BANAAT E ARBAAH - (URDU)

 

⚂⚂⚂.
        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                         *■ بنات اربعہ ■*
           *⚂ حضرت زینب رضی اللہ عنہا .⚂* 
  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                   *❀__ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چار بیٹیاں ہوئیں، چاروں بیٹیاں حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا سے ہوئیں، ان میں سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں،* 

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو اس کے پانچ سال بعد سیدہ زینب پیدا ہوئیں، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 30 سال کے قریب تھی، گویا جب اسلام کا آغاز ہوا اس وقت سیدہ زینب کی عمر 10 سال تھی، اعلان نبوت کے بعد سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا تھا، آپ کے ساتھ ہی آپ کی اولاد بھی اسلام میں داخل ہوئی،*

*★_ مکہ معظمہ میں ابوالعاص بن ربیع کا شمار شریف لوگوں میں ہوتا تھا، یہ دولت مند تاجر تھے، حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابوالعاص سے کر دینا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رائے کا بہت احترام فرماتے تھے، آپ نے سیدہ کا یہ مشورہ فوراً مان لیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابوالعاص سے کردیا گیا _,"*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین کی تبلیغ شروع کی تو قریش مکہ نے ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیا، ایک روز مشرک آپ کے گرد جمع ہو گئے اور آپ کو لگے جھٹلانے اور برا کہنے، یہاں تک کہ آپ کو ہاتھوں سے بھی تکلیف پہنچاتے رہے، یہ سلسلہ صبح سے دوپہر تک جاری رہا، آخر یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے، اس وقت ایک نو عمر لڑکی آئیں، پریشانی کی حالت میں انہوں نے دوپٹا پیچھے ڈالا ہوا تھا، وہ پانی کا ایک پیالہ اور رومال اٹھائے ہوئے تھیں، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی پلایا، آپ نے پانی نوش فرما لیا تو رومال سے آپ کے ہاتھ منہ صاف کرنے لگیں، ایسے میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر آپ کو دیکھا اور ارشاد فرمایا:- بیٹی دوپٹے کو اپنے سینے پر ڈال لو، اپنے والد پر ہلاکت کا کوئی خوف نہ کرو _,"*
 *"_لوگوں نے پوچھا:- یہ کون ہے ؟ انہیں بتایا گیا :- یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہیں _," ( مجمع الزواید )*    

[8/25, 6:56 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ اپنے والد کی مشکلات میں مکمل طور پر ساتھ دے رہی تھیں اور وہ دور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشکل ترین دور تھا _,*

*★_ جب مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کی بنیاد پر آپ صلی اللہ وسلم اور آپ کے قریبی لوگ ابی طالب کی گھاٹی میں رہنے پر مجبور ہوئے، تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر ابوالعاص بن ربیع نے ان دنوں ان حضرات کی خوب مدد کی، یہ شدید تنگی کے تین سال تھے، ان میں ابوالعاص غلہ وہاں پہنچاتے رہے، وہ یہ غلہ گھاٹی کے دہانے پر رکھ دیتے اور آواز لگا کر واپس مڑ جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:- "_ ابوالعاص نے ہماری دامادی کی بہترین ریایت کی اور اس کا حق ادا کیا _,"*

*★_ مکہ کے لوگوں کی دشمنی جب حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک قدم اور بھی اٹھایا، یہ لوگ ابوالعاص کے پاس گئے اور ان سے کہا:- تم زینب (رضی اللہ عنہا) کو طلاق دے دو, تم قریش میں سے جس عورت کے ساتھ نکاح کرنا چاہو گے ہم تمہارا نکاح اس عورت سے کرادیں گے _,"*
*"_ اس پر ابوالعاص نے کہا:- میں اپنی بیوی زینب( رضی اللہ عنہا) کو طلاق نہیں دے سکتا اور ان کے بدلے میں قریش کی کسی عورت کو پسند نہیں کرتا _,"*
*"_اور یہ بات ہے اس دور کی جب کہ ابوالعاص مسلمان نہیں ہوئے تھے، مکہ کے کافروں کے عقیدے پر تھے _,"*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو ابوالعاص کی تعریف فرمائی, مشرکین مکہ کی دشمنی جب حد سے بڑھ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم فرمایا، اس طرح مسلمانوں کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت شروع ہوئی، مسلمان مدینہ منورہ پہنچ گئے تو انہیں مشرقوں سے جنگ کی اجازت ہوگئی،*
[8/26, 6:19 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مسلمانوں اور مشرقوں میں جنگیں شروع ہوگئیں، اس سلسلے کی سب سے اہم جنگ غزوہ بدر تھی، اس میں قریش مکہ پوری تیاری سے میدان میں پہنچے، دوسری طرف 313 صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مشرقوں کے مقابلے کے لئے میدان بدر میں آگئے، اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی، کچھ مشرق مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، قیدیوں کو مدینہ منورہ لایا گیا تاکہ ان سے معقول معاوضہ لے کر انہیں آزاد کر دیا جائے،*

*★_ قیدیوں میں ابوالعاص بھی تھے، ان میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی قید ہو کر مدینہ منورہ پہنچے تھے، یہ حضرات زبردستی ساتھ لائے گئے تھے، مسلمانوں سے جنگ کی غرض سے اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے، نہ جنگ کے دوران انہوں نے تلوار چلائی، لیکن چونکہ مشرقوں کے لشکر میں شامل تھے اور اسی حالت میں گرفتار کیے گئے تھے، اس لئے قیدی کی حیثیت میں تھے_,* 

*★_ اب مشرکین مکہ مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کے لیے رقمیں ارسال کرنا شروع کی، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے شوہر کی رہائی کے لیے نقد رقم نہیں تھی، انہوں نے اپنا ہار بھیج دیا، یہ ہار انہیں ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا _,*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ فدیہ جات پیش کیے جارہے تھے کہ یہ ہار آپ کے سامنے پیش کیا گیا، ہار کو دیکھتے ہی آپ پر رقت طاری ہوگئی، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آ گئیں، اس دور کی یادیں تازہ ہوگئیں، تمام صحابہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- "تم پسند کرو تو ابوالعاص کو رہا کر دو اور یہ ہار جو معاوضہ کے طور پر آیا ہے، واپس کردو _,"* 

*★_ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا:- "آپ درست فرماتے ہیں, ہم بلامعاوضہ ابوالعاص کو رہا کرتے ہیں اور زینب رضی اللہ عنہا کے ہار کو واپس کرتے ہیں_,"*
*"_ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص سے فرمایا:- "_ تم وعدہ کرو کہ مکہ پہنچ کر زینب کو ہمارے پاس آنے کی اجازت دے دو گے_," انہوں نے کہا ‌:- جی میں وعدہ کرتا ہوں_," اس طرح ابوالعاص کو بلا معاوضہ رہا کر دیا گیا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا والا ہار واپس کر دیا گیا،*
[8/27, 7:02 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ چند دن بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ مکہ کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ لے آئیں _,*

*★_ ادھر ابوالعاص رہا ہو کر مکہ پہنچے، تمام حالات حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو سنائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا :- میری طرف سے تمہیں اجازت ہے، تم اپنے والد کے پاس جا سکتی ہو_," حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہجرت کی تیاری میں لگ گئیں, تیاری مکمل ہو گئی اور وعدہ پورا کرنے کا دن آگیا تو ابوالعاص نے اپنے بھائی کنانہ بن ربیع کے ساتھ انہیں رخصت کیا، حضرت زینب اونٹ پر سوار ہوئیں اور کنانہ نے اپنے تیر کمان بھی ساتھ لے لیے، انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور روانہ ہوگئے _،,*

*★_ کنانہ ابھی انہیں اس طرح لیے چلے جا رہے کہ قریش مکہ کو اس بات کا پتہ چل گیا، وہ وقت بھی دن کا تھا، جب حضرت زینب کا اونٹ وادی ذی طوی کے پاس پہنچ گئا تو مکہ والے راستے میں آگئے، پہلا شخص جو تکلیف پہنچانے کی نیت سے آگے آیا وہ ہبار بن اسود تھا، اس نے نیزے کا وار کیا، حضرت زینب اس وقت امید سے تھیں، آپ نیچے گر پڑیں اور زخمی ہوگئیں، یہ دیکھ کر کنانہ نے تیر کمان سنبھال لیے، انہوں نے راستے میں آنے والوں پر تیر برسانے شروع کر دیے اور پکارے :- جو بھی قریب آئیگا, اسے تیروں سے چھلنی کر دیا جائے گا _,"*

*★_ اس پر وہ لوگ رک گئے، پیچھے بھی ہٹ گئے، لیکن راستہ انہوں نے پھر بھی نہ دیا، اس پر حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے دیور کے ساتھ واپس لوٹ گئیں، چند دن بعد رات کی تاریکی میں پھر کنانہ کے ساتھ نکلیں اور اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جہاں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھی کے ساتھ ان کا انتظار کر رہے تھے، اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ پہنچیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص کی تعریف فرمائی کہ انہوں نے وعدہ پورا کیا،*

*★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور تکالیف کا ذکر کیا, اس وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- میری بیٹیوں میں زینب سب سے افضل ہے، جو میری وجہ سے مصیبت زدہ ہوئیں _,"*
[8/28, 6:14 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ابو العباس مکہ میں تھے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ کے پاس تھیں، ابوالعاص جب تک ایمان نہیں لائے مکہ میں رہے _,*

*★_ مکہ والے تجارت کی غرض سے شام کی طرف سفر کیا کرتے تھے، ایک تجارتی قافلہ شام کی طرف روانہ ہوا، اس میں ابوالعاص بھی شامل تھے، قریش کے مال ان کے پاس تھے جن سے انہیں شام میں تجارت کرنی تھی، جب یہ قافلہ شام سے واپس لوٹا تو مسلمانوں کو اس کا علم ہو گیا، مسلمانوں نے ان لوگوں کو گھیر لیا اور انہیں گرفتار کرلیا، لیکن اس سے پہلے ہی ابوالعاص قافلے سے الگ ہو کر مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں پہنچ گئے _,*

*★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے انہیں پناہ دے دی، باقی قافلے والے بعد میں مدینہ لائے گئے، عام مسلمانوں کو اس بات کی اطلاع نہیں تھی، نبی کریم صل وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صبح کی نماز پڑھائی، ایسے میں عورتوں کی صفوں میں سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے عورتوں کو آواز دی :- "مسلمانوں ! میں نے ابو العاص بن ربیع کو پناہ دے دی ہے _,"*

 *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:- "جو کچھ میں نے سنا, تم نے بھی سن لیا_," سب نے عرض کیا:- "جی ہاں ! اے اللہ کے رسول_," اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- "_ مجھے بھی اس بات کا پہلے علم نہیں تھا اور جب مسلمانوں کا ایک ادنی شخص بھی کسی کو پناہ دے تو اس کی پناہ اسلام میں منظور کی جاتی ہے اور اس کا پناہ دینا درست ہوتا ہے، تو اس طرح زینب کا ابوالعاص کو پناہ دینا صحیح قرار دیا جاتا ہے، اس پناہ کا خاص خیال رکھیں _,"* 

*★_ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا:- "پیاری بیٹی ! ان کی اچھی طرح خاطر داری کرنا _," اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بلایا بھیجا جنہوں نے ابوالعاص کے مال رکھے تھے، آپ نے انہیں حکم دیا:- "ابوالعاص کے تمام اموال انہیں واپس کر دو، ان میں سے کوئی چیز نہ رکھی جائے _,"*
[8/29, 4:57 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس طرح ابوالعاص کو تمام اموال واپس مل گئے، اب یہ مکہ واپس پہنچے، جن جن لوگوں کے مال ان کے پاس تھے انہیں بلایا، ان کے مال انہیں لوٹائے، پھر انہوں نے ان لوگوں سے کہا :- کیا میں نے سب کا مال لوٹا دیا، کسی کا میرے ذمے رہ تو نہیں گیا _," سب نے کہا :- ہم سب کو ہمارے مال واپس مل گئے، تم بہت شریف انسان ہو، اللہ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے _,"*

*★_ اس پر حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور اللہ کی قسم مدینہ منورہ میں میں نے اس لیے اسلام قبول نہیں کیا کہ کہیں تم یہ گمان نہ کرنے لگوں کہ میں نے تمہارے اموال کھانے کا ارادہ کر لیا ہے, جب اللہ تعالی کی مہربانی سے میں نے تمہارے اموال واپس کر دیے اور میں اسے ذمہ داری سے فارغ ہو گیا تو اب میں اسلام قبول کر رہا ہوں _,"*

*★_اس کے ساتھ ہی ابوالعاص مکہ سے نکل پڑے اور نبی کریم صل وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور اسلام لائے، اس طرح ان کا اسلام بہت عمدہ اور پختہ ثابت ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نکاح ہی کو برقرار رکھا، یعنی نئے سرے سے نکاح نہیں پڑھا _,"* 

*★_ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں ابوالعاص سے بہت اولاد ہوئی، ان میں سے ایک بیٹے کا نام علی تھا، ایک بیٹی کا نام امامہ تھا، ایک بچہ تھوڑی سی عمر میں فوت ہوا، ایک بچہ مرنے کے قریب ہو گیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا :- بچے کی طبیعت بہت خراب ہے، آپ ذرا تشریف لے آئیں _," ان کے پیغام کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلا بھیجا :- "_آپ صبر کریں, جو اللہ تعالی لے لیتے ہیں, وہ بھی اللہ تعالی کے لیے ہے اور جو دیتے ہیں وہ بھی اسی کے لئے ہے، اور ہر شخص کے انتقال کے لئے اللہ تعالی کے ہاں وقت مقرر ہے، تمہیں ہر حالت میں صبر کرنا چاہیے _,"*
[8/30, 5:20 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس وقت بچے کی وجہ سے بہت پریشان تھیں، انہوں نے قسم دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ضرور آئیں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کی جماعت ساتھ چل پڑی، آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے، بچے کا وقت قریب تھا، انہیں آپ کی گود میں دیا گیا، اس وقت وہ آخری سانس لے رہے تھے، اس کی حالت دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- اللہ کے رسول یہ کیا ! آپ آنسو بہا رہے ہیں _,"*
*"_آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- یہ تو رحمت ہے، جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دی ہے _,"*
*"_ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:- "اپنے رحم دل بندوں پر ہی اللہ تعالی رحمت فرماتے ہیں_,"*

*★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے علی بن ابوالعاص آپ وسلم کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے، مکہ فتح ہوا تو آپ صلی وسلم نے انہیں اپنی سواری پر پیچھے بٹھایا ہوا تھا _,*

*★_ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی امامہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت محبت کرتے تھے، ایک روز یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ کو اپنے کندھے پر بٹھایا ہوا تھا اور آپ اس حالت میں نماز ادا فرما رہے تھے، جب آپ رکوع فرماتے تو انہیں زمین پر بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں پھر اٹھا لیتے، یعنی آپ کو ان سے اس قدر محبت تھی _,*

*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:-*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہار بطور ہدیہ آیا, اس وقت آپ کے پاس کچھ ازواج مطہرات جمع تھیں، امامہ اس وقت چھوٹی تھیں، گھر کے ایک طرف کھیل رہی تھیں، نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:- "یہ ہار کیسا ہے _,"*
*"_ہم نے عرض کیا:- بہت بہترین ہے, ہم نے کبھی اتنا بہترین ہار نہیں دیکھا _,"*.
*"_ہماری بات سن کر آپ نے اس ہار کو ہاتھ میں اٹھایا اور فرمایا:- "_ میں یہ ہار اپنی اولاد میں سے اس کی گردن میں ڈالوں گا جو مجھے زیادہ پسند ہے_,"*
*"_ اب تمام ازواج مطہرات انتظار کرنے لگیں کہ دیکھیں ہار کس کے حصے میں آتا ہے، پھر آپ نے وہ ہار اپنی نواسی امامہ کے گلے میں ڈال دیا _,"*

*★_ اس واقعے سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد سے بے تحاشہ محبت کا ثبوت ملتا ہے _,"*
[8/31, 6:34 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے آٹھ ہجری میں مدینہ طیبہ میں وفات پائی، سیرت لکھنے والوں نے موت کا سبب وہ زخم لکھا ہے جو مکہ معظمہ سے ہجرت کرتے وقت آیا تھا، یعنی جب آپ پر تیر سے وار کیا گیا تھا اور آپ اونٹ سے گر پڑی تھیں،*

*★_ آپ کی روح پرواز کر گئی تو گھر میں موجود آپ کی بیٹیاں اور دوسری عورتیں ہونے چلانے لگیں، ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں بلند ہوئیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سختی سے روکا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:- اے عمر ! سختی نہ کرو _,"*
*"_ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا:- تم شیطانی آواز نکالنے سے پرہیز کرو, جو آنسو آنکھ سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور یہ اس کی رحمت ہے اور جو کچھ ہاتھ سے یا زبان سے کیا جائے، وہ شیطان کی طرف سے ہے _,"*

*★_ ہاتھ اور زبان سے کرنے سے مراد پیٹنا واویلا کرنا ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی صاحبزادی کی وفات پر امت کو یہ تعلیم فرمائی کہ کسی کی موت پر ہاتھ اور زبان سے بے صبری کی حرکات نہ کرو، مسلمانوں کے لیے یہ کسی طرح بھی جائز نہیں، یہ جاہلیت کی رسومات تھیں جو لوگ اپنے عزیز و رشتے دار کی موت پر کرتے تھے، اسلام نے صبر اور برداشت کی تعلیم دی ہے جیسا کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا _,*

*★_ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے غسل کا انتظام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص نگرانی میں ہوا، غسل میں ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام ایمن رضی اللہ عنہا نے حصہ لیا، پانی میں بیری کے پتے ڈال کر اسے ابالا گیا، اس پانی سے تین بار غسل دیا گیا، پھر کافور کی خوشبو لگائی گئی،* 
*"_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:- "جب تم غسل دے چکو تو مجھے اطلاع دینا _," چنانچہ آپ کو اطلاع دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند اتار کر دیا اور فرمایا :- "میرے تہبند کو کفن کے اندر داخل کر دو _,"*

*★_ اس مقام پر علماء نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی اپنا تہبند اتار کر غسل دینے والی خواتین کے حوالے نہیں کر دیا تھا بلکہ فرمایا تھا کہ جب غسل دے چکو تو بتانا، جب آپ کو بتایا گیا تب آپ نے تہبند اتار کر دیا تاکہ وہ تہبند زیادہ دیر تک آپ کے بدن مبارک سے لگا رہے اور بالکل قریب تر وقت میں جسم مبارک سے الگ ہو کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے جسم مبارک سے لگے_,*
[9/1, 6:34 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ کفن دیا جا چکا تو اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے کہا :- ہم نے ملک حبشہ میں دیکھا ہے کہ عورتوں کی پردہ داری کے لیے ان کی چارپائی پر ایک قسم کی ڈولی سی بنا دی جاتی ہے تاکہ میت کا جسم پوری طرح چھپا رہے _,"*
*"_ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے مشورہ پر پردے کا یہی انتظام کیا گیا، یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں _,"*

*★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا پہلی مسلمان خواتین تھیں جن کا جنازہ اس اہتمام سے اٹھایا گیا، نماز جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی، پھر جنازے کو قبر کے پاس لایا گیا، قبر کی تیاری میں ابھی کچھ دیر باقی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے نزدیک تشریف فرما تھے، صحابہ کرام بھی آپ صل وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، آخر آپ کو بتایا گیا کہ قبر تیار ہے، اب آپ خود قبر میں اترے، اس وقت آپ کے چہرے پر غم کے آثار کم ہو چلے تھے، چہرے پر بشاشت آگئی تھی، صحابہ کرام حیران تھے،*

*★_ آخر آپ سے پوچھا گیا:- اللہ کے رسول ! پہلے آپ بہت غم زدہ تھے، ہم کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکے، اب آپ کے چہرے پر بشاشت آگئی ہے تو اس کی کیا وجہ ہے _,"*
*"_ آپ صل وسلم نے ارشاد فرمایا:- قبر کی تنگی اور اس کی خوفناکی میرے سامنے تھی اور زینب کا کمزور ہونا مجھے معلوم تھا، بس یہ بات مجھے ناگوار گزر رہی تھی، میں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ زینب کے لیے اس حالت کو آسان فرما دیا جائے، اللہ تعالی نے یہ بات منظور فرمالی اور زینب سے اس مشکل کو دور کردیا _," ( یعنی اس لیے تم اب میرے چہرے پر بشاشت دیکھ رہے ہو)*

*★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہجرت کے وقت جو زخم آئے تھے، وفات سے پہلے وہی زخم دوبارہ تازہ ہوگئے تھے اور آپ کی وفات کا سبب بھی وہی زخم بنے تھے، اس بنا پر اہل اسلام نے آپ کو شہید قرار دیا ہے، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,"*     
⚂⚂⚂.
        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                         *■ بنات اربعہ ■*
           *⚂ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا .⚂* 
  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *❀_ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا _,*

*★_ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے چھوٹی تھیں، ان کی والدہ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں، آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے تین سال بعد پیدا ہوئیں، اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً 33 سال تھی، آپ نے اپنی بہنوں کے ساتھ ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں تربیت پائی اور بالغ ہوئیں، خواتین میں سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں، آپ کے ساتھ آپ کی صاحبزادیاں ایمان لانے میں پیش پیش ہیں، جس وقت ان کی والدہ ایمان لائیں تو ان کے ساتھ ہی یہ صاحبزادیاں بھی مسلمان ہوئیں _," ( طبقات ابن سعد )*

*★_ اسلام کے اعلان سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیوں رقیہ اور ام کلثوم کا نکاح اپنے چچا ابو لہب کے دونوں بیٹوں کے ساتھ کر دیا تھا، یہ صرف نکاح ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی تھی،* 

*★_ پھر اسلام کا آغاز ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی، توحید کی آیات اتریں، شرک اور کفر کی برائی بیان کی گئی، یہاں تک کہ سورۃ تبت یدا ابی لہب وتب ابو لہب کے نام کے ساتھ نازل ہوئی، اس پر مشرکین مکہ کی دشمنی عروج پر پہنچ گئی، ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دیا:- اگر تم محمد بن عبداللہ کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دو گے تو میں تمہیں منہ نہیں لگاؤں گا اور تمہارا چہرہ تک نہیں دیکھوں گا _,"*
*"_ باپ کے کہنے پر دونوں بیٹوں نے طلاق دے دی اور دراصل یہ ان صاحب زادیوں کی غیبی مدد تھی، اللہ تعالی نے چاہا کہ یہ پاک صاحبزادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جا سکیں،*

*★_ اس سارے معاملے میں دونوں صاحبزادیوں کا کوئی قصور نہیں تھا، صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں ہونے کی بنیاد پر ایسا کیا گیا تھا، جب ابولہب کے لڑکوں نے دونوں صاحبزادیوں کو طلاق دے دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی رقیہ کا نکاح مکہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا _,"*   
[9/3, 2:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- اللہ تعالی نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ کا نکاح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کر دوں_,"*
*"_ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ کا نکاح حضرت عثمان سے کردیا اور ساتھ ہی رخصتی کر دی _," ( کنزالعمال 6/375)*

*★_ اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ سے اپنی ایک صاحبزادی رقیہ کا نکاح کیا، پھر ان کے انتقال کے بعد دوسری صاحبزادی ام کلثوم کو ان کے نکاح میں دے دیا_," ( کنزالعمال 6/375)*

*★_ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینا ان کی بہت بڑی فضیلت ظاہر کرتا ہے، یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بہت عظیم سعادت اور خوش بختی ہے کہ نبی آخر الزماں کی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں آئیں، دنیا میں یہ فضیلت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی، اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کس قدر پسند فرماتے تھے، ان سے کتنی محبت فرماتے تھے ,*

*★_ اللہ تعالی نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو حسن و جمال بھی بہت عطا فرمایا تھا، جب آپ کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو اس دور کی عورتیں اس شادی پر رشک کرتی تھیں، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی بہت حسین و جمیل تھے، وہ عورتیں کہا کرتی تھیں :- انسانوں نے جو حسین ترین جوڑا دیکھا ہے، وہ رقیہ اور ان کے خاوند عثمان ہیں _,"*
[9/4, 6:07 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اور وہ اسلام کا ابتدائی دور تھا، مشرکین طرح طرح کے ظلم ڈھا رہے تھے، ان حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ لوگ اگر حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تو یہ ان کے لیے بہت بہتر رہے گا، حبشہ کا بادشاہ بہت نیک انسان ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے، وہاں تم آرام اور سکون سے رہ سکتے ہو، پھر اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی کی کوئی صورت فرما دیں گے _,*

*★_ اس پر چند افراد حبشہ کی طرف نکل پڑے، یہ اسلام میں سب سے پہلی ہجرت تھی، قرآن کریم میں اس ہجرت کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا :-*
*( ترجمہ)_ جن لوگوں نے ستم رسیدہ ہونے کے بعد اللہ کے راستے میں ہجرت کی اور اپنا وطن چھوڑا، ان لوگوں کو ہم دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے_, (سورۃ النحل, آیت 41 )*

*★_ اب جو حضرات اس ہجرت کے لیے مکہ سے نکلے ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھے، ہجرت کا یہ واقعہ نبوت کے پانچویں سال پیش آیا _,"*

*★_ ہجرت کرنے والے ان حضرات نے حبشہ میں کچھ مدت گزاری، پھر مکہ واپس آگئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ واپس آ گئے، لیکن اس دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے جا چکے تھے، لہزا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی، یہ ان کی دوسری حضرت تھی، اس طرح انہیں دو مرتبہ ہجرت کا ثرف حاصل ہوا _,"*
[9/5, 9:48 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حبشہ کی رہائش کے دوران حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، ان کا نام عبداللہ رکھا گیا، اس بچے کے نام کی نسبت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی، اپنے والدین کے ساتھ نواسہ رسول عبداللہ بھی مدینہ منورہ پہنچے، ان کی عمر چھ ماہ کی تھی کی ایک مرغ نے ٹھونگ مار کر انہیں زخمی کر دیا، اس زخم سے ان کے چہرے پر ورم آ گیا تھا اور یہ زخم ٹھیک نہ ہو سکا، اسی حالت میں انتقال کر گئے، ان کے بعد حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی _,"*

*★_ عبداللہ کے انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمزدہ ہوئے تھے، آپ نے انہیں گود میں اٹھایا، آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اس حالت میں آپ نے فرمایا :- بے شک اللہ تعالی اپنے رحیم اور شفیق بندوں پر رحم فرماتا ہے _,"*
*"_ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، انہیں دفن کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قبر میں اترے،*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خادمہ تھیں، ان کا نام ام عیاش تھا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتی تھیں، لیکن پھر آپ نے انہیں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو سونپ دیا اور وہ ان کی خدمت کرنے لگیں _,"*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کم عمر خادم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے، جو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے گوشت کا ایک پیالہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ یہ رقیہ کو دے آؤ، میں نے وہ پیالا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچا دیا، اس وقت گھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، خدا کی قسم میں نے ایسا عمدہ جوڑا پہلے کبھی نہیں دیکھا، میاں بیوی دونوں حسن و جمال میں بے مثال تھے، (اس وقت حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی عمر دس سال سے کم تھی)*
[9/5, 9:57 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک روز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک عمدہ خانہ تیار کر کے آپ صلی اللہ وسلم کو بھیجا، اس دن آنحضرت صلی وسلم کو ام مسلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہنا تھا، مگر جب ہدیہ پہنچا تو آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے، جب تشریف لائے تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے وہ خانہ آپ کے ساتھ پیش کیا، آپ نے دریافت فرمایا:- یہ کس نے بھیجا ؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا :- یہ حضرت عثمان کے گھر سے آیا ہے, یہ سن کر آنحضرت صلی وسلم نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دیے اور دعا فرمائی:- اے اللہ عثمان تجھے راضی کرنا چاہتے ہیں، تو بھی اس سے راضی ہوجا _,"*

*★_ یہ واقعات بتا رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت تھی، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ نے دیکھا حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سر دھو رہی ہیں، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا:- بیٹی ! اپنے خاوند کے ساتھ اچھا سلوک کرتی رہو، میرے صحابہ میں عثمان کے اخلاق مجھ سے زیادہ ملتے جلتے ہیں _,"*

*★_ دو ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا، اس غزوے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے، انہی دنوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں، بیماری شدید تھی اور آپ اور آپ کے صحابہ غزوہ کے لیے بالکل تیار تھے، لہذا ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا :- رقیہ بیمار ہیں، آپ ان کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں ہی ٹھہر جائیں_,*
*"₹حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ صل وسلم نے اپنے خادم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بھی مدینہ منورہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا _,"*

*★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے، ان کی خواہش پر آپ صل وسلم نے ارشاد فرمایا:- آپ کے لئے بدر میں حاضر ہونے والوں کے برابر اجر ہے اور مال غنیمت میں بھی آپ کا حصہ ہے_,"*.
*"_ آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو غزوہ بدر میں شریک ہونے کے برابر ثواب کا حق دار قرار دیا تھا اور اسی طرح غزوہ بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر مال غنیمت کا حق دار قرار دیا تھا، اس کا ایک مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری کو غزوہ بدر میں شرکت کے مطابق قرار دیا تھا _,"*
[9/7, 6:28 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سلسلے میں ایک روایت یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا تھا :- اے اللہ کے رسول ! میرے اجر اور ثواب کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :- تمہارا اجر اور ثواب بھی اہل بدر کے برابر ہے _," ( ابن اثیر, البدایہ والنہایہ )*

*★_ اس قدر وضاحت کے بعد بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے، ایسے لوگ گمراہ نہیں تو اور کیا ہیں،*
*"_ 2 ہجری کو غزوۂ بدر پیش آیا، دوسری طرف حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کی بیماری شدید ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر حاضری میں آپ کا انتقال ہو گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی تیمارداری بھی فرمائی اور اس کے بعد کفن و دفن کا انتظام بھی کیا _,"*

*★_ ادھر میدان بدر میں مشرکین مکہ کو شکست ہوگئی، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ فتح کی خبر لے کر مدینہ منورہ پہنچے، اس وقت لوگ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر چکے تھے اور اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے، ہجرت مدینہ کے 17 ماہ بعد حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا _,"*

*★_ چند دن بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، جنت البقیع میں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر پہنچے، اس موقع پر کچھ خواتین بھی جمع ہو گئیں اور رونے لگیں، جب عورتوں کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ذرا سخت انداز میں منع کیا، اس پر آپ صل اللہ علیہ وسلم نے انہیں سختی نہ کرنے کی ہدایت فرمائی اور خواتین سے فرمایا:- جب تک آنکھ اور دل سے رونا ہو، تب تک یہ علامت رحمت و شفقت کی ہے، لیکن جب زبان سے واویلا اور ہاتھ سے اشارہ ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے_,"*
*"_ اس موقع پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی وہاں آ گئیں اور رونے لگیں, آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے سے آنسوں پونچھے اور انہیں تسلی دی _,*

*★_ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر آپ بہت رنجیدہ تھے، ایک غم آپ کو یہ تھا کہ ان کی وفات آپ کی غیر حاضری میں ہوئی تھی، آپ آخری لمحات میں بھی ان کے پاس نہیں تھے، یہاں تک کہ کفن دفن میں بھی حصہ نہیں لے سکے تھے، اللہ تعالی کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں _,*
      
[9/8, 7:05 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا _,*

*★_ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صاحبزادی ہیں، ان کی والدہ محترمہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں، آپ کا نام ام کلثوم ہے، یہ دراصل آپ کی کنیت ہے، آپ اسی نام سے مشہور ہیں،*

*★_ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ نے بھی اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ اسلام قبول کیا، ہجرت سے پہلے تک آپ مکہ معظمہ میں رہیں، آپ اور آپ کی بہن رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اسلام سے پہلے ابو لہب کے بیٹوں سے ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی، 'تبت یدا ابی لہب، سورۃ نازل ہوئی تو ابولہب کے کہنے پر اس کے لڑکوں نے دونوں کو طلاق دے دی، اللہ کو یہی منظور تھا کہ یہ پاکیزہ بیبیاں ناپاک مشرکین کے گھروں میں نہ جائیں_,*

*★_ یہ طلاق صرف اسلام سے دشمنی میں دی گئی تھی، سیدہ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا کوئی قصور نہیں تھا، وہ تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دینا چاہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو بھی یہ صدمہ دین کی خاطر دیا گیا _,"* 

*★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی، ہجرت کے چند ماہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کو مکہ روانہ فرمایا، تاکہ یہ گھر کے افراد کو مدینہ لے آئیں، آپ نے سواری کے لئے دو اونٹ اور نقد رقم بھی انہیں دی تھی، یہ سفر خرچ کے لئے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے فرمایا تھا:- مکہ سے ہمارے اہل عیال کو لے آئیں _,"*

*★"_یہ حضرات مکہ پہنچے اور وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو مدینہ منورہ لے آئے, اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کی تعمیر میں مصروف تھے اور مسجد کے آس پاس حجرے بنوا رہے تھے، اس لئے آپ نے اپنے اہل خانہ کو حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے گھر ٹھہرایا، اس طرح ام کلثوم، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا‌ مدینہ منورہ پہنچیں، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کی تھی، جس کا ذکر پہلے آچکا ہے _,*
[9/9, 6:41 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ غزوہ بدر کے موقع پر دو ہجری میں سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا انتقال کر گئیں، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت غمگیں رھتے تھے اور چاہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ دامادی برقرار رہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ سے فرمایا :- "_ اے عثمان ! یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں, یہ خبر دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو آپ کے نکاح میں دے دوں, جو مہر رقیہ کے لئے مقرر ہوا تھا وہی مہر ام کلثوم کا ہو _,"*

*★_ تین ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا، اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دوہرے داماد ہونے کا ثرف حاصل ہوا، رخصتی چند ماہ بعد ہوئی، اس نکاح کے موقع پر آپ صل وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:- "میں اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سے کسی کے نکاح میں نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے نکاحوں کے فیصلے ہوتے ہیں _," ( مستدرک حاکم 4/49)*

*★_ اس حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح اللہ تعالی کے حکم سے ہوا تھا، یہی نہیں باقی صاحبزادیوں کے، حضرت زینب، حضرت رقیہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نکاح بھی اللہ تعالی کے حکم سے ہوئے تھے، یعنی یہ ان صاحبزادیوں کی خصوصیت ہے کہ ان کے نکاح اللہ کے حکم سے ہوئے، ان کے نکاح کے ساتھ کسی دوسری عورت کو نکاح میں نہیں لیا گیا _,*

*★_ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی، ام کلثوم رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا، ان دونوں صاحبزادیوں کے بعد البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نکاح کیے اور ان سے آپ کے ہاں اولاد بھی ہوئی،*
[9/10, 6:28 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال 8 ہجری میں آپ کی زندگی مبارک میں ہوا، اللہ کو یہی منظور تھا کہ آپ کی تیسری صاحبزادی کا انتقال بھی آپ کی زندگی میں ہی ہو، شعبان نو ہجری میں آپ اس دنیا سے رخصت ہوئیں،*

*★_ یہ سب اللہ تعالی کے کام ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزاد گان بھی آپ کی زندگی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے، ایک حدیث میں ہے کہ انبیاء علیہ السلام لوگوں کے اعتبار سے زیادہ آزمائش میں ہوتے ہیں، ان کے بعد جو ان سے زیادہ مشابہ ہوئے ہیں، وہ آزمائشی میں مبتلا ہوتے ہیں، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے انتقال پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حد درجہ غم زدہ ہونا قدرتی بات تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا :- "_اگر میری دس بیٹیاں ہوتی تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے نکاح میں دے دیتا _,"*

*★_ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے کفن دفن کے انتظامات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائے، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، حضرت لیلیٰ بنت قانف رضی اللہ عنہا اور ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو غسل دیا، غسل کے لیے بیری کے پتوں والا پانی استعمال کیا گیا، غسل کے بعد کافور کی خوشبو لگائی گئی،* 

*★_ غسل اور کفن کے بعد جنازے کے لیے آپ صل اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے نماز جنازہ پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز جنازہ میں شرکت کی، نماز جنازہ ہو چکی تو جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا _,*

*★_ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے دفن کے موقع پر ہم حاضر تھے اور سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر تشریف فرما تھے، میں نے دیکھا، آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں _,"*

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
[9/11, 6:51 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا _,"*

*★_ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، آپ کا نام فاطمہ اور لقب زہرا اور بتول ہے، آپ کی والدہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ہیں، آپ نبوت کے اعلان سے تقریباً پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اس وقت 35 سال تھی،* 

*★_ ایک روایت کے مطابق آپ نبوت کے اعلان کے بعد پیدا ہوئیں، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 41 سال تھی، آپ کے چلنے کا انداز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا تھا، اٹھنے بیٹھنے کے انداز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسے تھے _,"*

*★_ نبوت کے اعلان کے بعد مکہ کے مشرقوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانا شروع کیا، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس حرم میں نماز پڑھ رہے تھے، قریش کے چند شریروں نے ایک اونٹ کی اوجھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر رکھ دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سجدے کی حالت میں تھے، کسی نے جا کر یہ بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بتا دی، وہ دوڑی ہوئی آئیں اور اس بوجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے اتارا، نماز سے فارغ ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے لئے بد دعا فرمائیں _,* 

*★_ اللہ تعالی نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور ان میں سے زیادہ تر غزوۂ بدر میں مارے گئے _," ( بخاری 1/74)*
[9/11, 7:09 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو اپنی بیٹیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو مکہ ہی میں چھوڑ گئے تھے، اسی طرح ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کو بھی وہیں پر چھوڑ گئے تھے _,*

*★_ مدینہ منورہ میں پہنچ جانے پر اور رہائش کے انتظامات کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہم کو انہیں لانے کے لیے بھیجا، انہیں سفر کے لیے دو اونٹ اور پانچ سو درہم بھی دیے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبداللہ بن اریقط ان حضرات کے ساتھ روانہ ہوئے تھے، ان حضرات نے قدید کے مقام سے سواریاں خریدیں اور پھر مکہ میں داخل ہوئے،*

*★_ یہاں ان کی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، یہ بھی ہجرت کے لئے تیار تھے، اس طرح یہ تمام حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ پہنچے، مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد 2 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی طرف توجہ فرمائی، بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی درخواست کی تھی،* 

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:- آپ کے پاس مہر کے لئے کوئی چیز ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :- اور تو کوئی چیز نہیں، بس ایک سواری اور ایک زرہ ہے _,"*
*"_ یہ دونوں چیزیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے 400 درہم میں فروخت کر دیں، اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ان میں سے فاطمہ کے لیے خوشبو خریدو، کیونکہ فاطمہ بھی خواتین میں سے ہے اور ان کے لئے خوشبو درکار ہوتی ہے _,"*
[9/13, 6:29 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس کے بعد آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- فاطمہ کی رخصتی کے لیے مکان کی تیاری کی جائے_,"* 
*"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- ہم نے اس کام کی تیاری شروع کی، وادی بطحا سے اچھی قسم کی بھی منگوائی، اس سے مکان کو لیپا ہوتا اور صاف کیا، پھر ہم نے اپنے ہاتھوں سے کھجور کی چھال درست کی ، ان سے دو گدے تیار کیے، خرما اور منقی سے خوراک تیار کی، پینے کے لیے شیریں پانی مہیا کیا، پھر اس مکان کے کونے میں ایک لکڑی گاڑ دی تاکہ اس پر مشکیزہ اور کپڑے لٹکائے جا سکیں،*

*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- فاطمہ کی شادی سے بہتر ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی_," ( ابن ماجہ )*

*★_ آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہیز میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک بڑی چادر اور چمڑے کا ایک تکیہ دیا جو کھجور کی چھال یا اذخر سے بھرا ہوا تھا، اذخر خوشبودار گھاس کو کہتے ہیں، آٹا پیسنے کے لئے ایک چکی، ایک مشکیزہ اور دو گھڑے دیے _,"*

*★_ آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو بس یہ سامان دیا، یہ بھی اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت غریب تھے، ان کے پاس گھر داری کا کوئی سامان تھا ہی نہیں، لہذا اس سے مروجہ جہیز کا جواز سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا، امت کے لیے یہ سادہ اور مختصر سامان ہمارے لئے ایک نمونہ ہے اور ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ اصل چیز فکرےاخرت ہے اور یہ زندگی عارضی ہے_,*
[9/14, 6:13 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جب یہ تیاریاں مکمل ہو چکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا، مہر چار سو مثقال مقرر فرمایا، نکاح میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اور بڑے صحابہ نے شرکت کی، یہ حضرات اس نکاح کے گواہ تھے، نکاح کی تقریب بالکل سادہ تھی، کسی قسم کے تکلفات نہیں برتے گئے، کوئی رسومات نہیں کی گئیں،*

*★_ نکاح کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر کو بی بی ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر روانہ فرمایا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ پیدل چل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تک گئیں، کسی ڈولی یا سواری کا انتظام نہیں کیا گیا،*

*★_ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ نکاح رمضان 2 ہجری میں ہوا اور رخصتی ماہ ذوالحجہ 2 ہجری میں ہوئی، اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر 15 سال 5 ماہ تھی، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر 21 برس تھی _," ( قرطبی)*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزارنے کا ضابطہ ان الفاظ میں بیان فرمایا تھا:- "_فاطمہ گھر کے اندر کے کام سرانجام دیں گی اور علی المرتضیٰ گھر سے باہر کے کام کریں گے _,"*
[9/15, 6:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_وہ اسلام کا ابتدائی دور تھا، مسلمانوں کو مشرکوں کے مقابلے میں فتوحات ہونے لگی تھی، لونڈیاں اور غلام ان فتوحات میں آتے تھے، یہ مسلمانوں میں تقسیم کیے جاتے تھے، ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ غلام آئے، اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:- آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر ایک غلام کا مطالبہ کریں، جو گھریلو کام کاج میں آپ کی مدد کر سکے، اس طرح آپ زحمت سے بچ جائیں گی_,"*

*★_ اس پر آپ حضور نبی کریم صل وسلم کی خدمت میں آئیں، اس وقت وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے، آپ ان سے گفتگو میں مصروف تھے، یہ دیکھ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا واپس لوٹ گئیں، اس کے بعد نبی کریم صل وسلم خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی گھر میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- "فاطمہ ! آپ میرے پاس آئی تھیں, اس وقت کیا کہنا چاہتی تھیں_,"* 

*★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شرم محسوس ہوئی اور آپ کچھ نہ کہہ سکیں، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول ! میں عرض کرتا ہوں, فاطمہ گھر کا کام خود کرتی ہیں, چکی پیستی ہیں تو ان کے ہاتھوں میں گٹے پڑ جاتے ہیں، پانی لانے کے لئے مشکیزہ خود اٹھاتی ہیں اس کی وجہ سے جسم پر نشان پڑ گئے ہیں، آپ کی خدمت میں کچھ غلام آئے تو میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ آپ سے ایک غلام مانگ لیں، تاکہ آپ مشقت سے بچ جائیں_,"* 

*★_ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اے بیٹی ! تمہیں اپنے کام خود کرنے چاہییں, میں تم کو وظیفہ بتاتا ہوں جب رات کو سونے لگو تو یہ پڑھ لیا کرو, 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر _,"*

*★_ یہ سن کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں_,"*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے حالات بہتر ہونے پر آپ کو بعد میں ایک خادم عنایت بھی کر دیا تھا _,"*
[9/16, 7:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ 3 ہجری میں غزوہ احد پیش آیا، غزوہ بدر میں بدترین شکست کے بعد مشرقوں نے اس مرتبہ زبردست تیاریاں کی تھی، اس جنگ میں شروع میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی لیکن چند مسلمانوں کی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمان مشکل حالات میں گھر گئے، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرقوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا، آپ کے دندان مبارک کو نقصان پہنچا، حضرت علی رضی اللہ عنہ پانی لاے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا زخموں کو صاف کرنے لگیں، خون نہ رکا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ زخم پر رکھی، تب خون رکا_," ( بخاری)* 

*★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ ایک میت کو دفن کرنے کے لیے گئے، دفن سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو صحابہ کرام بھی ساتھ تھے، جب آپ گھر کے قریب پہنچے تو سامنے سے ایک خاتون آتی نظر آئیں، یہ سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا تھیں، آپ نے ان سے پوچھا:- بیٹی ! آپ گھر سے باہر کس لیے گئیں تھیں _," سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- فلاں گھر میں ایک موت ہوگئی ہے، تعزیت کے لئے گئی تھی، ان کے حق میں دعا کر کے آئیں ہوں _,"* 

*★_ قربانی کے دن تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:- تم اپنی قربانی کے ذبح کے وقت اس کے پاس کھڑی رہو اور اسے دیکھو _,"*
*"_ ساتھ ہی آپ نے فرمایا:- قربانی کے خون کے ہر قطرے کے بدلے میں تمہارے گناہ معاف ہوتے ہیں_,"*
*"_ اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:- اے اللہ کے رسول ! کیا یہ مسلہ ہمارے لیے خاص ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے _," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے _," ( الفتح الربانی- ١٣/٥٩)*
[9/17, 8:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جس روز مکہ فتح ہوا ( یعنی آٹھ ہجری میں) تو ام ہانی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں, آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غسل فرما رہے تھے، چاشت کا وقت تھا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے لئے کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھیں، ام ہانی رضی اللہ عنہ نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا:- کون آئیں ہیں ؟ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- اللہ کے رسول سول میں ہوں ام ہانی _,"* 
*"_ غسل سے فارغ ہونے کے بعد آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی آٹھ رکعت ادا فرمائیں _," ( سنن دارمی 170)*

*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے قربانی کے گوشت کا مسئلہ پوچھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرما:- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قربانی کا گوشت بچا کر رکھنے سے منع فرمایا تھا، مگر بعد میں آپ نے اسے بچا کر رکھنے کی اجازت دے دی اور واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی سفر سے گھر تشریف لائے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قربانی کا پکا ہوا گوشت پیش کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:- کیا اس کے کھانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا تھا ؟*

*"_ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ مسئلہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- قربانی کا گوشت سال بھر کھایا جا سکتا ہے _," ( مسند احمد - 6/282)*
[9/18, 12:41 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے تو وہ احترام سے کھڑی ہو جاتیں، آپ کے ہاتھ مبارک کو چوم لیتی اور اپنی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھاتیں، اسی طرح جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور بوسہ دینے کے لیے ان کے ہاتھ پکڑ لیتے، پھر اپنی جگہ آپ کو بٹھاتے_,"*

*★_ اس سے معلوم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادیوں پر نہایت مہربان تھے، ان سے بے تحاشہ محبت کرتے تھے، ان کا بہت خیال رکھتے تھے،*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی زیب و زینت پسند نہیں فرماتے تھے اور صرف اپنے لئے ہی نہیں، اپنی اولاد کے لئے بھی پسند نہیں فرماتے تھے،* 

*★_ ایک روز سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے گھر میں نقش و نگار والا ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر ہی ٹھہر گئے، اندر تشریف نہ لائے اور واپس لوٹ گئے، یہ دیکھ کر سیدہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑیں اور آپ کے نزدیک پہنچ کر عرض کیا:- " اللہ کے رسول ! آپ واپس کس لیے جا رہے ہیں _,"*
*"_ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- " پیغمبر کے لیے یہ مناسب نہیں کہ ایسے مکان میں داخل ہو جو نقش و نگار سے سجایا گیا ہو _,"*
[9/19, 10:01 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا:- " اے میری بیٹی ! جو مجھے محبوب ہے کیا وہ تمہیں محبوب نہیں _," سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- کیوں نہیں ! جو آپ کو محبوب ہے, وہ مجھے بھی محبوب ہے _," اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- تب پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت رکھنا، ان سے عمدہ سلوک قائم رکھنا _,"* 

*★_ فتح مکہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی سے نکاح کا ارادہ کیا، اس بات کی خبر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی ہو گئی، انہیں شدید رنج ہوا، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ بات آپ کو بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے خطبہ دیا اور اس میں ارشاد فرمایا:-*
*"_ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے, جس نے انہیں تکلیف پہنچائی, اس نے مجھے بھی تکلیف پہنچائی, جو چیز فاطمہ کو بری لگے، وہ مجھے بھی نا پسند ہے، میں اپنی طرف سے حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ کسی حرام کو حلال کرتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوں گی_,"* 
*"_اس خطبے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فوراً ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا _," ( بخاری1/ 438)* 

*★_ ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا میں کچھ رنجیدگی ہو گئی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سخت لہجے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ کہہ دیا، اس پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:- "اے میری بیٹی ! تمہیں اپنے خاوند کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی چاہیے, خاوند کو تنبیہ وغیرہ کا حق ہوتا ہے_," (طبقات ابن سعد - 8/16)*

*★_ اپنے مرض الوفات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی وصیتیں فرمائیں، بہت سے فرمان جاری کیے، ان پر عمل کرنے کی پوری امت کو بہت تاکید فرمائی، اس موقع پر آپ صلی اللہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہ وصیت فرمائی:-*
*"_ اے فاطمہ اور اے صفیہ ! اللہ تعالی کے ہاں جو حساب کتاب لیا جائے گا اس کی تیاری کرو, میں اللہ کے ہاں حساب کتاب میں تمہارے کام نہیں آؤ نگا _,"*
*"_ اس وصیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ حسب نسب پر بھروسا کر کے عمل میں کوتاہی کرنا درست نہیں، باقی رہا شفاعت کا مسلہ تو وہ اپنے مقام پر بالکل درست ہے، وہ اللہ کے حکم سے ہوگی,*
[9/20, 6:56 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دن تھے، آپ گھر میں تشریف فرما تھے، ازواج مطہرات جمع تھیں، ایسے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لے آئیں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی زندہ تھیں، ان کے چلنے کا انداز آپ صل اللہ علیہ وسلم کے موافق تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آتے ہوئے دیکھا تو مرحبا فرمایا اور اپنے پاس بٹھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کے کان میں کچھ کہا، وہ اس بات کو سن کر بے ساختہ رونے لگیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غمگینی دیکھی تو پھر ان کے کان میں کچھ فرمایا، وہ یہ سن کر ہنسنے لگیں،*

*★_ جب نبی کریم صل وسلم اس مجلس تشریف لے گئے تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:- اللہ کے رسول نے آپ کے کان میں کیا کہا تھا ؟ جواب میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:- میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راز کی بات کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی _,"*

*★_ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا:- میں آپ کو اس حق کا واسطہ دے کر کہتی ہوں جو میرا آپ پر ہے, مجھے وہ بات ضرور بتا دیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کان میں کہی تھی_,"*
*"_ جواب میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:- پہلی مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا تھا کہ جبریلِ علیہ السلام ہر سال ایک مرتبہ آ کر قرآن مجید کا ورد کرتے تھے یعنی مجھے قرآن سناتے تھے اور مجھ سے سنتے تھے، اس مرتبہ انہوں نے دوبار مجھے قرآن مجید سنایا اور مجھ سے سنا، اس سے میں یہی خیال کرتا ہوں کہ میری وفات قریب آ گئی ہے، اے فاطمہ اللہ سے خوف کھانا اور صبر کرنا، میں تمہارے لئے بہترین پیش رو ہوں گا_,* 

*★_ یہ سن کر میں رونے لگی، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روتے دیکھا، میری گھبراہٹ اور پریشانی کو دیکھا تو دوبارہ سرگوشی کی اور فرمایا:- اے فاطمہ ! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو یا مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو ؟"* 

*★_ ایک دوسری روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:- فاطمہ ! تم میری اہل بیت میں سے پہلی شخصیت ہو جو میرے پیچھے آئے گی،( یعنی سب سے پہلے تمہاری وفات ہوگی اور تم مجھ سے ملوگی) یہ سن کر میں ہنسنے لگی_,"*
[9/21, 6:08 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رنج و غم کی کیفیت میں کہنے لگیں:- اے ابا جان ! آپ نے رب کی دعوت قبول کی، اے ابا جان ! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہوگا _,"* 

*★_ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن دفن کے مراحل گزرے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں دفن ہوئے، اس وقت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھنے لگیں:- اے انس ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر مٹی ڈالنا تم لوگوں کو کس طرح گوارا ہوا ؟ _," ( مشکاۃ, دارمی)* 

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری اوقات میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بہت سی وصیتیں فرمائیں، اس میں سے خاص طور پر ایک یہ تھی :- "_ اے فاطمہ ! جب میرا انتقال ہو جائے تو میری وجہ سے ( میرے غم میں) اپنے چہرے کو نہ چھیلنا، اپنے بالوں کو نہ پریشان کرنا اور واویلا نہ کرنا اور مجھ پر نوہا نہ اور نہ بین کرنا اور نہ ہی بین کرنے والیوں کو بلا نا _,"*

*★_ نبی کریم صلی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، تمام صحابہ نے آپ کی خلافت کو تسلیم کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق خلافت کے فرائض سرانجام دینے لگے، آپ ہی مسلمانوں کو پانچ وقت نماز پڑھاتے تھے اور مدینہ کے تمام صحابہ کرام ان کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے،*
[9/22, 7:05 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان دنوں میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنا ایک مطالبہ لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئیں، آپ نے صدیق اکبر سے کہا :- ہمیں باغ فدک، خیبر کی جائیداد اور اموال مدینہ میں سے ہمارا حق وراثت دیا جائے، یعنی ان جائیدادوں میں ہمیں وارث بنادیا جائے _,"* 

*★_ یہ حصہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، اس لئے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ مطالبہ کیا، اس مطالبے کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:-*
*"_ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کی مالی وراثت نہیں چلتی اور جو کچھ ہم چھوڑ جائیں، وہ اللہ کے راستے میں وقف ہے اور صدقہ ہوتا ہے، باقی آپ حضرات کو جو حق ان اموال میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ملتا تھا، وہ بدستور دیا جائے گا اور اس میں ہم کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کریں گے اور اسی طرح ادائیگی کریں گے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جاری کیے ہوئے تھے _,"*

*★_ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:- اللہ کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ عزیز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں کا لحاظ مجھے اپنے رشتے داروں کے لحاظ سے زیادہ ہے _,"* 

*★_ آپ کا مطلب یہ تھا کہ مالی حق آپ کا ادا کیا جاتا رہے گا، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ادا کیا جاتا تھا، مال کا وارث آپ کو نہیں بنایا جائے گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہی ہے _," ( بخاری شریف)* 

*★_ چنانچہ تینوں خلفاء کے دور میں یہ حق ان حضرات کو اسی طرح ملتا رہا جس طرح یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ملا کرتا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور میں یہ مسئلہ اسی طرح رکھا_,*
[9/23, 6:49 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سلسلے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ناگوار گزرا تھا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پھر تمام زندگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بات نہیں کی تھی، یہ درست نہیں ہے، ان حضرات نے اس فیصلے کو بخوشی قبول کیا تھا کیونکہ حق بات تھی بھی یہی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کوئی ناخوشگوار ی نہیں تھی، جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ثابت ہے _,*

*★_ ایک روز سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئیں، وہاں دونوں کے درمیان گفتگو ہوئی، اس گفتگو کے دوران سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق سے کہا:-*
*"_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں یہ بشارت فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے اہل بیت میں پہلی شخصیت میں ہوں گی جو آپ کے ساتھ جا ملوں گی ( یعنی اہل بیت میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے میں اس دنیا سے رخصت ہوں گی)_," ( مسند احمد)* 

*★_ امامہ بنت ابی العاص، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سگی بھانجی تھی، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امامہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں وصیت فرمائی :- میرے بعد آپ شادی کرنا چاہیں تو میری بھانجی امامہ کو نکاح میں لے لیں_,"* 
*"_ چناچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد جب امامہ رضی اللہ عنہا بڑی ہو گئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی _,"*
[9/24, 6:39 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حد درجے غمگین رہنے لگی تھیں، آپ کی عمر اس وقت 28، 29 برس کی تھی، آپ کی اولاد بیٹے بیٹیاں ابھی کم عمر تھے، آپ کی تیمارداری کے لئے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا تشریف لا تیں، یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں،*

*★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پانچوں نمازیں باجماعت مسجد نبوی میں ادا فرماتے تھے، ایک روز جب یہ حضرات نماز سے فارغ ہو چکے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:- نبی کریم صل وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزہراء کا کیا حال ہے، ان کا مزاج کیسا ہے ؟ ( کتاب سلیم بن قیس )*
*"_ اس روایت سے بھی یہی ثابت ہے کہ ان حضرات کے آپس میں بہت خوشگوار تعلقات تھے،* 

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں اور چند روز بعد رمضان المبارک 11 ہجری میں منگل کی شب آپ کا انتقال ہوا، اس وقت آپ کی عمر مبارک 28 یا 29 سال تھی، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست آخری اولاد تھیں جن کا انتقال ہوا، سیدہ کے بعد بلا واسطہ کوئی اولاد دنیا میں نہ رہی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نشانی تھیں، یہ بھی اللہ کے ہاں پہنچ گئیں، انا لللہِ وانا الیہ راجعون _,*

*★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پر مدینہ منورہ کے لوگوں کے غم کی انتہا نہ رہی، صحابہ کرام اس لئے بھی حد درجہ غمگین تھے کہ ان کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلاواسطہ اولاد کا سلسلہ بھی سیدہ کی وفات پر ختم ہو گیا تھا، اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی ازواج مطہرات رہ گئی تھیں،*
[9/25, 8:02 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا انتقال مغرب اور عشا کے درمیانی وقت میں ہوا، آپ نے وفات سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو وصیت کی تھی کہ آپ کو وہ غسل دیں، چنانچہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے آپ کو غسل دیا، ان کے ساتھ غسل میں چند اور بیبیوں نے بھی شرکت کی، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس سارے کام کی نگرانی کرتے رہے_,* 

*★_ غسل اور کفن کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نمازے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا، نماز جنازہ کے لیے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات جو اس وقت موجود تھے، سب تشریف لے آئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں _,"*
*"_ جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- آپ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کی موجودگی میں میں نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتا، نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے، آپ تشریف لائیں اور نمازے جنازہ پڑھائیں _,"* 

*★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے تشریف لے آئے، آپ نے چار تکبیر کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی، باقی تمام حضرات نے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی _," ( طبقات ابن سعد - 8/19)*

*★_ نماز جنازہ کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رات کے وقت ہی جنت البقیع میں دفن کیا گیا، دفن کرنے کے لیے حضرت علی، حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہم قبر میں اترے _," ( الاصابہ )*
[9/27, 6:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جو اولاد ہوئی، ان کے نام یہ ہیں:- سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ، سیدنا حضرت محسن رضی اللہ عنہ (یہ تیسرے صاحبزادے بچپن میں ہی فوت ہوچکے تھے)* 

*★_ حضرت حسن رضی اللہ عنہ 15 رمضان 3 ہجری میں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ شعبان پانچ ہجری میں پیدا ہوئے،*

*★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دو صاحبزادیاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں، بعض علماء نے ایک تیسری صاحبزادی رقیہ کا بھی ذکر کیا ہے،* 

*★_ ان میں سے سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے 17 ہجری میں اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا_," ( نسب قریش- صفحہ نمبر 25 )*

*★_ سیدہ فاطمہ کا حلیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا تھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:- فاطمہ رضی اللہ عنہا کا لب و لہجہ، اٹھنا بیٹھنا بالکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھا، آپ بات چیت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کیا کرتی تھیں، آپ کی چال بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال جیسی تھی_,"* 

*★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں، آپ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:- فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے، جو اسے ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا_,"*
[9/28, 6:34 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_۔ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سونے کا ہار دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا- "_کیوں فاطمہ ! کیا لوگوں سے کہلوانا چاہتی ہو کہ رسول اللہ کی لڑکی آگ کا زیور پہنتی ہے _,"*
*"_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فوراً اس ہار کو بیچ کر اس رقم سے ایک غلام فرید لیا _,*

*★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حد درجے حیادار تھیں، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم نے انہیں بلوایا تو وہ شرم کی وجہ سے لڑکھڑاتی ہوئی آئیں، اپنے جنازے پر پردہ کرنے کی وصیت بھی اسی بنا پر کی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- "میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو کو صاف گو نہیں دیکھا، البتہ ان کے والد ان سے زیادہ صاف گو تھے _,"* 

*★_ سیدہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تحاشہ محبت تھی، جب چھوٹی تھیں تو قریش نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز کی حالت میں تھے، یہ گندی حرکت کرنے کے ساتھ ہی کریش ہنسنے لگے، ہنستے جاتے تھے اور ایک دوسرے پر گرتے جاتے تھے، ایسی حالت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے خبر دی، ان کی عمر اگرچہ اس وقت پانچ چھ سال تھی، لیکن محبت کے جوش میں دوڑی ہوئی آئیں اور اس بوجھ کو ہٹا کر قریش کو بد دعائیں دینے لگیں _,"*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے تحاشہ محبت کرتے تھے، سفر میں جاتے تو سب سے آخر میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کے لیے تشریف لاتے، واپس آتے تو سب سے پہلے انہی سے ملتے _,* 
*"_ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر کھڑے ہوجاتے، انہیں اپنی جگہ بٹھاتے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں کبھی ناراضی ہو جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور دونوں میں صلح کروا دیتے اور صلح کروا کر بہت خوش ہوتے، اللہ تعالٰی کی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر کروڑوں رحمتیں ہوں، آمین،*

*★_ الحمداللہ پوسٹ مکمل ہوئیں، پوسٹ لکھنے میں اور پوسٹ کرنے میں جو کمی کوتاہی ہوئیں، اللہ تعالی معاف فرمائے، آمین _,*

*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,162,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
          ╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے ہمیں میسج کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*

Post a Comment

0 Comments