▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*■ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ ■*
*🌹صلى الله على محمدﷺ🌹*
─━━━════●■●════━━━─
*❀_یہودیوں کی شرارتیں، عہد شکنی، حملے اور مسلمانوں کی مدافعتیں:-*
*"_ لفظ "یہود" سے اگرچہ صرف وہی ایک قبیلہ مراد ہونا چاہیے جو "یہود ابن یعقوب" کی نسل سے تھا، لیکن اصطلاحاً "بنی اسرائیل" کے بارہ قبائل ہی کا قومی نامی یہی پڑ گیا، بنی اسرائیل اپنے ابتدائی زمانے میں اللہ کی مقبول اور برگزیدہ قوم تھی، لیکن آخر میں وہ اللہ سے اس قدر دور ہوتے گئے کہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہرے _,"*
*★_ حضرت مسیح علیہ السلام جیسے رحم دل نے ان کی حالتوں کو دیکھ کر انہیں سانپ اور سانپ کے بچے بتلایا تھا اور یہ بھی خبر دی تھی کہ اللہ کی بادشاہت اس قوم سے لے جاکر ایک دوسری قوم کو دی جائے گی جو اس کے اچھے پھل لائے گی_,*
*★_ جب اس بشارت کے ظہور کا وقت آ گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہترین تعلیم کی تبلیغ شروع کر دی تو یہود نے سخت پیچ و تاب کھایا اور آخر یہی فیصلہ کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ویسے ہی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے جیسا کہ مسیح علیہ السلام کو بنا چکے تھے، یہود اگرچہ ہجرت کے پہلے ہی سال معاہدہ کر کے امن و امان کا پیمان باندھا چکے تھے لیکن فطری شرارت نے زیادہ دیر تک چھپا رہنا پسند نہ کیا، معاہدے سے ڈیڑھ سال ہی کے بعد شرارتوں کا آغاز ہو گیا، جب مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی جانب گئے ہوئے تھے،*
*★_ انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کے محلے میں دودھ بیچنے گئی اور چند یہودیوں نے شرارت کی اور اسے سربازار برہنہ کردیا، عورت کی چیخ و پکار سن کر ایک مسلمان موقع پر جا پہنچا، اس نے طیش میں آکر فساد انگیز یہودی کو قتل کر دیا، اس پر سب یہودی جمع ہوگئے، اس مسلمان کو بھی مار ڈالا اور بلوا بھی کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر سے واپس آکر یہودیوں کو اس بلوہ کے متعلق دریافت کرنے کے لیے بلایا، انہوں نے معاہدے کا کاغذ بھیج دیا اور خود جنگ پر آمادہ ہو گئے، یہ حرکت اب بغاوت تک پہنچ گئی تھی، اس لیے ان کو یہ سزا دی گئی کہ مدینہ چھوڑ دیں اور خیبر میں جا آباد ہوں _,"*
*❀_یہود کی نبی ﷺ کے قتل کی سازش_,*
*"_ قریش کی پہلی سازش کے عنوان میں لکھا جا چکا ہے کہ قریش نے مدینہ کے بت پرستوں کو نبی ﷺ کے خلاف جنگ کرنے کی بابت خط لکھا تھا، مگر آنحضرت ﷺ کی زیرکی و دانائی سے ان کی یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی، اب بدر میں شکست کھانے کے بعد قریش نے یہود کو پھر لکھا- تم جائیدادوں اور قلعوں کے مالک ہو، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑو ورنہ ہم تمہارے ساتھ ایسا اور ویسا کریں گے، تمہاری عورتوں کی پازیبیں تک اتار لیں گے _,"*
*★_ اس خط کے ملنے پر بنو نظیر نے عہد شکنی کا اور آنحضرت ﷺ سے فریب کا ارادہ کرلیا، چار ہجری کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ ایک قومی چندہ فراہم کرنے کے لئے بنو نظیر کے محلے میں تشریف لے گئے، انہوں نے آنحضرت ﷺ کو ایک دیوار کے نیچے بٹھایا اور اور تدبیر یہ کی کہ ابن حجاش معلوم دیوار کے اوپر جا کر ایک بھاری پتھر نبی ﷺ پر گرا دے اور حضور ﷺ کی زندگی کا خاتمہ کر دے،*
*★_ آنحضرت ﷺ کو وہاں جا کر بیٹھنے کے بعد باعلام ربانی اس شرارت کا علم ہوگیا اور حفاظت الہی سے بچ کر چلے آئے، بلاآخر بنو نظیر کو یہ سزا دی گئی کہ خیبر جا کر آباد ہو جائیں، انہوں نے 600 اونٹوں پر اسباب لادا، اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے گرایا، باجے بجاتے ہوئے نکلے اور خیبر جا بسے_,*
*❀__یہود کی تیسری سازش، ملک کی آم بغاوت اور جنگ احزاب یا غزوۂ خندق_,*
*"_ پانچ ہجری کا مشہور واقعہ جنگ خندق ہے، بنو نظیر خیبر پہنچ کر بھی سکون سے نہیں بیٹھے، انہوں نے یہ عزم کیا کہ مسلمانوں کا قلعہ فتح کرنے کے لئے ایک متفقہ کوشش کی جائے، جس میں عرب کی تمام قبائل اور جملہ مذاہب کے جنگجو شامل ہوں، انہوں نے بیس سردار مامور کئے کہ عرب کے تمام قبیلوں کو حملے کے لئے آمادہ کریں، اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ ہجری کو دس ہزار کا خونخوار لشکر جس میں بت پرست یہودی وغیرہ سب ہی شامل تھے، مدینہ پر حملہ آور ہوا، قرآن مجید میں اس لڑائی کا نام "جنگ احزاب" ہے _,"*
*★_قریش بنو کنانہ، اہل تہامہ، زیرکمان سفیان بن حرب تہے، بنی فزارہ زیرِ کمان عقبہ بن حصین، بنی مرہ زیر کمان حارث بن عوف، بنی شجع و اہل نجد زیرِ کمان مسعود بن ذحیلہ تھے، مسلمانوں نے جب ان لشکروں سے مقابلے کی طاقت نے دیکھی تو شہر کے گرد خندق کھود لی، دس دس آدمیوں نے چالیس چالیس گز خندق تیار کی تھی،*
*( طبری -2/213)*
*★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خندق کھودتے ہوئے یہ شعر پڑھتے تھے- ( ترجمہ) ہم وہ ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لیے محمد ﷺ کے ہاتھ پر بیعت اسلام کی ہے_,"*
*"_خندق کھودنے پتھر توڑنے, مٹی ہٹانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدد دیتے تھے, سینہ مبارک کے بال مٹی سے چھپ گئے تھے اور ابن رواحہ کے اشعار ذیل کو با آواز بلند پڑتے تھے:-*
*"_ ( ترجمہ) اے اللہ تیرے سوا ہم کو ہدایت تھی کہاں, کیسے پڑھتے ہم نمازیں، کیسے دیتے ہم زکوۃ،*
*"_ اے اللہ ہم پر سکینہ کا تو فرما دے نزول، دشمن آجائے تو ہم کو کر عطا یا رب ثبات _,"*
*"_ بے سبب ہم پر یہ دشمن ظلم پر چڑھ آئے ہیں, فتنہ گر ہیں وہ، نہیں بھاتی ہمیں فتنہ کی بات_,"*
*_ ( بخاری- 4104,4106)*
*❀_ مسلمان صرف تین ہزار تھے، اسلامی لشکر مدینہ ہی کے اندر اس طرح اترا کہ سامنے خندق تھی اور پس پشت کوہ سلع، بنو قریظہ، یہود (جو مدینہ میں آباد تھے اور جن کو معاہدہ کے مطابق مسلمانوں کا ساتھ دینا ضروری تھا) ان سے شب کی تاریکی میں حیی بن اخطب یہودی سردار بنو نضیر جا کر ملا اور انہیں عہد شکنی پر آمادہ کرکے اپنی طرف ملا لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کئی نقیب بھی ان کے پاس بار بار سمجھانے کو بھیجے مگر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہے کہ ہم اس کی بات مانیں، اس کا ہم سے کوئی عہد و پیمان نہیں _,"*
*( ابنِ ہشام -2/141, زادالمعاد- 3/272,)*
*★_ اس کے بعد بنو قریظہ نے شہر کے امن میں بھی خلل ڈالنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو خطرے میں ڈال دیا، مجبوراً تین ہزار مسلمانوں سے بھی ایک حصہ کو شہر کے امن عامہ کی حفاظت کے لیے علیحدہ کرنا پڑا، بنو قریظہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ جب باہر سے دس ہزار دشمن کا جرار لشکر حملہ آور ہوگا اور شہر کے اندر غدر پھیلا کر ہم مسلمانوں کی عافیت تنگ کر دیں گے تو دنیا پر مسلمانوں کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا_,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ طبعاً جنگ سے نفرت تھی، اس لیے آپ نے یہ بھی صحابہ سے مشاورت کی کہ حملہ آور سرداران غطفان سے ایک تہائی پیداوار ثمر ( میںوہ) پر صلح کر لی جائے، لیکن انصار نے جنگ کو ترجیح دی، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہم نے اس تجویز کے متعلق تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جن دنوں یہ حملہ آور قبائل شرک کی نجاست میں آلودہ اور بت پرستی میں مبتلا تھے، ان دنوں بھی ہم نے ان کو ایک چھوہارا تک نہیں دیا، آج جب کہ اللہ نے ہمیں اسلام سے مشرف فرما دیا ہے تو ہم انہیں کیوں کر پیداوار کا ثلث دے سکتے ہیں، ان کے لئے ہمارے پاس تو تلوار کے سوا اور کچھ نہیں ہے_,"*
*( طبری و سیرت ابن ہشام -2/141, زادالمعاد -3/273)*
*★_حملہ آور فوج کا محاصرہ بیس دن تک رہا، کبھی کبھی اکے دکے کا مقابلہ بھی ہوا، عمرو بن عبدود جو اپنے آپ کو ہزار جوانوں کے برابر سمجھا کرتا تھا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا اور نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ بھی مقابلے میں ہلاک ہوا، اہل مکہ نے نوفل کی لاش لینے کے لیے دس ہزار درہم پیش کیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- لاش دے دو، قیمت درکار نہیں _,"*
*★_ جب دشمن اس عرصہ میں محصور مسلمانوں سے کوئی مورچہ نہ لے سکے تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے، آخر ایک رات تمام لشکر اپنے اپنے ڈیرے ڈنڈے اٹھا کر رفوچکر ہوگیا_,*
*❀__بنو قریظہ کا انجام _,*
*"_ اس مصیبت سے رہائی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کو بلا بھیجا کہ وہ سامنے آکر اپنے طرز عمل کی وجہ بیان کریں، اب بنو قریظہ قلعہ بند ہو بیٹھے اور لڑائی کی پوری تیاری کر لی، اس وقت مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب جو بنو قریظہ کو مسلمانوں کا مخالف بنانے آیا تھا، اب تک ان کے قلعے کے اندر موجود ہے_,"*
*★_ بنو قریظہ کا یہ غدر ان کی پہلی حرکت ہی نہ تھی بلکہ جنگ بدر میں انہوں نے قریش کو (جو مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے) ہتھیاروں سے مدد دی تھی، مگر اس وقت رحمت للعالمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا تھا، اب ان کے قلعہ بند ہو جانے سے مسلمانوں کو مجبورا لڑنا پڑا، بماہ ذی الحجہ محاصرہ کیا گیا جو 25 دن تک رہا، محاصرے کی سختی سے بنو قریظہ تنگ آگئے، انہوں نے قبیلہ اوس کے مسلمانوں کو جن سے ان کا پہلے سے ربط و ضبط تھا، بیچ میں ڈالا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منوا لیا کہ معاملے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو(جو اوس کے سردار قبیلہ تھے) حکم ( منصف) تسلیم کیا جائے جو فیصلہ سعد بن معاذ کردے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو منظور کر لے _,"*
*★_ بنو قریظہ قلعہ سے نکل آئے اور مقدمہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا گیا، اللہ جانے بنو قریظہ کے یہودیوں اور اوس کے مسلمانوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم بناتے ہوئے کیا کیا امید یں ان پر لگائی ہوں گی، مگر ضروری تحقیقات کے بعد اس جنگی مرد نے یہ فیصلہ دیا کہ بنو قریظہ کے جنگ آور مرد قتل کئے جائیں، عورتیں اور بچے مملوک بنائے جائیں، مال تقسیم کیا جائے _,"*
*★_ اس فیصلے کی تکمیل کے متعلق صحیح بخاری میں جو روایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ہے، اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ آور مرد قتل کیے گئے تھے، لیکن اس حدیث کے متعلق قارئین یہ بھی یاد رکھیں کہ یہودیوں کو ان کے اپنے منتخب کردہ منصف نے قریباً وہی سزا دی تھی جو یہودی اپنے دشمنوں کو دیا کرتے تھے، اور جو ان کی شریعت میں ہے، اگر بنوقریظہ اپنا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیتے تو ان کو زیادہ سے زیادہ جو سزا دی جاتی وہ یہ ہوتی کہ جاؤ خیبر میں آباد ہو جاؤ، بنو قینقاع اور بنو نظیر کا معاملہ اس کی نظیر ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بنو قریظہ سے بھی بعض کو رحم شاہانہ سے اس فیصلہ کی تعمیل سے مستثنی فرما دیا تھا، مثلاً زہیر یہودی کے لئے مع اہل و عیال و فرزند و مال رہائی کا حکم دے دیا تھا اور فاعہ بن شموئیل یہودی کی بھی جان بخشی فرما دی تھی _،*
*( تاریخ طبری 2/230 )*
*❀_عیسائیوں سے جنگ - جنگ موتہ ( بماہ جمادی الاول 8 ہجری)*
*"_ عیسائی اقوام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے برتاؤ اچھا رہا، ایک دو حاکمان ملک نے شخصی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عناد کیا، لیکن جمہور کا اس سے تعلق نہ تھا، تفصیل سے اس کی توضیح ہوتی ہے کہ صرف ایک عیسائی سردار کے ساتھ ایک جنگ ہوئی اور ایک سفران کے حملہ آور ہونے کی خبر اڑ جانے پر کیا گیا ہے اور بس_,"*
*★_ موتہ شام کے ایک قصبہ کا نام ہے، یہاں کے سردار شرجیل بن عمرو غسانی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ ازدی کو جو دعوت اسلام کا خط لے کر روانہ ہواتھا، قتل کرا دیا تھا، مظلوم حارث رضی اللہ عنہ کے قتل سے سفیروں کے جانیں خطرہ میں پڑگئی تھیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریباً تین ہزار کی ایک فوج روانہ کی، حاکم غسان نے اپنی کارروائی پر ندامت کا اظہار نہ کیا، وہ تو مقابلہ پر تیار ہوگیا،*
*★_اتفاق سے ہرقل بادشاہ اس علاقہ میں آیا ہوا تھا اور موآب میں ایک لاکھ لشکر کی جمعیت سے ٹھہرا ہوا تھا، عرب کے صحرا نشین عیسائی قبائل لخم، بہرا، بلی، قیس وغیرہ کے بھی تقریباً ایک لاکھ آدمی شہنشاہ ہرقل کی آمد پر وہاں جمع تھے، اس لیے حاکم غسان نے کچھ شاہی فوج بھی منگوا لی اور قبائل کو بھی جمع کر لیا، غرض دشمنوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی،*
*★_ مسلمان مجبوراً لڑے، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ، نہایت عزیز اور اس فوج کے کمانڈر تھے) مارے گئے, جعفر طیار رضی اللہ عنہ (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی اور حضرت علی مرتضیٰ کے حقیقی بڑے بھائی تھے، عمر 33 سال) 90 زخم سامنے کی طرف کھا کر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد فوج کی کمان سنبھالی تھی، شہید ہو گئے، پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کو سنبھالا اور ڈیڑھ دن کی سخت جنگ کے بعد اپنے سے چالیس گنا زیادہ فوج کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیا، اس جنگ میں 9 تلواریں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مارتے مارتے ٹوٹی تھیں،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بیٹھے ہوئے ان بزرگوں کے مارے جانے اور جنگ کے آخری انجام کا حال صحابہ رضی اللہ عنہ سے اسی روز بیان فرما دیا تھا، اسی جنگ کے بعد خالد رضی اللہ عنہ کو "سیف اللہ" کا خطاب عطا ہوا تھا _,"*
*❀_ جیش عسرت یا سفر تبوک ( رجب 9 ہجری)*
*"_ چوںک کوئی جنگ نہیں ہوئی اس لیے میں نے اس کا نام سفر تبوک رکھا ہے، مورخین نے اسے غزوۂ تبوک اس لیے لکھتے ہیں کہ یہ سفر بغرض مدافعت فوجی تھا،*
*★"_ ایک قافلہ شام سے آیا, اور انہوں نے ظاہر کیا کہ قیصر کی فوجیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار اور فراہم ہو رہی ہیں, عرب کے عیسائی قبائل لخم، جذام، عملہ، غسان وغیرہ ان کے ساتھ شامل ہیں، گویا وہ اس شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو بمقام موتہ قیصر کے حاکم اور قیصر کی فوج کو ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ حملہ آور فوج کی مدافعت عرب کی سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے پہلے مناسب ہے، تاکہ اندرون ملک کے امن میں خلل واقع نہ ہو _,"*
*★_ یہ مقابلہ ایسی سلطنت سے تھا جو نصف دنیا پر حکمران تھی اور جس کی فوج ابھی حال ہی میں سلطنت ایران کو نیچا دکھا چکی تھی، مسلمان بے سروسامان تھے، سفر دور دراز کا تھا اور عرب کی مشہور گرمی خوب زوروں پر تھی، مدینہ کے میوے پک گ چکے تھے، میوے کھانے اور سائے میں بیٹھنے کے دن تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری سامان کے لیے عام چندہ کی فہرست کھولی_,"*
*★_ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نو سو(900) اونٹ، سو (100) گھوڑے اور ایک ہزار دینار چندہ میں دیے، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام اثات البیت نقد و جنس کا نصف جو کئی ہزار روپیہ تھا پیش کیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کچھ لائے اگرچہ وہ قیمت میں کم تھا مگر معلوم ہوا کہ گھر میں اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کے سوا اور کچھ بھی باقی نہ چھوڑ کر آئے تھے_,"*
*★_ ابو عقیل انصاری رضی اللہ عنہ نے دو سیر چھوارے لا کر پیش کئے اور یہ بھی عرض کیا کہ رات بھر پانی نکال نکال کر ایک کھیت کو سیراب کر کے چار سیر چھوارے مزدوری لایا تھا، دو سیر بیوی بچے کے لیے چھوڑ کر باقی دو سیر لے آیا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان چھوہاروں کو جملہ قیمتی مال و متاع کے اوپر بکھیر دو_,"*
*❀__ غرض ہر ایک صحابی نے اس موقع پر ایسے ہی خلوص و فراخدلی سے کام لیا، قریباً 82 شخص جو دکھاوے کے مسلمان تھے، بہانہ کر کے اپنے گھروں میں رہ گئے، عبداللہ بن ابی سلول مشہور منافق نے ان لوگوں کو اطمینان دلا دیا تھا کہ اب محمد ﷺ اور ان کے ساتھی مدینے واپس نہیں آسکیں گے، قیصر انہیں قید کر کے مختلف ممالک میں بھیج دے گا_,"*
*★_ اللہ کے نبی ﷺ تیس (30) ہزار کی جمعیت سے تبوک کو روانہ ہوئے، مدینہ پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا اور علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اہل بیت کی ضروریات کے لئے مامور فرمایا، لشکر میں سواریوں کی بڑی قلت تھی، 18 اشخاص کے لیے ایک اونٹ مقرر تھا، رسد کے نہ ہونے سے اکثر جگہ درختوں کے پتے کھانے پڑے، جس سے ہونٹ سوج گئے تھے، پانی بعض جگہ ملا ہی نہیں، انٹوں کو (اگرچہ سواری کے لیے پہلے ہی کم تھے) ذبح کرکے ان کی امعاں کا پانی پیا کرتے تھے، الغرض صبر و استقلال سے تمام تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے تبوک پہنچ گئے_,"*
*★_ ابھی تبوک کے راستے ہی میں تھے کہ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے، معلوم ہوا کہ منافقین بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چڑھانے اور کھجانے لگے تھے، کوئی کہتا کہ نکما کہہ کر چھوڑ دیا، کوئی کہتا ترس کھا کر چھوڑ دیا، ان باتوں سے اللہ کے شیر علی رضی اللہ عنہ کو غیرت آئی، دو منزلہ سہ منزلہ طے کرتے ہوئے نبی صلی وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، لمبے لمبے سفر اور سخت گرمی کی تکلیف سے پاؤں متورم تھے اور چھالے پڑ گئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- "_علی ! تم اس پر خوش نہیں ہوتے کہ تم میرے لیے ویسے ہو جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام تھے, گو میرے بعد کوئی نبی نہیں_,"*
*"_ یہ سن کر علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خوش و خرم مدینہ کو واپس تشریف لے گئے_,*
*★_ تبوک پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ قیام فرمایا، اہل شام پر اس دلیرانہ حرکت کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے عرب پر حملہ آور ہونے کا خیال اس وقت چھوڑ دیا اور اس حملہ آوری کا بہترین موقع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا زمانہ قرار دیا_,"*
*❀__ آپ ﷺ کا خطبہ :-*
*"_ تبوک میں ایک نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر اور نہایت جامع وعظ فرمایا تھا، ذیل میں اس کا مفہوم مع ترجمہ درج کیا جاتا ہے:-،*
*"_ اللہ تعالٰی کی بہترین حمد و ثناء کے بعد:-*
*_ ہر ایک کلام سے بڑھ کر صدق میں اللہ کی کتاب ہے, سب سے بڑھ کر بھروسے کی بات تقویٰ کا کلمہ ہے،_ سب ملتوں سے بہتر ملت ابراہیم علیہ السلام کی ہے،_ سب طریقوں سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کا ہے،_ سب باتوں پر اللہ کے ذکر کو شرف ہے،_ سب بیانات سے پاکیزہ ترین قرآن ہے، بہترین کام اولوالعزمی کے کام ہیں، امور میں بدترین امور وہ ہے جو نیا نکالا گیا ہو، انبیاء کی روش سب روشوں سے خوب تر ہے، شہیدوں کی موت موت کی سب قسموں سے بزرگ تر ہے،*
*★_ سب سے بڑھ کر اندھاپن گمراہی ہے جو ہدایت کے بعد ہوجائے، عملوں میں وہ عمل اچھا ہے جو نفع دہ ہو، بہترین روش وہ ہے جس پر لوگ چلیں، بدترین کوری دل کی کوری ہے، بلند ہاتھ پست ہاتھ سے بہتر ہے، تھوڑا اور کافی مال اس نہایت سے اچھا ہے جو غفلت میں ڈال دے، بدترین معذرت ( توبہ) وہ ہے جو جانکنی کے وقت کی جائے، بدترین ندامت وہ ہے جو قیامت کو ہوگی، بعض لوگ جمعہ کو آتے ہیں مگر دل پیچھے لگے ہوتے ہیں، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اللہ کا ذکر کبھی کبھی کیا کرتے ہیں، سب گناہوں سے عظیم تر جھوٹی زبان ہے، سب سے بڑی تونگری دل کی تونگری ہے، سب سے عمدہ توشہ تقویٰ ہے, دانائی کا سریہ ہے اللہ کا خوف دل میں ہو، دل نشین ہونے کے لئے بہترین چیز یقین ہے، شک پیدا کرنا کفر (کی شاخ) ہے, بین سے رونا جاہلیت کا کام ہے،*
*★_ چوری کرنا عذاب جہنم کا سامان ہے، بدمست ہونا آگ میں پڑنا ہے، شعر ابلیس کا حصہ ہے، شراب تمام گناہوں کا مجموعہ ہے، بدترین روزی یتیم کا مال کھانا ہے، سعادت مند وہ ہے جو دوسرے سے نصیحت پکڑتا ہے، اصل بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں ہی بدبخت ہو، عمل کا سرمایہ اس کے بہترین انجام پر ہے، بدترین خواب وہ ہے جو جھوٹا ہے، جو بات ہونے والی ہے وہ قریب ہے، مومن کو گالی دینا فسق ہے، مومن کو قتل کرنا کفر ہے، مومن کا گوشت کھانا (اس کی غیبت کرنا) اللہ کی معصیت ہے،*
*★_ مومن کا مال دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے اس کا خون، جو اللہ سے استغنا کرتا ہے اللہ اسے جھٹلاتا ہے، جو کسی کا عیب چھپاتا ہے اللہ اس کے عیوب چھپاتا ہے، جو معافی دیتا ہے اسے معافی دی جاتی ہے، جو غصہ کو پی جاتا ہے اللہ اسے اجر دیتا ہے، جو نقصان پر صبر کرتا ہے اللہ اسے اجر دیتا ہے، جو چغلی کو پھیلاتا ہے اللہ اس کی رسوائی عام کر دیتا ہے، جو صبر کرتا ہے اللہ اسے بڑھاتا ہے، جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اللہ اسے عزاب دیتا ہے، پھر تین دفعہ استغفار پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ کو ختم فرمایا _,"*
*( بہیقی فی الدلائل 5/ 242)*
*❀_ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کی وفات:-*
*"_ ایام قیام تبوک میں ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، اس مخلص کے ذکر سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مفلص و مخلص صحابہ رضی اللہ عنہ پر کس قدر لطف و عنایت فرمایا کرتے تھے، ان کا نام عبداللہ تھا، ابھی بچے ہی تھے کہ باپ مر گئے، چچا نے پرورش کی تھی، جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹوں بکریاں، غلام دے کر ان کی حیثیت درست کر دی، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا ذوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈر تھا کہ اظہارِ اسلام نہ کر سکے_,"*
*★_ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے واپس آگئے، تو عبداللہ نے چچا سے جاکر کہا :- پیارے چچا ! مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آتا ہے، میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا، مجھے اجازت فرمائیں کہ میں مسلمان ہو جاؤں _,"*
*"_چچا نے جواب دیا:- دیکھو ! اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تم سے چھین لوں گا، تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا _,"*
*★_ عبداللہ نے جواب دیا:- چچا صاحب ! میں مسلمان ضرور بنوں گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی قبول کروں گا، شرک اور بت پرستی سے میں بیزار ہوچکا ہوں، اب جو آپ کی منشاء ہے کیجئے اور جو کچھ میرے قبضے میں زر و مال وغیرہ ہے، سب سنبھل لیجیے، میں جانتا ہوں کہ ان سب چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، اس لیے میں ان کے لیے سچے دین کو ترک نہیں کر سکتا _,"*
*★_ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر بدن کے کپڑے تک اتار دیے اور مادرزاد برہنہ ہو کر ماں کے سامنے گیے، ماں دیکھ کر حیران ہوئی کہ کیا ہوا؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا :- میں مومن اور موحد ہو گیا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں، سترپوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے، مہربانی فرما دیجیے، ماں نے ایک کمبل دے دیا، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کمبل پھاڑا، آدھے کا تہبند بنا لیا آدھا اوپر لے لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گئے،*
*❀_ مسجد نبوی صلی اللہ وسلم میں پہنچ گئے اور مسجد سے تکیہ لگا کر منتظرانہ بیٹھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد مبارک میں آئے تو انہیں دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو ؟ کہا کہ میرا نام عبدالعزی ہے، فقیر و مسافر ہوں، عاشق جمال اور طالب ہدایت ہو کر یہاں آ پہنچا ہوں_,"*
*_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ ہے اور ذوالبجادین لقب ہے، تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو _,"*
*★_ عبداللہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں شامل ہوگئے، صفہ چبوترے کو کہتے ہیں، مسجد نبوی کے صحن میں ایک چبوترا تھا، جو لوگ گھر بار چھوڑ کرکے دنیا کا زر و مال آسائش و آرام چھوڑ کر تعلیم دین و اسلام کے لئے آیا کرتے تھے، وہ اس چبوترے پر ٹھہرا کرتے تھے، اس لئے "اہل صفہ" کے نام سے مشہور تھے, یہ عاشقان صداقت بھوک پیاس کی مصیبت اور گرمی سردی کی تکالیف برداشت کرتے مگر دنیا کی کوئی تکلیف اسلام کی تعلیم اور قرآن مجید کا درس لینے سے ان کی روک نہ بن سکتی تھی، انہیں میں سے وہ لوگ تیار ہوئے تھے جو مختلف ملکوں میں جاکر اشاعت اسلام کر تے تھے، انہیں میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جو 5374 احادیث کے راوی اور اسلام کے مبلغ ہیں،*
*★_ عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق و شوق اور جوش و نشاط سے پڑھا کرتے تھے، ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے پڑھ رہا ہے کہ دوسروں کی قرأت میں مزاحمت ہوتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- عمر اسے کچھ نہ کہو، یہ تو اللہ اور رسول ﷺ کے لیے سب کچھ چھوڑ کر آیا ہے _,"*
*❀__ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، عرض کیا- یا رسول اللہ ﷺ دعا فرمائیے کہ میں بھی راہ حق میں شہید ہوجاؤں,*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- جاؤ کسی درخت کا چھلکا اتار لاؤ، جب عبداللہ رضی اللہ عنہ چھلکا اتار لائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چھلکا ان کے بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا- الہی میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو شہادت کا طلب ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- جب غزوہ کی نیت سے تم نکلو اور پھر تپ آ جائے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہو گئے_,"*
*""_تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ تپ چڑھی اور عالم بقا کو سدھار گئے، ہلال بن حارث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے _,"*
*★_ رات کا وقت تھا، بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چراغ تھا، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قبر میں اترے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے- اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو_,"*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا میں فرمایا:- الہی ! آج کی شام تک میں اس سے خوشنود رہا ہوں, تو بھی اس سے راضی ہو جا _,"*
*★_ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش اس قبر میں میں دبایا جاتا _,"*
*❀_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مع الخیر مدینہ پہنچ گئے، جو منافقین یہ سمجھ رہے تھے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دوست قید ہو کر دوردست جزیرہ میں بھیجے جائیں گے اور صحیح و سالم مدینہ نہ پہنچیں گے، وہ اب پشیمان ہوئے اور انہوں نے ساتھ نہ چلنے کے جھوٹ موٹ عزر بنائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو معافی دے دی، لیکن تین مخلص صحابی بھی تھے جو اپنی معمولی سستی و کاہلی کی وجہ سے ہم رکاب جانے سے رہ گئے تھے، ان کو اپنی صداقت کی وجہ سے ایک امتحان بھی دینا پڑا _,"*
*★_ ان میں سے ایک بزرگ صحابی نے اپنے متعلق جو کچھ اپنی زبان سے بیان کیا ہے میں اس کو اسی جگہ لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں، یہ بزرگوار کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ ہیں اور ان 73 سابقین میں سے ہیں جو عقبہ کی بیعت ثانیہ میں حاضر ہوئے تھے اور شعراء خاص میں سے تھے,*
*★_ کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سفر میں میرا گھر پر رہ جانا ابتلاء محض تھا، ایسا کرنے کا نہ میرا ارادہ تھا اور نہ ہی کوئی عذر تھا، سفر کا جملہ سامان مرتب تھا، عمدہ اونٹنیاں میرے پاس موجود تھی، میری مالی حالت بھی اچھی تھی کہ پہلے کبھی نہ ہوئی تھی، اس سفر کے لیے میں نے دو مضبوط ثتر بھی خرید کیے تھے، حالانکہ اس سے پیشتر میرے پاس دو اونٹ کبھی نہ ہوئے تھے، لوگ سفر کی تیاری کرتے تھے اور مجھے ذرا تردد نہ تھا،*
*★_ میں نے سوچ رکھا تھا کہ جس روز کوچ ہوگا، میں چل پڑوں گا، لشکر اسلام جس روز روانہ ہوا مجھے کچھ تھوڑا سا کام تھا، میں نے کہا- خیر میں کل جا ملوں گا, وہ تین روز اسی طرح سستی اور تذبزب میں گزر گئے، اب لشکر اتنی دور نکل گیا تھا کہ اس سے ملنا مشکل ہوگیا تھا، مجھے نہایت صدمہ تھا کہ یہ کیا ہوا _,"*
*❀__ میں گھر سے نکلا، مجھے ان منافقین کے سوا جو جھوٹ موٹ عزر کرنے کے عادی تھے اور کوئی بھی راستے میں نہ ملا، یہ دیکھ کر میرے تن بدن کو رنج و غم کی آگ لگ گئی، یہ دن میرے اسی طرح گزر گئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، اب میں حیران تھا کہ کیا کروں اور کیا کہوں اور کیوں کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عتاب سے بچاؤ کروں، لوگوں نے مجھے بعض حیلے بہانے بتلائے مگر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ نجات سچ ہی سے مل سکتی ہے،*
*★_ آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور تبسم فرمایا، تبسم خشم آمیز تھا، میرے تو ہوش اسی وقت جاتے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا- کعب ! تم کیوں رہ گئے تھے، کیا تمہارے پاس کوئی سامان مہیا نہ تھا _,"*
*"_ میں نے عرض کیا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس تو سب کچھ تھا، میرے نفس نے مجھے غافل بنایا، کاہلی نے مجھ پر غلبہ کیا، شیطان نے مجھ پر حملہ کیا اور مجھے حرمان و خذلان کی گرداب میں ڈال دیا_,"*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- تم اپنے گھر ٹھہرو اور حکم الٰہی کا انتظار کرو _,"*
*★_ بعض لوگوں نے کہا- دیکھو ! اگر تم بھی کوئی حیلہ بنا لیتے تو ایسا نہ ہوتا_," میں نے کہا- وحی الٰہی سے میرا جھوٹ کھل جاتا اور پھر میں کہیں کا بھی نہ رہتا، معاملہ کسی دنیادار سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے _,"*
*"_ لوگوں نے کہا- ہاں ! بلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بھی یہی حالت ہے، یہ سن کر مجھے ذرا تسلی ہوئی کہ دو مرد صالح اور بھی میری حالت میں ہیں_,"*
*★_ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی مسلمان ہمارے ساتھ بات چیت نہ کرے اور نہ ہمارے پاس آ کر بیٹھے، اب زندگی اور دنیا ہمارے لئے وبال معلوم ہونے لگی، ان دنوں میں ہلال رضی اللہ عنہ اور مرارہ رضی اللہ عنہ تو گھر سے باہر نہ نکلے کیونکہ وہ بوڑھے بھی تھے لیکن میں جوان اور دلیر تھا، گھر سے نکلتا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاتا، نماز پڑھ کر مسجد مبارک کے ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت بھری نگاہ اور گوشۂ چشم سے مجھے دیکھا کرتے، میری شکستگی کو ملاحظہ فرمایا کرتے اور جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب آنکھ اٹھاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اعراض فرماتے_,"*
*❀_ مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ نہ کوئی مجھ سے بات کرتا اور نہ کوئی میرے سلام کا جواب دیتا، ایک روز میں نہایت رنج و الم میں مدینہ سے باہر نکلا، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ میرا چچیرا بھائی تھا اور ہم دونوں میں نہایت محبت تھی، سامنے اس کا باغ تھا، وہ باغ میں کچھ عمارت بنوا رہا تھا، میں اس کے پاس چلا گیا، اسے سلام کیا تو اس نے جواب تک نہ دیا اور منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا،*
*★"_ میں نے کہا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تم خوب جانتے ہو کہ میں اللہ اور رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں اور نفاق و شرک کا میرے دل پر اثر نہیں، پھر تم کیوں مجھ سے بات نہیں کرتے، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اب بھی جواب نہیں دیا, جب میں نے تین بار اسی بات کو دہرایا تو چچیرے بھائی نے صرف اس قدر جواب دیا کہ "وہ اللہ اور رسول ﷺ ہی کو خوب معلوم ہے _," مجھے بہت ہی رقت ہوئی اور میں خوب ہی رویا _,*
*★_ میں شہر سے لوٹ کر آیا تو مجھے ایک عیسائی ملا، یہ مدینہ میں مجھے تلاش کر رہا تھا، لوگوں نے بتلا دیا کہ وہ یہی شخص ہے، اس کے پاس بادشاہ غسان کا ایک خط میرے نام تھا، خط میں لکھا تھا:-*
*"_ہم نے سنا ہے کہ تمہارا آقا تم سے ناراض ہو گیا ہے، تم کو اپنے سامنے سے نکال دیا ہے اور باقی سب لوگ بھی تم پر جورو جفا کر رہے ہیں، ہم کو تمہارے درجہ و منزلت کا حال بخوبی معلوم ہے، اور تم ایسے نہیں ہو کہ کوئی تم سے ذرا بھی بے التفاتی کرے یا تمہاری عزت کے خلاف تم سے سلوک کیا جائے، اب تم یہ خط پڑھتے ہی میرے پاس چلے آؤ اور آ کر دیکھو کہ میں تمہارا اعزاز و اکرام کیا کچھ کر سکتا ہوں_,"*
*★_ خط پڑھتے ہی میں نے کہا کہ یہ ایک اور مصیبت مجھ پر پڑی، اس سے بڑھ کر مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج ایک عیسائی مجھ پر اور میرے دین پر قابو پانے کی آرزو کرنے لگا ہے اور مجھے کفر کی دعوت دیتا ہے، اس خیال سے میرا رنج و اندوہ چند در چند بڑھ گیا، خط کو قاصد کے سامنے ہی میں نے آگ میں ڈال دیا اور کہہ دیا - جاؤ کہہ دینا کہ آپ کی عنایات و التفات سے مجھے اپنے آقا کی بے التفاتی لاکھ درجہ بہتر ہے و خوش تر ہے _,"*
*❀_ میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک شخص آیا ہوا موجود ہے، اس نے کہا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو _," میں نے پوچھا کیا طلاق کا حکم دیا ہے؟ کہا نہین صرف علیحدہ رہنے کو فرمایا ہے، یہ سن کر میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا، مجھے معلوم ہوا کہ ہلال رضی اللہ عنہ اور مرارہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی یہی حکم پہونچا تھا،*
*★_ ہلال رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا - یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلال کمزور و ضعیف ہے اور اس کی خدمت کے لیے کوئی خادم بھی نہیں، اگر اذن ہو تو میں ان کی خدمت کرتی رہوں ؟ فرمایا - اس کے بستر سے دور رہو_," عورت نے کہا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہلال رضی اللہ عنہ کا غم و رنج سے ایسا حال ہے کہ اسے تو اور کوئی خیال نہیں رہا _,"*
*★_ اب مجھے لوگوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت لے لو کہ تمہاری بیوی تمہارا کام کاج کر دیا کرے، میں نے کہا- میں تو ایسی جرأت نہیں کروں گا، کیا خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں یا نہ دیں اور میں تو جوان ہوں، اپنا کام خود کر سکتا ہوں، مجھے خدمت کی ضرورت نہیں، الغرض اسی طرح مصیبت کے پچاس دن گزر گئے،*
*★_ ایک رات میں اپنی چھت پر لیٹا ہوا تھا اور اپنی مصیبت پر سخت نالاں تھا کہ کوہ سلع پر چڑھ کر جو میرے گھر کے قریب تھا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آواز دی، "کعب رضی اللہ عنہ کو مبارک ہو کہ اس کی توبہ قبول ہوگئی _,"*
*"_ یہ آواز سنتے ہی میرے دوست احباب دوڑ پڑے اور کہنے لگے کہ مخلص کی توبہ قبول ہوئی، میں نے یہ سنتے ہی پیشانی کو خاک پر رکھ دیا اور سجدہ شکرانہ ادا کیا اور پھر دوڑا دوڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار میں تشریف فرما تھے، مجھے دیکھ کر مہاجرین نے مبارک باد دی اور انصار خاموش رہے، میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی و مسرت سے چودھویں کے چاند کی طرح تاباں و درخشاں ہو رہا تھا اور عادت مبارک تھی کہ خوشی میں چہرہ مبارک اور بھی زیادہ روشن ہو جاتا تھا _,"*
*★_مجھے فرمایا- کعب مبارک ! اس بہترین دن کے لئے، جب سے تو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا کوئی دن ایسا مبارک تجھ پر آج تک نہیں گزرا اور تمہاری توبہ کو رب العالمین نے قبول فرما لیا ہے _,"*
*"_ میں نے عرض کیا - یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس قبولیت کے شکرانے میں اپنا کل مال راہ حق میں صدقہ دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- نہیں، میں نے عرض کیا - نصف، فرمایا - نہیں، میں نے عرض کیا- ثلث، فرمایا- ہاں ثلث خوب ہے اور ثلث بھی بہت ہے _,"*
*❀_ لاثانی فیاضی و رحمدلی _,"*
*_ الحمداللہ ! کہ اس فتنہ و شر جو دشمنوں نے برسوں سے اٹھاتا رکھا تھا اور جس نے عرب کے تمام قبائل کو بغاوت کی زہر آلود ہوا سے آلودہ کر رکھا تھا، خاتمہ ہوگیا، ان سب لڑائیوں کے دوران میں رحمتہ اللعالمین ﷺ کی بے نظیر فیاضی اور لاثانی رحمدلی کا ظہور اس کثرت سے ہوا کہ دنیا نے جنگ کے شجاعانہ اور مہذب اصول یہیں سے معلوم کیے،*
*★_ یہ وہ ناگزیر لڑائیاں تھیں جن میں اللہ کے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اضرارا تقریبا سات سال کے درمیانی عرصہ میں شریک ہوتے رہے، قارئین کسی جنگ میں نہیں دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے ابتدا کی ہو، یہ تمام جنگیں صرف حملہ آوروں کے حملوں کو روکنے اور ان کے شر سے بچنے کے لئے کیے گئے تھے، نبوت کے تمام زمانے میں ایک شخص بھی اس لیے قتل نہ ہوا کہ وہ بت پرست یا پارسی یا عیسائی یا یہودی تھا _,"*
*★_ قرآن مجید میں اس مطلب کو اللہ تعالی نے بخوبی واضح فرما دیا تھا کہ دنیا میں مذہب و اعتقاد کا اختلاف ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس لئے مذہب کے لئے کسی شخص پر جبر کرنا جائز نہیں، مندرجہ ذیل آیات اس مطلب کے لئے صاف ہیں:-*
*★_ دین کے بارے میں کسی پر جبر نہیں، ہدایت اور گمراہی اچھی طرح ظاہر ہو گئی ہے، ( البقرہ ٢٥٦)*
*"_ اگر تیرا پروردگار چاہتا تو زمین پر سب کے سب باشندے ایمان لے آتے تو ان لوگوں پر جبر کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں _,"( یونس-٩٩)*
*"_ اگر تیرا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور وہ تو ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ( بجز ان کے جن پر تیرے رب نے رحم کیا ہے ) اور ان کو اسی لیے پیدا کیا ہے _," ( ہود ١١٨)*
*"_تو اسے ہدایت نہیں دے سکتا جس سے محبت کرتا ہے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے_," ( قصص ٥٦)*
*"_ جو کچھ باتیں یہ لوگ کرتے ہیں، ہم جانتے ہیں اور تو ان پر جبر نہیں کر سکتا، ہاں قرآن کا وعظ کر ، پھر جو کوئی عزاب الہی سے ڈرتا ہے وہ ڈرے _," (ق -٤٥)*
*"_ وعظ کرتا رہ، کیوں کہ تو وعظ کرنے والا ہی ہے اور ان پر داروغہ نہیں ہے _," ( الغاشیہ ٢١-٢٢)*
*❀_ جنگ کا ذکر ختم کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ اس برتاؤ کا ذکر کر دیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے قیدیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے، اسلام سے پہلے دنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں تھیں وہ جنگ کے قیدیوں کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا کرتی تھیں جسے سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ عمل قیدیوں کے ساتھ صرف دو ہی طرح پر تھا- (١)_ فدیہ لے کر آزاد کرنا، (٢) یا بلا کسی فدیہ کے آزاد کر دینا _,*
*★_ مسلمانوں کو سب سے پہلے جنگ بدر کے قیدی ہاتھ لگے، یہ اہل مکہ تھے، ان سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن کوئی نہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس معاملے کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شوریٰ میں پیش کیا، صحابہ میں ایک جانب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قیدیوں سے جرمانہ لے لیا جائے اور انہیں چھوڑ دیا جائے، اس کی تائید میں انہوں نے دو دلائل پیش کیے تھے -*
*_ (١)_ زر جرمانہ سے ہم اپنے سازوسامان کی درستگی کر لیں گے،*
*(٢)_ آزادی پانے کے بعد ممکن ہے کہ ان قیدیوں سے اللہ کسی کو اسلام کی ہدایت فرما دے_,*
*★_ دوسری جانب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، ان کی رائے تھی کہ قیدیوں کو قتل کیا جائے، وہ اپنی رائے کی تائید میں کہتے تھے کہ یہ لوگ کفر کے امام اور شرک کے پیشوا ہیں، ان کی گردنیں اڑانی چاہیے، اللہ نے ہم کو ان پر غلبہ دیا ہے اس لیے مسلمانوں کا قصاص لینا چاہیے،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا، جو قیدی زر جرمانہ ادا نہ کر سکتے تھے ان کے لیے تجویز فرمایا کہ انصار کی اولادوں کو لکھنا پاڑھنا سکھا دیں ( یا کوئی اور ہنر سکھا دیں )*
*★_ بعض لوگ اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے زیادہ صحیح تھی ۔ وہ حدیث کے اگلے حصہ سے دلیل پکڑتے ہیں، حدیث یہ ہے کہ اگلے روز عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گریہ کرتے ہوئے دیکھا، لیکن علماء کا ایک گروہ اس استدلال کے بعد بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دیتا ہے -*
*"_ قرآن مجید میں بھی راۓ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بابت پہلے سے حکم موجود تھا۔ اس رائے میں رحمت ملحوظ ہے جو سب چیزوں سے وسیع تر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حدیث میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ابراہیم و عیسیٰ علیہ السلام سے اور عمر رضی اللہ عنہ کو نوح علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راۓ موافق تھی، بالآخر رحمت للعالمین نے بھی اس رائے کو برقرار رکھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خیال صحیح ہوا کہ اسیران جنگ میں سے بہت سے لوگ بعد میں از خود مسلمان بھی ہوۓ اور سر دست زر جرمانہ ( تاوان جنگ) سے مسلمانوں نے اپنی حالت کو بھی درست کر لیا۔*
*★_ الغرض جنگ بدر کے بہتر ( 72 ) قیدیوں میں سے ستر (70) کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جرمانہ لے کر آزاد فرما دیا تھا۔ ان قیدیوں کو مہمانوں کی طرح رکھا گیا تھا۔ بہت سے قیدیوں کے بیانات موجود ہیں، جنھوں نے اقرار کیا ہے کہ اہل مدینہ بچوں سے بڑھ کر ان کی آسائش کا اہتمام کرتے تھے۔ صرف دو قیدی ( عقبہ بن ابی معیط و نضر بن حارث ) قتل کرائے گئے تھے۔ یہ سزا ان کے سابق جرائم کا نتیجہ تھی ۔ جس نے انھیں واجب القتل ٹھہرادیا تھا۔"*
*★_ جنگ بدر کے بعد غزوہ بنوالمصطلق میں سو(100) سے زیادہ زن ومرد قید ہوئے تھے۔ وہ سب بلا کسی معاوضہ کے آزاد کر دیے گئے تھے اور ان میں سے ایک عورت جویریہ رضی اللہ عنہا کو آنحضرت ﷺ نے ام المومنین ہونے کا درجہ عطا فر مایا تھا۔*
: *★_ حدیبیہ کے میدان میں کوہ تنعیم کے 80 حملہ آور قید ہوئے تھے ۔ ان کو بھی آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کسی شرط اور جرمانہ کے آزاد فرما دیا تھا۔*
*"_جنگ حنین میں چھ ہزار(6000) زن و مرد کو بلا کسی شرط اور جرمانہ کے آزاد فرما دیا تھا۔ بعض اسیروں کی آزادی کا معاوضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اسیر کنندگان کو ادا کیا تھا اور پھر ا کثر اسیروں کو خلعت و انعام دے کر رخصت فرمایا تھا۔*
*★_ ان جملہ نظائر سے ثابت ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حملہ آور دشمنوں پر قابو اور غلبہ پالینے کے بعد کس قدر الطاف فرمایا کرتے تھے۔*
*★_ کتب احادیث میں ایک واقعہ قیدیوں سے قیدیوں کے تبادلہ کا بھی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پاک تعلیم ہی کا اثر تھا کہ خلفائے راشدین کے عہد میں اگر چہ عراق و شام، مصر و عرب ۔ ایران و خراسان کے سینکڑوں شہر فتح کیے گئے۔ مگر کسی جگہ بھی حملہ آوروں ۔ جنگ آزماؤں یا رعایا میں سے کسی کو لونڈی غلام بنانے کا ذکر نہیں ملتا۔ مغلوب دشمن سے تاوان جنگ لینے کا بھی کہیں اندراج نظر نہیں آ تا۔ اگر چہ مسلمانوں کے لیے یہ جنگ سخت آزمائش تھی لیکن رب العالمین کی اس میں بھی شاید یہ حکمت ہو کہ اسلام دنیا کے لیے جنگ کا بھی نمونہ پیش کر دے جو انسانی ہمدردی اور رحم والطاف سے لبریز ہو۔*
[1/17, 9:45 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مختلف مذاہب اور مختلف ممالک کے بادشاہوں کے پاس دعوت اسلام کے لیے سفیر و فرامین کا بھیجا جانا ، بعض کا ایمان لے آنا، بعض کا اظہار ادب کرنا، بعض کا گستاخی سے پیش آنا اور ان کا انجام:-*
*"_ نبی ﷺ کی نبوت میں جو ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی نبوت و رسالت میں موجود نہیں ۔ ان میں سے ایک نمایاں تر خصوصیت یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اسلام کو کل دنیا کا مذہب واحد کہہ کر پیش کیا ہے اور اسی لیے نبوت کے اس ابتدائی زمانے ہی سے جب کہ شہر مکہ کے رہنے والے بھی اسلام سے بخوبی واقف نہ ہوئے تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے دیگر اقوام اور دیگر ادیان کے لوگوں میں بھی تبلیغ کرنا شروع کر دیا تھا۔ بلال حبشی، صہیب روی ،سلمان فارسی ، عداس نینوائی رضی اللہ عنہم وہ بزرگوار ہیں جو حبش ، یونان ، ایران اور وسط ایشیا کی طرف سے ثمر اولین بن کر اسلام میں داخل ہوۓ تھے ۔*
*★_ نبی ﷺ کا کل عالم کے لیے رسول ہونا:-*
*"_ قرآن مجید کی آیات اس بارے میں بہت صاف ہیں:-*
*"_(سورۃ نمبر 34, سبإ آیت نمبر 28)*
*"_ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا _,"*
*” ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لیے بشارت پہنچانے والا،ڈر سنانے والا بنا کر دنیا میں رسول ﷺ بنایا ہے ۔*
*"_( سورۃ نمبر 61 الصف آیت نمبر 9)*
*"_ هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖ _,"*
*"_ اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو روشن دلائل اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ وہ سب دینوں پر غلبہ حاصل کرے۔‘‘*
*(- سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 107)*
*"_ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا رَحۡمَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ ۞*
*"_ ہم نے تجھے تمام اہل عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘*
*(- سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 158)*
*"_ قُلۡ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَيۡكُمۡ جَمِيۡعَاْ ،*
*’’_ان سے کہہ دو کہ اے انسانی نسل کے بچو ! میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول ہوں ۔‘‘*
*★_ ان آیات مبارکہ کے ارشاد کی تبعیت ہی میں رسول اللہ ﷺ نے ذیل کے مراسلات مختلف قوموں اور مختلف مذہبوں کے سرکردگان کے پاس روانہ فرماۓ تھے اور ہر ایک کو لکھ دیا تھا کہ اسلام سے انکار کرنے کا وبال نہ صرف اس لیے پڑے گا کہ تم نے اپنی ذات کے لیے انکار کر دیا، بلکہ تمھارے انکار کی وجہ سے چونکہ تمھاری قوم بھی ہدایت سے رکے گی۔ اس لیے ان کی ضلالت و گمراہی کا وبال بھی تم ہی پر پڑے گا۔کیوں کہ اس فرمان میں شخصی حیثیت سے نہیں بلکہ سرکردہ قوم ہونے کی وجہ سے تم کو مخاطب کیا گیا ہے،*
[1/19, 8:23 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ دعوت عامہ کی نظیر موجود نہ تھی_,*
*"_ رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ اسلام کی بابت ایسی کارروائی فرمائی ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی سابقہ مذہب کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی کہ ان کے بانیان مذہب نے بھی ایسا ہی کیا ہو۔ چونکہ ہم ہر ایک سچے مذہب کے بادی کی دل سے عزت و عظمت کر تے ہیں ۔ اس لیے ان کی خاموشی سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ مقدس بزرگوار اپنے مذہب کو خود بھی اسی قوم سے مخصوص سمجھتے تھے جس کے لیے وہ بھیجے گئے تھے۔*
*★"_اب اگر ان کے متبعین ان کے مسلک سے تجاوز کرتے ہیں تو یہ ان کا اپنا فعل ہے جو مذہبی حیثیت سے سند نہیں بن سکتا، 7 ہجری المقدس کے ماہ محرم کی پہلی تاریخ تھی کہ نبی ﷺ نے بادشاہان عالم کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط مبارک اپنے سفیروں کے ہاتھ روانہ فرماۓ ۔ جو سفیر جس قوم کے پاس بھیجا گیا وہ وہاں کی زبان جانتا تھا تاکہ تبلیغ بخوبی کر سکے۔*
*★_ اب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مہر نہ بنائی تھی۔ جب پادشاہان عالم کو خطوط لکھے گئے تو ان پر مہر کرنے کے لیے خاتم تیار کی گئی ۔یہ چاندی کی تھی ۔ تین سطور میں اس طرح پر یہ عبارت کند تھی*
*۔ الله*
*، رسول ،*
*_ محمد _,*
*★_ ان خطوط کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خط عیسائی بادشاہوں کے نام تھے ان میں خصوصیت سے یہ آیت مبارکہ بھی تھی :-*
*"_ قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡــئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِؕ [آل عمران:64]*
*’’_ اے اہل کتاب! آؤ ایسی بات پر اتفاق کریں جو ہمارے اور تمھارے ( دین ) میں مساوی ہے ۔ یعنی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا الوہیت کا درجہ ہم اپنے جیسے انسانوں کے لیے تجویز نہ کریں_,*
[1/20, 6:31 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب ہم مختصر طور پر ان خطوط کی سفارتوں کا حال درج کرتے ہیں:- (١) -بادشاہ حبش کے نام:-*
*"_ بادشاہ حبش الملقب نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک لے کر گئے تھے۔ یہ بادشاہ عیسائی تھا۔ تاریخ طبری سے اس نامہ کی نقل درج کی جاتی ہے ۔*
*★_ شروع اللہ کے نام سے جو بڑی رحمت اور دائمی رحم والا ہے ۔ یہ خط اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے نجاشی اصم بادشاہ کے نام ہے ۔ تجھے سلامتی ہو، میں پہلے اللہ کی ستائش کرتا ہوں ،اللہ وہ ذات ہے کہ کوئی الٰہ نہیں مگر وہی ، وہ ملک ،قدوس، سلام ،مومن اور مہیمن ہے اور ظاہر کرتا ہوں کہ عیسی بن مریم اللہ کی مخلوق اور اس کا حکم ہیں ، جو مریم بتول طیبہ عفیفہ کی جانب بھیجا گیا اور انہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کا اس سے حمل ٹھہر گیا۔*
*★_ اللہ نے عیسیٰ کو اپنی روح اور نفخ سے اسی طرح پیدا کیا تھا جیسا کہ آدم علیہ اسلام کو اپنے ہاتھ اور نفخ سے پیدا کیا تھا۔ اب میری دعوت یہ ہے کہ تو اللہ پر جو اکیلا اور لاشریک ہے ایمان لے آ اور ہمیشہ اسی کی فرمانبرداری میں رہا کر اور میرا اتباع کر اور میری تعلیم کا سچے دل سے اقرار کر کیوں کہ میں اللہ کا رسول ﷺ ہوں ۔*
*"★_ میں قبل ازیں اس ملک میں اپنے چچیرے بھائی جعفر کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ بھیج چکا ہوں، تم اسے بآرام ٹھہرا لینا۔ نجاشی تم تکبر چھوڑ دو، کیوں کہ میں تم کو اور تمہارے دربار کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں ۔ دیکھو میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے اور تمہیں بخوبی سمجھا دیا ہے ۔اب مناسب ہے کہ میری نصیحت مان لو۔ سلام اس پر جو سیدھی راہ پر چلتا ہے۔*
[1/21, 6:59 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_نجاشی اس فرمان مبارک پر مسلمان ہو گیا اور جواب میں یہ عریضہ تحریر کیا۔*
*"_ شروع اللہ کے نام سے جو بڑی رحمت اور دائمی رحم والا ہے ۔ محمد ﷺ کی خدمت میں نجاشی اصم بن ابجز کی طرف سے ۔اے نبی اللہ کہ آپ پر اللہ کی سلامتی ، رحمت اور برکتیں ہوں۔ اسی اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس نے مجھے اسلام کی ہدایت فرمائی ہے۔*
*★"_ اب عرض یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان میرے پاس پہنچا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ آپ ﷺ نے تحریر فرمایا ہے بخداۓ زمین و آسمان ، وہ اس سے ذرہ برابر بھی بڑھ کر نہیں ۔ ان کی حیثیت اتنی ہی ہے جو آپ ﷺ نے تحریر فرمائی ہے ۔ ہم نے آپ کی تعلیم سیکھ لی ہے اور آپ کا چچیرا بھائی اور مسلمان میرے پاس آرام سے ہیں ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ سچے ہیں اور راستبازوں کی سچائی ظاہر کرنے والے ہیں۔*
*★_ میں آپ ﷺ سے بیعت کرتا ہوں ۔ میں نے آپ کے چچیرے بھائی کے ہاتھ پر حضور ﷺ کی بیعت اور اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کا اقرار کر لیا ہے اور میں حضور ﷺ کی خدمت میں اپنے فرزند "ارھا‘‘ کو روانہ کرتا ہوں، میں تو اپنے ہی نفس کا مالک ہوں ، اگر حضور ﷺ کا منشا یہ ہوگا کہ میں حاضر خدمت ہو جاؤں تو ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔ کیوں کہ میں یقین کرتا ہوں کہ حضور ﷺ جو فرماتے ہیں وہی حق ہے۔ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر سلام ہو _,*
[1/22, 8:40 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_شاہ بحرین کا اسلام:-*
*"_منذر بن ساوی شاہ بحرین تھا۔ شہنشاہ فارس کا خراج گزار تھا۔ علاء بن الحضر رضی اللہ عنہ اس کے پاس نامہ مبارک لے کر گئے تھے۔ یہ مسلمان ہو گیا اور اس کی رعایا کا اکثر حصہ بھی مسلمان ہوا۔ اس نے جواب میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لکھا تھا کہ بعض لوگوں نے اسلام کو از حد پسند کیا ہے ۔ بعض نے کراہت کا اظہار کیا ہے ۔ بعض نے مخالفت کی ہے۔ میرے علاقے میں یہودی اور مجوسی بہت ہیں ۔ ان کے لیے جو ارشاد ہو، کیا جاۓ ۔*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں تحریر فرمایا تھا: -*
*"_ جو نصیحت پکڑتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے ۔*
*"_جو یہودیت یا مجوسیت پر قائم رہے وہ جزیہ دیا کرے ۔‘‘*
*(زادالمعاد 693692/3، ابن سیدالناس:266/2 شرح امواہب 350/3)*
*★_سفیر اسلام کی دربار عمان میں گفتگو:-*
*"_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب میں عمان پہنچا تو پہلے عبد کو ملا۔ یہ سردار تھا اور اپنے بھائی کی نسبت زیادہ نرم و خوش خلق تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کا سفیر ہوں اور تمہارے پاس اور تمہارے بھائی کے پاس آیا ہوں ۔ عبد بولا: ”میرا بھائی عمر میں مجھ سے بڑا ہے اور ملک کا مالک ہے، میں تمہیں اس کی خدمت میں پہنچا دوں گا مگر یہ تو بتاؤ کہ تم کس چیز کی دعوت دیتے ہو؟‘‘*
*"_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا:- اکیلے اللہ کی طرف جس کا کوئی شریک نہیں، نیز اس شہادت کی طرف کہ محمد ﷺ اللہ عز وجل کے بندے اور رسول ہیں ۔‘‘*
*★_ عبد نے کہا:- عمرو رضی اللہ عنہ تو سردار قوم کا بیٹا ہے ۔ بتلاؤ کہ تیرے باپ نے کیا کیا، کیوں کہ ہم اسے نمونہ بناسکتے ہیں۔*
*"_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:- وہ مر گیا ، نبی ﷺ پر ایمان نہ لایا تھا۔ کاش ! وہ ایمان لاتا اور آنحضرت ﷺ کی راست بازی کا اقرار کرتا۔ میں بھی اپنے باپ کی راۓ ہی پر تھا حتیٰ کہ اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت فرمائی _‘‘*
[1/23, 7:58 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عبد نے کہا- ” تم کب سے محمد ﷺ کے پیرو ہو گئے ہو؟‘‘ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا- ابھی تھوڑ ا عرصہ ہوا۔‘‘*
*"_ عبد - کہاں ؟ عمرو بن عاص : - نجاشی کے دربار میں اور نجاشی بھی مسلمان ہو گیا۔‘‘ عبد :’’وہاں کی رعایا نے نجاشی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟‘‘ عمرو بن عاص- اسے بدستور بادشاہ رہنے دیا اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔*
*"_ عبد :’’ ( تعجب سے ) کیا بشپ پادریوں نے بھی؟‘‘ عمرو بن عاص :’’ہاں ۔*
*★_ عبد:- ’دیکھو! عمرو رضی اللہ عنہ کیا کہہ رہے ہو؟ انسان کے لیے کوئی چیز بھی جھوٹ سے بڑھ کر ذلت بخش نہیں ۔‘‘*
*"_ عمرو بن عاص :- میں نے جھوٹ نہیں کہا اور اسلام میں جھوٹ بولنا جائز بھی نہیں ۔* *"_عبد ’’ہرقل نے کیا کیا ؟ کیا اسے نجاشی کے اسلام لانے کا حال معلوم ہے؟‘‘*
*"_ عمرو بن عاص:- ’’ہاں‘‘، عبد :’’ تم کیوں کر ایسا کہہ سکتے ہو؟‘*‘
*★_ عمرو بن عاص:- نجاشی ہرقل کوخراج دیا کرتا تھا۔ جب سے مسلمان ہوا، کہہ دیا کہ اب اگر وہ ایک درہم بھی مانگے گا تو نہ دوں گا ۔ ہرقل تک یہ بات پہنچ گئی ۔ ہرقل کے بھائی نباقی نے کہا: یہ نجاشی حضور کا ادنیٰ غلام اب خراج دینے سے انکار کرتا ہے اور حضور ﷺ کے دین کو بھی اس نے چھوڑ دیا ہے۔ ہرقل نے کہا:- پھر کیا ہوا؟ اس نے اپنے لیے ایک مذہب پسند کر لیا اور قبول کر لیا ، میں کیا کروں؟ بخدا اگر اس شہنشاہی کا مجھے خیال نہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جونجاشی نے کیا ہے _,"*
*★_ عبد:- ”دیکھو عمرو رضی اللہ عنہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ عمرو بن عاص:- قسم ہے اللہ کی سچ کہہ رہا ہوں۔ عبد:- اچھا بتلاؤ ، وہ کن چیزوں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟‘‘*.
*"_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ : وہ اللہ عز وجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور معصیت الہی سے روکتے ہیں ۔ وہ زنا اور شراب کے استعمال سے اور پتھروں ، بتوں اور صلیب کی پرستش سے منع فرماتے ہیں_,"*
*"_ عبد:- ” کیسے اچھے احکام ہیں جن کی وہ دعوت دیتے ہیں ۔ کاش! میرا بھائی میری راۓ قبول کرے ۔ ہم دونوں محمد ﷺ کی خدمت میں جا کر ایمان لائیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میرے بھائی نے اس پیغام کو رد کیا اور دنیا ہی کا راغب رہا تو وہ اپنے ملک کے لیے بھی سراپا نقصان ثابت ہوگا _,"*
[1/24, 5:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ : اگر وہ اسلام قبول کرے گا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو اس ملک کا بادشاہ تسلیم فرمالیں گے ۔ وہ صرف اتنا کریں گے کہ یہاں کے اغنیاء سے صدقہ وصول کر کے یہاں کے غرباء میں تقسیم کرا دیا کریں گے ۔‘‘*
*"_عبد : یہ تو اچھی بات ہے مگر صدقہ سے کیا مراد ہے؟‘‘*
*"_عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کے مسائل بتلاۓ ۔ جب یہ بتلایا کہ اونٹ میں بھی زکوۃ ہے تو عبد بولا: کیا وہ ہمارے مویشی میں سے بھی صدقہ دینے کو کہیں گے ؟ ۔ وہ تو خود ہی درختوں کے پتوں سے پیٹ بھر لیتا ہے اور خود ہی پانی جا پیتا ہے_,"*
*"_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ! اونٹوں میں سے بھی صدقہ لیا جا تا ہے ۔‘،*
*"_ عبد:- میں نہیں جانتا کہ میری قوم کے لوگ جو تعداد میں زیادہ ہیں اور دور دور تک بکھرے پڑے ہیں, وہ اس حکم کو مان لیں گے_,"*
*★"_ الغرض عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وہاں چند روز ٹھہرے ۔ عبد روز روز کی باتیں اپنے بھائی کو پہنچا دیا کرتا، ایک روز عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بادشاہ نے طلب کیا۔ چوہداروں نے دونوں جانب سے بازو تھام کر انھیں پادشاہ کے حضور میں پیش کیا۔ پادشاہ نے فرمایا- اسے چھوڑ دو۔ چوبداروں نے چھوڑ دیا۔ یہ بیٹھنے لگے۔ چوبداروں نے پھر ٹوکا ۔انھوں نے پادشاہ کی طرف دیکھا۔ پادشاہ نے کہا- بولو تمھارا کیا کام ہے؟‘‘*
*★"_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے خط دیا جس پر مہر ثبت تھی ۔ اس نے مہر توڑ کر خط کھولا، پڑھا، پھر بھائی کو دیا، اس نے بھی پڑھا اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بھائی زیادہ نرم دل ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: ” کہ قریش کا کیا حال ہے؟‘‘ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا:” سب نے طوعاً و کرہا ان کی اطاعت اختیار کر لی ہے ۔ پادشاہ نے پوچھا: ” کہ اس کے ساتھ رہنے والے کون لوگ ہیں؟‘‘ عمرو بن عاص : یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کو رضا و رغبت سے قبول کیا۔ سب کچھ چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کر لیا ہے اور پوری غور وفکر اور عقل و تجربہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانچ کر لی ہے ۔‘‘* *"_بادشاہ نے کہا: اچھا تم کل پھر ملنا۔*
*★_ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ دوسرے روز بادشاہ سے ملے ۔ بادشاہ نے کہا: میں نے اس معاملے میں غور کیا ہے ۔ دیکھو اگر میں ایسے شخص کی اطاعت اختیار کرتا ہوں جس کی فوج ہمارے ملک تک نہیں پہنچی تو میں سارے عرب میں کمزور سمجھا جاؤں گا ، حالانکہ اگر اس کی فوج اس ملک میں آۓ تو میں ایسی سخت لڑائی لڑوں کہ تمھیں کبھی سابقہ نہ ہوا ہو ۔‘‘*
*"_ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا:-بہتر میں کل واپس چلا جاؤں گا۔‘‘ بادشاہ نے کہا: ”نہیں کل تک ٹھہرو۔“*
*"_ دوسرے دن بادشاہ نے انہیں آدمی بھیج کر بلایا اور دونوں بھائی مسلمان ہو گئے اور رعایا کا اکثر حصہ بھی اسلام لے آیا_,"*
[1/25, 5:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ گورنران دمشق و یمامہ کا انکار_,"*
*"_ منذر بن حارث بن ابوشمر، دمشق کا حاکم اور شام کا گورنر تھا۔ شجاع بن وہب الاسدی رضی اللہ عنہ اس کے پاس بطور سفارت بھیجے گئے تھے۔ یہ پہلے تو خط مبارک پڑھ کر بہت بگڑا۔ کہا میں خود مدینہ پرحملہ کروں گا۔ بالآخر سفیر کو باعزاز رخصت کیا۔ مگر مسلمان نہ ہوا ۔*
*★_ بوذد بن علی حاکم یمامہ عیسائی المذہب تھا۔ سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ نامہ مبارک اس کے پاس لے کر گئے تھے۔ اس نے کہا: اگر اسلام پر میری آ دھی حکومت تسلیم کر لی جائے تو مسلمان ہو جاؤں گا۔ ہوذد اس جواب کے تھوڑے دنوں بعد ہلاک ہو گیا۔*
*★"_ جریح بن متی الملقب بہ مقوقس شاه اسکندریہ مصر عیسائی المذہب تھا۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس سفیر ہو کے گئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خط کے آخر میں تحریر فرمادیا تھا کہ اگر تم نے اسلام سے انکار کیا تو تمام مصریوں ( اہل قبط ) کے مسلمان نہ ہونے کا گناہ تمہاری گردن پر ہوگا۔*
*"_سفیر نے خط پہنچانے کے علاوہ بادشاہ کو ان الفاظ میں خود بھی سمجھایا تھا:- صاحب ! آپ سے پہلے اس ملک میں ایک شخص ہو چکا ہے: « أنا ربكم الأعلى) ( میں تم لوگوں کا بڑارب ہوں ) کہا کرتا تھا اور اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کی رسوائی دی۔ جب اللہ کا غضب بھڑکا تو وہ ملک وغیرہ کچھ بھی نہ رہا۔ اس لیے لازم ہے کہ تم دوسروں کو دیکھو اور عبرت پکڑو۔ یہ نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت لیا کریں ۔“*
*★_ بادشاہ نے کہا: ہم خود ایک مذہب رکھتے ہیں ۔اسے ترک نہیں کر یں گے ۔ جب تک کہ اس سے بہتر کوئی دین نہ ملے۔‘‘*
*"_حاطب رضی اللہ عنہ بولے:- میں آپ کو دین اسلام کی جانب بلاتا ہوں جو جملہ دیگر مذاہب سے کفایت کنندہ ہے ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب ہی کو دعوت اسلام فرمائی ۔ قریش نے مخالفت کی ہے اور یہود نے عداوت ، لیکن سب میں سے محبت و مودت کے ساتھ قریب تر انصاری رہے ہیں ۔ واللہ! جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ سلام کے لیے بشارت دی اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے محمد ﷺ کی بشارت دی ہے۔ قرآن مجید کی دعوت ہم آپ کو اسی طرح دیتے ہیں جیسے آپ اہل توراۃ کو انجیل کی دعوت دیا کرتے ہیں۔ جس نبی کو جس قوم کا زمانہ ملا وہی قوم اس کی امت سمجھی جاتی ہے ۔ اس لیے آپ پر لازم ہے کہ اس نبی کی اطاعت کریں جس کا زمانہ آ پ کو مل گیا ہے اور یہ سمجھ لیں کہ ہم آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام کے مذہب کی طرف دعوت دیتے ہیں _,"*
[1/26, 1:16 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مقوقس نے کہا: میں نے اس نبی ﷺ کے بارے میں غور کیا ۔ ہنوز مجھے کوئی رغبت معلوم نہیں ہوئی ۔ اگر چہ وہ کسی مرغوب شے سے نہیں روکتے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ نہ وہ ساحر ضرر رساں ہیں ، نہ کاہن کاذب اور ان میں تو نبوت ہی کی علامت پائی جاتی ہے ۔بہر حال میں اس معاملہ میں مزید غور کروں گا۔“*
*"_ پھر آنحضرت ﷺ کے خط کو ہاتھی دانت کے ڈبے میں رکھوا کر مہر لگوا کر خزانہ میں رکھوا دیا۔ آنحضرت ﷺ کے لیے تحائف بھیجے اور جواب خط میں یہ بھی لکھا کہ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ ایک نبی کا ظہور باقی ہے مگر میں یہ بجھتا رہا کہ وہ رسول ملک شام میں ہوں گے۔" دلدل:- مشہور خچر اسی نے تحفے میں بھیجا تھا۔*
*★_ ہرقل شاہ قسطنطنیہ یاروما کی مشرقی شاخ سلطنت کا نامور شہنشاہ عیسائی المذہب تھا۔ دحیہ بن خلیفہ الکی رضی اللہ عنہ اس کے پاس نامہ مبارک لے کے گئے تھے۔ یہ بادشاہ سے بیت المقدس کے مقام پر ملے ۔ ہرقل نے سفیر کے اعزاز میں بڑا شاندار دربار کیا اور سفیر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بہت سی باتیں دریافت کرتا رہا۔*
*★_ اس کے بعد ہرقل نے مزید تحقیقات کر نا بھی ضروری سمجھا، حکم دیا کہ اگر ملک میں کوئی شخص مکہ کا آیا ہوا موجود ہو تو پیش کیا جاۓ ۔اتفاق سے ان دنوں ابوسفیان مع دیگر تاجران مکہ سے شام آ یا ہوا تھا ۔ اسے بیت المقدس پہنچایا اور دربار میں پیش کیا گیا۔ قیصر نے ہمراہی تاجروں سے کہا کہ میں ابوسفیان سے سوال کروں گا ۔ اگر کوئی جواب غلط دے تو مجھے بتلا دینا۔ ابوسفیان ان دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ اس کا اپنا بیان ہے کہ اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ میرے ساتھ والے میرا جھوٹ ظاہر کردیں گے تو میں بہت باتیں بناتا۔ مگر اس وقت قیصر کے سامنے مجھے سچ سچ ہی کہنا پڑا۔۔*
[1/27, 8:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ سوال و جواب یہ ہیں:- قیصر:- محمد ﷺ کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟‘‘ ابوسفیان: ” شریف و عظیم", یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا- سچ ہے کہ نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں تاکہ ان کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو، محمد ﷺ سے پہلے بھی کسی نے عرب میں یا قریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے ؟*
*"'_ ابو سفیان- "نہیں ‘‘, یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا- اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ اپنے سے پہلے کی تقلید اور ریس کرتا ہے ۔*
*★_قیصر:- "نبی ہونے کے دعوی سے پہلے کیا یہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس کو جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت دی گئی تھی؟*
*"_ابو سفیان:- "نہیں",*
*"_ہرقل نے اس جواب پر کہا- یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا ہو و ہ اللہ پر جھوٹ باندھے ۔*
*★_ قیصر : " اس کے باپ دادا میں کوئی شخص بادشاہ بھی ہوا ہے؟‘‘ ابو سفیان :- نہیں _,"*
*"_ ہرقل نے اس جواب پر کہا: اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے،*
*"_قیصر :- محمد ﷺ کے ماننے والے مسکین غریب لوگ زیادہ ہیں یا سردار قوی لوگ ؟ ابو سفیان :- مسکین حقیر لوگ_,"*
*"_ ہرقل نے اس جواب پر کہا:- ہر ایک نبی کے پہلے ماننے والے مسکین غریب لوگ ہی ہوتے رہے ہیں۔*
*★_ قیصر:- ان لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے یا کم ہوتی ہے ؟ ابو سفیان :- بڑھ رہی ہے، ہرقل نے کہا۔ ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حدکمال تک پہنچ جاتا ہے_,"*
*"_ قیصر:- کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہو کر پھر بھی جاتا ہے؟ ابوسفیان: ” نہیں۔“*
*"_ہرقل نے کہا- لذت ایمان کی یہی تاثیر ہوتی ہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی ہے اور روح پر اپنا اثر قائم کر لیتی ہے تب جدا نہیں ہوتی۔*
*"_یہ شخص کبھی عہد و پیمان کو توڑ بھی دیتا ہے؟ ابوسفیان: ”نہیں، لیکن امسال ہمارا معاہدہ اس سے ہوا ہے۔ دیکھیے کیا انجام ہو۔ ( اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ ہوئی تھی، ابو سفیان کا اشارہ اسی معاہدہ کی طرف ہے)*
[1/27, 8:44 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کر سکا تھا مگر قیصر نے اس پر کچھ توجہ نہ کی اور یوں کہا:- ہے شک نبی عہد شکن نہیں ہوتے ۔ عہد شکنی دنیادار کیا کرتا ہے، نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے،*
*★_ قیصر : کبھی اس شخص کے ساتھ تمہاری لڑائی بھی ہوئی ؟ ابوسفیان " ہاں ۔ کبھی وہ غالب ربا (بدر میں) اور کبھی ہم (احد میں )‘‘*
*"_ہرقل نے کہا :- اللہ کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخرکار اللہ کی مدد اور فتح ان ہی کو حاصل ہوتی ہے ۔*
*"_قیصر : اس کی تعلیم کیا ہے؟ابوسفیان: ایک رب کی عبادت کرو۔ باپ دادا کا طریق ( بت پرستی) کو چھوڑ دو۔ نماز ، روزہ، سچائی ، پاکدامنی ،صلہ رحمی کی پابندی اختیار کرو ۔*
*★"_ ہرقل نے کہا: نبی موعود کی یہی علامتیں ہم کو بتلائی گئی ہیں ۔ میں سمجھتا تھا کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔ ابوسفیان ! اگر تم نے سچ سچ جواب دیئے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ پر جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں ( شام و بیت المقدس ) ضرور قابض ہو جاۓ گا۔ کاش میں ان کی خدمت میں پہنچ سکتا اور نبی ﷺ کے پاؤں دھویا کرتا _,"*
*★"_ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک پڑھا گیا ۔ اراکین دربار اسے سن کر بہت چیخے اور چلائے اور ہم کو دربار سے نکال دیا گیا۔ میرے دل میں اسی روز سے اپنی ذلت کا نقش اور آنحضرت ﷺ کی آئیندہ عظمت کا یقین ہو گیا ۔*
[1/29, 7:59 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_۔ کسریٰ ( شاہ فارس ) کو تبلیغ:-*
*"_ خسرو پرویز ۔ کسریٰ ایران ۔ نصف مشرقی دنیا کا شہنشاہ تھا۔ زرتشتی مذہب رکھتا تھا۔ عبداللہ بن خدامہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس نامہ مبارک لے کر گئے تھے۔ نامہ مبارک کی نقل یہ ہیں:--*
*"_ شروع اللہ رحمن و رحیم کے نام سے، محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کسریٰ بزرگ فارس کے نام ۔ سلام اس پر جو سیدھے راہ پر چلتا ،اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان لاتا اور یہ شہادت ادا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندہ اورسول ہیں ۔ میں تجھے اللہ کے پیغام کی دعوت دیتا ہوں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ مجھے جملہ نسل آدم کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ جو کوئی زندہ ہے اسے عذابِ الٰہی کا ڈرسنا دیا جائے اور جو کوئی منکر ہیں ان پر اللہ کا قول پورا ہو، تو مسلمان ہو جا۔ سلامت رہے گا ، ورنہ قوم مجوس کا گناہ تیرے ذمے ہوگا ۔‘‘*
*★_ خسرو نے نامہ مبارک دیکھتے ہی غصے سے چاک کر ڈالا اور زبان سے کہا: میری رعایا کا ادنیٰ شخص مجھے خط لکھتا ہے اور اپنا نام میرے نام سے پہلے تحریر کرتا ہے ۔*
*(صحیح البخاری :2941، تاریخ طبری:264/2۔)*
*"_ اس کے بعد خسرو نے باذان کو جو یمن میں اس کا وائسراۓ ( نائب السلطنت ) تھا اور عرب کا تمام ملک اس کے زیر اقتدار یا زیر اثر سمجھا جاتا تھا۔ یہ حکم بھیجا کہ اس شخص ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کو گرفتار کر کے میرے پاس روانہ کر دو_,"*
*★_ باذان نے ایک فوجی دستہ مامور کیا ۔ فوجی افسر کا نام خرخسرو تھا۔ ایک ملکی افسر بھی ساتھ روانہ کیا جس کا نام بانویہ تھا۔ بانویہ کو یہ ہدایت کی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے حالات پر گہری نظر ڈالے اور آنحضرت ﷺ کو کسریٰ کے پاس پہنچا دے لیکن اگر آپ ساتھ جانے سے انکار کریں تو واپس آ کر رپورٹ کرے،*
*★"_جب یہ فوجی دستہ طائف پہنچا تو اہل طائف نے بڑی خوشیاں منائیں کہ اب محمد ﷺ ضرور تباہ ہو جاۓ گا کیوں کہ شہنشاہ کسریٰ نے اسے گستاخی کی سزا دینے کا حکم دے دیا ہے ۔*
[1/29, 9:37 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قتل خسرو کی خبر آپ ﷺ کو با علام الہی ملنا :-*
*"_ جب یہ افسر مدینہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ کل کو پھر حاضر ہوں ۔ دوسرے روز نبی ﷺ نے فرمایا آج رات تمہارے بادشاہ کو اللہ نے ہلاک کر ڈالا ، جاؤ اور تحقیق کرو۔ افسر یہ خبر سن کر یمن کو لوٹ گئے ۔ وہاں وائسراۓ کے پاس سرکاری اطلاع آ چکی تھی کہ خسرو کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا اور تخت کا مالک شیرویہ ہے جو باپ کا قاتل تھا_,"*
*★_ اب باذان نے نبی ﷺ کے عادات و اخلاق اور تعلیم و ہدایت کے متعلق کامل تحقیقات کی اور تحقیقات کے بعد مسلمان ہو گیا ۔ دربار اور ملک کا اکثر حصہ بھی مسلمان ہو گیا۔ جو سفیر نبی ﷺ نے بھیجا تھا اس نے واپس آ کر عرض کیا کہ شاہ ایران نے نامہ مبارک کو چاک کر ڈالا، اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘اس نے اپنی (قوم کے) فرمان سلطنت کو چاک کر دیا ہے۔*
*"_ناظرین ! اس مختصر اور پر ہیبت جملہ کو دیکھیں اور سوا تیرہ سو برس کی تاریخ عالم میں تلاش کریں کہ کسی جگہ اس قوم کی سلطنت کا نشان بھی ملتا ہے، جو اس واقعہ سے پیشتر چار پانچ ہزار برس سے نصف دنیا پر شہنشاہی کرتی تھی اور جس کی فتوحات بارہا یونان وروما کونیچا دکھا چکی تھیں؟ ہرگز نہیں۔*
[1/30, 8:35 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی ﷺ کے عہد میں اسلام کی اشاعت:-*
*"_ نبی ﷺ کے عہد میں اسلام کی اشاعت جس حسن و خوبی کے ساتھ ہوئی تھی ، اس کی مختصر کیفیت ،ان وفود سے اندازہ کی جاسکتی ہے جو وقتاً فوقتاً حضور ﷺ کی خدمت میں دور دراز سے آیا کرتے تھے۔وفود کا آنا ، واپس جانا ، ہرمنزل اور راہ پرمختلف قوموں اور قبیلوں سے ملنا اور اسلام کی آواز کا سب لوگوں کے کان تک پہنچانا کیسی خوبی سے انجام پاتا تھا۔*
*★_ رسول اللہ ﷺ کی مدافعانہ جنگ تو جن میں مجبوراً شامل ہونا پڑا، ملک کے ایک محدود دائرہ ہی میں تھی لیکن ان وفود کو دیکھ کر ملک کے ہر گوشہ اور ہر حصے سے چلے آتے تھے۔ ہدایت اور اسلام ہی وہ چشمے ہیں جو نبی ﷺ نے چٹیل میدان میں بہادیئے تھے جس کی طرف تمام پیاسے چلے آتے تھے۔*
*"_ دعوت عام کی دوسری زبردست دلیل ان وفود کا حاضر ہونا ہے ۔ جن قبائل کے وفود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوۓ ۔ ان کے نام یہ ہیں ۔ میں نے ان قبائل کے نام اس فہرست میں شامل نہیں کیے جن کا نبی ﷺ کی خدمت میں آنا ملکی اغراض یا ذاتی فوائد کے لیے تھا۔*
*"_ (1) دوس (2) صداء (3) ثقیف، (4) عبدالقیس ، (5) بنی حنیفہ، (6) طے،(7)اشعرئین، (8)ازد، (9) فرده جذامی، (10) ہمدان، (11) طارق بن عبداللہ، (12) تجیب ، (13) بنی سعد ہزیم، (14) بنو اسد، (15) بہراء، (16) عذراء(17) خولان، (18) محارب،(19) غسان ،(20) بنی الحارث ،( 21 ) بنی عیس ،(22) غامد ،(23) بنی فرازہ،(24) سلامان ،(25) نجران ،(26) نخع ۔*
[1/30, 8:56 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"★_ ذیل میں مندرجہ بالا وفود کے مختصر حال درج کیے جاتے ہیں ۔*
*"_(1) وفد دوس :- طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا ذکر ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ اسلام کے بعد جب یہ بزرگوار وطن کو جانے لگے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ دعا فرمایئے کہ میری قوم بھی میری دعوت پر مسلمان ہو جائے ۔ نبی ﷺ نے دعا فرمائی ۔ یا اللہ ! طفیل ہی کو تو ایک نشان ( آیت ) بنادے،*
*★_ طفیل رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو بوڑھا باپ ملنے کے لیے آیا۔ طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا: ابا جان ! اب نہ میں تمہارا ہوں اور نہ آپ میرے ہیں۔‘‘ بوڑھے نے کہا:- ’یہ کیوں؟‘‘ طفیل : میں تو محمد ﷺ کا دین قبول کر کے مسلمان ہو کے آیا ہوں ۔ بوڑھے نے کہا: ’’بیٹا ! جو تیرا دین ہے وہی میرا بھی ہے۔‘‘ طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ خوب! تب آپ اٹھیے، غسل فرمایے، پاک کپڑے پہن کر تشریف لا یے تا کہ میں اسلام کی تعلیم دوں _‘‘*
*★_ پھر طفیل رضی اللہ عنہ کی بیوی آئی ۔ اس سے بھی اسی طرح بات چیت ہوئی اور وہ بھی مسلمان ہوگئی ۔ اب طفیل رضی اللہ عنہ نے اسلام کی منادی شروع کر دی لیکن لوگ کچھ مسلمان نہ ہوۓ ۔*
*★_ ۔ طفیل رضی اللہ عنہ پھر نبی ﷺ کی خدمت میں آۓ۔عرض کیا کہ میری قوم میں زنا کی کثرت ہے۔( چونکہ اسلام زنا کو سختی سے حرام ٹھہراتا ہے) اس لیے لوگ مسلمان نہیں ہوتے- حضور ﷺ ان کے لئے دعا فرمائیں۔ نبی ﷺ نے زبان مبارک سے کہا: اللهم اهـد درسا ’’ اے اللہ دوس کو سیدھا راستہ دکھلا _,"*
*( بخاری 2937, مسلم -197,252)*
*★"_ پھر طفیل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جاؤ۔ لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤ ۔ ان سے نرمی اور محبت کا برتاؤ کرو۔ اس دفعہ طفیل رضی اللہ عنہ کو اچھی کامیابی ہوئی۔ وہ 5 ہجری میں دوس کے ستر اسی خاندانوں کو جو مسلمان ہو چکے تھے، ساتھ لے کر مدینہ پہنچے۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ خیبر گئے ہوۓ ہیں اس لیے خیبر ہی پہنچ کر شرف حضوری حاصل کیا اور یہ سب لوگ بھی خیبر ہی میں نبی ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوۓ ۔*
*★"_ (2) وفدصداء:- یہ وفد 8 ھ میں حاضر خدمت نبوی ﷺ ہوا تھا۔ سب سے پہلے اس قوم کا ایک شخص زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ صدائی حاضر ہوا۔ پھر دوبارہ وہی زیاد قوم کے پندرہ (15) سرکردہ لوگوں کو لے کر آیا۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ان کی تواضع کے لیے مامور ہوئے ۔ ان کے واپس جانے کے بعد ان کے قبیلہ میں اسلام پھیل گیا۔*.
*★_ زیاد رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ ہمارے ہاں صرف ایک کنواں ہے ۔ سرما میں اس کا پانی کافی ہوتا ہے۔ لیکن گرما میں و خشک ہو جا تا ہے ۔ اس لیے تمام قوم متفرق ہوکر یہ موسم پورا کرتی ہے ۔ہمارا قبیلہ ابھی جدید الاسلام ہے۔ تعلیم وتعلم کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ دعا فرمایئے کہ کنوئیں کا پانی ختم نہ ہوا کرے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم سات کنکریاں اٹھا لاؤ۔ زیاد رضی اللہ عنہ لے آئے، نبی ﷺ نے ان کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر پھر واپس دے دیا۔ فرمایا: ’ایک ایک کنکری اس کنوئیں میں گرا دینا۔ ہر ایک کنکری پر اللہ اللہ پڑھتے جانا _‘‘ زیاد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر اس چاہ میں اتنا پانی بڑھ گیا کہ اس کے قعر کا پتا ہی نہ لگا کرتا ۔*
*(3) وفد ثقیف کا حال :- ثقیف میں سے سب سے پہلا شخص جو تعلیم اسلام حاصل کرنے کے لیے نبی ﷺ کی خدمت میں آیا تھا، وہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ تھے، یہ اپنی قوم کے سردار تھے اور صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کے وکیل بن کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آے تھے ۔ جنگ ہوازن و ثقیف کے بعد جذبہ توفیق الہی سے مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ۔*
*★_ جب عروہ اسلام سیکھ چکے تو انھوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ اب مجھے اپنی قوم میں جانے ، اسلام کی منادی کرنے کی اجازت فرما دیجیے، نبی ﷺ نے فرمایا تمہاری قوم تمہیں قتل کر دے گی ۔ عروہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ میری قوم کو مجھ سے اتنی محبت ہے جتنی کسی عاشق کو اپنے معشوق سے ہوتی ہے۔ یہ بزرگوارا اپنی قوم میں آے اور وعظ اسلام شروع کر دیا۔ ایک روز یہ اپنے بالا خانہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی شقی نے تیر چلایا جس سے وہ شہید ہو گئے ۔*
[1/31, 9:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اگرچہ عروہ جانبر نہ ہوئے لیکن جو آواز انھوں نے قوم کے کانوں تک پہنچائی تھی وہ دلوں پر اثر کیے بغیر نہ رہی۔ تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ قوم نے اپنے چند سرکردگان کو منتخب کیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں اس لیے بھیجا کہ اسلام کی نسبت پوری واقفیت حاصل کر لیں۔ یہ وفد 9 ہجری میں خدمت نبوی میں حاضر ہوا تھا۔ وفد کا سردار عبدیالیل تھا۔ جس کے سمجھانے کو نبی ﷺ کوہ طائف پر 10 نبوت میں گئے تھے اور انھوں نے وعظ کے سننے سے انکار کر کے آبادی کے لڑکوں اور اوباشوں کو نبی ﷺ کی تضحیک و تحقیر کے لیے مقررکر دیا تھا اور جس کے اشارہ سے طائف میں رسول اللہ ﷺ پر پتھر برسائے گئے، کیچڑ پھینکا گیا تھا۔*
*★_ نبی ﷺ نے وہاں آتے ہوۓ یہ فرما دیا تھا کہ میں ان کی بربادی کے لیے دعا نہیں کروں گا کیوں کہ اگر یہ خود اسلام نہ لائیں گے تو ان کی آئندہ نسلوں کو اللہ ایمان عطا کرے گا۔ اب وہی دشمن اسلام خود بخود اسلام کے لیے اپنے دل میں جگہ پاتے اور دلی شوق و روحی طلب سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔*
*"_ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ یہ (اہل ثقیف ) میری قوم کے لوگ ہیں ۔ کیا میں انھیں اپنے پاس اتار لوں اور ان کی تواضع کروں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں منع نہیں کرتا کہ تم اپنی قوم کی عزت کرو لیکن ان کو ایسی جگہ اتاروں جہاں قرآن کی آواز ان کے کان میں پڑے ۔“*
*★_ الغرض ان کے خیمے مسجد کے صحن میں لگائے گئے ، جہاں سے یہ قرآن بھی سنتے تھے اور لوگوں کو نماز پڑھتے بھی دیکھتے ۔ اس تدبیر سے ان کے دلوں پر اسلام کی صداقت کا اثر پڑا اور انہوں نے نبی ﷺ کے دست مبارک پر بیعت اسلام کر لی ۔*
*★_ عبد یالیل نے مختلف اوقات میں نبی ﷺ سے مندرجہ ذیل مسائل پر بھی گفتگو کی:-*
*(١) _زنا حرام ہے:- یا رسول اللہ ﷺ ! زنا کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ہماری قوم کے لوگ اکثر وطن سے دور رہتے ہیں ، اس لیے زنا کے بغیر کچھ چارہ ہی نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا ” زنا تو حرام ہے اور اللہ پاک کا اس کے لیے یہ حکم ہے: ( وَلَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا _, [ بنی اسرائیل 32] تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یہ تو سخت بے حیائی اور بہت برا طریق ہے ۔‘‘*
[2/3, 8:17 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (٢)_سود کا روپیہ لینا حرام ہے:- یا رسول اللہ ﷺ ! سود کے بارے میں حضور کیا فرماتے ہیں؟ یہ تو بالکل ہمارا ہی مال ہوتا ہے ۔*
*"_ نبی ﷺ نے فرمایا:- تم اپنا اصل روپیہ لے سکتے ہو دیکھو اللہ تعالی نے فرمایا ہے:( سورۃ البقرة، آیت نمبر 278)*
*"_ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا _,"*
*”_ (ترجمہ) _ اے ایمان والو ! اللہ عزوجل سے ڈرو اور سود میں سے جو لینا رہ گیا ہے وہ بھی چھوڑ دو ۔‘‘*
*★_ (٣)_ شراب کا استعمال حرام ہے:- یارسول اللہ ﷺ ! خمر ( شراب ) کے بارہ میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ یہ تو ہمارے ہی ملک کا عرق ہے اور اس کے بغیر تو ہم نہیں رہ سکتے_,*
*"_نبی ﷺ نے فرمایا: شراب کو اللہ نے حرام کر دیا ہے، دیکھو اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ( سورۃ المائدة، آیت نمبر 90)*
*"_ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ _,"*
*"_’’ ( ترجمہ ) اے ایمان والو ! شراب، جوا، بت اور پاسے یہ سب نا پاک و گندے، شیطانی کام ہیں ، ان سے بچا کرو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘*
[2/5, 2:52 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (4) وفد عبدالقیس کا حال :- قبیلہ عبدالقیس کا وفد خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوا، نبی ﷺ نے پوچھا تم کس قوم سے ہو؟ عرض کیا: قوم ربعیہ سے، نبی ﷺ نے انہیں خوش آمد یدفر مایا۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے اور حضور ﷺ کے درمیان قبیلہ مضر کے ( نافرمان) لوگ آباد ہیں ۔ ہم شہر حرام ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں، اس لیے صاف اور واضح طور پر سمجھا دیا جاۓ، جس پر ہم عمل کرتے رہیں اور قوم کے باقی ماندہ اشخاص بھی۔*
*★_ فرمایا: میں چار چیزوں پرعمل کرنے کا اور چار چیزوں سے بچے رہنے کاحکم دیتا ہوں۔جن چیزوں کے کرنے کا حکم ہے وہ یہ ہیں:_*
*(1) اکیلے اللہ پر ایمان لانا ، اس سے مراد یہ ہے کہ "لا إله إلا الله محمد رسول اللہ" کی شہادت ادا کرنا۔ (2 ) نماز ۔ (3) زکوۃ ۔ (4 ) رمضان کے روزے اور مال غنیمت سے خمس نکالنا۔*
*★"_ چار چیزیں جن سے بچنے کا حکم ہے، یہ ہیں:- (1) دباء ( تونبا، کدوکو درمیان سے کھرچ کر اندر سے خالی کر کے ایک طرح کا برتن بنالیا جاتا تھا)۔ (2) خنتم ( لاکھی برتن، ایسا مٹکا جس کی بیرونی سطح پر روغن کر لیا جاتا) ۔ ( 3 ) نقیر ( شراب کے لیے لکڑی کا ایک برتن، کھجور کی جڑ کی لکڑی جسے درمیان سے خراد کر بطور برتن استعمال کیا جا تا تھا ) ۔ (4 ) مزفت( قیر آلودہ برتن، مٹی کا ایسا برتن جس کے باہر تارکول پھیر دیا جائے )*
*"_ان باتوں کو یاد رکھو اور پچھلوں کو بھی بتا دو ۔*
*★_ ان لوگوں نے پوچھا:- یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کیسے برتن میں پانی پیا کریں۔ فرمایا- مشکوں میں جن کا منہ باندھ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا:- یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے یہاں چوہے بکثرت ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں چمڑے کی مشکیں سالم نہیں رہ سکتی ہیں، فرمایا :- خواہ سالم ہی نہ رہیں۔*
*( مسلم:- 7، زادالمعاد-3/606,*
[2/6, 7:48 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_(5)_ وفد بنی حنیفہ :- بنو حنیفہ کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ شمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی کوشش سے اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی تھی ۔ یہ وفد مدینہ آ کر مسلمان ہوا تھا۔ اسی وفد کے ساتھ مسیلمہ کذاب بھی تھا۔ وہ مدبینہ میں آکر لوگوں سے کہنے لگا کہ اگر محمد ﷺ یہ اقرار کریں کہ مجھے ان کا جانشین بنایا جاۓ گا تو میں بیعت کروں گا۔*
*★_ نبی ﷺ نے یہ سنا, حضور ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھٹری تھی، فرمایا: میں تو اس چھٹری کے دینے کی شرط پر بھی بیعت لینا نہیں چاہتا۔ اگر وہ بیعت نہ کرے گا تو اللہ اسے تباہ فرمائے گا۔ اس کا انجام اللہ تعالی نے مجھے دکھلا دیا ہے۔ یعنی میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں، مجھے وہ ناگوار معلوم ہوۓ ۔ خواب ہی میں وحی سے معلوم ہوا کہ انھیں پھونک سے اڑا دو۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑ گئے ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ان سے مراد مسیلمہ کذاب اور عنسی صاحب صنعا ہے ۔‘‘*
*★_ مسیلمہ کذاب نے اگرچہ رسالت کا دعویٰ کیا تھا مگر نبی ﷺ کو بھی رسول تسلیم کرتا تھا۔ اس سے مدعا اس کا غالباً یہ تھا کہ اس علاقہ کے مسلمان مخالف نہ ہوں ۔ 10 ہجری میں مسیلمہ کذاب نے نبی ﷺ کو یہ خط لکھا :- ’’اللہ کے رسول مسیلمہ کی طرف سے اللہ کے رسول محمد ﷺ کے نام ۔ واضح ہو کہ نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی ہے، مگر قریش انصاف نہیں کرتے ۔ آپ پر سلام ہو_,"*
*★_ نبی ﷺ نے جواب دیا- ( کتب ابی ابن کعب ) ’’ شروع اللہ کے نام سے جو کمال رحمت اور دائمی رحم والا ہے۔ اللہ کے نبی محمد ﷺ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ۔ واضح ہو زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے وارث بناتا ہے اور عاقبت تو تقویٰ شعار لوگوں کے لئے ہے، سلام ہو اس پر جو سیدھی راہ پر چلتا ہے _,"*
*"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط حبیب بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ لے کر گئے تھے، کزاب نے ان کے دونوں ہاتھ دونوں پاؤں کٹوا دیے تھے _,"*
*"_اس جگہ قارئین کی اطلاع کے لیے اس قدر درج کر دینا ضروری ہے کہ مسیلمہ پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کشی کی تھی۔ مسیلمہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا۔ وحشی وہی ہیں جو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل ہیں ۔ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر کفر میں ، میں نے ایک عظیم انسان کو مارا تھا تو اسلام میں آ کر ایک بڑے بھاری کزاب کو بھی مارا ہے ۔ اللہ نے میرے گناہ کی تلافی کردی،*
[2/6, 6:15 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (6)_ وفد طے کا بیان:- قبیلہ طے کا وفد جس کا سردار زیدالخیل تھا، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی ﷺ نے فرمایا- عرب کے جس شخص کی تعریف میرے سامنے ہوئی وہ دیکھنے کے وقت اس سے کم ہی نکلا ۔ ایک زیدانخیل اس سے مستثنیٰ ہے ۔ پھر اس کا نام زیدالخیر رکھ دیا۔ یہ سب لوگ ضروری گفتگو کے بعد مسلمان ہو گئے ۔*
*★_ (7)_ قبیلہ اشعرئیںن کا حال :- قبیلہ اشعر یہ ( جواہل یمن تھے ) کا وفد حاضر ہوا۔ ان کے آنے پر نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔ ’’اہل یمن آئے، جن کے دل نہایت نرم اور ضعیف ہیں ۔‘‘ (مسلم :52)*
*"_ ایمان یمنیوں کا ہے اور حکمت یمنیوں کی ۔ مسکنت بکریوں والوں میں, فخر اور غرور اونٹ والوں میں ہے جو مشرق کی طرف رہتے ہیں۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہوئے تو یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ ( ترجمہ) کل ہم اپنے دوستوں یعنی محمد ( ﷺ ) اوران کے ساتھیوں سے ملیں گے ۔‘‘*
*★_ (8) وفد ازد کا حال:- یہ وفد سات (7) اشخاص کا تھا۔ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی ﷺ نے ان کی وضع قطع کو پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ پوچھا تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: ہم مومن ہیں ۔*
*★_ نبی ﷺ نے فرمایا :- ہر ایک قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتلاؤ کہ تمھارے قول اور ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ ہم پندر حصلتیں رکھتے ہیں ۔ پانچ(5) وہ ہیں جن پر اعتقاد رکھتے ہیں اور پانچ (5) وہ ہیں جن پر عمل کر نے کا حکم آپ کے بھیجے ہوۓ لوگوں نے دیا۔ پانچ(5) وہ ہیں جن پر ہم پہلے سے پابند ہیں۔*
[2/7, 7:58 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایمان کی حقیقت:-*
*"_ ( وفد ازد عرض کیا)_ پانچ(5) باتیں جن پر حضور ﷺ کے مبلغین نے ایمان لانے کا حکم دیا، یہ ہیں:(1) ایمان باری تعالی پر (2) فرشتوں پر (3) اللہ کی کتابوں پر (4) اللہ کے رسولوں پر (5)_ مرنے کے بعد جی اٹھنے پر،_,"*
*"_ پانچ (5) باتیں عمل کرنے کی ہم کو یہ بتلائی گئی ہیں ۔*
*(1) لا اله الا اللہ کہنا۔ (2) پانچ وقت کی نمازوں کا قائم کرنا (3) زکوۃ دینا(4) رمضان کے روزے رکھنا (5) بیت الحرام کاحج کرنا ، جسے راہ کی استطاعت ہو۔*
*★_ پانچ (5) باتیں جو پہلے سے معلوم ہیں، یہ ہیں: (1) آسودگی کے وقت شکر کرنا 2) مصیبت کے وقت صبر کرنا (3) قضاۓ الہی پر رضامند ہونا (4) امتحان کے مقامات میں راست بازی پر قائم رہنا (5) اعدا کو شماتت نہ دینا۔*
*"_ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنھوں نے ان باتوں کی تعلیم دی وہ حکیم و عالم تھے اوران کی دانش مندی سے معلوم ہوتا ہے گویا وہ انبیاء تھے۔ اچھا ان پانچ (5) چیزیں کو اور بتاتا ہوں تاکہ پوری بیس (20) خصلتیں ہو جائیں ۔*
*★_ (1)_ وہ چیز جمع نہ کرو جسے کھانا نہ ہو۔*
*(2)_وہ مکان نہ بناؤ جس میں بسنا نہ ہو۔*
*(3)_ ایسی باتوں میں مقابلہ نہ کرو جنہیں کل کو چھوڑ دینا ہو۔*
*(4)_ اللہ کا تقویٰ رکھو جس کی طرف لوٹ جانا ہے اور جس کے حضور میں پیش ہونا ہے_,*
*(5)_ ان چیزوں کی رغبت رکھو جو آخرت میں تمہارے کام آئیں گی ۔ جہاں تم ہمیشہ رہو گے۔*
*"_ ان لوگوں نے نبی ﷺ کی وصیت پر پورا پورا عمل کیا۔*
*( زادالمعاد -3/672,)*
[2/7, 10:23 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (9)_ فروہ بن عمرو الجذامی رضی اللہ عنہ کی سفارت آنے کا ذکر،*
*"_ عرب کا جتنا شمالی حصہ سلطنت قسطنطنیہ کے قبضہ میں تھا، اس سارے علاقہ کا گورنر فروہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کا دارالحکومت معان تھا۔ فلسطین کا متصلہ علاقہ بھی ان کی حکومت میں تھا۔*
*★_ نبی ﷺ نے انہیں نامہ مبارک ( دعوت اسلام کا) بھیجا تھا۔ فروہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت ﷺ کے لیے ایک سفید رنگ کا قیمتی خچر ہدیہ میں بھیجا تھا۔ جب بادشاہ قسطنطنیہ کو ان کے مسلمان ہو جانے کی اطلاع ملی تو انہیں حکومت سے واپس بلا لیا۔*
*★"_پہلے اسلام سے پھر جانے کی ترغیب دیتا رہا۔ جب فروہ رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو انہیں قید کر دیا گیا۔ آخر میں یہ راۓ ہوئی کہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ ۔شہر فلسطین میں ’’عفرا‘ نامی تالاب پر انہیں پھانسی دی گئی ۔ جب وہ پھانسی کے نیچے پہنچے تو انہوں نے چند شعر پڑھے،*
*★_ ( 10)_ وفد ہمدان :- یہ قبیلہ یمن میں آباد تھا۔ ان میں اشاعت اسلام کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا۔ وہ وہاں چھ (6) ماہ تک رہے ۔ اسلام نہ پھیلا ۔ نبی ﷺ نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اس قبیلہ میں اشاعت اسلام کے لیے مامور فرمایا۔ ان کے فیضان سے تمام قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہو گیا۔،*.
*★_ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط جب نبی ﷺ نے سنا تو سجدہ شکر ادا کیا اور زبان مبارک سے فرمایا: السلام علی همدان (همدان کو سلامتی ملے)، یہ وفد انہی لوگوں کا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ایمان لا چکے تھے اور دیدار نبوی ﷺ سے مشرف ہونے آئے تھے۔*
[2/8, 7:39 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (11)_ وفد طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ :- طارق بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں مکہ کے'’سوق الحجاز‘‘ میں کھڑا تھا ، اتنے میں ایک شخص وہاں آیا جو پکار پکار کر کہتا تھا۔ "لوگو! لا إله إلا الله کہو فلاح پاؤ۔"*
*"_ایک دوسرا شخص اس کے پیچھے آیا جو کنکریاں اسے مارتا اور کہتا تھا:۔" اسے سچا نہ سمجھو، یہ جھوٹا شخص ہے ۔‘‘*
*"_میں نے دریافت کیا کہ یہ کون کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ تو بنی ہاشم میں سے ایک ہے جو اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ سمجھتا ہے ۔ اور دوسرا اس کا چچا عبدالعزی ہے ( ابولہب کا نام عبد العزی تھا )*
*★_ طارق کہتا ہے کہ اس کے بعد برسوں گزر گئے اور نبی ﷺ مدینہ جا رہے ۔ اس وقت ہماری قوم کے چند لوگ جن میں میں بھی تھا، مدینہ گئے ۔ تاکہ وہاں کی کھجوریں مول لائیں ۔ جب مدینہ کی آبادی کے متصل پہنچ گئے تو ہم اس لیے ٹھہر گئے کہ سفر کے کپڑے اتار کر دوسرے کیڑے بدل کر شہر میں داخل ہوں گے۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس پر دو پرانی چادریں تھیں ۔ اس نے سلام کے بعد پوچھا کہ کدھر سے آۓ ، کدھر جاؤ گے؟ ہم نے کہا کہ ربذہ سے آۓ ہیں اور یہیں تک قصد ہے ۔ پوچھا: ”مدعا کیا ہے؟‘‘*
*"_ہم نے کہا کہ کھجوریں خرید کرنی ہیں ۔‘‘ ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ تھا جس کے مہار ڈالی ہوئی تھی ۔*
*★_ اس شخص نے کہا: یہ اونٹ بیچتے ہو؟‘‘ ہم نے کہا:-ہاں، اس قدر کھجوروں کے بدلے دیں گے ۔‘‘ اس شخص نے یہ سن کر قیمت گھٹانے کی بابت کچھ بھی نہیں کہا اور مہار شتر سمبھال کر شہر کو چلا گیا۔ جب شہر کے اندر جا پہنچا تو اب آپس میں لوگ کہنے لگے کہ یہ ہم نے کیا کیا ؟ اونٹ ایسے شخص کو دے دیا جس سے ہم واقف تک نہیں اور قیمت کے وصول کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا۔*
*"_ ہمارے ساتھ ایک ہودج نشین (سردارقوم) کی عورت بھی تھی ۔ وہ بولی کہ میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا کہ چودہویں رات کے چاند کے روشن حصے جیسا تھا اگر ایسا آدی قیمت نہ دے تو میں ادا کروں گی ۔*
*★_ ہم یہی باتیں کر رہے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا۔ کہا- مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے (اور قیمت شتر ) کی کھجوریں بھیجی ہیں ۔ ( تمہاری ضیافت کی کھجوریں الگ ہیں) کھاؤ پیو اور قیمت کی کھجوروں کو ناپ کر پورا کر لو۔ جب ہم کھا پی کرسیر ہوئے تو شہر میں داخل ہوۓ، دیکھا کہ وہی شخص مسجد کے منبر پر کھٹرا وعظ کر رہا ہے ۔ ہم نے مندرجہ ذیل آپ ﷺ کے الفاظ سنے، ( ترجمہ) "لوگو! خیرات دیا کرو۔ خیرات کا دینا تمہارے لیے بہتر ہے ۔ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ ماں کو ، باپ کو ، بہن کو, بھائی کو, پھر قریبی کو اور دوسرے قریبی کو دو_,"*
[2/10, 10:32 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (12) وفد نجیب :- قبیلہ نجیب کے تیرہ (13) شخص حاضر ہوئے تھے۔ یہ اپنے قوم کے مال و مواشی کی زکوۃ لے کر آۓ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس لے جاؤ اور اپنے قبیلہ کے فقراء پر تقسیم کر دو ۔ انھوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم - فقراء کو دے کر جو بچ رہا ہے، ہم وہی لے کر آۓ ہیں ۔*
*"_ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے بہتر کوئی وفد اب تک نہیں آیا۔*
*"_رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہدایت اللہ عز وجل کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ جس کی بہبودی چاہتا ہے اس کے سینہ کو ایمان کےلیے کھول دیتا ہے _,*
*( مصنف ابن ابی شیبہ، 3/222)*
*★_ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند باتوں کا سوال کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو جوابات لکھوا دیے تھے۔ جولوگ سمجھتے ہیں کہ احادیث رسول آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قلم بند نہیں کی گئیں ۔ وہ اس واقعہ پر زیادہ غور کریں۔*
*_ یہ لوگ واپسی کی اجازت کے لیے بہت ہی اضطراب ظاہر کرتے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ تم یہاں سے جانے کے لیے کیوں گھبراتے ہو؟*
*"_ کہا: دل میں یہ جوش ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دیدار سے جو انوار ہم نے حاصل کیے ہیں، نبی ﷺ کی گفتار سے جو فیوض ہم نے پاۓ ، جو برکات اور فوائد ہم کو یہاں آ کر حاصل ہوۓ ان سب کی اطلاع اپنی قوم کو جلد پہنچائیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو عطیات سے سرفراز کیا اور رخصت فرمایا۔*
*★_ پوچھا- کوئی شخص تم میں سے باقی بھی رہا ہے؟ انھوں نے کہا- ہاں ! ایک نوجوان لڑکا ہے جسے اسباب کے پاس ہم نے چھوڑ دیا تھا۔ فرمایا- اسے بھی بھیج دینا۔ وہ حاضر ہوا تو اس نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! حضور نے میری قوم کے لوگوں پر لطف و رحمت کی ہے، مجھے بھی کچھ مرحمت فرمایئے ۔*
*"_فرمایا- تم کیا چاہتے ہو؟ کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! میرا مدعا اپنی قوم کے مدعا سے الگ ہے۔ اگر چہ میں جانتا ہوں کہ وہ یہاں اسلام کی محبت سے آۓ ہیں اور صدقات کا مال بھی لاۓ تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا- تم کیا چاہتے ہو؟*
*"_ کہا: میں اپنے گھر سے صرف اس لیے آیا تھا کہ حضور میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کرے اور میرے دل کو غنی بنا دی_,*
*★_ اس کے لیے نبی ﷺ نے اس کے لئے یہی دعا فرما دی ۔ 10 ہجری کو جب رسول اللہ ﷺ نے حج کیا تو اس قبیلہ کے لوگ پھر حضور ﷺ سے ملے ۔ نبی ﷺ نے پوچھا: اس نوجوان کی کیا خبر ہے؟ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! اس جیسا شخص کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اس جیسا قانع کوئی سنا ہی نہیں گیا۔ اگر دنیا بھر کی دولت اس کے سامنے تقسیم ہورہی ہوتو و نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔*
*( زادالمعاد- 650-651)*
[2/11, 8:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_(15) وفد بہراء:- یہ لوگ مدینے میں آۓ ۔ مقداد رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے آ کر اونٹ بٹھلاۓ ۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے گھر والوں سے کہا کہ ان کے لیے کچھ تیار کرو اور خود ان کے پاس گئے اور خوش آمدید کہہ کر اپنے گھر پر لے آۓ ۔ ان کے سامنے’حیش‘‘ رکھا گیا۔ حیش ایک کھانا ہے جو کھجور اورستو ملا کر گھی میں تیار کیا جا تا ہے۔ گھی کے ساتھ بھی چر بی بھی ڈال دیا کرتے ہیں ۔*
*"__ اس کھانے میں سے کچھ نبی ﷺ کے لیے بھی مقداد رضی اللہ عنہ نے بھیجا۔ نبی ﷺ نے کچھ کھا کر وہ برتن واپس فرما دیا۔ اب مقداد رضی اللہ عنہ دونوں وقت وہی پیالہ ان مہمانوں کے سامنے رکھ دیتے، وہ مزے لے لے کر کھایا کرتے ،مگر کھانا کم نہ ہوا کرتا تھا ۔*
*★_ ان لوگوں کو دیکھ کر یہ حیرت ہوئی، آ خر ایک روز اپنے میزبان سے پوچھا:- مقداد ! ہم نے تو سنا تھا کہ مدینے والوں کی خوراک ستو ، جو وغیرہ ہیں ۔ تم تو ہمیں ہر وقت وہ کھانا کھلاتے ہو جو ہمارے ہاں بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے، جو ہر روز ہم کو میسر بھی نہیں آ سکتا اور پھر ایسا لذیذ کہ ہم نے کبھی ایسا کھایا بھی نہیں ۔*
*"_مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا: صاحبو ! یہ سب کچھ آ نحضرت ﷺ کی برکت ہے کیوں کہ آنحضرت ﷺ کے انگشت ہاۓ مبارک لگ چکی ہیں ۔*
*★_ یہ سنتے ہی سب نے باتفاق کہا اور اپنا ایمان تازہ کیا کہ بے شک وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں،*
*"_یہ لوگ مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ پہرے، قرآن اور احکام سیکھے اور واپس چلے گئے،*
وفد عذرہ کا بیان
بماہ صفر 9 ہجری یہ وفد حاضر ہوا تھا۔12 شخص اس میں تھے۔ ان میں حمزہ بن نعمان بھی تھا۔ نبیملی نے پوچھا تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: ہم بنی عذرہ ہیں اور قصی کے ( ماں کی طرف سے ) بھائی ہیں ۔ ہم نے قصی کو ترقی دلائی اور خزانہ اور بنی بکر کو مکہ سے باہر نکالا تھا۔ اس لیے ہم کو قرابت حاصل ہے اور نسب بھی ۔ آنحضرت نے مرحبا خوش آمد یدفر مایا۔ اور یہ بھی بشارت سنائی کہ عنقریب شام فتح ہو جائے گا ۔ ہرقل ان کے علاقہ سے بھاگ جائے گا ۔ پھر حضرت سیم نے حکم دیا کہ کاہنوں سے جا کر سوال نہ کیا کر میں اور جوقربانیاں وہ کیا کرتے ہیں آئندہ نہ کر لیں ۔ اب صرف عید اضحی کی قربانی باقی رہ گئی۔ بیالوگ پکچھ دنوں مدینہ طیبہ میں رہے اور پھر انعام و جائزہ سے مشرف ہوکر رخصت ہوۓ ۔ وفدخولان
سیدس( 10 ) شخص تھے جو بماہ شعبان 10 ہجری کو خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے تھے ۔ انھوں نے آ کر عرض کیا کہ ہم اپنی قوم کے پسماندوں کی جانب سے دکیل ہوکر آئے ہیں ۔ اللہ اور رسول پر ہمارا ایمان ہے ۔ ہم حضوری کام کی خدمت میں لمبا سفر طے کر کے آئے ہیں اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ اور رسول م ﷺﷺ کا ہم پر احسان ہے ۔ ہم یہاں محض زیارت کے لیے حاضر ہوۓ ہیں۔ مقداد بن عمرو بن طلبہ میں تو قوم کندہ سے میں بوجہ تبنیت قرشی اگر مری کہلاتے ہیں ۔ نجیائی رسول اور فضلا صحابہ میں سے ہیں ۔35 ہجری کو بھر 70 سال وفات پائی ۔ مدینہ میں دفن ہوۓ ۔ (2) زاد المعاد 656/3،ابن سعد : 1/1 33 ،ابن سیدالناس 1/2 25- زادالمعاد :657/3 ابن سعد :33/1 ابن سیدالناس 252,251/2
ان جلد اول - 188 اسلامی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من زارني بالمدينة كان في جواري يوم القيمة 2 (جس نے مدینہ آ کر میری زیارت کی ، وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ ہوگا ) پھر رسول اللہ یار نے دریافت فرمایا: ’’عم انس کا کیا ہوا؟‘‘ ( یہ ایک بت کا نام ہے جو اس قوم کا معبودتھا ) وفد نے عرض کیا: ہزارشکر ہے کہ اللہ نے حضور ایم کی تعلیم کو ہمارے لیے اس کا بدل بنادیا ہے ۔ بعض بوڑھے اور بوڑھی عورتیں
رہ گئی ہیں جو اس کی پوجا کیے جاتی ہیں ۔ اب ان شاءاللہ ہم اسے جا کر گراد میں گئے ۔ ہم مدتوں دھوکے اور فتنہ میں رہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی دن کا واقعہ توسناؤ۔ وفد نے عرض کیا: یارسول اللہ یا ایک دفعہ ہم نے سو(100) نرگا و ( بیل ) جمع کیے اور دوسب کے سب ایک ہی دن عم انس
[2/12, 8:15 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (13)_ وفد بنی سعد ھذیم:- یہ قبیلہ قضاع کی ایک شاخ تھی ، جس وقت یہ مسجد نبوی ﷺ میں پہنچے تو دیکھا کہ نبی ﷺ ایک جنازہ کی نماز پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پیشتر ہم کو کوئی کام بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اس لیے ایک طرف ہوکر الگ بیٹھے رہے، جب آنحضرت ﷺ ادھر سے فارغ ہوئے ، ان کو بلایا، پوچھا: کیا تم مسلمان ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں ۔فرمایا تم اپنے بھائی کے لیے دعا میں کیوں شامل نہ ہوۓ؟*
*★_ عرض کیا- ہم سمجھتے تھے کہ بیعت رسول ﷺ سے پہلے ہم کوئی کام بھی کرنے کے مجاز نہیں ۔فرمایا - جس وقت تم نے اسلام قبول کیا اسی وقت سے تم مسلمان ہو گئے ہو۔*
*"_ اتنے میں وہ مسلمان بھی آ پہنچا جسے یہ اپنی سواریوں کے پاس بٹھلا آۓ تھے۔ وفد نے کہا- یارسول اللہ ﷺ ! یہ ہم سے چھوٹا ہے اور اس لیے ہمارا خادم ہے، فرمایا- ہاں ( چھوٹا) اپنے بزرگوں کا خادم ہوتا ہے، اللہ اسے برکت دے ، اس دعا کی یہ برکت ہوئی کہ یہ وہی قوم کا امام اور قرآن مجید کا قوم میں سب سے اچھا جاننے والا ہو گیا، جب وفد وطن کو گیا تو تمام قبیلہ میں اسلام پھیل گیا،*
[2/12, 8:37 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★(14)_ وفد بنواسد :- یہ دس (10) شخص تھے ،جن میں وابصہ بن معبد اورطلحہ بن خویلد بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ اصحاب کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے ان میں سے ایک نے کہا: یارسول اللہ ﷺ ! ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ اکیلا ہے، لاشریک ہے اور آپ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ دیکھیے یا رسول اللہ ﷺ ! ہم از خود حاضر ہو گئے ہیں اور آپ نے ہمارے ہاں کوئی آدمی بھی نہ بھیجا۔*
*★_ اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ (سورۃ- الحجرات آیت نمبر 17)*
*"_ يَمُنُّوۡنَ عَلَيۡكَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَىَّ اِسۡلَامَكُمۡ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيۡكُمۡ اَنۡ هَدٰٮكُمۡ لِلۡاِيۡمَانِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞*
*’’( ترجمہ)_ یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ اسلام لے آۓ ہیں ، کہہ دو کہ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ تم پر اس بات کا احسان جتاتا ہے کہ اس نے تم کو اسلام کی ہدایت کی ۔ اگر تم اس دعویٰ میں سچے بھی ہو۔‘‘*
*★_ پھر ان لوگوں نے سوال کیا کہ جانوروں کی بولیوں اور شگونوں وغیرہ سے فال لینا کیسا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ان سب سے انھیں منع فرمایا۔* *"_انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! ایک بات باقی رہ گئی ہے ۔ یعنی خط کشی ( رمل ) اس کی بابت کیا ارشاد ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے ایک نبی علیہ اسلام نے لوگوں کو سکھلایا تھا جس کسی کوصحت سے وہ علم مل گیا بے شک وہ تو علم ہے،*
*(مسلم:537،احمد 447/5، ابوداؤد 930، زادالمعاد:655/3)*
[2/12, 9:25 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_(15) وفد بہراء:- یہ لوگ مدینے میں آۓ ۔ مقداد رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے آ کر اونٹ بٹھلاۓ ۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے گھر والوں سے کہا کہ ان کے لیے کچھ تیار کرو اور خود ان کے پاس گئے اور خوش آمدید کہہ کر اپنے گھر پر لے آۓ ۔ ان کے سامنے’حیش‘‘ رکھا گیا۔ حیش ایک کھانا ہے جو کھجور اورستو ملا کر گھی میں تیار کیا جا تا ہے۔ گھی کے ساتھ بھی چر بی بھی ڈال دیا کرتے ہیں ۔*
*"__ اس کھانے میں سے کچھ نبی ﷺ کے لیے بھی مقداد رضی اللہ عنہ نے بھیجا۔ نبی ﷺ نے کچھ کھا کر وہ برتن واپس فرما دیا۔ اب مقداد رضی اللہ عنہ دونوں وقت وہی پیالہ ان مہمانوں کے سامنے رکھ دیتے، وہ مزے لے لے کر کھایا کرتے ،مگر کھانا کم نہ ہوا کرتا تھا ۔*
*★_ ان لوگوں کو دیکھ کر یہ حیرت ہوئی، آ خر ایک روز اپنے میزبان سے پوچھا:- مقداد ! ہم نے تو سنا تھا کہ مدینے والوں کی خوراک ستو ، جو وغیرہ ہیں ۔ تم تو ہمیں ہر وقت وہ کھانا کھلاتے ہو جو ہمارے ہاں بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے، جو ہر روز ہم کو میسر بھی نہیں آ سکتا اور پھر ایسا لذیذ کہ ہم نے کبھی ایسا کھایا بھی نہیں ۔*
*"_مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا: صاحبو ! یہ سب کچھ آنحضرت ﷺ کی برکت ہے کیوں کہ آنحضرت ﷺ کے انگشت ہاۓ مبارک لگ چکی ہیں ۔*
*★_ یہ سنتے ہی سب نے باتفاق کہا اور اپنا ایمان تازہ کیا کہ بے شک وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں،*
*"_یہ لوگ مدینہ منورہ میں کچھ عرصہ پہرے، قرآن اور احکام سیکھے اور واپس چلے گئے،*
[2/12, 9:44 PM] Haqq Ka Daayi Official: *(16)_ وفد عذرہ کا بیان :- بماہ صفر 9 ہجری یہ وفد حاضر ہوا تھا۔ 12 شخص اس میں تھے۔ ان میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ نبی ﷺ نے پوچھا- تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: ہم بنی عذرہ ہیں اور قصی کے ( ماں کی طرف سے ) بھائی ہیں ۔ ہم نے قصی کو ترقی دلائی اور خزاعہ اور بنی بکر کو مکہ سے باہر نکالا تھا۔ اس لیے ہم کو قرابت حاصل ہے اور نسب بھی ۔*.
*★_ آنحضرت ﷺ نے مرحبا خوش آمد یدفر مایا۔ اور یہ بھی بشارت سنائی کہ عنقریب شام فتح ہو جائے گا ۔ ہرقل ان کے علاقہ سے بھاگ جائے گا ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ کاہنوں سے جا کر سوال نہ کیا کریں اور جو قربانیاں وہ کیا کرتے ہیں آئندہ نہ کریں ۔ اب صرف عید الضحیٰ کی قربانی باقی رہ گئی۔ یہ لوگ کچھ دنوں مدینہ طیبہ میں رہے اور پھر انعام و جائزہ سے مشرف ہوکر رخصت ہوۓ ۔*
*_(17)_ وفد خولان :- یہ دس ( 10 ) شخص تھے جو بماہ شعبان 10 ہجری کو خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے تھے ۔ انھوں نے آ کر عرض کیا کہ ہم اپنی قوم کے پسماندوں کی جانب سے وکیل ہوکر آئے ہیں ۔ اللہ اور رسول پر ہمارا ایمان ہے ۔ ہم حضور ﷺ کی خدمت میں لمبا سفر طے کر کے آئے ہیں اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ اور رسول ﷺ کا ہم پر احسان ہے ۔ ہم یہاں محض زیارت کے لیے حاضر ہوۓ ہیں۔*
*★_ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:- جس نے مدینہ آ کر میری زیارت کی، وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ ہوگا، پھر رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’عم انس کا کیا ہوا؟‘‘ ( یہ ایک بت کا نام ہے جو اس قوم کا معبود تھا ) وفد نے عرض کیا: ہزار شکر ہے کہ اللہ نے حضور ﷺ کی تعلیم کو ہمارے لیے اس کا بدل بنا دیا ہے ۔ بعض بوڑھے اور بوڑھی عورتیں رہ گئی ہیں جو اس کی عبادت کیے جاتی ہیں ۔ اب ان شاءاللہ ہم اسے جا کر گرا دیں گے ۔*
*★_ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرائض دین سکھلائے اور خصوصیت سے ان باتوں کی نصیحت فرمائی ۔ عہد پورا کرنا، امانت کا ادا کرنا، ہمسایہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنا، کسی ایک شخص پر بھی ظلم نہ کرنا۔ یہ بھی فرمایا کہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہوگا_,"*
*( زادالمعاد -3/662,)*
[2/12, 9:53 PM] Haqq Ka Daayi Official: *(18)_ وفد محارب :- یہ دس (10) شخص تھے جو قوم کے وکیل ہوکر 10 ہجری میں آۓ تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ ان کی مہمانی کے لیے مامور تھے۔ صبح و شام کا کھانا وہی لایا کرتے تھے۔ ایک روز ظہر سے عصر تک کا پورا وقت نبی ﷺ نے انھیں کو دیا۔ ان میں سے ایک شخص کو نبی ﷺ نے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ پھر فرمایا - میں نے تمھیں پہلے بھی دیکھا ہے۔ یہ شخص بولا: اللہ کی قسم ہاں۔ حضور ﷺ نے مجھے دیکھا بھی تھا اور مجھ سے بات بھی کی تھی اور میں نے بدترین کلام سے حضور ﷺ کو جواب دیا اور بہت بری طرح سے حضور ﷺ کے کلام کو رد کیا تھا۔ یہ بازار عکاظ کا ذکر ہے جہاں حضور ﷺ لوگوں کو سمجھاتے پھرتے تھے۔*
*★_ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے ۔ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! اس روز میرے دوستوں میں مجھ سے بڑھ کر کوئی بھی حضور ﷺ کی مخالفت کرنے والا اور اسلام سے دور دور رہنے والا نہ تھا۔ وہ سب تو اپنے آبائی مذہب پر ہی مر گئے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے آج تک باقی رکھا اور حضور ﷺ پر ایمان لانا مجھے نصیب ہوا۔*.
*"_ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:- سب کے دل اللہ عز وجل کے ہاتھ میں ہیں۔‘‘*
*★"_ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! میری پہلی حالت کے لیے معافی کی دعا فرمائیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” اسلام ان سب باتوں کو مٹا دیتا ہے جو کفر میں ہوئی ہوں۔‘‘ ( زادالمعاد 3/663-664)*
[2/14, 8:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_(19)_ وفد غسان کا حال :- رمضان 10 ہجری میں قبیلہ غسان کے تین شخص نبی ﷺ کی خدمت میں آئے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی قوم کی ہدایت کا ارادہ کر کے واپس گئے تھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اشاعت اسلام میں کامیابی نہ ہوئی ۔ ان میں سے دو پہلے وفات پا چکے تھے اور ایک اس وقت تک زندہ تھا جب کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے شام کو فتح کیا تھا۔*
*★"_(20)_وفد بنی الحارث:- یہ وفد شوال 10 ہجری میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا تھا۔ ان کے علاقہ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اشاعت اسلام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ان کی تعلیم سے لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی خدمت میں اطلاع بھیج دی اور خود ان کی تعلیم کے لیے وہاں ٹھہر گئے۔ نبی ﷺ نے لکھ بھیجا کہ تم واپس آ جاؤ اور قوم کے چند سرکردو لوگوں کو بھی ساتھ لاؤ۔ اسی وفد میں قیس بن الحصین و عبداللہ بن قراد وغیرہ تھے۔*
*★"_ نبی ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کیا وجہ ہے کہ جاہلیت میں جس کسی نے تم سے جنگ کی وہ مغلوب ہی ہوا۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! ہم خود کسی پر چڑھ کر نہیں جاتے ۔ جب لڑائی کے لیے جمع ہوتے ہیں تو پھر متفرق نہیں ہوتے ۔اپنی طرف سے ظلم کی ابتدا نہیں کرتے ۔*
*"_نبی ﷺ نے فرمایا:’’ سچ ہے ، یہی وجہ ہے ۔*
[2/17, 7:48 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (21) وفد بنی عیش کا حال:- یہ وفد انتقال مبارک سے چار ماہ پیشتر آیا تھا۔ یہ علاقہ نجران کے باشندے تھے۔ یہ لوگ مسلمان ہو کر آئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! ہم نے منادان اسلام سے سنا ہے کہ حضور ﷺ یہ ارشاد فرماتے ہیں: لا إسلام لمن لا هجرة له۔*
*"_ ہمارے پاس زر و مال بھی ہے اور مویشی بھی ۔ جن پر ہماری گزران ہے ۔ پس اگر ہجرت کے بغیر ہمارا اسلام ہی ٹھیک نہیں تو مال ومتاع ہمارے کیا کام آئیں گے اور مویشی ہمیں کیا فائدہ دیں گے؟ بہتر ہے کہ ہم سب کچھ فروخت کر کے سب کے سب خدمت عالی میں حاضر ہوجائیں۔*
*★_ نبی ﷺ نے فرمایا:- جہاں آباد ہو، وہیں رہ کر خدا ترسی کواپنا شیوہ بناۓ رکھو، تمہارے اعمال میں ذرہ بھی کمی نہیں آۓ گی۔*
*"_ اس جواب میں نبی ﷺ نے یہ بتلا دیا ہے کہ سب مسلمانوں کو مرکز اسلام میں جمع ہو کر اسلامی رقبہ کو محدود و تنگ کر لینا مناسب نہیں۔ مسلمانوں کو مختلف و دور دست ملکوں میں پہنچنا اور اسلام کی دعوت کو پہنچانا چاہیے۔ جو لوگ اب تک ترک وطن کر کے اسلامی ملکوں میں جا بسنے کو بہتر سمجھتے ہیں انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا کرنا آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے برخلاف ہے اور صوابدید مذہب کے بھی خلاف ہے۔*
*★_ (22)_ وفد غامد کا بیان :- یہ وفد 10 ہجری میں آیا تھا۔ اس میں دس (10) آدمی تھے۔ یہ مدینہ سے باہرآ کر اترے۔ ایک لڑکے کو بٹھلا کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوۓ ۔ نبی ﷺ نے پوچھا کہ تم اسباب کے پاس کسے چھوڑ کر آۓ ہو، انہوں نے کہا: ایک لڑکے کو ۔ فرمایا- تمھارے بعد وہ سو گیا۔ ایک شخص آیا ، خورجی ( کپڑوں والا صندوق ) چرا کر لے گیا۔*
*"_ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ ﷺ ! خورجی تو میری تھی ۔ فرمایا- گھبراؤ نہیں وہ لڑکا اٹھا۔ چور کے پیچھے پیچھے بھا گا اسے جا پکڑا ۔ سب اسباب صحیح سالم مل گیا۔*
*★_ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت سے جب واپس پہنچے تو لڑکے سے معلوم ہوا کہ ٹھیک اسی طرح اس کے ساتھ ماجرا ہوا تھا۔ یہ لوگ اس امر پر مسلمان ہو گئے ۔ نبی ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو مقرر فرما دیا کہ انھیں قرآن یاد کرائیں اور شرائع اسلام سکھلا دیں۔ جب وہ واپس جانے لگے تو انھیں شرائع اسلام ایک کاغذ میں لکھوا کر دیئے گئے_،*
[2/19, 6:40 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_( 23)_ وفد بنی فزارہ :- جب رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس آۓ تو بنی فزارہ کا ایک وفد جس میں دس پندرہ آدمی شامل تھے، خدمت مبارک میں حاضر ہوا۔ ان کو اسلام کا اقرار تھا، ان کی سواری میں لاغر کمزور اونٹ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ تمھاری بستیوں کا کیا حال ہے؟ ایک نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! بستیوں میں قحط ہے، مویشی مر گئے ۔ باغ خشک ہو گئے ۔ بال بچے بھوکے مر رہے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ ہماری فریاد سنے ۔ آپ ہماری سفارش اللہ سے کریں، اللہ ہماری سفارش آپ سے کرے۔*
*★_ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا- اللہ ان باتوں سے پاک ہے ۔خرابی ہو تیرے لیے ۔ بھلا میں تو اللہ کے شفاعت کروں گا۔ لیکن اللہ کس کے پاس شفاعت کرے۔ وہ معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ سب سے بزرگ تر ہے ۔آ سمانوں اور زمین پر اسی کا حکم ہے، آنحضرت نے ان کی قوم میں بارش کے لیے دعا فرمائی،*
*★_(24)_ وفد سلاماں- شوال 10 ہجری میں آئے اس وفد میں سات (7) اشخاص تھے ۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے تھے۔ انہی میں حبیب بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے، انھوں نے سوال کیا تھا- سب اعمال سے افضل کیا چیز ہے؟*
*"_رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:- ’وقت پر نماز پڑھنا‘،‘*
*★_ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں بارش نہیں ہوئی ۔ دعافر مایئے, رسول اللہ ﷺ نے زبان سے فرمایا- اللهم اسقهم الغيث في دارهم، (اے اللہ ان کے گھر میں بارش برسا دے), حبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! ان مبارک ہاتھوں کو اٹھا کر دعا فرمایئے ۔ نبی ﷺ مسکرائے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کر دی ۔ جب وفد اپنے وطن لوٹ کر گیا تو معلوم ہوا کہ ٹھیک اسی روز بارش ہوئی تھی جس دن نبی ﷺ نے دعا فرمائی تھی ۔*
[2/19, 4:47 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (25)_ وفد نجران : ان جملہ روایات پر جو وفد نجران کے عنوان کے تحت میں دوادین احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیان نجران کے معتمد دو دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوۓ تھے ۔ اس لیے اس ترتیب سے انکا ذکر کیا جا تا ہے۔*
*★_ ابوعبداللہ حاکم کی روایت عن یونس بن بکیر میں ہے کہ نبی ﷺ نے اہل نجران کو دعوت اسلام کا خط تحریر فرمایا تھا۔ جب اسقف نے اس خط کو پڑھا تو اس کے بدن پر لرزہ پڑ گیا اور وہ کانپ اٹھا۔ اس نے فوراً شرحبیل بن وداعہ کو بلایا۔ یہ قبیلہ ہمدان کا شخص تھا۔ کوئی بڑا کام بغیر اس کی رائے کے حاکم یا مشیر یا پادری طے نہیں کیا کرتے تھے۔ اسقف نے اسے خط دیا اور اس نے پڑھ لیا تو استقف بولا: ”ابومریم ! فرمایئے ! آپ کی کیا راۓ ہے؟‘‘*
*★_ شرحبیل نے کہا: ” صاحب یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ سلام سے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ اسماعیل علیہ سلام کی نسل میں نبوت بھی ہوگی ۔ ممکن ہے کہ یہ وہی شخص ہو لیکن نبوت کے متعلق میری کیا رائے ہو سکتی ہے ۔ کوئی دنیوی بات ہوتی تو میں اس پر پورا غور کر سکتا اور اپنی راۓ عرض کر سکتا تھا۔*
*"_استقف نے کہا: اچھا بیٹھ جائے ۔ اسقف نے پھر ایک دوسرے شخص کو جس کا نام عبداللہ بن شرحبیل تھا اور قوم حمیر سے تھا، بلایا اور نامہ مبارک دکھلا کر اس کی راۓ دریافت کی ۔ اس نے شرجیل جیسا جواب دیا۔ اسقف نے پھر ایک تیسرے شخص حبار بن قیص کو بلایا ۔ یہ ہنوالحارث بن کعب میں سے تھا۔ نامہ دکھلایا اور راۓ دریافت کی ۔ اس نے بھی ان دونوں کا سا جواب دیا۔*
*★_ جب استقف نے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی جواب نہیں دیتا تو اس نے حکم دیا کہ گھنٹے بجاۓ جائیں اور ٹاٹ کے پردے گرجا پر لٹکائے جائیں۔ ان کا دستور تھا کہ اگر کوئی مہم عظیم در پیش ہوتی تو لوگوں کے بلانے کا طریق دن کے لیے یہ تھا کہ گھنٹے بجاتے اور ٹاٹ کے پردے گرجا پر لٹگا دیتے اور رات کے لیے یہ تھا کہ گھنٹے بجاتے اور پہاڑی پر آگ روشن کر دیتے۔ اس گرجا کے متعلق تہتر (73) گاؤں تھے جن میں ایک لاکھ (100000) سے زیادہ جنگ جو مردوں کی آبادی تھی۔ جب کل علاقہ کے یہ لوگ ( سب کے سب عیسائی تھے ) جمع ہو گئے تو اسقف نے وہ نامہ مبارک سب کو سنایا اور راۓ دریافت کی ۔، مشورہ کے بعد قرار داد یہ ہوئی کہ شرجیل اور عبداللہ اور حبار کو نبی ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا جاۓ اور وہاں کے سب حالات معلوم کر کے مفصل بتلائیں ۔*
[2/19, 5:11 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور چند روز نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے متعلق گفتگو بھی کی ۔ اس گفتگو پر ان [آل عمران 59-61] آیات کا نزول ہوا۔*
*"_ (ترجمہ) عیسیٰ (علیہ السلام ) کی مثال اللہ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی سی ہے۔ اللہ نے اسے مٹی سے بنایا۔ پھر فرمایا کہ (انسان زندہ ) بن جا۔ وہ زندہ ہو گیا۔ کچی بات تیرے پروردگار کی جانب سے یہی ہے ۔اب تم اس رسی کو لمبا کھینچنے والوں میں نہ رہو اور جو کوئی تم سے اس علم کے بعد جھگڑا کرے، اسے کہہ دو کہ ہم اپنی اولاد کو بلاتے ہیں ۔ تم اپنی اولاد کو بلاؤ ۔ اسی طرح ہماری عورتیں اور تمہاری عورتیں ۔ ہم خود بھی اور تم خود بھی جمع ہوں ۔ پھر اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور اللہ کی لعنت جھوٹے پرڈالیں ۔*
*★"_ ان آیات کے نزول پر نبی ﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بھی بلایا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا (سیدۃ النساء العالمین ) بھی باپ کی پس پشت آ کر کھڑی ہوگئیں، ان عیسائیوں نے علیحد ہ ہو کر بات چیت کی ۔ شرجیل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس شخص کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا آسان نہیں ہے ۔ دیکھو تمام وادی کے لوگ اکٹھے ہوۓ ۔ تب انھوں نے ہم کو بھیجا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر بادشاہ ہے۔ تب بھی اس سے مباہلہ کرنا ٹھیک نہ ہوگا، کیوں کہ تمام عرب میں سے ہم ہی اس کی نگاہ میں کھلکتے رہیں گے اور اگر یہ نبی مرسل ہے ۔ تب تو اس کی لعنت کے بعد ہمارا تنکا بھی زمین پر باقی نہ رہے گا۔ اس لیے میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ ہم اس کی ماتحتی قبول کریں اور تم جزیہ کا فیصلہ بھی اس کی رائے پر چھوڑ دیں۔ کیوں کہ جہاں تک میں نے سمجھا ہے۔ یہ سخت مزاج نہیں ہے ۔*
*★_ دونوں ساتھیوں نے اتفاق کیا اور انھوں نے جا کر عرض کر دیا کہ مباہلہ سے بہتر ہمارے لیے یہ ہے کہ جو کچھ حضور ﷺ کے خیال میں کل صبح تک ہمارے لیے بہتر معلوم ہو۔ وہ ہم پر مقرر کر دیا جاۓ ۔ اگلے روز ان پر جزیہ مقرر کر دیا اور ایک معاہدہ جسے مغیرہ رضی اللہ عنہ صحابی نے لکھا تھا اور ابوسفیان بن حرب، غیلان بن عمرو، مالک ،عوف ، اقرع بن حابس صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت اس پر ثبت تھیں ۔ انھیں مرحمت فرمایا۔*
*★_ معاہدہ کا ایک فقرہ خاص طور پر قارئین کے لیے ملاحظہ طلب ہے کہ آ نحضرت ﷺ عیسائیوں کوکیسی فیاضی سے مراعات و حقوق مرحمت فرماتے تھے:-۔*
*"_ نجران والوں کو اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت حاصل ہوگی ۔ جان اور مذہب اور زمین اور جائداد کے متعلق ان سب کو جو حاضر یا غائب ہیں ۔ صاحب قبیلہ ہیں یا اتباع کرنے والے ہیں ۔ ان کی حالت میں اور حقوق میں کوئی تغیر نہ کیا جائےگا اور جو کچھ کم یا زیادہ ان کے قبضہ میں ہے اسے نہ بدلا جائے ۔ پچھلے زمانہ کی شہادت یاقتل کے تنازعات کے باعث ان پر مقدمات نہ چلائے جائیں گے ۔ وہ بیکار میں نہ پکڑے جائیں گے ، ان سے دو یکی ( عشر ) نہ لی جاۓ گی, ان کے علاقہ کو فوج سے عبور نہ کرے گی ۔*
[2/22, 5:59 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ فرمان حاصل کر کے یہ لوگ نجران کو واپس چلے گئے ۔ جب یہ لوگ نجران پہنچ گئے تو نجران کے گرجا میں رہنے والے ایک راہب نے جو گرجا کے برج کے بالائی حصہ پر ( سالہا سال سے) رہا کرتا تھا، چیخنا شروع کر دیا کہ مجھے اتارو ورنہ میں اوپر سےکود پڑوں گا۔ خواہ میری جان بھی جاتی رہے۔ یہ راہب بھی چند تحائف لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں روانہ ہو گیا۔ ایک پیالہ، ایک عصا ، ایک چادر اس نے بطور تحفہ پیش کی تھی ۔ وہ چادر خلفا ءعباسیہ کے عہد تک برابر محفوظ رہی تھی ۔ راہب نے کچھ عرصہ تک مدینہ میں ٹھہر کر اسلامی تعلیم سے واقفیت حاصل کی اور پھر آنحضرت ﷺ سے اجازت لیکر اور واپس آنے کا وعدہ کر کے نجران چلا گیا تھا۔ مگر نبی ﷺ کی حیات طیبہ تک واپس نہ گیا تھا۔*
*★_ کچھ عرصہ کے بعد اسقف ابوالحارث جو گرجا کا امام تھا اور قسطنطنیہ کے رومی بادشاہ اس کا نہایت ادب اور احترام کیا کرتے تھے اور عام لوگ اکثر کرامات وغیرہ اس کی ذات سے منسوب کیا کرتے تھے اور یہ شخص اپنے مذہب کا مجتہد شمار ہوتا تھا۔ نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچا ۔ باقی 24 مشہور سردار اور تھے۔ کل قافلہ ساٹھ (60) سواروں کا تھا۔ یہ عصر کے وقت مسجد نبوی ﷺ میں پہنچے تھے۔ وہ ان کی نماز کا وقت تھا ( غالباً اتوار کا دن ہوگا ) نبی ﷺ نے ان کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت فرما دی تھی اور انھوں نے مسجد سے مشرق کی جانب رخ کر کے نماز ادا کی تھی کہ بعض مسلمانوں نے انھیں مسجد نبوی ﷺ میں عیسائی طریقہ پر نماز پڑھنے سے روکنا چاہا تھا مگر آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو منع فرما دیا تھا۔*
*★_ یہودی بھی انھیں دیکھنے کے لیے آتے تھے اور کبھی کبھی کسی مسئلہ میں گفتگو بھی ہو جایا کرتی تھی ۔ ایک دفعہ نبی ﷺ کے سامنے یہودیوں نے بیان کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام یہودی تھے اور ان عیسائیوں نے کہا کہ وہ عیسائی تھے۔ اس بحث پر قرآن مجید کی آیات [آل عمران :65-68] کا نزول ہوا:-*
*’’( ترجمہ) ان سے کہو کہ اے کتاب والو ! ابراہیم علیہ سلام کے بارہ میں کیوں جھگڑا کرتے ہو، تورات اور انجیل تو اس کے بعد اتری ہیں ۔ جن باتوں میں تمہارے پاس کچھ علم نہیں اس بارے میں اللہ جانتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے اس میں تو جھگڑتے ہی تھے مگر جس بارہ میں کچھ بھی علم نہیں اس میں جھگڑا کیوں کرتے ہو۔ ابراہیم علیہ سلام یہودی تھا، نہ عیسائی تھا۔ وہ پکا موحد تھا اور مسلمان تھا اور وہ مشرک نہ تھا۔ سب خلقت میں ابراہیم علیہ سلام سے قریب تر وہ ہیں جنہوں نے اس کا اتباع کیا اور محمد ﷺ نبی کا اور ان پر ایمان رکھنے والے لوگ ۔ ہاں اللہ مومنین کا دوست دار ہے _"۔*
[2/23, 7:55 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک دفعہ یہودیوں نے ( مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں پر اعتراض کرنے کی غرض سے ) کہا: محمد ﷺ صاحب ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی بھی عبادت کرنے لگیں ،جیسا کہ عیسائی عیسیٰ علیہ سلام کی عبادت کیا کرتے ہیں ۔ نجران کا ایک عیسائی بولا: ہاں محمد ﷺ صاحب ! بتا دیجیے ، کیا آپ کا یہی ارادہ ہے اور اسی عقیدہ کی دعوت آپ دیتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی پناہ، کہ میں اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت کروں یا کسی دوسرے کو غیر اللہ کی عبادت کا حکم دوں ۔اللہ نے مجھے اس کام کے لیے نہیں بھیجا اور مجھے ایسا حکم بھی نہیں دیا گیا۔‘‘*
*★_ اس واقعہ پر قرآن مجید میں [آل عمران:79-80] آیات کا نزول ہوا:-*
*"_ ( ترجمہ)_ جس بشر کو اللہ کتاب اور حکم اور نبوت عنایت کرے یہ اس کے شایان نہیں کہ پھر وہ لوگوں سے کہنے لگے کہ اللہ کے سوا میرے بندے بن جاؤ ۔ وہ تو یہی کہا کرتا ہے کہ کتاب الہی کو سیکھ کر اور شریعت کا درس پا کر اللہ والے بن جاؤ۔ یہ بھی تو نہیں کہتا کہ فرشتوں کو یا نبیوں کو رب بنالو، بھلا وہ کفر کے لئے کہہ سکتا ہے، تم لوگوں کو جو اسلام لا چکے ہو _,"*
*★_ محمد بن سہیل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آل عمران کی شروع سے 80 آیات تک کا نزول بھی اسی وفد کی موجودگی میں ہوا تھا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو آنحضرت ﷺ سے پھر ایک سند انھوں نے حاصل کی ۔ جس میں گرجاؤں اور پادریوں کی بابت زیادہ صراحت تھی ۔ اس فرمان کی پوری نقل ذیل میں درج کی جاتی ہے :-*
*★_ بسم الله الرحمن الرحيم، یہ تحریر محمد نبی (ﷺ ) کی جانب سے ہے۔اسقف ابوالحارث کے لیے نجران کے دیگر اسقفوں ، کاہنوں ، راہبوں ان کے معتقدوں ، غلاموں اس مذہب والوں ، پولیس والوں کے متعلق اور ان کم یا زیادہ چیزوں کے متعلق جو ان کے ہاتھ میں ہیں ۔ سب کو اللہ اور رسول کی حفاظت حاصل ہوگی ۔ گرجا کے چھوٹے بڑے عہدہ داروں میں سے کسی کو بدلا نہ جائے گا۔ کسی کے حق میں یا اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے گی۔ ان کی موجودہ حالت میں تغیر نہ ہوگا بشرطیکہ رعایا کے خیر خواہ خیر اندیش رہیں۔ نہ ظالم کا ساتھ دیں اور نہ خود ظلم کریں ۔ (تحریر کنند و: مغیرہ بن شعبہ )*
*"_ چلتے وقت انھوں نے درخواست کی کہ ایک امانت دار شخص کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے گا جسے جزیہ ادا کر دیا کریں ۔ نبی ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ اورفرمایا کہ یہ شخص میری امت کا امین ہے،*
*"_ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے فیضان صحبت سے علاقہ میں اسلام پھیل گیا تھا۔*
[2/24, 7:25 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_(26)_ وفد نخع کا بیان :-*
*"_یہ وفد نصف ماہ محرم 11 ھ کو خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوا تھا۔ اس کے بعد کوئی وفد حاضر نہیں ہوا۔ یہ دو سو ( 200 ) اشخاص تھے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوکر آئے تھے۔ ان کو دارالضیافتہ ( مہمان خانہ ) میں اتارا گیا تھا۔ ایک شخص ان میں زرارہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تھے ۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے راستہ میں خواب دیکھے، جو عجیب تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : بیان کرو۔*
*★_ایک خواب اور اس کی تعبیر:-*
*"_ کہا میں نے دیکھا کہ ایک بکری نے بچہ دیا ہے جو سپید اور سیاہ رنگ کا ابلق ہے۔ نبی ﷺ نے پوچھا: کیا تمہاری عورت کے بچہ ہونے والا تھا۔ اس نے کہا: ہاں، نبی ﷺ نے فرمایا: کہ اس کے فرزند پیدا ہوا ہے جو تیرا بیٹا ہے ۔*
*"_زرارہ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! ابلق ہونے کے کیا معنی ہیں؟‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا- قریب آؤ۔ پھر آہستہ سے پوچھا -کیا تمہارے جسم پر برص کے داغ ہیں جسے تم لوگوں سے چھپاتے رہے ہو؟‘‘ زرارہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آج تک میرے اس راز کی کسی کو اطلاع نہ تھی ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بچہ پر یہ اسی کا اثر ہے۔*
*★_دوسرا خواب اور اس کی تعبیر:-*
*"_ زرارہ رضی اللہ عنہ نے دوسرا خواب سنایا کہ میں نے نعمان بن منذر کو دیکھا کہ گوشوارے ، بازوبند، خلخال پہنے ہوۓ ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ” اس کی تاویل ملک عرب ہے جو اب آسائش و آرائش حاصل کر رہا ہے۔*
*★_تیسر اخواب اور اس کی تعبیر:-*
*"_زرارہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑھیا ہے جس کے کچھ بال سفید اور کچھ سیاہ ہیں اور زمین سے باہر نکلی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ دنیا ہے جس قدر باقی رہ گئی ہے۔*
*★_چوتھا خواب اور اس کی تعبیر:-*
*"_زرارہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ ایک آگ زمین سے نمودار ہوئی ۔ میرے اور میرے بیٹے عمر کے درمیان آ گئی اور وہ آگ کہہ رہی ہے جھلسو جھلسو۔ بینا ہو کہ نابینا ہو۔ لوگو اپنی غذاء اپنا کنبہ اپنامال مجھے کھانے کے لیے دو۔"_نبی ﷺ نے فرمایا: یہ ایک فساد ہے جو آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا،*
*"_ زرارہ نے عرض کیا کہ یہ کیسا فتنہ ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا- لوگ اپنے امام کو قتل کر دیں گے ۔آ پس میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔ ایک دوسرے سے گتھ جائیں گے ۔ جیسے ہاتھوں کی انگلیاں پنجہ ڈالنے میں گتھ جاتی ہیں ۔ بدکار ان دنوں اپنے آپ کو نیکوکار سمجھے گا ، مومن کا خون پانی سے بڑھ کر خوشگوار سمجھا جاۓ گا ۔‘‘*
*"_ اگر تیرا بیٹا مر گیا تب تو اس فتنہ کو دیکھ لےگا ، تو مر گیا تو تیرا بیٹا دیکھ لے گا ۔ زرارہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! دعا کیجئے کہ میں اس فتنہ کو نہ دیکھوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :- الہی ! یہ اس فتنہ کو نہ پاۓ ۔ زرارہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور ان کا بیٹا بچ رہا۔ اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کو توڑ دیا تھا۔*
*( زادالمعاد -3/686,687 ابنِ سعد 1/246)*
[2/25, 5:02 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مد بینہ میں دس (10) سالہ قیام نبوی ﷺ کے اہم واقعات :-*
*"_ نبی ﷺ جب مکہ سے نکل کر مدینہ منورہ پہنچے تو ابھی اطمینان سے قیام بھی نہیں کیا تھا کہ دشمنان مکہ نے متواتر سازشوں، حملوں ،لڑائیوں سے نبی ﷺ اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ اس باب میں ان اہم واقعات کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے جو ایام قیام مدینہ منورہ میں ہوۓ ۔ میں نے اختصار کے لیے قریباً ہر سال کے متعلق ایک واقعہ ضرور قلم بند کیا ہے, اس باب پر غور کرنے سے قارئین کو سیرت پاک آنحضرت ﷺ کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہوں گی ، جن کے مطابق ضرورت ہے کہ امت اپنا رویہ درست کرے*
*★_ تعمیر مسجد نبوی ﷺ :- مسجد نبوی ﷺ جس جگہ بنائی گئی ہے نبی ﷺ کی ناقہ خود بخود اس جگہ آ کر بیٹھ گئی تھی ۔ جب آنحضرت ﷺ مکہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے۔ یہ جگہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ( نقیب محمدی ﷺ) کی تربیت ونگرانی میں تھے۔ اسعد رضی اللہ عنہ نے پہلے سے یہاں نماز کی مختصر سی جگہ بنا رکھی تھی ۔*
*★_ جب نبی ﷺ نے مسجد کے لیے اس جگہ کو پسند فرمایا تو ان پیتیم لڑکوں نے قیمت لینے سے انکار کیا اور قبیلہ بنوالتجار نے چاہا کہ اس کی قیمت ادا کرنے کی اجازت انھیں مل جاۓ ۔ نبی ﷺ نے دونوں باتیں منظور نہ فرمائیں ۔ زمین کی قیمت دس (10) دینار طے ہوۓ اور نبی ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ قیمت دلا دی اور پھر زمین کو ہموار و درست کر کے مسجد بنائی گئی جس کا طول سو(100) گز تھا۔*
*★_ مسجد کی تعمیر میں نبی ﷺ اینٹ پتھر خود بھی اٹھا کر لاتے تھے اور زبان مبارک سے فرماتے تھے: الہی ! زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے _*
*"_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنٹ گارا لا تے تھے اور یہ شعر رجز میں پڑھتے تھے:- "رسول اللہ ﷺ کام کریں اور ہم بیٹھے رہیں یہ بڑی گمراہی کا کام ہے ۔‘‘*
*★_ مسجد کی دیواریں جو کچی اینٹوں کی تھیں ، تین گز بلند تھیں ۔ کھجور کے تنے ستون کی جگہ اور کھجور کے پٹھے کڑی شہتیر کی جگہ ڈالے گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: چھت ڈال لیں تو اچھا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا- نہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام حبیا ’’عریش‘‘ ہی خوب ہے، یہ چھت ایسی تھی کہ اگر بارش ہو جاتی تو پانی ٹپکتا ۔مٹی گرتی ، فرش کیچڑ سا ہو جاتا ۔ مومنین اس پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔*
[2/26, 7:30 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا (1 ہجری)*
*"_ حضرت عبداللہ یہود کے بڑے فاضلوں میں سے ہیں ۔ یوسف صدیق علیہ السلام سے ان کا نسب ملتا ہے ۔ انھوں نے نبی ﷺ کو وعظ کرتے ہوۓ سن لیا۔ ذیل کے الفاظ یاد کر لیے تھے: ”لوگو! اپنے بیگانے سب کو سلام کیا کرو۔ کھانا کھلایا کرو ۔ قرابت داروں سے اچھا برتاؤ رکھو۔ رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تم اللہ کی عبادت کیا کرو۔_,"*
*"_ یہ دلنشین کلمات سن کر ان کا قلب نور ایمان سے روشن ہو گیا۔ نبی ﷺ کے حالات پر غور کیا تو پہلے نبیوں کی کتابوں کی پیش گوئیوں کو ذات مبارک پر منطبق پایا۔ نبی ﷺ کی خدمت مبارک میں آۓ اور چند مشکل مشکل مسائل جن کی بابت ان کا خیال تھا کہ نبی اللہ ﷺ ہی ان کا جواب دے سکتے ہیں، دریافت کیے ۔ جواب باصواب سن کر کہا: یا رسول اللہ ﷺ میں حضور ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں لیکن اظہار اسلام کے لیے چاہتا ہوں کہ اول میری قوم کے لوگوں کو بلا کر دریافت فرمالیا جاۓ کہ ان کی راۓ میرے لیے کیا ہے۔*
*★_ نبیﷺ نے اکابر یہود کوطلب فرمایا ۔عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ چھپ گئے تھے۔آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا: عبداللہ بن سلام تمھاری قوم میں کیسے ہیں ۔ سب نے کہا: وہ عالم بن عالم ،سید بن سید اور ہم سب سے بہتر ہیں ۔ یہود یہ کہہ ہی رہے تھے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اوٹ سے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوۓ سامنے آ گئے ۔*
*_ جب یہودیوں نے دیکھا کہ مسلمان ہو گئے ہیں تو اس وقت کہنے لگے کہ تو جاہل بن جاہل، ذلیل بن ذلیل شخص ہے اور ہم میں سب سے بدتر ہے۔*
*★_ رب کریم نے اس بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ کے اسلام سے جملہ یہود پراپنی حجت قائم فرمادی۔*
*"_حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بعد ابوقیس صرمہ بن ابی انس رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کیا۔ یہ عیسائی المذہب راہب نہایت فصیح شاعر و واعظ اور الہیات کے فاضل تھے۔ اس بزرگ کے اسلام سے رب رحیم نے جملہ نصاریٰ پر حجت قائم فرمادی،*
[2/27, 7:02 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ نماز :-*
*"_ اول ہجرت میں فرض نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ہوا۔ دو رکعتیں سفر کے لیے مقرر کی گئیں اور حضر میں نماز ظہر و عصر و عشاء کے لیے چار (4) رکعتیں کر دی گئیں ۔ ایام قیام مکہ میں دو( 2 ) ہی رکعتوں کا حکم رہا تھا۔ جب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مکہ میں کیوں کر ہر ایک مسلمان اسلام لاتے ہی غریب الوطن بن جا تا تھا۔ کیوں کہ اقارب و احباب اس سے بیگانہ و اغیار بن جاتے تھے اور کیوں کر ہر ایک مسلمان ہر وقت مکہ کے چھوڑ دینے پر آمادہ اور مستعد رہتا تھا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکہ میں سب مسلمان مسافرانہ ہی رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے بھی ان کو مدینہ میں پہنچ جانے کے بعد ہی مقیم تسلیم فرمایا۔*
*★_ نماز اسلام کا وہ رکن ہے جو مسلمان پر سب سے پہلے فرض ہوتا ہے ۔ ( سات (7) برس کے بچہ کا نماز پڑھنا مستحب ہے اور دس (10) برس کے بچے کا پڑھنا فرض ہے ) اور سب سے آخر تک فرض رہتا ہے ۔ ( یعنی تا عمر ) نماز کی فرضیت صحت و بیماری ،خوشی و غم ،سفر و حضر اور خوف و خطر غرض کسی حالت میں بھی مسلمان سے ساقط نہیں ہوتی ۔ خواہ ہم گرم تر ملک میں ہوں یا سرد سے سرد تر ملک میں ۔ کسی جگہ بھی کوئی موسم کوئی عارضہ ایسا نہیں جو مسلمان کو نماز کی معافی دیتا ہو۔*
*★_ مدت العمر تک عبادت الہی کی مداومت رکھنا کمال استقلال کا مظہر ہے۔ ہر روز پنج گانہ نماز کے اوقات کی حفاظت رکھنا۔ پابندی اوقات کی زبردست تعلیم ہے, جسم اور لباس اور مکان کو نجاست و آلودگی سے پاک و صاف رکھنے کا اہتمام صحت جسمانی کے قیام کی بہترین تدبیر ہے۔ دل و زبان ،اعضاء و دماغ کو عظمت الہی اور جلال کبریائی کے سامنے مؤدب و مہذب رکھنا ۔ نورانیت روحانی کے لیے عجیب روشنی ہے۔*
*★_ نماز میں جس قدر پابندی ہے وہ جلد سوجانے اور جلد جاگ اٹھنے کی جس طرح تعلیم دیتی ہے، وہ جس طرح ایک ٹائم ٹیبل Time Table ) کو اپنے ماتحت کر لیتی ہے، اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں شہوانی وانفسانی خیالات کو نماز کے ذریعے کیسے ملیامیٹ کیا گیا ہے۔ نماز کے لیے مسجد کی حاضری اور جماعت کی پابندی تمدن اور ترقی کی جان ہے۔ اتحاد و یگانگت اور تبادلہ خیالات کا پاک ترین ذریہ ہے ۔ ایک جاہل بھی بہت سی باتیں نظیر و نمونہ سے سیکھ سکتا اور ایک عالم بآسانی تبلیغ کر سکتا ہے ۔ ایک امیر غریب کے دوش بدوش کھڑا ہو کے مساوات کا سبق لیتا ہے اور غریب امیر کے برابر بیٹھ کر سچے دین کے انصاف سے اپنی روح کوخورسند کر سکتا ہے۔*
*★_ جولوگ نماز چھوڑ دیتے ہیں، یا مسجد کی حاضری اور جماعت کی پابندی میں سستی کرتے ہیں ، وہ ان اخلاقی فضائل سے محروم رہتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس قوم کے فرد ایسے اعلی اخلاق سے خالی ہوں گے وہ کیا ہوں گے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: إن الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر ولذكر الله اكبر [العنكبوت:45] ’’*
*"_ نماز ، نماز پڑھنے والوں کو ناپاک کاموں اور لائق انکار فعلوں سے روک دیتی ہے اور اللہ کے ذکر میں تو فوائد و فیوض انوار واسرار اس سے بھی بہت زیادہ اور بہت بڑھ کر ہیں ۔‘‘*
[2/28, 6:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مواخات ( بھائی چارہ) :-*
*"_ اللہ جل جلالہ نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی بتلایا ہے اور یوں ارشادفرمایا ہے :(- سورۃ آل عمران آیت نمبر 103)*
*"_ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا ؕ*
*’’اورتم سب اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ۔ تم لوگ تو آگ کے گھڑے کے کنارے پر تھے ۔ جس سے اللہ نے تمھیں نجات وخلاصی عنایت کی_,"*
*★_(١)_ اس اخوت کا اثر یہ تھا کہ ایک مسلمان کسی مخالف قوم سے معاہدہ کر لیتا تھا اور کل قوم اس معاہدہ کی کامل پابندی کرتی تھی ۔ ایک مسلمان اگر کسی دور دراز ملک میں چلا جاتا تھا تو تمام قوم اس کی خیر و عافیت کے لیے بےتاب رہتی تھی اور اگر وہ کسی ظلم کا شکار ہو جاتا تو تمام قوم اس کے انتظام اور خون بہا لینے کو اپنا اعلٰی فرض جانتی تھی۔ قوم کے ہر ایک یتیم، ہر ایک رانڈ، ہر ایک طالب علم کی ضروریات کا پورا کرنا ہرمسلمان اپنے لیے ایسا ہی فرض سمجھتا تھا جیسا اپنی اولاد اور ماں جائے بھائی کی اولاد و بیوی کے لیے سمجھتا تھا۔*
*★_(٢)_اس اخوت سے بڑھ کر ایک اور اخوت جسے نبی ﷺ ایک ایک شخص کے ساتھ قائم فرمایا کرتے ۔ایسی اخوت مکہ میں اہل مکہ کے درمیان اور مدینہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان ۔ نیز باہمی اخوت اہل مدینہ کے درمیان بھی قائم فرمائی گئی تھی ۔ جو مواخات مہاجرین و انصار کے درمیان قائم ہوئی وہ زیادہ تر مشہور ہے۔*
[2/28, 6:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_اس مواخات کے بعد باہمی تعلقات کا اثر یہاں تک ہوا کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کی وراثت میں حصہ لیتا تھا۔ اور بھائی بننے سے پہلے گھنٹہ بعد امیر بھائی غریب بھائی کو اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد کا نصف تقسیم کر دیتا۔ مؤرخین نے ان بزرگوں کے نام بھی درج کیے ہیں جن میں یہ سلسلہ مواخات مستحکم کیا گیا تھا۔ ہم تبرکاً چنداسماء مبارک درج کرتے ہیں:_*
*★_ محمد ﷺ - علی رضی اللہ عنہ،*
*"_ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ - خارجہ بن زید رضی. عقبی بدری,*
*"_عمر فاروق رضی. - عتبان بن مالک رضی. بدری,*
*"_عثمان ذوالنورین رضی. - اوس بن ثابت عقبی رضی. بدری,*
*"_جعفر بن ابی طالب رضی. ہاشمی - معاذ بن جبل عقبی رضی. بدری,*
*"_ابوعبیدہ بن جراح رضی - سعد بن معاذ رضی. بدری ,*
*"_عبدالرحمن بن عوف رضی.- سعد بن ربیع عقبی رضی. بدری,*
*"_زبیر بن العوام رضی.- سلمہ بن سلامہ رضی. عقبی,*
*"_طلحہ بن عبید الله رضی.- کعب بن مالک عقبی رضی،*
*"_سعید بن زید رضی- ابوایوب رضی. عقبی بدری,*
*"_ مصعب بن عمیر رضی- ابی بن کعب رضی. عقبی بدری،*
*"_ابو حذیفہ رضی. بن عتبہ - عباد بن بشر رضی،*
*"_ عمار بن یاسر رضی- حزیفہ بن الیمان رضی،*
*"_ سلمان فارسی رضی- ابوالدرداء رضی. حکیم الامت,* *"_ منزر بن عمر رضی.- ابوذر غفاری رضی.*
*"_ دنیا میں اخوت (Brotherhood) کا ایسا اعلیٰ نمونہ اسلام کے سوا کسی اور جگہ نظر نہیں آتا۔*
[3/1, 8:33 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ازان :- 2ھ میں اذان کا طریقہ جاری ہوا۔*
*"_اذان کی ضرورت اول اس لیے محسوس ہوئی کہ سب لوگ مل کر ایک وقت پر نماز ادا کر سکیں ۔ مشورہ طلب امر یہ تھا کہ لوگوں کو جمع کرنے کے واسطے کونسا طریق اختیار کیا جاۓ ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ بلند مقام پر آگ روشن کر دی جایا کرے ( جیسا مجوس میں دستور تھا) کسی نے مشورہ دیا کہ سینگ ( بگل ) بجایا جاۓ ( جیسا کہ یہود کا معمول تھا) کسی نے مشورہ دیا کہ گھنٹے بجاۓ جایا کریں ۔ ( حبیا کہ نصاریٰ کرتے تھے )*
*★_ آنحضرت ﷺ نے کسی مشورہ کو پسند نہ فرمایا۔دوسرے دن عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ انصاری اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے نبی ﷺ سے آ کر عرض کیا کہ انھوں نے خواب میں ان الفاظ کو سنا ہے (جو اب اذان میں کہے جاتے ہیں) ۔ نبی ﷺ نے انہی الفاظ کو بآواز بلند پکار نے کو مشروع فرما دیا۔ یہ الفاظ نبی ﷺ کے اس منشا عالی کو پورا کرتے ہیں جو تشریح احکام میں ہمیشہ منظور نظر اقدس رہا ہے_,*
*★_ اذان اطلاع دہی کا وہ سادہ اور آسان طریقہ ہے کہ عالمگیر مذہب کے لیے ایسا ہی ہونا ضروری تھا۔ اذان در حقیقت اصول اسلام کی اشاعت اور اعلان ہے ۔ مسلمان اس کے ذریعہ سے ہر آبادی کے قریب جملہ باشندگان کے کانوں تک اپنے اصول پہنچا دیتے اور راہ نجات سے آگاہ کر دیتے ہیں ۔ اذان ثابت کرتی ہے کہ اسلام نے’’گھونگوں‘‘ اور’’ دھاتوں‘‘ کو انسانی آواز پرترجیح نہیں دی اور یہ بھی ایک طریقہ بت پرستی کے انسداد اور توحید کی تائید کا ہے۔*
[3/1, 8:39 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا اسلام:-*
*"_2 ہجری میں سلمان فاری رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے ۔ یہ اصفہان کے باشندے تھے ۔ان کے مذہب قدیم میں ’’ابلق" گھوڑے کی پرستش کی جاتی تھی۔ دین حق کی تلاش میں گھر سے نکلے اور عرب تک آۓ کسی نے ان کو پکڑ کر غلام بنا کر بیچ دیا تھا۔ دس(10) سے زیادہ مذاہب کے بعد یہ یہودی مذہب میں داخل ہو گئے تھے۔*
*★_ جس یہودی کے پاس رہا کرتے تھے وہ اکثر ایک پیدا ہونے والے نبی کے اوصاف بیان کیا کرتا تھا۔ جب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نبی ﷺ کو دیکھا تو ان علامات و آثار و اخبار سے جو اپنے آقا سے سنے تھے آنحضرت ﷺ کو پہچان لیا اور مسلمان ہو گئے اور ملک فارس کا پہلا پھل‘‘ کہلاۓ ۔*
[3/4, 3:36 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ تحویل قبلہ :-*
*"_نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جس بارہ میں کوئی حکم الہی موجود نہ ہوتا۔ اس میں اہل کتاب سے موافقت فرمایا کرتے ۔ نماز آغاز نبوت ہی میں فرض ہو چکی تھی مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا۔ اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی ﷺ نے بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رکھا۔ مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل رہا۔،*
*★_مگر ہجرت کے دوسرے سال ( یا 17 ماہ بعد ) اللہ نے اس بارے میں حکم نازل فرمایا۔ یہ حکم نبی ﷺ کے دلی منشا کے موافق تھا۔ کیوں کہ آنحضرت ﷺ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنائی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ لسلام تھے، جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے’’ کعبہ اورصرف عبادت الہی کے لیے بنائی جانے کی وجہ سے "بیت اللہ" اور عظمت وحرمت کی وجہ سے’’مسجد الحرام‘‘ کہا جا تا تھا۔*
*★_ اس حکم میں جو اللہ پاک نے قرآن مجید میں نازل فرمایا ہے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ پاک کو جملہ جہات سے یکساں نسبت ہے۔*
*"_وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ _," [البقر1153]*
*"_ اور مشرق ومغرب سب اللہ ہی کا ہے ۔ تو جدھر تم رخ کر و ادھر اللہ کی ذات ہے۔*
*"_اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف کا مقر رکر لینا طبقات مردم میں شائع رہا ہے ۔*
*"_ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا _, [البقرة:148] ’’*
*"_اور ہرایک (فرقے ) کے لیے ایک سمت مقرر ( مقرر ) ہے ۔جدھر وہ ( عبادت کے وقت ) منہ کیا کرتے ہیں ۔ تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو تم جہاں ہو گے اللہ تم سب کو جمع کرے گا ۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے_,"*
*★_ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی طرف منہ کرنا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔‘‘*
*"_ لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ _, [البقرة:172] ’’*
*"_ نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق ومغرب ( کوقبلہ مجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو۔‘‘*
*"_ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ متبعین رسول کے لیے ایک ممیز علامت قرار دی جاۓ ۔*
*"_ لِنَعۡلَمَ مَنۡ يَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ يَّنۡقَلِبُ عَلٰى عَقِبَيۡهِ ؕ [البقرة: 143]*
*"_ کہ ہم معلوم کریں کہ کون ( ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۔‘‘*
[3/5, 7:05 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ یہی وجہ تھی کہ جب تک نبی ﷺ مکہ میں رہے، اس وقت تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا۔ کیوں کہ مشرکین مکہ بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے اور کعبہ کو تو انھوں نے خود ہی اپناپڑ ا معبد بنا رکھا تھا اس لیے شرک چھوڑ دینے اور اسلام قبول کرنے کی ہین علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرے ۔*
*★_جب نبی ﷺ مدینہ میں پہنچے وہاں زیادہ تر یہودی یا عیسائی ہی آباد تھے۔ وہ مکہ کی مسجد الحرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ بیت ایل یا ہیکل تسلیم کرتے ہی تھے۔ اس لیے مدینہ منورہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑ دینے کی علامت یہ ٹھہرائی گئی کہ مکہ کی مسجد الحرام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جایا کرے۔ حکم الہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرار دی گئی ۔ اس مسجد کو قبلہ قرار دینے کی وجہ اللہ تعالی نے خود ہی بیان فرمادی ہے :-*
*"_ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ _," [آل عمران:96]*
*"_ یہ مسجد دنیا کی سب سے پہلی عمارت ہے جو عبادت الہی کی غرض سے بنائی گئی _,"*
*★_ پس چوں کہ اسے تقدیم زمانی اور عظمت تاریخی حاصل ہے، اس لیے اس کو قبلہ بنایا جانا مناسب،*
*"_ مسجد الحرام کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جد اعلیٰ ہیں ۔اس لیے ان شاندار قوموں کے پدر بزرگوار کی مسجد کوقبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کا اتحاد نسبی و جسمانی کی یاد دلا کر اتحاد روحانی کے لیے دعوت دینا اور متحد بن جانے کا پیغام (ادخلوا في السلم) [البقرة:208] سنادیا تھا۔*
*★"_ہمیں یقین ہے کہ کعبہ کے تقدم زمانی اور عظمت تاریخی کا انکار کوئی مذہب بھی نہیں کر سکتا۔ یہودی اور عیسائی بھی متفق ہیں،*
[3/6, 7:35 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ زکوۃ اور تمدن انسانی:-*
*"_ علم الاقتصاد (Economics) یا تمدن یا پیٹیکل اکانومی(Political Economy) کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ افراد قوم میں سے بلحاظ فقر و دولت کیوں کر ایک تناسب قائم کیا جاۓ ۔ حکیم سولون (Solon) کے عہد سے لے کر آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقیدہ کی گروکشائی نہیں کر سکا۔ اس لیے قرآن مجید نے اس بارہ میں پہلے سے فیصلہ کر دیا ہے :-*
*"_ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ _,"*
*’’(ترجمہ):- رزق میں اللہ نے ایک کو دوسرے پر برتری دی ہے اور جن کو یہ برتری ملی ہے وہ اپنا حصہ ان لوگوں کو جن کے وہ ما لک ہو چکے ہیں ( اس لیے) واپس نہ کریں گے کہ سب آپس میں برابر ہو جائیں _‘‘*
*★_ اسلام نے جو مسلمانوں کو دنیا کی بہترین متمدن قوم بنانا چاہتا ہے ۔ اس مسئلہ پر توجہ کی اور اسے ہمیشہ کے لیے طے کر دیا اور اسی کا نام فرضیت زکوۃ ہے۔ زکوۃ 2 ہجری میں مسلمانوں پر فرض ہوئی ۔ نبی ﷺ کا نیک اور رحیم دل پہلے ہی مسکینوں کا ہمدرد، غریبوں پر رحم کرنے والا ، درمندوں کا غمگسار تھا۔ اور اسلام میں شروع سے ہی مساکین اور غرباء کی دستگیری پر مسلمانوں کو خصوصیت سے توجہ دلائی جاتی تھی۔ ان کی ہمدردی کو غرباء کا رفیق بنایا جاتا تھا اور مسلمان اس پاک تعلیم کی بدولت غرباء ومساکین کے لیے بہت کچھ کیا بھی کرتے تھے۔*
*★"_ تاہم کوئی ایسا قاعدہ مقر نہ تھا جس پر بطور آئین و ضابطہ کے عمل کیا جا تا ہو۔ اس لیے دولت مند جو کچھ بھی کرتے تھے اپنی فیاضی و نیک دلی سے کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے زکوۃ کو فرض اور اسلام کا تیسرا رکن ( کلمہ شہادت اور نماز کے بعد) قرار دیا۔ زکوۃ درحقیقت اس صفت ہمدردی و رحم کے باقاعدہ استعمال کا نام ہے، جو انسان کے دل میں اپنے ابناۓ جنس کے ساتھ قدرتاً و فطرتاً موجود ہے_,"*
[3/6, 7:49 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ زکوۃ ادا کرنے سے ادا کر نے والے کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ مال کی محبت ، اخلاق انسانی کو مغلوب نہیں کر سکتی اور بخل و امساک کے عیوب سے انسان پاک رہتا ہے اور یہ فائدہ بھی کہ غرباء ومساکین کو وہ اپی قوم کا جزو سمجھتا رہتا ہے اور اس لیے بےحد دولت کا جمع ہو جانا بھی اس میں تکبر اور غرور پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اور یہ فائدہ بھی ہے کہ غرباء کے گروہ کثیر کواس کے ساتھ ایک انس ومحبت اور اس کی دولت و ثروت کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہ اس کے مال میں اپنا ایک حصہ موجود قائم سمجھتے ہیں۔، گویا دولت مند مسلمان کی دولت ایک ایسی کمپنی کی دولت کی مثال پیدا کر لیتی ہے جس میں ادنیٰ و اعلیٰ حصے کے حصہ دار شامل ہوتے ہیں ۔*
*★_ قوم کو یہ فائدہ ہے کہ بھیک مانگنے کی رسم قوم سے بالکل مفقود ہو جاتی ہے۔ اسلام نے مساکین کا حق امراء کی دولت میں بنام ز کوۃ اموال نامیہ یعنی ترقی کرنے والے مالوں میں مقرر کیا ہے جن میں سے ادا کرنا بھی ناگوار نہیں گذرتا۔ اموال نامیہ میں تجارت، زراعت اور مویشی (بھیٹر ،بکری ،اونٹ، گاۓ) نقدیت معاون اور دفائن شمار ہوتے ہیں۔*
*★_ اب یہ دکھلانا ضروری ہے کہ جو نقد وجنس زکوٰۃ سے حاصل ہو اس کے مستحق کون کون لوگ ہیں۔ قرآن مجید میں ہے ( التوبہ:60) :-*
*"_ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ _,"*
[3/6, 8:06 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ زکوۃ وصدقات کا مال :-*
*"_ فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے ( فقیر و مسکین کا فرق کتب فقہ میں دیکھو۔) اور تحصیل داران زکوۃ کے لیے ( جن کی تنخواہیں ادا ہوں گی ) اور ان لوگوں کے لئے جن کے دل افزائی اسلام میں منظور ہو یعنی نو مسلم لوگ۔ اور غلاموں کو آزادی دلانے کے لیے اور ایسے قرض داروں کا قرضہ چکانے کے لیے جو قرض نہ اتار سکتے ہوں ۔اور اللہ کے رستہ میں (یعنی دیگر نیک کاموں کے لیے ) اور مسافروں کے لیے۔*
*★_ جن آٹھ (8) مدات پر زکوۃ کی تقسیم کی گئی ہے اس سے ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے ملک اور قوم اور افراد کی نوعی شخصی ضروریات کو کسی خوبی سے پورا کر دیا گیا ہے۔،*
*★_ تقسیم زکوۃ کے نمبر 6 پر بھی غور کرنا چاہیے ۔ حالیہ زمانے نے قرض داروں کی سہولت کے لیے بینک (Bank) قائم کیے ہیں لیکن بینکوں کے قیام کا نتیجہ یہ ہے کہ سینکڑوں املاک غریب لوگوں کے قبصہ سے نکل نکل بینک کے پاس چلی گئی ہیں اور خاص خاص لوگوں کے سوا عوام میں افلاس و تنگدستی کی ترقی ہوگئی ہے۔ قرض کا بلا سود کے ملنا محال ہو گیا ہے اور انہی مشکلات کی وجہ سے بعض طبائع نے جواز سود کی صورتوں کے نکالنے میں موشگافیاں کی ہیں ۔*
*★_ لیکن دیکھو اسلام کا احسان کہ اس نے قرض سے برباد ہونے والوں کے بچاؤ کا کیسا عجیب انتظام کیا ہے۔ بے شک سود کی حرمت کا حکم سنانا بھی اسلام ہی کا حق ہے جس نے قرض داروں کی گلو خلاصی کے لیے ایسے عجیب انتظامات بھی کیے ہیں۔*
*★_ اب زکوٰۃ کے متعلق یہ حدیث یاد رکھنی چاہیے ۔*
*"_ یہ صدقہ کا مال لوگوں کی میل کچیل ہوتا ہے ۔ محمد ﷺ اور محمد ﷺ کے کنبہ والوں کے لیے یہ حلال نہیں ہے _," ( مسلم -754, کنزالعمال 7/1650, احمد -4/166)*
[3/8, 7:11 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_۔ رمضان 2 ہجری مقدس ( فرضیت رمضان المبارک اور فوائد ):-*
*"_ رمضان کے روزے بھی ہجرت کے دوسرے ہی سال فرض ہوۓ اور سال میں ایک مہینے کے روزے رکھنا اسلام کا چوتھا رکن قرار پایا۔ روزے صحت کو بڑھاتے ہیں ۔ امراء کو غرباء کی حالت سے عملی طریق پر باخبر کر تے ہیں ۔ شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دینے سے قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت دیتے ہیں ۔ قوت ملکیہ کو قوی اور قوت حیوانیہ کو کمزور بناتے ہیں۔*
*★_ قرآن مجید نے خاص طور پر یہ بیان فرمایا ہے کہ روزے خداترسی کی طاقت، انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں ۔ (لعلكم تتقون) تا کہ تم تقویٰ والے بن جاؤ) [البقرة:183]*
*★"_ تقویٰ کی مثالوں پر غور کرو کہ گرمی کا موسم ہے ۔ روزہ دار کوسخت پیاس لگی ہوئی ہے, تہام مکان میں ٹھنڈا پانی اس کے سامنے موجود ہے مگر وہ پانی نہیں پیتا۔ روزہ دار کوسخت بھوک لگی ہوئی ہے۔بھوک کی وجہ سے جسم میں ضعف بھی محسوس کرتا ہے کھانا میسر ہے ۔ کوئی شخص اسے دیکھ بھی نہیں رہا مگر وہ کھانا نہیں کھاتا_, پیاری دل پسند بیوی پاس موجود ہے۔محبت کے جذبات اس کی خوبصورتی سے تمتع لینے کی تحریک کرتے ہیں ۔الفت نے دونوں کو ایک دوسرے کا شیدا بنا رکھا ہے لیکن روزہ دار اس سے پہلوتہی اختیار کرتا ہے۔*
*★_ وجہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں اس قدر جاگزیں ہوگئی ہے کہ کوئی جذبہ بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا اور روزہ ہی عظمت اور جلال الہی کے دل میں قائم ہونے کا باعث ہوا ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ جب ایک ایمان دار اللہ کے حکم کی وجہ سے جائز ، حلال، پاکیزہ خواہشات کے چھوڑ دینے کی عادت کر لیتا ہےتو وہ بالضرور اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ، ناجائز اور گندی عادات و خواہشات کو چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی بھی جرأت نہ کرے گا۔ یہی وہ اخلاقی برتری ہے جس کا روزہ دار کے اندر پیدا کر دینا اورمتحکم کر دیتا شرع کا مقصود ہے ۔اس لیے حدیث صحیح میں ہے :-*
*”_ جو روزہ دار جھوٹ کہنا لغو بکنا اور لغو فضول کاموں کا کرنا چھوڑ نہیں دیتا تو اللہ کو کچھ پرواہ نہیں ہے اگر وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے _",( بخاری: 1903)*
*"_دوسری حدیث میں ہے-” جب کوئی شخص کسی دن کا روزہ رکھے تو نہ کوئی بے ہودہ لفظ زبان سے نکالے، نہ بکواس اور شور کرے اور اگر اور کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تب کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔( گالی کا جواب دینا جھگڑنا مجھے شایان نہیں)‘‘*
[3/8, 7:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ روزہ اور چاند کی تاریخیں :-*
*"_ رمضان کا مہینہ قمری حساب پر رکھا گیا ہے ۔ کیوں کہ جب نصف دنیا پر سردی کا موسم ہوتا ہے تو دوسرے نصف حصہ پر گرمی کا موسم ہوتا ہے ۔ قمری مہینہ ادل بدل کر آنے سے کل دنیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات قائم کر دیتا ہے لیکن اگر کوئی شمسی مہینہ مقرر کر دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ سرما کی سہولت میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ گرما کی سختی اور تکلیف میں رہا کرتے اور یہ امر عالمگیر مذہب کے اصول کے خلاف ہوتا۔*
*★_ روزہ رکھنا دشوار نہیں ہے مگر جس شخص کے شہوانی خیالات ہوں یا جو جسمانی ناز و نعم ہی کو زندگی کا شیریں مقصد سمجھتا ہو، اس کے لیے روزہ رکھنا بے شک سخت گراں ہے۔ رمضان کا اسلام میں فرض ہونا بلکہ رکن اسلام ہونا ہی ثابت کرتا ہے کہ اسلام کو کس قدر ایمانی اور ملکوتی طاقتوں کو بڑھانے والا اور کس قدر جسمانی وشہوانی خیالات کو ملیا میٹ کر دینے والا ہے,*
*★__ 3 ھ کے ماہ رمضان میں سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوۓ ، جو حضرت علی مرتضیٰ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہم کے فرزند ہیں۔*
[3/8, 7:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ام الخبائث شراب کو اسلام نے حرام کیا :-*
*"_ 0 ھ کی برکات میں بڑی برکت یہ ہے کہ شراب کی حرمت کا اعلان کیا گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کچھ لوگ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں بیٹھے تھے۔ میں انھیں شراب پلار ہا تھا۔ اتنے میں منادی ہونے لگی کہ شراب حرام ہوگئی ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سنتے ہیں کہہ دیا کہ جتنی شراب باقی ہے، اسے باہر پھینک دو ۔ اس روز مدینہ کی گلی کوچہ میں شراب بہ نکلی تھی۔*
*★_ آج دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف اقوام ٹمپرنس سوسائٹیوں (Temperance Society) کے ذریعہ انسداد شراب کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ یہ جملہ اقوام اسلام کی اس تعلیم کے زیر بار احسان ہیں ۔ کیوں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے شراب کی قلیل وکثیر مقدار کوحرام مطلق قرار دیا ہے۔*
*★_اسلام نے شراب کا نام "ام الخبائث‘‘ ( برائیوں اور پلید یوں کی ماں ) رکھا ہے, انسان کے جسم پر ، رویہ پر اخلاق پر ، ملک کے امن وانتظام پر ، قبائل کے عادات پر فوج کی اطاعت اور قوت پر جو برا اثر شراب کا تجربہ اور مشاہدہ میں آ رہا ہے اس سے واضح ہے کہ شراب کے لیے "ام الخبائث‘‘ کیسا موزوں اور زیبا نام ہے۔*
*★_ بعض لوگ اسلام کی صداقت پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا کرتے ہیں کہ اسلام نے شہوانی خیالات کو تحریک دے کر لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی تحریص دلائی ہے۔ ان کو ذ راغور کرنا چاہیے کہ شراب کو حرام ٹھہرانے والا کس قدر شہوانی خیالات کا دشمن ہوگا اور جس مذہب میں شراب ہی حرام ہو، اس میں داخل ہونے سے عیاش طبیعتوں کوکتنی جھجک ہوگی۔*
: *"★_ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ سردار نجد کا مسلمان ہونا (5 ہجری) _,"*
*"_ نبی ﷺ نے کچھ سوار نجد کی جانب روانہ فرمائے تھے ۔ وہ واپس ہوتے ہوۓ ثمامہ بن اثال کو گرفتار کر لائے تھے ۔ فوج والوں نے انھیں مسجد نبوی ﷺ کے ستون کے ساتھ لا باندھا تھا۔ نبی ﷺ نے وہاں تشریف لاکر دریافت کیا کہ ثمامہ کیا حال ہے؟ ثمامہ نے کہا- محمد ﷺ میرا حال اچھا ہے، اگر آپ میرے قتل کیے جانے کا حکم دیں گے تو یہ حکم ایک خونی کے حق میں ہوگا اور اگر آپ انعام فرمائیں گے تو ایک شکر گزار پر رحمت کر یں گے اور اگر مال کی ضرورت ہے تو جس قد جاہیے بتلا دیجیے۔*
*★_ دوسرے روز نبی ﷺ نے ثمامہ سے پھر وہی سوال کیا: ثمامہ نے کہا: میں کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ احسان فرمائیں گے تو ایک شکر گزار شخص پر فرمائیں گے۔ تیسرے روز نبی ﷺ نے پھر ثمامہ سے وہی سوال کیا، اس نے کہا: - میں اپنا جواب دے چکا ہوں ۔ نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو،*
*★_ثمامہ رہائی پا کر ایک کھجور کے باغ میں گئے جو مسجد نبوی ﷺ کے قریب ہی تھا۔ وہاں جا کر غسل کیا اور پھر مسجد نبی ﷺ میں لوٹ کر آ گیے اور آتے ہی کلمہ پڑھ لیا۔*
*"_ ثمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا - یارسول اللہ ﷺ! قسم ہے اللہ کی کہ سارے عالم میں آپ سے زیادہ کسی شخص سے نفرت نہ تھی لیکن اب تو آپ ہی مجھے دنیا میں سب سے بڑھ کر پیارے معلوم ہوتے ہیں ۔ اللہ کی قسم ! آپ کے شہر سے مجھے نہایت ہی نفرت تھی مگر آج تو مجھے وہ سب مقامات سے پسندیدہ تر نظر آتا ہے۔ واللہ ! آپ کے دین سے بڑھ کر مجھے اور کسی دین سے بغض نہ تھا لیکن آج تو آپ کا دین ہی مجھے محبوب تر ہو گیا ہے _"*
*★_۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی عرض کیا کہ میں اپنے وطن سے ملک سے مکہ کو عمرہ کے لیے جارہا تھا۔ راستے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اب عمرہ کے بارے میں کیا ارشاد ہے ۔ نبی ﷺ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی بشارت دی اور عمرہ کے ادا کرنے کی اجازت فرمائی _,"*
: *★_ آپ ﷺ کا جانی دشمنوں سے حسن سلوک_"*
*"_ثمامہ رضی اللہ عنہ مکہ پہنچے تو وہاں ایک شخص نے پوچھا کہ تم صحابی بن گئے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا- نہیں، میں محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا ہوں اور اسلام قبول کیا ہے اور اب یاد رکھنا کہ ملک یمامہ سے تمہارے پاس ایک دانہ گندم بھی نہیں آۓ گا۔ جب تک کہ محد ﷺ کی اجازت نہ ہوگی_,"*
*★_ثمامہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ملک میں پہنچتے ہی مکہ کی طرف آنے والا اناج بند کر دیا۔ غلہ کی آمد کے رک جانے سے اہل مکہ بلبلا اٹھے اور آخر نبی ﷺ ہی سے انہیں التجا کرنی پڑی۔ نبی ﷺ نے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا کہ غلہ بدستور جانے دیں ۔ ( ان دنوں اہل مکہ نبی ﷺ کے جانی دشمن تھے )_,"*
*★_ اس قصہ سے نہ صرف یہ ثابت ہوا کہ نبی ﷺ نے کیوں کر اس شخص کی جان بخشی فرمائی جو خود اپنے آپ کو واجب القتل سمجھتا تھا ؟ اور نہ صرف یہ ثابت ہوا کہ نبی ﷺ کے پا کیزہ حالات اور اخلاق کا کیسا گہرا اثر لوگوں پر پڑتا تھا کہ ثمامہ جیسا شخص جو اسلام اور مدینہ اور آنحضرت ﷺ سے سخت نفرت و عداوت رکھتا تھا تین روز کے بعد بخوشی خود مسلمان ہو گیا تھا۔*
*★_ نبی ﷺ کی نیکی اور طینت کی پاکی و رحمدلی کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ ملکہ کے جن کافروں نے آنحضرت ﷺ کو مکہ سے نکالا تھا اور بدر، احد، خندق میں اب تک نبی ﷺ اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ساری طاقت صرف کر چکے تھے ان کے لیے رحمۃ للعالمین ﷺ یہ پسند نہیں فرماتے کہ ان کا غلہ روک دیا جاۓ اور ان کو تنگ و ذلیل کر کے اپنا فرمانبردار بنایا جاۓ _,"*
[3/13, 10:41 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صلح حدیبیہ 6ھ مقدس :-*
*"_اسی سال نبی ﷺ نے اپنا ایک خواب مسلمانوں کو سنایا۔ فرمایا: میں نے دیکھا گویا میں اور مسلمان مکہ پہنچ گئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں ۔ اس خواب کے سننے سے غریب الوطن مسلمانوں کو اس شوق نے جو بیت اللہ کے طواف کا ان کے دل میں تھا ، بے چین کر دیا اور انھوں نے اس سال نبی ﷺ کو سفر مکہ کے لیے آمادہ کرلیا۔ مدینہ سے مسلمانوں نے سامان جنگ ساتھ نہیں لیا بلکہ قربانی کے اونٹ ساتھ لیے اور سفر بھی ذیقعد کے مہینہ میں کیا جس میں عرب قدیم رواج کی پابندی سے جنگ ہرگز نہ کیا کرتے تھے اور جس میں ہر ایک دشمن کو بھی بلا روک ٹوک مکہ میں آنے کی اجازت ہوا کرتی تھی ۔*
*★"_ جب مکہ 19 میل رہ گیا تو نبی ﷺ نے مقام حدیبیہ سے قریش کے پاس اپنے آنے کی اطلاع بھیج دی اور آگے بڑھنے کی اجازت ان سے چاہی۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جن کا اسلامی تاریخ میں ذوالنورین لقب ہے سفیر بنا کر بھیجے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد لشکر اسلامی میں یہ خبر پھیل گئی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل یا قید کر دیا ہے ۔ اس لیے نبی ﷺ نے اس بے سرو سامان جمعیت سے جان نثاری کی بیعت لی کہ اگر لڑنا بھی پڑا تو ثابت قدم رہیں گے ۔*
*★_ بیعت کرنے والوں کی تعداد چودہ سو(1400) تھی، اس بیعت میں نبی ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کو عثمان رضی اللہ عنہ کا داہنا ہاتھ قرار دیا اور ان کی جانب سے اپنے داہنے ہاتھ پر بیعت کی ۔اس بیعت کا حال سن کر قریش ڈر گئے اور ان کے سردار یکے بعد دیگرے حدیبیہ حاضر ہوۓ ۔*
: *★_عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو قریش کی جانب سے آے تھے انہوں نے قریش کو واپس جا کر کہا: اے قوم ! مجھے بارہا نجاشی ( بادشاہ حبش ) قیصر ( بادشاہ قسطنطنیه ) کسریٰ ( بادشاہ ایران ) کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا ہے مگر مجھے کوئی بھی ایسا بادشاہ نظر نہ آیا جس کی عظمت اس کے دربار والوں کے دل میں ایسی ہو جیسے اصحاب محمد ﷺ کے دل میں محمد ﷺ کی ہے۔ محد ﷺ تھوکتے ہیں تو ان کا آب دہن زمین پر گرنے نہیں پاتا ، کسی نہ کسی کے ہاتھ پر ہی گرتا ہے اور وہ شخص اس آب دہن کو اپنے چہرہ پر مل لیتا ہے_,"*
*"_جب محمد ﷺ کوئی حکم دیتے ہیں تو تعمیل کے لیے سب مبادرت کرتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو آب مستعمل وضو کے لیے ایسے گرے پڑتے ہیں گویا لڑائی ہو پڑے گی ۔ جب وہ کلام کرتے ہیں تو سب کے سب چپ چاپ ہو جاتے ہیں ۔ ان کے دل میں محمد ﷺ کا اتنا ادب ہے کہ وہ ان کے سامنے نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔ میری رائے ہے کہ ان سے صلح کر لو جس طرح بھی بنے _"*
*( بخاری 4180, 4181)*
*★_سوچ سمجھ کر قریش صلح کرنے پر آمادہ ہوۓ۔ صلح کے لیے مندرجہ ذیل شرائط طے ہوئیں:-*
*"_(1)- دس(10) سال تک باہمی صلح رہے گی ، جانہین کی آمد ورفت میں کسی کو روک ٹوک نہ ہوگی ۔*
*(2)- جو قبائل چاہیں قریش سے مل جائیں اور جو چاہیں وہ مسلمانوں کی جانب شامل ہو جائیں ۔ دوستدار قبائل کے حقوق بھی یہی ہوں گے۔*
*(3)- اگلے سال مسلمانوں کو طواف کعبہ کی اجازت ہوگی ۔ اس وقت بہتھیار ان کے جسم پر نہ ہوں گے ، گو سفر میں ساتھ ہوں۔*
*(4)- اگر قریش میں سے کوئی شخص نبی ﷺ کے پاس مسلمان ہو کر چلا جائے تو نبی ﷺ اس شخص کو قریش کے طلب کرنے پر واپس کر دیں گے لیکن اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ کر قریش سے جا ملے تو قریش اسے واپس نہ کر یں گے ۔*
*★_ آخری شرط سن کر تمام مسلمان بجز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا اٹھے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس بارے میں زیادہ پر جوش تھے لیکن نبی ﷺ نے ہنس کر اس شرط کو بھی منظور فرمالیا_,"*
: *★_ معاہد ہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا۔ انھوں نے شروع میں لکھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحيم، سہیل جو قریش کی طرف سے کمشنر معاہد ہ تھا بولا- بخدا! ہم نہیں جانتے کہ رحمٰن کسے کہتے ہیں ، باسمك اللهم لکھو۔ نبی ﷺ نے وہی لکھ دینے کا حکم دیا ۔*
*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پھر لکھا۔ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ ﷺ اور قریش کے درمیان منعقد ہوا ہے ۔ سہیل نے اس پر بھی اعتراض کیا اور نبی ﷺ نے اس کی درخواست پر محمد بن عبداللہ لکھنے کاحکم دیا۔*
*★_ معاہدہ کی آخری شرط کی نسبت قریش کا خیال تھا کہ اس شرط سے ڈر کر کوئی شخص آئندہ مسلمان نہ ہو گا لیکن یہ شرط ابھی طے ہی ہوئی تھی اور عہد نامہ لکھا ہی جا رہا تھا، دونوں طرف سے معاہدہ پر دستخط بھی نہ ہوئے تھے کہ سہیل بن عمرو ( جو اہل مکہ کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتا تھا ) کا بیٹا ابو جندل رضی اللہ عنہ اس جلسہ میں پہنچ گیے،*
*★_ ابوجندل رضی اللہ عنہ جو مکہ میں مسلمان ہو گیے تھے قریش نے انہیں قید کر رکھا تھا اور اب وہ موقع پا کر زنجیروں سمیت ہی بھاگ کر لشکر اسلامی میں پہنچے تھے۔ سہیل نے کہا کہ اسے ہمارے حوالہ کیا جاۓ ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عہد نامے کے مکمل ہوجانے پر اس کا خلاف نہ ہوگا یعنی جب تک عہد نامہ مکمل نہ ہو جاۓ اس کی شرائط پر عمل نہیں ہوسکتا۔*
*"__سبیل نے بگڑ کر کہا کہ تب ہم صلح ہی نہیں کرتے ۔ نبی ﷺ نے حکم دیا اور ابوجندل رضی اللہ عنہ کو قریش کے سپرد کر دیا گیا۔*
*★_ قریش نے مسلمانوں کے کیمپ میں ان کی مشکیں باندھیں، پاؤں میں زنجیر ڈالی اور کشاں کشاں لے گئے ۔ نبی ﷺ نے جاتے وقت اس قد فرما دیا تھا کہ ابوجندل اللہ تیری کشائش کے لیے کوئی سبیل نکال دے گا ۔*
*_ابوجندل رضی اللہ عنہ کی ذلت اور قریش کا ظلم دیکھ کر مسلمانوں کے اندر جوش اور طیش تو پیدا ہوا مگر نبی ﷺ کا حکم سمجھ کر ضبط وصبر کیے رہے ۔*
: *★_ حملہ کرنے والے اسی (80 ) اعداء کو معافی :-*
*"_ نبی ﷺ حدیبیہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اسی(80) آدمی کوہ تنعیم سے صبح کے وقت جب کہ مسلمان نماز میں مصروف تھے، اس ارادہ سے اترے کہ مسلمانوں کو نماز کے اندر قتل کر دیں ۔ یہ سب لوگ گرفتار کر لیے گئے اور آنحضرت ﷺ نے انھیں از راہ رحمدلی وعفو چھوڑ دیا۔ اس واقعہ پر قرآن مجید میں اس آیت کا نزول ہوا۔ ( ترجمہ)_ ’’اللہ وہ ہے جس نے وادی مکہ میں تمہارے دشمنوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تمہارے ہاتھ بھی (ان پر قابو پالینے کے بعد) ان سے روک دیے_", [الفتح:24]*
*★"_برکات معاہدہ :-*
*"_ الغرض یہ سفر بہت خیر و برکت کا موجب ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے معاندین کے ساتھ معاہدہ کرنے میں فیاضی جزم ، دور بینی اور حملہ آور دشمنوں کی معافی میں عفو اور رحمت العالمینی کے انوار کا ظہور دکھلایا۔*
*★_مسلمان حدیبیہ ہی سے مدینہ منورہ کو واپس تشریف لے گئے ۔ اس معاہدہ کے بعد سورہ الفتح کا نزول حدیبیہ میں ہوا تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ معاہدہ ہمارے لیے فتح ہے؟ فرمایا: ہاں ۔*
*★_ ابوجندل ﷺ نے زندان مکہ میں پہنچ کر دین حق کی تبلیغ شروع کر دی، جو کوئی اس کی نگرانی پر مامور ہوتا ، وہ اسے توحید کی خوبیاں سناتے، اللہ کی عظمت و جلال بیان کر کے ایمان کی ہدایت کرتے ۔ اللہ کی قدرت کہ ابوجندل رضی اللہ عنہ اپنے سچے ارادے اور سعی میں کامیاب ہو جاتے اور وہ شخص مسلمان ہو جاتا ۔ قریش اس دوسرے ایمان لانے والے کو بھی قید کر دیتے ۔ اب یہ دونوں مل کر تبلیغ کا کام اسی قید خانہ میں کرتے، الغرض اسی طرح ایک ابوجندل رضی اللہ عنہ کے قید ہو کر مکہ پہنچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کے اندر قریباً تین سو (300) اشخاص ایمان لے آۓ۔*
*★_ اب قریش پچھتاۓ کہ ہم نے کیوں عہد نامے میں ایمان والوں کو واپس لینے کی شرط درج کرائی۔ پھر انہوں نے مکہ کے چند منتخب اشخاص کو نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ ہم عہد نامہ کی اس شرط سے دست بردار ہوتے ہیں ۔اب نومسلموں کو اپنے پاس واپس بلا لیجیے۔ نبی ﷺ نے معاہدہ سے خلاف کرنا پسند نہ فرمایا, اس وقت عام مسلمان بھی سمجھ گئے کہ معاہدہ کی شرط جو ظاہراً ہم کو نا گوار تھی اس کا منظور کر لینا کس قدر مفید ثابت ہوا_,"*
[
: *★_ مسلمان محاصرہ کی سختی کو جو پچھلے سال ہی جنگ احزاب میں انہیں اٹھانی پڑی تھی ، ہنوز نہیں بھولے تھے۔ اس لیے سب مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ اس حملہ آور دشمن کو آگے بڑھ کر لینا چاہیے ۔*
*★"_نبی ﷺ نے اس غزوہ میں صرف انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہمرکاب چلنے کی اجازت دی تھی جو ''اللہ تعالی ان مومنوں سے خوش ہوا جو درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں کے اندر کا حال جان لیا۔‘‘ ( سورہ فتح-١٨) کی بشارت سے ممتاز تھے اور جن کو "_ اللہ نے تم سے بڑی بڑی فتوحات کا وعدہ کیا ہے جوتم حاصل کروگے۔‘‘ ( سورہ فتح-٢٠) کا مثروہ مل چکا تھا۔ ان کی تعداد چودہ سو (1400) تھی ۔ بیس (20) صحابی عورتیں بھی شامل لشکر تھیں جو بہاروں اور زخمیوں کی خبر گیری اور تیمار داری کے لیے ساتھ ہوئی تھیں ۔*
*★_ لشکر اسلام آبادی خیبر کے متصل رات کے وقت پہنچ گیا تھا لیکن نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ رات کو لڑائی شروع نہ کرتے تھے اور نہ کبھی شب خون ڈالا کرتے ۔ اس لیے لشکر اسلام نے میدان میں ڈیرے ڈال دیئے ، معرکہ کے لیے اس مقام کا انتخاب مرد جنگ آزما حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ یہ میدان اہل خیر اور بنوغطفان کے درمیان پڑتا تھا، اس تدبیر کا فائدہ یہ ہوا کہ جب بنو غطفان یہودیان خیبر کی مدد کے لیے نکلے تو انہوں نے لشکر اسلام کو سدراہ پایا اور اس لیے چپ چاپ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے _"*
*★_۔ نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لشکر کا بڑا کیمپ اسی جگہ رہے گا اور حملہ آور فوج کے دستے کیمپ سے جایا کریں گے، لشکر کے اندر فوراً مسجد تیار کر لی گئی اور جنگ کے دوش بدوش تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری فرمادیا گیا تھا۔*
*"_ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس کیمپ کے ذمہ دار افسر تھے۔ قصبہ خیبر کے قلعے جو آ بادی کے دائیں بائیں واقع تھے شمار میں دس تھے جن کے اندر دس ہزار (10000) جنگی مرد رہتے تھے۔*
*"_۔ محمود بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو حملہ آور فوج کا سردار بنایا گیا اور انہوں نے قلعہ نطاق پر جنگ کا آغاز کر دیا۔ نبی ﷺ خود بھی حملہ آور فوج میں شامل ہوئے تھے۔ باقی ماندہ فوجی کیمپ زیر نگرانی حضرت عثمان بن عفان ہی تھا۔*
[3/18, 9:48 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مسلمانوں کا طواف کعبہ کے لیے جانا اور اس کے نتائج (7ھ مقدس):-*
*"_ معاہدہ حدیبیہ کی شرط دوم کی رو سے مسلمان اس سال مکہ پہنچ کر عمرہ کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ دو ہزار (2000) صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر مکہ پہنچے، مکہ والوں نے نبی ﷺ کو مکہ میں آنے سے تو نہ روکا لیکن خود گھروں کو قفل لگا کر ابوقبیس کی چوٹی پر جس کے نیچے مکہ آباد ہے چلے گئے ۔ پہاڑ پر سے مسلمانوں کے کام دیکھتے رہے۔*
*★_ اللہ کے نبی ﷺ تین (3) دن تک عمرہ کے لیے مکہ میں رہے۔ اور پھر ساری جمعیت کے ساتھ مدینہ کو واپس چلے گیے، ان منکروں پر مسلمانوں کے سچے جوش ، سادہ اور مؤثر طریق عبادت کا اور ان کی اعلیٰ دیانت و امانت کا ( کہ خالی شدہ شہر میں کسی کا ایک پائی کا بھی نقصان نہ ہوا تھا ) عجیب اثر ہوا۔ جس نے سینکڑوں کو اسلام کی طرف مائل کر دیا۔*
*★_ یہود کی چوتھی سازش مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری, لشکر اسلام کا آگے بڑھ کر انہیں لینا، جنگ خیبر ( محرم 7ھ)*
*"_خیبر مدینہ منورہ سے شام کی جانب تین (3) منزل پر ایک مقام کا نام ہے۔ یہ یہودیوں کی خالص آبادی کا قصبہ تھا۔ آبادی کے گرد اگرد مستحکم قلعے بناۓ ہوۓ تھے۔*
*★_ نبی ﷺ کو سفرحدیبیہ سے پہنچے ہوۓ ابھی تھوڑے دن ( ایک ماہ سے کم ) ہی ہوئے تھے کہ یہ سننے میں آیا ہے کہ خیبر کے یہودی پھر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں اور جنگ احزاب کی ناکامی کا بدلہ لینے اور اپنی کھوئی ہوئی جنگی عزت وقوت کو ملک بھر میں بحال کرنے کے لیے ایک خونخوار جنگ کی تیاری کر چکے ہیں ۔،*
*"_انھوں نے قبیلہ بنوغطفان کے چار ہزار (4000) جنگ جو بہادروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور معاہدہ یہ تھا کہ اگر مدینہ فتح ہو گیا تو پیداوار خیبر کا نصف حصہ ہمیشہ بنو غطفان کو دیتے رہیں گے۔*
[3/19, 5:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ محمود بن مسلمہ (5) پانچ روز تک برابر حملہ کرتے رہے لیکن قلعہ فتح نہ ہوا۔ پانچویں یا چھٹے روز کا ذکر ہے کہ محمود رضی اللہ عنہ میدان جنگ کی گرمی سے ذرا ستانے کے لیے پائیں قلعہ کے سایہ میں لیٹ گئے ۔ کنانہ بن العقیق یہودی نے انھیں نافل دیکھ کر ایک پتھر ان کے سر پر دے مارا جس سے وہ شہید ہو گئے ۔ شام کو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کی مظلومانہ شہادت کا قصہ خود ہی نبی ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا۔*
*★_ نبی ﷺ نے فرمایا- کل فوج کا نشان اس شخص کو دیا جاۓ گا ( یا وہ شخص نشان ہاتھ میں لے گا) جس سے اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ محبت کر تے ہیں اور اللہ تعالی فتح عنایت فرماۓ گا_", یہ ایسی تعریف تھی ، جسے سن کر فوج کے بڑے بڑے بہادر اگلے دن کی کمان ملنے کے آرزومند ہو گئے تھے۔*
*"_اس رات پاسبانی لشکر کی خدمت حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے سپرد تھی۔ انھوں نے گرداوری کرتے ہوۓ ایک یہودی کو گرفتار کیا اور اسی وقت نبی ﷺ کی خدمت میں لاۓ ۔ آنحضرت ﷺ نماز تہجد میں تھے۔ جب فارغ ہوئے تو یہودی سے گفتگو فرمائی۔*
*★_ یہودی نے کہا کہ اگر اسے اور اس کے زن و بچہ کو جو قلعہ کے اندر ہیں امان عطا ہو تو وہ بہت سے جنگی راز بتلا سکتا ہے ۔ یہ وعدہ اس سے کر لیا گیا۔ یہودی نے بتلایا کہ نطاق کے یہودی آج کی رات اپنے زن و بچہ کوقلعہ شن میں بھیج رہے ہیں اور نقد و جنس کو قلعہ نطاۃ کے اندر دفن کر رہے ہیں ۔ مجھے وہ مقام معلوم ہے جب مسلمان قلعہ نطاۃ لے لیں گے تو میں وہ جگہ بتلا دوں گا ۔ بتلایا کہ قلعہ شن کے تہ خانوں میں قلعہ شکنی کے بہت سے آلات منجنیق وغیرہ موجود ہیں ۔ جب مسلمان قلعہ شن فتح کر لیں گے تو میں وہ تہ خانے بھی بتلا دوں گا۔*
*★_ صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو یادفر مایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ انھیں آشوب چشم ہے اور آنکھوں میں درد بھی ہوتا رہا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آ گئے تو نبی ﷺ نے لب مبارک علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر لگا دیا۔ اس وقت آنکھیں کھل گئیں ۔ نہ آشوب کی سرخی باقی تھی اور نہ درد کی تکلیف ۔ پھر فرمایا علی رضی اللہ عنہ جاؤ ۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ پہلے اسلام کی دعوت دو، بعد میں جنگ، علی رضی اللہ عنہ اگر تمہارے ہاتھ پر ایک شخص بھی مسلمان ہو جاۓ تو یہ کام بھاری غنیمتوں کے حاصل ہو جانے سے بہتر ہوگا ۔*
[3/20, 6:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عام حملے سے قلعہ ناعم فتح ہو گیا، اسی روز قلعہ صعب کو حضرب حباب بن المنذر رضی اللہ عنہ نے محاصرہ سے تیسرے دن بعد فتح کر لیا۔قلعہ صعب سے مسلمانوں کو جو کھجور ، چھوہارے، مکھن ،روغن زیتون ، چربی اور پارچات کی مقدار کثیر ملی، فوج میں قلت رسد سے جو تکلیف ہورہی تھی، وہ رفع ہوگئی ۔*
*★_اس سے اگلے روز قلعہ نطاۃ فتح ہو گیا۔ اب’’ قلعہ الزبیر‘ پر جو ایک پہاڑی ٹیلہ پر واقع تھا اور اپنے بانی زبیر کے نام سے موسوم تھا، حملہ کیا گیا۔ دو روز کے بعد ایک یہودی لشکر اسلام میں آیا۔ اس نے کہا: یہ قلعہ تو مہینہ بھر تک بھی تم فتح نہیں کر سکو گے۔ میں ایک راز بتلاتا ہوں ۔ اس قلعہ کے اندر پانی ایک زیر زمین نالہ کے راہ سے جاتا ہے۔ اگر پانی کا راستہ بند کر دیا جائے تو فتح ممکن ہے ۔*
*★_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پانی پر قبضہ کر لیا۔ اب اہل قلعہ، قلعہ سے نکل کر کھلے میدان میں آ کر لڑے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں شکست دے کر قلعہ کو فتح کر لیا۔*
*"_پر حصن ابی پر حملہ شروع ہوا۔ اس قلعہ والوں نے سخت مدافعت کی، آخر یہ قلعہ بھی فتح ہو گیا، ۔اہل قلعہ بھاگ گئے ۔اس قلعہ سے بکریاں اور پارچات اور بہت سا اسباب ملا۔ اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حصن البر پر حملہ کر دیا۔ یہاں کے قلعہ نشینوں نے صحابہ پر اتنے تیر برسائے اور اتنے پتھر گراۓ کہ ان کو بھی مقابلہ میں منجنیق کا استعمال کرنا پڑا، منجنیق وہی تھے جو حصن صعب سے غنیمت میں ملے تھے، منجنیقوں سے قلعہ کی دیواریں گرائی گئیں اور قلعہ فتح ہو گیا_,*
[3/20, 6:13 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ایمان لانا ( 8 ہجری):-*
*"_ انہی ایمان لانے والوں میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے جو جنگ احد میں کافروں کے رسالہ کے افسر تھے اور مسلمانوں کو انھوں نے سخت نقصان پہنچایا تھا،*
*★_یہ وہی خالد رضی اللہ عنہ ہیں جنھوں نے اسلامی جنرل ہونے کی حیثیت میں مسیلمہ کذاب کو شکست دی ۔ تمام عراق اور نصف شام کا ملک فتح کیا تھا۔ مسلمانوں کے ایسے جانی دشمن اور ایسے جانباز اعلیٰ سپاہی کا خود بخود مسلمان ہو جانا اسلام کی سچائی کا معجزہ ہے۔*
*★_ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا( 8 ہجری ):-*
*"_ انہی ایمان لانے والوں میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔ قریش نے ان ہی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے عداوت اور بیرونی معاملات میں اعلیٰ قابلیت رکھنے کی وجہ سے وفد کا سردار بنایا تھا، جو شاہ حبش کے پاس گیا تھا تاکہ وہ حبش میں گئے ہوۓ مسلمانوں کو قریش کے حوالے کر دے ۔*
*★_ انہیں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ملک مصر کو فتح کیا تھا۔ ایسے مدبر و سیاست دان (Politician) اور فاتح ممالک کا مسلمان ہو جانا بھی اسلام کا اعجاز ہے۔*
[3/23, 6:42 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"★_۔ حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا _,"*
*"_انہی اسلام لانے والوں میں عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جو کعبہ کے اعلیٰ مہتمم وکلید بردار تھے۔ جب یہ نامی سردار ( جن کی شرافت حسب ونسب سارے عرب میں مسلمہ تھی ) نبی ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ جا پہنچے تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ آج مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے ہم کو دے ڈالے۔*
*★_عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کا ایمان لانا (9ھ مقدس):-*
*"_اس مشہور سردار کے ایمان لانے کی تقریب یہ ہوئی کہ 9 ہجری میں یمن کے قبیلہ بنی طے نے بغاوت کی تھی ۔ اس وقت اس علاقہ کے حاکم اعلیٰ علی مرتضی رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے فسادیوں کو پکڑ کر مدینہ منورہ بھیج دیا تھا۔ ان میں حاتم طائی مشہور سخی کی بیٹی بھی تھی ۔*
*★"_ اس نے نبی ﷺ کی خدمت میں یوں عرض کیا:- میں سردار قوم کی بیٹی ہوں ۔ میرا باپ رحم وکرم میں مشہور تھا۔ بھوکوں کو کھانا کھلایا کرتا، غریبوں پر رحم کیا کرتا، وہ مر گیا ۔ بھائی شکست کھا کر بھاگ گیا اب آپ ﷺ مجھ پر رحم کریں_,*
*"_ نبی ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: تیرے باپ میں مومنوں جیسی صفات تھیں ۔ اس کے بعد اسے مع اس کے متعلقین چھوڑ دیا اور زاد راہ اور لباس بھی عنایت فرمایا۔*
[3/23, 8:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا قصہ :-*
*"_ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے نام سے سخت نفرت تھی کیوں کہ میں عیسائی المذہب تھا۔ اپنی قوم کا سردار تھا۔ میری قوم غنیمت کا ایک چہارم حصہ مجھے ادا کیا کرتی تھی ۔ میں اپنے دل میں کہا کرتا تھا کہ میں سچے دین پر بھی ہوں اور اپنے علاقہ کا بادشاہ بھی ہوں ۔ اس لیے مسلمان ہونے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنے شتر خانہ کے داروغہ کو کہہ رکھا تھا کہ دو عمدہ اونٹ جو تیز رفتار ہوں، ہر وقت میرے مکان پر موجود رکھا کرے اور جب اسے اس علاقہ میں مسلمانوں کے آنے کی خبر ملے ، مجھے فوراً بتلائے _,"*
*★_ایک روز داروغہ آ یا۔ کہا: صاحب ! محمدی ﷺ فوج کے آ جانے پر کچھ کرنے کا ارادہ ہو، وہ کر گزریے ، کیوں کہ مجھے دور سے کچھ جھنڈے نظر آتے ہیں ۔ یہ سن کے میں نے اونٹ منگائے۔ بیوی بچہ اور زر و مال کو لادا اور شام کو چل دیا۔ میری بہن آنحضرت ﷺ سے رہائی حاصل کرنے کے بعد میرے پاس شام ہی میں پہنچی ۔ اس نے اپنی رہائی کی تمام کیفیت سنائی ۔میری بہن نہایت دانا اور عقیل تھی ۔ میں نے پوچھا کہ اس شخص ( رسول اللہ ﷺ) کی نسبت تمھاری کیا راۓ ہے ۔ اس نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ تو جلد اس کے پاس چلا جا۔ کیوں کہ اگر وہ نبی ہے ۔ تب تو سابقین کی فضیلت کو کیوں ضائع کیا جائے اور اگر وہ بادشاہ ہے تب بھی اس کے پاس جانے سے تو ذلیل نہ ہوگا۔ کیوں کہ تو تو ہی ہے ۔ ( یعنی تو خود ہی اپنی قابلیتوں میں بے نظیر ہے )_,"*
*★_ بہن کے مشورہ پر میں مدینے میں آیا۔ اس وقت نبی ﷺ مسجد میں تھے۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ فرمایا ” کون؟‘‘ میں نے کہا:’’ عدی بن حاتم “ نبی ﷺ مجھے ساتھ لے کے اپنے گھر چلے ۔ راستہ میں ایک کھوسٹ بڑھیا ملی ۔ اس نے نبی ﷺ کوٹہرا لیا۔ آپ دیر تک اس کے پاس کھڑے رہے اور وہ اپنی بی داستان سناتی رہی_,"*
*"_ میں نے اپنے دل میں کہا۔ یہ شخص بادشاہ تو ہرگز نہیں ۔*
*★_ پھر آنحضرت ﷺ گھر پہنچے ۔ ایک چمڑے کا گدا جس میں کھجور کے پٹھے بھرے ہوئے تھے نبی ﷺ نے میرے سامنے رکھ دیا۔ فرمایا: اس پر بیٹھو۔ میں نے کہا- نہیں، حضور ﷺ بیٹھیں ۔ فرمایا- نہیں ۔ تم ہی بیٹھ جاؤ۔ میں گدے پر بیٹھ گیا اور آ نحضرت ﷺ زمین پر بیٹھ گئے ۔ اب پھر میرے دل نے یہی گواہی دی کہ یہ بادشاہ ہرگز نہیں ۔*
[3/23, 8:36 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب نبی ﷺ نے فرمایا- تم تو’’ رکوسی‘ ہو۔ (رکوسی عیسائیوں کے ایک قدیم فرقہ کا نام ہے) ۔ میں نے کہا: ہاں ۔فرمایا تم تو اپنی قوم سے غنیمت اور پیداوار سے چہارم لیا کرتے ہو۔ میں نے کہا: ہاں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایسا کرنا تو تمہارے دین میں جائز نہیں ۔ میں نے کہا: سچ ہے اور میں نے دل میں کہا کہ یہ ضرور نبی ہے۔ سب کچھ جانتا ہے ۔اس سے کچھ پوشیدہ نہیں_,"*
*★_ نبی ﷺ نے پھر فرمایا- عدی شاید اس دین میں داخل ہونے سے تم کو یہ امر مانع ہے کہ سب لوگ غریب ہیں ۔ واللہ! ان میں اس قدر مال ہونے والا ہے کہ کوئی شخص مال لینے والا باقی نہ رہے گا ۔*
*"_عدی ! اس دین میں داخل ہونے سے تم کو شاید یہ امر بھی مانع ہے کہ ہم لوگ تعداد میں تھوڑے ہیں اور ہمارے دشمن بہت ہیں ۔ اللہ کی قسم ! وہ وقت قریب آ رہا ہے۔ جب تم سن لو گے کہ اکیلی عورت قادسیہ سے چلے گی اور مکہ کا حج کرے گی اور اسے کسی کا ڈرخوف نہ ہوگا _,"*
*"_ عدی ! اس دین میں داخل ہونے سے شاید تم کو یہ امر بھی مانع ہے کہ حکومت اور سلطنت آج کل دوسری قوموں میں ہے۔ واللہ ! وہ وقت بہت قریب آ رہا ہے۔ جب تم سن لو گے کہ ارض ہابل کا سفید محل ( نوشیرواں کا دربار دیوان خانہ ) مسلمانوں کے ہاتھ پر مفتوح ہوگا_,"*
*★"_ عدی ! بتلاؤ کہ لا الہ الا اللہ کے کہنے میں تمہیں کیا تامل ہے؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے؟ عدی ! بتلاؤ کہ اللہ اکبر کے کہنے میں تمہیں کیا عذر ہے؟ کیا اللہ سے بھی کوئی بڑا ہے؟*
*"_ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس تقریر کے بعد میں مسلمان ہو گیا ۔ میرے اسلام لانے سے نبی ﷺ کے چہرہ پر بشاشت اور فرحت نمایاں تھی۔"*
*★_ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد نبوی ﷺ کے بعد دو سال پورے ہو چکے تھے اور تیسرا سال جل رہا تھا کہ میں نے ارض ہابل کے محلات کو بھی فتح شدہ دیکھ لیا اور ایک بڑھیا کو قادسیہ سے مکہ تک حج کے لیے اکیلی آتے بھی دیکھ لیا اور مجھے امید ہے کہ تیسری بات بھی ہوکر رہے گی ۔*
*"_عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ نے 67ھ میں بعمر 120 سال کوفہ میں وفات پائی_,*
*🗂️_بخاری: 3595,1413 تاریخ طبری۔*
*★"_حج اسلام کا پانچواں رکن_,*
*"_اسلام میں حج 9ھ کو فرض ہوا، اسی سال نبی کریم ﷺ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحاج بنایا اور تین سو (300) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے ہمراہ کیا تاکہ سب کو حج کرائیں،*
*"_ اسلام کا پانچواں رکن حج ہے, یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام وہ پیغام محبت ہے جو بچھڑے ہوؤں کو ملاتا ، بیگانوں کو یگانہ اور آشناؤں کو صدیق بنادیتا ہے۔ احکام اسلام کا منشاء بھی یہی ہے کہ افراد مختلفہ کو ملت واحدہ بنا کر کلمہ واحدہ پر جمع کر دیا جاۓ ۔*
*★_ اہل محلہ میں محبت اتحاد پیدا کرنے ، قائم رکھنے کے لیے پنج گانہ نمازوں کے وقت اہل محلہ پر محلہ کی مسجد میں جمع ہونا واجب کیا گیا ہے۔ اہل شہر میں محبت و تعلقات بڑھانے کے لیے ہفتہ میں ایک بار ان کا مسجد جامع میں اکٹھا ہونا مل کر نماز جمعہ ادا کرنا ضروری ٹھہرایا گیا ہے۔*
*★_ اہل شہر، دیہات، قرب و جوار کے رہنے والوں میں تعارف تعلق محبت و شناسائی قائم کرنے اور متحکم رکھنے کے لیے سال میں دو بار عیدین کی نماز کو سنن ہدی میں سے قرار دیا گیا ہے ۔ ہر دو موقع پر دیہات والے شہر کی جانب آتے ہیں اور شہر والے شہر سے باہر نکل کر ان سے ملاقی ہوتے اور مل جل کر عبادت الہی ادا کرتے ہیں_,*
*"_عالم اسلامی میں رابطہ دین کے مضبوط کرنے مختلف قوموں ،مختلف نسلوں ،مختلف زبانوں مختلف رنگوں اور مختلف ملکوں کے اشخاص کو دین واحد کی وحدت میں شامل ہونے کے لیے حج عمر بھر میں ایک دفعہ ان سب اشخاص پر جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں، فرض کیا گیا ہے۔ حج میں سب کے لیے وہ سادہ بن سلا لباس جو نسل انسانی کے پدراعظم آدم علیہ السلام کا تھا۔ تجویز کیا گیا ہے تا کہ ایک ہی رسول ﷺ، ایک ہی قرآن ، ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ایک ہی صورت ، ایک ہی لباس میں ایک ہی سطح پر نظر آئیں اور چشم ظاہر بین کو بھی ان اتحاد معنوی رکھنے والوں کے اندر کوئی اختلاف ظاہری محسوس نہ ہو سکے۔*
*★"_ حج کے لیے وہ مقام قرار دیا گیا ہے جہاں صابی، یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کے جداعظم حضرت ابراہیم علیہ سلام نے دنیا کی سب سے پہلی عبادت گاہ بنائی تھی ۔ چوں کہ اقوام بالا کا مجموعہ دنیا کی دیگر اقوام سے زیادہ ہے ۔ اس لیے اس مقام کے اختیار کرنے کی تائید کثرت راۓ اور قدامت زمانہ دونوں طرح سے ہوتی ہے ۔*
[3/29, 7:05 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ نبی ﷺ کا حج (10 ہجری):-*
*_ اس سال نبی ﷺ نے حج کا ارادہ کیا اور جملہ اطراف میں اطلاع بھیج دی گئی کہ نبی ﷺ حج کے لیے تشریف لے جانے والے ہیں ۔ اس اطلاع کے بعدا نبوہ درانبو وخلقت مدینہ طیبہ میں جمع ہوگئی ۔ اس انبوہ میں ہر درجہ و ہر طبقہ کے شخص تھے۔*
*★"_ذی الحلیفہ میں نبی ﷺ نے احرام باندھا اور یہیں سے "لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك إن الـحـمـد والنعمة لك والملك لا شريك لك" كا ترانہ بلند کیا اور مکہ معظمہ کو احرام کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔ اس مقدس کارواں کے ساتھ راستہ میں ہر ہر جگہ سے فوج در فوج لوگ شامل ہوتے جاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راہ میں جب کسی ٹیلہ یا کریوہ سے گزر ہوتا تھا تین تین بار تکبر با آواز بلند فرماتے تھے_,"*
*★_ جب مکہ کے قریب پہنچے تو ذی طوی میں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرے اور پھر بالائے مکہ سے ان سب قوموں اور انبوہ کو لے کر مکہ میں داخل ہوۓ اور روز روشن میں کعبۃ اللہ کا طواف کر کے اللہ تعالی کے جلال کو آشکارا فرمایا۔ زیارت کعبۃ اللہ سے فارغ ہو کر صفا اور مروہ کے پہاڑوں پر تشریف لے گئے ۔ ان کی چوٹیوں پر چڑھ کے اور کعبہ کی جانب رخ کر کے کلمات توحید وتکبیر پڑھے اور:-*
*"_اللهُ أَكْـبَر لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وهُوَ عَلى كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ _,"*
*کے ترانے گاۓ ۔*
*★_ آٹھویں ذی الحج کو قیام گاہ سے مکہ روانہ ہوکر منی ٹھہرے ۔ ظہر، عصر، مغرب، عشا صبح کی نمازیں منی میں ادا فرمائیں ۔ نویں ذی الج کو آنحضرت ﷺﷺ طلوع آفتاب کے بعد وادی نمرہ آ کر اترے۔اس وادی کے ایک جانب عرفات اور دوسری جانب مزدلفہ ہے ۔ دن ڈھلنے کے بعد یہاں سے روانہ ہو کر عرفات تشریف لائے ۔ تمام میدان سر تا سر لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور ہر ایک شخص تکبر و تہلیل، تمحید و تقدیس میں مصروف تھا۔ اس وقت ایک لاکھ چوالیس ہزار ( یا ایک لاکھ چوبیس ہزار ) کا مجمع احکام الہی کی تعمیل کے لیے ہمہ تن حاضر تھا۔ نبی ﷺ نے پہاڑی پر چڑھ کر اور قصواء پرسوار ہوکر خطبہ کا آغاز فرمایا۔*
[3/31, 10:03 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_نبی ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع :-*
*"_ لوگوں! میں خیال کرتا ہوں کہ می اور تم پھر کبھی اس مجلس میں اکٹھے نہیں ہوں گے۔*
*★"_لوگو! تمہارے خون, تمہارے مال اور تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی ،اس شہر کی ، اس مہینہ کی حرمت کر تے ہو ۔ لوگو ! تمہیں عنقریب اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمھارے اعمال کی بابت سوال فرماۓ گا۔ خبر دار ! میرے بعد گمراہ نہ بن جاتا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔*
*★"_ لوگو! جاہلیت کی ہر ایک بات کو میں اپنے قدموں کے نیچے پامال کرتا ہوں ۔ جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے ملیامیٹ کرتا ہوں ۔ پہلا خون جو میرے خاندان کا ہے یعنی ابن ربیعہ بن الحارث کا خون جو بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور ہزیل نے اسے مار ڈالا تھا، میں چھوڑتا ہوں۔ جاہلیت کے زمانے کا سود ملیامیٹ کر دیا گیا، پہلا سود اپنے خاندان کا جو میں مٹاتا ہوں، وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ وہ سب کا سب چھوڑ دیا گیا ہے۔*
*★"_ لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور اللہ کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمھا را حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو ( کہ اس کا آنا تم کو ناگوار ہے ) نہ آنے دیں۔لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو ۔ عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کو اچھی طرح کھلاؤ، اچھی طرح پہناؤ۔*
[4/2, 9:03 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے مضبوط پکڑ لوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ، وہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ،*
*★"_ لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی اور پیغمبر ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے ۔خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ اور پنج گانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوۃ نہایت دلی خوشی کے ساتھ دیا کرو۔ خانہ خدا کا حج بجالاؤ اور اپنے اولیاۓ امور و حکام کی اطاعت کرو جس کی جزا یہ ہے کہ تم پروردگار کے فرودس بریں میں داخل ہو گے ۔*
*★_ لوگو ! قیامت کے دن تم سے میری بابت بھی دریافت کیا جاۓ گا مجھے ذرا بتلا دو کہ تم کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا: ہم اس کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے اللہ کے احکام ہم کو پہنچا دیئے۔ آپ نے رسالت و نبوت کا حق ادا کر دیا، آپ ﷺ نے ہم کو کھوٹے کھرے کی بابت اچھی طرح بتلا دیا۔ (اس وقت) نبی ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو اٹھایا ۔ آسمان کی طرف انگلی کو اٹھاتے تھے اور پھر لوگوں کی طرف جھکاتے تھے۔(فرماتے تھے ) اے اللہ ! سن لے ( تیرے بندے کیا کہہ رہے ہیں) اے اللہ گواہ رہنا ( کہ یہ لوگ کیا گواہی دے رہے ہیں) ۔اے اللہ ! شاہد رہ( کہ یہ سب کیسا صاف اقرار کرر ہے ہیں )*
*★_ دیکھو ! جولوگ موجود ہیں ، وہ ان لوگوں کو جو موجود نہیں ہیں اس کی تبلیغ کرتے رہیں، ممکن ہے بعض سامعین سے وہ لوگ زیادہ تر اس کلام کو یاد رکھنے اور حفاظت کرنے والے ہوں جن پرتبلیغ کی جاۓ۔*
*★_قارئین! اس خطبہ نبوی ﷺ کو پڑھیں، غور سے پڑھیں ، ذرا تفکر وتدبر سے پڑھیں کہ آنحضرت ﷺ نے کیوں کر اپنے الوداعی خطبہ میں قرآن مجید پر عمل کر نے کی تاکید فرمائی ہے اور کیوں کر قرآن مجید پر عمل کر نے والوں کے لیے وعدہ کیا ہے کہ وہ کبھی گمراہ نہ ہوگا۔*
*"_کیوں کر مسلمانوں کے باہمی حقوق جان و مال وعزت کو محفوظ فرمایا ہے۔ کیوں کر بیویوں کے حقوق پر نہایت مستحکم الفاظ میں توجہ دلائی ہے ۔ کیوں کر اپنی ذات مبارک کے متعلق اپنے عمر بھر کے کارناموں کے متعلق ہمارے باپ داداؤں سے گویا مہریں لگوائی ہیں ۔ کیوں کر ہر ایک مسلمان کو تبلیغ اور اشاعت اسلام کا ذمہ دار جوابدہ قراردیا ہے ۔*
*"_یہی ہیں وہ اصول واحکام جن پرعمل کرنا مسلمانوں کو دنیا اور دین میں سر بلند کر سکتا ہے اور جن کا ترک عمل دنیا و آخرت کا خسارہ ہے ،*
[4/3, 6:04 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_★_ نبی کریم ﷺ جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو اسی جگہ اس آیت کا نزول ہوا [المائدو:3} :-*
*"_ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا _,"*
*"_آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام کا دین ہونا پسند فرمایا ہے_,"*
*★_ یوم النحر کو نبی ﷺ نے 63 ثترے اپنے ہاتھ سے اور 37 ثتر حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ذیح کیے ، یہ قربانی منی پر کی گئی تھی جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قربان گاہ چلی آتی ہے ،*
*★_ قربانی سے فارغ ہو کر نبی ﷺ بیت اللہ میں آے اور طواف کا اضافہ کیا ، قربانی اور طواف میں سب نے آنحضرت ﷺ کی اقتداء کی ، ہزاروں اونٹ ، مینڈھے ، بھیڑیں قربانی کی گئی ،*
*★"_حج سے نبی ﷺ کا مقصود شعائر اللہ کی تعظیم، حضرت ابراہیم علیہ سلام، حضرت اسماعیل علیہ سلام کے سنن ہدی کا احیاء ۔ کفار کے مشر کانہ رسوم کا ابطال ۔ توحید خالص کا اعلان، تعلیم اسلام کی اشاعت عامہ تھا۔ چونکہ آنحضرت ﷺ نے امت کو اس حج میں آخری تبلیغ فرمائی تھی۔ اس لیے اس حج کا نام حجیۃ البلاغ بھی ہے اور چونکہ اس حج میں آ نحضرت ﷺ نے امت سے کلمات تو دلیع فرماۓ تھے اس لیے اس کا نام "حجۃ الوداع‘‘ بھی ہے ۔*
*★_ الغرض نبی ﷺ نے اس عظیم الشان کامیابی کے ساتھ ایک لاکھ چوالیس ہزار 144000 ) برگزیدہ بندوں کے سامنے توحید کی تعلیم و عمل اور البلاغ والوداع کے بعد مدینہ طیبہ کو روانہ ہوئے۔ راہ میں بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نسبت کچھ شکایات نبی ﷺ کے سمع مبارک تک پہنچائیں ۔ شکایات کا تعلق حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے چند افعال سے تھا۔ جو حکومت یمن میں جناب مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے تقسیم غنیمت وغیرہ کے متعلق صادر ہوۓ تھے۔*
*"_خطبه غدیر :- در حقیقت شکایت کی بنیاد بریدہ رضی اللہ عنہ کا قصور فہم تھا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے "خم غدیر" پر ایک فصیح خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان ومنزلت کا اظہار فرمایا اور علی مرتضیٰ سلام اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: "من كنت مولاه فعلى مولاه" جس کا میں مولی علی بھی اس کا مولی ہے _,"( ترمذی 3713, کنزالعمال- 32994، مسند احمد -1/84)*
*★_ اس خطبہ کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اس شرف کی مبارک باد دی اور بریدہ رضی اللہ عنہ نے بقیتہ العمر علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی محبت ومتابعت کو پورا کیا۔ بالآخر یہ بزرگوار جنگ جمل میں شہید ہوۓ تھے ۔*
[4/4, 6:27 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_11 ہجری :-*
*"_یہ وہ سال ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے حق رسالت ادا کرنے کے بعد اپنے بھیجنے والے کی جانب معاودت فرمائی ۔رحلت سے 6 ماہ پہلے اس سورہ کا نزول ہوا تھا۔ [النصر:1-3]-*
*’’جب اللہ کی مدد اور فتح پہنچ گئی اور تونے لوگوں کو فوج در فوج دین الٰہی میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔ تو اب اللہ کی تحمید و تسبیح کیجیے۔ وہی ہے جو رجوع والا ہے ۔*
*★_ نبی ﷺ سمجھ گئے کہ اس سال میں کوچ کی اطلاع دی گئی ہے ۔ آخری رمضان 10 ہجری میں نبی ﷺ نے 20 یوم کا اعتکاف فرمایا حالانکہ ہر سال دس یوم کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے, اپنی پیاری بیٹی فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کو اس کی وجہ یہی بتا دی تھی کہ مجھے اپنی موت قریب معلوم ہوتی ہے ۔*
*"_ حجۃ الوداع کے مشہور خطبہ میں بھی حضور ﷺ نے امت سے فرما دیا تھا کہ میں عنقریب دنیا چھوڑ دینے والا ہوں ۔*
*★_ شروع ماہ صفر 11 ہجری میں سرور کائنات ﷺ نے سفر آخرت کی تیاری بھی شروع کر دی۔ ایک روز حضور ﷺ احد تشریف لے گئے اور شہدائے احد کے گنج شہیداں پر نماز پڑھی۔ وہاں سے واپس ہو کر سر منبر فرمایا: لوگو ! میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور تمہاری شہادت دینے والا ہوں ۔ واللہ میں اپنے حوض کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے ممالک کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ مجھے یہ ڈر نہیں رہا کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے مگر ڈر ہے کہ منافست ( مقابلہ بازی) نہ کر نے لگو ۔‘‘*
*★_پھر گورستان بقیع میں آدھی رات کو قدم رنجہ فرمایا اور آسودگان بقیع کے لیے دعا فرمائی۔ پھر ایک روز مسلمانوں کو جمع فرمایا اور ارشاد کیا۔ "مرحبا مسلمانو ! اللہ تم کو اپنی رحمت میں رکھے۔ تمہاری شکستہ دلی کو دور فرمائے ۔ تم کو رزق دے، تمہاری مدد کرے، تم کو رفعت دے، تمھیں بامن وامان رکھے، میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اور اللہ کو تمہارا خلیفہ بناتا ہوں اور تم کو اس سے ڈراتا ہوں کیوںکہ میں "نذیر مبین‘‘ ہوں ۔ دیکھنا اللہ کی بستیوں میں اور اسکے بندوں میں تکبر اور برتری کو اختیار نہ کرنا ۔ اللہ تعالٰی نے مجھے اور تمہیں فرمایا ہے: یہ آخرت کا گھر ہے، ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں جو زمین میں برتری اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے اور بہترین انجام تو پرہیز گاروں کے لیے ہے۔ [القصص:83]*
*"_پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ [الزمر:60]*
*” کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے ۔‘‘*
*"_آخر میں فرمایا -سلام تم سب پر اور ان سب پر جو بزریعہ اسلام میری بیعت میں داخل ہوں گے ۔*
[4/5, 5:55 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ آغاز مرض :-*
*"_29 صفر روز دوشنبہ (سوموار ) تھا۔ نبی ﷺ ایک جنازہ سے واپس آ رہے تھے۔ راہ ہی میں دردسر شروع ہو گیا ۔ پھر تپ شدید لاحق ہوا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جو رومال حضور ﷺ کے سر مبارک پر باندھ رکھا تھا میں نے اسے ہاتھ لگایا سینک آ تا تھا۔ بدن ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوئی ۔ میں نے تعجب کیا ،فرمایا: ”انبیاء علیہ السلام سے بڑھ کر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی ۔اس لیے ان کا اجر سب سے بڑھا ہوا ہوتا ہے ۔*
*★_ بیماری میں 11 یوم تک مسجد میں آ کر خود نماز پڑھاتے رہے ۔ بیماری کے سب دن 13 یا 14 تھے۔ آخری ہفتہ نبی ﷺ نے طیبہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پورا فرمایا تھا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بھی نبی ﷺ بیمار ہوا کرتے تو یہ دعا پڑھا کرتے اور اپنے ہاتھ جسم پر پھیر لیا کرتے تھے۔ "أذهب الباس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاءك شفاء لا يغادر سقما ’’*
*"اے نسل انسانی کے پالنے والے، خطر کو دور فرما دے اور صحت عطا کر ۔ شفا دینے والا تو ہی ہے ۔ اور اسی شفا کا نام شفا ہے جو تو عنایت کرتا ہے ۔ایسی صحت دے کہ کوئی تکلیف باقی نہ چھوڑے ۔‘‘*
*★_ ان دنوں میں ، میں نے یہ دعا پڑھی تھی اور نبی ﷺ کے ہاتھوں پر دم کر کے چاہا کہ جسم اطہر پر مبارک ہاتھوں کو پھیر دوں ۔ آ نحضرت ﷺ نے ہاتھ بٹا لیے اور فرمایا: اللهم اغفرلي والحقني بالرفيق الأعلى_" ( بخاری-٤٤٤٠)*
*"_اے اللہ مجھے معاف کر دے اور مجھے اعلیٰ ترین ساتھی میں شامل کر لے۔*
*★_ چہارشنبہ (بدھ ) تھا کہ نبی ﷺ نے مغضب ( تغار یا ٹب) میں بیٹھ کر سات چاہات ( کنوؤں ) کی سات مشکوں کا پانی سر پر ڈلوایا۔ اس تدبیر سے کچھ سکون ہوا۔ طبیعت ہلکی معلوم ہوئی تو نورافروز مسجد ہوئے۔ (فرمایا)- تم سے پہلے ایک قوم ہوئی ہے جو انبیاء وصلحاء کی قبور کو سجدہ گاہ بناتے تھے۔ تم ایسا نہ کرنا ۔‘‘*
[4/7, 6:05 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ( فرمایا ) ان یہودیوں ، ان نصرانیوں پر اللہ تعالی لعنت کرے جنھوں نے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنایا _," ( بخاری -٤٤٤٢-٤٤٤٣)*
*"_ فرمایا: میری قبر کو میرے بعد ایسا نہ بنا دیجو کہ اس کی پرستش ہوا کرے _" ( بخاری-١٣٣٠)*
*"_ فرمایا: اس قوم پر اللہ کا سخت غضب ہے جنھوں نے قبور انبیاء کو مساجد بنایا۔ دیکھو میں تمھیں اس سے منع کرتا رہا ہوں ۔ دیکھو میں تبلیغ کر چکا۔ الہی تو اس کا گواہ ر ہنا، الہی تو اس پر گواہ رہنا۔( بخاری-١٣٩٠- ٤٤٤١, مسلم- ١١٨٣)*
*★"_ نماز پڑھائی ۔نماز کے بعد منبر پر اجلاس فرمایا, منبر پر یہ حضور کی آخری نشست تھی ۔ پھر حمدو ثناء کے بعد فرمایا: میں تم کو انصار کے حق میں وصیت کرتا ہوں۔ یہ لوگ میرے جسم کے پیرہن اور میرے رازدار رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے واجبات کو پورا کر دیا ہے اور اب ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں ۔ ان میں سے اچھا کام کر نے والوں کی قدر کرنا اور لغزش کرنے والوں سے درگزر کرنا _,"*
*★_فرمایا: ایک بندہ کے سامنے دنیا و مافیھا کو پیش کیا گیا ہے مگر اس نے آخرت ہی کو اختیار کیا ‘‘ اس امر کوابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سمجھے ۔انھوں نے کہا کہ ہمارے ماں باپ ، ہماری جانیں ہمارے زر و مال حضور ﷺ پر نثار ہوں_," ( بخاری-٤٤٤١,٤٣٥, و مسلم- ٦١٧٠)*
*★_ پنج شنبہ ( جمعرات ) کا ذکر ہے کہ شدت مرض بڑھ گئی ۔ اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے حاضرین سے فرمایا: لاؤ تمہیں کچھ لکھ دوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ بعض نے کہا کہ نبی ﷺ پر شدت درد غالب ہے ،قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور یہ ہم کو کافی ہے ۔ اس پر آپس میں اختلاف ہوا ۔ کوئی کہتا تھا سامان کتابت لے آؤ کہ ایسا نوشتہ لکھا جاۓ ۔ کوئی کچھ اور کہتا تھا۔ یہ شور وشغب بڑھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ سب اٹھ جاؤ۔ اس کے بعد اسی روز ( پنج شنبہ کو) نبی ﷺ نے تین وصیتیں فرمائیں ۔ (١)-یہود کو عرب سے باہر کر دیا جاۓ ۔ (٢)-وفود کی عزت و مہمانی ہمیشہ اسی طرح کی جاۓ جیسا کہ معمول نبوی ﷺ تھا۔ (٣)- تیسری وصیت سلیمان الاحوال کی روایت میں بیان نہیں ہوئی ۔ مگر صحیح بخاری کی کتاب الوصایا میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے قرآن مجید کے متعلق وصیت فرمائی تھی _" ( بخاری- ٢٧٤٠،٤٤٦٠, ٥٠٢٢)*
[4/9, 6:23 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_اسی روز (پنج شنبہ - جمعرات ) مغرب تک کی سب نمازیں نبی ﷺ نے خود پڑھائی تھیں ۔ نماز مغرب میں سورہ والمرسلات کی تلاوت فرمائی ۔ اس سورہ کی آخری آیت بھی قرآن پاک کی جلالت شان کو آشکارا کرتی ہے۔ عشاء کے لیے حضور ﷺ نے مسجد میں جانے کا تین بار عزم فرمایا۔ ہر دفعہ جب وضو کے لیے بیٹھے، بے ہوشی طاری ہوتی رہی۔ آخر فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھاۓ_"*
*★_اس حکم سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حیات پاک نبوی ﷺ میں سترہ (17) نمازوں میں امامت فرمائی ۔ بخاری -٤٤٤٢,٤٤٤٨)*
*★_ شنبہ یا یک شنبہ (ہفتہ یا اتوار) کا ذکر ہے کہ ابوبکر صدیقی رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ظہر قائم ہو چکی تھی کہ نبی ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ و حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سہارا دیے ہوۓ شرف افزاۓ جماعت ہوۓ ۔ صدیق رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے مت ہٹو۔ پھر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر بیٹھ کر نماز میں داخل ہو گئے ۔ اب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو آنحضرت ﷺ کی اقتدا کرتے تھے اور باقی سب لوگ صدیق رضی اللہ عنہ کی تکبیرات پر نماز ادا کر رہے تھے_," (بخاری -٤٤٤٢)*
*★_ یک شنبہ کے دن سب غلاموں کو آزاد فرما دیا۔ ان کی تعداد بعض روایات میں چالیس (40) بیان ہوئی ہے۔ گھر میں نقد سات (7) دینار موجود تھے۔ وہ غرباء میں تقسیم کر دیے۔ اس دن کی شام کو (آخری شب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے چراغ کا تیل ایک پڑوسن سے عاریتہ منگوایا تھا۔ سلاحات (جنگی ہتھیار) مسلمانوں کو ہبہ فرماۓ ۔ زرہ نبوی ﷺ ایک یہودی کے پاس 30 صاع جو میں رہن تھی_" بخاری -٢٠٦٨, ٤٤٦٧)*
*❀__ آخری دن :- دوشنبہ کے دن نماز صبح کے وقت نبی ﷺ نے وہ پردہ اٹھایا جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور مسجد طیبہ ﷺ کے درمیان پڑا ہوا تھا۔ اس وقت نماز ہو رہی تھی ۔ تھوڑی دیر تک نبی ﷺ اس پاک نظارہ کو جو حضور ﷺ کی پاک تعلیم کا نتیجہ تھا۔ ( صحیح مسلم عن انس ) ملاحظہ فرماتے رہے۔ اس نظارہ سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔ اس وقت وجہ مبارک ورق قرآن معلوم ہوتا تھا _"*
*★"_ ( چہرہ اقدس کو ورق قرآن سے تشبیہ روایت انس رضی اللہ عنہ میں ہے۔ یہ ایک عجیب اور پاک تشبیہ ہے۔ ورق قرآن پر طلائی کا کام ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا چہرہ تاباں پر زردی مرض ہی چھائی ہوئی تھی ۔ لہذا تابانی اور رنگ مرض میں طلاء سے اور تقدس میں قرآن سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ بخاری 681,680 مسلم:94)*
*★_ صحابہ رضی اللہ عنہم کا شوق اور اضطراب سے یہ حال ہو گیا تھا کہ رخ پرنور ہی کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔صدیق رضی اللہ عنہ یہ سمجھے کہ نبی ﷺ کا ارادہ نماز میں آنے کا ہے ۔ وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ کے اشارہ سے فرمایا کہ نماز پڑھاتے رہو۔ یہی اشارہ سب کی تسکین کا موجب ہوا۔ پھر حضور ﷺ نے پردہ چھوڑ دیا۔ یہ نماز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے مکمل فرمائی_"*
*★_ اس کے بعد حضور ﷺ پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔ دن چڑھا تو پیاری بیٹی فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کو بلایا۔ کان میں کچھ بات کہی ، وہ رو پڑیں۔ پھر کچھ اور بات کہی تو وہ ہنس پڑیں ۔ بتول پاک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ پہلی بات حضور ﷺ نے یہ فرمائی تھی کہ اب میں دنیا کو چھوڑ رہا ہوں اور دوسری بات یہ فرمائی تھی کہ اہل بیت میں سے تم ہی میرے پاس سب سے پہلے پہنچوگی ۔ ( یعنی انتقال ہوگا ) ( بخاری -٣٦٢٨, ٦٢٧٥, مسلم ٦٣١٣, ابنِ ماجہ-١٦٢١)*
*"★_ اسی روز حضور ﷺ نے فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو "’سید ونساءالعالمین" ہونے کی بشارت ارزانی فرمائی ۔ سیدۃ النساء نے حضور ﷺ کی حالت کو دیکھ کر کہا: آہ ! میرے ابا جان کو کتنی تکلیف ہے، فرمایا کہ تیرے باپ کو آج کے بعد کوئی کرب نہ ہوگا ۔ ( بخاری -٤٤٦٢)*
*★"_ پھر حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا۔ دونوں کو چوما اور ان کے احترام کی وصیت فرمائی ۔ پھر ازواج مطہرات کو بلایا اور ان کو نصیحتیں فرمائیں ۔پھر علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ انھوں نے سر مبارک اپنی گود میں رکھ لیا۔ ان کو بھی نصیحت فرمائی ۔ اس وقت تف مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے چہرہ پاک پر پڑ رہا تھا۔*
*★_ اسی موقع پر فرمایا: الصـلوة الـصـلوة وما ملكت ايمانكم ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی آخری وصیت یہی تھی ۔ صدیقہ رضی اللہ عنہا نافرماتی ہیں کہ اسی ارشاد کو حضور ﷺ کئی بار دہراتے رہے_ ( بخاری-١٩٨ )*
*★_ حالت نزع رواں:- اب نزع کی حالت طاری ہوئی۔ اس وقت سرور کائنات ﷺ کو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سہارا دیے ہوئے پس پشت بیٹھی تھیں۔ پانی کا پیالہ حضور ﷺ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ پیالہ میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ انوار پر پھیر لیتے تھے۔ چہرہ مبارک بھی سرخ ہوتا کبھی زرد پڑ جاتا تھا۔ زبان مبارک سے فرماتے تھے ۔ "لا إله إلا الله إن الموت سكرات" یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔موت کی تلخی ہوا ہی کرتی ہے۔*
[4/12, 4:41 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اتنے میں عبدالرحمن بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آ گئے, ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی ۔حضور ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مسواک کو اپنے دانتوں سے نرم بنا دیا۔ حضور ﷺ نے مسواک کی۔ پھر ہاتھ کو بلند فرمایا اور زبان قدسی سے فرمایا:- اللهم الرفيق الأعلی" _ اسی وقت ہاتھ لٹک گیا۔ پتلی اوپر اٹھ گئی _" ( بخاری -٤٤٤٩)*
*★_ 13 ربیع الاول 1 1 ہجری یوم دوشنبہ ( سوموار ) وقت چاشت تھا، بعض روایات میں ہے وہی وقت جب نبوت ملی تھی، بعض میں ہے وہی وقت جب مدینہ ( قبا) پہنچے تھے، کہ جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کیا۔ اس وقت عمر مبارک 63 سال قمری پر چار (4) دن تھی_,"*
*(انا لله وإنا إليه راجعون ) [البقرة :154]- ہم اللہ کا مال ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔‘‘*
*"_ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الانبياء :34] اے نبی ! بھلا اگر تم مر جاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟‘‘*
*★_ سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا نے اس حادثہ پر کہا: ’’ _پیارے باپ نے دعوت حق کو قبول کیا اور فردوس میں نزول فرمایا۔ آہ جبریل کوخبر انتقال کون پہنچا سکتا ہے ۔‘‘ ( پھر فرمایا) الہی روح فاطمہ رضی اللہ عنہا کو روح محمد ﷺ کے پاس پہنچا دے۔ الہی ! مجھے دیدار رسول ﷺ سے مسرور بنا دے۔ الہی! مجھے اس مصیبت کے ثواب سے تو بے نصیب نہ رکھ اور بروز محشر شفاعت محمد ﷺ سے محروم نہ فرما۔*
*★_ عائشہ طیبہ رضی اللہ عنہا نے اس ہولناک سانحہ پر کہا:-*
*"_ آہ ! وہ نبی ﷺ جس نے فقر کو غنا پر اور مسکینی کو تونگری پر اختیار فرمایا۔ حیف (افسوس ) وہ دین پرور، جو امت عاصی کے فکر میں کبھی پوری رات آرام سے نہ سویا۔ جس نے ہمیشہ بڑی استقامت واستقلال سے نفس کے ساتھ محاربہ کیا۔ جس نے منہیات کو ذرہ بھر بھی نگاہ التفات سے نہ دیکھا۔ جس نے بر واحسان کے دروازے ارباب فقر واحتیاج پر کبھی بھی بند نہ کیے ۔ جس کے ضمیر منیر کے دامن پر دشمنوں کی ایذا و اضرار کا ذرہ بھی غبار نہ بیٹھا۔ حیف! جس کے موتی جیسے دانت پتھر سے توڑے گئے ۔ حیف! وہ جس کی پیشانی نورانی کو زخمی کیا گیا۔ آج دنیا سے رخصت ہوا۔ ( مدارج النبوۃ شاہ عبدالحق دہلوی)۔*
: *★"_ خبر وفات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سراسیمہ و حیران، دیوانہ و سرگردان تھے۔ کوئی جنگل کو نکل بھاگا۔ کوئی ششدر ہو کر جہاں تھا ،وہیں رو گیا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یقین ہی نہ آ تا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارتحال فرمایا۔*
*★"_ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر میں گئے ۔جسم اطہر دیکھا ، منہ سے منہ لگایا، پیشانی کو چوما۔ آنسو بہاۓ ۔ پھر زبان سے کہا: ’’میرے پدرو مادر حضور ﷺ پر نثار ! واللہ اللہ تعالی آپ پر دوموتیں وارد نہ کرے گا ۔ یہی ایک موت تھی جو آپ پر لکھی ہوئی تھی _," ( بخاری - ٤٤٥٣)*
*★_ پھر مسجد میں آۓ ۔ وفات پر آیات کے اعلان کا خطبہ پڑھا۔ ( ترجمہ) ’’واضح ہو کہ جو کوئی شخص تم میں سے محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا، تو وہ تو رحلت کر گئے ہیں اور جو کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا تو بے شک اللہ تعالی تو زندہ ہے، اسے موت نہیں ۔ اللہ نے خود فرمایا ہے : محمد ( ﷺ )! تو ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی رسول ہو چکے ہیں۔ کیا اگر وہ مر گیا یا شہید ہوا تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ ہاں جو کوئی ایسا کرے گا تو اللہ تعالی کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا اور اللہ تعالی تو شکر گزاروں کو اچھا بدلہ دینے والا ہے _,"*
*(بخاری - ٤٤٥٤)*
: *★"_ غسل و تکفین :-*
*"_نبی ﷺ کو غسل دیتے ہوئے علی مرتضیٰ رضی اللہ یہ کہہ رہے تھے۔ ”میرے مادر و پدر آپ پر قربان ۔ آپ کی موت سے دو چیز جاتی رہی جو کسی دوسرے کی موت سے نہ گئی تھی ۔ یعنی نبوت اور غیب کی خبروں اور وحی آسمانی کا انقطاع ہو گیا۔ آپ کی موت خاص صدمہ عظیم ہے کہ اب سب مصیبتوں سے دل سرد ہو گیا اور ایسا عام حادثہ ہے کہ سب لوگ اس میں یکساں ہیں ۔ اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور آہ وزاری سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم آنسوؤں کو آپ پر بہا دیتے ۔ پھر بھی یہ دردلا علاج اور زخم لا زوال ہی ہوتا اور ہماری یہ حالت بھی اس مصیبت کے مقابلہ میں کم ہوتی ۔ اس مصیبت کا تو علاج ہی نہیں اور یہ غم تو جانے والا ہی نہیں ۔ میرے والدین حضور پر نثار ۔ پروردگار کے ہاں ہمارا ذکر فرمانا اور ہم کو اپنے دل سے بھول نہ جانا ‘‘*
*"_ نبی ﷺ کو تین کپڑوں میں کفنایا گیا_," (بخاری -١٢٧١)*
*★_ نماز جنازہ :-*
*"_لاش مبارک اسی جگہ رکھی رہی, جہاں انتقال ہوا تھا۔ نماز جنازہ پہلے کنبہ والوں نے ، پھر مہاجرین پھر انصار نے ، مردوں نے اور عورتوں نے پھر بچوں نے ادا کی ۔ اس نماز میں کوئی امام نہ تھا۔ حجرہ مبارک تنگ تھا۔ اس لیے دس دس شخص اندر جاتے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہو کر باہر آ تے ۔ تب اور دس اندر جاتے۔ یہ سلسلہ لگاتار شب و روز جاری رہا۔ اس لیے تدفین مبارک شب چہار شنبہ ( بدھ ) کو یعنی رحلت سے قریباً 32 گھنٹے بعد عمل میں آئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔*
*★_ ترمذی کی روایت سے ظاہر ہے کہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کی یہ تجویز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بتلائی تھی اور علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے اتفاق فرمایا تھا ۔*
*★_ نبی ﷺ کے جنازہ پر یہ دعا پڑھی جاتی تھی : -( ترجمہ) ” بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر، اے ایمان والو ! تم بھی اس ( نبی ) پر درود اور سلام بھیجو۔ اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں ، اللہ برتر اور رحیم کے ، ملائکہ اور نیکو کاروں کی ،انبیاء و صدیقین اور صالحین نیز ہر تسبیح کر نے والی چیز کی طرف سے۔ اے رب العالمین ! محمد ﷺ پر درود ہوں جو عبد اللہ کے لخت جگر ، خاتم النبین ، تمام انبیاء کے سردار، متقیوں کے امام اور رسول رب العالمین ہیں ۔ جو تیری طرف سے شاہد اور ڈرانے والے اور مانند چمکتے ہوۓ سورج کے ہیں _," ( زرقانی جلد 8 ص: 293)۔*
*📓 رحمة للعالمين ﷺ - مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ 155,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے ہمیں میسج کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
0 Comments