NOOR E HIDAYAT-4 (URDU)

*❈❦ 04 ❦❈*      
               ☜█❈ *حق کا داعی*❈ █☞
               ☞❦ *نور -ے- ہدایت* ❦☜         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞__حق بھاری ہوتا ہے:-*

*★_  حق لے کر سچی بات لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم آے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی تصدیق کی، یہ پابند ہیں پرہیز غار ہیں معتبر ہیں تو سچ بات مان لو،*

*★_ اس نعمت کا یہی تقاضہ ہے، اس کے سامنے اپنے اپ کو بچھا دو، اپنے اپ کو قربان کر دو، تب ہوگا یہ، پھر کوئی ڈر نہیں، سواے اس کے کہ اللہ کا کام ہے اور اللہ کا کام ہو جائے بس، اللہ کے کام کو پورا کرنا ہے اللہ کے کام کا حق ادا کرنا ہے،*

*★_ ساری دنیا کے کاموں سے اس کی نوعیت بالکل الگ ہے, اس لیے یہ کام (اگر اس کو کام کے طریقوں سے کرو تو) نفس پر بہت بھاری ہے, حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کام کا بہت بوجھ تھا,*

*★_ حق بھاری ہوتا ہے اور کڑوا ہوتا ہے, اس سے تربیت ہوتی ہے کیونکہ کڑوی دوا ہی بیماری دور کرتی ہے،*

*★_ اور بوجھ لیے بغیر ادمی بنتا نہیں, اس لیے بوجھ لینا پڑے گا اس کام کا، یہ بوجھ والا عمل ہے،*

*★_ اللہ کو اللہ کی مخلوق کو اپنے نفس کو بہت سی چیزیں دیکھنی پڑے گی, یہ صاف ستھرا کام ہے, اس میں نفس کی کوئی آمیزش نہیں، اس کو دلوں کی صفائی کے ساتھ کیا جائے گا _,*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞__ صحابہ رضی اللہ عنہم دلوں کے صاف تھے:-*

*★_ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ یہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم دلوں کے بہت پاک صاف تھے, یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ اللہ دلوں کو دیکھتے ہیں, صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں کوئی غرض نہیں, دنیا کی محبت نہیں, اپنی بڑائی کا خیال بھی نہیں، یہ صرف اللہ کے فضل کے بھکاری تھے،* 

*★_ اس کا اثر تھا کہ انصار ( رضی اللہ عنہم) بھائی ہو گئے ورنہ بہت بڑی دشمنی تھی تاریخی دشمنی معمولی نہیں، لیکن دل ایسے صاف ہو گئے کہ اللہ نے ان کے بھائی ہونے کی گواہی دی،* 

*★_ یہ لوگ ( صحابہ کرام) ایک دوسرے پر رحم کرنے والے تھے، لوگوں کی خدمت کرنے والے تھے، صحابہ کرام لوگوں سے کہتے تھے کہ ہمارے عزائم اخرت بنانے کے ہیں ہم کسی غرض کے لیے نہیں ائے، جتنا دلوں کا رخ اخرت کی طرف ہوگا وہ اپنے اپ کو ہر شر ہر فتنوں سے بچا لے گا،* 

*★_ یہ دین کی سمجھ ہونے کی علامت ہے کہ اپنی اخرت بناوے، جس عمل جس حرکت سے اخرت نہ بنے وہ خالی ہے دھوکہ ہے، اس لیے اپنے اپ کی حفاظت کرنی پڑے گی، محفوظ رہو گے تو اپنی چیز کو بھی محفوظ رکھ سکو گے ورنہ اپنی چیز بھی کھو دو گے،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
‌۔        *☞__ صحابہ کرام کا علم گہرا تھا:-*

*★_ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا علم بھی بہت گہرا تھا, کیونکہ علم کے بغیر اللہ کے حدود و قیود کی حفاظت نہیں ہو سکتی,*

*★_ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے مجھے اپنے کام کے بارے میں یہ خطرہ ہے کہ اخر میں یہ کام ناواقفوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور وہ حدود و قیود کی کوئی حفاظت نہیں کریں گے,*

*★_ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تحقیق کے ساتھ احتیاط کے ساتھ اپنے دین پر چلتے تھے، دیکھا دیکھی نہیں، سنی سنائی نہیں، نقل بھی نہیں، تحقیق کے ساتھ چلتے تھے،* 

*★_ نقل تو اتارنی ہیں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی، ان کی نقل کا حکم ہے، احکام میں بھی، اداب میں بھی، تمام چیزوں میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا تھا کہ تمام نبیوں کی نقل اپ کے اندر ا جائے، اپ نبیوں کی نقل اتاریں امت اپ کی نقل اتارے گی( تاکہ نبیوں والی خیر ا جاوے) اسی لیے جو مایا ہمیں ملے گی وہ نبیوں والی ملے گی,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
‌۔     *☞_ ساری عمر علم کی تلاش میں رہے:-* 

*★_صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں کتابیں نہیں تھیں اس زمانے میں چھاپنے کے  اوزار نہیں تھے, علماء نے لکھا ہے لیکن ان کی یاد اتنی پکی تھی کہ لمبی لمبی حدیثیں ان کو یاد ہو گئی، ان کی یادداشت کی ایک اور وجہ تحمل تھا کہ جو بات حضور ﷺ کی طرف سے ائی اس پر عمل کر لیا، اب بھولنے کا سوال ہی نہی، علم محفوظ ہونے کی یہ وجہ تھی،*

*★_پھر (علم کو) پہنچانے کی فکر, مرتے مرتے بھی حدیث بتاتے تھے کہ یہ حدیث رہ گئی تھی، ساری عمر علم کی تلاش میں رہے، چھوٹوں سے بھی علم لیتے تھے بڑوں سے بھی علم لیتے تھے،*

*★_ تکلف اور بناوٹ ان میں (صحابہ کرام میں) نہیں ہوتا تھا, اپنا معیار بتانے کی بات نہیں ہوتی تھی, غلطی ہو تو مان لیتے, جو اندر تھے وہ باہر بھی تھے,* 
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
‌۔     *☞_ صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی تفسیر ہیں :-*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جتنے پہلو ہیں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روشن کیا آنے والی امت کے لیے،*

*★_ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے, ان کے (صحابہ کرام کے) اخلاق اور اداب کی پیروی کرو, میں کعبے کی قسم کھا کر کہتا ہوں وہ لوگ سیدھے راستے پر تھے,*

*★_  کیونکہ صحابہ کرام کی جو ہدایات ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی تفسیر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہدایات ہیں وہ قران کی تفسیر ہے، اس طرح قران تک پہنچنا ہوگا، حیات الصحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کے لیے اور قران کو سمجھنے کے لیے ہیں،*

*★_  اور ان کو تاکید کی جاتی تھی کہ دیکھو تم کو خدا نے آگے کیا ہے تمہارے پیچھے والے تمہارے پیچھے چلیں گے اس لیے تم سیدھے رہنا، یہ بات ہم پر بھی آتی ہے کہ اللہ نے ہمیں کام میں اگے کیا ہے، لوگ پیروی کریں گے ہماری نقل اتاریں گے، اس لیے سیدھے (راستے پر) رہو,* 

*★_ ہماری محنت میں یہی آثار چلتے ہیں (نقش قدم, اعمال افعال) صحابہ کرام کے افعال, باتیں حیات الصحابہ میں سارے اثار ہیں,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *‌☞ _ ماحول بنانا پڑتا ہے:-*

*★_  دین کے لیے ماحول بنانا پڑتا ہے، دین کا ماحول ہوگا تو دین پروان چڑھے گا،*

*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت کے زمانے میں ماحول کی پوری احتیاط رکھتے تھے کہ ماحول نہ بدلے، اونچا مکان کوئی نہ بنا لے تاکہ لوگ یہ نہ دیکھیں مسلمان کو دیکھیں اس کی دنیا کو نہ دیکھیں،*

*★_ معاشرت سے دین قائم ہوتا ہے, حکومت سے دین قائم نہیں ہوتا, کتنی حکومتیں ہیں اسلامی اور کتنا دین ہے ؟*

*★_ اقتدار سے کام نہیں چلتا اتباع سے کام چلتا ہے اس سے ماحول بنتا ہے، پھر جب دوسرے ائیں گے وہ بھی ایسے ہی ہو جائیں گے اتباع کرنے والے،*

*★_ اس لیے اس کام کے ذریعے اپنی زندگی بدلنی پڑے گی اوپر سے نیچے انا ہے, نیچے انے میں ترقی ہے, حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج پر بھی بلایا اور غریبوں میں بھی بٹھایا, اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عروج بھی دیا اور سادگی بھی دی,*

*★_ ہمارا کام بہت اونچا ہے لیکن سادہ ہے, اپنی زندگی کو سادہ بنایا تو یہ عمل میں ایا, نیچے انے میں ترقی ہے اوپر جانے میں نہیں, عمومی گشت میں ترقی ہے خصوصی میں نہیں (ضرورت پر کرنا پڑتا ہے) عمومیت اصل ہوتی ہے جاری پانی کی طرح,*

*★_ ہمارا ہر ادمی ہر کام کرے کیونکہ جماعت ہے ٹیم نہیں ہے, اس سے سادگی اتی ہے, خلا نہیں پڑے گا, ممبر پر بھی بیٹھنا ہے اور کچن میں بھی بیٹھنا ہے,*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *‌☞ __بھائی چارہ :-*

*★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اپنی محنت سے معاشرہ بنایا، اس معاشرے سے ان کا دین کا بھائی چارہ نظر اتا ہے،*

*★_ ایک ادمی حجاز سے مدینہ ایا (مدینے والوں کو) کیسا پایا ؟ فرمایا- خدا کی قسم میں نے ایسا پایا جیسے ایک ماں کی اولاد ہیں، مجھے بھی انہوں نے اجنبی نہیں سمجھا، فرمایا جانتے ہو یہ کیوں پیدا ہوا کیونکہ ایمان ہی ان کو ایسا ملا، اللہ تعالی کی نعمت دین سے بھائی ہو گئے،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب دعوت دیتے تھے تو جوڑیاں بناتے تھے کہ تم اس کے بھائی تم اس کے بھائی، پہلے ہی دن سے بھائی بنا دیا، ایسا بھائی چارہ بنایا،*

*★_ کوئی مسئلہ پیش ا جائے تو مل جل کر اس پر غور کرو یہ حکم تھا, یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ کے بعد بھی مسائل پیش ائیں گے, قران حدیث میں بھی جواب نہ ملے تو کیا کریں ؟ اپ نے فرمایا- اے علی عبادت گزار بندوں کو جمع کرنا اور ان سے مشورہ لینا،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کی رائے پر رہتے تھے, اپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے دونوں کی رائے ایک ہو گئی تو میں اس کے خلاف نہیں کروں گا, فرماتے تھے ہر نبی کے وزیر ہوتے ہیں ہر نبی کے مشیر ہوتے ہیں, میرے دو مشیر آسمان میں ہیں دو مشیر زمین پر ہے, جبرائیل اور میکائیل اسمان میں, ابوبکر اور عمر زمین پر,* 
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ _ مشورہ کر کے رائے لینا:-*

*★_ مشورہ کرو اور رائے لو کیونکہ معاشرہ ہمارا ہے ہمیں لوگوں کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے,*

*★_ اس کام کے لیے لوگوں کے مالوں کی ضرورت نہیں ہے لوگوں کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے لوگوں کی صلاحیتیں حق پر ائے حق کی خدمت کرے, اس کے لیے بھائی چارے کا ماحول بنانا پڑے گا تاکہ ہر کوئی اپنا کام سمجھ کر اس کو کرے,*

*★_ رائے لو، پوچھو، رائے ہی  ایک سہارا ہے استقامت کے لیے، ماحول کے لیے، اس سے دل بھی جڑتے ہیں، جب صلاحیتوں کو کام پر لگایا تو دل جڑیں گے،*

*★_ اس لیے نبی صلاحیتوں کو دیکھتے تھے چاہے وہ مخالف ہی کیوں نہ ہو, خالد ابنِ ولید رضی اللہ عنہ مخالف تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار تھا کہ یہ سب صلاحیت دین پر لگیں، آپ نے فرمایا کہ اگر یہ دین پر اپنی صلاحیتیں لگائیں تو ہم اس کو اگے اگے رکھیں، یہ نہیں کہ اس نے نقصان پہنچایا تو اس کو مارو کاٹو یہ سیاست ہے،*

*★_ وہ خود فرماتے تھے میں نے بہت گھوڑے دوڑائے اپ کی مخالفت میں، لیکن اس کام میں صلاحیتوں کو پہچان کر ان سے کام لینا یہ مشورے سے ہوگا،*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ __ مشورے میں خیر ہے:-*

*★_ ایک مرتبہ عورتوں کی عدت کا مسئلہ ایا, وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا گیا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا قریش کی بوڑھی عورتوں کو جمع کرو, ان کو مسئلہ دیا کہ تم غور کرو, انہوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ ہے, تو حل ہو گیا,*

*★_ مسئلے جب ائیں گے تو صلاحیتیں ٹھیک کریں گی, اگر مشورہ کریں گے تو خیر ہے مشورہ نہیں کریں گے تو ندامت سے نہیں بچ سکیں گے، یہ ضرور پچھتائیں گے،*

*★_ یہ معاشرہ ماحول ہے, اس کو قائم رکھو تاکہ جو بھی اوے اس کام کو سمجھے, ذمہ داری کو سمجھے, یہ امانت ہے, اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بہت فکر تھی کہ میرے بعد کیا ہوگا ؟*

*★_ ایک دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، کہنے لگے کہ میں نے خواب دیکھا ہے ایک مرغے نے مجھے تین ٹھونگیں ماری، اسمہ بنت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تعبیر بتائی کہ کوئی غیر عربی آدمی اپ کو شہید کرے گا،*

*★_ فرمایا میں شعراء سے ذمہ دار طے کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد ذمہ دار بنائے، یہ وہ لوگ ہیں جن سے حضور ﷺ راضی رہے، ان کو میں نہ چھانٹا ہے، مشورے کی ذمہ داری امانت دار تقویٰ والوں کو دی،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ _ امت کا کام امت پنے سے ہوگا:-*

*★_ تین دن تک عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جاگے ہر ایک سے رائے لی پھر تے کیا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ امیر خلیفہ ہوں گے،*

*★_ یہ ہمارا معاشرہ ہے, ہم یہ کام مل کر کریں گے, امت کا کام ہے, امت پنے سے ہوگا، اس معاشرے پر دین قائم ہوتا ہے، فتنوں کے دروازے بند ہوتے ہیں،*

*★_ نہیں تو معاشرہ بگڑے گا, تو حضرت الیاس صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو سالوں میں فتنے انے والے تھے وہ مہینوں میں ائیں گے تیزی کے ساتھ، دلوں کی پاکیزگی سب سے پہلے ختم ہو جائے گی،*

*★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم سے- کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ائے گی, فرمایا- ہاں خیر تو ائے گی مگر دل ایسے نہیں رہیں گے, دل بگڑ جائیں گے,*

*★_ دلوں کی پاکیزگی پر اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے, اللہ دلوں کو دیکھتے ہیں کہ اس کی کیا طلب ہے, اس لیے اللہ کو ہی دکھانا ہے,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ _ نفرتیں پیدا نہ کریں :-*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبلغین کو بھیجتے تھے تو فرماتے تھے لوگوں کو بشارتیں سنانا، اللہ کے انعامات کی، آخرت کی نعمتوں کی، خبردار کوئی نفرت کا سبب پیدا نہ کرنا،* 

*★_ معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ نے ایک بار عشاء کی نماز پڑھائی، بہت لمبی نماز پڑھائی، (عالم ادمی تھے بہت اونچے درجے کے) ایک انصاری صحابی نے نماز توڑ کر الگ نماز پڑھی، پوچھا کیوں الگ نماز پڑھی، کیا تم منافق تو نہیں ؟ کہنے لگے الحمدللہ میں منافق نہیں ہوں مسلمان ہوں, مخلص ہوں لیکن میں یہ مسئلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا,*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسئلہ رکھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دن بھر تو میں اپنے باغ میں کام کرتا ہوں (مزدور ادمی ہوں) شام کو یہاں آتا ہوں تو میں تھکا ہوا رہتا ہوں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر ناراض ہوئے، بولے معاذ کیا فتنہ کھڑا کرو گے (یہاں فتنے سے مراد نفرت ہے) خبردار مختصر نماز پڑھاؤ تاکہ اجتماعیت ختم نہ ہو،* 

*★_ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اے معاذ یاد رکھو مجھے تم سے محبت ہے،*
*"_  پہلی امتوں کے دین اس وجہ سے برباد ہو گئے کہ ان کے دل پھٹ گئے، تو ان کا دین بھی پھٹ گیا_,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *‌☞ _ اونچے اخلاق :-*

*"★_ ہر نبی اونچے اخلاق کے ساتھ بھیجے گئے ہیں، مخلوق کے ساتھ اخلاق سے پیش اتے تھے خدمت کرتے تھے،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اخلاق کا سب سے اونچا معیار دیا کیونکہ اپ کے سامنے سب سے اونچی جہالت تھی,*

*★_ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد 600 برس ہوئے کوئی سمجھانے والا ان کو نہیں ایا, اس جہالت کو ختم کرنا ہے, اس جہالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق سے ختم کیا،* 

*★_ 40 برس سے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر دین کی دعوت کے اخلاق والا دیکھا ہے، ابھی نبوت نہیں ائی تھی، آپ کو ہر معاملے میں اخلاق والا دیکھا، امانت دار دیکھا،*

*★_ پھر نبوت آئی، لوگ مخالف ہو گئے، آپ نے انصاف احسان ایثار بھی دکھایا لوگوں کو، اس سے جہالت دبی، جب آپ کمزور تھے تب بھی آپ نے اخلاق دکھایا، جب چاروں طرف سے لوگ اپ کے مخالف ہو گئے تب بھی آپ نے اخلاق دکھایا،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
               *‌☞ _سچائی اور امانت داری:-*

*"★_ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق دکھایا کہ میں حاکم نہیں ہوں، یہ اللہ کا دین ہے اس میں تمہارا بھی حصہ ہے، حصہ تمہیں دینا ہے،*

*"★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ احسانات کیے, ان کو جھکتا دیا مالدار بنا دیا، جو صلاحیت والے تھے ان کو مال نہیں دیا، ان کو کام پر لگایا، خالد بن ولید، عمر بن عاص کو مال نہیں دیا کام پر لگایا، ان کو آگے رکھا، اہل والوں سے کام لیا، نا اہل کے پاس کام جائے تو یہ قیامت کی علامت ہے،*

*★"_اس لیے اس کام میں اپنے اپ کو امانت دار بنانا ہے, سچائی اور امانت داری یہ ہمارے مذہب کی روح ہے، ہمارا مذہب سچا ہے، اسی لیے اللہ تعالی اس کام میں سچوں کو لیتے ہیں، قیامت میں بھی سچائی نفع دے گی،*

*"★_  اللہ تعالی سے مانگے اس کو کہ اللہ تعالی ہمیں ذمہ داریوں پر قائم رکھے اور امانت داری کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کی ندامت داری کے ساتھ کہ ہم سے پورا نہیں ہو رہا ہے، تنہائیوں میں اللہ سے معافی مانگے،*

*★"_ تنہائی صحیح ہوگی تو باہر بھی صحیح ہوگا خلوت صحیح نہیں تو جلوتیں بھی صحیح نہیں،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *‌☞ _ مقصد زندگی _,*

*★_ مسلمان کا مقصدِ زندگی اس کا دین ہے، اللہ نے مسلمان کو دین کے لیے پیدا کیا ہے اور دین کو مسلمان کے لیے اتارا ہے اسمانوں سے اور پورا دین اتار کر اللہ نے ہمیں دیا ہے،*

*★_ حج کے موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو یہ آیات اتری تھیں کہ میں نے اج تمہارا دین پورا پورا کر دیا اور تمہارے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ پسند کیا ہے جو میں دے رہا ہوں _,*

*★_ پسند کر کے اللہ نے دین دیا، سوچو اللہ جس چیز کو پسند کرے وہ چیز کیسی ہوگی، اس دین کی کیا حیثیت ہوگی جس کو اللہ پسند کر کے دے رہا ہے،*

*★_ اسی لیے اس دین کی اہمیت کو سمجھنا ہے کہ اللہ نے کیسا نور ہم کو دیا ہے,*

*★_ جب یہ آیتیں اتری تو یہود نے یہ کہا کہ اگر یہ آیات ہمارے اوپر اترتی تو اس تاریخ کو عید مناتے، ہر سال جشن کرتے، تیوہار مناتے اس دن کو، فرمایا کہ ہماری تو عید ہو چکی_,*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *‌☞ _دنیا کا سامان دھوکہ ہے:-*

*★_ اور اللہ تعالی نے یہ بھی بتا دیا کہ دین کے بغیر اپ کو کامیابی نہیں ملے گی, جو کامیابی ہوگی وہ دین سے ہوگی بغیر دین کے اگر کوئی چیز ملتی ہے تو وہ دھوکہ ہے,*.

*★_ دھوکے کا شروع حصہ نفع والا ہوتا ہے مگر جب نتیجہ اتا ہے تو پچھتاوا، ہمیشہ دھوکے کا آخر پچھتاوا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے کہا کہ یہ سارا سامانِ دنیا دھوکا ہوگا، اس کے پیچھے تمہیں پچھتانا پڑے گا کہ اللہ نے جو پسند کر کے چیز دی تھی اس کو تو لی نہیں ہم نے، اس کو چھوڑ کر دوسری چیز لے لی تو دھوکہ کھایا،*

*★_ اسی لیے اللہ تعالی نے آگاہ کر دیا کہ صحیح چیز اور سچی چیز لینا اور صحیح اور سچی چیز وہ جو اللہ اور اس کا رسول دے، ہم کو اللہ نے دین دیا، یہ ایک بات ہے،*

*★_ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے جو حالات صحیح ہوں گے یا بگڑیں گے کیونکہ ہم کلمے والے ہیں, ہمارے حالات کے بننے بگڑنے کا جو تعلق ہے وہ دنیا کی چیزوں سے نہیں ہے، ہماری لائن الگ ہے، اس لیے دنیا کی چیز کم ائی یا زیادہ ائی اس سے ہماری کامیابی کا کوئی تعلق نہیں ہوگا،*

*★_ ہماری کامیابی کا تعلق دین سے ہوگا کیونکہ یہ ہماری لائن ہے، اللہ نے ہمیں حکموں والی لائن دی ہے، اگر ہم حکموں پر رہیں گے تو کامیاب ہو جائیں گے، حکموں کو چھوڑ دیں گے تو ناکام ہو جائیں گے،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
        *‌☞ _محنت سے نفع نقصان کھلتا ہے:-*

*★_ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی محنت بھی اتنی قیمتی ہوتی ہے,*

*★_ حق سے فائدہ اٹھانے کے لیے حق کی محنت کرنی پڑے گی, دین حق ہے, دین حق کے لیے محنت کرو تو اللہ تعالی اس کے نفع کھولیں گے, اس کے فائدے ظاہر ہوں گے، اس کے نہ ہونے کے نقصان بھی کھلیں گے،*

*★_ محنت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ نفع نقصان کھلتا ہے, جس چیز کی محنت سے آدمی بے خبر ہوتا ہے اس چیز کے نفع نقصان سے بھی آدمی بے خبر ہوتا ہے اور جس چیز کی محنت سے باخبر ہوتا ہے اس چیز کے نفع نقصان سے بھی باخبر ہوتا ہے,*

*★_ ہم دین کی محنت میں ائیں گے تو دین ہونے کا کیا نفع ہے کھلے گا اور دین نہ ہونے کا کیا نقصان ہے یہ بھی کھلے گا,*

*★_ اگر یہ نہیں ہے (دین کی محنت) تو ہم کچھ نہیں جانیں گے, دین ہوگا تو کیا, دین نہ ہوگا تو کیا _,*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *‌☞ _انسانی زندگی کا پہلا سبق:-*

*★_ دین ایسی چیز ہے کہ دین پر رہنا دین پر چلنا یہ تو انسانی زندگی کا پہلا سبق ہے,*

*★_ جب سے اللہ تعالی نے ادم علیہ السلام کو وجود دیا تھا پہلا سبق یہی دیا تھا کہ میں نے تمہیں زمین پر جو بسایا ہے تو زمین کی چیزوں کی ترقی کے لیے نہیں بسایا, تمہیں تو میں نے خاص کام کے لیے بسایا ہے اور تمہاری تمام ضروریات کا میں نے انتظام کر دیا ہے،*

*★_ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے سے چھ دن پہلے آسمان زمین, زمین کے اندر کی تمام چیزیں جو قیامت تک ہوتی رہیں گی وہ سب بنا دی، ساتواں دن جمعہ کا اس دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا عصر کے وقت،*

*★_ پھر جب زمین پر اترا کہ زمین کو آباد کرنا صرف اس لیے ہے کہ زمین پر تم اللہ تعالی کے حکموں کو پورا کرو گے اللہ تعالی کے حکموں پر چلو گے، اللہ تعالی کے حکموں کی راہ بنااو گے،*

*★_ اور یہ بھی فرما دیا کہ جو اس راستے پر رہے گا وہ کامیاب رہے گا, جو اس راستے سے ہٹے گا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا, انسانی تاریخ کا یہ سبق ہمارا پہلا سبق ہے اج کا نہیں ہے ،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*‌☞ __بھولا سبق نبیوں کے ذریعے یاد دلایا :-*

*★_پھر یہ سبق ہم بھولے, اللہ نے یاد کرایا نبی بھیجا, پھر بھولے پھر یاد کرایا, ایسے اللہ تعالی رسول بھیجتے رہے,*

*★_ کیونکہ آدمی دنیا میں آ کر دنیا کے اسباب کو دنیا کی چیزوں کو، ضرورتوں کو دیکھ کر مقصد بھول جاتا ہے، یہ اس کی عادت ہے کہ جس کام کے لیے گیا تھا اس کو بھول گیا، دوسری چیزوں میں لگ گیا،*

*★_ تو اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ دیکھو تم ایک کام کے لیے بھیجے گئے ہو اس کام پر رہنا ہے، اس کام کو کر کے میرے پاس انا ہے، اس کے لیے رسولوں کا سلسلہ چلایا اللہ تعالی نے، وہ سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا ہو گیا اور جو بات کہنی تھی پوری پوری وہ آپ کو دے دی کہ اب آنے والی تمام انسانیت کے لیے ایک ہی ضابطہ ہوگا، اگر وہ کامیاب ہونا چاہے تو اسی راستے سے ہوگا،*

*★_ یہ ہمارا پہلا سبق ہے تبلیغ, دین پر رہنا دین کے لیے زمین میں راستہ بنانا کہ دین کے لیے راستہ بناؤ تاکہ دنیا کے لوگ اس دین پر چلے، دنیا میں جاؤ اور تمہاری محنت سے دنیا میں ایسا راستہ بن جائے کہ لوگ اسانی سے سنت شریعت پر چلیں،*

*★_ یہی مقصد ہے اس امت کا، یہ امت دنیا میں ایسی زندگی گزارے، ایسی محنت کرے کہ لوگوں کے لیے حق راستہ کھل جاوے کہ یہ راستہ حق ہے، اندھیرا اجالا کھل جاوے، دودھ اور پانی الگ ہو جاوے، یہ ہمارا کام ہے _,*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*‌☞ __اس محنت کو سیکھ کر کریں :-*
*★_ اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلواتے ہیں کہ کہہ دو یہ میرا واسطہ ہے، یہ میری لائن ہے، میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں پورے یقین کے ساتھ اور یہ دعوت میں بھی دوں گا اور میری امت بھی دے گی،*

*★_ اس محنت کو سیکھ کر کے، عمل کر کے اچھی طرح سمجھ لیں، پھر دنیا میں جاویں، اپنے کام کے لیے جاویں تو بھی یہ کام کریں،*

*★_ کام سامنے نہیں ہوتا تو اس کا نفع سامنے نہیں ہوتا, پھر لوگ کرنے والے کو بےوقوف کہتے ہیں،* 

*★_ نبیوں کو، صحابہ کو، لوگ بے وقوف کہتے، پاگل کہتے کہ یہ پاگل ہے، ہر نبی کو پاگل کہا گیا، جب نبی کا کام بن جاتا تھا تو کہتے جادوگر ہے، حالانکہ قدرت سے ان کے کام بن جاتے تھے، یہ رکاوٹ ڈالتے تھے خدا ان کے کام بنا دیتے،*

*★_ اس میں کوئی شک نہیں کہ کام میں بڑا اثر ہے زندگیوں کو بدلنے میں, زندگیاں بدل جائیں گی, حق سمجھ میں ا جائے گا، حق دل میں اتر جاۓ گآ، کیونکہ حق تو دل میں جگہ بنا لیتا ہے، جس کے دل میں بیٹھا نہیں نکلے گا کچھ بھی کرو_,*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*‌☞ _ محنت کا اثر۔۔۔ ادمی کی زندگی بدل جاتی ہے,*

*★_ اس کام میں بڑا اثر ہے زندگیوں کو بدلنے میں, زندگیاں بدل جاتی ہیں اور جو جتنا جہالت میں ہوگا اس پر اس کام کا اتنا ہی زیادہ اثر ہوگا,*

*★_ اس لیے ہم نے دنیا میں دیکھا ہے کہ کتنے ہی چور پکے پابند ولی بن گئے, حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اسلام کی قدر وہ پہچانے گا جس نے جاہلیت میں اپنے دن کاٹے ہوں گے,* 

*★_ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے نجاشی بادشاہ کے سامنے کہا تھا کہ ہم تو جاہل تھے مردار جانور کھاتے تھے، ایک دوسرے کو تنگ کرتے تھے، یتیموں کا مال کھاتے تھے، پھر اللہ نے ہمیں دین دیا،*

*★_ اس میں کوئی شک نہیں, اس محنت میں اثر ہے بہت، اس لیے کہتے ہیں جادو ہے، جادو کچھ نہیں ہے، بارش کے پانی سے زمین زندہ ہو جاتی ہے، ایسا ہی محنت کا اثر ہے، آدمی کی زندگی بدل جاتی ہے،*

*★_ پابند پرہیزگار متقی ہو جاوے, اس کام کے ذریعے سے اللہ پاک اپنا ڈر ڈال دیتے ہیں, دلوں میں ڈر پڑا بس بیٹری چارج ہو گئی اور جب دل ڈر سے خالی ہو تو پھر زندگی حکموں پر نہیں آتی،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *‌☞ _ سمجھنا بہت ضروری ہے :-*
*★_ شروع میں کسم پرسی ہوتی ہے، رکاوٹیں آتی ہیں، کوئی سنتا نہیں ہے،*

*★_ اللہ تعالی رکاوٹیں پہلے ڈالتے ہیں مدد بعد میں آتی ہے، یہ اللہ کی شان ہے، جیسے پہلے بچہ بھوکا ہوگا پھر ماں کا دودھ بعد میں، یہ پرورش کا نظام ہے،  بھوک پہلے دیں گے پھر غذا دیں گے،*

*★_ بھوک کے بعد جو غذا جائے گی وہ بدن کا حصہ بنے گی، ایسے ہی اس کام میں رکاوٹیں ائیں گی، آدمی محنت کرے گا تو اس کے اندر طلب پیدا ہوتی ہے کام کی دین کی، پھر اللہ تعالٰی اس کو دین دیتے ہیں، پھر وہ ( دین) نکلتا نہیں،*

*★_ یاد رکھو سمجھنا ضروری ہے، حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمتہ اللہ فرماتے تھے کہ ہم سمجھنے میں کمی نہ کریں، ایک چیز تو ہے بیان کر دینا، یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اصل تو سمجھانا ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر ایک کی سمجھ الگ الگ رکھی ہے، پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں بنائی،*

*★_ بہت سے لوگ بہت سمجھدار ہوتے ہیں, اشارے میں سمجھ جاتے ہیں اور فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہی کرنا ہے، لوگوں میں اللہ نے سمجھ رکھی ہے، حدیث میں ہے - لوگ اپنی جگہ اتنے قیمتی ہیں' جیسے سونے اور چاندی کی کھانے ہوتی ہیں زمین میں _,*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *‌☞ _خوش نصیب بندے :-*

*★_ اللہ تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالی کو خوش کرنے کے لیے لوگوں کے درمیان راستہ بنانا، اس سے اللہ کی خصوصی مدد اترتی ہیں، دونوں طرف اترتی ہیں، کام کرنے والا پر بھی اترتی ہیں اور جن میں کام کرو گے ان میں بھی اترتی ہے،*

*★_ کام کرنے والوں میں جو مددیں اترتی ہیں وہ یہ ہوتی ہیں کہ محنت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی ان کے دلوں میں کام کی اہمیت بڑھا دیتے ہیں، پھر اللہ تعالی ان سے کام لیں گے اور یہ کام کریں گے دنیا میں، اللہ تعالی کی طاقت سے یہ چلیں گے،*

*★_جتنا آدمی اس کام میں چلے گا اللہ تعالی اس کام کی اہمیت اس کے دل میں بڑھاتے چلے جائیں گے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں جو اہمیت تھی وہ کسی کے دل میں نہیں تھی، وہ اتنا بھی نقصان دین کا برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ دین میں نقصان آئے اور میں زندہ رہوں،*

*★_ خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کے ہاتھوں سے خیر اور بھلائی پھیل جائے اور شر اور برائی مٹ جائے، قابل مبارک باد ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خوش نصیب ہیں وہ بندے جن کو اللہ تعالی خیر کے پھیلنے کا ذریعہ بنائے ،*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *‌☞ _اس نعمت (دین ) کا شکر کریں :-*

*★_ اللہ تعالی نے وہ مبارک نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے، اس لیے اس نعمت کا شکر ہی یہی ہے کہ اپنے اپ کو اس نعمت کے لیے کھپا دے ویں، اپنے اپ کو تھکا دے ویں اور اپنا مال اور اپنی جان اس پر لگا دے ویں،  یہ اس کا شکریہ ہے,*

*★_ جب اس کا شکر ادا کریں گے تو یہ نعمت اور بڑھائیں گے اللہ تعالی اور اتنا بڑھائیں گے کہ دشمنوں کو دوست بنا دیں گے، دین کے دشمن دین کے دوست ہو جائیں گے، مارنے والے مرنے والے ہو جائیں گے اپنے دین کے لیے، ایسا بنا دیں گے اللہ ,* 

*★_اللہ دلوں کی دشمنی نکال کر دلوں میں توبہ ڈال دیتے ہیں, پھر وہ توبہ کر کے آتے ہیں, حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توبہ کر کے آتے تھے, پھر اتنا کام کیا کہ کوئی نہیں کر سکتا،*

*★_ حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمتہ اللہ فرماتے تھے کہ جب لوگ محنت کریں گے اللہ کے دین کی، تو اللہ تعالی دلوں پر یہی اثر ڈالیں گے، ان کو پتہ نہیں چلے گا،*
*"_ جب محنت حد تک پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالی دلوں کے پلٹنے کا فیصلہ کرتے ہیں _,*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*‌☞ _حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی توبہ :-*

*★_ روایتوں میں ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کی جماعت میں بہت بہادر آدمی تھے، ان کو اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دشمنی تھی، وہ اپ کا چہرہ بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے، اتنی ان کے دلوں میں تنگی تھی اپ کی طرف سے،*

*★_ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کو گئے تو خالد ابن ولید مکہ میں ہی تھے، جب مسلمان نہیں ہوئے تھے، تو مکہ سے اس لیے چلے گئے کہ میں ان کو دیکھنا نہیں چاہتا، اتنی دشمنی تھی ان کے اندر،*

*★_ لیکن اللہ کی شان اللہ جو چاہتے ہیں وہ ہوا, حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے میں ان کے بھائی سے پوچھا کہ تمہارا بھائی کہاں ہے ؟ ان کو معلوم تھا کہ وہ آپ کی وجہ سے چلا گیا لیکن ادب کی وجہ سے انہوں نے یہ نہیں کہا بلکہ یہ جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ اس کو لائے گا _,*

*★_ آپ نے فرمایا کہ اتنا سمجھدار آدمی ہے اگر وہ اپنی سمجھ کو ہمارے کام پر لگاوے تو ہم اس کی قدر کریں اور ہم تو اس کو اگے رکھیں، ان کے بھائی نے یہ بات ان کو لکھ دی کہ تو تو یہ سوچ رہا ہے لیکن تیری یہاں قدر ہو رہی ہے، تو خالد ابن ولید بہت متاثر ہوئے اور فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو مدینہ ہی جانا ہے،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ائے اور معافی کی گزارش کی کہ میں نے اپ کی مخالفت میں بڑے گھوڑے دوڑائے, فرماتے تھے کہ میں اپ کی مخالفت میں بہت کوشش کرتا تھا لیکن میں دیکھتا تھا کہ مدد تو انہی کی ہوتی ہے, اسی لیے ان کا کفر کمزور پڑ گیا,*

*★_ یہ ہوگا کہ دین کی لوگ مخالفت کریں گے اور مدد اللہ دین والوں کی کریں گے_,*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *‌☞ __ یہ دعوت کا طریقہ ہوتا ہے:-*

*★_ دعوت ان لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے جو ہماری ہاں میں ہاں ملائے بلکہ دعوت ان کے لیے بھی ہے جو ہماری ہاں میں ہاں ملائے اور اس کے لیے بھی ہے جو ہماری ہاں کو کاٹے،*

*★_ دعوت میں اخلاص بھی چاہیے دعوت میں اخلاق بھی چاہیے, وہ (داعی) برائی کے جواب میں بھلائی کرے گا تو دعوت ترقی کرتی ہے،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی کرتے تھے کہ اس نے ہمارے ساتھ دشمن کی ہے ہمارے ساتھ برائی کی ہے، ہم تو اس کی مدد کریں گے،*

*★_ اس لیے اللہ کے راستے میں پھرنا ضروری ہے، اللہ کے راستے میں پھرنے میں اخلاق کی مشق ہوتی ہے،*

*★_ خدمت کرتا ہے آدمی اس سے اخلاق والا بنتا ہے، آدمی اخلاص والا بنتا ہے، پھر اپنے اخلاق اور اخلاص سے وہ لوگوں کے دلوں کے پھیرنے کا ذریعہ بنتا ہے،*

*★_ ہم تو اس محنت کو مخلوق کی خدمت کے لیے کر رہے ہیں کہ اس محنت کے ذریعے سے مخلوق کو ہدایت ہو جاوے، جس کام کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو بنایا اس کام پر آ جاوے،*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
          *‌☞ _محنت کو سمجھ کر کرنا ہے:-*

*★_  یہ اصلی چیز ہے محنت کو محنت سے سمجھنا ہے، صحبت  سے محنت کو سمجھنا ہے،*

*★_ جب یہ دونوں باتیں ہوں گی کہ کام کرنے والوں کی صحبت میں رہ کر محنت کو سمجھا جائے گا اور کام کرنے اس کو سمجھائیں گے، قربانیوں پر زندگی پڑے گی تو پھر اللہ کا ہدایت کا جو وعدہ ہے وہ پورا کریں گے اور پھر حالات بننا شروع ہو جائیں گے، رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور لوگ اپنی صلاحیتوں کو اپنی سوچ سمجھ کو اللہ تعالی کے دین پر لگا دیں گے،*

*★_ اب تو اللہ نے کام کو آسان بنا دیا ہے, آسان ہننے کے بعد بھی آدمی کام میں نہ لگے تو یہ محرومی ہے، اللہ اس سے حفاظت فرمائے،*

*★_ اس لیے اس کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے, جہاں بھی جائیں پھول کی طرح اپنی  خوشبو چھوڑیں،*

*★_ ایمان والا کہیں بھی جاوے اپنے ایمان کی بات چلاوے، ایمان کی دعوت چلاوے، جب اس کی مشق ہوگی تو جہاں جائیں گے اپنی بات رکھیں گے،  حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی جاتے اپنی بات رکھتے تھے،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
     *‌☞ _ امت کے ساتھ دینی تعلق پیدا کرو:-*

*★_ حکمت کے ساتھ بات رکھی جاتی ہے پھر دل پلٹتے ہیں چاہے کتنی ہی بری زندگی ہو,*

*★_ میں نے سنا تھا مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ کے بارے میں کہ جب انہوں نے کام شروع کیا, دہلی شہر بھی اتنا بڑا نہیں تھا، جب کبھی سفر کے لیے ریلوے اسٹیشن جاتے تھے تو راستے میں ایک پرانا قلعہ تھا، وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے،*

*★_ دیکھا کہ اپنے ہی بھائی ہیں تو ان کو سلام کرتے تھے, اچھے ہیں! خیریت سے ہیں ! اتنا پوچھ کر اگے چلے گئے اور کچھ نہیں کہا، پھر واپسی ہوئی کچھ دن بعد، پھر سلام کیا خیر خبر پوچھی، اگے کچھ نہیں کہا، چند بار ایسا ہوا، وہ لوگ سوچنے لگے کہ بڑے میاں آتے ہیں سلام کرتے ہیں خیر خیریت پوچھتے ہیں اگے تو کچھ پوچھتے نہیں، اصل میں یہ ڈاکوؤں کا گروہ تھا،*

*★_ ایک دفعہ پھر ایسا ہی ہوا اور پھر کہا- میں آپ کا بھائی ہوں، وہ سامنے مسجد ہے، میں وہاں رہتا ہوں، کبھی کبھی ہمارے پاس بھی آ جایا کرو،*

*★_ تعلق پیدا کر کے کام کرایا جاتا ہے, اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ امت کے ساتھ دینی تعلق پیدا کرو, جب امت کے ساتھ دینی تعلق پیدا ہو جائے گا تو پھر یہ امت کو دین کی طرف کھینچے گا, چاہے چور ہو ڈاکو ہو لچا ہو, دعوت کا مطلب یہ ہے کہ امت کے ساتھ دینی تعلق پیدا ہو ,*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *‌☞ _ امت کے ساتھ دینی تعلق پیدا کرو-2:-*

*★_ جیسے تجارتی تعلق ہے کاروباری تعلق ہے لوگوں کے ایک دوسرے سے، ایسے ہی اس محنت میں یہی کہا جاتا ہے کہ امت کے ساتھ دینی تعلق پیدا کرو کہ کون ہیں کیا ہیں خیریت ہے، سلام کریں، حدیث ہے سلام کرنے سے محبت پیدا ہوتی ہے،*

*★_ ان ڈاکوؤں کے گروپ کا جو بڑا (سردار) تھا وہ آیا فجر میں چادر اوڑھ کر، فجر کے بعد بات ہوتی ہے، اس زمانے میں لوگ بڑے مجاہدے سے اور بڑی قربانیوں سے چلتے تھے، تو ان کی بات بھی بہت اثر کرتی تھی،*

*★_ اس نے بات سنی, بات سن کر وہ تو ہکا بکا رہ گیا کہ ہم کیا سوچتے تھے اور یہ کیا ہیں، یہ تو زمین آسمان کا فرق ہے،*

*★_ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسلام کی قدر وہ جانے گا جس نے جاہلیت میں اپنے دن کاٹے ہوں گے, ان کے تو جاہلیت میں, گناہوں میں دن کٹ رہے تھے, تو یہ تو پگھل گئے اور فیصلہ کر لیا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو اب جان مال زندگی اس کام پر لگانی ہے،*

*★_ اللہ تعالی اس محنت کے ذریعے سے, جب یہ محنت ایک طاقتور محنت بنتی ہے تو اس کے اثرات دلوں پر پڑتے ہیں اور دل اللہ کی طرف پلٹا کھا جاتے ہیں اور یہی ہمارا مقصد ہے کہ ہم امت میں چل پھر کر ایسی محنت کریں اپنی قربانیوں کے ساتھ کہ لوگوں کے دلوں کا اللہ کی طرف پلٹتا ہو جاوے،*

*★_ اس لیے یہ نبوت والا کام ہے، نبوت کا کام اس لیے ہے کہ نبی اللہ اور بندوں کے درمیان ہوتا ہے، اللہ سے لیتا ہے اور بندوں کو دیتا ہے، اللہ سے ہدایت لینا اور بندوں کو دینا، ہدایت پر اپنی زندگی کو ڈھالنا اور لوگوں میں اس کو چلانے کی محنت کرنا _,*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *‌☞ _پہلی ذمہ داری- اپنے کو دین دار بنانا :-*

*★_  میں کہاں کرتا ہوں کہ ہماری تین ذمہ داریاں ہیں، ایک ذمہ داری ہر مسلمان کی یہ ہے کہ وہ اپنے اپ کو دین دار بنائے،*

*★_ جس طرح اپنے اپ کو خوشحال بناتے ہیں مالدار بناتے ہیں تندرست بناتے ہیں, یہ ہر ادمی چاہتا ہے, ایسے ہی اپنے اپ کو دیندار بنانا یہ پہلی ذمہ داری ہے,*

*★_ اللہ تعالی نے یہ فرمایا, اے ایمان والو اپنے آپکو بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی دوزخ کی اگ سے بچاؤ، دوزخ سے ہم کیسے بچائیں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپ کو دین دار بناؤ، تاکہ دوزخ سے بچ جاؤ کیونکہ دوزخ حق ہے اور جنت حق ہے، وہ سامنے انے والی ہے،*

*★_ دین کے بغیر کامیابی نہیں ہوگی دھوکہ ہوگا, جب زندگی پوری ہوگی اور وہ دھوکہ لمبا ہوگا اس سے نکل نہیں سکے گا آدمی ،*

*★_ ہر آدمی سے قبر میں اس کے دین کا سوال ہوگا، زندگی تو پوری ہو گئی کیا کر کے ائے،  تمہیں کس کام کے لیے بھیجا تھا،*

*★_ اتنا دین سیکھیں اتنی محنت کریں کہ ایمان قوی بنے، اتنا ایمان قوی بنے اتنا طاقتور بنے کہ وہ اللہ کے فرائض پر کھڑا کرے، اللہ کے حرام کام سے بچا رہے اور اللہ کے دین کے تقاضوں پر چلتا رہے، اتنا ایمان قوی بنانا ضروری ہے،*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *‌☞ __آخرت کو سمجھنا ہے:-*

*★_  مسئلہ اصل آخرت ہے یہاں چاہے کھوٹ نزر نہ آوے لیکن جب نتیجہ ائے گا تو کھرا کھوٹا الگ ہو جائے گا، اس لیے آخرت بنے، دنیا گزرنے کے لیے ہے اور آخرت باقی رہنے کے لیے ہے،*

*★_ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ فرماتے تھے ک زندگی کا جو زمانہ ہم زمین پر گزارتے ہیں وہ بہت تھوڑا ہے اور اس کے بعد کا زمانہ بہت لمبا ہے،*

*★_ قبر کا زمانہ بہت لمبا ہے, جب تک قیامت کا سور نہ پھکے تب تک قبر میں رہے گا، پھر سور پھونکنے کے بعد جب تک دوسرا سور نہ پھکے اسی حال میں رہے گا، پھر قیامت کا میدان وہ بھی بہت لمبا، ایک ایک مرحلہ بڑا لمبا ہے،*

*★_ فرماتے تھے تھوڑی دیر کے لیے تو ہم بڑی محنت کرتے ہیں، اتنے بڑے مقام اور اتنے بڑے بڑے مرحلوں کے لیے کتنی محنت کرنی چاہیے، سوچو !*

*★_ آخرت سمجھا کر دعوت دیتے تھے, آخرت کو سمجھنا ہے, دلوں سے آخرت کا رخ نکل گیا ہے, اس محنت کی برکت سے رخ ہوا ہے آخرت کی طرف (ورنہ بھولے بیٹھے تھے اخرت کو ),*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *‌☞ _ دوسری ذمہ داری - ہمارا ماحول دینی ہو :-*

*★_ دوسری ذمہ داری اپنے ماحول کو دیندار بنانا کہ ہمارا ماحول دینی بنے، جس ماحول میں ہم زندگی گزارتے ہیں وہ ہمارا ماحول دینی ہو،*

*★_ کیونکہ ماحول میں دین ہوگا تو ہم دین پر باقی رہ سکتے ہیں اور ماحول میں دین نہ ہوا تو دین پر باقی رہنا مشکل, ماحول کی وجہ سے آدمی دین پر باقی رہتا ہے, جیسے سردی ہوتی ہے تو سب کو سردی لگے گی، گرمی کا موسم ہو تو سب کو گرمی لگے گی، ایسے ہی دینداری کا ماحول ہے تو سب دین پر چلیں گے اور دینداری کا ماحول نہیں ہے تو دین پر چلنا مشکل ہے،*

*★_ اسی لیے اللہ تعالی نبی بھیجتے تھے، نبی ماحول بناتے تھے، اس لیے ماحول پر محنت کرو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت سے ماحول بنایا تھا، لوگ جنگلوں میں بھی دین پر رہتے تھے، جو منافق تھے وہ بھی دینی کام چھوڑتے نہیں تھے، حالانکہ اندر سے مانتے نہیں تھے لیکن ماحول بنا ہوا تھا تو ظاہری طور پر پابند رہتے تھے،*

*★_ ماحول بنانا ہمارا کام ہے، یہ جو ملاقاتیں ہوتی ہیں، گشتیں ہوتی ہیں، نقل حرکت ہوتی ہے، اس سے ماحول بنتا ہے، لوگوں میں دین اتا ہے حرکت سے،*

*★_  ماحول گھر سے شروع ہوتا ہے کہ گھر کا ماحول دینی بنے، محلہ دینی بنے، شہر دینی بنے، علاقہ دینی بنے، اس لیے وقت کی مقدار بتائی کہ روزانہ کام (ڈھائی گھنٹے, اٹھ گھنٹے) ہفتے میں کام (دو گشت ) کرو مہینے میں (تین دن, دس دن), سال میں کام کرو( 40 دن, چار ماہ ) تاکہ ماحول بنے، پھر جینا آسان ہو جائے گا ورنہ دین پر جینا مشکل ہے ،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *‌☞ _ اپنے گھروں میں دین لاؤ :-*

*★_ محنت سے ماحول بنتا ہے اور اپنے اندر عمل کی قوت پیدا ہوتی ہے، جن لوگوں میں عمل کی قوت نہیں ہوتی وہ حج میں بھی نماز نہیں پڑھتے، کیوں ؟ کیونکہ ان میں نماز کی طاقت نہیں تھی،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کرایا صحابہ کو تو پہلے محنت کرائی پھر حج کرایا، محنت والا حج ،*

*★_ اب بھی دیکھ لو (دین کی) محنت کر کے حج پر جاؤ تو فرق پڑ جائے گا، چار ماہ چلا لگا کر جانے والے کا حج الگ اور جو گھر سے دکان سے پیسے سے حج کو جائے اس کا حج الگ، نبوت کا طریقہ ہے کہ پہلے محنت کرو،*

*★_ اپنے گھر سے ماحول بنتا ہے، اپنے گھروں میں دین لاؤ، ورنہ گھروں میں کھانے پینے کی باتیں رہ جایئں گی، کیا کمایا کیا کھایا ؟*
*"_ اسلیے ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ اپنے گھروں میں تعلیم کرو روزانہ، بچوں کے کانو میں وہ بات پڑے گی تو وہ پابند ہو جائیں گے، بڑی خیر ہے، گھروں میں دین آ کیا، زندگیوں میں دین آ گیا،* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *‌☞ _ تیسری ذمہ داری- سارے عالم میں دین آوے:-*

*★_سارے عالم میں دین آ جاوے اس کے لیے سوچ فکر اس کے لیے کوشش، یت تیسری ذمہ داری ہے،*

*★_ اپنے کو دیندار بنانا, ماحول بنانا اور سارے عالم میں دین آوے اس کی فکر کرنا یہ ہمارا کام ہے, اس کو نصرت کہتے ہیں,*

*★_ استقامت اور نصرت یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں, استقامت یعنی اپنے اپ کو پابند بنانا اور اپنے اپ کو پابند بنا کر امت کے لیے دین کی محنت کرنا یہ نصرت ہے،*

*★_ اگر یہ امت اپنے دین پر استقامت کے ساتھ رہے, ہر حال پر دین پر رہے, حالات کی وجہ سے حکم نہ چھوڑے, جیسے روزہ سردی میں بھی رکھتے ہیں گرمی میں بھی رکھتے ہیں, چھوٹے دنوں میں بھی رکھتے ہیں بڑے دنوں میں بھی رکھتے ہیں،*

*★_ اللہ نے عبادت کا نظام ہمارا ایسا بنایا ہے کہ عبادت میں حالات سے گزرتا ہے بندہ، حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہماری عبادتیں حالات کے ساتھ نہیں ہیں حکم کے ساتھ ہیں، گرمی کا روزہ ہے رکھیں گے، ہم حالات والے نہیں ہم حکم والے ہیں،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *‌☞ __محنت سے ہر لائن کا دین زندگی میں ائے گا,*

*"★_ ہر حال میں دین پر چلنے کے لیے محنت مددگار بنتی ہے، یہ محنت ہوگی تم مسلمان ہر حال میں دین پر رہے گا،*

*"★_ جو محنت مجاہدا کریں گے ہم انہیں ہر حال میں ہدایت دیں گے،،،، محنت کرنے سے یہ طاقت پیدا ہوتی ہے کہ ہر حال کا دین آدمی کما لے گا،*

*"★_ پھر کاروبار کا دین بھی آدمی پا لے گا، ہمارا کاروبار بھی دینی کاروبار، سچائی والا، سچا اور ایماندار تاجر قیامت کے دن اللہ کے عرش کے نیچے ہو گا، کیونکہ ان کی تجارت میں بھی دین ہے،* 

*"★_ ہر چیز کا دین داخل کرنا ہے، کھانے کا دین، پینے کا دین، کمانے کا دین وہ اس محنت سے ائے گا، چنانچہ لوگوں کی تجارتیں بدل گئی، پہلے تجارت کیسی کرتے تھے کہ اب تجارت شریعت کے مطابق کرتے ہیں، اب شادی شریعت کے مطابق، لین دین شریعت کے مطابق،*

*"★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پورا دین لے کر ائے, ہر لائن کا دین, محنت سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہر لائن کا دین زندگی میں ائے گا، دوسروں کا کیا حق ہے، وہ ادا کرنے والے بنیں گے، ابھی تو حق مانگنے والے ہیں تو لڑائیاں ہوتی ہیں اور جب دین ائے گا تو حق دینے والے بنیں گے تو محبت پیدا ہوگی،*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *‌☞ __ داؤد علیہ السلام کے زمانے کا ایک قصہ :-*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی قصہ سنایا کرتے تھے، ایک دفعہ ایک حصہ سنایا کہ سنو داؤد علیہ السلام کے زمانے میں دو آدمی تھے، ایک آدمی کی زمین دوسرے نے خریدی، خریدنے کے بعد اس نے کام شروع کیا، خدائی کی تو اس میں سے ایک گھڑا نکلا، اس میں سونا بھرا ہوا تھا, ( پہلے زمانے میں لوگ اپنی دولت کو زمین میں دبا دیتے تھے حفاظت کے لیے)*

*★_ وہ آدمی جس سے زمین خریدی تھی اس کے پاس گیا کہ میں نے جو اپ سے زمین خریدی تھی اس میں سے یہ نکلا ہے، یہ آپ کا ہے میرا نہیں ہے، آپ لے لو، وہ کہنے لگا کہ میں نے تو اپ کو زمین بیچ دی، زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی بیج دیا، اس لیے یہ آپ کا ہے، میں نہیں لیتا، دونوں لینے کو تیار نہیں،*

*★_ پھر داؤد علیہ السلام کے پاس فیصلہ گیا, انہوں نے دونوں کے بیان سن کر فرمایا کہ تمہارے کوئی اولاد ہے, ایک نے کہا میرے لڑکا ہے, دوسرے نے کہا میرے لڑکی ہے, فرمایا ان کی شادی کرا دو اور یہ مال ان کو دے دو,*

*★_ ایمان سے خاندان بن گئے ورنہ ابھی تو گلے کٹ جاتے، ایمان بنتا ہے تو حقوق ادا ہوتے ہیں، پھر محبتیں پیدا ہوتی ہیں، اسی کو کہتے ہیں دنیا اور آخرت کی بھلائی، وہ ملتی ہے دین کی وجہ سے ،*
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ __ دعا مومن کا ہتھیار ہے:-*

*★_  دعائیں مومن کا ہتھیار ہے، حالات پیدا ہوتے ہیں کبھی کبھی تو اس کے لیے اللہ نے دعاؤں کا راستہ دیا ہے کہ دعائیں مانگو، تمہاری دعاؤں سے یہ مسئلے حل ہوں گے، خصوصاً دین کے کام کے ساتھ جو دعائیں ہوتی ہیں اس میں قبولیت ہوتی ہے، یہ انعام ہے اللہ کا،*

*★_ اس لیے اللہ نے ہمیں یہ دین کی نعمت دی ہے اور احسان کیا ہے ہم پر, تمہارا عروج تمہاری کامیابی تمہاری ترقی سب اسی کے ساتھ ہے, اس لیے اس کو اخلاص سے قربانیوں سے اس کو جلانا ہے اور اللہ ہی چلائے گا گا یہ طے ہے,*

*★_ اللہ اپنے دین کا مددگار ہے, جب لوگ اللہ کے دین کی مدد پر ائیں گے تو اپنی مدد شامل حال کر دیں گے,*

*★_ دنیا کے ملکوں میں پہنچ گئی یہ باتیں, ایک ہی بات سنو گے آپ پوری دنیا میں، یہ کون چلا رہا ہے کہ اللہ چلا رہا ہے اپنی قدرت سے, ہم اس محنت میں چلیں گے تو اللہ اپنی قدرت ہمارے ساتھ کریں گے کہ قاعدہ ہے جو اس کام کو کرے گا اللہ اپنی قدرت اس کے ساتھ کرتے ہیں یہ بشارت ہے,*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
  *‌☞ __دین کا کام کرو اور اچھا گمان رکھو :-*
 
*★_ ہمارا کام کرنا بہانے کے درجے میں ہے، حق ادا تو ہوگا نہیں، ایسا دو وجہ سے نہیں ہوتا، ایک وجہ تو ہماری کمزوری ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو ضعیف پیدا کیا، دوسری وجہ حق ادا نہ ہو سکنے کی یہ ہے کہ ہم خطا کار ہیں، حدیث میں ہے کہ اللہ کہتے ہیں کہ تم سب خطا کار ہو،*

*★_ اس لیے اللہ نے ہمیں کچھ چیزیں دی ہیں بطور بہانے کے کہ اس کو کر لو تو پھر اپنے دہانے کھول دیتے ہیں، عطاؤں کے دروازے کھول دیتے ہیں،*

*★_ میں بندے کے ساتھ وہ معاملہ کروں گا جو وہ میرے ساتھ گمان کرے گا، اسلیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے صحابہ سے کہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان کیا کرو،*.

*★_  جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ جابر تمہاری موت اس ہال میں آوے کہ تمہارا گمان تمہارے پروردگار کے ساتھ اچھا ہو،*

*★_ یہ بھی اللہ سے لینے کا ایک راستہ ہے کہ ہم اپنا کام کریں اور اللہ سے اچھا گمان کریں, پھر جیسا ہمارا گمان ہوگا ویسا اللہ کر دیں گے ،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*‌☞ _شیطان بندوں میں بدگمانی پیدا کرتا ہے:-*

*★_ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ (دعوت کا) کام کرو اور اچھا گمان رکھو کہ اللہ ہے اسے قبول کریں گے, اللہ راستہ کھولے گے, ہمارے لیے آسانیاں پیدا کریں گے, ہماری دعائیں ہماری عبادتیں ہماری کوششیں اللہ تعالی قبول کریں گے, اس گمان کے ساتھ کام کریں،*

*★_ کیوں ؟ کیونکہ شیطان آدمی کو مایوسی کی طرف چلاتا ہے, نا امیدی کے ساتھ چلاتا ہے اور آدمی کا نفس گھبرا جاتا ہے,*

*★_ علماء نے لکھا ہے کہ آدمی کا نفس چھوٹے بچے کی طرح ہے, وہ ہر ذمہ داری سے بھاگتا ہے, اچھے کام سے گھبراتا ہے, خصوصاً دین سے اور حق کام سے گھبراتا ہے, دنیا کے کاموں سے نہیں گھبراتا,*

*★_ اللہ سے نا امید بنانا, اس کے بندوں سے بدگمان بنانا یہ شیطان کا خاص کام ہے, علماء نے لکھا ہے کہ شیطان بدگمانی کا سودا دینداروں میں بیچتا ہے کیونکہ دیندار لوگ کسی بدی و برائی کی طرف تو جائیں گے نہیں، گناہ وہ کریں گے نہیں، تو ان کے توڑ کا راستہ بدگمانی ہے، ان کو ایک دوسرے سے بدگمان کرو یہ کام شیطان کرتا ہے،*

*★_ جب یہ بدگمان بن جائیں گے تو ان کا ذہن تعاون کرنے سے کٹ جائے گا، بدگمان بننے کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے اور حق کے لیے تعاون اتنا ضروری ہے جتنا زمین کے لیے پانی ضروری ہے، بدگمانی سے ان کی طاقتیں، ان کی صلاحیتیں محدود ہو کر رہ جائیں گی، اگے نہیں بڑھیں گی،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ __ لوگوں کی خوبیاں دیکھو:-*

*★_ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ ہماری دعوت تو خوبیوں کا لین دین ہے, لوگوں کی خوبیاں دیکھو کہ جب ان کی خوبیاں دیکھی جائیں گی تو ان سے کام بھی لیا جائے گا, کام بھی دیا جائے گا,*

*★_ مولانا الیاس صاحب رحمت اللہ نے جب کام شروع کیا میوات والوں سے فرماتے تھے کہ تمہارے اندر دو خوبیاں ہیں ایک تمہاری سادگی اور دوسری تمہاری جفا کشی، (محنت مشقت برداشت کرنا) ان خوبیوں پر اٹھایا اور چلایا,*

*★_ اس طرح ہر قوم میں ہر طبقے میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہوتی ہیں، ان کو دیکھا جاتا ہے دعوت میں، کیونکہ ہمیں لوگوں کی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، مالوں کی نہیں، ہر نبی نے کہا - تم سے مال کا کوئی سوال نہیں لیکن ہمیں لوگوں کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے،* 

*★_ امت کی صلاحیتیں دین پر لگے یہ امانت داری ہے، اس لیے صلاحیتوں کو دیکھنا اور صلاحیتیں اچھے گمان سے نظر اتی ہیں، بدگمانی سے عیب نظر اتے ہیں، نظر بدل جاتی ہے پھر عیوب زبان پر آتے ہیں، ماحول میں اس کے چرچے ہوتے ہیں، پھر ماحول بگڑ جاتا ہے،*  

*★_ مولانا الیاس صاحب رحمت اللہ فرماتے تھے اگر مسلمانوں میں اچھے گمان کا ماحول بن جاوے تو اللہ تعالی کی عطاؤں کے دروازے کھل جائیں،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ __ دین کا راستہ دعا کا راستہ ہے:*

*"★_ اللہ تعالی سے اچھا گمان رکھنا, اطاعت کرنا, اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا, پھر اللہ تعالی سے مانگنا, مانگنے کا زور زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ہماری کوشش کا اعتبار نہیں ہے، اس میں خامیاں رہ جاتی ہے، لیکن اللہ کے وعدے پر اعتماد ہے اور وعدہ یہ ہے کہ تم دعا مانگو میں قبول کروں گا،*

*"★_  دعا سے اللہ تعالی نے بڑے بڑے کام کر دیے، جس کا ذکر ہے قران و حدیث میں، موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی فرعون کی پوری حکومت ڈوب گئی،*

*"★_ دین کا راستہ دعا کا راستہ ہے, دین کی محنت سے, دین کی قربانیوں سے, دین کو زندہ کرنے سے دعا طاقتور بنتی ہے,*

*★_ اس لیے اپنی دعا سے فائدہ اٹھانا, اللہ تعالی سے مانگنا کہ اللہ دنیا میں دین زندہ کر دے، اللہ تعالی کے یہاں سب سے خوشی کا سامان وہ دین ہی ہے، اللہ تعالی کو بے دینی پسند نہیں ہے، اللہ تعالی سے ہمارا رشتہ دین کا ہے جب دین نہیں ہوگا تو دنیا ختم ہو جائے گی،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
            *‌☞ _ ہم نتیجے کے ذمہ دار نہیں :-*

*★_ کوشش کر لو بس, آدمی نتیجے کا ذمہ دار نہیں ہے, لوگ مانیں یا نہ مانیں، نبیوں کو صحابہ کو اللہ نے کوششوں کا ذمہ دار بنایا تھا، پھر جو نہیں ہوا اللہ کو منظور نہیں تھا اور جو ہوا اللہ کا فضل ہے، اس لیے اللہ تعالی سے امید رکھیں،*

*★_ استقامت اس نعمت دین کا شکر ہے, جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگوں پر ایک سکتہ طاری ہو گیا کیونکہ امت کے سامنے اس سے بڑا کوئی حادثہ نہیں, طبیعتیں بیٹھ گئیں, ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہو وہ سمجھ لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو پردہ فرما گئے اور جو خدا کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے، پھر قران شریف کی ایتیں پڑھیں جو احد کے میدان میں اتری تھی،*

*★_ یاد رکھو جو پلٹ جائے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور جو جمے گا اللہ اس کو بدلہ دیں گے, شکر کرنے والوں کو اللہ بدلہ دیتے ہیں اور اللہ تعالی کا ضابطہ یہ ہے کہ جب نعمتوں کا شکر ہوگا تو وہ بڑھیں گی،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *‌☞ __ حسن نیت _____ :-*

*★_ اچھی اچھی نیتیں کرو، اونچی اونچی نیتیں کرو، کیونکہ آدمی کو اللہ تعالی وہ دیں گے جو اس کی نیتوں میں ہوگا، اس لیے اونچی اونچی نیتوں کے ساتھ کام کرو،*

*★_ یہ کام ایسا ہے جیسے آسمان سے برسنے والا پانی, جس سے ہر چیز زندہ ہو جائے گی, دین کی عمومی محنت سے دین کے جتنے کام ہیں سب کو پانی ملے گا،*

*★_ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کو پانی سے تسبیح دی ہے کہ جو علم اور ہدایت دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے وہ بارش کے پانی کی طرح ہے,*

*★_ دین کی دوسری محنتیں جو اس دنیا میں لوگ کر رہے ہیں، ان کے بارے میں ہمارا ذہن تعاون کا ہو کہ جو کام ہم نہیں کر رہے وہ کر رہے ہیں، یہ ہمارے مددگار ہیں اور ہم ان کے مددگار ہیں،*

*★_ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ نیکی اور تقوے کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار رہو، ان کو مقابل نہ سمجھا جائے، فریق نہ سمجھا جائے، تو دونوں طرف سے تعاون ہوگا، بدن کا ہر حصہ اپنی طاقت سے الگ الگ کام کرتا ہے، ایسے ہی جتنے طبقات ہیں امت میں ان کی اپنی اپنی طاقتیں ہیں، ان کی طاقتیں اس کام پر لگے یہ ہم چاہیں، ہمیں ان سب کی قدر کرنی چاہیے اور کام کو مقصد بنا کر کرو تو حالات خوشگوار رہیں گے،*
          
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *‌☞ __ حسن معاشرت :-*

*★_ جس طرح قربانیوں سے کام کو نفع ہوتا ہے, کام بڑھتا ہے, ترقی کرتا ہے, اسی طرح اس کام کو حسن معاشرت سے بھی نفع پہنچتا ہے, یعنی ہمارا لوگوں کے ساتھ برتاؤ اچھا ہو انصاف کا برتاؤ، اخلاق کا احسان کا برتاؤ، یہ حسن معاشرت کہلاتا ہے،*

*★_ جو اپنے لیے پسند کریں گے وہ دوسرے کے لیے بھی پسند کریں گے, پھر کوئی شکایت نہیں ہوگی, یہ انصاف کی بات ہے, پھر احسان یہ کہ اس کا حق بھی دیا اور زیادہ بھی دیا، اللہ نے دونوں باتوں کا حکم دیا، آپس کے رہن سہن میں یہ ضروری ہے،*

*★_ اپنی طرف سے نفع پہنچاؤ احسان کر کے، تعلق کو پانی پہنچاؤ، دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، اس لیے فرمایا کہ لوگوں ! سلام کو پھیلاؤ، خوب سلام کرو اور کھانے کھلاؤ، رشتہ داری جوڑو، صلہ رحمی کرو، اپنا نسب نامہ پہچانو تاکہ رشتہ داروں کا حق ادا کرو،* 
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *‌☞ __ نرم بن کر کام کرنا :-*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب دعوت کے لیے ساتھیوں کو بھیجتے تو ان کی نرمی کے لیے ہدایت دیتے تھے, نرم بن کر کام کرنا, بشارتیں سنانا, نفرت مت دلانا،*

*★_ حسن معاشرت سے کام کے لیے راستے کھلتے ہیں, مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے معاشرت جتنی اچھی ہوگی کام اتنا اچھا ہوگا,*

*★_ اس کے مذاکرے کرو تاکہ بات تازہ ہو جائے، اپنے اندر استقامت پیدا کرو، اپنے آپ کو پابند کریں، یکسوئی کے ساتھ کام کریں،*

*★_ جو ذمہ داری دی ہے اسے یکسوئی کے ساتھ پورا کریں، جتنی ذمہ داری پوری کی جائے گی اللہ تعالی کی اتنی مددیں ہوں گی، پہلے ذمہ داری پھر مدد، حضرت فرماتے تھے مدد غیب سے ہوتی ہے سامنے نہیں ہوتی اور اپنے وقت پر آتی ہے، اللہ کی مدد کے طریقے الگ الگ ہیں، ہر نبی کی مدد الگ الگ ہوئی، وہی جانتا ہے کس کی مدد کیسے کرنی ہے،*

*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے میری مدد رعب سے ہوئی، سامنے والے پر حضور ﷺ کا رعب پڑتا تھا حالانکہ آپ بہت نرم ہوتے تھے، مخلص صحابہ بھی بولنے کی ہمت نہیں کرتے تھے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *‌☞ __یہ کام بغیر دیکھے گا ہے:-*

*★_ نیت رکھو کہ مجھے اللہ تعالی کا کام کرنا ہے، موت تک اور نیت کے ساتھ اجر شامل ہو جائے گا، پھر ذمہ داری لینا آسان ہو جائے گا،*

*★_ یہ ہمارا کام ہے ظاہر کے خلاف, رواز کے خلاف، دنیا کا کام الگ ہے کہ اسباب جمع کرو، مال جمع کرو، ہمارے یہاں یہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کا حکم سمجھ کر کام کرنا ہے،*

*★_ حضرت فرماتے تھے کتنے سودے دنیا کے ہوتے ہیں جو دیکھ کر ہوتے ہیں, دین کا کام کچھ دکھائی نہیں دے گا، کہ کر لو پھر دیکھ لینا، جو وعدہ اللہ تعالی کا ہے وہ پورا ہو جائے گا، یہ کام بغیر دیکھے کا ہے، بس حکم دیکھنا ہے حکم سمجھ کر کرنا ہے،*

*★_ اچھے اخلاق سے اسلوک سے کام کریں، حسن سلوک کام کا ڈھنگ اچھا، اچھے طریقے سے کام کو پیش کریں، اچھے سلوک سے دل اس کو قبول کرتے ہیں، بے ڈھنگے پن سے بات نہیں لی جائے گی،*
*"_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی زنا کی اجازت مانگنے ایا, تو اس کو حسن سلوک سے سمجھایا, تو زنا کی نفرت پیدا ہو گئی,*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *‌☞ __ اچھے ڈھنگ سے بات چلاؤ :-*

*★_ اچھے ڈھنگ سے اپنی بات چلاؤ, اچھے ڈھنگ سے اپنی بات سمجھاؤ چاہے دیر لگے، دیر لگے گی تو بات پختہ ہوگی اور حق جو ہے وہ دیر سے ہی پھیلتا ہے، دھواں جلدی اوپر نکل جاتا ہے اس طرح باطل جلدی پھیل جاتا ہے دھواں کی طرح سے لیکن حق کو پھیلنے میں اس طرح دیر لگے گی جس طرح کسی چیز کو زمین سے اگنے میں دیر لگے گی،*

*★_ حق کی جڑے دلوں میں جمتی ہے اور اس کے نتیجے دیر سے آتے ہیں، اس لیے اس پر قابو رکھو، اس پر اپنے آپ کو پابند رکھو، اللہ سے امید رکھ کر تقاضے پورے کرو،*

*★_ نوح علیہ السلام سے اللہ نے کتنے سال کام لیا, پھر نتیجہ ایا, اس لیے نبیوں کی زندگی بتائی کہ حق کی سپیڈ بہت دھیمی ہوتی ہے لیکن وہ دلوں میں اگتا ہے، اس لیے اس کی جڑ حالات سے کٹتی نہیں،*

*★_ دین حق ہے, اس کے لیے صبر کرنا پڑے گا, ہم اللہ تعالی کا کام کریں گے اور اللہ تعالی اپنے کام کا حامی ہے، اپنے کام کی حمایت کرنے والا ہے، اپنے کام کی مدد کرنے والا ہے، جو اللہ تعالی کا کام کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا، اس لیے اللہ تعالی کے کام کو اللہ والا بن کر کرنا ہے،*

*★_ بعض مرتبہ اللہ تعالی ایسے لوگوں سے کام لیتا ہے جن کو کچھ دینا نہیں چاہتا بس اپنا کام لیا اور مردود کر کے نکال دیا, اس لیے اللہ تعالی سے قبولیت کی دعا مانگنی ہے، استغفار بھی کریں تاکہ کوئی کسر ہے تو اللہ پردہ ڈال دے، اللہ تعالی مجھے بھی توفیق دے اور آپ حضرات کو بھی توفیق دے، امین _,*
 
*®_ حضرت مولانا ابراہیم دیولا صاحب ،
*💤_ ایڈمن کی ڈائری - حق کا داعی _,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
 *👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕                     
       *❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://www.facebook.com/share/1BYZV136N9/
*👆🏻 فیس بک پیج کو لائک & فالو کیجیے _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     

Post a Comment

0 Comments