک روز حضرت عمر بن عبدالعزیز دیر سے مسجد میں آئے، جماعت ہو چکی تھی۔ صالح بن کیسان نے ان سے پوچھا:- دیر سے کیوں آئے ۔انھوں نے جواب دیا " بال سنوارنے میں دیر ہو گئی، شاگرد کا جواب سن کر صالح بن کیسان بہت حیران ہوئے۔ انھوں نے سوچا، ان کے دل میں نماز سے زیادہ بالوں کی اہمیت ہے انھوں نے فوراً یہ بات آپ کے والد عبد العزیز کو لکھ بھیجی۔ انھوں نے مصر سے ایک آدمی کو روانہ کیا۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے اس نے حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کے بال مونڈ ڈالے، پھر کسی سے کوئی بات نہ کی۔*
*★_ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ کے ایک اور استاد عبید اللہ بن عبداللہ تھے، حضرت عمر بن عبد العزیز ان سے بہت محبت کرتے تھے ۔ اکثر ان کی خدمت میں حاضر رہتے ۔ اس لیے کہ آپ علم کا سمندر تھے۔ ان استاد کا آپ کی زندگی پر بہت اثر رہا۔ ایک مرتبہ اپنی اہلیہ فاطمہ سے کہنے لگے:- فاطمہ ! جب مجھے غصہ آتا ہے تو اپنے سامنے اپنے استاد عبید اللہ کو کھڑا پاتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں، آپ مجھے غصے سے منع فرمارہے ہیں،*
*★_ مدینہ منورہ میں آپ نے حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ انھی دنوں آپ کے والد عبد العزیز انتقال کر گئے تو خلیفہ عبدالملک نے آپ کو اپنے بچوں میں شامل کر لیا اور اپنی بیٹی فاطمہ سے آپ کا نکاح کر دیا، پھر عبد الملک بن مروان انتقال کر گئے ۔ ان کی جگہ ان کا بیٹا ولید بن عبد الملک خلیفہ بن گیا۔ اس وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز کی عمر 25 سال تھی۔ تب ولید نے آپ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کر دیا۔*
*★_ آپ ربیع الاول 87 ہجری میں مدینہ منورہ کے حاکم مقرر ہوئے اور اس شان و شوکت سے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے کہ اونٹوں کا جلوس آپ کے ساتھ تھا۔ مدینہ منورہ کے لوگ آپ کی آمد پر خوش ہوئے۔ آپ اپنے دادا مروان کے گھر ٹھہرے۔ یہ بہت وسیع اور شان دار گھر تھا۔ لوگ آپ کو مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے۔*
*★_ آپ کے جسم سے خوشبویں اٹھ رہی تھیں۔ آپ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ناز ونعم میں پلے تھے۔ خدمت گزار آپ کے آس پاس رہتے تھے ۔ دولت کی کمی نہیں تھی۔ ان سب باتوں نے آپ کے مزاج میں شان و شوکت پیدا کر دی تھی۔ آپ نے بال بڑھائے ہوئے تھے، تہ بند جوتوں پر گرا ہوا تھا۔ انھلا اٹھلا کر چلتے تھے۔ غرض بچپن کی کوئی ادا آپ نے اب تک چھوڑی نہیں تھی۔*
*★_ آپ نے خلیفہ ولید سے ایک بات پہلے کہہ دی تھی اور وہ یہ تھی:- مجھ سے ظالم کے کاموں پر باز پرس نہ کی جائے۔ مطلب یہ تھا کہ میں ظالم کو نہیں چھوڑوں گا۔ آپ نے مدینہ کی گورزی کی ابتدا اس طرح کی کہ چوٹی کے پانچ چھے عالموں کو مشورے کے لیے مقرر کر لیا ۔ آپ ان سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی آپ ان کے مشوروں سے اختلاف بھی کرتے تھے۔ اس وقت تک آپ کو اشعار وغیرہ سننے کی عادت بھی تھی اشعار سنانے والوں کو انعام بھی دے دیا کرتے تھے۔ جوانی میں آپ کی یہ حالت تھی کپڑے بھی بہت قیمتی پہنتے تھے بڑے بڑے بال رکھتے تھے۔*
*★_ ایک روز آپ مسجد میں گئے اور نماز پڑھنے لگے بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے، آپ کے نزدیک ہی حضرت سعید بن مسیب بیٹھے تھے۔ انہوں نے بلند آواز میں قرآت سنی تو اپنے غلام سے بولے:- ارے! اس نمازی کو ہمارے پاس سے ہٹا دے، کیونکہ اس کی قرات سے ہمیں تکلیف ہو رہی ہے،*
*★_ غلام نے یہ کوشش کی لیکن حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ برابر قرآت کرتے رہے، سعید بن مسیب نے اپنے غلام سے دوبارہ فرمایا:- کیا میں نے تم سے کہا نہیں کہ اس نمازی کو ہمارے پاس سے ہٹا دے۔“*
*"_ غلام بے چارہ گورنر صاحب کو پہچانتا تھا وہ انہیں وہاں سے ہٹنے کے لیے کہنے سے گھبرا رہا تھا، چنانچہ اس نے قدرے بلند آواز میں کہا:-مسجد ہماری جاگیر نہیں ہے_“*
*"_ حضرت عمر نے یہ الفاظ سن لیے وہ سمجھ گئے کہ کیا معاملہ ہے۔ چنانچہ وہاں سے ہٹ کر دور گوشے میں جا کر نماز ادا کرنے لگے۔*
*★_ آپ قرآن کریم کی تلاوت بہت بن سنور کر کیا کرتے تھے۔ ایک روز مسلم بن جندب سے قرآن سنا، یہ مسجد کے واعظ اور قاری تھے۔ یہ قرآن پاک بہترین ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے آپ کو ان کی قرآت بہت اچھی لگی آپ نے اس موقعے پر فرمایا: -اگر کوئی قرآن کو ترو تازہ سننا چاہے تو مسلم بن جندب کی قرآت سنے ۔“*
*★_ اس زمانے میں آپ کو مذاق کرنے کی بھی عادت تھی, تاہم حد سے نہیں بڑھتے تھے۔ مدینہ منورہ کے لوگ آپ کو اس زمانے میں یا امیر یا امیر کہنے لگے تھے ۔ گورنر ہونے کی حیثیت سے اب انھیں کوئی عمر نہیں کہتا تھا۔*
*★_ ایک روز آپ مدینہ منورہ کے بازار سے گزر رہے تھے اور حالت یہ تھی کہ آپ کا کپڑا زمین سے لگ رہا تھا اور گھسٹ رہا تھا، محمد بن کعب قرظی نے دیکھ لیا۔ انھوں نے آواز دے کر کہا:-اے عمر ! رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کپڑا ٹخنوں سے آگے بڑھ جائے وہ آگ میں ہے،*
*★_ حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کو یہ سن کر غصہ آگیا ۔ انھوں نے حضرت کعب قرظی کو سخت لہجے میں جواب دیا۔حضرت کعب تو ان کے خیر خواہ تھے۔ ان کا بھلا چاہتے تھے۔ بعد میں حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کو بھی محسوس ہو گیا کہ کعب قرظی کی نیت نیک ہے۔*
*★_ پھر ایک واقعہ ایسا ہوا کہ جس نے حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کو بدل کر رکھ دیا۔ ایک شخص نے کوئی جرم کیا۔ حضرت عمر نے اسے قید کر دیا اور جتنی سزا اس کی بنتی تھی، اس سے زیادہ اسے قید میں رکھا ۔ حضرت مزاحم نے آپ سے ملاقات کی ۔ حضرت مزاحم بہت بڑے بزرگ تھے۔ انھوں نے ملاقات کے دوران ان سے کہا:- آپ اس شخص کو رہا کر دیں۔ اس کی سزا کی مدت پوری ہو چکی ہے، آپ یہ بات سن کر غصے میں آگئے اور بولے:- میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہاں تک کہ کچھ اور مدت گزر جائے ۔“*
*★_ حضرت مزاحم نے فور ا فر مایا: "عمر ! میں تمہیں اس صبح سے ڈراتا ہوں کہ جس صبح قیامت آئے گی۔ عمر میں تو تمہارا نام ہی بھول گیا ہوں، کیونکہ لوگ تمہیں کثرت سے امیر ، امیر کہتے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں ، امیر نے یہ کہا، امیر نے یہ کہا،*
*★_حضرت مزاحم کی یہ بات سن کر انھیں زندگی میں پہلی بار جھٹکا لگا۔ خود فرماتے ہیں:- مجھے مزاحم ہی نے بیدار کیا۔ جونہی انہوں نے یہ بات کہی، مجھے ایسا معلوم ہوا، گویا میرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا گیا ہو ۔ ( ابن جوزی )*
*★_ خلیفہ ولید نے حضرت عمر کو حکم بھیجا:- مسجد نبوی کو وسیع کرایا جائے اور امہات المومنین کے حجرے مسجد میں ملا دیے جائیں۔ اس سے پہلے ولید کے والد عبد الملک نے مسجد وسیع کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن مدینہ منورہ کے لوگ چیخ پڑے تھے اور رونے لگ گئے تھے۔ اس لیے وہ اپنے اس ارادے سے رک گئے تھے ۔ اب ولید نے محسوس کیا کہ یہ کام عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعے لیا جا سکتا ہے۔*
*★_ آپ نے پہلے علماء کرام کو جمع کیا۔ ان کے سامنے خلیفہ کا حکم رکھا ۔ ان سب نے یہی کہا کہ مسجد کو وسیع کرنا بہت ضروری ہے۔“*
*"_ پھر سب علماء مسجد نبوی میں آئے، تاکہ نشان دہی کر سکیں کہ مسجد کہاں تک وسیع کی جا سکتی ہے۔ اس طرح حضرت عمر نے امہات المومنین کے حجرے مسجد میں شامل کر دیے۔ مسجد کے چاروں طرف جو زمین تھی، اسے بھی خرید کر مسجد میں شامل کر دیا۔*
*★_ اس طرح محراب کو بھی آگے بڑھایا گیا۔ مسجد کو بہت خوب صورت بنوایا۔ مینارہ بلند کردیا۔ حضرت عمر سب سے پہلے شخص ہیں، جنہوں نے محرابوں کے نیچے امام کے کھڑے ہونے کی جگہ بنوائی۔*
*★_ جب اذان دینے کے لیے مینارہ بنایا گیا تو بہت سے مسلمان ملکوں میں بھی اذان کے لیے مینارے بنائے جانے لگے۔*
*★_ اس کے بعد حضرت عمر کو ولید کا ایک اور حکم ملا۔ وہ حکم یہ تھا: گھاٹیاں آسان بنائی جائیں، جگہ جگہ کنویں کھدوائے جائیں، حاجیوں کے راستے میں ہوٹل اور سرائیں خراسان کے راستے میں کثرت سے بنوائی جائیں، تاکہ گزرنے والوں کو مشکلات نہ پیش آئیں۔ ان سراؤں میں ضرورت کی چیزیں رکھی جائیں۔ مدینہ منورہ میں فوارہ بنوایا جائے،*
*★_ حضرت عمر نے ان ہدایات کے مطابق یہ تمام چیزیں بنوائیں۔ حضرت عمر کے ان تمام کاموں سے خوش ہو کر ولید نے آپ کو مدینہ منورہ کے ساتھ مکہ معظمہ اور طائف کا بھی حاکم بنا دیا ۔ 90 ہجری میں آپ کو سارے صوبہ حجاز پر والی مقرر کر دیا گیا۔*
*★_ 91 ہجری میں ولید حج کے لیے آیا۔ اس کے لیے مسجد نبوی خالی کرائی گئی ۔ البتہ سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ اپنی جگہ سے نہ اٹھے۔ ان سے کہا گیا کہ خلیفہ مسجد میں ہونے والی توسیع کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔ آپ یہاں سے ہٹ جائیں ۔ مسجد سے باہر نکل جائیں، لیکن حضرت مسیب نے اٹھنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے پچاس سال سے کبھی تکبیر تحریمہ نہیں چھوڑی تھی۔ ولید کے حکم پر کیسے اٹھ جاتے،*
*★_ دوسری طرف سعید بن مسیب نے ولید کی بیعت کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اس لیے ولید ان سے سخت ناراض تھا ۔ اب دوسری بات یہ ہوگئی کہ وہ اس کے آنے پر مسجد سے باہر نہیں گئے،*
*★_ ولید مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا، مسجد بالکل خالی ہے، لیکن صرف ایک شخص موجود ہے۔ چنانچہ اس نے پوچھا:- یہ شخص کون ہے۔ کیا یہ سعید ہیں ؟ حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب میں کہا:- جی ہاں! یہ وہی ہیں۔ اگر انہیں آپ کے بارے میں معلوم ہوتا تو یہ اپنی جگہ سے اٹھ جاتے ۔ آپ کو سلام کرتے مگر ان کی نظر کمزور ہے۔“*
*★_اس پر ولید نے کہا:- ہمیں ان کا حال معلوم ہے۔ ہم ان کے پاس چلے جاتے ہیں، اب ولید خودان کے پاس گیا اور بولا :- شیخ آپ کا کیا حال ہے ؟ حضرت سعید بن مسیب اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ ہلے، البتہ انھوں نے کہا: الحمد للہ میں خیریت سے ہوں، امیر المومنین کا کیا حال ہے۔“*
*"_حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ ان کے کردار کی مضبوطی سے بہت متاثر ہوئے,*
*★_ اسی طرح مدینہ منورہ کے باقی لوگ بھی ولید سے خوش نہیں تھے، کیونکہ اس نے امہات المومنین کے حجروں کو گرا دیا تھا۔ لوگوں میں اس کے خلاف غم و غصہ تھا۔ پھر ولید کا انتقال ہو گیا اور اس کے بھائی سلیمان خلیفہ بنے۔ آپ کو سلیمان بن عبدالملک ولید کی نسبت پسند تھے۔ وہ نرم مزاج تھے۔ ادھر سلیمان بھی حضرت عمر کو بہت پند کرتے تھے۔*
*★_ پھر جب سلیمان کی موت قریب آگئی تو انھوں نے کہا: -میرے بچے میرے سامنے لائے جائیں ۔ شاید کسی بچے میں مجھے مردانگی کے جوہر نظر آجائیں ۔ مگر اسے اپنے بچوں میں خلیفہ بننے کے قابل کوئی نظر نہ آیا۔ آخر اس کی نظر حضرت عمر بن عبد العزیز پر پڑی, اس سلسلے میں اس نے رجاء بن حيوة سے مشورہ کیا۔*
*★_ رجاء اردن کے علماء میں سے تھے۔ تمام شامیوں میں اپنے زمانے میں بڑے عبادت گزار تھے۔ بہت سنجیدہ اور پر وقار انسان تھے ۔ حکمران انھیں ان کی فضیلت کی وجہ سے عزیز رکھتے تھے۔ انھیں اپنا مشیر مقرر کرتے تھے۔ اپنی اولاد پر انھیں نگران مقرر کر دیتے تھے ۔ انھوں نے عبد الملک کے زمانے سے لے کر سلیمان تک حکمرانوں کی سختیاں دیکھی تھیں ۔ یہ ان پر تنقید بھی کرتے تھے۔ سلیمان کے زمانے میں تو رجاء اس کے خاص آدمیوں میں شامل تھے۔ سلیمان کے نزدیک انھیں وہ مقام حاصل تھا جو کسی کو نہیں تھا۔ سلیمان کثرت سے ان سے مشورہ کرتا تھا۔ اب خلافت کے سلسلے میں سلیمان نے انھیں بلایا تو انھوں نے مشورہ دیا۔ میرے نزد یک عمر بن عبد العزیز حکومت کے زیادہ لائق ہیں،*
*★_ اس پر سلیمان نے کہا:- لیکن میں اولاد عبد الملک کا کیا کروں. اگر عمر کوخلیفہ بناتا ہوں اور ان میں سے کسی کو نہیں بناتا تو فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا اور وہ اسے نہیں چھوڑیں گے جو ان پر حاکم ہوگا، ہاں ایک تدبیرے یہ کہ میں عمر بن عبد العزیز کے بعد کسی کو نامزد کر جاؤں... تو سن لو میرے بعد عمر خلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد یزید بن عبد الملک خلیفہ ہوں گے،*
*★_اس پر رجاء بن حیوۃ نے کہا:- آپ یہ وصیت لکھ دیں اور اس پر مہر لگا دیں۔ میں لوگوں سے اس کے لیے بیعت لے لوں گا۔ جس کا نام اس بند خط میں ہوگا۔ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں گے اور آپ بھی ۔“*
*★_ سلیمان نے رجاء کا یہ مشورہ بھی مان لیا۔ اس نے وصیت لکھی اور اس پر مہر لگوائی، پھر اسے لپیٹ کر اپنے گھر والوں کو بلایا اور ان سے بولا: -اس مہر شدہ اور لپٹے ہوئے پرچے میں جس شخص کو خلیفہ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، اس کے لیے بیعت لے لی جائے ۔“*
*★_ حاضرین نے اسی وقت بیعت کر لی۔ سلیمان نے وہ وصیت نامہ رجاء کو دے دیا۔ جب لوگ چلے گئے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ رجاء کے پاس آئے اور بولے:- میرے دل میں سلیمان کا احترام ہے، مجھے ان سے محبت ہے، وہ بھی مجھ پر مہربان ہیں، ان کے مجھ پر احسانات بھی ہیں، میں ڈرتا ہوں انھوں نے خلافت کے سلسلے میں میرے بارے میں کوئی وصیت نہ کر دی ہو۔ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بتا دو، اس میں کس کا نام ہے۔ اگر تم اس وقت مجھے بتا دو گے تو میں اس قابل تو ہوں گا کہ انکار کردوں بعد میں میں انکار کرنے کے قابل نہیں رہ جاؤں گا۔*
*★_ اس پر رجاء نے کہا:- میں آپ کو وصیت نامے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتاؤں گا۔ یہ سن کر وہ ناراض ہوئے اور چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر آئے اور بولے:- رجاء! اللہ کے لیے امیر المومنین کو میرے بارے میں بتا دو کہ میں خلافت کے قابل نہیں،*
*"_ رجاء نے یہ سن کر کہا:-آپ وصیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں لیکن میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا ۔“*
*★_ ایک دن سلیمان نے رجاء سے کہا:- رجاء ! تم ذرا عمر بن عبدالعزیز کا امتحان لو یہ جاننے کی کوشش کرو کہ ان کا ظاہر اور باطن کیسا ہے، بظاہر تو یہ بہت نیک ہیں، اچھے مشیر ہیں لیکن ان کا باطن کیسا ہے ضرورت تو یہ جاننے کی ہے۔*
*★_ رجاء ان کا امتحان لینے کے لیے ان کے گھر مہمان ٹھہرے۔ وہ وہاں رہ کر ان کا بغور جائزہ لیتے رہے۔ آخر واپس آکر انھوں نے خلیفہ سلیمان کو بتایا: عمر کا قول وفعل ایک ہے جو کہتے ہیں، وہ کرتے بھی ہیں ۔*
*"_ اس طرح رجاء اور سلیمان لوگوں کے لیے خیر کا سبب ہنے کہ انھوں نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کو خلیفہ بنا دیا۔*
*★_ ایک روز سلیمان تفریح کے لیے اچھے کپڑے پہن کر گھر سے نکلا۔ راستے میں ایک ٹیلے پر ایک قبر نظر آئی۔ گھر واپس آیا تو اسی رات بیمار ہو گیا۔ پھر بیماری زور پکڑتی چلی گئی۔ اس طرح دوسرے یا تیسرے جمعے کو وہ فوت ہو گیا۔ اس وقت سلیمان کے پاس صرف رجاء موجود تھے۔ انھوں نے اس پر سبز چادر ڈال دی اور لوگوں کے درمیان پہنچے۔ اعلان کروایا کہ سب لوگ جمع ہو جائیں، خلیفہ کی وصیت سنانا چاہتا ہوں،*
*★_ اس طرح جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رجاء نے وہ کاغذ نکال کر لہرایا اور بولے:- یہ ہے وہ وصیت جس میں نئے خلیفہ کا نام موجود ہے۔ تم سب لوگ اس شخص کے لیے بیعت کرو جس کا نام اس خط میں درج ہے اور اختلاف نہ کرو، ورنہ دوسرے اس اختلاف سے فائدہ اٹھائیں گے، چنانچہ ایک ایک شخص نے بیعت کی۔ جب رجاء نے دیکھا کہ سب لوگ بیعت کر چکے ہیں تو بولے: اللہ تم سب کو اجر عطا فرمائے، امیر المومنین فوت ہو گئے ہیں،*
*★_ اس کے بعد رجاء نے اس وصیت نامے کی مہر کو توڑ دیا، تا کہ لوگوں کو پڑھ کر سنائیں۔ اس وقت لوگوں کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے کہ نہ جانے خلیفہ سلیمان نے کسے خلیفہ بنایا ہے۔ پھر رجاء نے وصیت پڑھ کر سنائی ۔ عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کا نام خلیفہ کے طور پر سن کر ہشام بن عبد الملک پر بجلی گری۔ اس نے چلا کر کہا۔ نہیں نہیں ، اللہ کی قسم ! یہ نہیں ہو سکتا،*
*★_ اس کے یہ کہنے پر ایک شامی نے تلوار سونت لی اور بولا : خلیفہ سلیمان نے جس بات کا حکم دیا ہے تم اس کے ماننے سے انکار کرتے ہو، اس پر ہشام نے کہا: اگر خلیفہ عبدالملک کے خاندان کا ہو گا تو ہم مانیں گے اور اطاعت کریں گے ۔“*
*"_اس پر رجاء بول پڑے: اگر تم انکار کرو گے تو تمہاری گردن اڑادیں گے۔"*
*"_ساتھ ہی لوگوں نے ہشام کو پکڑ کر گھسیٹا ۔ تب اس نے کہا:- ہم نے سنا اور اطاعت کی ۔“*
*★_ اس کے بعد رجاء نے وصیت نامے کا اگلا حصہ پڑھا:- اور عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبد الملک خلیفہ ہوں گے ۔“ اب سب لوگوں نے اور ہشام نے بھی یہی کہا:-ہم نے سنا اور اطاعت کی,*
*"★_حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ اس وقت سب لوگوں کے پیچھے بیٹھے تھے اور خلیفہ بننے پر انا للہ پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اللہ جانتا ہے، میں نے ظاہر اور باطن میں کبھی بھی خلافت کی خواہش نہیں کی،*
*★_ ایسے میں رجاء آپ کی طرف بڑھے، تا کہ خلافت آپ کو سونپ دیں۔ نزدیک پہنچ کر انھوں نے کہا: اے عمر ! منبر پر آجائیں اور لوگوں سے کچھ فرمائیں۔“*
*"_ حضرت عمر نے فرمایا:- ”مجھے اس سے الگ ہی رکھیے۔“ رجاء نے فوراً کہا: اللہ کے لیے ایسی بات منہ سے نہ نکالیے، ورنہ لوگوں میں فتنہ کھڑا ہو جائے گا اور پھوٹ پڑ جائے گی۔*
*★_ پھر رجاء آپ کو بازو سے پکڑ کر منبر تک لے آئے۔ آپ میں اس وقت اتنی سکت نہیں رہ گئی تھی کہ منبر پر چڑھ سکتے۔ رجاء نے آپ کو چڑھنے میں مدد دی۔ آخر آپ نے فرمایا:- لوگو! اس سلسلے میں مسلمانوں سے مشورہ نہیں لیا گیا۔ مجھے خلافت کی کوئی خواہش نہیں۔ میں اپنی بیعت سے تم لوگوں کو آزاد کرتا ہوں۔ تم خود اپنے لیے خلیفہ چن لو ۔“*
*★_ لوگ گھبرا گئے، انہیں حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ سن کر حیرت ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جاتی، ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کی قسم اے عمر ! اس طرح تو حالات خراب ہو جائیں گے۔ آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں، تا کہ ہم بیعت کر لیں_, پھر سب لوگ بیعت کے لیے امڈ پڑے۔*
*★_ جب لوگ بیعت کر چکے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا:- میں تمہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ تقویٰ ہر چیز کا بدل ہے اور تقویٰ کا بدل کوئی چیز نہیں، اس لیے اپنی آخرت کے لیے عمل کرو، کیونکہ جو آخرت کے لیے عمل کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کے دنیا کے تمام کام بنا دیتا ہے۔ اپنے باطن سنوار لو، اللہ تعالی تمہارا ظاہر بھی سنوار دے گا اور کثرت سے موت کو یاد کرو اور موت آنے سے پہلے اس کے لیے اچھی طرح تیار رہو, دیکھو ! امت محمدیہ کا اللہ ایک ہے۔ رسول ایک ہے، اور کتاب ایک ہے، اگر ان کا اختلاف ہے تو روپے پیسے میں ہے، میں کسی کو باطل طریقے سے دینے والا نہیں اور نہ کسی کا حق رکھنے والا ہوں ۔“*
*★_ پھر آپ نے قدر بے بلند آواز میں فرمایا: - لوگو! جو اللہ کا اطاعت گزار ہے، اس پر میری اطاعت بھی واجب ہے اور جو اللہ کا نا فرمان ہے، اس پر میری اطاعت نہیں، جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں، تم بھی میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تم میری اطاعت نہ کرنا_,*
*"_یہ کہہ کر آپ منبر سے اتر آئے۔ یہ 10 صفر 99 ہجری کی تاریخ تھی۔*
*★_ آپ منبر سے اتر کر تھوڑی دیر تک منبر کے پاس ہی اپنا سر گھٹنوں میں دے کر بیٹھے رہے اور روتے رہے۔ لوگ کھسر پسر کرنے لگے کہ عمر خلافت ملنے پر خوش ہو کر رو رہے ہیں۔ آخر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو کر واپس ہوئے مگر حضرت عمر پیدل ہی گھر پہنچے۔*
*★_ اس کے بعد سلیمان کو دفن کیا گیا۔ حضرت عمر رحمہ اللہ اور سلیمان کے تین بیٹے قبر مین اترے۔ جب سلیمان کی میت اٹھائی گئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے سلیمان ہاتھ ہلا رہے ہوں، یہ دیکھ کر ان کا ایک بیٹا بول اٹھا:- اللہ کی قسم ! میرے والد زندہ ہو گئے۔“*
*"_ اس پر حضرت عمر رحمہ اللہ نے فرمایا:ایسی بات نہیں،*
*★_ سلیمان کے دفن کے بعد لوگوں نے یہ افواہ اڑا دی کہ اسے زندہ دفن کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہ صرف بے ہوش ہوں اور فوت نہ ہوئے ہوں .... لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اقتدار کی محبت میں سلیمان کو دفن کرنے میں جلدی کی گئی، لوگ بنی مروان اور بنی عبد الملک کے پاس گئے، ان سے بھی انھوں نے یہی کہا: سلیمان کو دفن کرنے میں جلدی کی گئی۔ اگر عمر بن عبدالعزیز خلافت سے خوش نہ ہوتے تو دفن میں جلدی نہ کرتے ۔“*
*★_ عبد الرحمٰن بن حکم بن عاصم کو ان باتوں کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے ہشام بن عبد الملک کو سخت خط لکھا کہ تم لوگ کیا باتیں کر رہے ہو ۔بہر حال حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ بن گئے. سب لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی، لیکن آپ ایسے حکمران نہیں بننا چاہتے تھے جو من مانی کرتے ہوں۔ آپ خلافت کو شوری کی بنیاد پر چلانا چاہتے تھے۔*
*★_ چاروں خلفائے راشدین نے خلافت کو شوری کی بنیاد پر چلایا تھا لیکن یہ شورائی نظام ختم ہوا جا رہا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اسے پھر سے جاری کرنا چاہتے تھے۔ خلافت کے کاموں میں کافی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں۔ خلافت کی اصل شکل جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھی، اب ماضی کی باتیں ہوگئی تھیں۔ ان سب باتوں کے باوجود بنو امیہ کے خلفاء میں بہت خوبیاں بھی تھیں۔ انھوں نے بے شمار علاقے فتح کیے، نئی مساجد بنوائیں نئے شہر آباد کرائے، ان میں اصلاحات کرائیں، یہ عالم فاضل حکمران تھے۔*
*★_ بہر حال حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مکمل طور پر خلفائے راشدہ والا نظام رائج کرنا چاہتے تھے وہ نظام جس میں ایک بڑھیا بھی وقت کے خلیفہ کا دامن پکڑ کر اسے ٹوک سکتی تھی، وہ نظام جس میں رعایا کو اپنی جان اور مال کا پورا پورا اطمینان تھا۔ اس کی بات سنی جاتی تھی لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ انتہائی مشکل اور خطرناک ترین تھا، مگر آپ نے اپنا کام شروع کر دیا ،*
*★_ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کے غصب شده مال اور جائیدادیں انھیں واپس دلوائیں۔ بعض گورنروں اور عمالوں نے غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ وہ ان سے واپس لے کر ان غریبوں کو دیں۔ کہنے کو یہ کام آسان نہیں تھا۔ بہت ہی مشکل کام تھا۔ سارے خاندان ، عمال اور حکومت کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنا مخالف بنا لینا تھا۔ لیکن آپ ڈٹ گئے۔ کسی کی پروا نہ کی اور غریبوں کو ان کے حق دلوانے کا کام شروع کر دیا۔ اس کام کو آپ نے پہلے نمبر پر رکھا۔*
*★_ خود آپ کے اپنے پاس وراثت میں ملی ہوئی ایک بڑی جاگیر تھی۔ اس کے بارے میں آپ کا خیال تھا، اس کو اپنے پاس رکھنا جائز نہیں، چنانچہ آپ نے اسے واپس کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس وقت آپ کے خیر خواہوں اور دوستوں نے کہا: اگر آپ اپنی جاگیر واپس کر دیں گے تو اپنی اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے ۔“*
*"_ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا : میں انھیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔“*
*★_ اس کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: بنی مروان ! تمہارے پاس بے تحاشہ دولت ہے، بلکہ میرے خیال میں امت کا دو تہائی مال تمہارے قبضے میں ہے۔“ آپ نے دراصل انھیں اشاروں میں سمجھایا تھا کہ اس مال کو واپس کر دو۔ وہ آپ کے اشارے کو سمجھ گئے، انھوں نے سخت لہجے میں کہا: جب تک ہمارے سر ہمارے جسموں سے الگ نہ ہو جائیں، ہم یہ مال واپس نہیں کریں گے، ہم کیوں اپنی اولادوں کو مفلس بنا ئیں،*
*★_ اس پر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی سخت لہجے میں فرمایا: - اللہ کی قسم ! اگر اس معاملے میں تم لوگوں نے انکار کیا تو میں تمہیں ذلیل اور رسوا کر دوں گا۔ میرے پاس سے چلے جاؤ ۔“*
*★_ اس کے بعد آپ نے عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان سے فرمایا: ہمارے حکمرانوں نے ہمیں ایسی جاگیریں عطا کی ہیں، جو عطا کرنے کا انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا، نہ ہمیں لینے کا حق تھا۔ اب میں ان سب کو ان کے حقیقی اور اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں اور یہ کام اپنی ذات سے شروع کرتا ہوں_،*
*★_ یہ فرمانے کے بعد آپ نے شاہی جائدادوں کے رجسٹر منگوائے ۔ مزاحم آپ کے سامنے رجسڑ کھولتے گئے، پڑھ پڑھ کر سناتے گئے اور آپ ان کو قینچی سے کاٹتے گئے۔ صبح کی نماز کے بعد شروع ہونے والا یہ کام ظہر کی نماز تک جاری رہا، آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کر دی۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے پاس ایک نگینہ بھی نہ رہنے دیا۔ (طبقات ابن سعد )*
*★_ آپ کی اہلیہ فاطمہ کو ان کے والد عبدالملک نے ایک بہت قیمتی نگینہ دیا تھا۔ اس کے بارے میں آپ نے ان سے فرمایا: اس نگینے کو بھی بیت المال میں داخل کر دو یا پھر مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔“ آپ کی اہلیہ فاطمہ خلیفہ عبد الملک بن مروان کی بیٹی تھیں، بہت وفا شعار تھیں، انھوں نے وہ ہیرا فوراً بیت المال میں جمع کرا دیا۔*
*★_ آپ نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ اس قسم کی تمام جائیدادیں اور جمع شدہ ناجائز مال لوگوں میں تقسیم کر کے رہیں گے۔ زمین کے ایسے ٹکڑے بھی عام لوگوں کو دے دیں گے، تاکہ عوام کے دلوں میں حق کا رعب جم جائے جس رعب کو پہلے حکمران برباد کر گئے تھے، آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اسلامی تہذیب کو پھر سے زندہ کروں گا۔ وہ تہذیب جو لوگوں کے دلوں سے مٹتی جارہی تھی۔*
*★_ آپ نے سب سے پہلے اپنے کپڑے اتار کر پھینک دیے اور صرف آٹھ درہم کی چادر اپنے اوپر لے لی۔ پھر حکم فرمایا: میرے پاس جو برتن ہیں، ان سب کو، سواریوں اور کپڑوں کو اور عطر وغیرہ کو فروخت کر دیا جائے ۔“*
*★_ چنانچہ یہ سب چیزیں 23، 24 ہزار اشرفیوں میں فروخت ہوئیں۔ یہ سارا روپیہ آپ نے بیت المال میں جمع کرادیا۔ گویا اصلاح کا عمل اپنے گھر سے شروع کیا۔ اس کے بعد سرکاری سواریوں کو لایا گیا، گھوڑے زین کسے ہوئے قطاروں میں آپ کے سامنے کھڑے کر دیے گئے، ان پر سوار تلواریں سوتے ہوئے بیٹھے تھے۔ ان سب سے آگے محافظ دستے کا افسر تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا: مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں، میں نے تم سب کو سبک دوش کر دیا،*
*★_ پھر آپ نے ان قطاروں میں اپنے خچر کو تلاش کیا۔ اس پر بیٹھنے کے بعد آپ نے تمام پہرے داروں اور سپاہیوں کو فارغ کر دیا۔ ان کی تعداد چھ سو تھی۔ گویا سابقہ حکمرانوں نے اپنی حفاظت کے لیے یہ حفاظتی دستہ رکھا ہوا تھا۔ جیسا کہ آج کے زمانے میں حکمران اپنی حفاظت کے لیے رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے اپنے خادم مزاحم سے فرمایا: ان قناتوں اور دوسرے آرائشی ساز و سامان سب کو بیت المال میں جمع کرا دو_,*
*★_ اب حالت یہ ہوگئی کہ خود حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے گھر میں غربت نے ڈیرے جما دیے۔ ان کی اہلیہ فاطمہ بنت عبد الملک نے درخواست کی: میرا اور میرے بچوں کا ماہانہ مقرر کر دیا جائے ۔“ آپ نے جواب میں فرمایا : -بیت المال میں گنجائش نہیں ۔“*
*"_اس پر فاطمہ نے کہا:-خلافت سے پہلے آپ دوسروں سے لیتے رہے ہیں ۔“ آپ نے جواب دیا: اس وقت وہ مال میرے لیے حلال تھا۔ اس کا وبال اور گناہ ان پر تھا جنھوں نے ناجائز طریقے سے مال حاصل کیا اور خرچ کیا لیکن خلیفہ بنائے جانے کے بعد میں ایسا نہیں کر سکتا۔*
*★_ اس طرح حضرت عمر رحمہ اللہ اپنی اہلیہ کو برابر سمجھاتے رہے اور آخر کار وہ بھی پرہیز گاری کے سانچے میں ڈھل گئیں۔*
*★_ خلیفہ بننے کے فوراً بعد آپ تین دن تک غائب رہے۔ ان تین دنوں میں آپ اپنے غلام مزاحم کے ساتھ دستاویزات جمع کرتے رہے۔ ان دستاویزات میں ان کی اپنی جائیداد وغیرہ کے کاغذات بھی تھے اور امرا کی جائیدادوں اور عطیات کے کا غذات بھی تھے۔ جب تمام دستاویزات اور اقرارنامے جمع کر لیے تو اعلان کرا کے سب لوگوں کو جمع کیا۔ جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ منبر پر تشریف لائے ۔ مزاحم آپ کے پیچھے تھے ۔ آپ نے اس وقت بالکل معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کی قیمت 12 درہم تھی۔*
*★_ اب آپ نے تمام لوگوں سے فرمایا:- لوگوں نے ہمیں عطیات دیے۔ ان کو قبول کرنا ہمارے لیے جائز نہیں تھا اور نہ انھیں دینا جائز تھا۔ میرے خیال میں ان عطیات میں ہم سے اللہ تعالی کے سوا کوئی حساب لینے والا نہیں۔ میں نے یہ کام اپنے اور اپنے گھر والوں کی ذاتی جائیداد سے شروع کیا ہے۔ مزاحم ا تم انھیں پڑھ کر سناؤ ۔“*
*★_ مزاحم نے لوگوں کو وہ سب پڑھ کر سنایا، یعنی جائیداد وغیرہ کی جو تفصیلات تھیں۔ پھر آپ نے قینچی سے ان تمام کاغذات کو کاٹنا شروع کیا۔ کاٹتے چلے گئے یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا اور آپ یہی کام کرتے رہے تھے۔ کچھ جائیدادیں بغیر تحریر کے تھیں۔ یعنی ایسے ہی غصب کر لی گئیں تھیں۔ ان کے بارے میں آپ نے اعلان فرمایا: کوئی شخص غصب شدہ زمینوں سے فائدہ نہ اٹھائے ۔“*
*★_ پھر جن زمینوں اور کھیتوں کے بارے میں لوگوں کا مطالبہ تھا کہ دراصل ان کے ہیں، وہ حق داروں کو دلوا دیے۔ خود آپ کے قبضے میں جتنے کھیت اور غلام اور لونڈیاں تھیں، سب آپ نے بیت المال میں جمع کرادیں۔*
*★_ آل بلال میں سے کسی نے آپ پر مقدمہ قائم کیا۔ مقدمے میں کہا گیا: ہم نے آپ کو کھیت فروخت کیا تھا، کانیں فروخت نہیں کی تھیں۔ لہٰذا ہماری کانیں ہمیں دے دیں،*
*"_ آل بلال نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر دکھائی۔ حضرت عمر رحمہ اللہ نے لپک کر اس تحریر کو چوم لیا۔ اسے اپنی آنکھوں سے لگایا، پھر اپنے منتظم سے فرمایا:- اس کی آمدنی اور خرچ کا حساب لگالو اور خرچ نکال کر باقی رقم انھیں دے دو_,*
*★_ آپ کے پاس ایک زمین یمامہ میں تھی ۔ آپ نے اپنی وہ زمین بھی بیت المال میں جمع کرادی ۔ جس زمین کے آپ کے پاس کا غذات تھے، اس کا منافع بیت المال کو دے دیا اور آپ نے اعلان فرمایا : میں کبھی بھی بیت المال سے ایک پیسہ نہیں لوں گا ۔“*
*★_ ان کے ذاتی اخراجات کے لیے بالکل تھوڑی سی زمین تھی۔ اس کی آمدنی صرف دوسو دینار کے قریب تھی، اس پر آپ سے کہا گیا: آپ بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح بیت المال سے وظیفہ لے لیا کریں، جواب میں آپ نے فرمایا: میرے پاس زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ یہ میرے لیے کافی ہے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال بھی نہیں تھا، اس لیے انھوں نے بیت المال سے لینا قبول کیا تھا۔*
*★_ اس کے بعد آپ نے فدک کا مسئلہ حل فرمایا، فدک کے بارے میں آج بھی باتیں کی جاتی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اس موقعے پر اس مسئلے کو بھی سمجھ لیا جائے۔ فدک مدینہ طیبہ سے دو یا تین دن کے فاصلے پر ایک باغ تھا۔ اس میں کھجور کے درخت اور پانی کے چشمے تھے۔ آپ ﷺ نے لڑائی کے بغیر اسے فتح کیا تھا۔*
*★_ مال غنیمت اور مال فے میں فرق ہے۔ جو مال جنگ کے بعد حاصل ہو، وہ مال غنیمت ہے اور جو جنگ کے بغیر حاصل ہو، اس کو مال فے کہتے ہیں، آپ ﷺ کا مال فے کے بارے میں فرمان یہ تھا کہ مال فے آپ کی سپردگی میں رہے گا۔ آپ اسے جہاں چاہیں ، خرچ کر سکتے ہیں،*
*★_ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ آپ کی ملکیت ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ مال تو اللہ کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے امین ہیں۔ یعنی فدک آپ کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔*
*★_ مال فے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے سو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت داروں کے لیے اور ییموں کے لیے اور محتاجوں کے لیے ہے ۔ ( سورۃ الحشر آیت 6-7 )*
*★_ اب چونکہ فدک بھی مال فے تھا، اس لیے اس کو آپ نے اپنی سپردگی میں لے لیا لیکن یہ آپ کی ذاتی ملکیت نہیں تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت نہیں تھی جو عزیر رشتے داروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ آپ اس جائیداد کو اللہ کے حکم کے مطابق وہیں خرچ کر سکتے تھے جہاں اللہ تعالیٰ حکم فرماتے۔*
*★_ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین بنتا، اس پر بھی لازم تھا کہ وہ اموال فے کو وہیں خرچ کرے جہاں اللہ کے رسول خرچ کرتے تھے۔*
*★_ دوسری طرف سوال یہ تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ذاتی ملکیت ہو بھی تو کیا اس میں وراثت جاری ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ہم انبیا کا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ یعنی عام مسلمانوں کا حق ہے۔ (بخاری: 526/1)*
*★_ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فدک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت نہیں تھا، بلکہ آپ اس کے متولی تھے،*
*★_ ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تشریف لائیں اور فرمایا :- فدک مجھے دیا جائے ۔“،*
*★_ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ ہم گروہ انبیاء، نہ کسی کے مال کے وارث ہوتے ہیں، نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ کر جائیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا، میں اس کی آمدنی اسی طرح خرچ کروں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور آل رسول اس مال سے اسی طرح کھائے گی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھاتی تھیں اور خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ سلوک اور احسان میں مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ سلوک اور احسان سے کہیں زیادہ محبوب ہیں ۔ ( بخاری )*
*★_ یہ نہایت معقول جواب تھا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموش ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ نے کبھی میراث کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ اپنے مطالبے پر افسوس کیا کرتی تھیں کہ کیوں انہوں نے یہ مطالبہ کیا۔*
*★_ فے کے ذریعے حاصل ہونے والے تمام مال کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ ان میں باغ فدک بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد یہ انتظام حضرت حسن، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہما اور حسن بن حسن اور پھر زید بن حسن رحمہما اللہ کے ہاتھوں میں رہا۔ ( بخاری: 576/2)*
*★_ اس حسن سلوک کی وجہ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی خوش رہیں اور ان کی اولاد بھی خوش و خرم رہیں،*
*★_ ایک مرتبہ کسی نے سیدنا محمد باقر بن علی بن حسین رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے آپ کے حق میں کسیقسم کی کوئی زیادتی کی ہے، آپ نے جواب میں فرمایا : - بالکل نہیں ! قسم ہے، اس ذات کی جس نے اس بندے سے قرآن کو نازل کیا، ہمارے حق میں ان دونوں نے رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا_,"*
*★_ پوچھنے والے نے پھر پوچھا:" کیا میں ان سے محبت کروں ۔انھیں دوست سمجھوں۔جواب میں انہوں نے فرمایا:- ہاں تو ان دونوں کے ساتھ دنیا اور آخرت میں محبت رکھ اور اگر کوئی وبال پیش آئے تو میری گردن پر ہوگا ۔ ( ابن ابی الحدید : 113/4)*
*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں کچھ لوگوں نے ان سے کہا: آپ باغ فدک اولاد فاطمہ کو دے دیں، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- مجھے اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں اس شے کو لوٹا دوں جسے دینے سے ابو بکر نے انکار کیا اور عمر نے ان کے فرمان کو جاری رکھا۔*
*★_ سید نا محمد باقر کے بھائی سیدنا زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اگر ابو بکر کی جگہ میں ہوتا تو میں بھی فدک کے معاملے میں وہی کچھ کرتا جو ابو بکر نے کیا تھا ۔ (البدایہ والنہایا :
*★_ مختصر یہ کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما وغیرہ نے باغ فدک کے بارے میں اہل بیت نبوت سے کوئی زیادتی یا ظلم نہیں کیا تھا جس کا آج کے دور میں بھی چرچا کیا جاتا ہے، بلکہ ان دونوں حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس کی تقسیم کا انتظام سید نا علی رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان دونوں کی خلافت کے دوران نہایت خوش اسلوبی سے یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں:- مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کا اپنے زمانے میں متولی بنایا تھا اور میں نے جہاں جہاں مناسب تھا، اسے وہاں وہاں تقسیم کیا۔ پھر ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافتوں کے دور میں بھی میں ہی اس کا متولی رہا۔ (مسند امام احمد )*
*★_ یہ تھی مختصری تفصیل اس مسئلے کی۔ اب یہ مال حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے قبضے میں تھا اور اس پر ان کی اور ان کے گھر والوں کی گزر بسر تھی، کیونکہ آپ سے پہلے خلفاء نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا تھا اور اسی طرح یہ آپ کی جاگیر بنا لیکن جب آپ نے اپنی اور دوسروں کی جائیدادیں بیت المال میں جمع کرادیں تو اس مال کے بارے میں بھی آپ نے فرمایا: اس مال پر میرا کوئی حق نہیں، اس کی جو صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی، میں اسے اسی حالت پر لوٹاتا ہوں۔ (طبقات ابن سعد : 128/5)*
*★_ اسی طرح آپ نے تمام غصب شدہ جائیدادیں لوگوں سے واپس لیں اور ان کے حق داروں کو دلوائیں۔ آپ نے یہ اصلاحات صرف شام ہی میں نہیں کیں، بلکہ اسلامی سلطنت کے تمام گورنروں کو لکھا۔ "تمہارے علاقوں میں جن جن لوگوں نے دوسروں کے مال غصب کر رکھے ہیں ہو ان سے واپس لے کر اصل حق داروں کو دیے جائیں اور اس بارے میں قطعاً کوئی رعایت نہ کی جائے,*
*★_ اور جب ایسا کیا گیا تو صوبوں میں مشکلات پیش آئیں تو آپ نے دار الحکومت سے روپیہ بھجوا کر نظام کو درست فرمایا، یہ تمام اموال چونکہ مدتوں سے غصب شدہ چلے آرہے تھے، اس لیے ان کی واپسی کے سلسلے میں بہت مشکلات پیش آئیں۔*
*★_ جو لوگ اس دنیا سے انتقال کر چکے تھے، ان کے مال ان کی اولادوں کو دیے گئے,۔ یہ سلسلہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی وفات تک جاری رہا۔*
*★_ اور یہ کام آسان نہیں تھا مشکل ترین کام تھا۔ جن بڑے بڑے لوگوں سے جاگیریں چھینی گئی تھیں اب وہ عام لوگ بن کر رہ گئے تھے۔ ان کی شان و شوکت اور غرور خاک میں مل گیا تھا لہذا ایسے لوگوں میں حضرت عمر رحمہ اللہ کے خلاف نفرت موجود تھی وہ سب آپ سے شدید ناراض تھے لہذا وہ آپ کے خلاف سازشوں میں لگ گئے۔ انھوں نے آپ کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کر دیں ... طرح طرح کے اعتراضات شروع کر دیے۔ لیکن آپ نے ان لوگوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنا کام کرتے رہے،*
*★_ سب سے پہلی سازش یہ کی کہ ان کی پھو پھی فاطمہ کو ان کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی شروع کی۔ فاطمہ بنت مروان ایک بلند پایہ اور خود دار خاتون تھیں .... جب ان سب سازشیوں نے ان کے کان بھرے تو انھوں نے حضرت عمر رحمہ اللہ کو ایک پیغام بھیجا کہ میں ایک اہم کام کے سلسلے میں تم سے ملنا چاہتی ہوں، یہ پیغام بھیج کر فاطمہ گھوڑے پر سوار ہوئیں اور حضرت عمر کے پاس پہنچ گئیں۔ حضرت عمر ان کے استقبال کے لیے خود اٹھے اور انھیں گھوڑے سے اترنے میں مدد دی ۔ نہایت احترام کے ساتھ بٹھایا ۔ فاطمہ بنت مروان نے اپنی آمد کا سبب بتایا۔*
*★_ آپ نے جواب میں عرض کیا: پھو پھی جان! جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں کو ایک آباد گھاٹ پر چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ پھر اس وقت کا خلیفہ ایک ایسا شخص بنا جس نے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف حضرات کے ہاتھوں میں انتظام آیا۔ بعد میں آنے والے کچھ لوگوں نے اس میں کمی بیشی کی۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے مجھے زندگی عطا فرمائی تو میں اس انتظام کو سابقہ حالت پر لاؤں گا_,*
*★_ اس پر پھو پھی صاحبہ نے کہا: آپ کے عزیز رشتے دار آپ کا شکوہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے وہ چیزیں چھین لیں جو پہلے خلفاء نے انھیں دی تھیں یا ان سے نہیں چھینی تھیں، میں نے انھیں آپ کے خلاف سخت باتیں کرتے سنا ہے اور مجھے اس بات کا ڈر ہے وہ آپ کے لیے کوئی سخت دن نہ لے آئیں ۔ اس کے جواب میں حضرت عمر نے فرمایا: میں نے ان کا حق نہیں لیا, مجھے دنیا کے ہر سخت دن کا ڈر ہو اور قیامت کے دن کا ڈر نہ ہو، ایسا ممکن نہیں ، میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قیامت کے دن کی سختی سے محفوظ فرمائے،*
*★_ آپ کی باتیں سن کر آپ کی پھوپھی صاحبہ اٹھنے لگیں تو آپ نے انھیں بٹھا لیا اور حکم دیا کہ آگ کا ایک انگارہ اور ایک اشرفی لائی جائے، پھر آپ نے اشرفی کو انگارے پر رکھا۔ وہ اشرفی سرخ ہو کر پگھل گئی۔ اس پر جو لکھا ہوا تھا، وہ سب ختم ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: پھو پھی جان! کیا آپ کو اپنے بھتیجے پر اس جیسی اشرفی سے رحم نہیں آتا ۔“*
*★_ یہ سن کر پھو پھی صاحبہ خاموش کھڑی ہو گئیں حضرت عمر رحمہ اللہ کی یہ بات ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ ان کے چہرے پر خوف طاری ہو گیا۔ پھو پھی کو خاموش دیکھ کر حضرت عمر بولے: پھو پھی صاحبہ بات کریں۔ آپ تو خاموش ہو گئیں، اس پر پھو پھی بولیں : عمر ! میں تم سے تبادل خیال کرنے آئی تھی لیکن تمہارے گفتگو کے انداز نے مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہیں چھوڑی۔“*
*"★_یہ کہہ کر پھو پھی چلی گئیں ۔ آپ نے دراصل انہیں یہ بتایا تھا کہ جہنم میں یہ عذاب بھگتنا ہوگا ۔ اب پھو پھی ان لوگوں کے پاس آئیں۔ جنھوں نے انھیں ورغلایا تھا۔ آکر ان سے بولیں: تم لوگوں نے خود ہی عبد العزیز کا نکاح آل عمر رضی اللہ عنہ میں کیا اب اگر عمر، حضرت عمر فاروق والے کام کریں تو اعتراض کیوں کرتے ہو۔ اب صبر کرو،*
*★_ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا ایک لڑکا آیا۔ اس کی زمین دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے ضبط کر لی تھی۔ اس نے آکر کہا: امیر المومنین ! آپ میری زمین واپس کیوں نہیں کرتے ۔“*
*"_ اس لیے کہ تمہارے پاس اس کی ملکیت کی کوئی دستاویز نہیں ہے ۔“*
*"_اس نے ایک دستاویز اپنی آستین سے نکال کر آپ کو دی۔ آپ نے اس کو دیکھا اور پوچھا:- اس دستاویز کی زمین کس کی ہے۔“*
*"_اس نے بتایا : ” فاسق اور فاجر ابن حجاج کی , یہ سن کر آپ نے فرمایا: تب تو مسلمان اس زمین کے زیادہ حق دار ہیں ۔“*
*★_ اب وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ بس یہ کہا: اچھا میری دستاویز مجھے واپس کر دیں۔“ جواب میں آپ نے فرمایا:-" میں نے یہ دستاویز تم سے نہیں مانگی تھی تم نے خود مجھے دی ہے، لہذا اب میں یہ تمہیں واپس نہیں دوں گا، تاکہ تم کبھی بھی یہ غلط مطالبہ نہ کر سکو, اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سلیمان کے بیٹے کو واپس لوٹا دیا اور اسے کچھ بھی نہ دیا ۔ اس نے گڑ گڑا کر درخواست کی لیکن آپ نے اس کا بھی کوئی اثر نہ لیا،*
*★_ آپ کے غلام مزاحم یہ سب دیکھ رہے تھے، انھیں سلیمان کے بیٹے پر ترس آگیا۔چنانچہ اس نے کہا:- امیر المومنین! آپ سلیمان کے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں۔ آپ کو اس کے رونے پر بھی ترس نہیں آیا۔“*
*"_جواب میں آپ نے فرمایا:- میں سلیمان کے اس بیٹے کے لیے اس قدر محبت کے جذبات رکھتا ہوں جس قدر اپنی اولاد کے لیے رکھتا ہوں لیکن کیا کروں، معاملہ دین کا ہے۔ کل اللہ کو حساب دینا ہے ۔“*
*★_ ایک شخص عمر بن نباتہ سے ولید بن عبد الملک کو بہت محبت تھی۔ اس نے اسے ایک فوجی دستے کا امیر مقرر کر رکھا تھا۔ اس فوجی دستے پر اسی کا حکم چلتا تھا، جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ظلم و جبر سے حاصل کی ہوئی جائیدادیں حق داروں کو دلوا رہے تھے تو یہ شخص عمر بن نباتہ بہت غضب ناک ہوا۔ اس نے سخت غصے میں ایک خط آپ کو لکھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:-*
*★_ آپ نے سابقہ خلفاء کو داغ دار بنا دیا ہے۔ ان کے طریقے کو چھوڑ کر ایک نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے اور ان کی اولاد کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے اور آپ نے اس رشتے کو کاٹ دیا ہے جس کو ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے، کیونکہ آپ نے قریش کے مال اور ان کی جائیدادیں بیت المال میں جمع کرادی ہیں، آپ کا یہ عمل نا قابل معافی ہے۔“*
*★_ اس خط کے جواب میں آپ نے اسے لکھا: - تیرا خط ملا۔ میں تجھے اس سے بہتر جواب دے رہا ہوں۔ اے ابن ولید ! تیرا ابتدائی حال وہ ہے جس سے تو بخوبی واقف ہے، کیونکہ تیری ماں نباتہ قبیلے کی ایک لونڈی تھی۔ وہ گانا بجانا اور رقص کرتی تھی۔ حمص کے بازاروں میں وہ دکان در دکان پھرا کرتی تھی۔ اسے دیان کے مسلمانوں نے مال سے خرید لیا اور بطور ہدیہ تیرے باپ کے پاس بھیج دیا۔ اس لونڈی سے تو بدترین بچہ پیدا ہوا۔ پھر تیری پرورش ایک ظالم اور سرکش کے طور پر ہوئی۔ تو مجھے اس وجہ سے ظالم اور جابر کہتا ہے کہ میں نے تجھے اور تیرے گھوڑے کو اللہ کے اس مال سے محروم کر دیا ہے جو دراصل تیرا نہیں ہے، بلکہ غریبوں، مسکینوں اور بیواؤں کا مال ہے۔ سن ! سب سے بڑا ظالم وہ ہے جس نے تجھ جیسے نادان بچے کو اسلامی فوج کے ایک دستے کا حاکم بنا دیا اور تو اس پر اپنی مرضی سے حکم چلاتا تھا، لہذا تجھ پر بھی افسوس اور تیرے باپ پر بھی افسوس ۔ قیامت کے دن کتنے لوگ تم باپ بیٹے سے جھگڑنے والے ہوں گے۔ تو اور تیرا باپ جھگڑ نے والوں سے چھٹکارا پائیں گے۔*
*★_ اور مزید سن ! وہ شخص انتہائی ظالم ہے، اللہ کے عہد کو توڑنے والا ہے جس نے حجاج بن یوسف جیسے ظالم کو حاکم بنایا۔ وہ حرام خون ریزی کرتا تھا اور حرام مال حاصل کرتا تھا۔ اس نے قره بن شریک کو مصر جیسے صوبے کا حاکم بنا دیا اور یہ شخص بالکل گنوار تھا۔ حجاج نے اسے ہر قسم کے کھیل کود اور شراب و کباب کی چھوٹ دے دی۔*
*★_ ابن نباته! انتظار کر جب میں تیرے اور تیرے گھر والوں کے لیے فارغ ہو جاؤں اور ان کو ایک روشن راستے پر چھوڑ دوں، کیونکہ تم ایک طویل زمانے سے حق کو چھوڑے ہوئے ہو۔ شراب و کباب اور لہو و لعب میں مشغول ہو۔ ابن نباته عن قریب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گا کہ میں تجھے فروخت کر کے تیری قیمت مسکینوں اور بیواؤں پر خرچ کر دوں گا کہ ان کا حق تو آج تک کھاتا رہا ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا ہے، میں عن قریب ایک ایسا شخص تیری طرف بھیجنے والا ہوں، جو تیری پیشانی کے بدترین بال کاٹ دے گا۔*
*★_ عنبسہ بن سعید بن عاص بنو امیہ کے بڑے لوگوں میں سے تھا۔ خلفاء کے پاس اس کا کثرت سے آنا جانا تھا۔ وہ اس قدر مال دار تھا کہ اسے مال کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن لالچی ہونے کی وجہ سے وہ خلفاء سے مانگتا ہی رہتا تھا۔ اس کا پیٹ پھر بھی نہیں بھرتا تھا۔ سلیمان نے مرنے سے پہلے اسے 20 ہزار دینار عطیہ کے طور پر دیے تھے۔ وہ اس طرح دیے تھے کہ اسے ایک تحریر لکھ کر دے دی کہ وہ یہ رقم بیت المال سے لے لے،*
*★_ عنبسہ یہ تحریر پا کر بہت خوش ہوا ۔ ابھی اس نے یہ رقم بیت المال سے لی نہیں تھی کہ سلیمان کا انتقال ہو گیا اور بیت المال کو تالا لگا دیا گیا۔ لہذا یہ تحریر نئے خلیفہ کا حکم ہونے کے لیے روک لی گئی۔ اب خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز بن گئے، ایک روز وہ آپ کے پاس آیا۔ اس نے حضرت عمر سے کہا:- امیر المومنین ! ہماری آپ سے رشتے داری ہے۔ اور آپ کی قوم آپ کے دروازے پر کھڑی ہے۔ یہ لوگ اس لیے آئے ہیں کہ آپ سے پہلے خلفاء انہیں جو دیا کرتے تھے، آپ بھی انھیں دیں،*
*★_ اس کی بات سن کر حضرت عمر نے فرمایا: عنبسہ میرے مال میں تمہارے لیے کوئی گنجائش نہیں باقی عنبہ ! میرے مال میں تمہارے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ باقی رہا بیت المال ، سو اس میں تمہارا اور دوسرے لوگوں کا برابر کا حق ہے۔ تم اگر میرے رشتے دار ہو تو میں تمہیں دوسروں کا حق نہیں دے سکتا،*
*★_ آپ کا جواب سن کر عنبسہ نے کہا: اس صورت میں آپ کی قوم کسی اور جگہ جانے کی اجازت مانگتی ہے ۔“ آپ نے فرمایا: وہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں،*
*"_ اب عنبہ نے بات تبدیل کی اور بولا : امیر المومنین ! سلیمان بن عبدالملک نے مجھے ایک عطیہ دیا تھا، ابھی میں نے وہ عطیہ بیت المال سے لیا نہیں تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا، مہربانی کر کے آپ مجھے یہ عطیہ دے دیں۔ میرے آپ سے جس قدر گہرے تعلقات ہیں، اس قدر تو سلیمان سے بھی نہیں تھے۔"*
*★_آپ نے اس سے پوچھا: ” وہ عطیہ کتنی رقم کا ہے۔“ اس نے جواب دیا: بیس ہزار دینار کا، ( دینار سونے کے سکے کا نام ہے ) اتنی بڑی رقم کا سن کر حضرت عمر رحمہ اللہ کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ آپ نے فرمایا: بیس ہزار دینار تو مسلمانوں کے چار ہزار گھرانوں کے کام آسکتے ہیں، اتنی بڑی رقم میں ایک شخص کو دے دوں، اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا،*
*"_ یہ سن کر عنبسہ نے کہا:- پھر تو آپ مجھے بھی اجازت دے دیں کہ میں اپنی قوم کے ساتھ کسی دوسری جگہ چلا جاؤں، آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں اجازت دی،*
*★_ عنبسہ کمرے سے نکلنے لگا تو آپ نے آواز دی۔ وہ واپس پلٹا، اس خیال سے کہ شاید آپ نے اپنی رائے بدل دی ہے۔ اس نے سنا، آپ فرمارہے تھے۔ عنبسہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو اگر تم پر تنگی ہے تو موت کی یاد تمہاری تنگی دور کردے گی اور اگر فراخی ہے تو اس سے دنیا ہیچ نظر آئے گی،*
*★_عنبسہ کو محسوس ہوا جیسے آپ اس سے مذاق کر رہے ہیں، وہ باہر جانے لگا تو آپ نے اسے پھر آواز دی .... اور فرمایا : عنبسہ میرے خیال میں تو تمہیں کہیں نہیں جانا چاہیے یہیں رہو، میں سلیمان کی چھوڑی ہوئی چیزیں فروخت کرنے لگا ہوں تم ان کو خرید لو۔ اس طرح کچھ تمہارا کام چل جائے گا۔*
*"_آپ کے اس ارشاد کے مطابق عنبسہ نے وہ چیزیں خرید لیں، پھر ان کو عراق جا کر فروخت کیا تو اسے کافی نفع ہوا۔*
*★_ ان حالات میں تمام بڑے بڑے لوگ ایک جگہ جمع ہوئے، انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور سب نے ایک بات طے کر لی۔وہ بات یہ تھی کہ حضرت عمر رحمتہ اللہ اپنے ماتحت مال میں اپنی رائے اور اپنا فیصلہ نافذ کریں، لیکن آپ سے پہلے خلفاء نے جو کچھ امیروں وغیرہ کو دیا ہے، اس میں دخل نہ دیں کیونکہ جو ہو چکا، وہ غلط تھا یا صحیح، اب اسے نہ چھیڑا جائے، اگر یہ کام غلط تھا. یعنی بغیر حق کے ان لوگوں کو مال دیے گئے تھے تو اس کا گناہ سابقہ خلفاء پر ہوگا، حضرت عمر پر نہیں ہوگا۔*
*★_ یہ بات جب طے کر لی گئی تو ہشام بن عبد الملک کے ذریعے حضرت عمر رحمہ اللہ تک پہنچائی، آپ نے پوری بات سن کر فرمایا: میں اللہ کی کتاب کے مطابق عمل درآمد کروں گا، مال چاہے، میرے ماتحت ہو یا سابقہ خلفاء کا دیا ہوا ہو،*
*★_ اس پر امراء نے بہت ہنگامہ کیا لیکن آپ اپنی بات پر اڑے رہے۔ آخر کار امراء نے جان لیا کہ آپ نے جو فیصلہ کر لیا ہے، اس پر عمل کیے بغیر نہیں رہیں گے تو ہنگاموں سے باز آگئے۔*
*★_ اسی طرح ایک واقعہ خلیفہ ولید کے بیٹے کا ہے۔ اس کا نام روح تھا۔ یہ بہت ظالم تھا۔ لوگوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کرتا تھا، لوگ اس سے خوف زدہ رہتے تھے، اس کے باپ ولید نے حمص میں کچھ جا گیر اس کے نام کر دی تھی اور اس کی دستاویز بھی لکھ دی تھیں، حمص والے اس بات کی شکایت لے کر حضرت عمر رحمہ اللہ کے پاس آئے ۔ ان کی بات سن کر آپ نے روح کو بلا لیا اور اس سے فرمایا : ان کی جگہیں چھوڑ دو۔“*
*★_جواب میں روح نے کہا:- خلیفہ ولید کی دی ہوئی دستاویز کی رو سے یہ زمینیں میری ہیں ۔“ آپ نے فرمایا:- ان کی جگہیں انہیں دے دو،*
*"_ یہ لوگ باہر نکل آئے تو راستے میں روح حمص کے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے لگا، ان حالات کی خبر آپ کو بھی ہو گئی آپ نے کعب بن حامد کو بلایا، یہ جلاد تھا، آپ نے اس سے فرمایا: روح بن ولید کے پاس جاؤ، اگر وہ اہل حمص کی دکانیں واپس کر دے تو ٹھیک ور نہ اس کا سرکاٹ کر لے آؤ ۔“*
*★_ كعب بن حامد تنگی تلوار لے کر روانہ ہوئے، روح نے جب جلاد کو ننگی تلوار لیے آتے دیکھا تو ڈر گیا اور اس نے عاجز ہو کر وہ تمام جگہ اہل حمص کو دے دی _,*
*★_ آپ پر امراء نے جو اعتراضات کیے تھے، آپ نے ان سب کے جوابات دیے، لیکن بنو امیہ کے جن لوگوں سے جائیدادیں اور مال چھین کر اصل حق داروں کو دیے گئے، وہ کب آرام سے بیٹھنے والے تھے۔ ایک دن وہ سب جمع ہو کر آپ کے دروازے پر آگئے ۔ انہوں نے آپ کے فرزند عبد الملک سے کہا:- یا تو ہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دلواؤ ، یا پھر اپنے ابا جان سے کہو، ان سے پہلے جو خلیفہ تھے، وہ ہمیں مال دیتے رہتے تھے۔ ہمارے مرتبوں کا لحاظ رکھتے تھے، لیکن تمہارے ابا نے ہمیں ہر قسم کے مال و دولت سے محروم کر دیا ہے۔“*
*★_ عبد الملک نے ان کا پیغام اندر پہنچایا۔ آپ نے عبدالملک سے فرمایا:- ان لوگوں سے جا کر کہہ دو کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں گا تو قیامت کے عذاب سے مجھے خوف آتا ہے، میں آپ لوگوں کو ناجائز رعایتیں نہیں دے سکتا_,*
*★_ یہ شکایت صرف امراء ہی کو آپ سے نہیں تھی، بلکہ آپ کے قریبی لوگوں کو بھی تھی۔آپ نے جب اپنے قریبی لوگوں کے گزارا الاؤنس بند کر دیے تو انہوں نے بھی اس قسم کی شکایت کی۔ جواب میں آپ نے فرمایا: - بیت المال میں تم لوگوں کا حق اس سے زیادہ نہیں بنتا جتنا ملک کی آخری حدود میں رہنے والے کسی شخص کا بنتا ہے۔“*
*★_ آخرکار حضرت عمر رحمہ اللہ کی ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں سے چھینی گئی تمام زمینیں ان لوگوں کو واپس مل گئیں جن سے وہ چھینی گئی تھیں ۔ جو زمینیں عرب کے دیہاتیوں سے چھینی گئی تھیں، وہ بھی لوٹا دی گئیں۔ یہاں تک ہوا کہ خلیفہ عبدالملک نے ایک شخص ابراہیم بن طلحہ کے گھر پر قبضہ کر لیا تھا، عبد الملک کے بعد یہ گھر سلیمان کے قبضے میں رہا یہاں تک کہ حضرت عمر نے ابراہیم کو واپس دلوایا،*
*★_ غرض جس جس زمین پر کسی نے ناجائز قبضہ کر رکھا تھا وہ سب آپ نے حق داروں کو واپس دلوائیں اور اس کام میں اس قدر پختگی دکھائی کہ آپ کے بعد اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ نے اس بات کی بھی ذرہ بھر پرواہ نہ کی کہ اس طرح رشتے دار ان سے منہ موڑ لیں گے تعلقات توڈ لیں گے، آپ نے نہ تو کسی کی دھمکی کی پرواہ کی نہ کسی کی سفارش مانی جو کرنا تھا، بس وہ کر گزرے۔*
*★_ اس بہت بڑے کام سے فارغ ہو کر آپ نے ظالم قسم کے گورنروں اور افسروں کی طرف توجہ دی۔ حجاج بن یوسف بنو امیہ کا سب سے ظالم حکمران تھا۔ اس کے خاندان والے بھی اسی جیسے ظالم اور جابر بن گئے تھے۔ آپ نے خلیفہ بننے کے بعد حجاج بن یوسف کے پورے خاندان کو یمن کی طرف جلا وطن کر دیا اور وہاں کے گورنر کو لکھا۔ میں ان لوگوں کو تمہاری طرف بھیج رہا ہوں جو عرب میں بدترین خاندان ہے۔ ان لوگوں کو ادھر اُدھر منتشر کر دو تاکہ یہ ایک جگہ جمع ہو کر سلطنت کے خلاف سازشیں نہ کر سکیں۔*
*★_آپ نے ہر اس افسر اور حکمران کو معزول کیا جس نے مسلمانوں کا خون بہایا تھا ، اگر چہ وہ آپ کا عزیز ہی کیوں نہ تھا۔ ان اصلاحات کا نتیجہ یہ نکالا کہ عوام ان ظالم اور جابر لوگوں کے مظالم سے محفوظ ہو گئے اور انھوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اپنے اس کام کے بارے میں آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالم رحمہ اللہ سے بھی مشورہ کیا۔*
*★_ مصر کا خراج وصول کرنے پر اسامہ بن زید تنوخی مقرر تھا۔ یہ شخص نہایت ظالم اور جابر تھا۔ اللہ تعالی کی مقرر کردہ سزاؤں سے بھی زیادہ سزائیں انسانوں کو دیتا تھا۔ لوگوں کے ہاتھ کٹوا دیتا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا: اسے ہر علاقے کی جیل میں ایک سال رکھا جائے اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھے جائیں ۔ صرف نماز کے اوقات میں ہاتھ پیر کھولے جائیں۔*
*★_ یہ ایک سال تک مصر میں قید رہا، پھر فلسطین کی جیل میں بھیج دیا گیا ۔ وہاں بھی یہ ایک سال تک جیل میں رہا۔ اسی طرح آپ نے یزید بن ابی مسلم کو افریقہ سے برخاست کیا۔ یہ بہت غلط قسم کا آدمی تھا۔ ظاہر میں عبادت گزار بنتا تھا مگر ظالمانہ حکم جاری کرتا رہتا تھا۔ جب اس کے سامنے لوگوں کو سزائیں دی جاتیں تو یہ اس وقت تسبیح اور ذکر میں مصروف رہتا۔ ساتھ ساتھ سزائیں بھی سناتا رہتا, آپ نے اسے بھی معزول کر دیا۔*
*★_ اس قسم کے کام آپ نے خلیفہ بننے کے فوراً بعد کیے اور یہ کام انجام دینے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ آپ سلیمان کے کفن دفن سے فارغ ہوئے اور قبرستان سے واپس آنے لگے تو آپ کے لیے شاہی سواریاں لائی گئیں، آپ نے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟آپ کو بتایا گیا: یہ شاہی سواریاں ہیں، ان پر کبھی کوئی سوار نہیں ہوا۔ نیا خلیفہ ہی پہلی بار ان پر سوار ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے خادم سے فرمایا: مزاحم ! یہ تمام سواریاں بیت المال میں جمع کر دو،*
*★_ اس وقت کا ایک دستور یہ تھا کہ جب کوئی نیا خلیفہ خلافت سنبھالتا تو اس کے لیے شامیانے نصب کیے جاتے تھے۔ آپ کے لیے بھی شامیانے نصب کیے گئے تھے۔ آپ نے ان کو بھی بیت المال میں جمع کرانے کا حکم دیا, اس کے بعد آپ اپنے خچر پر سوار ہوئے اور اس جگہ پہنچے جو آپ کے بیٹھنے کے لیے بنائی گئی تھی، اس جگہ پر نہ جانے کیا کچھ بچھایا گیا تھا۔ آپ نے ان سب چیزوں کو اپنے پیروں سے ہٹا دیا اور چٹائی پر بیٹھ گئے اور فرمایا :ان سب چیزوں کو بھی بیت المال میں داخل کر دو ۔*
*★_ اس دور کا ایک دستور یہ تھا کہ جب کسی خلیفہ کا انتقال ہو جاتا تو اس کے لباس، استعمال کی دوسری چیزیں، اس کے بال بچوں کا حق سمجھی جاتی تھیں۔ جو عطر اور لباس وغیرہ ابھی استعمال نہیں کیے ہوئے تھے، وہ نئے خلیفہ کو مل جاتے تھے۔ سلیمان کے گھر والوں کی ساری رات اس کام میں گزری کہ تیل اور خوشبوؤں کو ایک شیشی سے دوسری میں الٹتے رہے اور جو کپڑے سلیمان نے اب تک نہیں پہنے تھے، ان کو پہن پہن کر ایسے بناتے رہے، گویا وہ استعمال شدہ ہیں۔*
*★_ صبح ہوئی تو سلیمان کے گھر والوں نے وہ تمام چیزیں لاکر آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیں اور پھر ان کو یہ کہتے ہوئے الگ الگ کرنے لگے: یہ آپ کی ہیں، یہ ہماری ۔“ آپ نے پوچھا: یہ اور وہ کا کیا مطلب ہے ؟۔“*
*"_انھوں نے بتایا: جو کپڑے اور عطریات سابقہ خلیفہ استعمال کر چکے ہیں، وہ اس کی اولاد کا حق ہے۔ جن کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔ وہ نئے خلیفہ کا حق ہے۔*
*"_ آپ نے فرمایا: یہ ساری چیزیں، نہ میری ہیں نہ تمہاری، مزاحم ان سب کو بیت المال میں جمع کر دو یہ سب مسلمانوں کا مال ہے۔“*
*★_ یہ حال دیکھ کر امراء اور وزراء نے آپس میں کہا: یہ سب چیزیں تو ہاتھ سے گئیں ان میں سے تو اب ہمیں کچھ ملے گا نہیں، اب صرف ایک چیز رہ گئی ہے، وہ ہیں لونڈیاں انہیں بھی پیش کر کے دیکھتے ہیں شاید ان میں سے کچھ مل جائے، ورنہ ان صاحب سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔“*
*★_ چنانچہ حسین اور جمیل لونڈیاں آپ کے سامنے لا کھڑی کی گئیں۔ آپ نے ان میں سے ایک سے پوچھا۔ تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے ؟لونڈی نے بتایا: دراصل میں فلاں شخص کی لونڈی تھی۔ مجھے پکڑ کر یہاں لے آیا گیا، اب میں فلان کی لونڈی ہوں، آپ نے باقی لونڈیوں سے بھی سوالات کیے، پھر ان کے بارے میں فرمایا: ان سب کو ان کے اصل مالکان کے حوالے کر دیا جائے، مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔“*
*"_ ان لونڈیوں کو سواریاں دی گئیں اور انھیں ان کے شہروں کی طرف بھیج دیا گیا۔*
*★_ یہ حالات دیکھ کر امیر اور وزیر سمجھ گئے کہ حضرت عمر سے انصاف کے علاوہ اور کسی قسم کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ خلافت ملنے کے بعد تین دن تک آپ نے لوگوں سے ملاقات نہیں کی ۔ لوگ انتظار کرتے رہے کہ ان کے بارے میں کیا احکامات صادر ہوتے ہیں۔ آخر تین دن بعد آپ نے عام اجلاس بلایا۔ آپ نے اعلان فرمایا:- تمام کام شریعت کے مطابق ہوں گے کتاب وسنت کے مطابق فیصلے ہوں گے عادلانہ نظام چلے گا۔*
*★_ آپ نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا اور زندگی کے آخری لمحات تک اس طریقے پر گامزن رہے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا:- لوگو! تم سب کو ایک دن اللہ کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ میں بھی کھڑا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں اور کچھ سنتیں جاری کی ہیں. جو شخص ان پر عمل کرے گا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے گا اور جو ان کو چھوڑ دے گا، اسے مٹا دیا جائے گا۔ جو شخص میرے ساتھ رہنا چاہتا ہے، اسے پانچ چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا ۔*
*★_ (1) جن لوگوں کی ضرورتیں مجھ تک نہیں پہنچ پاتیں، ان کی ضرورتیں مجھ تک پہنچاے،*
*"_(2) عدل اور انصاف کی جو صورتیں میرے علم میں نہیں، ان کے بارے میں رہنمائی کرے,*
*"_(3) حق و انصاف کے قیام کے سلسلے میں میری مدد کرے امانت کا حق ادا کرے,"*
*"_ (4) میرے سامنے کسی کی برائی نہ بیان کرے۔*
*"_ (5) میری اور تمام لوگوں کی امانت کا حق ادا کرے،*
*"_ جو شخص ان پانچ باتوں پر عمل نہیں کر سکتا اسے میرے ساتھ رہنے کا کوئی حق نہیں۔*
*★_ آپ نے پہرے داروں سے فرمایا: -جب میں باہر آنے لگوں تو کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ مجھے سلام کرنے میں تم پہل کرو، میں باہر آ کر تمہیں السلام علیکم کہوں گا،*
*★_ آپ نے لوگوں سے فرمایا :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی بہت سی سنتیں ہیں ۔ ان پر عمل کرنا، اللہ کی کتاب کو مضبوط پکڑنا۔ ان سے اللہ کے دین میں قوت حاصل ہے ۔ ان میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں نہ سنت کے خلاف کوئی کام کرنا اچھا ہے۔ جو شخص ان سنتوں سے ہدایت حاصل کرے، وہ ہدایت پر ہو گا اور جو ان سے مدد لے، اس کی مدد ہو گی اور جو شخص ان سنتوں کو چھوڑ دے، وہ راہ ہدایت سے ہٹ جاتا ہے۔ پھر وہ جدھر جائے گا اللہ تعالی اسے اسی طرف پھیر دیں گے اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ لوٹنے کی بہت بری جگہ ہے ۔*
*★_ امام مالک رحمہ اللہ آپ کے اس ارشاد کے بارے میں فرماتے ہیں: مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی یہ بات بہت پسند ہے۔ اس سے سنتیں زندہ ہوتی ہیں _,*
*★_ آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا تو اس میں فرمایا: لوگو ! تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں ( ختم نبوت زندہ باد ) جو کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی، نہ اس کتاب کے بعد کوئی کتاب ہے۔ اب جو چیزیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی زبان سے حلال ٹھہرا دیں، وہ قیامت تک حلال ہی رہیں گی اور جن چیزوں کو آپ کی زبان سے حرام ٹھہرا دیا.. وہ مکمل حرام ہی رہیں گی۔ خوب سمجھ لو، میں فیصلہ کرنے والا نہیں، میں تو بس اللہ اور رسول کے فیصلوں کو اللہ کی خاطر نافذ کرنے والا ہوں میں کوئی نیا راستہ نہیں نکالوں گا، بلکہ پہلوں کے راستے پر چلوں گا،*
*★_ سن لو! اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کسی کی فرماں برداری جائز نہیں، میں تم سے بہتر نہیں ہوں تم ہی میں سے ایک فرد ہوں ۔ البتہ میری ذمے داریاں تم سب سے زیادہ ہیں۔ لوگو! سب سے افضل عبادت فرائض کا ادا کرنا اور محرمات سے بچنا ہے، بس مجھے یہی کہنا تھا میں اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ کے حضور استغفار کرتا ہوں،*
*★_ خلیفہ بنتے ہی آپ نے عیش و عشرت پر لات مار دی۔ طرح طرح کے کھانے بند کر دیے۔ جب آپ کا کھانا تیار ہو جاتا تو کسی برتن میں رکھ کر اس کو ڈھانپ دیا جاتا۔ جب آپ تشریف لاتے تو اسے خود ہی اٹھا کر تناول فرما لیتے ۔*
*★_ کوفہ کی ایک عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ اس نے آکر کہا:" آپ کی طرف وظیفے تقسیم ہوتے ہیں لیکن مجھے ان میں سے کچھ بھی نہیں ملا، نہ میری بیٹیوں کو کچھ ملا ۔*
*"_آپ نے اس سے پوچھا: تیرا گواہ کون ہے۔“ وہاں کے لوگ گواہی دیں گے۔“ آپ نے فرمایا: اچھا تم شام کو آنا۔ میں تحریر لکھ دوں گا ۔“*
*"_پھر بولے: شام کا کیا پتا کون کون جیے کون مرے، لاو ابھی لکھ دیتا ہوں،*
*★_ ایسے میں آپ کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی اس کا کرتہ پھٹا نظر آیا غالباً کسی چیز میں الجھ کر اسی وقت پھٹا تھا ۔ آپ نے اس سے فرمایا: ”بیٹا ! اپنے کرتے کا گریبان درست کر لو کیونکہ تمہیں اس کی اتنی ضرورت پہلے کبھی نہیں تھی جتنی آج ہے۔"*
*★_اسی حالت میں خالد بن ریان آپ کے سامنے حاضر ہوا۔ یہ کسی بڑے عہدے پر تھا۔ ولید کے دور میں اس نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا لیکن حکومت میں ہونے کی وجہ سے اسے کسی نے کوئی سزا نہیں دی تھی۔ اب بھی یہ آپ کے پاس اس لیے آیا تھا کہ نئے خلیفہ سے نئے احکامات حاصل کرے، آپ نے اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اسے حکم دیا -یہ تلوار یہاں رکھ دے۔“*
*"_اس نے تلوار رکھ دی۔ اب آپ نے اس سے فرمایا :-جاؤ! میں تمہیں معزول کرتا ہوں ۔“*
*★_اس کے بعد آپ نے یہ الفاظ کہے:۔ اے اللہ ! میں نے تیری رضا کے لیے خالد بن ریان کو گرا دیا ہے۔ اب اسے کبھی نہ اٹھانا_,*
*"_ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی۔ خالد بن ریان جب تک زندہ رہا، کبھی کسی کی زبان پر اس کا ذکر تک نہ آیا۔ یعنی کسی نے اسے منہ نہ لگایا ۔*
*★_ اب حضرت عمر رحمہ اللہ نے پہرے داروں کی طرف دیکھا۔ ان میں آپ کو عمرو بن مہاجر نظر آئے۔ یہ بہت پرہیز گار تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا:- عمرو ! میں نے تمہیں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے پایا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ تم نوافل ایسی جگہ پڑھتے ہو، جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ سکے اور نماز بھی تم خوب سنوار کر پڑھتے ہو۔ یہ تلوار اٹھالو میں تمہیں پہرے دار مقرر کرتا ہوں۔*
*★_ آپ کی بیوی فاطمہ، خلیفہ عبدالملک کی بیٹی تھیں۔ ایک خلیفہ کی پوتی تھیں اور کئی خلفاء کی بہن تھیں۔ خلیفہ بنتے ہی آپ نے ان کے تمام جواہرات اور زیورات اور دوسری قیمتی چیزیں بیت المال میں جمع کرادیں۔ آپ نے محسوس کیا کہ فاطمہ ان کے اس اقدام سے خوش نہیں تھیں۔ چنانچہ آپ نے ان سے صاف صاف کہہ دیا:- تمہیں اختیار ہے، میرے پاس رہو یا اپنے میکے چلی جاؤ،*
*★_ کہنے کا مطلب تھا کہ میرے ساتھ رہنا ہے تو ان زیورات اور جواہرات کا خیال دل سے نکالنا ہوگا ، زیورات اور جواہرات چاہیں تو پھر میرے ساتھ نہیں رہ سکتیں، یہ سن کر فاطمہ راضی ہو گئیں اور بول اٹھیں ۔ میں آپ کے ساتھ رہوں گی ۔“*
*★_ انھوں نے اپنے گھر کے اخراجات کے لیے بھی اتنا ہی مقرر کیا جتنا عام مسلمانوں کو ملتا تھا۔ آپ نے جو سلوک فاطمہ کے ساتھ کیا تھا ، وہی سلوک اپنی تمام اولاد یعنی بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا۔ ان کے بھی تمام زیورات اور قیمتی چیزیں بیت المال میں داخل کرا دیے۔*
*★_ آپ کی ایک بچی کو کہیں سے ایک موتی مل گیا۔ اس نے آپ سے کہا: اگر آپ مجھے اس جیسا ایک موتی دے دیں تو میں یہ دو موتی اپنے کانوں میں پہن لوں گی، آپ نے بچی کے سامنے دو انگارے رکھ دیے اور فرمایا: اگر تم یہ دونوں انگارے کانوں میں پہن سکتی ہو تو میں تمہارے لیے موتی کا انتظام کر دیتا ہوں۔"*
*"_بچی یہ سن کر خاموش ہو گئی۔*
*★_ کسی نے آپ کو بتایا:. آپ کے ایک بیٹے نے انگوٹھی کے لیے ایک نگ ایک ہزار درہم میں خریدا ہے ۔“ آپ نے فوراً اپنے بیٹے کو خط لکھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے: میں نے سنا ہے تم نے انگوٹھی کے لیے ایک نگ ایک ہزار درہم میں خریدا ہے۔ اس نگ کو فوراً بیچ دو اور اس کی قیمت اللہ کے راستے میں دے دو، ایک درہم کی دوسری انگوٹھی خرید لو۔ اس پر یہ الفاظ لکھوالو: اللہ اس پر رحم فرمائے جو اپنا مرتبہ پہچانے ۔“*
*★_ آپ کے ایک غلام کا نام درہم تھا۔ وہ آپ کے لیے لکڑیاں لایا کرتا تھا۔ خلیفہ بننے کے چند دن بعد آپ نے اس سے پوچھا:- در ہم لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: " لوگ کیا کہیں گے۔ وہ سب مزے میں ہیں. بس میں اور آپ تکلیف میں ہیں،*
*"_حضرت عمر نے پوچھا: ” یہ کیوں؟ اس نے کہا: "خلافت ملنے سے پہلے میں نے آپ کو خوشبوؤں میں بسے لباس پہنتے دیکھا ہے۔ عمدہ عمدہ گھوڑوں پر سواری کرتے دیکھا ہے۔ مزے مزے کے کھانے کھاتے دیکھا ہے۔ اب جب آپ کو خلافت ملی تو میرا خیال تھا، مجھے آرام ملے گا۔ کام کا بوجھ مجھ سے ہلکا ہو جائے گا لیکن مجھ پر تو اب کام کا بوجھ اور بڑھ گیا ہے اور آپ بھی تکلیف میں پھنس گئے ہیں _,"*
*"_ حضرت عمر نے اس کی بات سنی تو فرمایا:- اچھا تم آزاد ہو، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، جہاں جانا چاہتے ہو، چلے جاؤ ۔*
*★_ آپ کی بیوی فاطمہ کے ایک بھائی مسلمہ تھے، یہ بڑے بہادر مجاہد کمانڈر تھے۔ انھیں حضرت عمر سے بہت محبت تھی۔ حضرت عمر بھی ان سے اسی طرح بہت محبت کرتے تھے۔ مسلمہ میں ایک بری عادت تھی۔ وہ طرح طرح کے کھانوں کے شوقین تھے اور پوری طرح فضول خرچی کرتے تھے، حضرت عمر رحمہ اللہ کو ان کی اس عادت کا پتا تھا۔ آپ دعا کیا کرتے تھے: کاش ! مسلمہ یہ فضول خرچی چھوڑ دیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شوق انھیں حرام میں الجھا دے،*
*★_ ایک دن حضرت عمر نے انہیں حکم دیا: آپ صبح صبح میرے پاس پہنچ جائیں، انھیں یہ پیغام بھیج کر آپ نے اپنے لیے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے لیے مسور کی دال پکائی گئی۔ مسلمہ کے لیے طرح طرح کے کھانے تیار کیے گئے۔*
*"_ مسلمہ آیا تو آپ نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اس سے باتیں کرنے لگے یہاں تک کہ کافی وقت گزر گیا اور مارے بھوک کے مسلمہ کا برا حال ہو گیا. جب وہ بھوک سے بری طرح بے چین ہو گئے تو آپ نے خادم کو اپنا کھانا لانے کا حکم دیا۔ آپ کے لیے مسور کی دال آگئی آپ نے مسلمہ سے فرمایا: یہ میرا کھانا ہے ۔ آپ کا کھانا تھوڑی دیر بعد آئے گا۔*
*★_ یہ کہہ کر آپ کھانے لگے، مسلمہ سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بھی بے تابانہ انداز میں آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئے اور دال روٹی خوب پیٹ بھر کر کھا گئے۔ کچھ دیر بعد ان کے سامنے طرح طرح کے کھانے سجائے گئے۔حضرت عمر نے ان سے فرمایا:- یہ ہے آپ کا کھانا جو خاص طور پر آپ کے لیے تیار کرایا گیا ہے۔“*
*★_مسلمہ نے پریشان ہو کر کہا۔میں تو پیٹ بھر کر کھا چکا ہوں ۔ اب تو بالکل گنجائش نہیں,*
*"_آپ نے فرمایا:- نہیں بھی کھاؤ۔" مسلمہ نے کہا: امیر المومنین ! بالکل کوئی جگہ نہیں ہے ۔“*
*"_اب آپ نے اس سے فرمایا:- اگر مسور کی دال سے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا جا سکتا ہے تو پھر کھانے کے سلسلے میں اس قدر فضول خرچی کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں آگ میں گھستے ہو .... یہ دال ہی کافی ہے۔*
*"_اس دن کے بعد مسلمہ نے طرح طرح کے کھانوں سے توبہ کر لی۔*
*★_ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ االلہ ماضی میں خوب خوشبو لگایا کرتے تھے، فضول خرچی کی حد بھی پھلانگ جاتے تھے۔ اس طرح خوشبو دار تیل بھی بہت زیادہ لگاتے تھے۔ خلیفہ بننے پر آپ نے یہ سب چیزیں چھوڑ دیں۔ کسی جگہ خوشبو محسوس ہوتی تو وہاں سے ناک بند کر کے گزر جاتے۔ آپ نے اپنے کھانے پینے میں بھی اس حد تک کمی کر دی تھی کہ خون جل کر آپ کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا۔ کھال ہڈیوں سے چمٹ گئی تھی اور جسم پر گوشت برائے نام رہ گیا تھا۔*
*★_ آپ فرمایا کرتے تھے:- جو کھانے پینے میں اپنے نفس کی باگ ڈور سنبھال کر نہیں رکھتا، وہ غیروں کی رہنمائی بھی نہیں کر سکتا اور جس پر اس کا پیٹ حاکم ہو، وہ حاکم ہونے کی حیثیت سے کسی کو مطمئن نہیں کر سکتا، بھرا پیٹ اسے رسوا کر کے رہتا ہے۔“*
*★_ حضرت عمر رحمہ اللہ نے اپنے باطن کی بھی صفائی کی طرف خاص توجہ دی، لیکن اس پر بھی آپ کو یہی خیال رہتا تھا کہ آپ نے کچھ نہیں کیا۔ روٹی، کپڑا اور گھر جائز چیزیں ہیں، لیکن ان جائز چیزوں سے بھی خود کو بچانا صحابہ کرام کے رگ و ریشے میں سرایت کر گیا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی بھی یہی حالت ہو گئی تھی ۔ آپ نے خود کو جائز چیزوں سے بھی دور کر لیا تھا۔*
*★_ کوئی آپ سے پوچھتا: آپ نے کیسے صبح کی ؟ آپ جواب دیتے: میں نے اطاعت میں دیر کی، گناہوں میں پھنس کر خالی پیٹ کی حالت میں صبح کی اور اللہ سے اچھی امید میں رکھتا ہوں۔ ( ابن جوزی)*
*★_ بچپن میں آپ فخر کے انداز میں چلتے تھے ۔ جب آپ کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کیا گیا تو اس وقت اکڑ کر چلنے لگے۔ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے اس کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا لیکن چونکہ عادت پختہ ہو چکی تھی، اس لیے چھوٹ نہ سکی۔ یہ بات محسوس کر کے آپ نے اپنے خادم مزاحم کو ہدایت کی: مزاحم ! جب بھی میری چال میں اکڑ دیکھو تو فوراً مجھے خبر دار کر دو_", مزاحم اس تاک میں رہنے لگے۔ جو نہی محسوس کرتے کہ آپ کی چال میں اکڑ آ رہی ہے آپ کو خبردار کر دیتے پھر ہوا یہ کہ اس کوشش میں آپ کی چال ہی عجیب ہو گئی،*
*★_ خلافت ملنے کے بعد آپ ہر وقت خوف زدہ رہنے لگے۔ آپ نے ہنسی مذاق بالکل ترک کر دیا تھا۔ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے ۔ محرم الحرام کے پہلے عشرے کے روزے بھی رکھتے تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت با قاعدگی سے کرتے تھے۔ایک روز اپنی بیوی فاطمہ سے کہنے لگے: آج کی نسبت ہم ماضی میں زیادہ آرام سے تھے نا۔ فاطمہ بولیں: ہاں! امیر المومنین! آپ اس زمانے میں زیادہ عیش میں تھے ۔“*
*"_آپ نے ان کی طرف سے پیٹھ پھیرتے ہوئے فرمایا: فاطمہ! مجھے ایک بڑے عذاب کا ڈر ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو اس کے عذاب سے کیسے بچ سکتا ہوں ۔ ( ابن عبد الحکیم )*
*★_ آپ نے عروہ بن محمد کو یمن کا حاکم مقرر فرمایا۔ انہوں نے وہاں کے حالات لکھے اور بتایا کہ یہاں کے لوگوں پر جزیہ کی طرح خراج کی بھی ایک رقم مقرر کی گئی۔ یہ رقم ان لوگوں کو ہر حال میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ چاہے یہ جبیں یا مریں۔ آپ نے انھیں خط لکھا، اس میں فرمایا: جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو جس چیز میں تمہیں نا انصافی اور ظلم نظر آئے، اسے چھوڑ دو۔ حق اور انصاف کو اختیار کرو۔ نئے سرے سے خراج کی رقم مقرر کرو چاہے اس کی مقدار کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، اس کے لیے چاہے ہمیں اپنی جانوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پری ( مطلب یہ تھا کہ کم سے کم خراج مقرر کرو ، لوگوں کو آسانی دو ) اگر تم مجھے یمن سے ایک مٹھی بھر خراج بھی بھیجو گے تو بھی میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا بس تم حق اور انصاف سے کام لو..... والسلام،*
*★_ آپ نے یحیٰی بن سعید کو افریقہ کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ آپ نے ہدایت فرمائی کہ صدقات وصول کر کے وہاں کے غریبوں میں تقسیم کرائیں۔ یحیٰی بن سعید نے صدقات وصول کر کے غریبوں کی تلاش شروع کر دی۔ انھیں کوشش کے باوجود ایک بھی ایسا شخص نہ ملا جو صدقات لے لیتا، حضرت عمر رحمہ اللہ کی اصلاحات نے سب لوگوں کو مال دار بنا دیا تھا۔ آخر مجبور ہو کر یحییٰ بن سعید نے اس رقم سے غلام خرید کر آزاد کیے۔*
*★_ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے تمام مسلمانوں کے نام یہ پیغام بھیجا: میں تمہیں اللہ کا خوف اختیار کرنے، اس کی کتاب کو لازم پکڑنے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ تعالی نے وہ تمام امور بیان فرما دیے ہیں جو تمہیں کرنے ہیں اور جو نہیں کرنے ۔“*
*"_اس کے بعد آپ نے ان تمام احکامات کی تفصیل اپنے اس پیغام میں بیان فرمائی,*
*★_ آپ نے اپنے گورنروں اور لشکروں کے امیروں کو یہ حکم ارسال کیا : دین کا مضبوط حلقہ اور اسلام کا دارو مدار اللہ تعالی پر ایمان لانا، ٹھیک وقت پر نماز پڑھنا، زکوۃ ادا کرنا ہے، نمازوں کی پابندی کرو، نمازوں کو ان کے وقت پر ہی پڑھو اور خوب جان لو کہ جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے، وہ باقی احکام شرعیہ کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔*
*★_ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے شاہ روم کے پاس ایک قاصد بھیجا، یہ قاصد ایک دن بادشاہ کے پاس سے اٹھا تو گھومتے پھرتے ایک ایسی جگہ پہنچا، جہاں ایک شخص کے قرآن پڑھنے اور چکی پیسنے کی آواز آرہی تھی، یہ اس کے پاس گیا اور اسے سلام کیا، مگر اس نے جواب نہیں دیا، اس نے دو تین مرتبہ سلام کیا، بالآخر اس نے یہ کہا کہ اس شہر میں سلام کیسا ؟ قاصد نے بتایا کہ وہ شاہ روم کے نام امیر المومنین کا ایک پیغام لے کر آیا ہے اور اس سے دریافت کیا کہ تمہاری سرگذشت کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ مجھے فلاں جگہ سے قید کیا گیا تھا۔ مجھے شاہ روم کے سامنے پیش کیا گیا، بادشاہ نے مجھے دعوت دی کہ میں نصرانی ہو جاؤں ورنہ مجھے اندھا کر دیا جائے گا، مگر میں نے آنکھوں کے بجائے دین کو ترجیح دی۔ چنانچہ گرم سلائیوں سے میری آنکھیں ضائع کر دی گئیں اور مجھے یہاں پہنچا دیا گیا، یومیہ اتنی گندم پیسنے کو ملتی ہے اور ایک روٹی کھانے کو۔*
*★_ قاصد حضرت عمر کے پاس گیا تو اس شخص کا قصہ بھی پیش کیا، قاصد کا بیان ہے کہ میں ابھی پورا قصہ بیان نہیں کر پایا تھا کہ حضرت عمر کی آنکھوں سے آنسوؤں کا چشمہ ابل پڑا، جس سے ان کے آگے کی جگہ تر ہو گئی، پھر شاہ روم کے نام خط لکھا: اما بعد ! مجھے فلاں صاحب کی خبر پہنچی ہے ( یہاں اس قیدی کے احوال ذکر کیے گئے ) اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر تونے اس کو رہا کر کے میرے پاس نہیں بھیجا تو میں تیرے مقابلے میں ایسا لشکر بھیجوں گا، جس کا پہلا دستہ تیرے پاس ہوگا اور پچھلا میرے پاس۔“*
*★_ قاصد پھر شاہ روم کے یہاں گیا، اس نے کہا: بڑی جلدی دوبارہ آئے ؟ قاصد نے حضرت عمر کا خط پیش کیا، اس نے پڑھ کر کہا، ہم نیک آدمی کو لشکر کشی کی زحمت نہیں دیں گے۔ بلکہ قیدی واپس کر دیں گے۔*
*★_ ایک رات زیان بن عبدالعزیز، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس آئے۔بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ آخر حضرت عمر رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ رات میرے لیے بہت لمبی ہوگئی نیند نہیں آرہی اور میرا خیال ہے، اس کا سبب وہ کھانا ہے جو میں نے رات کھایا ہے ۔“ زبان نے پوچھا: آپ نے رات کیا کھایا تھا ؟ آپ نے فرمایا: مسور کی دل اور پیاز “*
*★_اس پر زیان نے کہا: آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت کشادگی دے رکھی ہے۔ آپ خود ہی اپنے آپ کو تنگی میں رکھتے ہیں، اس کی بات سن کر آپ نے فرمایا:" میں نے تجھے اپنی حالت بتا کر اپنا بھید کھول دیا۔ تو میرا خیر خواہ نہیں، بدخواہ ہے۔ اللہ کی قسم ! جب تک زندہ رہوں گا۔ اپنا بھید کسی پر ظاہر نہیں کروں گا۔*
*★_ ایک رات کچھ لوگ اپنے کسی کام سے آپ کے پاس آئے۔ چراغ جل رہا تھا۔ باتوں کے دوران چراغ کی لو کم ہوئی۔ آپ چراغ کے پاس گئے اور اس کی لو کو ٹھیک کر دیا۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا: امیر المومنین! آپ اس کام کے لیے ہم سے کہہ دیتے ۔“*
*"_ آپ نے جواب میں فرمایا : کوئی بات نہیں، جب میں اٹھا، اس وقت بھی میں عمر بن عبدالعزیز تھا، اس وقت بھی میں عمر بن عبدالعزیز ہی ہوں_,"*
*★_ ایک روز آپ کے پاس بہت سا عنبر مال غنیمت میں لایا گیا، آپ نے اس کو ہاتھ میں لے کر دیکھا اور حکم فرمایا:-اسے فروخت کر دیا جائے ۔“*
*"_ایسے میں آپ کا ہاتھ ناک کو جا لگا۔ آپ کو خوشبو محسوس ہوئی۔ فوراً پانی منگوایا۔ اس سے ہاتھ دھوئے، منہ دھویا۔ وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے پوچھا: کیا اس عنبر میں کوئی خاص بات تھی،" نہیں میرے ہاتھ کو لگ گیا تھا اور میں اس کا حق دار نہیں تھا،*
*★_ اسی طرح ایک دن کستوری لائی گئی۔ اس کی خوشبو محسوس ہوئی تو ہاتھ سے ناک بند کر لیا اور فرمایا: اسے اتنی دور رکھو کہ خوشبو نہ آئے ۔“*
*★_ آپ کا غلام گرم پانی کا لوٹا لے کر آتا اور آپ اس سے وضو کر لیا کرتے ۔ ایک دن اس غلام سے فرمایا: کیا تم یہ لوٹا مسلمانوں کے کھانے پکانے کی جگہ پر لے جاتے ہو اور وہاں آگ کے پاس رکھ دیتے ہو ؟ غلام نے عرض کیا: جی ہاں ! یہی کرتا ہوں۔“*
*"_یہ سن کر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا : کم بخت ! تو نے ستیا ناس کر دیا یہ لوٹا بھر کر گرم کرو اور دیکھو کہ اس پر کتنا ایندھن لگتا ہے۔ پھر ان تمام دنوں کا حساب کر کے اتنا ایندھن وہاں جمع کراؤ _,*
*★_ شدید سردی کے موسم میں آپ کو ایک رات غسل کی حاجت ہوئی۔ خادم نے پانی گرم کر کے پیش کر دیا۔ آپ نے پوچھا: کیسے گرم کیا ؟ اس نے کہا: عام مطبخ سے۔“ (یعنی جہاں مسلمانوں کا کھانا پکتا ہے ) آپ نے فرمایا: پھر اسے اٹھا لو۔“*
*★_ اب آپ نے ٹھنڈے پانی سے غسل کا ارادہ کیا۔ ایک شخص نے آپ سے کہا: امیر المومنین ! سردی بہت ہے، اپنی ذات پر رحم کریں۔ اگر مطبخ کا پانی اپنے لیے جائز نہیں سمجھتے تو اتنے ایندھن کی قیمت بیت المال میں جمع کرا دیں۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔*
*★_ آپ کے گھر کے تین افراد، آپ کے بھائی سہیل، آپ کے بیٹے عبدالملک اور آپ کے غلام مزاحم آپ کے مددگار تھے۔ حق کے نافذ کرنے میں آپ کی مدد کرتے تھے۔ آپ کو ان کا بہت سہارا تھا۔ ایک بار بنی امیہ کے چند لوگ جمع ہو کر آپ کے بیٹے عبدالملک کے پاس آئے اور ان سے کہا: آپ کے باپ نے ہم سے قطع رحمی کی ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا، وہ سب ہم سے چھین لیا ہے اور ہمارے بڑوں کی عیب جوئی کی ہے۔ اللہ کی قسم! ہم اس پر صبر نہیں کریں گے۔ ان سے کہیے، یہ سب ہمارے لیے نا پسندیدہ ہے۔ اس سے باز آجائیں_,"*
*★_ عبدالملک نے ان کا یہ پیغام حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تک پہنچانے کی ہامی بھر لی ۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان لوگوں کی باتیں آپ کو بتائیں۔ یہ باتیں سن کر حضرت عمر رحمہ اللہ کو بہت صدمہ ہوا۔ آپ کو صدے کی حالت میں دیکھ کر عبد الملک نے کہا: امیر المومنین! آپ جو کرنا چاہتے ہیں، وہی کیجیے۔ ان لوگوں کی دھمکیوں کی پروانہ کیجیے۔ اللہ کی خاطر اگر ہم ان لوگوں کا نشانہ بن جاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہوگی۔“*
*"_حضرت عمر رحمہ اللہ بیٹے کی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا : اللہ پاک کا بے حد شکر ہے، اس نے سہل، عبدالملک اور مزاحم کے ذریعے میری کمر مضبوط کردی _,"*
*★_ ایک شخص نے آپ کو یہ کہہ کر پکارا: " اے زمین میں اللہ کے خلیفہ“*
*"_آپ نے اس سے فرمایا : ” دیکھو! جب میں پیدا ہوا تھا تو والدین نے میرے لیے ایک نام تجویز کیا تھا، چنانچہ میرا نام عمر رکھا۔ اگر تم مجھے یا عمر کہ کر پکارتے تو میں جواب دیتا۔ پھر میں بڑا ہو گیا تو میں نے اپنے لیے ایک کنیت پسند کی۔ میں نے اپنی کنیت ابو حفص رکھی۔ اگر تم مجھے ابو حفص کہہ کر بلاتے تو میں تمہیں جواب دیتا۔ پھر جب تم لوگوں نے خلافت میرے سپرد کر دی تو تم نے میرا نام امیر المؤمنین رکھا۔ اگر تم امیر المؤمنین کے لقب سے مجھے خطاب کرتے تو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ باقی رہا تمہارا یہ کہنا، اے زمین میں اللہ کے خلیفہ، تو میں خود کو ایسا نہیں سمجھتا۔ زمین میں اللہ کے خلیفہ تو حضرت داؤد علیہ السلام اور ان جیسے حضرات تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ۔ ( سورہ ص )*
*★_ محمد بن کعب قرظی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ االلہ سے ملاقات کے لیے گئے، حضرت عمر رحمہ اللہ کا بدن اس وقت حد درجے کمزور ہو چکا تھا۔ سر کے بال جھڑ گئے تھے۔ چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ محمد کعب قرظی نے انہیں اس وقت بھی دیکھا تھا جب آپ مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ اس وقت آپ بہت خوب صورت تھے، آپ کا بدن سڈول تھا۔ وہ آپ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔ انہیں اس طرح دیکھ کر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا: ابن کعب ! کیا بات ہے؟ خیر تو ہے، تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو، گویا پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں ۔“*
*★_ محمد بن کعب نے جواب دیا: -تعجب کی نظروں سے دیکھ رہا ہوں ۔“ حضرت عمر نے پوچھا: اور تمہیں کسی بات پر تعجب ہے؟ محمد بن کعب نے کہا: تعجب اس بات پر ہے کہ آپ کا جسم لاغر ہو چکا ہے۔ سر کے بال جھڑ گئے ہیں ۔ چہرے کا رنگ کچھ کا کچھ ہو گیا ہے ۔“*
*★_جواب میں آپ نے فرمایا:- ابن کعب ! اگر تم میرے دفن کے تین دن بعد میری قبر میں مجھے دیکھو تو تمہیں کس قدر تعجب ہوگا، میری آنکھیں رخساروں پر آگری ہوں گی، منہ اور نتھنوں سے کیڑے نکل رہے ہوں گے، پیپ بہہ رہی ہوگی، یقیناً آج کی نسبت اس دن میں نہیں پہچانا جاؤں گا۔۔*
*★_ آپ اپنی بیٹیوں کے پاس عشا کی نماز سے فارغ ہو کر جاتے تھے۔ ایک رات گئے تو بیٹیوں نے آپ کو دیکھتے ہی منہ پر ہاتھ رکھ لیے اور اندر کی طرف لپکیں۔ آپ نے خادمہ سے پوچھا۔ انھیں کیا ہوا ؟ خادمہ نے بتایا:- آج شام ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ مجبوراً انہوں نے مسور کی دال اور پیاز سے پیٹ بھرا ہے۔ یہ سوچ کر اندر چلی گئیں کہ آپ کو پیاز کی بو محسوس نہ ہو ۔“*
*★_ یہ سن کر حضرت عمر رو پڑے۔ پھر اپنی صاحب زادیوں سے فرمایا: بیٹی ! تم رنگا رنگ کے کھانے کھا سکتی ہو، لیکن پھر ہوگا یہ کہ تمہارے باپ کو پکڑ کر دوزخ میں لے جایا جائے گا۔" یہ سن کر صاحب زادیوں کی چیخیں نکل گئیں_,*
*★_ جب فتنوں کی آندھیاں چل رہی تھیں، اس وقت آپ کے فرزند عبد الملک نے آپ کو عجیب سہارا دیا۔ وہ تاریخ کا ایک انوکھا نو جوان ثابت ہوا۔ نوجوان تھے، بیس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے لیکن آپ کا ایمان بچپن ہی سے بہت مضبوط تھا۔ ہر معاملے میں آپ کی مدد کرتے رہے۔ آپ کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے۔ غرض عبد الملک نے قدم قدم پر آپ کو ابھارا اور آپ میں کوئی نرمی نہ آنے دی۔*
*★_ ایک روز آپ کام کرتے کرتے بہت زیادہ تھک گئے اور چاہا کہ کچھ دیر آرام کر لیں۔ چنانچہ آپ لیٹ گئے۔ عبد الملک نے فوراً کہا: امیر المومنین آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا:- پیارے بیٹے ! اب میں ذرا سونا چاہتا ہوں، عبد الملک نے فوراً کہا: کیا آپ کام مکمل کیے بغیر سوئیں گے؟ اس پر آپ نے فرمایا: پیارے بیٹے ! کل رات میں تمہارے چچا جان کے کام کے سلسلے میں رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ اب تھوڑی دیر سونے کے بعد باقی کام انجام دوں گا۔*
*★_اس پر عبد الملک نے کہا:- امیر المومنین! کیا آپ کو پتا ہے، آپ سو کر اٹھیں گے بھی یا نہیں، مستقبل میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی زندگی کا بھروسہ نہیں ۔“ یہ سنتے ہی آپ نے بیٹے سے کہا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک ! ذرا میرے قریب تو آؤ ۔عبدالملک باپ کے قریب ہو گئے، آپ نے انھیں گلے سے لگا لیا اور ان کی پیشانی چوم لی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایسا صالح بیٹا عطا فرمایا جو دین پر اتنی مدد کرتا ہے۔اس کے بعد آپ سوئے بغیر ہی باہر آگئے اور کام میں لگ گئے۔ اعلان بھی کرایا کہ جس پر ظلم ہوا ہے، وہ آکر بتائے ۔ امیر المومنین جاگ رہے ہیں۔*
*★_ ایک دن آپ کے فرزند نے دیکھا کہ ان کے والد کوئی فیصلہ کرنے کے سلسلے میں پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا: ابا جان! آپ کو انصاف کرنے سے کون سی چیز روک رہی ہے۔ اللہ کی قسم اگر مجھے اور آپ کو ابلتی دیگوں میں ڈال دیا جائے تو بھی مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ ہم حق کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہیں،*
*★_ بیٹے کی بات سن کر حضرت عمر نے فرمایا: پیارے بیٹے ! میں سرکش اونٹ جیسی اس دنیا کو قابو میں کر رہا ہوں۔ میں انصاف کے تمام طریقے زندہ کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ کام آہستہ آہستہ کر رہا ہوں، تاکہ میں بھی دنیا کے لالچ سے نکل جاؤں اور مجھے دیکھ کر لوگوں کو بھی دنیا سے نفرت ہو جائے ۔“*
*★_ ایک دن عبد الملک حضرت عمر کے پاس آئے۔ اس وقت آپ کے پاس ان کے چچا مسلمہ بھی موجود تھے۔ عبد الملک نے کہا: آپ ذرا تنہائی میں میری بات سن لیں، حضرت عمر نے پوچھا:- کیا کوئی راز کی بات ہے۔ جسے اپنے چچا سے چھپانا چاہتے ہو۔“ عبد الملک نے فوراً کہا: ہاں ! ایسی ہی بات ہے ۔“*
*★_ اس پر مسلمہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب عبدالملک اپنے والد کے پاس بیٹھ گئے اور بولے: امیر المومنین ! کل آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے جب وہ آپ سے پوچھے گا۔ اے عمر! تو نے بدعت دیکھی تھی لیکن اسے ہٹانے کی کوشش نہیں کی تھی، اے عمر ! تو نے سنتوں کو مردہ ہوتے دیکھا تھا۔ کیا ان کو زندہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔“*
*★_ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا: لخت جگر ! کیا اس نصیحت پر تمہیں کسی بات نے مجبور کیا ہے یا اپنے دل سے کہہ رہے ہو ؟ عبد الملک بولے: نہیں امیر المومنین! یہ بات میں نے اپنے دل سے کہی ہے، مجھے معلوم ہے، آپ سے یہ پوچھا جائے گا۔ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہوگا، حضرت عمر رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: نور نظر ! اللہ تمہیں بہترین جزا دے، تم پر رحم فرمائے، مجھے تم سے بڑی امید ہے، تم خیر کے کاموں میں میرے سرگرم معاون ثابت ہوں گے۔ میرے بچے، ہماری قوم نے خلافت میں بے شمار مشکلات پیدا کر دی ہیں ۔ ظلم کی بنیادوں کو بہت مضبوط کر دیا ہے ۔ جب میں ان سے ان کی جائیدادیں واپس لینے کے لیے جھگڑتا ہوں تو مجھے ایسی پھوٹ پڑ جانے کا ڈر رہتا ہے جس سے خون خرابے کی نوبت نہ آجائے ۔ اللہ کی قسم ! میرے نزدیک دنیا کا فنا ہو جانا آسان ہے مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا ذرا سا بھی خون نکلے ۔ کیا تم اس سے راضی نہیں کہ کبھی نہ کبھی وہ مبارک دن آجائے جس دن میں بدعت کی جڑیں اکھاڑ پھینکوں اور دنیا کو سنتوں کے نور سے جگ مگادوں ، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادیں اور اللہ بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں،*
*★_ ایک دن کسی بات پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو شدید غصہ آ گیا۔ جب آپ کا غصہ دور ہو گیا تو عبدالملک نے کہا: امیر المومنین ! اللہ تعالی نے آپ کو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے۔ آپ کو اپنے بندوں پر امیر بنایا ہے، تو کیا اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی یہی قدر ہے کہ آپ کو اتنا شدید غصہ آجائے جو اس وقت میں نے دیکھا ہے ؟ ۔“*
*"_حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا:-بیٹا ! تم نے کیا کہا، ذرا پھر کہنا ۔ عبد الملک نے اپنے الفاظ دہرا دیے۔ اب حضرت عمر بولے: عبد الملک ! کیا تمہیں غصہ نہیں آتا ؟۔*
*★_ جواب میں عبدالملک بولے :"امیر المومنین ! میرا پیٹ کس دن کام آئے گا۔ اگر میں غصے کو اس میں نہ لوٹا دوں یہاں تک کہ ذرا سا غصہ بھی ظاہر نہ ہونے دوں _," مطلب یہ تھا کہ میں تو غصہ اس طرح پی جاتا ہوں کہ کوئی محسوس تک نہیں کر سکتا کہ مجھے غصہ آیا ہے۔ آپ بھی ایسا ہی کیا کریں۔*
*★_ حضرت عمر رحمہ اللہ کا یہ عظیم فرزند آخرت کی فکر میں دبلا ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ مرض الموت میں گرفتار ہو گیا۔ حضرت عمر ان کی عیادت کے لیے جاتے اور پوچھتے ۔ عبد الملک ! کیا حال ہے؟ عبدالملک اپنے والد سے اپنا حال چھپا لیتے کہ انہیں رنج نہ ہو اور کہتے- الحمد للہ ! میں اچھا ہوں۔“*
*★_مریض کی حالت حضرت عمر سے چھپی نہیں تھی اس لیے آپ نے ان سے کہا: بیٹا ! مجھ سے اپنی حالت ٹھیک ٹھیک بیان کرو۔“ اس پر عبد الملک نے کہا: میں اپنی موت کو قریب محسوس کرتا ہوں۔ لہذا آپ اجر کی غرض سے صبر کریں، کیونکہ آپ کے لیے اللہ کا ثواب مجھ سے بہتر ہے ۔“*
*"_یہ سن کر حضرت کا دل ڈوبنے لگا۔ انہیں عبد الملک سے بہت زیادہ محبت تھی, حضرت عمر اس کے پاس سے چلے آئے اور نماز پڑھنے لگے،_اتنے میں مزاحم نے آکر بتایا: امیر المومنین ! عبد الملک وفات پاگئے۔ حضرت عمر بے ہوش ہو کر گر پڑے۔*
*★_ یوں تو حضرت عمر رحمہ اللہ کی اولاد بہت تھی۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے، تین بیٹیاں تھیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ عالم اور فقیہ عبد الملک ہی تھے۔ باپ کو نصیحت کرنے میں بہت دلیر تھے، جب انھیں دفن کر دیا گیا تو آپ قبلہ اور قبر کے درمیان کھڑے ہو گئے۔ باقی لوگ آپ کے چاروں طرف کھڑے تھے۔ اس وقت آپ نے کہا:-*
*"_بیٹا! تم پر اللہ اپنا رحم فرمائے تمہاری پیدائش سے خوشی ہوئی تھی تمہارا اٹھان نیکیوں سے بھر پور رہا, مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ میں تمہیں آواز دوں اور تم میری آواز پر لبیک کہو، مجھے تمہاری ذراسی تکلیف بھی گوارا نہیں تھی۔ آج تمہیں اس جگہ رکھ کر میں بہت خوش ہوں، تمہارے بارے میں اللہ سے جو حصہ مجھے ملنے والا ہے، اس کی بہت زیادہ امید ہے، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے اور تمہارے نیک عملوں کو بہترین بدلہ عطا فرمائے اور تمہاری برائیاں مٹادے اور تمہارے لیے دعا کرنے والے ہر شخص پر اللہ اپنا رحم فرمائے خواہ وہ آزاد ہو، یا غلام حاضر ہو یا غائب اور مرد ہو یا عورت، جس نے خلوص سے تمہارے لیے دعا کی، اللہ اسے اجر عطا فرمائے ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں اور اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ رب العالمین کا بہت بہت شکر ہے۔*
*★_ پھر حضرت عمر، عبد الملک کی قبر سے واپس لوٹے ۔ سب لوگوں کو ان کی موت کا بہت صدمہ تھا۔ سب لوگ رہتی دنیا تک ان پر افسوس کرتے رہیں گے۔ ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہیں گے۔*
*★_ حضرت عمر کی مجلس میں بیٹھنے والوں میں عبید اللہ بن عتبہ بہت ہی مخلص تھے ۔ آپ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے: اگر مجھے عبید اللہ کی ایک مجلس نصیب ہو جائے تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے پیاری ہے۔ اللہ کی قسم میں عبید اللہ کی ایک رات انہیں سرکاری خزانے سے ایک ہزار دینار دے کر خرید لوں گا۔*
*★_ لوگوں نے اس بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: امیر المومنین! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جب کہ آپ سرکاری خزانے کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں اور اس کی ضرورت سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں۔“*
*"_آپ نے جواب میں فرمایا :- تم لوگوں کی عقلیں کہاں چلی گئیں، اللہ کی قسم میں ان کی رائے، خیر خواہی اور ہدایت سے سرکاری خزانے میں کروڑوں روپیہ جمع کردوں گا ۔“*
*"_یہ عبید اللہ بن عقبہ بھی حضرت عمر کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے ۔*
*★_ آپ کے دور میں حالت یہ ہوگئی تھی کہ کوئی شخص مال لے کر آتا اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کے لیے ان کو تلاش کرتا تو اسے ضرورت مند ملتے ہی نہیں تھے۔ اسے اپنا مال واپس لے جانا پڑتا۔*
*★_ آپ کی تڑپ یہ تھی کہ اسلام زمین کے کونے کونے تک پھیل جائے اور لوگ سیدھے راستے پر چلنے لگ جائیں۔ آپ عالموں کو تاکیدی خطوط لکھتے۔ وہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دیتے، عام طور پر ذمی مسلمان ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد ان سے جزیہ نہ لیا جاتا، اس طرح خزانے میں مال جمع نہ ہوتا ۔ بیت المال کے نگران خزانہ خالی ہونے کی شکایت کرتے تو آپ فرماتے: لوگوں کا راہ ہدایت پا جانا خزانہ بھرنے سے کہیں بہتر ہے۔“*
*★_ جوں جوں آپ کی عمر بڑھ رہی تھی، موت کا خوف زیادہ ہو رہا تھا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ عبد الملک، ولید اور سلیمان آپ کے سامنے فوت ہوئے تھے۔ آپ نے ولید کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا تھا۔ ان کے نازونعم میں پلے جسموں کو قبر میں دفن ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے آپ تنہائی میں گھٹ گھٹ کے رویا کرتے تھے۔ آپ کی آہوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔ آپ فرمایا کرتےتھے: - کیا ان تینوں خلفاء کے بعد اب میری باری ہے۔“*
*★_ آپ کے بھائی سہیل آپ کے سامنے فوت ہوئے تھے ۔ آپ کے غلام مزاحم آپ کے سامنے فوت ہوئے۔ آپ کے فرزند عبدالملک آپ کے سامنے فوت ہوئے۔ ان تمام اموات نے آپ میں موت کی یاد بھر دی تھی ۔ موت کے بارے میں آپ کے ایمان میں اضافہ کر دیا تھا۔ آپ کو موت سے ایک قسم کا انس پیدا ہو گیا تھا اور آپ ہر وقت موت کا انتظار کرنے لگے تھے۔ موت کے بعد حساب کتاب کا خوف آپ پر سوار رہنے لگا تھا۔ اس طرح موت ان کے اندر کوچ کا نقارہ بجاتی رہتی تھی۔*
*★_ آپ کے زمانے میں آپ کی طرح موت سے ڈرنے والے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ بھی تھے۔ یزید بن حوشب فرماتے ہیں: میں نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اور حسن بصری رحمہ اللہ سے زیادہ موت سے ڈرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ یوں لگتا تھا، گویا آگ انھی دونوں کے لیے پیدا کی گئی ہے ۔“ آپ نے دنیا کی محبت دل سے نکال پھینکی تھی، اس لیے آپ کا نفس آپ کا فرماں بردار بن گیا تھا۔*
*★_ ایک روز آپ میمون بن مہران کے ساتھ قبرستان گئے اور قبروں کو دیکھ کر رونے لگے۔ پھر میمون سے فرمایا:- ابو ایوب ! یہ میرے خاندان کے بزرگوں کی قبریں ہیں، گویا انھوں نے دنیا میں عیش و آرام کیا ہی نہیں تھا۔ ان پر بوسیدگی نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ سوتے سوتے ان کے جسموں میں کیڑے تیر گئے ہیں ۔“*
*"_ پھر آپ دیر تک روتے رہے۔ آخر ان سے بولے: آؤ چلیں ! میرے خیال میں ان سے بڑھ کر کسی کو آرام و راحت نصیب نہیں جو قبروں میں اتر کر اللہ کے عذاب سے محفوظ ہو گئے،*
*★_ ایک دن رقاشی آپ سے ملاقات کے لیے آئے ۔ آپ نے ان سے فرمایا: رقاشی ! کوئی نصیحت کرو۔ انھوں نے کہا:- امیر المومنین ! جنت اور جہنم کے درمیان کوئی گھر نہیں ہے ۔“*
*★_ آپ کی زوجہ فاطمہ سے آپ کی عبادت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا اللہ کی قسم ! آپ بہت زیادہ عبادت کرنے والے نہیں تھے لیکن موت کو کثرت سے یاد کرتے تھے۔ میں نے ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ جب آپ کو بستر پر اللہ تعالی کا خیال آجاتا تو خوف کے مارے تڑپنے لگتے ۔ یہاں تک کہ ہمیں محسوس ہونے لگتا، آپ صبح تک فوت ہو جائیں گے_,*
*★_ ایک روز اپنے بارے میں فرمایا: میں بہت شوقین مزاج تھا۔ جب کبھی کسی چیز کو دیکھ لیتا تو اس سے بہتر کے لیے خواہش کرتا ۔ جب میں مدینہ منورہ میں بچوں کے ساتھ ایک بچہ تھا تو مجھے عربی علم و ادب کا شوق ہوا اور میں نے اپنی ضرورت کے لیے علم و ادب سیکھ لیا۔ پھر مجھے فاطمہ بنت عبد الملک سے نکاح کا شوق ہوا ۔ اللہ نے میرا ان سے نکاح کرا دیا۔ پھر مجھے امارت کا شوق ہوا اور میں مدینہ منورہ کا امیر بنا دیا گیا۔ پھر میری طبیعت نے خلافت چاہی اور میں نے خلافت پالی ۔ پھر جب خلافت سے اوپر دنیا میں کوئی عزت کی چیز نہ رہی تو مجھے آخرت میں اللہ کی نعمتوں کا شوق ہو گیا ۔ ( ابن جوزی (66)*
*★_ اور آخر آپ کی اصلاحات آپ کے مخالفین سے برداشت نہ ہوسکیں ۔ انھوں نے آپ کو زہر دے کر ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ کام عبد الملک کے بیٹے یزید نے آپ کے خادم کے ذریعے لیا۔ زہر کا اثر محسوس کرنے پر آپ نے خادم کو بلایا اور اس سے پوچھا :- کیا تم نے مجھے زہر دیا ہے؟ اس نے کہا:- ہاں! میں انگوٹھے کے پورے پر زہر لگا کر لایا تھا اور اسے پانی میں ملا دیا تھا۔ پھر میں نے وہ پانی آپ کو پلا دیا_,*
*★_ آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ سے کہا گیا: آپ زہر کا علاج کرائیں، اس پر آپ نے فرمایا:- اگر مجھے معلوم ہوتا کہ صرف کان کو چھو لینے سے زہر کا اثر دور ہو جائے گا تو بھی میں کان کو نہ چھوتا۔ میرا رب کیا ہی اچھا ہے جس کے پاس میں جا رہا ہوں_,*
*★_ آپ نے عبداللہ بن زکریا کو بلوایا۔ یہ شام کے اولیاء میں سے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا- جانتے ہو، میں نے آپ کو کیوں بلوایا ہے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، آپ نے فرمایا:- میں نے آپ کو ایک کام کے لیے بلوایا ہے، لیکن بتاؤں گا بعد میں، پہلے آپ قسم کھائیں کہ انکار نہیں کریں گے۔“*
*★_ انھوں نے قسم کھائی ۔ اب آپ نے ان سے کہا:- اللہ سے دعا کریں، اللہ مجھے اپنے پاس بلا لے _“*
*"_یہ سن کر عبد اللہ گھبرائے اور بولے: حب تو میں مسلمانوں کے لیے آپ کے پاس بدترین آنے والا ہوں اور امت محمد یہ کا دشمن ہوں ۔ اس پر حضرت عمر بولے: آپ نے قسم کھائی ہے۔“*
*★_ آخر عبداللہ بن زکریا کو دعا مانگنا پڑی لیکن دعا مانگتے ہوئے ہچکچائے اور بادل نخواستہ یوں دعا مانگی: اے اللہ ! آپ کے بعد مجھے بھی زندہ نہ رکھ ۔“*
*"_ اس طرح آپ کی وفات کے بعد عبد اللہ بھی فوت ہو گئے۔*
*★_ حضرت عمر رحمہ اللہ کو جب اپنی موت کا یقین ہو گیا تو آپ نے بالوں کا ایک کر تہ بہن لیا۔ وہ گھٹنوں تک پہنچتا تھا۔ اس کی آستین کہنیوں تک تھی ۔ وہ اس قدر گرم تھا کہ آپ کے جسم سے پسینہ بہنے لگا۔ لوگوں نے کہا: آپ کیوں تکلیف اٹھا رہے ہیں، اسے اتار دیں، آپ نے اسے نہ اتارا، پسینہ بہتا رہا۔ اس کرتے میں جذب ہوتا رہا لیکن آپ نے اس کرتے کو نہ اتارا۔*
*★_ پھر آپ کی بیماری زور پکڑ گئی۔ آپ اس وقت دیر سمعان میں تھے۔ دیر سمعان کے جس حصے میں آپ ٹھہرے ہوئے تھے، اس کا نام بقرہ تھا۔ وہاں کے گرجے کا ایک پادری آپ کے لیے گر جا کے درختوں کے نئے پھل لایا۔ آپ نے وہ پھل خوشی سے قبول کر لیے اور ان کی قیمت پادری کو دینے کا حکم فرمایا۔ پادری نے قیمت لینے سے انکار کر دیا۔ آپ برابر اسے سمجھاتے رہے۔ آخر اس نے قیمت لے لی۔*
*★_ پھر آپ نے اس پادری سے کہا: میں اس بیماری سے بچوں گا نہیں ۔ یہ سن کر پادری رونے لگا۔ آپ نے اس سے فرمایا: تم اس گرجے کی زمین کے مالک ہو، تم ایک سال کے لیے قبر کے لیے جگہ بیچ دو جب ایک سال گزر جائے تو تم ہل چلا سکتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو_, غرض ایک قبر کی جگہ کا سودا ہو گیا۔*
*★_ جب لوگوں کو آپ کی شدید بیماری کا پتا چلا تو آپ کی عیادت کے لیے آنے لگے۔عیادت کرنے والوں میں آپ کے سالے مسلمہ بن عبد الملک بھی آئے ۔ وہ بڑے مجاہد سپہ سالار تھے۔ اس وقت آپ بے ہوش تھے۔ دیکھنے والوں کا اندازہ بھی تھا کہ بچیں گے نہیں۔ اس وقت آپ کھجوروں کے پتوں سے بنے گدے پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کے نیچے چمڑے کا تکیہ تھا اور آپ کے اوپر ایک چادر تھی۔ ہونٹ خشک تھے، رنگ بدلا ہوا تھا۔*
*★_ایسے میں آپ کو ہوش آگیا ۔ آپ کی نظر مسلمہ پر پڑی تو فرمایا: میری موت کے وقت موجود رہنا اور تم ہی مجھے غسل دینا اور میرے جنازے کے ساتھ قبر تک جانا۔ اپنے ہاتھوں سے مجھے قبر میں اتارنا_,"*
*"_اس وقت مسلمہ نے موقع غنیمت جان کر کہا:- امیر المومنین! آپ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، لیکن آپ نے اپنی اولاد کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا، ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ان کے لیے حکم فرما دیں، تاکہ انھیں بیت المال سے وہ مال ادا کر دیا جائے ۔“*
*★_ یہ سن کر آپ خاموش رہے۔ مسلمہ نے پھر کہا: کیا آپ وصیت نہیں فرمائیں گے۔“*
*"_آپ نے فرمایا:- کس چیز کی وصیت کروں۔ اللہ کی قسم ! میرے پاس مال نہیں ہے۔“*
*"_اس پر مسلمہ نے کہا:-یہ لیجیے! ایک لاکھ دینار ۔ آپ ان کو جس طرح چاہیں، خرچ کر سکتے ہیں ۔*
*★_ اب حضرت عمر رحمہ اللہ نے فرمایا:-مسلمہ امیری بات مانو گے۔“ مسلمہ بولے: ”جی ہاں ! فرمائیے!“ آپ نے فرمایا: یہ انھیں واپس کر دو، جن سے یہ لیے گئے ہیں، یہ کہتے ہیں آپ بے ہوش ہو گئے۔ مسلمہ رو کر کر کہنے لگے: امیر المومنین ! واقعی آپ نے ہم سنگ دلوں کو نرم بنادیا ۔*
*★_ حضرت عمر نے اپنی اولاد کو مال کا وارث نہ بنایا۔ آپ کا خیال تھا کہ نیک اولاد کو وراثت میں ملنے والے مال کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ وراثت تو نیک اولاد کو بگاڑ دیتی ہے۔*
*★_آپ کو ہوش آیا تو فرمایا:- مجھے ٹیک لگا کر بٹھا دو ۔“ جب آپ کو بٹھا دیا گیا تو آپ نے فرمایا:- کیا تم مجھے فقیری سے ڈراتے ہو۔ تم کہتے ہو کہ اپنے بچوں کو محروم کر دیا ہے۔ میں نے انھیں ان کے واجبی حق سے محروم نہیں رکھا۔ رہا تمہارا یہ مطالبہ کہ میں انھیں بیت المال سے دینے کی وصیت کر جاؤں تو دیکھو۔ میرا کارساز اللہ ہے۔ اس نے آسمان سے کتاب اتاری۔ وہی نیک لوگوں کا دوست ہے۔ دیکھو! میری اولاد دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ پر ہیز گار ہے۔ اس صورت میں اللہ غیب سے اسے رزق عطا فرمائے گا یا وہ گناہ گار ہے تو میری جرأت نہیں کہ گناہ پر اس کی مدد کروں_,"*
*★_ آپ کے ہاں چودہ بچے پیدا ہوئے تھے۔ ان میں سے گیارہ باقی رہ گئے تھے اور وہ سب کے سب اس وقت آپ کے پاس موجود تھے ۔ آپ نے ان سب کو نزدیک بلایا۔ انھیں دیکھا، پھر فرمانے لگے: ان جوانوں پر میری جان قربان ہو۔ میں انھیں بلا مال کے چھوڑے جا رہا ہوں، میرے بچو تمہارا باپ دو حال سے خالی نہیں یا تو تم مال دار بن جاؤ اور تمہارا باپ جہنم میں جائے یا محتاج بن جاؤ اور تمہارا باپ جنت میں جائے، تمہارا فقیر ہونا اور تمہارے باپ کا جنت میں جانا بہت اچھی بات ہے ۔ جاؤ تمہیں اللہ تعالی روزی پہنچائے گا،*
*★_ رجاء بن حیوۃ آپ کے پاس آئے اور بولے: امیر المومنین! یزید بن عبدالملک کو وصیت لکھ دیجیے اور انھیں اللہ کا خوف یاد ولائیے۔"*
*"_آپ نے یزید بن عبد الملک کے لیے یہ وصیت لکھی:- یزید ! جو لوگ تمہیں پسند نہ کریں، ان کا بھی خیال رکھنا _,*
*★_ جس وقت حضرت عمر رحمہ اللہ یہ وصیت لکھوا رہے تھے، تمام وادی سے رونے اور سسکیاں لینے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ حالت اور بگڑ گئی اور آپ کے پاس صرف آپ کی زوجہ فاطمہ، ان کے بھائی مسلمہ اور آپ کے خادم مرشد ہی رہ گئے۔ ہوش میں آئے تو پھر آپ رات بھر بیدار رہے، فاطمہ مسلمہ اور مرشد بھی ساتھ جاگتے رہے۔ پھر صبح ہوگئی تو فاطمہ نے مرشد سے کہا: مرشد تم امیر المومنین کے پاس رہنا۔*
*★_ یہ کہہ کر وہ اپنے بھائی مسلمہ کے ساتھ چلی گئیں ۔ یہ لوگ رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ نیند نے آلیا ۔ دن چڑھے ان کی آنکھ کھلی۔ امیر المومنین کے کمرے کی طرف آئے تو مرشد کو دروازے پر سویا ہوا پایا۔ انھوں نے اسے جگایا، فاطمہ نے اس سے کہا: مرشد ! تم باہر کیوں آگئے ؟ مرشد بولا: امیر المومنین نے ہی باہر بھیج دیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا، مرشد میرے پاس سے ہٹ جا۔ اللہ کی قسم ! مجھے ایک مخلوق نظر آرہی ہے۔ اس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ وہ انسان ہیں، نہ جن_,*
*★_ یہ سن کر میں باہر نکل آیا۔ نکلتے وقت میں نے سنا، آپ فرمارہے تھے۔ یہ آخرت کا گھر ہے، ہم اسے انھیں دیں گے جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے اور اچھا انجام پارساؤں کا ہے_,"*
*"_یہ سن کر حضرت فاطمہ اندر کی طرف دوڑ پڑیں۔ آپ نے دیکھا، حضرت عمر رحمہ اللہ کی آنکھیں بند تھیں اور آپ دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔*
*★_ آپ نے جمعے کے روز چالیس سال کی عمر میں 24 یا 25 رجب 101 ہجری میں وفات پائی۔ آپ اپنی عمر کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے: اللہ کی محبت چالیس سالہ شخص کے لیے مکمل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد گناہ کرنے کے لیے انسان کے پاس کوئی قابل قبول عذر نہیں رہ جاتا،*
*★_ آپ کی نماز جنازہ آپ کے بعد بننے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک نے پڑھائی۔ آپ نے دو سال اور چند ماہ خلافت کی۔ اس مختصر سی مدت کو بھی لوگ بہت بڑی مدت شمار کرتے ہیں، کیونکہ اس مبارک زمانے میں خیر و برکت اس قدر رہی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ لوگوں کو انصاف ملا۔ ان سے چھینے گئے مال انھیں واپس ملے ۔ ہر طرف برکات ہی برکات نظر آنے لگیں,*
*★_ آپ کو گرجے میں اس جگہ دفن کیا گیا جو آپ نے خریدی تھی ۔ مسلمہ بن عبد الملک نے آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اللہ کی قسم ! آپ کی طبیعت میں نرمی رہی حتیٰ کہ آپ نے قبر دیکھ لی ۔“*
*"_پھر آپ کو دفن ہوئے ایک سال گزر گیا, اس پادری کو یہ حق حاصل ہو گیا کہ آپ کی قبر برابر کر دے ۔ اس زمین سے فائدے اٹھائے لیکن اس نے آپ کی قبر کو نہیں اکھاڑا۔ اس زمین سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ اسے یونہی رہنے دیا، بلکہ اس کی حفاظت کرتا رہا، تا کہ لوگ آپ کی قبر پر آکر آپ کی مغفرت کی دعا کرتے رہیں۔*
*★_ حضرت عمر رحمہ اللہ کی قبر گرجا کی زمین میں ایک طویل مدت تک باقی رہی۔ یہاں تک کہ جب بنوامیہ کا دور ختم ہوا اور عباسی دور شروع ہوا تو عباسی خلفاء نے بنوامیہ کی قبروں کو اکھاڑا۔ ان میں سے نعشیں نکال کر ان کی بے حرمتی کی لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی قبر کو کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا، آپ کی قبر جوں کی توں برقرار رہی۔ لوگ اس کا اسی طرح احترام کرتے رہے، پاس سے گزرنے والے قبر کی زیارت کرتے رہے۔ آپ کے لیے دعا کرتے رہے۔*
*★_ پھر مشرق پر تباہی آئی ۔ اس تباہی میں یہ گرجا بھی مٹ گیا۔ قبر کا نشان بھی مٹ گیا۔ نشان ضرور مٹ گیا مگر آپ کی ہڈیاں وہیں محفوظ رہیں۔ انھیں کسی نے نہ اکھاڑا اور جس طرح آپ کی ہڈیاں محفوظ رہیں۔ اسی طرح آج تک آپ کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔*
*★_ خلیفہ بننے کے بعد سے وفات تک نہ آپ نے کوئی نئی سواری خریدی، نہ کسی عورت سے نکاح کیا، نہ باندی رکھی، خلافت سے وفات تک آپ کو کھل کر بنستے نہیں دیکھا گیا۔ اللہ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں۔ آمین ۔*
*"___ الحمدللہ مکمل ہوا __,*
*📗عمر ثانی قدم بقدم (مصنف عبداللہ فارانی),*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
*❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
▉
0 Comments