UMMAHATUL MOMINEEN MUKAMMAL (URDU)

 

⚂⚂⚂.

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

        *⚂ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                                                                                  *❥_   ایک روز ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا :- بھتیجے ! میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے حالات بہت سخت ہیں، بہت تنگی میں دن گزر رہے ہیں، یہاں ایک مالدار خاتون ہیں، وہ اپنا تجارت کا سامان شام وغیرہ کی طرف بھیجتی ہیں، یہ کام وہ تمہاری قوم کے یعنی قریش کے لوگوں سے لیتی ہیں، اس طرح وہ لوگ اس کے مال سے تجارت کرتے ہیں، خود بھی نفع حاصل کرتے ہیں اور اس خاتون کو بھی نفع حاصل ہو جاتا ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ، اس بات کا امکان ہے کہ وہ تمہیں اپنا مال تجارت دے دیں، وہ تمہیں جانتی ہیں، تمہاری صداقت اور پاکیزگی کے بارے میں انہیں علم ہے_,"* 


*❀__ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے مشورے پر عمل کیا, اس خاتون کی طرف چل پڑے, ابوطالب نے اپنی باندی نبعہ کو ان کے پیچھے بھیج دیا، وہ یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ وہاں کیا ہوتا ہے، وہ خاتون آپ سے کیسے پیش آتی ہیں_,*


*❀__  یہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما تھیں، وہ آپ سے خندہ پیشانی سے ملیں، آپ کو عزت سے بٹھایا،  دراصل آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو باتیں وہاں کے معاشرے میں پھیل چکی تھیں وہ بھی ان تک پہنچی تھی، اس لیے اس ملاقات سے پہلے ہی آپ سے بہت متاثر ہو چکی تھیں _,*        


*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد کا مقصد بیان فرمایا،  اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا :- میں آپ کی سچائی امانتداری اور حسن اخلاق سے واقف ہوں, میں آپ کو دوسروں کی نسبت دوگنا مال دوں گی _,*


*★_ یہ سن کر آپ نے اطمینان محسوس کیا، ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے ابو طالب کے پاس آئے، انہیں بتایا :-  انہوں نے اپنا مال تجارت مجھے دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے _,"*

*"_ابو طالب یہ سن کر خوش ہوئے اور بولے :-  یہ رزق ہے جو اللہ تعالی نے آپ کی طرف بھیجا ہے _,"* 


*★_ بعض روایات میں ہے کہ ابو طالب کی بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب یعنی آپ کی پھوپھی نے بھی اس سلسلے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی تھی،  حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کے بارے میں جب انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا :-  مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس پیشے کا ارادہ رکھتے ہیں _,"* 


*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما اس سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دیکھ چکی تھیں،  اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ عادات سے لاعلم نہیں تھیں_,*


 *★_  ریش آپ رضی اللہ عنہا کا تعلق خاندان قریش سے تھا، آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد بن عبدالعزی تھا، یہ عبد مناف کے بھائی تھے اور عبدمناف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داداؤں میں سے تھے،  عبدالعزی اور عبد مناف کے والد قصی بن کلاب تھے، اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب چوتھی پشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے _,*


*★_ آپ کے والد خویلد زمانہ  جاہلیت میں عربوں کے سپہ سالاروں میں سے تھے، فجار کی لڑائی میں اپنے قبیلے کی قیادت کی تھی، جب تبع حجر اسود کو اکھیڑ کر یمن لے گیا تو اس کے واپس لانے میں بھی خویلد کی کوشش کا دخل تھا _,"*


*★_ خویلد کی اولاد بہت تھیں،  ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ مشہور ہیں، آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ بن الاعصم بن عاصم بن لوی ہے اور نانی کا نام ہالہ بنت عبد مناف ہے _,*


*★_ آپ کے والد خویلد بہت باعزت آدمی تھے، قریش میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مکہ میں رہتے تھے،  فاطمہ بنت زائدہ سے شادی ہوئی اور ان سے ہاتھیوں والے سال( ابرہہ کے حملے کا سال)  سے پندرہ سال پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں، جن کے مقدر میں پہلی ام المومنین ہونا لکھا جا چکا تھا _,*

[5/15, 9:09 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ نے کھاتے پیتے گھرانے میں پرورش پائی، تاریخ کی کتابوں میں آپ کے بچپن کے حالات نہیں ملتے، اتنا ضرور ملتا ہے کہ آپ بہت خدا ترس تھیں،  غریبوں کو کھانا کھلاتی تھیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتی تھیں، اللہ تعالی نے انہیں ایک خاص مقام کے لیے چن لیا تھا _,*


*★_ آپ کے ایک چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل تھے، یہ تورات اور انجیل کے بہت بڑے عالم تھے مذہب کے اعتبار سے عیسائی تھے، حضرت خدیجہ کے والد ان سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن کسی وجہ سے یہ نکاح نہ ہو سکا اور آپ کی شادی عتیق بن عابد بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم سے ہو گئی، بعض روایات کی رو سے پہلی شادی ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہوئی _,"* 


*★_ عتیق بن عابد سے آپ کے ہاں ایک بچہ عبداللہ پیدا ہوا، اس کے بعد عتیق بن عابد کا انتقال ہو گیا، آپ کی بیوگی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ابو ہالہ بن بناش نے نکاح کا پیغام دیا، اس طرح آپ کی دوسری شادی ابوہالہ سے ہوئی، ابو ہالہ سے آپ کے ہاں دو بیٹے ہند اور حارث اور ایک لڑکی زینب پیدا ہوئ_,"* 


*★_ پھر فجار کی لڑائی میں آپ کے والد وفات پا گئے، ان کے بعد آپ کے دوسرے شوہر نے وفات پائی، باپ اور شوہر کی وفات کی وجہ سے آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بچوں کی دیکھ بھال اب انھی کے ذمے تھی، قریش کے کئی نوجوانوں نے آپ کو شادی کا پیغام بھیجا لیکن آپ نے بچوں کی وجہ سے انکار کردیا، آپ نے سوچ لیا تھا کہ بچوں کی تربیت کریں گی اور شادی نہیں کریں گی_,"*

[5/15, 5:05 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ کے خاندان کا پیشہ چونکہ تجارت تھا، اس لیے آپ نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا، لیکن چونکہ عورت تھیں اس لئے اپنا مال دوسرے لوگوں کو دے دیتی تھیں، وہ دوسرے ملکوں میں مال لے جاتے،  اس طرح نفعے میں سے انہیں اپنا حصہ مل جاتا تھا،*


*★_ بہت جلد آپ مکہ کی مشہور تاجر بن گئیں،  ایک خاص بات یہ کہ دوسروں کی طرح آپ بتوں کو نہیں پوجتی تھیں، بعض قریبی لوگوں نے ان سے کہا بھی کہ آپ گھر میں ایک بت رکھ لیں، یہ سن کر آپ ہمیشہ مسکرا دیا کرتی تھیں، آپ اچھی طرح جانتی تھیں کہ ان بتوں کی کیا حیثیت ہے، انہیں علم تھا کہ یہ پتھر کے بت کسی کو کوئی نفع پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نقصان پہنچانے کی،* 


*★_ انہوں نے کئی مرتبہ اپنے بھتیجے حکیم بن حزام کو بھی بتوں کے قریب جانے سے روکا،  وہ ان سے فرمایا کرتی تھیں :-  اپنے مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کیا کرو، اس سے اللہ خوش ہوتا ہے_,"*


*★_ آپ اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے آسمانی کتابیں تورات اور انجیل سنا کرتی تھیں، ان کتابوں کا سننا آپ کو بہت اچھا لگتا تھا،  ورقہ تنوفل انہیں بتایا کرتے تھے کہ اللہ کے ایک رسول آنے والے ہیں اور انھی میں آنے والے ہیں، اللہ تعالی انہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجیں گے، ان کی قوم ان کی مخالفت پر ڈٹ جائے گی،  لیکن آخر انہیں غلبہ حاصل ہوگا_,"*

[5/16, 10:37 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت خدیجہ یہ باتیں سنتی تو خواہش کرتیں، کاش وہ اللہ کے رسول کا دیدار کر سکیں، ان کے دل میں یہ خواہش بھی سر ابھارتی تھی کہ انہیں اس رسولِ عربی کی پیروی نصیب ہو جائے اور  یہ ان کی ہر ممکن مدد کریں _,"*


*★_ آخر تجارتی قافلے کی روانگی کے دن آگئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اپنا تجارتی مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیا، ساتھ ہی آپ نے اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ روانہ کیا اور انہیں ہدایت دی :- خبردار ! ان کی نافرمانی نہ کرنا اور نہ انکی کسی رائے سے اختلاف کرنا _,"* 


*★_ اس سے معلوم ہوا، آپ نے میسرہ کو آپ کی نگرانی کرنے کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرح سے خیال رکھنے اور خدمت گزاری کے لیے بھیجا تھا_,"* 


*★_ وہ تجارتی قافلہ اللہ 16 ذی الحجہ کو روانہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آپ کو الوداع کہنے کے لئے آئے،  اور پھر وہ قافلہ روانہ ہوا جس میں وہ ہستی تھی جو اللہ تعالی کی ساری مخلوق سے افضل اور اعلیٰ تھی،  اللہ تعالی اس ہستی کی نگہبانی فرما رہے تھے، اس قافلے کی ایک خاص بات یہ تھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے مال برداروں کی تعداد باقی تمام لوگوں کے اونٹوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھی، آخر یہ قافلہ شام کے شہر بصرہ پہنچ گیا، قافلے نے ایک گرجے کے قریب پڑاؤ ڈالا،*

[5/17, 8:57 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ہی ایک تجارتی سفر کیا تھا، اس سفر میں بھی آپ اسی گرجے کے قریب آترے تھے، اس وقت یہاں آپ کی ملاقات ایک پادری سے ہوئی تھی، اس کا نام بحیرہ تھا، لیکن اب جب آپ یہاں آترے تھے تو اس گرجے کا پادری نسطورا تھا اور دونوں سفروں کے درمیانی مدت 13 سال تھی، پہلے سفر میں آپ کی عمر بارہ سال تھی اور اب آپ 25 سال کے ہو چکے تھے،*


*★_نسطورا کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو وہ تیزی سے آپ کی طرف بڑھا، قافلے کے لوگوں نے اسے تیزی سے آپ کی طرح پڑھتے دیکھا تو انہیں خیال ہوا کہ یہ کسی بری نیت سے آرہا ہے، لہذا ان میں سے ایک نے فوراً تلوار سونت لی اور چلا اٹھا :- اے فریش! اے فریش !*


*★"_ چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے, یہ دیکھ کر وہ ڈر گیا اور ڈر کر گرجے میں داخل ہوگیا، گرجے کا دروازہ بند کر کے اس نے ایک کھڑکی کھولی اور پکارا :-* 

*"_اے لوگو ! تم کس بات سے ڈر گئے یہ دیکھو میرے پاس ایک تحریر ہے, قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے اٹھادیا, میں اس تحریر میں لکھا ہوا پاتا ہوں کہ اس درخت کے نیچے اترنے والا شخص رب العالمین کا پیغمبر یعنی اللہ کا رسول ہوگا جسے اللہ تعالی ننگی تلوار اور زبردست امداد کے ساتھ ظاہر فرمائیں گے، یہ خاتم النبیین ہیں، ان کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، اب جو شخص ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے گا وہ نجات پائے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا، وہ ذلیل و خوار ہوگا _,"* 


*★_ دوسری روایات میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ وہ گرجا سے باہر آیا اور بولا:-  یہ کون صاحب ہیں جو اس درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں؟  جواب میں میسرہ نے کہا :- یہ مکہ کے ایک قریشی جوان ہیں_,"*

*"_ اب راہب نے آپ کو اور قریب جا کر دیکھا پھر، آپ کے سر اور قدموں کو بوسہ دینے کے بعد بولا :- میں آپ پر ایمان لے آیا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے تورات میں کیا ہے_,"*

 *"_پھر اس نے مہر نبوت کو دیکھا اور چوما، پھر بولا :- میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں, نبی امی ہیں, جن کی آمد کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے _," ( سیرت حلبیہ )*


*★_ آپ اس وقت جس درخت کے نیچے آرام فرما تھے، اس کے بارے میں نسطورا نے یہ کہا :- اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کوئی نہیں اترا _,"*

[5/17, 9:15 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ غرض اس واقعے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے لوگوں کے ساتھ بازار بصرہ تشریف لائے اور سامان تجارت فروخت کیا، کچھ مال خریدا، ایسے میں ایک شخص آپ سے جھگڑ پڑا، اس نے کہا :- لات و عزیٰ کی قسم کھاؤ_," اس کی بات کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- میں نے ان تینوں کے نام پر کبھی حلف نہیں اٹھایا_," وہ شخص بھی غالباً کوئی عالم تھا،   اس نے آپ کی طرف غور سے دیکھا اور پہچان کر بولا :- آپ ٹھیک کہتے ہیں _,"*

*"_اس کے بعد یہ شخص میسرہ سے ملا، اسے قدر فاصلے پر لے گیا اور کہنے لگا :- قسم ہے اس ذات کی یہ وہی ہیں جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں _,"* 


*★_ میسرہ نے اس کی بات کو غور سے سنی اور اسے اپنے دماغ میں محفوظ کرلیا، بصری پہنچنے سے پہلے ایک واقعہ اور پیش آیا تھا،  قافلے کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے، ان اونٹوں کی وجہ سے میسرہ بھی قافلے سے پیچھے رہ گیا،  اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے اگلے حصے میں تھے، میسرہ نے اونٹوں کے بارے میں میں پریشانی محسوس کی، ساتھ ہی اسے یہ فکر ہوئی کہ وہ خود بھی قافلے سے پیچھے رہ گیا ہے، چناچہ وہ دوڑتا ہوا قافلے تک پہنچا اور اگلے حصے میں موجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اپنی پریشانی کے بارے میں آپ کو بتایا، آپ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے، ان کی کمروں پر اپنا ہاتھ پھیرا، کچھ پڑھ کر ان پر دم کیا، اس کا فوری طور پر اثر ہوا، اونٹ فوراً کھڑے ہو گئے اور پھر اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے اور اپنی چستی اور تیز چلنے کا اظہار منہ سے آواز نکال کر کرنے لگے,*


*★_ پھر تیجارت کا کام شروع ہوا، قافلے کا مال فروخت کیا گیا اور کچھ مال خریدا بھی گیا، اس خریدوفروخت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا نفع کمایا کہ پہلے کبھی اتنا نفع نہیں کما سکے تھے،  چنانچہ میسرہ نے آپ سے کہا:- اے محمد ! ہم برسوں سے خدیجہ رضی اللہ عنہ کے لیے تجارت کر رہے ہیں لیکن اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی حاصل نہیں ہوا_,"*


*★_ آخر تجارت سے فارغ ہوکر قافلہ واپس روانہ ہوا، راستے میسرہ نے ایک بات یہ نوٹ کی کہ جب دوپہر کا وقت ہوتا تھا اور گرمی زوروں پر ہوتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تھے تو آپ پر ایک بدلی سایہ کیے رہتی تھی،*

[5/18, 9:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس طرح اللہ تعالی نے میسرہ کے دل میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہت محبت پیدا کر دی، اس سفر میں اس نے قدم بہ قدم پر آپ کی نیکی شرافت سچائی اور دیانت داری کا مظاہرہ کیا اور پھر تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے میسرہ خود آپ کا غلام ہو،*


*★_ آخر قافلہ مرظہران کے مقام پر پہنچا، یہ مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی ہے، اب اس وادی کا نام وادی فاطمہ ہے،  یہاں پہنچ کر میسرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :- کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہم سے پہلے پہنچ جائیں اور انہیں تمام حالات بتائیں کہ اس مرتبہ تجارت میں کس قدر زیادہ نفع ہوا ہے، ممکن ہے وہ یہ بات سن کر آپ کے معاوضے میں اضافہ کر دیں اور اور دو جوان اونٹوں کے بجائے آپ کو تین اونٹنیاں دیں_,"* 


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میسرہ کے اس مشورہ کو قبول کر لیا، اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر مرظہران سے آگے روانہ ہوگئے، آپ دوپہر کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے، اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے مکان کے اوپر والے حصے میں بیٹھی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دور سے دیکھ لیا، آپ اونٹ پر سوار تھے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود تو یہ منظر دیکھا ہی، اپنے پاس بیٹھی دوسری عورتوں کو بھی دکھایا، وہ سب بھی یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئیں،* 


*★_ آخر آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے، انہیں تجارت میں منافعے وغیرہ کے بارے میں بتایا، یہ نفع اس نفعے سے دوگنا تھا جو پہلے آپ کو حاصل ہو رہا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس منافعے کا حال جان کر بہت خوش ہوئیں، پھر انہوں نے پوچھا :- اور میسرہ کہاں ہے ؟ آپ نے بتایا :- میں نے انھیں جنگل میں پیچھے چھوڑا ہے, حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا :- اس کے پاس جائیں تاکہ وہ جلد از جلد یہاں پہنچ جائے _,"* 


*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو واپس اس لیے بھیجا کہ وہ دیکھنا چاہتی تھیں، تھوڑی دیر پہلے جو بدلی آپ پر سایہ کیے ہوئی تھی کیا اب بھی وہ بدلی آپ پر سایہ کرتی ہے، یا وہ صرف ایک اتفاق تھا،  آپ واپس روانہ ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا چھت پر چڑھ گئیں اور آپ کو دیکھنے لگیں، انہوں نے دیکھا کہ وہ بدلی اب بھی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی اور اسی شان سے چلے جارہے تھے جس شان سے تشریف لائے تھے،*

[5/18, 9:42 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میسرہ کے ساتھ واپس تشریف لائے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے میسرہ سے وہ کیفیت بیان کی جو آپ نے دیکھی تھی، میسرہ فوراً بول پڑا :- میں یہ منظر اس وقت سے دیکھتا آ رہا ہوں جب ہم شام سے روانہ ہوئے تھے، اس کے بعد میسرہ نے نسطورا راہب سے ملاقات کے بارے میں بتایا اور جس سے خرید فروخت کے وقت جھگڑا ہوا تھا اس نے جو بتایا تھا وہ ساری بات بھی بتائی، دو اونٹ جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا واقعہ بھی سنایا،  یہ تمام واقعات سننے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے طے شدہ اجرت سے دوگنا اجرت آپ کو دی،  جبکہ پہلی اجرت بھی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی، پھر واپسی پر آپ صلی اللہ وسلم  وہاں سے کپڑا خرید کر لائے تھے اس میں بھی بہت نفع حاصل ہوا،*


*★_  ان تمام واقعات نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حد درجہ متاثر کیا، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت لگاؤ پیدا ہوگیا، چنانچہ آپ نے اپنی ایک عزیز نفیسہ بنت منیہ کو آپ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں خفیہ طور پر بھیجا،  اس نے آپ کے پاس آ کر کہا :-  اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)  آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟  جواب میں آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا :- بھلا میرے پاس کیا ہے کہ شادی کر سکوں _,"  اس نے کہا :-  اور اگر آپ کو اس کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ آپ کو مال دولت عزت حسن و جمال، عزت اور سب کچھ مل جائے تو کیا آپ قبول کر لیں گے ؟* 


*★_ نفیسہ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ اگر ایسی کوئی خاتون جس میں شرافت، پاک بازی وغیرہ تمام خوبیاں موجود ہوں اور مال و دولت بھی جس کے پاس ہو اور وہ خود ہی آپ کو نکاح کی دعوت دے تو کیا آپ مان لیں گے_,"*

*"_ آپ نے یہ سن کر پوچھا:-  اور وہ کون خاتون ہیں ؟  اس نے کہا :- وہ خدیجہ بنت خویلد ہیں،"  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :- ان تک میری رسائی کیسے ہوگی _,"*

*"_ یہ کہنے سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور وہ بہت مالدار ہیں, اس پر نفیسہ نے کہا :- اس کا ذمہ میں لیتی ہوں_,"* 


*★_ آپ نے رضامندی ظاہر کر دی، اس طرح شادی کی تاریخ طے ہوگئی، مقررہ تاریخ پر قبیلے کے رئیس، مکہ معظمہ کے شرفاء اور امراء جمع ہوئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے چچا عمرو بن اسد وکیل تھے، آپ صلی وسلم کی طرف سے آپ کے چچا ابو طالب وکیل تھے،  اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی انجام پائی، یہ آپ صل وسلم کی پہلی شادی مبارک تھی، اس وقت آپ کی عمر مبارک 25 سال اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر 40 سال تھی ,* 


*★_ نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت دی، آپ نے 2 اونٹ ذبح فرمائے، اس روز ابوطالب بھی بہت خوش تھے،  انہوں نے اس موقع پر کہا :-  اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مصیبتوں اور غموں کو ہم سے دور کردیا _,"*

[5/20, 7:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قریش کے بہت سے لوگ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دے چکے تھے  لیکن آپ ہر مرتبہ انکار کرتی رہیں تھیں، اس لیے کہ اللہ تعالی نے آپ کا رشتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھ دیا تھا، شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دی، آپ کو اس کا مالک بنا دیا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دن رات لگی رہنے لگیں،* 


*★_ اب جوں جوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 40 سال کے قریب پہنچ رہی تھی اعلان نبوت کا وقت قریب آ رہا تھا، آپ کا وقت زیادہ تر تنہائی میں بسر ہونے لگا تھا، پھر آپ غار حرا میں جانے لگے، تنہائی میں آپ کو ایک آواز سنائی دیتی :- اے محمد ! اے محمد !*

*"_ اور کبھی ایک نور نظر آتا, یہ نور آپ کو جاگنے کی حالت میں نظر آتا, آپ خوف سا بھی محسوس کرتے اور فرماتے :- مجھے ڈر ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر کوئی بات نہ پیش آجائے_,"* 


*★_ آپ کی اس بات کے جواب میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ سے فرماتیں:- ہرگز نہیں ! اللہ تعالی آپ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم ! آپ امانت ادا کرنے والے ہیں رشتےداروں کی خبر گیری کرنے والے ہیں اور ہمیشہ سچ کہنے والے ہیں_,"* 


*★_ ان دنوں آپ کو تنہائی بہت محبوب ہو گئی تھی، تنہائی کے لیے ہی آپ غار حرا میں چلے جاتے تھے، جب کھانے کی چیز ختم ہو جاتی تو آپ واپس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ جاتے، کھانا لے لیتے اور پھر غار حرا تشریف لے جاتے تھے، غار حرا سے واپس آتے تو خانہ کعبہ میں بھی تشریف لے جاتے، طواف کرتے، پھر گھر تشریف لے جاتے،*

[5/20, 7:31 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آخر وہ رات آ گئی جب آپ کو نبوت اور رسالت ملنے والی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، ( جس کا مفہوم ہے ) :-  میں سو رہا تھا، میرے پاس جبرائیل علیہ السلام ایک ریشمی کپڑا لیے ہوئے آئے، اس میں ایک کتاب تھی، یعنی ایک تحریر تھی، انہوں نے مجھ سے کہا :-  " اقراء " یعنی پڑھیے، میں نے کہا :- میں نہیں پڑھ سکتا یعنی میں ان پڑھ ہوں، پڑھ لکھ نہیں سکتا_,"*


*★_ اس پر انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر اس ریشمی کپڑے سمیت اس طرح بھینچا کہ وہ کپڑا میرے ناک اور منہ سے چھو رہا تھا، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے خیال آیا کہ کہیں میری موت نہ واقع ہوجائے، اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا:-  پڑھیے ! یعنی اس لکھے ہوئے کے بجائے ویسے ہی پڑھو یعنی جو میں کہوں وہ کہیے, اس پر میں نے کہا:- میں کیا پڑھوں اور کیا کہوں_,"* 


*★_ اب انھوں نے کہا :- (سورۃ :- العلق آیت نمبر 1-5)*


*"_ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ‌ۚ ۞ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ‌ۚ‏ ۞ اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ ۞ الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ ۞*


*"_ (ترجمہ)_  اے پیغمبر ! آپ پر جو قرآن (نازل ہوا کرے گا) اپنے اس رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے ( یعنی جب پڑھیں :" بسم اللہ الرحمن الرحیم" کہہ کر پڑھا کیجئے)  جس نے مخلوقات کو پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قرآن پڑھا کیجئے، آپ کا رب بڑا کریم ہے ( جو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور ایسا ہے) جس نے (پڑھے لکھے کو) قلم سے تعلیم دی( اور ) انسان کو ( عموماً دوسرے ذرائع سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا _,"*

[5/21, 8:45 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( جس کا مفہوم ہے) :-  میں نے اس آیت کو اسی طرح پڑھ دیا، اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام میرے پاس سے چلے گئے، اس کے بعد لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہے، میں غار سے نکل کر ایک طرف چلا، جب میں پہاڑ کے ایک جانب پہنچا تو میں نے آسمان سے آنے والی ایک آواز سنی، وہ آواز کہہ رہی تھی :- اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں_,"*


*★_ میں وہیں رک کر آواز کی طرف دیکھنے لگا، اچانک میں نے جبرائیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا، وہ کھڑے ہوئے تھے، وہ کہہ رہے تھے :- اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں _,"*

*"_ میں وہیں رک کر آواز کی طرف دیکھنے لگا،  میں نے ان پر سے نظر ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا مگر سامنے جبرائیل ہی نظر آئے، میں اسی حالت میں دیر تک کھڑا رہا، ادھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میرے لیے کھانا تیار کیا تھا اور کھانا غار میں بھجوایا لیکن میں غار میں نہیں تھا، جب یہ خبر خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ملی تو انہوں نے میری تلاش میں چچاؤں اور ماموں کے گھر آدمی بھیجے مگر میں کسی کے ہاں بھی نہیں ملا، اس پر وہ پریشان ہو گئیں، ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ اچانک میں ان کے پاس پہنچ گیا،  میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا،  انہیں جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں بتایا، جو آواز سنی تھی اس کے بارے میں بھی بتایا،* 


*★_ ساری بات سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-  آپ کو خوشخبری ہو، آپ یقین کیجیے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، مجھے امید ہے آپ اس امت کے نبی ہیں_,"* 


*★_ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں، وہ عیسائی عالم تھے، انہیں سارا واقعہ سنایا، ورقہ بن نوفل یہ سارا واقعہ سن کر پکار اٹھے:- اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے, اس لیے میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس امت کے نبی ہیں _,"* 


*★_ ورقہ بن نوفل کو جبرائیل علیہ السلام کا نام سن کر اس لیے تعجب ہوا کہ مکہ اور عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا، غرض اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئیں اور ورقہ بن نوفل نے جو کچھ کہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا_,*

[5/21, 10:11 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ انھی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے آئے،  طواف کے دوران آپ کی ملاقات ورقہ بن نوفل سے ہوئی، وہ بھی اس وقت طواف کر رہے تھے، انہوں نے خود آپ کے منہ سے وہ واقعہ سننے کی خواہش کی، آپ نے انہیں بتایا کہ کس طرح جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس آئے، سارا واقعہ سن کر ورقہ بن نوفل نے اپنا منہ چھکایا اور آپ کے سر کے درمیان بوسہ دیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لوٹ آئے _,"*


*★_ پہلی وحی کے بارے میں یہ تفصیل بھی علماء نے لکھی ہیں کہ آپ پر اس وقت گھبراہٹ طاری ہوتی تھیں، آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا :-  مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو _,"*

*"_ چنانچہ انہوں نے فوراً آپ پر کمبل ڈال دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ دور ہوگی، پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- مجھے اپنی جان کا خوف پیدا ہوگیا ہے _,"* 


*★_ اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ہرگز نہیں, آپ کو خوشخبری ہو, اللہ تعالی آپ کو ہرگز ہرگز رسوا نہیں کرے گا, کیونکہ آپ رشتےداروں کی خبر گیری کرتے ہیں, سچی بات کہتے ہیں, دوسروں کے لئے مصیبت اور پریشانی اٹھاتے ہیں, بےکس مفلسوں کی امداد کرتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، اس معاملے میں آپ کے لیے خیر ہی خیر ہے__,"*


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں_,*

[5/21, 11:43 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عفیف کندی ایک تاجر تھے، وہ مکہ میں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے، ایک مرتبہ ان کی ملاقات تجارت کے سلسلے میں ابن عبدالمطلب سے ہوئی، وہ یمن سے عطر لا کر فروخت کیا کرتے تھے اور حج کے موسم میں مکہ میں فروخت کرتے تھے، عفیف کندی بیت اللہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک نوجوان قریب کے خیمے سے نکلا، اس نے سورج کی طرف دیکھا، جب اس نے دیکھ لیا کہ سورج مغرب میں جھگ گیا ہے یعنی غروب ہو گیا ہے تو اس نے بہت اچھی طرح وضو کیا اور پھر نماز پڑھنے لگا، پھر ایک لڑکا خیمے میں سے نکلا، وہ بالغ ہونے کے قریب تھا، اس نے بھی وضو کیا اور نوجوان کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگا، پھر اس خیمے میں سے ایک عورت نکلی، وہ بھی ان دونوں کے پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی، اس کے بعد اس نوجوان نے رکوع کیا تو وہ لڑکا اور عورت بھی رکوع میں چلے گئے، پھر نوجوان نے سجدہ کیا تو وہ لڑکا اور عورت بھی سجدے چلے گئے،* 


*★_ عفیف کندی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، انہوں نے حضرت عباس سے پوچھا :- یہ کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے بتایا :- یہ میرے بھائی عبداللہ کے بیٹے محمد ہیں، یہ ان کا دین ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، یہ لڑکا میرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اور یہ محمد کی بیوی خدیجہ ہے_,"* 

*"_عفیف کندی کہتے ہیں :-  کاش اس وقت چوتھا مسلمان میں ہوتا_,"*


*★_ یہ عفیف کندی بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، اس موقع پر شاید زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے اور آپ اس زمانے میں آپ کے ساتھ یہ بھی نماز پڑھا کرتے تھے، یا پھر حضرت زید اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے،*


*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئیں،  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے بعد جو خواتین سب سے پہلے مسلمان ہوئیں، ان کے نام یہ ہیں :-  حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بیوی ام فضل رضی اللہ عنہا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن ام جمیل رضی اللہ عنہا، ان کا نام فاطمہ بنت خطاب تھا،  یہ بھی روایت ملتی ہے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا ام فضل سے بھی پہلے مسلمان ہوئی تھیں،*


*★_ بہرحال تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے مسلمان ہوئی تھیں، ان سے پہلے نہ کوئی مرد مسلمان ہوا، نہ  کوئی عورت_, مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری ملی تو سب سے پہلے آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف ان کی راہنمائی فرمائی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بغیر کسی جھجھک کے اسلام کو قبول کرلیا اور سبقت لے گئیں، تمام پہل کرنے والوں میں پہل کر گئیں،*

[5/22, 6:41 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سلسلے میں ایک کالم لکھتے ہیں :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لیا اور اس چشمے پر لے گیے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاؤں مبارک کی برکت سے غار حرا کے پاس نمودار ہو گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چشمے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو وضو کا طریقہ بتایا،  یہ طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا تھ،ا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھنا سکھایا_,*


*★_ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی فرمایا تھا :- اے خدیجہ یہ جبرائیل ہیں،  اللہ تعالی کی طرف سے تمہیں سلام دینے کے لیے آئے ہیں _",*

*"_حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ سن کر سلام کا جواب دیا, حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایمان لے آئیں تو اسی روز حضرت علی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے،  اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تھی، وہ آپ کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نماز پڑھتے دیکھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ حیران ہو گئے اور بولے :- یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- یہ اللہ کا دین ہے، میں تمہیں بھی اس کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے ایک ہونے کی گواہی دو،  وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، میں تمہیں لات اور عزی ( بتوں) کو چھوڑ دینے کی دعوت دیتا ہوں_,"*


*★_ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ بولے :- میں نے اس دین کے بارے میں کسی سے نہیں سنا،  میں اپنے والد کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا، اگر اجازت ہو تو ان سے مشورہ کر لوں _,"*

*"_ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- اگر تمھارا ایمان لانے کا ارادہ نہ بنے تو کسی دوسرے کو اس کے بارے میں نہ بتانا_,"*,

*"_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:- جی اچھا_,"*


*★_ پھر اسی رات اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر دل کھول دیا، صبح ہوئی تو آپ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا_,*

[5/22, 6:54 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے بھی پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے، کیونکہ یمن میں ایک بوڑھے عالم سے ان کی جو بات چیت ہوئی تھی اس سے وہ جان چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں،  وہی رسول جن کا دنیا کو انتظار ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب یمن میں اس بوڑھے عالم کے پاس رکے تھے تو اس نے کہا تھا :-  میرا خیال ہے، تم حرم کے رہنے والے ہو؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا تھا :- ہاں ! میں حرم کا رہنے والا ہوں، اس پر اس نے کہا تھا :- اور میرا خیال ہے تم قریشی ہو ؟ آپ نے جواب دیا :- ہاں ! میں قریشی ہوں ، پھر اس نے کہا تھا :- میرا خیال ہے تم خاندان تیمی کے ہو ؟, آپ نے جواب دیا تھا :-  ہاں !  میں خاندان تیمیی سے ہوں ، پھر اس نے کہا تھا :-  اب آپ سے ایک سوال اور پوچھنا چاہتا ہوں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا :-  اور وہ سوال کیا ہے؟ اس نے کہا تھا :- اپنا پیٹ کھول کر دکھا دو،  اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا :- یہ میں اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم اس کی وجہ نہیں بتا دوں گے،*


*★_  اس وقت اس نے کہا تھا :-  میں اپنے سچے اور مضبوط علم کی بنیاد پر خبر پاتا ہوں کہ حرم کے علاقے میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے، اس کی مدد کرنے والا ایک نوجوان اور پختہ عمر کا آدمی ہوگا، وہ مشکلات میں کود جانے والا اور پریشانیوں کو روکنے والا ہوگا، اس کا رنگ سفید اور جسم کمزور ہو گا، اس کے پیٹ پر ایک بال دار نشان ہو گا اور اس کی بائیں ران پر بھی ایک علامت ہوگی _,"* 

*"_ یہ کہنے کے بعد اس نے کہا :-  اب یہ بھی ضروری نہیں کہ تم مجھے اپنا پیٹ کھول کر دکھاؤں کیونکہ تم میں باقی تمام علامات موجود ہیں _,"*


*★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں یمن میں اپنی خرید و فروخت کا کام پورا کر چکا تو اس سے رخصت ہونے کے لئے اس کے پاس آیا، تب اس نے کہا :- میری طرف سے چند شعر سن لو، یہ شعر میں نے اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے ہیں_,"  میں نے کہا سناؤ:-  اس نے وہ شعر سنائیں،*

[5/23, 7:55 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پھر میں مکہ مکرمہ واپس پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کا اعلان کر چکے تھے، فوراً ہی میرے پاس قریش کے بڑے سردار عقبہ بن ابو معیط، شیبہ، ربیعہ، ابو جہل اور ابو البختری وغیرہ آئے اور کہنے لگے :-  اے ابو بکر ! ابو طالب کے یتیم بھتیجے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہے,  اگر آپ کا انتظار نہیں ہوتا تو ہم اس معاملے میں صبر نہ کرتے، اب آپ آ گئے ہیں اس لیے اس سے نبٹنا آپ ہی کا کام ہے_,"*


*★_ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قریبی دوست تھے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :-  میں نے انہیں اچھے انداز میں ڈال دیا اور خود آنحضرت صلی وسلم کے گھر پہنچ گیا،  دروازے پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے،  آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا :- اے ابو بکر میں تمہاری اور تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس لیے تم اللہ تعالی پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ _,"*


*★_ میں نے عرض کیا:- کیا آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اس بوڑھے عالم کے شعر جو اس نے تمہیں سنائیں تھے_," میں نے حیران ہو کر عرض کیا:-  میرے دوست ! آپ کو ان اشعار کے بارے میں کیسے پتہ چلا ؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-  مجھے اس عظیم فرشتے کے ذریعے پتا چلا جو مجھ سے پہلے بھی تمام نبیوں کے پاس آتا رہا ہے_,"*

*"_ اب میں نے عرض کیا :-  اپنا ہاتھ لائیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں _,"*


*★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- میرے اسلام کو قبول کرنے سے آپ کو بے تحاشہ خوشی ہوئی_,"  سب لوگوں کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے کیا تھا، سب سے پہلے ایمان لانے والوں کی ترتیب اس طرح ہے :-  مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ عنھم ایمان لائے، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے ایمان لائیں اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے، وہ اس وقت تک بالغ نہیں ہوئے تھے،*

[5/23, 8:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آس پاس کے لوگوں کو اسلام کی دعوت شروع کی، اس سلسلے میں جو مشکلات تھیں ان کے سامنے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ڈٹ گئیں،  اپنا تن من اور دھن سب کچھ قربان کرنے پر تل گئیں،*


*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر ابوالعاص غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے،  یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرکوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ابو العاص سے ہو چکی تھی، دوسرے قیدیوں کی طرح ان سے بھی کہا گیا:- آپ بھی فدیے کی رقم ادا کریں تاکہ آپ کو رہا کیا جا سکے_,"  انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا کہ ان کی آزادی کے لئے فدیے کی رقم بھیج دیں،  حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ پیغام ملا تو آپ پریشان ہو گئیں کیونکہ اس وقت آپ کے پاس کوئی رقم نہیں تھی، البتہ شادی کے موقع پر انہیں جو جہیز ملا تھا اس میں ایک ہار بھی تھا، انہوں نے وہی ہار بھیج دیا، وہ ہار دراصل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا،* 


*★_ جب یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے اس ہار کو پہچان لیا، آپ کو حضرت خدیجہ یاد آ گئیں، آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،  آپ کو روتے دیکھ کر صحابہ کرام بھی رونے لگے، انہوں نے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول ! آپ یہ ہار بیٹی کو واپس کردیں, فدیے کی رقم ہم ادا کر دیتے ہیں_,"*

*"_ اس واقعے سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت تھی،*


*★_ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہالہ ہمارے ہاں آئیں، انہوں نے اجازت طلب کرنے کے لیے آواز دی، ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی، پھر کیا تھا یہ آواز سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آگئیں، آپ حیرت اور مسرت کے عالم میں پکار اٹھے :-  یا اللہ ! یہ تو ہالہ لگتی ہیں_,"*

*"_ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:-  آپ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو کیا ہر وقت یاد کرتے رہتے ہیں، انہیں تو فوت ہوئے بھی عرصہ ہوگیا، اللہ پاک نے آپ کو اس سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے_," یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلال میں آ گئے، یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نادم ہو کر عرض کیا:-  اے اللہ کے رسول ! مجھ سے غلطی ہوگئی, آئندہ میں ان کا ذکر اچھے الفاظ ہی میں کروں گی_,"*

[5/28, 8:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جب بالکل نزدیک کے لوگ آپ پر ایمان لا چکے تو اللہ تعالی نے حکم نازل فرمایا :- اپنے قریبی لوگوں کو ڈرائیے _,"*

*"_ یہ حکم نازل ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور پکار کر فرمایا :- اے بنی عبدالمطلب ! اے بنی فہرہ اور اے بنی کعب !  اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن جمع ہو گئے ہیں اور تم پر حملہ کرنے والے ہیں تو بتاؤ کیا تم میری اطلاع کو درست سمجھو گے_,"* 

*"_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے جواب میں سب نے کہا :-  ہاں ! ہم آپ کی بات کو درست سمجھیں گے, اس لیے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا _,"*

*"_اس پر آپ نے فرمایا:- تو پھر جان لو ! میرے پاس تمہارے لئے سخت عذاب کی اطلاح ہے_,"* 


*★_ ابولہب یہ سن کر سخت ناراض ہوا، اس نے بھنا کر کہا :- تو ہمیشہ برباد رہے...  کیا تو نے بس یہی سنانے کے لیے بلایا تھا_," ( نعوذباللہ),  پھر لوگ بڑبڑاتے ہوئے واپس لوٹ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا کام جاری رکھا، اس پر قریش شدید مخالفت پر اتر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی قریش مکہ کی طرف سے صدمہ پہنچتا، تو آپ سیدھا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے، سیدہ خدیجہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتیں تو آپ کا صدمہ دور ہو جاتا، غرض ہر مشکل وقت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی_,* 


*★_ جب اسلام آہستہ آہستہ پھیلنے لگا تو قریش بہت فکرمند ہوئے، انہوں نے ابو طالب کو بلا کر کہا :- اے ابو طالب ! اگر آپ کے بھائی کے بیٹے ہمارے دین کو اور جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں ان کو اسی طرح برا کہتے رہے اور آپ اسی طرح ان کی مدد کرتے رہے تو ہم سمجھیں گے کہ آپ نے بھی ہمارے مقابلے میں صرف ان کی مدد کی ٹھان رکھی ہے، اس صورت میں ہم جو کچھ بھی کریں، پھر شکایت نہ کریں _,"* 

*"_ ابو طالب نے انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر تبلیغ کرتے رہے، اس پر قریش پھر جمع ہوئے، ابو طالب کے پاس آئے، انہوں نے کہا:-  اگر آپ نے اب بھی اپنے بھتیجے کو نہ روکا تو ہمارے اور آپ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رہ جائیگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی مارا جائے_,"* 


*★ ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور کہا :- بھتیجے ! اپنے دین کے اعتبار سے تم مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں _," ان کی بات کے جواب میں آپ نے فرمایا :-  چچاجان ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں اور مجھ سے کہیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس سے باز آ جاؤ تو بھی میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا، چاہے میری جان کیوں نہ چلی جائے _,"* 

*"_ یہ سن کر ابو طالب نے کہا:-  بھتیجے !  تم جو چاہو کرو میں آئندہ تمہیں نہیں ٹوکوں گا _,"*

[5/29, 6:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش نے بھی جان لیا کہ ابو طالب اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو وہ ایک بار پھر جمع ہوئے اور ابو طالب سے بولے:- اے ابو طالب ! آپ کے بھتیجے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے ہمارے حوالے کر دیں، تاکہ ہم اسے قتل کر دیں، اس ایک کے نہ ہونے سے آخر کیا فرق پڑ جائے گا_,"*

*"_ یہ سن کر ابو طالب بولے:-  بڑے افسوس کی بات ہے، اگر میں تم میں سے کسی کے بیٹے کو صرف اپنی مخالفت کی بنیاد پر تم سے مانگو تاکہ اسے قتل کر سکوں تو کیا تم ایسا کرو گے،  نہیں کرو گے،  تو میں کیوں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کروں،  میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا_,"*

*"_ اس پر سب نے کہا :- اے ابوطالب ! تم اپنی قوم کے صرف ایک شخص کے لئے قوم میں تفرقہ ڈال رہے ہو، تم نے اپنی ساری قوم کو اپنے بھتیجے کے خاطر ذلیل کر کے رکھ دیا ہے _,"*


*★_ یہ کہہ کر قریش لوٹ گئے،  اب ابو جہل وغیرہ نے ایک جگہ جمع ہو کر سوچ بچار کی اور آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت ترک نہیں کرتے اور انہیں ہمارے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک ان لوگوں سے کوئی کاروبار نہ کیا جائے، نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جائے، نہ ان سے خریدی جائے،  نہ ان کے ہاں بیٹی بیٹے کا رشتہ کیا جائے، نہ ان کے ساتھ بیٹھا جائے، نہ کسی قسم کا میل جورکھا جائے، کوئی شخص اگر کسی مسلمان کا مقروض ہے تو قرض ادا نہ کرے اور انہیں شعب ابی طالب میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے، شعب ابی طالب ایک گھاٹی کا نام تھا، آج کے دور میں اس قسم کے معاہدے کو سوشل بائیکاٹ کہا جاتا ہے،  یعنی معاشرتی تعلقات ختم کر دینا، ان سب حضرات کو وہاں رہنے پر مجبور کر دیا گیا_,*


*★_ یہ بائیکاٹ نبوت کے ساتویں سال یکم محرم کو شروع ہوا اور نبوت کے دسویں سال محرم میں ختم ہوا، ان تین سالوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے گھر والوں، غریب اور نادار مسلمانوں، ابوطالب، بنی ہاشم، بنی عبدالمطلب اور ان کے ساتھیوں نے مصیبتوں اور مشکلات کا بڑی جرأت سے مقابلہ کیا، قریش کے مظالم کے مقابلے میں کوئی کمزوری نہ دکھائی، سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں ڈٹے رہے _,* 


*★_ حالت یہ تھی کہ نہ یہ حضرات کسی سے کوئی لین دین کر سکتے تھے، نہ مکہ کے بازاروں میں خرید و فروخت کر سکتے تھے، شعب ابی طالب کوہ ابو قبیس کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی تھی،  یہ حرم سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی، بنی عبدالمطلب اور بنی ہاشم کے اکثر گھرانے اس محلے میں رہتے تھے یا پھر اس کے اردگرد رہتے تھے، جب کفار نے بائیکاٹ کا معاہدہ لکھ کر حرم میں لٹکا دیا تو ابو طالب نے دوسرے محلوں میں رہنے والے بنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کے گھرانوں کو بھی اس گھاٹی میں آ جانے کے لیے کہا_,*


*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آبائی مکان دوسرے محلے میں تھا، لیکن  آپ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتی تھیں، انہوں نے بھی اپنا ضروری سامان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس گھاٹی میں آ گئیں،  بعض دوسرے حامی قبیلے اور غریب مسلمان بھی یہیں آگئے،  ان کا تعلق قریش کے خاندان سے نہیں تھا، ان سب حضرات کے ایک جگہ جمع ہو کر رہنے کا فیصلہ ابوطالب کا تھا، یہ فیصلہ اس لحاظ سے بہت اچھا تھا کہ مسلمان اپنے اپنے محلوں میں بکھرے رہتے تو ان کے لئے یہ تین سال گزارنا اور زیادہ مشکل ہوتا،   سب نے مل جل کر ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ کر یہ سال گزار لیے،  یہ اور بات ہے کہ یہ تین سال انتہائی مشکل سال تھے،  باہر سے آکر کوئی مدد نہیں کرتا تھا، البتہ آپس میں یہ سب ایک دوسرے کے غم گسار تھے_,*

[5/29, 4:49 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شعب ابی طالب میں رہنے والے نہ تو تجارت کر سکتے تھے نہ مکہ معظمہ کے بازاروں میں خرید وفروخت کر سکتے تھے، باہر سے کوئی قافلہ آتا تو قریش اس کا سارا مال مہنگے داموں میں خرید لیتے تھے، ابو لہب ان تاجروں سے کہتا :- کوئی مسلمان یا بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کا کوئی شخص تم سے کچھ خریدنا چاہے تو قیمت اتنی زیادہ بتانا کہ خرید نہ سکے،  اگر تمہارا مال نہ بک سکا تو میں خود سارا مال خرید لوں گا _,"*


*★_ سال میں چار مہینے رجب، ذیقعدہ، ذوالحج اور محرم حرمت کے مہینے تھے، ان چار مہینوں میں ان حضرات کو کچھ خرید و فروخت کا موقع ملتا تھا، لیکن آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو کچھ تھا، اس سے آپ دونوں غریب مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اس طرح اس بائیکاٹ کے ختم ہوتے ان کی اپنی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی،  حضرت عمر بھی مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن سینکڑوں لوگوں کی ضرورت پوری کرنا آسان کام نہیں تھا_,"*


*★_ جب ان لوگوں کی پونجی بالکل ختم ہوگئی تو گھریلو چیزیں بکنے لگیں، آخری دنوں میں جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ہانڈی اور مٹی کا پیالہ رہ گیا،  گھاٹی میں رہنے والے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے، وہ پہاڑی علاقہ تھا، وہاں درخت بھی بہت کم تھے، ان دونوں کی حالت بیان کرتے ہوئے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات انہیں اونٹ کی چمڑے کا سوکھا ہوا ٹکڑا مل گیا، انہوں نے اسے دھویا اور ابال کر تین دن تک اسی سے گزارا کیا _,"*

*"_یہ دنیا کی تاریخ کا ظالمانہ ترین بائیکاٹ تھا، قریش مکہ باقاعدہ نگرانی کرتے تھے کہ مکہ کا کوئی فرد چوری چھپے ان حضرات کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچا دے _,*


*★_ اصل میں قریش مکہ چاہتے تھے کہ ان حضرات کی کوئی حمایت نہ کرے، اس کے بعد ان کے لیے قریش کے دیگر خاندانوں سے اپنے اپنے مسلمان ہو جانے والے افراد کی حمایت چھڑا دینا آسان ہو جاتا اور جب تمام قبیلے مسلمانوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیتے تو پریشان کے لئے مسلمانوں سے نمٹنا آسان ہوجاتا، لیکن ہوا یہ کہ ان دونوں خاندانوں نے ہر قسم کی تکالیف تو برداشت کر لی، لیکن قریش کے مقابلے میں ہار نہ مانی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غریب ساتھیوں کے مضبوطی سے ڈٹے رہنے میں کوئی فرق نہ آیا _,*

[5/29, 5:04 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ چوری چھپے سامان لے آتے تھے، ایک روز غلام کے ساتھ غلہ لا رہے تھے کہ اونٹ پر سوار ابوجہل ادھر سے آ نکلا، اس نے پکار کر کہا :- کیا تو یہ راشن بنو ہاشم کے لیے لے جا رہا ہے، خدا کی قسم ! تیرا یہ غلام وہاں غلہ نہیں لے جا سکتا، میں تمہیں سارے مکہ میں رسوا کر دوں گا کہ تم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے_,"* 


*★_ ابوجہل ابھی ان سے جھگڑ رہا تھا کہ بنو اسد کا سردار ابوالبختری انہیں دیکھ کر رک گیا، اس نے ابو جہل سے پوچھا :- کیا ہے, تم اس سے کیوں جھگڑ رہے ہو ؟ جواب میں ابوجہل نے کہا:-  یہ بنو ہاشم کے لیے غلہ لے جا رہا ہے_," ابوالبختری نے فوراً کہا :- یہ اس کی پھوپھی کا غلہ ہے، جو اس کے پاس رکھا تھا، اب اس نے منگوایا ہے تو تو اسے کیسے روک سکتا ہے، جانے دو اسے _," نہیں میں نہیں جانے دوں گا _," ابوجہل اس سے بھی جھگڑ پڑا _,"* 


*★_ دونوں میں تیز لہجے میں بات ہونے لگی، ابوالبختری نے ابوجہل کے اونٹ کی گردن پکڑ کر جھٹکا دیا تو اونٹ بیٹھ گیا،  اس نے ابو جہل کو گدی سے پکڑ کر نیچے کھینچ لیا، پھر لاتوں اور گھونسوں سے اس کی خوب مرمت کی، یہاں تک کہ قریب پڑی ایک ہڈی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری، اس کے سر سے خون بہنے لگا، ایسے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے،  آپ انہیں لڑتے دیکھ کر رک گئے، انہیں رکتے دیکھ کر دونوں اپنی لڑائی سے باز آگئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کی آپس کی لڑائی کی خبر نہ پہنچے،*


*★_ تاریخ کی کتابوں میں مصیبتوں بھرے ان تین سالوں کی بہت تفصیل بیان ہوئی ہے، ابن قیم کہتے ہیں :-  بنی ہاشم کے بچے بھوک کے مارے اس قدر زور زور سے روتے تھے کہ ان کے رونے کی آوازیں گھاٹی کے باہر تک سنائی دیتی تھیں_,"*

*"_ امام قسطلانی نے لکھا ہے :- بنی ہاشم کے بچوں کے رونے کی آوازیں رات کے سنّاٹے میں تمام شہر میں سنائی دیتی تھیں، سنگ دل اور بے رحم قریش سنتے تھے اور ہنسا کرتے تھے اور طنز کیا کرتے تھے _,"*

*"_ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :- ان دنوں میں درختوں کے پتے کھا کھا کر گزر بسر کی گئی _,"*

[5/30, 6:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان تمام سختیوں اور تکالیف کے باوجود مسلمان ثابت قدم رہے, ان کے قدم ذرا بھی نہ ڈگمگائے، ایک رات ہاشم ابن عمرو بن حارث تین اونٹوں پر کھانا لے کر گھاٹی میں داخل ہوگئے،  یہ مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، قریش کو اس کا پتہ چل گیا، انہوں نے دوسری صبح ہاشم سے باز پرس کی، اس پر انہوں نے کہا:-  ٹھیک ہے آئندہ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو آپ کے خلاف ہو،* 

*"_ اس کے بعد ایک رات پھر دو اونٹوں پر کھانے کا سامان لے کر گھاٹی میں پہنچ گئے، قریش کو اس کا بھی پتہ چل گیا، اس مرتبہ قریش سخت غضب ناک ہوے اور ہاشم پر حملہ کر دیا، لیکن اسی وقت ابو سفیان نے کہا :- اسے چھوڑ دو، اس نے صلہ رحمی کی ہے، رشتہ داروں کا حق پورا کرنے کے لیے ایسا کیا ہے _,"*


*★_ آخر اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ دیمک نے قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو چاٹ لیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنے چچا ابو طالب کو بتائی، انہوں نے آپ کی بات سن کر کہا :- ستاروں کی قسم ! تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا _," (مشرک لوگ اس قسم کی قسمیں کھاتے تھے), اب سب نے گھاٹی سے نکلنے کا فیصلہ کیا، سب وہاں سے نکل کر مسجد حرام میں آگئے، قریش نے ان لوگوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ لوگ مصیبتوں سے گھبرا کر نکل آئے ہیں تاکہ رسول اللہ سلم کو مشرکوں کے حوالے کردیں، ابو طالب نے ان سے کہا :- ہمارے اور تمہارے درمیان معاملات بہت طول پکڑ گئے ہیں، اس لئے اب تم لوگ اپنا وہ حلف نامہ لے آؤ، ممکن ہے ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کی کوئی شکل نکل آئے _,"*


*★_ ابو طالب نے اصل بات بتانے کی بجائے یہ بات اس لیے کہی کہ کہیں قریش حلف نامہ سامنے لانے سے پہلے اسے دیکھ نہ لیں کیونکہ اس صورت میں وہ اس کو لے کر ہی نہ آتے، غرض وہ حلف نامہ لے آئے،  انہوں اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ یہ لوگ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تمام حلف نامہ اور معاہدے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوئے تھے، آخر وہ حلف نامہ لے آئے،  ساتھ ہی کہنے لگے :-  آخر تم لوگ پیچھے ہٹ گئے نا _,"*

*"_ اس پر ابو طالب نے کہا:- میں تمہارے پاس ایک انصاف کی بات لے کر آیا ہوں، اس میں تمہاری کوئی بےعزتی ہے نہ ہماری اور وہ بات یہ ہے کہ میرے بھتیجے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ تمہارے اس حلف نامہ پر جو تمہارے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی نے ایک کیڑا مسلط کردیا ہے،  اس کیڑے  نے اس میں سے الفاظ چاٹ لیے ہیں، اگر بات اسی طرح ہے جیسے میرے بھتیجے نے بتایا ہے  تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، لہذا تم اپنی غلط بات سے باز آ جاؤ،  اگر باز نہیں آئے تو بھی خدا کی قسم جب تک ہم میں سے آخری آدمی بھی زندہ ہے ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے اور اگر میرے بھتیجے کی بات غلط نکلی تو ہم انہیں تمہارے حوالے کر دیں گے،  پھر تم چاہے انہیں قتل کرو چاہے زندہ رکھو _,"*


*★_ اس پر قریش نے کہا :- ہمیں تمہاری بات منظور ہے_,",  اب انہوں نے عہد نامہ کھول کر دیکھا، عہد نامہ کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی، یہ دیکھ کر ہموہ پکار اٹھے :- یہ تمہارے بھتیجے کا جادو ہے_,"*

*"_  اس واقعے کے بعد ان لوگوں کا ظلم اور بڑھ گیا، البتہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دیمک والے واقعے پر شرمندہ ہوئے، انہوں نے کہا :- اب ہماری طرف سے ایسی سختی اپنے بھائیوں پر ظلم ہے_,"  پھر یہ لوگ گھاٹی میں پہنچے اور ان حضرات سے یوں بولے :-  آپ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں _,"*

*"_  چنانچہ سب لوگ اسی وقت گھاٹی سے نکل کر اپنے گھروں میں آ گئے، اس طرح تین سال بعد یہ بائیکاٹ ختم ہوا_,*

[5/31, 9:32 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شعب ابو طالب کی گھاٹی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی رہائی نبوت کے دسویں سال میں ہوئی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا کام پہلے سے بھی زیادہ سرگرمی سے شروع کر دیا تھا، ان حالات میں، اس ظالمانہ بایکاٹ کو ختم ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آپ کے مہربان چچا ابو طالب اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوا اور اس صدمے کو ابھی ایک ہفتہ نہیں ہوا تھا کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس دار فانی سے کوچ کیا، اوپر تلے دو صدمے آپ کے لیے بہت سخت تھے، آپ نے اس سال کو "غم کا سال" قرار دیا _,*


*★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی ہستی تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی وسلم کی قدر اور عظمت کو پہچانا اور اپنا تن من اور دھن آپ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد 25 سال کی زندگی میں بے پناہ مشکلات آئیں، مگر ان تمام مشکلات میں آپ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری طرح ساتھ دیا، قریش مکہ قدم قدم پر آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو آرام و سکون پہنچاتی تھیں، آپ نے اپنی ہر خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کر دی، آپ کی موجودگی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی، سب کام آپ نے سنبھالے ہوئے تھے،*  


*★_ سب سے پہلے ایمان بھی آپ ہی لائیں، آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال ساتھ دیا، نبی کریم صل وسلم نے ایک مرتبہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:- خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو مجھ سے وفاداری کی اس کے سبب مجھے ان کی یاد بہت مرغوب ہے, جب لوگوں نے میری نبوت کا انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب لوگ میری مدد کرنے سے ڈرتے تھے تو وہ چٹان کی مانند مضبوطی سے میرے ساتھ کھڑی رہیں، وہ بہترین ساتھی تھیں اور میرے بچوں کی ماں _,"* 


*★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے آپ صلی اللہ کے ہاں چھ بچے پیدا ہوئے، دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں،  صاحب زادے بچپن ہی میں فوت ہوگئے، جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو اس وقت تک آپ کی دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی، دو بیٹیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر میں تھیں،  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت آٹھ نو سال کی تھی، حضرت علی رضی اللہ انہوں نے بھی آپ کے گھر میں ہی پرورش پائی تھی، وہ بھی ابھی چھوٹے تھے _,*

[6/3, 11:08 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_'بخاری شریف میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شان میں یہ حدیث موجود ہے:-* *"_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوں عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسول ! خدیجہ ایک برتن لے کر ابھی آنے والی ہیں، اس برتن میں سالن ہے، جب وہ آئیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہہ دیجئے گا اور انہیں یہ خوشخبری سنائے گا کہ اللہ تعالی نے موتیوں سے بنا ہوا ایک محل جنت میں انہیں عطا فرمایا ہے، اس میں نہ کسی قسم کا شور ہوگا، نہ پریشانی _,"* 


*★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دوسری شادی کا کبھی خیال تک نہیں فرمایا، آپ کی وفات کے بعد بھی آپ ان کا ذکر بہت محبت سے فرماتے تھے، آپ کی سہیلیوں سے بھی بہت شفقت کا  برتاؤ کرتے، ہر موقع پر ان کا خیال رکھتے تھے، اکثر ان کی تعریف فرماتے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ وسلم کی ازواج مطہرات کو رشک آنے لگتا،  آپ کوئی بکری ذبح فرماتے تو اس کا گوشت حضرت سیدہ کی سہیلیوں کو بھی بھجواتے _,"* 


*★_ آپ کی وفات کی خبر سن کر مکہ معظمہ کے لوگ رنج و غم کے سمندر میں ڈوب گئے، ہر شخص کی زبان پر ان ہی کا ذکر تھا، انہوں نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی، کبھی زبان سے ایسا لفظ نہیں نکالا جو کسی کی دل شکنی کا سبب بنتا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکالیف کو دیکھ کر وہ کبھی مایوس نہ ہوتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی کرتیں اور تبلیغ کے کام میں ہر ممکن مدد کرتیں،  دوسرے لوگوں کو تکالیف پہنچائی جاتی تو آپ انہیں بھی حوصلہ دلاتیں،  انہیں یقین دلاتیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، مکہ میں کسی کی زبان پر بھی ان کی برائی نہیں تھی، ہر شخص ان کی تعریف کرتا تھا _,*


*★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حجون کے قبرستان میں دفن کیا گیا،  دفن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اترے،  انتقال کے وقت ان کی عمر 63 سال تھی، اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا _,*

[6/3, 11:27 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد 25 سال تک زندہ رہیں، یعنی اتنی طویل مدت تک آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا، جب آپ بیمار تھیں تو ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :- جو کچھ میں نے تمہارے لئے دیکھا ہے، کیا تم اس سے خوش نہیں،  اللہ تعالی ناپسندیدگی میں ہی خیر فرمانے والا ہے، یعنی ہماری جدائی کے اس غم میں بھی خیر ہے، تمہیں معلوم نہیں اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ اس نے جنت میں تمہارے ساتھ ساتھ مریم بنت عمران یعنی مسیح علیہ السلام کی والدہ، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی آسیہ سے میری شادی کی ہے _," ( یعنی یہ جنت میں تمہاری ساتھی ہو گئی )* 


*★_ یہ سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اللہ تعالی نے آپ کو اس بات کی خبر بھی دی ہے _,"  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-" ہاں !",  اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا :-  اللہ تعالی محبت و برکت عطا فرمائے _,"* 


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ بھی فرمایا :- جنت تمہارے دیدار کی مشتاق ہے، تمام امہات المومنین سے تم بہتر ہو،  تم تمام عورتوں سے افضل ہو، تو مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ سے زیادہ بزرگ ہو _,"*

*"_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی،  سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سب سے پہلے قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، پھر زینب رضی اللہ عنہا، پھر رقیہ رضی اللہ عنہا، پھر ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا،  یہ تمام نبوت سے پہلے پیدا ہوئے، ان کے بعد عبداللہ پیدا ہوئے،  طیب اور طاہر انہی کے لقب تھے، بہرحال حال اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے، بیٹیاں جوان ہوئیں اور ان کی شادیاں ہوئیں اور ان سے اولاد ہوئی _,*


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد کا سلسلہ نسب حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا پر ختم ہوتا ہے،  آپ اپنی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے دعا کرتے رہے، ان کی موجودگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی، آپ نے انہیں تمام عورتوں سے افضل قرار دیا ( بعض روایات کی رو سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو افضل قرار دیا), جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کا سلام آپ کے ذریعے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو پہنچایا، سیدہ نے اپنا سارا مال اللہ کے راستے میں خرچ کردیا، آپ نے نبی کریم صلی اللہ وسلم کا انتہائی تکلیف دہ حالات میں ساتھ دیا، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,*

         

امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم ,,,📓*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

        *⚂ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙               

  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حضرت*★_ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں، آپ کی والدہ کا نام ام رومان تھا، ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ از دی نام کے شخص سے ہوا، عبداللہ کی وفات کے بعد ام رومان کا نکاح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان سے حضرت ابوبکر کے ہاں عبدالرحمان  اور عائشہ صدیقہ پیدا ہوئے، آپ نبوت کے پانچویں سال میں پیدا ہوئیں، یعنی جب آپ پیدا ہوئیں تو نبوت کا اعلان ہوئے چار سال گزر چکے تھے اور پانچواں سال گزر رہا تھا، گویا آپ نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو آپ کا گھرانہ مسلمان ہو چکا تھا_,* 


*★_ عام بچوں کی طرح آپ بھی بچپن میں کھیل کود کی بہت شوقین تھیں، محلے کی بچیاں آپ کے پاس جمع ہو جاتیں، آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، نبوت کے دسویں سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی، ان کی وفات کے بعد آپ بہت غمگین رہنے لگے تھے، آپ کی یہ حالت صحابہ کرام سے چھپی ہوئی نہیں تھی، چنانچہ مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں،*


*★_  انہوں نے آپ سے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دوسرا نکاح فرما لیں_," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :- کس سے نکاح کروں ؟ حضرت خولہ نے عرض کیا :- بیوہ اور کنواری، دونوں طرح کی لڑکیاں ہیں، جس سے آپ پسند فرمائیں، اس کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے_," اس پر آپ نے فرمایا:-  وہ کون ہیں ؟, حضرت خولہ نے عرض کیا :-  بیوہ تو سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا ہیں اور کنواری ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ ہیں_,"  آپ نے ارشاد فرمایا:-  ٹھیک ہے، تم ان کے بارے میں بات کرو _,"* 


*★_ حضرت خولہ آپ کی مرضی پا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات رکھی، جاہلیت کے دور میں دستور یہ تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں، اسی طرح اپنے منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے، اس بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا :- خولہ ! عائشہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہے, آپ سے اس کا نکاح کیسے ہو سکتا ہے_," حضرت خولہ یہ جواب سن کر آنحضرت کے پاس گئیں اور یہ بات آپ کو بتائی، اس پر آپ نے فرمایا :-  ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں سے نکاح جائز ہے _,"* 


*★_ حضرت خولہ نے یہ بات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتائی تو آپ نے فوراً منظور کرلی، اب ایک اور مسئلہ بھی تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی بات حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے طے ہوچکی تھی، اس لیے ان سے بھی پوچھنا ضروری تھا، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت جبیر بن مطعم کے پاس گئے اور ان سے فرمایا:- تم نے عائشہ کی نسبت اپنے بیٹے سے طے کی تھی، اس سلسلے میں تم کیا کہتے ہو ؟ اس وقت تک حضرت جبیر بن مطعم کا خاندان مسلمان نہیں ہوا تھا، اس لیے ان کی بیوی نے کہا :- اگر یہ لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بیٹا بے دین ہو جائے گا، لہذا اب ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں_,"  اس طرح یہ نسبت خود ان کی طرف سے ختم ہو گئی_,*

[6/5, 6:55 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز آپ کو پیش کر رہا ہے، آپ نے اس سے پوچھا :- یہ کیا ہے؟ اس نے کہا :- آپ کی بیوی ہے_," آپ نے ریشم کا کپڑا ہٹا کر دیکھا تو( تصویر میں) عائشہ صدیقہ تھیں_," ( بخاری)* 


*★_ گویا رشتہ اللہ تعالی طے فرما چکے تھے،  نکاح بہت سادگی سے ہوا،  آپ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں کہ آپ کی والدہ آئیں اور آپ کو جلدی سے تیار کرکے گھر لے گئیں جہاں تقریب نکاح ہو رہی تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نکاح پڑھا دیا،* 

*"_ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :-  جب میرا نکاح ہوا مجھے پتا تک نہ چلا، میری والدہ نے باہر نکلنے سے روکا، تب مجھے اندازہ ہوا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے، اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا _,"*


*★_ نکاح کے وقت آپ کی عمر چھ سال تھی، مطلب یہ کہ اس وقت صرف نکاح ہوا تھا، رخصتی بعد میں ہوئی،*

*"_  کچھ مدت گزرنے پر مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا,  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی لیکن آپ ان سے یہی فرماتے رہے :- ابوبکر ! جلدی نہ کرو, امید ہے اللہ تعالی کسی کو تمہارا سفر کا ساتھی بنا دے_,' یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امید ہو گئی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کریں گے،  چنانچہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دے دی تو آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لے کر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے،  روانہ ہوتے وقت آپ دونوں نے اپنے اہل و عیال کو مکہ ہی میں چھوڑ دیا تھا_,*


*★_ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا، تاکہ دونوں گھرانوں کے لوگوں کو لے آئیں،*

*"_  یہ دونوں حضرات مکہ پہنچے تو ان کی ملاقات حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی, وہ بھی ہجرت کے لیے تیار تھے، چناچہ یہ حضرات ان دونوں گھرانوں کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، ان حضرات میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا اسامہ، ان کی بیوی ام ایمن،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، آپ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ( حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا تھا لیکن رخصتی پہلے ہو گئی تھی، جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی )  اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی ام رومان شامل تھے_,*

[6/6, 5:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی والدہ اونٹ کے کجاوے میں سوار تھیں،  راستے میں ایک موقع پر ان کا اونٹ بدک گیا، اس پر ام رومان گھبرا گئی اورپکارا اٹھیں :- ہاے میری بچی ! اس وقت اللہ تعالی کی مدد  پہنچی, غیب سے آواز آئی :- اونٹ کی نکیل چھوڑ دو_," رسی اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ہو اللہ کے ہاتھ میں تھی،  آپ فرماتی ہیں، میں نے نقل چھوڑ دی، ایسا کرتے ہی اونٹ آرام سے ٹھہر گیا، کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچا _,*


*★_ آخر یہ قافلہ مدینہ پہنچ گیا ‌، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کے آس پاس اپنے اہل و عیال کے لئے حجرے بنوا رہے تھے، حضرت سودہ، حضرت فاطمہ، اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کو انہین حجرو میں ٹھہرایا گیا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ماں باپ کے ہاں چلی گئیں،  اس کے چند ماہ بعد شوال میں آپ کی رخصتی ہوئی،  عرب کے لوگ شوال میں شادی کرنے کو برا سمجھتے تھے،  بعد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتی تھیں :- "_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں نکاح کیا اور سوال میں میری رخصتی ہوئی، تو اب اس کے خلاف مسلمانوں کو کرنے کا کیا حق ہے_,"  مطلب یہ کہ شوال میں شادی بیاہ کرنا بالکل درست ہے، اسی طرح آجکل محرم کے مہینے میں شادی نہیں کی جاتی یہ بھی غلط ہے _,*


*★_ رخصتی سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صل وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا تھا :-  اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی بیوی کو گھر کیوں نہیں لاتے_,"  آپ نے ارشاد فرمایا :- "_اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے_,"  یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- "_ آپ مجھ سے قرض لے لیں _," آپ نے ان کی یہ بات منظور فرما لی, ان سے قرض لے کر مہر ادا کیا,  مہر 500 درہم تھا،  رخصتی کی کیفیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں بیان کرتی ہیں :-*


*"_ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی کہ والدہ نے آکر مجھے آواز دی، مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کیوں بلا رہی ہیں، میں ان کے پاس پہنچی تو میرا ہاتھ پکڑ کر لے چلیں، میرا سر اور ہاتھ منہ دھوئے، گھر کے اندر انصار کی عورتیں بیٹھی تھیں، انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، یہ چاشت کا وقت تھا_,"*


*★_ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعوت کے لیے دودھ کے ایک پیالے کے سوا کچھ نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تھوڑا سا دودھ نوش فرمایا، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیا_,*

[6/6, 5:55 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ چند دوسری عورتوں کے ساتھ اس وقت وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی تھیں، وہ فرماتی ہیں :- اللہ کی قسم کوئی دعوت نہیں ہوئی, جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ کو دودھ دیا تو آپ شرمانے لگیں،  اس پر میں نے کہا، حضور صل وسلم کا عطیہ واپس نہ کرنا _," چنانچہ سیدہ نے دودھ لے لیا اور پیا، پھر آپ نے فرمایا :- اپنی سہیلیوں کو بھی دو _," میں نے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول ! ہمیں بھوک نہیں ہے ؟  اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کرو _," ( مسند احمد - 6/438)*


*★_ مطلب یہ تھا کہ اگر بھوک ہو تو یوں نہ کہو کہ ہمیں بھوک نہیں یہ جھوٹ ہو جائے گا، غرض اس قدر سادگی سے رخصتی ہوئی،  حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں :-  اللہ کی قسم میری رخصتی میں نہ کوی اونٹ ذبح کیا گیا نہ کوئی بکری، ہاں کھانے کا ایک پیالہ تھا، وہ بھی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا_," ( مسند احمد -6/210)*


*★_سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چونکہ کم عمری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آ گئیں تھیں، اس لیے آپ کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوئی، اسی زمانے میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھا، آپ کا حجرا چونکہ مسجد کے ساتھ ہی تھا، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں سنتی رہتی تھیں،  کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو بلا جھجھک پوچھ لیتی تھیں_," ( بخاری 1/21)*


*★_ اس کی مثال یوں ہے کہ احادیث کی کتب میں بے شمار مسائل ایسے ہیں جو سیدہ کے پوچھنے سے امت کو معلوم ہوے،  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال گزارے اور ان نو سال میں خوب علم حاصل کیا، سیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھ پوچھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتی رہی،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ بات پسند فرماتے تھے کہ وہ سوالات پوچھیں، تاکہ وہ دوسری عورتوں کو مسائل بتا سکیں_,*

[6/6, 6:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ امام زہری فرماتے ہیں :-  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں اور ان کے علاوہ باقی تمام عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم سب سے بڑا ہوا رہے گا_,"*

*"_  حضرت مسروق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خاص شاگرد تھے، وہ فرماتے ہیں  :-  عمر میں بوڑھے لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرائض ( میراث ) کے بارے میں معلوم کر لیا کرتے تھے _,"* 


*★_ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :-  ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی علمی الجھن پیش آتی تو ہم اس کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کرتے تھے،  جب بھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا، انہیں اس مسئلے کے بارے میں ضرور معلوم ہوتا تھا_,"*

*"_ اس طرح بہت سے صحابہ اور تابعین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں،*


*★_ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی :-  یا اللہ ! مجھ سے آسان حساب لینا _," حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :-  اے اللہ کے رسول ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی ؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اعمال نامہ دیکھ کر درگزر کر دیا جائے گا _," ( یعنی یہ ہے آسان حساب ),*

*"_  پھر فرمایا :- یقین جانو جس کے حساب میں چھان بین  کی گئی, اے عائشہ وہ ہلاک ہوگیا, کیونکہ جس کے حساب کتاب کی چھان بین ہوگی، وہ حساب دے کر کامیاب نہیں ہو سکے گا _,"*


*★_ ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-  اے عائشہ !  قیامت کے دن لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن بغیر ختنہ کے اٹھائے جائیں گے _," ( یعنی جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں),  یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو بڑے شرم کا مقام ہوگا، کیا مرد عورت سب ننگے ہوں گے، ایک دوسرے کو دیکھتے ہونگے _,"*

*"_  سیدہ کے جواب میں آپ نے فرمایا :-  اے عائشہ ! قیامت کی سختی اس قدر ہوگی اور لوگ اس قدر بے حال ہوں گے کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہیں ہوگا، مصیبت اتنی ہوگی کہ کسی کو اس کا خیال تک نہیں آئے گا _,"*

[6/6, 6:30 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی :-  اے اللہ ! مجھے مسکین زدہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں مجھے اس دنیا سے اٹھا لے اور قیامت میں میرا حشر مسکینوں میں کرنا _,"*

*"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- آپ نے ایسی دعا کیوں کی ؟  جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا :-  اس لیے کہ بلاشبہ مسکین لوگ مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے_,"*

 *"_ اس کے بعد آپ نے فرمایا :-  اگر مسکین سائل کی حیثیت میں آئے تو اسے کچھ دیے بغیر واپس نہ لوٹاؤ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے دو _,"*


*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا :-  اے اللہ کے رسول ! یہ جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے، .... اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں،...  تو ان خوف زدہ لوگوں سے کون لوگ مراد ہیں، کیا وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوریاں کرتے ہیں _,"*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا :- اے صدیق کی بیٹی نہیں، اللہ کے اس فرمان سے ایسے مراد نہیں،   بلکہ اس آیت میں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو روزہ رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور اس کے باوجود اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کے اعمال قبول ہی نہ کیے جائیں،  ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :-  یہ لوگ نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں _,"*


*★_ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- جو شخص اللہ کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالی اس کی ملاقات کو محبوب رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالی کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں_,"*

*"_ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- یہ تو آپ نے بہت گھبرا دینے والی بات سنا دی، موت ہم سب کو تبعاً بری لگتی ہے، لہذا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم میں سے کوئی شخص اللہ تعالی کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا،  لہذا اللہ تعالی بھی ہم میں سے کسی کی ملاقات کو پسند نہیں کرتے _,"*

 

*"_ اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- اس کا یہ مطلب نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اسے اللہ تعالی کی رضا اور اللہ تعالی کی طرف سے انعامات کی خوشخبری سنائی جاتی ہے، لہذا اس کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں رہ جاتی جو مرنے کے بعد اسے پیش آنے والی ہے، اس وجہ سے وہ اللہ تعالی کی ملاقات کو چاہنے لگتا ہے، لہذا اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو چاہتے ہیں، اور بلاشبہ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالی کے عذاب اور اللہ تعالی کی طرف سے سزا ملنے کی خبر دی جاتی ہے، لہذا اس کے نزدیک کوئی چیز اس سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد اسے پیش آنے والی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا _,"*

[6/12, 5:54 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ہاں عورتوں پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں جنگ نہیں یعنی حج اور عمرہ _,"*


*★"_ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :- کوئی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا یہی بات ہے نا _," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- ہاں ! یہی بات ہے, کوئی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا _," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یونہی فرمایا ، اب حضرت عائشہ نے پوچھا:- اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گے _,"*

*"_ آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ مار کر فرمایا:-  ہاں ! میں بھی جنت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں نہ ڈھانپ لے _," آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا _,*


*★_ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:- اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ لیلۃ القدر کی رات کون سی ہے یا یہ معلوم ہوجائے کہ آج لیلۃ القدر ہے تو میں کیا مانگوں _," آپ نے ارشاد فرمایا:-  یہ دعا مانگو ..... اے اللہ ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، لہذا تو مجھے معاف فرما دے _,"* 


*★_  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سب بیویوں سے زیادہ محبت تھی، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ایک روز آپ سے پوچھا:-  اے اللہ کے رسول ! آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے _," آپ نے فرمایا :-  عائشہ _,"*

 *"_اب انہوں نے پوچھا :- اے اللہ کے رسول ! میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے _,"  آپ نے فرمایا :- ان کے والد ابو بکر سے _," ( بخاری )*

[6/12, 6:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ کے لیے تشریف لے گئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیوار پر ایک اچھا سا پردہ لٹکا لیا، جب آپ واپس تشریف لائے تو اس پردے کو اس زور سے کھینچا کہ وہ پھٹ گیا،  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-  بے شک اللہ تعالی نے ہمیں حکم نہیں دیا کہ ہم پتھروں اور مٹی کو لباس پہنائیں _,*


*★_ ایک مرتبہ چند یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہوں نے دبی آواز میں السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہا، سام موت کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ انہوں نے موت کی بد دعا دی یعنی تم پر موت ہو،...  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں صرف اتنا فرمایا :-  وعلیکم ( یعنی اور تم پر موت ہو), آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا ہی فرمایا، لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما غصے میں آگئیں اور فرمانے لگیں :-  تم پر موت ہو،  اللہ کی لعنت ہو اور اللہ کا غضب نازل ہو_,"*

*"_ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-  اے عائشہ ٹھہرو ! نرمی اختیار کرو اور بد کلامی سے بچو _," عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :-  آپ نے سنا نہی، انہوں نے کیا کہا ہے _," حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-  اور تم نے سنا میں نے کیا جواب دیا،  میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی،  اب اللہ تعالی میری بد دعا ان کے حق میں قبول فرمائیں گے... اور ان کی بد دعا میرے حق میں قبول نہیں ہوگی _,"* 


*★_ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہہ دیا کہ ان کا قد چھوٹا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فوراً ٹوکا اور فرمایا :-  یقین جان لو، تم نے ایسا کلمہ کہہ دیا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اسے بھی بگاڑ دے_,"*

*"_ ایک روز آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- اے عائشہ ! چھوٹے گناہوں سے بھی بچو، کیونکہ اللہ کی طرف سے ان کے بارے میں بھی پکڑ ہونے والی ہے _,"*


*★_ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ نصیحت فرمائی :-  عائشہ ! اگر تو آخرت میں مجھ سے ملنا چاہتی ہے تو تجھے دنیا میں بس اتنا سامان کافی ہے جتنا مسافر اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور مالداروں کے پاس بیٹھنے سے پرہیز کر اور کسی کپڑے کو پرانا سمجھ کر پہننا مت چھوڑو جب تک کہ اس کو پیوند لگا کر نہ پہن لے _,"* 

*"_حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:- خالہ جان اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نیا کپڑا اس وقت تک نہیں بناتی تھیں جب تک کہ پہلی بنائے ہوئے کپڑے کو پیوند لگا کر نہیں پہن لیتی تھیں اور جب تک کہ وہ خوب بوسیدہ نہیں ہو جاتا تھا _,"*

[6/12, 6:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :-  نبی کریم صل وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سب سے پہلی مصیبت امت میں یہ پیدا ہوئی کہ پیٹ بھر کر کھانے لگے،...  جب پیٹ بھرتے ہیں تو بدن موٹے ہو جاتے ہیں اور دل کمزور ہوجاتے ہیں اور نفسانی خواہش زور پکڑ لیتی ہے _,"* 


*★_ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا :-  گناہوں کی کمی سے بہتر کوئی پونجی ایسی نہیں جسے تم لےکر اللہ تعالی سے ملاقات کرو، جسے یہ خوشی ہو کہ عبادت میں محنت کرنے والے سے بازی لے جائے، اسے چاہیے کہ خود کو گناہوں سے بچائے _,"* 


*★_ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ایک خط لکھا، اس خط میں اپنے لئے نصیحت کرنے کی فرمائش کی،  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا :- تم پر سلام ہو، بعد سلام کے واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضگی کا خیال نہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کی رضا کا طالب ہو، اللہ تعالی اسے لوگوں کی شرارتوں سے بھی محفوظ فرما تے ہیں اور جو شخص اللہ تعالی کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی رکھنا چاہتا ہو تو اللہ تعالی اس کی مدد نہیں کرتے، اسے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں،...  وااسلام علیک _," ( مشکوة )* 


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے دین کا علم دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے قریب ہے،  ان میں صحابہ کرام بھی ہیں اور تابعین بھی، آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 48 سال اس دنیا میں گزارے... گویا 48 سال تک دین پھیلایا،  آپ تقریباً 22 سو احادیث کی راویہ ہیں،* 

*"_ آپ سے دین سیکھنے کے لیے آنے والے لوگوں میں عورتیں تو آپ کے سامنے بیٹھ جاتی تھیں... مرد حضرات پردے کے دوسری طرف بیٹھتے تھے،..  یہ لوگ آپ سے دینی سوالات کرتے تھے اور آپ انہیں جواب بتاتی تھیں _,"*


*★_ آپ ہر سال حج بیت اللہ کے لئے جاتی تھیں، اس موقع پر بھی لوگ دور دور سے آ کر آپ کے پاس جمع ہو جاتے، آپ اپنے خیمے میں بیٹھ جاتیں، سوالات پوچھنے والے خیمے سے باہر رہ کر پوچھتے، فتوے پوچھنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی،*

*"_ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم جیسے بڑے صحابہ بھی آپ سے مسائل معلوم کرنے والے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں ہوتے تھے، وہاں سے قاصد کے ذریعے مسائل معلوم کراتے اور ان پر عمل کرتے تھے،  بہت سے لوگ خطوط کے ذریعے آپ سے سوالات پوچھتے تھے _,"*

[6/14, 8:59 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بہت سے لوگ خطوط کے ذریعے آپ سے سوالات پوچھتے تھے، عائشہ بنت طلحہ آپ کی خاص شاگرد تھیں، وہ خطوط پڑھ کر سناتیں اور پوچھتی  :- اے خالہ جان ! میں اس خط کے جواب میں کیا لکھوں _," آپ فرماتیں :- اے بیٹا ! اس کے جواب میں یہ لکھ دو...... اور ہدیے کا بدلہ دے دو _,"*


*★_ حضرت اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟  آپ نے بتایا :-  اپنے گھر میں کام کاج میں مشغول رہتے تھے اور نماز کا وقت آتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے، آپ اپنی جوتی کی مرمت خود کر لیتے تھے، اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے، اپنے گھریلو کام اس طرح کر لیتے تھے جس طرح عام لوگ کر لیتے ہیں،... آپ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنے کام خود کر لیتے تھے _,"*


*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی کے بارے میں پوچھا گیا،  آپ نے فرمایا :-  میں نے آپ صلی اللہ وسلم کو کبھی پورے دانتوں اور ڈاڑھوں کے ساتھ ہنستے نہیں دیکھا جس سے آپ کے حلق مبارک کو دیکھا جا سکتا، آپ تو بس مسکراتے تھے _,"*

*"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :-  آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے کبھی کسی کو نہیں مارا، نہ کسی بیوی کو نہ کسی خادم کو، ہاں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اللہ کے دشمن کو مارا ہو تو اور بات ہے،  اگر آپ کو کسی سے کوئی تکلیف پہنچتی تو آپ اس کا بدلہ نہیں لیتے تھے، ہاں اللہ کے حکم کے خلاف کسی سے کوئی کام ہو جاتا تو آپ اللہ کے لئے اسے سزا دیتے تھے تے _,"* 


*★_ آپ فرماتی ہیں:-  سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجد سے فارغ ہوکر جب فجر کی دو سنت پڑھ لیتے اور میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مسجد میں جانے تک مجھ سے باتیں کر لیتے تھے یا داہنی کروٹ میں لیٹ جاتے _," ( مسلم )* 


*★_ آپ فرماتی ہیں :-  سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز ( نفل ) پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو پہلے مختصر دو رکعت پڑھتے تھے،  اس کے بعد لمبی سورتوں سے نماز ادا فرماتے اور غیر فرض نمازوں میں جس قدر فجر کی دو رکعتوں کا خاص اہتمام فرماتے تھے اور کسی غیر فرض نماز کا اہتمام نہیں فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، فجر کی دو سنتیں ساری دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہیں _," ( مسلم)* 


 آپ فرماتی ہیں:- رسول اللہ صلی وسلم میری گود میں سر رکھ کر لیٹ کر قرآن کی تلاوت کر لیتے تھے، حالانکہ میں ان دنوں ایام سے ہوتی تھی     


[6/14, 9:18 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹ بھرنے اور مزے دار چیزیں حاصل کرنے اور سامان جمع کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اے عائشہ ! اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ جلیں، مگر مقصد یہ ہے کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس کے قد کا حال یہ تھا کہ اس کی کمر کعبے تک پہنچ رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے رب نے آپ کو سلام فرمایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو آم بندوں میں بندہ اور نبی بن کر رہیں اور آپ چاہیں تو نبی اور بادشاہ بند کر رہیں.... میں نے اس بارے میں جبرائیل علیہ السلام سے مشورہ لینے کے لیے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے اشارہ کیا کہ تواضع اختیار کریں، سو میں نے جواب دیا کہ میں نبی ہوتے ہوئے عام بندوں کی طرح رہنا چاہتا ہوں، یہ فرمانے کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا :- میں اس طرح کھانے کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے اور اس طرح بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے _,"*


*★"_ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:- میں ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے میرے لیے کھانا منگوایا، پھر فرمایا :- اگر میں پیٹ بھر کر کھا لوں تو رونا آ جاتا ہے_," میں نے یہ بات سن کر کہا :- یہ کیوں ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- میں اس حال کو یاد کرتی ہوں جس حال میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو چھوڑ کر تشریف لے گئے ہیں، اللہ کی قسم کسی روز بھی آپ صلی اللہ وسلم نے گوشت اور روٹی سے پیٹ نہیں بھرا _," ( ترمذی )*

*"_ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا :- ہم اگر چاہتے تو پیٹ بھر کر کھا لیتے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے _,"* 


*★_ ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا :- اے میری بہن کے بیٹے, سچ جانو! ہم تین چاند دیکھ لیتے تھے اور گھر میں آگ نہیں جلتی تھی_," حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ نے پوچھا :- خالہ جان ! پھر آپ حضرات زندہ کیسے رہتے تھے ؟, آپ نے فرمایا :- کھجوروں اور پانی پر گزارہ کر لیتے تھے اور اس کے سوا یہ بھی ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہنے والے انصار اپنے دودھ اور جانوروں کا ہدیہ بھیج دیا کرتے تھے، آپ ان کا دودھ ہمیں بھی پلاتے تھے _," (بخاری)* 


*★_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر بغیر چراغ روشن کیے اور بغیر چولہا جلائے کئی کئی ماہ گزر جاتے تھے، اگر زیتون کا تیل مل جاتا تو تھوڑا سا ہونے کی وجہ سے چراغ میں ڈالنے کے بجائے اسے بدن پر مل لیتے تھے، چربی مل جاتی تو اسے کھانے میں استعمال کرلیتے تھے _،" ( بخاری)*

[6/14, 11:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( تہجد کی نماز کے وقت ) سو جاتی تھی اور میرے پاؤں آپ کے سامنے سجدے کی جگہ پھیلے ہوتے تھے، جب آپ سجدے میں جاتے تو میرے پاؤں کو ہاتھ لگا دیتے تاکہ میں پاؤں ہٹا لوں اور سجدے کی جگہ بن جائے، لہزا میں پاؤں سکیڑ لیتی، جب آپ سجدے سے فارغ ہو جاتے تو میں پاؤں پھیلا دیتی، اس زمانے میں گھر میں چراغ نہیں تھے_,"* 


*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر سوتے تھے، وہ چمڑے کا تھا، اس میں کھجور کی چھال بھری تھی، جس تکیے پر آپ سہارا لگا کر بیٹھا کرتے تھے، اس میں بھی کھجور کی چھال ہوتی تھی_,"* 

*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک گھر میں کپڑے بھی زیادہ نہیں تھے، بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ کا کپڑا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے پاک کیا تو آپ اسی کو پہن کر مسجد میں نماز کے لیے تشریف لے گئے، یعنی ابھی وہ کپڑا گیلا ہوتا تھا _,"*


*★_ حضرت نافع رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :- میں شام اور مصر کا مال دوسرے علاقوں میں تجارت کے لیے لے جاتا تھا، ایک مرتبہ عراق میں گیا، واپس آیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتایا :- میں پہلے تجارت کا سامان لے کر شام جاتا تھا، اس مرتبہ ایراق لے گیا.….. یعنی اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے_," حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:- تم نے ایسا کیوں کیا، تجارت کے لئے اپنا سابقہ علاقہ کیوں چھوڑتے ہو، میں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب اللہ جل شانہٗ تمہارے لئے کسی ذریعے رزق کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں تو جب تک وہ سبب خود ہی بدل نہ جائے یا دوسرا رخ اختیار نہ کر لے تو اسے نہ چھوڑو_,"* 


*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ان چیزوں کی فضیلت حاصل ہے :- نکاح سے پہلے جبریل علیہ السلام میری تصویر لے کر آنحضرت صلی وسلم کے پاس آئے، میرے علاوہ اور ایسی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں آئی جس کے ماں باپ دونوں نے ہجرت کی ہو، اللہ تعالی نے آسمان سے میری برأت نازل فرمائی ( یعنی مجھ پر لگنے والے الزام کو جھوٹا قرار دیا ) ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حالت میں وحی آتی تھی کہ میں آپ کے ساتھ لحاف میں لیٹی ہوتی تھی، آپ صلی اللہ وسلم نے اس حالت میں وفات پائی کہ آپ میری گردن اور گود کے درمیان میں تھے اور دن میری باری کا تھا اور میرے ہی گھر میں دفن ہوئے، میں نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا، میں آنحضرت صل وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت میرے اور فرشتوں کے علاوہ وہاں کوئی موجود نہیں تھا _," (الاصابہ )*


*★_ آنحضرت صل وسلم فرماتے ہیں :- عائشہ کی فضیلت عورتوں میں ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے _," ثرید کو عرب میں تمام کھانوں میں فضیلت حاصل تھی، روٹی کو شوروے دار گوشت میں پکایا جاتا تھا، اسے ثرید کہتے ہیں _,"*

[6/14, 11:48 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک روز جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کیا، آپ صل وسلم نے ارشاد فرمایا :- اے عائشہ ! یہ جبرائیل ہیٹ، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں _," آپ نے جواب میں فرمایا :- وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ _,"*


*★_آپ اکثر روزے رکھتی تھیں، نفل نمازیں بھی بہت پڑھتی تھیں، چاشت کی نماز کا خاص خیال رکھتی تھیں، آپ چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں :- میرے ماں باپ بھی اگر قبر سے اٹھ کر آ جائیں، تب بھی میں اس نماز کو نہیں چھوڑوں گی _,"*


*★_ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمتہ اللہ صبح کے وقت گھر سے نکلتے تو سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر جاتے اور انہیں سلام کرتے، یہ ان کے بھائی کے بیٹے تھے، ایک مرتبہ وہاں گئے تو دیکھا کہ آپ کھڑی نفل پڑھ رہی ہیں، میں ان کے سلام پھیرنے کے انتظار میں کھڑا رہا.. یہاں تک کہ تھک گیا اور آپ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا آیا، میں نے دیکھا وہ اس وقت رو رہی تھیں _," ( صفتہ الصفوة )*


*★_ آپ حضور نبی کریم صلی اللہ وسلم کے ساتھ بھی تہجد پڑھی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اس کا اہتمام کرتی رہیں _," ( مسند احمد )* 

*"_ آپ کثرت سے روزے رکھتی تھیں، ایک مرتبہ نو ذی الحجہ کو روزے سے تھیں، سخت گرمی کی وجہ سے سر پر پانی کے چھینٹے دے رہی تھیں، آپ کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھ کر عرض کیا :- اس شدید گرمی میں نفلی روزہ کوئی ضروری نہیں.. افتار کر لیں _," ( یعنی روزہ توڑ دیں) اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :- حضور نبی کریم صل وسلم نے فرمایا ہے، عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں _," ( مشکوة )*


*★_ شریعت نے جن چیزوں سے منع کیا ہے، آپ ان میں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی بچتی تھیں، راستے میں گھنٹی کی آواز آجاتی تو رک جاتی تاکہ آواز کانوں میں نہ آئے _, نیکیوں کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ برائیوں سے روکتی بھی تھیں, آپ نے ایک مکان کرائے پر دیا، کرایہ دار کے بارے میں آپ کو معلوم ہوا کہ وہ شطرنج کھیلتا ہے، آپ نے کہلوا بھیجا :- اس حرکت سے باز آجاؤ.... ورنہ مکان سے نکلوا دوں گی _,"*

[6/20, 7:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ ایک روز آپ کی مشہور شاگرد حضرت معاذہ عدویہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا :- یہ کیا بات ہے کہ عورتوں کی نمازیں خاص ایام میں چھوٹ جاتی ہیں وہ نہیں پڑے جاتی اور جو روزے چھوٹ جاتے ہیں وہ رمضان کے بعد رکھے جاتے ہیں_," اس سوال کے جواب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- اے معاذہ ! کیا تو آزاد خیال ہو گئی ہے _," ( اسلام کو اپنی سمجھ کا تابع کرنا چاہتی ہے اور اسلام کے احکامات کو سمجھے بغیر ماننا پسند نہیں کرتیں),* 

*"_ آپ کا مطلب یہ تھا کہ دین کو عقل کے تابع نہیں کرنا چاہیے... جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ گمراہ ہیں،*


*★_ شریعت میں بعض اوقات وضو یا غسل کی جگہ تیمم کیا جاتا ہے، امت کے لئے اس میں بہت آسانی ہے،... یہ تیمم کا حکم بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے نازل ہوا, واقعے کی تفصیل یہ ہے، آپ فرماتی ہیں:-*

*"_ ہم رسول اللہ صلی وسلم کے ساتھ سفر میں گئے، بہت سے مسلمان ساتھ تھے، رات کے وقت مقام بیدا میں قیام کیا گیا، وہاں میرے ہار کی لڑی ٹوٹ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈنے کا حکم فرمایا، اس طرح نماز میں دیر ہوگئی اور وہاں پانی نہیں تھا، یعنی ہار گم نہ ہوتا تو سب لوگ آگے روانہ ہو جاتے اور پانی مل جاتا، اس پر کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے :- "_ آپ دیکھ رہے ہیں۔... آپ کی بیٹی نے کیا کیا, ان کے ہار کی وجہ سے آپ صل وسلم نے سب کو روک لیا ہے... اور یہاں قریب کہیں پانی نہیں ہے_,"*


*★_ ان کی ہی بات سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور آپ کو ڈانٹنے لگے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ کمر میں کچوکے بھی مارے، اس وقت آنحضرت صلی وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ران پر سر رکھے سو رہے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس خیال سے حرکت تک نہ کی کہ آپ کی آنکھ کھل جائے گی اور آپ بے آرام ہوں گے، آپ سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی موجود نہیں تھا، لہزا اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرما دی، سب نے تیمم کیا اور نماز ادا کی، یہ سب دیکھ کر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ خوشی سے پکارے :- اے ابوبکر کے گھر والوں ! تم واقعی بہت برکت والے ہو، یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے _," یعنی پہلے بھی تم لوگوں کی وجہ سے برکتیں نازل ہو چکے ہیں _,* 


*★_ پھر جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والے اونٹ کو اٹھایا گیا تو آپ کا ہار اس کے نیچے سے مل گیا، اس طرح امت کو تیمم کی سہولت ملی،*

[6/20, 8:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :- "_ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر قرآن کا علم رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا, نہ اسلام کے فرائض, حلال و حرام کا جاننے والا اور عرب کے واقعات کا جاننے والا آپ سے بڑھ کر کوئی دیکھا, آپ اہل عرب کے نسب کی بھی سب سے زیادہ واقف تھیں _,"*

 *"_ اس کے علاوہ آپ حکمت بھی جانتی تھیں, لوگوں کو امراض کی دوائیی بتا دیتی تھیں،*.


*★_ اسی لیے ایک مرتبہ حضرت عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- اے اماں جان ! مجھے آپ کے فقیہ ہونے پر حیرت نہیں کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترم ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور نہ مجھے آپ کی شعردانی پر اور عرب کے واقعات سے واقفیت پر حیرت ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت میں آپ نے یہ سب سیکھ لیا، لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آپ کو طب سے کیوں کر واقفیت ہوگئی _,"* 

*"_ اس سوال کے جواب میں آپ نے حضرت عروہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا :- عروہ بیٹا ! طب میں نے اس طرح سیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر میں بیمار ہوجاتے تھے اور لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علاج کے طریقے اور دعائیں بتاتے تھے اور میں ان کے ذریعے آپ کا علاج کرتی تھی _,"*


*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہایت سخی تھیں، ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کا بھی سخاوت میں بہت بڑا درجہ تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- "_ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء سے بڑھ کر کوئی سخی عورت نہیں دیکھی، لیکن دونوں کی سخاوت میں ایک فرق یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھوڑا تھوڑا جمع کرتی رہتی تھیں، یہاں تک کہ جب کافی مقدار جمع ہوجاتی تو ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتی تھیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ کل کے لئے کچھ بچا کے نہیں رکھتی تھیں _,"* 


*★_ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتے ہیں :- "_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک روز 70 ہزار کی مالیت ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دی اور اپنا حال یہ تھا کہ تقسیم کرتے وقت آپ کے کرتے میں پیوند لگے ہوئے تھے _,"*

[6/20, 8:22 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک تھالی میں سچے موتی بھر کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجے، ان کی قیمت ایک لاکھ روپے تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ ہدیہ قبول کر کے اپنے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں تقسیم فرما دیا _,"*


*★_ ایک روز آپ کا روزہ تھا، اسی روز آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو بورے بھر کر ہدیہ کے طور پر بھیج دیے، اس مال کی مالیت دو لاکھ کے قریب تھی، آپ اسی وقت تقسیم کرنے بیٹھ گئیں، جب شام ہوئی تو اس میں سے ایک درہم بھی باقی نہیں بچا، روزہ افطار کرنے کا وقت آیا تو خادمہ سے فرمایا :- "افطار کے لئے کچھ لاؤ _," وہ زیتون کا تیل اور روٹی لے آئیں، اس وقت آپ کے پاس ایک خاتون ام ذرہ بیٹھی تھیں، ان کا بھی روزہ تھا، وہ بول اٹھیں :- "_ آپ نے آج اتنا مال تقسیم کیا اس میں سے ایک درہم اپنے لیے بھی رکھ لیا ہوتا، اس کا گوشت منگا لیتے، اس سے ہم افطار کر لیتے _,"*

*"_ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- اب کہنے سے کیا ہوتا ہے، اس وقت یاد دلایا ہوتا تو میں رکھ لیتی _,"*


*★_ ایک واقعہ آپ خود بیان فرماتی ہیں:- ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں، اس نے سوال کیا، اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں تھا، میں نے وہی اسے دے دی، اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کو دے دیا، خود نہ لیا، اس کے بعد چلی گئی، تھوڑی دیر بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم زنان خانے میں تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا :-*

*"_ جو شخص ان بچیوں کی پرورش میں تھوڑا بہت بھی مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا, تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی _,"*  


*★_ ایک روز آپ کے گھر میں بکری ذبح کی گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر تشریف لے گئے، کچھ دیر بعد تشریف لائے تو دریافت فرمایا :- بکری کا کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- " وہ تو صدقہ کر دی گئی، بس ایک دستی بچی ہے _,"*

*"_ اس پر آپ نے فرمایا :- واقعہ یہ ہے کہ اس دستی کے علاوہ سب کچھ بچا ہوا ہے ؟", مطلب یہ تھا کہ جو اللہ کے راستے میں دے دیا، باقی تو وہی ہے، اور جو ہمارے پاس ہے اسے تو باقی کہنا درست نہیں _,*

[6/23, 5:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ اللہ تعالی سے بہت زیادہ ڈرنے والی، آخرت کی بہت فکر کرنے والی تھیں، ایک مرتبہ دوزخ کا خیال آگیا تو رونے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا تو بولیں :- دوزخ کا خیال آگیا، اس لئے رو رہی ہوں _,"*

*"_ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگیں:- اے اللہ کے رسول ! جب سے آپ نے منکر نکیر کی ہیبت ناک آواز کا اور قبر کے بھینچے جانے کا ذکر فرمایا ہے، اس وقت سے مجھے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی، دل کی پریشانی دور نہیں ہوتی _,",* 

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- اے عائشہ ! منکر نکیر کی آواز کا مومن کے کانوں کو دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے کسی کے سر میں درد ہو اور اس کی شفیق ماں اس کے سر کو آہستہ آہستہ دبائے اور وہ اس سے راحت پائے _,"*


*★_ پھر آپ نے فرمایا :- اے عائشہ ! اللہ کے بارے میں شک کرنے والوں کے بارے میں بڑی خرابی ہے اور وہ قبر میں اس طرح بھینچے جائیں گے جیسے انڈے پر پتھر رکھ کر دبا دیا جائے _,"*


*★_ آپ فرماتی ہیں کہ ایک روز آپ کے گھر میں ایک یہودی عورت آئی، اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا، ساتھ ہی اس نے کہا :- اللہ تعالی تجھے قبر کے عذاب سے پناہ میں رکھے _,"*

*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو میں نے آپ سے پوچھا :- اے اللہ کے رسول ! کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا :- قبر کا عذاب حق ہے _," اس کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے لگے _,"* 


*★_ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی خالہ کی بے پناہ سخاوت کو دیکھ کر ایک دن کسی سے یوں کہہ دیا :- یا تو وہ اس طرح خرچ کرنے سے رک جائیں ورنہ میں ان کا ہاتھ روک دوں گا_,"*

*"_ یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک بھی پہنچ گئی، آپ نے فرمایا :- اچھا ؟ عبداللہ نے ایسا کہا ہے_," حاضرین میں سے کسی نے کہا :- جی ہاں ! انہوں نے ایسا ہی کہا ہے_," یہ سن کر آپ نے فرمایا :- "_ میں نے نذر مان لی، زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے کبھی نہیں بولوں گی _,"*

*"_ اس کے بعد ایک مدت سے بول چال بند رکھں، پھر کچھ حضرات درمیان میں پڑے، تب کہیں جا کر بولنا شروع کیا، آپ چونکہ نذر مان چکی تھی اور نثر نذر کے ٹوٹنے پر ایک غلام آزاد کرنا پڑتا ہے، اس لیے ایک غلام آزاد کر دیا، لیکن خوف خدا کا عالم یہ تھا کہ ایک غلام آزاد کرنے کے بعد بھی بار بار اس سلسلے میں غلام آزاد کرتی رہیں کہ شاید اب خطا معاف ہو جائے، اب معاف ہو جائے _,"*

[6/23, 6:27 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے عمر میں چند سال بڑی تھیں لیکن ان کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بعد میں ہوئی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پہلے آ گئی تھیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی تیاریوں میں حضرت عائشہ صدیقہ نے بھرپور حصہ لیا، ان کا مکان لیپا، بستر لگایا، اپنے ہاتھ سے کھجور کی چھال دھن کر تکیے بنائے، لکڑی کی الگنی تیار کی تاکہ اس پر پانی کی مشق اور کپڑے لٹکائے جائیں، آپ خود بیان کرتی ہیں :- فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیاہ سے اچھا میں نے کوئی بیاہ نہیں دیکھا _,"*


*★_ شادی کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جس گھر میں گئیں، اس میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، درمیان میں ایک دریچہ تھا، اس دریچے سے آپس میں بات چیت ہو جاتی،*

*"_ حدیث کی کتابوں میں کوئی صحیح واقعہ ایسا نہیں جس سے ثابت ہو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل آپس میں صاف نہیں تھے، احادیث سے یہی ثابت ہے کہ دونوں میں بے حد محبت اور میل ملاپ تھا_,"*


*★_ ایک تابعی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا_," حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- فاطمہ _,"*.

*"_ پھر فرمایا :- میں نے فاطمہ سے زیادہ اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا کسی اور کو نہیں دیکھا، جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چوم لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے _," ( مسلم)*


*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- ایک دن ہم سب بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آ گئیں، ان کی چال بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چال تھی، ذرا بھی فرق نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عزت سے ان کو پاس بٹھا یا، پھر دبی آواز میں ان کے کان میں کچھ فرمایا، وہ سن کر رونے لگیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیقراری دیکھ کر پھر کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں،* 

*"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے ان سے کہا :- فاطمہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف تم سے راز کی باتیں کہتے ہیں اور تم روتی ہو_,"*.

*"_ پھر جب آپ صلی اللہ وسلم وہاں سے چلے گئے تو میں ان سے پوچھا :- فاطمہ ! آپ صل وسلم کیا فرما رہے تھے؟ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں :- "_میں باپ کا راز نہیں کھولوں گی_,"*

*"_ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو میں نے دوبارہ کہا :- فاطمہ ! میرا تم پر جو حق ہے, میں تمہیں اس کا واسطہ دیتی ہوں, اس دن کی بات مجھ سے کہہ دو_,"*

*"_ انہوں نے جواب دیا :- ہاں ! اب یہ ممکن ہے, میرے رونے کا سبب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلد وفات کی اطلاع دی تھی، اس پر میں رونے لگی، پھر آپ نے فرمایا، فاطمہ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم تمام دنیا کی عورتوں سے کی سردار بنو _," ( بخاری )* 


*★_ اس حدیث سے حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی آپس کے محبت بھرے تعلقات ثابت ہوتے ہیں اور یہ واقعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے آخری حصے کا واقعہ ہے، اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان میں تو آپس میں ناراضگی تھی وہ بالکل غلط کہتے ہیں، اسی طرح وراثت وغیرہ کے معاملات نے ان پاک نفوس کو کوئی رنج و غیرہ نہیں پہنچایا تھا، ۔ یہ مقدس ہستیاں کیا زمین و جائیداد کے لیے جھگڑتیں، ہرگز نہیں _,*

[6/28, 8:58 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کی سب سے زیادہ دردناک واقعہ کی تفصیل بیان کرتی ہیں، آنحضرت صلی وسلم جب کسی سفر پر جاتے تو ازواج مطہرات میں قرعہ اندازی فرماتے، قرعہ اندازی میں جن کا نام نکل آتا آپ سفر میں انہیں ساتھ لے جاتے، شعبان پانچ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ وسلم غزوہ بنی مصطلق کے لئے روانہ ہوئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی، منافقوں کو اندازہ تھا کہ اس غزوے میں کوئی خوں ریز جنگ نہیں ہوگی چنانچہ ان کی اچھی خاصی تعداد اسلامی لشکر میں شامل ہو گئی، اس سے پہلے منافق لوگ اتنی بڑی تعداد میں اسلامی لشکر میں کبھی شامل نہیں ہوئے تھے _,"*


*★_ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام قرعہ نکلا تھا، لہذا آپ ساتھ تھیں، روانہ ہوتے وقت آپ نے اپنی بڑی بہن اسماء رضی اللہ عنہا کا ہار پہننے کے لیے لے لیا تھا، وہ آپ کے گلے میں تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں، بار بار ٹوٹ جاتی تھیں، اس زمانے میں پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا، اس پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے محمل میں سوار ہوتی تھیں، ڈولی کی قسم کی چیز کو محمل کہتے ہیں، آپ اس میں بیٹھ جاتیں اور محمل کو اونٹ پر رکھ دیا جاتا، اترنے کی ضرورت پیش آتی تو خادم محمل کو اٹھا کر زمین پر رکھ دیتے، اس طرح آپ محمل سے باہر نکل کر اپنی ضرورت سے فارغ ہو لیتیں _,"*


*★_ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر ایک جگہ لشکر نے پڑاؤ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے پچھلے پہر لشکر کو روانگی کا حکم فرما دیا، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم نہیں تھا، قافلہ کے روانہ ہونے سے کچھ دیر پہلے آپ قضاء حاجت کے لئے قافلے سے کچھ دور چلیں گئیں، فارغ ہو کر لوٹیی تو گلے پر ہاتھ رکھ کر ٹٹولا، معلوم ہوا ہار گلے میں نہیں تھا، آپ گھبراہٹ میں اس جگہ سے واپس گئیں اور ہار تلاش کرنے لگیں،*

*"_ بعض روایات میں ہے کہ ہار وہاں ٹوٹ کر گر گیا تھا اور اس کے دانے بکھر گئے تھے، ان دانوں کو جمع کرنے میں آپ کو دیر ہوگئی، جب آپ ہار کی تلاش میں واپس لوٹیں تھیں تو آپ کو اندازہ تھا کہ جلد لوٹ آئیں گی، اس لئے کسی کو نہ بتایا کہ وہ ہار کی تلاش میں جا رہی ہیں، نہ محمل اٹھانے والوں کو بتایا _,"*


*★_ ادھر لشکر روانگی کے لئے تیار تھا، لہذا سار بانو نے محمل اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا، اس زمانے میں آپ دبلی پتلی تھیں، آپ کا وزن بہت کم تھا، اس لئے محمل اٹھانے والوں کو پتہ نہ چلا کہ آپ اس میں نہیں ہیں، ان کا خیال یہی تھا کہ آپ محمل میں ہیں، اس طرح قافلہ وہاں سے آپ کے بغیر روانہ ہو گیا، آپ کو ہار کے دانے مل گئے تو آپ واپس لوٹیں اور یہ دیکھ کر پریشان ہوگیں کہ قافلہ وہاں سے جا چکا تھا، وہاں بالکل سناٹا تھا، آپ نے سوچا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گا کہ میں محمل میں نہیں ہوں تو آپ میری تلاش میں کچھ ساتھیوں کو اسی طرف بھیج دیں گے، یہ سوچ کر آپ نے چادر تانی اور ایک درخت کے نیچے لیٹ گئیں، لیٹتے ہی آپ کو نیند نے آ لیا _,"*

[6/28, 9:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے، ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ قافے کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا... تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے آپ کو پہچان لیا،،*

 *"_ انہوں نے نظر پڑتے ہی "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھا،*.


*★_ ان کی آواز سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی آپ نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی،* 


*★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا -"ماں! سوار ہوجایئے! "*

*"_میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا: -"حَسْبِيَ اللّهُ وَ نِعْمَ الوَكِيْل." (اللہ تعالٰی کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے) پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ دوپہر کا وقت تھا،,*                    

 

*★_ اس اہم ترین واقعے میں اور بھی بہت سی حکمتیں موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی کتاب نہیں ہے، ورنہ ایک ماہ تک اپنی زوجہ محترمہ کو اور ان کے ماں باپ کو رلانے کی کیا ضرورت تھی، آپ فوراً ہی فرما دیتے کہ یہ بہت بڑا بہتان ہے، بلکہ یہ اعلان اللہ تعالی کی طرف سے تقریباً ایک ماہ بعد ہوا _,*


*★_ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو وحی نازل ہوتی تھی، اسے چھپانے کا اختیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا، جو کچھ نازل ہوتا تھا، وہ آپ دوسروں کو سناتے تھے، لہذا یہ پورا واقعہ مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر ہے_,"* 


*★_ یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام چھپی اور غائب باتوں کا، ہر ہر چیز کا علم نہیں تھا، یہ جاہلوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اور ولی سب کچھ جانتے ہیں، صحیح عقیدہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہے یہ ہے کہ عالم الغیب ہر شے کا علم رکھنے والا صرف اللہ تعالی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق سے زیادہ علم عطا کیا تھا مگر عالم الغیب نہیں بنایا تھا، اگر عالم الغیب ہوتے تو اتنے دنوں تک وحی کا انتظار کیوں فرماتے _,"*


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے تمام ازواج مطہرات کے پاس بیٹھے تھے، اس معمول میں قدرے فرق اس طرح آیا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ زیادہ وقت کے لئے بیٹھنے لگے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں کہیں سے شہد آ گیا، آپ کو چونکہ شہد بہت پسند تھا، اس لئے حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کو شہد پیش کرتی تھیں، سو اس وجہ سے قدرے زیادہ وقت لگ جاتا تھا _,"*


*★_ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کا ذکر کیا اور مشورہ کیا کہ اس سلسلے میں کوئی تدبیر کرنی چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت نفاست پسند تھے، ذرا سی بو بھی آپ کو ناگوار گزرتی تھی اور شہد کی مکھیاں جس قسم کے پھولوں سے رس چوستی ہیں، شہد کی مٹھاس میں اس قسم کے پھولوں کی لذت اور بو ہوتی ہے، عرب میں ایک پھول کا نام مغافیر ہے، یہ قدرے تیز بو والا پھول ہے، شہد کی مکھیاں عام طور پر وہاں اس پھول پر بیٹھتی ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو سمجھا دیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو پوچھنا چاہیے کہ آپ کے منہ سے یہ بو کیسی آ رہی ہے، ‌ جب آپ کو بتائیں کہ شہد کھایا ہے تو کہنا چاہیے کہ اس میں مغافیر کی بو ہے، ایسا ہی کیا گیا، جب آپ کو معلوم ہوا کہ منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا :- ٹھیک ہے ! اب میں شہد نہیں کھاؤں گا _,"*


*★_ اس پر اللہ تعالی نے فوراً یہ آیت نازل فرمائی :- "_ اے پیغمبر ! اللہ نے آپ کے لئے جو حلال کیا ہے، اسے اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو، اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور اس نے آپ کی قسم کا کفارہ مقرر کر دیا ہے، اللہ تعالی آپ کا مولا اور علم و حکمت والا ہے _," ( سورہ تحریم آیت 10 )*


 *★_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر ابھی صرف 18 سال کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا، 11 ہجری میں ماہ صفر کی آخری تاریخوں میں ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لائے تو آپ کے سر میں درد تھا، وہاں سے آپ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے اور طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے بستر پر لیٹ گئے، تمام بیویوں کو آپ کی طبیعت کی خرابی کی خبر ہوگئی، سب آپ کے گرد جمع ہو گئیں، انہوں نے محسوس کیا کہ آپ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ سب نے خوشی سے اجازت دے دی، آپ وہاں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے آئے اور اس دنیا میں آخری وقت تک پھر وہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتقال کے وقت کی جس قدر بھی روایات ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت کی گئی ہیں _,"*  

      

[7/4, 10:03 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سر درد کے ساتھ آپ کو بخار بھی ہو گیا تھا اور مرض میں روز بروز شدت آ رہی تھی، آپ کی ازواج مطہرات تیمارداری میں لگیں تھیں اور اللہ تعالی سے آپ کی صحت کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا وقت آ چکا تھا، وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک سیدہ عائشہ کی گود میں تھا، آپ فرماتی ہیں :- اچانک مجھے آپ کے بدن کا بوجھ محسوس ہوا، آپ کی آنکھیں دیکھیں وہ کھلی تھیں، میں نے آپ کا سر مبارک تکیے پر رکھ دیا اور رونے لگی _,"*


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا اور یہ جنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہے، ایک مرتبہ سیدہ نے خواب میں دیکھا تھا کہ تین چاند ٹوٹ کر آپ کے حجرے میں آ گرے ہیں، آپ نے اس خواب کا ذکر اپنے والد محترم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا، جب سرکار عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس حجرے میں دفن ہوئے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- "_ تین چاندوں میں سے ایک یہ ہے اور ان میں سب سے بہتر ہے_,"*

*"_ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ دوسرے دو چاند ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی_,"*


*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب آپ بیوہ تھیں، اسی عالم میں آپ نے اپنی زندگی کے پچاس سال بسر کیے، آپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس ہی سوتی رہیں، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو وہاں سونا چھوڑ دیا، تاہم حجرے میں آنا جانا نہ چھوڑا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی اور آپ کو بھی روضہ مبارک میں دفن کیا گیا، اس پر بھی آپ آتی جاتی رہیں اور اندر چہرہ ڈھانک کر نہیں رکھتی تھیں، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور آپ کو وہاں دفن کیا گیا تو پھر آپ پردہ کر کے وہاں آنے لگیں، اس بارے میں آپ فرماتی ہیں :- "_ اب یہاں بے پردہ آتے حیا آتی ہے _,* 


*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے والد بزرگوار کو خلیفہ چنا گیا، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے ایک روز چاہا کہ وراثت حاصل کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجیں، لیکن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یاد دلایا :- "_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں فرمایا تھا, ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑتے ہیں، وہ صدقہ ہوگا _,"*

*"_یہ سن کر سب خاموش ہو گئیں,*

[7/4, 10:22 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دو سال تک خلیفہ رہے، 13 ہجری میں آپ کا انتقال ہو گیا، نزع کے وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھیں، آپ نے ان سے پوچھا :- اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بتایا :- تین سفید کپڑے_,"*

*"_ انہوں نے پوچھا :- آپ نے کس روز وفات پائی تھی ؟ سیدہ نے جواب دیا:- پیر کے روز _,"*

*"_ آپ نے پوچھا:- آج کون سا دن ہے ؟ انہوں نے بتایا :- آج پیر ہے ، اس پر ابو بکر صدیق نے فرمایا :- آج رات تک میرا بھی چل چلاؤ ہے _," پھر فرمایا :- مجھے انہیں کپڑوں میں دفن کیا جائے_," ان سے کہا گیا :- یہ پرانے کپڑے ہیں _," آپ نے فرمایا :- نئے کپڑوں کی ضرورت مردوں کی نسبت زندوں کو زیادہ ہے_," ( بخاری)* 


*★_ آپ اسی روز انتقال کر گئے، آپ کو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا، یہ دوسرا چاند تھا جو آپ کے حجرے میں اتر آیا تھا _,"*


*★_ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تمام ازواج مطہرات کو بارہ ہزار درہم سالانہ دیا جاتا تھا، کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا :- آپ نے ان کے لیے یہ رقم کیوں مقرر کی ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :- یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب اور منظور نظر تھیں _,"*

*"_ عراق فتح ھوا تو مال غنیمت میں موتیوں کی ایک ڈبیہ بھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا :- اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں یہ موتی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دوں، کیونکہ سیدہ عائشہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت محبوب تھیں _,",*

*"_ سب نے خوشی سے اجازت دے دی, چنانچہ ڈبیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دی گئی،* 


*★_ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ آنحضرت صل وسلم کے ساتھ دفن ہوں، لیکن آپ نے اس خواہش کا کبھی اظہار نہیں کیا تھا، جب آپ کا آخری وقت آ پہنچا تب یہ خواہش ظاہر کی اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور ان سے فرمایا :- ام المومنین کو میری طرف سے سلام کہنا اور ارض کرنا، عمر کی خواہش ہے کہ وہ اپنے رفیقوں کے پہلو میں دفن ہو _,"*

*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- وہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی لیکن عمر کی خوشی کے لئے ان کے لئے یہ اجازت دیتی ہوں _,"*

 *"_چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ صدیق رضی اللہ عنہا کے حجرے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا، اس طرح اس حجرے میں تیسرا چاند اتر آیا _,"*

[7/6, 6:44 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ تمام مسلمانوں کی ماں تھیں، مسلمانوں کو ان سے بہت محبت تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنے ایک ماں ہونے کے ناطے بہت اہم کردار ادا کیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں عبداللہ ابن سبا نے اسلامی سلطنت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش شروع کی، یہ شخص یہودی تھا، بس ظاہر میں مسلمان تھا، اس نے سازش کا ایک جال چاروں طرف بچھا دیا، آج تک مسلمان اس سازش کے نقصانات بھگت رہے ہیں_,*


*★_ اس کی سازش کا اصل نکتہ یہ تھا کہ لوگوں میں کہتا پھرتا تھا :- لوگوں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے اصل جانشین دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں وصیت کر دی تھی کہ میرے بعد انہیں خلیفہ بنایا جائے _,*


*★"_ یہ بات لے کر اس نے سارے اسلامی ریاست کا دورہ کیا, ہر طرف یہ بات خوب پھیلائی, اس زمانے میں کوفہ, بصرہ اور مصر میں اسلامی فوج کی بڑی بڑی چھاؤنیاں تھیں, وہاں اس نے زیادہ کوشش کی اور اس نے بہت سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا، حج کا زمانہ آیا تو یہ سب لوگ حجاز پہنچ گئے اور وہاں بھی ان باتوں کو پھیلانے لگے _,*


*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ نے انہیں سمجھایا اور واپس جانے پر آمادہ کر لیا، یہ لوگ چلے تو گئے لیکن کچھ دور جا کر پھر لوٹ آئے، صحابہ کرام کو ان کے دوبارہ آنے کی اطلاع ملی تو فوراً ان کے پاس پہنچے، ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ نے ان سے پوچھا :- کیا بات ہے، تم پھر آگئے ؟*

*"_ اس پر ان میں سے ایک نے کہا :- ہمارے پاس ایک خط ہے, یہ خط مصر کے گورنر کے نام لکھا گیا ہے, اس خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ جب یہ لوگ مصر پہنچیں تو ان کے سرگنوں کو فوراً قتل کر دو، باقیوں کو قید میں ڈال دو اور یہ خط مروان بن حکم کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے _,"*


*★_ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کے ہاتھ سے لکھوایا ہے، مروان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے، اس خط پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مہر بھی لگی ہوئی تھی،* 


*★_ اور اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کو گھیرے میں لے لیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ مجبوراً اپنے گھروں کو لوٹ گئیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ یہ خط انہوں نے نہیں لکھوایا، اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ خط جعلی تھا اور باغیوں نے خود لکھا تھا، سازشی لوگ اس قسم کے کام نہ کریں تو ان پر یقین کون کرے، بہرحال یہ ان کی چال تھی، وہ ہر حال میں عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا چاہتے تھے، تاکہ امت مسلمہ میں خانہ جنگیوں کا آغاز ہوجائے اور آخر کار انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو چالیس روز کے محاصرے کے بعد شہید کردیا _,*

[7/7, 6:53 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حج کے ارادے سے مکہ معظمہ گئی ہوئی تھیں، مدینہ منورہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، ہر طرف بے چینی پھیل گئی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ حج سے فارغ ہو کر مکہ سے نکل چکی تھیں کہ مدینہ منورہ کی طرف سے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما آگئے، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ قریشی ہیں، سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں شامل ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں اور اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف ہیں اور پھر عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، اسی طرح حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں، آپ بھی نبی کریم صل وسلم کے ہم زلف تھے، یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد تھے، صحابی رسول تھے،*


*★_ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو بتایا:- "_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فتنہ پروازوں نے شہید کردیا ہے اور شدید ابتری پیدا ہوگئی ہے، لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے_,"* 

*"_اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:- ہمیں سوچنا ہوگا کہ اب کیا کیا جائے _,"* 

*"_ اب یہ حضرات واپس مکہ معظمہ آ گئے، لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو ان کے ارد گرد جمع ہونے لگے،*


*★_ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قرآن کریم کی آیت تلاوت کی، اس کا ترجمہ یہ ہے :-*

*"_ اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پس اگر ایک جماعت دوسری پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والی جماعت سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے تو دونوں میں صلح کرا دو _," ( سورہ الحجرات :-١.)*


*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو اللہ کا یہ حکم سنایا، آپ بہت بہادر تھیں، آنحضرت صلی اللہ کے زمانے میں بعض غزوات میں شریک رہ چکی تھیں، آپ غزوۂ بدر میں بھی گیں تھیں، غزوۂ احد میں جب مسلمان دشمنوں میں گھر گئے تھے اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ رہے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مشک کاندھے پر ڈال کر زخمیوں کو دوڑ دوڑ کر پانی پلا رہی تھیں، غزوہ خندق میں جب مسلمان گھیرے میں تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا زنانہ قلعے سے نکل کر جنگ کی حالت دیکھا کرتی تھیں _," ( مسند امام احمد)*


*★_ مطلب یہ کہ بہت ہی دلیر تھیں، مسلمانوں کی اصلاح کرنے کی خواہش مند تھیں، اس موقع پر اسی لئے آپ نے یہ آیت تلاوت کی، آپ نے ان سب سے یہ بھی فرمایا :- اللہ کی قسم ! عثمان مظلوم مارے گئے، میں ان کے خون کا بدلہ لونگی، افسوس ادھر ادھر کے آئے ہوئے بلوائیوں نے مدینہ کے غلاموں کے ساتھ ملکر بلوہ کیا، انہوں نے ناحق عثمان کی مخالفت کی، جس خون کو اللہ تعالی نے حرام کیا تھا، انہوں نے اس کو بہایا، جس گھر کو اللہ تعالی نے اپنے رسول کا دارالہجرت بنایا تھا، انہوں نے وہاں خوں ریزی کی اور جس مہینے میں خوں ریزی منع تھی، اس مہینے میں خوں ریزی کی، جس کا مال لینا جائز نہیں تھا، اسے لوٹا، اللہ کی قسم عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی بلوائیوں جیسے تمام لوگوں سے افضل ہے، جس وجہ سے یہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دشمن ہوئے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ اس سے پاک صاف ہیں _,"*

[7/9, 8:18 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عرب کے رئیسوں نے کئی لاکھ درہم اور سواریوں کے اونٹ مہیا کیے، پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قیام گاہ پر جلسہ ہوا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی :- اس وقت چونکہ سبائی لوگ اور باغی مدینہ منورہ ہی میں ہیں، اس لیے ادھر کا رخ کیا جائے _,"*

*"_ اس پر کچھ لوگوں نے مشورے دیے اور آخر طے یہ پایا کہ پہلے بصرہ چلا جائے.. آخر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس قافلے کے ساتھ بصرہ روانہ ہوئیں، امہات المؤمنین اور عام مسلمانوں نے دور تک آ کر اس قافلے کو رخصت کیا، اس وقت وہ لوگ رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے :- آہ ! مسلمانوں پر کتنا نازک وقت آیا ہے _،*


*★_ اس موقع پر کچھ فتنہ پرور لوگ بھی اس جماعت میں شامل ہوگئے، اسلام کو اندر ہی اندر کمزور کرنے والے لوگ شروع سے چلے آرہے تھے، لیکن پہلے انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا، ان کی پہلی کوشش حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی صورت میں کامیاب ہوئی تھی... اور دوسری کوشش تھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی,.. اس کے بعد یہ عناصر اور زیادہ سرگرم ہو گئے, جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فوج لے کر مکے سے نکلی ہیں تو ان کے لئے فوج میں شامل ہونا آسان کام تھا _,*


*★_ آپ مکہ سے روانہ ہوئیں تو ایک بستی کے کتے لشکر پر بھونکنے لگے، اس مقام پر ایک روایت بیان کی جاتی ہے.. پہلے وہ روایت نقل کی جاتی ہے :-*

*"_ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے نہ جانے کون ہوگی جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے_,"* 

*"_ حواب کسی بستی کا نام تھا، ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت وہ بیوی غلطی پر ہو گی، یہ روایت طبری جلد 3 کے صفحہ 475 پر ہے، اس کے بارے میں تین طرح کی باتیں لکھی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ بستی حواب کی ہی تھی مگر لوگوں نے آپ کو یہ معلوم نہیں ہونے دیا، دوسری روایت یہ ہے کہ وہ بستی حواب کی نہیں تھی، تیسری یہ کہ یہ روایت ہے ہی گھڑی ہوئی_,"*  

*"_تینوں صورتوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بے قصور ٹھہری ہیں، اس طرح نکلنا دراصل آپ کا اجتہاد تھا اور ایسا آپ نے سورہ الحجرات کی آیت کے تحت کیا تھا،*


*★_ بعض روایات میں ہے کہ کتوں کا بھونکنا سن کر جب آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی بستی ہے اور آپ کو بتایا گیا کہ یہ حواب کی بستی ہے، تو آپ نے فرمایا :- تب تو میں یہاں سے واپس جاتی ہوں_,"*

*"_ یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- آپ واپس جانا چاہتی ہیں... کیا خبر... اللہ تعالی آپ کے ذریعے لوگوں میں صلح کرا دے _,"*.

*"_کچھ اور لوگوں نے بھی کہا :- بلکہ آپ آگے بڑھیں، مسلمان آپ کو دیکھیں گے تو صلح کر لیں گے_,"*

*"_ بعض روایات میں ہے کہ اس وقت کئی لوگوں نے یقین کے ساتھ کہا کہ یہ بستی کوئی اور ہے، حواب نہیں، ان روایت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس طرح نکلنے کا مقصد صرف مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا تھا، آپ جنگ کے ارادے سے نہیں نکلی تھیں_,*

[7/10, 8:35 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ ایک جماعت کو لے کر نکلیں ہیں، تو آپ مدینہ منورہ سے نکل کھڑے ہوئے، اس وقت کوفہ میں امیر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور پر سکون رہنے کی ہدایت کی_,"* 


*★_ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ فرمایا، ان دونوں نے کوفہ کی جامع مسجد میں تقریر کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بیان کی... اس کے بعد انہوں نے کہا:-*

*"_ یہ سب ٹھیک ہے, لیکن اس وقت اللہ تعالی مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے _,* 


*★_ مسلمان پریشان تھے، ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے، لوگوں کی الجھن یہ تھی کہ ان حالات میں وہ کس کا ساتھ دیں، ایسے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بصرہ کے قریب پہنچ گئیں، بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف تھے، انہوں نے صورتحال معلوم کرنے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا، یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے کہا :- ہمیں بصرہ کے والی عثمان بن حنیف نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کس لیے تشریف لائیں ہیں _,"* 


*★_ ان کی بات کے جواب میں آپ نے فرمایا:- اللہ کی قسم ! مجھ جیسے لوگ کسی بات کو چھپا کر گھر سے نہیں نکلتے اور نہ کوئی ماں اصل بات بیٹوں سے چھپا سکتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ قبائل کے آوارہ لوگوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا... مدینہ حرم محترم ہے، ان لوگوں نے وہاں فتنہ برپا کیا اور فتنہ پروازوں کو پناہ دی، اس بنیاد پر وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ٹھرے، ان باتوں کے علاوہ ان لوگوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، معصوم خون کو حلال جان کر بہایا، جس مال کا انہیں لینا جائز نہیں تھا اسے لوٹا، حرم محترم کی بےعزتی کی، مقدس مہینے کی توہین کی ( یعنی ذوالحجہ میں حضرت عثمان کو شہید کیا) لوگوں کی آبرو ریزی کی.. مسلمانوں کو بے گناہ مارا پیٹا، ان کے گھروں میں زبردستی داخل ہوئے، میں مسلمانوں کو لے کر اس لیے نکلی ہوں کہ لوگوں کو بتاؤ.. ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کیا نقصان پہنچ رہے ہیں، ہم اصلاح کی دعوت لے کر نکلیں ہیں اور اس کا اللہ کے رسول نے ہر چھوٹے بڑے کو حکم دیا ہے، یہ ہے ہمارا مقصد _,"*

[7/11, 7:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان دونوں حضرات نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی ملاقات کی، پھر واپس بصرہ کی والی عثمان بن حنیف کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیا چاہتی ہیں، عثمان بن حنیف نے ان باتوں کا کوئی اثر نہیں لیا اور اپنی فوج لے کر میدان میں آگیئے،* 

*"_ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑی پر اثر تقریر کی، آپ کی تقریر سن کر عثمان بن حنیف کی فوج سے بہت سے آدمی نکل کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف آگئے اور پکار اٹھے :- اللہ کی قسم! آپ ٹھیک کہتی ہیں _,"*


*★_ دوسرے روز دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں، بصرہ والوں کا سالار حکیم نامی ایک شخص تھا، اس نے جنگ شروع کرنے کی کوشش کی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی نیزے تانے خاموش کھڑے تھے، آپ حکیم اور اس کی فوج کو برابر روک رہی تھیں کہ جنگ شروع نہ کرو، ہمارا مقصد جنگ نہیں ہے، ہم اصلاح کے لئے آئے ہیں، پہلے ہماری بات سن لو، آپ کی ان باتوں کے باوجود حکیم باز نہ آیا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی اب بھی ہاتھ روکے کھڑے تھے، ادھر حکیم نے اپنے ساتھیوں کو للکارا، یہ حالات دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم فرمایا اور دوسرے میدان میں لا کھڑا کیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ ہرگز ہرگز جنگ کا نہیں تھا، آپ تو مسلمانوں میں صلح کرانے کی نیت سے نکلی تھیں_,*


*★_ دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ سو آدمی لے کر چلے تھے، آپ کوفہ پہنچے تو سات ہزار آدمی ان کے ساتھ ہو لئے، بصرہ پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد بیس ہزار ہو گئی، ادھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تیس ہزار آدمی تھے، دونوں جماعتیں میدان میں آمنے سامنے خیمہ زن ہو گئیں، ہر مسلمان کا دل ڈر رہا تھا کہ کل تک ان کی تلواریں دشمنوں کے سر اڑاتی رہی تھیں کہیں اب خود اپنوں کے سینوں کو نہ چھلنی کرنے لگیں_,* 


*★_ اب دونوں طرف سے صلح کی کوشش شروع ہوئی، سبائی گروہ کے لوگ دونوں طرف کی فوجوں میں شامل ہو چکے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح بھی صلح نہ ہو تاکہ مسلمان آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور ان کی سازشوں کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملے، جبکہ نیک لوگوں کی پوری پوری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح دونوں گروہوں میں صلح ہو جائے،*


*★_ آخر صلح کی بات چیت شروع ہوئی، دونوں جماعتیں ہی یہ چاہتی تھی کہ جنگ نہ ہو، معاملات بات چیت کے ذریعے طے ہوجائیں، صلح کی بات ابھی جاری تھی، اس بات کی زیادہ امید ہو چلی تھی کہ صلح ہو جائے گی، بات چیت ہوتے ہوتے رات ہو گئی، چنانچہ دونوں فریق اپنے اپنے پڑاؤ میں چلے گئے _,*


*★_ اب کیا ہوا، سبائیوں نے حالات کا رخ دیکھ لیا، اندازہ لگا لیا کہ ان میں صلح کے امکانات روشن ہوچکے ہیں، یہ بات ان کی امیدوں کے بالکل خلاف تھی، وہ تو مسلمانوں میں جنگ کی آگ بھڑکا دینے پر تلے بیٹھے تھے، انہوں نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، اگر مسلمانوں میں صلح ہو جاتی تو پھر تو شامت انہیں کی آتی تھی، لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا وقت آنے سے پہلے مسلمانوں ہی کو کیوں نہ آپس میں لڑا دیا جائے، یہ فسادی لوگ پہلے ہی اپنے پروگرام کے مطابق دونوں طرف کے لشکر میں شریک ہو چکے تھے اور موقع کی تاک میں تھے، اب جو بات چیت روکی گئی اور دونوں لشکر اپنے اپنے پڑاؤ میں چلے گئے، تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹ نے لگے، بس ایسے سبائی لوگوں کے ایک گروہ نے اچانک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فوج پر حملہ کردیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھی یہ سمجھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، اسی طرح کچھ سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج پر حملہ کردیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی یہ سمجھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، بس اس طرح دونوں فریقوں میں جنگ شروع ہو گئی _,"*

[7/11, 8:09 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں تاکہ فوج کو روک سکے اور خون خرابہ نہ ہو، ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی فوج کو روکنے کی کوشش کی لیکن جنگ تو چھڑ چکی تھی، رک نہ سکی، خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں نے آپ کو اونٹ پر سوار دیکھ کر خیال کیا یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جنگ کے لیے تیار ہیں، حالانکہ آپ تو ان سب کو روکنے کے لیے اونٹ پر سوار ہوئیں تھیں، آپ کی فوج میں محمد بن طلحہ سوالوں پر افسر تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدل فوج کے افسر تھے، مجموعی طور پر پوری فوج کی قیادت حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کر رہے تھے،*


*★_ جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:- اے زبیر ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے پوچھا تھا، کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو، تو تم نے عرض کیا تھا، اے اللہ کے رسول ! ہاں میں علی کو دوست رکھتا ہوں، یاد کرو اس وقت تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ایک دن تم اس سے ناحق لڑو گے_," ( مستدرک حاکم )*


*★_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا :- ہاں ! مجھے یاد آگیا_", یہ کہہ کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ لڑائی سے الگ ہوگئے, انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے فرمایا:- اے پیارے بیٹے ! بے علی نے مجھے ایسی بات یاد دلا دی کہ جنگ کا تمام جوش ختم ہوگیا ہے، بے شک ہم حق پر نہیں ہیں، لہذا تم بھی جنگ سے باز آ جاؤ اور میرے ساتھ چلو_,*

*"_ اس پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:- میں تو میدان جنگ سے نہیں ہٹوں گا_,"*

*"_ اس پر وہ اکیلے ہی میدان جنگ سے نکل آئے اور بصرہ کی طرف چل پڑے, ایک سبائی ان کے تعاقب میں لگ گیا اور جب وہ ایک جگہ رک کر نماز ادا کرنے لگے تو انہیں شہید کر دیا _,"*


*★_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ارادہ بھی بدل گیا، وہ بھی میدان جنگ سے نکل آئے، اس حالت میں ایک تیر ان کے پاؤں میں آ کر لگا، زخمی حالت میں یہ وہاں سے نکل آئے، اس زخم سے آپ نے شہادت پائی,*

[7/11, 8:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ میدان جنگ میں عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں نے کئی بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن آپ کے ارد گرد جو جانثار ساتھی تھے، وہ انہیں منہ توڑ جواب دیتے رہے، سبائی لوگ دراصل آپ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے، لیکن کامیاب نہ ہوسکے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی شہید تو ہو رہے تھے لیکن انہوں نے آپ کی حفاظت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹایا، ان کی بہادری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی حیرت میں ڈال دیا، دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت پریشان بھی تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں کی بہادری کی وجہ سے جنگ طول پکڑتی جارہی تھی اور اس طرح دونوں طرف سے مسلمانوں کا نقصان ہو رہا تھا، گویا سبائی گروہوں کی سازش کامیاب ہو رہی تھی،* 


*★_ ایسے میں حضرت علی رضی اللہ انہوں نے سوچا کہ اگر حالت یہی رہی تو نہ جانے نقصان کہاں تک پہنچ جائے، کیونکہ اس وقت حالت یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک ساتھی گرتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ نے اونٹ کی نکیل پکڑ رکھی تھی، وہ زخمی ہوئے تو فوراً ایک اور نے پکڑ لی، اس طرح ایک کے بعد ایک دیگرے ستر آدمیوں نے اپنے آپ کو قربان کر دیا، یہ حالات دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سوچا، جب تک آؤٹ کو نہیں بیٹھا دیا جاتا اس وقت تک خوں ریزی نہیں روک سکے گی، اس لیے آپ کے اشارے پر ایک شخص نے پیچھے سے جاکر اونٹ پر وار کیا، اونٹ زخمی ہو کر بیٹھ گیا، جونہی اونٹ بیٹھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فوج ہمت ہار گئی، جنگ کا فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہو گیا،*


*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عزت اور احترام کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کیا، آپ کے دونوں صاحبزادے انہیں رخصت کرنے ایک منزل تک ساتھ آئے، رخصت کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- میرے بچوں ! ہماری یہ آپس کی کشمکش صرف آپس کی غلط فہمی کا نتیجہ تھی، ورنہ مجھ میں اور علی میں پہلے کوئی جھگڑا نہیں تھا _,"* 

*"_حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کی تائید کی اور فرمایا :- یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم محترم اور ہماری ماں ہیں، ان کی تعظیم اور توقیر ضروری ہے _"،*


*★_ اس طرح رجب کی پہلی تاریخ 36 ہجری کو سیدہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئیں، چونکہ آپ اس جنگ میں اونٹ پر سوار تھیں، اسی لئے مؤرخوں نے اس جنگ کو جنگ جمل کا نام دیا ہے _,*


*★_ مدینہ پہنچ کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے میں آگئیں، اس کے بعد لوگوں کو دین کی باتیں سکھاتی رہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تقریباً چھ سال رہی، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ چھ ماہ تک خلیفہ رہے، پھر انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی، وہ تقریبا 20 سال تک اسلامی مملکت کے تنہا خلیفہ رہے، ان کی خلافت کی مدت کے اختتام سے دو سال پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا، اس وقت آپ کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ تھی، آپ نے 17 رمضان المبارک 85 ہجری میں چند روز بیمار رہ کر کر یا اس دارفانی سے انتقال فرمایا،*

[7/11, 8:41 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر سن کر مسلمان اپنے گھروں سے نکل آئے، آپ کے جنازے میں اس قدر ہجوم تھا کہ رات کے وقت اس سے پہلے کبھی اتنا ہجوم نہیں دیکھا گیا، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جنازہ دیکھ کر فرمایا :- عائشہ صدیقہ کے لئے جنت واجب ہے، کیونکہ یہ حضور علیہ السلام کی سب سے پیاری بیوی تھیں، اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے_,"* 


*★_حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام گورنر تھے کیونکہ مروان ان دنوں عمرے کے لیے مکہ مکرمہ گیا ہوا تھا, اس لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی, قاسم بن محمد بن ابی بکر, عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر, عبداللہ بن عتیق اور عبداللہ بن زبیر یعنی آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا، آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا,*


*★_ مدینہ منورہ میں اس روز قیامت برپا تھی، ہر آنکھ رو رہی تھی، لوگوں نے مدینہ منورہ کے کسی شخص سے پوچھا :- مدینہ کے لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا غم کتنا محسوس کیا_," اس نے جواب دیا :- وہ مسلمانوں کی ماں تھیں، ماں کے مرنے پر جتنا غم ہوتا ہے، اتنا ہی مدینہ کے مسلمانوں کو گم ہوا تھا _,"*


*★_ آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، لیکن آپ کو اس بات کا قطعاَ کوئی ملال نہیں تھا، آپ اس قدر قناعت پسند تھیں کہ صرف ایک جوڑا اپنے پاس رکھتی تھیں، اس کو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کے دل میں اللہ کا خوف کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، بہت جلد رونے لگ جاتی تھیں، ایک بار دجال کا خیال کر کے رونے لگیں،*


*★_ ایک روز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہا، آپ نے ارشاد فرمایا :-*

 *"_ اے ام سلمہ ! مجھے عائشہ کے بارے میں اذیت نہ دو، اللہ کی قسم ! تم میں سے کسی کے بستر میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی سوائے عائشہ کے_," ( مسند احمد 6/ 293)* 


*★_ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے حجرہ مبارک کے دروازے پر پہنچے اور ابھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے والے تھے کہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اونچی آواز میں بات کرتے سنی، پس جب آپ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ کو پکڑ کر بولے :- اے ام رومان کی بیٹی ! تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے بات کرتی ہے _," یہ ہے کہ کر آپ نے انہیں مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور آپ کے درمیان میں آ گئے، جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے، تو آپ نے فرمایا :- دیکھو میں نے تمہارے اور تمہارے باپ کے درمیان میں آ کر تمہیں کیسے بچایا _," ( نسائ، ابو داؤد، مسند احمد)* 


*★_ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- آؤ عائشہ ! دوڑ لگائیں _,"* 

*"_سیدہ آپ کے ساتھ دوڑ پڑیں اور آپ سے آگے نکل گئیں, کچھ مدت بعد ایک اور موقع پر آپ نے انہیں دوڑنے کی دعوت دی، سیدہ آپ کے ساتھ دوڑ پڑیں لیکن اس مرتبہ آپ آگے نکل گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- عائشہ یہ اس روز کی دوڑ کا جواب ہے _," ( ابو داؤد- حدیث نمبر 2578)* 


*★_ ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بدک گیا اور وہ انہیں لے کر ایک طرف کو بھاگ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر بے قرار ہوئے کہ آپ کے منہ سے نکل گیا :- عروساہ _," یعنی ہاے میری دلہن _,*


*★_ ایک مرتبہ کچھ حبشی لوگ کھیل تماشا دکھا رہے تھے، بہت سے مرد اور بچے ان کا کھیل دیکھ رہے تھے، آپ نے سیدہ سے فرمایا :- اے عائشہ ! کیا تم بھی یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- جی ہاں ! چنانچہ آپ نے انہیں اپنے کندھے کی اوٹ سے وہ کھیل دکھایا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا چہرہ آپ کے کندھے پر ٹکا دیا تھا، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :- عائشہ ! تم نے دیکھ لیا_," اس پر سیّدہ بولیں :- اے اللہ کے رسول ! جلدی نہ کریں، میں ابھی اور دیکھنا چاہتی ہوں_,"* 

*"_ جب تک کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سیر نہیں ہو گئیں، اس وقت تک آپ انہیں کھیل دکھاتے رہے _,"* 


*★_ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا اور انہوں نے سیدہ کو سلام کیا _,*

*"_ اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی بےگناہی کے ثبوت میں قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں، اللہ تعالی کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہو ،*


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,6,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

        *⚂ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                 

: *★_سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا_,*


*★_ آپ کا نام سودہ رضی اللہ عنہا تھا، آپ قبیلہ عامر بن موسیٰ سے تھیں، یہ قریش کا ایک مشہور قبیلہ تھا، والد کا نام زمعہ بن قیس تھا، آپ کی والدہ کا نام شموس بنت قیس تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آپ کا نکاح سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوا، سکران آپ کے باپ کے چچا زاد بھائی تھے،* 


*★_ آپ اسلام کے ابتدائی دنوں ہی میں مسلمان ہو گئیں تھیں،  آپ کے شوہر نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا، حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت بھی دونوں میاں بیوی مکہ مکرمہ ہی میں رہے اور کفار کی سختیاں برداشت کرتے رہے، جب مشرکین کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد حبشہ کی طرف ہجرت کے لئے تیار ہو گئی، ان کے ساتھ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند سکران رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی، کئی برس بعد جب یہ واپس لوٹے تو سکران رضی اللہ عنہ کا مکہ مکرمہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا،*


*★_  ایک روایت کے مطابق سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین رہتے تھے، کیونکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی بہت غم خوار تھیں،  آپ کو اس قدر غمزدہ دیکھ کر حضرت عثمان بھی مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا :-  اے اللہ کے رسول ! آپ کو ایک ہمدرد ساتھی کی ضرورت ہے ؟ جواب میں آپ نے فرمایا:-  ہاں !",  آپ کی مرضی معلوم کرکے خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں، انہوں نے وہاں جا کر ان سے کہا :-  اللہ تعالی نے آپ پر خیر و برکت کے دروازے کھول دیے ہیں_,"*

*"_ انہوں نے پوچھا :- وہ کیسے ؟ خولہ رضی اللہ عنہا بولیں، "_ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں آپ کی طرف سے شادی کا پیغام دوں _,"*

*"_ یہ سنتے ہی حضرت سودہ رضی اللہ عنہ نے کہا:-  مجھے منظور ہے لیکن آپ میرے والد سے پوچھ لیں_,"* 


*★_ اب خولہ رضی اللہ عنہا ان کے والد کے پاس گئیں، وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے، انہوں نے سلام کیا تو وہ بولے :-  کون ہے ؟ انہوں نے اپنا نام بتایا  تو وہ بولے :-  خوش آمدید ! کہوں کیسے آئی ہو ؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہ نے کہا :- محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی کے لئے شادی کا پیغام دیا ہے _,"*

*"_ یہ سن کر بوڑھے باپ نے کہا :- ہاں ! محمد بہت کریم ہیں, تمہاری سہیلی کیا کہتی ہے _,"  خولہ بولیں :-  انہیں یہ رشتہ منظور ہے _, " باپ نے کہا :- تب پھر مجھے بھی منظور ہے_,"*

 *"_ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود وہاں تشریف لے گئے، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کے والد نے نکاح پڑھایا، 400 درہم مہر مقرر ہوا _,"*


 *★_ 10 ہجری میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا، اس موقعے پر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ تھیں، آپ بھاری جسم کی تھیں، تیز نہیں چل سکتی تھیں، اس لئے آپ سے اجازت لی کہ مزدلفہ پہلے روانہ ہو جائیں،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اس طرح آپ رضی اللہ عنہا لوگوں سے پہلے مزدلفہ کی طرف روانہ ہو گئیں،*


*★_ ایک روز ازواج مطہرات  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھی تھیں، آپ سے پوچھا گیا :- اللہ کے رسول ! ہم میں سے پہلے کون فوت ہو گا ؟ آپ نے جواب میں فرمایا :- جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے _,"*

*"_ انہوں نے ان الفاظ کا ظاہری مطلب سمجھا اور آپس میں بازو ماپنے لگیں، تو سب سے بڑا اور لمبا ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا، لیکن جب سب سے پہلے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا،  تو اس وقت معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ جو سب سے زیادہ سخی ہے،  اس کا انتقال سب سے پہلے ہوگا _,"*


*★_ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے 22 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کا حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، ان کا نام عبدالرحمان رضی اللہ عنہ تھا،  انہوں نے جنگ جلولا میں شہادت پائی،  نبی کریم صلی اللہ وسلم سے آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی،*


*★_ احادیث کی کتابوں میں آپ سے صرف پانچ احادیث روایت کی گئی ہیں، آپ بلند اخلاق تھیں، اطاعت اور فرماں برداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا،  سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اس فرمان پر اس قدر سختی سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے بھی نہیں گئیں، فرمایا کرتی تھیں :- "_ میں حج اور عمرہ دونوں کر چکی ہوں، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھوں گی_,"*


 *★_ آپ بہت سخی تھیں،  سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بعد آپ باقی ازواج سے زیادہ سخی تھیں،  مال اور دولت سے انہیں بالکل محبت نہیں تھی، جو آتا اللہ کے راستے میں خرچ کردیتی تھیں،*


*★_ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں درہموں سے بھری ایک تھیلی بھیجی،  آپ نے تھیلی لانے والے سے پوچھا :- اس میں کیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ درہم ہیں,  آپ نے وہ تمام درہم اسی وقت تقسیم کردیئے_,*


*★_ آپ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا، کبھی کبھی آپ کی باتوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑتے،  ایک روز کہنے لگیں :-  کل رات میں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی، آپ نے اس قدر دیر تک رکوع کیا کہ مجھے نکسیر پھوٹنے کا شبہ ہو گیا، میں دیر تک ناک پکڑے رہی _," یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے،*


*★_ آپ ذرا عمر رسیدہ ہو گئیں تو آپ کو خوف محسوس ہوا، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں طلاق نہ دے دیں، اس خوف کی بنا پر آپ نے عرض کیا :-  اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے طلاق نہ دیں، میں اپنی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں_," چنانچہ آپ نے اپنی باری سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دے دی،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات منظور کر لی،*


*★_ آپ بہت عبادت گزار تھیں،  آپ کے حالات کتابوں میں زیادہ نہیں ملتے،  اللہ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,*                


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم ,

* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

        *⚂ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                           

                     ★ *پوسٹ–67_* ★

    ─━━━════●■●════━━━─

*❀_ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نبوت کے اعلان سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں، آپ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں، آپ کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون تھا، یہ مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، خود بھی صحابیہ تھیں، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بڑی بہن ہیں،* 


*★_ آپ جوان ہوئیں تو آپ کا پہلا نکاح خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، دونوں نے اچھے میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہیں، اس طرح سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بھی ماں باپ کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئی تھیں، آپ کے شوہر خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی مسلمان تھے، مطلب یہ ہے کہ جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ہوش سنبھالا، اس وقت اسلام کا نور پھیلنے لگا تھا ،*


*★_ پھر اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حکم ملنے ہجرت شروع کی، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی،*


*★_ مدینہ منورہ میں ان کی زندگی خوشگوار گجر رہی تھی کہ 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا، حضرت خنیس رضی اللہ عنہ نے بھی غزوہ بدر میں شرکت کی، میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے، اس جنگ میں انہیں گہرے زخم آئے، انہی زخموں سے انہوں نے شہادت پائی،* 


*★_ بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے غزوہ احد میں بھی شرکت کی تھی اور غزوہ احد میں جو زخم آئے تھے، شہادت ان سے ہوئی تھی_,*    


[7/19, 6:47 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے لئے فکرمند ہوگئے، وہ چاہتے تھے بیٹی کا نکاح کر دیں، انہیں دنوں آنحضرت صل وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا، یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں،  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک دن بہت غمگین دیکھ کر پوچھا :-  بھائی عثمان ! کیوں غمگین ہیں ؟ انہوں نے فرمایا :-  میرے غمگین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان سسرالی رشتہ تھا، وہ ختم ہوگیا ہے _,"* 


*★_ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے :-  اگر آپ پسند کریں تو میں اپنی بیٹی حفصہ کی شادی آپ سے کرنے کے لئے تیار ہوں_,"*

*"_ انہوں نے جواب میں کہا :- میں اس معاملے پر غور کروں گا _،"  یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-  اچھی بات ہے ! آپ غور کرکے مجھے بتا دیں _,"* 

*"_ چند روز بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس رشتے پر تیار نہیں، اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملے، آپ نے ان سے بھی یہی کہا :- اے ابو بکر ! اگر آپ پسند کریں تو میں اپنی بیٹی کا رشتہ آپ سے کرنے کے لئے تیار ہوں _,"*


*★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی بات سن کر خاموش ہو گئے اور انہوں نے کوئی جواب نہ دیا، اس پر انہیں رنج محسوس ہوا، اس کے بعد خود آنحضرت صل وسلم نے خود سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش ظاہر کی اور اس طرح ان کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا_,"*


*★_ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-  اے عمر ! چند دن پہلے تم نے مجھے اپنی بیٹی حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی تھی اور میں تمہاری بات سن کر خاموش رہا تھا اور تمہیں میری خاموشی ناگوار گزری تھی، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیوں خاموش رہا تھا، چند دن پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا اور میں آپ کے راز کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح نہ کرتے تو پھر میں اس کے لئے تیار تھا_," ( بخاری )*


*★_ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو انکار کیا تھا، وہ اس وجہ سے تھا کہ ان دنوں ان کی خواہش آنحضرت صلی وسلم کی دوسری بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کی تھی، ورنہ وہ انکار نہ کرتے، اس طرح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا، یہ نکاح 2 ہجری میں ہوا،  ایک روایت 3  ہجری کی بھی ہے،*

[7/22, 8:38 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نکاح کے بعد حفصہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہنے لگیں، آپ کی ازدواجی زندگی بہت خوشگوار تھی، آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں، اس لئے مزاز میں قدر تیزی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار انہیں رجعی طلاق (1 قسم کی ہلکی طلاق)  دے دی لیکن دوسرے ہی دن جبرائیل علیہ السلام آگئے، انہوں نے اللہ کا یہ پیغام آپ کو پہنچایا :-*

*"_ اے اللہ کے رسول ! عمر پر شفقت فرماتے ہوئے حفصہ کو اپنے نکاح میں رکھیں،  یہ بہت زیادہ روزے رکھنے والی ہیں، راتوں کو بہت نماز پڑھنے والی ہیں اور یہ جنت میں بھی آپ کی بیوی ہوں گی _,"*


*★_ چنانچہ اللہ کے حکم کے مطابق آپ نے طلاق واپس لے لی،  مطلب یہ کہ اللہ تعالی کے نزدیک ان کا اتنا مرتبہ تھا _,*


*★_ آپ نے شعبان 45 ہجری میں وفات پائی، وہ زمانہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا تھا، گورنر مدینہ مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی،  آپ کے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادوں عاصم رحمۃ اللہ, سالم رحمتہ اللہ، عبداللہ رحمتہ اللہ اور حمزہ رحمۃ اللہ نے آپ کو قبر میں اتارا _,*


*★"_بعض روایات میں وفات 41 ہجری میں بھی آئی ہے،  وفات کے وقت آپ کی عمر 63 سال کے قریب تھی،  وفات کے  وقت آپ نے اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر وصیت فرمائی، اس وصیت میں آپ نے اپنی زمین صدقہ کردی،  یہ زمین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی نگرانی میں دی تھی،*


*★_ آپ نے نہایت عالم فاضل اور علم و کمال کی مالک تھیں، آپ نے تقریبا 60 احادیث روایت کی ہیں، آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، آپ بہت روزے دار اور راتوں کو جاگنے والی تھیں، یہاں تک کہ انتقال کے وقت بھی روزے سے تھیں، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,"*  


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

  *⚂ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                 

*❀_ سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا _,"*


*★_ آپ کا نام زینب تھا، والد کا نام خزیمہ بن حارث تھا، زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کو ام لمساکین کہا جاتا تھا، یعنی مسکینوں کی ماں _,"* 


*★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے سیدنا عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، سیدنا عبداللہ بن جحش تین ہجری میں غزوہ احد میں شہید ہو گئے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے نکاح فرمایا، آپ بہت رحم دل اور سخی تھیں، غریبوں اور مسکینوں کو کھلے دل سے کھانا کھلاتی تھیں، اسلام لانے سے پہلے بھی آپ کا یہی معمول تھا، آپ کا انتقال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں تیس سال کی عمر میں ہوا _,"*


*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صرف چند ماہ ہی گزار سکیں، آپ کی وفات ربیع الآخر کے مہینے کی آخری تاریخوں میں ہجرت سے تین سال تین ماہ بعد ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نمازے جنازہ پڑھائی، آپ سب سے کم مدت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں _,"*


*★_ تاریخ کی کتابوں میں آپ کے زیادہ حالات نہیں ملتے، اللہ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,"*



         

*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,122,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

      *⚂ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                   *★_ آپ کا نام ہند تھا، ام سلمہ آپ کی کنیت ہے، آپ کا تعلق قریش کے خاندان بنو مخزوم سے تھا، آپ کے والد ابو امیہ مکہ مکرمہ کے بہت بڑے سخی آدمی تھے، تاجر تھے اور بہت دولت مند تھے، اس لحاظ سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بہت خوش حال گھرانے میں پرورش پائی تھی،* 


*★_ آپ کا پہلا نکاح عبداللہ بن عبد الاسد سے ہوا، وہ ابو سلمہ کے نام سے مشہور تھے، یہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے، ان کی والدہ کا نام برہ بنت عبدالمطلب تھا، اس لحاظ سے وہ رشتے میں آپ کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے آپ کے یہاں چار بچے پیدا ہوئے ،* 


*★_ آپ اسلام کی ابتدا ہی میں اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئی تھیں، گویا دونوں میاں بیوی سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں شامل ہیں، دونوں نے حبشہ کی دونوں ہجرتیں کیں، بلکہ ان دونوں نے سب سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، کچھ عرصہ حبشہ میں گزار کر دونوں میاں بیوی واپس مکہ آگئے، وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ،* 


*★_ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ جب حبشہ سے مکہ پہنچے تو قریش مکہ نے آپ پر ظلم شروع کر دیا، ان کے ظلم سے تنگ آکر آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، آپ مدینہ پہنچے تو وہ محرم کی دس تاریخ تھی، عمرو بن عوف کے خاندان نے انہیں اپنا مہمان بنایا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت نہیں کر سکی تھیں، انہوں نے بعد میں ہجرت کی،*    


[7/25, 11:37 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو لے کر مکہ معظمہ سے نکلے، تاکہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر سکیں، لیکن ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے ان کے راستے میں آ گئے اور بولے :- تم اکیلے مدینہ منورہ جا سکتے ہو، ہماری بیٹی کو ساتھ نہیں لے جاسکتے _,"*


*★_ یہ لوگ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو زبردستی واپس لے گئے، اس طرح ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہجرت کی، ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی گود میں اس وقت ان کا دودھ پیتا بچہ سلمہ تھا، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے اپنے بچے کو ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے چھین کر لے گئے، اب ایک طرف وہ شوہر سے جدا کر دی گئیں، تو دوسری طرف اپنے بچے سے محروم کر دی گئیں، ان پر تو گویا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، گھر سے باہر صحرا میں نکل جاتیں اور رویا کرتیں، کئی دن روتی رہیں، پھر ایک شخص کو ان پر ترس آیا، اس نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہا :- تم اس غریب پر کیوں ظلم کرتے ہو، اس کا بچہ اسے دے دو اور اسے مدینہ اپنے شوہر کے پاس جانے دو _,"*


*★_ آخر سب لوگوں نے یہ بات مان لی، اب یہ اپنے بچے کو لے کر اونٹ پر سوار ہوئیں اور مدینہ کی طرف چل پڑیں، ساتھ کوئی مرد نہیں تھا، بالکل تنہا تھیں، تنعیم کے مقام پر پہنچیں تو انہیں حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ ملے، یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، خانہ کعبہ کے چابی بردار تھے، انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا، کیونکہ ان کے خاوند ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے، انہوں نے پوچھا:- کہاں کا ارادہ ہے ؟ ام سلمہ بولیں :- مدینہ منورہ کا, انہوں نے پوچھا :- کوئی ساتھ ہے؟ انہوں نے جواب دیا:- اللہ ساتھ ہے یا یہ بچہ _,"*


*★_ اس پر حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:- یہ نہیں ہو سکتا, تم تنہا نہیں جا سکتیں, یہ کہ کر اونٹ کی مہار پکڑی اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ راستے میں کہیں ہیں رفع حاجت وغیرہ کے لئے ٹھہرنا پڑتا تو عثمان اونٹ کو بٹھا کر دور کسی درخت کی اوٹ میں چلے جاتے، تب میں نیچے اترتی، روانگی کا وقت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر پھر دور چلے جاتے اور مجھ سے کہتے :- سوار ہو جاؤ، آپ فرماتی ہیں :- میں نے پوری زندگی میں اتنا شریف انسان نہیں دیکھا _," مختصر یہ کہ مختلف منزلوں پر قیام کرتے ہم مدینہ پہنچے، جب قبا کی آبادی پر نظر پڑی تو بولے :- اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ، ہے یہیں ٹھہرے ہوئے ہیں _,"*


*★_ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا ادھر روانہ ہوگئیں اور یہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوئے، قبا کے لوگوں نے جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو ان سے پوچھا :- آپ کون ہیں اور کہاں سے آئیں ہیں ؟ اس پر انہوں نے بتایا :- میں ام سلمہ ہوں ابی امیہ کی بیٹی_," ابی امیہ چونکہ بہت مشہور آدمی تھے، بہت دولت مند تھے، بہت سخی تھے، اس لیے لوگوں کو یقین نہ آیا کہ اتنے بڑے باپ کی بیٹی یوں اکیلے سفر کر کے مکہ سے مدینہ آئی ہیں، اس زمانے میں شرفاء کی خواتین اس طرح باہر نہیں نکلا کرتی تھیں، بڑے لوگ سفر میں کسی کو ساتھ ضرور بھیجا کرتے تھے اور اس کا تمام خرچ بھی ادا کرتے تھے، جب کہ سیدہ ام سلمہ تنہا آئی تھیں، اس لیے لوگ حیران تھے، کافی دن بعد انہیں یقین آیا اور جب سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ کسی کی بیٹی ہیں تو لوگ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے_,"*

[7/25, 11:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب دونوں میاں بیوی اپنے بچے کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگے، دو ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے اس غزوے میں بھرپور حصہ لیا، پھر 3 ہجری میں غزوہ احد پیش آیا، اس غزوے میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بازو میں ایک تیر لگا، اس سے آپ ایک ماہ زیرِ علاج رہے، ایک ماہ بعد زخم بھر گیا، لیکن اس اس کا زہر اندر پھیلتا چلا گیا _,*


*★_ انہی دنوں انہیں ایک مہم پر بھیجا گیا، مسلمانوں کے خلاف کچھ لوگ قطن پہاڑ کے آس پاس جمع ہو رہے تھے، آپ صل اللہ علیہ وسلم نے یہ اطلاع پا کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ڈیڑھ سو آدمی دے کر روانہ فرمایا، آپ نے انہیں حکم دیا :- روانہ ہو جاؤ، یہاں تک کہ بنو اسد کی سرزمین میں پہنچ کر ان کا کا شیرازہ بکھیر دو، اس سے پہلے کہ وہ وہاں جمع ہو کر ایک طاقت بن جائیں _,"* 


*★_ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اس مہم سے کامیاب لوٹے، آپ نے نہ صرف دشمن کو منتشر کردیا بلکہ ان کے اونٹ اور بھیڑ بکریاں بڑی تعداد میں ان سے چھین لایئں، اس مہم کے سلسلے میں آپ 39 دن مدینہ طیبہ سے باہر رہے، جب آپ واپس آئے تو پرانا زخم پھر سے ہرا ہوگیا اور آخر ایک ماہ بیمار رہ کر آپ انتقال کر گئے، جب آپ پر نزع کی حالت طاری تھی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے، ادھر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی روح پرواز کر گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی دونوں آنکھیں بند کر دیں اور فرمایا:- انسان کی روح جس وقت اٹھائی جاتی ہے تو اس کی دونوں آنکھیں اسے دیکھنے کے لیے کھلی رہ جاتی ہیں_,"*


*★_ اس وقت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ الفاظ کہے :- ہائے ! پردیس میں کیسی موت آئی _," رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- صبر کرو، ان کی مغفرت کی دعا مانگو اور کہو، اے اللہ ان سے بہتر عطا کر _,"*

*_اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی لاش کے پاس آئے، آپ صل وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،*

[7/25, 12:03 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام دیا، آپ نے انکار کر دیا، اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر آئے، آپ نے قبول فرمایا_,"* 


*★_ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں :- میں سوچا کرتی تھی کہ بھلا ابو سلمہ سے بہتر کون شوہر ہو سکتا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام ملا تو اس وقت میں نے جان لیا کہ اللہ تعالی نے مجھے ان سے بہتر شوہر عطا فرمایا ہے _,"* 


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح شوال چار ہجری کی آخری تاریخوں میں ہوا، سیدہ ام سلمہ سرکار دو عالم کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں، آپ کے ایک غلام سفینہ رضی اللہ عنہ تھے، آپ نے انھیں اس شرط پر آزاد کر دیا تھا کہ جب تک آنحضرت صلی وسلم زندہ ہیں، آپ کی خدمت کرنا تمہارے لئے لازم ہے _,"* 


*★_ نکاح کے بعد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ ساتھ رہیں، سفر میں بھی آپ اکثر ساتھ ہوتیں، پانچ ہجری میں پردے کی آیت نازل ہوئی، اس سے پہلے ازواج مطہرات بعض دور کے رشتے داروں کے سامنے آ جایا کرتی تھیں، اب خاص خاص رشتہ داروں کے علاوہ ہر ایک سے پردے کا حکم دیا گیا_،"*


*★_ اس بارے میں ایک روایت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا صحابی تھے، نابینا ہونے کی وجہ سے ازواج مطہرات کے حجرے میں آجاتے تھے، اس آیت کے نزول کے بعد جب وہ آئے تو اس وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا وہاں موجود تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا :- ان سے پردہ کرو _," انہوں نے کہا:- اللہ کے رسول ! یہ تو نابینا ہیں _," آپ نے ارشاد فرمایا:- یہ تو نابینا ہیں، لیکن تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو انہیں دیکھ رہی ہو _،"*

[7/28, 6:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ 6 ہجری کو آپ عمرے کے لئے روانہ ہوئے، آپ کے ساتھ تقریباً چودہ سو صاحبہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، آپ نے حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، وہیں مکہ کے مشرک آگئے، یہاں کفار سے معاہدہ ہوا، اس معاملے کو صلح حدیبیہ کہا گیا، اس معاہدے کی شرائط ظاہر میں مسلمانوں کے لئے بہت سخت تھیں، اس وجہ سے مسلمان بہت غمگین تھے، معاہدے کی رو سے اب سب لوگوں کو عمرہ کئےے بغیر واپس لوٹنا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کرنے اور سر منڈانے کا حکم فرمایا _,"*


*★_ مسلمان اس قدر غم زدہ تھے کہ کسی نے بھی ایسا نا کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت رنج محسوس ہوا اور آپ اپنے خیمے میں تشریف لائے، وہاں ام سلمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ان سے فرمائی، اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :- مسلمانوں کو یہ صلح بہت ناگوار گزری ہے، اس لیے وہ بہت رنجیدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل نہیں کی، آپ کسی سے کچھ نہ کہیں اور باہر نکل کر قربانی کرکے سر منڈوا لیں، یہ سب خود بخود آپ کی پیروی کریں گے _,"* 


*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مشورے پر عمل کیا، جونہی آپ نے قربانی کی، سب نے قربانی شروع کر دی اور سر منڈوا کر احرام اتار دیا، اس وقت ہجوم کا یہ عالم تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹا پڑتا تھا، ایک دوسرے کی حجامت بنانے کی خدمت سرانجام دے رہے تھے _," ( بخاری )*


*★_ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بہت بہترین مشورہ دینے والی تھیں، ساتھ ہی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی فطرت کا اندازہ لگانے میں بھی انہیں کمال حاصل تھا _,"*


*★_ آپ غزوۂ خیبر میں بھی شریک تھیں، خیبر کے قلعے کے سردار مرحب کے دانتوں پر جب تلوار لگی تو آپ رضی اللہ عنہا نے اس کی آواز سنی تھی _,"*

[7/30, 5:16 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا برابر آپ سے ملنے کے لیے آتی رہیں، ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ ناساز ہو گئی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا صدمے سے چیخ پڑیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :- یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں _,"*


*★_ ایک روز مرض میں زیادہ شدت پیدا ہوگئی، ازواج مطہرات نے دوا پلانے کی کوشش کی، آپ اس وقت دوا پینا نہیں چاہتے تھے، لہذا پینے سے انکار کر دیا، تھوڑی دیر بعد آپ پر غشی کی حالت طاری ہو گئی، ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے غشی کی حالت میں دوا آپ کے منہ میں ڈالی،* 


*★_ بیماری کے انہی دنوں میں ایک دن سیدہ ام سلمہ اور سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے حبشہ کے گرجوں میں تصاویر کا ذکر کیا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حبشہ سے ہوکر آئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر سن کر فرمایا :-*

*"_ اللہ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے، ان لوگوں میں جب کوئی مر جاتا تو وہ اس کی قبر کو عبادت گاہ بنا لیا کرتے تھے اور اس کا بت بنا کر اس میں کھڑا کر دیتے تھے، قیامت کے دن یہ لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے _," ( بخاری )* 


*★_ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال 59 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا، ایک روایت کے مطابق 60 ہجری میں یزید کے زمانے میں ہوا، وفات کے وقت سیدہ کی عمر 84 سال تھی, سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی، آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا _,"*

*"_آپ کے یہاں پہلے شوہر سے جو اولاد ہوئی ان کے نام سلمہ, عمر، درہ اور زینب ہیں، سلمہ سب سے بڑے تھے، ان سب کی پرورش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائ،*

[7/31, 7:13 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ رضی اللہ عنہا بہت عالمہ فاضلہ تھیں، آپ سے بہت سی احادیث روایت ہیں، صحابہ کرام ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے، بہت سے تابعین نے بھی آپ سے علم حاصل کیا، آپ قرآن بہت اچھا پڑھتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لہجے میں پڑھا کرتی تھیں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا :- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح قرات کیا کرتے تھے ؟" سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا :- "_ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے _," پھر خود اسی طرح پڑھ کر سنایا _,"*


*★_ حدیث میں بھی آپ کا خاص مقام تھا، آپ سے 387 احادیث روایت کی گئی ہیں، آپ کو احادیث سننے کا بہت شوق تھا، ایک روز بال گندھوا رہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے ممبر پر تشریف لے آئے، آپ کی زبان مبارک سے ابھی صرف اتنا نکلا تھا:- اے لوگوں ! اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے بال گوندھنے والی سے فرمایا :- بال باندھ دو _," اس نے کہا :- اتنی کیا جلدی ہے ؟ آپ نے فرمایا :- "کیا ہم لوگوں میں شامل نہیں _,"*

*" اس کے بعد خود بال باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور کھڑے ہو کر پورا خطبہ سنا _,"*


*★_ آپ رضی اللہ عنہا ہر وقت اجر و ثواب کی تلاش میں رہتی تھیں، ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :- اللہ کے رسول ! ابو سلمہ سے میرے جو بچے ہیں, میں ان پر خرچ کرتی ہوں اور ان کی اچھی طریقے سے پرورش کرتی ہوں, کیا مجھے ان کی پرورش پر ثواب ملےگا _," آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- "ہاں ! جو کچھ تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس پر اجر ملےگا _,"*


*★_ ایک روز چ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر تھے، آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ایک ٹانگ پر اور حضرت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دوسری ٹانگ پر اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو درمیان میں بٹھایا ہوا تھا، ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- اے گھر والوں ! تم پر اللہ کی خاص رحمت اور برکت رہتی ہیں، بے شک اللہ تعریف کے لائق اور بڑی شان والا ہے _,"*


*★"_حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر رو پڑیں، آپ صل وسلم نے پوچھا :- کیا بات ہے, تم کیوں رو پڑیں ؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- اللہ کے رسول! آپ نے ان کے لیے یہ الفاظ فرمائے, مجھے اور میری بیٹی کو چھوڑ دیا_," اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:- تم اور تمہاری بیٹی دونوں اہل بیت میں سے ہو _," ( المعجم الکبیر - 24/281)*

[8/1, 9:34 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک روز ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے نے دو رکعت نماز پڑھی، سجدے کی جگہ غبار آلود تھی، وہ اپنی پیشانی سے گرد جھاڑنے لگے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- ایسا نہ کرو ، یہ فعل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے _,"*

*"_ مطلب یہ تھا کہ ہاتھوں کو حرکت نہ دو، نماز میں سکون اختیار کرو _,"*


*★_ آپ رضی اللہ عنہا بہت فیاض تھیں، ایک روز چند حاجت مند آپ کے گھر آئے، ان میں عورتیں بھی تھیں، انہوں نے گڑگڑا کر سوال کیا، اس وقت وہاں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی موضو تھیں، آپ نے ان فقراء کو ڈانٹا، اس پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- ہمیں اس کا حکم نہیں_," پھر خادمہ سے فرمایا :- انہیں کچھ دے کر رخصت کرو، گھر میں کچھ نہ ہو تو ایک دو چھوارے ہی دے کر رخصت کرو _,"*


*★_ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی، آپ کی وفات کے بعد آپ کے بال تبرک کے طور پر رکھ لیے تھے، لوگوں کو ان کی زیارت کراتی تھیں _," ( مسند احمد 6/301)*


*★_ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ایسے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک صحابی دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں آئے، وہ آپ سے باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے، تو آپ نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :- جانتی ہو یہ کون تھے ؟ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:- یہ دحیہ تھے_," یعنی ان صحابی کا نام لیا، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس واقعے کا ذکر کیا تب انہیں پتہ چلا کہ وہ حضرت جبرائیل تھے، مطلب یہ کہ آپ کے گھر بھی جبرائیل امین آئے تھے _,* 


*★_ نبی کریم صلی اللہ وسلم کو آپ سے بہت محبت تھی، اللہ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں _,*     


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم 123,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

*⚂ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                 

*❀__ آپ کا نام زینب تھا، والد کا نام جحش بن رآب تھا اور والدہ کا نام امیمہ تھا، یہ امیمہ عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں، اس لحاظ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں، آپ کا پہلا نام برہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے زینب رکھا تھا _,* 


*★_ سیدہ زینب رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، ان کا آپس میں اتفاق نہ ہو سکا، اس لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ان کو طلاق دے دی تھی، عدت پوری ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا، اس پیغام کے جواب میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- میں اس بارے میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتی جب تک کہ میں اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کر لوں _,"*


*★_ اس جملے کا مطلب یہ تھا کہ جب تک میں استخارہ نہ کر لوں کچھ نہیں کہہ سکتی، اس طرح اللہ تعالی نے آپ کا نکاح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر کردیا، آسمان پر نکاح کر دیے جانے کی اطلاع وحی کے ذریعے کی گئی اور آیت نازل ہوئی _,*


*★_ اس کا ذکر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا فخر سے فرمایا کرتی تھیں، آیت کا نازل ہونا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، وہاں تشریف لے جانے سے پہلے آپ نے انہیں یہ خبر پہنچا دی تھی، جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو یہ خبر پہنچی تو آپ اسی وقت سجدے میں گر گئیں، ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، آپ نے سیدہ سے دریافت فرمایا:- آپ کا نام کیا ہے؟ سیدہ نے جواب دیا :- برہ _," آپ نے ارشاد فرمایا :- " نہیں بلکہ آج سے آپ کا نام زینب ہے _,"*   


[8/3, 11:13 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح پانچ ہجری کو فرمایا، آپ کا مہر چار سو درہم میں مقرر ہوا، آپ نے دعوت ولیمہ کا خاص اہتمام فرمایا، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس نکاح میں ولیمے میں اتنا اہتمام نہیں فرمایا جتنا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح میں فرمایا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو مبارک باد دی ، پھر آپ تمام ازواج مطہرات کے حجرے میں تشریف لے گئے اور سب کو سلام کیا، سبھی نے آپ کو مبارک باد دی،*


*★_ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ نے مالیدہ تیار کیا اور ایک تھال میں رکھ کر ان سے فرمایا :- انس ! یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ, آپ سے عرض کرنا کہ یہ میری والدہ نے بھیجا ہے اور وہ آپ کو سلام کہتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول ! یہ ہماری طرف سے ایک قلیل سا ہدیہ ہے _,"* 


*★_ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ رشتے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ وہ مالیدہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی والدہ کا سلام عرض کیا اور ان کے الفاظ بھی دہراے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- جاؤ ! فلاں فلاں کو بلا لاؤ اور جو آدمی بھی راستے میں ملے اسے بھی بلا لاؤ _,"*


*★_ آپ نے کچھ لوگوں کے نام بھی لیے، چنانچہ میں نے وہی کیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا، اس طرح سب لوگ آ گئے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ تقریبا تین سو آدمی تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- انس وہ طشت لاؤ _," جب حضرت انس رضی اللہ عنہ تھال لے آئے، تو آپ نے فرمایا :- "دس دس آدمیوں کا حلقہ بنا لو اور اپنے آگے سے کھاؤ _,"*

[8/4, 5:13 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) ان حضرات نے ہدایت کے مطابق خانہ شروع کیا، سب نے سیر ہوکر کھایا، جب سب کھا کر فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:- اے انس ! اب اس طشت کو اٹھا لو _,"*

*"_ جب میں نے طشت کو اٹھایا تو میں اندازہ نہ لگا سکا کہ جب میں نے اس طشت کو سب کے سامنے رکھا تھا اس وقت اس میں کھانا زیادہ تھا یا جس وقت اٹھایا، اس وقت زیادہ تھا _,"*


*★_ اسی دعوت ولیمہ میں آیت حجاب یعنی پردے کی آیت نازل ہوئی، اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر پردہ لٹکا لیا اور لوگوں کو گھر کے اندر جانے کی ممانعت ہو گیی، یہ واقعہ ذی قعدہ 5 ہجرے کا ہے، اس وقت سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی عمر 35 سال تھی_,* 


*★_ اس نکاح کی چند خصوصیات ایسی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور نکاح کی نہیں ہیں، ایک یہ کہ عرب میں منہ بولا بیٹا اصل بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا، یہ بات ختم ہوگئی، کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تو مشرکین نے باتیں بنانا شروع کیا کہ لو جی، مسلمانوں کے رسول نے تو اپنے بیٹے زید کی طلاق یافتہ بیوی سے نکاح کر لیا، اس پر اللہ تعالی کا حکم نازل ہوا :-*

*"_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر ( یعنی نبوت کے سلسلے کو ختم کر دینے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے _," سورہ الاحزاب : 40 )*


*★_ اس حکم سے اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے، نہ اس حکم میں شامل ہے کہ بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام ہے _,*

[8/5, 7:07 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس نکاح کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آقا اور غلام کے درمیان صدیوں سے حائل معاشرتی فاصلے کم ہوگئے، کیونکہ اس سے پہلے لوگ اپنے غلام کی مطلقہ بیوی سے نکاح کو برا سمجھتے تھے _,*


*★_ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نکاح کے موقع پر پردے کا حکم نازل ہوا، چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نکاح کے بارے میں وحی نازل ہوئی اور پانچویں بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نکاح آسمانوں پر ہوا _,*


*★_ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا دوسری ازواج سے اسی بنیاد پر فخر کیا کرتی تھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان کے بارے میں فرماتیں ہیں :-" زینب بنت جحش مرتبہ میں میرا مقابلہ کرتی ہیں, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ میری ہم پلہ تھیں, میں نے ان سے زیادہ کسی عورت کو دیندار, اللہ سے ڈرنے والی, سب سے زیادہ سچ بولنے والی, سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی, سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور ان سے زیادہ محنت کرکے صدقہ کرنے والی اور اللہ جل شانہٗ کا قرب حاصل کرنے والی عورت نہیں دیکھی_," (مسلم, اسدالقابہ )* 


*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا ان صفات کی وجہ سے بہت لحاظ کرتے تھے، آپ کی خاطر داری فرماتے تھے_,* 


*★_ اپنا کفن بھی اپنی زندگی ہی میں تیار کر لیا تھا چنانچہ جب آپ کا انتقال کا وقت آیا تو فرمایا:- میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے, غالباً حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے لیے کفن بھیجیں گے، ایک کفن کام میں لے آنا، دوسرا صدقہ کر دینا _,"*

*"_اور یہی ہوا, حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے لیے خوشبو دار کفن بھجوایا, آپ کو وہی کفن دیا گیا اور جو کفن انہوں نے خود تیار کر رکھا تھا, اسے صدقہ کر دیا گیا _," ( طبقات 8/115)*

[8/5, 6:22 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ کا انتقال 20 ہجری میں ہوا، انتقال کے وقت آپ کی عمر 53 سال تھی، وہ زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہا کی خلافت کا تھا، اس لئے نماز جنازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، حضرت اسامہ بن زید، حضرت محمد بن عبد اللہ بن جحش اور حضرت عبداللہ بن ابی احمد بن جحش رضی اللہ عنہم نے آپ کو قبر میں اتارا، آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا_," ( بخاری )*


*★_ آپ کی وفات پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :- افسوس ! آج ایسی عورت گزر گئی جو بہت پسندیدہ اوصاف والی عبادت گزار اور یتیموں اور بیواؤں کی غم خوار تھیں _,"* 


*★_ انتقال کے وقت آپ نے ایک مکان چھوڑا تھا، خلیفہ یزید بن عبدالملک نے اپنے زمانے میں پچاس ہزار درہم میں خرید کر اسے مسجد نبوی میں شامل کردیا _," ( طبری)*


*★_ آپ سے ایک سو گیارہ (١١١) احادیث روایت کی گئی ہیں، آپ بہت عبادت گزار تھیں, تہجد گزار اور بہت روزے رکھنے والی تھیں، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں بہت سا مال بھیجا، آپ نے اس مال کو گھر کے صحن میں ڈھیر کرنے کا حکم فرما دیا اور خادمہ سے فرمایا :- اس مال پر کپڑا ڈال دو اور اس کے نیچے ہاتھ لے جاکر جتنا مال ہاتھ میں آتا ہے، وہ فلاں فلاں اور فلاں فلاں کو دے آؤ، فلاں یتیم کو دے آؤ اور فلاں بیوہ کو دے آؤ _,"*


*★_ اس طرح یہ مال برابر تقسیم ہوتا رہا، آخر جب کپڑے کے نیچے بہت تھوڑا مال رہ گیا تو خادمہ نے کہا :- اے ام المومنین ! اس مال میں آخر ہمارا بھی کچھ حق ہے_," آپ نے ان سے فرمایا :- "اچھا ! جو بچ رہا ہے وہ تم لے لو _,"*


*★_ کپڑا اٹھا کر دیکھا گیا تو اس میں صرف 85 درہم باقی تھے، سارا مال تقسیم ہونے کے بعد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے ہاتھ اٹھا کر کہا :- اے اللہ! اس مال کے بعد عمر کا وظیفہ مجھے نہ پائے, یہ مال بہت بڑا فتنہ ہے _," ( الاصابہ)*


*★_ چناچہ سال گجر نے نہیں پایا تھا کہ آپ انتقال فرما گئیں، اللہ تعالی کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں، آمین _,*   


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,133,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

           *⚂ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                 

*★_ ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا_,*


*★_ آپ کا ابتدائی نام برہ تھا، والد کا نام حارث بن ابی فرار تھا، آپ کے والد قبیلہ بن مصطلق کے سردار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام تبدیل فرمایا اور جویریہ رکھا، آپ کا پہلا نکاح اپنے قبیلے کے ایک شخص مسافع بن صفوان سے ہوا تھا، مسافع اور آپ کا باپ حارث دونوں اسلام کے دشمن تھے، مسافع کفر کی حالت میں قتل ہوا _,"*


*★_ آپ کے والد حارس نے قریش کے اشارے پر مدینہ منورہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ بنی مصطلق کے سردار حارث نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بہت سی فوج جمع کر لی ہے، اطلاع ملنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت حال معلوم کرنے کے لیے حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا، انہوں نے آکر بتایا کہ خبر درست ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو لے کر قبیلہ بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں بہت سے منافق بھی لشکر میں شامل ہو گئے، یہ لوگ مال غنیمت کے لالچ میں شامل ہوئے تھے _,*


*★_ اس سے پہلے اتنی تعداد میں منافق کبھی اسلامی لشکر میں شامل نہیں ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا اور ازواج میں سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لیا _,*


*❀_ یہ لشکر 2 شعبان 5 ہجری کو روانہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے اچانک دشمن پر حملہ آور ہوئے، اس وقت وہ لوگ اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے، حملے کی تاب نہ لا سکے، ان کے دس مرد قتل ہوئے، باقی مرد عورتیں اور بچے گرفتار کر لئے گئے، مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں مسلمانوں کے ہاتھ لگیں، دو سو گھرانے قید ہوئے، انہی قیدیو میں سردار حارث کی بیٹی بھی تھی، یعنی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا _,*


*★_ جب مال غنیمت تقسیم کیا گیا تو سیدہ جویریہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں، آپ نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا :- آپ مجھ سے مکاتبت کر لیں _," مطلب یہ کہ کوئی رقم طے کرلیں، میں وہ ادا کردوں تو مجھے آزاد کر دیں، حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے چار اوقیہ سونے پر مکاتبت کر لی، آپ کے پاس اتنا سونا نہیں تھا، آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول ! آپ کو معلوم ہے، میں سردار بنی مصطلق کی بیٹی ہوں، آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ میں قیدی ہوں، تقسیم کے مطابق میں ثابت بن قیس کے حصے میں آئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت طے کرلی ہے، اس سلسلے میں آپ کے پاس حاضر ہوئی ہوں، لوگوں سے کہیں کہ میرے لیے چندہ جمع کر دیں _,"* 


*★_ یہ سن کر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- تم پسند کرو تو میں تمہیں اس سے بہتر بات بتا دوں اور وہ یہ ہے کہ تمہاری طرف سے مکاتبت میں ادا کر دوں اور تمہیں آزاد کر کے تم سے نکاح کر لوں _,"* 

*"_یہ سن کر سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ بات منظور ہے _,"*


*★_ اس بات کے طے ہونے کے بعد سیدہ کا باپ حارث بھی ان کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے کہا :- میں قبیلہ بنی مصطلق کا سردار ہوں، اسی لئے میری بیٹی کنیز بن کر نہیں رہ سکتی، آپ اسے آزاد فرما دیں _,"*

*"_ آپ نے جواب میں فرمایا :- کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ میں اس کا فیصلہ تمہاری بیٹی پر چھوڑ دوں، تم جا کر اس سے خود پوچھو _,"* 

*"_ حارث سیدہ جویریہ کے پاس آئے اور یہ بات آپ کو بتائی، اس پر آپ نے فرمایا :- میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں _,"*   


[8/8, 11:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حارث سیدہ جویریہ کو چھڑانے کے لیے بہت سے اونٹ ساتھ لائے تھے، لیکن مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے انھوں نے ان میں سے دو خوبصورت اور عمدہ اونٹ ایک گھاٹی میں چھپا دیے تھے، تاکہ واپسی پر وہ ساتھ لے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹوں کے لانے کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :- ان میں دو اونٹ فلاں گھاٹی میں چھپا آئے ہو _,"*

*"_ یہ سنتے ہی حارث پکار اٹھا :- میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں, میرے وہ دو اونٹ چھپانے کا کسی کو علم نہیں تھا، اللہ نے آپ کو اطلاع دی ہے _,"*


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار اوقیہ سونا حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو دے کر سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کرایا اور آپ سے نکاح کرلیا، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا، کیوںکہ اب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار بن چکے تھے، اس طرح المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے بنی مصطلق کے گھرانے آزاد ہوئے _,"*


*★_ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں :- "میں نے جویریہ سے زیادہ کسی عورت کو اپنے خاندان کے حق میں بابرکت نہیں دیکھا جن کی وجہ سے ایک دن میں اتنے گھرانے آزاد ہوئے ہوں _,"*


*★_ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حملہ آور ہونے سے تین رات پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند یثرب سے چلا آ رہا ہے اور آ کر میری گود میں گر گیا ہے، میں نے یہ بات لوگوں کو بتانا پسند نہیں کی تھی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، جب ہم قیدی بن گئے تو اس وقت مجھے اس خواب کے پورا ہونے کی امید ہو چکی تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کر کے اپنی ازواج مطہرات میں شامل کرلیا _,"*

[8/8, 12:37 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ کا انتقال ربیع الاول 50 ہجری میں ہوا، ایک روایت 56 ہجری کی بھی ہے، مدینہ منورہ کے گورنر مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی، آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا، انتقال کے وقت آپ کی عمر 65 سال تھی، ایک اور روایت کے مطابق آپ کی عمر 70 سال تھی، جس وقت آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں، اس وقت عمر بیس سال تھی_,"* 


*★_ آپ سے صرف چند احادیث روایت کی گئی ہیں، آپ نے بہت زاہدانہ زندگی گزاری، بہت عبادت گزار تھیں، ایک صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مصلے پر چھوڑ کر گئے، دوپہر کے قریب واپس تشریف لائے تو آپ اسی طرح بیٹھی نظر آئیں، یعنی اس وقت سے اس وقت تک ذکر میں مشغول رہی تھیں، ایک جمعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے تو آپ روزے سے تھیں _,"* 


*★_ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:- ایک روز رسول اللہ صلی اللہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، صبح کا وقت تھا، میں تسبیح میں مشغول تھی، پھر آپ دوپہر کے وقت تشریف لائے، میں اس وقت بھی تسبیح میں مشغول تھی، مجھے اسی حالت میں بیٹھی پا کر آپ نے ارشاد فرمایا :- کیا تم صبح سے اسی طرح بیٹھی ہوں ؟ میں نے جواب دیا:- جی ہاں ! آپ نے فرمایا :- میں تمہیں کچھ ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو وزن میں اس تمام تسبیح کے برابر ہوں گے جو تم ابھی پڑھ چکی ہو، وہ کلمات یہ ہیں :-*

*"_ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ,*

*"_سُبْحَانَ اللَّهِ زِنَةَ عَرْشِهِ _,*

 *"_ سُبْحَانَ اللَّهِ رِضَا نَفْسِهِ _,*

*"_ سُبْحَانَ اللَّهِ مِدَادَ كَلِمَاتِهِ "*


*★_ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بہت محبت تھی, ایک مرتبہ آپ ان کے گھر تشریف لائے اور پوچھا:- کچھ کھانے کو ہے _," آپ نے بتایا :- میری کنیز کو کس نے صدقے کا گوشت دیا تھا, وہی رکھا ہے _,"*.

*"_ آپ نے ارشاد فرمایا:- وہی لے آؤں، کیونکہ صدقہ جسے دیا گیا تھا اسے پہنچ گیا ہے _,"*

*"₹ تاریخ کی کتابوں میں آپ کے بہت کم حالات ملتے ہیں, اللہ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں _,"*      


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,142,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

 *⚂ حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی.⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                 

*❀__ سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا _,"*

*★_ آپ کا نام ہند تھا، آپ کے والد کا نام ابو سفیان بن حرب اور والدہ کا نام صفیہ بنت ابی عاص تھا، یہ صفیہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں، بغض مورخوں نے آپ کا نام رملہ بھی لکھا ہے، آپ نبوت سے 17 سال پہلے پیدا ہوئیں_,"* 


*★_ آپ کا پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا، یہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا، جو غزوہ احد میں شہید ہوئے، سیدہ ام حبیبہ اسلام کی ابتدا ہی میں مسلمان ہو گئی تھیں، اسی طرح آپ کا خاوند عبید اللہ بن جحش بھی مسلمان ہو گیا تھا _,"* 


*★_ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت کرنے والوں میں یہ میاں بیوی بھی شامل تھے، حبشہ میں ان کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس کا نام حبیبہ رکھا گیا، اس نسبت سے آپ ام حبیبہ کہلائیں، یعنی یہ آپ کی کنیت تھی، آپ کا خاوند عبیداللہ کچھ دنوں بعد مرتد ہوگیا، اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا برابر اسلام پر قائم رہیں _,* 


*★_ سیدہ ام حبیبہ فرماتی ہیں :- عبیداللہ کے عیسائی ہونے سے پہلے میں نے اسے خواب میں نہایت بری بھیانک شکل میں دیکھا, میں بہت گھبرائی, صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ عیسائی ہو چکا ہے میں نے اس امید پر اسے خواب سنایا کہ شاید وہ توبہ کر لے، لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی، یہاں تک کہ اسی حالت میں مر گیا، چند روز بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھے "یا ام المومنین" کہہ کر آواز دے رہا ہے, میں بہت گھبرائی, پھر جب میری عدت ختم ہوگئی تو یکایک مجھے نجاشی شاہ حبشہ کے ذریعے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا پیغام ملا _," (طبقات ابن سعد - 8/97)*     


 [8/12, 6:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  شاہ حبشہ نجاشی  کو پیغام بھیجا، یہ پیغام ملنے پر نجاشی نے اپنی باندی ابرہہ کو سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور آپ کا پیغام دیا، آپ یہ پیغام سن کر بہت خوش ہوئیں اور ہاتھ کے کنگن، پیروں کی پازیب اور انگوٹھی وغیرہ سب اتار کر ابرہہ کو دے دیں،  شام کے وقت نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور دوسرے مسلمانوں کو جمع کیا، پھر نکاح کا خطبہ پڑھا،* 


*★_ اس خطبے کے الفاظ یہ تھے :- "تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں, میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول برحق ہیں اور آپ وہی نبی ہیں جن کی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے بشارت دی تھی, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تحریر فرمایا ہے کہ میں آپ کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے کر دوں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آپ کا نکاح ام حبیبہ سے کر دیا اور چار سو دینار مہر مقرر کیا _,"*


*★_ نکاح کے بعد لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو نجاشی نے کہا:- ابھی بیٹھیں! حضرات انبیا علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد ولیمہ بھی ہونا چاہیے _,"*

*"_ اس طرح دعوت ولیمہ ہوئی, کھانے کے بعد یہ حضرات رخصت ہوئے، نجاشی نے اپنی خادمہ کے ذریعے مہر کی رقم ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو بھیجوائی،  یہ رقم نجاشی کی وہی باندی ابرہہ لے کر گئی، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اسے 50 دینار بطور انعام دیے، تو اس نے وہ دینار اور پہلے جو جو زیور آپ کی طرف سے اسے ملے تھے، وہ بھی انہیں واپس کر دیے اور بولی :-*

*"_ نجاشی نے مجھے ہدایت کی ہے کہ آپ سے کچھ نہ لوں اور آپ یقین کر لیں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروکار بن چکی ہوں اور اللہ تعالی کے لیے دین اسلام کو قبول کر چکی ہوں اور آج بادشاہ نے اپنی بیگمات کو حکم دیا ہے کہ ان کے پاس جو خوشبو اور عطر ہو، اس میں سے ضرور آپ کے لیے ہدیہ بھیجیں _,"*


*★_ دوسرے روز ابرہہ بہت سا عود اور عنبر وغیرہ آپ کے پاس لائی، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- میں نے وہ عود اور عنبر سب رکھ لیا اور اپنے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائ _,"*

[8/13, 6:30 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جب ابرہہ یہ خوشبوئیں لائی تو اس نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے کہا:- میری ایک درخواست ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں میرا سلام عرض کر دیں اور میرے بارے میں بتا دیں کہ میں نے اسلام قبول کر چکی ہوں _,"*


*★_ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- جب تک میں مدینہ منورہ کے لئے روانہ نہ ہو گئی، ابرہہ برابر میرے پاس آتی رہی اور کہتی رہی- دیکھیئے میری درخواست بھول نہ جانا,  چناچہ جب میں مدینہ منورہ پہنچی تو یہ تمام باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن کر مسکراتے رہے، آخر میں جب میں نے ابرہہ کا سلام اور پیغام پہنچایا تو آپ نے فرمایا :- علیھا السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ _,"*


*★_ اللہ تعالی نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سیرت کے ساتھ حسن صورت سے بھی نوازا تھا، آپ کو اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی، یہی وجہ تھی کہ خاوند کے مرد ہونے پر بھی آپ اسلام پر ڈٹی رہیں، اپنے خاوند کے عیسائی ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کی _,"* 


*★_ فتح مکہ سے پہلے حضرت ابو سفیان صلح کی مدت میں  اضافے کے لئے مدینہ منورہ تشریف لائے۔   یعنی ابھی وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، ادھر یہ روانہ ہوئے، ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو خبر دی کہ ابوسفیان مکہ سے صلح کی مدت میں اضافے کے لیے آرہے ہیں، یہ صلح حدیبیہ کے مقام پر ہوئی تھی _,*

[8/14, 5:08 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جب ابو سفیان مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے بیٹی سے ملنے کے لئے ان کے گھر آئے، اندر داخل ہونے کے بعد آپ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے لگے، تو ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر لپیٹ دیا_,"*


*★_ حضرت ابو سفیان دھک سے رہ گئے اور ناراض ہو کر بولے :- "یہ کیا بیٹی ! تم نے بستر کیوں لپیٹ دیا؟ تو نے بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا, یا مجھے بستر کے قابل نہیں سمجھا _,"*

*"_ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:-  یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے، اس پر ایک مشرک نہیں بیٹھ سکتا جو شرک کی نجاست سے آلود ہو _,"*

*"_یہ سن کر حضرت ابو سفیان کو غصہ آگیا, بولے :- اللہ کی قسم ! تو میرے بعد شر میں مبتلا ہوگئی _,"*

*"_سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:- میں شر میں نہیں بلکہ کفر کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کے نور اور ہدایت کی روشنی میں داخل ہو گئی ہوں اور حیرت ہے کہ آپ قریش کے سردار ہو کر پتھروں کو پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں _,"* 


*★_ ایک اور حدیث سے ان کی دین سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے، وہ فرماتی ہیں :- "میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعت نماز نوافل ادا کرے, اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا اور جب میں نے یہ سنا اس وقت سے ہمیشہ نوافل پڑھتی ہوں، کبھی ان کو ترک نہیں کیا_,"* 


*★_ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے 44 ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، وہ ان کے بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور تھا، لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کا انتقال سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یعنی 59 ہجری میں ہوا، زیادہ درست بات 44 ہجری والی ہے، وفات کے وقت آپ کی عمر 73 سال تھی _,"* 


*★_ وفات کے وقت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر کہا :- مجھ میں اور تم میں وہ تعلقات تھے جو آپس میں سوکنوں کے ہوتے ہیں، اللہ ان سب باتوں کو معاف فرمائے اور تم سے درگزر فرمائے _,* 

*"_سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا:- تم نے مجھے خوش کر دیا, اللہ تمہیں خوش رکھے_,"*

*"_ آپ نے اسی طرح سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر فرمایا، آپ کے ہاں عبداللہ بن جحش سے دو بچے ہوئے، ایک عبداللہ دوسری حبیبہ، حبیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پائی تھی، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں _,"*


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,145,

* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

          *⚂ حضرت صفیہ بنت حیی رضی .⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                  

*❀_ ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا_,*


*★_ آپ کا نام زینب تھا، غزوہ خیبر کے موقع پر آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئیں تھیں، عرب میں مال غنیمت کے طور پر جو حصہ حکمران یا بادشاہ کو ملتا تھا، اسے صفیہ کہتے تھے، اس لیے آپ بھی صفیہ کے نام سے مشہور ہوئیں _,"*


*★_ آپ کے والد کا نام حیی بن اخطب تھا، یہ بنو نضیر کا سردار تھا، ماں کا نام فرہ تھا، سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح سلام بن مشکم سے ہوا تھا، سلام نے آپ کو طلاق دے دی تو دوسرا نکاح کنانہ بن حقیقت سے ہوا، یہ کنانہ خیبر کے سردار کا بھتیجا تھا، کنانہ خیبر کی لڑائی میں مارا گیا، سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور بھائی بھی اس جنگ میں مارے گئے، خود بھی گرفتار ہوئیں،*


*★_ پہلے دو خاوند سے آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آزاد کر کے نکاح کر لیا، تین دن تک ولیمہ کیا اور یہی آپ کا مہر قرار پایا _,"*


*★_ ولیمہ عجب شان سے ہوا، چمڑے کا ایک دستر خوان بچھا دیا گیا، آپ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:- اعلان کردو کہ جس کے پاس جو کچھ ہے, لے آئے_," چنانچہ کوئی کھجور لے آیا، کوئی پنیر اور کوئی ستو اور گھی لایا، اس طرح بہت سی چیزیں دسترخوان پر جمع ہو گئیں، سب نے مل کر یہ ولیمہ نوش کیا، اس ولیمے میں گوشت اور روٹی کچھ نہیں تھا، یہ ولیمہ صہبا کے مقام پر ہوا،* 


*★_ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صہبا کے مقام سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ وسلم نے خود سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر سوار کرایا، اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا، یہ اس بات کا اعلان تھا کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ام المومنین ہیں _,"*


[8/16, 6:17 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کی زوجیت میں آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے چہرے پر ایک نشان دیکھا، آپ نے پوچھا :-  صفیہ ! یہ نشان کیسا ہے _,"  سیدہ نے بتایا:- ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ چاند میری گود میں آکر گرا ہے, یہ خواب میں نے اپنے شوہر کو سنایا تو اس نے زور سے میرے منہ پر ایک تھپڑ مارا اور کہا:- تو یثرب کے بادشاہ کی تمنا کرتی ہے _,"*


*★_ یہ اشارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا، صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:-  خیبر کی لڑائی کے بعد جب میں گرفتار ہوگئی اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت آپ سے زیادہ نا پسندیدہ انسان میرے نزدیک کوئی نہیں تھا، کیونکہ میرا باپ خاوند اور دوسرے رشتہ دار قتل ہو چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:-  تمہاری قوم نے ہمارے ساتھ یہ یہ کیا ہے _,"* 

*"_ آپ فرماتی ہیں :- جب میں آپ کے پاس سے اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب مجھے کوئی نہیں تھا _,"* 


*★_ آپ فرماتی ہیں:-  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسن اخلاق کا مجسمہ کوئی اور نہیں دیکھا، آپ رات کے وقت خیبر سے ایک اونٹنی پر سوار ہوئے، اس وقت مجھے اونگھ آ رہی تھی، آپ مجھے بار بار جگاتے کہ کہیں میں اونٹ سے گر نہ جاؤں، آپ فرماتے:- اے بنت حیی ! تھوڑی دیر انتظار کرو, یہاں تک کہ ہم صہبا پہنچ جائیں _,"* 


*★_ آپ جب خیبر سے مدینہ منورہ آئیں تو حارث بن نعمان کے مکان پر اتاری گئیں، آپ کے حسن و جمال کی شہرت سن کر انصار کی عورتیں آپ کو دیکھنے کے لیے آئیں _,"*

[8/17, 6:25 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ چند احادیث کے راوی ہیں، دوسری ازواج کی طرح آپ کا گھر بھی علم کا مرکز تھا، عورتیں آپ کے پاس مسائل معلوم کرنے کے لیے آیا کرتی تھیں، دوسرے شہروں سے بھی مسائل پوچھنے کے لیے آتی تھیں، آپ نہایت عقل مند تھیں، عالمہ اور فاضلہ تھیں،  بردباری تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، آپ میں برداشت کا بھی بہت مادہ تھا _,"*


*★_ خیبر کی لڑائی کے بعد جب آپ اپنی بہن کے ساتھ گرفتار ہو کر آ رہی تھیں، تو آپ کی بہن یہودیوں کی لاشوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتی تھیں، لیکن آپ ان کی طرح بالکل نہیں چیخیں، یہاں تک کہ اپنے شوہر کی لاش کو دیکھ کر بھی صبر سے کام لیا _,"*


*★_  آپ کی ایک خادمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی، اس نے آپ سے کہا:- "_سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا میں ابھی تک یہودیت کا اثر باقی ہے, وہ یوم سبت کو اچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں _,"*

*"_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیق کے لیے ایک شخص کو بھیجا, سیدہ صفیہ نے انہیں بتایا:- "جب سے اللہ تعالی نے ہمیں جمعے کا دن عطا فرمایا ہے، میں یوم سبت کو بالکل اچھا نہیں سمجھتی،  البتہ میں یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں، کیونکہ وہ میرے رشتےدار ہیں _,"* 


*★_ اس کے بعد آپ نے اس خادمہ کو بلا کر پوچھا :- تو نے عمر سے میری شکایت کس کے اکسانے پر کی_," اس نے جواب دیا:-  شیطان کے اکسانے پر _,"*

*"_ آپ یہ سن کر پہلے تو خاموش رہیں, پھر فرمایا:- "جاؤ ! تم آزاد ہو _,"*

[8/18, 6:42 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  طبیعت ناساز ہوئی تو آپ نے نہایت حسرت سے کہا:- کاش ! آپ کی بیماری مجھے لگ جاتی_,"* 

*"_ اس پر تمام ازواج نے آپ کی طرف دیکھا, تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- "صفیہ سچ کہہ رہی ہیں _,"* 


*★_ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آپ سے بہت محبت تھی، آپ ہر موقع پر آپ کی دلجوئی فرماتے تھے، ایک سفر میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا، اس سفر میں دوسری ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں،  ایک صحابیہ  کے پاس دو اونٹ تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:- "تم صفیہ کو ایک اونٹ دے دو _," انہوں نے نہ دیا, تو آپ دو ماہ تک ان صحابیہ سے ناراض رہے _,"* 


*★_ حج کے سفر میں ازواج مطہرات بھی آپ کے ساتھ تھیں،  راستے میں ایک جگہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیٹھ گیا، اس طرح آپ سب سے پیچھے رہ گئیں اور رونے لگیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ کے پاس تشریف لائے،  اپنی چادر مبارک سے آپ کے آنسوں پونچھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آنسوں پونچھتے جاتے تھے اور آپ اور زیادہ روئے جاتی تھیں،*

*"_فرماتی تھیں:- " نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رونے سے منع فرماتے رہے لیکن جب میرا رونا بند نہ ہوا، تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذرا سختی سے منع فرمایا _,"*


*★_ آپ چونکہ یہودیوں کے سردار کی بیٹی تھیں، اس لیے شروع ہی سے اپنے چاروں طرف دولت کے انبار دیکھے تھے، اللہ تعالی نے آپ کی طبیعت میں فیاضی عطا فرمائی تھی، جب آپ ام المومنین بن کر مدینہ منورہ میں آئیں، تو آپ کے پاس سونے کے زیورات تھے، آپ نے ان میں سے کچھ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور کچھ دوسری عورتوں کو دے دیے _,"*

[8/19, 5:11 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک رمضان المبارک میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف میں تھے کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ سے ملنے کے لیے مسجد میں آئیں، سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے کچھ دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی، پھر اٹھ کر جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رخصت کرنے دروازے تک تشریف لائے، یہاں تک کہ آپ مسجد کے دروازے تک آ گئے، ایسے میں انصار کے دو آدمی پاس سے گزرے، انہوں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے ان سے فرمایا:- "_ ذرا ٹھہرو اور جان لو یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے _,"( مطلب یہ کہ کہیں اور نہ سمجھ لینا کہ پیغمبر رات کی تاریکی میں معلوم نہیں کس عورت کے ساتھ ٹھہرے ہیں) _,"*


*★_ ان دونوں نے عرض کیا:- "_ اے اللہ کے رسول ! ہم اور بھلا آپ کے بارے میں ایسا خیال کریں گے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا:- "_شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے, مجھے ڈر ہوا کہیں وہ تم دونوں کے دلوں میں کوئی ایسی بات نہ ڈال دے, اسی لیے میں نے وضاحت کر دی _,"*


*★_ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوائیوں نے گھیر لیا تو اس زمانے میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی بہت مدد کی تھی، ان ظالموں نے کھانا اور پانی بند کر دیا تھا، یعنی باہر سے کوئی چیز اندر نہیں جانے دیتے تھے، اس حالت میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کھچر پر سوار ہو کر آپ کی طرف روانہ ہوئیں، آپ کے غلام کنانہ آپ کے ساتھ تھے، بلوائیوں میں سے مالک اشتر آپ کے راستے میں آگیا اور آپ کے کھچر کے منہ پر مارنے لگا، اس طرح آپ مجبوراً واپس لوٹ گئیں، پھر آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ذریعے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کھانا اور پانی پہنچایا _,"*


*★_ آپ بہت سلیقہ شعار تھیں،  آپ کھانا بہت عمدہ پکاتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب دوسری ازواج مطہرات کے ہاں باری ہوتی تھی تو کھانا پکا کر اس گھر میں بھی بھیجا کرتی تھیں_,* 


*★_ آپ نے رمضان المبارک 50 ہجری میں وفات پائی، جنت البقیع میں دفن ہوئیں، اس وقت آپ کی عمر ساٹھ سال تھی، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں، آمین ,*

   

*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,150,

* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

         *⚂ حضرت میمونہ بنت حارث رضی .⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                

  *❀_ ام المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ _,*


*★_ آپ کا بچپن کا نام برہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے برہ سے میمونہ تجویز فرمایا، آپ کے والد کا نام حزن بن ہجیر اور والدہ کا نام ہند بنت عوف تھا _,*


*★_ سیدہ میمونہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حقیقی خالہ تھیں، کیونکہ آپ کی بڑی بہن لبابہ کبریٰ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں، چھوٹی بہن لبابہ صغریٰ ولید بن مغیرہ کی بیوی تھی اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، تو اس لحاظ سے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ان دونوں صحابیوں کی خالہ تھیں_,"* 


*★_ آپ کا پہلا نکاح جاہلیت کے دور میں مسعود بن عمرو سے ہوا تھا لیکن کسی وجہ سے دونوں میں علیحدگی ہو گئی تھی، اس کے بعد آپ کا نکاح ابو رھم سے ہوا، ابو رھم کا انتقال ہوگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے نکاح فرمایا، یہ نکاح 7 ہجری میں ہوا، اس وقت وقت آپ عمرے کے سفر سے واپس تشریف لارہے تھے، واپسی کے سفر میں سرف کے مقام پر یہ نکاح فرمایا _,"*


*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وہ زوجہ ہیں جن کا انتقال سب سے آخر میں ہوا، آپ کا نکاح مقام سرف میں ہوا تھا اور آپ کی وفات بھی اسی مقام پر ہوئی، آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھانجے سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی _,"*  


*★_ آپ دینی مسائل کی بہت بڑی عالمہ تھیں، ایک عورت بہت بیمار ہو گئی، اس نے منت مانی کہ اگر وہ شفایاب ہوگئی تو بیت المقدس جاکر نماز ادا کرے گی، کچھ دنوں بعد وہ صحت مند ہو گئی اور اپنی منت کے مطابق بیت المقدس میں جانے کی تیاریاں کرنے لگی، وہاں کے لئے لیے رخصت ہونے سے پہلے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، گے آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس سے فرمایا:- "_ تم یہیں مسجد نبوی میں جاکر نماز پڑھ لو کیونکہ اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد میں نماز پڑھنے کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے _,"*


*★_ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کے لیے خود کو ہر وقت تیار رکھا کرتی تھیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- "_ میمونہ ہمے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی اور صلہ رحمی کرنے والی ہیں _,"* 


*★_ آپ کو غلام آزاد کرنے کا بہت شوق تھا، ایک روز ایک باندی کو آزاد کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بڑے ثواب کی خوشخبری سنائی،*

*"_ آپ کبھی کبھی قرض بھی لے لیتی تھیں_,"* 


*★_ چنانچہ ایک مرتبہ قرض لیا، رقم کچھ زیادہ تھی، کسی نے آپ سے پوچھا:- آپ یہ قرض کیسے ادا کریں گی _,"*

*"_ آپ نے فرمایا:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جو شخص قرض ادا کرنے کی نیت رکھتا ہو، اللہ تعالی خود اس کا قرض ادا فرما دیتے ہیں _,"*

*"_ آپ پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں, آمین _,*    


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,156,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

⚂⚂⚂.

        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁

     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮

    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙

                   *■ امھات المومنین ■*

           *⚂ حضرت ماریہ قبطیہ رضی .⚂* 

  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙              

    *❀_ سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا _,*


*★_ آپ کا نام ماریہ تھا اور آپ کے والد کا نام شمعون تھا، مصر کے بادشاہ مقوقس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا... اور یہ ایسے ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے گردونواح کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت کے خطوط لکھے تھے، مصر کے حکمران مقوقس کو بھی آپ نے اسی طرح خط لکھا، یہ خط آپ کے صحابی ابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھیجا گیا، شاہ مقوقس حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے بہت عزت سے پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے جواب میں اس نے ایک خط لکھا، اس کے الفاظ یہ تھے :-* 


*"_ محمد بن عبداللہ کے نام مصر کے بادشاہ مقوقس کی طرف سے، سلام کے بعد واضح ہو کہ میں نے آپ کا خط پڑھا، جو کچھ اس کا مضمون ہے وہ میں نے سمجھ لیا ہے، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ایک نبی آنے والے ہیں، لیکن میرا گمان تھا کہ وہ ملک شام میں ظاہر ہوں گے، میں نے آپ کے سفیر کی بہت عزت اور تقریر کی ہے، دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں، ان کی قبتیوں میں بہت عزت ہے اور میں آپ کے لئے کپڑا اور سواری کا خچر بھی بھیج رہا ہوں، والسلام _،"* 


*★_ یہ دونوں لڑکیاں حضرت ماریہ اور ان کی بہن سیرین تھیں، مصر کے بادشاہ نے ان دونوں کے ساتھ ساتھ ہزار مثقال سونا، سفید کپڑے کے تھان اور آپ کی سواری کے لئے دلدل نام کا خچر ارسال کیا تھا _,"*


*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کو بالا خانے میں ٹھہرایا، اس بالا خانے میں آپ کے ہاں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری اولاد ابراہیم رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی پیدائش 8 ذوالحجہ کو ہوئی، ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ کیا، عقیقے میں آپ نے دو مینڑھے ذبح کیے، سر منڈوایا اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی گئی، بال زمین میں دفن کیے گئے _,""*     


*★_ ابراہیم بہت تندرست اور خوبصورت تھے، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تو آپ اتنے خوش ہوئے کہ آپ نے ابو رافع رضی اللہ عنہ کو ایک غلام انعام میں دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم کو گود میں لے کر پیار کیا کرتے تھے،* 


*★_ عرب کے قاعدے کے مطابق حضرت ابراہیم کو دودھ پلانے کے لئےایک دایہ کے حوالے کیا گیا، ان کا نام ام بردہ رضی اللہ عنہا تھا، یہ ایک لوہار کی بیوی تھیں، ان کے چھوٹے سے گھر میں عام طور پر بھٹی کا دھواں رہتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچے کو دیکھنے کے لیے لوہار کے گھر جاتے، وہاں دھواں آپ کی آنکھ اور ناک میں چلا جاتا، آپ انتہائی نازک طبع ہونے کے باوجود بچے کی خاطر اس کو برداشت کرتے _,*


*★_ ابراہیم ابھی 16 یا 18 ماہ کے ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا، انہوں نے آپ کے ہاتھوں میں جان دی، آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے :- "اللہ کی قسم ابراہیم ! ہم تمہاری موت سے بہت غمگین ہیں، آنکھ رو رہی ہے، دل غم زدہ ہے، مگر ہم ایسی بات زبان سے نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی نہ ہو _,"*


*★_ جس روز ابراہیم فوت ہوئے، اس روز سورج گرہن ہو گیا، پرانے زمانے کے لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے ہوا کرتے ہیں، اس اعتقاد کی بنیاد پر مدینہ منورہ کے لوگ بھی یہ بات کہنے لگے، آپ کو یہ بات بہت ناگوار ہوئی، آپ نے لوگوں کو جمع فرمایا اور ان کے سامنے ایک تقریر کی، اس میں آپ نے فرمایا :-*

*"_سورج اور چاند کو کسی انسان کی موت سے گرہن نہیں لگتا، بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالی کے حضور جھک جاؤ _,* 


*★_ سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں 16 ہجری میں انتقال فرمایا، آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا، اللہ تعالی کی آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,"*    


*📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,158,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵

💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 

                    ✍

         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*

http://www.haqqkadaayi.com

*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 

          ╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯

https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg

*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

https://t.me/haqqKaDaayi

*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*


Post a Comment

0 Comments