RAHMATULLIL AALAMEEN ﷺ ( Urdu) PART-3

 

⚂⚂⚂.
    ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *■ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ ■*
             *🌹صلى الله على محمدﷺ🌹* 
  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                                           ★پارٹ -3,* ★
    ─━━━════●■●════━━━─
*❀__ خلق محمدی ﷺ _,"*
*"_جو واقعات لکھے جا چکے ہیں ان سے مختصر طور پر ان مشکلات کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے جن کا سامنا نبی ﷺ کو اپنی نبوت کے اظہار، اپنی تعلیم کی اشاعت اور اس تعلیم کے قبول کرنے والوں کی حفاظت میں کرنا پڑا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو، جہاں خونریزی اور قتل معمولی بات ہو۔ جہاں کے باشندے دہشت اور غارت گری میں درندوں کے مشابہ، جہالت اور لایعقلی میں انعام ( جانوروں) سے بدتر ہوں ۔ ایک ایسے دعویٰ کا پیش کرنا جو تمام ملک کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگا دینے والا ہو، کچھ آسان نہ تھا۔*

*★"_ پھر اس دعویٰ کا ایسی حالت میں سرسبز ہونا کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے ملیامیٹ کرنے پر دل سے، جان سے، زر سے، مال سے، سالہا سال متفق رہی ہو۔ بالکل تائید ربانی کا ثبوت ہے_,"*

*★_ گذشتہ واقعات کے ضمن میں نبی ﷺ کے اخلاق ومحاسن صفات ومحامد کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسی ریت میں کندن اور ان واقعات ہی سے یہ پتا لگتا ہے کہ مظلومی و بیچارگی اور قوت وسطوت کی متضاد حالتوں میں یکساں سادگی وغربت کے ساتھ زندگی پوری کرنے والا صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے دل پر ناموس الہی نے قبضہ کر لیا ہو اور اسے علائق دنیوی سے پاک کر دیا ہو_,"*

*★_ نبی ﷺ کی زندگی کے مبارک واقعات ہر ملک اور ہر طبقہ کے فرداور جماعتوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں۔ اس باب کے تحت میں مختصر طور پر آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا جو "علمی ربی فاحسن تادیبی" کا مصداق ہیں ذکر کروں گا۔*
*"_ خلق محمدی ﷺ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کے عادات واخلاق ، اطوار وشمائل کے اظہار کے لیے مشبہ بہ (تمثیل ) بن گیا ہے۔ میں اس جگہ کمالات نبوت اور خصوصیات نبویہ صاحبہا الصلوۃ والسلام کا ذکر نہیں کروں گا۔ صرف وہ سادہ حالات لکھنے مقصود ہیں جن کو کوئی سعادت مندازلی اپنے لیے نمونہ بناسکتا ہے۔ "قد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة » [ الاحزاب:21] ’’ تمہارے لیے رسول اللہ کا بہترین نمونہ موجود ہے_,"*   

[4/20, 7:53 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_۔ سید نا محمد رسول اللہ ﷺ امی تھے۔ لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے اور بعثت نبوت کے زمانہ تک کسی عالم کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی تھی، تیرافگنی، شہسواری، نیزہ بازی، سجع گوئی، قصیدہ خوانی، نسب دانی اس زمانے کے ایسے فنون تھے جنھیں شریف خاندان کا ہر ایک نوجوان حصول شہرت اور عزت کے لیے ضرور سیکھ لیا کرتا تھا اور جن کے بغیر کوئی شخص ملک اور قوم میں عزت یا کوئی امتیاز حاصل نہ کر سکتا تھا۔*

*★_ نبی ﷺ نے ان فنون میں سے کسی کو بھی ( اکتسابا ) حاصل نہ کیا تھا اور نہ کسی پر اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔*

*★"_ نبی ﷺ کی نسبت فرنچ پروفیسر سیڈ یو (Sade ) لکھتا ہے: - آنحضرت ﷺ خنده رو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے، بکثرت ذکر اللہ کر نے والے، لغویات سے دور۔ بے ہودہ پن سے نفور ، بہترین رائے اور بہترین عقل والے تھے۔*

*"_ انصاف کے معاملے میں قریب و بعید آنحضرت ﷺ کے نزدیک برابر ہوتا تھا۔ مساکین سے محبت فرمایا کرتے ،غربا میں رہ کر خوش ہوتے، کسی فقیر کو اس کی تنگ دستی کی وجہ سے حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے ، اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب کرتے ۔ جاہلوں کی حرکات پر صبر فرمایا کرتے، کسی شخص سے خود علیحدہ نہ ہوتے ۔ جب تک کہ وہی نہ چلا جاۓ ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے کمال محبت فرمایا کرتے ۔ سفید زمین پر ( بلا کسی مسند وفرش کے ) نشست فرمایا کرتے ۔ اپنے جوتے کو خود گانٹھ لیتے ۔اپنے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے۔ دشمن اور کافر سے بکشادہ پیشانی ملا کر تے تھے_"*
[4/23, 7:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حجۃ الاسلام امام غزالی پہ لکھتے ہیں:-*
*"_آنحضرت ﷺ مویشی کو چارا خود ڈال دیتے ۔اونٹ کو باندھتے، گھر میں صفائی کر لیتے، بکری دھو لیتے، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیتے ۔ خادم کو اس کے کام کاج میں مدد دیتے۔ بازار سے چیز خود جا کر خرید لیتے ۔خود اسے اٹھا لاتے ۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو سلام پہلے کر دیا کرتے ۔ جو کوئی ساتھ ہو لیتا، اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر چلا کرتے۔ غلام و آقا، حبشی و ترکی میں ذرا تفاوت نہ کرتے۔ رات دن کا لباس ایک ہی رکھتے۔ کیسا ہی کوئی حقیر شخص دعوت کے لیے کہتا قبول فرما لیتے۔ جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے برغبت کھاتے۔ رات کے کھانے میں سے صبح کے لیے اور صبح کے کھانے میں سے شام کے لیے اٹھا نہ رکھتے ۔نیک خو، کریم الطبع ، کشادہ رو تھے مگر ہنستے نہ تھے۔*

*"_ اندوہ گیں تھے مگر ترش رو نہ تھے۔ متواضع ، جس میں دنائت نہ تھی۔ بابیت جس میں درشتی نہ تھی ۔ سخی تھے مگر اسراف نہ تھا۔ ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے کسی سے کچھ طمع نہ رکھتے، سر مبارک کو جھکاۓ رکھتے تھے_,"*

*★_حکیم الامت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ لکھتے ہیں: - جو کوئی شخص آنحضرت ﷺ کے سامنے یک بارگی آ جاتا ، وہ ہیبت زدہ ہو جاتا اور جو کوئی پاس آ بیٹھتا وہ وفدائی بن جاتا_, کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے دس (10) سال تک خدمت کی ۔ اس عرصہ میں انھیں بھی اف ( ہوٹھ) تک نہ کہا۔ زبان مبارک پر بھی کوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی۔ نہ کسی پر لعنت کیا کرتے ۔ دوسرے کی اذیت و آزار پر نہایت صبر کیا کرتے۔ خلق الہی پر نہایت رحمت فرماتے، ہاتھ یا زبان مبارک سے بھی کسی کو شر نہ پہنچا۔ کنبہ کی اصلاح اور قوم کی درستی پر نہایت توجہ فرماتے ۔ ہر شخص اور ہر چیز کی قدرو منزلت سے آگاہ تھے ۔ آسمانی بادشاہت کی جانب ہمیشہ نظر لگاۓ رکھتے تھے_،"*

*★"_ صحیح بخاری میں ہے۔ آنحضرت ﷺ مطیع کو بشارت پہنچاتے۔ عاصی کو ڈر سناتے ، بے خبروں کو پناہ دیتے۔ اللہ کے بندہ و رسول ﷺ جملہ کاروبار کو اللہ پر چھوڑ دینے والے۔ نہ درشت خو، نہ سخت گو، چیخ کر نہ بولتے ۔ بدی کا بدلہ ویسا نہ لیتے ۔ معافی مانگنے والے کو معاف فرمایا کرتے ۔ گنہگار کو بخش دیتے ۔ ان کی تعلیم اندھوں کو آنکھیں ، بہروں کو کان دیتی ، غافل دلوں کے پردے اٹھا دیتی ہے۔ آنحضرت ﷺ ہر ایک خوبی سے آراستہ جملہ اخلاق فاضلہ سے متصف، سکینہ ان کا لباس، نکوئی ( نیکی) ان کا شعار، تقویٰ ان کا ضمیر، حکمت ان کا کلام، عدل ان کی سیرت ہے ، ان کی شریعت سراپا راستی، ان کا ملت اسلام ، ہدایت ان کی راہنما ہے۔ وہ ضلالت کو اٹھا‌ دینے والے، گمناموں کو رفعت بخشنے والے، مجہولوں کو نامور کر دینے والے، قلت کو کثرت اور تنگدستی کو غنا سے بدل دینے والے ہیں _,"*
[4/30, 3:47 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ سکوت اور کلام :-"*
*"_نبی کریم ﷺ اکثر خاموش رہا کرتے تھے ۔ بلاضرورت کبھی گفتگو نہ فرمایا کرتے ۔ آنحضرت ﷺ نہایت شریں کلام اور کمال فصیح تھے ۔ کلام میں سختی ذرا نہ تھی ۔ گفتگو ایسی دلآویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل و روح پر قبضہ کر لیتی تھی ۔ آنحضرت ﷺ کا یہ وصف ایسا مسلمہ تھا کہ مخالف بھی اس کی شہادت دیتے تھے اور جاہل دشمن اس کا نام سحر و جادو رکھا کرتے _, سلسلہ سخن ایسا مرتب ہوتا تھا جس میں لفظاً معنا کوئی خلل نہ ہوتا ۔ الفاظ ایسی ترتیب سے ادا فر مایا کرتے کہ اگر سننے والا چاہے تو الفاظ کو شمار کر سکتا تھا _,"*

*★_ ہنستا رونا:-* 
*"_ نبی ﷺ کبھی کھل کھلا کر ہنسنا پسند نہ کرتے تھے تبسم ہی آپ کا ہنستا تھا _,"*
*"_نماز تہجد میں بسا اوقات آنحضرت ﷺ رو پڑا کرتے, کبھی کسی مخلص کے مرنے پر آب دیدہ ہو جاتے ۔ آنحضرت ﷺ کے فرزند ابراہیم سلام اللہ علیہ دودھ پیتے میں گذر گئے تھے۔ جب انھیں قبر میں رکھا گیا تو حضور ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے_,"*
 *"_فرمایا:- آنکھوں میں نم ہے ۔ دل میں غم ہے ۔ پھر بھی ہم وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے پروردگار کو پسندیدہ ہے، ابراہیم ! ہم کو تیری وجہ سے رنج ہوا ۔‘‘*

*★"_ ایک دفعہ اپنی نواسی سانس توڑتی ( دختر زینب رضی اللہ عنہا ) کو گود میں اٹھایا۔ اس وقت حضور ﷺ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! یہ کیا؟ فرمایا: یہ وہ رحم دلی ہے جو اللہ بندوں کے دلوں میں بھر دیتا ہے اور اللہ بھی اپنے انھیں بندوں پر رحم کرے گا جو رحم دل ہیں _," ( بخاری - ١٣٠٣)*

*★_ ایک دفعہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کو قرآن مجید سنا رہے تھے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے:- (سورۃ- النساء آیت نمبر 41)*
*"_ فَكَيۡـفَ اِذَا جِئۡـنَا مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ ۭ بِشَهِيۡدٍ وَّجِئۡـنَا بِكَ عَلٰى هٰٓؤُلَاۤءِ شَهِيۡدًا ۞*
 *"_ ( ترجمہ) تب کیسی ہوگی ۔ جب ہر ایک امت پر اللہ ایک ایک گواہ کھڑا کرے گا اور آپ کو ہم سب امتوں پر شہادت کے لیے کھڑا کریں گے _"*
*"_ فرمایا- بس ٹھہرو۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو نبی ﷺ کی آنکھوں سے پانی جاری تھا۔ ( بخاری -٤٥٨٢)*
[5/1, 3:26 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ غذا کے متعلق ہدایت :-*
*"_ رات کو بھوکا سونے سے منع فرماتے اور ایسا کرنے کو بڑھاپے کا سبب فرماتے ۔ کھانا کھاتے ہی سو جانے سے منع فرمایا کرتے، تقلیل غذا کی رغبت دلایا کرتے ۔ فرمایا کرتے کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے، ایک تہائی حصہ خود معدہ کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔*
*"_ پھلوں ، ترکاریوں کا استعمال ان کی مصلح چیزوں کے ساتھ فرمایا کرتے_,"*

*★"_ مرض اور مریض :-*
*"_ متعدی امراض سے بچاؤر رکھتے اور تندرستوں کو اس سے محتاط رہنے کا حکم دیا کرتے، بیمار کوطبیب حاذق سے علاج کرانے کا ارشادفرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم دیتے _,"*

*★"_طبیب نادان :-*
*"_ نادان طبیب کو طبابت سے منع کیا کرتے اور اسے مریض کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے ۔ حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرماتے ۔ارشاد فرماتے :۔ اللہ نے حرام چیزوں میں تمہارے لیے شفانہیں رکھی _,"*

*★"_ عیادت بیماراں :-*
*"_ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو کوئی بیمار ہو جاتا اس کی عیادت فرمایا کرتے ۔عیادت کے وقت مریض کے قریب بیٹھ جاتے۔ بیمار کوتسلی دیتے لا بأس طهور ( كفاره) إن شاء اللہ فرمایا کرتے ۔ مریض سے پوچھ لیتے کہ کس چیز کو دل چاہتا ہے۔ اگر وہ شئ اس کے لیے مضر نہ ہوتی تو اس کا انتظام کر دیا کرتے_,"*
*"_ ایک یہودی لڑکا آنحضرت ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ اس کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے_,"*
[5/2, 11:53 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_علاج :-*
*"_ حالت مرض میں دوا کا استعمال خود فرمایا اور لوگوں کو علاج کرنے کا ارشاد فرماتے ۔ ’’اے بندگان الہ دوا کیا کرو کیوںکہ اللہ نے ہر مرض کی شفاء مقرر کی ہے ۔ بجز ایک مرض کے لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ فرمایا کھوسٹ ( بڑھایا)۔“ ( ابنِ ماجہ- ٣٤٣٦, ابو داؤد -٣٨٥٥)*

*★_ خطبہ خوانی :-*
*"_ زمین یا منبر پر کھڑے ہوکر یا شترو ناقہ پر سوار ہو کر خطبہ فرمایا کرتے ۔ جس کا آغاز تشہد سے اور اختتام استغفار پر ہوا کرتا۔*
*"_قرآن مجید اس خطبہ میں ضرور ہوتا اور قواعد اسلام کی تعلیم اس خطبہ میں دی جایا کرتی تھی_,"*
*"_خطبہ میں وہ باتیں ضرور بیان کی جاتی تھیں جن کی سردست مسلمانوں کو ضرورت ہوتی اور وقت وضرورت کے اعتبار سے خطبہ میں سب کچھ بیان ہوا کرتا ‘‘*

*★_ ایسے خطبے جمعہ کے دن پر ہی موقوف نہ ہوتے بلکہ جب ضرورت اور موقع ہوتا تب ہی لوگوں کو کلام پاک سے مستفید فرما دیا کرتے تھے۔ خطبہ کے وقت ہاتھ میں کبھی عصا ہوتا، کبھی کمان ، ان پر اثناۓ تقریر میں ٹیک بھی لگالیا کرتے تھے۔ خطبہ کے وقت تلوار کبھی ہاتھ میں نہ ہوتی تھی ۔ نہ اس پر ٹیک لگایا کرتے _," ( ابو داؤد- ١٠٩٦, ١١٤٥)*

*★"_ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ یہ کہتے ہیں : ’جاہلوں کا قول ہے کہ نبی ﷺ منبر پر تلوار لے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ گویا اشارہ یہ تھا کہ دین بزور شمشیر قائم کیا گیا ہے ۔ علامہ کہتے ہیں جاہلوں کا یہ قول غلط ہے ۔ تلوار پر خطبہ میں ٹیک لگانا ثابت نہیں ۔ خطبہ خوانی کا آغاز مدینہ منورہ میں ہوا تھا اور مدینہ منورہ بذریعہ قرآن فتح ہوا تھا۔ نہ بذریعہ تلوار، پھر علامہ موصوف یہ بتلاتے ہیں کہ دین تو وحی سے قائم ہوا ہے ۔*
[5/4, 6:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ صدقہ و ہدیہ :-*
*"_صدقہ کی کوئی چیز ہرگز استعمال نہ کر تے ، البتہ ہدیہ قبول فرماتے مخلصین صحابہ نیز عیسائی اور یہودی جو چیزیں تحفہ بھیجتے ۔ انھیں قبول فرمالیتے ۔ ان کے لیے خود بھی تحفے ارسال فرماتے ۔مگر مشرکین کے ہدایا( تحائف) لینے سے انکار فرماتے ۔ مقوقس متی شاہ مصر کے بھیجے ہوۓ خچر پر حضور ﷺ نے سواری فرمائی اور جنگ حنین کے دن وہی خچر آنحضرت ﷺ کی سواری میں تھا۔ لیکن عامر بن مالک کے بھیجے ہوئے گھوڑے کو قبول کرنے سے انکار فرما دیا اور ارشاد کیا کہ ہم مشرک سے ہدیہ قبول نہیں کرتے _," ( زادالمعاد-٢/١٦١)*

*★_ جو قیمتی تحائف آنحضرت ﷺ کے پاس آیا کرتے اکثر اوقات انھیں آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں تقسیم فرمادیا کرتے_,"*

*★"_ اپنی تعریف :- اپنی ایسی تعریف جس سے کسی دوسرے نبی کی کمی نکلتی، پسند نہ فرمایا کرتے اور ارشاد کرتے :- لا تخيروا بين الأنبياء _" ( بخاری -٢٤١٢, مسلم - ٦١٦٥)*
*"_نبیوں کے ذکر میں ایسی طرز اختیار نہ کرو کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں کمی نکلتی ہو_,"*

*★_ ایک بیاہ میں تشریف لے گئے ۔ وہاں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اپنے بزرگوں کے تاریخی کارنامے گا رہی تھیں ۔ انھوں نے یہ بھی گایا کہ ہمارے درمیان ایسا نبی ہے جو کل (غیب ) کی بات آج بتادیتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا۔ یہ نہ کہو جو پہلے کہتی تھیں وہی کہے جاؤ_", (بخاری ١٢٦ )*

*★"_ اظہار حقیقت یا جوش عقیدہ کی اصلاح:- سیدنا ابراہیم فرزند رسول ﷺ کا انتقال ہو گیا۔ اس روز سورج گرہن ہوا۔ لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے سورج بھی گہنایا گیا۔ نبی ﷺ نے لوگوں کے مجمع میں خطبہ پڑھا اورفرمایا کہ سورج ، چاند کسی کے مرنے یا جینے پر نہیں گہنایا کرتے_", (بخاری-١٠٤٣, ١٠٦٠, مسلم -٦١٥, ابو داؤد-٤٦٦٨)*
[5/4, 7:04 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مصلحت عامہ کا لحاظ :-*
*"_ جب قریش نے اسلام سے پہلے کعبہ کی عمارت بنائی تو انھوں نے کچھ تو عمارات ابراہیمی میں سے اندر کی جگہ ( حطیم ) باہر چھوڑ دی ۔ پھر کرسی اتنی اونچی رکھی کہ زینہ لگانا پڑے اور بیت اللہ میں دروازہ بھی صرف ایک ہی رکھا۔ نبی ﷺ نے ایک روز عائشہ طیبہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:-*
*"_قریش کو مسلمان ہوۓ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں ورنہ میں اس عمارت کو گرا دیتا۔ کعبہ میں دو دروازے رکھتا۔ ایک آنے کا اور ایک جانے کا _,"( بخاری126)*

 *★"_ بشریت و رسالت :-*
*"_نبی ﷺ ان احکام کو جو شان رسالت سے ظاہر ہوتے ان افعال و اقوال سے جو بطور بشریت ثابت ہوتے ہمیشہ نمایاں طور پر علیحدہ علیحدہ دکھلانے کی سعی فرماتے ۔ ایک دفعہ فرمایا- میں بشر ہوں، میرے سامنے جھگڑے آتے ہیں، کوئی شخص دوسرے فریق سے اپنے مدعا کو بہتر طریق پر ادا کرنے والا ہوتا ہے ۔ جس سے گمان ہو جاتا ہے کہ وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ پس اگر کسی شخص کو کسی مسلمان کے حصہ میں سے اس افیصلہ کے بموجب کچھ ملتا ہو تو وہ سمجھ لے کہ یہ ایک آگ کا ٹکڑا ہے۔اب خواہ لے خواہ چھوڑ دے_",( بخاری: 2680,2458 مسند احمد: 308/6)* 

*★"_ بریرہ رضی اللہ عنہا لونڈی سے آنحضرت ﷺ نے مغیث رضی اللہ عنہ اس کے شوہر کی سفارش کی ۔ جس سے وہ بوجہ آزادی ( حریت ) علیحدہ ہو چکی تھی ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ حکم دے رہے ہیں ۔ فرمایا - نہیں ۔ میں سفارش کرتا ہوں۔ وہ بولی مجھے مغیث رضی اللہ عنہ کی حاجت نہیں_," ( بخاری : 5282)* 

 *★_ اہل مدینہ نر کھجور کا بور مادہ کھجور پر ڈالا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کی کیا ضرورت ہے۔ اہل مدینہ نے یہ عمل چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پھل درختوں پر کم لگا۔ لوگوں نے اس بارہ میں آنحضرت ﷺ سے گذارش کی ۔فرمایا۔ دنیا کے کام تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔ جب میں کوئی کام دین کا بتلایا کروں تو اس کی پیروی کیا کرو_,"*
[5/6, 6:02 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بچوں پر شفقت:-*
*"_ بچوں کے قریب سے گذر فرماتے تو ان کو خود السلام علیکم کہا کرتے ۔ ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ۔انھیں گود میں اٹھا لیتے _,"*

*★"_ بوڑھوں پر عنایت:-*
*"_ فتح مکہ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے بوڑھے ضعیف، فاقد البصر باپ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیعت اسلام کرانے کے لیے لاۓ ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے بوڑھے کو کیوں تکلیف دی ۔ میں خود ان کے پاس چلا جاتا ۔‘‘*

*★"_ ارباب فضل کی قدر و منزلت:-*
*"_ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جو خندق میں سخت زخمی ہو گئے تھے، یہودیان بنی قریظہ نے اپنا حکم اور منصف تسلیم کر کے بلایا تھا۔ وہ مسجد تک پہنچے تو آپ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو اؤس کے تھے، فرمایا: - اپنے سردار کی پیشوائی کو جاؤ، لوگ گئے ۔ ان کو آگے بڑھ کر لے آۓ ۔*
*"_ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اسلام کی تائید اور مخالفین کے جواب میں اشعار نظم کر کے لاتے تو ان کے لیے مسجد نبوی ﷺ میں منبر رکھ دیا جاتا، جس پر چڑھ کرہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔*

*★_ خادم کے لیے دعا:- انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے دس(10) سال تک مدینہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت کی ۔ اس عرصہ میں کبھی ان سے یہ نہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا، یہ کیوں نہ کیا۔ ایک روز ان کے حق میں دعا فرمائی: - الہی! اسے مال بھی بہت دے اور اولاد بھی بہت دے اور جو کچھ اسے عطا کیا جاۓ اس میں برکت بھی دے ‘‘*
[5/7, 6:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ ادب و تواضع :-*
*"_مجلس میں بھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے۔*
*"_جو کوئی مل جاتا اسے سلام پہلے خود کر دیتے۔ مصافحہ کے لیے خود پہلے ہاتھ پھیلا دیتے۔*

*★"_ صحابہ کو کنیت کے نام سے پکارتے ( عرب میں عزت سے بلانے کا یہی طریق ہے ) کسی کی بات بھی قطع نہ فرماتے۔ اگر نماز نفل میں ہوتے اور کوئی شخص پاس آ بیٹھتا تو نماز کو مختصر کر دیتے اور اس کی ضرورت پوری کر دینے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوتے ۔ اکثر متبسم رہتے ۔*

*★_ آنحضرت ﷺ کی ایک ناقہ کا نام’’عضبا‘‘ تھا۔ کوئی جانور اس سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ ایک اعرابی اپنی سواری پر آیا اور عضباء سے آگے نکل گیا۔ مسلمانوں کو یہ بہت ہی شاق گذرا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: دنیامیں اللہ کی سنت یہی ہے کہ کسی کو اونچا اٹھاتا ہے تو اسے نیچا بھی دکھا تا ہے_", ( بخاری 2872 )*

*★_ ایک شخص آیا ، اس نے نبی ﷺ کو یا خیرالبریہ ( برترین خلق ) کہ کر بلایا۔ نبی ﷺ نے فرمایا۔ ذاک ابراہیم ۔ یہ شان تو ابراہیم علیہ سلام کی ہے ۔ { مسلم: 6138، ابوداؤد -3352,4672)*
*"_ایک شخص حاضر ہوا۔ نبی ﷺ کی ہیبت سے لرز گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کچھ پرواہ نہ کرو۔ میں بادشاہ نہیں ہوں ۔ میں قریش کی ایک غریب عورت کا فرزند ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی ۔‘‘ ( ابنِ ماجہ- ٣٣١٢)*
[5/8, 8:21 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شفقت و رافت :-*
*"_ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: کوئی شخص بھی اچھے خلق میں آنحضرت ﷺ جیسا نہ تھا۔ خواہ کوئی صحابی بلاتا یا گھر کا کوئی شخص نبی ﷺ اس کے جواب میں لبیک ( حاضر ) ہی فرمایا کرتے_,"*

*★"_ عبادت نافلہ چھپ کر ادا فرمایا کرتے تاکہ امت پر اس قدر عبادت کرنا شاق نہ ہو۔ جب کسی معاملہ میں دو صورتیں سامنے آتیں تو آسان بصورت کو اختیار فرماتے ۔*

*★_ اللہ پاک کے ساتھ معاہدہ کیا کہ جس کسی شخص کو میں گالی دوں یا لعنت کروں وہ گالی اس کے حق میں گناہوں کا کفارہ ، رحمت و بخشش اور قرب کا ذریعہ بنادی جاۓ _", (بخاری: 1 6 3 6 مسلم: 2007 2009 منداحمد: 390/2)* 

*★"_ فرمایا: ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو ۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف سینہ جاؤں _,"*
*"_ وعظ ونصیحت کبھی کبھی فرمایا کرتے تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں ۔*

*★"_ ایک بار سورج گرہن ہوا۔ نماز کسوف میں نبی ﷺ روتے تھے اور دعایں فرماتے تھے۔ اے پروردگار تو نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو عذاب نہ دیا جاۓ ( 1 ) جب تک میں ان کے درمیان موجود ہوں ( 2 ) جب تک یہ استغفار کرتے رہیں ۔ اب اے اللہ میں موجود ہوں اور سب استغفار بھی کر رہے ہیں ۔
 *”ہر ایک نبی کے لیے ایک ایک دعا تھی ۔ وہ ما نگلتے رہے اور دعا قبول ہوتی رہی ۔ میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت روز قیامت کے لیے محفوظ رکھا ہے_," (بخاری:6304 )*
[5/9, 8:53 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"★_عدل ورحم :-*
*"_ اگر دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہوتا تو عدل فرماتے اور اگر کسی شخص کا نفس مبارک کے ساتھ کوئی معاملہ ہوتا تو رحم فرماتے ۔*

*★_ فاطمہ نامی ایک عورت نے مکہ میں چوری کی ۔لوگوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے جو آنحضرت ﷺ کو بہت پیارے تھے ، سفارش کرائی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: - کیا تم حدود الہی میں سفارش کرتے ہو؟ سنو ۔! اگر فاطمہ بنت محمد ( ﷺ ) بھی ایسا کرتی تو بھی میں حد جاری کرتا ۔‘‘ ( بخاری: 2648)*

*★_ سواد بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک روز آنحضرت ﷺ کے سامنے رنگین کپڑا پہن کر گئے ۔ آنحضرت ﷺ نے حط حط فرمایا اور چھڑی سے ان کے شکم میں ٹھوکا بھی دیا، میں نے کہا - یا رسول اللہ ﷺ ! میں تو قصاص لوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے جھٹ اپنا شکم برہنہ کر کے میرے سامنے کر دیا۔ (الشفاء في حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض ص 311,)*

*★"_ دشمنوں پر مہربانی :- مکہ میں سخت قحط پڑا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے مردار اور ہڈیاں بھی کھانی شروع کر دیں، ابوسفیان بن حرب ( ان دنوں دشمن غالی تھا) نبی ﷺ کی خدمت میں آیا۔ عرض کیا: محمد ﷺ ! آپ تو لوگوں پر صلہ رحم ( حسن سلوک با قرابت داران ) کی تعلیم دیا کرتے ہیں ۔ دیکھیے آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے ۔ اللہ سے دعا کیجیے۔ نبی ﷺ نے دعا فرمائی اور خوب بارش ہوئی_," ( بخاری 1007, 1020)*

*★_ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے نجد سے مکہ کو جانے والا غلہ بند کر دیا اس لیے کہ اہل مکہ آنحضرت ﷺ کے دشمن ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا_"* *"_ حدیبیہ کے میدان میں آنحضرت ﷺ مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح پڑھ رہے تھے ۔ ستر اسی آ دی چیکے سے کوہ تنعیم سے اترے تاکہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے قتل کر دیں ۔ یہ سب گرفتار ہو گئے اور نبی ﷺ نے ان کو بلا کسی فدیہ یا سزا کے‌آزاد کر دیا _," (مسلم : 679 )*
[5/10, 5:28 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ جودو کرم :-*
*"_سائل کو کبھی رو نہ فرماتے ۔ زبان مبارک پر حرف انکار نہ لاتے ۔ اگر کچھ بھی دینے کو پاس نہ ہوتا تو سائل سے عذر کرتے ۔ گویا کوئی شخص معافی چاہتا ہے۔*

*★"_ ایک شخص نے آکر سوال کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس تو اس وقت کچھ نہیں ہے ۔ تم میرے نام پر قرض لے لو، میں پھر اسے اتار دوں گا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے آپ کو یہ تکلیف نہیں دی کہ قدرت سے بڑھ کر کام کریں ۔ نبی ﷺ چپ ہو گئے ۔ ایک انصاری نے پاس سے کہہ دیا ۔ یا رسول اللہ ﷺ خوب دیجیے ، رب العرش مالک ہے ۔ تنگ دستی کا کیا ڈر ہے۔ نبی ﷺ ہنس پڑے۔ چہرہ مبارک پر خوشی کے آ ثار آشکار ہو گئے ۔ فرمایا: ہاں مجھے یہی حکم ملا ہے _" ( الشناص: 50 الشمائل : 354)*

*★"_ ایک بار ایک سائل کو آدھا وسق غلہ قرض لے کر دلایا۔ قرض خواہ تقاضا کے لیے آیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا۔ اسے ایک وسق غلہ دے دو ۔ آ دھا تو قرض کا ہے اور آ دھا ہماری طرف سے جود وسخا کا ہے_,"*
*"_ فرمایا کرتے ،اگر کوئی شخص مقروض مر جائے اور مال باقی نہ چھوڑے تو ہم اسے ادا کریں گے ۔ اور اگر کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ حق وارثوں کا ہے_" { بخاری:2398,2298}*
[5/11, 6:48 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شرم وحیا :-*
*_ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پردہ نشین لڑکی سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حیا تھی_", ( بخاری- ٣٥٦٢, ٦١٠٢, ابنِ ماجہ-٤١٨٠)*

 *★"_ جب کوئی ایسی بات حضور ﷺ کے سامنے کی جاتی جس سے حضور ﷺ کو کراہت ہوتی تو چہرہ مبارک سے فوراً معلوم ہو جا تا تھا_,"*
*"_ عائشہ طیبہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی حرکت نبی ﷺ کو پسند نہ آتی تو اس کا نام لے کر منع نہ فرماتے بلکہ عام الفاظ میں اس حرکت و فعل کی نہی فرما دیتے _" (ابو داؤد- ٤٧٨٨)*

*★_ عادات و معاملات میں اپنی جان پر تکلیف اٹھا لیتے مگر دوسرے شخص کو از راہ شرم کام کرنے کو نہ فرماتے ۔* *"_جب کوئی عذرخواہ سامنے آ کر معافی کا طالب ہوتا تو آنحضرت ﷺ شرم سے گردن مبارک جھکا لیتے ۔*
*"_ عائشہ طیبہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو برہنہ کبھی نہیں دیکھا_" ( ترمذی فی الشمائل -٣٥٨)*
[5/13, 8:44 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صبر وحلم :-*
*"_ زید بن سعنہ ( رضی اللہ عنہ) ایک یہودی تھا۔ نبی ﷺ نے اس کا قرض دینا تھا۔ وہ ایک روز آ یا۔ آتے ہی چادر آپ کے شانہ سے اتار لی ۔جسم کے کپڑے پکڑ لیے اور ڈرانے لگا کہ عبدالمطلب والے بڑے نادہند ہوتے ہیں۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے سختی سے جھٹک دیا۔ نبی ﷺ ہنس پڑے۔ فرمایا: عمر تمھیں لازم تھا کہ میرے ساتھ اور ، اس کے ساتھ اور طرح برتاؤ کرتے ۔ مجھے حسن ادائیگی کے لیے کہتے اور اسے حسن تقاضا سکھلاتے۔*

*★_ پھر زید کی جانب حضور ﷺ مخاطب ہوئے فرمایا: ’’ابھی تو وعدہ میں تین (3) دن باقی ہیں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس کا قرض ادا کر دو۔ اسے بیںس (20) صاع زیادہ بھی دینا کیوں کہ تم نے اسے دھمکایا اور ڈرایا بھی تھا۔*

*★_ ایک اعرابی آیا اس نے زور سے آنحضرت ﷺ کی چادر کو جو موٹے کنارے کی تھی جھٹکا دیا۔ وہ کنارہ آنحضرت ﷺ کی گردن میں گڑ گیا اور نشان پڑ گیا۔ اعرابی نے اب زبان سے یہ کہا: محمد ﷺ اللہ کا مال جو تمھارے پاس ہے جو نہ تمہارا ہے اور نہ تمہارے باپ کا ہے ، اس میں سے ایک بارشتر مجھے بھی دلاؤ۔*

*★_" نبی ﷺ نے ذرا خاموشی کے بعد فرمایا: مال بے شک اللہ کا ہے اور میں اس کا غلام ہوں ۔ بالآخر حکم فرمایا کہ ایک بارشتر جو اور ایک بارشتر کھجور اسے دی جائیں ۔*


*★_ طائف میں آنحضرت ﷺ وعظ اور تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کے باشندوں نے حضور ﷺ پر کیچڑ پھینکا۔ آوازیں لگایں ، اتنے پتھر مارے کہ حضور ﷺ لہو سے تر بتر اور بے ہوش ہو گئے ۔ پھر بھی یہی فرمایا کہ میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ کیوں کہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ انکی اولا دمسلمان ہو جاۓ گی ۔*
[5/14, 8:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عفو و رحم:-*
*"_ عاشت طیبہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہ لیا_,"*
*(بخاری:3530 : مسلم 2367 ،ابوداود 4785)*

 *★_جنگ احد میں مشرقین نے نبی ﷺ کے دانت توڑے، سر پھوڑا۔ حضور ﷺ ایک غار میں بھی گر گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمائیے، نبی ﷺ نے فرمایا ۔ میں لعنت کرنے کے لیے نبی نہیں بنایا گیا۔ اللہ نے مجھے لوگوں کو اپنی بارگاہ میں بلانے کے لیے بھیجا ہے۔ رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔اس کے بعد یہ دعا فرمائی ۔اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت فرما۔ وہ ( مجھے) نہیں جانتے _, ( مسلم:4646,4645 )*

*★_ ایک درخت کے نیچے آنحضرت ﷺ سو گئے ۔ تلوار شاخ سے آویزاں کر دی ۔غورث بن الحراث آیا۔ تلوار نکال کر نبی ﷺ کو گستاخانہ جگایا۔ بولا ،اب تم کو کون بچاۓ گا ؟ فرمایا: اللہ ، وہ چکر کھا کر گر پڑا۔ آنحضرت ﷺ نے تلوار اٹھالی ۔ فرمایا: اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ حیران ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ، میں بدلہ نہیں لیا کرتا _," ( بخاری : 4135 مسلم : 595 ،احمد: 311/1)*

*★_ بہار نے آنحضرت ﷺ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کے نیزہ مارا۔ وہ ہودج سے نیچے گر گئیں اور حمل ساقط ہو گیا تھا اور بالآخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا۔ ہبار نے عفو کی التجا کی اور اسے معاف فرمایا_" ( فتح الباری: 88/8 ، کنز العمال: 33660)*
 *"_فرمایا: ' زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پر قبائل میں باہمی جنگ و جدل چلا آتا ہے، میں سب کو معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا دعویٰ اور اپنے چچا کی رقوم قرضہ کو معاف کرتا ہوں ۔‘‘ (خطبہ نبوی بروز فتح ابوداود : 1905 ،ابن ماجہ : 3074،احمد : 73/5)*
[5/15, 11:18 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ صدق و امانت :-*

*"_ جانی دشمن بھی نبی ﷺ کے ان اوصاف کے قائل تھے ۔صادق و امین بچپن ہی سے آنحضرت ﷺ کا خطاب پڑ گیا تھا۔ ان ہی اوصاف کی وجہ سے قبل از نبوت بھی لوگ اپنے مقدمات کو انفصال کے لیے آنحضرت ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے۔*

*★_ ایک روز ابوجہل نے کہا: محمد ﷺ میں تجھے جھوٹا نہیں سجھتا لیکن تیری تعلیم پر میرا دل ہی نہیں ٹھہراتا_", ( ترمذی- 3064, حاکم- 2/315)*

*★_ شب ہجرت کو کفار نے تو آنحضرت ﷺ کے قتل کا مشورہ اور اتفاق کیا تھا اور حضور ﷺ نے پیارے بھائی علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے پیچھے چھوڑا کہ ان کی امانتوں کو ادا کر کے آنا _,"*

*★"_عفت وعصمت :-*
*"_ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ۔ ایام جاہلیت کی رسموں میں سے میں نے کبھی کسی میں بھی حصہ نہیں لیا۔ صرف دو(2) دفعہ ارادہ کیا تھا کہ اللہ تعالی نے مجھے خود ہی بچالیا۔ 10 برس سے کم عمر تھی ۔ میں نے اس چرواہے کو جس کے ساتھ بکریاں چراتا تھا کہا اگر تم میری بکریاں سنبھالے رکھو تو میں مکہ ( آبادی کے اندر ) جاؤں ۔ جیسے اور نو جوان کہانیاں کہتے سنتے ہیں ، میں بھی کہانیاں کہوں سنوں۔ اس ارادہ سے میں شہر کو آیا۔ پہلے ہی گھر پہنچا تھا کہ وہاں دف و مزامیر بج رہے تھے۔ اس گھر میں بیاہ تھا۔ میں انھیں دیکھنے لگا۔ نیند نے غلبہ کیا۔ میں سو گیا۔ جب سورج نکلا تب آنکھ کھلی ۔*
*"_ ایک دفعہ پھر ایسی ہی نبیت سے آیا تھا۔ اسی طرح نیند آ گئی اور وقت گزر گیا۔ ان دو واقعات کے سوا میں نے کبھی مکروہات جاہلیت کا ارادہ بھی نہیں کیا_,"*
*( الشفاء: 1/180,)*   

[5/16, 6:48 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عہد نبوت سے پہلے کا ذکر ہے زید بن عمرو بن نفیل نے نبی ﷺ کی دعوت کی ، دستر خوان پر گوشت بھی آیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا- ’’ میں وہ گوشت نہیں کھا تا جو بتوں یا استھانوں کی قربانی کا ہو۔ میں تو صرف وہی گوشت کھایا کرتا ہوں جس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ (بخاری-5499)"*

*★_ آنحضرت ﷺ کی دعا یہ تھی: "الہی ایک دن بھوکا رہوں ۔ایک دن کھانے کو ملے ۔ بھوک میں تیرے سامنے گڑگڑایا کروں ۔ تجھ سے مانگا کروں اور کھا کر تیری حمد وثنا کیا کروں ۔‘‘ ( الشفاء-62)*

*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ایک ایک مہینہ برابر ہمارے چولھے میں آگ روشن نہ ہوتی۔ حضور ﷺ ایم کا کنبہ پانی اور کھجور پر گذران کرتا_,( بخاری-6455)*
*"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی ﷺ نے مدینہ آ کر تین (3) دن تک برابر گیہوں کی روٹی کبھی نہیں کھائی _,"( بخاری-6454)*
*"_ نبی ﷺ نے انتقال فرمایا تو اس وقت آنحضرت ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بعوض غلہ جو رہن تھی _, "( بخاری-2916)*

*★_ آنحضرت ﷺ اس دنیا کی آخری شب میں تھے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پڑدین سے چراغ کے لیے تیل منگوایا تھا_,"( بخاری-2916)*
 *"_ آنحضرت ﷺ دعا فرمایا کرتے ۔ الہی ! آل محمد ﷺ کو صرف اتنا دے جتنا پیٹ میں ڈال لیں _,"( بخاری-6460)*

*★_ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زہد کی میں تمام صورتیں اختیاری تھیں ۔ لاچاری کچھ نہ تھی ۔ اور اس زہد سے مقصود نبی ﷺ کا یہ نہ تھا کہ کسی حلال شے کے استعمال یا انتفاع میں کوئی روک پیدا کریں ۔ایسے خیال سے صرف ایک بار نبی ﷺ نے شہد کو چھوڑ دیا تھا ۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ ایک بیوی نے شہد کی بو کو اپنی طبع کے خلاف بتایا تھا۔ اللہ عزوجل نے نبی ﷺ سے فرمادیا :-(سورۃ نمبر 66 التحريم آیت نمبر 1)*
*"_ يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ‌ۚ تَبۡتَغِىۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِكَ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞* 
*"_ اے نبی ! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے، تم اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسے کیوں حرام کرتے ہو ؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے_,*
[5/17, 6:06 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ صنف ضعیف (عورتوں) کی اعانت اور ان کی آسائش کا خیال:-*
*"_ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں ساتھ تھیں ۔ وہ تمام جسم کو چادر سے ڈھانپ کر اونٹ کی پچھلی نشست پر نبی ﷺ کے ساتھ سوار ہوا کرتی تھیں ۔ جب وہ اونٹ پر سوار ہونے لگتیں تب : آنحضرت ﷺ اپنا گھٹنا آگے بڑھا دیتے ۔صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں آنحضرت ﷺ کے گھٹنے پر رکھ کر اونٹ پر چڑھ جایا کرتیں _," ( بخاری- 3085,3086)*

*★_ ایک دفعہ ناقہ کا پاؤں پھسلا۔ نبی ﷺ اور ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا دونوں گر پڑے۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ دوڑے دوڑے رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوۓ ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "عليك بالمرأة" تم پہلے عورت کی خبر لو _," ( فتح الباری- 528, طبقات ابن سعد 8/88)*
 
*★_ ایک سفر میں اونٹوں کے کجاووں میں عورتیں سوار تھیں ۔ ساربان جو اونٹوں کی مہار پکڑے جاتا تھا۔ حدی خوانی کرنے لگا ۔ حدی ایسی آواز سے شعر پڑھنے کو کہتے ہیں جس سے اونٹ تیز چلنے لگتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا دیکھو کانچ کے شیشوں کو توڑ پھوڑ نہ دینا _" ( بخاری- 3085,3086)*
*"_ اس ارشاد میں عورتوں کو کانچ کے آلات سے نبی ﷺ نے تشبیہ دی۔ نفاست ونزاکت کے علاوہ وجہ تشبیہ عورتوں کی ضعف خلقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ آرام اور آسائش کی مستحق ہیں _,"*
[5/17, 6:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اسیران جنگ کی خبر گیری :-*
*"_اسیران جنگ کی خبر گیری مہمانوں کی طرح کی جاتی تھی ۔ جنگ بدر میں جو قیدی مدینہ منورہ میں چند روز تک مسلمانوں کے پاس اسیر رہے ان میں سے ایک کا بیان ہے- اللہ مسلمانوں پر رحم کرے ۔ وہ اپنے اہل وعیال سے اچھا ہم کو کھلاتے تھے اور اپنے کنبے سے پہلے ہمارے آرام کی فکر کرتے تھے۔ جب قیدی اسیر ہو کر آتے تو نبی ﷺ پہلے ان کے لباس کی فکر کیا کرتے_" ( بخاری 6149, 6161, 6211, مسلم 6036 تا 6040)*

*★_ مردانہ ورزشیں:-*
*"_ مردانہ ورزشوں کا شوق دلایا کرتے ۔ رکانہ عرب کا مشہور پہلوان تھا۔ وہ اپنے پچھڑ جانے کو اسلام لانے کی شرط ٹھہراتا تھا۔ نبی ﷺ نے اسے تین بار پچھاڑ دیا تھا_" ( بخاری 3008)* 

*★_ تیرافگنی ( تیراندازی):-*
*"_ نشانہ بازی کا لوگوں کو شوق دلایا کرتے ۔ نشانہ بازی کی مشق کے لیے لوگوں کو دو(2) حصوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ ایک وقعہ فر مایا: تیر چلاؤ۔ میں اس پارٹی کی طرف ہوں گا۔ یہ سن کر دوسری پارٹی نے تیر چلانے سے ہاتھوں کو روک لیا۔ سبب پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا: جب اس پارٹی میں رسول اللہ ﷺ شامل ہیں تو ہم اس کے مقابلہ میں کیوں کر تیرافگنی ( نیزہ بازی) کر سکتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا۔ تیر چلاؤ، میں تم سب کے ساتھ ہوں_" ( بخاری 2899 ,3373)*

*★_ گھوڑ دوڑ:- گھوڑوں کی دوڑ آنحضرت ﷺ کے حکم سے کرائی جاتی تھی ۔ لمبی دوڈ 6 میل کی اور ہلکی دوڑ ایک ( 1 ) میل کی ہوتی تھی_,"*
[5/19, 10:02 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ مردم شماری:-*
*"_ نبی ﷺ نے فرمایا:- تمام کلمہ گو اشخاص کے نام میرے ملاحظہ کے لیے قلم بند کیے جائیں ۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی ۔ اس وقت مسلمانوں کا شمار ڈیڑھ ہزار (1500) ہوا۔ اس تعداد پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کا شکر کیا۔ خوشی منائی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے تھے ہم ڈیڑھ ہزار (1500) ہو گئے ہیں ۔ اب ہمیں کیا ڈر رہا ہے۔ ہم نے تو وہ زمانہ دیکھا ہے جب ہم میں سے کوئی اکیلا ہی نماز پڑھا کرتا تھا اور اسے ہر طرف سے دشمنوں کا خوف لگا رہتا تھا_", ( ابن ماجہ : 4029، احمد: 384/5)*

*★_ افسوس ہے کہ اس روایت سے یہ پتا نہیں لگتا کہ یہ شمار کس سند میں ہوا تھا۔ صحیح بخاری کی دیگر روایات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری مردم ( مسلم ) شماری تھی ۔ پہلی دفعہ کے شمار میں مسلمانوں کی تعداد پانچ سو (500) دوسری دفعہ کے شمار میں چھ سو (600) اور سات سو(700) کے درمیان تعداد تھی_,*

*★_ تعلیمات رسالت ﷺ :-*
*"_ آنحضرت ﷺ کی تعلیم پاک ، اعتقادات، عادات ، معاملات، عبادات ، مہلکات ، منجیات، احسانیات کے متعلق ایک بحر نا پیدا کنار ہے ۔ نبی ﷺ کی افضلیت اور اسلام کی برتری کا مدار اسی تعلیم پر ہے ۔،*

*★_ اللہ کا حق بندوں پر, بندوں کا حق اللہ پر:-*
*’’اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ بنائیں ۔ بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جب وہ اللہ کے حق ادا کریں تب وہ انھیں عذاب نہ دے _," ( بخاری -2856,7373)*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
[5/20, 10:31 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ رحمت الہی کا بیان:-*
*"_ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ نے اس کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھا رکھا ہے: میری رحمت میرے غضب پر غالب‌ ہے۔‘‘ (بخاری7554,7553)*

*★_ خدمت والدین:-*
*"_ ایک شخص نے نبی ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ نبی ﷺ نے پوچھا: تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟‘‘وہ بولا : ہاں ۔ فرمایا: ’ان ہی کی خدمت میں جہاد (حد درجہ کوشش) کرو ۔‘‘ (بخاری 5972,3004 )*

 *★_ نصرت باہمی:-* 
*’’_ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسا ہے جیسے بنیاد کی اینٹیں ایک سے دوسرے کو قوت ملتی ہے، پھر اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا۔ یعنی مومن اس طرح ملے جلے رہتے ہیں_, (بخاری: 2646,481 )*
*"_مسلمان کون ہے؟ ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں _," ( بخاری:11)*

*★_ ایمان کا کمال :-*
*’’_ تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں بن جاتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو کچھ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے _," (بخاری:13)*
[5/21, 9:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شیرینی بیان :-*
*"_ تین باتیں ہیں, جس شخص میں یہ ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت چکھ لے گا :-*
*(١)_ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت اسے سب سے بڑھ کر ہو۔*
*(٢)_ کسی بھائی سے اللہ کے لئے محبت رکھتا ہو، کوئی غرض شامل نہ ہو۔*
*(٣)_ کفر میں جا پڑنے کو ایسا برا جانتا ہو، جیسا آگ میں گر جانے کو سمجھتا ہے_,*
*( بخاری -16)*

*★"_ پسند یدہ اعمال :-*
*"_ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالی کو کونسا عمل زیادہ پسند ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو عمل ہمیشہ کیا جاۓ اگر چہ مقدار میں کم ہی ہو، پھر فرمایا: "عمل ( عبادت ) اتنا ہی کیا کرو جسے بآسانی کر سکو ۔“ ( بخاری:1970 ،6464 مسلم :782 ،ابوداود :1368)*

*★_ اعمال شاقہ سے ممانعت :-*
*"_ نبی ﷺ نے ایک گھر میں رسی لٹکتی دیکھی ۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں عورت نے لٹکا رکھی ہے ۔ رات کو ( عبادت کرتی ہوئی ) جب اونگھنے لگتی ہے تو اس سے لٹک پڑتی ہے ۔ فرمایا ’اسے کھول دو۔ عبادت ( نافلہ ) اس وقت تک کرو کہ نشاط طبع قائم رہے _," (بخاری:1150 مسلم: 784 ، ابوداؤد 1312)*

*★_ بنی اسد کی ایک عورت کی بابت نبی ﷺ سے عرض کیا گیا کہ وہ تمام شب عبادت کیا کرتی ہے۔ فرمایا ایسا نہ کرو، اعمال بقدر طاقت ادا کرو ۔‘‘ (ابوداود : 1368)* 
*"_ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے آنحضرت ﷺ نے پوچھا ، میں نے سنا ہے کہ تم راتوں کو برابر جاگتے اور دن کو برابر روزہ رکھا کرتے ہو ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ ہاں ۔” فرمایا اب ایسا نہ کرو۔ روزہ بھی رکھو اور کچھ وقت کے لیے چھوڑ بھی دو ۔ رات کو عبادت کے لیے جا گو بھی اور سوو بھی ۔ دیکھ تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے_," ( ابوداود : 1368)*
[5/22, 8:55 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ محنت کی تعریف ، مانگنے کی برائی:-*
*"_ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص لکڑیوں کا گٹھا پیٹھ پر لایا کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگا کرے اور لوگ اسے دے دیا کر میں۔‘‘ { بخاری -1470, 2074)*

*★_ کن لوگوں پر رشک کرنا چاہیے:-* 
*"_ فرمایا- قابل رشک دو شخص ہیں:- (١)- جسے اللہ نے مال دیا اور اس مال کو جائز جگہ صرف کرنے کی توفیق بھی اسے ملی ہو۔ (٢)- جسے اللہ نے حکمت عطا کی ہو، وہ اس پر خود عمل کرتا ہو اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہو _" ( بخاری- 73, 1409)*

*★_ بہترین اخلاق کی تعلیم :-*
*’’راست بازی اختیار کرو۔ باہمی محبت کو بڑھاؤ۔ لوگوں کو اللہ کی طرف سے بشارت پہنچاؤ۔ عمل تو کسی کو بھی جنت میں نہیں لے جاسکتا _‘‘ ( بخاری -6467)*
*"_ خبر دار بدگمانی کو اپنی عادت نہ بنانا ۔ بدگمانی تو جھوٹ ہی جھوٹ ہوتا ہے۔ بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگاؤ ،اوروں کے عیب تلاش نہ کرو۔ آپس میں بغض نہ رکھو، کسی سے روگردانی نہ کرو، اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو( جیسا کہ تم سب اللہ کے بندے ہی ہو ۔‘‘) (بخاری: 5143 مسلم 2563 ،ابوداؤد -4882)*

*★_ ہمسایہ اور مہمان کا حق:-*
*’’جو کوئی شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے ہمسایہ کو ایذا نہ دیا کرے۔ جو کوئی شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی عزت کیا کرے ۔“*
*’’جوکوئی شخص اللہ اورقیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے لازم ہے کہ بات کہے تو اچھی بات کہے ورنہ خاموش ہی رہے ۔‘‘( بخاری: 6018)*
[5/24, 8:07 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حیوانات سے ہمدردی کا حکم:-*
*"_ نبی ﷺ نے فرمایا: ایک شخص راہ چلتا تھا۔ اسے سخت پیاس لگی ۔ کنوئیں کے اندر اتر کر اس نے پانی پیا۔ جب باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا زبان باہر نکالے پیاس کے مارے نمناک زمین کو چاٹ رہا ہے ۔ اس شخص نے کہا: کتے کو بھی پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی ۔ پھر وہ کنوئیں میں اترا، اپنا موزہ پانی سے بھر کر لایا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اس عمل کو قبول فرما کر اس شخص کو بخش دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر دریافت کیا- یا رسول اللہ ( ﷺ ) کیا حیوانات کے لیے بھی ہم کو اجر ملے گا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر ایک جاندار جس کے کلیجہ میں نم ہے ( جوزندہ ہے ) کے متعلق تم کو اجر ملے گا _," (بخاری 173, 2466)* 

*★_ منافق کون ہے؟*
*"_ چار خصلتیں ہیں جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگر ان چار (4) میں سے کوئی ایک (1) خصلت اس میں ہے تو نفاق کی ایک علامت اس کے اندر ہے:-*
*"_ (١) بولے تو جھوٹ بولے، (٢) وعدہ کرے تو خلاف کرے۔ (٣) عہد کرے تو پورا نہ کرے۔ (٤) جھگڑنے لگے تو فحش بکنے لگے_," ( بخاری : 3178, 245, 34)*

*★_ قیامت کے دن سایہ ربانی کن لوگوں پر ہوگا ؟*
*"_(١)_ بادشاه عادل,*
*(٢)_ وہ نوجوان جس نے جوانی میں عبادت الٰہی کی ہو۔*
*(٣)_ وہ شخص جسے تنہائی میں اللہ یادآ تا ہو اور اس کی آنکھیں ڈبڈبا آتی ہوں ۔*
*(٤)_ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگار ہتا ہو۔*
*(٥)_ وہ دونوں شخص جن کی محبت للہیت پر ہو۔*
*(٦)_ وہ شخص جسے کوئی حسینہ اور اعلیٰ درجہ کی عورت اپنی جانب بلاۓ اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔*
*(٧) _ وہ شخص جو مخفی طور پر خیرات دیتا ہو، اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ؟*
*"_ یہ ہیں وہ سات (7) شخص جنھیں اللہ قیامت کے دن اپنے سایہ میں لے لے گا۔ جس دن کہیں سایہ نہ ہوگا _," ( بخاری:10 مسلم :40، ابوداؤد : 2481 بہیقی 187/10 ،مسنداحمد: 163/2)*
[5/25, 7:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بادشاہ کی اطاعت کا حکم :-*
*"_ اگر کسی شخص کو اپنے فرمانروا کی کوئی بات ناگوار گزرے تو اسے لازم ہے کہ صبر کرے، کیوں کہ اگر کوئی شخص بالشت بھر بھی اپنے بادشاہ کی اطاعت سے باہر نکلے گا اسے وہ موت نصیب ہوگی جو زمانہ قبل از اسلام کی موت ہوتی تھی ۔‘‘ ( بخاری-660, 6806)*

*★_" تم لوگ میرے بعد نا خوش گوار حالتیں اور ایسی باتیں دیکھو گے جنھیں تم ناپسند کرو گے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ایسی حالت کے لیے حضور ﷺ کا کیا حکم ہے؟*
*"_ نبی ﷺ فرمایا- ان کے حقوق ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق کی بابت اللہ سے دعا مانگنا _," ( بخاری-7053)*

*★_ زیست کا درجہ قدر زندگانی:-*
*"_ کسی شخص ( مسلمان) کو موت کی آرزو نہیں کرنی چاہیے۔ اگر نیک ہے تو اس لیے کہ شاید وہ نیکیوں میں ترقی کر سکے اور اگر بد ہے تو اس لیے کہ شاید وہ خوشنودی حاصل کر سکے ۔‘‘ ( بخاری- 7235)*

*★_ صحت اور فراخ دستی کا درجہ:-*
*"_ دو (2) نعمتیں ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں جانتے وہ نعمتیں: ‌(1)_ تندرستی (2) فراخ دستی ہیں _," ( بخاری: 6412, ترمذی -2304, ابن ماجہ 4170 ، کنز العمال 6444)*
[5/26, 11:42 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ادائے قرض کی فضیلت :-*
*’’_ایک شخص کا نبی ﷺ نے اونٹ دینا تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ خرید کر اسے دے دیا۔ لوگوں سے فرمایا: نیک و برتر شخص وہ ہے جو قرض کو خوش اسلوبی سے ادا کرتا ہے _," ( بخاری -2392 )*

*★_ دولت مندی کی تعریف :-*
*"_ دولت مندی زر و مال کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی ہے غنی وہ ہے جس کا دل غنی ہے ۔‘‘ ( بخاری: 6 4 4 6 ترندی 373 2، ابن ماجہ: 37 1 4)*

*★"_ مساوات عامہ :-*
*"_ عرب کے کسی باشندہ کو عجم کے کسی باشندہ پر اور عجم کے کسی شخص کو عرب کے کسی شخص پر ، گورے رنگ والے کو کالے آدمی پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔فضیلت کا ذریعہ تو صرف ’’خداترسی‘‘ ہے ۔‘ (زادالمعاد جله 185/2ءالدر المنثور للسيوطى: 98/6 ، مجمع الزوائد: 84/8)*

*★_ رحم عامہ :-*
*"جوکوئی شخص دوسرے پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاۓ گا _," (بخاری 5997)*
[5/27, 10:01 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ وارثوں کے لیے ورثہ چھوڑنے کی فضیلت:-*
*"_ یہ بہتر ہے کہ تو اپنے وارث کو غنی چھوڑ کر مرے، بہ نسبت اس کے کہ وہ تہی دست ہو اور لوگوں کے سامنے سوال کے لیے ہاتھ پھیلا تا ر ہے _," ( بخاری 2742)*

*★_ عورت کی مثال اور اس سے گزران کی ہدایت:-*
*’’_عورت کو ایسا سمجھو جیسے پسلی کی ہڈی ۔اس ہڈی کو اگر سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر اس سے کام لینا چاہو گے تو ٹیڑے پن میں ہی کام دے گی _," ( بخاری:3331,5184 ،مسنداحمد: 279/6)*

*★_ عورت کا درجہ گھر میں:-*
 *’’_ عورت اپنے شوہر کے گھر میں اور اولاد پر حکمران ہے ۔‘‘ ( بخاری :5200,893 منداحمد: 2/5)*

*★_ماہر قرآن کا درجہ:-*
*”_ قرآن مجید کا جاننے والا بزرگ نیکوکار سفیروں ( فرشتوں) کے ساتھ ہوگا ۔‘‘ (بخاری: 4937 ، مسلم: 1862،ابوداود 1454 ترمنذی 2904)* 

*★_اللہ کے نزدیک پسندیدہ کام
 *’’_ دو بول ہیں جو رحمٰن کو پیارے ہیں ، زبان پر ہلکے ہیں ، میزان اعمال میں بھاری ہیں ۔ وہ یہ ہیں: سبــان الله وبحمده سبحان الله العظيم_," (بخاری:7563 مسلم :2694 ترمذی: 3467 ،ابن ماجہ 3806)*
[5/29, 7:06 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم:-*
*"_ غزلیات دابیات کے شیدالفظ "عشق‘‘ کا استعمال اکثر کیا کرتے ہیں ۔ قرآن مجید اور احادیث پاک کے ماہرین سے میرا مخفی نہیں ہے کہ ہر دو کلام پاک میں لفظ عشق کا استعمال نہیں ہوا ہے_,"* 

*★_ قاموں میں ہے: جنون کی بہت سے اقسام میں سے عشق بھی جنون کی ایک قسم ہے، اس مرض کو انسان اپنے نفس پر بعض صورتوں یا خصلتوں کے اچھا سمجھ لینے سے خود وارد کر لیا کرتا ہے۔ پس جب عشق کے معنی قسمے از جنون ہوۓ تو ضروری تھا کہ اللہ اور رسول ﷺ کے کلام پاک میں اس لفظ کا استعمال نہ کیا جاتا اور اسے فضائل محمود یا محاسن جمیلہ سے شمار نہ کیا جاتا، بیشک قرآن حکیم اور احادیث رسول کریم ﷺ میں لفظ محبت کا استعمال ہوا ہے اور اس سے ثابت ہو گیا کہ محبت ہی صفت کمال انسانی ہے۔*

*★_ محبت اور عشق میں یہ بھی فرق ہے کہ محبت روح کے میلان کا نام ہے اور عشق میں اس شرط کا پایا جانا ضروری نہیں، محبوب وہ ہے جو فی الواقع اپنے کمالات علیہ کی وجہ سے محبت کیے جانے کے شایاں ہو ۔ معشوق وہ ہے جسے کسی نے اچھا سمجھ لیا ہو۔ محبوب محبوب ہی ہے، خواہ کوئی محب پیدا ہو یا نہ ہوگر معشوق معشوق نہیں جب تک کوئی اس کا عاشق موجود نہ ہو۔*

 *★_محبت روح انسانی کی وہ صفت نورانی ہے جو جسم انسانی میں آنے سے پیشتر بھی روح کے اندر پائی جاتی اور کارفرما تھی,*
*"_ محبت کے مدارج محبوب کے مدارج پرمنحصر ہوتے ہیں ۔ محبوب جتنا زیادہ ارفع واعلی ہوگا محبت کا درجہ بھی اسی قدر ارفع و دائمی ہوگا ۔ محبت کو ذات وصفات محبوب سے جس قدر زیادہ عرفان ہوگا اسی قدر زیادہ استحکام سے اس کا اس کی جانب میلان ہوگا۔*
[5/30, 8:25 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم -٢:-*
*"_ - مشرک لوگ شرکاء کے ساتھ اللہ کی محبت جیسی محبت کیا کرتے ہیں مگر جو ایمان والے ہیں ان کی محبتیں اللہ کے ساتھ بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہیں_," [البقرة:165]*

*★_ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سیرت النبی ﷺ کے لکھنے کا مقصد اس خاکسار کا بلکہ جملہ علماء کا یہی ہے اور یہی ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کے وجود باجود کے متعلق پڑھنے والے کے قلوب کو ایمان، روح کو راحت اور صدر کو انشراح حاصل ہو جاۓ اور محبت کا وہ پاک چشمہ جو خس و خاشاک علائق سے دب گیا تھا یا سنگلاخ جہل میں رک گیا تھا پھر فوارہ وار اسی بلندی تک موجزن ہو جاۓ جس بلندی سے چلا تھا_,"*

*★_ محبت ہی ہے جس کی صفت میں حبیب اللہ ﷺ نے فرما دیا ہے:- ہر شخص کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے _," ( صحیح بخاری: 6169,6168 مسلم:2640,165 ترمذی: 2385 مسند حمیدی: 881 مسند بزار: 3696 مسند احمد: 206, 104/3)*

*★_ ہم لکھ چکے ہیں کہ محبت کی بنیاد کسی کمال اصلی پر ہوتی ہے۔ سینکڑوں اشخاص حاتم طائی سے محبت رکھتے ہیں، اس لیے نہیں کہ انھیں اس کی جائداد سے کوئی پیسہ یا پائی ملی ہے بلکہ اس لیے کہ ایسے اشخاص کو صفت جود وسخا سے محبت ہوتی ہے۔*
[5/31, 9:47 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم -٣,*
*"_ یہاں جس اعلیٰ ہستی کی محبت کا مذکور ہے اس کی شان بلند کا تعقل کرنے کے لیے خیال کرو۔*
*"_ایک آدم علیہ السلام انابت الی اللہ کا راز آشکارا کرنے والا ، ایک ادریس علیہ السلام علوم اولین و آخرین کا درس دینے والا، ایک نوح علیہ السلام اسرار و اعلان سے تبلیغ کرنے والا، ایک ابراہیم علیہ السلام گنہگاروں کے لیے رب العزت سے درگزر اور رحمت کا سوال کر نے والا، ایک اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کو معظم ٹھہرانے والا، ایک یعقوب علیہ السلام رب قادر سے عہد باندھنے والا، ایک یوسف علیہ السلام بدخواہ اور بداندیش پر رحم کر نے والا، ایک موسیٰ علیہ السلام قوم کو برگزیدہ بنانے والا، ایک ہارون علیہ السلام امام فصیح، ایک یحییٰ علیہ السلام مبلغ متواضح، ایک داؤد وعلیہ السلام قوم کو اجتماعی قوت دینے والا، ایک سلیمان علیہ السلام اللہ کے لیے پاک گھر بنانے والا،*

*★_ صلى الله عليه وعلى جميع إخوانه من النّبين والمرسلين.. ہاں ! وہ جس کے منہ میں اللہ کا کلام ہونے کی خبر موسیٰ علیہ السلام نے دی۔*
*"_ہاں! وہ جسے عیسیٰ علیہ السلام نے روح الحق بتایا۔*
*"_ہاں ! وہ جس کی ہیبت و جلال سے داؤد علیہ السلام نے دشمنوں کو مرعوب بنایا۔*
*"_ ہاں ! وہ جس کے حسن و جمال کا نشید سلیمان علیہ السلام نے مقدس میں گایا۔*
*"_وہ جس کے خیر مقدم کی تہنیت سے ملا کی علیہ السلام نے اللہ کے گھر کو جلال دیا۔*
*"_وہ جس کے لباس اور ران پر "شہنشاہوں کا شہنشاہ، خداوندوں کا خداوند‘‘ لکھا ہوا یوحنا نے پڑھا۔*
*"_ وہ جس کے پیچھے آسمانی فوجوں کا چلنا صاحب مکاشفات نے مشاہدہ کیا۔*

*★_ کیا کوئی صاحب بصر، صاحب دل ! ایسے محبوب، ایسے محمود، ایسے مصطفیٰ ایسے محمد ﷺ پر دل و جان سے فدا نہ ہوگا ؟ اور اس فدا ہونے والے کو اپنے لیے غایت شرف اور انتہائی کمال انسانیت نہیں سمجھے گا_,"*
[6/1, 7:45 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم -٤,*
*"_ یاد رکھو کہ آیت ذیل میں اس راز کا انکشاف کیا گیا ہے۔ [ التوبہ : 24]:-*
*"_ ( ترجمہ) سب لوگوں کو سنا دے کہ اگر تم کو ماں باپ، بیٹے بیٹیاں ، زن و شوہر، قوم و قبیلہ اور مال جو تم نے جمع کیا ہے اور تجارت جس کے خسارہ کا تم کو ڈر لگار ہتا ہے اور وہ محل جن میں بسنا تم کو اچھا معلوم ہوتا ہے وہ سب زیادہ پیارے ہیں اللہ اور رسول سے اور راہ میں جہاد کرنے سے تب تم منتظر رہو کہ اللہ تمہارے لیے اپنا کوئی حکم دے_,"*

*★_ اس آیت میں جن جن شخصیتوں یا چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی محبت عام میلان انسانی کے موافق مسلمہ ہے اور اسی لیے رب العالمین نے جو "فطر الناس عليها » [الروم :30] کا مالک ہے ان سب کے ساتھ انسانی محبت کی نفی نہیں فرمائی اور نہی نہیں کی بلکہ تفریق درجات کے سبق کی تعلیم دی ہے،*

*★_ یہی راز صحیحین میں اس حدیث پاک عن انس رضی اللہ عنہ میں کھولا گیا ہے۔ "کوئی شخص تم میں سے مؤمن نہیں بن سکتا جب تک اسے رسول اللہ کے ساتھ ماں باپ اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو ۔‘‘ ( بخاری 15,14,13 مسلم 169 نسائی: 5031 ،ابن ماجہ :66)*

*★"_صحیح مسلم میں ہے: *"_کوئی مؤمن نہیں بن سکتا جب تک میں اسے اس کو اہل و مال سے زیادہ محبوب نہیں ہوتا۔‘‘ ( بخاری:15 مسلم 168 نسائی: 5029,5028 ،ابن ماجہ :67)*
*"_ ہمارا اعتقاد ہے کہ نبی کریم ﷺ نہ صرف محبوب بلکہ حبیب ہیں، یعنی حضور ﷺ کے وہ صفات عالیہ اور فضائل متکاثرہ اور محاسن جمیلہ اور نعوت رفیعہ، جنھوں نے حضور ﷺ کو حبیب اللہ اور محبوب خلق اللہ بنادیا ہے۔ ثبات و استقرار رکھتے اور دوام و بقا سے متمکن ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ نبی ﷺ کے محاسن اخلاق اور شرف افعال کے اول چند نمونے پیش کروں اور پھر دکھاؤں کہ ایسی صفات عالیہ کے مالک سے کون شخص محبت کرنا نہیں چاہتا۔*
[6/1, 8:30 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_جودو سخا کا بیان:-*
*"_ جنگ حنین میں چھ ہزار‌ (6000) قیدی ، جوبیس ہزار ( 24000) اونٹ ، چار ہزار (4000) بکریاں ، چار ہزار (4000) اوقیہ (چھٹانک ) چاندی غنیمت میں حاصل ہوئی تھی ۔ نبی ﷺ نے ان میں سے ایک چیز کو بھی نہیں چھوا۔ گھر سے جس خیر و برکت کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔ اس طرح واہیں گئے_,"*

 *★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی وفات کے بعد کوئی سکہ چاندی یا سونے کا بکری یا اونٹ دنیا میں نہیں چھوڑا اور نہ کسی شے کی بابت کوئی وصیت ہی فرمائی _‘‘ ( ابوداؤد: 2863 بیہقی :2695 تمہید:215 الشمائل للترندی: 406۔)*

*★_ معلی بن زیاد نے حسن سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک سوالی آیا فرمایا- بیٹھو اللہ دے گا، پھر دوسرا آیا، پھر تیسرا آیا۔ حضور ﷺ نے سب کو بٹھا لیا۔ حضور ﷺ کے پاس دینے کو اس وقت کچھ نہ تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے چار اوقیہ چاندی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کی ۔حضور ﷺ نے ایک ایک اوقیہ تو ان تینوں میں تقسیم کر دیا اور ایک اوقیہ کی بابت پکار بھی دیا۔ مگر کوئی لینے والا نہ اٹھا_,"*

*"_ رات ہوئی تو حضور ﷺ نے وہ چاندی اپنے سرہانے رکھ لی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضور ﷺ کو نیند نہیں آتی ۔اٹھتے ہیں اور نماز پڑھنے لگتے ہیں ۔ پھر ذرا لیٹ کر اٹھتے ہیں اور نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا- حضور ﷺ کو آج کچھ تکلیف ہے؟ فرمایا نہیں۔ انھوں نے پوچھا: تب کوئی خاص حکم اللہ کا آیا ہے جس کی وجہ سے یہ بے قراری ہے؟ فرمایا نہیں ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر حضور ﷺ آرام کیوں نہیں فرماتے ۔؟*
*"_ اس وقت حضور ﷺ نے وہ چاندی نکال کر دکھائی ۔ فرمایا یہ ہے جس نے مجھے بے قرار کر رکھا ہے۔ مجھے ڈر لگا کہ مبادا یہ میرے پاس ہی ہو اور میری موت آ جاۓ _,*
[6/3, 7:08 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:- جو مسلمان قرض چھوڑ مرے گا ، میں اسے ادا کروں گا اور جو مسلمان ورثہ چھوڑ مریگا اسے اس کے وارث سنبھال لیں گے ۔“ { ترندی: 2090 ، ابوداؤد 3343 نسائی:1962 }*

*★_ جابر بن عبداللہ صحابی انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ سے کبھی کسی چیز کا بھی سوال نہیں کیا گیا جس کے جواب میں حضور نے 'لا‘ ( نہیں ) فرمایا ہو ۔"‘( بخاری :6034 مسلم :2311)*
*"_اس حدیث کا مفہوم کسی نے یوں ادا کیا ہے: ان روایتوں کو دیکھو اور ان کے معانی پر غور کرو، ثابت ہو جائے گا کہ نبی ﷺ نیکیوں میں سب سے زیادہ سخاوت والے تھے _,"*

*★_ عدل وانصاف کا بیان :-*
*"_ نبی ﷺ کی اس صفت کا اعتراف اعدا بھی کرتے تھے۔ ربیع بن خیثم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعثت سے پیشتر بھی لوگ اپنے مقدمات کو نبی ﷺ کے حضور میں فیصلہ کے لیے لایا کرتے تھے۔ حجر اسود کے نصب کرنے میں جو جھگڑا قریش میں ہو گیا تھا ، اس کا ذکر’ پہلے گزر چکا ہے ۔ قابل ذکر یہ ہے کہ قرارداد یہ تھی ، جو کوئی شخص اب سب سے پہلے کعبہ میں آئے وہی حکم قرار پاۓ ۔ نبی ﷺ آ نکلے تو لوگوں کی خوشی و مسرت کی کوئی حد نہ تھی اور خوش ہو ہو کر پکارتے تھے۔ هذا محمد هذا الأمين قد رضينا به #*
*"_ لو محمد ﷺ آ گئے ،ان کے فیصلہ پر تو ہم سب ہی خوش ہیں ۔“ (سیرت ابن ہشام 1291، مستدرک حاکم : 458/1)*

*★_ تیقن انصاف ہوتو ایسا ہو کہ فیصلہ سننے سے پیشتر ہی ہر مخالف اس فیصلہ پر رضامندی کا اظہار کرتا ہے۔*
*"_ فاطمہ نامی مکہ کی ایک عورت چوری میں ماخوذ ہوئی ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جن سے حضور ﷺ نہایت محبت کیا کرتے تھے بھولے پن سے اس کی سفارش کر دی، نا خوش ہو گئے اور فر مایا کہ تم حدود الہی میں سفارش کرتے ہو دیکھو اگر میری بیٹی فاطمہ کا بھی ایسا کرتی تو میں وہی فیصلہ کرتا جو اس کے لیے کروں گا_", (بخاری 3475 ، مسلم: 1688 ابوداؤد : 4373 ترمذی 1430 ،ابن ماجہ : 2547 دارمی: 2302 ،احمد : 2162/2)*
[6/4, 6:40 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نجدت وشجاعت کا بیان :-*
*"_ نجدت اس صفت کو کہتے ہیں کہ موت کے سامنے نظر آنے پر بھی اعتماد علی انفس قائم رہے ۔ شجاعت قوت غضبیہ کے اس کمال کو کہتے ہیں جو انقیاد عقل سے حاصل ہوتا ہے ۔ نبی ﷺ کے ان صفات کے متعلق بیسیوں روایات اور راویوں کے مشاہدات موجود ہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے نام اور ان کی شجاعت کے بلند کارناموں سے کون ناواقف ہوگا ، وہی فرماتے ہیں:-* 
*”_ جب گھمسان کا رن پڑتا اور لڑنے والوں کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے, اس وقت ہم نبی ﷺ کی اوٹ لیا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے آگے دشمن کی جانب نبی ﷺ ہی ہوتے تھے ۔“ ( مسلم 4616)*

 *★_ جنگ حنین میں دشمنوں نے پہاڑ کے درہ میں بیٹھ کر تیروں کا ایسا مینہ برسایا کہ حضور ﷺ کی بارہ ہزار (12000) فوج کا منہ موڑ دیا۔ کسی نے اس واقعہ کے متعلق براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ تو براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ! مگر رسول اللہ ﷺ تو پھر بھی نہ بھاگے، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ اپنے سفید خچر پر چڑھے ہوۓ ہیں۔ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ہاشمی رضی اللہ عنہ نے لگام پکڑ رکھی ہے اور آپ فرما رہے ہیں "انا النبی لا کذب" ( بخاری 4317, مسلم 4615- 4616)*

*★_۔ اس واقعہ کے متعلق عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔"_ مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے اس وقت نبی ﷺ خچر کو ایڑ لگانے اور دشمن کی جانب بڑھانے لگے۔ میں نے لگام اور ابوسفیان نے رکاب پکڑ لی ۔اس ارادہ سے کہ حضور ﷺ کو آگے بڑھنے سے روک دیں_," ( بخاری -4315, مسلم -4612 ، 4616)*

*★"_ یہ شجاعت کی غایت الغایت ہے کہ جس شخص کے سامنے سے بارہ ہزار (12000) فوج بھاگ رہی ہے، حضور ﷺ اس کے مقابلہ کے لیے اپنی سواری آگے کو لے جا رہے ہیں اور جب اہل بیت کے دو شخص عم اور ابن العم نے سواری کو روک لیا تو حضور ﷺ پیادہ ہو کر آگے بڑھنے کو ہیں_,"*
[6/5, 8:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صحیحین میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مدینہ میں ایک رات غل سا ہوا لوگ سمجھے چھاپہ آ پڑا۔ سب لوگ مل کر آبادی سے باہر اس شور کی جانب کو چلے ۔ آگے چلے تو انہیں نبی ﷺ واپس ہوتے ہوۓ ملے ۔حضور ﷺ گھوڑے پر سوار اور تلوار حمائل کیے ہوۓ تھے۔ یعنی آواز سن کر سب سے پہلے اور تن تنبہ تفتیش کو تشریف لے گئے تھے اور ہم سے فرمارہے تھے: ڈرو نہیں ،ڈرو نہیں _," ( بخاری 2627, مسلم 2307, ابو داؤد 4988, ترمذی 1685)*

*★_ قارئین کو بیت العقبہ کی بنیادی ملاقات کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا کہ شب تاریک اور منزل پر خطر کے خوف سے ایک قافلہ پہاڑ کی گھائی میں پناہ لینے پر مجبور ہو جا تا ہے اور آبادی تک پہنچنے کی جرأت نہیں کرتا اور نبی ﷺ جن کی جان کا دشمن مکہ کا ایک ایک شخص تھا ایسے وقت اور ایسے مقام میں اس لیے چکر لگا رہے ہیں کہ شاید کسی راہ گم کرد و ضلالت کو ہدایت فرما سکیں _,"*

*★_ تمام دنیا کے مقابل سچے اصول کی اشاعت کے لیے کھڑے ہونا اور ایک ایسے ملک میں جہاں خونریزی وسفا کی ہی کی حکومت تھی ۔ ہر ایک مذہبی ضلالت کا اعلان کرنا، کسریٰ و قیصر وحبش کے حکمرانوں اور عرب کے جنگ جو قبائل کے خشم و غضب کی پرواہ نہ کرنا شجاعت اور قوت قلب کا بہترین نمونہ دکھاتا ہے جس کی نظیر تاریخ میں ملنی مشکل ہے_,"*
[6/6, 6:04 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_تواضع کا بیان :-*
*"_مسکنت و تواضع نبی ﷺ کی صفت لازم تھی ، تواضع ہی تھی کہ خچر اور حمار پر سواری فرماتے ۔ دوسرے کو ساتھ سوار کر لیتے ۔ مسکینوں ، غریبوں کی عیادت فرماتے ،فقراء کے برابر جا بیٹھتے، صحابہ کے درمیان مل جل کر بیٹھ جاتے ۔ اپنی نشست کے لیے نہ جانب صدر کی ضرورت سمجھتے نہ کوئی امیتازی نشان بناتے ، غلاموں اور خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ۔ بازار سے سودا خرید کر اور خود اٹھا کر لے آتے ۔اپنے جانور کو خود چارہ ڈالتے ، اونٹ کی زانو بندی کر دیتے۔ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کاج اپنے ہاتھ ہی سے کیا کرتے تھے۔ جب ہزاروں جانثار ایسی خدمت سر انجام دینے کو اپنی سعادت دارین سمجھنے والے موجود اور آمادہ بھی ہوتے ۔*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور ﷺ حج کو تشریف لے گئے ۔ میں نے دیکھا کہ جو چادر حضور ﷺ کے اوپر تھی اسکی قیمت چار ( بخاری چار (4) درہم سے زیادہ نہ ہوگی _,"*

*★_ یہودان بنوقریظہ کی جانب تشریف لے گئے تو اس روز حضور ﷺ حمار پر سوار تھے جس کی باگ کھجور کے پٹھے کی رسی سے بنی ہوئی تھی اور اس کی پشت پر صرف کھجور کی صف پڑی ہوئی تھی ۔*

*★_ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک دکان سے پاجامہ خریدا ، اٹھنے لگے تو دکاندار نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بوسہ دینا چاہا، حضور ﷺ نے ہاتھ کو جھٹ پیچھے ہٹالیا اور زبان مبارک سے فرمایا: - یہ تو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں، میں بادشاہ نہیں ہوں ، میں تم ہی سے ایک ہوں _,"*
[6/7, 5:04 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ حیاء کا بیان :-*

*"_ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی ﷺ پردہ نشنین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمگیں تھے۔ کوئی مکروہ چیز دیکھ لیتے تو زبان سے کچھ نہ فرماتے ۔ حضور ﷺ کے چہرہ پر کراہت کے آثار نمایاں ہو جاتے _," ( بخاری 3562، مسلم 2320، ابن ماجہ: 4180،*

*★_ اسی صفت حیا کا اثر تھا کہ کسی کو رو ور رو کسی عیب کے متعلق کچھ نہ فرماتے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں زعفران کا رنگ ملے ہوئے آیا۔ حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ کسی کے سامنے ایسی بات نہ کہا کرتے تھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ جب وہ چلا گیا تو حضور ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کاش تم اس سے کہہ دیتے کہ وہ اس رنگ کو چھوڑ دے_" ( شمائیل ترندی 345, 184، ہامش المواہب: 173)*

*★"_ بعض اوقات لوگوں کی طول کلامی سے حضور ﷺ تھک جاتے یا زیادہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے مجبور ہو جاتے تب بھی حیا کی وجہ سے خود تکلیف اٹھاتے اور ان سے کچھ نہ فرماتے _,"*
[6/8, 8:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شفقت و رافت کا بیان:-*

*"_ ایک گنوار آیا ، اس نے سوال کیا ،حضور ﷺ نے اسے دے دیا اور پوچھا کہ ٹھیک ہے ۔ وہ بولا نہیں تم نے میرے ساتھ کچھ بھی سلوک نہیں کیا ۔ مسلمان یہ سن کر بےتابانہ اس کی طرف اٹھے، حضور ﷺ نے اشارہ کیا کہ رک جاؤ، پھر حضور ﷺ گھر میں تشریف لے گئے اور گھر سے لا کر اور بھی کچھ دیا۔ وہ خوش ہو کر دعا دینے لگا۔*

*"_ نبی ﷺ نے فرمایا: تیرا پہلا کلام میرے اصحاب کو نا گوار گزرا تھا۔ کیا تم پسند کر تے ہو کہ ان کے سامنے بھی اس طرح کہہ دو جس طرح اب میرے پاس کہہ رہے ہو تاکہ ان کے دل بھی تیری طرف سے صاف ہو جائیں ۔ وہ بولا- ہاں ۔ میں کہ دوں گا۔ پھر اگلے دن یا شام ہی وہ گنوار گیا۔ آپ ﷺ نے اصحاب سے فرمایا کہ اب یہ مجھ سے خوش ہے، کیوں ٹھیک ہے نا! وہ بولا- ہاں ! اور پھر دعا دی ۔*

*"_ نبی ﷺ نے فرمایا ، ایک شخص کی اونٹنی بھاگ گئی، لوگ اس کے پیچھے دوڑے، وہ آگے ہی آگے بھاگتی رہی ۔ مالک بولا تم سب ٹھہر جاؤ، میری اونٹنی ہے اور میں ہی اسے سمجھ سکتا ہوں ۔ لوگ ہٹ گئے ۔ اونٹنی گھاس پات کھانے میں لگ گئی ۔ مالک نے آگے سے جا کر اسے جا پڑا اور کاٹھی ڈال لی، میری اور اس گنوار کی مثال تو ایسی ہی تھی ۔ اگر تم اسے اس حالت پر قتل کر دیتے تو بے چارہ جہنم میں جاتا_," ( کتاب الشفاء- 55)* 

*★_ نبی ﷺ نے اللہ تعالی سے عرض کی تھی کہ اے اللہ میری اس عرض کو مضبویہ عہد سمجھا جاۓ کہ اگر میں کسی شخص کو ازراہ بشریت بددعا دے بھی بیٹھوں تو میری اس بد دعا کو بھی اس کے حق میں رحمت و برکت اور زکوٰۃ وتقرب بناد بنا۔_," (بخاری مع الفتح: 205/11 مسلم : 2601)*

*★_ امام احمد وطبرانی نے روایت کی ہے کہ ایک شخص کو گرفتار کر کے نبی ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا اور عرض کیا گیا کہ یہ حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ کرتا ہے ۔ نبی ﷺ نے اسے تسلی دے کر فرمایا کہ تم اس الزام سے نہ ڈرو ( پھر اسے رہا کر کے یہ بھی فرمایا کہ) اگر تیرا ارادہ بھی ہوگا تو تو قابو نہ پاسکے گا_," ( کتاب الشفاء- ص :40 ،نسائی: 10903 احمد: 471/3)،*
[6/9, 7:49 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ عفو و کرم :-*
*"_ عفو کی صورت اس وقت محقق ہوتی ہے کہ جرم ثابت ہو اور مجرم کو سزا دینے کی طاقت حاصل ہو پھر معافی دی جاۓ ۔ کرم کے معنی میں داد و دہش یا عزت افزائی کی صورت شامل ہے ۔ عفو کے بغیر بھی پائی جاتی ہے اور عفو کے ساتھ بھی اس وقت اس کی شان اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے، نبی ﷺ کے عفو تقصیر کے ساتھ عموماً کرم بھی پایا جاتا تھا_,*

*★(1)_ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا ۔ حضور ﷺ کی چادر کو زور سے کھینچا ، چادر کا کنارہ حضور ﷺ کی گردن میں کھب گیا اور نشان پڑ گیا ۔ وہ اعرابی بولا محمد ﷺ میرے دو اونٹ ہیں ان کی لاد کا کچھ سامان مجھے بھی دو۔ کیوں کہ جو مال تیرے پاس ہے وہ نہ تیرا ہے، نہ تیرے باپ کا ۔ نبی ﷺ چپ ہو گئے ، پھر فرمایا مال تواللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔*
*"_ پھر پوچھا: جو برتاؤ تم نے مجھ سے کیا تم اس پر ڈرتے نہیں ہو؟ اعرابی بولا: نہیں۔ پوچھا: کیوں؟ وہ بولا مجھے معلوم ہے کہ آپ برائی کے بدلے برائی نہیں کیا کرتے، نبی ﷺ ہنس دیے اور حکم دیا کہ ایک اونٹ کے بوجھ کے جو ایک کی کھجوریں دی جائیں_," (بخاری -٣١٤٩, مسلم -١٠٥٧ )*
 
*★_ حضور ﷺ نے زید بن سعنہ یہودی کا قرض دینا تھا، وہ تقاضا کے لیے آیا حضور ﷺ کے کندھے کی چادر اتار لی اور کرتہ پکڑ کر سختی سے بولا کہ عبدالمطلب کی اولاد بڑی نادہندہ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے جھڑکا اور سختی سے جواب دیا۔ نبی ﷺ تبسم فرماتے رہے، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: عمر ! تم کو مجھ سے اور اس سے اور طرح کا برتاؤ کرنا تھا، تم مجھے کہتے کہ ادائیگی ہونی چاہیے اور اسے سکھاتے کہ تقاضا اچھے لفظوں میں کرنا چاہیے۔،*

*★"_پھر زید کو مخاطب کر کے فرمایا:ابھی تو وعدہ میں تین دن باقی ہیں، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، جاؤ اس کا قرض ادا کرو اور بیںس صاع زیادہ بھی دینا، کیوں کہ تم نے اسے جھڑکا بھی تھا۔" ( رواہ بہیقی مفصلا ۔ کتاب الشفاء- -٤٥)*

*★_ واضح ہو کہ وزن صاع ہمارے 80 روپے تولہ سیر کے حساب سے دو سپر ساڑھے تین چھٹانک کا ہوتا ہے ۔ یہی واقعہ ابن سعد کے اسلام کا موجب ہوا ۔ اس نے سنا تھا کہ نبی موعود کا علم ہر جہالت پر سابق ہوگا اور شدت جہل اس کے علم کی افزائی کا سبب ہوگی ۔اسی پیشین گوئی کی آزمائش کے لیے اس نے یہ حرکات کی تھیں _," ( کنز العمال 15050 مستدرک حاکم 2237، مجمع الزوائد : 2398, بہیقی 52/6 )*
[6/10, 4:31 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوہ تنعیم سے 80 شخص یہ ارادہ کر کے اترے کہ نبی ﷺ کوقتل کر دیں ، ( حضور ﷺ دامن کوہ میں اترے ہوئے تھے انھوں نے اپنے کام کے لیے نماز صبح کا وقت انتخاب کیا تھا ) جس میں نبی کریم ﷺ لمبی قراءت پڑھا کرتے تھے, وہ آۓ اور پکڑے گئے ۔ نبی ﷺ نے سب کو چھوڑ دیا_," ( مسلم 1679، ابوداؤد 2688، ترمذی :3264 ، احمد: 1243)*

*★_ ابوسفیان بن حرب اموی و شخص تھا جس نے احد، احزاب وغیرہ میں حضور ﷺ پر فوج کشی کی تھی، وہ قبل از اسلام دوران ایام جنگ گرفتار ہو گیا ۔حضور ﷺ نے نہایت مہربانی سے اس سے کلام فرمایا:- افسوس ! ابوسفیان ابھی وقت نہیں ہوا کہ تم اتنی بات سمجھ جاؤ کہ اللہ کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔“* *"_ابوسفیان بولا:- میرے ماں باپ حضور ﷺ پرقربان، آپ کتنے بردبار، کتنے قرابت کاحق ادا کر نے والے اور کس قدر دشمنوں پر عفو و کرم کر نے والے ہیں_," ( کنزالعمال:1436 الشفاء: 2291,مجمع الزوائد 166/6)*

*★_ زینب بنت الحارث بن سلام خیبر کی یہودیہ نے گوشت میں زہر ڈال کر حضور ﷺ کو کھلایا ، اس نے اقبال جرم بھی کر لیا، نبی ﷺ نے پھر بھی اسے معاف فرما دیا_," ( بخاری 5777,2617)*
[6/11, 6:49 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_زہد فی الدنیا :-*
*"_ واقعات زہد کے بیان میں میں نے اس زمانہ کے حالات کو لیا ہے، جب نبی ﷺ کا حکم تام عرب میں نافذ تھا۔ جب بحرین سے حبش تک حضور ﷺ کا کلمہ پڑھا جاتا تھا تاکہ معلوم ہو جاۓ کہ نبی ﷺ کا زہد اضطراری نہ تھا بلکہ اختیاری تھا۔ اس کا سبب لاچاری نہ تھا بلکہ فطری سبک روحی کہ علائق مادی سے پیوستگی پسند بھی نہ کر سکتے تھے۔*

*★_ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی ﷺ نے کبھی شکم سیر ہو کر نہیں کھایا اور کبھی فاقہ کا شکوہ کسی سے نہیں فرمایا۔ ناداری حضور ﷺ کو غنی سے زیادہ پیاری تھی ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے رات بھر نیند نہیں آئی مگر اگلے دن کا روزہ پھر رکھ لیتے تھے۔ اگر حضور چاہتے تو اللہ تعالی خزائن ارض کی کنجیاں اور ثمرات وتمعات کی زندگی کی افزائشیں سب ہی عطا فرما دیتا۔*

*"_ میں حضور ﷺ کی فاقہ کی حالت دیکھ کر رو پڑا کرتی ، اپنا ہاتھ حضور ﷺ کے پیٹ پر پھیرا کرتی ( کہ فاقہ کیسا دب گیا ہے) اور کہا کرتی ، واری جاؤں ، دنیا میں سے اتنا ہی قبول کر لیجیے جو جسمانی طاقت کو قائم رکھنے کو کافی ہو، تو جواب میں فرما دیتے ۔ "عائشہ ! مجھے دنیا سے کیا کام، میرے بھائی اولوالعزم رسول تو اس سے بھی زیادہ حالت پر صبر کیا کرتے تھے۔ وہ اسی چال پر چلے اور اللہ کے سامنے گئے, اللہ نے ان کو اکرام کیا اور ان کو پورا پورا ثواب دیا۔ اب اگر میں آسودگی کی زندگی کو پسند کرتا ہوں تو مجھے یہ بھی شرم آتی ہے کہ کل کو ان سے کم رہ جاؤں ۔ دیکھو مجھے تو جو چیز سب سے زیادہ پیاری ہے وہ یہ ہے کہ اپنے بھائیوں اور خلیلوں سے جاملوں ۔“ (کتاب الشفاء- : 1063 خلاق النبوۃ- 268)*

*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس گفتگو کے بعد حضور ﷺ صرف ایک ہی مہینہ تک رونق افروز عالم رہے اور پھر رفیق اعلیٰ سے جاملے_,"*
[6/12, 6:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ عام اخلاق :-*
*"_ ام المومنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی شہادت نبی ﷺ کی نبوت سے پیشتر کے اخلاق کی بابت پندرہ (15) سالہ تجربہ یہ ہے:- آپ قرابتیوں سے سلوک کرنے والے ہیں۔ در ماندوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے، مصیبت زدوں کی اعانت فرمانے والے_,"( بخاری 4956 مسلم :253, 160 ،احمد : 233, 232/6)* 

*★_ بیہقی نے ابوقتادہ سے روایت ہے کہ نجاشی کا وفد حضور ﷺ کی خدمت میں آیا تو نبی ﷺ بنفس نفیس ان کی آسائش کا اہتمام فرماتے تھے۔ صحابہ نے عرض کی کہ خدمت کے لیے ہم حاضر ہیں ۔ فرمایا ہاں ! مگر ان لوگوں نے حبش میں میرے صحابہ کی عزت کی تھی ،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ خود ہی ان کی ضرورت کو پورا کروں_," ( دلائل النبوۃ 307/27, اتحاف السعادة: 102/7)*

*★_ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس (10) سال نبی ﷺ کی خدمت کی ۔ اس عرصہ کے دوران مجھے کبھی ہشت تک نہیں کی۔ میں نے کوئی کام کرلیا تو یہ نہ فرمایا کہ کیوں کیا؟ کوئی کام نہ کیا تو یہ نہ پوچھا کہ کیوں نہ کیا_," ( ۔ ( بخاری :6038، مسلم :2309, ترمذی :2015، الشمائل:345)*

*★_ حضور ﷺ نے مجھے ایک کام کے لیے فرمایا ، میں نے کہا کہ میں نہیں جاتا ، میرے دل میں یہ تھا کہ میں جاؤں گا ، میں وہاں سے نکلا تو لڑکوں کے ساتھ کھیل میں لگ گیا ۔ ( آغاز خدمت کے وقت حضرت انس کی عمر 8 سال کی تھی ) نبی ﷺ بھی وہاں آ گئے ۔ میری گردن پر ہاتھ رکھا۔ میں نے لوٹ کر دیکھا تو حضور ﷺ ہنس رہے تھے اور فر مایا- پیارے انیس ! اب تو اس کام کو جاؤ۔ میں نے عرض کیا: ہاں ، میں اب جا تا ہوں_," (مسلم:2309-2310 ترمذی:2015، الشمائل:346 )*
[6/13, 6:13 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی ﷺ اکثیر السکوت تھے۔ بلاضرورت نہیں بولا کرتے تھے ۔ جب بولتے تھے تو بات کا کوئی ضروری جز باقی نہ رہ جاتا تھا اور کوئی فضول لفظ استعمال نہ ہوتا تھا۔ حضور ﷺ کی مجلس حلم وحیا اور خیر و امانت کی مجلس ہوتی تھی، تبسم ہی حضور ﷺ کا ہنسنا تھا۔ اصحاب بھی حضور ﷺ کے سامنے تبسم ہی پر اکتفا کرتے تھے_" ( شفاء -ص -11)*

*★_ حضور ﷺ کی راست گوئی ایسی مسلمہ تھی کہ نضر بن حارث جیسا جانی دشمن ایک دن قریش سے کہنے لگا کہ محمد ﷺ بچپن ہی سے تم میں سب سے زیادہ پسند یدہ ،سب سے زیادہ سچے، سب سے بڑھ کر امانت دار مانے جاتے تھے۔ اب جو ان کی داڑھی کے بال پک گئے اور انہوں نے اپنی تعلیم تمھارے سامنے پیش کی تو تم نے کہ دیا کہ وہ ساحر ہے، نہیں نہیں ،اللہ کی قسم !وہ ساحر تو نہیں ہے" ( الشفاء -60)*

*★_ المختصر اس بحر ناپیدا کنار کی شناوری محال ہے اور خلاصۃ المقال یہ ہے کہ کیا ایسے اخلاق فاضلہ کا ہادی ایسے محاسن جمیلہ کا مالک ، ایسے اشراف اقوال کا صاحب، ایسے جمیل السجایا کا متحمل ایسا ہے کہ اس سے محبت کی جائے ؟ یا ایسا ہے کہ اس سے محبت نہ کی جاۓ ۔؟ میں تو زور سے کہوں گا کہ جو کوئی بھی ایسی محمد ﷺ، ایسے ستودہ، ایسے محمودہ، ایسے وجود باجود ایسے مصطفی ،ایسے برگزیدہ سے محبت نہیں کرتا ، وہ فی الحقیقت ان جملہ اخلاق وصفات سے محبت نہیں رکھتا اور اس لیے وہ خود بھی ان اخلاق وصفات سے متصف ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اعاذنا اللہ منھا۔!*

*★_ آوا ہم سب محبت کریں اور محبت کرنا ان سے سیکھیں ، جن کو اللہ نے خود اپنے پیارے کی محبت وصحبت کے لیے چن لیا تھا، یہ یادرکھنا چاہیے کہ محبت ہی ادب وتوقیر سکھاتی ہے اور محبت ہی اتباع واطاعت پر آمادہ کرتی ہے تعظیم وہی ہے جس کا منشا محبت ہو اور اکرام وہی اکرام ہے جس کا مبداء محبت ہو_,"*
[6/15, 6:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ عروہ بن مسعود ثقفی کو قریش نے صلح حدیبیہ سے پیشتر اپنا سفیر بنا کر حضور عالی ﷺ میں روانہ کیا تھا، اسے سمجھایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے حالات کو ذرا غور سے دیکھے اور قوم کو آ کر بتاۓ ۔ عروہ نے دیکھا کہ نبی ﷺ وضو کر تے ہیں تو بقیہ آب وضو پر صحابہ یوں گرے پڑتے ہیں گویا ابھی لڑ پڑیں گے ۔حضور ﷺ کے لعاب وغیرہ کو زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ پر ہی روک لیا جاتا ہے، جسے وہ منہ پر مل لیتے ہیں ۔حضور ﷺ کوئی حکم دیتے ہیں تو تعمیل کے لیے سب دوڑے پھرتے ہیں ۔حضور ﷺ کچھ بولتے ہیں تو سب چپ چاپ ہو جاتے ہیں_,"*

*★"_ تعظیم کا یہ حال دیکھا کہ حضور ﷺ کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ عروہ نے یہ سب کچھ دیکھا اور قوم سے آ کر بیان کیا۔ لوگو! میں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا اور قیصر کا دربار بھی ۔ نجاشی کا دربار بھی دیکھا، مگر اصحاب محمد ﷺ جو تعظیم محد ﷺ کی کرتے ہیں وہ تو کسی بادشاہ کو بھی اپنے دربار اور ملک میں حاصل نہیں_," ( بخاری - 189, 4328)*

*★_ زید بن وثنہ رضی اللہ عنہ کو قریش جب سولی دینے کے لیے چلے تو ابوسفیان بن حرب نے ان سے کہا: زید تجھے اللہ ہی کی قسم تم چاہتے ہو؟ کہ محمد ﷺ کو پھانسی دی جاتی اور تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے ۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم میں تو یہ نہیں چاہتا کہ میری رہائی کے بدلے نبی ﷺ کے پاۓ مبارک میں اپنے گھر کے اندر بھی کانٹا لگے_,"*
*"_ ابوسفیان حیران رہ گیا اور یوں کہا کہ میں نے تو کسی کو بھی نہ دیکھا جو دوسرے شخص سے ایسی محبت رکھتا ہو، جیسے اصحاب محمد ﷺ کو محمد ﷺ سے ہے۔*
[6/16, 4:56 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عبیداللہ بن یزید صحابی کا ذکر ہے ، انھوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ﷺ مجھے اہل و مال سے زیادہ پیارے ہیں، جب حضور ﷺ مجھے یاد آ تے ہیں تو میں گھر میں ٹک نہیں سکتا۔ آتا ہوں اور حضور ﷺ کو دیکھ کر تسلی پاتا ہوں ،مگر میں اپنی موت اور حضور ﷺ کی موت کا تصور کر کے کہا کرتا ہوں کہ حضور ﷺ تو فردوس بریں میں انبیاء کے درجہ بلند پر ہوں گے ۔ میں اگر بہشت میں پہنچا بھی تو کسی ادنیٰ مقام میں ہوں گا اور وہاں حضور ﷺ کا دیدار نہ پاسکوں گا_,"*

*★_ نبی ﷺ نے انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی اور ان کے قلب کو سکینہ عطافرمایا:-*
*"_وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم [: النساء: 69] ”* 
*"_ جو کوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ کا انعام ہوا۔“*

*★_ ایک اور صحابی کا ذکر ہے ۔ وہ نبی ﷺ خدمت میں آتے تو حضور ﷺ ہی کی جانب تاک لگاۓ دیکھتے رہتے۔ نبی ﷺ نے پوچھا یہ کیا بات ہے ۔ وہ بولے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ہی میں اس دیدار کی بہار لوٹ لوں، آخرت میں حضور ﷺ کے مقام رفیعہ تک تو ہماری رسائی نہ ہوگی ۔اس واقعہ پراللہ تعالی نے آیت بالا (وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم) کو نازل فرمایا_,"* 
*( تفسیر طبری - 8/235)*

*★_ نبی ﷺ نے حدیث انس رضی اللہ عنہ میں صاف ہی فرمادیا۔ جوکوئی مجھ سے محبت رکھتا ہے ، وہ میرے ساتھ ہوگا_,"*
*"_ اس حدیث کی ابتدا میں ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے فرمایا اگر تو ایسی صبح وشام میں زندگی بسر کرتا ہے کہ تیرے دل میں کسی کا کینہ نہ ہو، تو ضرور ایسا ہی کر ۔ پھر فرمایا ، یہی میری روش ہے ۔ جس نے میری روش کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی_," ( رواہ الترمذی)*
[6/17, 4:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_جنگ احد کا ذکر ہے ۔ ایک عورت کا بیٹا، بھائی ،شوہر قتل ہو گئے تھے۔ وہ مدینہ سے نکل کر میدان جنگ میں آئی ۔اس نے پوچھا کہ نبی ﷺ کیسے ہیں ۔لوگوں نے کہا: الحمداللہ وہ تو بخیریت ہیں ۔جیسا کہ تو چاہتی ہے ۔ بولی نہیں ، مجھے دکھا دو کہ حضور ﷺ کو دیکھ لوں ۔ جب اس کی نگاہ چہرہ مبارک پر پڑی تو وہ جوش دل سے بول اٹھی، آپ زندہ ہیں تو اب ہر مصیبت کی برداشت آسان ہے_,"( زرقانی جلد 6 ص 290 یہ خاتون بند زوجہ عمر بن الجموع انصاریہ ہیں ۔(محد سلیمان)*

*★_ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کوئی بھی پیارا نہ تھا مگر میرے دل میں حضور ﷺ کا جلال اس قدر تھا کہ میں آ نکھ بھر کر حضور ﷺ کو نہ دیکھ سکتا تھا_,"*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی ﷺ کے اصحاب مہاجرین و انصار بیٹھے ہوتے ۔ان میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم بھی ہوتے ۔حضور ﷺ باہر تشریف لاتے تو کوئی بھی حضور ﷺ کی جانب نگاہ بلند نہ کرتا۔ ہاں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم دیکھا کر تے، حضور ﷺ ان کو دیکھا کرتے ۔ حضور ﷺ بھی تبسم فرماتے اور وہ بھی تبسم فرماتے ہوتے تھے _,"*

*★_ نبی ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ قریش نے کہا تم بیت الحرام میں آگئے ہو۔ طواف تو کر لو ۔ انھوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ سے پیشتر میں بھی طواف نہ کروں گا_,"*

*★_ علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمہاری محبت کیسی ہوتی تھی ۔ فرمایا بخدا ! نبی ﷺ ہم کو مال و اولاد سے، فرزند و مادر سے زیادہ محبوب اور اس سے زیادہ پیارے تھے، جیسا ٹھنڈا پانی پیاسے کو ہوتا ہے_,"*
[6/18, 8:00 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ جذبات محبت کو دیکھنا ہو! تو اس وقت دیکھ جب کوئی صحابی نبی ﷺ کا ذکر کرتا ہو۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ خوش خلقی میں سب لوگوں سے بڑھے ہوۓ تھے ۔ میں نے ریشم کا دبیز یا باریک کپڑا یا کوئی اور شے ایسی نہیں چھوئی جو نبی ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔ میں نے کبھی کوئی کستوری یا کوئی عطر ایسا نہیں سونگھا جو نبی ﷺ کے پسینہ سے زیادہ خوشبو والا ہو_,"*

*★_ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ کا چہرہ تلوار جیسا چمکیلا تھا تو بول اٹھے: لا بل كان مثل الشمس والقمر (نہیں نہیں حضور ﷺ کا چہرہ تو آفتاب و مہتاب جیسا تھا_," ( بخاری - 3552, دارمی -64, دلائل النبوۃ 1/269)*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی ﷺ کا رنگ سفید روشن تھا۔ پسینہ کی بوند حضور ﷺ کے چہرے پر ایسی نظر آتی تھی ، جسے موتی_," ( بخاری - 3561, مجمع الزوائد -8/280)*

*★_جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی ﷺ مسجد سے نکل کر گھر کو چلے تو بچوں نے حضور ﷺ کو گھیر لیا۔ حضور ﷺ ہر ایک کو پیار دیتے ، ان کے منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے ۔ میرے رخسار پر بھی حضور ﷺ نے ہاتھ رکھا۔ مجھے ٹھنڈک سی پڑ گئی اور ایسی خوشبو آ ئی ، گویا وہ ہاتھ ابھی جوۓ عطار سے نکالا گیا تھا_," ( بخاری 3553, مسلم 6052, مشکوۃ- 5789)*
[6/19, 8:13 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ علی مرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ جو کوئی یکایک حضور ﷺ کے سامنے آ جاتا وہ دہل جاتا، جو پہچان کر پاس آ بیٹھتا وہ شیدا ہو جا تا، دیکھنے والا کہا کرتا کہ میں نے حضور ﷺ جیسا کوئی بھی اس سے پہلے یا پیچھے نہیں دیکھا ۔“ (ترمذی 3647 ، دلائل النبوۃ2691 )* 

*★_ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا صحابیہ ہیں ۔ان سے عمار بن یاسر کے پوتے نے کہا کہ نبی ﷺ کا کچھ حلیہ بیان فرمائے، انھوں نے فرمایا:- اگر حضور ﷺ کو دیکھ لیتا تو سمجھتا کہ سورج نکل آیا _," ( دارمی 60, مجمع الزوائد: 280/8)*

*★_جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، چاند رات تھی، نبی ﷺ حلہ حمراء اوڑھے لیٹ رہے تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا کبھی حضور ﷺ پر نگاہ ڈالتا تھا۔ بالآ خر میں نے تو یہی سمجھا کہ حضور ﷺ چاند سے زیادہ خوشنما ہیں_," (الشمائل الترمذی 10 دارمی:57 ترمذی: 2811)*

*★_ ام سلیم رضی اللہ عنہا جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں ، ایک نیک مائی ہیں ۔ نبی ﷺ کبھی کبھی دوپہر کو ان کے گھر سوتے ، بستر چمڑے کا تھا ، حضور ﷺ کو پسینہ آیا کرتا تھا ، ام سلیم رضی اللہ عنہا پسینے کی بوندوں کو جمع کر لیتیں اور شیشی میں بہ احتیاطِ رکھ لیتی تھیں ،نبی ﷺ نے ان کو ایسا کرتے دیکھا تو پوچھا تو انھوں نے کہا۔ حضور ﷺ کا پسینہ ہے ۔ ہم اسے عطر میں ملالیں گی اور یہ تو سب عطروں سے بڑھ کر عطر ہے ۔“ ( بخاری 6281, مسلم 6055)*
[6/20, 6:52 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سمجھے ہوۓ تھے کہ محبت صرف ایماے لفظی سے ثابت نہیں ہوسکتی ہے ۔ ودودالغفور نے بھی ان لوگوں کو جو اللہ سے محبت کا دعویٰ رکھتے تھے ۔ صاف طور پر فر ما دیا تھا۔ "قل إن كنتم تحبون الله فاتبعونی" کہ اگر اللہ سے محبت ہے تو رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرو_,"*

*★_ اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اتباع رسول ﷺ میں وہ وہ کام کیے جو ہزاروں سال تک اسلام کی صداقت اور صحابہ کرام کے خلوص اور محبت النبی ﷺ کے صحیح معنی کے مفہوم ظاہر کرتے رہیں گے_,"*

*★_ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حالات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کا ادب اور توقیر تعظیم کیوں کر کیا کرتے تھے۔مغیرہ کی روایت میں ہے کہ اگر کسی صحابی کو حضور ﷺ کے دردولت پر دستک کی بھی ضرورت پڑا کرتی تو وہ اپنے ناخنوں کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا کرتا تھا۔ کوئی صحابی حضور ﷺ کے سامنے ایسی آواز سے نہ بولتا کہ اس کی آواز حضور ﷺ کی آواز سے اونچی ہوتی ۔اس ادب کی تعلیم خود رب برتر نے دی تھی:-*
*"_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ [49: الحجرات:2]*
*”_ اے ایمان والو ! اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔“*

*★_محبت النبی ﷺ کی ایک علامت یہ ہے کہ حضور ﷺ کا ذکر خیر زبان پر اکثر جاری رہے۔حدیث پاک ہے: جس کسی کو کوئی چیز پیاری ہوتی ہے وہ اس کا ذکر اکثر کیا کرتا ہے۔"*
[6/21, 6:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ محبت النبی ﷺ کی ایک علامت یہ ہے کہ آل نبی ﷺ کے ساتھ سچے دل اور شفاف قلب سے محبت ہو ۔*

*★_ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حالات میں ہے کہ جب وہ صحابہ کے روزینے مقرر کرنے لگے تھے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (اپنے فرزند ) کا روزینہ تین ہزار (3000) مقرر کیا اور اسامہ بن زید ﷺ کا تین ہزار پانچ سو (3500) سالانہ, عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسامہ رضی اللہ عنہ کو کون سی فضیلت حاصل ہے، وہ کسی غزوہ میں میری طرح حاضر نہیں رہا، فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کا باپ تیرے باپ سے اور وہ خود تجھ سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ پیارے تھے،اس لیے میں نے اپنے پیارے پر نبی ﷺ کے پیارے کو ترجیح دی ہے_," ( ترمذی: 3813، کتاب الخراج ابویوسف: 25,24)*

*★_ امامین شہیدین حسنین رضی اللہ عنہم اور ان کے ابوین طیبین کی محبت عین محبت النبی ﷺ ہے۔ ان کے فضائل یاد رکھنا، بیان کرنا، ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا عین محبت نبوی ﷺ ہے۔*

*★_ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سے جن کے اوصاف قرآن مجید و احادیث پاک میں بہ کثرت موجود ہیں ۔ محبت رکھنا محبت النبی ﷺ ہے ۔ اتباع صحا کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور متابعت سنت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم عین محبت النبی ﷺ ہے۔*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
[6/22, 6:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ خصوصیات نبویہ از احادیث مصطفیٰ ﷺ :-*

*"_ صحیحین میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:-_مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلےکسی کو نہیں ملیں ۔*
*"_ (١)- ابھی ایک ماہ کی مسافت ہو کہ دشمن پر میرا رعب طاری ہو جا تا ہے۔*
*(٢)_ ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی ہے جو جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے_,"*
*"_(٣)_ غنیمت کا مال میرے لیے حلال کر دیا گیا ہے جو پہلے کسی پر حلال نہیں تھا_,"*
*"_ (٤)_ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔*
*-(٥)_ پہلے نبی اپنی قوم کے لیے خاص ہوا کرتے تھے مگر میں ساری دنیا کے لیے نبی ہو کر آیا ہوں ۔“( بخاری:335 مسلم :1163 ،نسائی-,430, 735)*

*"(1)_ نصرت بالرعب :- نبی ﷺ کے 23 سال عہد نبوت پر نظر غائر ڈالو۔ سرور عالم ﷺ تبلیغ و دعوت کے لیے شہر مکہ کے اندر اور آبادی مکہ سے باہر یکہ تنہا رات ہو یا دن تن تنہا تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ مگر کسی شخص کو حضور ﷺ پر جاں ستاں حملہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔*

*★_ منڈیوں اور میلوں میں جہان ہزار ہا اشخاص اور پچاسوں مختلف قبائل کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ حضور ﷺ جاتے اور کلمہ توحید کا اعلان فرماتے ۔ مکہ سے دور دراز قبائل میں جو خشونت اخلاق اور خوں ریزی و بےباکی میں بہت زیادہ مشہور تھے۔حضور ﷺ نے تبلیغ کے لیے متعدد چکر لگاۓ ۔ اس سفر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی بھی حضور ﷺ کے ہمرکاب نہ ہوتا تھا ۔ حضور ﷺ ہر جگہ دعوت فرماتے ، ہر ایک پر حجت الہیہ ختم کرتے اور کوئی بھی حضور ﷺ کے سامنے بر سر پیکار نہ آتا۔*

*★_ آغاز سفر ہجرت سے تین روز پہلے ایک ایک قبیلہ کا بہادر دشمنوں نے جمع کر لیا تھا۔ انھوں نے حضور ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا لیکن ہر ایک کے دل پر کتنا رعب تھا کہ اندر داخل ہونے کی کسی میں جرات نہ تھی ۔ ساری رات اس انتظار میں پوری کردی کہ حضور ﷺ خود ہی باہر تشریف لائیں تو ہم کچھ کریں۔ جب حضور ﷺ تن تنہا باہر بھی نکلے تو "شاهت الوجوه لا يبصرون" کے کلام سے ان کو غصہ بھی دلایا اور مٹھی بھر خاک اٹھا کر ان کے سروں پر بھی پھینک دی ۔ حضور ﷺ کی طرف کوئی نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکا_,"*
[6/23, 7:09 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ طائف کا حکمران اور تمام باشندے حضور ﷺ کے خلاف ہیں مگر ان کی سنگ باریاور شرارت صرف اسی حد تک محدود ہے کہ حضور ﷺ کی تقریر نہ ہو سکے۔ آخر وہی اہل طائف ہیں اور وہی ان کا حکمران ابن عبدیالیل کہ خود مدینہ میں حاضر ہوکر اور داخل اسلام ہو جاتے ہیں۔*

*★_ نصرت بالرعب کی مثالیں اس زمانہ کی بڑی بڑی سلطنتوں کے حالات سے بھی ہوتی ہیں ۔یمن سلطنت ایران کے قبضہ سے نکل جاتا ہے اور کسی جنگ کے بغیر مطیع اسلام ہو جا تا ہے ۔ مگر یمن کی سلطنت ایران یمن کی طرف منہ بھی نہیں کرتی ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا رعب ان کے دل ودماغ پر مستولی تھا۔شمالی عرب سلطنت روما کے اقتدار سے نکل جاتا ہے اور روما کا شہنشاہ فراہمی افواج اور حملہ آوری کا حکم بھی جاری کر دیتا ہے اور اس کی مدافعت کے لیے حضور ﷺ عرب کی سرحد تبوک تک تشریف لے جاتے ہیں مگر ایک مہینہ کی راہ پر ( یروشلم میں) بیٹھے ہوۓ ایمپرر کا دل خوف سے بھر جاتا ہے اور سابقہ احکام جنگ کو منسوخ کر کے دم بخود ہو کر بیٹھ جا تا ہے۔*

*★"_ عرب کی قدیم ترین سلطنتیں حیرہ و غسان قائم ہیں۔ انہی کے دربار کے شعراۓ خاص حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور کعب انصاری رضی اللہ عنہ تاج پوش بادشاہوں کو چھوڑ کر بوریا نشین رسول ﷺ کے آستان پر حاضر ہو گئے ہیں مگر ان سلطنتوں میں سے کسی کو یہ حوصلہ نہیں پڑتا کہ اپنے شعرائے خاص کو واپس لینے کے لیے ہی اظہار طاقت کریں اور دربار عالی کے خدام تک کوئی دھمکی سے ملا ہوا فقرہ بھی پہنچا سکیں۔*

*★_ ذی ظلیم ، ذی یزن کی حکومتیں یمن کی جانب اور مکہ سے متصل قائم ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک حکومت کے پاس با قاعدہ فوج بھی موجود ہے اور خزانے بھی معمور ہیں ۔ وہ گھر بیٹھے حضور ﷺ کا کلمہ پڑھنے لگے ہیں ۔ عدوان و سرکشی کا خیال تک بھی ان کے دماغ میں نہیں آتا۔ ذوالکلاح حمیری اپنے گھر میں بیٹھا پندرہ ہزار غلاموں سے سجدہ کرواتا اور خدا کہلا تا ہے لیکن ایسے رسول ﷺ سے وہ بھی دل ہی دل میں ڈر رہا ہے_,"*

*★_ نبی ﷺ کی یہ صفت خاص نزدیک و دور ہر جگہ جلوہ گسترھی ۔ امیر المومنین علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جوکوئی حضور ﷺ کے سامنے یکا یک آ جاتا وہ دہشت زدہ ہو جاتا۔ یہ وہ نصرت الہیہ تھی جو رعب بن کر حضور ﷺ کی حشمت وعظمت کو دوبالا کر رہی تھی، و صلی اللہ علی حبیبہ محمد و آلہ و بارک وسلم _,"*
[6/24, 7:11 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_)2- روۓ زمین میں مسجد و طہور ہونا:-*
*"_ یہود اپنے کنیسہ اور عیسائی اپنے کلیسا کے بغیر نماز نہ پڑھا کرتے تھے ۔ مجوسی بھی پاک آگ کے آتش کدہ کے بغیر سر گرم عبادت نہ ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی نماز محراب عبادت کی محتاج نہیں ہے، ان کا گرمایا ہوا دل اور روشن آنکھیں آگ کی حرارت اور ضیا سے بے نیاز ہیں ۔ اس لیے روۓ زمین کا ہر ایک بقعہ اور ایک ایک قطعہ ان کی سجدہ ریزی کے لیے موزوں ہے ۔ان پر "يذكرون الله قیام و قعودا و على جنوبهم ﴾ [آل عمران:191] کھڑے، بیٹھے،اور لیٹے لیٹے ذکر کی حالت طاری ہے ، اس لیے اللہ تعالٰی نے روۓ زمین کو حضور ﷺ کی مسجد بنا دیا _,"*

*★_ یہ شرف اسی حقائق شناس کو ملا جس کی نگاہ میں کائنات کا پتہ پتہ توحید کے ترنم میں ہے۔ جس کے سامنے ریگستان کا ذرہ ذرہ انوار قدسی کا آئینہ دار ہے۔ جسے ہر شے مظہر جمال لم یزلی اور مرآۃ جلال قدسی نظر آتی ہے ۔ جس کے کانوں میں پتھروں کی تسبیج اور سبزہ کی تحمید ہر وقت گونج رہی ہے ۔ جسے آسمان وزمین کی فضا نعرہ تکبیر و زمزمہ تہلیل سے بھری ہوئی نظر آتی ہے ۔اسی لیے تمام روۓ زمین مسجد بنا دی گئی _,"*

*★_ طہور سے مراد وضو ہے۔ اطراف بدن کا ہدایت شرعی کے مطابق پانی سے دھونا وضو کہلاتا ہے۔ وضو نماز کے لیے شرط ہے، مگر نماز کا ترک کسی حالت میں روا نہیں ۔ عام طور پر یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ شرط کے نہ ہونے سے مشروط بھی مفقود ہو جانا چاہیے اور جہاں وضو کے لیے پانی میسر نہ ہو وہاں نماز بھی معاف ہو جانی چا ہیے۔ لیکن کیا نماز ان لوگوں پر معاف ہو جاتی ہے جو گھاس کے پتے پتے سے وحدہ لاشریک لہ سننے والے اور درخت کے پتے پتے کو دفتر معرفت جاننے والے ہیں۔*

 *★_ ضروری تھا کہ انسان حصول طہارت کے لیے کوئی دوسری تدابیر اختیار کرتا ،انسان مٹی ہی سے بنا ہے مٹی ہی اس کی اصل ہے اور مٹی ہی اس کو بن جانا ہے ۔مٹی ہی مخلوقات کا گہوارہ ہے اور مٹی ہی سے کائنات ارضی اپنی خوراک حاصل کرتی ہے۔اس لیے اس مٹی ہی کو طہور بھی بنادیا گیا۔*

*"_مٹی کہاں نہیں مل سکتی ؟جہاں پانی نہ ہوگا ، وہاں پر مٹی تو ضرور مل جائے گی ۔ خاک آلود ہاتھوں کا چہرے پر پھیر لینا اس عجز وتقرر کو ہی ظاہر کرتا ہے، جس نے طہور تراب پر ایماندار کو مجبور کیا
*"_ الغرض یہ خصوصیت نبی ﷺ ہی کی ہے کہ حضور ﷺ نے تراب روۓ زمین کو ہمارے لیے طہور بنا دیا اور حضوری بارگاہ ربانی سے کسی حالت میں بھی دور و مجبور نہ ہونے دیا۔*
[6/27, 4:33 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ (3)- حلت مغانم :-*
*"_ حضرت موسیٰ علیہ اسلام حضرت یوشع بن نون علیہ سلام کی فتوحات میں جس قدر مغانم حاصل ہوتے تھے ان کو نذر آتش کر دیا جا تا تھا توراۃ میں جانوروں تک کو جلا دینے کا ذکر ملتا ہے۔ نبی ﷺ کے غزوات میں سب سے پہلے غزوہ بدر میں غنیمت حاصل ہوئی ۔ مال غنیمت جمع بھی ہوا اور تقسیم بھی کیا گیا۔ لیکن پھر بھی لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے جو شریعت موسوی کی نظیر پر مال غنیمت کا لینا خطرناک امر سمجھتے تھے ۔ اللہ تعالی نے انہی کے اطمینان کے لیے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ( ترجمہ) اگر اللہ کی طرف سے پہلے کتاب میں ایسا نہ ہوتا تب جو کچھ تم نے وصول کیا ہے اس کے لیے تم پر بڑا عذاب ہوتا ۔اب تم غنیمت کو حلال طیب سمجھو اور کھاؤ۔‘ {الانفال 68-69]*

*★_ دوسری جگہ ہے:۔ [الفتح: 20-21] اللہ نے تم سے مغائم کثیر و کا وعدہ کیا جن کو تم حاصل کرو گے لہٰذا یہ تو تم کو جلد ہی دے دی ( خیبر ) اور دشمنوں کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا ہے تاکہ مومنین کے لیے یہ ایک نشانی ہو اور تم کو اللہ صراط مستقیم پر چلاۓ گا اور بھی مغانم بہت ہیں تم کو ان پر قدرت نہیں مگر اللہ نے ان پر احاطہ کر رکھا ہے اور اللہ ہر شے پر قدرت والا ہے۔“*

*★"_ یہ مغانم کثیرہ ہی ہیں جو سلطنت ہاۓ ایران اور روما پر فتوحات حاصل کرنے پر مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔چونکہ یہ وعدہ مومنین کو مخاطب فرما کر کیا گیا تھا اس لیے اس وعدہ کا ایفا بھی خلافت راشدہ کے وقت میں ہوا۔ جب کہ سرور کائنات ﷺ عالم بقا کو سدھار گئے تھے۔*

*★_ واضح ہو کہ یہ ایک وعدہ نہ تھا بلکہ مومنین سے تین وعدے کیے گئے تھے ۔ دوسرا وعدہ یہ تھا کہ دشمن کے ہاتھ تم سے کوتاہ رہیں گے ۔ اس وعدہ کے مطابق خلافت راشدہ کے وقت میں کوئی دشمن اسلامی فوجوں پر غالب نہیں آ سکا تھا۔ تیسرا وعده برأیت صراط مستقیم کا تھا اور وہ بھی اپنی ظاہری و باطنی برکات کے ساتھ اسی طرح پورا ہوا جس طرح پہلے دو وعد ہے،*
[7/4, 8:03 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_عطاۓ منصب شفاعت:-*
*"_ شفاعت شفع سے ہے ۔ شفع کے معنی ہیں ایک شے کو دوسری شے کے برابر جو اس کی جنس سے ہو، شامل کر دینا۔ اکثر اوقات کسی اعلٰی مرتبت شخص کو کسی ادنیٰ کے ساتھ مل کر کوئی کام سرانجام دینے کے معنی میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔*

 *★"_مسئلہ شفاعت کفار عرب میں بھی مسلم تھا اور یہود و عیسائیوں میں بھی تسلیم کیا جا تا تھا۔ کفار اور عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ شفیع اپنی عزت و وقار اور ذاتی اقتدار و اختیار سے جسے چاہے اسے اللہ کے عذاب سے چھڑا سکتا ہے ۔ شفیع ان سب کو جو اسی کے ہوکر رہیں ،نعماۓ اخروی و دنیوی عطا فرما سکتا ہے ۔ان عقیدہ والوں کو اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت کا انکار نہ تھا، لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ الہی اقتدار ان اشخاص کو بھی حاصل ہے جو ان کے شفیع ہیں ۔لہذا شفیع کی عبادت کرنا اللہ کی عبادت سے مستغنی کر دیتا ہے ۔ شفیع کی رضامندی اللہ کی رضامندی سے مقدم تر ہے کیوں کہ اللہ تعالی کسی بندہ پر غضب ناک بھی ہو اور اس کا شفیع راضی ہو تو وہ اسے اللہ تعالی کے غضب سے بچالے گا ۔لیکن اگر شفیع غضب ناک ہو جائے تو اللہ تعالی اس شفیع کو بندہ پر مہربان نہ کر سکے گا_,"*

*★_ اللہ تعالٰی نے انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ہے:-{ یونس: ۱۸- ترجمہ] لوگ اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ فائدہ کر سکتے ہیں یہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ تو ہماری شفاعت کرنے والے ہیں ،اللہ کے پاس ۔“*

*★_ انہی لوگوں کے حق میں دوسری جگہ فرمایا:- [الزمر:3- ترجمہ ] جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو اولیاء بنا رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ کے قرب میں لے جائیں گے ۔“*
[7/4, 8:03 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اپنا شفیع بناتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا خداوند (مثل ) خدا کہتے ہیں۔ اسی کو دعا اور مناجاتوں میں پکارتے ، اسی سے مرادیں مانگتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے تخت پر اس کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہے، جوکوئی اسے پکارتا ہے اس سے مدد مانگتا ہے ،اسے اپنا کارساز جانتا ہے ، اس کو مسیح خود ہی اپنے باپ خدا سے بچا لیتا ہے اور بخشوالیتا ہے۔*

*★_ قرآن مجید نے اول تو کافروں اور عیسائیوں وغیرہ کے اس عقیدہ کا بطلان فرمایا ہے اور اس کے رد و بطلان کے لیے مختلف اسلوب کے ساتھ کلام الٰہی نازل ہوا، ہمارا ایمان ہے اور یہ ایمان قرآن و حدیث کے اخبار پر مبنی ہے کہ وہ شفیع سیدنا و مولانا حضرت محمد ﷺ ہیں ,* 

*★_ "تیرا رب تجھے مقام محمود پر ضرور کھڑا کرے گا _," ( بنی اسرائیل -٧٩)*
*"_ مقام محمود وہ مقام شفاعت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ اس مقام پر ایستادہ ہوں گے تو جملہ اور اولین و آخرین حضور ﷺ کی تعریف کریں گے ( تفسیر خازن) اس آیت کی تفسیر میں وہ حدیث صحیح موجود ہے جسے امام مسلم نے اپنی تفسیر میں بروایت انس رضی اللہ عنہ درج فرمایا ہے :-*

*★"_
[7/5, 8:06 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو اپنا شفیع بناتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا خداوند (مثل ) خدا کہتے ہیں۔ اسی کو دعا اور مناجاتوں میں پکارتے ، اسی سے مرادیں مانگتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے تخت پر اس کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہے، جوکوئی اسے پکارتا ہے اس سے مدد مانگتا ہے ،اسے اپنا کارساز جانتا ہے ، اس کو مسیح خود ہی اپنے باپ خدا سے بچا لیتا ہے اور بخشوالیتا ہے۔*

*★_ قرآن مجید نے اول تو کافروں اور عیسائیوں وغیرہ کے اس عقیدہ کا بطلان فرمایا ہے اور اس کے رد و بطلان کے لیے مختلف اسلوب کے ساتھ کلام الٰہی نازل ہوا، ہمارا ایمان ہے اور یہ ایمان قرآن و حدیث کے اخبار پر مبنی ہے کہ وہ شفیع سیدنا و مولانا حضرت محمد ﷺ ہیں ,* 

*★_ "تیرا رب تجھے مقام محمود پر ضرور کھڑا کرے گا _," ( بنی اسرائیل -٧٩)*
*"_ مقام محمود وہ مقام شفاعت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ اس مقام پر ایستادہ ہوں گے تو جملہ اور اولین و آخرین حضور ﷺ کی تعریف کریں گے ( تفسیر خازن) اس آیت کی تفسیر میں وہ حدیث صحیح موجود ہے جسے امام مسلم نے اپنی تفسیر میں بروایت انس رضی اللہ عنہ درج فرمایا ہے :-*

*★"_جب اللہ تعالی لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا ، جب ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی کہ ہم اگر اللہ تعالی کی جناب میں کسی کو شفاعت کے لیے پیش کریں ( تو خوب ہے) تاکہ اللہ تعالی ہم کو اس جگہ سے نجات دے ۔ تب لوگ آدم علیہ اسلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آدم علیہ السلام ابوالبشر ہیں ،اللہ تعالی نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ پھر جنت میں ٹھہرایا، پھرفرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا اور اللہ تعالی نے جملہ اسماءکی تعلیم آپ کو دی ۔ لہذا آپ ہماری شفاعت کر یں کہ اللہ تعالی ہم کو یہاں سے نجات ( راحت ) دے ۔*

*"_ وہ کہیں گے نہیں ، میں نہیں کر سکتا۔ پھر وہ اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور اللہ تعالی سے حیا کا ذکر کر کے کہیں گے کہ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ پہلے رسول ہیں ۔ جب لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے ۔ نوح علیہ سلام کہیں گے نہیں ، میں نہیں ۔ وہ بھی اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور اللہ تعالی سے حیا کریں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جن کو اللہ تعالی نے اپنا خلیل بنایا ہے ۔ وہ کہیں گے نہیں ، میں نہیں ۔ وہ بھی اپنی خطا کو یاد کریں گے اور اللہ تعالی سے حیا کا ذکر کریں گے۔ کہیں گے موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، جن سے اللہ تعالی نے کلام بھی کیا اور انھیں تورات بھی دی ۔ وہ کہیں گے نہیں، میں نہیں ۔ وہ اپنی خطا کا ذکر کر یں گے اور حیا کا۔ پھر کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ روح اللہ کلمۃ اللہ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ۔ وہ کہیں گے میں نہیں ۔ تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ ۔ وہ اللہ تعالی کے ایسے بندے ہیں کہ ان کو اللہ تعالی نے اگلا پچھلا سب کچھ معاف کر دیا ہے_,"*
[7/5, 8:19 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے اور جب میں اپنے رب سے اذن حاصل کروں گا۔ مجھے اذن دیا جائے گا۔ پھر جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں گا۔ پھر اللہ تعالی مجھے دعا سکھاۓ گا وہ جو کچھ چاہے گا میری زبان سے کہلا ئے گا۔ جب اللہ تعالی فرماۓ گا : اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ ۔ بولو تمہاری سنی جاۓ گی ۔ مانگو تم کو دیا جاۓ گا ۔ شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوگی ۔‘*

*★_ رسول اللہ صلی اللہ فرماتے ہیں کہ میں سر اٹھاؤں گا اور پھر اللہ تعالی کی حمد کروں گا ۔ وہ تحمید مجھے اللہ تعالی ہی سکھلا دے گا ۔ پھر میں شفاعت کروں گا۔ پھر میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جاۓ گی ۔ میں اتنے لوگوں کو آگ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا_," (بخاری 4712,741، مسلم:193، احمد -3/116)*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تیسری دفعہ یا چوتھی دفعہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں کہہ دوں گا : اے رب اب تو آگ میں وہی رہ گیا ہے جس کو قرآن نے روک رکھا ہے ۔ یعنی وہی جس پر خلود واجب ہے ۔ بخاری کی ایک روایت میں یہ ہے کہ نبی ﷺ نے پھر یہ آیت ( بنی اسرائیل: 79 ) پڑھی اور فرمایا کہ مقام محمود جس کا وعدہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی سے کیا ہے، وہ یہی مقام ہے_," (بخاری ,741، مسلم:193، مسند احمد -3/116)*

 *★_ حدیث بالا سے ثابت ہوا کہ منصب شفاعت با تخصیص نبی ﷺ ہی کو عطا ہوا، آدم و نوح و موسی و عیسیٰ علیہ السلام بھی شفاعت کی جرأت نہ کریں گے اور بالاخر سب کے نزدیک حضور ﷺ ہی منصب علیا اور شفاعت کبری کے اہل ثابت ہوں گے۔*

*★_ لوگوں کا حضور سے پہلے دیگر انبیاءاولوالعزم علیہ اسلام کی خدمت میں جانے سے یہ نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ کسی شخص کو یہ شبہ باقی نہ رہے کہ اگر ہم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دوسرے کے پاس جاتے تو ممکن تھا کہ وہ بھی شفاعت کر ہی دیتے ۔ اب جب ہر جگہ صاف جواب مل جاۓ گا تو سب کو یہ یقیناً معلوم ہو جاۓ گا کہ منصب شفاعت میں کوئی نبی ،کوئی مرسل، کوئی اولوالعزم بھی حضور ﷺ کا شریک نہیں اور یہی امر حضور ﷺ کی خصوصیت خاصہ کا مظہر ہے ۔*
[7/8, 6:43 AM] Haqq Ka Daayi Official: *(5) _بعثتِ عامہ :- اس کے متعلق قبل ازیں خصوصیت ( وما ارسلنك إلا رحمة للعالمين ) کے تحت میں لکھا جا چکا ہے۔قارئین اس عنوان کے پچھلے پارٹیوں میں اسے ملاحظہ فرمالیں۔*

*(6)_ جوامع الکلم کا عطیہ:- بعض اہل قلم نے "جوامع الکلم" سے مراد قرآن مجید کو سمجھا ہے ۔ کون ہے جو قرآن مجید کے جامع ہونے سے انکار کر سکے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ وہ کلام قدی نظام مراد ہے، جسے "حدیث نبوی" علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کہا جا تا ہے۔ جب کوئی شخص ان الفاظ پاک پر غور کرے گا، جو حضور ﷺ پرنور کے دل و زبان سے گوش عالمیان تک پہنچے، اسے یقین ہو جاۓ گا کہ بے شک یہ کلام کلام نبوت‘ ہے۔ مختصر ، ساده ، صاف، پر صدق معانی کاخزینہ، ہدایت کا گنجینہ ۔*

*★_ اس کتاب کے متعدد مقامات پر احادیث پاک کا اندراج کیا گیا ہے، ناظرین کو تدبر اور تفکر کے بعد کلام نبوی ﷺ کی جامعیت کا حال کھل جائے گا اور بخوبی سمجھ آ جائے گا کہ یہ کلام صدق نظام صرف مطلع نبوی ﷺ ہی سے جلوہ گر ہوسکتا ہے ۔ تیمنا و تبرکاً ایک حدیث درج کی جاتی ہے:-*

*”_(1) خبردار بدگمانی کو عادت نہ بنانا ، بدگمانی تو بالکل جھوٹی بات ہے ۔(2) لوگوں کی عیب جوئی نہ کرنا۔ (3) اور نہ ایسی باتوں کو اپنے کان تک پہنچنے دینا۔ (4) بڑھنے کے لیے مت جھگڑ نا, (5) باہمی حسد نہ کرنا (6) باہمی بغض نہ رکھنا (7) کسی کی پس پشت برائی نہ کرنا۔ (8) اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہوکر رہنا جیسا کہ تم کواللہ کا حکم ہے۔ (9) مسلم مسلم کا بھائی ہے ۔ بھائی پر نہ کوئی ظلم کرے (10) نہ اسے رسوا کرے نہ حقیر جانے (11) انسان کے لیے یہی برائی بہت زیادہ ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو وہ حقیر سمجھے (12) مسلم کا خون ،عزت دوسرے مسلم پر بالکل حرام ہے (13) اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور جسموں کو بالکل نہیں دیکھتا۔ وہ تو تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔ (14) دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقوی یہاں ہے ۔ تقوی یہاں ہے۔ (15) خبردار ایک کی خرید پر دوسرا شخص خریدار نہ بنے ۔ (16) اللہ کے بندو! بھائی بھائی بنو۔ (17) مسلم پر حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے ( نسائی کے سوا صحاح میں ہے۔)* 

*(یہ حدیث مختلف احادیث مبا کہ کا مجموعہ ہے ۔ حوالہ جات درج ذیل ہیں: بخاری 6951 ,2442 ,6077 ,6066، مسلم: 2580 ,58 ,2560 ,25 ,2563 ,28، 2564 ،ابوداؤد : 4882 ,4893 ,4914، 4917، ترندی 1927,1426,1932 ، نسائی: 7291 ,9161، ابن ماجہ : 4213)*
[7/9, 8:11 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_خصوصیت معراج :- معراج نبوی ﷺ کا ذکر اس کتاب میں پہلے بھی آ چکا ہے، قارئین یاد‌ رکھیں کہ معراج نبی ﷺ ان خصوصیات میں سے ہے جس میں اور کوئی نبی و رسول حضور ﷺ کا سہیم نہیں ۔ لفظ معراج کا معنی عروج ہے۔ لفظ معراج کے معنی زینہ بھی ہے ، چوں کہ عروج و ارتقاء منزل بہ منزل ہوا تھا۔ لہذا اس واقعہ باطنی کے لیے یہ تشبیہ ظاہری بھی خوب ہے_,"*

*★_ تعدد معراج :- علماء میں سے بعض تعداد کے قائل ہوۓ ہیں اور لفظ ”اسری‘ ولفظ معراج کے معانی کا فرق بتلایا ہے اور اسی لیے انہوں نے ان واقعات کے لیے مختلف سالوں اور مہینوں کا ذکر کیا ہے مگر حافظ ابن کثیر نے جو بڑے محقق ہیں اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ تعدد معراج کا قول مطلقاً بے سند ہے اور احادیث صحیحہ کے مفہوم کے بھی مخالف ہے_,"*

*★_تعین زمانہ:- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت صحیح بخاری میں ہے کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تین سال قبل از ہجرت تھی ۔ دوسری روایت ہے طاہرہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات فرضیت نماز پنجگانہ سے پیشتر تھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ واقعہ معراج کے بعد از وفات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا تھا اور اس واقعہ کو ہجرت سے تین سال زیادہ کا تاخر نہیں دے سکتے _,"*

*★_ ذکر ہجرت کا آغاز عقبہ کی اس اولین ملاقات سے جس میں انصار کے صرف چھ (6) اشخاص حضور ﷺ سے ملے تھے، شروع ہو جاتا ہے، لہذا واقعہ معراج کو ہجرت سے قریب ترین تعلیق ہے۔ زرقانی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ امام عبدالبر و امام ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ الدینوری رحمۃ اللہ اور امام نووی نے معراج کے لیے ماہ رجب کا تعین کیا ہے_,*

*★_ حافظ عبد الغنی بن عبدالواحد بن علی بن سرور المقدسی رحمۃ اللہ نے ستائیسویں (27) رجب کو جملہ اقوال پر ترجیچ دی ہے اور لکھا ہے کہ ہمیشہ سے عملاً اسی تاریخ پر اتفاق کیا گیا ہے۔*
[7/10, 8:09 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صحیح مسلم کی حدیث میں طریق ثابت عن انس رضی اللہ عنہ میں ہے: ” میں سواری پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچا۔ سواری کو اسی حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ۔مسجد میں جا کر میں نے دو رکعت نماز ادا کی اور وہاں سے آسمان کی طرف عروج ہوا _," (مسلم 411)*

*★_ ابن ابی حاتم کی ایک روایت عن یزید بن ابی مالک عن انس میں نماز بیت المقدس کے متعلق یہ صراحت ہے کہ: "میرے پہنچ جانے کے بعد وہاں بہت سے لوگ جمع ہو گئے ۔ اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی، صفیں درست ہوئیں ۔ میں انتظار میں تھا کہ نماز کون پڑھائے گا۔ جبریل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کھڑا کر دیا۔ بعد از نماز جبریل علیہ السلام نے پوچھا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے پیچھے کن لوگوں نے نماز پڑھی؟ میں نے کہا نہیں- جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سب انبیاء ہیں جو منجانب اللہ مبعوث ہو چکے_," ( تفسیر ابنِ کثیر -3/189)*

 *★_ امام احمد کی روایت عن عبید بن آدم میں بیت المقدس کے متعلق یہ صراحت ہے کہ” جب امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے، تب کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مجھے نماز کہاں پڑھنی چاہیے ، انہوں نے کہا صخرہ کے پیچھے۔ امیرالمومنین نے کہا نہیں ۔ میں وہاں پڑھوں گا جہاں نبی ﷺ نے پڑھی تھی_," ( مسند احمد-1/38, ابنِ کثیر-)*
[7/12, 6:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ اب مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہی کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا ( قتادہ نے لفظ حطیم کی جگہ کہیں لفظ’ حجر' بھی استعمال کیا ہے ۔ دونوں نام ایک ہی مقام کے ہیں ۔ یعنی خانہ کعبہ کے اندر کی وہ زمین جسے قریش نے باہر چھوڑ دیا تھا), جب آنے والا ( جبریل علیہ سلام) میرے پاس آیا۔ اس نے اپنے ساتھی (میکائیل علیہ سلام) سے کہا کہ ان تین میں سے درمیان والے نبی ﷺ ہیں ۔ پھر وہ میرے پاس آیا ، سینہ سے لے کر زیر ناف تک میرا جسم شق کیا ۔ پھر سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان وحکمت سے پر تھا۔ میرے قلب کو دھویا اور ایمان وحکمت سے بھر دیا۔ پھر زخم درست کر دیا_,*

*★"_ پھر میرے لیے سواری لائی گئی جس کا قد خچر سے کم اور حمار ( گدھا) سے اونچا تھا۔ اس کا قدم اس کی حد بصر تک پڑتا تھا۔ مجھے سوار کیا گیا۔ جبریل علیہ سلام میرے ساتھ چلا ۔ آسمان دنیا تک مجھے لے کر پہنچایا گیا۔ دروازہ کھلوایا ،اندر سے پوچھا کون ہے؟ کہا جبریل علیہ سلام۔ کہا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا محمد ﷺ ۔ انہوں نے کہا- کیا آپ کو بلوایا گیا ہے؟ جبریل علیہ سلام نے کہا: ہاں۔ فرشتوں نے مرحبا کہا اور کہا خوب تشریف لائے ۔*

*★_ دروازہ کھلا ۔ میں اندر گیا تو وہاں آدم علیہ السلام تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا یہ تمہارے ابا آدم علیہ السلام ہیں، سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور ابن صالح و نبی صالح فرما کر مرحبا بھی کہا۔*

*★_ پھر جبریل علیہ سلام دوسرے آسمان تک پہنچا, دروازہ کھلوایا ( وہی گفتگو پہلے آسمان والی ہوئی) میں اندر گیا تو وہاں یحییٰ و عیسی علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں خالہ زاد ہیں ۔ جبریل علیہ سلام نے بتایا کہ یہ یحییٰ و عیسیٰ علیہ السلام ہیں، سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور اخ صالح و نبی صالح کہہ کر مرحبا بھی کہا۔ پھر تیسرے آسمان پر گئے ۔ (وہی گفتگو ہوئی، دروازہ کھلا) وہاں یوسف علیہ السلام تھے ۔سلام و جواب کے بعد انہوں نے بھی اخ صالح و نبی صالح کے الفاظ میں مرحبا کہا۔*
[7/12, 6:46 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پھر جبریل علیہ سلام چوتھے آسمان تک بلند ہوا۔ دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا کون؟ کہا جبریل علیہ سلام۔ پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا محد ﷺ ۔ پوچھا کیا بلوائے گئے ہیں؟ کہا: ہاں ۔ فرشتوں نے مرحبا کہا اور میرے آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اندر گئے تو وہاں ادریس علیہ سلام تھے، میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور اخ صالح ونبی صالح کہ کر مرحبا کہا۔*

*★_ اسی طرح پانچویں آسمان والے فرشتوں کی بات جبریل علیہ سلام سے ہوئی ۔ میں اندر گیا۔ وہاں ہارون علیہ السلام ملے ۔سلام کا جواب دے کر مجھے اخ صالح و نبی صالح کے ساتھ مرحبا کہا۔ اسی طرح چھٹے آسمان پر جبریل علیہ السلام اور فرشتوں کی گفتگو ہوئی۔ میں اندر گیا تو وہاں موسیٰ علیہ سلام ملے ۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور اخ صالح و نبی صالح کہہ کر مرحبا کہا۔*

*★_ میں ان سے آگے کو چلا تو موسیٰ علیہ السلام رو پڑے، پوچھا گیا کہ تم کیوں روۓ ؟ کہا یہ نو جوان میرے بعد نبی ہوا اور اس کی امت
[7/13, 6:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پھر جبریل علیہ سلام چوتھے آسمان تک بلند ہوا۔ دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا کون؟ کہا جبریل علیہ سلام۔ پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا محد ﷺ ۔ پوچھا کیا بلوائے گئے ہیں؟ کہا: ہاں ۔ فرشتوں نے مرحبا کہا اور میرے آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اندر گئے تو وہاں ادریس علیہ سلام تھے، میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور اخ صالح ونبی صالح کہ کر مرحبا کہا۔*

*★_ اسی طرح پانچویں آسمان والے فرشتوں کی بات جبریل علیہ سلام سے ہوئی ۔ میں اندر گیا۔ وہاں ہارون علیہ السلام ملے ۔سلام کا جواب دے کر مجھے اخ صالح و نبی صالح کے ساتھ مرحبا کہا۔ اسی طرح چھٹے آسمان پر جبریل علیہ السلام اور فرشتوں کی گفتگو ہوئی۔ میں اندر گیا تو وہاں موسیٰ علیہ سلام ملے ۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور اخ صالح و نبی صالح کہہ کر مرحبا کہا۔*

*★_ میں ان سے آگے کو چلا تو موسیٰ علیہ السلام رو پڑے، پوچھا گیا کہ تم کیوں روۓ ؟ کہا یہ نوجوان میرے بعد نبی ہوا اور اس کی امت کے لوگ میری امت سے بہت زیادہ تعداد میں داخل جنت ہوں گے۔ پھر ساتویں آسمان پر جبریل علیہ السلام پہنچا۔ فرشتوں سے گفتگو ہوئی اور وہاں میں نے دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام موجود ہیں ۔ میں نے سلام کیا ۔انھوں نے جواب دیا اور ابن صالح و نبی صالح کہہ کر مرحبا کہا۔*

*★_ پھر مجھے سدرۃ المنتہٰی تک اٹھایا گیا۔ اسکا پھل بڑی چاٹیوں جیسا اور اسکے پتے ہاتھی کے کان جیسے بڑے ہیں ۔ جبریل علیہ سلام نے بتایا کہ سدرۃ المنتہٰی یہی ہے، وہاں چار نہریں دیکھیں، دو اندر بہتی تھی دو کھلم کھلی، جبریل نے بتایا کہ اندر اندر چلنے والے دریا یا تو بہشت کے دریا ہیں اور کھلے چلنے والے نیل وفرات ۔*
[7/13, 6:58 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پھر سامنے بیت المعمور نمودار ہوا ۔ ( قتادہ جو راوی حدیث ہیں انھوں نے کہا کہ حسن رضی اللہ عنہ نے ہم کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی ﷺ سے یہ بیان کیا تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بیت المعمور میں ستر ہزار (70000) فرشتے روزانہ داخل ہوتے ہیں اور پھر لوٹ کر نہیں آتے ۔اس کے بعد قتادہ رضی اللہ عنہ نے پھر حدیث انس کی طرف رجوع کیا) نبی ﷺ نے فرمایا۔ پھر میرے سامنے شراب اور دودھ اور شہد کے برتن پیش کیے گئے ، میں نے دودھ لے لیا۔ جبریل علیہ سلام نے کہا یہی وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے،*

*★_ پھر پچاس (50) نمازیں فرض کی گئیں ۔ روزانہ پچاس (50) نمازیں ۔ پھر میں نیچے آیا اور موسیٰ علیہ اسلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا اللہ تعالی نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ؟ میں نے کہا: پچاس (50) نمازیں روزانہ ۔ موسیٰ علیہ اسلام نے کہا آپ کی امت میں اس کی استطاعت نہ ہوگی اور میں قبل ازیں لوگوں کا امتحان کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی تدبیر کرتا رہا ہوں ۔ آپ اپنے رب کی طرف واپس جائیں اور امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔*

*★_ میں واپس گیا ، دس (10) نمازیں کم کر دیں گئیں ۔ میں نے لوٹ کر یہی موسیٰ علیہ اسلام کو بتایا وہ بولے کہ پھر واپس جائے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ میں واپس گیا ، اور دس (10) نمازوں کی تخفیف کر دی گئی۔ میں نے پھر موسیٰ علیہ السلام کو یہی آ کر بتلایا۔ انہوں نے کہا کہ پھر واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ میں واپس گیا۔ جب دس نمازوں کی اور تخفیف کر دی گئی ۔ انہوں نے پھر کہا کہ واپس جائے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ میں اسی طرح جاتا رہا حتیٰ کہ پانچ نمازوں کا حکم ہو گیا اور میں نے موسیٰ علیہ السلام کو بتلایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت میں استطاعت بھی نہ ہوگی۔ مجھے لوگوں کا خوب تجر بہ ہے اور میں نے بنی اسرائیل کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کی ہیں لہذا واپس جائے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔*

*★_ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالی سے سوال کرتا کرتا شرمسار ہو گیا ہوں ۔اب تو میں اس کو خوشی سے مانوں گا اور تسلیم کروں گا۔ اس وقت پکارنے والے کی ایک آواز آئی کہ میں نے اپنے فریضہ کو جاری کر دیا اور اپنے بندوں سے تخفیف بھی کر دی۔*
[7/16, 6:36 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شیخین کی حدیث عن انس میں مزید یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے یوں روایت کیا کرتے تھے کہ: آدم علیہ اسلام جب دائیں جانب دیکھتے تب ہنستے اور جب بائیں جانب دیکھتے تب روتے ۔ جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ کے پوچھنے پر بتلایا کہ دائیں بائیں اولاد آدم کی ارواح ہیں ۔ دائیں جانب اہل جنت ہیں اور بائیں اہل نار، دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں اور بائیں جانب کو دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں_," (بخاری :3342, مسلم :163/263)*

*★_ ساتوں آسمانوں پر آٹھوں انبیاء کی ملاقات کا راز:-*
*"_مختلف آسمانوں پر الگ الگ انبیاء علیہم السلام کی ملاقات بہت سی نصائح دینی پر مشتمل ہے:۔،*
*(١)- پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح شاہان عالم معزز مہمان کے اکرام کے لیے اپنی سرحد خاص سے لے کر دربار خاص تک درجہ بدرجہ امراۓ عظام کو مقر ر کیا کرتے ہیں ۔اس طرح ان انبیاء کرام علیہ السلام کا تعین بھی آسمان اول سے آسمان ہفتم تک کیا گیا۔,*

*(٢)_ آدم علیہ السلام ابوالبشر ہیں ۔اول الانبیاء ہیں ۔اس لیے ان کا تعلق آسمان اول سے ایک خصوصیت رکھتا ہے ۔ آدم علیہ سلام ہیں جن کو ترک جنت کا الم اٹھانا پڑا، مگر جب زمین پر آے تو خلافت الارض کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا، اور ان کی اولاد و رفقاء سے زمین آباد ہو گئی تب ان کا وہ الم مبدل بہ سرور ہو گیا _,"*

*(٣)_ یحییٰ و عیسیٰ علیہ السلام میں قرابت بھی ہے ۔ مسیح نے اصطباغ بھی یحییٰ علیہ السلام سے پایا تھا۔ احوال زہد ومحنت میں بھی دونوں متحد الاحوال ہیں ۔اس لیے وہ دونوں ایک ہی مقام پر جمع تھے اور دونوں کو نبی ﷺ کے زہد و توکل اور اعراض عن الخلق ومستقبل کا دکھلانا بھی مقصود تھا۔ یحییٰ علیہ السلام نے اپنا کام عیسیٰ مسیح علیہ السلام پر چھوڑا تھا اور عیسیٰ مسیح علیہ سلام نے اکمال صداقت اور اتمام حقانیت کا حضور ﷺ کے ہاتھوں سے پورا ہونا بتلایا تھا۔ لہذا ضروری تھا کہ دونوں بزرگوار اپنی بہترین تمناؤں کو مکمل شدہ حالت میں دیکھ لیتے _,"*
[7/16, 7:05 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_(٤)_ یوسف علیہ سلام کے احوال مبارکہ کو نبی ﷺ سے مماثلت کلی ہے ۔ دونوں صاحب الجمال والکمال ہیں ۔ دونوں کو امتحانات ساتھ دینے پڑے ۔ دونوں میں عفو کرم کا وفور ہے ۔ دونوں نے اخوان جفا پیشہ کو "لا تشريب عليكم الیوم" کے مثردو سے جان بخشی فرمائی ہے ۔ دونوں صاحب امر وحکومت ہیں اور دنیا سے پوری کامرانی وحکمرانی اور جاہ وجلال کے ساتھ رخصت ہوۓ ہیں_,"*

*(٥)_ چوتھے فلک پر ادریس علیہ سلام کی ملاقات ہوئی ۔ کثرت درس اور توغل تعلیم اور شغف تدریس میں ادریس علیہ اسلام کا خاص درجہ ہے اور یہی کیفیت نبی ﷺ کی تھی يزكيهم ويعلمهم الكتب والحكمة » الجمع: 2] حضور ﷺ ہی کے القاب گرامی میں داخل ہے_,"*

*(٦)_ پانچویں پر ہارون علیہ سلام ملے ۔ ہارون علیہ سلام اپنی قوم وامت میں ہر دل عزیز اور محبوب قلوب تھے ۔ ہارون مسجد کے امام تھے ۔ ہارون علیہ السلام تفرقہ بازی کوسب سے برا سمجھتے تھے اور یہ وہ صفات عالیہ ہیں جن کے انوار حضور ﷺ کی سیرت میں واضح و آشکار ہیں_,"*

*(٧)_ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ سلام کی ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب شریعت بھی ہیں اور صاحب کتاب بھی ہیں ۔ غازی و مجاہد ہیں ، مہاجرو مناظر بھی ۔ نبی ﷺ کے ساتھ ان محاسن میں مشابہ تر ہیں ۔ان کا رتبہ ان مجموعی محاسن کی وجہ سے پانچوں آسمانوں والے انبیاء سے بڑھ کر خاص امتیاز رکھتا ہے۔*

*(٨)_ ساتویں آسمان پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نظر آۓ، یہی بانی کعبہ مقدسہ ہیں اور یہی کعبہ آ سمانی ( بیت المعمور) کے مہتم ہیں ۔ یہی امام خلق ہیں، خلیل الرحمن ہیں ۔ نبی ﷺ نے کعبہ کو ارجاس اوثان سے پاک کیا۔ نبی ﷺ کی مرضی کے مطابق اللہ تعالی نے امت محمدیہ کے لیے کعبہ کو قبلہ نماز بنایا۔ نبی ﷺ ہی نے ملت حنیفیہ کو زندہ کیا۔ نبی ﷺ ہی نے مناسک حج کو سنت ابراہیمیہ کے مطابق محکم فرمایا ، نبی ﷺ ہی نے درود پاک میں اپنے نام کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پاک کے نام کو شامل فرمایا۔ نبی ﷺ حلیہ کے لحاظ سے بھی سیدنا ابراہیم علیہ سلام سے نہایت مماثل تھے_,"*
*"_ رفعت, حضور ﷺ کو مقام ابراہیم ( بیت المعمور ) سے اوپر حاصل ہوئی ۔اس سے ظاہر ہو گیا کہ حضور ﷺ ہی مقام محمود والے ہیں اور حضور ﷺ ہی ادم و من دونه، تحت لوانی فرمانے کا استحقاق رکھتے ہیں _,"*
[7/19, 8:26 PM] Haqq Ka Daayi Official: *(٨)_ ساتویں آسمان پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نظر آۓ، یہی بانی کعبہ مقدسہ ہیں اور یہی کعبہ آ سمانی ( بیت المعمور) کے مہتم ہیں ۔ یہی امام خلق ہیں، خلیل الرحمن ہیں ۔ نبی ﷺ نے کعبہ کو ارجاس اوثان سے پاک کیا۔ نبی ﷺ کی مرضی کے مطابق اللہ تعالی نے امت محمدیہ کے لیے کعبہ کو قبلہ نماز بنایا۔ نبی ﷺ ہی نے ملت حنیفیہ کو زندہ کیا۔ نبی ﷺ ہی نے مناسک حج کو سنت ابراہیمیہ کے مطابق محکم فرمایا ، نبی ﷺ ہی نے درود پاک میں اپنے نام کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پاک کے نام کو شامل فرمایا۔ نبی ﷺ حلیہ کے لحاظ سے بھی سیدنا ابراہیم علیہ سلام سے نہایت مماثل تھے_,"*

*★"_ رفعت, حضور ﷺ کو مقام ابراہیم ( بیت المعمور ) سے اوپر حاصل ہوئی ۔اس سے ظاہر ہو گیا کہ حضور ﷺ ہی مقام محمود والے ہیں اور حضور ﷺ ہی "ادم و من دونه، تحت لوانی" فرمانے کا استحقاق رکھتے ہیں _,"*

*★_ کچھ شک نہیں کہ واقعہ معراج نبی ﷺ کے مقامات اعلیٰ سے ایک برترین مقام ہے اور اس واقعہ کے ذکر میں اللہ تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل میں بھی اور سورۃ النجم میں بھی لفظ عبد ہی کا استعمال فرمایا ہے تاکہ مخلوق الہی خوب سمجھ لیں اور اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیں کہ اس مقدس ہستی کے لیے بھی جس کی شان" بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر سے آشکار ہے۔ سب سے بلند ترین مقام عبودیت ہی کا ہے اور ہم سب کو اسی مقام عبودیت میں ارتقا ( بقدر قابلیت واستعداد ) کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ (فاعبدوا الله مخلصين له الدين [الزمر:2] "اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی کے لیے دین کو خالص کرو"، بیشک الصلوة معراج المومنین کے معانی بھی اس نکتہ سے حل ہوتے ہیں کیوں کہ اظہار عبودیت کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی صورت محقق نہیں،*
[7/22, 8:57 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ معراج- بیداری میں و خواب میں:-*
*"_بعض علماء کو آیت سے (بنی اسرائیل 60- ترجمہ ] اور ہم نے آپ کو جو خواب دکھایا وہ لوگوں کے لیے ماسوائے فتنہ کے کچھ نہیں_", سے یہ خیال ہوا ہے کہ اس آیت کا اشارہ معراج کی طرف ہے، اس اشکال کو امام لغت ابن وجیہہ نے حل کر دیا ہے، اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت کا تعلق بدر سے ہے۔ جبکہ حضور ﷺ نے ہر ایک مشرک کے گرنے کا نشان و مقام بھی بتلا دیا تھا اور مشرکین حضور ﷺ کے اس ارشاد کو استہزاء ہی‌بتاتے رہے۔*

*★"_ امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی بروایت عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ الفاظ تحریر کیے ہیں, " یہ آنکھ کا نظارہ تھا جو نبی ﷺ کو شب اسری دکھلایا گیا_,"*

*★_ میرا ایمان ہے کہ نبی ﷺ کا معراج بیداری اور جسم کے ساتھ تھا, یہی اعتقاد اکثر ائمہ اہل سنت محدثین و فقہاۓ تابعین و صحابہ کا ہے، جولوگ واضح ثبوت کے بعد بھی معراج کو خواب ہی سمجھا کریں وہ حدیث ذیل پر ذرا غور کریں۔*

*★"_ صحیح بخاری و مسلم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مشرکین نے میرے بیت المقدس تک جانے کو جھٹلایا ( اور نشانات پوچھنے لگے) تب میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالی نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا۔ میں عمارت کو دیکھتا جاتا تھا اور جو جو نشان وہ پوچھتے تھے، میں ان کو بتاتا جا تا تھا۔“ (بخاری: 4710، مسلم:428، ترندی 3132 ، ابن حبان: 55 )* 

*★_ یہ ظاہر ہے کہ اگر حضور ﷺ نے واقعات معراج کو خواب کے رنگ میں بیان کیا ہوتا تو مشرک بیت المقدس کے نشان پتے دریافت کرنے کا کیا حق رکھتے تھے اور اللہ تعالی کو بھی کیا ضرورت تھی کہ بیت المقدس کو حضور ﷺ کے سامنے ظاہر و جلوہ گر کر دے اور حضور ﷺ اسے دیکھ دیکھ کر سب نشانات کے جوابات بھی دیتے ہیں ۔ خواب کے لیے تو اتنا ہی جواب کافی تھا کہ میں تو اپنا خواب بیان کر رہا ہوں ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو اپنی آیات کبری دکھلائیں اور وراء الوراء کی سیر کرائی_,"*
[7/23, 8:04 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات ( غیر مادی ) میں جس قدر خواص پیدا کیے ہیں ۔ ان سب کا احاطہ نہ انسان سے ہوسکتا ہے اور نہ کبھی کسی انسان نے ایسا دعویٰ کیا ہے۔ اللہ تعالی اپنے برگزیدہ رسولوں پر اسرار کائنات کا انکشاف کر دیتا ہے، وہ کیمیاوی تدبیر جو قلت کو کثرت سے بدل دے یا ہوا کو پانی بنا دے، ان کے علم وتجربہ میں ہوتی ہیں۔*

*★_۔ ہم یہ سب باتیں معجزات انبیاء کو قریب بہ فہم کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ "کن فیکون" ارشاد کر نے والے کی طاقت اور قدرت انبیاء اللہ کی تائید و نصرت میں ہوتی ہے۔ اور جب اللہ تعالی کو یہ منظور ہوتا ہے کہ کسی مقدس ہستی کا برگزیدہ بارگاہ ربانی کا ہونا عوام پر ثابت کر دے تب اسی طاقت و قدرت کو انبیاء اللہ کے توسط سے ظاہر فرما تا رہتا ہے ۔ اسی کو آیات الہی کہتے ہیں اور اسی کو منجزات ۔*

*★_ سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ کے جو معجزات بروایات صحیحہ ثابت ہیں ان کا شمار بہت زیادہ ہے اور ہر ایک نبی کے معجزات سے ان کی تعداد بھی افزون ہے اور ان کی شان بھی اعلیٰ ہے۔ یہاں ہم چند معجزات کا ذکر کریں گے ان شاء اللہ کہ اہلِ ایمان کی ترقی ایمان کا موجب ہو اور نبی کریم ﷺ کی عظمت اور عظمت کے ساتھ محبت بھی زیادہ دل نشین ہو جائے _,"*
[7/25, 7:01 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_محرم 7ھ :- جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں بصراحت مذکور ہے کہ ہم غزوہ ذات الرقاع اور وادی افیح میں تھے کہ نبی ﷺ نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا۔ جابر ڈھونڈ آۓ ۔ لشکر میں ایک قطرہ پانی نہ ملا۔ پھر حضور ﷺ کے حکم سے جابر رضی اللہ عنہ اس انصاری کے پاس پہنچے جو حضور ﷺ کے پینے کا پانی رکھا کرتے تھے ۔*

*★_ وہاں بھی دیکھا تو ایک پرانی مشک ( شجب ) کے دہانہ پر ایک قطرہ آب نظر آ یا اور پس حکم دیا وہی لے آؤ۔ پھر کاٹھ کا کٹہرہ منگایا گیا۔ نبی ﷺ نے اس میں اپنا ہاتھ انگلیاں پھیلا کر رکھ دیا۔ جابر رضی اللہ نے حکم کے مطابق "بسم اللہ" کہ کر وہ قطرہ آپ اس بحر سخا کے دست مبارک پر ڈال دیا۔*

*★_ جابر رضی اللہ عنہ کی عینی شہادت ہے کہ سب انگلیوں میں سے پانی فوارہ وار نکلا ۔ پانی نے لکڑی کے کٹہرے کو بھی چکر دے دیا۔ سب کو بلایا گیا اور سب نے سیرابی حاصل کی ۔ جب حضور ﷺ نے ہاتھ اٹھا لیا تب بھی وہ کٹہرہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔*
*( مسلم - ٧٤/١٢٠٣)*

*★_اس غزوہ میں چارسو غازی ہمرکاب مصطفوی ﷺ تھے۔*
[7/28, 6:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ذی قعدہ 2 ھ :- صحیح بخاری میں جابر بن عبداللہ الشہید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حدیبیہ میں نبی ﷺ نے وضو کیا ۔ پانی ایک رکوہ ( کوزہ ) میں تھا۔ مسلمان اسے دیکھ کر ٹوٹ پڑے ۔ نبی ﷺ نے پوچھا کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ پانی نہ وضو کے لیے ہے، نہ پینے کے لیے ۔بس یہی کوزہ آب ہے جو حضور ﷺ کے سامنے رکھا ہے_,"*

*★_ حضور ﷺ نے اس کوزہ میں ہاتھ رکھ دیا۔ تب پانی حضور ﷺ کی انگلیوں میں سے پھوٹ پڑا اور تمام لشکر سیراب ہو گیا۔ سب نے وضو بھی کر لیے ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے سالم ابن ابی جعد کے سوال پر بتلایا کہ اس وقت ہم پندرہ سو ( 1500 ) تھے ۔ یہ بھی کہا کہ اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کو کفایت کر جا تا_,"*
 *( بخاری :169,3575)*

*★_مقام حدیبیہ ہی کا دوسرا واقعہ بھی جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے ۔ چونکہ حدیبیہ میں نبی ﷺ کا قیام ایک ہفتہ تک رہا تھا اس لیے جمع بین الاحادیث کے قاعدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ اول پہلے روز کا ہے۔ اس کے بعد پانی کی پھر ضرورت لاحق ہوئی ۔ تب نبی ﷺ اس چاہ پر تشریف لے گئے جس کا نام حدیبیہ تھا اور یہ مقام اسی چاہ کے نام سے معروف تھا۔ چاہ کا پانی خشک ہو چکا تھا۔*

*★_ بخاری کی روایت بالا میں ہے, (یعنی) نبی ﷺ چاو کی منڈیر پر آ بیٹھے، پانی منگایا، کلی کی اور چاو میں ڈال دی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ہم چاہ سے پانی لینے گئے اور سیراب ہوۓ _,"*
 *( بخاری :4151,4150, 3577 )* 

*★_ ڈیڑھ ہزار (1500) کے لشکر کے لیے مستقل انتظام تھا۔ امام بخاری نے اس واقعہ کو براء رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے ظاہر ہے کہ چاہ کا پانی ابل پڑا۔ ہم سے آخری شخص چادر لے کر بھا گا کہ کہیں ڈوب نہ جاۓ اور پھر یہ پانی بہہ نکلا۔*
*( مسند احمد- 18148, 18111، مجمع الزوائد : 14105)*
[7/30, 7:01 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_9 ہجری :- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سفر میں تھے ( معارج النبوۃ میں اسے سفر تبوک بتایا گیا ہے) صبح کی نماز دن چڑھے پڑھی گئی کیوں کہ سب سوتے رو گئے تھے۔ مجھے نبی ﷺ نے آگے آگے چلنے کا حکم دیا ہم کوسخت پیاس لگی ۔ راہ چلتے ہوۓ ہم کو ایک عورت ملی جس کے ساتھ پانی کے دومشکیزے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ پانی اس گاؤں سے ایک دن ایک رات کی مسافت پر ہے۔*

*★_ صحابہ اس عورت کو نبی ﷺ کے پاس لے گئے ۔ وہاں عورت نے یہ بھی کہا کہ وہ تیموں کی ماں ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے مشکیزوں کو ہاتھ سے چھو دیا۔ پانی بہہ نکلا۔ چالیس (40) صحابہ نے جو سخت پیاسے تھے سیر ہو کر پانی پی لیا اور مشک مشکیزے جتنے ساتھ تھے وہ بھی بھر لیے ۔*

*★_ اونٹوں کو وہ پانی نہیں پلا یا۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ مشکیزے پانی سے ایسے بھرے دیکھے جاتے تھے گویا اب پھوٹ پڑیں گے۔*

*★_ اس عورت نے گھر جا کر لوگوں سے کہا کہ میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا اسے نبی کہنا چاہیے، جیسا کہ اس کے ساتھیوں کا یقین ہے۔ اس عورت کی اس اطلاع پر یہ دورافتادہ لوگ بھی مسلمان ہو گئے اور وہ بھی اسلام لے آۓ ۔*
*( بخاری- ٣٤٤, ٣٥٧١ )*
[7/31, 8:15 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار نماز کا وقت آ گیا ۔ جن لوگوں کے گھر قریب تھے وہ گھروں میں جا کر وضو کر آۓ ، جو باقی رہ گئے ۔ نبی ﷺ کے لیے پتھر کے پیالہ میں پانی لایا گیا، وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں نبی ﷺ کا پورا ہاتھ نہ پھیل سکتا تھا۔ اسی پانی سے 80 سے زیادہ لوگوں نے وضو کیا _," (بخاری :200 مسلم : 5941)*

*★_بیہقی کی روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے اس پیالہ میں اپنی چار انگلیاں ڈالی تھیں ۔انس رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ انگلیوں سے پانی پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے ۔ یہ واقعہ مقام قبا کا ہے _," (ترندی: 3631 نسائی: 76)*

*★_صحیح بخاری میں ایک روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بھی ایسی ہی ہے کہ حضور ﷺ نے برتن میں ہاتھ رکھ دیا اور پانی حضور ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے پھوٹ نکلا، ابن مسعود کہتے ہیں کہ اس پانی سے سب ہی نے وضو کر لیا تھا۔ (بخاری: 3579)*

*★_ایسے ہی واقعات اور بھی ہیں اور روایات کی خصوصیتوں پرغور کرنے سے واضح ہو جا تا ہے کہ انگشتان مبارک سے پانی پھوٹ پڑنے کے واقعات بار بار ہوۓ بہ کثرت ہوۓ ۔ نبی ﷺ کے اس مجزہ اور اس خصوصیت لاثانی کی خبر پر بھی انبیاۓ پیشین کے مبارک کلام میں دے دی گئی تھی ۔*
[8/1, 8:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_دودھ کی برکت :-*

*"_پانی کے بعد جس شے کا درجہ ہے وہ دودھ ہے ۔ شب معراج کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ کے سامنے دودھ اور شراب کے پیالے آسمان پر پیش کیے گئے اور حضور ﷺ نے ان میں سے دودھ کو پسندفرمایا اور جبریل امین علیہ اسلام نے یہ نظارہ دیکھ کر کہا: حضور ﷺ نے فطرت کو پسند کیا۔ اسی لیے اسلام کو بھی دودھ کے ساتھ تشبیہ دی جایا کرتی ہے_," (بخاری :3207، مسلم :162 مسند احمد :149, 148/3)*

*"_انسان کا ہر ایک بچہ دودھ سے پلا ہے مگر ایک بچہ بھی دنیا میں ایسا نہیں جس کی رضاعت شراب سے ہو، اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ دودھ فطرت انسانی کا راز دار ہے۔*
*"_داعی ایمان و ہادی اسلام ﷺ نے اپنی امت کو تعلیم پاک کے دودھ سے بھی پرورش کیا اور ان کے لب و کام کو معجزانہ دودھ سے بھی ذوق آشنا بنایا۔ایسے واقعات بہت ہیں ۔*

*"_امام بخاری رحمۃ اللہ نے ایک باب باندھا ہے کہ نبی ﷺ اور حضور ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی گزران کا کیا حال تھا ؟ اس باب میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے۔ جو معجزات نبوی ﷺ کی بھی مظہر ہے اور یہ حقیقت بھی ظاہر کرتی ہے کہ سرور کائنات وفخر موجودات ﷺ کی حیات طیبہ اس دنیا میں کیسی زاہدانہ تھی_,"*
[8/3, 6:43 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بھوک کے مارے کبھی ایسا ہوتا کہ جگر تھام کر زمین پر گر جاتا، کبھی ایسا ہوتا کہ پیٹ پر پتھر باندھ لیتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں سر راہ آ بیٹھا جہاں سے لوگ آیا جایا کرتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آۓ اور میں نے ان سے قرآن پاک کی ایک آیت کی بابت دریافت کیا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ شاید وہ مجھے کچھ کھلا بھی دیں گے ۔ وہ یونہی چلے گئے۔*

*★_ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ نکلے ۔ ان سے بھی ایک آیت کا مطلب پوچھا، غرض وہی تھی کہ کچھ کھانے کو دیں گے۔ وہ بھی یونہی چلے گئے ۔اتنے میں ابوالقاسم ﷺ تشریف لاۓ, مجھے دیکھ کر تبسم فرمایا۔ میرے جی کی بات سمجھ گئے ۔ میرے چہرہ کو تاڑ لیا ، ارشاد فرمایا : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ چلے آؤ۔ میں پیچھے پیچھے ہو لیا۔*

*★_ حضور ﷺ گھر میں گئے ۔ وہاں حضور ﷺ نے پیالہ میں دودھ دیکھا۔ گھر والوں نے حضور ﷺ کو اس شخص کا نام بتلایا جس نے دودھ کا یہ ہدیہ بھیجا تھا۔ حضور ﷺ نے مجھے فرمایا: ابو ہریرہ جاؤ ، اہل صفہ کو بلا لاؤ۔ اہل صفہ وہ لوگ ہوتے تھے جن کا کوئی گھر بار نہ ہوتا تھا۔ جن کو کسی شخص کا کوئی سہارا نہ ہوتا، یہ اضاف الإسلام (اسلام کے مہمان) ہوتے ۔ نبی ﷺ کی سیرت پاک یہ تھی کہ کوئی صدقہ آتا تو سب کا سب ان کو دے دیتے تھے اور ہدیںہ آ تا تو ان کو اپنے ساتھ شامل فرمالیتے تھے۔*

*★_ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھا اہل صفہ میں اس دودھ کی حقیقت کیا ہوگی ۔اگر مجھے ہی مل جاتا مجھ میں کچھ سکت آ جاتی ۔ اب دیکھیے اس میں کچھ ملتا بھی ہے یا نہیں ۔ یہی حالات تھے اور اطاعت الہ اور رسول کے بغیر چارہ کار نہ تھا۔ میں سب کو بلا لایا۔ آ کر بیٹھ گئے ۔ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابو ہریرہ یہ پیالہ لو اور سب کو پلاؤ۔*

*★_ میں نے پیالہ لے لیا۔ ہر ایک کو دیتا جاتا تھا۔ جب ایک شخص پی پی کر سیراب ہو جاتا تب دوسرے کو وہی پیالہ دیتا تھا۔ اسی طرح سب سیر ہو گئے ، تو میں نے آخر میں نبی ﷺ کے سامنے پیالہ پیش کر دیا۔ حضور ﷺ نے لے کر اسے دست مبارک پر رکھ لیا۔ مجھے دیکھا اور مسکراۓ اور فر مایا: ابو ہریرہ اب تو میں رہ گیا یا تو رہ گیا۔ میں نے کہا حضور ﷺ سچ ہے۔ فرمایا اچھا اب تو پی لے۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پی لیا، فرمایا اور پیو۔ میں نے اور پیا، پھر حضور ﷺ یہی فرماتے رہے: پیو، پیو۔ آخر میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اب تو گنجائش بالکل نہیں رہی ۔ فرمایا: لاؤ۔ پیالہ میںنے پیش کر دیا۔ حضور ﷺ نے اللہ کا شکر کیا۔ بسم اللہ پڑھی اور پیالہ ختم کر دیا_,"(بخاری :6452)*
[8/5, 9:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ سفر ہجرت میں نبی ﷺ کا گزر ام معبد عاتکہ بنت خالد بن خلید خزاعیہ کے خیمہ پر ہوا۔ یہ عورت عمر رسیدہ تھی اور خیمہ کے سامنے بیٹھی رہتی ۔ آۓ گئے کو پانی پلاتی ۔کھجوریں وغیرہ فروخت کر لیا کرتی تھی ۔*

*★_ اس وقت نبی ﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے جو حضور ﷺ کے ساتھ پہلی نشست پر سوار تھے۔ دوسری سواری پر عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ تھے یا ابن اریقط رضی اللہ عنہ تھے ۔ جو اس راہ کا واقف تھے اور اسے اجرت پر ساتھ لے لیا گیا تھے۔ یہ مبارک قافلہ اس خیمہ پر ستانے ، آرام لینے کے لیے ٹھہر گیا۔*

*★_ بڑھیا سے پوچھا گیا کہ اس کے پاس کچھ کھانے پینے کو بھی ہے۔ وہ بولی نہیں ۔ اگر کچھ ہوتا تو میں خود پیش کر دیتی ۔ ( ان ایام میں قحط بھی سخت پڑا ہوا تھا )*

*★_ ام معبد کے بھائی جیش بن خالد ( قتیل البطحاء ) کا بیان ہے کہ خیمہ میں ایک دبلی کمزور بکری کھڑی تھی ۔ نبی ﷺ نے اس بکری کی بابت پوچھا۔ ام معبد نے جواب دیا کہ یہ کمزور بہت ہے ۔ ریوڑ کے ساتھ نہیں چل سکتی ۔ اس لیے یہاں رہ گئی ۔ نبی ﷺ نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو ہم اسے دھو لیں ۔ وہ بولی اگر آپ کو دودہ نظر آتا ہے تو دھو لیجیے ۔*

*★_ نبی ﷺ نے فرمایا ایک بڑا برتن لاؤ۔ پھر بسم اللہ کہہ کر بکری سے دودھ نکالنا شروع کیا۔ برتن بھر گیا تو سب کو پلایا۔ دوبارہ دودھ نکالا ، برتن بھر گیا تو دوبارہ پھر سب کو پلایا گیا۔ آخر نبی ﷺ نے پیا۔ سہ بارہ دودھ نکالا اور گھر والوں کے لیے چھوڑ دیا گیا۔*
[8/6, 6:32 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ تکثیر طعام:-*
*"_تکثیر طعام سے مراد وہ معجزہ ہے کہ تھوڑا سا طعام بہت کے لیے کافی ہو جاۓ۔ انجیل کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معجزہ کا ظہور عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ہوا۔ انھوں نے چار (4) روٹیوں اور تین (3) مچھلیوں سے بہت بڑی جماعت کو سیر کیا۔ نبی ﷺ کی آیات نبوت میں بھی ایسے واقعات کا ذکر احادیث صحیحہ میں بکثرت ہے۔*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ واقعہ خندق کے ایام میں میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے پیٹ کو باندھ رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے بھوک کی وجہ سے ایسا کیا ہے ۔اسی حالت میں حضور ﷺ اہل صفہ کو سورہ نساء کی تعلیم دے رہے تھے۔*

*★_ انس رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو بتلایا۔ انھوں نے کچھ مزدوری کی اور جو حاصل کیے۔ان کی والدہ نے ادھ سیر جو پیس لیے۔ روٹی پکائی کہ نبی ﷺ اکیلے تشریف لے آ ئیں تو بخوبی سیر ہو سکتے ہیں ۔ ایک آدھ کوئی ساتھ آ گیا جب بھی کفایت سے کام چل جاۓ گا۔*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کو ماں باپ نے بھیجا۔ اچھی طرح سمجھا دیا کہ لوگوں کے سامنے کچھ نہ کہنا ۔ جب حضور ﷺ اٹھ کر اندر گھر میں جانے لگیں تب عرض کر دینا کہ ہمارے ہاں تشریف لے چلیے ۔*

*"_ باقی حصہ اگلے پارٹ میں _,"*
[8/6, 7:03 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پچھلے پارٹ سے جاری:-*
*"_ انس رضی اللہ عنہ پیچے تو نبی ﷺ انبوہ کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ فرمایا تجھے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے۔ عرض کیا ہاں ۔ فرمایا کھانے کے لیے ۔ عرض کیا ہاں ، نبی ﷺ نے فرمایا:- لوگو! چلو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر ۔ سب اٹھ کھڑے ہوۓ ۔*

*★_انس رضی اللہ عنہ نے لپک کر باپ کو اطلاع دی۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ ام سلیم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پوری جماعت کے ساتھ آ رہے ہیں۔ یہ خاتون بلند پایا سمجھ گئی کہ کیا ہوگا ۔ بولی "اللہ و رسولہ اعلم _,"*

*★_ نبی ﷺ کو ابوطلحہ نے آگے بڑھ کر بتا بھی دیا کہ ایک ٹکیا موجود ہے ۔حضور ﷺ نے وہاں پہنچ کر فرمایا کہ (عکہ) گھی کی کپی لے آؤ۔ کپی سے چند قطرے گھی کے نکلے ۔ نبی ﷺ نے انگشت مبارک سے روٹی چپڑ دی ۔ روٹی پھولنے لگی ۔ برتن سے اونچی ہوگئی ۔*

*★_ نبی ﷺ نے مردانہ مکان کھلوایا۔ روٹی رکھ دی اور زبان سے فرمایا: بسم الله الـلـهـم اعـظـم فيهـا البركة" دس دس آدمی روٹی پر بیٹھتے جاتے اور سیر ہو ہو کر اٹھتے جاتے تھے ۔اسی طرح اسی (80) شخصوں نے اس روز کھانا کھایا_,"*
[8/7, 3:25 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جابر ﷺ کا بیان ہے کہ ان کے والد غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے اور بھاری قرض چھوڑ گئے تھے۔ جب کھجور کی فصل آئی ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ﷺ چلیں تاکہ قرض خواہ حضور ﷺ کو دیکھ کر مجھ سے رعایت کریں،*

*★_ فرمایا تم چلو ۔ ہر قسم کی کھجوروں کی ڈھیریاں الگ الگ لگا دو۔ میں نے تعمیل کر دی ۔اتنے میں سرور عالم ﷺ آ گئے ۔حضور ﷺ نے بڑے ڈھیر کو تین بار پھر کر دیکھا اور بعد ازاں وہیں بیٹھ گئے ۔*

*★_ فرمایا قرض خواہوں کو بلاؤ۔ وہ آ گئے تو ہر ایک کو ناپ ناپ کر حضور ﷺ نے کھجوریں دینی شروع کیں حتیٰ کہ سب قرض دار نپٹ گئے اور وہ ڈھیر مجھے جوں کا توں نظر آتا تھا۔ گویا ایک دانہ بھی اس میں سے کم نہیں ہوا۔*
*"_میں تو اتنے ہی پر خوش تھا کہ ساری پیداوار قرض خواہ لے لیں اور مجھے گھر لے جانے کو ایک کھجور بھی نہ ملے ۔*

*★_ صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب قرض داروں کو چکا دینے کے بعد پھر ایک یہودی بھی آ گیا۔ اس کا قرض 30 وسق کھجور کا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو ڈھیریاں باقی ہیں انھیں یہودی لے لے ۔ یہودی نے انکار کر دیا۔*

*★_ نبی ﷺ ایک بار ان ڈھیروں میں سے گزر گئے پھر حکم دیا کہ یہودی کو ناپ کر دو۔ چنانچہ اس کے 30 وسق پورے ہو گئے اور 17 وسق ابھی اور بھی باقی رہ گئے ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ ڈھیروں میں سے ہوکر نکلے تھے میں تب ہی سمجھ گیا کہ اللہ تعالی ان میں برکت ڈال دے گا _,"*
[8/7, 3:38 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صحیح مسلم میں ہے کہ ام مالک کے گھر ایک کپی گھی کی تھی ۔ وہ اس میں سے نبی ﷺ کے لیے گھی نکال نکال کر بھیجا کرتی تھی ۔ اس کے بچے جب سالن ما نگتے اور سالن نہ ہوتا تو اس کپی میں سے گھی نکال کر ان کو دیا کرتی، تو یہی طریقہ جاری رہا۔ ایک روز ام مالک نے اس کپی کو نچوڑ لیا۔ بعد ازاں اس میں سے گھی نہ نکلا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم نچوڑ نہ لیتیں تو اس میں سے ہمیشہ گھی پایا جاتا۔ (مسلم :5945)*

*★_ ابن ابی شیبہ اور احمد اور طبرانی اور ابن سعد نے خباب رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے روایت کیا ہے کہ ان کے والد جہاد پر چلے گیا۔ نبی ﷺ ان کے گھر آتے اور بکری کا دودھ دھو جاتے ۔ گھر کا سب سے بڑا برتن دودھ سے بھر جاتا ۔ جب خباب رضی اللہ عنہ واپس آ گئے، انھوں نے دودھ نکالا تو اتنا ہی نکلا جتنا پہلے اس بکری کا ہوا کرتا تھا_," (ابن کثیر 12/2 ، دلائل النو امنیتی : 13676)*

*★_صحیح بخاری میں عبد الرحمن بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک سفر میں 30 افراد نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب منزل پر اترے تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ کسی کے پاس کچھ کھانے کو بھی ہے ۔ ایک صحابی کے پاس قریباً دو سیر آٹا تھا۔ وہ گوند لیا گیا۔ پھر ایک شخص ریوڑ لیے ہوۓ وہاں پہنچا۔ اس سے ایک بکری خرید لی گئی _"*

*★"۔ بکری کی کلیجی آگ پر بھون لی گئی اور سب حاضرین کو تقسیم کر دی گئی ۔ بعد ازاں وہی کلیجی دو برتنوں میں ڈالی گئی ۔ سب نے اسے سیر ہوکر کھایا۔ پھر بھی ختم نہ ہوئی تو اسے ہم نے اونٹ پر رکھ دیا_," (بخاری:5382,2216)*
[8/15, 8:34 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نباتات پر اثر :- جب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کی گئی تو شروع شروع میں کوئی منبر نہ تھا۔ نبی ﷺ خطبہ کے وقت کھجور کے خشک ننڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد تیم داری رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی اجازت سے کربا قوم نجار سے جو ایک انصاریہ کے غلام تھے منبر تیار کرا لیا۔ وہ تین زینہ کا تھا۔ یعنی دو زینہ اور تیسری نشست کی جگہ,*

*★_ صحیح بخاری میں ہے کہ جب پہلی دفعہ نبی ﷺ نے منبر پر خطبہ شروع فرمایا اور کھجور کا ٹنڈ حضور ﷺ کے ٹیک لگانے کی عزت سے محروم رہ گیا۔ تب اس سے آواز گریہ آنی شروع ہوئی ۔*

*★_ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بچوں کی طرح چلایا اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ دس ماہ حاملہ اوٹنی کی سی آواز ہم نے اس کی سنی، نبی ﷺ منبر سے اترے، اس پر دست شفقت رکھا تو وہ چپ کر گیا۔"*
*®_ ( بخاری : 3585 ,3584 ,2095 ,918)*

*★_ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ پھر نبی ﷺ نے اسے منبر کے متصل دفن کراد یا,*
[8/17, 7:00 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ حیوانات پر اثر :-*
*"_مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک غزوہ میں نبی ﷺ کے ہمرکاب گیا تھا ۔ میرا اونٹ پیچھے رہ گیا تھا اور چل نہ سکتا تھا۔ نبی ﷺ مجھے راہ میں مل گئے ۔ پوچھا اونٹ کو کیا ہے؟ میں نے کہا: بیمار ہے ۔ نبی ﷺ نے اونٹ کو ڈانٹا اور دعا بھی فرمائی، وہ سب سے آگے چلنے لگا۔ حضور ﷺ نے پھر مجھ سے پوچھا تو میں نے عرض کر دیا کہ اب وہ اچھا ہے اور اسے حضور ﷺ کی برکت کا حصہ مل گیا ہے _,"*
*( بخاری: 2097، مسلم:1089، ابن حبان : 7143، نسائی: 299/7)*

*★_ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے جو حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کی ہے کہ انھوں نے بحری سفر کیا۔ کشتی ٹوٹ گئی اور ایک تختہ پر بہتے ہوۓ ایک ساحل پر پہنچ گئے ۔ جس کے ساتھ جنگل تھا۔ اس میں شیر تھے۔ ایک شیر میری طرف آیا ، میں نے کہا - او شیر ! میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں ، شیر دم ہلانے لگا اور میرے برابر برابر چلتا ہوا مجھے رستہ پر ڈال گیا۔ جب میں اس سے الگ ہوا تو وہ دھاڑتا تھا گویا مجھے رخصت کر رہا تھا_,"*
*( البیہقی : 46/6 مستدرک حاکم: 606/3)*
[8/19, 7:44 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ افلاک پر اثر اور معجزہ شق قمر:-*
*"_ نبی ﷺ کے اشہر معجزات میں سے شق قمر کا معجزہ ہے ۔ کفار نے علماۓ یہود سے دریافت کیا تھا کہ ہم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی صداقت کا کیا نشان طلب کرنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ سحر کا اثر صرف زمین تک محدود ہے ۔ تم کہو کہ ہم کو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھلاوے۔ امید ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ دکھلا سکے گا۔ انھیں کی سکھلاوٹ سے کفار نے شق قمر کا سوال کیا تھا_,"*
*( مسلم: 2802 احمد : 163/3 ترمذی :3286)*

*★_ صحیحین میں ابن مسعود کی روایت ہے:- ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے ادھر اور دوسرا اس سے نیچے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دیکھو، گواہ ربنا ( کہ میں نے کفار مکہ کو یہ نشان دکھلا دیا ہے)_,"*
*( بخاری: 3636, 3869, مسلم -7072)*

*★_ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیحین میں ہے: اہل مکہ ( کفار ) نے نبی ﷺ سے درخواست کی تھی کہ ان کو کوئی بڑا نشان دکھایا جاۓ، نبی ﷺ نے انھیں چاند کا پھٹھنا دکھلا یا ، اس کے دو ٹکڑے تھے۔ کوہ حرا ان دونوں کے درمیان تھا_,"*
*( بخاری: 3637, 3868, مسلم -7076, 7077)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
: *"_ معجزات کی قسم دوم یعنی اطلاع اخبار مستقبله وواقعات آئندہ:-*
*"_ عہد مستقبل کا علم کسی انسان کو حاصل نہیں ، "_وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ، ( القمان:34) کسی شخص کو بھی یہ پتا نہیں کہ آنے والے کل کو وہ کیا کیا کرے گا۔“*
*"_ علم غیب کا مالک صرف رب العالمین ہے، "_لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ _" [ الديف:26 ]*

*★_ رب العالمین ہی اپنے گزیدہ انبیاء ورسل پر علم غیب کا اس قدر حصہ ظاہر فرماتا رہا ہے جس کی ان کو ضرورت ہوئی یا جس کی ضرورت ان کی صداقت و رسالت کا یقین دلانے کے لیے پائی گئی ۔*

*★_ "فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا، إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ ، {الجن 26-27}*
*"_وہ غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا مگر جس رسول سے وہ خوش ہو۔“*

*★_ صدیقہ بنت صدیق ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صحیحین میں مروی ہے کہ نزول وحی سے پیشتر حضور ﷺ پر رویاۓ صادقہ کا باب کھولا گیا تھا۔ حضور ﷺ پرنور جو کچھ خواب میں دیکھ لیتے بیداری میں وہ واقعہ اسی طرح ظہور پذیر ہوتا_," ( بخاری :4953,3، مسلم 405,403)*

*★_ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے بھی ایک خواب کا ذکر سورہ الفتح (27) میں فرمایا ہے : "_لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ _,"*
*"_ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے اس خواب کو پوری حقانیت کے ساتھ پورا کر دیا کہ تم ان شاء اللہ کعبہ میں داخل ہوں گے۔اس وقت بعض مسلمانوں نے سر منڈاۓ ہوۓ ہوں گے اور بعض نے بال کٹواۓ ہوۓ ۔“*

[8/23, 6:46 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی ﷺ کھڑے ہوۓ اور حضور ﷺ نے ہر ایک بات جو قیامت تک ہونے والی تھی بیان فرما دی ۔ جسے یاد ہے اسے یاد ہے، جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ میرے سامنے بھی جب وہ ایسا واقعہ آ جا تا ہے جو میں بھول چکا تھا تو اسے دیکھتے ہی سمجھ جاتا ہوں ۔ جیسے ہم کسی شخص کو بھول جایا کرتے ہیں اور پھر اس کا منہ دیکھ کر اسے پہچان لیا کرتے ہیں_," (بخاری-6604, مسلم -7262, ابو داؤد -4240)*

*"_صحیح مسلم بروایت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت بالا کے متعلق میں مزید صراحت ہے کہ حضور ﷺ نے نماز فجر کے بعد نماز ظہر تک خطبہ فرمایا۔ نماز پڑھ کر پھر خطبہ شروع کر دیا۔ غروب شمس تک یہی ہوتا رہا۔ اس خطبہ میں واقعات تا قیامت کا ذکر فرمایا تھا، جسے وہ خطبہ زیادہ محفوظ رہ گیا ہے وہ ہم میں سے زیادہ عالم ہے_،" ( مسلم -2892)*
[8/23, 6:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جہاز بحری کی اطلاع:- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی ﷺ نے ام حرام رضی اللہ عنہا کے گھر آرام فرمایا۔ جب بیدار ہوۓ تو حضور ﷺ ہنس رہے تھے ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے وجہ پوچھی، فرمایا: مجھے میری امت کے وہ غازی دکھلاۓ گئے جو سمندر میں جہاد کے لیے سفر کریں گے ۔ وہ اپنے جہازوں پر ایسے بیٹھے ہوں گے جیسے ملوک اپنے اپنے تخت پر نشست کرتے ہیں _,"*

*★_ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کی میرے لیے بھی دعا فرمائے کہ اللہ تعالی مجھے ان میں شامل فرماۓ ۔ حضور ﷺ نے دعا کر دی اور پھر لیٹ گئے ۔ پھر ہنستے ہوۓ بیدار ہوۓ، فرمایا: مجھے میری امت کے دوسرے غازی جہازوں پر سوار ہو کر جہاد کرنے والے دکھلائے گئے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا ، دعا فرمائیے کہ اللہ تعالی مجھے بھی ان میں شامل فرماۓ، فرمایا نہیں، تو پہلے لوگوں میں سے ہے_,"*
*"_ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بحری جہاد کو گئے تو ام حرام رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر کےساتھ گئیں ۔ غزوہ سے واپسی کے وقت ام حرام رضی اللہ عنہا کے لیے سواری لائی گئی ، وہ سوار ہونے لگیں تو جانور نے لات ماری اور ان کا وہیں انتقال ہو گیا_," ( مسلم -2892)*
[8/25, 6:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پیش گوئی :- صیح بخاری میں عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نیں ﷺ کے حضور میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے فاقہ کی شکایت کی، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے عدی رضی اللہ عنہ ! اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم دیکھ لو گے کہ ایک بڑھیا حیرہ سے اکیلی چلے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی، وہ اللہ کے سوا اور کسی سے نہ ڈرتی ہوگی ۔*

*★_ میں نے اپنے دل میں کہا کہ طے کے ڈکیت کدھر چلے جائیں گے، جنہوں نے تمام بستیوں کو اجاڑ رکھا ہے ۔ پھر فرمایا: - اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانوں کو جا کھولو گے ۔ میں نے پوچھا- کیا کسریٰ بن ہرمز ؟ فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز _,"*

*★_ پھرفرمایا : اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تو دیکھ لے گا کہ ایک شخص زکوۃ کا سونا اور چاندی لیے ہوۓ پھرے گا اور اسے کوئی نہ ملے گا جو زکوۃ کا پیسہ لینے والا ہو ۔“*

*★_ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسی بڑھیا کو بھی حج کرتے دیکھ لیا جو کوفہ سے اکیلی حج کو آئی تھی اور اللہ تعالی کے سوا سے کسی کا خوف نہ تھا اور خزائن کسریٰ کی فتح میں تو میں بھی شامل تھا۔ تیسری بات بھی تم اے لوگو! دیکھ لو گے_,"*
*( بخاری -٣٥٩٥, ١٤١٣)*

*★_ امام بیہقی یہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی سلطنت میں تیسری بات بھی پوری ہوگئی کہ زکوۃ دینے والے کو تلاش سے بھی کوئی فقیر نہ ملتا تھا اور وہ اپنا مال گھر واپس لے جایا کرتا تھا_,"*
[8/26, 10:23 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ پیش گوئی:- متعلق فتوحات ممالک بہیقی وابونیم نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ خندق کھودتے ہوۓ ایک بہت بڑا اور بہت سخت پتھر نکل آیا جس پر کدال کا اثر نہ ہوتا تھا۔ ہم نے نبی ﷺ سے یہ حال عرض کیا، حضور ﷺ نے پتھر کو دیکھا، کدال کو ہاتھ میں لیا اور بسم اللہ کہہ کر ضرب لگائی ۔ایک تہائی پھر ٹوٹ گیا_,"*

*★"_ اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا: مجھے ملک فارس کی کنجیاں عطا کی گئیں اور میں اس وقت مدائن کے سفید محل کو دیکھ رہاہوں_,"*

*★_ پھر دوسری ضرب لگائی اور ایک تہائی پتھر پھر ٹوٹ گیا، پھر فرمایا: مجھے ملک شام کے خزانے اور کنجیاں عطا کی گئیں، بخدا ! میں نے وہاں کے سرخ سرخ محلات کو ابھی دیکھ لیا ہے_,"*

*★_ پھر تیسری ضرب لگائی اور سارا پتھر چکنا چور کر دیا اور فرمایا: مجھے ملک یمن کی کنجیاں عطا کی گئیں ۔ واللہ! میں یہاں سے اس وقت شہر صنعاء کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں_,"*
*®_( سنن النسائی 3176 ، ابوداؤد :4302، دلائل النبوۃ للبیہقی : 421/3 سنن الکبری للنسائی: 65/2، ابن ہشام : 173/3,*

*★"_ یہ پیش گوئی اس وقت فرمائی تھی جب مدینہ پر مشرکین حملہ آور ہو رہے تھے اور ان سے بچاؤ کے لیے شہر کے گردا گر دخندق کھودی جا رہی تھی، ایسے ضعف کی حالت میں اتنے ممالک کی فتوحات کی اطلاع دینا اللہ کے نبی ﷺ ہی کا کام ہے جسے اللہ تعالی نے حرف بہ حرف پورا فرمایا۔*
[8/27, 6:28 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_فتح مصر کی پیش گوئی :-*
*"_نبی ﷺ نے فرمایا:- تم عنقریب اس ملک کو فتح کر لو گے جہاں سکہ قیراط ہے۔ تم وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیوں کہ ان کو ذمہ اور رحم کے حقوق حاصل ہیں_,"*

*"_(پھر ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا) جب تم دیکھو گے کہ دو شخص ایک اینٹ برابر کی زمین پر جھگڑ رہے ہیں تب وہاں سے چلے آنا_,"*

*★_ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فتح مصر کو بھی دیکھا اور وہاں بودو باش بھی اختیار کی اور یہ بھی دیکھا کہ ( ربیعہ اور عبدالرحمن بن شرحبیل ) اینٹ برابر زمین کے لیے جھگڑ رہے ہیں تب یہ وہاں سے چلے بھی آۓ_,"*
*®_مسلم:6494, 6493، کنز العمال :31767، دلائل النبوۃ 321/2 بیہقی 206/9،*
[8/28, 7:55 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پیش گوئی کہ شہنشاہ ایران کے کنگن سراقہ اعرابی کو پہناۓ جائیں گے:-*
*"_نبی ﷺ نے سراقہ بن مالک سے فرمایا: - "تیری کیا شان ہوگی جب تجھے کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے۔“*

*★"_بیہقی کی دوسری روایت میں ہے کہ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس فتح ایران کے مال غنیمت میں کسریٰ کے کنگن پہنچے تو انہوں نے سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اسے وہ کنگن پہناۓ جو سراقہ کے بازوؤں کے اوپر تک پہنچے_,"*

*★_ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کنگن پہنا کر زبان سے کہا:- اللہ کا شکر ہے جس نے کسریٰ بن ہرمز سے جو اپنے آپ کو رب الناس کہلا تا تھا یہ کنگن چھین لیے اور آج سراقہ بن مالک اعرابی کو پہنائے _,"*

*★_امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ کنگن سراقہ رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ کی پیش گوئی کی تعمیل میں پہناۓ گئے تھے _,"*

*★_ حدیث بالا کے مختصر فقرے پر غور کرو جو تین پیش گوئیوں پرمشتمل ہے:-*
*1-خلافت فاروقی کی صداقت پر جس نے نبی ﷺ کے ارشاد کو پورا کیا۔*
*2- فتح ایران کو ۔*
*3- فتح ایران تک سراقہ کے زندہ رہنے پر ۔ کتاب لاستیعاب سے واضح ہے کہ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے ۲۰ ھ میں وفات پائی۔ یعنی فتح ایران سے صرف چند سال بعد تک ہی وہ زندہ رہے۔*
[8/29, 7:56 PM] Haqq Ka Daayi Official: *❀_ اب ایسی پیش گوئیوں کا ذکر کیا جا تا ہے جن کا اندراج کتب احادیث میں پہلے سے ہو چکا تھا اور ان کتب کو عالم اسلام میں تداول بین الناس اور اشاعت تام کا درجہ حاصل تھا، پھر ان پیش گوئیوں کا ظہور دنیا کے سامنے بعد میں ہوا۔ اس سے ثابت ہوگا کہ ایسی پیش گوئیوں کی نسبت تصنع یا ساخت کا وہم بھی نہیں کیا جا سکتا، نیز ان سے یہ بھی ثابت ہوگا کہ قرب قیامت کی علامات وشرائط جن احادیث میں بیان فرمائی گئی ہیں اور جن کا ظہور آ ج 1444 ھ تک نہیں ہوا ۔ ان کا ظہور بھی یقیناً اپنے اپنے اوقات پر ( جو علم الہی میں مقرر ہے ) اپنے ظاہری الفاظ اور کمال تطابق کے ساتھ بصیرت افزاے مومنین ہوگا _,"*

*★_ 654 سال پہلے کی پیش گوئی:-*
*"_ قیامت نہیں آئے گی جب تک حجاز میں ایسی آگ نمایاں نہ ہو جو بصری کے اونٹوں پر اپنی روشنی نہ ڈالے گی_," (بخاری- 7118, مسلم- 2902, ابن حبان- 6839, مسند احمد : 2144/5)*

*★_ نبی ﷺ کے فرمودہ الفاظ کا ظہور جمادی الثانی 654 ھ کو ہوا یعنی صحیحین الحدیث کی وفات سے بھی چار صدیوں کے بعد ۔ گواہان عینی نے اس آگ کے متعلق جس کی ابتداء پہاڑ کی آتش فشانی سے ہوئی۔ جدا گانہ کتابیں تحریر کی ہیں۔ شیخ صفی الدین رحمۃ اللہ علیہ مدرس مدرسہ بصری کی شہادت موجود ہے کہ جس روز اس آگ کا ظہور حجاز میں ہوا اسی شب بصری کے بدوؤں نے آگ کی روشنی میں اپنے اپنے اونٹوں کو دیکھا اور شناخت کیا_"*

*★_ یہ آگ تکم جمادی الثانی کو پہاڑ سے پھوٹ پڑی تھی۔ دوسری تاریخ کو زلزلہ کی رفتار تیز محسوس ہوتی تھی۔ تیسری کو زلزلہ کی شدت اور بڑھ گئی ۔ چوتھی کو زلزلہ کے ساتھ گرج کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ گویا فلک زور زور سے کڑک رہا ہے، پانچویں کو دھوئیں نے زمین وآسمان اور افق کو چھپا لیا۔ آگ کے شعلے بلند ہونے لگے پتھر پکھلنے لگے۔ روز بروز آگ کا رخ جانب شہر مدینہ تھا۔ باشندگان مد ینہ نے جمعہ کی شب مسجد نبوی ﷺ میں حاضر رہ کر بسر کی اور تمام شب تضرع وزاری کرتے رہے ۔ صبح کو دیکھا کہ آگ کا رخ پلٹ گیا ہے۔ تعجب خیز امر یہ تھا کہ اس شدت نار کے وقت بھی مدینہ میں جو ہوا آتی تھی وٹھنڈی نسیم ہوتی تھی_,"*
[8/30, 7:46 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ 656 سال پہلے کی پیش گوئی:-*
*"_صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”_ قیامت قائم نہ ہوگی ( کئی باتوں کے بعد فرمایا) جب تک تم ان ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے جو چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے، سرخ چہرے والے، پست ناک والے ہوں گے۔ان کے چہرے ڈھال جیسے چوڑے ہوں گے ۔“ (بخاری : 3585،2928، حمیدی : 1101 ابوداؤد- 4304 کنز العمال 38404)*

*★_ یہ فتنہ تاتار کی خبر ہے ۔ ہلاکو خاں کے لشکروں نے خراسان وعراق کو تباہ کیا، بعد کو لوٹا تھا اور بالاخر ان کو بھی ایشیائے کو چک میں شکست عظیم ہوئی تھی۔ یہ واقعہ 656 ھ کا ہے ۔اور صحیحین میں پانچ صدی پیشتر سے درج چلا آتا تھا۔*

*★_ 855 سال پیشتر کی پیش گوئی:-*
*"_مسند امام احمد میں اور صحیح مسلم میں بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سنن ابی داؤد میں بروایت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فتح قسطنطنیہ کا ذکر موجود ہے۔*

*★_محمد فاتح سلطان نے قسطنطینہ کو 855ھ (1353ء) میں فتح کیا۔ یعنی کتاب مسند سے چھ صدیوں اور سال ہجرت سے ساڑھے آٹھ صدیوں کے بعد دنیا نے وہ نظاردو دیکھ لیا جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔*
[8/31, 6:23 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_1444 سال کی پیش گوئی :-*
*"_ فتح مکہ کے دن ( پنج شنبہ 20 رمضان 8ھ ) نبی ﷺ نے شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ کی کلید عطا فرماتے ہوۓ ارشادفرمایا تھا:-*
*"_ لو یہ کنجی سنجال لو، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تم سے یہ کلید کوئی نہ چھینے گا مگر وہی جو ظالم ہوگا_,"*
*(قرطبی: 256/5، اتحاف السعادة: 128/3)*


*★_ ان مختصر الفاظ میں تین پیش گوئیاں مندرج ہیں :-*
*١_ خاندان ابوطلحہ کا دنیا میں برابر باقی رہنا، نسل قائم رہنا۔*
*٢_ کلید بیت اللہ کی حفاظت و خدمت کا انہی کے متعلق رہنا۔*
*٣_ ان کے ہاتھوں سے کلید چھیننے والے کا نام ظالم ہوتا۔*

*★_ نمبر 1, 2 کی بابت اب تک کل دنیا کو معلوم ہے کہ یہ کلید بنو شیہ میں آج تک موجود ہے اور یہ نسل اب تک جاری ہے۔*

*★_ نمبر 3 کی بابت مؤرخین کا بیان ہے کہ یزید پلید نے ان سے یہ کلید چھین لی تھی ۔ اس کے بعد پھر یہ 1444 سال کا زمانہ شاہد صدق ہے کہ کسی اور شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ظالم کہلانے کی جرأت نہیں کی ۔*
[9/3, 6:38 PM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ پیش گوئی جس کی تصدیق زمانہ حال ہمارے سامنے بھی کر رہا ہے:-*
*"_ صحیح مسلم میں ابومستور قرشی رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ انہوں نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر کے سامنے یہ بیان کیا کہ آخری زمانہ میں یورپین عیسائیوں کا دنیا میں زور ہو جاۓ گا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا اور کہا کہ دیکھو کیا کہہ رہے ہو؟ انھوں نے کہا میں تو وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے ۔ عمرو بو لے تب تو درست ہے_," ( مسلم -7229)*

*★"_ قارئین غور کریں کہ یہ روایت صحابی رسول ﷺ نے اس وقت بیان کی جب عساکر اسلام جملہ اطراف عالم میں مظفر ومنصور تھے۔ جب ان کو عراق و شام ومصر خراسان و ایران و سوڈان کی فتوحات میں کہیں ایک جگہ بھی شکست نہ ہوئی تھی _,"*

*★_ آج دنیا دیکھ لے کہ امریکن ( جواپنی اصلی زاد و نہاد کے اعتبار سے یورپین میں ) برطانیہ، اطالیہ، پرتگال، سویڈن ، ناروے، سوئٹرز لینڈ ، اسپین ، جرمنی وغیرہ کی حالت کیا ہے؟*
[9/4, 12:29 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پیش گوئی جس کی صداقت کی شہادت موجودہ زمانہ ادا کر رہا ہے:-*

*★_ بہیقی وحاکم نے ابو ہریرہ و معاویہ رضی اللہ عنہم اور طبرانی نے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کے یہ الفاظ ( لمبی روایت میں ) بیان کیے ہیں:-*
*"_"میری امت میں تہتر فرقے بن جائیں گے _,"*
*(ابوداور 4596، ترندی: 2640 ، ابن ماجہ : ،ابن حبان: 6731،6247، مسند احمد : 332/2)*

*★_ نزول قرآن پاک کے وقت امت محمدیہ کے جملہ افراد کا منفردا و مجتمع ایک ہی نام تھا یعنی مسلم، جیسا کہ قرآن پاک میں ( سورہ الحج- 78) "تمہارے باب ابراہیم علیہ السلام نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے_,"*

*★_امیرالمومنین علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز تک یہی واحد اور جامع نام سب کا معرفہ رہا۔ لیکن خروج خوارج کے بعد نئے نئے فرقے اور ان فرقوں کے نئے نئے نام نکلنے شروع ہو گئے۔ ہر ایک فرقہ کو اپنے مخصوص نام پر ناز ہے_,"*

*★_ یہ پیش گوئی ایسی ہدایت اور صداقت کے ساتھ پوری ہوئی اور ہو رہی ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کے الگ الگ دعویٰ اس کی تصدیق میں موجود ہیں۔*
[9/6, 6:31 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ بندوں کی دعاؤں کا قبول فرمانا رب العالمین کے صفات علیا میں سے ہے ۔ وہ رؤف الرحیم ہر ایک بندہ کی دعا کو بشرطیکہ پورے افتقار واضطرار سے کی گئی ہو، قبول فرماتا ہے۔*

*★"_ أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ _," ( النمل- 62]*
*"( ترجمہ)_کون ہے (اللہ کے سوا ) جو مضطر کی پکار کو قبول فرماتا ہے_,"*

*★_ وہ رحمٰن الد نیا و رحیم الآخرۃ اہل اطاعت کی دعاؤں کو خصوصیت سے منظور فرماتا ہے،*
*"_ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ_," [البقرة:186]*
*”(ترجمہ)- جب مجھ سے مانگنے والے مجھ سے مانگتے ہیں تو میں ان کی پکار کو سن لیتا ہوں اور درخواست کو منظور کر لیتا ہوں ۔“*

*★_ وہ عزیز الحکیم اپنے عہد اور رسول ﷺ کی عزت اور بزرگی کو جہاں و جہانیاں کے دلوں میں محکم و استوار کرنے کے لیے ان کی دعاؤں کو بہ سرعت و بہ کثرت منظور فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ علامت بجاۓ خود ایک معجزہ (دنیا کو اس کی نظیر پیش کر نے سے عاجز کرنے والی ) ایک نشان ( طالبان ہدایت کو راہ ہدایت پر ملانے والی) ایک آیت (اللہ تعالی کے قرب تک پہنچانے والی ) بن جاتی ہے۔ سینکڑوں ایسے نظائر موجود ہیں کہ نبی ﷺ کی زبان صدق سے جو الفاظ نکلے وہ پورے طور پر اسی طرح منجانب اللہ پورے کیے گئے جیسا کہ ان الفاظ کے معانی لغوی کا اقتضا تھا ۔ ایسے نظائر کا حصر دشوار ہے، مگر سیرت نگار کا فرض ہے کہ اس چمن فردوس بہار کی شمیم سے قارئین کے دماغ کو عبرآ گین بنانے کی سعی کرے۔*
[9/8, 7:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی میں قحط پڑا۔ انہی ایام میں نبی ﷺ جمعہ کا خطبہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی اٹھا ،اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ مال تباہ ہو گیا اور عیال بھوک سے نڈھال ہے۔ ہمارے لیے دعا فرمائیے _*

*★_ نبی ﷺ نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھاۓ ۔ اس وقت آسمان پر کوئی بدلی بھی نہ تھی ۔ اللہ کی قسم ابھی حضور ﷺ نے ہاتھ نیچے بھی نہیں کیے تھے کہ پہاڑوں جیسے بادل جمع ہو گئے_,"*

*★_ پھر حضور ﷺ ابھی منبر سے نہ اترے تھے کہ حضور کی ریش مبارک پر قطرات بارش نظر آنے لگے ۔ اس روز سارا دن برستا رہا۔ پھر اگلے دن بھی اور اس سے اگلے دن بھی ۔ غرض دوسرے جمعہ تک یہی حال رہا_,"*

*★_ اور پھر وہی اعرابی حضور ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا۔ کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! اب تو مکانات گرنے لگے ۔ نبی ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر یہ الفاظ کہے: "اللهم حوالينا لا علينا_" الہی گردونواح میں برسے ، ہم پر نہ برسے۔ پھر حضور ﷺ جدھر کے بادلوں کی طرف اشارہ فرما دیتے تھے۔ وہی پھٹ جاتے تھے، حتیٰ کہ مدینہ صاف نکھر گیا اور شہر سے باہر جل تھل کا منظر ہو گیا اور باہر سے بھی جتنے لوگ آۓ سب نے بارش کا ہونا بتلایا_,"*
*®_ بخاری : 1021 مسلم :897 ابوداؤد :1174 ،ابن حبان : 2858، مسند احمد :194/3،*
[9/9, 7:49 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ دعاۓ عفت :- امام احمد رح. نے اور شعب الایمان میں بیہقی رح. نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے حضور میں آیا۔ عرض کیا - یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے زنا کی اجازت مل جائے ۔ لوگ سنتے ہی اسے دیکھنے اور جھڑ کنے لگے، حضور ﷺ نے فرمایا- قریب آ ؤ اور بیٹھ جاؤ ۔ وہ جوان قریب ہو کر بیٹھ گیا۔*

*★_ حضور ﷺ نے فرمایا -کیا تو اپنی ماں کے لیے یہ پسند کرتا ہے؟ وہ بولا قربان جاؤں نہیں ۔ فرمایا: ہاں، کوئی شخص بھی اپنی ماں کے لیے یہ پسند نہیں کرتا۔ پھر حضور ﷺ نے پوچھا تم اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کرتے ہو؟ وہ بولا قربان جاؤں نہیں ۔ فرمایا: ہاں ، کوئی شخص بھی اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند نہیں کرتا۔ پھر حضور ﷺ نے پوچھا تم اپنی بہن کے لیے یہ چیز پسند کرتے ہو؟ وہ بولا: قربان جاؤں نہیں ۔ فرمایا: ہاں، کوئی بھی اپنی بہن کے لیے یہ پسند نہیں کرتا۔ پھر حضور ﷺ نے پوچھا تم اپنی پھوپھی کے لیے یہ بات پسند کرتے ہو؟ وہ بولا: قربان جاؤں نہیں ۔ فرمایا: ہاں ،کوئی انسان بھی اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتا۔ پھر پوچھا: تم اپنی خالہ کے لیے یہ بات پسند کرتے ہو؟ وہ بولا قربان جاؤں نہیں ۔ فرمایا: ہاں ، کوئی بشر بھی اپنی خالہ کے لیے اسے پسند نہیں کرتا۔*

*★_ بعد ازاں حضور ﷺ نے دست مبارک اس پر رکھا اور یہ الفاظ زبان سے کہے: -*
*"_اللهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبِي وَطَهِّرْ قَلْبِي، وَحَصِّنْ فَرْجِي _,"*
*( ترجمہ) الہی اس کا گناہ دور کر دے، اس کا دل پاک کر دے اور اس کا ستر محفوظ کر دے_,"*

*★_ اس دعا کے بعد یہ جوان کبھی ایسی بات کا خیال بھی نہ کیا کرتا تھا۔*

*®_ شعب الایمان للبیہقی : 5415، احمد 257/5، تفسیر ابن کثیر 70/5 ، کنز العمال 4661،*
[9/10, 6:31 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بیہقی نے بروایت عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے کہ بحیر بن بیرہ رضی اللہ عنہ نے جو قوم طے سے تھا، واقعہ دومۃ الجندل کے متعلق اپنا شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ حضور سلیم نے خوش ہوکر فرمایا: تو نوے (90) برس کی عمر تک پہنچے۔ ان کی سب ڈاڑھیں اور دانت سالم تھے_," (کنز العمال :30276 دلائل النبوة للبيهقي: 251/5، ابن کثیر 17/5 ، ابن ہشام : 139/4)*

*★_ سائب بن یزید کے لیے دعا:- صحیح بخاری میں جعد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سائب بن یزید 94 سال کے ہو کر فوت ہوۓ اور بائیں ہمہ مضبوط و متعدل تھے، انھوں نے کہا کہ یہ نبی ﷺ کی دعا کا ثمرہ ہے کہ میری بینائی وشنوائی اب تک درست ہے_," (بخاری:5670 ,3540 مسلم :66087 ،ترمذی: 3643)*  

 *★_ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ احد العشرة مبشرہ کے لیے دعا:- صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو "بارك الله لك" فرمایا تھا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اب تک یہ ہے کہ اگر میں پتھر اٹھاتا ہوں تو توقع ہوتی ہے کہ یہاں سے مجھے سونا یا چاندی دستیاب ہوگی _," (بخاری:5167,2049 مسلم :2540,1967 ،،احمد 11/3)*
[9/11, 7:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★"_ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے دعا:-*
*"_ صحیحین میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے ان الفاظ میں دعا دی تھی: "_اللهم اكثر ماله وولده و بارك له ما رزقته _,"*
*"_( ترجمہ) الی ! اس کے مال اس کی اولاد کو بڑھا اور جو کچھ تو اسے عطا فرماۓ اس میں برکت دے ۔*

*★_ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:- بخدا ! میرے پاس مال کثیر ہے اور میرے بیٹوں اور پوتوں کا شمار ایک سو(100) کے قریب تک ہے _,"* 
*( بخاری:1982 مسلم :6372 ترمزی: 3829 مسند احمد: 188,108/3)* 

*★_ ترمندی اور بیہقی میں ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک باغ تھا جس کے درخت سال میں دو دفعہ پھل دیا کرتا تھے ۔اس باغ کا ایک ایسا پھول تھا جس کی خوشبو کستوری جیسی تھی _,"*
*( ترمزی:3833 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : 195/6)*

 *★"_ مالک بن ربیعہ سلولی رضی اللہ علیہ کے لیے دعا :-*
*"_ابن عساکر نے یزید بن ابومریم سے روایت کی ہے کہ میرے والد مالک بن ربیعہ نے مجھے بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے میرے لیے کثرت اولاد کی دعا فرمائی تھی ۔اللہ تعالی نے مجھے اسی (80) فرزندان نرینہ عطا فرمائے ۔*
*®_(الاصابه : 345/3)*

*★"_ تکبر کی سزا :-صحیح مسلم میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ” دائیں ہاتھ سے کھاؤ وہ بولا، میں نہیں کھا سکتا۔ یہ جواب اس نے صرف غرور میں آ کر دیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: تو نہ کھا سکے۔ بعد ازاں اس کا داہنا ہاتھ منہ تک نہ اٹھ سکتا تھا۔*
*®_ (مسلم: 5268)*

*★_"شکسته استخوان کی درستگی کا معجزہ:-*
*"_ صحیح بخاری میں برا رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ قتل ابورافع کے بعد زینہ سے اترے تو گر پڑے اوران کی پنڈلی کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ انھوں نے نبی ﷺ سے ذکر کیا ۔فرمایا: پاؤں پھیلاؤ۔ انہوں نے پھیلا دیا۔ حضور ﷺ نے اس جگہ دست مبارک رکھ دیا۔ فوراً وہ ایسا تندرست ہو گئے گویا کبھی کوئی شکایت ہی نہ تھی_,"*
*®_ ( بخاری:4039 مصنف عبدالرزاق: 5383 مجمع الزوائد : 201/6 ،مستدرک :434/6)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
 *★_سنت مصطفیٰ و طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم _,"*

*"_قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب "الشفاء فی بیان حقوق المصطفی" میں حدیث ذیل بہ روایت امیر المومنین علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان کی ہے ۔ اس سے نبی ﷺ کے محاسن اخلاق اور مکارم عادات کا وضوح بخوبی ہوتا ہے۔ مصنف کا جو درجہ حدیث میں ہے، وہ ان کی کتاب اکمال شرح صحیح مسلم اور مشارق الانوار‘ سے بخوبی نمودار ہے۔*

*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ حضور ﷺ کا طریقہ (سنت ) کیا ہے؟*
*"_ فرمایا: معرفت میرا راس المال ہے, عقل میرے دین کی اصل ہے، محبت میری بنیاد ہے, شوق میری سواری ہے, ذکر الہی میرا انیس ہے، اعتماد میرا خزانہ ہے، حزن میرا رفیق ہے۔ علم میرا ہتھیار ہے، صبر میرا لباس ہے، رضا میری غنیمت ہے۔ عجز میرا فخر ہے، زہد میرا حرفہ ہے ۔ یقین میری خوراک ہے ،صدق میرا ساتھی ہے، اطاعت میرا بچاؤ ہے، جہاد میراخلق ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے_,"*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
              ★_ خصائص القرآن -:-*

*★_قرآن کریم وہ پاک کتاب ہے، جسے نبی ﷺ نے کلام اللہ بتا کر اپنی زبان مبارک سے حرف حرف سنایا۔ لہذا سیرت نگار نبوی ﷺ کا فرض ہے کہ قرآن مجید کے متعلق بھی ضروری مباحث کو سیرت نبوی ﷺ کے ساتھ ساتھ پیش کرے۔*

*★_ قرآن پاک کے نام بھی اسماء الحسنٰی کی طرح 99 تک پہنچ گئے ہیں لیکن سب سے زیادہ خاص اس کا نام مبارک "کلام اللہ" ہے اور سب سے بڑھ کر مشہور اس کا نام ”القرآن“ ہے۔*

*★_ ضرورت قرآن :- قرآن مجید کی ضرورت معلوم کرنی ہو تو سب صاحبان کو اس زمانہ کی تاریخ اور صفحہ عالم کی حالت پر غور کرنا چاہیے۔ ایران کے مجوس کا سراپا شرک کی نجاست میں غرق ہونا اور احاطہ انسانیت سے نکل کر ان کی ماں بیٹی ، بہن سے ازدواج کو جائز و مباح سمجھ لینا۔*

*★_ روما چرچ کے عیسائیوں کا صریح بت پرستی میں مبتلا ہو کر اس مشرکانہ عقیدہ کی ترویج میں لاکھوں بندگان الہی کا خون پانی کی طرح بہانا۔ یمن کا قبر پرستی اور بھوت پریت کی عبادت میں محو ہو جانا اور پھر خود کو آسمانی فرزند کہلانے کا مستحق قرار دینا۔ اس کا فسق و فجور میں پڑ کر شراب کو بہترین افعال انسانی قرار دینا، مرد عورت کی برہنگی کے اعضاء کی مثالوں کو سب شود والوں میں قائم کرنا، دختر کشی اور قمار بازی کو شرافت کا نشان قرارد بینا۔ عرب کا بعض صفات بالا میں اکثر ممالک سے بڑھ جانا _,"*

*"_الغرض معمورہ عالم پر سخت تاریکی چھائی ہوئی تھی اور ان ضلالتوں کے دور کرنے میں وہ کتاہیں جو دنیا میں پہلے سے نازل شدہ تھیں، نا کافی ثابت ہو چکی تھیں۔*

*"_ ان کا تمام عالم کے بگڑے ہوۓ معاشرے پر تو کیا اثر ہوتا کہ خود اس قوم ( جس میں اس کتاب کا نزول ہوا) دائرہ اطاعت میں نہ رہی تھی۔ اس لیے ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی جس میں تمام عالم کی اصلاح کی طاقت ہو اور تمام کتابوں کو اپنے اندر جمع کر لینے کی قابلیت اور بلحاظ اپنی مجموعی شان کے دیگر اوراق پریشان سی دنیا بھر کو مستغنی کر دیتی۔*

*★_ ہاں ! جس طرح سخت گرمی اور جس کے بعد باران رحمت کا نزول ہوتا ہے، جس طرح رات کی سخت تاریکی کے بعد خورشید عالم افروز طلوع فرماتا ہے، اسی طرح تمام دنیا پر پھیلی ہوئی ظلمت مظلمہ ہی نے قرآن مجید کے نور مبین کی ضرورت کو افراد عالم کے دل و دماغ میں ثابت و محسوس کرا دیا تھا_,"*

*★"_لہذا اسی رحمت ربانیہ نے جو انسان کو عدم سے وجود میں لانے اور نطفہ سے انسان کامل بنانے میں کارفرما ہے، ہماری روحانی ضرورت کے لیے اس نور و ہدایت کو نازل فرمایا_,"*

 *"_بدبختی سے ایسا فرقہ بھی پیدا ہو گیا ہے جو رب کریم کو ارحم الراحمین تو مانتا ہے مگر پھر بھی اس کے کلام الہی کے دنیا میں نازل ہونے کی ضرورت سے انکار کرتا ہے۔*

*"_"نور السموات والأرض"( النور: 35) اس نے اگر آنکھ کو بینائی دی ہے تو دیکھنے کے لیے ان گنت رنگتیں بھی بنائی ہیں_,"*
*"_ اگر کان کو شنوائی ملی ہے تو سننے کے لیے بھانت بھانت کی آوازیں بھی پیدا کی ہیں ۔ پاؤں چل سکتا ہے تو اس کی جولانی کے لیے فرش زمین میں ہموار و ناہموار راہیں بھی نکال دی ہیں ۔ منہ کھا سکتا ہے، تو ذائقہ کے واسطے میٹھے سلونے کھٹے، پھیکے کھانے بھی مہیا کیے ہیں۔ یعنی جس قدر حواس ظاہری اور قواے باطنی جسم انسانی میں پاۓ جاتے ہیں اس کے متعلق ایک ایک جدا گانہ عالم بھی پیدا کیا گیا ہے۔*

*"_ مگر ان کو اب بھی سخت انکار ہے کہ روح انسانی کے لیے ( جو فطرت انسانی کی خزینہ دار اور اس کی مملکت کی حکمران ہے) کوئی جدا گانہ عالم موجود ہو، اگر یہ لوگ روح کا انکار کر دیتے تو ان کی حالت پر اتنا افسوس نہ ہوتا لیکن روح کا اقرار اور رحمت الہی کی جانب سے اس کے لیے عالم خاص کا انکار قطعاً اسرار فطرت سے عدم آگاہی پر مبنی ہے،*

: *"_ قرآن کریم پڑھو، اسے موجودہ حالات و کیفیات کے متعلق کس قدر دلائل ساطعہ سے کام لینا پڑا۔ قرآن مجید کی 6666 آیات شریفہ کا اندازہ کرو اور ان علوم ومعارف کا تخمینہ لگاؤ جو ان آیات میں محفوظ کیے گئے ہیں_,"*

*★"_ان آیات کے پیش کرنے سے کوئی شخص یہ نہ سمجھ لے کہ ہم صرف اتنی ہی آیات کو پیش کر سکتے تھے یا یہی چند آیات نمونہ بناۓ جانے کی شخصیت رکھتی ہیں ، لا ولللہ !*

*★_ اس وقت ہماری مثال اس گل چیں کی سی ہے جو ایک گلستان تاز ہ بہار کی سیر کو نکتا اور واپسی کے وقت وہاں سے چند گل شاداب کو زیب سروسینہ بنالیتا ہے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس گل چیں کے بعد باغ میں پھول باقی ہی نہیں رہے، یا جو باقی ہیں وہ سب آب و رنگ میں یا نزہت و نزاکت میں گلہاۓ چیدہ سے کم ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب یقینا نفی ہوگا۔*

*"★_(1) - اصول عبادت:-*
*"_ وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ _," ( سورہ یاسین - ٢٢)*
*"_( ترجمہ) کیا وجہ ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کی طرف ہم تم سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔“*

: *★“_ (2)_ شرافت انسانیت :-*
 *"_وَلَـقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِىۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰهُمۡ فِىۡ الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيۡلاً‏ (بنی اسرائیل:70)*
*”( ترجمہ) اور بیشک ہم نے فرزندانِ آدم کو عزت بخشی اور بہرو بر (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں ان کے لئے سواریاں عطا کی، اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں کھلایں اور اپنی بہت سی مخلوقات پر (جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے) فضیلت دے کر برتر بنا دیا_,"*

*★_(3)_ اوامر یعنی کرنے کے کام:-*
*"_ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ _," ( النحل -90)*
*"( ترجمہ) اللہ تعالی کا حکم یہ ہے کہ عدل و احسان کرو اور قرابت داروں کے ساتھ عمدہ سلوک کرو۔“*

*★_(4)_ نواہی یعنی نہ کرنے کے کام:-*
*"_ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ _," [ النحل :90]*
*( ترجمہ) ”اللہ تعالی بے حیائی کے کاموں سے اور بغاوت سے اور نا پسندیدہ امور سے تم کومنع کرتا ہے ۔“*

*★_(5) _ محرمات :-*
*"_ قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّىَ الۡـفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنۡهَا وَمَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَالۡبَـغۡىَ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ وَاَنۡ تُشۡرِكُوۡا بِاللّٰهِ مَا لَمۡ يُنَزِّلۡ بِهٖ سُلۡطٰنًا وَّاَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞ [الاعراف:33]*
*( ترجمہ)_”میرے پروردگار نے مندرجہ ذیل باتوں کو حرام ٹھہرادیا ہے:-*
*(١)_بے حیائی کی سب صورتیں کھلی ہوں یا چھپی ہوئی ۔ (٢)_ گناہ (٣)_ بغاوت ناحق ۔(٤)_ اللہ کے ساتھ شرک، جس کے جواز کی بابت کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ۔ (٥)_ اللہ تعالی کے خلاف اپنی بے علمی سے باتیں بناتا_,"*

 *"_(6)_ تعاون :-*

*"_ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ [المائدة:2] ”*
*"_ ( ترجمہ)_ نیکی اور خداترسی ( پرہیزگاری ) کے جملہ کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔“*

*"_(7)_ عدم تعاون :-*

*"_ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ_ [المائدة:2]*
*"( ترجمہ) _ گناہ اور سرکشی ( ظلم ) کی باتوں ( کاموں) میں کسی کی کچھ مدد نہ کرو ۔“*

*(8)_ اپنے افعال کی پوری پوری ذمہ داری:-*
*"_ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ_,( الانعام -164)*
*"_ ( ترجمہ) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے شخص کے ( گناہوں کا) بوجھ نہیں اٹھاۓ گا ۔‘*

*"(9)_ برائی کی اشاعت بھی بری ہے:-*
*"_ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الۡجَــهۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيۡعًا عَلِيۡمًا‏ _," ( النساء - 148)*
*"_ ( ترجمہ) _ برائی کا کھلا ذکر اللہ کو پسند نہیں ، ہاں مظلوم اس سے مستثنیٰ ہے_,"*

*(10)_ حلم و تواضع کی تعلیم :-*

*"_ وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا_,(الفرقان آیت نمبر 63)*
*( ترجمہ) _ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔*

: *★_(11)_ نا پسندیدہ عادتیں:-*
*"_ (سورۃ لقمان آیت نمبر 18)- اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍۚ _۞*
*(ترجمہ) ”مکار اور جھوٹے فخر کرنے والے کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا ۔“*

*★_(12)_ چغلی سے نفرت دلانے والی مثال:-*
*"_ [الحجرات:12]- وَلَا يَغۡتَبْ بَّعۡضُكُمۡ بَعۡضًا‌ ؕ اَ يُحِبُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ يَّاۡكُلَ لَحۡمَ اَخِيۡهِ مَيۡتًا _۞*
*(ترجمہ) ”_تم میں سے کوئی بھی دوسرے کی چغلی نہ کرے، کیا تم مردہ بھائی کی لاش کا گوشت کھانا پسند کر سکتے ہو( چغلی کی مثال ہے)۔"*

*★(13)_ نفع رسانی کی ضرورت وفضیلت:-*
*"_ [آل عمران 92]- لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ ۞*
*( ترجمہ)- تم اصل نیکی کو اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے، جب تک اللہ کی راہ میں اپنی پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے ۔“*

*★_ (14)_ اخوت عامہ کی تعلیم:-*
*"_ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 10) - اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَ اَخَوَيۡكُمۡ ‌ۚ‌_۞* 
*(ترجمہ:) مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔*

*★_( 15)_ عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر ہیں:-*
*"_ (سورۃ - البقرة -آیت نمبر 228)  وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ _۞*
*( ترجمہ)_ دستور کے مطابق حقوق عورتوں پر مردوں کے ہیں، ویسے ہی عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں ۔“*

*★_( 16)_ زن وشوہر کا اتحاد:-*
*[البقره:187] - هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ_۞*
*”( ترجمہ)_ عورتیں مردوں کے لیے لباس ہیں اور مر دعورتوں کے لیے لباس ہیں ۔“*

*★_( 17)_ عورت کو جدا نہ کرنے کی نصیحت:-*
*"_( سورۃ- الأحزاب ،آیت نمبر 37)_ وَاَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِ اَمۡسِكۡ عَلَيۡكَ زَوۡجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ _۞*
*( ترجمہ) _اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر۔۔*

: *★_(18)_ شکر کا حکم اور فائدہ:-*
*( سورۃ ابراهيم- آیت نمبر 7)*
*"_ لَئِنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ‌ ,*
 *"_اگر تم شکر کرو گے تو تم کو بڑھا تا رہوں گا_,"*

*★_(19)_ امتحان الہی کی چیزیں:-*
 *"_(سورۃ- التغابن, آیت نمبر 15)*
*"_ اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ _,"* ‌ؕ
*" _مال و دولت اور اولاد میں بندوں کا امتحان ہے۔"*

*★_(20)_ کسر نفسی کی تعلیم:-*
*_(سورۃ- يوسف,آیت نمبر 53*
*"_ وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِىۡ‌ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ ,*
*"_میں نفس کو بری نہیں ٹھہراتا، نفس تو برائی کی طرف اکسایا کرتا ہے۔*

*★_( 21)_ دین الہی کی تعریف:-*
*_(سورۃ- الروم, آیت نمبر 30)*
*"_ فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيۡهَا ‌ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِخَـلۡقِ اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ*
*"_اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ یہی بالکل سیدھا راستہ ہے،*
 
*★_(22)_ جنگ سے بچنے کی تدبیر:-*
*_(سورۃ- الأنفال,آیت نمبر 60)*
*"_ وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ_,*
*"_ تم دشمنوں کے لیے اپنی پوری قوت سے تیار رہو اور سرحدات پر پوری فوجی تیاری رکھو، اس تدبیر سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو روکے رکھو گے_,"*

*★_( 23)_ دین صحیحہ کا مقصد :-*
*_(سورۃ - المائدة, آیت نمبر 6)*
*"_ مَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّلٰـكِنۡ يُّرِيۡدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَ لِيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞*
*"_وہ اللہ کا یہ ارادہ نہیں کہ تم پر کوئی دشواری ڈالے، اس کا تو ارادہ یہ ہے کہ تم کو پاک و مطہر بنائے اور اپنی نعمت تم پر تمام کرے تاکہ تم شکر گزار بنو_,"*

 *★_(24)- رب برتر کا تعلق اہل ایمان کے ساتھ رحمت و محبت کا ہے:-(سورۃ- الأنعام ,آیت نمبر 12)*
*"_ كَتَبَ عَلٰى نَفۡسِهِ الرَّحۡمَةَ ‌ ؕ*
*"_ تمہارے پروردگار نے اپنی ذات پر رحمت کو لکھ رکھا ہے ( جمع کر رکھا ہے ) ۔*

*★- (سورۃ - البروج ,آیت نمبر 14):- وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُۙ ۞*
*"_ وو تو بہت بخشنے والا محبت کرنے والا ہے۔“*

*★-  (سورۃ البقرة, آیت نمبر 257) اَللّٰهُ وَلِىُّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ‌ؕ ,*
 *"_ اللہ تو ایمان والوں سے محبت کرنے والا ہے اور ان کا کارساز ہے اور ان سب کو تاریکیوں سے نکالتا ہے اور نور میں لاتا ہے_,"*

*★_(25)_ انسان واحد کی جان کی قیمت:-*
*-( سورۃ المائدة, آیت نمبر 32)_"_ اَنَّهٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِى الۡاَرۡضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيۡعًا ؕ*
*"_اگر کسی نے ایک انسان کو مارا ( قصاص یا بلوہ کی سزا مستثنیٰ سمجھو) تو گویا اس نے تمام نوع انسانی کوقتل کر ڈالا اور جس کسی نے ایک انسان کو بھی ہلاکت سے بچا لیا گویا اس نے تمام انسانوں کی زندگی کو بچا لیا_,"*

*★_ (26)_امن شکنی کی ممانعت:-*
*"(سورۃ -الأعراف,آیت نمبر 74)_,"_فَاذۡكُرُوۡۤا اٰ لَۤاءَ اللّٰهِ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏ ۞*
*”_اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو اور ملک میں فساد پھیلا نے سے باز آ جاؤ۔“*

: *★"_( 27)_اصول مصارف:-*

*"_ وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‏ _," [الفرقان: 67]*
*"_ رحمٰن کے بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں، تب نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ان حالتوں کی درمیانی حالت پر چلا کر تے ہیں_,"*

*★_(28)_ مال و منال دنیا سے آرام و آسائش بھی اٹھاؤ اور آخرت بھی کماؤ:-*

*"_وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌ وَاَحۡسِنۡ كَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌_," [القصص: 77]* 
*"_ جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کی بھی طلب کر اور اپنا دنیوی حصہ بھی مت بھول جا اور بھلائی کیا کر جیسے کہ اللہ نے تجھ سے بھلائی کی ہے_,"*

*★_(29)_ امداد غربا و مساکین:-*

*"_ فَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَ الۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ‌ؕ ذٰلِكَ خَيۡرٌ لِّلَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ‌ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏_," [الروم:38]*
*"_قرابت والے اور مسکین اور مسافر کا حق ادا کیا کر، یہ باتیں ان لوگوں کے لیے بہتر ہیں جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں_,اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پائیں گے_,"*

*★_(30)_ سوگند ( قسم ) کھانے والا انسان بے اعتماد بن جا تا ہے:-*

*"_وَلَا تُطِعۡ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيۡنٍۙ ۞ (سورۃ- القلم آیت نمبر 10)*
*"_ جو کوئی شخص بہت سوگند یں کھاتا اور ذلیل بنتا ہے اس کا اعتبار نہ کرو_,"*
[
 *"(31)_ اللہ عز وجل سے دعا مانگا کرو:-*
*"_ فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ _,"( سورہ- آیت نمبر غافر -١٤)*
*"_ اللہ ہی سے دعا مانگا کرو، خالص اس کے ہوکر اور اسی کے فرما بردار بن کر رہو _,"*

*★_(32)_"حمد خالق و مدح مخلوق:-*
*"_ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ ,(سورۃ- النمل-آیت نمبر 59),*
*"_ حمد کا مالک اللہ ہے اور اللہ کے بندوں کے لیے سلام ( سلامتی ) ہے_,*

*★_( 33)_" نظم عالم اور تناسب اجزاء عالم کا بیان:-*
*"_ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ _,"( سورہ - الملک - آیت نمبر - 3)*
*"_ تو رحمٰن کی پیدا کردہ اشیاء میں کچھ فرق نہ دیکھے گا، ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ کیا تجھے کوئی نقص بھی نظر آیا۔*

*★_(34)_,"قرآن مجید میں بیت العنکبوت کی مثال:-*
*"_ إِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ _," ( سورہ - العنکبوت - آیت نمبر -41)*
*"_ سب گھروں میں کمزور عنکبوت کا گھر ہوتا ہے، اگر لوگوں کوعلم ہو_,"*

*★"_ علم کو بیت العنکبوت سے متعلق فرمایا، اس لیے کہ عنکبوت کے گھر میں اہل علم کے لیے بڑے بڑے عجائب ہیں، جرمن پروفیسروں کا قول ہے کہ مکڑی کے جالے کا ہر ایک تار چار تاروں سے ملا ہوا ہوتا ہے اور ان چار تاروں میں ہر ایک تار ایک ہزار تار سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی ایک تار میں چار ہزار تاگے ہوتے ہیں ۔ اہل علم غور کریں کہ اس جالے کو بنانے والی مکڑی کو اللہ تعالی نے کس قدر فہم وفراست اور باریک نحج و خیاطت کی صنعت عطا فرمائی ہے ۔*

: *★_(35)_ قرآن مجید اور نحل ( شہد کی بھی ) کی مثال:-*

*"_ واوحى ربك إلى النحل_,"*
 *"_ تیرے رب نے شہد کی مکھی کو وی کی_,"*

*★_ شہد کے چھتہ کے اندر نظام قومی کا مستحکم آئین ،فوج اور اہل صنعت کی جدا گانہ تقسیم، جدا گانہ خاندانوں کے علیحد علیحدہ محلے، بچہ دینے والی رانی کی حکومت، بچوں کی پرورش اور تربیت کی خدمات کو سرانجام دینے والا عملہ شہد کے ذخیرے، ذخیروں کی حفاظت کے طریقے، شہد بنانے کے لیے ہزار ہا اقسام کے پھولوں میں چاشنی کا نکال کر لانا، چھتے کے سب گھروں کا مسدس اور یکساں رقبہ ہونا، یہ جملہ امور اس نتیجہ کے موید ہیں کہ جب وحی ربانی کسی ذی روح کی تکمیل کی جانب متوجہ ہوتی ہے تو اسے کیا بنا دیتی ہے۔ اور جب قرآن جیسی وہی انسان جیسے ذی عقل وفہم اور ذی نطق وتدبر کے ارتکاۓ بدنی و روحی کی طرف التفات فرماۓ تو اسے کن کن منازل تک بلند فرما دے گی۔*

*★_(36)_ قرآن مجید اور نمل ( چیونٹی ) کی مثال:-*
*"_ قَالَتۡ نَمۡلَةٌ يّٰۤاَيُّهَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰكِنَكُمۡ‌ۚ لَا يَحۡطِمَنَّكُمۡ سُلَيۡمٰنُ وَجُنُوۡدُهٗۙ وَهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ _," (سورۃ- النمل آیت نمبر 18)*
*"_ چیونٹیوں کی رانی نے کہا: چیونٹیوں تم اپنی آرام گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں تم کو سلیمان اور اس کے لشکر ریزہ ریزو نہ کر دیں اور ان کو اس کی خبر بھی نہ ہو_,"*

*★_ اللہ اللہ ! چیونٹیوں کے پاس ایسے مسکن موجود ہیں کہ جب وہ ان میں داخل ہو جائیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بھی ان کو نہ بگاڑ سکے۔*

*★_ یہ آیت ہر ایک ضعیف قوم کو قوی تر قوم کے سامنے زندہ رہنے اور اپنی ہستی قائم رکھنے کے وسائل کی تعلیم دیتی ہے، جن میں پہلا سبق: وہ اتحاد واتفاق ہے کہ اپنے سردار کی راۓ پر جملہ افراد قائم و عامل ہوں۔*

*★_ دوسرا سبق: ذاتی حفاظت کا سامان ہر وقت مکمل رکھنا ہے۔ تیسرا سبق کسی بالاتر طاقت کے ساتھ مقابلہ آرائی کا ارادہ نہ کرنا ہے۔ چوتھا سبق: نقصان رسیدہ ہو جانے کی حالت میں بھی اس شخص کو الزام نہ دینا ہے جس کی نیت اور علم میں نقصان رسانی شامل نہ تھی،*

*★_ پانچواں سبق: جب مسلمانوں کی اجتماعی حالت چیونٹیوں کی سی ہو جائے تو ان کو قرآن پاک کی حفاظت میں داخل ہو جانا چاہیے۔ چھٹا سبق: آنے والے خطرات سے آگاہ کرنا امیر قوم کا فرض ہے، ساتواں سبق: چیوٹی کی مانند ضعیف ترین جنس بھی زندہ رہ سکتی ہے اگر وہ بقائے حیات کا عزم رکھتی ہے۔ اس لیے کسی قوم کا ضعف اس کے فنا کی دلیل نہیں،*

: *"(37)_ قرآن مجید اور ارض وسماء کی اشیاء پر نظر اعتبار کا حکم:-*
*"_ قُلِ انظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ _," [يونس: 101]* 
*"_ آسمانوں اور زمین کے اندر کی سب چیزوں کو دیکھو کہ وہ کیا ہیں؟“*

*★_ یہی آیت ہے جو جملہ انکشافات کی جڑ ہے۔ قدرت کی پیدا کردہ ہر شے کو نظر اعتبار سے دیکھنا، اس کے خواص اور ماہیت کا معلوم کرنا انسان کو بلندترین ارتقاء پر پہنچانے والا ہے، افسوس ہم لوگ ایسے احکام کی تعمیل سے کس قدر لا پروا، قاصر اور غافل ہیں_,"*

*★(38)_ قرآن مجید اور فوائد بحر :-*
*"_ وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا‌ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞ (سورۃ- النحل ،آیت نمبر 14)*
*"_ اور وہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے لئے کام پر لگایا، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے وہ زیورات نکالو جو تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ اس میں کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو، اور تاکہ تم شکر گزار بنو_,"*

*"_ ہم اس پوسٹ کا سلسلہ یہیں ختم کر رہے ہیں، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے مختصر کر کے پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے، اس کا حق تو ہم ادا نہیں کر پائے، یقیناً ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، گزارش ہے ہمارے لیے دعا کریں، اللہ تعالی درگزر کا معاملہ فرمائے _,"*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*📓 رحمة للعالمين ﷺ - مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ ,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
          ╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے ہمیں میسج کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments