Islam aur Daure Haazir Ke Shub'haat- Urdu

 

🚿🚿
                      *✾✾﷽✾✾*  
            *︵︷︵︷︵︷︵︷︵︷︵*
             *اسلام اور دور حاضر کے شبہات*    
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (١)_ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کے لیے فرشتے کافی نہیں تھے ؟*

*·•●✿_ بعض لوگوں کو خاص کر نئی نسل کے لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت تھا تو اس کام کے لیے انسان کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو فرشتے پہلے سے بہت اچھی طرح انجام دے رہے تھے اور وہ اللہ کی عبادت تسبیح اور تقدیس میں لگے ہوئے تھے،*

*·•●✿_ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمانے کا ارادہ کیا اور فرشتوں کو بتایا کہ میں اس طرح کا ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں تو فرشتوں نے بے ساختہ یہ کہا کہ آپ ایک ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہیں جو زمین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا، عبادت تسبیح و تقدیس تو ہم انجام دے رہے ہیں،*

*·•●✿_ اسی طرح آج بھی اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہوتا تو اس کے لیے انسان کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ کام تو فرشتے پہلے ہی انجام دے رہے تھے۔ بیشک اللہ تعالی کے فرشتے اللہ تعالی کی عبادت کر رہے تھے لیکن ان کی عبادت بالکل مختلف نوعیت کی تھی، اور انسان کے سپرد جو عبادت کی گئی وہ بالکل مختلف نوعیت کی تھی،*

*·•●✿_ اس لیے کہ فرشتے جو عبادت کر رہے تھے ان کے مزاج میں اس کے خلاف کرنے کا امکان ہی نہیں تھا، وہ اگر چاہیں کہ عبادت نہ کریں تو ان کے اندر عبادت چھوڑنے کی صلاحیت نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر سے گناہ کرنے کا امکان ہی ختم فرمادیا اور نہ انہیں بھوک لگتی ہے نہ ان کو پیاس لگتی ہے اور نہ ان کے اندر شہوانی تقاضہ پیدا ہوتا ہے ، حتیٰ کہ ان کے دل میں گناہ کا وسوسہ بھی نہیں گذرتا، گناہ کی خواہش اور گناہ پر اقدام تو دور کی بات ہے،*

*·•●✿_ اس لیے اللہ تعالی نے ان کی عبادت پر کوئی اجر وثواب بھی نہیں رکھا، کیونکہ اگر فرشتے گناہ نہیں کر رہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں اور جب کوئی کمال نہیں تو پھر جنت والا اجر و ثواب بھی مرتب نہیں ہو گا,*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کے لیے فرشتے کافی نہیں تھے -٢,*

*·•●✿ مثلاً ایک شخص بینائی سے محروم ہے، جس کی وجہ سے ساری عمر اس نے نہ کبھی فلم دیکھی، نہ کبھی ٹی وی دیکھا اور نہ کبھی غیر محرم پر نگاہ ڈالی، بتا یے کہ ان گناہوں کے نہ کرنے میں اس کا کیا کمال ظاہر ہوا ؟ اس لیے کہ‌ اس کے اندر ان گناہوں کے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، لیکن ایک دوسرا شخص جس کی بینائی بالکل ٹھیک ہے، جو چیز چاہے دیکھ سکتا ہے، لیکن دیکھنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود جب کسی غیر محرم کی طرف دیکھنے کا تقاضہ دل میں پیدا ہوتا ہے تو وہ فوراً صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے نگاہ نیچے کر لیتا ہے،*

*·•●✿ اب بظاہر دونوں گناہوں سے بچ رہے ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، پہلا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے اور دوسرا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے لیکن پہلے شخص کا گناہ سے بچنا کوئی کمال نہیں اور دوسرے شخص کا گناہ سے بچنا کمال ہے،*

*·•●✿ لہٰذا اگر ملائکہ صبح سے شام تک کھانا نہ کھائیں تو یہ کوئی کمال نہیں، اس لیے کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی اور انہیں کھانے کی حاجت ہی نہیں، لہٰذا ان کے نہ کھانے پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں لیکن انسان ان تمام حاجتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے، لہٰذا کوئی انسان کتنے ہی بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ جائے، حتیٰ کہ سب سے اعلی مقام یعنی نبوت پر پہنچ جائے تب بھی وہ کھانے پینے سے مستعفیٰ نہیں ہو سکتا،*

*·•●✿ اس لیے اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہوں جس کو بھوک بھی لگے گی، پیاس بھی لگے گی اور اس کے اندر شہوانی تقاضے بھی پیدا ہوں گے اور گناہ کرنے کے دائیے بھی ان کے اندر پیدا ہوں گے لیکن جب گناہ کا داعیہ پیدا ہوگا، اس وقت وہ مجھے یاد کر لے گا اور مجھے یاد کر کے اپنے نفس کو اس گناہ سے بچالے گا، اس کی یہ عبادت اور گناہ سے بچنا ہمارے ہاں قدرو قیمت رکھتا ہے اور جس کا اجر وثواب اور بدلہ دینے کے لیے ہم نے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کی صفت "عرضها السماوات والأرض“ ہے,*

*·•●✿ انسان کو اس عبادت کے لیے اس لیے پیدا فرمایا تا کہ یہ دیکھیں کہ یہ انسان جس کے اندر ہم نے مختلف قسم کے دائیے اور خواہشات رکھی ہیں، ہم نے اس کے اندر گناہوں کے جذبات اور ان کا شوق رکھا ہے، ان تمام چیزوں کے باوجود یہ انسان ہماری طرف آتا ہے اور ہمیں یاد کرتا ہے یا یہ گناہوں کے داعیے کی طرف جاتا ہے اور ان جذبات کو اپنے اوپر غالب کر لیتا ہے اس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا۔*
*®_ (اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۷۰،۶۵)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (2)_انسانیت پیغمبر اور نبی کی محتاج کیوں ہے ؟*

*"•●✿_لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا ۞ [ الاحزاب : ۲۱]*
*"•●✿_ یعنی ہم نے نبی کریم ﷺ کو تمہارے پاس بہترین نمونہ بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم ان کی نقل اتارو اور اس شخص کے لیے بھیجا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔*

*"•●✿_ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نمونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب نازل فرما دی تھی، ہم اس کو پڑھ کر اس کے احکام پر عمل کر لیتے؟ بات در اصل یہ ہے کہ نمونے بھیجنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ انسان کی فطرت اور جہلت یہ ہے کہ صرف کتاب اس کی اصلاح کے لیے کافی اور اس کو کوئی فن کوئی علم و ہنر سکھانے کے لیے کافی نہیں ہوتا، بلکہ انسان کو سکھانے کے لیے کسی مربی کے عملی نمونے کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک نمونہ سامنے نہیں ہوگا، اس وقت تک محض کتاب پڑھنے سے کوئی علم اور کوئی فن نہیں آئے گا، یہ چیز اللہ تعالی نے اس کی فطرت میں داخل فرمائی ہے۔*

*"•●✿_ایک انسان اگر یہ سوچے کہ میڈیکل سائنس پر کتابیں لکھی ہو ئیں ہیں، میں ان کتابوں کو پڑھ کر دوسروں کا علاج شروع کر دوں، وہ پڑھنا بھی جانتا ہے، سمجھ دار بھی ہے، ذہین بھی ہے اور اس نے کتابیں پڑھ کر علاج شروع کر دیا تو وہ سوائے قبرستان آباد کرنے کے کوئی اور خدمت انجام نہیں دے گا۔*

*"•●✿_ چنانچہ دنیا بھر کا قانون یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر لے، جب تک وہ ایک مدت تک کسی ماہر ڈاکٹر کی نگرانی میں عملی نمونہ نہیں دیکھے گا اس وقت تک صحیح ڈاکٹری نہیں کر سکتا، اس کو اس وقت تک عام پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں، اب مرض ( کتابی تفصیل کے ساتھ ) اس کی عملی صورت مریض کی شکل میں دیکھ کر اسے صحیح معنی میں علاج کرنا آئے گا ، اس کے بعد اس کو عام پریکٹس کی اجازت دے دی جائے گی،*

*"•●✿_ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت یہ رکھی ہے کہ جب تک کسی مربی کا عملی نمونہ اس کے سامنے نہ ہو، اس وقت تک وہ صحیح راستے پر صیح طریقے پر نہیں آسکتا، اور کوئی علم و فن صحیح طور پر نہیں سیکھ سکتا، اس واسطے اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کا جو سلسلہ جاری فرمایا وہ در حقیقت اسی مقصد کو بتانے کے لیے تھا کہ ہم نے کتاب تو بھیج دی لیکن تنہا کتاب تمہاری رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہوگی، جب تک اس کتاب پر عمل کرنے کے لیے نمونہ تمہارے سامنے نہ ہو، اس لیے قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے حضور اقدس ﷺ کو اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ تم یہ دیکھو کہ یہ قرآن کریم تو ہماری تعلیمات ہیں اور یہ نبی ﷺ ہماری تعلیمات پر عمل کرنے کا نمونہ ہیں,

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (3)_ جب تقدیر میں سب کچھ لکھ دیا گیا ہے تو عمل کا کیا فائدہ ؟*

*"·•●✿_ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب تقریر میں لکھ دیا گیا ہے کہ کون شخص جنتی ہے اور کون سا شخص جہنمی ہے تو اب عمل کرنے سے کیا فائدہ ؟ ہو گا تو وہی جو تقدیر میں لکھا ہے۔*

*"·•●✿_ خوب سمجھ لیجیے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم وہی عمل کرو گے جو تقدیر میں لکھا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر میں وہی بات لکھی ہے جو تم لوگ اپنے اختیار سے کرو گے، اس لیے کہ تقدیر تو علم الہی کا نام ہے، اور اللہ تعالیٰ کو پہلے سے پتہ تھا کہ تم اپنے اختیار سے کیا کچھ کرنے والے ہو، لہٰذا وہ سب اللہ تعالی نے لوح محفوظ میں لکھ دیا لیکن تمہارا جنت میں جانا یا جہنم میں جانا در حقیقت تمہارے اختیاری اعمال ہی کی بنیاد پر ہوگا،*

*"·•●✿_ یہ بات نہیں ہے کہ انسان عمل وہی کرے گا جو تقدیر میں لکھا ہے، بلکہ تقدیر میں وہی لکھ دیا گیا ہے جو انسان اپنے اختیار سے عمل کرے گا، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے اور اس اختیار کے مطابق انسان عمل کرتا رہتا ہے، اب یہ سوچنا کہ تقریر میں تو سب لکھ دیا گیا ہے، لہٰذا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤ، یہ درست نہیں ہے،*

*"·•●✿_ چنانچہ جب حضور اقدس ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھ لیا کہ : ففيما العمل يا رسول الله ﷺ ؟ جب یہ فیصلہ ہو چکا کہ فلاں شخص جنتی اور فلاں شخص جہنمی تو پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ؟*
*"_ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا :- عمل کرتے رہو، اس لیے کہ ہر انسان کو وہی کام کرنا ہو گا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا، لہٰذا تم اپنے اختیار کو کام میں لا کر عمل کرتے رہو_,*
*®_( اصلاحی خطبات، ج ۸،ص ۱۶۷)*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (4)_ جب تقدیر میں سب کچھ لکھا ھوا ھے تو تدبیر کی کیا ضرورت؟*

*"·•●✿_ اور یہ تقدیر عجیب وغریب عقیدہ ہے جو اللہ تعالی نے ہر صاحب ایمان کو عطا فرمایا ہے، اس عقیدہ کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی غلطیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی واقعہ کے پیش آنے سے پہلے تقدیر کا عقیدہ کسی انسان کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے،*

*"·•●✿_ مثلاً ایک انسان تقدیر کا بہانہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے جائے اور یہ کہے کہ جو تقریر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا، میں کچھ نہیں کرتا، یہ عمل حضور اقدس ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جس چیز کے حاصل کرنے کی جو تدبیر ہے، اس کو اختیار کرو، اس کے اختیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو۔*

*"·•●✿_ دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر کے عقیدے پر عمل کسی واقعہ کے پیش آنے کے بعد شروع ہوتا ہے، مثلاً کوئی واقعہ پیش آچکا، تو ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ میں نے جو تدبیریں اختیار کرنی تھیں وہ کر لیں، اور اب جو واقعہ ہماری تدبیر کے خلاف پیش آیا، وہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ہم اس پر راضی ہیں،*

*·•●✿"_ لہذا واقعہ پیش آچکنے کے بعد اس پر بہت زیادہ پریشانی، بہت زیادہ حسرت اور تکلیف کا اظہار کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں تدبیر اختیار کر لیتا تو یوں ہو جاتا، یہ بات عقیدہ تقدیر کے خلاف ہے،*

*"·•●✿_ ان دو انتہاؤں کے درمیان اللہ تعالی نے ہمیں راہ اعتدال یہ بتا دی کہ جب تک تقدیر پیش نہیں آئی، اس وقت تک تمہارا فرض ہے کہ اپنی سی پوری کوشش کر لو، اور احتیاطی تدابیر بھی اختیار کر لو، اس لیے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ تقدیر میں کیا لکھا ہے؟*
*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۲۰۷]*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (5)_ تقدیر کا صحیح مفهوم اور حقیقت ؟*

*"·•●✿_ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ شام کے دورے پر تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں آپ کو اطلاع ملی کہ شام کے علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے، یہ اتنا سخت طاعون تھا کہ انسان بیٹھے بیٹھے چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا تھا، اس طاعون میں ہزار ہا صحابہ کرام شہید ہوئے ہیں، آج بھی اردن میں حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس پورا قبرستان ان صحابہ کرام کی قبروں سے بھرا ہوا ہے جو اس طاعون میں شہید ہوئے،*

*"·•●✿_ بہر حال حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ وہاں جائیں یا نہ جائیں اور واپس چلے جائیں، اس وقت حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث سنائی کہ حضور اقدس ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کسی علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑے تو جو لوگ اس علاقے سے باہر ہیں وہ اس علاقے کے اندر داخل نہ ہوں اور جو لوگ اس علاقے میں مقیم ہیں وہ وہاں سے نہ بھا گیں،*

*"·•●✿_ یہ حدیث سن کر حضرت فاروق اعظم نے رضی اللہ عنہ فرمایا کہ اس حدیث میں آپ کا صاف صاف ارشاد ہے کہ ایسے علاقے میں داخل نہیں ہونا چاہیے،‌ لہٰذا آپ نے وہاں جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا، اس وقت ایک صحابی غالباً حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے‌ انہوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ یعنی اگر اللہ تعالی نے اس طاعون کے ذریعہ موت کا آنا لکھ دیا ہے تو وہ موت آکر رہے گی، اور اگر تقدیر میں موت نہیں لکھی تو جانا اور نہ جانا برابر ہے،*

*"·•●✿_ جواب میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ! اگر آپ کے علاوہ کوئی شخص یہ بات کہتا تو میں اس کو معذور سمجھتا لیکن آپ تو پوری حقیقت سے آگاہ ہیں آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ تقدیر سے بھاگ رہا ہوں، پھر فرمایا کہ: ہاں ! ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ جب تک واقعہ پیش نہیں آیا، اس وقت تک ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم ہے، اور ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا عقیدہ تقدیر کے خلاف نہیں، بلکہ عقیدہ تقدیر کے اندر داخل ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرو، چنانچہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے واپس جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر تقدیر میں ہمارے لیے طاعون کی بیماری میں مبتلا ہونا لکھا ہے تو اس کو ہم ٹال نہیں سکتے لیکن اپنی سی تدبیر ہمیں پوری کرنی چاہیے۔*

*"·•●✿_ یہ ہے ایک مومن کا عقیدہ کہ اپنی طرف سے تدبیر پوری کی لیکن تدبیر کرنے کے بعد معاملہ اللہ تعالی کے حوالے کر دیا اور یہ کہ دیا کہ اللہ ہمارے ہاتھ میں جو تدبیر تھی وہ تو ہم نے اختیار کر لی، اب معاملہ آپ کے اختیار میں ہے، آپ کا جو فیصلہ ہوگا، ہم اس پر راضی رہیں گے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لہٰذا واقعہ کے پیش آنے سے پہلے عقیدہ تقدیر کسی کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے، جیسے بعض لوگ عقیدہ تقدیر کو بے عملی کا بہانہ بنا لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جو تقریر میں لکھا ہے وہ تو ہو کر رہے گا، لہٰذا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے جائیں، کام کیوں کریں؟ یہ درست نہیں، کیونکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی تدبیر کرتے رہو، ہاتھ پاؤں ہلاتے رہو، لیکن ساری تدابیر اختیار کرنے کے بعد اگر واقعہ اپنی مرضی کے خلاف پیش آجائے تو اس پر راضی رہو،*
*®_(اصلاحی خطبات اج سے ہی ۲۰۸)*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ اللہ کے تمام کام قابل تعریف کیونکر ہیں؟*

*"·•●✿_اس جملے میں دعویٰ تو یہ کیا گیا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کی ہیں، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہر کام قابل تعریف ہے، تو کبھی کبھی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کائنات میں بہت سے واقعات ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جو دیکھنے میں اچھے نہیں لگتے، جن کی بظاہر تعریف نہیں کی جاتی، جن کو دیکھ کر صدمہ ہوتا ہے، جن کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، مثلاً کسی انسان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، کسی انسان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، کسی کو نا حق قتل کیا جارہا ہے، کسی کے اوپر ڈاکے ڈالے جارہے ہیں ، یہ سارے کام بھی تو اسی کا ئنات میں ہور ہے ہیں، اور ان میں سے کوئی کام ایسا نہیں جس کی تعریف کی جاسکے، تو پھر یہ کہنا کہ اللہ کے تمام کام قابل تعریف ہیں یہ کیسے درست ہوا؟*

*"·•●✿_ در حقیقت "رب العالمین" کے لفظ میں اس سوال کا بھی جواب ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جو تم کسی واقعہ سے رنجیدہ ہوتے ہو، جس سے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے، یا غم ہوتا ہے تو تم اپنی چھوٹی سی عقل کے دائرے میں رہ کر سوچ رہے ہو، اور اس چھوٹی سی محدود عقل کے دائرے میں رہ کر تم کسی بات کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہو کہ یہ نا گوار ہے، یہ اچھی نہیں، یہ تکلیف دہ ہے، اس میں غم ہے، اس میں صدمہ ہے، یہ تم اپنی چھوٹی سی عقل میں رہ کر سوچتے ہو، لیکن باری تعالی جو پوری کائنات کا خالق ہے، جو پوری کائنات کا نظام چلا رہا ہے، جو ساری کائنات کو پال پوس رہا ہے، اس کی نگاہ میں ہے کہ کس لمحہ کونسا کام اس کائنات کی مصلحت کے مطابق ہے، اور کونسا کام مصلحت کے مطابق نہیں ہے، تمہاری چھوٹی سی عقل میں اس کی مصلحت نہیں آسکتی۔*

*"·•●✿_اس کی مثال یوں سمجھو کہ اگر ایک بچہ کے کوئی پھوڑا انکل آیا ہے اور کوئی ڈاکٹر اس کا آپریشن کر کے اس پھوڑے کو نکال رہا ہے اور بچہ چیخ رہا ہے، اور چلا رہا ہے، تم اس کے جینے اور پکارنے کو دیکھ کر یہ سمجھو گے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، اور اس کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، یہ بچہ رورہا ہے، اور چلا رہا ہے، اور ڈاکٹر ہے کہ اس کے اوپر نشتر چلا رہا ہے لیکن اگر ذرا سی عقل سے کام لو گے تو پتہ چلے گا کہ اس کے ساتھ جو عمل کیا جارہا ہے یہ در حقیقت اس کے لیے فائدہ مند ہے، یہی اس کے حق میں مفید ہے،*

*"·•●✿_ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال میں نے دے دی لیکن جس کے سامنے پوری کائنات کا نظام ہے، وہ وہی جانتا ہے کہ کس لمحہ کون سی بات اس کا ئنات کی مصلحت کے مطابق ہے، وہ رب العالمین ہے، لہٰذا جو فیصلہ کرتا ہے اس کا فیصلہ برحق ہے، اس کا فیصلہ مصلحت کے عین مطابق ہے۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۷، ص ۲۷۵)*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (7)_ کونسی پریشانی رحمت ہے اور کونسی عذاب ؟*

*"·•●✿_ جب انسان کسی پریشانی میں ہو، یا کسی بیماری یا تکلیف میں ہو، یا افلاس اور تنگ دستی میں ہو، یا قرض کی پریشانی یا بے روزگاری کی پریشانی میں ہو، یا گھر کی طرف سے پریشانی ہو، اس قسم کی جتنی پریشانیاں جو انسان کو دنیا میں پیش آتی ہیں یہ دو قسم کی ہوتی ہیں:-*

*"·•●✿_ پہلی قسم کی پریشانیاں وہ ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے قہر اور عذاب ہوتا ہے، گناہوں کی اصل سزا تو انسان کو آخرت میں ملنی ہے، لیکن بعض اوقات اللہ تعالی انسان کو دنیا میں بھی عذاب کا مزہ چکھا دیتے ہیں، جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہے:- آخرت میں جو بڑا عذاب آنے والا ہے، ہم اس سے پہلے دنیا میں بھی تھوڑا سا عذاب چکھا دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائیں _,*
*"·•●_اور دوسری قسم کی تکالیف اور پریشانیاں وہ ہوتی ہیں جن کے ذریعہ بندے کے درجات بلند کرنے ہوتے ہیں اور اس کے درجات کی بلندی اور اس کو اجر و ثواب دینے کے لیے اس کو تکلیفیں دی جاتی ہیں۔*

*"·•●✿_ لیکن دونوں قسم کی پریشانیوں اور تکالیف میں فرق کس طرح کریں گے کہ یہ پہلی قسم کی پریشانی ہے یا دوسری قسم کی پریشانی ہے؟ ان دونوں قسموں کی پریشانیوں اور تکالیف کی علامات الگ الگ ہیں، وہ یہ کہ اگر انسان ان تکالیف کے اندر اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دے اور اس تکلیف کے نتیجے میں وہ اللہ تعالی کی تقدیر کا شکوہ کرنے لگے، مثلاً یہ کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ ) اس تکلیف اور پریشانی کے لیے میں ہی رہ گیا تھا، میرے اوپر یہ تکلیف کیوں آرہی ہے؟ یہ پریشانی مجھے کیوں دی جارہی ہے؟ وغیرہ اور اللہ تعالی کی طرف سے دیے ہوئے احکام چھوڑ دے،*
*"·•●_یہ اس بات کی علامات ہیں کہ جو تکلیف اس پر آئی ہے یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس انسان پر قہر اور عذاب ہے اور سزا ہے، اللہ تعالی ہر مؤمن کو اس سے محفوظ رکھے، آمین ۔*

 *"·•●✿_اور اگر تکالیف آنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہا ہے اور دعا کر رہا ہے, استغفار کر رہا ہے، اور دل کے اندر اس تکلیف پرشکوہ نہیں ہے، وہ اس تکلیف کا احساس تو کر رہا ہے، رنج اور غم کا اظہار بھی کر رہا ہے، لیکن اللہ تعالی کی تقدیر پر شکوہ نہیں کر رہا ہے بلکہ اس تکلیف میں وہ پہلے سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کر رہا ہے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ تکلیف اللہ تعالی کی طرف سے بطور ترقی درجات ہے اور یہ تکالیف اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہیں، اور یہ تکلیف بھی اس کے لیے رحمت ہے، اور یہ اس انسان کے ساتھ اللہ کی محبت کی دلیل اور علامت ہے۔*
*( اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۱۰۸)*                  
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (8)_ اللہ کے نیک بندوں پر ہی آزمائش اور پریشانی کیوں آتی ہے؟

*"·•●✿ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی کو دوسرے سے محبت ہوتی ہے تو محبت میں تو اس کو آرام پہنچایا جاتا ہے، راحت دی جاتی ہے، تو جب اللہ تعالی کو اس بندے سے محبت ہے تو اس بندے کو آرام پہنچانا چاہیے، پھر اللہ تعالی اس کو تکلیف کیوں دے رہے ہیں؟*

*"·•●✿ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی تکلیف نہ پہنچے، کوئی نہ کوئی صدمہ اور پریشانی نہ ہو، چاہے وہ بڑے سے بڑا نبی اور پیغمبر ہو، ولی اور صوفی ہو، یا بادشاہ ہو، یا سرمایہ دار ہو، ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا میں تکلیف کے بغیر زندگی گزارے،*

*"·•●✿ اس لیے کہ یہ عالم یعنی دنیا اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ اس میں غم اور خوشی، راحت اور تکلیف سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں، خالص خوشی اور راحت کا مقام دنیا نہیں ہے، بلکہ وہ عالم جنت ہے، جس کے بارے میں فرمایا کہ لاخوف علیہم ولا ہم یحزنون، یعنی وہاں نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم ہے، اصل خوشی اور راحت کا مقام تو وہ ہے،*

*"·•●✿ دنیا تو اللہ تعالی نے بنائی ایسی ہے کہ اس میں کبھی خوشی ہوگی اور کبھی غم ہوگا کبھی سردی ہوگی کبھی گرمی ہوگی کبھی دھوپ ہوگی کبھی چھاؤں ہوگی ،کبھی ایک حالت ہوگی کبھی دوسری حالت ہوگئی، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس دنیا میں بے غم ہو کر بیٹھ جائے۔*                
*"·•●✿_اس دنیا میں کوئی بھی شخص صدمے غم اور تکلیف سے خالی ہو ہی نہیں سکتا، البتہ کسی کو کم تکلیف ہے،‌کسی کو زیادہ ہے، کسی کو کوئی تکلیف کسی کوکوئی تکلیف، اللہ تعالی نے اس کا ئنات کا نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ کسی کو کوئی دولت دے دی ہے اور کسی سے کوئی دولت لے لی ہے، کسی کو صحت کی دولت دے دی ہے، لیکن روپیہ پیسہ کی دولت سے محروم ہے، کسی کو روپیہ پیسہ کی دولت حاصل ہے تو صحت کی دولت سے محروم ہے، کسی کے گھر کے حالات اچھے ہیں لیکن معاشی حالات خراب ہیں، کسی کے معاشی حالات اچھے ہیں لیکن گھر کی طرف سے پریشانی ہے ، غرض ہر شخص کا اپنا الگ حال ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی تکلیف اور پریشانی میں گھرا ہوا ہے۔*

 *"·•●✿_ایک حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں- تو اس پر مختلف قسم کی آزمائشیں اور تکالیف بھیجتے ہیں، وہ آزمائشیں اور تکالیف اس پر بارش کی طرح برستی ہیں،*

*"·•●✿_ بعض روایات میں آتا ہے کہ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یا اللہ ! یہ تو آپ کا محبوب بندہ ہے، نیک بندہ ہے آپ سے محبت کرنے والا ہے، تو پھر اس بندے پر اتنی آزمائشیں اور تکالیف کیوں بھیجی جارہی ہیں؟ جواب میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس بندے کو اسی حال میں رہنے دو، اس لیے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اس کی دعا کی اور اس کی گریہ وزاری اور آہ و بکا کی آواز سنوں،*

*"·•●✿_ یہ حدیث اگر چہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے لیکن اس معنی کی متعدد احادیث آئی ہیں، بات وہی ہے کہ دنیا میں تکالیف اور پریشانیاں تو آنی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرا محبوب بندہ ہے، میں اس کے لیے تکلیف کو دائمی راحت کا ذریعہ بنانا چاہتا ہوں، اور تاکہ اس کا درجہ بلند ہو جائے، اور جب آخرت میں میرے پاس پہنچے تو گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو کر پہنچے،*
*®_( اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۱۰۹، ۱۱۷)*                 
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(9)_کیا غریب پر اللہ تعالیٰ کو ترس نہیں آتا؟*

*"·•●✿_ آپ جب غریب اور تنگ دست فقیر کو دیکھتے ہیں تو اس پر بڑا ترس کھاتے ہیں کہ اس بیچارے کا بڑا برا حال ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو تو ترس آ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس پر ترس نہیں آرہا ہے۔*

*"·•●✿_ اللہ تعالی تم سے زیادہ جانتا ہے جس نے یہ کارخانہ بنایا ہے کہ کس پرزے کے ساتھ کیا بات مناسب ہے۔ تم کیا؟ تمہارا دماغ کیا ؟ تمہاری عقل کیا ؟ تمہاری سمجھ و سوچ کیا ؟ تمہیں کیا معلوم کہ کس پرزے کو کس کام میں لگایا ہوا ہے؟ اور اس سے کیا مطلوب ہے؟ کیا اس کا انجام ہونا ہے؟*

*"·•●✿_ یہ باتیں تو وہی علیم و خبیر جانتا ہے، وہ عالم بھی ہے اور حکیم بھی ہے، اس لئے وہی جانتا ہے کہ اس کے حق میں غریبی اور تنگدستی ہی مناسب ہے۔ اللہ تعالی تم سے زیادہ رحیم ہیں، رحم کے نتیجہ میں اس کو زیادہ مال و دولت نہیں دی۔*
*®_ [ اصلاحی مجالس، ج ۴، ص ۲۵۱]*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (10)_ یہ آرزو اور خواهش کرنا کہ " کاش ! ہم حضور ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں پیدا ھوتے-١:-*

 *“·•●✿_ کبھی کبھی ہمارے دلوں میں ایسا خیال آتا ہے کہ کاش ہم بھی حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں پیدا ہوئے ہوتے، اور اُس زمانے کی برکات حاصل کرتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوتے اور سرکار دوعالم ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی،*

*"·•●✿_ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی مصلحت ہے کہ انہوں نے ہمیں اس دور میں پیدا نہیں کیا، اگر ہم اپنی موجودہ صلاحیت, موجودہ ظرف کے ساتھ جو آج ہمارے اندر ہے، اس دور میں ہوتے تو شاید ابو جہل، ابولہب کی صف میں ہوتے، یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ظرف تھا، اور ان کی استطاعت تھی کہ کہ انہوں نے سرکار دو عالم ﷺ کا ایسے مشکل حالات میں ساتھ دیا،*

*"·•●✿_ اللہ تعالیٰ جس شخص کو جو سعادت عطا فرماتے ہیں اس کے ظرف کے مطابق عطا فرماتے ہیں، یہ تو صحابہ کرام کا ظرف تھا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی صحبت سے استفادہ بھی کیا اور اس کا حق بھی ادا کیا، وہ زمانہ بے شک بڑی سعادتوں کا زمانہ تھا لیکن ساتھ میں بڑے خطرے کا زمانہ بھی تھا، آج ہمارے پاس حضور اقدس ﷺ کے جو ارشادات ہیں وہ واسطہ در واسطہ ہو کر ہم تک پہنچے ہیں،*

*"·•●✿_ اس لیے علما کرام نے فرمایا کہ جو شخص خبر واحد سے ثابت شدہ بات کا انکار کر دے اور یہ کہے کہ میں اس بات کو نہیں مانتا تو ایسا شخص سخت گناہ گار ہو گا لیکن کا فرنہیں ہوگا، منافق نہیں ہوگا،*

*"·•●✿_ اور اس زمانے میں اگر کسی شخص نے کوئی کلمہ حضور اقدس ﷺ کی زبان مبارک سے براہ راست سنا اور پھر اس کا انکار کیا تو انکار کرتے ہی کفر میں داخل ہو گیا،*                 

*"·•●✿_اور حضرات صحابہ کرام کو ایسی ایسی آزمائشیں پیش آئی ہیں کہ یہ انہی کا ظرف تھا کہ ان آزمائشوں کو جھیل گئے، خدا جانے اگر ہم ان کی جگہ ہوتے تو نہ جانے کس شمار میں ہوتے،*

 *"·•●✿_ اس ماحول میں جس طرح حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، اسی ماحول میں ابو جہل اور ابولہب بھی پیدا ہوئے، عبد اللہ بن أبی اور دوسرے منافقین بھی پیدا ہوئے۔*

*"·•●✿_ ارے ! یہ تو اللہ تعالی کی حکمت ہے اور وہی اپنی حکمت سے فیصلہ فرماتے ہیں اور اپنی حکمت سے ہمیں اس دور میں پیدا فرمایا، اگر ہم اُس دور میں پیدا ہو جاتے تو خدا جانے کس اسفل السافلین میں ہوتے، اللہ تعالیٰ بچائے، آمین ، اس لیے کہ وہاں ایمان کا معاملہ اتنا نازک تھا کہ ذرا سی دیر میں انسان ادھر سے ادھر ہو جاتا تھا،*

*"·•●✿_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور ﷺ کے ساتھ جس جانثاری کا معاملہ فرمایا وہ انہیں کا ظرف تھا اور اسی کے نتیجے میں وہ اس درجے تک پہنچے، اگر ہم جیسا آرام پسند اور عافیت پسند آدمی اس دور میں ہوتا تو خدا جانے کیا حشر بنتا، یہ اللہ تعالی کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں اس انجام سے بچایا اور ایسے دور میں پیدا فرمایا جس میں ہمارے لیے بہت ہی آسانیاں ہیں،*

*"·•●✿_ اس لیے اللہ تعالی نے جس شخص کے حق میں جو چیز مقدر فرمائی ہے وہی چیز اس کے حق میں بہتر ہے، لہذا یہ تمنا کرنا کہ کاش ہم صحابہ کرام کے زمانے میں پیدا ہوتے یہ نادانی کی تمنا ہے، اور معاذ اللہ یہ اللہ تعالی کی حکمت پر اعتراض ہے، جس شخص کو اللہ تعالی جتنی نعمت عطا فرماتے ہیں وہ اس کے ظرف کے مطابق عطا فر ماتے ہیں_,"*
*® (اصلاحی خطبات ، ج سے ہمیں ۱۷۵، ج ۸ ص ۷۸ )*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(11)_اگر ایسا ہو جاتا اگر ویسا ہوجات:-* 

*"·•●✿_ لفظ ”اگر " شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے، فرمایا کہ: "اگر دنیاوی زندگی میں تمہیں کوئی مصیبت اور تکلیف پہنچے تو یہ مت کہو کہ اگر یوں کر لیتا تو ایسانہ ہوتا، اور اگر یوں کر لیتا تو ایسا ہوجاتا، یہ اگر مگر مت کہو، بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت یہی تھی، جو اللہ نے چاہا وہ ہو گیا، اس لیے کہ یہ لفظ " اگر شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے،*

*"·•●✿_ مثلاً کسی کے عزیز کا انتقال ہو جائے تو کہتا ہے کہ اگر فلاں ڈاکٹر سے علاج کر لیتا تو یہ بچ جاتا، یا مثلاً کسی کے ہاں چوری ہو گئی، یا ڈاکہ پڑ گئا تو کہتا ہے کہ فلاں طریقے سے حفاظ کر لتا تو چوری نہ ہوتی، وغیرہ ایسی باتیں مت کہو بلکہ ہوں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقریر میں ایسا ہی ہونا مقدر تھا، اس لیے ہو گیا، میں اگر ہزار تدبیر کر لیتا تب بھی ایسا ہی ہوتا،*

 *"·•●✿_مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کسی بات کا فیصلہ فرما دیں ، اور اللہ تعالی کے فیصلے کے مطابق کوئی واقعہ پیش آجا ئے تو اب اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ نہ ہوتا تو اچھا تھا، یا یہ کہنا کہ ایسا ہوجاتا، یہ کہنا اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہونے کے خلاف ہے، ایک مومن سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اور اس کے فیصلے پر راضی رہے، اور اس تقدیر کے فیصلے پر اس کے دل میں شکایت پیدا نہ ہو، اور نہ دل میں اس کی برائی ہو، بلکہ دل و جان سے اس پر راضی رہے،*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۲۰۵،۲۰۲)*                 
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (12)_ کیا غم اور صدمہ کا اظهار رضا بالقضا کے منافی ہے؟*

*"·•●✿_ اب ایک بات اور سمجھ لینی چاہیے، وہ یہ کہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ اگر کوئی تکلیف دہ واقعہ پیش آئے ، یا کوئی غم ، یا صدمہ پیش آئے تو اس غم اور تکلیف پر رونا صبر کے منافی اور خلاف نہیں اور گناہ نہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ غم اور صدمہ کرنا اور اس کا اظہار کرنا جائز ہے، رونا بھی جائز ہے اور دوسری طرف آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، یہ دونوں چیزیں کیسے جمع کریں کہ ایک طرف فیصلے پر راضی بھی ہوں اور دوسری طرف غم اور صدمہ کا اظہار بھی کرنا جائز ہو؟*

*"·•●✿_ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ غم اور صدمہ کا اظہار الگ چیز ہے اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا الگ چیز ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فیصلہ عین حکمت پر مبنی ہے، اور ہمیں اس کی حکمت معلوم نہیں اور حکمت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے دل کو تکلیف پہنچ رہی ہے، اس لیے غم اور صدمہ بھی ہے اور اس غم اور صدمہ کی وجہ سے ہم رو بھی رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہیں،*

*"·•●✿_ لیکن ساتھ ساتھ یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا ہے وہ برحق ہے، حکمت پر مبنی ہے، لہٰذا ارضا سے مراد رضا عقلی ہے، یعنی عقلی طور پر انسان یہ سمجھے کہ یہ فیصلہ صحیح ہے۔*
*®_[ اصلاحی خطبات ، 7/210]*                

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (13)_کوئی کام "اتفاقی" نہیں ہوتا !*

*"·•●✿ _ ویسے تو انسان کے ساتھ دن رات واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن بعض اوقات انسان غفلت کی وجہ سے ان واقعات کو اتفاق کا نتیجہ سمجھتا ہے اور دوسروں سے کہتا ہے کہ اتفاق سے ایسا ہو گیا ، مثلاً وہ کہتا ہے کہ میں گھر سے باہر نکلا تو اتفاق سے ایک آدمی مل گیا اور اس نے کہا کہ مجھے ایک ملازم کی تلاش ہے، میں نے کہا کہ میں فارغ ہوں ، چنانچہ اس نے مجھے ملازم رکھ لیا، اس کا نام اس نے اتفاق رکھ دیا،*

*"·•●✿ _ حالانکہ اس کائنات میں کوئی کام اتفاق سے نہیں ہوتا ، بلکہ یہ تو ایک حکیم مطلق کا کارخانہ حکمت ہے، اس کی منصوبہ بندی کے تحت سب کچھ انجام پا رہا ہے، یہ کوئی اتفاق نہیں کہ تم گھر سے نکلے اور تمہاری اس ادمی سے ملاقات ہو گئی بلکہ وہ کسی کا بھیجا ہوا آیا تھا اور تم کسی بھیجے ہوئے گئے تھے دونوں کا آپس میں ملاپ ہو گیا اور بات بن گئی، یہ اللہ تبارک و تعالی کی حکمت ہے،* 

*"·•●✿ _ حضرت مولانا مفتی محمد صفی صاحب قدوس اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اج کل کی دنیا جس کو اتفاق کا نام دیتی ہے کہ اتفاقاً یہ کام اس طرح ہو گیا یہ سب غلط ہیں، اس لیے کہ اس کائنات میں کوئی کام اتفاقاً نہیں ہوتا بلکہ اس کائنات کا ہر کام اللہ تعالی کی حکمت مشیت اور نظم کے تحت ہوتا ہے، جب کسی کام کی علت اور سبب ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کام کن اسباب کی وجہ سے ہوا تو بس ہم کہہ دیتے ہیں کہ اتفاقاً یہ کام اس طرح ہو گیا،*

*"·•●✿ _ ارے! جو اس کا ئنات کا مالک اور خالق ہے وہی اس پورے نظام کو چلا رہا ہے اور ہر کام پورے مستحکم نظام کے تحت ہورہا ہے، کوئی ذرہ اس کی مشیت کے بغیر بل نہیں سکتا۔ البتہ بعض اوقات جب ہمیں کسی کام کا ظاہری سبب آنکھوں سے نظر نہیں آتا تو ہم اپنی حماقت سے کہہ دیتے ہیں کہ اتفاق سے ایسا ہو گیا، حقیقت میں اتفاق کوئی چیز نہیں بلکہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی حکمت ہے۔*
*®_( اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۳۳)*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (14)_ ایمان اور عقیدہ کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات کا آنا-:-*

*"•●✿_ یہ وسو سے جو انسان کے دل میں آتے ہیں، دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وسوسہ وہ ہوتا ہے جو اللہ بچائے ایمان وغیرہ سے متعلق آنے لگتا ہے، کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے، خواہ کتنا بھی بڑا مسلمان ہو، کتنا بڑا متقی پرہیز گار ہو، کبھی نہ کبھی اس کے دل میں کوئی خراب قسم کے وسوسے نہ آئے ہوں، دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے کہ ہم ایمان تو لے آئے اللہ کے اوپر اللہ کی وحدانیت پر، رسول اللّٰہ ﷺ کی رسالت پر، مرنے کے بعد کی زندگی پر، آخرت پر، جنت پر جہنم پر لیکن کبھی کبھی شیطان یہ سو سے ڈالتا ہے کہ یہ باتیں صحیح بھی ہیں یا نہیں ؟*

*"•●✿_ اس قسم کے خیالات انسان کے دل میں ڈالتا ہے، یہ وسوسہ اگر زیادہ پیچھے پڑ جائے تو پھر انسان کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔*
*®_( خطبات عثمانی، ج ۱ ص ۲۸۲)*

*"•●✿_جس شخص کا دین کی طرف اور اصلاح کی طرف دھیان ہی نہیں ہے، اور دن رات دنیاوی مشاغل میں منہمک ہے فسق و فجور میں مبتلا ہے، ایسے شخص کو وسوسے نہیں آتے، وسو سے اس شخص کو آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے پر اور دین کے راستے پر چل پڑتا ہے، اس کو طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں۔ ایسے وسو سے آتے ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی کو شبہ ہونے لگتا ہے کہ میرا ایمان بھی باقی رہا یا نہیں؟*

*"•●✿_ کبھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں وسوسے آئیں گے، کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وسوسے آئیں گے کبھی قرآن کریم اور حدیث کے بارے میں وسوسے آئیں گے، اور کبھی شریعت کے احکام کے بارے میں وسوسے آئیں گے۔ اگر ایسے موقع پر انسان کی صحیح رہنمائی نہ ہو تو انسان گمراہی کے راستے پر پڑ جاتا ہے۔ العیاذ باللہ۔*                 

*"•●✿_ ان وساوس کا علاج حضرت والا یہ بیان فرمارہے ہیں کہ ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ وساوس آتے ہیں تو آنے دو، کوئی پروا ہی نہ کرو، اس طرف دھیان ہی نہ دو کہ دل میں کیا وسوسہ آ رہا ہے اور کیا جارہا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ یہ وساوس خود ایمان کی علامت ہیں،*

*"•●✿__ حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی نے حضور اقدس ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ! بعض اوقات میرے دل میں ایسے وسوسے اور ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان خیالات کو زبان پر لانے کے مقابلے میں جل کر کوئلہ ہو جانا مجھے گوارہ ہے، اس لئے میں کیا کروں ؟ سبحان اللہ! نبی کریم ﷺ نے کیا جواب دیا، فرمایا: "ذاك صريح الايمان_" (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسة فی الایمان )*

*"•●✿__کھلی ایمان کی علامت ہے۔ یعنی ایسے وسوسوں کا اور ایسے خیالات کا آنا تو کھلے ایمان کی علامت ہے، مومن ہی کے دل میں ایسے وسوسے آسکتے ہیں، اور جو کافر ہو یافسق و فجور میں مبتلا ہو، اس کو ایسے وسوسے نہیں آتے،*

*"•●✿__ حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چور اسی گھر میں آتا ہے جہاں کچھ مال ہو، جہاں مال ہی نہ ہو وہاں چور کیوں جائے گا،۔ لہذا دل میں یہ چور (شیطان) اس لئے آرہا ہے کہ اس کو معلوم ہے کہ اس دل میں کچھ ہے، اگر اس دل میں اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہوتا تو اس چور کو آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ لہذا جب وسو سے اور خیالات آئیں تو پہلے اس بات پر شکر ادا کرو کہ الحمد للہ ایمان موجود ہے، ورنہ یہ خیالات آتے ہی نہیں۔*

*"•●✿__ اور ایمان کے موجود ہونے کی دلیل اس طرح ہے کہ جب آپ کے دل میں یہ خیالات آتے ہیں تو آپ کو پریشانی ہوتی ہے، اور ان خیالات کا آنا آپ کو برا معلوم ہوتا ہے، اگر دل میں ایمان نہ ہوتا تو پریشانی کیوں ہوتی ، اگر ایمان نہ ہوتا تو دل میں ان خیالات کے آنے پر برا کیوں لگتا ، ان خیالات سے تکلیف کیوں ہوتی معلوم ہوا کہ دل میں ایمان ہے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(15) _ آپ ﷺ کی بعثت اور قیامت کس طرح قریب ہے ؟*

*·•●✿_ چودہ سو سال گذر گئے اب تک تو قیامت نہیں آئی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جیسے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی اور دونوں انگلیاں اٹھا کر آپ نے فرمایا کہ جس طرح ان دونوں انگلیوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں بلکہ دونوں ملی ہوئی ہیں، اسی طرح میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں کہ دونوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں، وہ قیامت بہت جلد آنے والی ہے۔*

*·•●✿_ اب لوگوں کو اشکال ہوتا ہے کہ چودہ سو سال تو حضور اقدس ﷺ کو گذر گئے اب تک تو قیامت آئی نہیں، بات در اصل یہ ہے کہ ساری دنیا کی عمر کے لحاظ سے اگر دیکھو گے، اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کا لحاظ کر کے اگر دیکھو گے تو ہزار دو ہزار سال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،*

 *·•●✿_اسی لیے آپ نے فرمایا کہ میرے اور قیامت کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے، وہ قیامت بہت قریب آنے والی ہے۔ اور ساری دنیا کی جو مجموعی قیامت آنے والی ہے وہ خواہ کتنی ہی دور ہو، لیکن ہر انسان کی قیامت تو قریب ہے، کیونکہ جو مر گیا اور جس کو موت آ گئی، اس کی قیامت تو اسی دن قائم ہو گئی، اس واسطے جب قیامت آنے والی ہے، خواہ وہ مجموعی قیامت ہو یا انفرادی، اور اس کے بعد خدا جانے کیا معاملہ ہونے والا ہے،*

*·•●✿_ اس لیے میں تم کو ڈرا رہا ہوں کہ وہ وقت آنے سے پہلے تیاری کر لو، اور اس وقت کے آنے سے پہلے ہوشیار ہو جاؤ اور اپنے آپ کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے بچالو۔*
*®( اصلاحی خطبات ج ۱ ص ۲۱۳ تا ۲۱۵)*                

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (16)_ کیا نحوست کا کوئی خاص دن یا خاص وقت ہوتا ہے ؟ ماه ذوالقعدۃ منحوس نہیں*

*"·•●✿_ بات دراصل یہ ہے کہ بہت سی باتیں ہم لوگوں کے اندر غیر قوموں سے آ گئی ہیں، اور غیر قوموں کے اندر تو ہم پرستی بہت ہے کہ فلاں دن سعد ہے، فلاں دن نحس ہے، فلاں دن منحوس ہے، فلاں دن برکت والا ہے، حقیقت میں کوئی دن منحوس نہیں ہوتا ، سال کے ۳٦٥ دن سب اللہ تعالٰی کے پیدا کیے ہوئے ہیں، کسی دن کے اندر بھی کوئی نحوست نہیں، کوئی ہے برکتی نہیں،*.

*"·•●✿_ ہاں ! بعض دنوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت دے کر اس کی فضیلت بڑھا دی ہے، لہٰذا فضیلت والے دن تو بہت ہیں، مہینے بھی ہیں، دن بھی ہیں، ہفتے بھی ہیں، جن کی اللہ تعالیٰ نے فضیلت بیان فرمائی ہے لیکن کسی دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ دن منحوس ہے، یا اس دن میں بے برکتی ہے۔*

*"·•●✿_ ہاں ! بے برکتی اور نحوست جو پیدا ہوتی ہے، وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے، جس دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق ہو گئی، جس دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کی توفیق ہو گئی ، وہ دن ہمارے لئے مبارک دن ہے، اور خدا نہ کرے جس دن ہم کسی معصیت میں مبتلا ہو گئے کسی نافرمانی کا ارتکاب ہم نے کر لیا، وہ دن ہمارے لئے منحوس ہے، وہ دن اپنی ذات میں منحوس نہیں تھا لیکن ہم نے اپنے عمل سے اس کے اندر نحوست پیدا کر لی،*

*"·•●✿_ لہذا اللہ تعالیٰ کے تخلیق کئے ہوئے ایام میں کوئی دن منحوس نہیں منحوس تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، گناہ ہے، معصیت ہے، منکرات ہے، یہ سب نحوست کی چیزیں ہیں، ہاں ! جس دن اللہ تبارک وتعالی ہمیں عبادت کی توفیق دے دیں، اور ہم اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیں وہ برکت کا دن ہے۔*
*®_ [ خطبات عثمانی ، ج ۳ ص ۱۶۲]*

*"·•●✿_ہمارے معاشرے میں ذوالقعدۃ کے مہینے کو جو منحوس سمجھا جاتا ہے اور اس کو "خالی" کا مہینہ کہا جاتا ہے یعنی یہ مہینہ ہر برکت سے خالی ہے، چناںچہ اس ماہ میں نکاح اور شادی نہیں کرتے اور کوئی خوشی کی تقریب نہیں کرتے، یہ سب فضولیات اور توہم پرستی ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔*
*( اصلاحی خطبات ، ج ۱۴، ص ۴۸)*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (17)_ معنی سمجھے بغیر حفظ قرآن اور تلاوت کا کیا فائدہ ؟*

*"·•●✿_ آج کل لوگوں میں پروپیگینڈا کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کو طوطا مینا کی طرح رٹنے سے کیا فائدہ ؟ جب تک کہ انسان اس کے معنی اور مطلب نہ سمجھے اور جب تک اس کے مفہوم کا اس کو ادراک نہ ہو، یہ تو ایک نسخہ ہدایت ہے ، اس کو سمجھ کر انسان پڑھے، اور اس پر عمل کرے تو فائدہ حاصل ہوگا، اسی طرح بچوں کو قرآن کریم رٹانے سے کیا حاصل ہے؟ ( العیاذ باللہ )،*

*"·•●✿_ یاد رکھیے یہ شیطان کی طرف سے بہت بڑا دھوکہ اور فریب ہے جو مسلمانوں کے اندر پھیلایا جارہا ہے، حضور اقدس ﷺ کو جن مقاصد کے لیے بھیجا گیا، قرآن کریم نے ان کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا، ان مقاصد میں دو چیزوں کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا، ایک طرف فرمایا: "(يتلوا عليهم آياته،)" اور دوسری طرف فرمایا : "(و يعلمهم الكتاب والحكمة)،*

*"·•●✿_ یعنی آپ ﷺ اس لیے تشریف لائے تا کہ کتاب اللہ کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کریں، لہٰذا تلاوت کرنا ایک مستقل مقصد ہے اور ایک مستقل نیکی اور اجر کا کام ہے، چاہے سمجھ کر تلاوت کرے، یا بے سمجھے تلاوت کرے، اور یہ تلاوت حضور اقدس ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے جس کو سب سے پہلے ذکر فرمایا،*.

*"·•●✿_ اور قرآن کریم کی تلاوت ایسی بے وقعت چیز نہیں کہ جس طرح چاہا تلاوت کر لیا، بلکہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو با قاعدہ تلاوت کرنے کا طریقہ سکھایا اور اس کی تعلیم دی کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، کس طرح زبان سے نکالنا ہے، اس کی بنیاد پر دو مستقل علوم وجود میں آئے جن کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ہے، ایک علم تجوید، دوسرا علم قرآت۔*

*"·•●✿_ بہر حال تلاوت بذات خود ایک مقصد ہے اور یہ کہنا کہ بغیر سمجھے صرف الفاظ کو پڑھنے سے کیا حاصل یہ شیطان کا دھوکہ ہے، یادرکھیے جب تک کسی شخص کو قرآن کریم سمجھے بغیر پڑھنا نہ آیا تو وہ شخص دوسری منزل پر قدم رکھ ہی نہیں سکتا، قرآن کریم سمجھے بغیر پڑھنا پہلی سیڑھی ہے، اس سیڑھی کو پار کرنے کے بعد دوسری سیڑھی کا نمبر آتا ہے، اگر کسی شخص کو پہلی سیڑھی پار کرنے کی توفیق نہ ہوئی تو وہ دوسری سیڑھی تک کیسے پہنچے گا۔*

*"·•●✿_ سرکار دو عالم ﷺ نے بیان فرمایا کہ یہ قرآن ایسا نسخہ شفا ہے کہ جو شخص اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرے، اس کے لیے تو باعث شفا ہے ہی لیکن اگر کوئی شخص محض اس کی تلاوت کیا کرے، بغیر سمجھے بھی تو اس پر بھی اللہ تبارک و تعالی نے اتنی نیکیاں لکھی ہیں کہ ایک الم کے پڑھنے پر تیس نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔*
*( اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۲۴۹)*                  
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (18)_ كيا صرف قرآن ہمارے لیے کافی ہے ؟ اب ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نھیں“ ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ _,*

*"•●✿_ یہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ فرما دیا، جو آج بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو رہا ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہمارے لیے کافی ہے ، ہمیں کسی انسان کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ، ہمارے پاس کتاب قرآن مجید موجود ہے، اس کے ترجمے چھپے ہوئے موجود ہیں، ترجموں کے ذریعے قرآن کریم پڑھیں گے اور اس کے ذریعہ جو مطلب سمجھ میں آئے گا اس پر عمل کریں گے، ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ نیک لوگ کیا کر رہے ہیں اور کس طرح عمل کی تلقین کر رہے ہیں،*

*"•●✿_ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ بات نہیں ہے، اگر چہ پورا قرآن ہی صراط مستقیم ہے لیکن اس صراط مستقیم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کا راستہ دیکھو جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا ، وہ بتا ئیں گے تمہیں کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کا مطلب کیا ہے، اور اس پر کس طرح عمل کریں گے، اللہ تبارک و تعالی نے ابتدا ہی سے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے۔*

*"•●✿_ دو چیزیں ساتھ ساتھ اتاری ہیں، ایک تو اللہ نے کتاب اتاری، تو رات آئی، انجیل آئی، زبور آئی، اور آخر میں قرآن مجید آیا، دوسرے پیغمبر بھیجے، اللہ تبارک و تعالی کی کوئی کتاب بغیر پیغمبر کے نہیں آئی، کیوں؟ اس لیے تا کہ پیغمبر یہ بتائے کہ اس کتاب کا مطلب کیا ہے؟ اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟ اور لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اس پیغمبر کی اتباع کرو، پیغمبر کے پیچھے چلو، پیغمبر کی ذات پر ایمان لاؤ اور اس کے طریقے پر عمل پیرا ہوں، دو چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، کتاب اللہ اور رجال اللہ ، اللہ کی کتاب اور اللہ کے رجال، دونوں کے امتزاج سے دین کی صحیح سمجھ پیدا ہوتی ہے،*

*"•●✿_ گمراہی جو پھیلی ہے، وہ اس طرح پھیلی ہے کہ کچھ لوگوں نے کتاب کو تو پکڑ لیا اور اللہ نے جو پیغمبر بھیجے تھے اور پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا اور صحبت کا جو سامان دیا تھا اس سے قطع نظر کر لی، ہم بس اللہ کی کتاب پڑھیں گے، ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے، ہمیں نمونوں کی کیا ضرورت ہے، العیاذ باللہ العظیم ،*

*"•●✿_ ارے! اگر نمونے کی ضرورت نہ ہوتی تو پیغمبروں کو بھیجنے کی ضرورت کیا تھی، مکہ کے کافر کہتے تھے قرآن ہمارے اوپر براہ راست کیوں نازل نہیں ہوا، اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تنہا کتاب کافی نہیں ہوا کرتی م، جب تک معلم و مربی اس کتاب کا موجود نہ ہو، سید انسان کی فطرت ہے، دنیا کا کوئی بھی علم و فن آدمی صرف کتاب کے مطالعہ سے حاصل نہیں کر سکتا،*
*®_ [ خطبات عثمانی، ج ۱، ص ۲۰۵]*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (19)_کیا قرآن سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی ہے ؟*

*"·•●✿ قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے، جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں، بلکہ تمام متعلقہ علوم میں مہارت ضروری ہے، چنانچہ علما نے لکھا ہے کہ مفسر قرآن کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان کے نحو وصرف اور بلاغت و ادب کے علاوہ علم حدیث، اصول فقہ وتفسیر اور عقائد و کلام کا وسیع و عمیق علم رکھتا ہو، کیونکہ جب تک ان علوم سے مناسبت نہ ہو، انسان قرآن کریم کی تفسیر میں کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔*

*"·•●✿ افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں یہ خطرناک و بات چل پڑی ہے کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو تفسیر قرآن کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر میں رائے زنی شروع کر دیتا ہے، بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شد بد رکھنے والے لوگ جنہیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا، نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کریم کی تفسیر شروع کر دیتے ہیں بلکہ پرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔*

*"·•●✿_ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ انتہائی خطرناک طرز عمل ہے جو دین کے معاملے میں نہایت مہلک گمراہی کی طرف لے جاتا ہے، دنیوی علوم وفنون کے بارے میں ہر شخص اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض انگریزی زبان سیکھ کر میڈیکل سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کرلے تو دنیا کا کوئی صاحب عقل اسے ڈاکٹر تسلیم نہیں کر سکتا اور نہ اپنی جان اس کے حوالے کر سکتا ہے، جب تک کہ اس نے کسی میڈیکل کالج میں با قاعدہ تعلیم و تربیت حاصل نہ کی ہو، اس لیے کہ ڈاکٹر بننے کے لیے صرف انگریزی سیکھ لینا کافی نہیں، بلکہ با قاعدہ ڈاکٹری کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا ضروری ہے،*

*"·•●✿_ تو آخر قرآن وحدیث کے معاملے میں صرف عربی زبان سیکھ لینا کافی کیسے ہو سکتا ہے؟ زندگی کے ہر شعبے میں ہر شخص اس اصول کو جانتا اور اس پر عمل کرتا ہے کہ ہر علم وفن کے سیکھنے کا ایک خاص طریقہ اور اس کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں جنہیں پورا کیے بغیر اس علم وفن میں اس کی رائے معتبر نہیں کہی جاتی تو آخر قرآن وسنت اتنے لاوارث کیسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی تشریح وتفسیر کے لیے کسی علم و فن کے حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو اور اس کے معاملے میں جوشخص چاہے رائے زنی شروع کر دے!!*                  
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(20) _ اللہ نے قرآن کو آسان فرمایا، پھر علماء اسے مشکل کیوں کھتے ھیں ؟*

*"·•●✿_اللہ تعالی نے خود فرمایا کہ ”ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے,“ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے خود ارشاد فرمایا ہے: -وَلَقَدْ يَشرنا القرآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُذكر_,*
*"_اور بلا شبہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے۔*
*"·•●✿_ اور جب قرآن کریم ایک آسان کتاب ہے تو اس کی تشریح کے لیے کسی لمبے چوڑے علم وفن کی ضرورت نہیں لیکن یہ استدلال ایک شدید مغالطہ ہے جو خود کم فہمی اور سطحیت پر مبنی ہے،*

*"·•●✿_ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں :- ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، سبق آموز واقعات اور عبرت و موعظت کے مضامین بیان کیے گئے ہیں، مثلاً دنیا کی ناپائیداری، جنت و دوزخ کے حالات، خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں اور زندگی کے دوسرے سیدھے سادے حقائق، اس قسم کی آیتیں بلا شبہ آسان ہیں اور جو شخص عربی زبان سے واقف ہو وہ انہیں سمجھ کر نصیحت حاصل کر سکتا ہے، مذکورہ بالا آیت میں اسی قسم کی تعلیمات کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو ہم نے آسان کر دیا ہے چنانچہ خود اس آیت میں لفظ للزکر (نصیحت کے واسطے ) اس پر دلالت کر رہا ہے۔*

*"·•●✿_ اس کے برخلاف دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین ، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں اس قسم کی آیتوں کا کما حقہ سمجھنا اور ان سے احکام و مسائل مستنبط کرنا ہر شخص کا کام نہیں جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اور پختگی حاصل نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی مادری زبان اگرچہ عربی تھی اور عربی سمجھنے کے لیے انہیں کہیں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے،*

*"·•●✿_ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ نے امام ابو عبد الرحمٰن سلمی سے نقل کیا ہے کہ جن حضرات صحابہ نے سرکار دو عالم ﷺ سے قرآن کریم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفان اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ جب وہ آنحضرت ﷺ سے قرآن کریم کی دس آیتیں سیکھتے تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ان آیتوں کے متعلق تمام علمی اور عملی باتوں کا احاطہ نہ کرلیں وہ فرماتے تھے کہ "فتعلمنا القرآن والعلم والعمل جميعا" ہم نے قرآن اور علم و عمل ساتھ ساتھ سیکھا ہے۔*                 

*"·•●✿_چنانچہ موطا امام مالک میں روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے صرف سورہ بقرہ یاد کرنے میں پورے آٹھ سال صرف کیے اور مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھ لیتا ہماری نگاہوں میں اس کا مرتبہ بہت بلند ہو جاتا تھا۔*

*"·•●✿_ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات صحابہ جن کی مادری زبان عربی تھی، جو عربی کے شعر وادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور جن کو لمبے لمبے قصیدے معمولی توجہ سے ازبر ہو جایا کرتے تھے انہیں قرآن کریم کو یاد کرنے اور اس کے معانی سمجھنے کے لیے اتنی طویل مدت کی کیا ضرورت تھی کہ آٹھ آٹھ سال صرف ایک سورت پڑھنے میں خرچ ہو جائیں؟*

*"·•●✿_ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ قرآن کریم اور اس کے علوم کو سیکھنے کے لیے صرف عربی زبان کی مہارت کافی نہیں تھی، بلکہ اس کے لیے آنحضرت ﷺ کی صحبت اور تعلیم سے فائدہ اٹھانا ضروری تھا، اب ظاہر ہے کہ جب صحابہ کرام کو عربی زبان کی مہارت اور نزول وحی کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے باوجود عالم قرآن بننے کے لیے باقاعدہ حضور ﷺ سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت تھی تو نزولِ قرآن کے سینکڑوں سال بعد عربی کی معمولی شد بد پیدا کر کے یا صرف ترجمے دیکھ کر مفسر قرآن بنے کا دعوی کتنی بڑی جسارت اور علم و دین کے ساتھ کیسا افسوسناک مذاق ہے؟*

*"·•●✿_ ایسے لوگوں کو جو اس جسارت کا ارتکاب کرتے ہیں سرکار دو عالم ملی یتیم کا یہ ارشاد اچھی طرح یا درکھنا چاہیے کہ : جو شخص قرآن کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ اور جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی_, (ابو داود ونسائی از اتقان ج ۲ ص ۱۷۹)*

*®_( توضیح القرآن ، آسان ترجمه قرآن ، ج ۱ص ۳۲)*                

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (21)_ قرآن کریم میں سائنس اور ٹیکنالوجی کیوں نہیں ؟*

*"•●✿_ اس سے بعض ان غیر مسلموں کا اعتراض بھی دور ہو جاتا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک نے جن علوم و فنون کے ذریعے مادی ترقی کی ہے ان کے بارے میں قرآن نے کچھ کیوں نہیں بنایا؟ اور ان لوگوں کی غلط فہمی بھی دور ہو جاتی ہے، جو ان اعتراجات سے متاثر ہو کر اس فکر میں رہتے ہیں کہ قرآن کریم سے سائنس وغیرہ کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کسی نہ کسی طرح ثابت کیا جائے، کیونکہ اس کوشش کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قانون کی کسی کتاب پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اس میں ایٹم بم بنانے کا طریقہ کیوں مذکور نہیں؟*.

*"•●✿_ تو اس کے جواب میں کوئی دوسرا شخص قانونی الفاظ کو توڑ موڑ کر اس سے ایٹم کی تھیوری نکالنے کی کوشش کرنے لگے، ظاہر ہے کہ یہ اس اعتراض کا جواب نہیں، بلکہ ایک مذاق ہو گا، اسی طرح جو شخص قرآن کریم میں سائنس اور انجینئر نگ کے مسائل نہ ہونے پر معترض ہو، اس کا صحیح جواب یہ نہیں ہے کہ قرآنی الفاظ کو توڑ موڑ کر اس سے سائنس کے مسائل زبردستی نکالے جائیں، بلکہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نہ سائنس یا انجینئر نگ کی کتاب ہے اور نہ مادی ترقی حاصل کرنے کے طریقے اس کا موضوع ہیں،*

*"•●✿_ چونکہ یہ ساری باتیں انسان اپنی عقل و فکر اور تجربات و مشاہدات کے ذریعے معلوم کر سکتا تھا، اس لئے اللہ تعالی نے ان کو انسان کی اپنی محنت اور کاوش اور تحقیق وجستجو پر چھوڑ دیا، اور ان باتوں کو قرآن کریم کا موضوع بنایا جو محض انسانی عقل سے معلوم نہیں ہو سکتیں، بلکہ ان کے اوراک کے لئے وحی الہی کی رہنمائی ناگزیر ہے،*

*"•●✿_ یہی وجہ ہے کہ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں عقل و فکر اور تجربات و مشاہدات کے ذریعہ موجودہ مقام تک پہنچ گیا لیکن ایمان ویقین کی دولت، قلب وروح کی پاکیزگی، اعمال و اخلاق کی تعمیر، اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق اور اخروی زندگی سنوارنے کا جذ بہ جو وحی الہی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا، اور جسے قرآن کریم نے اپنا موضوع بنایا ہے وہ عقل و فکر کی اس حیرت انگیز تنگ و تاز کے بعد بھی انسان کو نہ حاصل ہو سکا ہے، اور نہ اس وقت تک حاصل ہو سکتا ہے جب تک اس معاملے میں سچے دل سے قرآن کی رہنمائی حاصل نہ کی جائے،*

*"•●✿_ ہماری اس گزارش کا موساً یہ ہر گز نہیں ہے کہ قرآن کریم سے سائنس کا کوئی مسئلہ اخذ کرنا علی الاطلاق جرم ہے، ہمیں یہ تسلیم ہے کہ قرآن کریم میں ضمنی طور سے سائنس کے بہت سے حقائق کا بیان آیا ہے، چنانچہ جہاں اس کی کسی آیت سے کوئی واضح سائنٹیفک بات معلوم ہورہی ہو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس معاملے میں مندرجہ ذیل غلطیوں سے پر ہیز لازمی ہے,*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (22)_ قرآن و حدیث نے چاند پر جانے اور خلا کو فتح کرنے کا فارمولا کیوں نہیں بتایا؟*

*"·•●✿_ اور یہیں سے ایک اور بات کا جواب مل جاتا ہے، جو آج کل بڑی کثرت سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے چاند پر جانے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا، خلا کو فتح کرنے کا کوئی فارمولہ محمد رسول اللہ ﷺ نے نہیں بتایا، یہ سب قومیں اس قسم کے فارمولے حاصل کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں اور ہم قرآن بغل میں رکھنے کے باوجود پیچھے رہ گئے، تو قرآن اور سنت نے ہمیں یہ فارمولے کیوں نہیں بتلائے؟*

*"·•●✿_ جواب اس کا یہی ہے کہ اس لیے نہیں بتایا کہ وہ چیز عقل کے دائرے کی تھی، اپنی عقل سے اور اپنے تجربے اور اپنی محنت سے جتنا آگے بڑھو گے، اس کے اندر تمہیں انکشافات ہوتے چلے جائیں گے، وہ تمہارے عقل کے دائرے کی چیز ہے، عقل اس کا ادراک کر سکتی تھی،*

*"·•●✿_ اس واسطے اس کے لیے نبی بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، اس کے لیے رسول بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، اس کے لیے کتاب نازل کرنے کی ضرورت نہیں تھی, لیکن کتاب اور رسول کی ضرورت وہاں تھی جہاں انسان کی عقل عاجز تھی، کہ بنیادی حقوق، ایمان ویقین کی دولت، قلب و روح کی پاکیزگی، اعمال و اخلاق کی تعمیر، اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق اور اخروی زندگی سنوارنے کا جذ بہ جو انبیاء علیہ السلام کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا،*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ __(23)_احادیث ہم تک کیسے پھنچیں ؟*

*"•●✿_ پہلی بات یہ ہے کہ طالب علم نے جو سند پڑھی، اس سلسلہ سند میں استاذ سے لے کر جناب نبی کریم ﷺ تک جتنے حضرات علما کرام گذرے ہیں جن کے ذریعہ یہ علم حدیث ہم تک پہنچی ان سب کا نام لیا ، یہاں تک کہ یہ سلسلہ جناب رسول اللہ ﷺ تک پہنچا، یہ چیز صرف اس امت محمدیہ علیہ لصلاۃ والسلام کو حاصل ہے جو اس روئے زمین پر کسی دوسرے مذہب اور ملت والے کو حاصل نہیں،*

*"•●✿_ کوئی بھی مذہب اور ملت والا یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے مقتدی یا اس کے پیغمبر اور نبی کی باتیں ان تک اس طرح پہنچی ہیں کہ ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکے کہ یہ باتیں یقیناً ہمارے نبی نے کہی ہیں، یہ اعتماد نہ کسی یہودی کو حاصل ہے کہ وہ اپنی تو رات کے بارے میں کہہ دے، نہ کسی نصرانی کو حاصل ہے کہ وہ اپنی انجیل کے بارے میں یہ بات کہہ دے، جب آسمانی کتابوں کا دعویٰ کرنے والے اپنی آسمانی کتابوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہ سکتے تو اپنے پیغمبر کی باتوں اور ان کی سنتوں کے بارے میں یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہیں۔*

*"•●✿_ لیکن اس امت محمدیہ کو اللہ تعالی نے یہ اعزاز عطا فر مایا کہ آج جب ہم کسی حدیث کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی، تو اطمینان قلب کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی طرف اس کی نسبت درست ہے، اور آج اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ بات نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی تو ہم اس کے جواب میں پوری سند پیش کر دیں گے،*.

*"•●✿_ اور پھر صرف اتنی بات نہیں کہ ہم سے لے کر جناب رسول اللہ ﷺ تک کے صرف نام محفوظ ہیں بلکہ آپ ان ناموں میں سے کسی نام پر انگلی رکھ کر پوچھ لیں کہ یہ آدمی کون تھا ؟ یہ کس زمانہ میں پیدا ہوا تھا؟ کن اساتذہ سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی؟ کیسا حافظہ اس کو اللہ تعالی نے عطا فرمایا تھا ؟ اس کی ذہانت کی کیفیت کیا تھی ؟ دیانت اور امانت کی کیفیت کیا تھی ؟ اس کا سارا کچا چٹھا اور ایک ایک راوی کا سارا ریکارڈ کتابوں کے اندر محفوظ ہے۔*                

*"·•●✿_ یہ صحیح بخاری آپ کے سامنے موجود ہے، اس کے کل ۱۱۲۸ صفحات ہیں، اس کے ہر صفحے پر کم از کم دس بارہ حدیثیں موجود ہیں، اور ہر حدیث کے شروع میں مختلف راویوں کے نام ہوتے ہیں، آپ ان میں سے کسی راوی کا انتخاب کریں اور پھر کسی عالم سے آپ پوچھ لیں کہ اس راوی کے حالات زندگی کیا ہیں؟ کتابوں کے اندر اس راوی کی ولادت سے لے کر وفات تک کے متعلقہ حالات سب مدون اور محفوظ ہیں، اس کے حالات زندگی کیوں محفوظ کیا گئے ؟ اس لیے کہ اس نے جناب رسول اللہ ﷺ کی حدیث روایت کی تھی، لہذا اس کے بارے میں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس کی روایت حدیث پر اعتماد کیا جائے یا نہ کیا جائے؟*

*"·•●✿_پھر راویوں کے یہ حالات زندگی بھی صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر نہیں لکھے گئے، بلکہ ایک ایک راوی کے حالات کی جانچ پڑتال کے لیے اللہ جل شانہ نے ایسے عظیم علما جرح و تعدیل پیدا فرمائے جو ایک ایک راوی کی دکھتی ہوئی رگوں سے واقف تھے، ان حضرات علما کو اللہ تعالی نے جو حافظہ، جو علم ، جو تقویٰ ، جو جد و جہد اور قربانی کا جذ بہ عطا فرمایا تھا، اس کی کوئی اور توجیہ اس کے علاوہ نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالی نے اسی خاص مقصد کے لیے ان کو پیدا فرمایا تھا کہ وہ اپنے نبی کریم ﷺ کے ارشادات کی حفاظت فرمائیں۔*

*"·•●✿_علامہ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب الکفایہ میں جو اصول حدیث کی مشہور کتاب ہے ، ایک محدث جو جرح و تعدیل کے امام تھے، ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ہم کسی راوی حدیث کے حالات کی تحقیق کے لیے اس کے گاؤں اور اس کے محلے میں جایا کرتے تھے، جانا بھی اس طرح ہوتا تھا کہ جب یہ پتہ چلتا کہ فلاں شخص جو فلاں شہر میں رہتا ہے ، وہ حدیث روایت کرتا ہے، اور وہ شہر سینکڑوں میل دور ہوتا تھا اور اس زمانے میں اونٹوں پر گھوڑوں پر اور پیدل سفر ہوتے تھے، یہ سفر صرف اس بات کی تحقیق کے لیے کرتے کہ یہ معلوم کریں کہ جس راوی نے یہ حدیث روایت کی ہے وہ کس مقام کا ہے،*

*"·•●✿_ تو اس کے وطن میں جا کر اس کے حالات کی چھان بین کرتے، اب اس کے پڑوسیوں سے، اس کے ملنے جلنے والے دوستوں سے اور اس کے اعزہ سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ آدمی کیسا ہے؟ یہ شخص معاملات میں کیسا ہے؟ اخلاق میں کیسا ہے؟ نماز روزے میں کیسا ہے؟ یہاں تک کہ جب ہم بہت زیادہ کھود کرید کرتے تھے تو بعض مرتبہ لوگ ہم سے یہ پوچھتے کہ کیا تم اپنی لڑکی کا رشتہ یہاں کرنا چاہتے ہو؟ اس وجہ سے تم ان کے حالات کی اتنی چھان بین کر رہے ہو؟*

*"·•●✿_ جواب میں ہم کہتے کہ بھائی کوئی رشتہ تو نہیں کرنا چاہتے لیکن انہوں نے حضور اقدس ﷺ کی ایک حدیث روایت کی ہے، لہذا ہمیں یہ تحقیق منظور ہے کہ آیا ان کی روایت کردہ حدیث کو معتبر مانیں یا نہ مانیں؟ اس طرح ایک ایک راوی کے حالات کی تحقیق کر کے یہ حضرات علما جرح و تعدیل فن اسماء الرجال کی کتابیں مدون کر گئے ہیں،*                

*"·•●✿_آپ بخاری شریف بلکہ صحاح ستہ اور حدیث کی کوئی بھی کتاب لیجیے اور اس کتاب کی کوئی بھی حدیث لیجیے اور اس حدیث کی سند میں سے کسی ایک راوی کا انتخاب کر لیجیے، اور پھر اسماء الرجال کتاب میں حروف تہجی کی ترتیب سے اس راوی کے حالات دیکھ لیجیے، یہ فن اسماء الرجال کی تدوین صرف اس امت محمدیہ کا اعزاز ہے،*

*"·•●✿_ جب تک حدیث کی یہ کتابیں صحاح ستہ وغیرہ وجود میں نہیں آئی تھیں، اس وقت تک قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص کوئی حدیث سناتا تو اس پر یہ لازم اور ضروری تھا کہ وہ تنہا حدیث نہ سنائے ، بلکہ اس حدیث کی پوری سند بھی بیان کرے کہ یہ حدیث مجھے فلاں نے سنائی، اور فلاں کو فلاں نے سنائی، اور فلاں کو فلاں نے سنائی، پہلے پوری سند بیان کرتا، پھر حدیث سناتا تب اس کی بیان کردہ حدیث قابل قبول ہوتی تھی، اور سند کے بغیر کوئی شخص حدیث سناتا تو کوئی اس کی بات سنے کو بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔*

*"·•●✿_اللہ تعالی ان حضرات محدثین کے درجات بلند فرمائے ، انہوں نے تمام حدیثیں ان کتابوں کی شکل میں جمع فرمادیں، لہذا اب ان کتابوں کے تواتر کے درجے تک پہنچ جانے کے بعد سند کی اتنی زیادہ تحقیق کی اور اس کو محفوظ کرنے کی ضرورت نہ رہی، کیونکہ اب تواتر سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت کردہ ہے، لہذا اب ہر حدیث کے ساتھ پوری سند کا بیان کرنا ضروری نہیں، بلکہ اب حدیث بیان کرنے کے بعد ”رواہ البخاری کہہ دینا کافی ہو جاتا ہے،*

*"·•●✿_ لیکن اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے یہ طریقہ باقی رکھا کہ اگر چہ ہر حدیث کے بیان کرتے وقت پوری لمبی سند بیان نہ کی جائے لیکن روایت اور اجازت کے طور پر اس پوری سند کو محفوظ ضرور رکھا جائے، کیونکہ اگر ہر حدیث سے پہلے یہ طویل سند بیان کی جائے گی تو لوگوں کے لیے دشواری ہو جائے گی ، لہذا اب اتنا کہ دینا کافی ہے کہ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ، اور ہم سے لے کر امام بخاری تک پوری سند ہمارے پاس محفوظ ہے، الحمدللہ,*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (24)_ حدیث بیان کرنے میں احتیاط کیوں ضروری ھے ؟*

*"·•●✿_ ایک تابعی ایک صحابی کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ جب وہ صحابی ہمارے سامنے حضور اقدس ﷺ کی کوئی حدیث بیان فرماتے تو اس وقت ان کا چہرہ پیلا پڑ جاتا تھا، اور بعض اوقات ان پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی کہ کہیں کوئی بات بیان کرنے میں غلطی نہ ہو جائے حتیٰ کہ بعض صحابہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا کرتے کہ حضور اقدس ﷺ نے اس طرح کی، یا اس جیسی، یا اس قسم کی بات بیان فرمائی تھی، ہو سکتا ہے کہ میرے سے بیان کرنے میں کچھ الٹ پھیر ہو گیا ہو،*

*"·•●✿_ یہ سب اس لیے کرتے تا کہ حضور اقدس ﷺ کی طرف کوئی بات غلط منسوب کرنے کا گناہ نہ ہو، اس سے ہمیں اور آپ کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم لوگ بسا اوقات تحقیق اور احتیاط کے بغیر احادیث بیان کرنی شروع کر دیتے ہیں، ذرا سی کوئی بات کہیں سنی فوراً ہم نے کہہ دیا کہ حدیث میں یوں آیا ہے،*

*"·•●✿_( اللہ تعالی حفاظت فرمائے آج سوشیل میڈیا کے اس دور میں ہر جگہ بغیر تحقیق اور احتیاط کے حدیثوں کو اس طرح بیان کیا جارہا اور شیئر کیا جارہا ہے، نہ جانے کتنا جھوٹ، نہ جانے کتنی من گھڑت باتیں حضور اقدس ﷺ کے نام پر منسوب کر کے پھیلای جا رہی ہے اور زرا بھی خوف خدا نہیں کہ اس کا وبال اور گناہ ہم پر ہوگا)*

*"·•●✿_ حالانکہ یہ دیکھیے کہ صحابہ کرام جنہوں نے براہ راست حضور اقدس ﷺ سے باتیں سنیں، وہ کتنی احتیاط کر رہے ہیں لیکن ہم اس میں احتیاط نہیں کرتے، اس لیے احادیث بیان کرنے میں ہمیشہ بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے ، جب تک ٹھیک ٹھیک الفاظ معلوم نہ ہوں، اس وقت تک اس کو حدیث کے طور پر بیان نہیں کرنا چاہیے۔*

*®( اصلاحی خطبات، ج ٦ ص ٦٧ )*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
           *☞ _ (25)_ دین اسلام کیا ہے؟* 
              
*·•●✿_ مشہور ہے کہ چند نابینا افرادکو زندگی میں پہلی بار ایک ہاتھی سے سابقہ پیش آیا، آنکھوں کی بینائی سے تو وہ سب محروم تھے، اس لئے ہر شخص نے ہاتھوں سے ٹٹول کر اس کا سراپا معلوم کرنا چاہا، چنانچہ کسی کا ہاتھ اس کی سونڈ پر پڑ گیا کسی کا اس کے پیر پر کسی کا اس کے کان پر،*

*"·•●✿__ جب لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے؟ تو پہلے شخص نے کہا کہ وہ مڑی ہوئی ربر کی طرح ہوتا ہے، دوسرے نے کہا نہیں، وہ لمبا لمبا ہوتا ہے، تیسرے نے کہا نہیں وہ تو ایک بڑے سے پتے کی طرح ہوتا ہے۔ غرض جس شخص نے ہاتھی کے جس حصے کو چھوا تھا، اس کو مکمل ہاتھی سمجھ کر اس کی کیفیت بیان کر دی، اور پورے ہاتھی کی حقیقت کسی کے ہاتھ نہ آئی۔*

*"·•●✿__ کچھ عرصے سے ہم اسلام کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر رہے ہیں، جیسا ان نابیناؤں نے ہاتھی کے ساتھ کیا تھا، اسلام ایک مکمل دین ہے جس کی ہدایات و تعلیمات کو چھ بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، سیاست اور اخلاق ۔ ان چھ شعبوں میں سے ہر ایک کے متعلق تعلیمات دین کا لازمی حصہ ہیں، جسے نہ دین سے الگ کیا جاسکتا ہے، اور نہ صرف اسی کو مکمل دین کہا جا سکتا ہے,*

*"·•●✿__ لیکن کچھ لوگوں نے دین کو صرف عقائد و عبادات کی حد تک محدود کر کے باقی شعبوں کو نظر انداز کر دیا، کسی نے معاملات سے متعلق اس کے احکامات کو دیکھ کر اسلام تو در حقیقت ایک فلاحی معیشت کا نظام ہے، کسی نے اس کی سیاسی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو اس نے یہ سمجھ لیا کہ دین کا اصل مقصد سیاست ہے اور باقی سارے شعبے اس کے تابع ہیں، یا محض ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ "_(26)_ کیا اسلام صرف عبادات کا نام ہے ؟*               

*·•●✿_ لیکن اس سلسلہ میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی غلط فہمی یہ ہے کہ دین صرف عقائد و عبادات کا نام ہے، اور زندگی کے دوسرے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس غلط فہمی کو ہوا دینے میں تین چیزوں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، ایک تو عالم اسلام پر غیر مسلم طاقتوں کا سیاسی تسلط تھا، جس نے دین کا عمل دخل دفتروں، بازاروں اور معاشرے کے اجتماعی معاملات سے نکال کر اسے صرف مسجدوں ، اور بعض جگہ دینی مدرسوں تک محدود کر دیا، اور جب زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلامی تعلیمات کا چلن نہ رہا تو رفتہ رفتہ یہ ذہن بنتا چلا گیا کہ دین صرف نماز روزے کا نام ہے۔*

*·•●✿_ دوسرا سبب وہ سیکولر ذہنیت ہے جس نے سماج کے زیر اثر تعلیمی اداروں نے پروان چڑھایا، اس ذہنیت کے نزدیک دین و مذہب صرف انسان کی انفرادی زندگی کا ایک پرائیوٹ معاملہ ہے، اور اسے معیشت و سیاست اور معاشرت تک وسعت دینے کا مطلب گھڑی کی سوئی کو پیچھے لے جانے کے مرادف ہے۔*

*"·•●✿_ تیسرا سبب خود اپنے اپنے طرز عمل سے پیدا کیا، اور وہ یہ کہ دین سے وابستہ بہت سے افراد نے جتنی اہمیت عقائد و عبادات کو دی، اس کے مقابلے میں معاملات و معاشرت اور اخلاق کو دسواں حصہ بھی اہمیت نہیں دی۔*.

*"·•●✿_ بہر حال ! ان تینوں اسباب کے مجموعے سے نتیجہ یہ نکلا کہ معاملات، معاشرت اور اخلاق سے متعلق اسلام کی تعلیمات بہت پیچھے چلی گئیں، اور ان سے نا واقعیت اتنی زیادہ ہو گئی کہ گویا وہ دین کا حصہ ہی نہیں رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عقائد و عبادات دین کا جزو اعظم ہیں، ان کی اہمیت کو کسی بھی طرح کم کرنا دین کا حلیہ بگاڑنے کے مرادف ہے،

*·•●✿_ خود آنحضرت ﷺ نے دین کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر قرار دی ہے، ان میں سے ایک کا تعلق عقائد سے اور چار چیزوں کا تعلق عبادات سے ہے، اور جو لوگ عقائد و عبادات سے صرف نظر کر کے صرف اخلاق، معاشرت اور معاملات ہی کو سارا دین سمجھتے ہیں وہ دین کو محض ایک مادہ پرستانہ نظام میں تبدیل کر کے اس کا وہ سارا حسن چھین لیتے ہیں، جو دوسرے مادہ پرستانہ نظاموں کے مقابلے میں اس کا اصل طرہ امتیاز ہے، اور جس کے بغیر اخلاق، معاشرت اور معاملات بھی ایک بے روح جسم اور ایک بے بنیاد عمارت کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔*

*"·•●✿_ لیکن یہ بھی اپنی جگہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دین کی تعلیمات عقائد و عبادات کی حد تک محدود نہیں ہیں، اور ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف نماز روزہ ادا کر کے پوری نہیں ہو جاتی، خود آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں، جن میں اعلیٰ ترین شعبہ توحید کی شہادت ہے اور ادنیٰ ترین شعبہ راستہ سے گندگی دور کرنا ہے۔*

*·•●✿_ بلکہ معاملات، معاشرت اور اخلاق کا معاملہ اس لحاظ سے زیادہ سنگین ہے کہ ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور یہ اصول مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق توبہ سے معاف کر دیتا ہے لیکن حقوق العباد صرف توبہ و استغفار سے معاف نہیں ہوتے، ان کی معافی کی دو ہی صورتیں ہیں، یا تو حق دار کو اس کا حق پہنچایا جائے، یا وہ خوش دلی سے معافی دے دے، لہٰذا دین کے یہ شعبے خصوصی اہتمام کے متقاضی ہیں۔*

*"·•●✿_ پھر معاملات، معاشرت اور اخلاق کے ان تین شعبوں میں بھی سب سے زیادہ لا پرواہی معاشرت کے شعبے میں برتی جا رہی ہے، معاشرتی برائیوں کا ایک سیلاب ہے جس نے ہمیں لپیٹ میں لیا ہوا ہے، اور اچھے خاصے، پڑھے لکھے تعلیم یافتہ بلکہ ایسے دین دار حضرات بھی جو دین سے اپنی وابستگی کے لئے مشہور سمجھے جاتے ہیں اس پہلو سے اتنے بے خبر ہیں کہ ان معاشرتی خرابیوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔*
*®_ [ ذکر و فکر-ص ۱۸]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (27)_ کیا اسلامی احکام کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے دنیا کو چھوڑنا پڑے گا؟*

*"•●✿_ ایک جگہ دنیا کو خیر اور فضل بتایا گیا اور دوسرے مقام پر دنیا کو مردار لکھا گیا، ان دونوں باتوں میں تطبیق کس طرح ممکن ہے؟*
*"_ غلط فہمی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آج کی اس دنیا میں دین کے مطابق زندگی گزارنا چاہے، اور اسلام کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرنا چاہے تو اسے دنیا چھوڑنی ہوگی، دنیا کا عیش و آرام، دنیا کی آسائش چھوڑنی ہوگی اور دنیا کے مال و اسباب کو ترک کیے بغیر اور اس سے قطع نظر کیے بغیر اس دنیا میں اسلام کے مطابق اور دین کے مطابق زندگی نہیں گذاری جاسکتی،*

*"•●✿_ اور اس غلط فہمی کا منشاء در حقیقت یہ ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ اسلام نے دنیا کے بارے میں کیا تصور پیش کیا ہے؟ یہ دنیا کیا چیز ہے؟ دنیا کے مال و اسباب اور اس کے عیش و آرام کی حقیقت کیا ہے؟ کس حد تک اسے اختیار کیا جا سکتا ہے؟ اور کس حد تک اس سے اجتناب ضروری ہے؟ یہ بات ذہنوں میں پوری طرح واضح نہیں ہے۔*

*"•●✿_ ذہنوں میں تھوڑی سی الجھن اس لیے بھی پیدا ہوتی ہے کہ یہ جملے کثرت سے کانوں میں پڑتے رہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں دنیا کی مذمت کی گئی ہے، ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:: "الدنيا جيفة وطالبو ها كلاب" کہ دنیا ایک مردار جانور کی طرح ہے اور اس کے پیچھے لگنے والے کتوں کی طرح ہیں،*

*"•●✿_اسی طرح قرآن کریم میں فرمایا گیا: (وما الحيوة الدنيا إلا متاع الغرور) یہ دنیا کی زندگی دھو کے کا سامان ہے۔ قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرمایا: ( إنما أموالكم وأولادكم فتنة ) تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے ایک فتنہ ہے، ایک آزمائش ہے۔*

*"•●✿_ ایک طرف تو قرآن و حدیث کے یہ ارشادات ہمارے سامنے آتے ہیں جس میں دنیا کی برائی بیان کی گئی ہے، اس یک طرفہ صورت حال کو دیکھ کر بعض اوقات دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان بننا ہے تو دنیا کو بالکل چھوڑ نا ہوگا۔*

*"•●✿_ لیکن دوسری طرف اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مال کو بعض جگہ " فضل اللہ" قرار دیا، تجارت کے بارے میں فرمایا گیا کہ "وابتغوا من فضل اللہ" کہ تجارت کے ذریعے اللہ کے فضل کو تلاش کرنا ہے، چنانچہ سورہ جمعہ میں جہاں جمعہ کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کے بعد آگے ارشاد فرمایا: (فإذا قضيت الصلوة فانتشروا فى الارض وابتغوا من فضل الله ) کہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ، اور اللہ کے فضل کو تلاش کرو،*

*"•●✿_ تو مال اور تجارت کو اللہ کا فضل قرار دیا، اسی طرح بعض جگہ قرآن کریم نے مال کو خیر یعنی بھلائی قرار دیا، اور یہ دعا تو ہم اور آپ سب پڑھتے رہتے ہیں کہ :( ربنا اتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار) اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما۔*

*"•●✿_ تو بعض اوقات ذہن میں یہ الجھن پیدا ہوتی ہے کہ ایک طرف تو اتنی برائی کی جا رہی ہے کہ اس کو مردار کہا جارہا ہے، اس کے طلب گاروں کو کتا کہا جارہا ہے، اور دوسری طرف اس کو اللہ کا فضل قرار دیا جا رہا ہے، خیر کہا جارہا ہے، تو ان میں سے کونسی بات صحیح ہے؟*

*"•●✿_ واقعہ یوں ہے کہ قرآن وحدیث کو صحیح طریقے سے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد جو صورت حال واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اور اللہ کے رسول ﷺ یہ نہیں چاہتے کہ ہم دنیا کو چھوڑ کر بیٹھ جائیں، عیسائی مذہب میں تو اس وقت تک اللہ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا تھا جب تک انسان بیوی بچوں اور گھر بار اور کاروبار کو چھوڑ کر نہ بیٹھ جائے،*

*"•●✿_ لیکن نبی کریم ﷺ نے جو تعلیمات ہمیں عطا فرمائی ہیں، اس میں یہ کہیں نہیں کہا کہ تم دنیا کو چھوڑ دو، کمائی نہ کرو، تجارت نہ کرو، مال حاصل نہ کرو، مکان نہ بناؤ، بیوی بچوں کے ساتھ ہنسو بولو نہیں، کھانا نہ کھاؤ، اس قسم کا کوئی حکم شریعت محمدیہ میں موجود نہیں، ہاں ! یہ ضرور کہا ہے کہ یہ دنیا تمہاری آخری منزل نہیں، یہ تمہاری زندگی کا آخری مقصد نہیں،*

*"•●✿_ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ ہماری جو کچھ کا روائی ہے وہ صرف اسی دنیا سے متعلق ہے، اس سے آگے ہمیں کچھ نہیں سوچنا ہے اور نہ کچھ کرنا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ دنیا درحقیقت اس لیے ہے کہ تاکہ تم اس میں رہ کر اپنی آنے والی ابدی زندگی یعنی آخرت کی زندگی کے لیے کچھ تیاری کرلو، اور آخرت کو فراموش کیے بغیر اس دنیا کو اس طرح استعمال کرو کہ اس میں تمہاری دنیاوی ضروریات بھی پوری ہوں اور ساتھ ساتھ آخرت کی جو زندگی آنے والی ہے اس کی بھلائی بھی تمہارے پیش نظر ہو۔*

*"•●✿_ یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جس سے کوئی بد سے بدتر آدمی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر انسان کو ایک دن مرنا ہے، موت آنی ہے، یہ وہ حقیقت ہے جس میں آج تک کوئی شخص انکار نہیں کر سکا، یہاں تک کہ لوگوں نے خدا کا انکار کر دیا، لیکن موت کا منکر آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے موت نہیں آئے گی ، میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس کی موت کب آئے گی ؟ بڑے سے بڑا سائنس دان، بڑے سے بڑا ڈاکٹر، بڑے سے بڑا سرمایہ دار، بڑے سے بڑا فلسفی، وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ میری موت کب آئے گی؟*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
              *☞ _ مرنے کے بعد کیا ہونا ہے?*
               
*·•●✿ اور تیسری بات یہ کہ مرنے کے بعد کیا ہونا ہے؟ آج تک کوئی سائنس، فلسفہ کوئی ایسا علم ایجاد نہیں ہوا جو انسان کو براہ راست یہ بتا سکے کہ مرنے کے بعد کیا حالات پیش آتے ہیں، آج مغرب کی دنیا یہ تو تسلیم کر رہی ہے کہ کچھ ایسے اندازے معلوم ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے، اس نتیجے تک وہ پہنچ رہے ہیں لیکن اس کے حالات کیا ہیں ؟ اس میں انسان کا کیا حشر بنے گا؟ اس کی تفصیلات دنیا کوئی سائنس نہیں بتا سکی،*

*"·•●✿_، ہاں ! ایک کلمہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" پر جو بھی ایمان لایا وہ بتا سکتاہے کہ محمد ﷺ وحی کے ذریعے جو بھی خبر لے کر آئے ہیں، وہ سچی بات ہے، اس میں جھوٹ کا کوئی امکان نہیں، اور محمد ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری اصل زندگی وہ ہے جو مرنے کے بعد شروع ہونے والی ہے، اور یہ موجودہ زندگی ایک حد پر جا کر ختم ہو جائے گی، اور وہ زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں، بلکہ ابدی ہے، لامتناہی ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔*

*"·•●✿_تو اسلام کا پیغام یہ ہے کہ دنیا میں ضرور رہو، اور دنیا کی چیزوں سے ضرور فائدہ اٹھا ؤ، دنیا سے لطف اندوز بھی ہوؤ ، لیکن ساتھ ساتھ اس دنیا کو آخری مشن اور آخری منزل نہ سمجھو، اگر تم دنیا کو اس لیے استعمال کر رہے ہو کہ یہ آخرت کی منزل کے لیے ایک سیڑھی ہے، تو یہ دنیا تمہارے لیے خیر ہے، اور یہ اللہ کا فضل ہے جس پر اللہ کا شکر ادا کرو،*.

*"·•●✿_ اور اگر دنیا کو اس نیت سے استعمال کر رہے ہو کہ یہی تمہاری آخری منزل ہے اور بس اس کی بھلائی بھلائی ہے، اور اس کی اچھائی اچھائی ہے، اور اس سے آگے کوئی چیز نہیں، تو پھر یہ دنیا تمہارے لیے ہلاکت کا سامان ہے ۔*

*"·•●✿_ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ صحیح ہیں کہ یہ دنیا مردار ہے، جب کہ اس کی محبت اور اس کا خیال دل ود ماغ پر اس طرح چھا جائے کہ صبح سے لے کر شام تک دنیا کے سوا کوئی خیال نہ آئے لیکن اگر اس دنیا کو اللہ تعالی کے لیے استعمال کر رہے ہو تو پھر یہ دنیا بھی انسان کے لیے دنیا نہیں رہتی، بلکہ دین بن جاتی ہے اور اجر وثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔*  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
            *☞ _ دنیا کو دین بنانے کا طریقہ:-*

*"·•●✿_ اور دنیا کو دین بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مال کمانے میں حرام طریقوں سے بچو اور تمہاری اس حاصل شده دولت پر جو فرائض عائد کیے گئے ہیں، خواہ زکوۃ کی شکل میں ہوں، یا خیرات وصدقات کی شکل میں ہوں، ان کو بجالاؤ، اور جس طرح اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے تم دوسروں کے ساتھ احسان کرو، اگر انسان یہ اختیار کرلے اور جو نعمت انسان کو ملے اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے، تو دنیا کی ساری نعمتیں اور دولتیں دین بن جائیں گی، اور وہ سب اجر بن جائیں گی،*

*"·•●✿_ پھر کھانا کھائے گا تو بھی اجر ملے گا، اور پانی پے گا تو بھی اجر ملے گا ، تجارت کرے گا تو بھی اجر ملے گا، اور دنیا کی اور راحتیں اختیار کرے گا تو اس پر بھی اجر ملے گا، کیونکہ اس نے اس دنیا کو اپنا مقصد نہیں بنایا، بلکہ مقصد کے لیے ایک راستہ اور ایک ذریعہ قرار دیا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنی آخرت تلاش کر رہا ہے، حرام کاموں سے بچتا ہے، اور اپنے فرائض و واجبات کو ادا کرتا ہے تو ساری دنیا دین بن جاتی ہے، اور وہ دنیا اللہ تعالی کا فضل بن جاتی ہے،*

*"·•●✿_ اللہ تعالی ہم سب کو اس بات کی صحیح فہم بھی عطا فرمائے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے, آمین,*
*®_ [ اصلاحی خطبات ، ج ۳، ۱۲۴ تا ۱۳۳]*                
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
      *☞ _(28)_کیا دین پر چلنا مشکل ہے ؟*

*"·•●✿ _ بعض اوقات ان احادیث کو پڑھ پڑھ کر ہم جیسے کم ہمت لوگوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہونے لگتا ہے کہ دین پر چلنا ہمارے بس کی بات نہیں، یہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور اصحابہ صفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی نے دین پر عمل کر کے دکھایا، ہمارے بس میں تو یہ نہیں ہے کہ اتنے دن کی بھوک برداشت کرلیں ، اور ایک چادر اوڑھ کر اپنی زندگی گزار لیں،*

*"·•●✿ _ خوب سمجھ لیجیے یہ واقعات سنانے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ دل میں مایوسی پیدا ہو، بلکہ یہ واقعات سنانے کا منشا یہ ہے کہ حضور اقدس جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے اندر یہ ذہنیت پیدا فرمائی جس کا اعلیٰ ترین معیار وہ تھا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر انسان اس اعلیٰ معیار پر پہنچنے کے بعد ہی نجات حاصل کر سکے گا، بلکہ ہر انسان کی طاقت اور استطاعت الگ الگ ہے، اور اللہ تعالی نے کوئی حکم انسان کی طاقت اور استطاعت سے زیادہ نہیں دیا،*

*"·•●✿ _ کسی نے خوب کہا ہے: دیتے ہیں ظرف قدح خوار دیکھ کر، یعنی جس شخص کا جتنا ظرف ہوتا ہے، اللہ تعالی اس کے ظرف کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔*
*®_ [ اصلاحی خطبات ، ج ۸، ص ۷۸]*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (29) دین اسلام کا مجھ سے کس وقت کیا مطالبہ ہے ؟ اور اس مطالبے پر مجھے کس طرح عمل کرنا ہے ؟*

*"·•●✿_حضرت عارفی رحمہ اللہ نے ایک عظیم بات ارشاد فرمائی، فرمایا کہ دیکھو! دین نام ہے وقت کے تقاضے پر عمل کرنے کا کہ اس وقت دین کا مجھ سے کیا مطالبہ ہے؟ اس مطالبے کو پورا کرنے کا نام دین اور اتباع ہے، اپنا شوق پورا کرنے اور اپنی تجویز پر عمل کرنے کا نام دین نہیں،*
 
*"·•●✿_ یہ بڑی اہم بات ہے، اور سمجھنے کی بات ہے، اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دین کی تعبیر میں، دین کی تشریح میں، اور دین پر عمل کرنے میں بہت کوتاہی واقع ہوتی ہے، وہ یہ کہ جب دل پر کسی خاص کام کی اہمیت سوار ہو جاتی ہے کہ یہ کام کرنا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وقت کا تقاضا کسی اور کام کے کرنے کا ہوتا ہے، تو اب اس شخص کو اس وقت کے تقاضے کی پرواہ نہیں ہوتی،*

*"·•●✿_ مثلاً ایک مولانا صاحب ہیں، ان کو سبق پڑھانا ہے اور اس کے لیے مطالعہ کرنا ہے وغیرہ، ان کے کاموں کی اہمیت تو ان کے دل میں ہے لیکن گھر والوں کے بھی کچھ حقوق میرے ذمہ ہیں، اور مجھے کچھ وقت ان کو بھی دینا چاہیے، اس کی طرف مولانا صاحب کو دھیان نہیں، حالانکہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت کو آپ گھر والوں کے لیے استعمال کریں۔*

*"·•●✿_ اپنے اس طرز عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بعض مرتبہ لوگ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک قربانی نہیں دیں گے اس وقت تک دین کا غلبہ نہیں ہوتا اور دین کے اندر اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا، اس کے بارے میں صحابہ کرام کی مثالیں موجود ہیں،*

*"·•●✿_ جیسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ، آج ہی شادی ہوئی اور نئی بیوی گھر میں موجود ہے اور اگلے دن جہاد میں جانے کا اعلان ہو گیا تو ابھی یہ غسل جنابت بھی نہ کر پائے تھے کہ جہاد میں شامل ہو گئے، اب وقت کا تقاضا تو یہ لگتا ہے کہ ابھی گھر میں نئی بیوی آئی ہے، اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے لیکن یہ صحابی اس بیوی کو چھوڑ کر جہاد میں چلے گئے۔*

*"·•●✿_ خوب سمجھ لیجیے ! دو باتیں الگ الگ ہیں، جن کو صحابہ کرام کی مثالوں میں ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ بعض اوقات حضرات صحابہ کرام نے اپنے گھر والوں کو ایسے موقع پر چھوڑا جب کہ گھر سے نکلنا فرض عین ہو گیا تھا، مثلاً دشمن حملہ آور ہو گیا اور نبی کریم ﷺ کی طرف سے نفیر عام آگئی کہ ہر شخص نکل جائے، اب ہر شخص پر فرض عین ہے کہ وہ حصہ لے، اس صورت میں نہ والدین کی اجازت کی ضرورت ہے، نہ بیوی کی اجازت کی ضرورت ہے، یہاں تک فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ ایسے موقع پر عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نکل سکتی ہے، اور غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکل سکتا ہے، یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے، جبکہ دشمن حملہ آور ہو گیا، اس وقت کا تقاضا ہی یہ تھا,*

*"·•●✿"_ دوسری طرف وہ مثالیں ہیں جن میں کسی صحابی نے اپنی ذات پر مشقت برداشت کر کے دین کا کام کیا یا تبلیغ میں نکلے، دعوت میں نکلے لیکن دوسرے کسی صاحب حق کا حق ضائع نہیں کیا۔‌تیسری طرف بعض صحابہ کرام کے افعال ایسے ہیں جو بہت اعلیٰ درجے کے مقام کے ہیں،*
*"_ ہمیں بیشک اس بات کی کوشش تو کرنی چاہیے کہ اس مقام کا تھوڑا سا حصہ ہمیں بھی اللہ تعالی عطا فرمادے لیکن ہر آدمی پر فرض نہیں کہ اس سے مطالبہ کیا جائے کہ تم ایسا ضرور کرو،*

*"·•●✿"_لہذا چاہے درس و تدریس ہو, چاہے وعظ و تبلیغ ہو، یہ سب کام وقت کے تقاضوں کے تابع ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے کیا تقاضا ہے؟ اللہ تعالی کی طرف سے اس وقت مجھ سے کیا مطالبہ ہے؟ غزوہ تبوک کا موقع ہے، ہر شخص آگے بڑھ کر حصہ لے رہا ہے، اور حضور اقدس ﷺ کی طرف سے صحابہ کرام کو ترغیب دی جارہی ہے ، یہ ترغیب سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی جانے کا شوق پیدا ہورہا ہے، لیکن حضور ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم مت جاؤ، بلکہ عورتوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ منورہ میں رک جاؤ ،*.

*"·•●✿"_ اب حضرت علی رضی اللہ عنہ جو بہادری میں شجاعت میں، جرات میں، بہت سے صحابہ کرام سے زیادہ تھے، انہوں نے حضور ﷺ سے فرمایا کہ یا رسول اللہ ! میں یہاں عورتوں اور بچوں کے پاس رہ جاؤں؟ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے پیچھے مدینہ منورہ میں اس طرح رہو جیسے حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے رہے، اس طرح حضور اقدس ﷺ نے ان کو مدینے میں رہنے کی ترغیب دی، ان کے لیے وقت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ مدینے میں رہ کر عورتوں اور بچوں کی دیکھ بھال کریں،*

*"●✿_ غزوہ بدر کا موقع ہے ، وہ بدر جس کو قرآن کریم نے یوم الفرقان فرمایا ، جس غزوہ میں شامل ہونے والا شخص بدری کہلایا ، جن کے نام پڑھ کر لوگ دعائیں کرتے ہیں ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضور اقدس ﷺ کے داماد ہیں، وہ بھی اس غزوہ میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کی بیوی جو حضور اقدس ﷺ کی صاحبزادی ہیں، وہ بیمار ہیں، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تم ان کی تیمارداری کے لیے رک جاؤ اور غزوہ میں مت جاؤ،*

*"●✿_ اب دیکھیے ! حضور اقدس ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی کی تیمارداری کے لیے غزوہ سے روک دیا اور غزوہ بدر جیسی عظیم فضیلت سے بظاہر ان کومحروم کر دیا لیکن حقیقت میں وہ محروم نہیں ہوئے، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو بدرین میں شمار فرمایا اور مال غنیمت میں ان کا حصہ لگایا۔*

*"●✿_ بہر حال ! عرض یہ کرنا تھا کہ یہ دین کا بڑا اہم نکتہ اور بڑا اہم باب ہے کہ کس وقت مجھ سے کیا مطالبہ ہے ؟ اور اس مطالبے پر مجھے کس طرح عمل کرنا ہے ؟ دین کی یہ فہم عام طور پر بزرگوں کی صحبت کے بغیر پیدا نہیں ہوتی، بلکہ آدمی اپنے دماغ سے اجتہاد ہی کرتا رہتا ہے کہ اس وقت مجھے دین کا یہ تقاضا معلوم ہو رہا ہے۔*
*{ اصلاحی خطبات، ج۱۶، ص ۷۵ تا ۸۵}*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(30)_مسلم اقوام کی تنزلی اور غیر مسلم اقوام کی ترقی کی وجوہات کیا ہیں؟*

*"·•●✿_ خوب سمجھ لیجیے یہ دنیا، اسباب کی دنیا ہے، اگر یہ باتیں غیر مسلموں نے حاصل کر کے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالی نے ان کو دنیا میں ترقی دے دی اگرچہ آخرت میں تو ان کا کوئی حصہ نہیں، لیکن معاشرت کے وہ آداب جو ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ نے سکھائے تھے، ان آداب کو انہوں نے اختیار کر لیا، تو اللہ تعالی نے ان کو ترقی دے دی،*

*"·•●✿_ لہٰذا یہ اعتراض تو کر دیا کہ ہم مسلمان ہیں، کلمہ پڑھتے ہیں، ایمان کا اقرار کرتے ہیں، اس کے باوجود دنیا میں ہم ذلیل و خوار ہورہے ہیں، دوسرے لوگ غیر مسلم ہونے کے باوجود ترقی کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھا کہ ان غیر مسلموں کا یہ حال ہے کہ وہ تجارت میں جھوٹ نہیں بولیں گے، امانت اور دیانت سے کام لیں گے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تجارت چمکا دی،*

*"·•●✿_ لیکن مسلمانوں نے ان چیزوں کو چھوڑ دیا اور دین کو مسجد اور مدرسے تک محدود کر کے بیٹھ گیا، زندگی کی باقی چیزوں کو دین سے خارج کر دیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے دین سے بھی دور ہو گئے اور دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہو گئے,*

*"·•●✿_ حالانکہ حضور اقدس ﷺ نے یہ سب تعلیمات ہمیں عطا فرمائیں تاکہ ہم ان کو اپنی زندگی کے اندر اپنائیں اور ان کو دین کا حصہ سمجھیں۔*.
*®[ اصلاحی خطبات ، ج ۵، ص ۱۸۳]*                 

*"·•●✿_ حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی اتباع میں، آپ کی سنتوں کی تعمیل میں، ان حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا، اور آج ہم پر یہ خوف مسلط ہے کہ اگر فلاں سنت پر عمل کر لیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ اگر فلاں سنت پر عمل کر لیا تو دنیا والے مذاق اڑائیں گے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں آج ذلیل ہو رہے ہیں،*

*"·•●✿_ آج دنیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے، آج دنیا میں جتنے مسلمان ہیں، اتنے مسلمان اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے، اور آج مسلمانوں کے پاس جتنے وسائل ہیں اتنے وسائل اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے لیکن حضور نبی ﷺ نے فرما دیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ تمہاری تعداد تو بہت ہوگی لیکن تم ایسے ہونگے جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے تنکے ہوتے ہیں، جن کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا،*

*"·•●✿_ آج ہمارا یہ حال ہے، کہ اپنے دشمنوں کو راضی کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اپنے اخلاق چھوڑے، اپنے اعمال چھوڑے، اپنی سیرتیں چھوڑیں، اپنے کردار چھوڑے، اور اپنی صورت تک بدل ڈالی، سر سے لے کر پاؤں تک ان کی نقل اتار کر یہ دکھا دیا کہ ہم تمہارے غلام ہیں، لیکن وہ پھر بھی خوش نہیں ہیں،*

*"·•●✿_ لہٰذا ایک مسلمان جب حضور اقدس ﷺ کی سنت چھوڑ دے گا تو یاد رکھو اس کے لیے ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک شاعر گذرے ہیں اسعد ملتانی مرحوم، انہوں نے ایک شعر کہا ہے کہ:-*
*"_کسی کا آستانہ اونچا ہے اتنا کہ سر جھک کر بھی اونچا ہی رہےگا،*
*"_ہنسے جانے سے جب تک تم ڈروگے زمانہ تم پر ہنستا ہی رہے گا،*

*"·•●✿_ جب تک تم اس بات سے ڈرو گے کہ فلاں ہنسے گا، فلاں مذاق اڑائے گا، تو زمانہ ہنستا ہی رہے گا اور دیکھ لو کہ ہنس رہا ہے، اور اگر تم نے نبی کریم سرور دو عالم ﷺ کے قدم مبارک پر اپنا سر رکھ دیا اور آپ کی سنتوں کی اتباع کرلی تو پھر دیکھو کہ دنیا تمہاری کیسی عزت کرتی ہے۔*
*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۲، ص ۱۶۸]*                 

*●✿__ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمانوں کا یہ شیوہ تھا کہ تجارت بالکل صاف ستھری ہو، اس میں دیانت اور امانت ہو، دھوکہ اور فریب نہ ہو، آج مسلمانوں نے تو ان چیزوں کو چھوڑ دیا اور دوسری اقوام نے ان چیزوں کو اپنی تجارت میں اختیار کر لیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی تجارت کو فروغ ہو رہا ہے، دنیا پر چھا گئے ہیں،*

*●✿_ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحت رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یاد کھو! باطل کے اندر کبھی ابھرنے اور ترقی کرنے کی طاقت ہی نہیں، اس لیے کہ قرآن کریم کا صاف ارشاد ہے: اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ( سورہ الاسراء- 81)*
*_یعنی باطل تو مٹنے کے لیے آیا ہے لیکن اگر کبھی تمہیں یہ نظر آئے کہ کوئی باطل ترقی کر رہا ہے، ابھر رہا ہے، تو سمجھ لو کہ کوئی حق چیز اس کے ساتھ لگ گئی ہے، اور اس حق چیز نے اس کو ابھار دیا ہے،*

 *●✿__لہٰذا یہ باطل لوگ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے، آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں رکھتے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کو دنیا کے اندر بھی ذلیل و رسوا کر دیا جاتا لیکن کچھ حق چیزیں ان کے ساتھ لگ گئیں، وہ امانت اور دیانت جو حضور اقدس ﷺ نے ہمیں سکھائی تھی، وہ انہوں نے اختیار کر لی، اس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان کی تجارت کو ترقی عطا فرمائی، آج وہ پوری دنیا پر چھا گئے،*

*●✿__اور ہم نے تھوڑے سے نفع کے خاطر امانت اور دیانت کو چھوڑ دیا، اور دھوکہ فریب کو اختیار کر لیا، اور یہ نہ سوچا کہ یہ دھوکہ فریب آگے چل کر ہماری اپنی تجارت کو تباہ و برباد کر دے گا۔ مسلمان کا ایک طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ تجارت میں بھی دھوکہ اور فریب نہیں دیتا، ناپ تول میں کبھی کمی نہیں کرتا، کبھی ملاوٹ نہیں کرتا, امانت اور دیانت کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، حضور اقدس ﷺ نے دنیا کے سامنے ایسا ہی معاشرہ پیش کیا اور صحابہ کرام کی شکل میں ایسے ہی لوگ تیار کیے، جنہوں نے تجارت میں بڑے سے بڑے نقصان کو گوارہ کر لیا لیکن دھوکہ اور فریب دینے کو گوارہ نہیں کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کی تجارت بھی چمکائی اور ان کی سیاست بھی چمکائی، ان کا بول بالا کیا اور انہوں نے دنیا سے اپنی طاقت اور قوت کا لوہا منوایا۔*

*●✿__آج ہمارا حال یہ ہے کہ عام مسلمان ہی نہیں بلکہ وہ مسلمان جو پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں لیکن جب وہ بازار میں جاتے ہیں تو سب احکام بھول جاتے ہیں، گویا کہ اللہ تعالی کے احکام صرف مسجد تک کے لیے ہیں، بازار کے لیے نہیں، خدا کے لیے اس فرق کو ختم کریں اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کے تمام احکامات کو بجالائیں۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۶، ص ۱۳۴ )*         

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (31)_ کیا انسان کی رہنمائی کے لیے تنہا صرف عقل کافی نہیں ؟*

*"·•●✿_ دیکھیے یہ کرسی ہمارے سامنے رکھی ہے، آنکھ سے دیکھ کر معلوم کیا کہ اس کے ہینڈل زرد رنگ کے ہیں، ہاتھ سے چھو کر معلوم کیا کہ یہ چکنے ہیں، لیکن تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیا خود بخود وجود میں آگئی یا کسی نے اس کو بنایا ؟*.

*"·•●✿_ تو وہ بنانے والا میری آنکھوں کے سامنے نہیں ہے، اس واسطے میری آنکھ بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی، میرا ہاتھ بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا، اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے تیسری چیز عطا فرمائی جس کا نام عقل ہے، عقل سے میں نے سوچا کہ یہ خود سے وجود میں نہیں آسکتا کسی بنانے والے نے اس کو بنایا ہے، یہاں عقل نے میری رہنمائی کی ہے،*

*"·•●✿_ لیکن جب عقل بھی نا کام ہو جاتی ہے، اس موقع پر اللہ تبارک وتعالی نے ایک چوتھی چیز عطا فرمائی اور اس کا نام وحی الہی ہے، وہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے وحی ہوتی ہے، وہ خیر اور شر کا فیصلہ کرتی ہے، وہ نفع اور نقصان کا فیصلہ کرتی ہے، جو بتاتی ہے کہ اس چیز میں خیر ہے، اس میں شر ہے، اس میں نفع ہے، اس میں نقصان ہے، وحی آتی ہی اس مقام پر ہے جہاں انسان کی عقل کی پرواز ختم ہو جاتی ہے،*

*"·•●✿_ لہذا جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم آجائے اور وہ اپنی عقل سے بھی سمجھ میں نہ آئے تو اس کی وجہ سے اس کو رد کرنا کہ صاحب! میری تو عقل میں نہیں آرہا لہٰذا میں اس کو رد کرتا ہوں، تو یہ در حقیقت اس عقل کی اور وحی الہی کی حقیقت ہی سے جہالت کا نتیجہ ہے، اگر سمجھ میں آتا تو وحی آنے کی ضرورت کیا تھی ؟ وحی تو آئی ہی اس لیے کہ تم اپنی تنہا عقل کے ذریعہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے تھے، اللہ تبارک و تعالی نے وحی کے ذریعے سے تمہاری مدد فرمائی،*

*"·•●✿_ اگر عقل سے خود بخود فیصلہ ہوتا تو اللہ تعالی ایک حکم نازل کر دیتے بس کہ ہم نے تمہیں عقل دی ہے، عقل کے مطابق جو چیز اچھی لگے وہ کرو اور جو بری لگے اس سے بچ جاؤ، نہ کسی کتاب کی ضرورت، نہ کسی رسول کی ضرورت، نہ کسی پیغمبر کی ضرورت ، نہ کسی مذہب اور دین کی ضرورت لیکن جب اللہ نے اس عقل دینے کے باوجود اس پر اکتفا نہیں فرمایا ، بلکہ رسول بھیجے، کتابیں اتاریں ، وحی بھیجی، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تنہا عقل انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں تھی، آج کل لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ! ہمیں چونکہ اس کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا، لہذا ہم نہیں مانتے تو وہ در حقیقت دین کی حقیقت سے ناواقف ہیں، حقیقت سے جاہل ہیں سمجھ میں آہی نہیں سکتا ۔*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (32)_ انفرادی اصلاح کی بنا پر کیا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر چھوڑ دیں؟*

*•●✿_ پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرنی ضروری ہے، اسی سلسلے میں قرآن کریم کی آیت اور حضور اقدس ﷺ کا ایک ارشاد ہے، جو عام طور پر ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے، آیت کریمہ یہ ہے کہ- (سورۃ المائدة آیت نمبر 105) يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَيۡكُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ‌ۚ لَا يَضُرُّكُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اهۡتَدَيۡتُمۡ‌ ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرۡجِعُكُمۡ جَمِيۡعًا فَيُـنَـبِّـئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞*
*"_ اے ایمان والو تم اپنی خبر لو، ( اپنے آپ کو درست کرنے کی فکر کرو ) اگر تم راہ راست پر آ گئے تو جو لوگ گمراہی کے راستے پر جارہے ہیں وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ،اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، وہ اس وقت تم کو بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا عمل کرتے رہے_,*

*"•●✿_ روایات میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ ! یہ آیت تو بتا رہی ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر کرو، اگر دوسرے لوگ گمراہ ہو رہے ہیں تو ان کی گمراہی تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی، تو کیا ہم دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کریں ؟ دعوت تبلیغ کا کام نہ کریں؟*

*"•●✿_جواب میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسا نہیں ہے تم تبلیغ و دعوت کا کام کرتے رہو، اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی: (إذا رأيت شحا مطاعا، وهوى متبعا ، ودنيا مؤثرة ، وإعجاب كل ذى رأى برأيه فعليك بخاصة نفسك ودع عنك أمر العامة ) _,*
*"_جب تم معاشرے کے اندر چار چیزیں پھیلی ہوئی دیکھو، ایک یہ کہ جب مال کی محبت کے جذبے کی اطاعت کی جارہی ہو، ہر انسان جو کچھ کر رہا ہو وہ مال کی محبت سے کر رہا ہو، دوسرے یہ کہ خواہشات نفس کی پیروی کی جارہی ہو، تیسرے یہ کہ دنیا ہی کو ہر معاملے میں ترجیح دی جارہی ہو، چوتھے یہ کہ ہر ذی رائے شخص اپنی رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے, ہر شخص اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر دوسرے کی بات سنے سمجھنے سے انکار کرے تو تم اپنی جان کی فکر کرو، اپنے آپ کو درست کرنے کی فکر اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو۔*             

*•●✿_اس حدیث ( جو پچھلے پارٹ میں گزر چکی ) کا مطلب بعض حضرات نے تو یہ بیان فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب کسی انسان پر دوسرے انسان کی نصیحت کارگر نہیں ہوگی، اس لیے اس وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دعوت تبلیغ کا فریضہ ساقط ہو جائے گا، بس اس وقت انسان اپنے گھر میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرے، اور اپنے حالات کی اصلاح کی فکر کے اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں،*

*"•●✿_ دوسرے علما نے اس حدیث کا دوسرا مطلب بیان کیا ہے، وہ یہ کہ اس حدیث میں اس وقت کا بیان ہو رہا ہے جب معاشرے میں چاروں طرف بگاڑ پھیل چکا ہو، اور ہر شخص اپنی ذات میں اتنا مست ہو کہ دوسرے کی بات سنے کو تیار نہ ہو تو ایسے وقت اپنے آپ کی فکر کرو، اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو,*

*"•●✿__ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بالکلیہ چھوڑ دو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت فرد کی اصلاح کی طرف اجتماع کی اصلاح کے مقابلے میں توجہ زیادہ دو، کیونکہ اجتماع در حقیقت افراد کے مجموعے ہی کا نام ہے، اگر افراد درست ہیں تو اجتماع خود بخود درست ہو جائے گا، لہذا اس بگاڑ کو ختم کرنے کا طریقہ در حقیقت انفرادی اصلاح اور انفرادی جد و جہد کا راستہ اختیار کرنے میں ہے، جس سے شخصیتوں کی تعمیر ہو، اور جب شخصیتوں کی تعمیر ہوگی تو معاشرے کے اندر خود بخود ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو خود با اخلاق اور باکردار ہوں گے ، جس کے نتیجے میں معاشرے کا بگاڑ رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا،*

*"•●✿__ لہذا یہ حدیث دعوت و تبلیغ کو منسوخ نہیں کر رہی، بلکہ اس کا ایک خود کار طریقہ بتا رہی ہے۔ بہر حال ہماری ناکامیوں کا بڑا اہم سبب میری نظر میں یہ ہے کہ ہم نے اجتماع کو درست کرنے کی فکر میں فرد کو کھو دیا ہے، اور اس فکر میں کہ ہم پورے معاشرے کی اصلاح کریں گے فرد کی اصلاح کو بھول گئے ہیں، اور فرد کو بھولنے کے معنی یہ ہیں کہ فرد کو مسلمان بننے کے لیے جن تقاضوں کی ضرورت تھی، جس میں عبادات بھی داخل ہیں، جس میں تعلق مع اللہ بھی داخل ہے، جس میں اخلاق کا تزکیہ بھی داخل ہے، اور جس میں ساری تعلیمات پر عمل بھی داخل ہے ، وہ سب پیچھے جاچکے ہیں لہذا جب تک ہم اس کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے، اس وقت تک یہ تحریکیں اور ہماری یہ ساری کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی،*               

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (33)_ هزتال، بهوک هڑتال اور جلوس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟*

*"•●✿_ حکومت کی تبدیلی، حکومت سے کوئی جائز مطالبہ منوانے یا اس سے اپنے حقوق حاصل کرنے کا پر امن طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ اور ان اغراض کے لیے آج کل کی سیاسی تحریکوں میں ہڑتال، بھوک ہڑتال، جلوس وغیرہ کے جو طریقے رائج ہیں، شرعی اعتبار سے وہ کس حد تک جائز ہیں؟*

*"•●✿_ صورت حال یہ ہے کہ آج کل ہماری زندگی کا سارا ڈھانچہ بالخصوص سیاسی زندگی کا ڈھانچہ پچھلی چند صدیوں میں مغربی افکار کی بنیاد پر تعمیر ہورہا ہے، اس لیے بہت سی باتیں سیاسی زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لی گئی ہیں، انہی میں سے احتجاج کے یہ طریقے بھی داخل ہیں، یعنی ہڑتالیں، جلوس، توڑ پھوڑ وغیرہ جس کے ذریعے حکومت کو بالآخر اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مطالبات تسلیم کر لے۔*

*"•●✿_ اس قسم کی سیاسی تحریکوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں گذارش یہ ہے کہ ان میں سے بعض طریقے تو بالکل حرام اور نا جائز ہیں، مثلاً بھوک ہڑتال جو خودکشی کی حد تک پہنچ جائے، یا کوئی بھی ایسا طریقہ جس سے کسی کی جان، مال، یا آبرو پر حملہ کیا جاتا ہو، یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہو،*

*"•●✿_ سرکاری املاک در حقیقت حکمرانوں کی نہیں، بلکہ ملک کے تمام باشندوں کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے سے پوری قوم کا حق پامال ہوتا ہے، اور یہ ایسا گناہ ہے کہ اس کی معافی بہت مشکل ہے، کیونکہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے جن کے بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے ، بلکہ صاحب حق کا معاف کرنا ضروری ہے،*

*"•●✿_ اور سرکاری املاک میں صاحب حق پوری پورا ملک ہوتا ہے اور انسان کے لیے یہ بات تقریباً نا ممکن ہے کہ وہ ملک کے ہر ہر فرد سے معافی مانگے، اس لیے ایسی املاک کو نقصان پہنچانے کا معاملہ شخصی املاک کو نقصان پہنچانے سے زیادہ خطرناک ہے۔*                  

*"•●✿_ جہاں تک عام ہڑتال کا تعلق ہے تو فی نفسہ اس کا حکم یہ ہے کہ حکومت کے کسی عمل پر ناراضنگی یا احتجاج کے اظہار کے لیے اگر لوگوں سے یہ اپیل کی جائے کہ وہ اپنا کاروبار بند رکھیں، اور اس پر عمل کرنے کے لیے کسی شخص پر کوئی جبر نہ کیا جائے تو تنہا اس اپیل میں، یا اس اپیل پر خوش دلی سے عمل کرنے میں شرعاً کوئی گناہ نہیں، اور ایسی ہڑتال ایک مباح تدبیر کے درجہ میں فی نفسہ جائز ہے،*

*"•●✿__ بشرطیکہ اس میں ایسے استثنا بھی رکھے جائیں جو انسانوں کے لیے ضروری ہیں، مثلاً مریضوں کا علاج وغیرہ لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ ہڑتال کرانے والے لوگوں کو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور کرتے ہیں، اگر کوئی گاڑی چلا رہا ہے تو اس پر پتھراؤ کیا جاتا ہے، راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں، اور اگر کوئی شخص ہڑتال میں حصہ نہیں لے رہا تو اس کو کم از کم غم وغصہ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یا اسے زبردستی ہڑتال میں شریک ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے، یا اس پر تشدد کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سارے اقدامات شرعاً بالکل حرام ہیں۔*

*•●✿__ ایسی ہڑتال جس میں ہڑتال کی اپیل کرنے والے شرافت کے ساتھ لوگوں سے اپیل کر کے بیٹھ جائیں کہ جو چاہے دکان کھولے اور جو چاہے نہ کھولے، ایسی شریفانہ ہڑتال آج کے ماحول میں تقریباً نایاب ہے، اور جب کسی مباح کو نا جائز امور کا ذریعہ بنالیا جائے تو سد ذریعہ کے طور پر اس کو ممنوع ہی کہنا چاہیے، اگر چہ فی نفسہ جائز ہو،*

*""•●✿_ اس لیے ہڑتال کی یہ تدبیر جس میں توڑ پھوڑ اور امن و امان میں خلل اندوزی اور لوگوں کے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہو شرعی تدابیر کے تحت نہیں آتی، اور جب سیاست بذات خود مقصود نہیں، مقصود اللہ تعالی کی اطاعت ہے تو اس صورت میں تدبیر بھی وہی اختیار کرنی چاہیے جو شریعت کے مطابق ہو، جس میں شریعت کی کوئی خلاف ورزی لازم نہ آئے،*

*""•●✿_ جلوسوں کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اگر ان سے لوگوں کو غیر معمولی تکلیف نہ پہنچے تو وہ فی نفسہ جائز ہیں، لیکن عام طور سے ان میں بھی توڑ پھوڑ اور عوام کے لیے مشکلات پیدا ہونا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس پہلو کو جائز نہیں کہا جا سکتا۔*
*®_( اسلام اور سیاسی نظریات- ۳۷۱)*                    
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (34)_ اسلام میں سیاست کا کیا مقام ہے ؟ کیا اسلام میں سرے سے سیاست کا کوئی پہلو نہیں یا اسلام سیاست ہی کا نام هے؟*

*"•●✿_ پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اور سیاست کے تعلق کے بارے میں آج کل دو ایسے نظریات پھیل گئے ہیں جو افراط و تفریط کی دو انتہاؤں پر ہیں۔ ایک نظریہ سیکولرزم کا ہے، جس کے نزدیک اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے، جس کا تعلق بس اسی کی ذاتی زندگی سے ہے۔*

*"•●✿_ یہ نقطه نظر در حقیقت اسلام کو دوسرے مذاہب پر قیاس کرنے سے پیدا ہوا, حالانکہ یہ قیاس قطعی طور پر غلط ہے۔ اسلام کی ہدایات و تعلیمات صرف عقائد وعبادات اور اخلاق کی حد تک محدود نہیں ہیں، بلکہ وہ مالیاتی معاملات اور سیاست و حکومت کے بارے میں بھی ہمیں بڑے اہم احکام عطا فرماتا ہے، جن کے بغیر اسلام کا کلی تصور نامکمل ہے،*

*"•●✿_ دوسری انتہا پسندی بعض ایسے افراد نے اختیار کر لی جنہوں نے سیکولرزم کی تردید اس شدت کے ساتھ کی کہ سیاست ہی کو اسلام کا مقصود اصلی قرار دیدیا یعنی یہ کہا کہ اسلام کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ سیاسی نظام قائم کیا جائے، اور اسلام کے باقی سب احکام اس مقصود اصلی کے تابع ہیں۔ لہٰذا جو شخص سیاست کے میدان میں دین کی سربلندی کے لئے کام کر رہا ہے، بس وہ ہے جس نے دین کے مقصود اصلی کو پالیا ہے، اور جولوگ سیاست سے ہٹ کر اصلاح نفس تعلیم تبلیغ یا اصلاح معاشرہ کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، اور سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے، وہ گو یا تنگ نظر اور دین کے اصل مقصد سے غافل ہیں۔*

*"•●✿_ یہ دونوں نظریات افراط و تفریط کے نظریات ہیں، جو اسلام میں سیاست کے صحیح مقام سے ناواقفیت پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی ہدایات تعلیمات اور احکام زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہیں، جس میں سیاست بھی داخل ہے لیکن سیاست کو مقصود اصلی قرار دیکر باقی احکام کو اس کے تابع کہنا بھی غلط ہے۔*

*•●✿_ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصد واضح طور پر اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے کہ: "_وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون_, [الذاريات: ٥٦] اور میں نے انسان اور جنات کو کسی اور مقصد سے نہیں، بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ عبادت کے معنی ہیں بندگی اور بندگی کے مفہوم میں پرستش کے تمام مشروع طریقے بھی داخل ہیں، اور زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالی کی اطاعت بھی۔*                

*"•●✿_پھر عبادت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ عبادتیں ہیں جن کا مقصود اللہ تعالی کی پرستش کے سوا کچھ اور نہیں، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی وغیرہ۔ یہ براہ راست عبادتیں ہیں، اور دوسری قسم عبادات کی وہ ہے جس میں کوئی عمل کسی دنیاوی فائدہ کے لئے کیا جاتا ہے لیکن جب وہ عمل اللہ تعالی کے احکام کے مطابق کیا جاتا ہے، اور ان احکام کی پابندی میں نیت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی ہوتی ہے تو وہ بالواسطہ عبادت بن جاتا ہے، مثلاً تجارت اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کے ساتھ کی جائے، اور اس پابندی میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مقصود ہو تو وہ بھی اس معنی میں عبادت بن جاتی ہے کہ اس پر ثواب ملتا ہے۔*

*""•●✿_ لیکن یہ بالواسطہ عبادت ہے کیونکہ تجارت اپنی ذات میں عبادت نہیں تھی، بلکہ وہ اطاعت اور حسن نیت کے واسطے سے عبادت بنی ہے۔ یہی حال سیاست اور حکومت کا بھی ہے کہ سیاست و حکومت کی کارروائیاں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اس کی رضا جوئی کے لئے انجام دی جائیں تو وہ بھی عبادت ہیں لیکن بالواسطہ عبادت، کیونکہ یہ کارروائیاں تجارت کی طرح اپنی ذات میں عبادت نہیں تھیں، بلکہ اطاعت اور حسن نیت کے واسطے سے عبادت بنی ہیں۔*

*""•●✿_ لہذا جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت کو قرار دیا تو اس میں دونوں قسم کی عبادتیں داخل ہیں، اور ان کا مجموعہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو عبادت براہ راست عبادت ہیں، ان کا مرتبہ بالواسطہ عبادتوں کے مقابلے میں زیادہ بلند ہے، اور بالواسطہ عبادتیں بھی بہت سی ہیں، ان میں سے کسی ایک کو تنہا انسان کی تخلیق کا مقصد نہیں کہا جا سکتا ، بلکہ ان کا مجموعہ بالواسطہ عبادتوں کے ساتھ مل کر مقصود تخلیق ہے۔*
_
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (35)_ احکام شرعیه کی علت و حکمت کے بارے میں سوال کہ شریعت کے فلاں حکم کی حکمت (Reason) سمجھ میں نہیں آتی؟*
 
*"•●✿_ اسی طرح آج کل لوگوں میں یہ مرض بہت عام ہے کہ جب کسی عمل کے بارے میں بتاؤ کہ شریعت میں یہ حکم موجود ہے کہ یہ کام کرو، یا یہ حکم ہے کہ فلاں کام مت کرو، تو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ فلاں چیز کو جو حرام قرار دیا گیا ہے، یہ حرمت کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ اور سوال کرنے والے کا انداز یہ بتاتا ہے کہ اگر ہمارے اس سوال کا معقول جواب ہمیں مل گیا اور ہماری عقل نے اس جواب کو صحیح تسلیم کر لیا تب تو ہم اس حکم شرعی کو مانیں گے ورنہ نہیں مانیں گے،*.

*"•●✿_ حالانکہ اس حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے صاف صاف فرمادیا کہ جب میں نے تم کو کسی چیز سے روک دیا تو تمہارا کام یہ ہے کہ رک جاؤ اور اس تحقیق میں پڑنا تمہارا کام نہیں کہ اس روکنے میں کیا حکمت ہے؟ کیا مصلحت اور کیا فائدہ ہے ؟ اللہ تعالی اپنی حکمت اور مصلحت سے اس کار خانہ عالم کا نظام چلا رہے ہیں ہم یہ چاہتے ہو کہ تمہارا یہ چھوٹا سادماغ جو تمہارے سر میں ہے، اس کی ساری حکمتوں اور مصلحتوں کا احاطہ کر لے،*

*"•●✿_ بات یہ ہے کہ اپنی حقیقت سے ناواقفیت اور دل میں اللہ تعالی کی عظمت کی کمی کے نتیجے میں اس قسم کے سوال ذہن میں آتے ہیں۔ جب یہ بات ذہن میں آجائے کہ وحی الٰہی شروع ہی وہاں سے ہوتی ہے جہاں عقل کی پرواز ختم ہو جاتی ہے، تو پھر وحی الہٰی کے ذریعہ قرآن وسنت میں جب کوئی حکم آجائے اس کے بعد اس بنا پر اس حکم کو رد کرنا کہ صاحب اس حکم کا ریزن (Reason) میری سمجھ میں نہیں آتا احمقانہ فعل ہوگا،*

 *"•●✿_ آج ہمارے معاشرے میں جو گمراہی پھیلی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہر حکم میں حکمت تلاش کرو کہ اس کی حکمت اور مصلحت کیا ہے؟ اور اس کا عقلی فائدہ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عقلی فائدہ نظر آئے گا تو کریں گے اور اگر فائدہ نظر نہیں آئے گا تو نہیں کریں گے، یہ کوئی دین ہے؟ کیا اس کا نام اتباع ہے ؟ اتباع تو وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کر کے دکھایا اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کر کے دکھایا اور اللہ تعالی کو ان کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کو جاری کر دیا۔*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(36)_صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور ﷺ سے کیسے سوال کرتے تھے ؟*

*"·•●✿_ احکام کی حکمتوں کے بارے میں لوگ بکثرت سوالات کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز حرام کیوں ہے؟ فلاں چیز منع کیوں ہے؟ دین کے معاملے میں یہ کیوں ہے ؟ ہمارے معاشرے میں یہ سوالات بہت پھیل گئے ہیں، حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات پڑھو گے تو یہ نظر آئے گا کہ حضور ﷺ سے صحابہ کرام سوالات کرتے تھے لیکن اس میں " کیوں؟" کا لفظ کہیں نہیں ملے گا، حضور ﷺ سے انہوں نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں یہ کیوں کر رہے ہیں ؟ یا یہ حرام کر رہے ہیں تو کیوں کر رہے ہیں؟*

*"·•●✿_اب آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سود حرام کیا، یعنی قرضہ دے کر اس کے اوپر زیادہ پیسے لینا سود ہے، قرآن نے اس کو حرام کہا اور کہا کہ جو یہ نہ چھوڑے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ سن لے، اتنی زبر دست وعید بیان فرمائی، اس کے بارے میں تو صحابہ کرام یہ سوال کیسے کرتے کہ یہ کیوں حرام ہے؟*

*"·•●✿_ یہاں تک کہ بعد میں جب حضور اقدس ﷺ نے اس سود کی حرمت کی طرف لے جانے والے کچھ معاملات کو بھی حرام کیا، مثلاً ایک بات یہ حرام کی کہ اگر کوئی شخص گندم کو گندم سے پیچ رہا ہے تو چاہے ایک طرف گندم اعلیٰ درجہ کا ہو اور دوسری طرف معمولی درجہ کا ہو تب بھی دونوں کا برابر ہونا ضروری ہے، اگر اعلیٰ درجہ کا گندم دو سیر ہو اور ادنیٰ درجہ کا گندم چار سیر ہو، اور دونوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ فروخت کیا جائے تو اس کو بھی آپ ﷺ نے حرام اور ناجائز فرمایا،*

 *"·•●✿_یا مثلاً اچھی کھجور ایک سیر اور خراب کھجور دو سیر، اگر آپس میں بیچی جائیں تو فرمایا کہ یہ بھی حرام ہے، اب بظاہر تو عقل میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ایک اچھے درجے کا گندہ ہے تو اس کی قیمت بھی زیادہ ہے، اس کا فائدہ بھی زیادہ ہے اور جو ادنی درجے کا گندم ہے اس کی قیمت بھی کم ہے اور اس کا فائدہ بھی کم ہے تو اگر ادنیٰ درجے کے دو سیر اور اعلیٰ درجے کا ایک سیر ملا کر فروخت کیا جائے تو اس میں کیا خرابی ہے؟*

*"·•●✿_ لیکن جب نبی کریم سرور دو عالم ﷺ نے فرما دیا کہ گندم کی بیع جب گندم سے ہوگی تو برابر سرابر ہونا چاہیے، چاہے اعلیٰ درجے کا ہو یا ادنیٰ درجے کا ہو، کسی ایک صحابی نے بھی آپ ﷺ کا یہ حکم سن کر نہیں فرمایا کہ یا رسول اللہ ما یا یہ حکم کیوں ؟ کیا وجہ ہے؟، وجہ یہ تھی کہ لفظ "کیوں" کا سوال صحابہ کرام کے ہاں نہیں تھا، اس لیے کہ انہیں اللہ تعالی پر اور نبی کریم سرور دو عالم ﷺ پر ایسا بھروسہ تھا کہ جو حکم یہ دے رہے ہیں وہ برحق ہے، ہماری سمجھ میں آئے تو برحق ہے، نہ آئے تو برحق ہے، ہمیں حکمت کے پیچھے پڑنے کی حاجت نہیں، جب کہہ دیا کہ حرام ہے تو حرام ہے۔*
*®_[ اصلاحی خطبات ، ج ۱۳ ص ۲۸۱۰۲۸۰]*                 
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(37)_ فضول اور لا يعني سوالات كرنا جن کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ هو؟*

*"·•●✿_ ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنا کہ جن کا انسان کے عقیدے یا اس کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، یا ایسے ہی فضول سوالات کرنا ، یا ایسے عقائد کے بارے میں سوالات کرنا جو بنیادی عقائد نہیں ہیں، جن کے بارے میں حشر نشر کے اندر کوئی سوال نہیں ہونا ہے، یہ ٹھیک نہیں، بلکہ ان کے بارے میں سوالات کرنے کے بجائے جو تمہاری عملی زندگی کے معاملات ہیں، حرام و حلال کے، جائز و ناجائز کے، ان کے بارے میں سوال کرو، اور ان کے اندر بھی جو سوالات ضروری ہیں، ان کے اندر اپنے آپ کو محدود رکھو،*

*·•●✿_ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو سوال بہت کم کیا کرتے تھے، جتنی بات نبی کریم ﷺ سے سن لی اس پر عمل کرتے تھے ،سوال کم کرتے تھے تو وہ عملی زندگی سے متعلق کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تک کسی خاص مسئلے کے بارے میں کوئی خاص بات نہ بتاؤں، اس وقت تک تم مجھے چھوڑے رکھو اور مجھ سے سوال نہ کرو،*

*•●✿_ یعنی جس کام کے بارے میں میں نے یہ کہا کہ یہ کرنا فرض ہے، یا یہ کام کرنا حرام اور نا جائز ہے، اس کے بارے میں بلا وجہ اور بلا ضرورت سوال کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ تم سے پہلے انبیاء کی جو امتیں ہلاک ہوئیں، ان کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سے سوال کرنا بھی تھا اور دوسرا سبب اپنے انبیا کے بتائے ہوئے احکام کی خلاف ورزی تھی، لہٰذا جب میں تم کو کسی چیز سے روکوں تو تم اس سے رک جاؤ، اس میں قیل وقال اور چوں و چرا نہ کرو، اور جس چیز کا میں تم کو حکم دوں تو اس کو اپنی استطاعت کے مطابق بجالاؤ۔*

*·•●✿_ اس حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے سوال کی کثرت کی مذمت بیان فرمائی ہے لیکن بعض دوسری احادیث میں سوال کرنے کی فضیلت بھی آئی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: "إنما شفاء العى السؤال “ یعنی پیاسے کی تشفی سوال سے ہوتی ہے, دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ درست ہیں، دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ جس معاملے میں خود انسان کو حکم شرعی معلوم کرنے کی ضرورت پیش آئے کہ یہ معاملہ جو میں کر رہا ہوں شرعاً جائز ہے یا نہیں، ایسے موقع پر سوال نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ ضروری ہے,*

*·•●✿_ لیکن اگر سوالات کرنے کا منایا تو محض وقت گزاری ہے، اس سوال کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کہ وہ مسئلہ اس کو پیش نہیں آیا یا وہ ایسا مسئلہ ہے جس کی دین میں کوئی اہمیت نہیں اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اور نہ قبر میں اس کے بارے میں سوال ہوگا اور نہ آخرت میں سوال ہوگا اور اس کے معلوم نہ ہونے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے تو ایسے مسائل کے بارے میں سوال کرنے کی اس حدیث میں ممانعت آئی ہے۔*      
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(38)_افضل عمل کونسا ہے ؟سوال ایک لیکن جواب مختلف کیوں؟*

*"●✿_ بار بار صحابہ کرام حضور اقدس ﷺ سے پوچھتے تھے کہ یا رسول اللہ ! سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ روایات میں یہ نظر آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مختلف صحابہ کرام کو مختلف جواب دیے, مثلاً ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ سب سے افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل عمل یہ ہے کہ تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے، یعنی ہر وقت تمہاری زبان پر اللہ کا ذکر جاری ہو, چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ، ہر حالت میں تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے، یہ عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے،*

*"●✿_ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ سب سے افضل عمل والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک ہے، کسی صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ سب افضل عمل کونسا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا سب سے افضل عمل ہے،*

*"●✿_ غرض یہ کہ مختلف صحابہ کرام کو آنحضرت ﷺ نے مختلف جوابات عطا فرمائے ، بظاہر اگر چہ ان جوابات میں تضاد نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں تضاد نہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے حالات کے لحاظ سے افضل عمل بدلتا رہتا ہے کسی شخص کے لیے نماز پڑھنا سب سے افضل عمل ہے، کسی شخص کے لیے والدین کی اطاعت سب سے افضل عمل ہے، کسی شخص کے لیے جہاد سب سے افضل عمل ہے، کسی شخص کے لیے ذکر سب سے افضل عمل ہے، حالات کے لحاظ سے اور آدمیوں کے لحاظ سے فرق پڑ جاتا ہے،*

*"●✿_ مثلا صحابہ کرام کے بارے میں آپ کو پہلے سے معلوم تھا کہ نماز کی تو ویسے بھی پابندی کرتے، ان کے سامنے نماز کی زیادہ فضیلت بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن والدین کے حقوق میں کوتاہی ہو رہی ہے، تو اب حضور اقدس ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمارے حق میں سب سے افضل عمل والدین کی اطاعت ہے، کسی کو دیکھا کہ وہ عبادت بھی کر رہے ہیں، لیکن ذکراللہ کی طرف اتنا التفات نہیں ہے۔ ان کو فرمایا کہ تمہارے حق میں سب سے افضل عمل ذکر اللہ ہے،*

*"●✿_ لہٰذا مختلف صحابہ کرام کو ان کے حالات کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ نے مختلف جواب دیے لیکن یہ سب فضیلت والے اعمال ہیں البتہ لوگوں کے حالات کے لحاظ سے فضیلت بدلتی رہتی ہے۔*
*®_ { اصلاحی خطبات، ج ۴، ص ۵۶}*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(39)_يزيد فاسق تھا یا نہیں, اس کی مغفرت ہوگی یہ نہیں ؟*

*"•●✿_ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ سے کسی نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ حضرت ! یزید فاسق تھا یا نہیں ؟ والد صاحب نے جواب میں فرمایا کہ بھائی میں کیا جواب دوں کہ فاسق تھا یا نہیں تھا ؟ مجھے تو اپنے بارے میں فکر ہے کہ پتہ نہیں میں فاسق ہوں یا نہیں، مجھے تو اپنی فکر ہے کہ پتہ نہیں میرا کیا انجام ہوتا ہے، دوسروں کے بارے میں مجھے کیا فکر جواللہ تعالی کے پاس جاچکے ہیں،*

*"•●✿_ قرآن کریم میں ارشاد ہے:_ ( تِلۡكَ أُمَّةٞ قَدۡ خَلَتۡۖ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَكُم مَّا كَسَبۡتُمۡۖ وَلَا تُسۡـَٔلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ ) یہ امت ہے جو گزر گئی، ان کے اعمال ان کے ساتھ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ، ان کے اعمال کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا۔*

*"•●✿_ کیوں اس بحث کے اندر پڑ کر اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہو اور دوسروں کا بھی وقت ضائع کرتے کہ کس کی مغفرت ہوگی اور کس کی نہیں ہوگی، اس قسم کے بے شمار مسائل ہمارے معاشرے کے اندر کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں اور اس پر قیل و قال ہو رہی ہے، بخشیں ہورہی ہیں، مناظرے ہو رہے ہیں، کتابیں لکھی جارہی ہیں ، وقت برباد ہو رہا ہے، نبی کریم سرور دو عالم ﷺ نے یہ فضول کی بحثوں سے منع فرمایا ہے۔*
*®_( اصلاحی خطبات ، ج ۱۲، ص ۲۷۹)*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(40)_شریعت کی روح دیکھنی چاہیے ظاہر اور الفاظ کے پیچھے نھیں پڑنا چاہیے ؟*

*"•●✿_ آج کل لوگوں کی زبانوں پر اکثر یہ رہتا ہے کہ شریعت کی روح دیکھنی چاہیے، ظاہر اور الفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، معلوم نہیں کہ وہ لوگ روح کو کس طرح دیکھتے ہیں، ان کے پاس کونسی ایسی خورد بین ہے جس میں ان کو روح نظر آجاتی ہے، حالانکہ شریعت میں روح کے ساتھ ظاہر بھی مطلوب اور مقصود ہے،*

*"•●✿_ سلام ہی کو لے لیں کہ آپ ملاقات کے وقت السلام علیکم کے بجائے اردو میں یہ کہہ دیں کہ "سلامتی ہو تم پر" دیکھیے معنی اور مفہوم تو اس کے وہی ہیں جو السلام علیکم کے ہیں لیکن وہ برکت وہ نور اور اتباع سنت کا اجر وثواب اس میں حاصل نہیں ہوگا جو السلام علیکم میں حاصل ہوتا ہے۔*

*"•●✿_ اس سے ایک اور بنیادی بات معلوم ہوئی، جس سے آج کل لوگ بڑی غفلت برتتے ہیں، وہ یہ کہ احادیث کے معنی مفہوم اور روح تو مقصود ہے ہی لیکن شریعت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے الفاظ بھی مقصود ہیں، دیکھیے السلام علیکم اور وعلیکم السلام دونوں کے معنی تو ایک ہی ہیں، یعنی تم پر سلامتی ہو،*

*"•●✿_ لیکن حضور اقدس ﷺ نے حضرت جابر بن سلیم کو پہلی ملاقات ہی میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ سلام کرنے کا سنت طریقہ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہو، ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ اس ذریعہ آپ نے امت کو یہ سبق دے دیا کہ شریعت اپنی مرضی سے راستہ بنا کر چلنے کا نام نہیں ہے، بلکہ شریعت اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا نام ہے۔* 
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (41)_ چودہ سو سال پرانے اصولوں کو موجودہ زمانے کی ضروریات پر کیسے اپلائی (Apply) کریں ؟*

*"•●✿_ ایک بات یہ عرض کر دوں کہ لوگوں کے دلوں میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ہم چودہ سو سال پرانی زندگی کو کیسے لوٹانے ؟ چودہ سو سال پرانے اصولوں کو آج کی اکیسویں صدی پر کیسے اپلائی کریں؟ اس لیے کہ ہماری ضروریات نوع بنوع ہیں، بدلتی رہتی ہیں۔*

*•●✿_ بات دراصل یہ ہے کہ اسلامی علوم سے عدم انسیت کی وجہ سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے، اس لیے کہ اسلام نے اپنے احکام کے تین حصے کیے ہیں، ایک حصہ وہ ہے جس میں قرآن وسنت کی نص قطعی موجود ہے، جس میں قیام قیامت تک آنے والے حالات کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، یہ اصول غیر متبدل ہیں، زمانہ کیسا ہی بدل جائے لیکن اس میں تبدیلی نہیں آسکتی۔*

*•●✿_ دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اجتہاد اور استنباط کی گنجائش رکھی گئی ہے اور اس میں اس درجہ کی نصوص قطعیہ نہیں ہیں جو زمانہ کے حال پر اپلائی کریں، اس میں اسلامی احکام کی لچک (Elasticity) خود موجود ہے۔*

*•●✿_اور احکام کا تیسرا حصہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن وسنت خاموش ہیں، جن کے بارے میں کوئی ہدایت اور کوئی رہنمائی نہیں کی گئی، جن کے بارے میں قرآن وسنت نے کوئی حکم نہیں دیا، حکم کیوں نہیں دیا ؟ اس لیے کہ اس کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے اور اس کا اتنا وسیع دائرہ ہے کہ ہر دور میں انسان اپنی عقل اور تجربہ کو استعمال کر کے اس خالی میدان میں ترقی کر سکتا ہے اور ہر دور کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔*

*•●✿_ دوسرا حصہ جس میں اجتہاد اور استنباط کی گنجائش رکھی گئی ہے، اس کے اندر بھی حالات کے لحاظ سے علتوں کے بدلنے کی وجہ سے احکام کے اندر تغیر و تبدل ہوسکتا ہے، البتہ پہلا حصہ بیشک کبھی نہیں بدل سکتا، قیامت آجائے گی لیکن وہ نہیں بدلے گا، اس لیے کہ وہ در حقیقت انسان کے فطرت کے ادراک پر مبنی ہے، انسان کے حالات بدل سکتے ہیں لیکن فطرت نہیں بدل سکتی اور چونکہ وہ فطرت کے ادراک پر مبنی ہیں اس لیے ان میں بھی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ بہر حال ! جہاں تک شریعت نے ہمیں گنجائش دی ہے، گنجائش کے دائرہ میں رہ کر ہم اپنی ضروریات کو پورے طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔*                 
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (42)_ اجتہاد کب اور کہاں سے شروع ہوتا ہے ؟*

*"•●✿_ اجتہاد کا دائرہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں نص قطعی موجود نہ ہو، جہاں نص موجود ہو وہاں عقل کو استعمال کر کے نصوص کے خلاف کوئی بات کہنا درحقیقت اپنے دائرہ کار (Jurisdiction) سے باہر جانے والی بات ہے اور اس کے نتیجے میں دین کی تحریف کا راستہ کھلتا ہے، جس کی ایک مثال آپ حضرات کے سامنے عرض کرتا ہوں۔*

*"•●✿_ قرآن کریم میں خنزیر کو حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ حرمت کا حکم وحی کا حکم ہے، اس جگہ پر عقل استعمال کرنا کہ صاحب ! یہ کیوں حرام ہے؟ یہ عقل کو غلط جگہ پر استعمال کرنا ہے، اس وجہ سے بعض لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ بات دراصل یہ ہے کہ قرآن کریم نے خنزیر اس لیے حرام کیا تھا کہ اس زمانے میں خنزیر بڑے گندے تھے اور غیر پسندیدہ ماحول میں پرورش پاتے تھے اور غلاظتیں کھاتے تھے، اب تو خنزیر کے لیے بڑے ہائی جینک فارم (Hygenic Farm) تیار کیے گئے ہیں اور بڑے صحت مندانہ طریقے سے پرورش ہوتی ہے، لہذا وہ حکم اب ختم ہونا چاہیے یہ اس جگہ پر عقل کو استعمال کرنا ہے جہاں وہ کام دینے سے انکار کر رہی ہے۔*

*"•●✿_ اسی طرح رہا اور سود کو جب قرآن کریم نے حرام قرار دے دیا بس وہ حرام ہو گیا، عقل میں چاہے آئے یا نہ آئے، دیکھیے قرآن کریم میں مشرکین عرب کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا گیا: إنما البيع مثل الربوا کہ بیع بھی رہا جیسی چیز ہے ،تجارت اور بیع وشراء سے بھی انسان نفع کماتا ہے اور رہا سے بھی نفع کماتا ہے،*

*"•●✿_ لیکن قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرق بیان نہیں کیا کہ بیع اور ربا میں یہ فرق ہے بلکہ یہ جواب دیا کہ: (وأحل الله البيع وحرم الربوا) بس ! اللہ تعالی نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور رہا کو حرام قرار دیا ہے، اب آگے اس حکم میں تمہارے لیے چوں و چرا کی گنجائش نہیں، اس لیے کہ جب اللہ نے بیع کو حلال کر دیا ہے تو حلال ہے اور جب اللہ نے ربا کو حرام کر دیا اس لیے حرام ہے، اب اس کے اندر چوں چرا کرنا در حقیقت عقل کو غلط جگہ پر استعمال کرنا ہے۔*.                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (43)_ اجتہاد اور اس کے متعلق جدید ذہن کی غلط فہمیاں، کیا عقل و حالات کے مطابق نصوص میں اجتہاد کرنا درست ہے؟*

*"•●✿_ پہلی غلط فہمی جو ان کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اجتہاد در حقیقت نصوص کے مقابلے میں اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے حکمتوں اور مصلحتوں کی بنیاد پر احکام میں کسی تغیر و تبدیلی کا نام ہے، عام طور پر جو لوگ یہ بات کہتے ہیں، ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ نصوص میں ایک حکم آیا ہے اور کسی خاص پس منظر میں کسی خاص مصلحت کے تحت آیا ہے، آج کے دور میں وہ مصلحت نہیں پائی جارہی ہے، یا اس کے خلاف کوئی اور مصلحت پائی جارہی ہے، لہٰذا ہم اپنی عقل سے سوچ کر فیصلہ کریں کہ اس دور کی مصلحت کیا ہے؟ اس حکم کو اس دور پر اطلاق پذیر نہ کریں، بلکہ اس کے بجائے اس حکم میں کوئی تبدیلی کر دیں۔*

*"•●✿_ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کے نتیجہ میں ہمیشہ کوئی سہولت یا آسانی حاصل ہونی چاہئے، اگر ایک چیز پہلے حرام اور نا جائز سمجھی جاتی تھی تو اجتہاد کے نتیجے میں جائز سمجھی جانی چاہئے، اگر کوئی چیز شریعت میں منع تھی تو اجتہاد کے نتیجے میں ممنوع نہ ہونی چاہئے، چنانچہ ہر ایسی جگہ پر اجتہاد کی ضرورت کا دعویٰ کیا جاتا ہے جہاں ان کو کوئی سہولت، آسانی یا جواز مطلوب ہو، اس موقع پر ان کو زمانہ کی تبدیلی اور حالات کے تغیر کا بھی احساس ہو جاتا ہے، اور وہ اجتہاد کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں،*

*"•●✿_ لیکن اگر کسی جگہ حالات کے تغیر کی وجہ سے حکمت اور مصلحت اس کے برعکس ہو، یعنی اس صورت میں حالات کے تغیر کی وجہ سے اسی حکمت اور مصلحت کی بنیاد پر اگر ایک چیز پہلے جائز تھی، اب نا جائز ہو رہی ہو تو اس موقع پر اجتہاد کی ضرورت کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا، مثلاً جو لوگ اجتہاد کی ضرورت کے مدعی ہیں، آج تک ان سے نہیں سنا گیا کہ سفر میں جو قصر کا حکم دیا گیا تھا وہ اس زمانے کے سفر تھے، جو اونٹوں پر گھوڑوں پر اور پیدل ہوا کرتے تھے، ان میں مشقت بہت زیادہ ہوتی تھی، آج ہوائی جہاز میں ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک چند گھنٹوں میں آدمی پہنچ جاتا ہے، فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہوئے، لیٹے ہوئے سوتے ہوئے جاتا ہے، اور وہاں جا کر آرام سے ہوٹلوں میں مقیم ہوتا ہے، تو چونکہ حالات بدل گئے ہیں لہٰذا اب سفر میں قصر کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، یہ آج تک کسی سے نہیں سنا گیا کہ یہاں اجتہاد کی ضرورت ہے، وجہ یہ ہے کہ ذہن میں یہ بات ہے کہ اجتہاد کے نتیجے میں کوئی سہولت حاصل ہونی چاہئے ، کوئی جواز حاصل ہونا چاہئے،*

*"•●✿_ یہ ساری باتیں در حقیقت اس لئے ہیں کہ اجتہاد کا صحیح مفہوم ذہن میں نہیں، حالانکہ جب اجتہاد کا لفظ بولا جاتا ہے تو جہاں سے اجتہاد کا لفظ نکلا ہے اس کی طرف دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سیاق میں آیا ہے اور اس کا کیا مطلب تھا؟*                

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (44)_ لفظ اجتهاد کا مطلب کیا ہے ؟*

*"•●✿_ کیا آپ سبھی حضرات جانتے ہیں کہ اجتہاد کا لفظ سب سے پہلے کونسی حدیث میں آیا ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: رسول اللہ ﷺ حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف حاکم قاضی معلم اور مفتی بنا کر بھیج رہے ہیں تو آپ ﷺ ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ” اللہ کی کتاب سے," آپ نے پوچھا کہ اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ عرض کیا ”بسنة رسول اللہ، پھر پوچھا اگر سنت میں نہ پاؤ تو پھر کیا کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا ” میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوئی کوتاہی نہیں کروں گا، اس پر آپ ﷺ نے تائید فرمائی اور ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضى رسول الله،*

*"•●✿_ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجتہاد وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی حکم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں موجود نہ ہو، جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس وقت میں اجتہاد کروں گا۔ اس میں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اجتہاد کسی جواز کسی رخصت یا سہولت کو حاصل کرنے کے لئے کروں گا، بلکہ یہ فرمایا کہ جو حکم کتاب اللہ سے سنت رسول اللہ سے براہ راست نہیں نکل رہا ہوگا تو (انہی نصوص کی روشنی میں) اپنی رائے کو استعمال کرتے ہوئے (قیاس کے ذریعے یا اصول کلیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے) اس حکم کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔*

*"•●✿_ اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس مسئلہ یا جس چیز کا حکم تلاش کیا جا رہا ہے, اجتہاد کے نتیجے میں وہ جائز ثابت ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے وہ نا جائز ثابت ہو، تو یہ حدیث خود بتارہی ہے کہ اجتہاد کا حل وہاں ہوتا ہے جہاں نصوص ساکت ہوں۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (45)_ تقلید کی حقیقت کیا ہے اور تقلید کیوں ضروری ہے؟

*"●✿_ اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے ، یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت بھی اس لئے واجب ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے قول و فعل سے احکام الہٰی کی ترجمانی فرمائی ہے، کون سی چیز حلال ہے اور کونسی حرام ہے؟ کیا جائز ہے کیا نا جائز ؟ ان تمام معاملات میں خالص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنی ہے،*

*"●✿_ اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کے بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو اور اس کو مستقل بالذات سمجھتا ہو وہ یقیناً دائرہ اسلام سے خارج ہے، لہٰذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن وسنت کے احکام کی اطاعت کرے۔*.

*"●✿_ لیکن قرآن وسنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جنہیں ہر معمولی لکھا پڑھا آدمی سمجھ سکتا ہے، ان میں کوئی اجمال، ابہام یا تعارض نہیں، بلکہ جو شخص بھی انہیں پڑھے گا وہ کسی الجھن کے بغیر ان کا مطلب سمجھ لے گا،*

*"●✿_ مثلاً ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة یعنی جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے بھی قراءت بن جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جب امام قراءت کر رہا ہو تو مقتدی کو خاموش کھڑا رہنا چاہئے، دوسری طرف آپ ہی کا ارشاد ہے: لا صلوۃ لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ( بخاري ) جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کیلئے سورہ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے، ان دونوں حدیثوں کے پیش نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پہلی حدیث کی اطاعت کی جائے یا دوسری حدیث کی،*                

*•●✿_آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث سے احکام کے مستنبط کرنے میں اس قسم کی بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں، اب ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کرلیں اور اس پر عمل کر لیں، اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں ازخود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ قرآن وسنت کے ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا ہے۔ چنانچہ قرون اولیٰ کے جن بزرگوں کو ہم علوم قرآن وسنت کا زیادہ ماہر پائیں، ان کی فہم و بصیرت پر اعتماد کریں، اور انہوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔*

*"•●✿_ اگر انصاف اور حقیقت پسندی سے کام کیا جائے تو ہمارے خیال کے مطابق اس بات میں دورائے نہیں ہو سکتیں کہ ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت خاصی خطرناک ہے اور دوسری صورت بہت محتاط ہے، یہ صرف تواضع اور کسر نفسی ہی نہیں بلکہ ایک ناقبل انکار حقیقت ہے کہ علم و فہم، ذکاوت و حافظه، دین و دیانت، تقویٰ و پرہیز گاری، ہر اعتبار سے ہم اس قدر تہی دست ہیں کہ قرون اولیٰ کے علماء سے ہمیں کوئی نسبت نہیں، پھر جس مبارک ماحول میں قرآن کریم نازل ہوا تھا قرون اولیٰ کے علماء اس سے بھی قریب ہیں اور اس قرب کی بناء پر ان کے لئے قرآن وسنت کی مراد کو سمجھنا بھی زیادہ آسان ہے،*

*"•●✿_ اس کے برخلاف ہم عہد رسالت ﷺ کے اتنے عرصہ بعد پیدا ہوئے ہیں کہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کو مکمل پس منظر، اس کے نزول کے ماحول، اس زمانے کے طرز گفتگو کا ہو بہو اور بعینہ تصور بڑا مشکل ہے، حالانکہ کسی کی بات کو سمجھنے کیلئے ان تمام باتوں کی پوری واقفیت انتہائی ضروری ہے۔*
*"_ ان تمام باتوں کو لحاظ کرتے ہوئے اگر ہم اپنی فہم پر اعتماد کرنے کے بجائے قرآن وسنت کی مختلف ا تعبیر پیچیدہ احکام میں اس مطلب کو اختیار کر لیں جو ہمارے اسلاف میں سے کسی عالم نے سمجھا ہے، تو کہا جائیگا کہ ہم نے فلاں عالم کی تقلید کی ہے۔*

*"•●✿_ یہ ہے تقلید کی حقیقت ! اگر میں اپنے مافی الضمیر کو صیح سمجھا سکا ہوں تو یہ بات آپ پر واضح ہو گئی ہوگی کہ کسی امام یا مجتہد کی تقلید صرف موقع پر کی جاتی ہے جہاں قرآن وسنت سے کسی حکم کو سمجھنے میں دشواری ہو، خواہ اس بناء پر کہ قرآن وسنت کی عبارت کے ایک سے زائد معنی نکل سکتے ہوں، خواہ اس بناء پر کہ اس میں کوئی اجمال ہو، یا اس بناء پر کہ اس مسئلے میں دلائل متعارض ہوں، چنانچہ قرآن وسنت کے جو احکام قطعی ہیں، یا جن میں کوئی اجمال و ابہام ، تعارض یا اس قسم کی کوئی الجھن نہیں ہے وہاں کسی امام و مجتہد کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں،*                  
*•●✿_چنانچہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ احکام ہیں جن کا جزو دین ہونا بداہتہ ثابت ہے، مثلاً پانچ نمازیں، زکوۃ، رمضان کے روزے اور حج کی فرضیت اور زنا اور شراب نوشی کی حرمت اور اسی جیسے دوسرے احکام ، تو اسی قسم میں تقلید جائز نہیں، کیونکہ ان چیزوں کا علم تمام لوگوں کو ہوتا ہی ہے لہذا اس میں تقلید ے کوئی معنی نہیں،*

*•●✿_ اور دوسری قسم وہ ہے جس کا علم فکر و نظر اور استدلال کے بغیر نہیں ہوسکتا، جیسے عبادات و معاملات اور شادی بیاہ کے فروعی مسائل, اس قسم میں تقلید درست ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ) نیز اس لئے کہ اگر ہم دین کے ان فروعی مسائل میں تقلید کو ممنوع کردیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر شخص با قاعدہ علوم دین کی تحصیل میں لگ جائے، اور لوگوں پر اس کو واجب کرنے سے زندگی کی تمام ضروریات برباد ہو جائیں گی، اور کھیتیوں اور مویشیوں کی تباہی لازم آئے گی، لہٰذا ایسا حکم نہیں دیا جاسکتا۔*

*•●✿_مذکور و بالا گزارشات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی امام یا مجتہد کی تقلید کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے بذات خود واجب الاطاعت سمجھ کر اتباع کی جارہی ہے، یا اسے شارع (شریعت بنانے والا, قانون ساز ) کا درجہ دیکر اس کی ہر بات کو واجب الاتباع سمجھا جارہا ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ پیروی تو قرآن وسنت کی مقصود ہے لیکن قرآن وسنت کی مراد کو سمجھنے کیلئے شارح قانون ان کی بیان کی ہوئی تشریح و تعبیر پر اعتماد کیا جارہا ہے،*

*•●✿_ یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت کے قطعی احکام میں کسی امام یا مجتہد کی تقلید ضروری نہیں سمجھی گئی، کیونکہ وہاں اللہ او اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اصل مقصد اس کے بغیر بآسانی حاصل ہو جاتا ہے۔*                

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ (46)_ قرآن میں تو آباء و اجداد کی تقلید کی مذمت کی گئی ہے_,*

*"·•●✿_ تقلید پر پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم نے بالفاظ ذیل تقلید کی مذمت فرمائی ہے۔( وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ, البقرہ - 170) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں ! ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، ( اللہ تعالی فرماتے ہیں ) بھلا اگر ان کے باپ دادے عقل و ہدایت نہ رکھتے ہوں تب بھی۔*

*"·•●✿_ لیکن جو گزارشات ہم نے پچھلے صفحات میں پیش کیں ہیں اگر ان کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ شبہ خود بخود دور ہو جاتا ہے کہ ائمہ مجتہدین کی تقلید (معاذ اللہ ) مذکورہ آیت کے خلاف ہے، پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم کی اس آیت میں دین کے بنیادی عقائد کا ذکر ہو رہا ہے یعنی مشرکین توحید، رسالت اور آخرت جیسے مسائل میں حق کو قبول کرنے کے بجائے صرف یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو انہی عقائد پر پایا ہے، گویا کہ ان کی تقلید دین کے بنیادی عقائد میں تھی اور دین کے بنیادی عقائد میں تقلید ہمارے نزدیک بھی جائز نہیں ہے،*

*"·•●✿_ تمام اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ تقلید عقائد اور ضروریات دین میں نہیں ہوتی کیونکہ یہ مسائل نہ اجتہاد کا محل ہیں نہ تقلید کا, لہٰذا جس تقلید کی مذمت مذکورہ آیت نے کی ہے اسے ائمہ مجتہدین کے مقلد حضرات بھی ناجائز کہتے ہیں، چنانچہ علامہ خطیب بغدادی نے اصول عقائد میں تقلید کو نا جائز قرار دیتے ہوئے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔*

*"·•●✿_دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باپ داداؤں کی تقلید پر مذمت کے دو سبب بھی بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ وہ لوگ اللہ تعالی کے نازل کئے ہوئے احکام کو بر ملارد کر کے انہیں نہ ماننے کا اعلان کرتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ اس کے بجائے اپنے باپ داداؤں کی بات مانیں گے، دوسرے یہ کہ ان کے آباء واجداد‌ عقل و ہدایت سے کورے تھے۔*

*"·•●✿_لیکن ہم جس تقلید کی گفتگو کر رہے ہیں اس میں یہ دونوں سبب مفقود ہیں، کوئی تقلید کرنے والا خدا و رسول کے احکام کو رد کر کے کسی بزرگ کی بات نہیں مانتا، بلکہ وہ اپنے امام مجتہد کو قرآن وسنت کا شارح قرار دے کر اس کی تشریح کی روشنی میں قرآن وسنت پر عمل کرتا ہے، اسی طرح دوسرا سبب بھی یہاں نہیں پایا جاتا کیونکہ اس سے کوئی اہل حق بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جن ائمہ مجتہدین کی تقلید کی جاتی ہے، ان سے کتنا ہی اختلاف رائے کیوں نہ ہو مگر ہر اعتبار سے ان کی جلالت قدر ہر ایک کو مسلم ہے، اس لئے اس تقلید کو کافروں کی تقلید پر منطبق کرنا بڑے ظلم کی بات ہے۔*
*®_ [ تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۱۱۵]*                  
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ __(47)_ يهود ونصاری میں احبار و رهبان کی تقلید کی جاتی تھی جس کی قرآن نے مذمت کی ہے،*

*"·•●✿_ بعض حضرات مجتہدین کی تقلید پر اس آیت کو چسپاں فرماتے ہیں: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ - [ سورة التوبة: 31] انہیں نے اپنے علماء اور تارک الدنیا زاہدوں کو اللہ کے بجائے اپنا پروردگا بنارکھا ہے۔*
*_ لیکن ہم پیچھے تفصیل کے ساتھ عرض کر چکے ہیں کہ کسی مجتہد کی تقلید یا اطاعت شارع یا قانون ساز کی حیثیت سے نہیں کی جاتی, بلکہ اسے شارح قانون قرار دے کر کی جاتی ہے، اسے اپنی ذات کے اعتبار سے واجب الاتباع قرار نہیں دیا جا تا بلکہ اس کی بیان کردہ تشریحات پر اعتماد کر کے قرآن وسنت کی پیروی کی جاتی ہے۔*

*"·•●✿_پیچھے ہم تفصیل کے ساتھ عرض کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک : (1)_دین کے بنیادی عقائد میں تقلید نہیں ہوتی۔*
*"_(2)_ جو احکام شریعت تواتر و بداہت سے ثابت ہیں ان میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی۔*
*"_(3)_ قرآن وسنت کی جو نصوص قطعی الدلالہ ہیں، اور جن کا کوئی معارض موجود نہیں ان میں کسی امام کی تقلید کی ضرورت نہیں۔*

*·•●✿_(4)_ تقلید صرف اس غرض کے لئے کی جاتی ہے کہ قرآن وسنت سے اگر مختلف باتوں کا اثبات ممکن ہو تو کسی ایک معنی کو معین کرنے کے لئے اپنے ذہن کے بجائے کسی مجتہد کی فہم پر اعتماد کیا جائے۔* *"_(5)_ ایک متجر عالم اگر مجتہد کے کسی قول کو کسی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف پائے اور اسکا کوئی معارض موجود نہ ہو تو اس کے لئے ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر متبحر عالم کی تقلید کے عنوان کے تحت گزر چکا ہے، مجتہد کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔*

*"·•●✿_ اگر یہ طرز عمل بھی شرک ہے اور اس پر بھی علماء کو اپنا خدا بنانے کی وعید چسپاں ہو سکتی ہے تو پھر دنیا میں کونسا کام ایسے شرک سے خالی ہو سکتا ہے۔ جو حضرات تقلید کے مخالف ہیں عملاً وہ خود کسی نہ کسی مرحلہ پر کسی نہ کسی حیثیت سے تقلید ضرور کرتے ہیں،*                  

*"·•●✿_ ظاہر ہے کہ غیر مقلد حضرات میں سے ہر فرد ماں کے پیٹ سے مجتہد بن کر پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہر شخص عالم ہوتا ہے، اور اگر عالم بھی ہو تو ہر عالم کو ہر مسئلے میں ہر وقت کتاب وسنت کے پورے ذخیرے کی طرف رجوع کرنے کا موقع نہیں ہوتا،*.

*"·•●✿__ چناچہ ان حضرات میں سے جو عالم نہیں ہوتے وہ علماء اہل حدیث سے مسئلہ پوچھ کر ان کی تقلید کرتے ہیں، اس مقصد کے لئے غیر مقلد علماء کے فتاویٰ کے مجموعے شائع شدہ موجود ہیں، جن میں اول تو ہر جگہ دلیل بیان کرنے کا التزام نہیں، اور اگر ہو بھی تو ایک عام آدمی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ جو دلیل انہوں نے بیان کی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ لہذاوہ تو ان کے علم وفہم پر اعتماد کر کے ہی عمل کرتا ہے، اور اسی کا نام تقلید ہے ،*

*"·•●✿__ رہے وہ حضرات جو با قاعدہ قرآن وسنت کے عالم ہوتے ہیں وہ انصاف سے غور فرمائیں کہ کیا وہ ہر نئے پیش آنے والے مسئلہ میں تفسیر و حدیث کے تمام ذخیرے کھنگال کر کوئی مسئلہ مستنبط کرتے ہیں؟ اگر انصاف اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو اس سوال کا جواب کلیہ نفی ہے، اس کے بجائے یہ حضرات بھی علماء متقدمین کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں،*

*"·•●✿__ فرق یہ ہے کہ حضرات یا شافعی مسلک کی کتابوں کے بجائے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن حزم، علامہ ابن القیم، اور قاضی شوکانی جیسے حضرات کی کتا بیں دیکھتے ہیں اور ہر مسئلے میں انکی بیان کی ہوئی تحقیق کو اپنی ذاتی تحقیق سے جانچنے کا موقع نہیں پاتے، بلکہ اس اعتماد پر ان کے قول اختیار کر لیتے ہیں کہ یہ حضرات قرآن وسنت کے اچھے عالم ہیں، اور ان کے اقوال عموماً قرآن وسنت سے متعارض نہیں ہوتے ۔*               

*"·•●✿_ اور اگر بالفرض کسی خاص مسئلے میں ان حضرات کو قرآن و حدیث کے اصل ذخیرے کی تحقیق و تفتیش کا موقع بھی مل جائے تو کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے کیلئے ان کے پاس ذاتی تحقیق کا کوئی ذریعہ اس کے سوا نہیں ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل کیا اقوال کو تقلید اور صرف تقلید اختیار کریں، یہ حضرات رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ایک حدیث کو بعض اوقات ضعیف کہہ کر رد فرما دیتے ہیں، اگر پوچھا جائے کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی کیا دلیل ہے؟*

*"•●✿_ تو اس کا جواب ان حضرات کے پاس بجز اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ اسے فلاں محدث نے ضعیف قرار دیا ہے، یا اس کے فلاں راوی پر فلاں امام نے جرح کی ہے، اور جرح و تعدیل کی کتابوں سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ان کتابوں میں ہمیشہ جرح و تعدیل کے تفصیلی دلائل مذکور نہیں ہوتے، بلکہ بالآخر ائمہ فن کی تحقیق پر ہی اعتماد کرنا ہوتا ہے،*
*"_ بلکہ بعض اوقات ایک صحیح حدیث کے مقابل دوسری حدیث بھی صحیح سند سے مروی ہوتی ہے لیکن یہ حضرات دوسری حدیث کو محض اس بناء پر رد کر دیتے ہیں کہ فلاں محدث نے اسے مرجوح یا معلول قرار دیا ہے، یہ سارا طرز عمل تقلید نہیں تو اور کیا ہے ؟*

*"•●✿_ اگر کوئی شخص اس پر ( سورہ توبہ -31 ) آیت چسپاں کرنے لگے تو غیر مقلد حضرات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو گا کہ ان ائمہ فن کی اطاعت ان کو مستقلاً واجب الاطاعت سمجھ کر نہیں کی جارہی ہے، بلکہ ماہر فن کی حیثیت سے ان کی تحقیق پر اعتماد کر کے کی جارہی ہے۔*

*"•●✿_ حقیقت یہ ہے کہ ماہر فن کی تقلید سے زندگی کا کوئی گوشہ خالی نہیں ہے اور اگر اس کو مطلقاً شجر ممنوعہ قرار دے دیا جائے تو دین کا کوئی کام نہیں چل سکتا۔*
*®_[ تقلید کی شرعی حیثیت ، ص ۱۱۷]* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(48)_کیا تقلید کرنا کوئی عیب هے ؟*

*"●✿_ مختلف روایات کے ذریعے یہ ثابت ہے کہ تقلید کا رواج عہد صحابہ میں بھی تھا اور جو صحابہ بذات خود اجتہاد نہ فرما سکتے تھے، وہ فقہاء صحابہ سے رجوع فرماتے تھے، اس پر بعض حضرات نے یہ اعتراض فرمایا ہے کہ تقلید تو ایک عیب ہے جو کم علمی سے پیدا ہوتا ہے، لہذا صحابہ سے تقلید ثابت کرنا ( نعوذ باللہ ) ان پر ایک عیب لگانا ہے، اور یہ کونسا مقدس تحفہ ہے جسے آپ صحابہ کیلئے ثابت فرما رہے ہیں؟*

*"●✿_ لیکن یہ اعتراض در حقیقت محض جذباتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ کسی شخص کا فقیہ یا مجتہد نہ ہونا کوئی عیب نہیں، اور نہ آدمی کی بڑائی اور افضلیت کیلئے اس کا فقیہ اور مجتہد ہونا ضروری ہے، کسی شخص کے زیادہ قابل اکرام و احترام ہونے کا اصل معیار تقویٰ ہے، محض علم و تفقہ نہیں، لہذا اگر ایک شخص تقویٰ کی شرائط پر کھرا ثابت ہوتا ہے تو اس میں دینی اعتبار سے شمہ برابر کوئی عیب نہیں، خواہ اس میں فقہ واجتہاد کی ایک شرط بھی نہ پائی جاتی ہو۔*

*"●✿_ اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ صحابہ کرام کے اس مقام پر جو دینی فضیلت کا حقیقی مقام ہے.‌ سب کے سب بلا استثناء فائز ہیں، اور اسی لئے ان کو بالکل بجا طور پر خیر الخلائق بعد الانبیاء ( انبیاء کے بعد تمام مخلوقات میں افضل ترین) قرار دیا گیا ہے، لیکن جہاں تک علم وفقہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ صحابہ سب کے سب فقہاء تھے، قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے،*

*"●✿_ قرآن کریم کا ارشاد ہے:- فَلَوۡلَا نَفَرَ مِنۡ كُلِّ فِرۡقَةٍ مِّنۡهُمۡ طَآئِفَةٌ لِّيَـتَفَقَّهُوۡا فِى الدِّيۡنِ وَ لِيُنۡذِرُوۡا قَوۡمَهُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَيۡهِمۡ لَعَلَّهُمۡ يَحۡذَرُوۡنَ ۞ (سورۃ التوبة, آیت نمبر 122)*
 *"_ پس کیوں نہ نکل پڑا ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ تا کہ یہ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں، اور تا کہ لوٹنے کے بعد اپنی قوم کو ہو شیار کریں ، شاید کہ وہ لوگ (اللہ کی نافرمانی سے ) بچیں۔*

*"●✿_ اس آیت میں صحابہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کی ایک جماعت جہاد میں مشغول ہو اور دوسری جماعت تفقہ حاصل کرنے میں، یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ بعض صحابہ خود اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تفقہ حاصل کرنے کے بجائے جہاد اور دوسری اسلامی خدمات میں مصروف ہوئے، لہٰذا صحابہ میں فقیہ اور غیر فقیہ کی‌تفریق تو خود اللہ تعالی نے فرمائی ہے، اور منشائے خداوندی کے عین مطابق ہے، اس کو عیب سمجھنے سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہئے ۔*                  

*"●✿_ اس طرح پیچھے سورہ نساء کی آیت -83 ( لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ ) کی تفسیر گزر چکی ہے چکی جس سے صاف واضح ہے کہ صحابہ کرام میں سے کچھ حضرات کو قرآن کریم نے اہل استنباط قرار دیا اور کچھ کو یہ حکم دیا کہ ایسے معاملات میں ان اہل استنباط کی طرف رجوع کریں، صحابہ کرام میں اہل استنباط اور غیر اہل استنباط کی تفریق بھی خود قرآن کریم نے فرمائی ہے۔*

*"●✿_نیز سرکار دو عالم ﷺ کا یہ ارشاد مشہور و معروف ہے کہ : اللہ تعالیٰ اس بندے کو شاداب کرے، جس نے میری بات سنی، اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا اور دوسروں تک اس کو پہنچایا اس لئے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کسی فقہ کی بات کو اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں مگر خود فقیہ نہیں ہوتے اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو فقیہ کی بات اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے سے زیادہ فقیہ تک اس کو پہنچا دیتے ہیں۔*

*"●✿_اس ارشاد کے بلاواسطہ مخاطب صحابہ کرام ہی ہیں، اور اس ارشاد نے دو باتیں واضح فرمادیں، ایک تو یہ کہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی راوی حدیث فقیہ نہ ہو، دوسری یہ کہ فقیہ نہ ہونا اس کے حق میں (معاذ اللہ ) کوئی عیب نہیں، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اسے شادابی کی دعا دی ہے۔*

*●✿_چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صحبت کی نعمت بے بہا سے مختلف قسم کے حضرات سرفراز ہوتے ہیں، ان میں حضرت ابو بکر و عمر جیسے حضرات بھی تھے، اور حضرات اقرع بن حابس اور حضرت سلمہ بن صخرہ رضی اللہ عنہم جیسے پاک نفس اور سادہ لوح اعراب بھی تھے، جہاں تک ان سادہ لوح اعرا بہ صحابہ کے شرف صحابیت تقویٰ وطہارت اور فضیلت کا تعلق ہے اس اعتبار سے بلاشبہ ان پر بعد کے ہزار اہل علم و فضل قربان ہیں، اور کوئی کتنا بڑا مجتہد ہو جائے، ان کے مقام بلند کو چھو بھی نہیں سکتا،*

*"●✿_ لیکن جہاں تک ان حضرات کو علم وفقیہ کے اعتبار سے حضرت ابوبکر وعمر، حضرت علی و ابن مسعود اور دوسرے فقہاء صحابہ کرام کی صف میں شامل کرنے کا تعلق ہے، یہ کھلی ہوئی بداہت کا انکار ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام میں جن حضرات کے فتاوی امت میں محفوظ رہے ہیں، ان کی تعداد علامہ ابن قیم کے بیان کے مطابق کل ایک سو تیس سے کچھ اوپر ہے۔ اور یہ خیال تو بالکل غلط اور صحابہ کرام کے مزاج سے انتہائی بعید ہے کہ ان حضرات کا کسی کی تقلید کرنا یا کسی سے استفتاء ( معاذ اللہ ) ان کی شان میں کسی طرح عیب ہے، یہ تو وہ حضرات ہیں جنہوں نے دین کے معاملے میں کسی سے استفادے کو ادنی عیب نہیں سمجھا،*

*"●✿_ صحابہ کرام کی بے نفسی اور خدا ترسی کا عالم تو یہ تھا کہ ان میں سے بعض حضرات تو تابعین نے علم حاصل کرنے اور ان سے مسائل پوچھنے میں ادنیٰ تامل نہیں کرتے تھے، مثلاً حضرت علقمہ بن قیس حضرت ان مسعود کے شاگرد ہیں اور خود تابعی ہیں لیکن بہت سے صحابہ کرام علم وفقہ کے معاملات میں ان کی طرف رجوع فرماتے تھے۔*

*®_[ تقلید کی شرعی حیثیت ،ص ۱۳۵]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(49)_علماء کی لغزش کسی کے لیے حجت نہیں، فلاں عالم بھی تو یہ کام کرتے ہیں، سے استدلال کرنا :-*

*"●✿_ حضرت عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ عالم کی لغزش سے بچو اور اس سے قطع تعلق مت کرو، اور اس کے لوٹ آنے کا انتظار کرو۔ عالم سے مراد وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی نے دین کا علم، قرآن کریم کا علم، حدیث کا علم، فقہ کاعلم عطا فر مایا ہو، آپ کو یقین سے یہ معلوم ہے کہ فلاں کام گناہ ہے اور تم یہ دیکھ ر ہے کہ ایک عالم اس گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے، اور اس غلطی کے اندر مبتلا ہے، پہلا کام تو تم یہ کرو کہ یہ ہرگز مت سوچو کہ جب اتنا بڑا عالم یہ گناہ کا کام کر رہا ہے تو لاؤ میں بھی کرلوں، بلکہ تم اس عالم کی اس غلطی اور اس گناہ سے بچو اور اس کو دیکھ کر تم اس گناہ کے اندر مبتلا نہ ہو جاؤ۔*

*"●✿_ اس حدیث کے پہلے جملے میں ان لوگوں کی اصلاح فرمادی جن لوگوں کو جب کسی گناہ سے روکا جاتا ہے اور منع کیا جاتا ہے کہ فلاں کام ناجائز اور گناہ ہے، یہ کام مت کرو، تو وہ لوگ بات ماننے اور سننے کے بجائے فوراً مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں عالم بھی تو یہ کام کرتے ہیں، حضور اقدس ﷺ نے پہلے قدم پر ہی اس استدلال کی جڑ کاٹ دی کہ تمہیں اس عالم کی غلطی کی پیروی نہیں کرنی ہے، بلکہ تمہیں اس کی صرف اچھائی کی پیروی کرنی ہے ، وہ اگر گناہ کا کام یا کوئی غلط کام کر رہا ہے تو تمہارے دل میں یہ جرأت پیدا نہ ہو کہ جب وہ عالم یہ کام کر رہا ہے تو ہم بھی کریں گے۔*

*"●✿_ اس وجہ سے علما کرام نے فرمایا ہے کہ وہ عالم جو سچا اور صحیح معنی میں عالم ہو، اس کا فتویٰ تو معتبر ہے، اس کا زبان سے بتایا ہوا مسئلہ تو معتبر ہے، اس کا عمل معتبر ہونا ضروری نہیں، اگر وہ کوئی غلط کام کر رہا ہے تو اس سے پوچھو کہ یہ کام جائز ہے یا نہیں؟ وہ عالم یہی جواب دے گا کہ یہ عمل جائز نہیں، اس لیے تو اس کے بتائے ہوئے مسئلے کی اتباع کرو، اس کے عمل کی اتباع مت کرو،*

*"●✿_ لہذا یہ کہنا کہ فلاں کام جب اتنے بڑے بڑے علماء کر رہے ہیں تو لاؤ میں بھی یہ کام کرلوں، یہ استدلال درست نہیں، اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ اتنے بڑے بڑے لوگ آگ میں کود رہے ہیں، لاؤ میں بھی آگ میں کو دجاؤں، جیسے یہ طرز استدلال غلط ہے، اسی طرح وہ طرز استدلال بھی غلط ہے، اس لیے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ عالم کی لغزش سے بچو، یعنی اس کی لغزش کی اتباع مت کرو۔*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(50)_علماء فرشتہ نهیں ہماری طرح کے انسان ہی ہیں:-*

*"•●✿ _ عالم سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے، بعض لوگ دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ جب وہ کسی عالم کو کسی غلطی میں یا گناہ میں مبتلا دیکھتے ہیں تو بس فورا اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور اس سے بدگمان ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، اور بعض اوقات اس کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ مولوی تو ایسے ہی ہوتے ہیں، اور پھر تمام علماء کرام کی توہین شروع کر دیتے ہیں کہ آج کل کے علماء تو ایسے ہی ہوتے ہیں،*

*"•●✿ _ اسی حدیث کے ( جو پچھلے پارٹ میں گزری) دوسرے جملے میں حضور اقدس ﷺ نے اس کی بھی تردید فرمادی کہ اگر کوئی عالم گناہ کا کام کر رہا ہے تو اس کی وجہ سے اس سے قطع تعلق بھی مت کرو، کیوں؟ اس لیے کہ عالم بھی تمہاری طرح کا انسان ہے، جو گوشت پوست تمہارے پاس ہے وہ اس کے پاس بھی ہے، وہ کوئی آسمان سے اترا ہوا فرشتہ نہیں ہے، جو جذبات تمہارے دل میں پیدا ہوتے ہیں، وہ جذبات اس کے دل میں بھی پیدا ہوتے ہیں، نفس تمہارے پاس بھی ہے، اس کے پاس بھی ہے، شیطان تمہارے پیچھے بھی لگا ہوا ہے، اس کے پیچھے بھی لگا ہوا ہے، نہ وہ گناہوں سے معصوم ہے، نہ وہ پیغمبر ہے اور نہ وہ فرشتہ ہے،*

*"•●✿ _ بلکہ وہ بھی اس دنیا کا باشندہ ہے، اور جن حالات سے تم گذرتے ہو وہ بھی ان حالات سے گذرتا ہے، لہذا یہ تم نے کہاں سے سمجھ لیا کہ وہ گناہوں سے معصوم ہے اور اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوگا اور اس سے کبھی غلطی نہیں ہوگی، اس لیے کہ جب وہ انسان ہے تو بشری تقاضے سے کبھی اس سے غلطی بھی ہوگی ،کبھی وہ گناہ بھی کرے گا، لہٰذا اس کے گناہ کرنے کی وجہ سے فوراً اس عالم سے برگشتہ ہو جانا اور اس کی طرف سے بدگمان ہو جانا صحیح نہیں،اس لیے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ فوراً اس سے قتلع تعلق مت کرو، بلکہ اس کے واپس آنے کا انتظار کرو، اس لیے کہ اس کے پاس صحیح علم موجود ہے، امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ کسی وقت لوٹ آئے گا۔*

*"•●✿ _ لہٰذا یہ پروپیگینڈہ کرنا اور علما کو بدنام کرتے پھر نا کہ ارے میاں ! آج کل کے مولوی سب ایسے ہی ہوتے ہیں، آج کل کے علما کا تو یہ حال ہے ، یہ بھی موجودہ دور کا ایک فیشن بن گیا ہے، جو لوگ بے دین ہیں، ان کا تو یہ طرز عمل ہے ہی، اس لیے کہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ جب تک مولوی اور علما کو بد نام نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم اس قوم کو گمراہ نہیں کر سکتے، جب علما سے اس کا رشتہ توڑ دیں گے تو پھر یہ لوگ ہمارے رحم و کرم پر ہوں گے ، ہم جس طرح چاہیں گے ان کو گمراہ کرتے پھریں گے، لیکن جو لوگ دین دار ہیں ان کا بھی یہ فیشن بنتا جارہا ہے کہ وہ بھی عالم کی توہین اور ان کی بے وقعتی کرتے پھرتے ہیں کہ ارے صاحب ! علما کا تو یہ حال ہے، ان لوگوں کی مجلسیں ان باتوں سے بھری ہوتی ہیں، حالانکہ ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں، سوائے اس کے کہ جب لوگوں کو علما سے بدظن کر دیا تو اب تمہیں شریعت کے احکام کون بتائے گا؟ اب تو شیطان ہی تمہیں شریعت کے مسائل بتائے گا کہ یہ حلال ہے، یہ حرام ہے، پھر تم اس کے پیچھے چلو گے اور گمراہ ہو جاؤ گے،*

*•●✿ "_ لہذا علماء اگر چہ بے عمل نظر آئیں، پھر بھی ان کی اس طرح تو ہین مت کیا کرو، بلکہ ان کے لیے دعا کرو، جب تم اس کے حق میں دعا کرو گے تو علم جو اس کے پاس موجود ہے، تمہاری دعا کی برکت سے ان شاء اللہ ایک دن وہ ضرور صحیح راستے پر لوٹ آئے گا۔*

*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۸، ص ۲۴۹ تا ۲۵۴)*              
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(51)_کیا علماء دین کے ٹھیکیدار میں ؟*

*•●✿ __آج کل لوگ علما کرام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ علماء تو دین کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، جس کو چاہا کافر بنا دیا اور جس کو چاہا مسلمان بنا دیا، کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دیا، کسی پر فاسق ہونے کا فتویٰ لگا دیا، کسی پر بدعتی ہونے کا فتویٰ لگا دیا، ان کی ساری عمر اسی کام میں گذرتی ہے کہ دوسروں کو کافر بناتے رہتے ہیں،*

*"•●✿_ اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحبان اور فقہاء کو دین کا پاسبان بنایا ہے، ان کا فرض ہے کہ جو بات حق ہے وہ بتا دیں، علماء حضرات دین کے ٹھیکیدار تو نہیں ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دین کا چوکیدار ضرور بنایا ہے، اور چوکیدار کا کام یہ ہے کہ شناخت کے بغیر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ دے حتیٰ کہ اگر وزیر اعظم بھی آجائے گا تو اس کو بھی روک لے گا کہ پہلے شناختی کارڈ دکھاؤ اور اپنی شناخت کراؤ کہ آپ وزیر اعظم ہیں، اسی طرح علماء کرام بھی دین کے چوکیدار ہیں،*

 *"•●✿_ علماء کرام عام لوگوں کو کا فر بناتے نہیں ہیں، بلکہ کافر بتاتے ہیں، جب کسی شخص نے کفر کا ارتکاب کر لیا تو اصل میں تو خود اس شخص نے کفر کا ارتکاب کیا ، اس کے بعد علماء کرام یہ بتاتے ہیں کہ تمہارا یہ عمل کفر ہے، جس طرح آئینہ تمہیں بتاتا ہے کہ تمہارے چہرے پر دھبہ لگا ہوا ہے وہ آئینہ بناتا نہیں اور نہ داغ دھبہ لگاتا ہے، اس طرح علما کرام بھی یہ بتاتے ہی کہ تم نے جو عمل کیا ہے وہ کفر کا عمل ہے، یا فسق کا عمل ہے، یا بدعت کا عمل ہے،*

*"•●✿_ لہٰذا جس طرح آئینہ کو برا بھلا نہیں کہا جاتا اور نہ آئینہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آئینہ نے میرے چہرے پر داغ لگا دیا، بالکل اسی طرح علما پر بھی یہ الزام نہیں لگانا چاہیے کہ انہوں نے کافر یا فاسق بنا دیا، اور ان پر ناراضگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کا احسان ماننا چاہیے کہ انہوں نے ہمارا عیب بتا دیا، اب ہم اس کی اصلاح کریں گے۔*

*"•●✿_البتہ بتانے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں، کسی نے آپ کے عیب اور آپ کی خرابی کو اچھے طریقے سے بتادیا، اور کسی نے بے ڈھنگے طریقے سے بتادیا لیکن اگر کسی نے آپ کی برائیاں ایسے طریقے سے آپ کو بتا ئیں جو طریقہ مناسب نہیں تھا تب بھی اس نے تمہاری ایک بیماری پر تمہیں مطلع کیا, اس لیے تمہیں اس کا احسان ماننا چاہیے، عربی کے ایک شعر کا مفہوم یہ ہے کہ میر ا سب سے بڑا محسن وہ ہے جو میرے پاس میرے عیوب کا ہدیہ پیش کرے ، جو مجھے بتائے کہ میرے اندر کیا عیب ہے،*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۸، ص ۲۹۹ ۳۰۱)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ ( 52) علماء اور دینی مدارس کے بارے میں اعتراضات -,*

*"●✿_ آج کی فضا میں طرح طرح کے پروپیگنڈے، طرح طرح کے اعتراضات علماء اور دینی مدارس پر کیے جارہے ہیں، اعتراضات اور طعنوں کا ایک سیلاب ہے جو ان مدارس کی طرف بہایا جارہا ہے، یہ اعتراضات کچھ تو ان لوگوں کی طرف سے ہیں جو دین کے دشمن، اسلام کے دشمن اور اس زمین پر اللہ کے کلمہ کے غلبہ کے دشمن ہیں، وہ ان مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں،*

*"●✿_ لیکن بعض اوقات اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دین سے تعلق رکھنے والے بھی اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں، دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان دینی مدارس کے بارے میں طرح طرح کے خیالات ان کے دلوں میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ حضرت مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ بعض اوقات ہنسی میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ مولوی ملامتی فرقہ ہے، یعنی جب کہیں دنیا میں کوئی خرابی ہوگی تو لوگ اس کو مولوی کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مولوی کوئی بھی کام کرے، اس میں کوئی نہ کوئی اعتراض کا پہلو ضرور نکال لیتے ہیں،*

 *"●✿_خوب سمجھ لیں کہ اسلام کے دشمن اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اس روئے زمین کے اوپر جو بقہ الحمد للہ اسلام کے لیے ڈھال بنا ہوا ہے وہ یہی بوریہ نشینوں کی جماعت ہے، انہیں بور یہ پر بیٹھنے والوں نے الحمد للہ اسلام کے لیے ڈھال کا کام کیا ہے،*
 *®_[ اصلاحی خطبات ، ج ۷، ص ۸۹ ]*

*●✿_ غرض مدارس کے بارے میں طرح طرح کے پروپیگنڈے پھیلائے جارہے ہیں کہ یہ چودہ سو سال پرانے لوگ ہیں، دقیا نوسی لوگ ہیں، یہ رجعت پسند لوگ ہیں ، ان کو دنیا کے حالات کی خبر نہیں ہے، ان کو اس دنیا میں رہنے کا سلیقہ نہیں ہے، ان کے پاس دنیاوی علوم و فنون نہیں ہیں، یہ امت مسلمہ کا پہیہ الٹا چلانے کی کوشش میں ہیں،*

*"●✿_ یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے کہ دینی مدارس دہشت گرد بن گئے ہیں، یہ ترقی کے دشمن ہیں، دہشت گردی کا طعنہ ان کے اوپر، بنیاد پرستی کا بھی طعنہ ان کے اوپر, رجعت پسندی کا بھی طعنہ ان کے اوپر, تنگ نظری کا بھی طعنہ ان کے اوپر, ترقی کے دشمن ہونے کا طعنہ بھی ان کے اوپر، ساری دنیا کے طعنوں کی بارش اس بے چارے مولوی کے اوپر ہے۔*

 *"●✿_اللہ تعالی حقیقت بین نگاہ عطا کرے، تو یہ طعنے ایک داعی حق کے گلے کا زیور ہیں، اس کے سر کا تاج ہیں، یہ وہ طعنے ہیں جو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے بھی سنے اور انبیاء کرام کے وارثوں نے بھی سنے اور قیامت تک یہ طعنے دیے جاتے رہیں گے، اللہ تعالی اپنے سیدھے راستہ پر رکھے, اخلاص عطا فرمائے ، اپنی رضا جوئی کی فکر عطا فرمائے ، آمین۔*

*"●✿_آج ہمارے ماحول کے اندر بار بار یہ آوزیں اٹھتی ہیں کہ ان دینی مدارس کو بند کر دیا جائے، ان کو ختم کر دیا جائے، کبھی کوئی یہ کہہ دیتا ہے کہ مولویوں کے کھانے کمانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے، لہذا ان کو کوئی ہنر سکھانا چاہیے تا کہ یہ اپنی روٹی کما سکیں،*

*"●✿_ حضرت مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کے لیے اس مولوی کی روٹی کی فکر چھوڑ دو، یہ اپنی روٹی خود کھا کمالے گا، اس کی فکر چھوڑ دو ، مجھے کچھ مثالیں ایسی دے دو کہ کسی مولوی نے فقر و فاقہ کی وجہ سے خود کشی کی ہے، بہت سے پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری رکھنے والوں کی مثالیں میں دے دیتا ہوں، جنہوں نے خود کشی کی اور حالات سے تنگ آکر اپنے آپ کو ختم کر ڈالا ، اور بہت سے ایسے ملیں گے جو ان ڈگریوں کو لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں لیکن نوکری نہیں ملتی م، لیکن ایک مولوی ایسا نہیں بتا سکتے جس نےحالات سے تنگ آکر خود کشی کی ہو یا اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہو کہ وہ بے کار بیٹھا ہوا ہے،*

*"●✿_ اللہ تبارک و تعالی اپنی رحمت سے مولوی کا بھی انتظام کر دیتے ہیں، دوسروں سے بہت اچھا انتظام فرماتے ہیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ خالق کائنات کتوں کو روزی دیتا ہے، گدھوں کو دیتا ہے، خنزیروں کو دیتا ہے، وہ اپنے دین کے حاملوں کو کیوں نہیں دے گا ، اس لیے تم ان کی فکر چھوڑ دو۔*
*®_[ اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۹۵ ]"*                  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (53)_ کیا دیو بندیت کسی فرقے کا نام ہے اور کیا انکا عقیده و مسلک قرآن وحدیث اور جمہور امت سے الگ ہے ؟*

*●✿__ علمائے دیوبند کے مسلک کی تشریح و توضیح کے لیے اصلا کسی الگ کتاب کی تالیف کی چنداں ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ علمائے دیوبند کوئی ایسا فرقہ یا جماعت نہیں ہیں جس نے جمہور امت سے ہٹ کر فکر و عمل کی کوئی الگ راہ نکالی ہو، بلکہ اسلام کی تشریح تعبیر کے لیے چودہ سوسال میں جمہور علماء امت کا جو مسلک رہا ہے وہی علمائے دیوبند کا مسلک ہے،*

*●✿__ دین اور اس کی تعلیمات کا بنیادی سرچشمہ قرآن وسنت ہیں اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات اپنی جامع شکل وصورت میں علمائے دیوبند کے مسلک کی بنیاد ہیں۔ اہل سنت والجماعت کے عقائد کی کوئی بھی مستند کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے اس میں جو کچھ لکھا ہو گا وہی علمائے دیوبند کے عقائد ہیں، حنفی فقہ اور اصول فقہ کی کسی بھی مستند کتاب کا مطالعہ کر لیجیے اس میں جو فقہی مسائل واصول درج ہوں گے، وہی علمائے دیوبند کا فقہی مسلک ہیں،*.

*●✿__ اخلاق و احسان کی کسی بھی مستند اور مسلم کتاب کی مراجعت کر لیجیے وہی تصوف اور تزکیہ اخلاق کے باب میں علمائے دیوبند کا ماخذ ہے، انبیاء کرام اور صحابہ کرام و تابعین سے لے کر اولیاء امت اور بزرگان دین تک جن جن شخصیتوں کی جلالت شان اور علمی و عملی قدر و منزلت پر جمہور امت کا اتفاق رہا ہے وہی شخصیتیں علمائے دیوبند کے لیے مثالی اور قابل تقلید شخصیتیں ہیں۔*

*●✿__ غرض دین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں علمائے دیوبند اسلام کی معروف و متوارث تعبیر اور اس کے ٹھیٹھ مزاج و مذاق سے سر مواختلاف رکھتے ہوں، اس لیے ان کے مسلک کی تشریح و توضیح کے لیے کسی الگ کتاب کی چنداں ضرورت نہیں، ان کا مسلک معلوم کرنا ہو تو وہ تفصیل کے ساتھ تفسیر قرآن کی مستند کتابوں، مسلم شروح حدیث، فقہ حنفی، عقائد و کلام اور تصوف و اخلاق کی ان کتابوں میں درج ہے جو جمہور علماء امت کے نزدیک مستند اور معتبر ہیں۔*           

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ (54) _ علماء دیوبند پر شخصیت پرستی اور اسلاف کو معبود بنائے رکھنے کا الزام و پروپیگنڈہ _,*

*"●✿_ مثلاً علماء دیو بند کا اعتدال یہ ہے کہ وہ قرآن و سنت پر ایمان کامل کے علاوہ سلف صالحین پر اعتماد اور ان کی پیروی کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں، ان کے نزدیک قرآن وسنت کی تشریح و تعبیر میں سلف صالحین کے بیانات اور ان کے تعامل کو مرکزی اہمیت بھی حاصل ہے اور وہ ان کے ساتھ عقیدت و محبت کو بھی اپنے مسلک و مشرب کا اہم حصہ قرار دیتے ہیں، لیکن دوسری طرف اس عقیدت و محبت کو عبادت اور شخصیت پرستی کی حد تک بھی نہیں پہنچنے دیتے، بلکہ فرق مراتب کا اصول ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتا ہے۔*

*"●✿_ اب جو حضرات قرآن وسنت پر ایمان اور عمل کے تو مدعی ہیں لیکن ان کی تشریح و تعبیر میں سلف صالحین کو کوئی مرکزی مقام دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ خود اپنی عقل و فکر کو قرآن وسنت کی تعبیر کے لیے کافی سمجھتے ہیں، وہ حضرات علماء دیوبند پر شخصیت پرستی کا الزام عائد کرتے ہیں اور یہ پرو پیگنڈہ کرتے ہیں کہ انہوں نے (معاذ اللہ ) اپنے اسلاف کو معبود بنا رکھا ہے۔*

*"●✿_ اور دوسری طرف جو حضرات اسلاف کی محبت و عقیدت کو واقعہ شخصیت پرستی کی حد تک لے گئے ہیں، وہ حضرات علمائے دیوبند پر یہ تہمت لگاتے رہے ہیں کہ ان کے دلوں میں اسلاف کی محبت و عظمت نہیں ہے، یا وہ اسلام کی ان مقتدر شخصیتوں کے بارے میں (معاذ اللہ ) گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔*

*"●✿_ان دونوں قسم کے متضاد پروپیگینڈے کے نتیجے میں ایک ایسا شخص جو حقیقت حال سے پوری طرح باخبر نہ ہو، علمائے دیوبند کے مسلک و مشرب کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہوسکتا ہے،*

*"●✿_ اسلام اعتدال کا دین ہے، قرآن کریم نے امت مسلمہ کو ”أمة وسطا “ کہہ کر اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ اس امت کی ایک بنیادی خصوصیت توسط اور اعتدال ہے، اور علمائے دیوبند چونکہ اس دین کے حامل ہیں اس لیے ان کے مسلک و مشرب اور مزاج و مذاق میں طبعی طور پر یہی اعتدال پوری طرح سرایت کیے ہوئے ہے، ان کی راہ افراط اور تفریط کے درمیان سے اس طرح گذرتی ہے کہ ان کا دامن ان دو انتہائی سروں میں سے کسی سے بھی نہیں الجھتا،*

*"●✿_ اور یہ اعتدال کی خاصیت ہے کہ افراط اور تفریط دونوں ہی اس سے شاکی رہتے ہیں، افراط اس پر تفریط کا الزام عائد کرتا ہے اور تفریط اس پر افراط کی تہمت لگاتی ہے۔ اس وجہ سے علماء دیوبند کے خلاف بھی انتہا پسندانہ نظریات کی طرف سے متضاد قسم کا پرو پیگنڈہ کیا گیا ہے،*

*®_ (مقدمہ علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج میں ٧ تا ۱۰)*  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (55)_ پیٹھ پیچھے برائی چاه صحيح هو یا غلط ہر حال میں غیبت ہے_,*

*●✿__ غیبت کا کیا معنی ہے؟ غیبت کے معنی ہیں دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرنا، چاہے وہ برائی صحیح ہو، وہ اس کے اندر پائی جارہی ہو ، غلط نہ ہو، پھر بھی اگر بیان کرو گے تو وہ غیبت میں شمار ہوگا،*

*●✿__ حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے حضور اقدس ﷺ سے سوال کیا، یارسول اللہ غیبت کیا ہوتی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: ذكرك أخاك بما يكره یعنی اپنے بھائی کا اس کے پیٹھ پیچھے ایسے انداز میں ذکر کرنا جس کو وہ نا پسند کرتا ہو، یعنی اگر اس کو پتہ چلے کہ میرا ذکر اس طرح اس مجلس میں کیا گیا تھا، تو اس کو تکلیف ہو، اور وہ اس کو برا سمجھے تو یہ غیبت ہے،*

*●✿_ _ ان صحابی نے پھر سوال کیا کہ: (إن كا فى أخى ما أقول) اگر میرے بھائی کے اندر وہ خرابی واقعہ موجود ہے جو میں بیان کر رہا ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اگر وہ خرابی واقعہ موجود ہے تب تو یہ غیبت ہے، اور اگر وہ خرابی اس کے اندر موجود نہیں ہے اور تم اس کی طرف جھوٹی نسبت کر رہے ہو تو پھر یہ غیبت نہیں، پھر تو یہ بہتان بن جائے گا اور دوہرا گناہ ہو جائے گا۔ [أبوداود، كتاب الأدب ، باب في الغيبة ]*

*●✿_ _ اب ذرا ہماری محفلوں اور مجلسوں کی طرف نظر ڈال کر دیکھیے کہ کس قدر اس کا رواج ہو چکا ہے اور دن رات اس گناہ کے اندر مبتلا ہیں، بعض لوگ اس کو درست بنانے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ میں غیبت نہیں کر رہا ہوں، میں تو اس کے منہ پر یہ بات کہ سکتا ہوں، یاد رکھو! چاہے تم وہ بات اس کے منہ پر کہہ سکتے ہو، یا نہ کہہ سکتے ہو، وہ ہر حالت میں غیبت ہے، بس اگر تم کسی کا برائی سے ذکر کر رہے ہو تو یہ غیبت کے اندر داخل ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے۔*
*®_[اصلاحی خطبات، ج ۴، ص ۸۲]*

*®_ (مقدمہ علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج میں ٧ تا ۱۰)*  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (56)_ غیبت کا کفارہ یا تلافی کس طرح ہو؟*

*●✿_ بعض روایات میں ہے، جو اگر چہ ہیں تو ضعیف لیکن معنی کے اعتبار سے صحیح ہیں، کہ اگر کسی کی غیبت ہوگئی ہے تو اس غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس کے لیے خوب دعائیں کرو، استغفار کرو، مثلاً فرض کریں کہ آج کسی کو غفلت سے تنبیہ ہوئی کہ واقعہ آج تک ہم بڑی سخت غلطی کے اندر مبتلا رہے، معلوم نہیں کن کن لوگوں کی غیبت کر لی، اب آئندہ ان شاء اللہ کسی کی غیبت نہیں کریں گے لیکن اب تک جن کی غیبت کی ہے، ان کو کہاں کہاں تک یاد کریں اور ان سے کیسے معافی مانگیں ؟ کہاں کہاں جائیں؟ اس لیے اب ان کے لیے دعا اور استغفار کرو۔*
*®_ [ مشكوة ، كتاب الآداب، باب حفظ اللسان ]*

*"●✿_ اگر جس شخص کی آپ نے غیبت کی تھی، اب اس کا انتقال ہو چکا ہے، تو اب اس سے کیسے معافی مانگی جائے ؟ تو اس سے معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے دعا و استغفار کرتے رہو، یہاں تک کہ تمہارا دل گواہی دے دے کہ اب وہ شخص تم سے سے راضی ہو گیا ہو گا۔*

*"●✿_ لہذا حقوق العباد کا معاملہ اگرچہ بڑا سنگین ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے، اس وقت تک معاف نہیں ہوگا اور اگر صاحب حق کا انتقال ہو گیا تو اور زیادہ مشکل ہے لیکن کسی صورت میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کسی بھی حالت میں اللہ تعالی نے مایوسی کا راستہ نہیں رکھا، ابتدا میں تو حقوق العباد کا بہت اہتمام کرو، اور ان کے ضائع ہونے کو سنگین سمجھو، اور کسی اللہ کے بندے کے حق کو پامال نہ کرو،*

*"●✿_ لیکن اگر کسی کا کوئی حق ضائع ہو جائے تو فوراً معاف کرالو اور اگر معاف کرانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو مایوس نہ ہو بلکہ اس کے لیے استغفار کرتے رہو اور اللہ تعالی سے دعا کرتے رہو کہ یا اللہ! اپنے فضل وکرم سے مجھ سے ان بندوں کو راضی کر دیجیے جن کے حقوق میں نے پامال کیے اور یہ دعا کرتے رہو کہ یا اللہ ! ان کے درجات بلند فرمایے، ان کی مغفرت فرمایے، ان کو رضائے کاملہ عطا فرمایے، یہ دعا کرتے رہو ، یہاں تک کہ یہ گمان غالب ہو جائے کہ اب وہ مجھ سے راضی ہو گئے ہوں گے،*
*®_ [ اصلاحی مجالس، ج ۱، ص ۱۸۶ ]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(57)_کیا حجاج بن یوسف کی غیبت کرنا جائز ہے؟*

*●✿__ آج حجاج بن یوسف کو کون مسلمان نہیں جانتا جس نے بے شمار ظلم کیے، کتنے علماء کو شہید کیا، کتنے حافظوں کو قتل کیا حتیٰ کہ اس نے کعبہ شریف پر حملہ کر دیا، یہ سارے برے کام کیے اور جو مسلمان بھی اس کے ان برے افعال کو پڑھتا ہے تو اس کے دل میں اس کی طرف سے کراہیت پیدا ہوتی ہے،*

*●✿__ لیکن ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے حجاج بن یوسف کی برائی شروع کر دی اور اس برائی کے اندر غیبت کی، تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فوراً ٹوکا اور فرمادیا کہ یہ مت سمجھنا کہ اگر حجاج بن یوسف ظالم ہے تو اب اس کی غیبت حلال ہو گئی یا اس پر بہتان باندھنا حلال ہو گیا، یاد رکھو! جب اللہ تعالی قیامت کے دن حجاج بن یوسف سے اس کے ناحق قتل اور ظلم اور خون کا بدلہ لیں گے تو تم اس کی جو غیبت کر رہے ہو یا بہتان باندھ رہے ہو تو اس کا بدلہ اللہ تعالی تم سے لیں گے،*

*●✿__ یہ نہیں کہ جو شخص بدنام ہو گیا تو اس کی بدنامی کے نتیجے میں اس پر جو چاہو الزام عائد کرتے چلے جاؤ، اس پر بہتان باندھتے چلے جاؤ اور اس کی غیبت کرتے چلے جاؤ۔*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۹۱ )* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (58)_ کیا اپنے آپ کو حقیر، فقیر، ناکارہ" کہنا تواضع ہے ؟* 

*"●✿_بعض لوگ تواضع کرتے ہوئے اپنے آپ کو نا کارہ ناچیز کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو نا کارہ ہیں، اکثر و بیشتر یہ سب جھوٹ ہوتا ہے، جھوٹ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کا ناکارہ کہنے کے جواب میں کہہ دیا جائے کہ بیشک آپ واقعی نا کارہ ہیں تو اس وقت اس کے دل پر کیا گزرے گی ؟ دل میں اس کا یہ جواب نا گوار ہوگا،*

*"●✿_ یہ ناگوار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نا کارہ کہ رہا تھا یہ دل سے نہیں کہ رہا تھا بلکہ اپنے آپ کو اس لیے ناکارہ کہہ رہا تھا تا کہ لوگ مجھے متواضع سمجھیں اور لوگ جواب میں مجھے یہ کہیں کہ نہیں حضرت! آپ تو بڑے عالم و فاضل ہیں، آپ کے درجات تو بہت بلند ہیں،*

*"●✿_ دیکھیے ! اس میں کتنے امراض جمع ہو گئے، لہذا یہ الفاظ کہنا کہ میں ناکارہ ہوں، یہ تواضع نہیں ہے بلکہ تواضع کا دکھاوا ہے, چنانچہ ہم لوگ اپنے آپ کو حقیر پر تقصیر، ناکارہ، آوارہ کے جو الفاظ لکھتے ہیں یہ اکثر و بیشتر ان امراض کا مجموعہ ہوتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال سے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ اپنے آپ کو کمتر کہنا تواضع نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو کمتر سجھنا تواضع ہے،*.

*"●✿_ جو شخص حقیقی متواضع ہوگا وہ تکلفانہ یہ الفاظ استعمال نہیں کرے گا اور ایسا شخص چاہے زبان سے اپنے آپ کو نا کارہ اور آوارہ کچھ بھی نہ کہے لیکن دل میں ہر وقت اس کو اپنے عیوب پر نظر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ساری مخلوق سے کمتر سمجھتا ہے۔*
*®_ [ اصلاحی مجالس ، ج ۵، ص ۲۱]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (59)_ بد گمانی کیا ہے اور کیوں حرام ہے ؟*

*●✿__ ایک شخص کے طرز عمل سے اس کے بارے میں آپ کو کچھ شبہ ہوا، اور دل میں وسوسہ آیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے فلاں کام کیا ہوگا، اگر دل میں یہ بات وسوسہ خود بخود آیا اور خود بخود دل میں شبہ پیدا ہوا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ اس میں آپ کے اختیار کو کوئی دخل نہیں۔*

*●✿__ مثلا رمضان کے دن میں آپ نے ایک شخص کو ہوٹل سے نکلتے دیکھا، آپ کے دل میں خیال آئے گا کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے روزہ توڑا ہے، اب یہ جو خیال دل میں خود بخود پیدا ہوا، یہ کوئی گناہ نہیں۔ لیکن دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا، اس پر آپ نے پہلے اعتقاد اور یقین کر لیا کہ یہ صاحب ہوٹل میں روزہ توڑنے کے لئے داخل ہوئے تھے اور کھانا کھا کر باہر آئے ہیں، اس کا یقین کر لیا اور دوسرے احتمالات کی طرف دھیان نہیں کیا،*.

*●✿__ اور پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ کیا کہ دوسروں کے سامنے بیان کرنا شروع کر دیا کہ میں نے خود اس کو روزہ میں کھاتے ہوئے دیکھا ہے، حالانکہ اس نے صرف یہ دیکھا تھا کہ وہ شخص ہوٹل سے نکل رہا تھا، کھاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، دوسروں کے سامنے اس طرح بیان کر رہا ہے جیسے خود اس نے کھاتے ہوئے دیکھا تھا اور سو فیصد یقین کے ساتھ دوسروں سے کہہ رہا ہے کہ یہ شخص روزہ خور ہے، یہ بد گمانی حرام اور نا جائز ہے۔*

*●✿__ اس لئے حضرت فرماتے ہیں کہ : مذموم بد گمانی وہ ہے جو خود لائی جائے، باقی جو وسوسہ خود آئے وہ مذموم بدگمانی نہیں جب تک اس پر عمل نہ ہو، اور عمل کی صورت یہ ہے کہ یا دل سے اس پر اعتقاد جازم کر لے ( یعنی یقین کرلے، پہلے صرف گمان تھا پھر اس گمان کو یقین سے تبدیل کر دیا ) یا زبان سے کسی کے سامنے اس کا تذکرہ کر دیا، یہ دوسرا درجہ حرام ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔*
*®_ [ اصلاحی مجالس، ج۱، ص۲۲۱، ۲۲۴]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
             *☞ _(60)_کیا تصوف بدعت ہے ؟*

*"●✿_ آج علم تصوف کے بارے میں لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہو گئے ہیں، بعض لوگ تو سمجھتے ہیں کہ تصوف کا شریعت سے کوئی واسطہ نہیں اور قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں اس کا کہیں ذکر نہیں بلکہ تصوف کو اختیار کرنا بدعت ہے، خوب سمجھ لیں کہ قرآن کریم اور حدیث مبارکہ نے اخلاق کو درست کرنے کا جو حکم دیا ہے، وہی تصوف کا موضوع ہے، اس لیے یہ تصوف قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کے خلاف نہیں،*

*"●✿_ جبکہ دوسرے بعض لوگوں نے تصوف کو خلاط معنی پہنا دیے ہیں، ان کے نزدیک تصوف کے معنی ہیں مراقبے کرنا، کشف حاصل ہونا ، الہام ہونا، خواب اور اس کی تعبیر اور کرامات کا حاصل ہونا وغیرہ، ان کے نزدیک اس کا نام تصوف ہے، اس کے نتیجے میں ان لوگوں نے بعض اوقات تصوف کے نام پر ایسے کام شروع کر دیے جو شریعت کے خلاف ہیں اور اس سلسلے میں دو تصرف کر لیے۔*

*"●✿_۱: -ایک تصرف تو یہ کیا کہ بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو صوفی کہلاتے ہیں مگر ساتھ میں بھنگ بھی پی رہے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ بھنگ مولویوں کے لیے حرام ہے لیکن صوفیوں کے لیے حلال ہے، اس لیے کہ ہم تو بھنگ پی کر اللہ تعالی کا تقرب حاصل کر رہے ہیں ۔ العیاذ باللہ العظیم۔ خدا جانے کہاں کہاں کے خرافات، غلط عقیدے، مشرکانہ خیالات داخل کر دیے اور اس کا نام تصوف رکھ دیا۔*

*"●✿_۲ دوسرا تصرف یہ کیا کہ مرید پیر کا غلام ہے، جب ایک مرتبہ کسی کو پیر بنالیا تو اب وہ پیر چاہے شریعت کے خلاف عمل کرے، چاہے حرام کاموں کا ارتکاب کرے لیکن مرید کے ذمے ان کے قدم چومنا لازم ہے اور ہر چند روز کے بعد اس پیر کو نذرانہ پیش کرنا لازم ہے کیونکہ جب تک وہ پیر صاحب کو اس طرح خوش نہیں کرے گا، جنت کے دروازے اس کے لیے نہیں کھل سکتے العیاذ باللہ العظیم،*

*"●✿_ تصوف کا یہ تصور نہ قرآن کریم میں ہے اور نہ حدیث میں ہے، اس تصور کا کوئی تعلق شریعت‌اور سنت سے نہیں ہے، جبکہ تصوف کا اصل تصور اخلاق کی اصلاح اور باطنی اعمال کی اصلاح تھا، اس کے لیے ضروری تھا کہ کوئی شخص کسی متبع سنت صحیح علم رکھنے والے صحیح عقیدہ رکھنے والے شخص کو اپنا مقتدا بنائے، جس نے خود اپنی تربیت کسی بڑے سے کرائی ہو، جس طرح صحابہ کرام نے حضور اقدس ﷺ کو اپنا مقتدا بنایا کہ آپ ہمارے مربی ہیں، ہماری تربیت کرنے والے ہیں ، ہمارے اعمال واخلاق کو درست کرنے والے ہیں، اس لیے آپ کی اطاعت ہمیں کرنی ہے، یہ تصور بالکل درست تھا اور یہ پیری مریدی صحیح تھی اور قرآن وحدیث کے مطابق تھی، قرآن وحدیث میں جگہ جگہ اچھے اخلاق اختیار کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔*
*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۱۲۲]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (61)_ کیا تصوف صرف پیری مریدی اور وظائف و اذکار کا نام ہے ؟*

*●✿_ آج لوگوں نے تصوف کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کر کے اس کو ایک ملغوبہ بنا دیا ہے، آج تصوف نام ہو گیا اس بات کا کہ کسی پیر صاحب کے پاس چلے گئے، ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا، بیعت کر لی اور بیعت کرنے کے بعد انہوں نے کچھ وظیفے بتا دیے، کچھ اور ورد سکھا دیے کہ صبح کو یہ پڑھا کرو، شام کو یہ پڑھا کرو، اور بس اللہ خیر سلا، اب نہ باطن کی فکر، نہ اخلاق کے درست کرنے کا اہتمام، نہ اخلاق فاضلہ کو حاصل کرنے کا شوق، نہ اخلاق رذیلہ کو ختم کرنے کی فکر، یہ سب کچھ نہیں، بس بیٹھے ہوئے وظیفے پڑھ رہے ہیں، اور بعض اوقات یہ وظیفے پڑھنا ان بیماریوں کے اندر اور زیادہ شدت پیدا کرتا ہے۔*

*●✿_ پہلے زمانے میں صوفیاء کرام کے ہاں معمول تھا کہ کسی شخص کی اصلاح کا پہلا قدم یہ ہوتا تھا کہ اس کے اخلاق کی اصلاح کرنے کی فکر کرتے, اس کے لیے مجاہدات کروائے جاتے تھے، ریاضتیں ہوتی تھیں، رگڑا جاتا تھا تب جا کر اندر کی اصلاح ہوتی تھی اور اس کے بعد انسان کسی قابل ہوتا تھا۔*

*●✿_ حالانکہ تصوف کا اصل مقصد یہ ہے کہ تمہارے جذبات صحیح ہونے چاہئیں ،تمہارے اخلاق صحیح ہونے چاہئیں تمہاری خواہشات صحیح ہونی چاہئیں اور ان کو کس طرح صحیح کیا جائے ، یہ اعمال تصوف کے اندر بتائے جاتے ہیں، تصوف کی حقیقت بس اتنی ہے، اس سے آگے لوگوں نے جو باتیں تصوف کے اندر داخل کر دی ہیں، اس کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں، جس طرح فقہا ظاہری اعمال مثلاً نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج ، بیع وشراء نکاح و طلاق کے احکام بیان کرتے ہیں، اسی طرح صوفیاء کرام دل میں پیدا ہونے والے جذبات کے احکام بیان کرتے ہیں۔*

*●✿_ اسی طرح بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کہیں تنہائی میں بیٹھ کر مراقبہ کرے اور چلہ کاٹے، مجاہدہ کرے ، حالانکہ یہ سب چیزیں بھی تصوف کا مقصود اصلی نہیں ہیں بلکہ مقصود اصلی کو حاصل کرنے کے مختلف طریقے اور راستے ہیں۔ تصوف کا مقصود اصلی وہ ہے جس کی طرف قرآن کریم نے اس‌آیت میں ارشاد فرمایا: ( قد افلح من زكها ) یعنی تزکیہ نفس، جس کو اللہ تعالی نے حضور اقدس ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے بیان فرمایا،*

*●✿_ ترکیہ کے لفظی معنی ہیں، پاک صاف کرنا، شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انسان کے ظاہری اعمال و افعال ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے نواہی ہیں، مثلا یہ کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، زکوۃ دو، حج کرو وغیرہ، یہ اوامر ہیں اور جھوٹ نہ بولو، غیبت نہ کرو، شراب نہ پیو، چوری نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالو وغیرہ یہ نواہی اور گناہ ہیں ان سے بچنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔*

*"❀_ اسی طرح انسان کے باطن یعنی قلب میں بعض صفتیں مطلوب ہیں، وہ اوامر میں داخل ہیں، ان کو حاصل کرنا واجب ہے اور ان کو حاصل کیے بغیر فریضہ ادا نہیں ہوتا اور بعض صفات ایسی ہیں جن کو چھوڑنا واجب ہے وہ نواہی میں داخل ہیں، مثلا اللہ تعالی کی نعمت پر شکر کرنا واجب ہے، اگر کوئی ناگوار واقعہ پیش آئے‌تو اس پر صبر کرنا واجب ہے، اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ رکھنا واجب ہے، تو اضع اختیار کرنا یعنی اپنے آپ کو کمتر سمجھنا واجب ہے، اخلاص حاصل کرنا، یعنی جو کام بھی آدمی کرے وہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے کرے، اس اخلاص کی تحصیل واجب ہے، اخلاص کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، لہٰذا یہ صفات شکر، صبر، توکل ، تواضع، اخلاص وغیرہ یہ سب صفات فضائل اور اخلاق فاضلہ کہلاتی ہیں ان کی تحصیل واجب ہے۔*

*"❀_ اسی طرح باطن کے اندر بعض بری صفات ہیں جو حرام اور ناجائز ہیں جن سے بچنا ضروری ہے، وہ رذائل اور اخلاق رذیلہ کہلاتی ہیں، یعنی یہ صفات کمینی اور گھٹیا صفات ہیں، اگر یہ صفات باطن کے اندر موجود ہوں تو ان کو کچلا اور مٹایا جاتا ہے، تاکہ یہ صفات انسان کو گناہ پر آمادہ نہ کریں،*

*"❀_ مثلاً تکبر کرنا یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، حسد کرنا، ریا کاری اور دیکھاوا یعنی انسان اللہ کو راضی کرنے کے بجائے مخلوق کو راضی کرنے کے لیے اور ان کو دکھانے کے لیے کوئی دینی کام کرے یہ ریا ہے لہذا تکبر حرام، حسد حرام، بغض حرام، ریا کاری حرام اور بے صبری یعنی اللہ تعالی کی قضا پر راضی نہ ہونا بلکہ اللہ تعالی کی تقدیر کا شکوہ کرنا یہ حرام ہے یہ سب رزائل ہیں جو انسان کے باطن میں موجود ہوتے ہیں، اسی طرح غصہ کو اگر انسان بے محل استعمال کرے تو یہ بھی رزائل میں داخل ہے۔*

*"❀_خلاصہ یہ کہ باطن میں بہت سے فضائل ہیں جن کو حاصل کرنا ضروری ہے اور بہت سے رزائل ہیں، جن سے اجتناب ضروری ہے اور حضرات صوفیا اور مشائخ یہ کام کرتے ہیں کہ اپنے مریدین اور شاگردوں کے دلوں میں اخلاق فاضلہ کی آبیاری کرتے ہیں اور اخلاق رذیلہ کو کچلتے ہیں تاکہ یہ اخلاق رذیلہ کچلتے کچلتے نہ ہونے کے حکم میں ہو جائیں، جس کے لیے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا- باطن کے اندر جو رذیلہ ہے اس کو اتنا کچلو اور اس کو اتنا پیٹو کہ اس کے بعد وہ رذیلہ باقی تو رہے گا ختم تو نہیں ہوگا لیکن نہ ہونے کے حکم میں ہو جائے گا، بہر حال ! تصوف میں رذائل کو کچلنا ہوتا ہے اور فضائل کو حاصل کرنا ہوتا ہے، اس کا نام تزکیہ ہے اور بس یہی تصوف کا مقصود اصلی ہے۔*
*®_[ اصلاحی مجالس، ج ۱، ص ۳۰]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(62)_نفس اور باطن کی اصلاح کے لیے شیخ کی ضرورت کیوں ہے ؟*

*"●✿_ لیکن عام طور پر یہ چیز کسی شیخ کی صحبت حاصل کیے بغیر اور شیخ کے سامنے اپنے آپ کو فنا کیے بغیر حاصل نہیں ہوتی، کیوں؟ اس لیے کہ ”لکل فن رجال“ یعنی ہر فن کو حاصل کرنے کے لیے اس کے ماہر کے پاس جانا ضروری ہے، اگر فقہ کا مسئلہ معلوم کرنا ہو تو کسی مفتی کے پاس چلے جاؤ، کیونکہ اس کو یہ فن آتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کس سوال کا کیا جواب دینا چاہیے،*

*"●✿_ لیکن اعمال باطنہ کے بارے میں مہارت حاصل کرنا اور یہ پہچاننا کہ آیا اس شخص کے اندر یہ بیماری پیدا ہورہی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ باطن کی بیماریاں بھی مخفی اور باریک قسم کی ہوتی ہیں، ایک چیز بڑی اچھی ہے اور دوسری چیز بڑی خراب ہے، لیکن دونوں کے درمیان فرق کرنا بڑا مشکل ہے، مثلاً تکبر کرنا حرام ہے اور اس سے بچنا واجب ہے، اس لیے کہ یہ تکبر ام الامراض ہے لیکن دوسری صفت عزت نفس ہے، اس کو حاصل کرنا واجب ہے، کیونکہ اپنے نفس کو ذلیل کرنا جائز نہیں لیکن یہ دیکھنا کہ کہاں تکبر ہے اور کہاں عزت نفس ہے، جو کام میں کر رہا ہوں یہ تکبر کی وجہ سے کر رہا ہوں یا یہ عزت نفس کی وجہ سے کر رہا ہوں، دونوں کے درمیان کون خط امتیاز کھینچے اور دونوں کو کون پہچانے کہ یہ تکبر ہے اور یہ عزت نفس ہے ، یہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں،*

 *"●✿_خاص طور پر انسان کا خود اپنے اندر ان بیماریوں کا پہچاننا بڑا مشکل ہے۔ مثلاً ایک بیماری ہے اپنی بڑائی بیان کرنا کہ میں ایسا اور ویسا ہوں، میرے اندر یہ اچھائی ہے، میرے اندر یہ خوبی ہے، یہ حرام ہے اور اسی کو تعلی“ کہا جاتا ہے ، دوسری چیز ہے تحدیث نعمت‘ جس کا قرآن کریم کے اندر ذکر ہے :( وأما بنعمة ربك فحدث )، اب کون اس کے درمیان فرق کرے کہ میں جو اپنی اچھائی بیان کر رہا ہوں یہ تعلی ہے یا تحدیث نعمت ہے؟* 

*"●✿_اسی طرح تواضع بڑی عمدہ چیز ہے، اعلی درجے کی صفت ہے اور مطلوب ہے، ایک دوسری صفت ہوتی ہے ذلت نفس یعنی دوسرے کے سامنے نفس کو ذلیل کرنا، یہ حرام ہے، اللہ تعالی نے نفس کی عزت واجب کی ہے، اس کو ذلیل نہیں کرنا چاہیے، لیکن ان دونوں کے درمیان فرق کرنا کہ کونسا عمل تواضع کی وجہ سے کیا جارہا ہے اور کون سے فعل میں ذلت نفس ہے، ان کے درمیان فرق کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، کبھی تواضع کی سرحد ذلت نفس کے ساتھ مل جاتی ہے اور کبھی اس کی سرحد ناشکری کے ساتھ مل جاتی ہے، اب کس حد تک تواضع کرے اور کس حد پر تواضع نہ کرے، کہاں تو اضع ہے اور کہاں نا شکری ہے؟ ان کے درمیان فرق کو پہچاننا ہر ایک کا کام نہیں جب تک کسی شیخ سے تربیت حاصل نہ کرلے۔*

*●✿_ یہ چیز محض پڑھا دینے سے حاصل نہیں ہوتی کہ کتاب میں پڑھ کر خود ہی اس کے فوائد اور قیود نکالنے شروع کر دیے، یاد رکھیے یہ اس قسم کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ کام عملی تربیت سے آتا ہے، جب کسی شیخ کو مسلسل آدمی دیکھتا رہے اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کرتا رہے اور اس کو اپنے حالات بتا کر اس سے ہدایات لیتا رہے، اس کے نتیجے میں پھر انسان کو یہ ادراک حاصل ہوتا ہے کہ عمل و اخلاق کا یہ درجہ قابل حصول صفت ہے اور یہ کیفیت یا درجہ قابل ترک رذیلہ ہے،*

 *●✿_اسی طرح انسان کے باطن کے جو فضائل ہیں مثلاً تواضع ہے اگر اس کی لفظوں میں کوئی مکمل تعریف بیان کرنا چاہے تو بہت مشکل ہے، لیکن جب کسی متواضع آدمی کو دیکھو گے اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کرو گے اور اس کی صحبت میں رہو گے تو اس کے نتیجے میں وہ اوصاف تمہارے اندر بھی منتقل ہونے شروع ہو جائیں گے، اس لیے تصوف اور سلوک میں شیخ کی صحبت اور اس کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،*

*"●✿_ بہر حال ! پیر اور شیخ کے ہاتھ پر بیعت ہونا کوئی فرض نہیں کہ آدمی کسی شیخ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ضرور بیعت ہو جائے لیکن اپنی اصلاح کرانا ضروری ہے، اور جب اپنی اصلاح کے لیے کوئی شخص اپنے شیخ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس رجوع کرنے کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ آدمی کو فضائل حاصل ہوں اور رذائل سے آدمی بچ جائے، سلوک و تصوف کا یہ اصل مقصد ہے،*

*"●✿_ البتہ اس سلسلہ میں اذکار و اوراد یا مختلف وظائف سالک کے لیے معین اور مددگار ہو جاتے ہیں، مگر ہر شخص کے لیے ان اذکار و اوراد کی مقدار، اس کا موقع اور وقت، یہ شیخ کی رہنمائی اور مشورے سے ہی مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے اصلاح حال کا فائدہ ہوتا ہے ورنہ عام حالات میں یہ اذکار اس درجہ میں خود مقصود نہیں، بلکہ اصل کام اپنے اخلاق کی اصلاح ہے اور اس کا تزکیہ ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ شیخ کو اپنے حالات کی اطلاع دیتار ہے اور اس سے ہدایات لیتا ر ہے اور پھر ان ہدایات پر عمل کرتا رہے بس ساری زندگی یہی کام کرتار ہے، شیخ کی طرف رجوع کرنے کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(63)_آج کل کے دور میں شبلی، جنید بغدادی، شيخ عبد القادر جیلانی اور بایزید بسطامی جیسے لوگ کہاں سے تلاش کریں ؟*

*"●✿_اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سچے لوگ کہاں سے لائیں؟ ہر شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں بھی سچا ہوں، میں بھی صادق ہوں بلکہ لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ صاحب ! آج کل تو دھوکہ بازی کا دور ہے، ہر شخص لمبا کرتا پہن کر اور عمامہ سر پر لگا کر اور داڑھی لمبی کر کے کہتا ہے کہ میں بھی صادقین میں داخل ہوں، یہ حالت نظر آتی ہے تو اب کہاں سے لائیں وہ صادقین جن کی صحبت انسان کو کیمیا بنادیتی ہے، کہاں سے لائیں وہ اللہ والے جن کی ایک نظر سے انسان کی زندگیا بدل جاتی ہیں،*

*"●✿_ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ اس کا ایک بڑا عمدہ جواب دیا کرتے تھے, وہ فرماتے تھے کہ میاں ! لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج کل صادقین کہاں سے تلاش کریں؟ ہر جگہ عیاری مکاری کا دور ہے، تو بات دراصل یہ ہے کہ یہ زمانہ ہے ملاوٹ کا، ہر چیز میں ملاوٹ، گھی میں ملاوٹ، چینی میں ملاوٹ، آٹے میں ملاوٹ، دنیا کی ہر چیز میں ملاوٹ، یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ زہر میں بھی ملاوٹ ہے،*

*"●✿_ لیکن یہ بتاؤ کہ اگر آٹا خالص نہیں ملتا تو کسی نے آٹا کھانا چھوڑ دیا کہ صاحب ! آنا تو اب خالص ملتا نہیں، لہٰذا اب آٹا نہیں کھائیں گے یا گھی اگر خالص نہیں ملتا تو کسی نے گھی کھانا چھوڑ دیا کہ صاحب ! گھی تو اب خالص ملتا نہیں، لہٰذا اب مٹی کا تیل استعمال کریں گے، کسی نے بھی باوجود اس ملاوٹ کے دور کے نہ آنا کھانا چھوڑا, نہ چینی کھانی چھوڑی، نہ گھی کھانا چھوڑا، بلکہ تلاش کرتا ہے کہ گھی کونسی دوکان پر اچھا ملتا ہے اور کونسی بستی میں اچھا ملتا ہے،*

*"●✿_ تو فرمایا کہ بے شک آٹا گھی چینی کچھ خالص نہیں ملتی, لیکن تلاش کرنے والے کو آج بھی مل جاتا ہے، اگر کوئی اللہ کا بندہ تلاش کرنا چاہے تو اس کو آج کے دور میں بھی صادقین مل جائیں گے، یہ کہنا بالکل شیطان کا دھوکہ ہے کہ آج کے دور میں صادقین ختم ہو گئے، ارے جب اللہ تبارک و تعالی فرمار ہے ہیں کہ تم صادقین کے ساتھی بن جاؤ، یہ حکم کیا صرف صحابہ کرام کے دور کے ساتھ مخصوص تھا کہ وہ صحابہ کرام اس پر عمل کر سکیں، بیسویں صدی میں آنے والے اس پر عمل نہیں کر سکتے ؟ ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے ہر حکم پر قیامت تک جب تک مسلمان باقی ہیں عمل کرنا ممکن رہے گا،*

*●✿_حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ میاں ! آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ خود خواہ کسی حالت میں ہوں، گناہ میں معصیت میں، کبائر میں فسق و فجور میں مبتلا ہوں لیکن اپنے لیے صادقین تلاش کریں گے تو معیار سامنے رکھیں گے جنید بغدادی کا، شیخ عبد القادر جیلانی کا اور بایزید بسطائی کا اور بڑے بڑے اولیا کرام کا جن کے نام سن رکھے ہیں کہ صاحب ! ہمیں تو ایسا صادق چاہیے جیسا کہ جنید بغدادی تھے یا شیخ عبد القادر جیلانی تھے، حالانکہ اصول یہ ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے، جیسے تم ہو ویسے ہی تمہارے مصلح ہوں گے، تم جس معیار کے ہو تمہارے لیے یہی لوگ کافی ہو سکتے ہیں، جنید و شبلی کے معیار کے نہ سہی لیکن تمہارے لیے یہ بھی کافی ہیں۔*

*"●✿_بلکہ حضرت مفتی صاحب فرماتے تھے کہ میں تو قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طلب لے کر اپنی مسجد کے ان پڑھ مؤذن کی صحبت میں جا کر بیٹھے گا تو اس کی صحبت سے بھی فائدہ پہنچے گا، اس واسطے کہ وہ مؤذن کم از کم پانچ وقت اللہ کا نام بلند کرتا ہے، اس کی آواز فضاؤں میں پھیلتی ہے، وہ اللہ کے کلمے کو بلند کرتا ہے، اس کی صحبت میں جا کر بیٹھو، تمہیں اس سے بھی فائدہ پہنچے گا،*

*"●✿_ یہی شیطان کا دھوکہ ہے کہ صاحب ! ہمیں تو اس معیار کا بزرگ اور اس معیار کا مصلح چاہیے، یہ انسان کو دھوکا دینے کی بات ہے، حقیقت میں تمہاری اپنی اصلاح کے واسطے تمہارے معیار کے اور تمہاری سطح کے مصلح آج بھی موجود ہیں۔*
*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۱۴، ص ۱۱۲ ]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(64)_تصرف اور اس کے متعلق غلط فهمى- شیخ نے ایک نظر ڈالی اور دل کی دنیا بدل گئی،*

*"●✿__ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب کسی اللہ والے کے پاس آدمی جاتا ہے یا کسی شیخ کی خدمت میں حاضری دیتا ہے اور اس سے اصلاحی تعلق قائم کرتا ہے اور اس سے بیعت ہوتا ہے تو وہ اپنی نظر سے کام بنا دیتے ہیں، شیخ نے ایک نظر ڈال دی تو بس دل کی دنیا بدل گئی۔*

*"●✿__ خوب سمجھ لیں کہ اصلاح نفس کے لیے یہ کوئی معمول کا طریقہ نہیں ہے، لہٰذا یہ نہیں ہو گا کہ کوئی اللہ والا نظر ڈال دے گا تو تمہاری طبیعت بدل جائے گی اور تمہارے حالات میں خود بخود انقلاب آجائے گا بلکہ کرنا تو خود ہی پڑے گا، ہمت کرنی ہوگی، کوشش کرنی ہوگی، مشقت اٹھانی ہوگی، شیخ کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ توجہ دلا دے اور راستہ بتادے، ایسی تدبیریں بتادے جس کے ذریعہ کام نسبتاً آسان ہو جائے لیکن کرنا خود ہی پڑے گا، چلنا خود ہی پڑے گا،*

*"●✿__ کوئی شخص یہ سوچے کہ مجھے خود کچھ کرنا نہ پڑے بلکہ دوسرا آدمی مجھے منزل تک پہنچا دے، تو یہ بات نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو پھر انبیاء کرام علیہم السلام کو اشاعت دین کے لیے مجاہدات اور مشقت اٹھانے کی ضرورت نہ ہوتی، بس لوگوں پر ایک نظر ڈال دیتے اور سب لوگ مسلمان ہو جاتے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(65)_پچھلے زمانے کے صوفیاء کرام کے یہاں اس قسم کے چند واقعات ملتے ہیں کہ شیخ نے ایک نظر ڈالی اور ایک نظر سے زندگی میں انقلاب آ گیا،*

*"●✿_ اس بارے میں کچھ باتیں سمجھنے کی ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نظر ڈالنا تصرف ہے، اور یہ تصرف کرنا ہر ایک کو نہیں آتا، اور تصرف نہ آنا کوئی عیب کی بات نہیں، یعنی اگر کسی شیخ اور ولی اللہ کی نظر میں تصرف کی قوت نہ ہو تو اس کے اندر کوئی عیب نہیں، اگر تصرف کی یہ قوت حاصل ہو جائے تو اللہ کی نعمت ہے اور اگر حاصل نہ ہو تو کوئی عیب نہیں،*

*"●✿_دوسری بات یہ ہے کہ تصرف کا حاصل صرف یہ ہے کہ جس شخص پر تصرف کیا گیا ہے، تصرف کے نتیجے میں اس کی طبیعت میں ذرا سا نشاط پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ نشاط دیر پا نہیں ہوتا بلکہ وقتی ہوتا ہے، آگے کام اس کو خود ہی کرنا پڑتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ اس تصرف کے نتیجے میں ساری عمر کام کرتا رہے، اس تصرف کی مثال ایسی ہے جیسے گاڑی کو دھکا لگانا، اگر گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے تو اس کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس دھکا لگانے کے نتیجے میں اس گاڑی میں چلنے کی تھوڑی سی صلاحیت پیدا ہوئی لیکن جب دھکے کے ذریعہ اسٹارٹ ہو گئی تو اب وہ گاڑی انجن اور پیٹرول کی طاقت سے چلے گی لیکن اگر انجن ہی خراب ہے یا پیٹرول ہی نہیں ہے، تو پھر ہزار دھکے لگاؤ ، گاڑی نہیں چلے گی، بس دھکا لگانے سے دو چار قدم چل کر کھڑی ہو جائے گی۔*

*"●✿_ بالکل اسی طرح اگر انسان کے اندر سلوک میں اور اللہ تعالی کے راستے میں چلنے کی ہمت اور طاقت ہے تو کسی کی نظر پڑ جانے سے اس کے اندر چلنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی اور طبیعت کے اندر ذرا سا نشاط پیدا ہو گیا، اب اگر اپنے اندر طاقت ہے تو وہ اس کے ذریعہ آگے چلے گا لیکن اگر اندر ہی طاقت نہیں تو ہزار نظر ڈالتے رہو، ہزار تصرف کرتے رہو، کچھ نہیں ہوگا، ہاں ! وقتی طور پر تھوڑا سا جذبہ پیدا ہوگا پھر وہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔*

*"●✿_ بہر حال ! یہ نظر نہ تو دیر پا چیز ہے، نہ دائمی ہے، نہ ہر ایک کو حاصل ہوتی ہے، نہ کوئی ایسی صفت مدح ہے جس کا نہ ہونا عیب ہو، اور اگر نظر سے فائدہ ہو بھی جائے تو وہ وقتی ہوگا، آخر میں کام اپنی ہمت ہی سے کرنا ہوگا، انجن اپنا مضبوط کرنا ہوگا، اسی انجن سے ہی گاڑی چلے گی، دھکے سے نہیں چلے گی، لہذا اصل کام یہ ہے کہ اپنی ہمت کو تازہ کرو۔*
*®_( اصلاحی مجالس، ج ۱، ص ۸۷،۸۵)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(66)_ صوفیاء کرام سے منقول ذکر کے خاص طریقوں پر بدعت ہونے کا اعتراض _,*

*●✿_ حضرات صوفیاء کرام نے ذکر کے خاص طریقے جو بیان فرمائے ہیں، ان کا مقصد یہ تھا کہ ذکر میں انسان کا دل لگ جائے، اور یہ طریقے بطور علاج کے بیان فرمائے ہیں۔ اس لئے یاد رکھئے ! کہ یہ خاص طریقے نہ مقصود ہیں، نہ مسنون ہیں اور نہ ان طریقوں کو مسنون سمجھنا جائز ہے،*

*●✿_ مثلاً ہمارے تمام مشائخ کے یہاں دوازده تسبیح (بارہ تسبیح ) بہت معروف ہے، یہ دوازدہ تسبیح ضرب لگا کر کی جاتی ہے، مگر یہ خاص طریقہ نہ مقصود ہے، اور نہ مسنون ہے، اگر کوئی شخص اس کو مسنون سمجھ لے تو یہ طریقہ بدعت ہو جائے گا، بلکہ اس کے جائز ہونے کی شرط یہی ہے کہ اس کے بارے میں یہ تصور رکھا جائے کہ یہ طریقہ مبتدی کو صرف علاج کے طور بتایا جاتا ہے، تا کہ اس کا دل ذکر میں لگ جائے اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو جائے۔*

*●✿_آج کل لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہیں، چنانچہ بعض لوگ ضرب لگا کر ذکر کرنے کو بدعت کہتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہیں ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے اس طرح ضرب لگا کر ذکر فرمایا ہو اور نہ کسی صحابی سے ضرب لگا کر ذکر کرنا ثابت ہے اور جب ایسا ذکر ثابت نہیں ہے اور تم لوگ ایسا ذ کر کر رہے ہو، لہذا یہ ذکر بدعت ہے۔*

*●✿_چنانچہ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ آپ کے تمام مشائخ بدعتی ہیں (معاذ اللہ ) اس لئے کہ یہ مشائخ ضرب لگا کر ذکر کرنے کی تلقین کرتے ہیں، اور اس طرح ذکر کرنا حضور اقدس ﷺ سے ثابت نہیں۔ میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ جب تمہیں نزلہ زکام ہوتا ہے تو تم جو شاندہ پیتے ہو؟ کہنے لگے کہ ہاں پیتا ہوں، میں نے پوچھا کہ کیا حضور اقدس ﷺ سے جو شاندہ پینا ثابت ہے؟ یا حضور اقدس ﷺ نے کبھی جو شاندہ پیا ہے؟ یا کسی صحابی سے جو شاندہ پینا ثابت ہے؟*

*"●✿_ کہنے لگے کہ جوشاندہ پینا تو ثابت نہیں، میں نے کہا کہ جب ثابت نہیں تو آپ کا جو شاندہ پینا بدعت ہو گیا, اس لئے کہ آپ کا دعویٰ اس کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا کہ یوں کہا جائے کہ جو چیز حضور اقدس ﷺ سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، تو چونکہ جو شاندہ پینا بھی ثابت نہیں لہذا یہ بھی بدعت ہے۔*

*"●✿_در حقیقت صحیح بات یہ ہے کہ ذکر کرنے کے یہ سارے طریقے علاج ہیں، یعنی جس شخص کا ذکر میں دل نہیں لگتا اور ذکر میں اس کی طبیعت مائل نہیں ہوتی، تو اس کے علاج کے لئے یہ طریقہ بتا گیا کہ تم اس طریقے سے ذکر کر لو، تاکہ ذکر میں تمہارا دل لگ جائے، گویا کہ جو شاندہ پلایا جارہا ہے۔*
*۔® [ اصلاحی مجالس، ج ۳ ص ۵۹]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (67)_ذكر جهرى افضل يا ذكر خفى ؟*

*"❀_یاد رکھئے شک و شبہ کی گنجائش نہیں، ذکر جتنا آہستہ آواز سے ہوگا اتنا ہی افضل ہوگا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:(أدعوا ربكم تضرعاً وخفية ) [الاعراف : ٥٥] اپنے رب کو عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارو۔*
*"_دوسری جگہ ارشاد ہے: (واذكر ربك فى نفسك تضرعا وخيفة ودون الجهر من القول )[الاعراف : ٢٠٥]*
*"_اپنے رب کو اپنے دل میں پکارو عاجزی کے ساتھ، اور ڈرتے ہوئے، اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ۔*

*"❀_اس سے معلوم ہوا کہ زیادہ زور سے ذکر کرنا پسندیدہ نہیں، پسندیدہ ذکر وہ ہے جو آہستہ آواز کے ساتھ ہو، یہ اصول ہمیشہ کا ہے، ابدی ہے اور قیام قیامت تک کبھی نہیں ٹوٹ سکتا کہ افضل ذکر ذکر خفی ہے۔ ذکر جتنا آہستہ کیا جائے گا اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا، البتہ ذکر جہری جائز ہے، نا جائز نہیں لہذا ذکر جہری کبھی ذکر خفی سے افضل نہیں ہو سکتا،*

*"❀_ البتہ علاج کے طور پر ذکر جہری کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر کوئی شخص ذکر جہری کو افضل سمجھنے لگے, یا کوئی شخص ذکر جہری کو مقصود سمجھ لے، یا ذکر جہری کو مسنون سمجھ لے، یا ذکر جہری نہ کرنے والے پر نکیر کرنے لگے، تو پھر یہی چیز بدعت بن جاتی ہے، اس راستے میں اسی افراط و تفریط سے بچ کر گزرنا ہے،*

*"❀_ بات دراصل یہ ہے کہ جب کام آگے بڑھتا ہے تو اپنی حد پر نہیں رہتا ، اب ذکر کے مندرجہ بالا طریقے صوفیاء کرام نے بطور علاج بتائے تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ طریقے خود مقصود بن گئے، اب ہر سلسلہ والوں نے اپنے لئے ذکر کا ایک طریقہ مقرر کر لیا ہے کہ فلاں سلسلہ میں پاس انفاس کے طریقے سے ذکر ہوتا ہے اور فلاں سلسلہ میں سلطان الاذکار ہوتا ہے، اور فلاں سلسلہ میں فلاں طریقہ سے ذکر ہوتا ہے، یہ اس سلسلے کی خصوصیات بن گئیں، اب اس سلسلہ سے وابستہ لوگ باہر کے لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ آپ جس طریقہ سے ذکر کرتے ہیں وہ طریقہ صیح نہیں یا افضل نہیں، صحیح اور افضل طریقہ وہ ہے جو ہمارے شیخ نے بتایا ہے۔ اس طرح سے جو چیز مقصود نہیں تھی وہ مقصود قرار پا گئی، اسی کا نام ”احداث فی الدین" ہے، اسی کا نام بدعت ہے، اس کی جڑ کاٹنی ہے۔*
*® (اصلاحی مجالس، ج ۳، ص ٦١ )*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (68)_ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کی شرائط :-*

*•●✿_ جہاں تک اللہ تعالی کے نام کے ذریعہ جھاڑ پھونک کا تعلق ہے وہ خود حضور اقدس ﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے ثابت ہے، اس لیے وہ ٹھیک ہے لیکن اس کے جواز کے لیے چند شرائط انتہائی ضروری ہیں، ان کے بغیر یہ عمل جائز نہیں۔*

*·•●✿_ پہلی شرط یہ ہے کہ جو کلمات پڑھے جائیں، ان میں کوئی کلمہ ایسا نہ ہو جس میں اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو، اس لیے کہ بعض اوقات ان میں ” یا فلان“ کے الفاظ ہوتے ہیں، اور اس جگہ پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام ہوتا ہے، ایسا تعویذ ، ایسا گنڈا ، ایسی جھاڑ پھونک حرام ہے جس میں غیر اللہ سے مدد لی گئی ہو۔*

*·•●✿_ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر جھاڑ پھونک کے الفاظ یا تعویذ میں لکھے ہوئے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی ہی معلوم نہیں کہ کیا معنی ہیں ؟ ایسا تعویذ استعمال کرنا بھی نا جائز ہے، اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی مشرکانہ کلمہ ہو اور اس میں غیر اللہ سے مدد مانگی گئی ہو، یا اس میں شیطان سے خطاب ہو، اس لیے ایسے تعویذ بالکل ممنوع اور نا جائز ہیں۔ ایسے تعویذ جس میں ایسی بات لکھی ہوئی ہو جس کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آتا، ایسا تعویذ حرام ہے،*

*•●✿_، بعض تعویذ ایسے ہوتے ہیں جس میں غیر اللہ سے مدد مانگی جاتی ہے، وہ چاہے نبی ہو، چاہے ولی ہو ، اور چاہے کتنا بڑا بزرگ ہو ، اللہ کے سوا کسی سے مراد مانگی گئی ہو اور وہ شرک کے قریب انسان کو پہنچا دیتی ہے، ایسے تعویذ بالکل حرام ہیں اور انسان کو شرک کے قریب پہنچا دیتے ہیں، اسی لیے فقہا کرام نے فرمایا کہ تعویذ میں اگر کوئی ایسی بات لکھی ہوئی ہے جو ہم اور آپ سمجھتے نہیں ہیں تو کیا پتہ اس میں کوئی غیر اللہ سے مدد مانگ لی گئی ہو، کوئی شرک کا کلمہ اس کے اندر موجود ہو، اس واسطے ایسا تعویذ استعمال کرنا بالکل جائز نہیں ہے،*

*•●✿_ لیکن اگر قرآن کریم کی آیات ہیں ان کو بھی ادب کے ساتھ استعمال کیا جائے یا کوئی ذکر ہے اللہ تبارک و تعالی کا یا کوئی دعا ہے جو تعویذ میں لکھ دی گئی تھی تو وہ جائز ہے، لیکن اس میں کوئی ثواب نہیں۔*
*®_( اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۵۲)*                 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (69)_ ہر کام اور ہر خواهش تعویذ گنڈے کے ذریعے پورا کروانے کی کوشش کرنا صحيح نہیں _,*

*"●✿_ لوگوں نے سارا دین تعویذ گنڈے میں سمجھ لیا ہے، اور ان کا خیال یہ ہے کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہ ہو جس کا علاج کوئی تعویذ نہ ہو، چنانچہ ان کو ہر کام کے لیے ایک تعویذ چاہیے، فلاں کام نہیں ہو رہا ہے، اس کے لیے کیا وظیفہ پڑھوں؟ فلاں کام کے لیے ایک تعویذ دے دیں لیکن ہمارے اکابر نے اعتدال کو ملحوظ رکھا کہ جس حد تک حضور اقدس ﷺ نے عمل کیا، اس حد تک ان پر عمل کریں, یہ نہیں کہ دن رات آدمی یہی کام کرتا رہے، اور دین و دنیا کا ہر کام تعویز گنڈے کے ذریعہ کرے ، یہ بات غلط ہے،*

*"●✿_ اگر یہ عمل درست ہوتا تو پھر سرکار دو عالم ﷺ کافروں پر کوئی ایسی جھاڑ پھونک کرتے کہ وہ سب حضور ﷺ کے قدموں میں آکر ڈھیر ہو جاتے، آپ علیہ السلام نے اس جھاڑ پھونک پر کبھی کبھی عمل بھی کیا ہے، لیکن اتنا غلو اور انہماک بھی نہیں کیا کہ ہر کام کے لیے تعویذ گنڈے کو استعمال فرماتے۔*

*"●✿_ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کرنا نہ عبادت ہے اور نہ اس پر ثواب، یاد رکھیے ! تعویذ اور جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج جائز ہے، مگر یہ عبادت نہیں، قرآن کریم کی آیات کو اور قرآن کریم کی سورتوں کو اور اللہ تعالی کے ناموں کو اپنے کسی دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جائز ہے، لیکن یہ کام عبادت نہیں اور اس میں ثواب نہیں ہے،*

*"●✿__یہ جھاڑ پھونک اور یہ تعویذ کوئی عبادت نہیں، بلکہ علاج کا ایک طریقہ ہے، اس پر کوئی اجر و ثواب مرتب نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اس کی اجرت لینا دینا بھی جائز ہے، اگر یہ عبادت ہوتی تو اس پر اجرت لینا جائز نہ ہوتا، کیونکہ کسی عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں، مثلاً کوئی شخص تلاوت کرے اور اس پر اجرت لے تو یہ حرام ہے، لیکن تعویذ پر اجرت لینا جائز ہے۔*
*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۱۵، ص ۲۲ )*        

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (70)_ دعا ! تعویذ جهاز پهونک وغیرہ سے بدرجہا افضل اور بہتر ہے_,*

*"●✿_ نبی کریم ﷺ دعا ضرور فرماتے تھے، اس لیے کہ سب سے بڑی اور اصل چیز دعا ہے، اگر براہ راست اللہ تعالی سے مانگو، اور دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالی سے دعا کرو کہ یا اللہ ! اپنی رحمت سے میرا یہ مقصد پورا فرما دیجیے، یا اللہ ! میری مشکل حل فرمادیجیے، یا اللہ ! میری یہ پریشانی دور فرمادیجیے، تو اس دعا کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے،*

*"●✿_ حضور اقدس ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی حاجت پیش آئے تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرو، اور اگر دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھ کر دعا کرو تو زیادہ اچھا ہے، اس سے یہ ہوگا کہ جو مقصد ہے وہ اگر مفید ہے تو ان شاء اللہ حاصل ہوگا اور ثواب تو ہر حال میں ملے گا،*

*"●✿_ دعا کرنا چاہیے چاہے دنیا کی غرض سے ہو، وہ ثواب کا موجب ہے، اس لیے کہ دعا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الدعاء هو العبادة “ یعنی دعا بذات خود عبادت ہے۔ لہذا اگر کسی شخص کو ساری عمر جھاڑ پھونک کا طریقہ نہ آئے، تعویذ لکھنے کا طریقہ نہ آئے لیکن وہ براہ راست اللہ تعالی سے دعا کرے تو یقینا اس کا یہ عمل اس تعویذ اور جھاڑ پھونک سے بدر جہا افضل اور بہتر ہے،*

*"●✿_ لہذا ہر وقت تعویذ گنڈے میں لگے رہنا یہ عمل سنت کے مطابق نہیں، جو بات نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے جس حد تک ثابت ہے اس کو اس حد پر رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے، اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو اللہ تعالی کا نام لے کر جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ہر وقت اس کے اندر انہماک اور غلو کرنا اور اس کو اپنا مشغلہ بنا لینا کسی طرح بھی درست نہیں،*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۵۸)*   

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (71)_ خواب اور اس کی تعبیر:-*

*"●✿__ ہمارے ہاں خواب کے معاملے میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے، بعض لوگ تو وہ ہیں جو سچے خوابوں کے قائل ہی نہیں، نہ خواب کے قائل، نہ خواب کی تعبیر کے قائل ہیں، یہ خیال غلط ہے، اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سچے خواب مبشرات ہیں۔*

*"●✿__اور دوسری طرف بعض لوگ وہ ہیں جو خوابوں ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور خواب ہی کو مدار نجات اور فضیلت سمجھتے ہیں، اگر کسی نے اچھا خواب دیکھ لیا تو بس اس کے معتقد ہو گئے، اور اگر کسی نے اپنے بارے میں اچھا خواب دیکھ لیا تو وہ اپنا ہی معتقد ہو گیا کہ میں اب پہنچا ہوا بزرگ ہو گیا ہوں۔*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ۹۰)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (72)_ خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی خواہش کرنا :-*
 
*"●✿_ الحمد للہ! اللہ تعالی اپنے فضل سے بہت سے لوگوں کو یہ سعادت عطا فرما دیتے ہیں اور انہیں خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہو جاتی ہے، یہ بڑی عظیم نعمت اور عظیم سعادت ہے لیکن اس معاملے میں ہمارے بزرگوں کے ذوق مختلف رہے ہیں، ایک ذوق تو یہ ہے کہ اس سعادت کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسے عمل کیے جاتے ہیں جس سے سرکار دو عالم ﷺ کی زیارت ہو جائے اور بزرگوں نے ایسے خاص عمل لکھے ہیں،*

*"●✿_ مثلاً یہ کہ جمعہ کی شب میں اتنی مرتبہ درود شریف پڑھنے کے بعد فلاں عمل کر کے سوئیں تو سرکار دو عالم ﷺ کی زیارت ہونے کی توقع اور امید ہوتی ہے، اس قسم کے بہت سے اعمال مشہور ہیں, اب اگر کوئی شخص اس ذوق کے پیش نظر خواب میں زیارت کی کوشش کرنا چاہے تو کرلے اور اس سعادت سے سرفراز ہو جائے ۔*

 *"●✿_لیکن دوسرے بعض حضرات کا ذوق کچھ اور ہے, مثلاً حضرت مفتی شفیع صاحب قدس اللہ سرہ کے پاس ایک صاحب آیا کرتے تھے، ایک مرتبہ آ کر کہنے لگے کہ طبیعت میں حضور ﷺ کی زیارت کا بہت شوق ہو رہا ہے، کوئی ایسا عمل دیجیے جس کے نتیجے میں یہ نعمت حاصل ہو جائے اور سرکار دو عالم ﷺ کی زیارت خواب میں ہو جائے،*

*"●✿_ حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ بھائی ! تم بڑے حوصلے والے آدمی ہو کہ تم اس بات کی تمنا کرتے ہو کہ سرکار دو عالم ﷺ کی زیارت ہو جائے، ہمیں یہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ یہ تمنا بھی کریں، اس لیے کہ ہم کہاں؟ اور نبی کریم ﷺ کی زیارت کہاں ؟ اس لیے کبھی اس قسم کے عمل سیکھنے کی نوبت ہی نہیں آئی، اور نہ کبھی یہ سوچا کہ ایسے عمل سیکھے جائیں، اس لیے کہ اگر زیارت ہو جائے تو ہم اس کے آداب، اس کے حقوق، اس کے تقاضے کسی طرح پورے کریں گے؟ اس لیے خود سے اس کے حصول کی کوشش نہیں کی، البتہ اگر اللہ تعالی اپنے فضل سے خود ہی زیارت کرا دیں تو یہ ان کا انعام ہے اور جب خود کرائیں گے تو پھر اس کے آداب کی بھی توفیق بخشیں گے،*.
*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۵، ص ۹۴)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(72)_خواب میں حضور ﷺ کا کسی بات کا حکم دینا:-*

*"●✿_یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہو گئی تو اس کا حکم یہ ہے کہ چونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو کوئی مجھے خواب میں دیکھتا ہے تو مجھے ہی دیکھتا ہے، اس لیے کہ شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا، لہذا اگر خواب میں حضور اقدس ﷺ کی زیارت ہو اور وہ کوئی ایسا کام کرنے کو کہیں جو شریعت کے دائرے میں ہے، مثلاً فرض ہے یا واجب ہے، یا سنت ہے، یا مباح ہے تو پھر اس کو اہتمام سے کرنا چاہیے اس لیے جو کام شریعت کے دائرے میں ہے اس کے کرنے کا جب آپ ﷺ حکم فرمارہے ہیں تو وہ خواب سچا ہوگا، اس کام کا کرنا ہی اس کے حق میں مفید ہے اور اگر نہیں کرے گا تو بعض اوقات اس کے حق میں بے برکتی شدید ہو جاتی ہے۔*

*"●✿_ لیکن اگر خواب میں حضور اقدس ﷺ ایسی بات کا حکم دیں جو شریعت کے دائرے میں نہیں ہے، مثلاً خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ آپ ﷺ نے ایک ایسی بات کا حکم فرمایا جو شریعت کے ظاہری احکام کے دائرے میں نہیں ہے تو خوب سمجھ لیجیے کہ اس خواب کی وجہ سے وہ کام کرنا جائز نہیں ہوگا،*

*"●✿_ اس لیے کہ ہمارے دیکھے ہوئے خواب کی بات کو اللہ تعالی نے مسائل شریعت میں حجت نہیں بنایا اور جو ارشادات حضور ﷺ سے قابل اعتماد واسطوں سے ہم تک پہنچے ہیں وہ حجت ہیں، ان پر عمل کرنا ضروری ہے، خواب کی بات پر عمل کرنا ضروری نہیں، کیونکہ یہ بات تو صحیح ہے کہ شیطان حضور ﷺ کی صورت مبارکہ میں نہیں آسکتا لیکن بسا اوقات خواب دیکھنے والے کے ذاتی خیالات اس خواب کے ساتھ مل گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس کو غلط بات یاد رہ جاتی ہے، یا سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے، اس لیے ہمارے خواب حجت نہیں ۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ۹۷)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
          *☞ _ (73)_ کشف کیا ہوتا ہے ؟*

*"●✿_ یہ خواب تو سونے کی حالت میں ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اللہ تعالی بیداری کی حالت میں کچھ چیزیں دکھاتے ہیں، جس کو کشف کہتے ہیں، چنانچہ اگر کسی کو کشف ہو گیا تو لوگ اس کو سب کچھ سمجھ بیٹھے کہ یہ بہت بزرگ آدمی ہے، اب چاہے بیداری کے اندر اس کے حالات سنت کے مطابق نہ بھی ہوں۔*

*"●✿__ خوب سمجھ لیجیے کہ انسان کی فضیلت کا معیار خواب اور کشف نہیں، بلکہ اصل معیار یہ ہے کہ اس کی بیداری کی زندگی سنت کے مطابق ہے یا نہیں؟ بیداری کی حالت میں وہ گناہوں سے پر ہیز کر رہا ہے یا نہیں؟ بیداری کی حالت میں وہ اللہ تعالی کی اطاعت کر رہا ہے یا نہیں؟ اگر اطاعت نہیں کر رہا ہے تو پھر اس کو ہزار خواب نظر آئے ہوں، ہزار کشف ہوئے ہوں، ہزار کرامتیں اس کے ہاتھ پر صادر ہوئی ہوں وہ معیار فضیلت نہیں،*

*"●✿__ آج کل اس معاملے میں بڑی سخت گمراہی پھیلی ہوئی ہے، پیری مریدی کے ساتھ اس کو لازم سمجھ لیا گیا ہے، ہر وقت لوگ خوابوں اور کشف و کرامات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ آج آپ دیکھیں کہ یہ جتنے جاہل پیر ہیں جو بدعات میں مبتلا ہیں وہ انہی خوابوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں، کوئی خواب دیکھ لیا یا کشف ہو گیا ، الہام ہو گیا اور اس کی بنیاد پر شریعت کے خلاف عمل کر لیا، خواب تو خواب ہے، اگر کسی کو کشف ہو جائے جو جاگتے اور بیداری کی حالت میں ہوتا ہے، اس میں آواز آتی ہے اور وہ آواز کانوں کوسنائی دیتی ہے، لیکن اس کے باجود کشف شریعت میں حجت نہیں،*

*"●✿__ کوئی شخص کتنا ہی پہنچا ہوا عالم یا بزرگ ہو، اس نے اگر خواب دیکھ لیا، یا اس کو کشف یا الہام ہو گیا وہ بھی شرعی احکام کے مقابلے میں حجت نہیں۔ وہ چیزیں حجت ہیں جو حضور اقدس ﷺ سے بیداری کے عالم میں ثابت ہیں ، کبھی خواب ، کشف اور الہام اور کرامت کے دھوکے میں مت آنا، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ صحیح کشف تو دیوانوں بلکہ کافروں کو بھی ہو جاتا ہے اس لیے کبھی اس دھو کے میں مت آنا کہ نور نظر آگیا، یا دل چلنے لگا، یا دل دھڑکنے لگا وغیرہ، اس لیے کہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ شریعت میں ان چیزوں کا کوئی مدار نہیں۔*
*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۵، ص ۱۰۱)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _(74)_ایسے معاشرے میں کیسے چلیں ؟ کیا کریں ؟ دنیا داری بھی کرنی‌پڑتی ھے "*

*"●✿__ آج کی دنیا میں جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ شریعت کی پابندی کرو، شریعت کے احکام پر چلو، واجبات اور فرائض بجالاؤ، گناہوں سے بچو، اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ان سے اجتناب کرو، تو بعض کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیسے کریں ؟ ماحول تو سارا کا سارا بگڑا ہوا ہے، باہر نکلیں تو نگاہوں کو پناہ نہیں ملتی اور دفتروں میں جاؤ تو رشوت کا بازار گرم ہے، کسی مجمع میں جاؤ تو وہاں عورتوں اور مردوں کا ایسا اختلاط ہے کہ نگاہوں کو پناہ ملنا مشکل ہے، سارا معاشرہ الٹی سمت جارہا ہے،*

*"●✿__ رشوت کا بازار گرم ہے، رشوت نہ لوں تو چلو ٹھیک ہے، نہ دوں تو کام نہیں بنتا، لوگ مجبور ہو جاتے ہیں، پورا بازار سود کے کاروبار سے بھرا ہوا ہے، نا جائز معاملات دن رات ہو رہے ہیں، حلال اور حرام کی فکر نہیں ہے، ماحول پورا غلط سمت میں جا رہا ہے، میں تنہا اکیلا اس ماحول میں کیا کروں؟ کیسے چلوں؟ شریعت کے احکام پر کیسے عمل کروں؟*
*"●✿__میرے شیخ حضرت عارفی قدس اللہ سرہ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ ذرا تصور کرو کہ میدان حشر میں تم اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہو اور اللہ تعالی تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمارہے ہیں، پوچھ رہے ہیں کہ تم نے یہ گناہ کیوں کیا تھا؟ ہماری نافرمانی کیوں کی تھی ؟ آپ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یا اللہ ! میں کیا کرتا ؟ آپ نے پیدا ہی ایسے زمانے میں کیا تھا، جس میں چاروں طرف معصیتیں کا, گناہوں کا بازار گرم تھا، ماحول خراب تھا، کہیں پر بھی جاتا تو دین پر چلنا مشکل ہو رہا تھا، تو ایسے زمانے میں آپ نے پیدا کیا تو میں مجبور ہو گیا، اور گناہوں میں مبتلا ہو گیا،*

*"●✿__ اگر اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں تم سے یہ کہیں کہ اگر تم کو مشکل ہو رہا تھا، ماحول کے خلاف چلنا مشکل لگ رہا تھا تو ہم سے رجوع کیوں نہیں کیا ؟ ہم سے کیوں نہیں مانگا ؟ ہم نے تو پورے قرآن میں جگہ جگہ کہا تھا: (إن الله على كل شيئ قدير ) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔ اور تم بھی ایمان لائے تھے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں اور تم ہر نماز کے اندر یہ کہتے بھی تھے إياك نعبد وإياك نستعین تو یہ بتاؤ جب تمہیں مشکل پیش آرہی تھی تو تم نے ہم سے رجوع کر کے کیوں نہیں مانگا ؟ کہ یا اللہ ! میرے لیے مشکل ہو رہا ہے، ماحول خراب ہے، زمانہ پلٹ چکا ہے، اس ماحول اور اس زمانے میں میرے لیے دین پر چلنا مشکل ہو رہا ہے، یا اللہ ! مجھے اپنی رحمت سے توفیق دے دیجیے اور میری مدد فرما دیجیے، کہ میں آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزار دوں، ہم سے کیوں نہیں مانگا ؟*

*"●✿__ بتاؤ اس کا کیا جواب ہے ؟ اس کا کوئی جواب نہیں، اللہ تعالی نے تو ہر روز ہر نماز میں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ تم سے پڑھوائی تھی، ہر رکعت میں تم یہ کہتے تھے کہ إياك نعبد وإياك نستعين ليكن عمل کیوں نہیں کیا ؟ مانگتے اللہ تعالی سے کہ یا اللہ ! مجھ سے نہیں ہو رہا ہے آپ مجھے توفیق دے دیجیے ، اللہ تعالی کی رحمت پر قدرت پر ایمان رکھتے ہوئے مانگو، یا اللہ میں پھنس گیا ہوں سود میں، سودی کاروبار میں، مجھے اس سے نکال دیجیے، یا اللہ ! میں پھنس گیا ہوں فلاں گناہ میں ، یا اللہ ! مجھے اس سے نکال دیجیے، مانگتے رہو مسلسل مانگو اللہ تعالی سے۔

*®_ (خطبات عثمانی، ج ۱، ص ۱۲۲)*  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (75)_ اچھائی اور برائی کا فیصلہ کون کرے گا ؟*
 
*"●✿_ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ بڑے کام کی بات فرمایا کرتے تھے، یاد رکھنے کی ہے، وہ فرماتے تھے کہ : تم کہتے ہو کہ ماحول خراب ہے، معاشرہ خراب ہے، ارے! تم اپنا ماحول خود بناؤ، تمہارے تعلقات ایسے لوگوں سے ہونے چاہئیں جو ان اصولوں میں تمہارے ہم نوا ہوں، جو لوگ ان اصولوں میں تمہارے ہم نوا نہیں ان کا راستہ الگ ہے اور تمہارا راستہ الگ ہے، لہذا اپنا ایک ایسا حلقہ احباب تیار کرو جو ایک دوسرے کے ساتھ ان معاملات میں تعاون کے لیے تیار ہوں اور ایسے لوگوں سے تعلق گھٹاؤ جو ایسے معاملات میں تمہارے راستے میں رکاوٹ ہیں۔*

*"●✿_ اسی طرح یہ بات کہ کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری ہے؟ کیا کام اچھا ہے اور کیا کام برا ہے ؟ کیا چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام ہے؟ کون سا کام جائز ہے اور کان سا کام نا جائز ہے؟ یہ کام اللہ تعالی کو پسند اور یہ کام اللہ تعالی کو نا پسند ہے، یہ فیصلہ وحی پر چھوڑا گیا محض انسان کی عقل پر نہیں چھوڑا گیا، اس لیے کہ تنہا انسان کی عقل یہ فیصلہ نہیں کر سکتی تھی،*

*"●✿_ اس دنیا کے اندر جتنی بڑی سے بڑی برائیاں پھیلی ہیں اور غلط سے غلط نظریات اس دنیا کے اندر آئے وہ سب عقل کی بنیاد پر آئے، مثلاً ہم اور آپ بحیثیت مسلمان کے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شراب پینا حرام ہے، شراب بری چیز ہے، لیکن جو شخص وحی الہٰی پر ایمان نہیں رکھتا، وہ یہ کہے گا کہ شراب پینے میں کیا قباحت ہے؟ کیا برائی ہے؟ ہمیں تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی، لاکھوں افراد شراب پی رہے ہیں، حتیٰ کہ بعض لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مرد و عورت کے درمیان بدکاری میں کیا حرج ہے؟ اگر ایک مرد اور ایک عورت اس کام پر رضا مند ہیں تو اس کام میں عقلی خرابی کیا ہے؟ اور اگر رضا مندی کے ساتھ مرد و عورت نے یہ کام کر لیا تو تیسرے آدمی کو کیا اختیار ہے کہ اس کے اندر رکاوٹ ڈالے؟*

*"●✿_ دیکھیے! اسی عقل کے بل بوتے پر بد سے بدتر برائی کو جائز اور صحیح قرار دیا گیا، اس لیے کہ جب عقل کو اس کے دائرہ کار سے آگے بڑھایا تو یہ عقل اپنا جواب غلط دینے لگی، لہٰذا جب انسان عقل کو اس جگہ پر استعمال کرے گا جہاں پر اللہ تعالی کی وحی آچکی ہے تو وہاں پر عقل غلط جواب دینے لگی گی اور غلط راستے پر لے جائے گی۔*

*®_ (خطبات عثمانی، ج ۱، ص ۱۲۲)*  

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (76)_ ظالم حکمران کیوں مسلط ہو رہے ہیں؟*

*"●✿_ آج ہر شخص یہ شکوہ کر رہا ہے کہ ہمارے اوپر ایسے لوگ حکمران بن کر آ جاتے ہیں جو ظالم ہوتے ہیں، جو عام کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے جو اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں اور جو بے دین ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے حکمران ہمارے اوپر کیوں مسلط ہوتے ہیں؟ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "إنما أعمالكم عمالکم“ جو حکمران تمہارے اوپر آتے ہیں وہ سب تمہارے اعمال کا آئینہ ہوتے ہیں،*

*"●✿_ اگر تمہارے اعمال درست ہوتے، اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اللہ کے احکام کا پاس ہوتا تو یہ ظالم اور جابر حکمران تم پر حاکم بن کر نہیں آسکتے تھے لیکن تمہارے اعمال کی وجہ سے یہ حکمران تمہارے اوپر مسلط ہوئے۔ لوگ حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں، ان کو گالیاں دیتے ہیں، حالانکہ حدیث میں فرمایا کہ حکمرانوں کو گالیاں مت دو، بلکہ اعمال کو درست کرو، جو کچھ مصائب آرہے ہیں تمہارے اعمال کے سبب آرہے ہیں،*
*®_( خطبات عثمانی، ج ۳،)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (77)_ محلے کی مسجد چھوڑ کر جامع مسجد میں نماز پڑھنا:-*

*"●✿_ فرمایا کہ محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے پانچ سو گنا ثواب ملتا ہے۔ لیکن شریعت کا حکم یہ ہے کہ محلے کی مسجد میں نماز پڑھو، کیونکہ محلے کی اس مسجد کو آباد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے، اس لئے کہ تم اہل محلہ ہو،*

*"●✿_ اب اگر سارے محلے کے لوگ پانچ سو کا ثواب حاصل کرنے کے چکر میں جامع مسجد چلے جائیں اور محلے کی مسجد خالی ہو جائے تو وہ گناہ گار ہوں گے، کیونکہ اہل محلہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے محلے کی مسجد آباد کریں۔ تو اگر چہ جامع مسجد میں ثواب کی گنتی زیادہ ہے، اس لئے گنتی کے چکر میں مسنون عبادت کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔*
*®_ [ اصلاحی مجالس ، ج ۲، ص ۱۱۹]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (78)_ کیا نماز کی نیت زبان سے کرنی ضروری ہے، نماز کے لیے نیت کس طرح کی جائے ؟*

*"●✿_ آج کل لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ ہر نماز کی نیت کے الفاظ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور جب تک وہ الفاظ نہ کہے جائیں اس وقت تک نماز نہیں ہوتی، یہاں تک کہ دیکھا گیا کہ امام صاحب رکوع میں ہیں، مگر وہ صاحب اپنی نیت کے تمام الفاظ ادا کرنے میں مصروف ہیں اور اس کے نتیجے میں رکعت بھی چلی جاتی ہے، اسی وجہ سے لوگ بار بار یہ پوچھتے بھی رہتے ہیں کہ فلاں نماز کی نیت کس طرح ہوتی ہے؟ اور فلاں نماز کی نیت کس طرح ہو گی؟ اور لوگوں نے نیت کے الفاظ کو با قاعدہ نماز کا حصہ بنا رکھا ہے،*

*"●✿_ مثلاً یہ الفاظ کہ نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز کی، پیچھے اس امام کے واسطے اللہ تعالی کے، منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ أکبر، خوب سمجھ لیں کہ نیت ان الفاظ کا نام نہیں ہے بلکہ نیت تو دل کے ارادے کا نام ہے، جب آپ نے گھر سے نکلتے وقت دل میں یہ نیت کر لی کہ میں ظہر کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں تو بس نیت ہوگئی، میں نماز جنازہ پڑھنے جارہا ہوں تو بس نیت ہوگئی، میں نماز عید پڑھنے جا رہا ہوں، بس نیت ہوگئی،*

*"●✿_ اب یہ الفاظ زبان سے کہنا نہ تو واجب ہیں نہ ضروری ہیں، نہ سنت ہیں نہ مستحب ہیں، زیادہ سے زیادہ جائز ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں، لہٰذا صلوۃ الحاجت پڑھنے کا نہ کوئی مخصوص طریقہ ہے اور نہ ہی نیت کے لیے الفاظ مخصوص ہیں، بلکہ عام نمازوں کی طرح دور کعتیں پڑھ لو۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۴۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ __(79)_نماز پڑھنے کے دوران آنکھیں بند کرلینا:-

*"●✿__ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے مواعظ میں بیان کیا کہ ان کے قریب کے زمانے میں ایک بزرگ تھے، وہ جب نماز پڑھا کرتے تھے تو آنکھیں بند کر کے نماز پڑھتے تھے، اور فقہا کرام نے لکھا ہے کہ نماز میں ویسے تو آنکھ بند کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کسی شخص کو اس کے بغیر خشوع حاصل نہ ہوتا ہو تو اس کے لیے آنکھ بند کر کے نماز پڑھنا جائز ہے، کوئی گناہ نہیں ہے،*

*"●✿__ تو وہ بزرگ نماز بہت اچھی پڑھتے تھے اور لوگوں میں ان کی نماز مشہور تھی، کیونکہ نہایت خشوع و خضوع اور نہایت عاجزی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، وہ بزرگ صاحب کشف بھی تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اللہ تعالی سے درخواست کی یا اللہ ! میں یہ جو نماز پڑھتا ہوں میں اس کو دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے یہاں میری نماز قبول ہے یا نہیں ؟ اور کس درجہ میں قبول ہے؟ اور اس کی صورت کیا ہے؟ وہ مجھے دکھا دیں،*

*"●✿__ اللہ تعالی نے ان کی یہ درخواست قبول فرمائی اور ایک نہایت حسین و جمیل عورت سامنے لائی گئی، جس کے سر سے لے کر پاؤں تک تمام اعضاء میں نہایت تناسب اور توازن تھا لیکن اس کی آنکھیں نہیں تھی، بلکہ اندھی تھی اور ان سے کہا گیا کہ یہ ہے تمہاری نماز، ان بزرگ نے پوچھا کہ یا اللہ ! یہ اتنے اعلیٰ درجہ کی حسن و جمال والی خاتون ہے، مگر اس کی آنکھیں کہاں ہیں ؟ جواب میں فرمایا کہ تم جو نماز پڑھتے ہو وہ آنکھیں بند کر کے پڑھتے ہو، اس واسطے تمہاری نماز ایک اندھی عورت کی شکل میں دکھائی گئی۔*

*"●✿__یہ واقعہ حضرت حاجی صاحب قدس اللہ سرہ نے بیان فرمایا اور حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بات در اصل یہ تھی کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے نماز پڑھنے کا جو سنت طریقہ بتایا وہ یہ تھا کہ آنکھیں کھول کر نماز پڑھو سجدہ کی جگہ پر نگاہ ہونی چاہیے، اگر چہ فقہا کرام نے یہ فرمایا کہ اگر نماز میں خیالات بہت آتے ہیں اور خشوع حاصل کرنے کے لیے اور خیالات کو دفع کرنے کے لیے کوئی شخص آنکھیں بند کر کے نماز پڑھتا ہے تو کوئی گناہ نہیں، جائز ہے مگر پھر بھی خلاف سنت ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ساری عمر کبھی کوئی نماز آنکھیں بند کر کے نہیں پڑھی، اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کبھی کوئی نماز آنکھ بند کر کے نہیں پڑھی، اس لیے فرمایا کہ ایسی نماز میں سنت کا نور نہیں ہوگا۔*

*"●✿__ اور یہ جو خیال ہو رہا ہے کہ چونکہ نماز میں خیالات دوساوس بہت آتے ہیں، اس لیے آنکھ بند کر کے نماز پڑھ لو، تو بھائی، اگر خیالات غیر اختیاری طور پر آتے ہیں تو اللہ تعالی کے ہاں اس پر کوئی مواخذہ کوئی پکڑ نہیں، وہ نماز جو آنکھیں کھول کر اتباع سنت میں پڑھی جارہی ہے اور اس میں غیر اختیاری خیالات آرہے ہیں وہ نماز پھر بھی اس نماز سے اچھی ہے جو آنکھ بند کر کے پڑھی جا رہی ہے اور اس میں خیالات بھی نہیں آرہے ہیں، اس لیے کہ وہ نماز نبی کریم ﷺ کی اتباع میں ادا کی جا رہی ہے اور یہ دوسری نماز اتباع رسول نہیں ہے۔*
*®_(اصلاحی خطبات ج ۱، ص ۲۲۱ تا ۲۲۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (80)_ جاہل پیروں کا یہ خیال کہ ان پر نماز روزه وغیره معاف ہے گمراهی ہے،*

*"●✿_ چنانچہ جاہل پیروں کا ایک طبقہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم تو اب درویش اور فقیر ہو گئے ہیں اور اب تو ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گم ہیں، لہٰذا اب ہمیں نہ نماز کی ضرورت ہے، نہ روزے کی ضرورت ہے، نہ تلاوت کی ضرورت ہے، نہ تسبیحات کی ضرورت ۔ اس لئے کہ نماز کا مقصود تو وصول الی اللہ تھا، یعنی اللہ تعالی تک پہنچ جانا، اب جب ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اللہ تعالیٰ کا خیال جم گیا، تو اب ہمیں نماز کی ضرورت نہیں، اب ہم مسجد جائیں یا نہ جائیں، نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔*

*"●✿_ یاد رکھئے ! یہ گمراہی ہے، اور یہ گمراہی یہاں سے پیدا ہوئی کہ ذکر قلبی کو اس درجہ کا مقصود قرار دیدیا کہ اس کے نتیجے میں ظاہری عبادات کو بیکار سمجھا جانے لگا، یہی گمراہی ہے۔ حضرت شیخ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں ایک حکایت لکھی ہے، ایک مرتبہ شیخ عبد القادر جیلانی تہجد پڑھ رہے تھے، اس دوران انہوں نے دیکھا کہ ایک نور چمکا اور پوری فضا منور ہوگئی اور اس نور میں سے آواز آئی: اے عبد القادر ! تو نے ہماری عبادت کا حق ادا کر دیا، جو عبادت اب تک تم نے ادا کر لی وہ کافی ہے، آج کے بعد تم پر نماز فرض نہیں، روزہ فرض نہیں، تمام عبادات کی تکلیف تم سے اٹھالی گئی۔*

*"●✿_ حضرت عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے جب یہ نور دیکھا اور یہ آواز سنی تو فوراً جواب میں فرمایا : کمبخت ! دور ہو جا مجھے دھوکہ دیتا ہے، حضور اقدس ﷺ سے تو عبادتیں معاف نہیں ہوئیں اور ان پر سے عبادتوں کی تکلیف ختم نہیں ہوئی، مجھ سے ختم ہو جائے گی ؟ تو مجھے دھو کہ دینا چاہتا ہے؟“*

*"●✿_ دیکھیے ! شیطان نے کتنا بڑا وار کیا، لیکن شیخ تو شیخ تھے، فوراً سمجھ گئے کہ یہ بات اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ حضور اقدس ﷺ پر سے تو عبادت کی تکلیف ختم نہیں ہوئی، میرے اوپر سے کیسے ختم ہو جائے گی ؟۔*

*"●✿_ (‌پچھلے پارٹ سے جاری ) تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک اور نور چمکا اور فضا منور ہوئی اور اس نور میں سے آواز آئی : اے عبد القادر ! آج تیرے علم نے تجھے بچا لیا، ورنہ میں نے نجانے کتنے عابدوں کو اس وار کے ذریعہ تباہ کر دیا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے دوبارہ فرمایا : کمبخت! دوبارہ مجھے دھوکہ دیتا ہے، میرے علم نے مجھے نہیں بچایا، مجھے اللہ کے فضل نے بچایا ہے۔*

*●✿_ یہ دوسرا حملہ پہلے حملے سے زیادہ خطر ناک اور اس سے زیادہ سنگین تھا، کیونکہ اس کے ذریعہ ان کے اندر علم کی بڑائی اور اس کا ناز پیدا کرنا چاہتا تھا۔ حضرت شیخ عبد الوہاب شعرانی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ پہلا حملہ اتنا سنگین نہیں تھا، کیونکہ جس شخص کے پاس ذرا بھی شریعت کا علم ہو، وہ اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ زندگی میں ہوش حواس کی حالت میں کسی انسان سے عبادات معاف نہیں ہو سکتیں، لیکن یہ دوسرا حملہ بڑا سنگین تھا، نہ جانے کتنے لوگ اس حملے میں بہک گئے، اس لیے کہ اس میں اپنے علم پر ناز پیدا کرنا مقصود تھا اور یہ بار یک بات ہے۔*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (81)_ "لوگ کیا سوچیں گے ؟“ کی وجہ سے نیک عمل کو چھوڑ دینا بھی تکبر ہے _,*

*"●✿_حضرت والا نے یہ اصول ارشاد فرمادیا کہ پس مخلوق کے لئے کسی بھی عمل عبادت کو ترک کرنا تکبر ہے۔ جس طرح مخلوق کے لئے عمل کرنا ریا کاری اور دکھاوا ہے، یعنی مخلوق کے خاطر عمل کرنا کہ مخلوق مجھے دیکھ کر عبادت گزار سمجھے، جس طرح یہ عمل ریا ہے بلکہ شرک کے قریب پہنچ جاتا ہے، اسی طرح ترک عمل للخلق بھی جائز نہیں، اس لئے یہ ترک عمل یا تو ریا ہوگا یا تکبر میں داخل ہوگا۔*

*"●✿_ مثلاً نماز کا وقت آگیا اور آپ اس وقت ایسی جگہ پر ہیں جہاں نماز کا ماحول نہیں، اب اگر آپ وہاں نماز پڑھنے سے اس لئے شرمائیں کہ لوگ مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر معلوم نہیں کیا سمجھیں گے۔ اب اگر آدمی اس وجہ سے نماز چھوڑ دے کہ اگر میں یہاں نماز پڑھوں گا تو یہ لوگ تماشہ بنائیں گے, تو یہ خطر ناک خیال ہے العیاذ باللہ تو یہ ترک عمل المخلق ہے جو جائز نہیں۔*

*"●✿_ آج کل بہت کثرت سے یہ صورت پیش آتی رہتی ہے، مثلاً جو لوگ ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں، انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جہاز میں نماز معاف ہے اور نماز کو چھوڑنے کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ سب لوگ تو بیٹھے ہیں، اب اگر میں ان سب کے سامنے کھڑا ہو کر نماز پڑھوں گا تو ایک عجیب سی صورت پیدا ہو جائے گی۔ العیاذ باللہ ۔ نماز تو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ہے، اب جو شخص اس وقت نماز کو ترک کر رہا ہے وہ مخلوق کے سامنے اس عاجزی کا اظہار نہیں کرنا چاہ رہا ہے، اس لئے کہ اس سے میری بے عزتی ہوگی، تو یہ صورت تکبر مع الله ہے۔*

*"●✿_فرض نماز کسی حالت میں بھی معاف نہیں، جو عبادات فرض ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے جو تخفیف کر دی، اس تخفیف کے ساتھ ان کو انجام دینا ہی ہے، مثلاً نماز ہے، انسان کتنا ہی بیمار ہو، بستر مرگ پر ہو اور مرنے کے قریب ہو، تب بھی نماز ساقط نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے یہ آسانی تو فرمادی کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں تو بیٹھ کر پڑھ لو، بیٹھ کر پڑھنے کی طاقت نہیں تو لیٹ کر پڑھ لو، وضو نہیں کر سکتے تو تیم کر لو، اگر کپڑے پاک رکھنا بالکل ممکن نہیں تو اسی حالت میں پڑھ لو لیکن نماز کسی حالت میں معاف نہیں، جب تک انسان کے دم میں دم ہے،*

*®(اصلاحی خطبات، ج ۱، ص ۱۸۲)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (82)_ صرف نفلی عبادات ہی نجات کے لیے کافی نہیں:-*

*"●✿_ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "اتق المحارم تكن أعبد الناس“ یعنی تم حرام کاموں سے بچو تو تم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے، اس جملہ کے ذریعے یہ حقیقت واضح فرمادی کہ فرائض و واجبات کی تعمیل کے بعد سب سے زیادہ اہم چیز مؤمن کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نا جائز و حرام کاموں سے بچائے، نفلی عبادتوں کا معاملہ اس کے بعد آتا ہے، اگر کوئی شخص اس دنیا میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچالے تو ایسا شخص سب سے زیادہ عبادت گزار ہے، چاہے وہ نفلیں زیادہ نہ پڑھتا ہو۔*

*●✿"_حضور اقدس ﷺ نے اس جملے کے ذریعہ ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ فرمایا ہے, وہ یہ کہ ہم لوگ بسا اوقات نفلی عبادتوں کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں، مثلاً نوافل پڑھنا، تسبیح ، مناجات ، تلاوت وغیرہ ، حالانکہ ان میں کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں جو فرض ہو، چاہے نفلیں نمازیں ہوں، یا نفلی روزے ہوں، یا نفلی صدقات ہوں، ان کو تو ہم نے بڑی اہمیت دی ہوئی ہے لیکن گناہوں سے بچنے کا اور ان کو ترک کرنے کا اہتمام نہیں،*

*"●✿_ یاد رکھیں ! کہ یہ نفلی عبادات انسان کو نجات نہیں دلا سکتیں جب تک انسان گناہوں کو نہ چھوڑے، نفلی نمازیں پڑھ لیں، تلاوت زیادہ کر لیں، ذکر و تسبیح زیادہ کر لیں، یہ بھی اچھی بات ہے، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ میں نفل عبادات تو کر رہا ہوں ساتھ میں گناہ بھی تو کر رہا ہوں، اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حرام اور نا جائز قرار دیا ہے ان کے اندر مبتلا ہو رہا ہوں، دونوں کا اگر موازنہ کریں تو یہ نظر آئے گا کہ نفلی عبادات سے جو فائدہ ہورہا تھا وہ گناہوں کے ذریعے نکل رہا ہے۔*

*"●✿_اس بات کو ایک مثال سے اور زیادہ واضح طریقے پر سمجھ لیں، فرض کریں کہ ایک شخص نفلی عبادات بھی کرتا ہے، ذکر میں و تلاوت میں مشغول رہتا ہے، ہر وقت اس کی تسبیح چلتی رہتی ہے لیکن ساتھ میں وہ گناہ بھی کرتا رہتا ہے، دوسرا شخص وہ ہے جس نے زندگی بھر ایک نفلی عبادت نہیں کی لیکن زندگی بھر اس نے کوئی گناہ بھی نہیں کیا، بتاؤ ان دونوں میں سے افضل کون ہے؟ وہ شخص افضل ہے جس نے گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گذاری، اگر چہ نفلی عبادتوں میں اس کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، اس شخص سے آخرت میں یہ سوال نہیں ہو گا کہ تم نے نفلی عبادات کیوں نہیں کیں؟ کیونکہ نفلی عبادات فرض نہیں ہیں، لہٰذا ان شاء اللہ وہ سیدھا جنت میں جائے گا ، اس کے برخلاف پہلا شخص جو نفلی عبادات میں تو بہت مشغول رہا لیکن ساتھ ساتھ گناہ بھی کرتا رہا، اور گناہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آخرت میں سوال ہوگا، نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسا شخص بڑے خسارے میں ہوگا۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۲، ص ۹۰)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (83)_ ہم نے الله کو کب اور کیسے بھلا دیا ؟ ہم نماز تو پڑھتے ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں_,*

*"●✿__ عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالی کو کہاں بھلا دیا، اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا کہ نماز پڑھو، ہم نماز پڑھ رہے ہیں، اللہ تعالی کا حکم تھا کہ جمعہ کی نماز کے لیے آؤ، ہم جمعہ کی نماز کے لیے آرہے ہیں، اللہ تعالی کا حکم تھا کہ رمضان میں روزے رکھو تو ہم روزے رکھ رہے ہیں، لہٰذا ہم نے اللہ کو نہیں بھلایا۔*

*"●✿__ بات در اصل یہ ہے کہ لوگوں نے صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے کو دین سمجھ لیا ہے اور زکوٰۃ دینے اور حج کرنے اور عمرے کرنے کو دین سمجھ لیا ہے، حالانکہ دین کے بے شمار شعبے ہیں، اس میں معاملات بھی ہیں، اس میں معاشرت بھی ہے، اس میں اخلاق بھی ہے، یہ سب دین کے شعبے ہیں، اب ہم نے نماز تو پڑھ لی اور روزے بھی رکھ لئے زکوة کا وقت آیا تو زکوٰۃ بھی دے دی، عمرے کر کے خوب سیر سپاٹے بھی‌کر لیے لیکن جب اللہ تعالی کے حکم آگے اپنے مصالح کو قربان کرنے کا موقع آتا ہے تو وہاں پھسل جاتے ہیں اور تاویل شروع کر دیتے ہیں کہ آج کل سب لوگ ایسا کر رہے ہیں اور حالات ایسے ہیں وغیرہ وغیرہ ،*

*"●✿__ آج ہم اللہ تعالی کے احکام کو بھلائے ہوئے ہیں، خاص طور سے اپنی معاشرت کی زندگی میں، اپنے معاملات کی زندگی میں، اخلاق کی زندگی میں اور سیاست کی زندگی میں اسلام کو اور اسلامی احکام کو فراموش کیا ہوا ہے۔*

*{ اصلاحی خطبات- ج ۱۵، ص ۱۱۱}* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (84) _ قضاء نمازوں کا حساب کس طرح کیا جائے ؟*

*●✿__ سب سے پہلے معاملہ نماز کا ہے، بالغ ہونے کے بعد سے اب تک جتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں، ان کا حساب لگائے ، بالغ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا اس وقت بالغ ہوتا ہے جب اس کو احتلام ہو، اور لڑکی اس وقت بالغ ہوتی ہے جب اس کو حیض آنا شروع ہو جائے، لیکن اگر کسی کے اندر یہ علامتیں ظاہر نہ ہوں، تو اس صورت میں جس دن پندرہ سال عمر ہو جائے اس وقت وہ بالغ ہو جاتا ہے، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ہو، اس دن سے اس کو بالغ سمجھا جائے،*

*●✿__ اس دن سے اس پر نماز بھی فرض ہے، روزے بھی فرض ہیں، اور دوسرے فرائض دینیہ بھی اس پر لاگو ہو جائیں گے۔ لہٰذا انسان سب سے پہلے یہ حساب لگائے کہ جب سے میں بالغ ہوا ہوں، اس وقت سے اب تک کتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں، بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے، اور بچپن ہی سے ماں باپ نے نماز پڑھنے کی عادت ڈال دی، جس کی وجہ سے بالغ ہونے کے بعد سے اب تک کوئی نماز قضا ہی نہیں ہوئی، اگر ایسی صورت ہے تو سبحان اللہ ! اور ایک مسلمان گھرانے میں ایسا ہی ہونا چاہیے،*

*●✿__ اگر بالفرض بالغ ہونے کے بعد غفلت کی وجہ سے نمازیں چھوٹ گئیں تو ان کی تلافی کرنا فرض ہے، تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کا جائزہ لے کر یاد کرے کہ میرے ذمے کتنی نمازیں باقی ہیں ؟ اگر ٹھیک ٹھیک حساب لگا نا ممکن ہو تو ٹھیک ٹھیک حساب لگالے، لیکن اگر ٹھیک ٹھیک حساب لگانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ایک محتاط اندازہ کر کے اس طرح حساب لگائے کہ اس میں نمازیں کچھ زیادہ تو ہو جائیں لیکن کم نہ ہوں، اور پھر اس کو ایک کاپی میں لکھ لے کہ : " آج اس تاریخ کو میرے ذمے اتنی نمازیں فرض ہیں اور آج سے میں ان کو ادا کرنا شروع کر رہا ہوں، اور اگر میں اپنی زندگی میں ان نمازوں کا ادا نہ کر سکا تو میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے ترکے سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
    *☞_ (85) _ قضاء نمازوں کی وصیت:-*

*"●✿___یہ وصیت لکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر آپ نے یہ وصیت نہیں لکھی اور قضا نمازوں کو ادا کرنے سے پہلے آپ کا انتقال ہو گیا تو اس صورت میں ورثاء کے ذمے شرعاً یہ ضروری نہیں ہو گا کہ آپ کی نمازوں کا فدیہ ادا کریں ، یہ فدیہ ادا کرنا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا، چاہیں تو دیں اور چاہیں تو نہ دیں، اگر فدیہ ادا کرنے کی وصیت کر دی تو اس صورت میں ورثاء شرعاً اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ کل مال کے ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس وصیت کو نافذ کریں اور نمازوں کا فدیہ ادا کریں۔*

*"●✿__حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے پاس کوئی بات وصیت لکھنے کے لیے موجود ہو تو اس کے لیے دو راتیں بھی وصیت لکھے بغیر گزارنا جائز نہیں۔ (ترندی : ص ۳۳ ج ۲)،*
*"_ لہذا اگر کسی کے ذمے نمازیں قضا ہیں تو اس حدیث کی روشنی میں اس کو وصیت لکھنا ضروری ہے،*

*"●✿_ اب ہم لوگوں کو ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ ہم میں سے کتنے لوگوں نے اپنا وصیت نامہ لکھ کر رکھا ہوا ہے، حالانکہ وصیت نامہ نہ لکھنا ایک مستقل گناہ ہے، جب تک وصیت نامہ نہیں لکھے گا اس وقت تک یہ گناہ ہوتا رہے گا، اس لیے فوراً آج ہی ہم لوگوں کو اپنا وصیت نامہ لکھ لینا چاہیے، اگر یہ دو کام کر لیے تو پھر اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ اگر بالفرض نمازیں پوری ہونے سے پہلے ہی وفات ہو گئی تو ان شاء اللہ معافی ہو جائے گی,*

*"●✿_ لیکن اگر یہ دو کام نہ کیے, نہ تو وصیت کی اور نہ ہی نمازوں کو ادا کرنا شروع کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز جیسے عظیم الشان فریضے سے یہ شخص غافل ہے۔*
*{ اصلاحی خطبات، ج ٦، ص ٥٦}*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(86)_ قضاء (عمری) نمازوں کو کس طرح ادا کیا جائے ؟*

*"●✿_ قضا نمازوں کو جلد از جلد ادا کرنا شروع کریں، ان کو قضاء عمری بھی کہتے ہیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مستقل کاپی بنائے، اس کاپی کے اندر لکھے کہ میرے ذمے اتنی نمازیں باقی ہیں، اگر پوری طرح یاد نہ ہوں تو ایک احتیاطی تخمینہ لگا کر ان کی تعداد لکھے اور یہ لکھے کہ میں آج فلاں تاریخ سے ان نمازوں کی ادائیگی شروع کر رہا ہوں،*

*"●✿_ پھر ہر وقتی نماز کے ساتھ ایک نماز قضا بھی پڑھ لے مثلاً فجر کے ساتھ فجر، ظہر کے ساتھ ظہر، عصر کے ساتھ عصر، مغرب کے ساتھ مغرب اور عشا کے ساتھ عشاء اور اگر کسی کے پاس وقت زیادہ ہو تو ایک سے زیادہ بھی پڑھ سکتا ہے، تا کہ جتنی جلدی یہ نمازیں پوری ہو جائیں اتنا ہی بہتر ہے، بلکہ وقتی نمازوں کے ساتھ جو نوافل ہوتے ہیں، ان کے بجائے قضا نماز پڑھ لے، اور نماز فجر کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد نفلی نماز پڑھنا تو جائز نہیں لیکن قضا (عمری) نماز پڑھنا جائز ہے،*

*"●✿_ قضا نماز کی نیت کس طرح کریں ؟ ہر قضا نماز جتنی فجر کی نمازیں قضا ہیں، ان میں سب سے پہلی فجر کی نماز پڑھ رہا ہوں، اسی طرح ظہر کی نماز قضا کرتے وقت یہ نیت کرے کہ میرے ذمے ظہر کی جتنی نمازیں قضا ہیں، ان میں سے سب سے پہلی ظہر کی نماز پڑھ رہا ہوں، اسی طرح عصر، مغرب اور عشا میں نیت کرے، اور اگلے روز پھر یہی نیت کرے,*

*"●✿_اس میں اللہ تعالی نے اتنی آسانی فرمادی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس آسانی سے فائدہ اٹھائیں، اور جتنی جلدی نمازیں ادا کرتے جائیں، اس کاپی میں ساتھ ہی ساتھ لکھتے جائیں کہ اتنی ادا کر لیں اتنی باقی ہیں۔*

*"●✿_سنتوں کے بجائے قضا نماز پڑھنا درست نھیں، بعض لوگ یہ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ چونکہ ہمارے ذمے قضاء نمازیں بہت باقی ہیں تو کیا ہم سنتیں پڑھنے کے بجائے قضا پڑھ سکتے ہیں؟ تاکہ قضا نماز میں جلد پوری ہو جائیں، اس کا جواب یہ ہے کہ سنت مؤکدہ پڑھنی چاہیے، ان کو چھوڑ نا درست نہیں، البتہ نوافل کے بجائے قضا نمازیں پڑھنا جائز ہے۔*
*{ اصلاحی خطبات، ج ۶، ص ۵۸]* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(87)_ قضائے عمری نمازوں کی ادائیگی کا انکار غلط نظریه ہے-١:-*

*"●✿_ آج کل یہ مسئلہ بہت زور و شور سے پھیلایا جا رہا ہے کہ قضاء عمری کوئی چیز نہیں، دلیل اس کی یہ پیش کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "الإسلام يهدم ما كان قبله" یعنی اگر کوئی شخص نیا مسلمان ہو تو اسلام لانے سے پہلے جو اس نے گناہ کیے تھے، اسلام لانے سے وہ سب ختم ہو جاتے ہیں، مثلاً اگر کوئی شخص ستر سال کی عمر میں اسلام لایا تو اب اسلام لانے کے بعد گذشتہ ستر سال کی نمازیں قضا کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ جب وہ آج اسلام لایا تو اب آج ہی سے نمازیں شروع کر دے۔*

*"●✿_ بعض لوگوں نے اسلام لانے پر توبہ کرنے کو بھی قیاس کر لیا، وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے ساری عمر نمازیں نہیں پڑھیں، اب توبہ کر لی، تو اب گذشتہ زمانے کی نمازیں قضا کرنے کی ضرورت نہیں۔*

*"●✿_یہ باتیں درست نہیں، اس لیے کہ توبہ کو اسلام پر قیاس کرنا درست نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ جو شخص ابھی مسلمان ان ہوا ہے، تو کفر کے زمانے میں اس پر نماز فرض نہیں تھی، کیونکہ نماز تو اس وقت فرض ہو گی جب وہ مسلمان ہوگا، اس لیے گذشتہ زمانے کی نمازیں اس پر قضا کرنی ضروری نہیں۔*

*"●✿_بخلاف مسلمان کے، اس پر تو بالغ ہوتے ہی نماز فرض ہوگئی اور جب اس نے وہ نمازیں نہیں پڑھیں تو وہ اس کے ذمے پر باقی رہیں، ایک عرصہ دراز کے بعد جب اس نے نماز چھوڑنے کے گناہ سے توبہ کی، تو توبہ کا اصول یہ ہے کہ جس گناہ سے توبہ کی ہے، اگر اس کی تلافی ممکن ہے تو تلافی کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوگی، لہٰذا اس کے ذمے ان نمازوں کی قضا ضروری ہوگی، اسی طرح اگر روزے چھوڑے ہیں تو ان روزوں کی قضا کرنی ہوگی، کیونکہ روزے اس کے ذمے باقی ہیں۔*

*●✿_ ورنہ اس کی کوئی معقول وجہ نہیں کہ ایک شخص تو اسی سال تک مسلسل نماز پڑھتار ہے اور دوسرا شخص اسی سال تک نماز نہ پڑھے اور پھر آخر میں اللہ تعالی سے توبہ استغفار کرلے اور اس توبہ کے نتیجے میں اس کی ساری نمازیں معاف ہو جائیں، یہ تو کوئی معقول بات نہیں،*

*●✿_ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک دن کی نمازیں قضا ہو جائیں تو ان کو قضا کر لو اور پڑھ لو لیکن اگر ایک دن سے زیادہ کی نمازیں قضا ہو جائیں تو ان کو قضا کرنے کی ضرورت نہیں، صرف توبہ کرلو، یہ عجیب مسئلہ اپنی طرف سے بنا لیا ہے، اس کے ذریعہ لوگوں کے ہاتھ میں بڑا اچھا نسخہ آ گیا کہ جب نمازیں قضا ہو جائیں تو ان کو ایک دن سے زیادہ کر لو اور اس کے بعد توبہ کر لو، یہ سب فضول باتیں ہیں، کیونکہ توبہ کا اصول یہ ہے کہ جس کی تلافی ممکن ہو، اس کی تلافی کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔*

*●✿_ مثلاً ایک شخص بہت عرصے تک شراب پیتا رہا، اب توبہ کرنے کی توفیق ہوئی تو بس توبہ کر لینا کافی ہے، کیونکہ اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں، تلافی کے بغیر ہی اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرمالیں گے، یا مثلاً کسی شخص نے کچھ پیسے چوری کیے اور کھا لیے، بعد میں توبہ کی توفیق ہوئی تو اس کی تلافی ممکن ہے، وہ اس طرح کہ جس کے پیسے چوری کیے تھے اس کو پیسے واپس کرے یا اس سے معاف کرائے، اس کے بغیر تو بہ قبول نہیں ہوگی ،*

*●✿_ یا مثلاً گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کی ، اب توبہ کی توفیق ہوئی تو جب تک گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک توبہ قبول نہیں ہوگی، یہی معاملہ نمازوں کا اور روزوں کا ہے کہ جب تک ان کو ادا‌نہیں کرے گا، صرف تو بہ کر لینے سے معاف نہیں ہوں گے۔*

 *●✿_بہر حال ! توبہ تفصیلی یہ ہے کہ انسان اپنی گذشتہ زندگی کا جائزہ لے کر دیکھے کہ میرے ذمے اللہ تعالی کے یا بندوں کے حقوق کچھ واجب ہیں یا نہیں ؟ حقوق اللہ میں نماز کو دیکھے کہ میرے ذمے کتنی نمازیں باقی ہیں، ان کو قضا کرنے کی فکر کرے۔*
*®_[ اصلاحی مجالس، ج ۵، ص ۲۳۱]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(88)_ تمام عبادات کا فدیہ ترکہ کے ایک تہائی سے ادا ہوگا:-*

*"●✿_ لہٰذا اگر ہمارے ذمے نمازیں رہ گئی ہیں تو ان نمازوں کا فدیہ اس ایک تہائی سے ادا ہوگا، اگر روزے چھوٹ گئے ہیں تو ان روزوں کا فدیہ بھی اسی ایک تہائی سے ادا ہو گا، اگر زکوۃ باقی رہ گئی ہے تو اس کی ادائیگی بھی اس ایک تہائی سے ہوگی، اگر حج رہ گیا ہے تو وہ بھی اسی ایک تہائی سے ادا ہوگا، اور تہائی سے باہر کی وصیت وارثوں کے ذمہ لازم نہیں ہوگی،*

*"●✿_ اس لیے زندگی میں حج ادا نہ کرنا بڑا خطرناک ہے، کیونکہ اگر ہم وصیت بھی کر جائیں کہ ہمارے مال سے حج ادا کر دیا جائے لیکن ترکہ اتنا نہ ہو جس کے ایک تہائی سے حج ادا ہو سکے تو ان کے ذمے اس وصیت کو پورا کرنا لازم نہیں ہوگا، اگر حج کرا دیں تو یہ ان کا ہم پر احسان ہوگا اور اگر حج نہ کرائیں تو ان پر آخرت میں کوئی گرفت نہیں ہوگی۔*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ ( 89) _ نماز میں مزہ نہیں آتا:-*

*"●✿__ ایک صاحب نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو لکھا کہ حضرت ! نماز پڑھتے ہوئے ساری عمر گزر گئی مگر نماز میں مزہ ہی نہیں آیا، کچھ علاج فرما دیں، حضرت نے جواب میں لکھا کہ نماز میں مزہ آنا کوئی ضروری نہیں تم مزہ کی خاطر نماز پڑھ رہے ہو یا اللہ تعالی کی بندگی کی خاطر نماز پڑھ رہے ہو کہ چونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے اس لیے نماز پڑھ رہا ہوں،*

*"●✿__ ارے! اگر مزہ کی خاطر نماز پڑھی جا رہی ہے تو وہ نماز ہی کیا ہوئی، نماز تو وہ ہے جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اور اس کی بندگی کی خاطر پڑھی جائے، چاہے اس نماز میں مزہ آئے یا نہ آئے، تکلیف ہو یا مشقت ہو۔*

*"●✿__اس لیے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو ساری عمر کبھی نماز میں مزہ نہ آیا ہو، لطف نہ آیا ہو اور اس پر کبھی سرور کی کیفیت طاری نہ ہوئی ہو، میں اس شخص کو مبارک باد دیتا ہوں، کیوں؟ اس لیے کہ اگر اس کو نماز کے اندر مزہ آتا یا نماز کے اندر اس کو کوئی کیف و سرور حاصل ہو جاتا تو خطرہ یہ تھا کہ کہیں وہ اس کو مقصود سمجھ۔ بیٹھتا اور اس کو حاصل نماز سمجھ لیتا، اس کے نتیجے میں وہ گمراہی میں مبتلا ہو جاتا، اللہ تعالی نے اس کو احوال وکیفیات سے دور رکھ کر گمراہی سے بچالیا ،*

*"●✿__ بہر حال ! عبادات کی ادائیگی میں ان سرور اور کیفیات کے پیچھے مت پڑو، ان کیفیات کی وجہ سے یا تو عجب اور ناز پیدا ہو جاتا ہے، یا اس کو اصل مقصود سمجھ لینے سے کسی وقت اس میں کمی آ جانے پر خود کو ناکام اور محروم سمجھ بیٹھتا ہے، دونوں صورتوں میں نقصان ہے ،*

*"●✿__اس لیے کیفیات ہر شخص کے لیے موزوں بھی نہیں ، لہٰذا ان کی فکر ہی نہ کی جائے، بس اللہ تعالی کا جو حکم ہے اور نبی کریم ﷺ کی جو سنت ہے اس پر سیدھے سیدھے عمل کرتے چلے جاؤ، اس فکر میں مت پڑو کہ رونا آیا کہ نہیں آیا، دل مچلا کہ نہیں، وجد طاری ہوا کہ نہیں ، مزہ آیا کہ نہیں آیا۔*

*®_(اصلاحی مجالس، ج ۲، ص ۲۷۹)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
      *☞_(90)_ نماز کے بعد استغفار کیوں ؟*

*●✿_ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم سرور دو عالم ﷺ نماز سے فارغ ہوتے تو نماز ختم ہوتے ہی آپ تین مرتبہ فرماتے تھے : استغفر الله، أستغفر الله، أستغفر الله_,*

*●✿_ اب یہ اس وقت استغفار کرنا سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے کہ استغفار تو اس وقت ہوتا ہے جب انسان سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ استغفار کرے کہ یا اللہ ! مجھے معاف کر دے، تو بظاہر نماز کے بعد استغفار کا موقع نہیں، بلکہ نماز تو اللہ کے حضور حاضری ہے، اس کے بعد استغفار کیوں ؟*

*●✿_ بات دراصل یہ ہے کہ نماز تو ہم نے پڑھ لی مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کبریائی کا جو حق تھا وہ نماز میں ادا نہ ہوا: ما عبدناك حق عبادتك اے اللہ! ہم آپ کی بندگی کا حق ادا نہ کر سکے، تو نماز کے بعد یہ ”استغفر اللہ" اس واسطے ہے کہ جو حق تھا وہ تو ادا ہوا نہیں، اس واسطے اے اللہ ! ہم ان کوتاہیوں سے استغفار کرتے ہیں جو نماز کے اندر ہوئیں،*

*"●✿_ تو ایک بندے کا کام یہ ہے کہ جو نیک عمل بھی کرے، نیکی کے جس کام کی جو توفیق ہو اس پر غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اس کی کوتاہیوں پر استغفار کرے، اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کرے اور اس کی قبولیت کی دعا مانگے۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۴، ص ۱۷۹)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(91)_ نماز اور دیگر عبادات کے قبول ہونے کی علامت کیا ہے ؟*

*●✿__ حاجی امداد اللہ قدس اللہ سرہ ( اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، آمین ) ان سے کسی نے سوال‌کیا کہ حضرت ! اتنے دن سے نماز پڑھ رہا ہوں، معلوم نہیں اللہ تعالی کے ہاں قبول ہوتی ہے کہ نہیں؟*

*●✿__ حضرت نے جواب میں فرمایا- ارے بھئی ! اگر یہ نماز قبول نہ ہوتی تو دوسری بار پڑھنے کی توفیق نہ ہوتی، جب تم نے ایک عمل کر لیا، اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی نے وہی عمل دوبارہ کرنے کی توفیق دے دی تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ پہلا عمل قبول ہے ان شاء اللہ، اس وجہ سے نہیں کہ اس عمل کی کوئی خصوصیت تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ اس نے تمہیں توفیق دی، اس لیے اپنی نماز اور عبادتوں کو کبھی حقیر نہ سمجھو۔*

*●✿__ مولانا رومی رحمتہ اللہ نے مثنوی میں ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ بہت دنوں تک نمازیں پڑھتے رہے، روزے رکھتے رہے اور تسبیحات و اذکار کرتے رہے، ایک دن دل میں یہ خیال آیا کہ میں اتنے عرصے سے یہ سب کچھ کر رہا ہوں لیکن اللہ میاں کی طرف سے کوئی جواب وغیرہ تو آتا نہیں ہے، معلوم نہیں اللہ تعالی کو یہ اعمال پسند ہیں یا نہیں؟ اس کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا نہیں؟*

*●✿__ آخر کار اپنے شیخ کے پاس جا کر عرض کیا کہ حضرت ! اتنے دن سے عمل کر رہا ہوں لیکن اللہ تعالی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا، یہ سن کر شیخ نے فرمایا، ارے بے وقوف! یہ جو تمہیں اللہ اللہ کرنے کی توفیق ہو رہی ہے، یہی ان کی طرف سے جواب ہے، اس لیے کہ اگر تمہارا عمل قبول نہ ہوتا تو تمہیں اللہ اللہ کرنے کی توفیق نہ ہوتی، کسی اور جواب کے انتظار میں رہنے کی ضرورت نہیں،*
*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۵، ص۵۶]* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(92)_عورتوں کی فرض یا نفل نماز کی جماعت:-*

*"●✿_ ایک مسئلہ عورتوں کی جماعت کا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں کی جماعت پسندیدہ نہیں ہے، چاہے وہ فرض نماز کی جماعت ہو، یا سنت کی ہو، یا نفل کی ہو، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کو یہ حکم فرما دیا کہ اگر تمہیں عبادت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو، جماعت عورتوں کے لیے پسندیدہ نہیں،*

*"●✿_ دین اصل میں شریعت کی اتباع کا نام ہے، اب یہ مت کہو کہ ہمارا تو اس طرح عبادت کرنے کو دل چاہتا ہے، اس دل کے چاہنے کو چھوڑ دو، اس لیے کہ دل تو بہت ساری چیزوں کو چاہتا ہے اور صرف دل چاہنے کی وجہ سے کوئی چیز دین میں داخل نہیں ہو جاتی، جس بات کو رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں کیا، اس کو محض دل چاہنے کی وجہ سے نہ کرنا چاہیے۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۴، ص ۲۷۱)*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(93)_ صلوة الحاجت کا کیا طریقہ ہے ؟*

*●✿__صلوۃ الحاجت کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس طرح عام نماز پڑھی جاتی ہے اسی طرح سے یہ دو رکعتیں پڑھی جائیں گی، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صلوۃ الحاجت پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ ہے، لوگوں نے اپنی طرف سے اس کے خاص خاص طریقے گھڑ رکھے ہیں، بعض لوگوں نے اس کے لیے خاص خاص سورتیں بھی متعین کر رکھی ہیں کہ پہلی رکعت میں فلاں سورۃ پڑھے اور دوسری رکعت میں فلاں سورۃ پڑھے وغیرہ وغیرہ،*

*●✿__ لیکن حضور اقدس ﷺ نے صلوۃ الحاجت کا جو طریقہ بیان فرمایا ہے اس میں نماز پڑھنے کا کوئی الگ طریقہ بیان نہیں فرمایا اور نہ کسی سورۃ کی تعیین فرمائی۔ البتہ بعض بزرگوں کے تجربات ہیں کہ اگر صلوۃ الحاجت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھ لی جائیں تو بعض اوقات اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، تو اس کو سنت سمجھ کر انسان اختیار نہ کرے، اس لیے کہ اگر سنت سمجھ کر اختیار کرے گا تو وہ بدعت ہو جائے گا،*

*●✿__ چنانچہ میرے حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب صلوۃ الحاجت پڑھنی ہو تو پہلی رکعت میں سورۃ الم نشرح اور دوسری رکعت میں سورۃ اذا جاء نصر اللہ پڑھ لیا کرو, لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورتیں نماز حاجت میں پڑھنا سنت ہے، بلکہ بزرگوں کے تجربہ سے یہ پتہ چلا ہے کہ ان سورتوں کے پڑھنے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے،*

*"●✿__ لہذا اگر کوئی شخص سنت سمجھے بغیر ان سورتوں کو پڑھے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر ان کے علاوہ کوئی دوسری سورۃ پڑھ لے تو اس میں سنت کی خلاف ورزی لازم نہیں آتی، بہر حال صلوۃ الحاجت پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے بلکہ جس طرح عام نمازیں پڑھی جاتیں ہیں اسی طرح صلوۃ الحاجت کی دو رکعتیں پڑھی جائیں، بس نماز شروع کرتے وقت دل میں یہ نیت کرلے کہ میں یہ دو رکعت صلوۃ الحاجت کے طور پر پڑھتا ہوں۔*
*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۱۰ ص ۴۲]*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(94)_ استخارہ کی حقیقت اور چند غلط فہمیاں:-*

*"●✿_ استخارہ کسے کہتے ہیں ؟ اس بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا فلاں کام نہ کرو،*
*"_ یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ خواب میں نہیں آتا،*

*"●✿_ خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس ﷺ سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں۔ استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھے، دل میں یہ نیت ہو کہ میرے سامنے دو راستے ہیں، ان میں سے جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرما دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگے جو حضور اقدس ﷺ نے تلقین فرمائی ہے۔*

*"●✿_بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے، یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے، ایسا کوئی ضروری نہیں، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت یہ استخارہ کرلے، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے۔*
*® ۔ (اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۱۶۰)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(95)_ استخارہ کا نتیجہ کس طرح معلوم ہوگا ؟*

*●✿_بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہو جاتا ہے، بس جس طرف رجحان ہو جائے وہ کام کر لے، اور بکثرت ایسا رجحان ہو جاتا ہے، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہو گیا،*

*●✿_ اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں, پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ،*

*●✿_بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فر ما دیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے، اب خیر کس میں ہے؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں۔*

*●✿_اب جب وہ کام ہو گیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آ رہا ہے، دل کے مطابق نہیں ہے، تو اب بندہ اللہ تعالی سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہو گیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہو رہا ہے،*

*●✿_ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرما رہے ہیں کہ ارے نادان! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا، بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ واقعہ یہی میرے لیے بہتر تھا۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۱۶۱]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (96)_ نماز میں آنے والے وسوسے اور خیالات:-*

*●✿_نماز میں آنے والے وسوسے اور خیالات اگر چہ مباح ہے، کیونکہ وہ کسی گناہ کا وسوسہ اور خیال نہیں ہے، لیکن وہ خیال انسان کو کسی عبادت اور طاعت کی طرف متوجہ ہونے سے روک رہا ہے، مثلاً جیسے ہی نماز کی نیت باندھی، بس اس وقت دنیا بھر کے خیالات کی چکی چلنی شروع ہوگئی، کھانے پینے کا خیال، بیوی بچوں کا خیال، اپنی روزی کا خیال، تجارت کا خیال، یہ تمام خیالات فی نفسہ گناہ کے خیالات نہیں ہیں، لیکن ان خیالات کی وجہ سے دل نماز کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا ہے اور ان خیالات کی وجہ سے خشوع میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے،*

*●✿_ چونکہ یہ خیالات جو غیر اختیاری طور پر آرہے ہیں اور انسان کے اپنے اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے اس لیے انشاء اللہ ان خیالات پر کوئی گرفت اور مؤاخذہ نہیں ہوگا بلکہ معاف ہوں گے، البتہ اپنے اختیار سے با قاعدہ ارادہ کر کے خیالات نماز میں مت لاؤ اور نہ دل لگاؤ بلکہ جب اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرو تو ذہن کو نماز کی طرف متوجہ کرو، جب ثنا پڑھو تو اس کی طرف دھیان لگاؤ اور جب سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کرو تو اس کی طرف دھیان لگاؤ،*.

*"●✿_ پھر دھیان لگانے کے باوجود غیر اختیاری طور پر ذہن دوسری طرف بھٹک گیا اور خیالات کہیں اور چلے گئے تو انشاء اللہ ان پر گرفت نہیں ہوگی لیکن تنبہ ہو جائے کہ میں تو بھٹک گیا، تو پھر دوبارہ نماز کی طرف لوٹ آؤ اور نماز کے الفاظ اور اذکار کی طرف لوٹ آؤ، بار بار یہ کرتے رہو گے تو انشاء اللہ یہ خیالات آنے کم ہو جائیں گے اور اس کام کے ذریعہ اللہ تعالی خشوع عطا فرمادیں گے،*

*"●✿_ اور خیالات اور وساوس کا علاج ہی یہ ہے کہ ان خیالات کی طرف التفات اور توجہ مت کرو، جب توجہ نہیں کرو گے تو انشاء اللہ یہ خیالات خود بخود دور ہو جائیں گے، بس اپنا کام کیے جاؤ کہ جب نماز کی نیت باندھو تو اپنا ذہن نماز کی طرف لگاؤ۔*
*®( اصلاحی خطبات، ج ۹، ص ۱۶۱)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(97) _ نماز میں وسوسے اور خیالات آنے کی وجہ:-*

*"●✿__(١)_ نماز میں خیالات آنے کی ایک وجہ نماز کا سنت کے مطابق ادا نہ کرنا ہے، آج ہمیں اکثر و بیشتر یہ شکوہ رہتا ہے کہ نماز میں خیالات منتشر رہتے ہیں، کبھی کوئی خیال آرہا ہے، کبھی کوئی خیال آرہا ہے اور نماز میں دل نہیں لگتا، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نماز کو ظاہری طریقہ کے مطابق نہیں بنایا اور نہ ہی اس کا اہتمام کیا، بس جس طرح بچپن میں نماز پڑھنا سیکھ لی تھی، اسی طرح پڑھتے چلے آرہے ہیں، یہ فکر نہیں کہ واقعہ یہ نماز سنت کے مطابق ہے یا نہیں؟*

*"●✿__ یہ نماز اتنا اہم فریضہ ہے کہ فقہ کی کتابوں میں اس پر سینکڑوں صفحات لکھے ہوئے ہیں جن میں نماز کے ایک ایک رکن کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ کیسے اٹھائیں، قیام کسی طرح کریں، رکوع کس طرح کیا جائے، سجدہ کس طرح کیا جائے، قعدہ کس طرح کیا جائے، ان سب کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہے لیکن ان طریقوں کے سیکھنے کی طرف دھیان نہیں، بس جس طرح قیام کرتے چلے آرہے ہیں اسی طرح قیام کر لیا، جس طرح اب تک رکوع سجدہ کرتے چلے آرہے ہیں، اسی طرح رکوع سجدہ کر لیا، لیکن ان کو ٹھیک ٹھیک سنت کے مطابق انجام دینے کی فکر نہیں۔*

*"●✿_(٢)_نماز میں خیالات آنے کی دوسری وجہ وضو کا صحیح طور پر نہ کرنا ہے، ہم وضو سنت کے مطابق نہیں کرتے، حواس باختہ حالت میں ادھر ادھر باتیں کرتے ہوئے وضو کر لیا، حالانکہ وضو کے آداب میں سے یہ ہے کہ وضو کے دوران باتیں نہ کی جائیں، بلکہ وضو کے دوران وہ دعائیں پڑھی جائیں جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور آدمی اطمینان سے وضو کر کے ایسے وقت مسجد میں آئے جبکہ نماز کھڑی ہونے میں کچھ وقت ہو اور مسجد میں آکر آدمی پہلے سنت اور نفل ادا کر لے،*

*"●✿__ کیونکہ سنت اور نفل جو نماز سے پہلے رکھی گئی ہیں یہ در حقیقت فرض نماز کی تمہید ہیں تا کہ فرض نماز سے پہلے ہی اس کا دھیان اللہ تعالی کی طرف ہو جائے اور ادھر ادھر کے خیالات آنا بند ہو جائیں، ان سب آداب کا لحاظ کر کے جب آدمی نماز پڑھے گا تو پھر دوسرے خیالات نہیں آئیں گے۔*
*®_(اصلاحی خطبات م ج ۱۴، ص ۲۴۷)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (98) _ کیا نیک کام صرف رمضان کے ساتھ خاص ہیں؟*

*"●✿_حضرت والا نے اس ملفوظ میں زکوٰۃ سے متعلق ایک اصول بیان فرمایا لیکن یہ بات صرف زکوٰۃ کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہی اصول تمام اعمال کے اندر جاری ہے، ہم لوگ رمضان میں تو اعمال کے اندر تھوڑا بہت اہتمام کرتے ہیں،*

*"●✿_ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ جتنے نیک کام ہیں، سب رمضان کے لئے اٹھا کر رکھ دیے ہیں, نفلیں پڑھیں گے تو رمضان میں تلاوت کریں گے تو رمضان میں کریں گے، رات کو اٹھیں گے تو رمضان میں اٹھیں گے، اور اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھیں گے تو رمضان میں پڑھیں گے، اس طرح ہم نے سارے کام اٹھا کر رمضان کے لئے رکھ دیئے۔ اور ادھر جیسے ہی رمضان ختم ہوا، ادھر سارے اعمال ختم ،*

*"●✿_ اب نہ تو تلاوت ہے، نہ ذکر ہے، نہ نوافل ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور نہ گناہوں سے بچنے کا وہ اہتمام ہے۔ رمضان میں گناہ کرتے ہوئے ذرا شرم آجاتی ہے کہ بھائی ! رمضان کا مہینہ ہے، ذرا آنکھ کی حفاظت کر لیں، ذرا کان کی حفاظت کر لیں، ذر ا زبان کی حفاظت کر لیں لیکن رمضان کے گزرتے ہی گناہوں کی چھٹی مل گئی، اب نہ گناہوں‌سے بچنے کا اہتمام ہے اور جو نیک کام رمضان میں شروع کئے تھے، نہ ان کو باقی رکھنے کا اہتمام ہے۔*

*"●✿_ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو ایک تربیتی کورس بنایا ہے، جب تم اس تربیتی کورس سے گزر گئے اور اس کے اندر اللہ تعالی نے روزے سے، تراویح سے، اعتکاف سے، ذکر سے تسبیح اور تلاوت سے تمہارے اندر جو روشنی پیدا فرمادی، اس کو اب برقرار رکھنا تمہارا کام ہے۔ لہذا رمضان کے بعد جب تم عام زندگی کے اندر داخل ہو تو اس جذبے کو برقرار رکھنا تمہارا کام ہے۔*
*®_ [ اصلاحی مجالس، ج ۲، ص ۱۲۲]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(99) _ کیا رمضان کے انتظار میں نیک آعمال کو ٹالا جاسکتا ھے ؟*

*"●✿_ بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ ان پر زکوٰۃ فرض ہو گئی ہے مگر اس انتظار میں روکے بیٹھتے ہیں کہ جب رمضان آئے گا تو اس وقت زکوٰۃ نکالیں گے، یا مثلاً کچھ صدقہ کرنے کی نیت ہے لیکن روکے بیٹھے ہیں کہ رمضان آئے گا اس وقت صدقہ کریں گے، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ رمضان میں نفل کام کا ثواب فرض کے برابر ملے گا اور فرض ادا کرنے پر ستر گنا ثواب ملے گا۔*

*"●✿_ اس حدیث کی وجہ سے لوگ زکوٰۃ اور صدقہ کی ادائیگی کو رمضان کے لئے مؤخر کر دیتے ہیں کہ جب رمضان آئے گا تو اس وقت ادا کریں گے۔ حضرت والا نے دو لفظوں میں اس حدیث کی تشریح فرمادی کہ اس حدیث کا مقصود "تعجیل اعمال فی رمضان" ہے، نہ کہ "تاخیر اعمال الی رمضان" یعنی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رمضان میں جب نیکی کا اتنا زیادہ ثواب ہے اور تمہارے دل میں کسی نیکی کے کرنے کا خیال آرہا ہے تو اس نیکی کو ابھی فوراً کر لو اور اس کو اس لئے مت ٹالو کہ رمضان میں نیک کام کرنے کا ثواب زیادہ ہے۔*

*"●✿_ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر رمضان سے پہلے کسی نیکی کا خیال آیا ہے تو اس خیال کو ٹال دو کہ یہ نیکی رمضان میں کریں گے، تا کہ اس وقت ثواب زیادہ ملے، لہذا جس وقت جس نیکی کے کرنے کا خیال آئے، چاہے وہ نفل کام ہو یا فرائض کی ادائیگی ہو، اسی وقت اس کو کر لو،*
*®_[ اصلاحی مجالس، ج ۲، ص ۱۱۲]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(100) _اپنی عمر میں اضافے کی دعا کرنا !*

*"●✿_جب نبی کریم ﷺ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ : اللهم بارك لنا في رجب وشعبان و بلغنا رمضان (مجمع الزوائد، ج ۲، ص ١٦٥) اے اللہ اہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دیجیے۔ یعنی ہمار عمر اتنی دراز کر دیجیے کہ ہمیں اپنی عمر میں رمضان کا مہینہ نصیب ہو جائے،*

*"●✿_ اس حدیث یہ پتہ چلا کہ اگر کوئی شخص اس نیت سے اپنی عمر میں اضافے کی دعا کرے کہ میری عمر میں اضافہ ہو جائے تاکہ اس عمر کو میں اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق صحیح استعمال کر سکوں اور پھر وہ آخرت میں کام آئے تو عمر کے اضافے کی یہ دعا کرنا اس حدیث سے ثابت ہے،*

*"●✿_ لہذا یہ دعا مانگنی چاہیے کہ یا اللہ میری عمر میں اتنا اضافہ فرما دیں کہ میں اس میں آپ کی رضا کے مطابق کام کر سکوں اور جس وقت میں آپ کی بارگاہ میں پہنچوں تو اس وقت آپ کی رضا کا مستوجب بن جاؤں لیکن جو لوگ اس قسم کی دعا مانگتے ہیں کہ یا اللہ ! اب تو اس دنیا سے اٹھا ہی لے، جضور اقدس ﷺ نے ایسی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے اور موت کی تمنا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے،*

*"●✿_ تم تو یہ سوچ کر موت کی دعا کر رہے ہو کہ یہاں دنیا میں حالات خراب ہیں جب وہاں چلے جائیں گے تو وہاں اللہ میاں کے پاس سکون مل جائے گا، ارے یہ تو جائزہ لو کہ تم نے وہاں کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ کیا معلوم کہ اگر اس وقت موت آجائے تو خدا جانے کیا حالات پیش آئیں؟ اس لیے ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی عافیت عطافرمائے اور جب تک اللہ تعالی نے عمر مقرر کر رکھی ہے اس وقت تک اللہ تعالی اپنی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
      *☞_(101) خود کشی کیوں حرام ہے ؟*

*"●✿__ خودکشی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ فیصلہ جو اللہ تعالی کو کرنا ہے کہ تمہیں اس دنیا سے کب جانا چاہیے، یہ فیصلہ تم اپنے ہاتھ میں لے رہے ہو، یہ جان تمہاری ملکیت نہیں ہے کہ اس کے ساتھ جیسا چاہو سلوک کرو، بلکہ اللہ تعالی کی ملکیت ہے جو اس نے عطا کی ہے، لہٰذا اس جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے، یہاں تک کہ موت کی تمنا کرنا بھی نا جائز ہے۔*

*"●✿__یہ ہماری زندگی جو ہمارے پاس ہے، اسی طرح ہمارا پورا جسم سر سے لے کر پاؤں تک یہ امانت ہے، ہم اس جسم کے مالک نہیں، اللہ جل شانہ نے یہ جسم جو ہمیں عطا فرمایا ہے اور یہ اعضاء جو ہمیں عطا فرمائے ہیں، یہ آنکھیں کان ناک منہ زبان ہاتھ پاؤں، یہ سب اللہ تعالی کی امانت ہیں، بتاؤ! کیا تم یہ اعضا کہیں بازار سے خرید کر لائے تھے؟*

*"●✿__ بلکہ اللہ تعالی نے بغیر کسی معاوضے کے اور بغیر کسی محنت اور مشقت کے پیدا ہونے کے وقت سے ہمیں دے دیے ہیں اور ہمیں یہ فرمایا دیا کہ ان اعضا سے اور ان قوتوں سے لطف اٹھاؤ، ان اعضا کو استعمال کرنے کی تمہیں کھلی اجازت ہے، البتہ ان اعضا کو ہماری معصیت اور گناہوں میں مت استعمال کرنا۔ چونکہ یہ زندگی، یہ جسم اور یہ اعضا امانت ہیں، اسی وجہ سے انسان کے لیے خود کشی کرنا حرام ہے، اور اپنے آپ کو قتل کر دینا حرام ہے، کیوں حرام ہے؟*

*"●✿__ اس لیے کہ یہ جان اور یہ جسم ہماری اپنی ملکیت ہوتا تو ہم جو چاہتے کرتے، چاہے اس کو تباہ کرتے یا برباد کرتے یا آگ میں جلاتے لیکن چونکہ یہ جان اور یہ جسم اللہ کی امانت ہے اس لیے یہ امانت اللہ کے سپرد کرنی ہے ، لہذا جب اللہ تعالی ہمیں اپنے پاس بلائیں گے، اس وقت ہم جائیں گے، پہلے سے خود کشی کر کے اپنی جان کو ختم کرنا امانت میں خیانت ہے۔*
*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۱۵، ص ۲۳۱)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ (102)_ چھوٹے گناہ پر بھی اللہ کی طرف سے پکڑ ہوسکتی ہے.*

*"●✿_جس طرح یہ بات ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی چھوٹے عمل پر بعض اوقات اپنی رحمت سے مغفرت فرما دیتے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ بعض اوقات کوئی گستاخی کا عمل ایسا ہوتا ہے کہ اس پر پکڑ ہو جاتی ہے، لہذا اگر انسان سے غلطی ہو جائے تو بجائے سینہ زوری کرنے کے اللہ تبارک و تعالٰی سے تو بہ کر کے‌ استغفار کرے، اللہ تعالیٰ کے سامنے اقراری مجرم بن کر حاضر ہو جائے، کسی گناہ کو چاہے وہ چھوٹے سے چھوٹا نظر آرہا ہو، چھوٹا سمجھ کر اختیار نہ کرے، کہ بھئی یہ تو چھوٹا سا گناہ ہے چلو کر لو، کیونکہ گناہ کی خاصیت یہ ہے کہ آدمی ایک گناہ کر کے بسا اوقات دوسرے گناہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے، یعنی ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچتا ہے۔*

*●✿_بعض اوقات شیطان یہ دھو کہ بھی پیدا کرتا ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے کہ صغیرہ ہے، یہ مسئلہ بہت لوگ پوچھتے ہیں، اور اگر یہ کہیں کہ بھئی نا جائز ہے تو کہتے ہیں کہ نا جائز ہے یا حرام ہے؟ مطلب یہ ہے کہ حرام ہو تو بچیں، نا جائز ہو تو چلیں کوئی بات نہیں، اور اگر گناہ کبیرہ ہو تو تھوڑی بہت رعایت کرلیں، اور اگر صغیرہ ہو تو کوئی بات نہیں چلو کر گزریں، یہ تحقیق اکثر لوگوں کو میں نے کرتے ہوئے دیکھا ہے،*

*"●✿_ تو ہمارے حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ صغیرہ اور کبیرہ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بڑا سا شعلہ اور ایک چھوٹی سی چنگاری دونوں آگ ہیں لیکن وہ بڑا شعلہ ہے، وہ چھوٹی چنگاری ہے، کوئی آدمی آپ نے ایساد دیکھا کہ بڑا انگار تو اپنی الماری میں نہ رکھے، اور چھوٹی چنگاری ہو تو بولے کہ چلو چھوٹی چنگاری ہی تو ہے، تو کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا،*

*"●✿_ اس واسطے کہ جانتا ہے کہ یہ ہے تو چھوٹی چنگاری لیکن یہی چنگاری بڑھ کر شعلہ بن سکتی ہے، پورے گھر کو تباہ کرسکتی ہے، اسی طرح گناہ کبیرہ اور صغیرہ ہیں، صغیرہ اگر چہ دیکھنے میں چھوٹا نظر آرہا ہے لیکن اگر بے پرواہی کے ساتھ انسان اس کا ارتکاب کرے گا تو وہ بڑھتے بڑھتے کبیرہ بن جائے گا۔*

*"●✿_اسی واسطے بزرگوں نے فرمایا کہ کسی صغیرہ گناہ کو معمولی سمجھ کر کر گزرنا خود کبیرہ ہے، کیونکہ نافرمانی تو دونوں ہیں، نافرمانی کبیرہ میں بھی ہے، صغیرہ میں بھی ہے، اللہ نے کہا ہے کہ صغیرہ سے بھی بچو، اور کبیرہ سے‌ بھی بچو ، جب اللہ تعالی کسی سے بچنے کا فرمارہے ہیں تو وہ کام نافرمانی کا ہے،*.

*®_(خطبات عثمانی، ج ۳ ص ۲۶۴)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (103)_ بعض فضائل کی احادیث میں آتا ہے کہ فلاں عمل کرنے سے ایک سال گذشتہ اور آئندہ کے گناہ معاف ہوجائیں گے تو اس کا کیا مطلب ہے ؟*

*"●✿__ یہاں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ بعض لوگ جو دین کا کما حقہ علم نہیں رکھتے تو اس قسم کی جو حدیثیں آتی ہیں کہ ایک سال پہلے کے گناہ معاف ہو گئے اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف ہو گئے، اس سے ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال آتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے ایک سال پہلے کے گناہ تو معاف کر ہی دیے اور ایک سال آئندہ کے بھی گناہ معاف فرما دیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر کے لیے چھٹی ہوگئی، جو چاہیں کریں، سب گناہ معاف ہیں،*

*"●✿__ خوب سمجھ لیجیے ! جن جن اعمال کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا کہ یہ گناہوں کو معاف کرنے والے اعمال ہیں، مثلاً وضو کرنے میں ہر عضو کو دھوتے وقت اس عضو کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، نماز پڑھنے کے لیے جب انسان مسجد کی طرف چلتا ہے تو ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ایک درجہ بلند ہوتا ہے، رمضان کے روزوں کے بارے میں فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، یا درکھیے! اس قسم کی تمام احادیث میں گناہوں سے مراد گناہ صغیرہ ہوتے ہیں، اور جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے اس کے بارے میں قانون یہ ہے کہ بغیر تو بہ کے معاف نہیں ہوتے،*

*"●✿__ ویسے اللہ تعالی اپنی رحمت سے کسی کے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے بخش دیں وہ الگ بات ہے، لیکن قانون یہ ہے کہ جب تک تو بہ نہیں کرلے معاف نہیں ہوں گے، اور پھر تو بہ سے بھی وہ گناہ کبیرہ معاف ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو، اور اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے، مثلاً کسی کا حق دبا لیا ہے، کسی کا حق مار لیا ہے، کسی کی حق تلفی کر لی ہے، اس کے بارے میں قانون یہ ہے کہ جب تک صاحب حق کو اس کا حق ادا نہ کر دے یا اس سے معاف نہ کرالے اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے،*

*"●✿__ لہذا یہ تمام فضیلت والی احادیث جن میں گناہوں کی معافی کا ذکر ہے، وہ صغیرہ گناہوں کی معافی سے متعلق ہیں۔*
*( اصلاحی خطبات، ج ۲، ص ۱۲۷)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ _ (104) _گناہ سے توبہ کے وقت دل میں یہ شبہ آنا کہ گناه چهوڑ نے کا عزم پکا بھی ہے یا نہیں ؟*

*"●✿_ گناہ سے توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ آئندہ کے لیے دل میں یہ عزم اور ارادہ کر لے کہ میں آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا اور اس کے پاس نہیں پھٹکوں گا، اس شرط کے پورا ہونے میں اکثر شبہ رہتا ہے کہ معلوم نہیں پکا ارادہ ہوا یا نہیں؟ کیونکہ تو بہ کرتے وقت دل میں یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ تو بہ تو کر رہا ہوں لیکن میں کتنا اس تو بہ پر قائم رہوں گا اور کتنا میں اپنے آپ کو اس گناہ سے بچا سکوں گا، اس بارے میں دل میں شبہ رہتا ہے،*

*"●✿_بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ ہم توبہ کرتے ہیں لیکن وہ گناہ پھر سرزد ہو جاتا ہے اور توبہ ٹوٹ جاتی ہے، پھر توبہ کرتے ہیں، پھر ٹوٹ جاتی ہے، بار بار ایسا ہوتا رہتا ہے، اس سے طبیعت میں مایوسی ہونے لگتی ہے کہ میری اصلاح کی کوئی توقع نہیں، کیونکہ اللہ کے بندے توبہ کر کے اس پر ثابت قدم رہتے ہیں لیکن میں تو توبہ کرتا ہوں وہ توبہ ٹوٹ جاتی ہے،*

*"●✿_خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ یہ بھی کوئی مایوسی کی بات نہیں، اتنی بات تو ضرور ہے کہ اپنی طرف سے توبہ پر قائم رہنے کی پوری کوشش کرو اور کرتے رہو اور گناہ پر جرأت پیدا نہ کرو، پھر بھی اگر غلطی ہو جائے تو توبہ کر لو، پھر غلطی ہو جائے پھر توبہ کر لو، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : [البقرة : ٢٢٢] (إن الله يحب التوابين ويحب المتطهرين )*
*"_ بے شک اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور پسند کرتا ہے پاکی حاصل کرنے والوں کو _,*

*"●✿_اس آیت ” التوابین کا لفظ لائے ہیں، حالانکہ تو بہ کرنے والے کو تائب کہتے ہیں، لہذا اصل تائبین کہنا چاہیے تھا، مگر اس کے بجائے ” التوابین کا لفظ لائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے ذا اس کے معنی ہوئے بہت تو بہ کرنے والے اور کثرت سے تو بہ کرنے والے۔*
*®_ [ اصلاحی مجالس، ج ۵، ص ۲۹۸]* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞ (105)_ فاحشہ عورت کی مغفرت - عام قانون نہیں ،ایک غلط فهمی کا ازالہ:-*

*"●✿_ بخاری شریف میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک طوائف اور فاحشہ عورت تھی، ساری زندگی طوائفی کا کام کیا، ایک مرتبہ وہ کہیں سے گذر رہی تھی راستے میں اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی شدت کی وجہ سے زمین کی مٹی چاٹ رہا تھا، قریب میں ایک کنواں تھا، اس عورت نے اپنے پاؤں سے چمڑے کا موزہ اتارا، اور اس موزے میں کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، اللہ تعالی کو یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس کی مغفرت فرمادی کہ میری مخلوق کے ساتھ تم نے محبت اور رحم کا معاملہ کیا، تو ہم تمہارے ساتھ رحم کا معاملہ کرنے کے زیادہ حق دار ہیں۔*

*"●✿_ لیکن ایک بات یاد رکھیے کہ یہ اوپر کا معاملہ یہ رحمت کا معاملہ ہے، یہ کوئی قانون نہیں ہے، لہذا کوئی شخص یہ نہ سوچے کہ یہ اچھا نسخہ ہاتھ آگیا کہ نہ نماز پڑھو، نہ روزہ رکھو، نہ زکوٰۃ دو، نہ دوسرے فرائض انجام دو، نہ گناہوں سے بچو، بس میں بھی اسی طرح جانوروں کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ کیا کروں گا تو قیامت کے روز میری بھی معافی ہو جائے گی، یہ درست نہیں، اس لیے کہ یہ معاملہ رحمت کا ہے، اور اللہ کی رحمت کسی قاعدے اور قانون کی پابند نہیں ہوتی ، وہ جس کو چاہیں اپنی رحمت سے بخش دیں،*

*"●✿_ لیکن قانون یہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی ضرور کرنی ہے، گناہوں سے بچنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص فرائض کی ادائیگی نہیں کرتا یا گناہوں سے نہیں بچتا تو محض کسی ایک عمل کی بنیاد پر تکیہ کر کے بیٹھ جائے کہ بس اس ایک عمل کے ذریعہ میری چھٹی ہو جائے گی، یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ یہ اللہ تعالی کا قانون نہیں ہے،*

*"●✿_ تاہم اس واقعے سے یہ نتیجہ تو ضرور نکالا جاتا ہے کہ کوئی نیکی کا کام حقیر نہیں ہوتا ، کیا پتہ کہ اللہ تعالی کسی نیک کام کو قبول فرمالیں، اور اس سے بیڑہ پار ہو جائے، اس لیے کسی نیکی کے کام کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے فلاں نیک کام پر بخش دیا، لہذا اب نہ تو نماز پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ فرائض ادا کرنے کی ضرورت ہے، بس آدمی اللہ کی رحمت پر تکیہ کر کے بیٹھ جائے،*

*"●✿_ چنانچہ یہ حدیث آپ نے سنی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ عاجز شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے چھوڑ دے، اور جو دل میں آرہا ہے وہ کام کر رہا ہے، یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ یہ کام حلال ہے یا حرام ہے؟ جائز ہے یا ناجائز؟ لیکن اللہ تعالی پر تمنا اور آرزو لگائے بیٹھا ہے کہ اللہ تعالی تو بڑے غفور رحیم ہے سب معاف فرمادیں گے، بہر حال ! ان جیسے واقعات سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
           *☞ _(106) بدعت کسے کہتے ہیں ؟*

*"●✿__ بدعت کے دو معنی ہوتے ہیں، ایک لغوی اور ایک اصطلاحی، اگر آپ لغت اور ڈکشنری میں بدعت کے معنی دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ لغت میں اس کے معنی نئی چیز کے ہیں، لہٰذا جو بھی نئی چیز ہے اس کو لغوی اعتبار سے بدعت کہہ سکتے ہیں، مثلاً یہ پنکھا، یہ بجلی، یہ ٹرین اور ہوائی جہاز وغیرہ لغت اور ڈکشنری کے اعتبار سے سب بدعت ہیں، کیونکہ یہ چیزیں ہمارے دور کی ہی پیداوار ہیں مسلمانوں کے اولین دور میں ان کا وجود نہ تھا یہ سب نئی چیزیں ہیں،*

*"●✿__ لیکن شریعت کی اصطلاح میں ہر نئی چیز کو بدعت نہیں کہتے، بلکہ بدعت کے معنی یہ ہیں کہ دین میں کوئی نیا طریقہ نکالنا اور اس طریقہ کو از خود مستحب یا لازم یا مسنون قرار دینا جس کو نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین نے مسنون قرار نہیں دیا اس کو بدعت کہیں گے، اس اصطلاحی معنی کے لحاظ جن چیزوں کو بدعت کہا گیا ہے ان میں سے کوئی بدعت اچھی نہیں ہوتی اور ایسی کوئی بدعت حسنہ نہیں ہے بلکہ ہر بدعت بری ہی ہے۔*

*"●✿__ خوب سمجھ لیجیے ! کہ لوگوں نے جو بدعت کی قسمیں نکال لیں ہیں کہ ایک بدعت حسنہ ہوتی ہے اور ایک بدعت سیئہ ہوتی ہے، ایک اچھی ہوتی ہے اور ایک بری ہوتی ہے، یاد رکھو! بدعت کوئی حسنہ نہیں، کوئی بدعت اچھی نہیں، جو طریقہ نبی کریم سرور دو عالم ﷺ نے اور حضرات خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ضروری قرار نہیں دیا اور سنت قرار نہیں دیا مستحب قرار نہیں دیا، دنیا کی کوئی طاقت اس کو واجب، سنت اور مستحب قرار نہیں دے سکتی، اگر ایسا کوئی کرے گا تو وہ ضلالت اور گمراہی ہوگی، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صحابہ کرام دین کو اتنا نہیں سمجھتے تھے جتنا ہم سمجھتے ہیں،*

*®_ ( اصلاحی خطبات ج ۱، ص ۲۲۷، ۲۳۵)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (107) بدعت خواه حسنه ہو يا سيئه ہو بدعت گمراہی ہے، کیوں ؟:-*

*"●✿__ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہیں : ایک بدعت حسنہ اور ایک بدعت سیئہ، یعنی بعض کام بدعت تو ہوتے ہیں لیکن اچھے ہوتے ہیں اور بعض کام بدعت بھی ہیں اور برے بھی ہیں، لہذا اگر کوئی اچھا کام شروع کیا جائے تو اس کو بدعت حسنہ کہا جائے گا اور اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔*

*"●✿__ خوب سمجھ لیجیے کہ بدعت کوئی اچھی نہیں ہوتی جتنی بدعتیں ہیں وہ سب بری ہیں, جو چیز دین میں داخل کی جاتی ہے بظاہر دیکھنے میں وہ ثواب کا کام معلوم ہوتی ہے، عبادت لگتی ہے لیکن چونکہ وہ عبادت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہوتی اس لیے وہ عبادت بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے،*.

*"●✿__ جتنی بدعات ہوتی ہیں ان میں براہ راست گناہ کا کام نہیں ہوتا لیکن چونکہ اس عمل کو کسی اتھارٹی کے بغیر دین کے اندر شامل کر دیا گیا، اس عمل کے بارے میں ہمارے پاس قرآن کی اور سنت کی کوئی اتھارٹی نہیں تھی، بلکہ ہم نے اپنی طرف سے اس کو دین میں داخل کر دیا، اس لیے وہ بدعت بن گئی,* 

*"●✿__بدعت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ آدمی خود دین کا موجد بن جاتا ہے، حالانکہ دین کا موجد کون ہے ؟ صرف اللہ تعالی، اللہ تعالی نے ہمارے لیے جو دین بنایا وہ ہمارے لیے قابل اتباع ہے لیکن بدعت کرنے والا خود دین کا موجد بن جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ دین کا راستہ میں بنا رہا ہوں اور در پردہ وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جو میں کہوں وہ دین ہے، اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے دین کا جو راستہ بتایا اور جس پر صحابہ کرام نے عمل کیا، میں ان سے بڑھ کر دین دار ہوں، میں دین کو ان سے زیادہ جانتا ہوں، تو یہ شریعت کی اتباع نہیں، بلکہ اپنی خواہش نفس کی اتباع ہے۔*
*®_( اصلاحی خطبات ج-١، ص ۲۱۷)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (108) تیجہ ، دسواں اور چالیسواں کیوں غلط ہے ؟*

*"●✿_ ایک بات اور عرض کر دوں جس کے بارے میں لوگ بکثرت پوچھا کرتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ جب ہر نئی بات گمراہی ہے تو یہ پنکھا بھی گمراہی ہے، یہ ٹیوب لائٹ بھی گمراہی ہے، یہ بس بھی یہ موٹر بھی گمراہی ہے، اس لیے کہ یہ چیزیں تو حضور ﷺ کے زمانے میں نہیں تھیں، بعد میں پیدا ہوئی ہیں، ان کے استعمال کو بدعت کیوں نہیں کہتے ؟*

*"●✿_خوب سمجھ لیجے ! اللہ تعالی نے بدعت کو جو ناجائز اور حرام قرار دیا, یہ وہ بدعت ہے جو دین کے اندر کوئی نئی بات نکالی جائے، دین کا جزوِ اور دین کا حصہ بنا لیا جائے کہ یہ بھی دین کا حصہ ہے، مثلاً لوگوں کا یہ کہنا کہ ایصال ثواب اس طرح ہو گا کہ تیسرے دن نتیجہ ہوگا، پھر دسواں ہوگا، پھر چہلم ہوگا اور جو اس طریقے سے ایصال ثواب نہ کرے وہ مردود ہے،*

*"●✿_ حضور اقدس ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی کے گھر میں صدمہ ہو تو دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ اس کے گھر میں کھانا تیار کر کے بھیجیں، حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ غزوہ موتہ کے موقع پر شہید ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ: [ ابوداود، كتاب الجنائز ] جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا بنا کر بھیجو اس لیے کہ وہ بے چارے مشغول ہیں اور صدمہ کے اندر ہیں,*.

*"●✿_ تو حضور ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اس کے لیے کھانا بناؤ جس کے گھر صدمہ ہو گیا تا کہ وہ کھانا پکانے میں مشغول نہ ہو، ان کو صدمہ ہے۔ آج کل الٹی گنگا یہ بہتی ہے کہ جس کے گھر صدمہ ہے، وہ کھانا تیار کرے، اور نہ صرف یہ کہ کھانا تیار کرے بلکہ دعوت کرے، شامیانے لگائے ، دیگیں چڑھائے، اور اگر دعورت نہیں دے گا تو برادری میں ناک کٹ جائے گی، یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ جو بے چارہ مر گیا ہے اس کو بھی نہیں بخشتے، اس کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ : مر گیا مردود ، نہ فاتحہ نہ درود_,*

*"●✿_ اور پھر وہ دعوت بھی مرنے والے کے ترکے سے ہوگی، جس میں اب سارے ورثاء کا حق ہو گیا، ان میں نا بالغ بھی ہوتے ہیں، اور نا بالغ کے مال کو ذرہ برابر چھونا شرعاً حرام ہے، نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، پھر بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور جو شخص یہ سب نہ کرے وہ مردود ہے، لہٰذا دین کا حصہ بنا کر، لازم اور ضروری قرار دے کر دین میں کوئی چیز ایجاد کی جائے وہ بدعت ہے، ہاں ! اگر کوئی چیز دین کا حصہ نہیں ہے بلکہ کسی نے اپنے استعمال اور آرام کے لیے کوئی چیز اختیار کر لی، مثلاً پنکھا، بجلی، کار وغیرہ استعمال کر لی، یہ کوئی بدعت نہیں، کیونکہ دنیا کے کاموں میں اللہ تعالی نے چھوٹ دے رکھی ہے کہ مباحات کے دائرے میں رہتے ہوئے جو چاہو کرو لیکن دین کا حصہ بنا کر، یا کسی غیر مستحب کو مستحب قرار دے کر، یا کسی غیر سنت کو سنت کہہ کر، یا کسی غیر واجب کو واجب کہہ کر جب‌کوئی چیز ایجاد کی جائے گی تو وہ بدعت ہوگی اور حرام ہوگی۔*

*®_(اصلاحی خطبات ج۱، ص-٢٢٣)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _(109) تیجه، دسواں یا چهلم کر لیا تو کونسا گناہ کیا ؟*

*"●✿__لیکن لوگوں نے یہ طریقہ اپنی طرف سے مقرر کر لیا کہ مرنے کے تیسرے دن سب کا جمع ہونا ضروری ہے، تیجہ ہوگا اور کھانے کی دعوت بھی ہوگی, اگر ویسے ہی پہلے دن یا دوسرے دن یا تیسرے دن قرآن شریف اکیلے پڑھ لیتے، لوگوں کے آنے کی وجہ سے جمع ہو کر پڑھ لیتے تو یہ طریقہ جائز تھا لیکن یہ تخصیص کرنا کہ تیسرے دن ہی قرآن خوانی ہو گی اور اس میں دعوت ضرور ہوگی اور جو ایسا نہ کرے وہ وہابی ہے،*

*"●✿__ جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ تیجہ کرنا بدعت ہے، چالیسواں کرنا بدعت ہے تو جواب میں عام طور پر لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہم تو کوئی گناہ کا کام نہیں کر رہے، بلکہ ہم تو قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور لوگوں کی دعوت کر رہے ہیں اور نہ قرآن شریف پڑھنا گناہ ہے، اور نہ لوگوں کی دعوت کرنا گناہ ہے، بیشک یہ دونوں گناہ نہیں، بشرطیکہ ان کو لازم مت سمجھو، اور اگر کوئی شخص اس میں شریک نہ ہو تو اس کو طعنہ مت دو، اور اس عمل کو دین کا حصہ مت سمجھو، تو پھر یہ عمل بیشک جائز ہے،*.

*"●✿__ اللہ اور اللہ کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو، اس مفہوم میں یہ سب بدعات بھی داخل ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی طریقہ گھڑ کر اس کو لازمی قرار دے دیا جائے اور جو شخص وہ طریقہ اختیار نہ کرے اس کو مطعون کیا جائے۔* 

*"●✿__قرآن شریف پڑھنا اس وقت باعث اجر و ثواب ہے جب وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو، اگر اس کے خلاف ہو تو اس میں کوئی اجر وثواب نہیں۔ میں اس کی مثال یوں سمجھیں کہ مغرب کی تین رکعت پڑھنا فرض ہے، اب ایک شخص کہے کہ ( معاذ اللہ) یہ تین کا عدد بے تکا سا ہے، چار رکعت پوری کیوں نہ پڑھیں؟ اب وہ شخص تین رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھتا ہے، بتایے ! اس نے کیا گناہ کیا ؟ کیا اس نے شراب پی لی ؟ کیا چوری کر لی ؟ یا ڈاکہ ڈالا ؟ صرف اتنا ہی تو کیا کہ ایک رکعت زیادہ پڑھ لی، جس میں قرآن کریم زیادہ پڑھا، ایک رکوع زیادہ کیا اور دو سجدے زیادہ کیسے اور اللہ کا نام لیا، اب اس میں اس نے کیا گناہ کر لیا ؟*

*"●✿__لیکن ہو گا یہ کہ چوتھی رکعت جو اس نے زیادہ پڑھی نہ صرف یہ کہ زیادہ اجر وثواب کا موجب نہیں ہوگی بلکہ ان پہلی تین رکعتوں کو بھی لے ڈوبے گی اور ان کو بھی خراب کر دے گی، کیوں؟ اس لیے کہ اللہ تعالی اور اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہے، سنت اور بدعت میں یہی فرق ہے کہ جو طریقہ بتایا ہوا ہے وہ سنت ہے اور جو بتایا ہوا طریقہ نہیں ہے بلکہ اپنی طرف سے گھڑا ہوا ہے اور دیکھنے میں بہت اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ کوئی اجر و ثواب نہیں۔* 
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _(110) _ ایصال ثواب کا صحیح طریقه کیا ہے ؟*

*"●✿_ کسی مردہ کو ایصال ثواب کرنا بڑی فضیلت کی چیز ہے، جو شخص کسی مرنے والے کو ایصال ثواب کرے تو اس کو دگنا ثواب ملتا ہے، ایک اس عمل کے کرنے کا ثواب، اور دوسرے ایک مسلمان کے ساتھ ہم دردی کرنے کا ثواب لیکن شریعت نے ایصال ثواب کے لیے کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا, شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو اس کے عزیز واقارب اس کے لیے ایصال ثواب کریں، کوئی بھی نیک عمل کر کے اس کا ثواب اس کو پہنچائیں، اتنی بات نبی کریم ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے، ایصالِ ثواب صرف قرآن شریف پڑھ کر ہی کرو، یا صدقہ کر کے کرو، یا نماز پڑھ کر کرو، بلکہ جس وقت جس نیک کام کی توفیق ہو جائے اس نیک کام کا ایصال ثواب جائز ہے،*

 *"●✿_تلاوت قرآن کریم کے ذریعے، نفلیں پڑھ کر، تسبیحات پڑھ کر، حج کر کے، روزہ رکھ کر، طواف کر کے، عمرہ کر کے ثواب پہنچائیں، یہ سب جائز ہیں، اور نبی کریم ﷺ سے اس طرح ایصال کرنا ثابت ہے لیکن اس ایصال ثواب کے لیے شریعت نے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا کہ بس اسی طریقے سے کرنا ہوگا، بلکہ سہولت کے ساتھ آدمی کو جس عبادت کا موقع ہو، اس عبادت کے ذریعہ ایصال ثواب کر دے، بس اخلاص کے ساتھ ایصال ثواب کر دے، شرعاً ایصال ثواب کے لیے نہ تو دن مقرر ہے، نہ وقت مقرر ہے، نہ اس کے لیے کوئی طریقہ مقرر ہے، نہ تقریب مقرر ہے۔*

*"●✿_بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایصال ثواب صرف مردوں کو ہو سکتا ہے جو دنیا سے جا چکے، زندوں کو نہیں ہو سکتا، یہ خیال غلط ہے، ایصال ثواب تو زندہ آدمی کو بھی کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اعبادت کر کے، تلاوت کر کے اس کا ثواب ایسے لوگوں کو پہنچا دو جن کو آپ کی ذات سے کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو، اس کے نتیجے میں تم نے اس کے ساتھ جو زیادتی کی ہے ان شاء اللہ اس کی تلافی ہو جائے گی۔*

*"_®_(اصلاحی خطبات، ج۱۶، ۲۳۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (111)_ کیا تبلیغی نصاب (فضائل اعمال) پڑھنا بدعت ہے ؟*

*"●✿_ ایک صاحب مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ تبلیغی جماعت والے تبلیغی نصاب پڑھتے ہیں اور لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں تبلیغی نصاب کون پڑھتا تھا ؟ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں کون پڑھتا تھا ؟ لہذا یہ تبلیغی نصاب پڑھنا بھی بدعت ہو گیا،*

*"●✿_ یہ بات واضح ہے کہ علم اور دین کی بات کہنا اور اس کی تبلیغ کرنا ہر وقت اور ہر آن جائز ہے، مثلاً ہم اور آپ جمعہ کے روز یا کسی اور وقت میں جمع ہوتے ہیں اور دین کی بات سنتے اور سناتے ہیں، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا کہ لوگ خاص طور پر جمعہ کے روز یا فلاں وقت میں جمع ہوتے ہوں اور پھر ان کے سامنے دین کی بات کی جاتی ہو، لہذا یہ ہمارا جمع ہونا بھی بدعت ہے،*

*"●✿_ خوب سمجھ لیجیے! کہ یہ اس لیے بدعت نہیں کہ دین کی تعلیم و تبلیغ ہر وقت اور ہر آن جائز ہے لیکن اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ جمعہ کے دن یا فلاں دن مسجد میں یہ اجتماع مسنون ہے اور اگر کوئی شخص اس اجتماع میں شریک نہ ہو تو اس کو تو دین کا شوق نہیں ہے، اس کے دل میں دین کی عظمت اور محبت نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اجتماع کے دن نہیں آتا، تو اس صورت میں یہی اجتماع کا عمل جو ہم اور آپ کر رہے ہیں بدعت بن جائے گا، اللہ تعالی محفوظ رکھے ۔*

*"●✿_ اسی طرح لوگ تبلیغی نصاب پڑھتے ہیں اور دینی آعمال کی فضیلتیں سناتے ہیں، یہ بڑے ثواب کا کام ہے، اب اگر کوئی اس کو متعین کرے کہ تبلیغی نصاب ہی پڑھنا ضروری ہے اور یہی سنت ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی دوسری کتاب پڑھی جائے گی تو وہ مقبول نہیں، تو اس صورت میں یہ تبلیغی نصاب پڑھنا بھی بدعت بن جائے گا، لہذا کسی بھی عمل مباح کو یا اجر وثواب والے عمل کو خاص وقت اور خاص حالات کے ساتھ مربوط کر کے لازم قرار دے دیا جائے تو وہی بدعت بنا دیتا ہے۔*

*®_( اصلاحی خطبات ج ۱، ص ۲۳۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (112) خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنا کیوں منع ہے؟*

*"●✿_ حضور اقدس ﷺ نے جمعہ کے دن کی کتنی فضیلت بیان فرمائی ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :-"قل ما كان يفطر يوم الجمعة “ (ترمذی ، کتاب الصوم ) یعنی بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ جمعہ کے روز آپ نے روزہ نہ رکھا ہو، بلکہ اکثر جمعہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اس لیے کہ یہ فضیلت والا دن روزے کے ساتھ گزرے تو اچھا ہے،*

*"●✿_ لیکن آپ ﷺ کو دیکھ کر رفتہ رفتہ لوگوں نے بھی جمعہ کے دن روزہ رکھنا شروع کر دیا اور جمعہ کے دن کو روزے کے ساتھ اس طرح مخصوص کر دیا جس طرح یہودی لوگ ہفتہ کے دن کو مخصوص کرتے ہیں، اس لیے یہودیوں کے ہاں ہفتہ کے دن روزہ رکھا جاتا تھا اور ان کے ذہنوں میں ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کی خاص فضیلت اور اہمیت تھی،*

*"●✿_ چنانچہ جب حضور ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے صحابہ کرام کو منع فرما دیا اور با قاعدہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جمعہ کے روز کوئی شخص روزہ نہ رکھے، یہ آپ ﷺ نے اس لیے فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس دن کو اللہ تعالی نے روزہ کے لیے متعین نہیں کیا، لوگ اس کو اپنی طرف سے متعین کر دیں، اور وہ عمل دوسروں کی نظر میں ضروری نہ سمجھا جانے لگے، اس لیے آپ نے روزے کے لیے جمعہ کی تعیین کر لینے سے منع فرما دیا کیونکہ خود آنحضرت صلی ای تیم اس کو ضروری اور لازمی نہیں سمجھتے تھے، نہ دوسروں کے لیے اس طرح کا کوئی اہتمام والتزام جاری کرانا چاہتے تھے۔*

*®_ [ اصلاحی خطبات ج ۱ ص ۲۳۰]*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (113)_ مجالس سیرت کب اور کیوں بدعت بن جاتی ہیں ؟*

*"●✿__ حضور اقدس ﷺ کی سیرت بیان کرنا کتنے اجر وفضیلت کا کام ہے، وہ لمحات جس میں حضور‌ اقدس ﷺ کا ذکر کسی بھی حیثیت سے ہو وہ حاصل زندگی ہے، حقیقت میں قابل قدر اوقات تو وہی ہیں جو آپ ﷺ کے ذکر مبارک میں صرف ہو جائیں،*

*"●✿__ لیکن اگر کوئی شخص اس کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کر دے، خاص دن متعین کر دے، یا خاص مجلس متعین کرلے اور یہ کہے کہ اسی خاص دن اور صورت ہی میں اجر و ثواب منحصر ہے تو یہی قیودات اس جائز اور مبارک عمل کو بدعت بنادیں گی۔*

*"●✿__اس کی آسان سی مثال سمجھیے کہ ہمیں نماز میں التحیات پڑھنے کے بعد یہ درود ابراہیم پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے، یہ درود شریف پڑھنا حضور اقدس ﷺ نے ہمیں سکھا دیا، اس کو پڑھنا جائز اور مسنون ہے، اب اگر کوئی شخص دوسرا درود شریف پڑھے جس کے الفاظ اس سے مختلف ہوں، پڑھے تو یہ بھی جائز ہے، کوئی گناہ نہیں، اور درود شریف پڑھنے کی سنت ادا ہو جائے گی لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ درود شریف نہ پڑھو بلکہ یہ دوسرا والا درود شریف پڑھو اور یہی پڑھنا سنت ہے، تو اس صورت میں یہ دوسرا درود شریف پڑھنا جو بڑی فضیلت والا عمل تھا بدعت بن جائے گا ۔*

*®_ [ اصلاحی خطبات ج ۱ ص ۲۳۴]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (114) انگوٹھے چومنا کیوں بدعت ہے ؟*

*"●✿_ آپ نے مسجد سے اذان کی آواز سنی اور اذان کے اندر جب "أشهد أن محمدا رسول الله " سنا، آپ کے دل میں حضور اقدس ﷺ کی محبت کا داعیہ پیدا ہوا اور محبت سے بے اختیار ہو کر آپ نے انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگا لیے تو بذات خود یہ عمل کوئی گناہ اور بدعت نہیں، اس لیے کہ اس نے یہ عمل بے اختیار سر کار دو عالم ﷺ کی محبت میں کیا، اور سرکار دو عالم ﷺ کی محبت اور عظمت ایک قابل تعریف چیز ہے اور ایمان کی علامت ہے، اور ان شاء اللہ اسی محبت پر اجر و ثواب ملے گا،*

*"●✿__ لیکن اگر کوئی شخص ساری دنیا کے لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دے کہ جب کبھی اذان میں "أشهد أن محمدا رسول اللہ“ پڑھا جائے تو تم سب اس وقت اپنے انگوٹھوں کو چوما کرو اس لیے کہ اس وقت انگوٹھوں کو چومنا مستحب یا سنت ہے اور جو شخص انگوٹھوں کو نہ چومے وہ حضور اقدس ﷺ سے محبت کرنے والا نہیں ہے، تو وہی عمل جو محبت کے جذبے سے بالکل جائز تھا اب بدعت بن گیا،*

*"●✿__ اس میں باریک فرق ہے کہ اگر یہ جائز عمل صحیح جذبے سے کیا جا رہا ہے اور اس میں خود ساختہ کوئی قید نہیں ہے تو وہ بدعت نہیں ہے، اور جب اس عمل کو اپنے اوپر لازم کر لیا یا اس کو سنت سمجھ لیا اور اگر کوئی دوسرا شخص وہ عمل نہ کرے تو اس کو مطعون کرنا شروع کر دیا اب وہی عمل بدعت بن جائے گا۔*

*®( اصلاحی خطبات ج ۱، ص ۲۳۱)*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _ (115)_ يا رسول الله ! كہنا کب اور کیوں بدعت ہے ؟*

*"●✿__ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ایک شخص کے سامنے کسی مجلس میں حضور اقدس ﷺ کا نام گرامی آیا اور اس کو بے اختیار یہ تصور آیا کہ حضور اقدس ﷺ سامنے موجود ہیں اور اس نے یہ تصور کر کے کہہ دیا کہ "الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ" اور حاضر ناظر کا عقیدہ اس کے دل میں نہیں تھا بلکہ جس طرح ایک آدمی غائب چیز کا تصور کر لیتا ہے کہ یہ چیز میرے سامنے موجود ہے تو اس تصور کرنے میں اور یہ الفاظ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔*

*"●✿__ لیکن اگر کوئی شخص یہ الفاظ اس عقیدے کے ساتھ کہے کہ حضور اقدس ﷺ یہاں پر اس طرح حاضر و ناظر ہیں جس طرح اللہ تعالی حاضر و ناظر ہیں تو یہ شرک ہو جائے گا، معاذ اللہ۔ اور اگر اس عقیدے کے ساتھ تو نہیں کہے لیکن یہ سوچا کہ "الصلوة والسلام عليك يا رسول الله" کہنا سنت ہے اور اس طرح درود پڑھنا ضروری ہے اور جو شخص اس طرح یہ الفاظ نہ کہے گویا اس کے دل میں حضور اقدس ﷺ کی محبت نہیں ہے تو پھر یہی عمل بدعت، ضلالت اور گمراہی ہے۔*

*"●✿__ لہٰذا عقیدے اور عمل کے ذرا سے فرق سے ایک جائز چیز نا جائز اور بدعت بن جاتی ہے، آپ جتنی بدعتیں دیکھیں گے ان میں سے اکثر ایسی ہیں جو بذات خود مباح تھیں اور جائز تھیں لیکن جب اسے فرض کی طرح لازم کر لیا گیا تو اس سے وہ بدعت بن گئیں ۔*

*®_(اصلاحی خطبات ج ۱، ص ۲۳۲)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞ _(116) پریشانیوں میں درود شریف کی کثرت میں کیا حکمت ہے ؟*

*"●✿__ ایک مرتبہ ہمارے حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی مشکل پریشانی میں ہو تو اس وقت درود شریف کثرت سے پڑھا کرو، پھر اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے ذوق میں ایک بات آتی ہے وہ یہ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا امتی جب بھی حضور ﷺ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود شریف حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں فرشتے پہنچاتے ہیں ، اور جا کر عرض کرتے ہیں کہ آپ کے فلاں امتی نے آپ کی خدمت میں درود شریف کا یہ ہدیہ بھیجا ہے،*

*"●✿__ اور دوسری طرف زندگی میں حضور اقدس ﷺ کی سنت یہ تھی کہ جب کبھی کوئی شخص آپ کی خدمت میں کوئی ہدیہ پیش کرتا تو آپ اس کی مکافات ضرور فرماتے تھے، اس کے بدلے میں اس کے ساتھ کوئی نیکی ضرور فرماتے تھے،*.

*"●✿__ ان دونوں باتوں کے ملانے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب تم حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں درود بھیجو۔ ممکن نہیں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ اس کا بدلہ نہ دیں، بلکہ ضرور بدلہ دیں گے اور وہ بدلہ یہ ہوگا کہ آپ اس کے حق میں دعا کریں گے کہ اے اللہ ! یہ میرا امتی جو مجھ پر درود بھیج رہا ہے، وہ فلاں مشکل اور پریشانی میں مبتلا ہے، اے اللہ ! اس کی مشکل دور فرمادیجیے، تو اس دعا کی برکت سے انشاء اللہ، اللہ تعالی تمہیں اس مشکل سے نجات عطا فرمائیں گے، اس لیے جب کبھی کوئی پریشانی آئے تو اس وقت حضور اقدس ﷺ پر درود شریف کی کثرت کریں۔*

*®_[ اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۱۷۹]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(117) درود شریف کے الفاظ کیا ہوں؟ من گهڑت درود شریف نہ پڑھیں:-*

*"●✿_ ایک بات اور سمجھ لیں، درود شریف پڑھنا ایک عبادت بھی ہے اور ایک دعا بھی ہے جو اللہ تعالی کے حکم پر کی جا رہی ہے، اس لیے درود شریف کے لیے وہی الفاظ اختیار کرنے چاہئیں جو اللہ نے اور اللہ کے رسول ﷺ نے بتائے ہیں اور علماء کرام نے اس پر مستقل کتابیں لکھ دی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ سے کونسے کونسے درود ثابت اور منقول ہیں،*

*●✿_لیکن حضور اقدس ﷺ سے اتنی کثرت سے درود شریف منقول ہونے کے باوجود لوگوں کو یہ شوق ہو گیا ہے کہ ہم اپنی طرف سے درود بنا کر پڑھیں گے، چنانچہ کسی نے درود تاج گھڑ لیا کسی نے درود لکھی گھڑ لیا، وغیرہ وغیرہ اور ان کے فضائل بھی اپنی طرف سے بنا کر پیش کر دیے کہ اس کو پڑھو گے تو یہ ہو جائے گا، حالانکہ نہ تو یہ الفاظ حضور اقدس ﷺ سے منقول ہیں اور نہ ان کے یہ فضائل منقول ہیں،*

*"●✿_ بلکہ بعض کے تو الفاظ بھی خلاف شرع ہیں حتیٰ کہ بعض میں شرکیہ کلمات بھی درج ہیں، اس لیے صرف وہ درود شریف پڑھنے چاہئیں جو حضور اقدس ﷺ سے منقول ہیں ، دوسرے درود نہیں پڑھنے چاہئیں،*

*"●✿_ لہٰذا حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب ”زاد السعید" ہر شخص کو اپنے گھر میں رکھنی چاہیے اور اس میں بیان کیے ہوئے درود شریف پڑھنے چاہئیں، اسی طرح شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ کا ایک رسالہ ہے فضائل درود شریف وہ بھی اپنے گھر میں رکھیں اور پڑھیں اور درود شریف کو اپنے لیے بہت بڑی نعمت سمجھ کر اس کو وظیفہ بنائیں۔*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۶، ص ۹۴)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞__(118) درود شریف میں نئے طریقے ایجاد کرنا:-*

*"●✿_ آج کل درود و سلام بھیجنے کا مطلب یہ ہو گیا کہ درود و سلام کی نمائش کرو، چنانچہ بہت سے آدمی مل کر کھڑے ہو کر لاؤڈ اسپیکر پر زور زور سے ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ درود و سلام کے بھیجنے کا یہی طریقہ ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر درود و سلام پڑھتا ہے تو اس کو درست نہیں سمجھتے، اور اس کی اتنی قدر و منزلت نہیں کرتے،*

*"●✿_ حالانکہ پوری سیرت طیبہ میں اور صحابہ کرام کی زندگی میں کہیں بھی یہ مروجہ طریقہ نہیں ملتا، جبکہ صحابہ کرام میں سے ہر شخص مجسم درود تھا اور صبح سے لے کر شام تک نبی کریم ﷺ پر درود شریف بھیجتا تھا۔*

*"●✿_اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس طریقے میں شامل نہ ہو تو اس کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ اس کو حضور اقدس ﷺ سے محبت نہیں، یہ درود و سلام کا منکر ہے وغیرہ وغیرہ، یہ طعنہ دینا اور زیادہ بری بات ہے،* 

*"●✿_خوب سمجھ لیجے! درود بھیجنے کا کوئی طریقہ اس طریقے سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتا جو طریقہ نبی کریم ﷺ نے خود بتایا ہو، وہ طریقہ یہ ہے کہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ پر درود بھیجنے کا کیا طریقہ ہے؟ حضور اقدس ﷺ نے جواب میں درود ابراہیمی پڑھا اور فرمایا کہ اس طریقے سے درود شریف پڑھا کرو۔*

*®_( اصلاحی خطبات ، ج ۶، ص ۱۰۷)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (119) کیا درود و سلام کے وقت حضور ﷺ تشریف لاتے ہیں ؟*

*"●✿_ اور یہ طریقہ اس وقت اور زیادہ غلط ہو گیا جب اس کے ساتھ ایک خراب عقیدہ بھی لگ گیا ہے، وہ‌ یہ ہے کہ جب ہم درود شریف پڑھتے ہیں تو اس وقت حضور اقدس ﷺ تشریف لاتے ہیں، یا آپ کی روح مبارک تشریف لاتی ہے، اور جب آپ تشریف لا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کی تعظیم اور تکریم میں کھڑے ہونا چاہیے، اس لیے ہم کھڑے ہو جاتے ہیں۔*

*"●✿_بتایے یہ بات کہ حضور اقدس ﷺ تشریف لاتے ہیں، یہ کہاں سے ثابت ہے؟ کیا قرآن کریم کی آیت سے؟ یا حضور اقدس ﷺ کی کسی حدیث سے ؟ یا کسی صحابی کے قول سے ثابت ہے؟ کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ساری زمین کا چکر لگاتے رہتے ہیں اور ان کا کام یہ ہے کہ جو شخص میری امت میں سے مجھ پر درود و سلام بھیجتا ہے وہ مجھ تک پہنچاتے ہیں۔*

*"●✿_ دیکھیے ! اس حدیث میں یہ تو بیان فرمایا کہ فرشتے مجھ تک درود شریف پہنچاتے ہیں لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں آیا کہ جہاں کہیں درود پڑھا جا رہا ہوتا ہے تو میں وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ پھر ذرا غور تو کریں کہ یہ درود شریف کیا چیز ہے؟ یہ درود شریف ایک ہدیہ اور تحفہ ہے جو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، اور جب کسی بڑے کو کوئی ہدیہ دیا جاتا ہے تو کیا اس کو یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ہمارے گھر تشریف لائیں، ہم آپ کی خدمت میں تحفہ پیش کریں گے؟ یا اس کے گھر بھیجا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس شخص کے دل میں اپنے بڑے کی عزت اور احترام ہوگا، وہ کبھی اس بات کو گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ بڑے سے یہ کہے کہ آپ ہدیہ قبول کرنے کے لیے میرے گھر آئیں، وہاں آکر ہدیہ لے لیں، بلکہ وہ شخص ہمیشہ یہ چاہے گا کہ یا تو میں خود جا کر اس کو ہدیہ پیش کروں یا کسی اپنے نمائندے کو بھیجے گا کہ وہ ادب اور احترام کے ساتھ اس کی خدمت میں یہ ہدیہ پہنچادے،*

*"●✿_ چنانچہ اللہ تعالی نے تو اپنے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں درود شریف پہنچانے کے لیے یہ طریقہ مقرر فرمایا کہ آپ کا امتی جہاں کہیں بھی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں ہدیہ پیش کرے، اور پھر اس درود شریف کو وصول کر کے آپ تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو نام لے کر پہنچاتے ہیں کہ آپ کے فلاں امتی نے جو فلاں جگہ رہتا ہے آپ کی خدمت میں یہ ہدیہ بھیجا ہے۔*

*"●✿_آج کل فرقہ بندیاں ہوگئی ہیں اور ان فرقہ بندیوں کی وجہ سے یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ اگر کوئی صحیح بات کہے تو بھی کان اس کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اس لیے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے محض طعنہ دے دینا کہ فلاں فرقہ تو درود شریف کا منکر ہے، ان کے دل میں تو حضور ﷺ کی محبت نہیں ہے، اس طرح طعنہ دینے سے بات نہیں بنتی، اگر ذرا بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ حضور اقدس ﷺ کی محبت کا تقاضا کیا ہے؟ تب جا کر حقیقت حال واضح ہوگی ۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۶، ص ۱۰۸)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(120) حضور اقدس ﷺ پر درود وسلام کا صحیح طریقہ اور حاضر و ناظر کے عقیدے سے پکارنا:-*

*●✿__ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ جب تم حضور اقدس ﷺ کے روضہ اقدس پر جاؤ تو وہاں جا کر کہو : الصلاة والسلام عليك يا رسول الله، یعنی حضور اقدس ﷺ کو خطاب کر کے سلام پیش کرو لیکن جب تم روضہ اقدس سے دور ہو تو پھر تم یوں کہو : اللهم صلى على محمد وعلى ال محمد،*

*●✿__ لہٰذا اس حکم کی رو سے روضہ اقدس سے دور ہونے کی صورت میں الصلوۃ والسلام علیک یا‌ رسول اللہ کہنا درست نہیں، کیونکہ حضور اقدس ﷺ کو دور سے پکارنا بے ادبی کی بات ہے اور یہ آپ ﷺ کی تعظیم کے خلاف ہے۔*

*●✿__ خاص طور پر "الصلاة والسلام عليك يارسول اللہ“ کے الفاظ سے اس عقیدے سے پکارنا کہ حضور ﷺ ہر جگہ موجود ہیں، اور آپ ﷺ حاضر و ناظر ہیں، اللہ بچائے، یہ عقیدہ انسان کو بعض اوقات شرک تک پہنچا دیتا ہے،*
 
*●✿__صحیح طریقہ وہ ہے جو حضور ﷺ نے خود بیان فرمادیا، وہ یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری قبر پہ آکر مجھے سلام کرے گا، میں اس کا جواب دوں گا اور جو شخص دور سے مجھ پر درود بھیجے گا تو وہ درود مجھ تک فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے کہ آپ کے فلاں امتی نے درود شریف کا یہ تحفہ پیش کیا ہے، یہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے جو حدیث میں منقول ہے۔*

*●✿__ لہذا آپ ﷺ کی ظاہری زندگی میں جس طرح یہ حکم تھا کہ جو شخص بھی آپ سے خطاب کرے وہ قریب جا کر کرے، دور سے نہ کرے، اسی طرح آپ کی وفات کے بعد جبکہ آپ کو قبر مبارک میں دوسری حیات طیبہ حاصل ہے، وہاں بھی یہی حکم ہے کہ قریب جا کر ان الفاظ سے سلام کرو کہ : الصلاة والسلام عليك يا رسول الله، لیکن دور سے کہنا ہے تو درود شریف پڑھو، ان الفاظ سے سلام کہنا آپ کی تعظیم اور ادب کےخلاف ہے۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۱۶، ۲۵۷)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(121) _ نبی کریم ﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ صلعم يا صرف‌"ص" لكھنا درست نہیں _,*

*●✿__ حضور اقدس ﷺ کے اسم گرامی لکھنے کے ساتھ درود یعنی صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا چاہئیے، بہت سے حضرات کو صلی اللہ علیہ وسلم بھی طویل لگتا ہے، معلوم نہیں حضور اقدس ﷺ کا اسم گرامی لکھنے کے بعد ﷺ لکھنے میں ان کو کیوں گھبراہٹ ہوتی ہے، یا وقت زیادہ لگتا ہے، یا روشنائی زیادہ خرچ ہوتی ہے،*

*●✿__ چنانچہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کے بجائے صلعم لکھ دیتے ہیں، یا بعض لوگ صرف ”ص“ لکھ دیتے ہیں، دنیا کے دوسرے سارے کاموں میں اختصار کی فکر نہیں ہوتی، سارا اختصار حضور اقدس ﷺ کے نام کے ساتھ درود شریف لکھنے میں آتا ہے، یہ کتنی بڑی محرومی اور بخل کی بات ہے۔ اس لیے ہمیشہ حضور اقدس ﷺ کے اسم گرامی لکھنے کے ساتھ درود یعنی صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھنا چاہئیے ،*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۶، ص ۸۸)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(122) کیا اسلام نے عورت کی مذمت یا برائی کی ہے ؟*

*"●✿_ عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہونے کا مطلب بعض لوگوں نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، اس کے بعد حضرت حوّا علیہا السلام کو انہی کی پسلی سے پیدا کیا گیا، اور بعض علما نے اس کی دوسری تشریح یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عورت کو تشبیہ دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ عورت کی مثال پسلی کی ہی ہے کہ جس طرح پسلی دیکھنے میں ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے لیکن پسلی کا حسن اور اس کی صحت اس کے ٹیڑھا ہونے میں ہی ہے، چنانچہ کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ پسلی ٹیڑھی ہے اس کو سیدھا کر دوں تو جب اسے سیدھا کرنا چاہے گا تو وہ سیدھی تو نہیں ہوگی البتہ ٹوٹ جائے گی،*

*"●✿_ بعض لوگ اس تشبیہ کو عورت کی مذمت میں استعمال کرتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، لہذا اس کی اصل ٹیڑھی ہے، گویا کہ اس کو مذمت اور برائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں، حالانکہ خود نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کا یہ منشا نہیں ہے۔*

*"●✿_ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو کچھ اور اوصاف دے کر پیدا فرمایا ہے اور عورت کو کچھ اور اوصاف دے کر پیدا فرمایا، دونوں کی فطرت اور سرشت میں فرق ہے، اس وجہ سے مرد عورت کے بارے میں یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ میری طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، حالانکہ عورت کا تمہاری طبیعت کے خلاف ہونا یہ کوئی عیب نہیں ہے، کیونکہ یہ ان کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو،*

*"●✿_ در حقیقت اس حدیث کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہے کہ چونکہ تمہاری طبیعت عورت کی طبیعت سے مختلف ہے، لہٰذا تمہارے لحاظ سے وہ ٹیڑھی ہے لیکن حقیقت میں وہ ٹیڑھا پن اس کی فطرت کا حصہ ہے، جس طرح پسلی کی فطرت کا حصہ یہ ہے کہ وہ ٹیڑھی ہو، اگر پسلی سیدھی ہو جائے تو اس کو عیب کہا جائے گا اور ڈاکٹر اس کو دوبارہ ٹیڑھی کرنے کی کوشش کرے گا، اس لیے کہ اس کی فطرت کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے،*

*"●✿_لہٰذا حدیث کے ذریعہ عورت کی برائی بیان نہیں کی جارہی ہے، بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ عورت کی طبیعت تمہاری طبیعت کے لحاظ سے مختلف ہے، اس لیے تمہیں ٹیڑھی معلوم ہوتی ہے، اس لیے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس کو سیدھا کرنے کی فکر مت کرنا، کیونکہ اس کو سیدھا کرنا ایسا ہی ہوگا جیسے پسلی کو سیدھا کرنا ، اور اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اس کو توڑ ڈالو گے، اور اگر تم اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دو گے تو اس کے ٹیڑھا ہونے کے باوجود تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گے۔*

*{اصلاحی خطبات، ج۱۱، ص ۲۳۰}*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(123) کیا عورت محکوم اور مرد حاکم ہے ؟*

*"●✿_ آج کی دنیا میں جہاں مرد و عورت کی مساوات، ان کی برابری اور آزادی نسواں کا بڑا زور و شور ہے ایسی دنیا میں لوگ یہ بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں کہ شریعت نے مرد کو حاکم بنایا ہے اور عورت کو محکوم بنایا ہے، اس لیے کہ آج کی دنیا میں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ مرد کی عورت پر بالا دستی قائم کر دی گئی ہے اور عورت کو محکوم بنا کر اس کے ہاتھ میں قید کر دیا گیا ہے اور اس کو چھوٹا قرار دے دیا گیا ہے،*

*"●✿_ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے، اب زندگی کے سفر کے طے کرنے میں انتظام کے خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک شخص سفر کا ذمہ دار ہو، حدیث میں نبی کریم سرور دو عالم ﷺ نے یہ حکم دیا کہ جب بھی دو آدمی کوئی سفر کر رہے ہوں، چاہے وہ سفر چھوٹا سا کیوں نہ ہو، اس سفر میں اپنے میں سے ایک کو امیر بنالو، امیر بنائے بغیر سفر نہیں کرنا چاہیے، تا کہ سفر کے جملہ انتظامات اور پالیسی اس امیر کے فیصلے کے تابع ہو، اگر امیر نہیں بنائیں گے تو ایک بد نظمی ہو جائے گی۔*

*"●✿_ لہٰذا جب ایک چھوٹے سے سفر میں امیر بنانے کی تاکید کی گئی ہے تو زندگی کا یہ طویل سفر جو ایک ساتھ گزارنا ہے اس میں یہ تاکید کیوں نہیں ہوگی کہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لو، تاکہ بد نظمی پیدا نہ ہو، بلکہ انتظام قائم رہے، اس انتظام کو قائم کرنے کے لیے کسی ایک کو امیر بنانا ضروری ہے۔*

*"●✿_ اب دو راستے ہیں، یا تو مرد کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنا دیا جائے یا عورت کو امیر بنادیا جائے، اور مرد کو اس کا محکوم بنادیا جائے، تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے، اب انسانی خلقت، فطرت، قوت اور صلاحیتوں کے‌ لحاظ سے بھی اور عقل کے ذریعہ انسان غور کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تعالی نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے وہ عورت کو عطا نہیں کی،*

*"●✿_ لہٰذا اس امارت اور اس سر براہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے، اور اللہ تعالی نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ اس زندگی کے سفر کو طے کرنے کے لیے مرد قوام، حاکم اور منتظم ہیں، اگر تم اس فیصلے کو صحیح جانتے ہو اور مانتے ہو تو اس میں تمہاری‌سعادت اور کامیابی ہے اور اگر نہیں مانتے بلکہ اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہو اور اس کے ساتھ بغاوت کرتے ہو تو پھر تم جانو اور تمہاری زندگی جانے،*

*"●✿_حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیشک مرد عورت کے لیے قوام ہے لیکن ساتھ میں دوستی کا تعلق بھی ہے، انتظامی طور پر تو قوام ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے، ایسا تعلق نہیں ہے جیسا آقا اور کنیز کے درمیان ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے دو دوست کہیں سفر پر جارہے ہوں اور ایک دوست نے دوسرے دوست کو امیر بنا لیا ہو، لہٰذا شوہر اس لحاظ سے تو امیر ہے کہ ساری زندگی کا فیصلہ کرنے کا وہ ذمہ دار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرے جیسے نوکروں اور غلاموں کے ساتھ کیا جاتا ہے، بلکہ اس دوستی کے تعلق کے کچھ آداب اور کچھ تقاضے ہیں، ان آداب اور تقاضوں میں ناز کی باتیں بھی ہوتی ہیں جن کو حاکم ہونے کے خلاف نہیں کہا جا سکتا۔*

*( اصلاحی خطبات ، ج ۲، ص ۷۹)*

*"●✿_ اگر اللہ تعالی کی طرف سے یہ حکم آجاتا کہ عورت باہر کا انتظام کرے گی اور مرد گھر کا انتظام کرے گا تو بھی کوئی چوں و چرا کی مجال نہیں تھی لیکن اگر عقل کے ذریعے انسان کی فطری تخلیق کا جائزہ لیں تو بھی اس کے سوا اور کوئی انتظام نہیں ہو سکتا کہ مرد گھر کے باہر کا کام کرے اور عورت گھر کے اندر کا کام کرے، اور گھر کے باہر کے کام قوت کا تقاضہ کرتے ہیں، محنت کا تقاضہ کرتے ہیں، لہٰذا اس فطری تخلیق کا بھی تقاضہ یہی تھا کہ گھر کے باہر کا کام مرد انجام دے اور گھر کے اندر کے کام عورت کے سپرد ہوں۔*

*"●✿_ اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو براہ راست خطاب فرمایا اور ان کے واسطے سے ساری مسلمان خواتین سے خطاب فرمایا، وہ یہ ہے کہ تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اس میں صرف اتنی بات نہیں کہ عورت کو ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے، بلکہ اس آیت میں ایک بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، وہ یہ کہ ہم نے عورت کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ گھر میں قرار سے رہ کر گھر کے انتظام کو سنبھالے۔*

 *"●✿_ لیکن آج مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا جاتا ہے کہ جو کام مرد کرے وہ کام عورت بھی کرے، یہ مساوات کا نعرہ در حقیقت فطرت سے بغاوت ہے، اللہ تبارک و تعالی نے جو فطری نظام بنایا تھا اس پر ہزار ہا سالوں سے عمل ہوتا چلا آ رہا تھا ، بلا قید مذہب وملت ، دنیا کی ہر قوم ، ہر مذہب اور ہر ملت میں یہی طریقہ رائج تھا کہ مرد گھر کے باہر کی ذمہ داریاں پوری کرے گا اور عورت گھر کے اندر کا انتظام کرے گی،*

 *"●✿_حضور ﷺ نے جب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تو ان کے درمیان بھی یہی تقسیم کار فرمائی کہ حضرت علی سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کام کمانا ہے، جاؤ باہر جا کر کماؤ اور حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ تم گھر کے اندر رہ کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالو، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیتے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے اندر کا انتظام سنبھالتیں، گھر کی جھاڑو دیتیں، چکی چلا کر آٹا پیستیں، پانی بھرتیں، کھانا پکاتیں۔ یہ فطری تقسیم ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے ،*

 *®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۱۹۰)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (124) _ عورت کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ کیا گیا_,*

*"●✿__لہذا اب یورپ میں تو قدم قدم پر عورت موجود ہے، دفتروں میں بازاروں میں ریلیوں میں جہازوں میں ہر جگہ عورت موجود اور ساتھ میں یہ قانون بھی بنا دیا گیا کہ اگر دو مرد و عورت آپس میں رضامندی سے جنسی تسکین کرنا چاہیں تو ان پر کوئی رکاوٹ عائد نہیں ہے، نہ قانون کی رکاوٹ ہے، نہ اخلاقی رکاوٹ ہے، اب عورت ہر جگہ موجود ہے، اور اس سے فائدہ اٹھانے کے راستے چوپٹ کھلے ہوئے ہیں اور مرد کے سر پر عورت کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہے، بلکہ عورت سے یہ کہہ دیا گیا کہ تم کماؤ بھی اور قدم قدم پر ہمارے لیے لذت حاصل کرنے کے اسباب بھی مہیا کرو۔*

*"●✿__نام نهاد آزادی نسواں کے نتائج عورت کے ساتھ یہ فراڈ کھیلا گیا اور اس کو دھوکہ دیا گیا، اور اس کا نام تحریک آزادی نسواں رکھا گیا یعنی عورتوں کی آزادی کی تحریک، اس فراڈ کے ذریعہ عورت کو گھر سے باہر نکال دیا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صبح اٹھ کر شوہر صاحب اپنے کام پر چلے گئے اور بیوی صاحبہ اپنے کام پر چلی گئیں اور گھر میں تالا ڈال دیا اور اگر بچہ پیدا ہوا تو اس کو کسی چائلڈ کیئر کے سپرد کر دیا گیا، جہاں پر اس کو انایں تربیت دیتی رہیں، باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا سے محروم وہ بچہ چائلڈ کئیر میں پرورش پارہا ہے، جو بچہ ماں باپ کی شفقت اور محبت سے محروم ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں پہلے گا، اس کے دل میں باپ کی کیا عظمت ہوگی اور ماں کی محبت کیا ہوگی۔*

*"●✿__ آج مغرب کا یہ حال ہے کہ وہاں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے، ماں باپ کے رشتوں کی جو مٹھاس تھی وہ فنا ہو چکی، بھائی بہن کے تعلقات ملیا میٹ ہو چکے، ایک طرف تو خاندانی نظام تباہ ہو چکا اور دوسری طرف وہ عورت ایک کھلونا بن گئی، چاروں طرف اس کی تصویر دکھا کر اس کے ایک ایک عضو کو بر سر بازار برہنہ کر کے اس کے ذریعہ تجارت چمکائی جارہی ہے، اس کے ذریعہ پیسے کمانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔*

*"●✿__ اس عورت سے یہ کہا گیا کہ تمہیں گھروں کے اندر قید کر دیا گیا ہے تمہیں باہر اس لیے نکالا جا رہا ہے تا کہ تم ترقی کرو، تم سر براہ مملکت بن جانا تم وزیر بن جانا تم فلاں فلاں بڑے عہدوں پر پہنچ جانا اور لاکھوں عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹ لیا گیا، آج وہاں جا کر دیکھ لیجیے، دنیا کا ذلیل ترین کام عورت کے سپر د ہے، وہ عورت جو اپنے گھر میں اپنے شوہر کو ، اپنے بچوں کو اور اپنے ماں باپ کو کھانا سرو کر رہی تھی، وہ اس کے لیے دقیانوسیت تھی، وہ عورت کے لیے قید تھی اور وہی عورت بازاروں کے اندر، ہوٹلوں کے اندر ، ہوائی جہازوں کے اندر سینکڑوں انسانوں کو کھانا سرو کرتی ہے، اور ان کی ہوس ناک نگاہوں کا نشانہ بنتی ہے تو یہ عزت ہے اور یہ آزادی ہے،*

*"●✿__ وہ لوگ جو آزادی نسواں کے علم بردار کہلاتے ہیں، انہوں نے عورت پر جو ظلم کیا ہے تاریخ انسانیت میں اس سے بڑا ظلم نہیں ہوا، آج اس کے ایک ایک عضو کو بیچا جارہا ہے، اور اس کی عزت اور تکریم کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، اور پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم عورت کے وفا دار ہیں، اور عورت کی آزادی کے علم بردار ہیں، اور جس نے عورت کے سر پر عفت و عصمت کا تاج رکھا تھا اور اس کے گلے میں احترام کے ہار ڈالے تھے، اس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے عورت کو قید کر دیا اور یہ عورت ایسی مخلوق اللہ تعالی نے بنائی ہے کہ جو چاہے ان کو بہکا دے، اور اپنا الو سیدھا کر لے، چنانچہ آج ہماری مسلمان خواتین نے بھی ان ہی کی لے میں لے ملانی شروع کر دی۔*

*●✿_اب دیکھیے! کہ اگر ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ آپ کو اپنے معاش کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، دوسرے لوگ آپ کے لیے یہ خدمت انجام دینے کو تیار ہیں، اس پر عورتوں کو خوش ہونا چاہیے، مگر جھوٹ کا یہ پروپیگنڈہ ساری دنیا میں عالمی طور پر پھیلا گیا ہے، اس لیے خوش ہونے کے بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ صاحب خواتین کے حقوق تلف کرنا چاہتے ہیں اور جلوس نکالے جاتے ہیں،*

*"●✿_ یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے خواتین کے حقیقی مسائل سمجھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی، ان خواتین نے ائیر کنڈیشنر عمارت میں پرورش پائی ہے، عورتوں کے کیا مسائل ہیں، اس کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے کوئی تعرض نہیں کیا، کبھی ان کے مسائل کو جاننے کی کوشش نہیں کی، ان کے نزدیک صرف مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں مغرب کے لوگ یورپ اور امریکہ کے لوگ یہ کہ دیں کہ ہاں ! تم لوگ روشن خیال ہو اور تم لوگ اکیسویں صدی کے ساتھ چلنے والے ہو، بس یہ مسئلہ ہے، ان کے نزدیک کوئی اور مسئلہ نہیں ہے۔*

*"●✿_ بہر حال ! آج یہ پروپیگنڈہ ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے کہ یہ مسلمان یہ مولوی لوگ عورتوں کو گھروں میں بند کرنا چاہتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زندگی کے دو مختلف دائرہ کار تجویز کیے ہیں مرد کے لیے الگ، عورت کے لیے الگ، اس لیے مرد کی جسمانی ساخت اور ہے ، اور عورت کی جسمانی ساخت اور ہے، مرد کی صلاحیتیں اور ہیں، عورت کی صلاحیتیں اور ہیں، لہذا مساوات کا یہ نعرہ لگانا کہ عورت بھی وہی سب کام کرے جو کام مرد کرتا ہے تو یہ فطرت سے بغاوت ہے، اور اس کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے،*

*"●✿_ اگر ہم اپنے معاشرے میں خاندانی نظام کو بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے خواتین کو پردہ میں رکھنا ہوگا اور مغرب کے پروپیگنڈہ کے اثرات کو اپنے معاشرے سے نکالنا ہوگا، اللہ تعالی ہمارے معاشرے کو مغربی آفات سے محفوظ فرمائے اور چین وسکون کی زندگی ہم سب کو عطا فرمائے۔*
*(اصلاحی خطبات ، ج ۱۵، ص ۱۹۲ تا ۱۹۸ )*
*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (125) خواتین کی آزادی کی حقیقت اور عورت کو کس لالچ پر گھر سے باھر نکالا گیا؟*

*●✿_ جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کوئی قیمت ہی نہ رکھتی ہو اور جہاں عفت و عصمت کے بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو ، ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار اور پردہ اور حیا کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گا، چنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لیے دوہری مصیبت سمجھا، ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھا، چنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا اس کا خوب صورت اور معصوم نام تحریک آزادی نسواں ہے،*

*"●✿_ عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چار دیواری میں قید رہی ہو، اب آزادی کا دور ہے اور تمہیں اس قید سے باہر آ کر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہیے، اب تک تمہیں حکومت و سیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے، اب تم باہر آکر زندگی کی جدو جہد میں برابر کا حصہ لو تو دنیا بھر کے اعزازات اور اونچے اونچے منصب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔*

*"●✿_ عورت بے چاری ان دل فریب نعروں سے متاثر ہو کر گھر سے باہر آ گئی اور پروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شور مچا مچا کر اسے یہ باور کرا دیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے اور اب اس کے رنج وغم کا خاتمہ ہو گیا ہے، ان دلفریب نعروں کی آڑ میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا، اسے دفتر میں کلرکی عطا کی گئی، اسے اجنبی مردوں کی پرائیوٹ سیکریٹری کا منصب بخشا گیا، اسے ” اسٹینو ٹائپسٹ بننے کا اعزاز دیا گیا، اسے تجارت چمکانے کے لیے سیلز گرل اور ماڈل گرل بنے کا شرف بخشا گیا اور اس کے ایک ایک عضو کو بر سر بازار رسوا کر کے گاہکوں کو دعوت دی گئی کہ آؤ اور ہم سے مال خریدو،*

*"●✿_ یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پر دین فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے تجارتی اداروں کے لیے ایک شو پیس اور مرد کی تھکن دور کرنے کے لیے ایک تفریح کا سامان بن کر رہ گئی۔ نام یہ لیا گیا کہ عورت کو آزادی دے کر سیاست و حکومت کے دروازے اس کے لیے کھولے جارہے ہیں،*

*"●✿_۔ پھر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عورت کسب معاش کے آٹھ آٹھ گھنٹے کی یہ سخت اور ذلت آمیز ڈیوٹیاں ادا کرنے کے باوجود اپنے گھر کے کام دھندوں سے اب بھی فارغ نہیں ہوئی، گھر کی تمام خدمات آج بھی پہلے کی طرح اس کے ذمے ہیں اور اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے گھر پہنچ کر کھانا پکانے، برتن دھونے اور گھر کی صفائی کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔*

*(اصلاحی خطبات، ج ۱، ص ۱۴۴ تا ۱۴۷)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(126)_ کیا عورت ضرورت کے وقت بھی گھر سے باہر نہیں جاسکتی ؟*

*"●✿_ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عورت بھی ایک انسان ہے، اس کو بھی گھر سے باہر جانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس کے دل میں بھی گھر سے باہر نکلنے کی خواہش ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملاقات کرے اور بعض اوقات اپنی ذاتی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بھی باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کو جائز تفریح کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے اس کو ان کاموں کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔*

*"●✿_خوب سمجھ لیجیے! کہ یہ جو حکم ہے کہ گھر میں قرار سے رہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ گھر میں تالہ لگا کر عورت کو اندر بند کر دیا جائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ عورت بلاضرورت گھر سے نہ نکلے، البتہ ضرورت کے وقت وہ گھر سے باہر بھی جاسکتی ہے،*

*"●✿_ ویسے تو اللہ تعالی نے عورت پر کسی زمانے میں بھی روزی کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی، شادی سے پہلے اس کی مکمل کفالت باپ کے ذمے ہے اور شادی کے بعد اس کی تمام کفالت شوہر کے ذمے ہے لیکن جس عورت کا نہ باپ ہو، نہ شوہر ہو اور نہ معاشی کفالت کا کوئی ذریعہ موجود ہو تو ظاہر ہے کہ اس کو معاشی ضرورت کے لیے گھر سے باہر جانا پڑے گا، اس صورت میں باہر جانے کی اجازت ہے،*

*"●✿_ بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جائز تفریح کے لیے بھی گھر سے باہر جانے کی اجازت ہے، آنحضرت ﷺ بعض اوقات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ساتھ گھر سے باہر بھی لے کر گئے، آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ بھی لگائی، اس جائز تفریح کا بھی آنحضرت ﷺ نے اہتمام فرمایا، کیونکہ ایک خاتون کو جائز تفریح کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی تفریح کی اجازت ہے بشر طیکہ جائز حدود میں ہو، بے پردگی کے ساتھ نہ ہو اور غیر محرموں کے ساتھ نہ ہو،*

*"●✿_ بوقتِ ضرورت عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی بھی شریعت نے اجازت دی ہے، مگر باہر نکلنے کے لیے یہ شرط لگادی کہ پردے کی پابندی ہونی چاہیے اور اپنے جسم کی نمائش نہیں ہونی چاہیے، اس لیے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اگلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ اگر کبھی نکلنے کی ضرورت ہو تو اس طرح زیب وزینت کے ساتھ نمائش کرتی ہوئی نہ نکلو جیسا کہ جاہلیت کی عورتیں نکلا کرتی تھیں اور ایسی آرائش اور زیب وزینت کے ساتھ نہ نکلو جس سے لوگوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو، بلکہ حجاب کی پابندی کے ساتھ پردہ کر کے نکلو اور جسم ڈھیلے ڈھالے لباس میں چھپا ہوا ہو،*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱، ص ۱۶۳ ، ۱۶۶)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (127)_ باہر نکلتے وقت عورت کی ہیئت كيسى ہو ؟*

*●✿__ دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے یا نا محرم مردوں کے سامنے آئے تو اس وقت اس کے پورے جسم پر کوئی چیز ہونی چاہیے، چاہے وہ چادر ہو یا برقع ہو جو اس کے پورے جسم کو ڈھانپ رہا ہو، تا کہ وہ لوگوں کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے اور اس کے ذریعے معاشرے کے اندر فتنہ نہ پھیلے،*

*●✿__ اور ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ کوئی خاتون ایسا زیور پہن کر گھر سے باہر نہ نکلے جو بجنے والے ہوں، کیونکہ اس کی آواز سے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگی، اور ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ کوئی خاتون خوشبو لگا کر گھر سے باہر نہ نکلے، کیونکہ خوشبو کے ذریعہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف ہوگی ،*

*●✿__ حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی خاتون خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگ جاتا ہے۔*

*"_®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۵،ص ۲۰۷)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (128)_ کیا پردہ (حجاب) کا حکم صرف ازواج مطہرات کے لیے خاص تھا ؟*

*"●✿_ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے لیے تھا اور یہ حکم ان کے علاوہ دوسری عورتوں کے لیے نہیں ہے اور اسی مندرجہ بالا آیت ہی سے استدلال کرتے ہیں کہ اس آیت میں خطاب صرف ازواج مطہرات کو کیا جا رہا ہے۔*

*"●✿_ یا درکھو! یہ بات نقلی اور عقلی ہر اعتبار سے غلط ہے، اس لیے کہ ایک طرف تو اس آیت میں شریعت کے بہت سے احکام دیے گئے ہیں، مثلاً ایک حکم تو یہی ہے کہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح خوب زیب وزینت اور آرائش کر کے باہر نہ نکلو۔ تو کیا یہ حکم صرف ازواج مطہرات کو ہے؟ اور دوسری عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح زیب وزینت کر کے باہر نکلا کریں؟ ظاہر ہے کہ دوسری عورتوں کو بھی اجازت نہیں،*

*●✿_ اور آگے ایک حکم یہ دیا کہ "اور نماز قائم کرو_" تو کیا نماز قائم کرنے کا حکم ازواج مطہرات کے لیے ہے؟ اور دوسری عورتوں کو نماز کا حکم نہیں ؟ اور اس کے بعد ایک حکم یہ دیا گیا کہ "اور زکوۃ ادا کرو۔" تو کیا زکوۃ کا حکم صرف ازواج مطہرات کو ہے؟ دوسری عورتوں کو نہیں؟اور آگے فرمایا کہ "اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ تو کیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم صرف ازواج مطہرات کو ہے؟ دوسری عورتوں کو نہیں ہے؟ پوری آیت کا سیاق و سباق یہ بتا رہا ہے کہ اس آیت میں جتنے احکام ہیں وہ سب کے لیے عام ہیں، اگرچہ براہ راست خطاب ازواج مطہرات کو ہے لیکن ان کے واسطے سے پوری امت کی عورتوں کو خطاب ہے۔*

*"●✿_ دوسری بات یہ ہے کہ حجاب اور پردے کا مقصد یہ تھا کہ معاشرے کے اندر بے پردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے، اب سوال یہ ہے کہ کیا فتنہ صرف ازواج مطہرات کے باہر نکلنے سے پیدا ہو گا ؟ معاذ اللہ ! وہ ازواج مطہرات کہ ان جیسی پاکیزہ خواتین اس روئے زمین پر پیدا نہیں ہوئیں، کیا انہیں سے فتنے کا خطرہ تھا ؟ کیا دوسری عورتوں کے نکلنے سے فتنے کا اندیشہ نہیں ہے؟ تو جب ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم پردہ کے ساتھ نکلو تو دوسری عورتوں کو یہ حکم بطریق اولیٰ دیا جائے گا، اس لیے کہ ان سے فتنہ کا اندیشہ زیادہ ہے۔*

*"●✿_ اس کے علاوہ دوسری آیت میں پوری امت مسلمہ سے خطاب ہے، فرمایا کہ: اے نبی ! اپنی بیویوں سے بھی کہہ دو اور اپنی بیٹیوں سے بھی کہہ دو اور تمام مؤمنوں کی عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ اپنے چہروں پر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں_," اس سے زیادہ صاف اور واضح حکم کوئی اور نہیں ہو سکتا، اور پھر قرآن کریم نے صرف چادر پہنے کا حکم نہیں دیا بلکہ وہ چادر آگے ڈھلکا لیں تا کہ چہرہ بھی نمایاں نہ ہو اور اس چادر میں چھپ جائے، اب اس سے زیادہ واضح اور کیا حکم ہو سکتا ہے۔*
*®_( اصلاحی خطبات، ج ۱، ص ۱۶۷ تا ۱۷۰)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(129) چہرہ پردے میں داخل ہے یا نہیں ؟*

*"●✿__ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ باقی جسم کا پردہ تو ہے لیکن چہرے کا پردہ نہیں ہے، خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ اول تو چہرے کا پردہ ہے، قرآن کریم نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : (سورۃ الأحزاب آیت نمبر 59) "يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ*


*"●✿__اس آیت میں "جلابیب“ کا لفظ اختیار فرمایا ہے، یہ جمع ہے ”جلباب“ کی اور جلباب اس چادر کو کہا جاتا ہے جو سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم کو ڈھانپ لے، اس میں اور برقع میں فرق صرف یہ ہے کہ برقع سلا ہوا ہوتا ہے اور جلباب سلی ہوئی نہیں ہوتی اور حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں خواتین جلباب ہی استعمال کیا کرتی تھیں،*.

*"●✿__ اس آیت میں فرمایا کہ اے نبیؐ ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی جلبابیں اپنے اوپر جھکالیں، اس آیت میں جھکانے کا حکم دیا ہے، تاکہ عورت کے چہرے کو اس طرح منظر عام پر نہ لایا جائے جو فتنے کا سبب بنے، لہٰذا اول تو چہرے کا پردہ ہے اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق ہے۔*

*"●✿__ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے، وہ لوگ در حقیقت پردہ ہی سے اپنے کو آزاد کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ جو لوگ چہرے کے پردے کا انکار کرتے ہیں، انہوں نے آج تک کبھی ان عورتوں پر نکیر نہیں کی جو باہر نکلتی ہیں تو ان کا چہرہ تو در کنار بلکہ ان کا سینہ کھلا ہوا ہوتا ہے، ان کا گلا کھلا ہوا ہوتا ہے، ان کے بازو کھلے ہوئے ہوتے ہیں، ان کی پنڈلیاں کھلی ہوئی ہوتی ہیں اور ان خواتین نے ایسا چست اور تنگ لباس پہنا ہوا ہوتا ہے جو فتنے کا سبب ہے لیکن یہی لوگ ایسی خواتین پر نکیر نہیں کرتے، ہاں ! اس مسئلے پر بحث کرنے کے لیے تیار ہیں کہ چہرے کا پردہ ہے یا نہیں!۔*

*(اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۲۰۹)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_(130) حجاب اور پردہ کی کیا حد ہے ؟*

*●✿_حجاب کے بارے میں اتنی بات ضرور عرض کر دوں کہ حجاب میں اصل بات یہ ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک پورا جسم چادر سے یا برقع سے یا کسی ڈھیلے ڈھالے گاؤن سے ڈھکا ہوا ہو اور بال بھی ڈھکے ہوئے ہوں اور چہرے کا حکم یہ ہے کہ اصلا چہرے کا بھی پردہ ہے، اس لیے چہرے پر بھی نقاب ہونا چاہیے,*

*●✿_اور یہ جو آیت پہلے گزری اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں خواتین یہ کرتی تھیں کہ چادر اپنے اوپر ڈال کر اس کا ایک پلہ چہرے پر ڈال لیتی تھیں اور صرف آنکھیں کھلی رہتی تھیں اور باقی چہرہ چادر کے اندر ڈھکا ہوتا تھا، تو حجاب کا اصل طریقہ یہ ہے،*

*●✿_ البتہ چونکہ ضروریات بھی پیش آتی ہیں اس لیے اللہ تعالی نے چہرے کی حد تک یہ گنجائش دی ہے کہ جہاں چہرہ کھولنے کی شدید ضرورت پیش آجاۓ اس وقت صرف چہرہ کھولنے اور ہاتھوں کو گٹوں تک کھولنے کی اجازت ہے، ورنہ اصل حکم یہی ہے کہ چہرہ سمیت پورا جسم ڈھکا ہونا چاہیے۔*

*●✿_ اور خواتین یہ نہ سمجھیں کہ یہ پردہ ہمارے لیے دشواری کا سبب ہے، بلکہ عورت کی فطرت میں پردہ داخل ہے اور عورت کے معنی ہی چھپانے والی چیز کے ہیں اور پردہ عورت کی فطرت میں داخل ہے، اگر فطرت مسخ ہو جائے تو اس کا تو کوئی علاج نہیں لیکن جو تسکین اور راحت پردہ کی حالت میں ہوگی وہ تسکین بے پردگی اور کھلم کھلا اور علانیہ رہنے کی حالت میں نہیں ہوگی، لہذا پردہ کا تحفظ حیاء کا ایک لازمی حصہ ہے۔*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱، ص ۱۷۶)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (130) مرد حجاب کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں،*

*●✿_ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی نگاہیں آج کے حالات دیکھ رہی تھیں:- آپ ﷺ نے فرمایا کہ: قیامت کے قریب ایسی عورتیں ہوں گی کہ ان کے سر کے بال لاغر اونٹ کی کوہان کی طرح ہوں گے، اونٹ کے کوہان کی طرح بال بنانے کا حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں تصور بھی نہیں آ سکتا تھا، آج دیکھ لیں کہ عورتیں اونٹوں کے کوہان کی طرح بال بنا رہی ہیں۔*

*"●✿_ اور فرمایا کہ وہ عورتیں بظاہر تو لباس پہنی ہوئی ہوں گی لیکن وہ لباس ایسے ہوں گے کہ جن سے ستر کا مقصد حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ وہ لباس اتنا باریک ہوگا یا وہ لباس اتنا چست ہوگا کہ اس کی وجہ سے جسم کے تمام نشیب وفراز عیاں ہو جائیں گے اور یہ سب حیاء کے ختم ہونے کا نتیجہ ہوگا،*

*"●✿_ آج سے پہلے اس کا تصور اور خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ عورت ایسا لباس پہنے گی، اس لیے کہ اس کے دل میں حیا تھی اور اس کی طبیعت ایسی تھی کہ وہ ایسا لباس پہنا پسند نہیں کرتی تھی لیکن آج سینہ کھلا ہوا ہے، گلا کھلا ہوا ہے، بازو کھلے ہیں، یہ کیسا لباس ہے؟ لباس تو ستر پوشی کے لیے تھا جو عورت کو اس کی اصل فطرت کی طرف لوٹانے کے لیے تھا، وہ لباس ستر پوشی کا کام دینے کے بجائے جسم کو اور زیادہ نمایاں کرنے کا کام انجام دے رہا ہے۔*

*"●✿_ واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت کی پاکیزہ اور پارسا زندگی کے لیے حجاب ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے لہذا مردوں کا فرض ہے کہ وہ خواتین کو اس پر آمادہ کریں اور خواتین کا فرض ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں، اس وقت بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے جب بعض اوقات خواتین حجاب کرنا چاہتی ہیں لیکن مرد راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، اکبرالہ آبادی مرحوم نے بڑا اچھا قطعہ کہا ہے کہ :-*
*"_ بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا،*
*"_ پوچھا جو ان سے پردہ تمہارا وہ کیا ہوا کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا_,*

*"●✿_ آج حقیقت میں پردہ مردوں کی عقلوں پر پڑ گیا ہے، وہ پردے کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، اللہ تعالی اپنی رحمت سے ہم سب کو غلط خیالات سے نجات عطا فرمائے اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔*

*®_( اصلاحی خطبات ، ج ١، ص ۱۷۷)*_

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (131) خواتین حالت احرام میں کس طرح پردہ کریں ؟*

*●✿_ آپ کو معلوم ہے کہ حج کے موقع پر احرام کی حالت میں عورت کے لیے کپڑے کو چہرے پر لگانا جائز نہیں ، مرد سر نہیں ڈھک سکتے اور عورتیں چہرہ نہیں ڈھک سکتیں، تو جب حج کا موسم آیا اور آنحضرت ﷺ ازواج مطہرات کو حج کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت یہ مسئلہ پیش آیا کہ ایک طرف تو پردہ کا حکم ہے اور دوسری طرف یہ حکم ہے کہ حالت احرام میں کپڑا منہ پر نہ لگنا چاہیے،*

*●✿_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم حج کے سفر پر اونٹ پر بیٹھ کر جا رہی تھیں تو ہم نے اپنے اپنے ماتھے پر ایک لکڑی لگائی ہوئی تھی، تو راستے میں جب سامنے کوئی اجنبی نہ ہوتا تو ہم اپنے نقاب الٹے رہنے دیتیں اور جب کوئی قافلہ یا اجنبی مرد سامنے آتا دکھائی دیتا تو ہم اپنا نقاب اس لکڑی پر ڈال دیتیں تاکہ وہ نقاب چہرہ پر نہ لگے اور پردہ بھی ہو جائے،*

*●✿_ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احرام کی حالت میں بھی ازواج مطہرات نے پردہ کو ترک نہیں فرمایا۔*
*®_ (ابو داود ، کتاب الحج )*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
             *☞__ ایک خاتون کا واقعہ:-*

*"●✿_ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک خاتون کا بیٹا حضور اقدس ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں گیا ہوا تھا، جنگ کے بعد تمام مسلمان واپس آئے لیکن اس کا بیٹا واپس نہیں آیا، اب ظاہر ہے کہ اس وقت ماں کی بے تابی کی کیا کیفیت ہوگی اور اس بے تابی کے عالم میں حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لیے دوڑیں کہ میرے بیٹے کا کیا بنا؟ اور جا کر حضور اقدس ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے بیٹے کا کیا ہوا؟*

*"●✿_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ تمہارا بیٹا تو اللہ کے راستے میں شہید ہو گیا، اب بیٹے کے مرنے کی اطلاع اس پر بجلی بن کر گری، اس اطلاع پر اس نے جس صبر و ضبط سے کام لیا وہ اپنی جگہ ہے لیکن اسی عالم میں کسی شخص نے اس خاتون سے یہ پوچھا کہ اے خاتون ! تم اتنی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر سے نکل کر حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں آئیں, اس حالت میں بھی تم نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا ہے؟ اور اس وقت بھی نقاب ڈالنا نہیں بھولیں؟*

*"●✿_ جواب میں اس خاتون نے کہا: " میرا بیٹا تو فوت ہوا ہے لیکن میری حیا تو فوت نہیں ہوئی_" یعنی میرے بیٹے کا جنازہ نکلا ہے لیکن میری حیا کا جنازہ تو نہیں نکلا،*

*"●✿_ تو صحابیات نے اس حالت میں بھی پردہ کا اتنا اہتمام فرمایا۔*

*®_ (ابو داود ، کتاب الجهاد, اصلاحی خطبات، ج ۱، ص ۱۵۴)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(131) شادی بیاہ کی تقریبات اور دعوتیں، کیا اسلام میں خوشی منانے پر پابندی ہے ؟*

*"●✿__ خوشی کے مواقع پر اعتدال کے ساتھ خوشی منانے پر شریعت نے کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن خوشی منانے کے نام پر ہم نے اپنے آپ کو جن بے شمار رسموں کو جکڑ لیا ہے، ان کا نتیجہ یہ ہے کہ خوشی جو دل کی فرحت کا نام تھا، وہ تو پیچھے چلی گئی ہے، اور رسموں کے لگے بندھے قواعد آگے آگئے ہیں، جن کی ذرا خلاف ورزی ہو تو شکوے شکایتوں اور طعن و تشنیع کا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے،*

*"●✿__ لہذا شادی کی تقریبات رسموں کی خانہ پری کی نذر ہو جاتی ہیں، جس میں پیسہ تو پانی کی طرح بہتا ہی ہے ، دل و دماغ ہر وقت رسمی قواعد کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں، شادی کے انتظامات کرنے والے تھک کر چور ہو جاتے ہیں، پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی شکایت کا سامان پیدا ہی ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض اوقات لڑائی جھگڑوں تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔*

*"●✿__ زبان سے اس صورت حال کو ہم سب قابل اصلاح سمجھتے ہیں لیکن جب عمل کی نوبت آتی ہے تو عموماً ایک ایک کر کے رسموں کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ اس صورت حال کا کوئی حل اس کے سوا نہیں ہے کہ اول تو با اثر اور خوش حال لوگ بھی اپنی شادیوں کی تقریبات میں حتی الامکان سادگی اختیار کریں، اور ہمت کر کے ان رسموں کو توڑیں جنہوں نے شادی کو ایک عذاب بنا کر رکھ دیا ہے،*

*"●✿__ دوسرے اگر دولت مند افراد اس طریقہ کو نہیں چھوڑتے تو کم از کم محدود آمدنی والے حضرات یہ طے کر لیں کہ وہ دولت مندوں کی حرص میں اپنا پیسہ اور توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں گے، اور اپنی استطاعت کی حدود سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ خاص نکاح اور ولیمہ کی تقریبات کے علاوہ جو تقریبات منگنی، مہندی ابٹن اور چوتھی وغیرہ کے نام سے رواج پا گئی ہیں ، ان کو ختم کیا جائے اور یہ طے کر لیا جائے کہ ہماری شادیوں میں یہ تقریبات نہیں ہوں گی، فریقین اگر واقعی محبت اور خوش دلی سے ایک دوسرے کو کوئی تحفہ دینا یا بھیجنا چاہتے ہیں وہ کسی با قاعدہ تقریب اور لاؤ لشکر کے بغیر سادگی سے پیش کر دیں گے۔*

*"●✿__ اظہار مسرت کے کسی بھی مخصوص طریقے کو لازمی اور ضروری نہ سمجھا جائے بلکہ ہر شخص اپنے حالات اور وسائل کے مطابق بے تکلفی سے جو طرز عمل اختیار کرنا چاہے کرلے، نہ وہ خود کسی کی حرص کا شکار یا رسموں کا پابند ہو، نہ دوسرے اسے مطعون کریں۔ نکاح اور ولیمے کی تقریبات بھی حتی الامکان سادگی سے اپنے وسائل کی حد میں رہتے ہوئے منعقد کی جائیں، اور صاحب تقریب کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق جس کو چاہے دعوت دے، اور جس کو چاہے دعوت نہ دے، اس معاملے میں بھی کسی کو کوئی سنجیدہ شکایت نہیں ہونی چاہئے۔*

*"●✿__ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیشہ سامنے رہے کہ سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں زیر باری کم سے کم ہو یعنی جس میں انسان نہ مالی طور پر زیر بار ہو، اور نہ بیجا مشقت و محنت کے کسی بوجھ میں میں مبتلا ہو۔*

*®_[ ذکر و فکر ص ۲۶۹]* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(132) مردوں اور عورتوں کی مخلوط بے پردہ تقریبات:-*

*"●✿_ شادی بیاہ کی تقریبات میں بے حیائی کے مناظر ان گھرانوں میں بھی نظر آنے لگے ہیں جو اپنے آپ کو دیندار کہتے ہیں، جن کے مرد مسجد میں صف اول میں نماز پڑھتے ہیں، ان کے گھرانوں کی شادی بیاہ کی تقریبات میں جا کر دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے ؟*

*"●✿_ ایک زمانہ وہ تھا جس میں اس بات کا خیال اور تصور نہیں آ سکتا تھا کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں مردوں اور عورتوں کا مخلوط اجتماع ہوگا لیکن اب تو مرد و عورت کی مخلوط دعوتوں کا ایک سیلاب ہے اور عورتیں بن سنور کر سنگھار کرکے، زیب وزینت سے آراستہ ہو کر ان مخلوط دعوتوں میں شریک ہوتی ہیں، نہ پردہ کا کوئی تصور ہے، نہ حیاء کا کوئی خیال ہے۔*

*"●✿_ اور پھر ان تقریبات کی ویڈیو فلمیں بن رہی ہیں تاکہ جو کوئی اس تقریب میں شریک نہ ہو سکا اور اس نظارے سے لطف اندوز نہیں ہو سکا اس کے لیے اس نظارہ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ویڈیو فلم تیار ہے، اس کے ذریعہ وہ اس کا نظارہ کر سکتا ہے، یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن کان پر جوں نہیں رینگتی اور ماتھے پر شکن نہیں آتی اور دل میں اس کو ختم کرنے کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا،*

*"●✿_ بتایے ! کیا پھر بھی یہ فتنے نہ آئیں ؟ کیا پھر بھی بد امنی اور بے سکونی پیدا نہیں ہو؟ اور آج کل ہر ایک کی جان و مال و عزت آبرو خطرے میں ہے، یہ سب کیوں نہ ہو ؟ یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے غنیمت ہے اور حضور ﷺ کی برکت ہے کہ ایسا قہر ہم پر نازل نہیں ہوتا کہ ہم سب ہلاک ہو جائیں ورنہ ہمارے اعمال تو سارے ایسے ہیں کہ ایک قہر اور ایک عذاب کے ذریعہ سب کو ہلاک کر دیا جاتا۔*

*"●✿_ اور یہ سب گھر کے بڑوں کی غفلت اور بے حسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے دل سے احساس ختم ہو گیا، کوئی کہنے والا اور کوئی ٹوکنے والا نہیں رہا، بچے جہنم کی طرف دوڑے ہوئے جارہے ہیں، کوئی ان کا ہاتھ پکڑ کر روکنے والا نہیں ہے، کسی باپ کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم اپنی اولاد کو کس گڑھے میں دھکیل رہے ہیں اور دن رات سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، ۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا، اب بھی اگر گھر کے سربراہ اور گھر کے ذمہ دار اس بات کا تہیہ کر لیں کہ یہ چند کام نہیں کرنے دیں گے، ہمارے گھر میں مرد و عورت کا مخلوط اجتماع نہیں ہوگا، ہمارے گھر میں کوئی تقریب عورتوں کی بے پردگی کے ساتھ نہیں ہوگی، ویڈیو فلم نہیں بنے گی، اگر گھر کے بڑے ان باتوں کا تہیہ کر لیں تو اب بھی اس سیلاب پر بند باندھا جا سکتا ہے،*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (133) اگر ہم مخلوط تقریبات میں شرکت نہ کریں تو دنیا والے کیا کہیں گے ؟*

*"●✿__ ہمارے بزرگوں نے بائیکاٹ وغیرہ کرنے کے طریقے نہیں سکھائے لیکن یا درکھو! ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جہاں انسان کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یا تو ہماری یہ بات مانی جائے گی، ورنہ اس تقریب میں ہماری شرکت نہیں ہوگی، اگر شادی کی تقریبات ہو رہی ہیں اور مخلوط اجتماعات ہو رہے ہیں اور آپ سوچ رہے ہیں کہ‌ اگر اس دعوت میں نہیں جاتے تو خاندان والوں کو شکایت ہو جائے گی کہ آپ شریک کیوں نہیں ہوئے ؟*

*"●✿__ ارے! یہ تو سوچو کہ ان کی شکایت کی تو آپ کو پرواہ ہے لیکن ان کو آپ کی شکایت کی پرواہ نہیں، اگر تم پردہ نشین خاتون ہو اور وہ تم کو دعوت میں بلانا چاہتے ہیں تو انہوں نے تمہارے لیے پردہ کا انتظام کیوں نہیں کیا ؟ جب انہوں نے تمہارا اتنا خیال نہیں کیا تو پھر تم پر بھی ان کا خیال کرنا واجب نہیں ہے، ان سے صاف صاف کہہ دو کہ ہم ایسی تقریب میں شریک نہیں ہوں گی، جب تک کچھ خواتین ڈٹ کر یہ فیصلہ نہیں کریں گی یقین رکھو کہ اس وقت تک یہ سیلا ب بند نہیں ہوگا، کب تک ہتھیار ڈالتے جاؤ گے؟ یہ سیلاب کہاں تک پہنچے گا ؟*

*"●✿__ اگر پردہ کا انتظام نہ ہونے کے باوجود تم صرف اس لیے جاتی ہوتا کہ وہ برا نہ مانیں، کہیں ان کو برا نہ لگ جائے، ارے ! کبھی تم بھی تو برا مانا کرو کہ ہم اس بات کو برا مانتے ہیں کہ ہمیں ایسی دعوت میں کیوں بلایا جا رہا ہے؟ ہمارے لیے ایسی دعوتیں کیوں کی جاتی ہیں جس میں پردہ کا انتظام نہیں ہے، یا درکھو!‌ جب تک یہ نہیں کریں گے یہ سیلاب نہیں رکے گا۔*

*"●✿__جہاں تقریبات میں بظاہر خواتین کا انتظام علیحدہ بھی ہے، مردوں کے لیے علیحدہ شامیانے ہیں اور عورتوں کے لیے علیحدہ لیکن اس میں بھی یہ ہوتا ہے کہ عورتوں والے حصے میں بھی مردوں کا ایک طوفان ہوتا ہے، مرد آ رہے ہیں، جارہے ہیں، ہنسی مذاق ہو رہا ہے، دل لگی ہو رہی ہے، فلمیں بن رہی ہیں، یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور بظاہر دیکھنے میں الگ انتظام ہے، ایسے موقع پر خواتین کھڑے ہو کر کیوں یہ نہیں کہتیں کہ مرد یہاں کیوں آرہے ہیں؟ ہم پردہ نشین خواتین ہیں لہذا ان مردوں کو باہر نکالا جائے۔*

*"●✿__ شادی بیاہ میں بہت سے معاملات پر لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں اور اس بات پر ناراضگیاں ہو جاتی ہیں لیکن جب تمہارے دین پر ڈاکہ ڈالا جائے تو وہاں تمہارے لیے خاموش رہنا جائز نہیں، کھڑے ہو کر بھری تقریب میں کہہ دو کہ یہ چیز ہمارے لیے نا قابل برداشت ہے، جب تک کچھ مرد اور خواتین اس بات کا تہیہ نہیں کر لیں گے اس وقت تک یاد رکھو! حیاء کا تحفظ نہیں ہو سکے گا اور یہ سیلاب بڑھتا چلا جائے گا۔* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(134)_مہر کی حقیقت اور شریعت میں اس کی حیثیت:-*

*"●✿__ پچھلے دنوں ایک نکاح نامہ میری نظر سے گذرا جس میں مہر کے خانے میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی مبلغ بتیس روپیہ مہر شرعی اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ لوگوں سے بات چیت کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ وہ خدا جانے کس وجہ سے بتیس روپے کو مہر شرعی سمجھتے ہیں اور یہ تاثر تو بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے کہ مہر جتنا کم سے کم رکھا جائے شریعت کی نگاہ میں اتنا ہی مستحسن ہے، اس کے علاوہ بھی مہر کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے۔*

*"●✿__ جن لوگوں نے آج کے دور میں بتیس روپیہ مہر باندھ کر اسے مہر شرعی قرار دیا، انہوں نے دو غلطیاں کیں، ایک غلطی تو یہ کی کہ دس درہم کی قیمت کسی زمانے میں بتیسں رہی ہوگی، انہوں نے اسے ہمیشہ کے لیے بتیس روپیہ ہی سمجھ لیا، دوسری غلطی یہ کی کہ شریعت نے مہر کی جو کم سے کم مقدار مقرر کی تھی، اس کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ شرعاً پسندیدہ ہی یہ ہے کہ اس سے زیادہ مہر مقرر نہ کیا جائے، حالانکہ یہ تصور قطعی طور پر بے بنیاد ہے,*

*"●✿__ مہر در اصل ایک اعزاز یہ (Honorarium) ہے جو ایک شوہر اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے، اور اس کا مقصد عورت کا اعزاز واکرام ہے، نہ تو یہ عورت کی قیمت ہے جسے ادا کر کے یہ سمجھا جائے کہ وہ شوہر کے ہاتھوں پک گئی اور اب اس کی حیثیت ایک کنیز کی ہے، اور نہ یہ محض ایک فرضی کاروائی ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جائے کہ اسے عملاً ادا کرنے کی ضرورت نہیں، شوہر کے ذمے بیوی کا مہر لازم کرنے سے شریعت کا منشا یہ ہے کہ جب کوئی شخص بیوی کو اپنے گھر میں لائے تو اس کا مناسب اکرام کرے، اور اسے ایک ایسا ہدیہ پیش کرے جو اس کے اعزاز و اکرام کے مناسب ہو،*

*"●✿__ لہذا شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کی رقم نہ تو اتنی کم رکھی جائے جس میں اعزاز و اکرام کا یہ پہلو بالکل مفقود ہو، اور نہ اتنی زیادہ رکھی جائے کہ شوہر اسے ادا کرنے پر قادر نہ ہو، اور بالآخر یا تو مہر ادا کیے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائے یا آخر میں بیوی سے معاف کرانے پر مجبور ہو۔* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(135) _ مہر مثل اور شریعت میں مہر کی کم سے کم حد کیا ہے ؟*

*"●✿_ شرعی نقطہ نظر سے ہر عورت کا اصل حق یہ ہے کہ اسے مہر مثل ادا کیا جائے، مہر مثل کا مطلب مہر کی وہ مقدار ہے جو اس عورت کے خاندان میں عام طور سے اس جیسی خواتین کے نکاح کے وقت مقرر کی جاتی رہی ہو، اور اگر اس عورت کے خاندان میں دوسری عورتیں نہ ہوں تو خاندان سے باہر اس کے ہم پلہ خواتین کا جو مہر عام طور سے مقرر کیا جاتا ہو وہ اس عورت کا مہر مثل ہے، اور شرعی اعتبار سے بیوی مہر مثل وصول کرنے کی حق دار ہے،*

*"●✿_ یہی وجہ ہے کہ اگر نکاح کے وقت باہمی رضامندی سے مہر کا تعین نہ کیا گیا ہو، یا مہر کا ذکر کیے بغیر نکاح کر لیا گیا ہو تو مہر مثل خود بخود لازم سمجھا جاتا ہے، البتہ اگر بیوی خود مہر مثل سے کم پر خوش دلی سے راضی ہو جائے یا شوہر خوش دلی سے مہر مثل سے زیادہ مہر مقرر کرلے تو باہمی رضا مندی سے مہر مثل سے کم یا زیادہ مقرر کر لینا بھی شرعاً جائز ہے لیکن یہاں بھی شریعت نے زیادہ سے زیادہ مہر کی تو کوئی حد مقرر نہیں کی۔*

*"●✿_البتہ شریعت نے کم سے کم مہر کی حد مقرر کر دی ہے، اور وہ حد ( حنفی موقف کے مطابق ) دس درہم ہے، دس درہم کا مطلب دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے ( موجودہ قیمت بازار سے معلوم کر لی جائے ) اس کم سے کم مقدار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اتنا مہر رکھنا شرعاً پسندیدہ ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس سے کم مہر پر اگر خود عورت بھی راضی ہو جائے تو شریعت راضی نہیں ہے،*

*"●✿_ کیونکہ اس سے مہر کا مقصد، یعنی عورت کا اعزاز واکرام پورا نہیں ہوتا، یہ کم سے کم حد بھی ان لوگوں کا خیال کر کے رکھی گئی ہے جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں ، اور زیادہ رقم خرچ کرنے کے متحمل نہیں، ان کے لیے یہ گنجائش پیدا کر دی گئی ہے کہ اگر عورت راضی ہو تو کم از کم اس مقدار پر نکاح ہو سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب لینا کسی طرح درست نہیں ہے کہ شریعت کو منظور ہی یہ ہے کہ مہر کی مقدار یہی رکھی جائے اور اسے اس معنی میں مہر شرعی قرار دیا جائے،*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(136) _ مہر فاطمی کسے کہتے ہیں ؟*

*"●✿__ آنحضرت ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کا مہر پانچ سو درہم مقرر فرمایا تھا، جو ۱۳۱ تولہ تین ماشہ چاندی کے برابر ہوتا ہے ( موجودہ قیمت بازار سے معلوم کر لی جائے ) ، خود آپ ﷺ نے اپنی متعدد ازواج مطہرات کا مہر بھی اس کے قریب قریب ہی مقرر فرمایا، جو اوسط درجے کے لحاظ سے ایک قابل لحاظ مقدار ہے۔*

*"●✿__بعض حضرات اس مہر فاطمی ہی کو مہر شرعی کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اور غالباً ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شرعی اعتبار سے اس سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرنا پسندیدہ نہیں، یہ تصور بھی صحیح نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر فریقین مہر فاطمی کے برابر مہر مقرر کریں اور نیت یہ ہو کہ آنحضرت ﷺ کی مقرر کی ہوئی مقدار با برکت اور معتدل ہوگی، نیز یہ کہ اس سے اتباع سنت کا اجر ملنے کی توقع ہے، تو یقیناً یہ جذبہ بہت مبارک اور مستحسن ہے،*

*"●✿__ لیکن یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ یہ مقدار اس معنی میں مہر شرعی ہے کہ اس سے کم یا زیادہ مقرر کرنا شرعاً نا پسندیدہ ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، ہاں ! یہ اصول مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ مہر اتنا ہو جس سے بیوی کا اعزاز واکرام بھی ہو اور وہ شوہر کی استطاعت سے باہر بھی نہ ہو۔* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (137) مہر معجل اور مؤجل کسے کہتے ہیں ؟*

*"●✿__ اب مہر کے متعلق ایک اور نکتے کی وضاحت بھی ہو جائے، مہر کی دو قسمیں مشہور ہیں- مہر معجل اور مہر مؤجل، یہ الفاظ چونکہ صرف نکاح کی مجلس ہی میں سنائی دیتے ہیں اس لیے بہت سے لوگوں کو ان کا مطلب معلوم نہیں ہوتا،*.

*"●✿__ شرعی اعتبار سے مہر معجل اس مہر کو کہتے ہیں جو نکاح ہوتے ہی شوہر کے ذمے لازم ہو جاتا ہے اور یہ اس کا فریضہ ہے کہ یا تو نکاح کے وقت ہی بیوی کو ادا کر دے، یا اس کے بعد جتنی جلد ممکن ہو، عورت کو بھی ہر وقت یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اس کا مطالبہ کرلے،*

*"●✿__ چونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین عام طور سے مطالبہ نہیں کرتیں، اس لیے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ادائیگی ہمارے لیے ضروری نہیں، بلکہ شوہر کا یہ فرض ہے کہ وہ عورت کے مطالبے کا انتظار کیے بغیر بھی جس قدر جلد ممکن ہو اس فرض سے سبک دوش ہو جائے۔*

*"●✿__مہر مؤجل اس مہر کو کہا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے فریقین نے آئندہ کی کوئی تاریخ متعین کرلی ہو، جو تاریخ اس طرح متعین کر لی جائے، اس سے پہلے اس کی ادائیگی شوہر کے ذمے لازم نہیں ہوتی، نہ بیوی اس سے پہلے مطالبہ کر سکتی ہے،*

*"●✿__ لیکن ہمارے معاشرے میں عام طور سے کوئی تاریخ مقرر کیے بغیر صرف یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ اتنا مہر مؤجل ہے اور ہمارے معاشرے کے رواج کے مطابق اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ مہر کی یہ مقدار اس وقت واجب الادا ہو گی جب نکاح ختم ہو جائے گا، چنانچہ اگر طلاق ہو جائے تب مہر مؤجل کی ادائیگی لازم ہوگی، یا میاں بیوی میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تب اس کی ادائیگی لازم سمجھی جاتی ہے۔*

*®_ [ ذکر و فکر ص ۲۷٦ تا ۲۸۱]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__ (138) جہیز کی حقیقت اور حیثیت:-*

*"●✿_ ہمارے معاشرے میں جہیز کو جس طرح بیٹی کی شادی کا ایک ناگزیر حصہ قرار دے لیا گیا ہے، شرعی اعتبار سے بھی جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے کوئی تحفہ اپنی استطاعت کے مطابق دینا چاہے تو دیدے، اور ظاہر ہے کہ تحفہ دیتے وقت لڑکی کی آئندہ ضروریات کو مد نظر رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، لیکن وہ نہ شادی کے لئے کوئی لازمی شرط ہے، نہ سسرال والوں کو کوئی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کا مطالبہ کریں،*

*"●✿_ اور اگر کسی لڑکی کو جہیز نہ دیا جائے یا کم دیا جائے تو نہ اس پر برا منائیں نہ لڑکی کو مطعون کریں، اور نہ یہ کوئی دکھاوے کی چیز ہے کہ شادی کے موقع پر اس کی نمائش کر کے اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا جائے ۔*

*®_ ( ذکر و فکر )* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(139) جہیز کے بارے میں معاشرے میں پھیلے ہوئے غلط تصورات :-*

*"●✿_اس سلسلے میں ہمارے معاشرے میں جو غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں وہ مختصر ادرج ذیل ہیں :-*
*●✿(1)_ جہیز کو لڑکی کی شادی کے لئے ایک لازمی شرط سمجھا جاتا ہے، چنانچہ جب تک جہیز دینے کے لئے پیسے نہ ہوں، لڑکی کی شادی نہیں کی جاتی، ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی لڑکیاں اسی وجہ سے بن بیاہی رہتی ہیں کہ باپ کے پاس انہیں دینے کے لئے جہیز نہیں ہوتا اور جب شادی سر پر ہی آجائے تو جہیز کی شرط پوری کرنے کے لئے باپ کو بعض اوقات روپیہ حاصل کرنے کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں، اور وہ رشوت، جعلسازی، دھوکہ فریب اور خیانت جیسے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہو جاتا ہے، یا کم از کم اپنے آپ کو قرض ادھار کے شکنجے میں جکڑنے پر مجبور ہوتا ہے۔*

*●✿(2)_ جہیز کی مقدار اور اس کی لازمی اشیاء کی فہرست میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اب جہیز محض ایک بیٹی کے لئے باپ کا تحفہ نہیں ہے جو وہ اپنی خوش دلی سے اپنی استطاعت کی حد میں رہ کر دے، بلکہ معاشرے کا ایک جبر ہے، چنانچہ اس میں صرف بیٹی کی ضروریات ہی داخل نہیں، بلکہ اس کے شوہر کی ضروریات پوری کرنا اور اس کے گھر کو مزین کرنا بھی ایک لازمی حصہ ہے، خواہ لڑکی کے باپ کا دل چاہے یا نہ چاہے، اسے یہ تمام لوازم پورے کرنے پڑتے ہیں۔*

*"●✿_(3) بات صرف اتنی نہیں ہے کہ لڑکی کی ضروریات پوری کر کے اس کا دل خوش کیا جائے، بلکہ جہیز کی نمائش کی رسم نے یہ بھی ضروری قرار دیدیا ہے کہ جہیز ایسا ہو جو ہر دیکھنے والے کو خوش کر سکے، اور ان کی تعریف حاصل کر سکے۔*

*"●✿_(4)_ جہیز کے سلسلے میں سب سے گھٹیا بات یہ ہے کہ لڑکی کا شوہر یا اس کی سسرال کے لوگ جہیز پر نظر رکھتے ہیں، بعض جگہ تو شاندار جہیز کا مطالبہ پوری ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے اور بعض جگہ اگر صریح مطالبہ نہ ہو تب بھی توقعات یہ باندھی جاتی ہیں کہ دلہن اچھا سا جہیز لے کر آئے گی، اور اگر یہ توقعات پوری نہ ہوں تو لڑکی کو طعنے دے دے کر اس کے ناک میں دم کر دیا جاتا ہے۔*

*"●✿_جہیز کے ساتھ اس قسم کی جو رسمیں اور تصورات جوڑ دیئے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے جو معاشرتی خرابیاں جنم لیتی رہی ہیں، ان کا احساس ہمارے معاشرے کے اہل فکر میں مفقود نہیں،*

 *( ذکر و فکر ص ۲۸۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(140) کیا جہیز دینے کے بعد وراثت سے بیٹی کا حصہ ختم ہوجاتا ہے؟*

*"●✿__ یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ جہیز ہرگز نکاح کا کوئی ضروری حصہ نہیں ہے، اور اس کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کو نکاح کے بغیر بٹھائے رکھنا ہرگز جائز نہیں، کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اپنی استطاعت کی حدود میں رہتے ہوئے خوشی سے بیٹی کو کوئی تحفہ دینا چاہے تو وہ بے شک دے سکتا ہے لیکن نہ اس کو نکاح کی لازمی شرط سمجھنے کی گنجائش ہے، نہ اس میں نام و نمود کا کوئی پہلو ہونا چاہئے ، اور نہ شوہر یا اس کے گھر والوں کے لئے جائز ہے کہ وہ جہیز کا مطالبہ کریں، یا اس کی توقعات باندھیں۔*

*"●✿__ اب سوال یہ ہے کہ " کیا جہیز دینے کے بعد ماں باپ کو اپنی وراثت سے حصہ دینا ضروری نہیں رہتا ؟ واقعی یہ غلط فہمی بعض حلقوں میں خاصی عام ہے، اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جہیز کا وراثت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے، اگر کسی باپ نے اپنی بیٹی پر جہیز کی صورت میں اپنی ساری کائنات بھی لٹا دی ہو تب بھی لڑکی کا حق وراثت ختم نہیں ہوتا،*

*"●✿__ باپ کے انتقال کے بعد وہ اپنے باپ کے ترکے میں ضرور حصہ دار ہوگی اور اس کے بھائیوں کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ سارا ترکہ خود لے بیٹھیں، اور اپنی بہن کو اس بنیاد پر محروم کر دیں کہ اسے جہیز میں بہت کچھ مل چکا ہے,*

*"●✿__ لڑکا ہو یا لڑ کی، ان کے باپ نے اپنی زندگی میں انہیں جو کچھ دیا ہو، اس سے ان کے وراثت کے حصے میں کوئی کمی نہیں آتی، البتہ باپ کو اس بات کا حتی الامکان خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی زندگی میں وہ اپنی اولاد کو جو کچھ دے، وہ قریب قریب برابر ہو، اور کسی ایک لڑکے یا لڑکی پر دولت کی بارش برسا کر دوسروں کو محروم نہ کرے، بہر حال ! یہ طے شدہ بات ہے، اور اس میں شرعی اعتبار سے کوئی ادنیٰ شبہ نہیں، کہ لڑکی کو جہیز دینے سے اس کا حق وراثت ختم نہیں ہوتا، بلکہ جہیز میں دی ہو یہ مالیت کو اس کی حصہ وراثت سے منہا بھی نہیں کیا جا سکتا، اسے بہر صورت تر کے سے اپنا پورا حصہ ملنا ضروری ہے۔*
*®( ذکر و فکر ص ۲۸۸)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(141) رخصتی اور برات کے کھانے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟*

*"●✿_ ایک سوال یہ ہے کہ لڑکی کے والدین برات کو جو کھانا کھلاتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس معاملے میں بھی ہمارے معاشرے میں افراط و تفریط پر مبنی تصورات پھیلے ہوئے ہیں، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح لڑکے کے لئے نکاح کے بعد ولیمہ کرنا سنت ہے، اسی طرح لڑکی کے باپ کے لئے بھی نکاح کے وقت دعوت کرنا سنت یا کم از کم شرعی طور پر پسندیدہ ہے،*

*"●✿_ حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے, لڑکی والوں کی طرف سے کسی دعوت کا اہتمام نہ سنت ہے، نہ مستحب ہے، بلکہ اگر دوسری خرابیاں نہ ہوں تو صرف جائز ہے، یہی معاملہ بارات کا ہے، نکاح کے وقت دولہا کی طرف سے بارات لے جانا کوئی سنت نہیں، نہ نکاح کو شریعت نے اس پر موقوف کیا ہے لیکن اگر دوسری خرابیاں نہ ہوں تو بارات لے جانا کوئی گناہ بھی نہیں،*

*"●✿_ لہذا بعض حضرات جو بارات لے جانے اور لڑکی والوں کی طرف سے ان کی دعوت کو ایسا گناہ سمجھتے ہیں جیسے قرآن وسنت نے اس سے خاص طور پر منع کیا ہو، ان کا یہ تشدد بھی مناسب نہیں، حقیقت یہ ہے کہ اگر اعتدال کے ساتھ کچھ لوگ نکاح کے موقع پر لڑکی کے گھر چلے جائیں، ( جس میں لڑکی کے باپ پر کوئی بار نہ ہو) اور لڑکی کے والدین اپنی بچی کے نکاح کے فریضے سے سبکدوش ہونے کی خوشی میں اپنی دلی خواہش سے ان کی اور اپنے دوسرے عزیزوں دوستوں کی دعوت کر دیں تو اس میں بذات خود کوئی گناہ نہیں ہے،*

*"●✿_ لیکن ان تمام چیزوں میں خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ ان تقریبات کو نکاح کا لازمی حصہ سمجھ لیا جاتا ہے، اور جو شخص انہیں انجام دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ بھی خواہی نخواہی ان پر مجبور ہو جاتا ہے، اور اس غرض کے لئے بعض اوقات ناجائز ذرائع اختیار کرتا ہے، اور بعض اوقات قرض ادھار کا بوجھ اپنے سر لیتا ہے، اور اگر کوئی شخص اپنے مالی حالات کی وجہ سے یہ کام نہ کرے تو اسے معاشرے میں مطعون کیا جاتا ہے۔*

*"●✿_ کسی شخص کو کوئی ہدیہ تحفہ دینا اس کی دعوت کرنا اگر دل کے تقاضے اور محبت سے ہو تو نہ صرف یہ کہ کوئی گناہ نہیں، بلکہ باعث برکت ہے، بالخصوص جب نئے رشتے قائم ہورہے ہوں، تو ایسا کرنے سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے، بشرطیکہ یہ سب کچھ خلوص سے ہو، اور اپنی استطاعت کی حدود میں رہ کر ہو لیکن جب یہ چیز نام و نمود اور دکھاوے کا ذریعہ بن جائے یا اس میں بدلے کی طلب شامل ہو جائے، یا یہ کام خوش دلی کے بجائے معاشرے اور ماحول کے جبر کے تحت انجام دیئے جائیں، یعنی اندر سے دل نہ چاہ رہا ہو لیکن ناک کٹنے کے خوف سے زبر دستی تحفے دیئے جائیں یا دعوتیں کی جائیں تو یہی کام جو باعث برکت ہو سکتے تھے الٹے گناہ ، بے برکتی اور نحوست کا سبب بن جاتے ہیں، اور ان کی وجہ سے معاشرہ طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے،*

*"●✿__ ہماری شامت اعمال یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو خود ساختہ رسموں میں جکڑ کر اچھے کاموں کو بھی اپنے لئے ایک عذاب بنالیا ہے، اگر یہی کام سادگی اور بے تکلفی سے کئے جائیں تو ان میں کوئی خرابی نہیں لیکن اگر رسموں کی پابندی، نام و نمود اور معاشرتی جبر کے تحت انجام دیئے جائیں تو یہ بہت بڑی برائی ہے۔*

*"❀_ لہذا اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کے نکاح کے وقت اپنی خوش دلی سے اس کی سرال کے لوگوں کو، یا اپنے اعزہ و احباب کو جمع کرکے ان کی دعوت کر دیتا ہے اور اسے نکاح کا لازمی حصہ یا سنت نہیں سمجھتا تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اور اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو اس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس کی شکایت کی جائے یا جس کی وجہ سے اسے مطعون کیا جائے ، بلکہ اس کا عمل سادگی کی سنت سے زیادہ قریب ہے، اس لئے اس کی تعریف کرنی چاہئے۔*

*"❀_ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ بعض لوگ اپنی اولاد کے امتحان میں کامیاب ہونے پر یا انہیں اچھی ملازمت ملنے پر خوشی کے اظہار کے لئے اپنے خاص خاص ملنے والوں کی دعوت کر دیتے ہیں، اس دعوت میں ہرگز کوئی حرج نہیں، دوسری طرف بہت سے لوگوں کے بچے امتحان میں پاس ہوتے رہتے ہیں، یا انہیں اچھی ملازمتیں ملتی رہتی ہیں لیکن وہ اس خوشی میں کوئی دعوت نہیں کرتے، ان لوگوں پر بھی معاشرے کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا، نہ انہیں اس بات پر مطعون کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دعوت کیوں نہیں کی ؟*

*"❀_ اگر یہی طرز عمل نکاح کی دعوت میں بھی اختیار کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ یعنی جس کا دل چاہے دعوت کرے اور جس کا دل نہ چاہے نہ کرے لیکن خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ نکاح میں اگر کوئی دعوت نہ کرے تو یوں سمجھا جاتا ہے جیسے شادی ہوئی ہی نہیں، جن بزرگوں نے بارات لے جانے اور اس کے اہتمام سے روکا، در حقیقت ان کے پیش نظر یہی خرابیاں تھیں، انہوں نے اس بات کی ترغیب دی کہ کم از کم کچھ با رسوخ ان دعوتوں کے بغیر نکاح کریں گے تو ان لوگوں کو حوصلہ ہوگا جو ان کی استطاعت نہیں رکھتے اور صرف معاشرے کی مجبوری سے انہیں یہ کام کرنے پڑتے ہیں۔*

*®_( ذکر و فکر ، ص ۲۸۹)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(142) تقریبات میں رسم کے طور پر یا بدلے (نیوته) کی غرض سے تحفه دينا:-*

*"●✿_ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، یا کوئی نیکی کرے، تو اس کو چاہیے کہ جس نے اس کے ساتھ نیکی کی ہے، اس کو اس کا کچھ نہ کچھ بدلہ دے، دوسری حدیث میں اسی بدلہ کو مکافات“ سے تعبیر فرمایا ہے، یہ بدلہ جس کا ذکر حضور اقدس ﷺ فرما رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس احساس کے ساتھ دوسرے سے اچھا برتاؤ کرے کہ اس نے چونکہ میرے ساتھ نیکی کی ہے تو میں بھی اس کے ساتھ کوئی نیک سلوک کروں،*.

*"●✿_ یہ بدلہ دینا تو حضور اقدس ﷺ کی سنت ہے، اس لیے کہ حضور اقدس ﷺ کی عادت یہ تھی کہ جب کوئی شخص آپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرتا، یا کوئی ہدیہ پیش کرتا تو آپ اس کو بدلہ دیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ بھی اچھائی کا معاملہ کیا کرتے تھے، اس لیے یہ بدلہ تو باعث اجر و ثواب ہے۔*

*"●✿_ ایک بدلہ وہ ہے جو آج ہمارے معاشرے میں پھیل گیا ہے وہ یہ کہ کسی کو بدلہ دینے کو دل تو نہیں چاہ رہا ہے لیکن اس غرض سے دے رہا ہے کہ اگر میں نہیں دوں گا تو معاشرے میں میری ناک کٹ جائے گی، یا اس نیت سے دے رہا ہے کہ اس وقت دے رہا ہوں تو میرے یہاں شادی بیاہ کے موقع پر یہ دے گا، جس کو نیوتہ کہا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض علاقوں خاندانوں میں یہ رواج ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر کوئی کسی کو دیتا ہے تو با قاعدہ اس کی فہرست بنتی ہے کہ فلاں شخص نے اتنے دیے، فلاں شخص نے اتنے دیے، پھر اس فہرست کو محفوظ رکھا جاتا ہے اور پھر جب اس شخص کے یہاں شادی بیاہ کا موقع آتا ہے جس نے دیا تھا تو اس کو پوری توقع ہوتی ہے کہ میں نے اس کو جنتنا دیا تھا یہ کم از کم اتنا ہی مجھے واپس دے گا اور اگر اس سے کم دے تو پھر گلے شکوے لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں،*

*"●✿_ یہ بدلہ بہت خراب ہے اور اسی کو قرآن کریم میں سورۃ روم میں سود سے تعبیر فرمایا ہے : "_ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ‌ۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ ," [سورة روم : ٣٩]* 
*"_ یعنی تم لوگ جو سود دیتے ہو تا کہ لوگوں کے مالوں کے ساتھ مل اس میں اضافہ ہو جائے تو یاد رکھو اللہ تعالی کے نزدیک اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور جو تم اللہ تعالی کی خاطر زکوٰۃ دیتے ہو تو یہی لوگ اپنے مالوں میں اضافہ کرانے والے ہیں۔*

*"●✿_اس آیت میں اس نیوتہ کو سود سے تعبیر کیا ہے، لہذا اگر کوئی شخص دوسرے کو اس نیت سے دے کہ چونکہ اس نے مجھے شادی کے موقع پر دیا تھا، اب میرے ذمے فرض ہے کہ میں بھی اس کو ضرور دوں، اگر میں نہیں دوں گا تو معاشرے میں میری ناک کٹ جائے گی اور یہ مجھے مقروض سمجھے گا، یہ دینا گناہ میں داخل ہے، اس میں کبھی مبتلا نہیں ہونا چاہیے، اس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آخرت کا کوئی فائدہ ہے۔*

*"●✿_ لیکن ایک وہ بدلہ جس کی تلقین حضور اقدس ﷺ فرما رہے ہیں یعنی دینے والے کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ جو میں دے رہا ہوں اس کا بدلہ مجھے ملے گا بلکہ اس نے محض محبت کی خاطر اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے بہن یا بھائی کو کچھ دیا ہو، جیسا کہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے دیا کرو، اس سے آپس میں محبت پیدا ہوگی ، لہذا اگر ایک آدمی حضور اقدس ﷺ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کے لیے اپنے دل کے تقاضے سے دے رہا ہے، اور اس کے دل میں دور دور تک یہ خیال نہیں ہے کہ اس کا بدلہ مجھے ملے گا، تو یہ دینا بڑی برکت کی چیز ہے،*.

*"❀_ اور جس شخص کو وہ ہدیہ دیا گیا وہ بھی یہ سمجھ کر نہ لے کہ یہ نیوتہ ہے اور اس کا بدلہ مجھے ادا کرنا ہے، بلکہ وہ یہ سوچے کہ یہ میرا بھائی ہے اس نے میرے ساتھ ایک اچھائی کی ہے، تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس کے ساتھ اچھائی کروں اور میں بھی اس کے ساتھ اچھائی کروں اور میں بھی اپنی طاقت کے مطابق اس کو ہدیہ دے کر اس کا دل خوش کروں، تو اس کا نام ہے مکافات جس کی حضور اقدس ﷺ نے تاکید فرمائی ہے، یہ محمود ہے اور اس کی کوشش کرنی چاہیے۔*

*"❀_ اس مکافات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب دوسرا شخص تمہارے ہدیہ کا بدلہ دے گا تو اس بدلہ میں اس کا لحاظ نہیں ہوگا کہ جتنا قیمتی ہدیہ اس نے دیا تھا اتنا ہی قیمتی ہدیہ میں بھی دوں گا، بلکہ مکافات کرنے والا یہ سوچے کہ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق بدلہ دیا تھا، میں اپنی استطاعت کے مطابق بدلہ دوں، مثلاً کسی نے آپ کو بہت قیمتی تحفہ دے دیا تھا، اب آپ کی استطاعت قیمتی تحفہ دینے کی نہیں ہے تو آپ چھوٹا اور معمولی تحفہ دیتے وقت شرمائیں نہیں، اس لیے کہ اس کا مقصد بھی آپ کا دل خوش کرنا تھا اور آپ کا مقصد بھی اس کا دل خوش کرنا ہے، اور دل چھوٹی چیز سے بھی خوش ہو جاتا ہے، یہ نہ سوچیں کہ جتنا قیمتی تحفہ اس نے مجھے دیا تھا میں بھی اتنا ہی قیمتی تحفہ اس کو دوں، چاہے اس مقصد کے لیے مجھے قرض لینا پڑے،*

*"❀_ ہر گز نہیں ! بلکہ جتنی استطاعت ہو اس کے مطابق تحفہ دو، بلکہ حدیث میں یہاں تک فرمادیا کہ اگر تمہارے پاس ہدیہ کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہیں ہے تو پھر مکافات کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تم اس کی تعریف کرو اور لوگوں کو بتاؤ کہ میرے بھائی نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا اور مجھے ہدیہ میں یہ ضرورت کی چیز دے دی، یہ کہہ کر اس کا دل خوش کر دینا بھی ایک طرح کا بدلہ ہے۔*.
*®_( اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۱۷۴)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞(143)_ لڑکی کے والد کا دولہا سے رقم اور پیسے کا مطالبہ کرنا:-*

*"●✿__ بعض علاقوں میں لڑکی کا باپ دولہا سے نکاح کے اخراجات کے علاوہ مزید کچھ رقم کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور اس کے بغیر اسے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے پر تیار نہیں ہوتا، یہ بے بنیاد رسم بھی ہمارے معاشرے کے بعض حصوں میں خاصی رائج ہے، اور یہ شرعی اعتبار سے بالکل نا جائز رسم ہے،*

*"●✿__ اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لئے دولہا سے رقم لینے کو ہمارے فقہاء کرام نے رشوت قرار دیا ہے، اور اس کا گناہ رشوت لینے کے گناہ کے برابر ہے، بلکہ اس میں ایک پہلو بے غیرتی کا بھی ہے، اور یہ عمل اپنی لڑکی کو فروخت کرنے کے مشابہ ہے،*

*"●✿__ اور بعض جگہ جہاں یہ رسم پائی جاتی ہے، اسی وجہ سے شوہر اس کے ساتھ زرخرید کنیز جیسا سلوک کرتا ہے، لہذا یہ رسم شرعی اور اخلاقی لحاظ سے انتہائی غلط رسم ہے اور واجب الترک ہے۔ ,*

*®_(ذکر و فکر ص ۲۹۲)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (144)_ ولیمه کی دعوت کس انداز کی ہو؟*

*"●✿_شادی کی تقریبات میں ولیمہ ایک ایسی تقریب ہے جو باقاعدہ سنت ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً اس کی ترغیب دی ہے لیکن اول تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دعوت کوئی فرض یا واجب نہیں جس کے چھوڑنے سے نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہو ، ہاں یہ سنت ہے اور حتی الامکان اس پر ضرور عمل کرنا چاہیے،*

*"●✿_ دوسری بات یہ ہے کہ اس سنت کی ادائیگی کے لئے شرعاً نہ مہمانوں کی کوئی تعداد مقرر ہے نہ کھانے کا کوئی معیار، بلکہ ہر شخص اپنی استطاعت کی حد میں رہتے ہوئے جس پیمانہ پر چاہے ولیمہ کر سکتا ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ولیمہ ایسا کیا جس میں صرف دو سیر جو خرچ ہوئے، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر ولیمہ سفر میں ہوا، اور اس طرح ہوا کہ دسترخوان بچھا دیا گیا اور اس پر کچھ کھجوریں کچھ پنیر اور کچھ گھی رکھ دیا گیا، بس ولیمہ ہو گیا،*

*"●✿_ البتہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر روٹی اور بکری کے گوشت سے دعوت کی گئی، لہٰذا ولیمہ کے بارے میں یہ سمجھنا درست نہیں کہ اس میں مہمانوں کی کوئی بڑی تعداد ضروری ہے، یا کوئی اعلیٰ درجے کا کھانا ضرور ہونا چاہئے، اور اگر کسی شخص کے پاس خود گنجائش نہ ہو تو وہ قرض ادھار کر کے ان چیزوں کا اہتمام کرے، بلکہ شرعی اعتبار سے مطلوب یہی ہے کہ جس شخص کے پاس خود اپنے وسائل کم ہوں، وہ اپنی استطاعت کے مطابق اختصار سے کام لے،_ ہاں اگر استطاعت ہو تو زیادہ مہمان مدعو کرنے اور اچھے کھانے کا اہتمام کرنے میں بھی کچھ حرج نہیں، بشر طیکہ مقصد نام و نمود اور دکھاوا نہ ہو۔*

*"●✿_ان حدود میں رہتے ہوئے ولیمہ بیشک مسنون ہے، اور اس ولیمہ کو طرح طرح کے گناہوں سے مجروح کرنا اس کی ناقدری، بلکہ تو ہین کے مترادف ہے محض شان و شوکت کا اظہار اور نام نمود کے اقدامات، تقریب کی مصروفیات میں نمازوں کا ضایع کرنا، سجے بنے مردوں عورتوں کا بے حجاب میل جول، ان کی فلم بندی اور اس قسم کے دوسرے منکرات اس قسم کی تقریب کے پر پانی پھر دیتے ہیں، جن سے اس بابرکت تقریب کو بچانا چاہئے۔*

*®_(ذکر و فکر ص ۹۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(145) _ کیا مسنون ولیمہ کے لیے دولها دلھن کے درمیان تعلقات قائم ہونا ضروری ہے ؟*

*"●✿_ ولیمہ کے بارے میں ایک اور غلط فہمی خاصی پھیلی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اس نکتے کی وضاحت چاہتے ہیں کہ غلط فہمی یہ ہے کہ اگر دولہا دلہن کے درمیان تعلقات قائم نہ ہو پائے ہوں تو ولیمہ صیح نہیں ہوتا،*

*"●✿_ واقعہ یہ ہے کہ ولیمہ نکاح کے وقت سے لیکر رخصتی کے بعد تک کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، البتہ مستحب یہ ہے کہ رخصتی کے بعد ہو، اور رخصتی کا مطلب رخصتی ہی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، یعنی یہ کہ دلہن دولہا کے گھر آجائے اور دونوں کی تنہائی میں ملاقات ہو جائے اور بس۔ لہٰذا اگر کسی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلقات زن و شو قائم نہ ہوا ہو تو اس سے ولیمہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔*.

*"●✿_ نہ ولیمہ نا جائز ہوتا ہے اور نہ یہ سمجھنا چاہئے کہ اس طرح ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوتی، بلکہ ولیمہ اگر رخصتی ہی سے پہلے منعقد کر لیا جائے تب بھی ولیمہ ادا ہو جاتا ہے، صرف اس کا مستحب وقت حاصل نہیں ہوتا، ( یہاں دلائل کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے، جو حضرات دلائل سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ علامہ ابن حجر کی فتح الباری میں صفحہ ۲۳۱ جلد ٩ پر باب الولیمہ کے تحت حدیث نمبر ۵۱٦٦ کی تشریحات ملاحظہ فرمالیں )۔*

*®_(ذکر و فکر ص ۲۹۵)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞(146)_ کیا دلہن کا زبان سے " قبول ہے " کہنا ضروری ہے یا نکاح‌ نامے پر دستخط کردینا ہی کافی ہے ؟*

*"●✿__ ایک سوال یہ ہے کہ نکاح کے وقت جب لڑکی کے گھر والے لڑکی سے ایجاب و قبول کراتے ہیں، تو کیا لڑکی کا اپنی زبان سے منظوری کا کہنا ضروری ہے یا نکاح نامے پر دستخط کر دینا کافی ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے یہاں شادیاں عموماً اس طرح ہوتی ہے کہ دلہن خود نکاح کی محفل میں موجود نہیں ہوتی، بلکہ دلہن کے گھر والوں میں سے کوئی نکاح سے پہلے اس سے اجازت لیتا ہے، جو دلہن کی طرف سے وکیل کی حیثیت رکھتا ہے، اور نکاح نامے میں بھی اس کا نام وکیل کے خانے میں درج ہوتا ہے،*

*"●✿__ جب یہ وکیل لڑکی سے اجازت لینے جاتا ہے تو یہ نکاح کا ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ محض لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے، اس میں اجازت لینے والے کو لڑ کی سے یہ کہنا چاہئے کہ میں تمہارا نکاح فلاں ولد فلاں سے اتنے مہر پر کرنا چاہتا ہوں، کیا تمہیں یہ منظور ہے؟ اگرلڑکی کنواری ہے تو زبان سے اس کا منظور ہے کہنا ضروری نہیں بلکہ اتنا بھی کافی ہے کہ وہ انکار نہ کرے، البتہ زبان سے منظوری کا اظہار کر دے تو اور اچھا ہے، اور اگر صرف نکاح نامے پر دستخط کر دے تو بھی اجازت ہو جاتی ہے،*

*"●✿__ البتہ اگر کوئی عورت پہلے شادی شدہ رہ چکی ہے اور اب یہ اس کی دوسری شادی ہے تو اس کا زبان سے منظوری کا اظہار ضروری ہے، بصورت دیگر اسے منظوری نہیں سمجھا جائے گا۔*

*"●✿__جب لڑکی سے اس طرح اجازت لے لی جائے تو جس شخص نے اجازت لی ہے وہ بحیثیت وکیل نکاح کرنے کا اختیار نکاح خواں کو دیدیتا ہے، اور پھر نکاح خواں جو الفاظ دولہا سے کہتا ہے وہ نکاح کا ایجاب ہے، اور دولہا جو جواب دیتا ہے قبول اور ان دونوں کلمات سے نکاح کی تکمیل ہو جاتی ہے۔*

*®_ [ ذکر و فکر ص ۲۹۵]* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞(147)_نکاح میں لڑکے لڑکی اور دونوں کے خاندان میں برابری اور كفو کا کیا معیار ہے- ؟*

*"●✿_ یہ بات اکثر دیکھنے سننے میں آتی ہے کہ لوگ برادری میں نکاح کرنے کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں، یہ درست ہے کہ شریعت نے نکاح کے معاملے میں ایک حد تک کفو کی رعایت رکھی ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ نکاح چونکہ زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے اس لئے میاں بیوی اور دونوں خاندانوں کے درمیان طبعی ہم آہنگی ہو، ان کے رہن سہن، ان کے طرز فکر اور ان کے مزاج میں اتنی دوری نہ ہو کہ ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کرنے میں مشکل پیش آئے،*

*"●✿_ لیکن اول تو کفو کی اس رعایت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اگر کفو میں کوئی رشتہ نہ ملے تو یہ قسم کھائی جائے کہ اب زندگی بھر شادی ہی نہیں ہو سکے گی, دوسرے کفو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خاص اپنی برادری ہی میں رشتہ کیا جائے اور برادری کے باہر سے جو بھی رشتے آئیں انہیں غیر کفو قرار دیا جائے, اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں، جنہیں نظر انداز کرنے سے ہمارے معاشرے میں بڑی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں:-*

*●✿_(١)_ہر وہ شخص کسی لڑکی کا کفو ہے جو اپنے خاندانی حسب نسب، دین داری اور پیشے کے لحاظ سے لڑکی اور اس کے خاندان کا ہم پلہ ہو، یعنی کفو میں ہونے کے لئے اپنی برادری کا فرد ہونا ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص کسی اور برادری کا ہے، لیکن اس کی برادری بھی لڑکی کی برادری کے ہم پلہ سمجھی جاتی ہے، تو وہ بھی لڑکی کا کفو ہے، کفو سے باہر نہیں ہے،*

*"●✿_ مثلاً سید صدیقی ، فاروقی، عثمانی، علوی بلکہ تمام قریشی برادر یاں آپس میں ایک دوسری کے لئے کفو ہیں، اسی طرح جو مختلف معجمی برادریاں ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں مثلاً (مسلم ) راجپوت، خان پٹھان وغیرہ وہ بھی اکثر ایک دوسری کے ہم پلہ سمجھی جاتی ہیں، اور ایک دوسری کے لئے کفو ہیں۔*

*●✿(٢)_بعض احادیث وروایات میں یہ ترغیب ضرور دی گئی ہے کہ نکاح کفو میں کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ دونوں خاندانوں کے مزاج آپس میں میل کھا سکیں لیکن یہ سمجھنا غلط ہے کہ کفو سے باہر نکاح کرنا شرعاً بالکل نا جائز ہے، یا یہ کہ کفو سے باہر نکاح شرعاً درست نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ اگر لڑکی اور اس کے اولیاء کفو سے باہر نکاح کرنے پر راضی ہوں، تو کفو سے باہر کیا ہوا نکاح بھی شرعاً منعقد ہو جاتا ہے، اور اس میں نہ کوئی گناہ ہے، نہ کوئی نا جائز بات ہے،*

*"★_ لہذا اگر کسی لڑکی کا رشتہ کفو میں میسر نہ آرہا ہو، اور کفو سے باہر کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو وہاں شادی کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، کفو میں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے لڑکی کو عمر بھر بغیر شادی کے بٹھائے رکھنا کسی طرح جائز نہیں۔*

*"★_(٣)_شریعت نے یہ ہدایت ضرور دی ہے کہ لڑکی کو نکاح بغیر ولی کے نہیں کرنا چاہئے ( خاص طور سے اگر کفو سے باہر نکاح کرنا ہو تو ایسا نکاح اکثر فقہاء کے نزدیک بغیر ولی کے درست نہیں ہوتا ) لیکن ولی کو بھی یہ چاہئے کہ وہ کفو کی شرط پر اتنا زور نہ دے جس کے نتیجے میں لڑکی عمر بھر شادی سے محروم ہو جائے اور برادری کی شرط پر اتنا زور دینا تو اور بھی زیادہ بے بنیاد اور لغو حرکت ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔*

*"★_ایک حدیث میں حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص رشتہ لے کر آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے (اپنی لڑکی کا) نکاح کر دو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد برپا ہوگا۔*
*®_ [ ذکر و فکر ص ۳۱۶]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(148) کیا بیوی سے مہر معاف کرانا یا نفقه (خرچ) میں کمی کرنا صحیح ہے ؟*

*"●✿_ ساری زندگی میں بے چاری عورت کا ایک ہی مالی حق شوہر کے ذمے واجب ہوتا ہے، وہ ہے مہر، وہ بھی شوہر ادا نہیں کرتا، ہوتا یہ ہے کہ ساری زندگی تو مہر ادا نہیں کیا، جب مرنے کا وقت قریب آیا تو بستر مرگ پر پڑے ہیں، دنیا سے جانے والے ہیں, رخصتی کا منظر ہے، اس وقت بیوی سے کہتے ہیں کہ مہر معاف کر دو، اب اس موقع پر بیوی کیا کرے؟*

*"●✿_ کیا رخصت ہونے والے شوہر سے یہ کہہ دے کہ میں معاف نہیں کرتی، چنانچہ اس کو مہر معاف کرنا پڑتا ہے، ساری عمر اس سے فائدہ اٹھایا, ساری عمر تو اس سے حقوق طلب کیے لیکن اس کا حق دینے کا وقت آیا تو اس میں ڈنڈی مار گئے۔*

*"●✿_یہ تو مہر کی بات تھی, نفقہ کے اندر شریعت کا یہ حکم ہے کہ اس کو اتنا نفقہ دیا جائے کہ وہ آزادی اور اطمینان کے ساتھ گزارہ کر سکے، اگر اس میں کمی کرے گا تو یہ بھی کم ناپنے اور کم تولنے کے اندر داخل ہے، اور حرام ہے،*

*"●✿_ خلاصہ یہ کہ جس کسی کا کوئی حق دوسرے کے ذمے واجب ہو وہ اس کو پورا پورا ادا کرے، اس میں کمی نہ کرے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(149)_کیا گھریلو کام کاج بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے ؟*

*"●✿_میاں بیوی کا تعلق احسان پر مبنی ہے, یہ جو کہا جاتا ہے کہ عورت کے ذمے کھانا پکانے کی اور ساس سسر کی خدمت کی ذمہ داری نہیں ہے یہ ایک قانون کی بات ہے لیکن زندگی قانون کے خشک تعلق سے نہیں چلا کرتی،*

*"●✿_ لہذا جس طرح قانوناً عورت کے ذمہ کھانا پکانا نہیں ہے اسی طرح اگر عورت بیمار ہو جائے تو قانوناً شوہر کے ذمہ اس کا علاج کرانا یا علاج کے لیے خرچہ دینا بھی ضروری نہیں اور قانوناً شوہر کے ذمہ یہ بھی نہیں ہے کہ وہ عورت کو اس کے والدین کے گھر ملاقات کے لیے لے جایا کرے اور نہ یہ ضروری ہے کہ جب عورت کے ماں باپ اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے آئیں تو ان کو اپنے گھر میں بٹھائے، بلکہ فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ہفتہ میں صرف ایک دن بیوی کے ماں باپ آئیں اور دور سے ملاقات اور زیارت کر کے چلے جائیں، گھر میں بٹھا کر ملاقات کرانا شوہر کے ذمہ ضروری نہیں ،*

*"●✿_ لہذا اگر قانون کے خشک تعلق کی بنیاد پر اگر زندگی بسر ہونی شروع ہو جائے تو دونوں کا گھر برباد ہو جائے، بات جب چلتی ہے کہ جب دونوں میاں بیوی قانون کی بات سے آگے بڑھ کر سنت رسول اللہ ﷺ کی اتباع کریں اور بیوی ازواج مطہرات کی سنت کی اتباع کرے ، اگر بیوی خوش دلی سے اپنی سعادت مندی سمجھ کر اپنے شوہر کے والدین کی جتنی خدمت کرے گی ان شاء اللہ اس کے اجر میں بہت اضافہ ہوگا اور بہو کو ایسا کرنا بھی چاہیے تا کہ گھر کی فضا خوشگوار رہے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(150) _ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟*

*"●✿__ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ جو سامنے کی باتیں پہلے بچے بچے کو معلوم ہوتی تھیں، اب بڑے بڑوں کو بھی معلوم نہیں ہوتیں، طلاق کے بالکل ابتدائی احکام سے بھی عام لوگ ناواقف ہو چکے ہیں، اور اس بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں عام ہو چکی ہیں۔*

*●✿★_ سب سے پہلی غلطی تو یہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے طلاق کو غصہ نکالنے کا ایک ذریعہ سمجھا ہوا ہے، جہاں میاں بیوی میں کوئی اختلاف پیش آیا، اور نوبت غصے اور اشتعال تک پہنچی ، شوہر نے فوراً طلاق کے الفاظ زبان سے نکال دیئے، حالانکہ طلاق کوئی گالی نہیں ہے جو غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے دیدی جائے ، یہ نکاح کا رشتہ ختم کرنے کا وہ انتہائی اقدام ہے جس کے نتائج بڑے سنگین ہیں،*

*●✿★_ اس سے صرف نکاح کا رشتہ ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ خاندانی زندگی کے بہت سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جاتے ہیں، بچوں کی پرورش کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، املاک کی تقسیم میں پیچیدگی پیدا ہوتی ہے، مہر، نفقہ اور عدت کے معاملات پر اس کا اثر پڑتا ہے، غرض نہ صرف میاں بیوی بلکہ ان کی اولاد ، بلکہ پورے خاندان پر اس کے اثرات پڑتے ہیں۔*

*●✿_★_ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جہاں طلاق کی اجازت دی ہے، وہیں یہ وہ چیز ہے جو جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہے، عیسائی مذہب کا اصل تصور یہ تھا کہ میاں بیوی جب ایک مرتبہ نکاح کے رشتے میں بندھ جائیں تو اب طلاق دینے یا لینے کا کوئی راستہ نہیں ہے، بائبل میں تو طلاق کو بدکاری کے برابر قرار دیا گیا ہے، اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے طلاق کے بارے میں یہ سخت موقف تو اختیار نہیں کیا، اس لئے کہ میاں بیوی کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مرحلے پیش آجاتے ہیں، جب دونوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ شرافت کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں، ایسے موقع پر نکاح کے رشتے کو ان پر زبردستی تھوپے رکھنا دونوں کی زندگی کو عذاب بنا سکتا ہے۔*

*"●✿_ اس لئے اسلام نے طلاق کو نا جائز یا حرام تو قرار نہیں دیا اور نہ اس کے ایسے اسباب متعین کئے جو علیحدگی کے معاملے میں میاں بیوی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیں لیکن اول تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف فرمادیا کہ مباح (جائز) چیزوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے، دوسرے میاں بیوی کو ایسی ہدایات دی ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے تو طلاق کی نوبت کم سے کم آئے، تیسرے اگر طلاق کی نوبت آہی جائے تو اس کا ایسا طریقہ بتایا ہے جس میں خرابیاں کم سے کم ہوں، آج اگر لوگ ان ہدایات و احکام کو اچھی طرح سمجھ لیں، اور ان پر عمل کریں تو نہ جانے کتنے گھریلو تنازعات اور خاندانی مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔*

*"❀_جہاں تک ان ہدایات کا تعلق ہے جو طلاق کے سد باب کے لئے دی گئی ہیں ان میں سب سے پہلی ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ اگر کسی شوہر کو اپنی بیوی کی کوئی بات نا پسند ہے، تو اسے اس کی اچھی باتوں پر بھی غور کرنا چاہئے، مقصد یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بے عیب نہیں ہوتا، اگر کسی میں ایک خرابی ہے تو دس اچھائیاں بھی ہو سکتی ہیں، ایک خرابی کو لے بیٹھنا اور دس اچھائیوں سے آنکھ بند کر لینا انصاف کے بھی خلاف ہے اور اس سے کوئی مسئلہ حل بھی نہیں ہو سکتا،*

*"❀_ بلکہ قرآن کریم نے تو یہاں تک فرمادیا کہ اگر تمہیں اپنی بیوی کی کوئی بات نا پسند ہے تو (یہ سوچو کہ) شاید تم جس چیز کو برا سمجھ رہے ہو، اللہ تعالی نے اس میں تمہارے لئے کوئی بڑی بھلائی رکھی ہو، [ سورۃ النساء : 19 ]*

*"❀_ دوسری ہدایت قرآن کریم نے یہ دی ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں اپنے اختلافات طے نہ کر سکیں اور نرم و گرم ہر طریقہ آزمانے کے بعد بھی تنازعہ برقرار رہے تو فوراً علیحدگی کا فیصلہ کرنے کے بجائے دونوں کے خاندان والے ایک ایک شخص کو ثالث بنائیں، اور یہ دونوں طرف کے نمائندے آپس میں ٹھنڈے دل سے حالات کا جائزہ لے کر میاں بیوی کے درمیان تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کریں،*

*"❀_ ساتھ ہی اللہ تعالی نے یہ بھی فرمادیا کہ اگر یہ دونوں نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان موافقت پیدا فرمادے گا ۔ [سورہ نساء : ۳۵]*

*"❀_لیکن اگر یہ تمام کوششیں بالکل نا کام ہو جائیں اور طلاق ہی کا فیصلہ کر لیا جائے تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا ہے کہ شوہر اس کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرے، مناسب وقت کی تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ طلاق اس وقت دی جائے جب بیوی طہر کی حالت میں ہو، یعنی اپنے ماہانہ نسوانی دورے سے فارغ ہو چکی ہو، اور فراغت کے بعد دونوں کے درمیان وظیفہ زوجیت ادا کرنے کی نوبت نہ آئی ہو، لہذا اگر عورت طہر کی حالت میں نہ ہو تو ایسے وقت طلاق دینا شرعاً گناہ ہے، نیز اگر طہر ایسا ہو کہ اس میں میاں بیوی کے درمیان ازدواجی قربت ہو چکی ہو، تب بھی طلاق دینا شرعاً نہیں، ایسی صورت میں طلاق دینے کے لئے شوہر کو اگلے مہینے تک انتظار کرنا چاہئے۔*

*®( ذکر و فکر ہیں ۳۱۹)* 

*"❀_ اس طریق کار میں یوں تو بہت سی مصلحتیں ہیں لیکن ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ طلاق کسی وقتی منافرت یا جھگڑے کا نتیجہ نہ ہو، شوہر کو مناسب وقت کے انتظار کا حکم اس لئے بھی دیا گیا ہے کہ اس عرصے میں وہ تمام حالات پر اچھی طرح غور کرلے، اور جس طرح نکاح سوچ سمجھ کر ہوا تھا، اسی طرح طلاق بھی سوچ سمجھ کر ہی دی جائے، چنانچہ عین ممکن ہے کہ انتظار کے نتیجے میں دونوں کی رائے بدل جائے، حالات بہتر ہو جائیں، اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے۔*

*"❀_ پھر اگر مناسب وقت آجانے پر بھی طلاق کا ارادہ برقرار رہے تو شریعت نے طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ بتلایا ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دے کر خاموش ہو جائے، اس طرح ایک رجعی طلاق ہو جائے گی جس کا حکم یہ ہے کہ عدت گزر جانے پر نکاح کا رشتہ شرافت کے ساتھ خود بخود ختم ہو جائے گا، اور دونوں اپنے اپنے مستقبل کے لئے کوئی فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔*

*"❀_ اس طریقے میں فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو، اور وہ یہ سمجھے کہ حالات اب بہتر ہو سکتے ہیں، تو وہ عدت کے دوران اپنی دی ہوئی طلاق سے رجوع کر سکتا ہے، جس کے لئے زبان سے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے طلاق سے رجوع کر لیا، اس طرح نکاح کا رشتہ خود بخود تازه ہو جائے گا،*

*"❀_ اور اگر عدت بھی گزر گئی ہو اور دونوں میاں بیوی یہ سمجھیں کہ اب انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے، اور آئندہ وہ مناسب طریقے پر زندگی گزار سکتے ہیں، تو ان کے لئے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ وہ باہمی رضا مندی سے دوبارہ از سرنو نکاح کر لیں ( جس کے لئے نیا ایجاب وقبول، گواہ اور مہر سب ضروری ہے)۔*

*"❀_ اگر مذکورہ سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں بیوی نے پھر سے نکاح کا رشتہ تازہ کر لیا ہو، اور پھر کسی وجہ سے دونوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو جائے، تب بھی دوسری طلاق دینے میں جلدی نہ کرنی چاہئے، بلکہ ان تمام ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جو اوپر بیان ہوئیں، ان تمام ہدایات پر عمل کے باوجود اگر شوہر پھر طلاق ہی کا فیصلہ کرے تو اس مرتبہ بھی ایک ہی طلاق دینی چاہئے، اب مجموعی طور پر دو طلاقیں ہو جائیں گی لیکن معاملہ اس کے باوجود میاں بیوی کے ہاتھ میں رہے گا۔*
*_یعنی عدت کے دوران شوہر پھر رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی ‌سے پھر تیسری بار نکاح کر سکتے ہیں۔*

*"❀_ یہ ہے طلاق کا وہ طریقہ جو قرآن وحدیث میں بیان ہوا ہے، اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ قرآن وسنت نے نکاح کے رشتے کو برقرار رکھنے اور اسے ٹوٹنے سے بچانے کے لئے درجہ بدرجہ کتنے راستے رکھے ہیں، ہاں اگر کوئی شخص ان تمام درجوں کو پھلانگ جائے تو پھر نکاح و طلاق آنکھ مچولی کا کوئی کھیل نہیں ہے، جو غیر محدود زمانے تک جاری رکھا جائے، لہذا جب تیسری طلاق بھی دیدی جائے تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ اب نکاح کو تازہ کرنے کا کوئی راستہ نہیں، اب نہ شوہر رجوع کر سکتا ہے نہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے نیا نکاح کر سکتے ہیں، اب دونوں کو علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔*
*®{ذکر و فکر ص ۳۲۲}*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(151) کیا علیحدگی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہے یا ایک طلاق ہی کافی ھے ؟*

*"❀__ ہمارے معاشرے میں طلاق کے بارے میں انتہائی سنگین غلط فہمی یہ پھیل گئی ہے کہ تین سے کم طلاقوں کو طلاق ہی نہیں سمجھا جاتا، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر طلاق کا لفظ ایک یا دو مرتبہ لکھا جائے تو اس سے طلاق ہی نہیں ہوتی، چنانچہ جب کبھی طلاق کی نوبت آتی ہے تو لوگ تین طلاقوں سے کم پر بس نہیں کرتے اور کم سے کم تین مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں،*

*"❀__ حالانکہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا طلاق صرف ایک مرتبہ کہنے سے بھی ہو جاتی ہے، بلکہ شریعت کے مطابق طلاق کا صحیح اور احسن طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک مرتبہ طلاق کا لفظ کہا یا لکھا جائے، اس طرح طلاق تو ہو جاتی ہے لیکن اگر بعد میں سوچ سمجھ کر نکاح کا رشتہ تازہ کرنا ہو تو اس کے دروازے کسی کے نزدیک مکمل طور پر بند نہیں ہوتے،*

*"❀__ بلکہ ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرنا شرعا گناہ ہے، اور حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چاروں فقہی مکاتب فکر کے نزدیک اس گناہ کی ایک سزا یہ ہے کہ اس کے بعد رجوع یا نئے نکاح کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا، اور جو لوگ ان فقہی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان کو اکثر تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کے بعد شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،*

*"❀__ لہذا طلاق کے معاملے میں سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کرنے سے طلاق نہیں ہوتی، اور یہ بات اچھی طرح لوگوں میں عام کرنی ضروری ہے کہ طلاق کا صحیح اور احسن طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال کیا جائے، اس سے زیادہ نہیں،*

*"❀__ اگر عدت کے دوران شوہر کے رجوع کا حق ختم کرنا مقصود ہو تو ایک طلاق بائن دیدی جائے، یعنی طلاق کے ساتھ بائن کا لفظ بھی ملا لیا جائے تو شوہر کو ایک طرفہ طور پر رجوع کا حق نہیں رہے گا، البتہ باہمی رضامندی سے دونوں میاں بیوی جب چاہیں نیا نکاح کر سکیں گے۔*

*"❀__ یہ بات کہ طلاق کا احسن طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک طلاق دی جائے، پوری امت مسلمہ میں کسی مکتب فکر کا اختلاف نہیں ہے، ضرورت ہے کہ علماء کرام اپنے خطبوں میں اس مسئلے کو عوام کے سامنے واضح کریں، اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی طلاق کے یہ احکام لوگوں تک پہنچائے جائیں۔*
 
*®{ذکر و فکر ص ۳۲۲}*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(152) کیا لباس کا تعلق قوم اور ملک کے حالات سے ہے ؟*

*"❀_ آج کل ہمارے دور میں یہ پروپیگنڈہ بڑی کثرت سے کیا گیا ہے کہ لباس تو ایسی چیز ہے جس کا ہر قوم اور ہر وطن کے حالات سے تعلق ہوتا ہے، اس لیے آدمی اگر اپنی مرضی اور ماحول کے مطابق کوئی لباس اختیار کرلے تو اس کے بارے میں شریعت کو بیچ میں لانا اور شریعت کے احکام سنانا تنگ نظری کی بات ہے، اور یہ جملہ تو لوگوں سے بکثرت سننے میں آتا ہے کہ ان مولویوں نے اپنی طرف سے قیدیں شرطیں لگادی ہیں ، ورنہ دین میں تو بڑی آسانی ہے،*

 *"❀_خوب سمجھ لیجیے لباس کا معاملہ اتنا سادہ اور اتنا آسان نہیں ہے کہ آدمی جو چاہے لباس پہنتا رہے اور اس لباس کی وجہ سے اس کے دین پر اور اس کے اخلاق پر، اس کی زندگی پر، اس کے طرز عمل پر کوئی اثر واقع نہ ہو، یہ ایک مسلم حقیقت ہے، جس کو شریعت نے تو ہمیشہ بیان فرمایا، اور اب نفسیات اور سائنس کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسان کے لباس کا اس کی زندگی پر، اس کے اخلاق پر، اس کے کردار پر بڑا اثر واقع ہوتا ہے،*

*"❀_ لباس محض ایک کپڑا نہیں ہے، جو انسان نے اٹھا کر پہن لیا، بلکہ یہ لباس انسان کے طرز فکر پر, اس کی سوچ پر، اس کی ذہنیت پر اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے اس لباس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔*

*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۵، ص ٢٦٠)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(153) لوگ کہتے ہیں کہ ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے ؟ دل صاف ہونا چاہیے ؟*

*❀"_آج کل یہ جملہ بھی بہت کثرت سے سننے میں آتا ہے کہ صاحب ! اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے، دل صاف ہونا چاہیے اور ہمارا دل صاف ہے، ہماری نیت اچھی ہے، اللہ تعالی کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہے، اب اگر ذرا سا لباس بدل دیا تو اس میں کیا حرج ہے؟*

*❀"_خوب یاد رکھیے ! دین کے احکام روح پر بھی ہیں، جسم پر بھی ہیں، باطن پر بھی ہیں اور ظاہر پر بھی ہیں، قرآن کریم کا ارشاد ہے [ سورة الانعام: ۱۲۰]:-*
*"_ ظاہر کے گناہ بھی چھوڑو اور باطن کے گناہ بھی چھوڑو_,*

*"❀_ صرف یہ نہیں کہا کہ باطن کے گناہ چھوڑو, خوب یاد رکھیے ! جب تک ظاہر خراب ہے تو پھر یہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ باطن ٹھیک ہے، اس لیے کہ ظاہر اسی وقت خراب ہوتا ہے جب اندر سے باطن خراب ہوتا ہے، اگر باطن خراب نہ ہو تو ظاہر بھی خراب نہیں ہوگا۔*

*"❀_ ہمارے ایک بزرگ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ جب کوئی پھل اندر سے سڑ جاتا ہے تو اس کے سڑنے کے آثار چھلکے پر داغ کی شکل میں نظر آنے لگتے ہیں اور اگر اندر سے وہ پھل سڑا ہوا نہیں ہے تو چھلکے پر خرابی نظر نہیں آئے گی، چھلکے پر اسی وقت خرابی ظاہر ہوتی ہے جب اندر سے خراب ہو،*

*"❀_ اسی طرح جس شخص کا ظاہر خراب ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ باطن میں بھی کچھ نہ کچھ خرابی ضرور ہے، ورنہ ظاہر خراب ہوتا ہی نہیں لہذا یہ کہنا کہ ہمارا ظاہر خراب ہے تو کیا ہوا ؟ باطن تو ٹھیک ہے، یاد رکھے !خوب یاد رکھیے ! دین کے احکام روح پر بھی ہیں، جسم پر بھی ہیں، باطن پر بھی ہیں اور ظاہر پر بھی,*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(154) کیا لباس کے بارے میں علماء تنگ نظر ہیں ؟*

*"❀_ لوگ یہ کہتے ہیں کہ علماء جو اس قسم کا لباس پہننے سے منع کرتے ہیں، یہ تنگ نظری کی بات ہے اور ایسی بات کہنے والوں کو بھی تنگ نظر کہا جاتا ہے،*

 *"❀_ خوب سمجھ لو کہ تم کتنا ہی ان کا لباس پہن لو اور کتنا ہی ان کا طریقہ اختیار کر لو، مگر تم پھر بھی‌ان کی نگاہ میں عزت نہیں پا سکتے، قرآن کریم نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ [ سورة البقرة : ١٢٠]- یہ یہود اور نصاریٰ تم سے کبھی بھی راضی نہیں ہوں گے، جب تک کہ تم ان کی ملت کو اختیار نہیں کر لو گے، ان کے نظریات، ان کے ایمان، ان کے دین کو اختیار نہیں کر لو گے، لہذا اب تم اپنا لباس بدل لو، پوشاک بدل لو، سرا پا بدل لو، جسم بدل لو، جو چاہو بدل لو لیکن وہ تم سے راضی ہونے کو تیار نہیں،*

*❀★_ چنانچہ تم نے تجربہ کر لیا اور سب کچھ کر کے دیکھ لیا، سب کچھ ان کی نقالی پر فنا کر کے دیکھ لیا ، سر سے لے کر پاؤں تک تم نے اپنے آپ کو بدل لیا، کیا تم سے وہ لوگ خوش ہو گئے؟ کیا تم سے راضی ہو گئے؟ کیا تمہارے ساتھ انہوں نے ہمدردی کا برتاؤ شروع کر دیا ؟ بلکہ آج بھی ان کی دشمنی کا وہی عالم ہے اور اس لباس کی وجہ سے ان کے دل میں تمہاری عزت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی ۔*

*®_[ اصلاحی خطبات، ج ۵، ص۲۹۴]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(155) کیا شریعت نے کوئی لباس مخصوص نہیں کیا ؟ (1)_لباس کے چار بنیادی اصول ومقاصد :-قرآن وحدیث کی روشنی میں*

*"❀_شریعت نے لباس کے بارے میں بڑی معتدل تعلیمات عطا فرمائی ہیں، چنانچہ شریعت نے کوئی خاص لباس مقرر کر کے یہ نہیں کہا کہ ہر آدمی کے لیے ایسا لباس پہننا ضروری ہے، ایسا اس لیے کیا کہ اسلام دین فطرت ہے، اور حالات کے لحاظ سے مختلف ممالک کے موسموں کے لحاظ سے، وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے لباس مختلف ہو سکتا ہے، کہیں باریک، کہیں موٹا، کہیں کسی وضع کا، کہیں کسی ہیئت کا لباس اختیار کیا جاسکتا ہے،*

*"❀_ لیکن اسلام نے لباس کے بارے میں کچھ بنیادی اصول عطا فرما دیے، ان اصولوں کی ہر حالت میں رعایت رکھنی ضروری ہے، ان کو سمجھ لینا چاہیے۔*

*"❀_لباس کے چار بنیادی اصول ومقاصد :-قرآن وحدیث کی روشنی میں:-*
*"_اس آیت میں اللہ تعالی نے لباس کے بنیادی اصول بتا دیے ہیں فرمایا کہ : (سورۃ الأعراف -آیت نمبر 26)*
*"_يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكُمۡ لِبَاسًا يُّوَارِىۡ سَوۡاٰتِكُمۡ وَرِيۡشًا‌ ؕ وَلِبَاسُ التَّقۡوٰى ۙ*
*"❀_اے بنی آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس اتارا جو تمہاری پوشیدہ اور شرم کی چیزوں کو چھپاتا ہے اور جو تمہارے لیے زینت کا سبب بنتا ہے، اور تقویٰ کا لباس تمہارے لیے سب سے بہتر ہے۔ یہ تین جملے ارشاد فرمائے اور ان تین جملوں میں اللہ تعالی نے معانی کی کائنات بھر دی ہے۔*

*☞(1)_ لباس کا پہلا بنیادی اصول ستر عورت:-*
*"❀_اس آیت میں لباس کا پہلا مقصد یہ بیان فرمایا کہ وہ تمہاری پوشیدہ اور شرم کی چیزوں کو چھپا سکے، لباس کا سب سے بنیادی مقصد ستر عورت ہے، اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے جسم کے کچھ حصوں کو عورت قرار دیا، یعنی وہ چھپانے کی چیز ہے، مردوں میں ستر کا حصہ جس کو چھپانا ہر حال میں ضروری ہے وہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ہے،*

*"❀_ عورت کا سارا جسم ، سوائے چہرے اور گٹوں تک ہاتھ کے سب کا سب عورت ہے اور ستر ہے، جس کا چھپانا ضروری ہے اور کھولنا جائز نہیں، لہذا لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کیے ہوئے ستر کے حصوں کو چھپالے، جو لباس اس مقصد کو پورا نہ کرے، شریعت کی نگاہ میں وہ لباس ہی نہیں،*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__لباس کے چار بنیادی اصول ومقاصد :-قرآن وحدیث کی روشنی میں_(لباس کے تین عیب):-*

*❀__لباس کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرنے کی تین صورتیں ہوتی ہیں: ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ لباس اتنا چھوٹا ہے کہ لباس پہننے کے باوجود ستر کا کچھ حصہ کھلا رہ گیا، اس لباس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس لباس سے اس کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہوا، اور کشف عورت ہو گیا۔*

*"❀__ دوسری صورت یہ ہے کہ اس لباس سے ستر کو چھپا تو لیا لیکن وہ لباس اتنا باریک ہے کہ اس سے اندر کا بدن جھلکتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ لباس اتنا چست ہے کہ لباس پہننے کے باوجود جسم کی بناوٹ اور جسم کا ابھار نظر آرہا ہے، یہ بھی ستر کے خلاف ہے۔*

*"❀__اس لیے مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ایسے کپڑے سے چھپانا ضروری ہے جو اتنا موٹا ہو کہ اندر سے جسم نہ چھلکے اور وہ اتنا ڈھیلا ڈھالا ہو کہ اندر کے اعضا کو نمایاں نہ کرے، اور اتنا مکمل ہو کہ جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ رہ جائے، اور یہی تین چیزیں عورت کے لباس میں بھی ضروری ہیں۔*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ٢٦٥]*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(156) لباس کے چار بنیادوں اصول, (٢) زينت اور خوب صورتی (٣) تشبہ سے بچنا :-*

*"❀_ لباس کا دوسرا مقصد اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا کہ ہم نے اس لباس کو تمہارے لیے زینت کی چیز اور خوب صورتی کی چیز بنائی، ایک انسان کی خوب صورتی لباس میں ہے، لہذا لباس ایسا ہونا چاہیے کہ جسے دیکھ کر انسان کو فرحت ہو، بد ہیئت اور بے ڈھنگا نہ ہو، جس کو دیکھ کر دوسروں کو نفرت اور کراہت‌ہو، بلکہ ایسا ہونا چاہیے جس کو دیکھ کر زینت کا فائدہ حاصل ہو سکے۔*

*"❀_ لیکن اگر لباس پہننے سے نہ تو آسائش مقصود ہے اور نہ آرائش مقصود ہے بلکہ نمائش اور دکھاوہ مقصود ہے، تاکہ لوگ دیکھیں کہ ہم نے اتنا شاندار کپڑا پہنا ہوا ہے، اور اتنا اعلیٰ درجے کا لباس پہنا ہوا ہے اور یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہم بڑی دولت والے بڑے پیسے والے ہیں اور دوسروں پر بڑائی جتانا اور دوسروں پر رعب جمانا مقصود ہے ، تو یہ سب باتیں نمائش میں داخل ہیں اور حرام ہیں، اس لیے کہ نمائش کی خاطر جو بھی لباس پہنا جائے وہ حرام ہے۔*

*"❀_لباس کے بارے میں شریعت نے جو تیسرا اصول بیان فرمایا، وہ ہے تشبہ سے بچنا، یعنی ایسا لباس پہننا جس کو پہن کر انسان کسی قوم کا فرد نظر آئے اور اس مقصد سے وہ لباس پہنے تا کہ میں ان جیسا ہو جاؤں، اس کو شریعت میں تشبہ کہتے ہیں,*

*"❀_ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کسی غیر مسلم قوم کی نقالی کی نیت سے کوئی لباس پہننا، اس سے قطع نظر کہ وہ چیز ہمیں پسند ہے یا نہیں؟ وہ اچھی ہے یا بری ہے؟ لیکن چونکہ فلاں قوم کی نقالی کرنی ہے, بس ان کی نقالی کے پیش نظر اس لباس کو اختیار کیا جا رہا ہے، اس کو تشبہ “ کہا جاتا ہے، اس نقالی پر حضور اقدس ﷺ نے بڑی سخت وعید ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ: من تشبه بقوم فهو منهم ، (أبو داود ، كتاب اللباس، باب في لباس الشهرة ) یعنی جو شخص کسی قوم کے ساتھ تشبہ اختیار کرے، اسی کی نقالی کرے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے تو وہ انہیں میں سے ہے، گویا کہ وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اسی قوم کا ایک فرد ہے،*

*"❀_ اس لیے کہ یہ شخص انہی کو پسند کر رہا ہے، انہی سے محبت رکھتا ہے، انہی جیسا بننا چاہتا ہے، تو اب تیرا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا، اللہ تعالی محفوظ فرمائے ، آمین ۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(157) لباس کے بنیادی اصول (٤) چوتها أصول تكبر اور بڑائی سے اجتناب:-*

*"❀_لباس کے بارے میں چوتھا اصول یہ ہے کہ ایسا لباس پہننا حرام ہے جس کو پہن کر دل میں تکبر اور بڑائی پیدا ہو جائے، چاہے وہ لباس ٹاٹ ہی کا کیوں نہ ہو، مثلا اگر کوئی ایک شخص ٹاٹ کا لباس پہنے اور مقصد یہ ہو کہ یہ پہن کر میں لوگوں کی نظروں میں بڑا درویش اور صوفی نظر آؤں، اور بڑا متقی اور پر ہیز گار بن جاؤں، اور پھر اس کی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی کا خیال دل میں آجائے ، اور دوسروں کی تحقیر پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ ٹاٹ کا لباس بھی تکبر کا ذریعہ اور سبب ہے، اس لیے حرام ہے،*

*"❀_ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ تکبر کپڑے پہننے سے نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کی حقارت دل میں لانے سے ہوتا ہے، اس لیے بعض اوقات ایک شخص یہ سجھتا ہے کہ میں بڑا تواضع والا لباس پہن رہا ہوں، حقیقت میں اس کے اندر تکبر بھرا ہوتا ہے۔*

*(®_اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ۲۹۸)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(158) مردوں کے لیے ٹخنے ڈھانکنا جائز نہیں:-*

*"❀_ حضرت عبداللہ بن عمر رضی فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ نیچے گھسیٹے تو اللہ تعالی قیامت کے روز اس کو رحمت کی نگاہ سے دیکھیں گے بھی نہیں _,*
*{صحیح بخاری، کتاب اللباس ، باب من جر ثوبه من الخيلاء }*

*"❀_ دوسری حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ مرد کے زیر جامہ کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ حصہ جہنم میں جائے گا،*

*"❀_ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے پائجامہ، شلوار، پتلون لنگی وغیرہ پہننا جائز نہیں، اور اس پر حضور اقدس ﷺ نے دو وعیدیں بیان فرمائیں، ایک یہ کہ ٹخنوں سے نیچے جتنا حصہ ہوگا وہ جہنم میں جائے گا اور دوسرے یہ کہ قیامت کے دن اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھے گا بھی نہیں۔*

*"❀_ اب دیکھیے کہ ٹخنوں سے اوپر زیر جامہ پہنا ایک معمولی بات ہے، اگر ایک انچ اوپر شلوار پہن لی تو اس سے کیا آفت اور مصیبت آجائے گی ؟ کونسا آسمان ٹوٹ پڑے گا ؟ لیکن کیا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جاؤ گے اور اللہ تعالی کی نظر رحمت حاصل ہوگی، اور یہ ایسا گناہ بے کہ جس میں پوری کی پوری قوم مبتلا ہے کسی کو فکر ہی نہیں۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(159) اگر دل میں تکبر نہ ہو تو کیا ٹخنے ڈھکنا چھپانا جائز ہے ؟*

*"❀_بعض لوگ یہ پروپیگینڈہ کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے تکبر کی وجہ سے ٹخنے سے نیچے ازار پہنے کو منع فرمایا تھا، لہذا اگر تکبر نہ ہو تو پھر ٹخنوں سے نیچے پہنے میں کوئی حرج نہیں، اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضیہ اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ سے فرمایا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے تو فرمایا کہ ازار کو ٹخنے سے نیچے نہ کرو لیکن میرا ازار بار بار ٹخنے سے نیچے ڈھلک جاتا ہے، میرے لیے اوپر رکھنا مشکل ہوتا ہے، میں کیا کروں؟ تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا ازار جو نیچے ڈھلک جاتا ہے یہ تکبر کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ تمہارے عذر اور مجبوری کی وجہ سے یہ ڈھلک جاتا ہے، اس لیے تم ان میں داخل نہیں۔ (ابو داود، کتاب اللباس، باب ماجاء في اسبال الازار )*

*"❀_اب لوگ استدلال میں اس واقعے کو پیش کر کے یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے ، لہذا ہمارے لیے جائز ہونا چاہیے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے کہ تم تکبر کی وجہ سے کرتے ہو یا تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے ؟ ارے بھائی ! یہ تو دیکھو کہ حضور ﷺ سے زیادہ تکبر سے پاک کون ہو سکتا ہے ! لیکن حضور اقدس ﷺ نے کبھی زندگی بھر ٹخنوں سے نیچے از ار نہیں پہنا ،*

*"❀_ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر کو جو اجازت دی گئی تھی وہ ایک مجبوری کی وجہ سے اجازت دی گئی تھی ، وہ مجبوری یہ تھی کہ ان کے جسم کی بناوٹ ایسی تھی کہ بار بار ان کا ازار خود بخود نیچے ڈھلک جاتا تھا لیکن تمہارے ساتھ کیا مجبوری ہے؟ اور آج تک‌آپ نے کوئی ایسا متکبر دیکھا ہے جو یہ کہے کہ میں تکبر کرتا ہوں ! میں متکبر ہوں ! اس لیے کہ کسی متکبر کو بھی خود سے اپنے متکبر ہونے کا خیال نہیں آتا ،*.

*"❀_ اس لیے شریعت نے علامتوں کی بنیاد پر احکام جاری کیے ہیں ، یہ نہیں کہا کہ تکبر ہو تو از ارکو اونچا رکھو، ورنہ نیچے کر لیا کرو، بلکہ شریعت نے بتادیا کہ جب ازار کو نیچے لٹکا رہے ہو باوجود یکہ حضور ﷺ نے اس سے منع فرمادیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر تکبر ہے، اس لیے ہر حالت میں ازار نیچے لٹکانا نا جائز ہے۔*

*"❀_ اگر چہ بعض فقہا نے یہ لکھ دیا ہے کہ اگر تکبر کی وجہ سے نیچے کرے تو مکروہ تحریمی ہے اور تکبر کے بغیر کرے تو مکروہ تنزیہی ہے لیکن عام محققین کا صحیح قول یہ ہے اور جس پر ان کا عمل بھی رہا ہے کہ ہر حالت میں نیچے کرنا مکروہ تحریمی ہے، اس لیے کہ تکبر کا پتہ لگانا آسان نہیں ہے کہ تکبر کہاں ہے اور کہاں نہیں ؟ اس لیے اس سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی ٹخنے سے اونچا ازار پہنے ، اور تکبر کی جڑ ہی ختم کر دی جائے ، اللہ تعالی اپنے فضل اور رحمت سے ان اصولوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔*
*®(اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ۳۰۲]*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(160) جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ:-*

*❀_ افسوس کہ اب جھوٹ میں عام ابتلا ہے، یہاں تک کہ جو لوگ حرام و حلال اور جائز و نا جائز کا اور شریعت پر چلنے کا اہتمام کرتے ہیں، ان میں بھی یہ بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے بھی جھوٹ کی بہت سی قسموں کو جھوٹ سے خارج سمجھ رکھا ہے، اور یہ سمجھتے ہیں کہ گویا یہ جھوٹ ہی نہیں ہے، حالانکہ چھوٹا کام کر رہے ہیں، غلط بیانی کر رہے ہیں، اور اس میں دوہرا جرم ہے، ایک جھوٹ بولنے کا جرم، اور دوسرے اس گناہ کو گناہ نہ سمجھنے کا جرم ،*

*"❀_ چنانچہ ایک صاحب جو بڑے نیک تھے ، نماز روزے کے پابند ، اذکار و اشغال کے پابند ، بزرگوں سے تعلق رکھنے والے، ایک مرتبہ جب یہاں آئے تو میرے پاس بھی ملاقات کے لیے آگئے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ واپس کب تشریف لے جارہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ابھی آٹھ ، دس روز اور ٹھہروں گا، میری چھٹیاں تو ختم ہو گئیں البتہ کل ہی میں نے مزید چھٹی لینے کے لیے ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوادیا ہے،*

*"❀_ انہوں نے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوانے کا ذکر اس انداز سے کیا کہ جس طرح یہ ایک معمول کی بات ہے، اس میں کوئی پریشانی کی بات ہی نہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مزید چھٹی لینے کے لیے بھیج دیا ہے، ویسے اگر چھٹی لیتا تو چھٹی نہ ملتی ، اس کے ذریعہ چھٹی مل جائیں گی، میں نے پھر سوال کیا کہ آپ نے اس میڈیکل سرٹیفکیٹ میں کیا لکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں یہ لکھا تھا کہ یہ اتنے بیمار ہیں کہ سفر کے لائق نہیں،*

*"❀_ میں نے کہا کیا دین صرف نماز روزے کا نام ہے؟ ذکر شغل کا نام ہے؟ آپ کا بزرگوں سے تعلق ہے، پھر یہ میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسا جا رہا ہے؟ چونکہ نیک آدمی تھے، اس لیے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں نے آج پہلی مرتبہ آپ کے منہ سے یہ بات سنی کہ یہ بھی کوئی غلط کام ہے، میں نے کہا کہ جھوٹ بولنا اور کس کو کہتے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کہ مزید چھٹی کس طرح لیں؟ میں نے کہا کہ جتنی چھٹیوں کا استحقاق ہے اتنی چھٹی لو، مزید چھٹی لینی ضروری ہو تو بغیر تنخواہ کے لے لو لیکن یہ جھوٹا سرٹیفکیٹ بھیجنے کا جواز تو پیدا نہیں ہوتا۔*

*"❀_ آج کل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانا جھوٹ میں داخل ہی نہیں ہے ، اور دین صرف ذکر و شغل کا نام رکھ دیا ، باقی زندگی کے میدان میں جا کر جھوٹ بول رہا ہو تو اس کا کوئی خیال نہیں۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۳، ص ۱۴۰)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(161) _ ملکی قانون کی پابندی کرنا ضروری ہے کیا؟*

*"❀_ جس کی طرف عام لوگوں کو توجہ نہیں ہے اور اس کو دین کا معاملہ نہیں سمجھتے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ وعدہ صرف زبانی نہیں ہوتا، بلکہ وعدہ عملی بھی ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص ایک ملک میں بطور باشندے کے رہتا ہے تو وہ شخص عملاً اس حکومت سے وعدہ کرتا ہے کہ میں آپ کے ملک کے قوانین کی پابندی کروں گا، لہذا اب اس شخص پر وعدے کی پابندی کرنا واجب ہے، جب تک اس ملک کا قانون اس کو کسی گناہ پر مجبور نہ کرے،*

*"❀_ اس لیے کہ اگر کوئی قانون اس کو گناہ کرنے پر مجبور کر رہا ہے تو پھر اس قانون پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے بارے میں حضور اقدس ﷺ کا صاف ارشاد ہے کہ : خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔*

*"❀_ لیکن اگر کوئی قانون ایسا ہے جو آپ کو گناہ اور معصیت پر مجبور نہیں کر رہا ہے، اس قانون کی پابندی اس لیے واجب ہے کہ آپ نے عملاً اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ میں اس ملک کے قانون کی پابندی کروں گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر آپ کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور درخواست دیتے ہوے یہ کہ دیں کہ میں آپ کے ملک کی شہریت تو چاہتا ہوں لیکن آپ کے قانون پر عمل نہیں کروں گا تو کیا دنیا کا کوئی ملک ایسا ہے جو آپ کو شہریت دینے پر تیار ہو جائے ؟*

*"❀_ لہذا جب کوئی انسان کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے تو وہ یا تو زبان سے یا عملاً یہ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ میں اس ملک کے قوانین کی پابندی کروں گا, جیسے ہم اس ملک کے اندر پیدا ہوئے ہیں، تو شہریت حاصل کرنے کے لیے ہمیں زبانی درخواست دینے کی ضرورت تو پیش نہیں آئی لیکن عملاً یہ معاہدہ کرلیا کہ ہم اس ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے، لہذا شہری ہونے کے ناطے ہم اس ملک کے قانون کی پابندی کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۲۷۲)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(162) کیا ظالم سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا لازم ہے:-,*

*❀_ خوب سمجھ لیجیے ! کہ حضور اقدس ﷺ نے تو ابو جہل سے کیے ہوئے معاہدے کا بھی احترام کیا،حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں اور حضور ﷺ کے رازدار ہیں، جب یہ اور ان کے والدین رضی اللہ عنہم مسلمان ہونے کے بعد حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ آرہے تھے، راستے میں ان کی ملاقات ابو جہل سے ہوگئی, اس وقت ابو جہل اپنے لشکر کے ساتھ حضور اقدس ﷺ سے لڑنے کے لیے بدر جا رہا تھا،*

*"❀_ ابو جہل نے انہیں پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں مدینہ طبیہ جا رہے ہیں، ابو جہل نے کہا کہ پھر تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے، اس لیے کہ تم مدینہ جا کر ہمارے خلاف جنگ میں حصہ لو گے، انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد تو صرف حضور ﷺ سے ملاقات اور زیارت ہے، ہم جنگ میں حصہ نہیں لیں گے، ابو جہل نے کہا کہ اچھا ہم سے وعدہ کرو کہ وہاں جا کر صرف ملاقات کرو گے لیکن جنگ میں حصہ نہیں لوگے، انہوں نے وعدہ کر لیا، چنانچہ ابو جہل نے انہیں کو چھوڑ دیا،*

*"❀_ آپ جب حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں پہنچے، اس وقت حضور اقدس ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہو چکے تھے، اور راستے میں ملاقات ہو گئی۔ حضرت حذیفہ نے سارا قصہ سنا دیا، اور پھر درخواست کی کہ ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم بھی جنگ میں شریک ہو جائیں، اور جہاں تک اس وعدے کا تعلق ہے، وہ تو انہوں نے ہماری گردن پر تلوار رکھ کر ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم جنگ میں حصہ نہیں لیں گے، اور اگر ہم وعدہ نہ کرتے تو وہ ہمیں نہ چھوڑتے، اس لیے ہم نے وعدہ کر لیا لیکن آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم اس جنگ میں حصہ لے لیں،*

*"❀_ لیکن سرکار دو عالم ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ نہیں! تم وعدہ کر کے آئے ہو اور زبان دے کر آئے ہو اور اسی شرط پر تمہیں رہا کیا گیا ہے کہ تم وہاں جا کر محمد ﷺ کی زیارت کرو گے لیکن ان کے ساتھ جنگ میں حصہ نہیں لوگے، اس لیے میں تم کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا،*

*❀_ یہ وہ مواقع ہیں جہاں انسان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبان اور اپنے وعدے کا کتنا پاس کرتا ہے، اگر ہم جیسا آدمی ہوتا تو ہزار تاویلیں کر لیتا ، مثلا وعدہ سچے دل سے تو نہیں کیا تھا یا یہ تاویل کر لیتا کہ یہ حالت عذر ہے، ہمارے دل ودماغ پر ہر وقت ہزاروں تاویلیں مسلط رہتی ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت مصلحت کا یہ تقاضا ہے چلو شریعت کے اس حکم کو نظر انداز کر دو، اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت مصلحت اس کام کے کرنے میں ہے، چلو یہ کام کر لو۔*

*❀_ کیا ابو جہل سے زیادہ گمراہ کوئی ہوگا ؟ ابو جہل سے بڑا کافر کوئی ہوگا ؟ لیکن وہ وعدہ جو حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے والد نے ابو جہل سے کیا تھا اور ابو جہل نے زبردستی ان سے وعدہ لیا تھا، رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم چونکہ ابو جہل سے وعدہ کر چکے ہو، لہذا اس وعدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی،*

*❀_ معلوم ہوا کہ جس شخص سے آپ عہد کر رہے ہیں وہ چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ فاسق ہو، بدعنوان ہو، رشوت خور ہو لیکن جب آپ نے اس سے عہد کیا ہے تو اب اس عہد کی پابندی آپ کے ذمے لازم ہو گی, ان کے ظلم اور ان کے فسق و فجور کا گناہ ان کے سر ہے، ان کی بدعنوانیوں کا بدلہ اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں دیں گے، وہ جانیں ان کا اللہ جانے، ہمارا کام یہ ہے کہ ہم نے جو معاہدہ کیا ہے، ہم اس کی پابندی کریں*۔

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۵، ص ۲۷۸)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞___( 163) خیانت کی وہ صورتیں جنھیں عموماً چوری نہیں سمجھا جاتا :-*

*"❀_ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ نہ جانے کتنے شعبوں میں ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر ان احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،*

*"❀_ ہم چوری اور غصب یہی سمجھتے ہیں کہ بس کوئی شخص کسی کے گھر میں چھپ کر داخل ہو اور اس کا سامان چرائے، یا طاقت کا با قاعدہ استعمال کر کے اس کا مال چھینے، حالانکہ کسی کی مرضی کے خلاف اس کی ملکیت کا استعمال کسی بھی صورت میں ہو، وہ چوری یا غصب کے گناہ میں داخل ہے،*

*"❀_ اس قسم کی چوری یا غصب کی جو مختلف صورتیں ہمارے معاشرے میں عام ہو گئی ہیں، اور اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی ان میں مبتلا ہیں، ان کا شمار مشکل ہے، تاہم مثال کے طور پر اس کی چند صورتیں درج ذیل ہیں :-*
*(١)_ ایک صورت تو وہی ہے جس کی طرف حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے مذکورہ واقعے میں اشارہ کیا گیا ہے، آج یہ بات بڑے فخر سے بیان کی جاتی ہے کہ ہم اپنا سامان ریل یا جہاز میں کرایہ دیئے بغیر نکال لائے، حالانکہ اگر یہ کام متعلقہ افسروں کی آنکھ بچا کر کیا گیا تو اس میں اور چوری میں کوئی فرق نہیں، اور اگر ان کی رضا مندی سے کیا گیا، جبکہ وہ اجازت دینے کے مجاز نہ تھے تو ان کا بھی اس گناہ میں شریک ہونا لازم آیا ،*

*❀_(٢)۔ بجلی کے سرکاری سمجھنے سے کنکشن لے کر مفت بجلی کا استعمال چوری کی ایک اور قسم ہے جس کا رواج بھی عام ہوتا جارہا ہے، اور یہ گناہ بھی ڈنکے کی چوٹ کیا جاتا ہے۔*

*(٣)_ اگر ہم کسی شخص سے اس کی کوئی چیز ما نگتے ہیں، جبکہ ہمیں غالب گمان یہ ہے کہ وہ زبان سے تو انکار نہیں کر سکے گا لیکن دینے پر دل سے راضی بھی نہ ہوگا، اور دے گا تو شرم شرمی سے دے گا تو یہ بھی غصب میں داخل ہے، اور ایسی چیز کا استعمال حلال نہیں، کیونکہ دینے والے نے خوش دلی کے بجائے وہ چیز دباؤ میں آکر دی ہے۔*

*"❀__(4) اگر کسی شخص سے کوئی چیز عارضی استعمال کے لئے لی گئی اور وعدہ کر لیا گیا کہ فلاں وقت لوٹا دی جائے گی لیکن وقت پر لوٹانے کے بجائے اسے اپنے استعمال میں باقی رکھا تو اس میں وعدہ خلافی کا بھی گناہ ہے، اور اگر وہ مقررہ وقت کے بعد اس کے استعمال پر دل سے راضی نہ ہو تو غصب کا گناہ بھی ہے۔ یہی حال قرض کا ہے کہ واپسی کی مقررہ تاریخ کے بعد قرض واپس نہ کرنا ( جب کہ کوئی شدید عذر نہ ہو ) وعدہ خلافی اور غصب دونوں گناہوں کا مجموعہ ہے،*

*(5)_ اگر کسی شخص سے کوئی مکان زمین یا دوکان ایک خاص وقت تک کے لئے کرائے پر لی گئی تو وقت گزرنے کے بعد مالک کی اجازت کے بغیر اپنے استعمال میں رکھنا بھی اسی وعدہ خلافی اور تعصب دونوں گناہوں کا مجموعہ ہے۔*

*"_(6) _ اگر مستعار لی ہوئی چیز کو ایسی بے دردی سے استعمال کیا جائے جس پر مالک راضی نہ ہو تو یہ بھی غصب کی مذکورہ صورت میں داخل ہے، مثلاً کسی بھلے مانس نے اپنی گاڑی دوسرے کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا نا جائز فائدہ اٹھایا جائے، یقینا غصب میں داخل اور حرام ہے۔*

*"❀_(7) بک اسٹالوں میں کتا ہیں، رسالے اور اخبارات اس لئے رکھے جاتے ہیں کہ ان میں سے جو پسند ہوں، لوگ انہیں خرید سکیں پسند کے تعین کے لئے ان کی معمولی ورق گردانی کی بھی عام طور سے اجازت ہوتی ہے لیکن اگر بک اسٹال پر کھڑے ہو کر کتابوں، اخبارات یا رسالوں کا با قاعدہ مطالعہ شروع کر دیا جائے، جبکہ خریدنے کی نیت نہ ہو تو یہ بھی ان کا غاصبانہ استعمال ہے، جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔*

*"❀_ یہ چند سرسری مثالیں ہیں جو بے ساختہ قلم پر آگئیں، مقصد یہ ہے کہ ہم سب مل کر سوچیں کہ ہم کہاں کہاں چوری اور غصب کے گٹھیا جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں؟*

*®_( ذکر و فکر -۱۲۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
           *☞_(164) سود کس کو کہتے ہیں ؟*

*"❀_ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سود کس کو کہتے ہیں ؟ سود کیا چیز ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے ؟ جس وقت قرآن کریم نے سود کو حرام قراردیا اس وقت اہل عرب میں سود کا لین دین متعارف اور مشہور تھا اور اس وقت سود اسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو دیے ہوئے قرض پر طے کر کے کسی بھی قسم کی زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جائے اسے سود کہا جاتا تھا،*

*"❀_ مثلاً میں نے آج ایک شخص کو سو روپے بطور قرض دیے، اور میں اس سے کہوں کہ میں ایک مہینے کے بعد یہ رقم واپس لوں گا اور تم مجھے ایک سو دو ر وپے واپس کرنا تو یہ سود ہے۔*

*"❀_پہلے سے طے کرنے کی شرط اس لیے لگائی کہ اگر پہلے سے کچھ طے نہیں کیا ہے، مثلاً میں نے کسی کو سو روپے قرض دے دیے، اور میں نے اس سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ تم مجھے ایک سو دو روپے واپس کرو گے لیکن واپسی کے وقت اس نے اپنی خوشی سے مجھے ایک سو دو روپے دے دیے اور ہمارے درمیان یہ ایک سو دو روپے واپس کرنے کی بات طے شدہ نہیں تھی، تو یہ سود نہیں ہے اور حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔*

*®_( ذکر و فکر -۱۲۳)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(165) قرآن کریم نے کس سود کو حرام قرار دیا ہے ؟*

*"❀_ایک اعتراض یہ اٹھایا ہے کہ یہ کاروباری سود (Commercial Interest) اور یہ تجارتی قرض (Commercial Loan) حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں نہیں تھے، بلکہ اس زمانے میں ذاتی اخراجات اور ذاتی استعمال کے لیے قرضے لیے جاتے تھے، لہذا قرآن کریم اس کو کیسے حرام قرار دے سکتا ہے جس کا اس زمانے میں وجود ہی نہیں تھا، اس لیے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے جس سود کو حرام قرار دیا ہے وہ غریبوں اور فقیروں والا سود تھا، اور یہ کاروباری سود حرام نہیں ہے۔*

*"❀_ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی چیز کے حرام ہونے کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہے کہ وہ اس خاص صورت میں حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں بھی پائی جائے اور حضور ﷺ کے زمانے میں اسی انداز سے اس کا وجود بھی ہو، قرآن کریم جب کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کی ایک حقیقت اس کے سامنے ہوتی ہے اور اس حقیقت کو وہ حرام قرار دیتا ہے، چاہے اس کی کوئی خاص صورت حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں موجود ہو یا نہ ہو،*

*"❀_ اس کی مثال یوں سمجھے کہ قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا ہے، اور شراب کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا مشروب جس میں نشہ ہو، اب آج اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ صاحب ! آج کل کی یہ وسکی (Whisky) بیر (Beer) اور برانڈی (Brandy) حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں تو پائی نہیں جاتی تھی لہٰذا یہ حرام نہیں ہے، تو یہ بات صیح نہیں ہے,*

*"❀_ اس لیے کہ حضور اقدس ﷺ نے اس کو حرام قرار دے دیا تھا، لہذا اب وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی، اب چاہے شراب کی نئی شکل آجائے اور اس کا نام چاہے وہسکی رکھ دیا جائے یا برانڈی رکھ لو یا بیئر رکھ لو یا کوک (Coke) رکھ لو ، نشہ آور مشروب ہر شکل اور ہر نام کے ساتھ حرام ہے۔*

*"❀_ اس لیے یہ کہنا کہ کمرشل لون چونکہ اس زمانے میں نہیں تھے بلکہ آج پیدا ہوئے ہیں، اس لیے حرام نہیں ہیں، یہ خیال درست نہیں۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(166) _ کیا زمانہ نبوت میں تجارتی قرض (Commercial Loan) کا رواج نہیں تھا ؟-*

*"❀_پھر یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں تجارتی قرضوں (Commercial Loan) کا رواج نہیں تھا ، اور سارے قرضے صرف ذاتی ضرورت کے لیے لیے جاتے تھے ، سرکار دو عالم ﷺ کے زمانے میں بھی تجارتی قرضوں کا لین دین ہوتا تھا۔*

*"❀_ عرب کا وہ معاشرہ جس میں حضور اقدس ﷺ تشریف لائے ، اس میں بھی آج کی جدید تجارت کی تقریباً ساری بنیادیں موجود تھیں ، مثلاً آج کل جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں ہیں، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چودھویں صدی کی پیداوار ہیں، اس سے پہلے جوائنٹ اسٹاک کمپنی کا تصور نہیں تھا لیکن جب ہم عرب کی تاریخ پڑھتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ عرب کا ہر قبیلہ ایک مستقل جوائنٹ اسٹاک کمپنی ہوتا تھا، اس لیے کہ ہر قبیلے میں تجارت کا طریقہ یہ تھا کہ قبیلہ کے تمام آدمی ایک روپیہ، دو روپیہ لا کر ایک جگہ جمع کرتے اور وہ رقم شام بھیج کر وہاں سے سامان تجارت منگواتے،*

*"❀_ آپ نے تجاری قافلوں (Commercial Carvan) کا نام سنا ہوگا ، وہ " کاروان یہی ہوتے کہ سارے قبیلے نے ایک روپیہ جمع کر کے دوسری جگہ بھیجا اور وہاں سے سامان تجارت منگوا کر یہاں فروخت کر دیا، عرب کے لوگ سردیوں میں یمن کی طرف سفر کرتے تھے اور گرمیوں میں شام کی طرف سفر کرتے تھے اور گرمیوں اور سردیوں کے یہ سفر محض تجارت کے لیے ہوتے تھے، یہاں سے سامان لے کر جا کر وہاں بیچ دیا، وہاں سے سامان لا کر یہاں بیچ دیا،*

*"❀_ اور بعض اوقات ایک ایک آدمی اپنے قبیلے سے دس لاکھ دینار قرض لیتا تھا, اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس لیے قرض لیتا تھا کہ اس کے گھر میں کھانے کو نہیں تھا ؟ یا اس کے پاس میت کو کفن دینے کے لیے کپڑا نہیں تھا ؟ ظاہر ہے کہ جب وہ اتنا بڑا قرض لیتا تھا تو وہ کسی کمرشل مقصد کے لیے لیتا تھا۔*

*"❀_ جب حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرمایا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ: ( آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس کا سود ہے، وہ سب کا سب ختم کر دیا گیا،*

*"❀_ چونکہ حضرت عباس رضیہ اللہ عنہ لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے اور روایات میں آتا ہے کہ وہ دس ہزار مثقال سونا تھا، اور تقریباًً چار ماشے کا ایک مشکال ہوتا ہے، اور یہ دس ہزار مثقال کوئی سرمایہ (Principal) نہیں تھا، بلکہ یہ سود تھا جو لوگوں کے اصل رقوم پر واجب ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگایے کہ وہ قرض جس پر دس ہزار مثقال کا سود لگ گیا ہو، کیا وہ قرض صرف کھانے کی ضرورت کے لیے لیا گیا تھا ؟ ظاہر ہے کہ وہ قرض تجارت کے لیے لیا گیا ہو گا۔*

*"❀_ لہذا یہ کہنا کہ اس زمانے میں تجارتی قرض نہیں ہوتے تھے, یہ بالکل خلاف واقعہ بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ تجارتی قرض بھی ہوتے تھے اور اس پر سود کا لین دین بھی ہوتا تھا اور قرآن کریم نے ہر قرض پر جو بھی زیادتی وصول کی جائے اس کو حرام قرار دیا ہے, لہذا یہ کہنا کہ کمرشل لون پر انٹرسٹ لینا جائز ہے یہ بالکل غلط ہے۔*

*"❀_ بلکہ سود کم ہو یا زیادہ سب حرام ہے، اور قرض لینے والا غریب ہو تب بھی حرام ہے اور قرض لینے والا امیر اور مالدار ہو تو بھی حرام ہے، اگر کوئی شخص ذاتی ضرورت کے لیے قرض لے رہا ہو تو بھی حرام ہے اور اگر تجارت کے لیے قرض لے رہا ہو تو بھی حرام ہے، اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(167)_بینک اور انشورنس کا ملازم کیا کرے ؟*

*"❀_بہت سے لوگ بینک کی ملازمت کے اندر مبتلا ہیں اور بینک کے اندر بہت سارا کاروبار سود پر ہوتا ہے، اب جو شخص وہاں ملازم ہے اگر وہ سود کے کاروبار میں ان کے ساتھ معاون بن رہا ہے تو یہ ملازمت نا جائز اور حرام ہے، اسی طرح اس وقت انشورنس کی جنتی صورتیں رائج ہیں، ان میں کسی میں سود ہے، کسی میں جوا ہے، اس لیے وہ سب حرام ہیں، اور اس وجہ سے انشورنس کمپنی میں ملازمت بھی جائز نہیں،*

*"❀_چنانچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بینک میں یا انشورنس کمپنی میں ملازم ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے دوسرا حلال اور جائز ذریعہ معاش تلاش کرے اور اہتمام اور کوشش کے ساتھ اس طرح تلاش کرے جیسے ایک بے روزگار تلاش کرتا ہے، اور جب اس کو دوسرا حلال ذریعہ آمدنی مل جائے تو اس وقت اس حرام ذریعہ کو چھوڑ دے،*

*❀_ یہ بات ہمارے بزرگ اس لیے فرماتے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں کہ کس کے حالات کیسے ہوں، اب اگر کوئی شخص فوراً اس کو چھوڑ دے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی پریشانی میں مبتلا ہو جائے، پھر شیطان آکر اس کو یہ بہکا دے کہ دیکھو تم دین پر عمل کرنے چلے تھے تو اس کے نتیجے میں تم پر یہ مصیبت آگئی،*

*❀"_ اس لیے ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ اس حرام ملازمت کو فوراً مت چھوڑو بلکہ دوسری جگہ ملازمت تلاش کرو، جب حلال روز گار مل جائے اس کو اختیار کر لو چاہے اس میں آمدنی کم ہو۔ تو اس وقت اس کو چھوڑ دینا۔*
*®_(اصلاحی خطبات، ج ۱۰، ص ۲۳۳)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(168) محنت کی ہر کمائی حلال نہیں ہوتی :-*

*"❀_ رزق طلب کرنا فریضہ اس وقت ہے جب طلب حلال کی ہو، روٹی کپڑا اور پیسہ بذات خود مقصود نہیں ہے، یہ نیت نہ ہو کہ بس پیسہ حاصل کرنا ہے چاہے جس طرح بھی حاصل ہو ، بعض لوگوں نے وہ ذریعہ معاش اختیار کر رکھا ہے جو حرام ہے اور شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی،*

*"❀_ مثلاً سود کا ذریعہ معاش اختیار کیا ہوا ہے، اب اگر ان سے کہا جائے کہ یہ تو نا جائز اور حرام ہے, اس طریقے سے پیسے نہیں کمانے چاہییں تو جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ہم تو اپنی محنت کا کھا رہے ہیں، اپنی محنت لگا رہے ہیں, اپنا وقت صرف کر رہے ہیں، اب اگر وہ کام حرام اور نا جائز ہے تو ہمارا اس سے کیا تعلق؟*

*❀"_ خوب سمجھ لیں کہ اللہ تعالی کے یہاں ہر محنت جائز نہیں ہوتی، بلکہ وہ محنت جائز ہوتی ۔ ہے جو اللہ تعالی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو، اگر اس طریقے کے خلاف انسان ہزار محنت کر لے لیکن اس کے ذریعہ جو پیسے کمائے گا وہ پیسے حلال کے نہیں ہوں گے بلکہ حرام ہوں گے، اب کہنے کو تو ایک طوائف بھی محنت کرتی ہے، وہ بھی کہ سکتی ہے کہ میں اپنی محنت کے ذریعہ پیسے کما رہی ہوں ، لہذا میری آمدنی حلال ہونی چاہیے،*

*❀"_ اس طرح آمدنی کے جو ذرائع حرام ہیں ان کو یہ کہہ کر حلال کرنے کی کوشش کرنا کہ یہ ہماری محنت کی آمدنی ہے شرعاً اس کی گنجائش نہیں ہے۔*
 *®( اصلاحی خطبات ، ج ۱۰، ص ۱۹۹)* 

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞___(169) _ رزق کی طلب میں فرائض چھوڑنا جائز نہیں:-*

*❀__ جس جگہ پر معیشت میں اور اللہ تعالی کے عائد کردہ فرائض کے درمیان ٹکراؤ ہو جائے وہاں پر اللہ تعالی کے عائد کیے ہوئے فرائض کو ترجیح ہوگی،*

*❀_ بعض لوگ افراط کے اندر مبتلا ہوجاتے ہیں، جب انہوں نے یہ سنا کہ طلب حلال بھی دین کا ایک حصہ ہے تو اس کو اتنا آگے بڑھایا کہ اس طلب حلال کے نتیجے میں اگر نمازیں ضائع ہو رہی ہیں تو ان کو اس کی پرواہ نہیں، روزے چھوٹ رہے ہیں تو ان کو اس کی پرواہ نہیں، حلال و حرام ایک ہو رہا ہے تو ان کو اس کی پرواہ نہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ نماز پڑھو تو جواب دیتے ہیں کہ یہ کام جو ہم کر رہے ہیں یہ بھی تو دین کا ایک حصہ ہے،*

*"❀__ حالانکہ حضور اقدس ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ طلب الحلال فريضة بعد الفريضة“ یہ فریضہ تو ہے لیکن بعد الفرائض ہے، لہذا اگر کسب معاش کے فریضے میں اور اولین دینی فرائض کے درمیان ٹکراؤ ہو جائے تو اس وقت دینی فریضہ غالب رہے گا۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(170)_ امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كيا ہے ؟*

*❀"_ (يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ)*
*❀_اس آیت کا تعلق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہے، نیک بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، "امر“ کے معنی ہیں حکم دینا، اور "معروف“ کے معنی ہیں نیکی "نہی" کے معنی روکنا اور منکر کے معنی ہیں برائی،*.

*"❀_ فقہا کرام نے لکھا ہے کہ جس طرح ہر مسلمان پر نماز، روزہ فرض عین ہے، اسی طرح یہ بھی فرض عین ہے کہ اگر وہ دوسرے کو کسی برائی میں مبتلا دیکھے تو اپنی استطاعت کے مطابق اس کو رو کے اور منع کرے کہ یہ کام گناہ ہے اس کو نہ کرو۔*

*"❀_ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض عین ہے، بہت سے لوگ تو اس فریضہ سے بالکل غافل ہیں، وہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنے بیوی بچوں کو اپنے دوستوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ حرام کاموں میں مبتلا ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو روکنے کی توفیق نہیں ہوتی، ان کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہے ہیں لیکن ان کو کہنے کی توفیق نہیں ہوتی،*

*"❀_ اور بعض لوگ اس حکم کو اتنا عام سمجھتے ہیں کہ صبح سے لے کر شام انہوں نے دوسروں کو روکنے ٹوکنے کو اپنا مشغلہ بنا رکھا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا صیح مطلب معلوم نہیں، اس لیے اس کی تفصیل سمجھنا ضروری ہے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(171) امر بالمعروف اور نهى عن المنكر كے دو طريقے:-انفرادی اور اجتماعی:-*

*"❀_ پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ دعوت و تبلیغ کرنے اور دین کی بات دوسروں تک پہنچانے کے دو طریقے ہیں: اجتماعی دعوت و تبلیغ اور انفرادی دعوت و تبلیغ، انفرادی دعوت و تبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنی آنکھوں سے دوسرے شخص کو دیکھ رہا ہے کہ فلاں گناہ اور فلاں برائی کے اندر مبتلا ہے، یا وہ شخص فلاں فرض یا واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہا ہے، اب انفرادی طور پر اس شخص کو اس طرف متوجہ کرنا کہ وہ اس برائی کو چھوڑ دے اور نیکی پر عمل کرے، اس کو انفرادی دعوت و تبلیغ کہتے ہیں۔*

*"❀_ دوسری اجتماعی دعوت وتبلیغ ہوتی ہے، جیسے ماشاء اللہ ہمارے تبلیغی جماعت کے حضرات کرتے ہیں کہ لوگوں کے پاس ان کے گھروں پر ، ان کی دوکانوں پر جا کر ان کو دین کی بات پہنچاتے ہیں، یہ اجتماعی دعوت و تبلیغ ہے،*

*❀"_ انفرادی دعوت وتبلیغ یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی آنکھوں سے ایک ایک برائی ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں، یا ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی شخص کسی فرض کو چھوڑ رہا ہے تو اسوقت اپنی استطاعت کی حد تک اس برائی کو روکنا فرض کفایہ نہیں، بلکہ فرض عین ہے اور فرض عین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائے کہ یہ کام دوسرے لوگ کر لیں گے، یا یہ تو مولویوں کا کام ہے، یا تبلیغی جماعت والوں کے کرنے کا کام ہے، یہ درست نہیں، آیات کی رو سے یہ کام ہر ہر مسلمان کے ذمے فرض عین ہے،*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(173)_ كس وقت نہى عن المنكر فرض نہیں ؟*

*"❀_ امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر اس وقت فرض ہوتا ہے جب اس کو بتانے یا اس کو روکنے کے نتیجے میں اس کے مان لینے کا احتمال ہو، اور اس کو بتانے کے نتیجے میں بتانے والے کو کوئی تکلیف کہنے کا اندیشہ نہ ہو،*

*"❀_ لہذا اگر کوئی شخص گناہ کے اندر مبتلا ہے اور آپ کو یہ خیال ہے کہ اگر میں اس کو اس گناہ سے روکوں گا تو یقین ہے کہ یہ شخص مانے گا نہیں، بلکہ یہ شخص الٹا شریعت کے حکم کا مذاق اڑائے گا، اور اس کی تو ہین کرے گا، اور اس تو ہین کے نتیجے میں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں کفر میں مبتلا نہ ہو جائے ، اس لیے کہ شریعت کے کسی حکم کی توہین کرنا صرف گناہ نہیں، بلکہ یہ عمل انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور کافر بنا دیتا ہے، لہذا اگر اس بات کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں اس وقت نہی عن المنکر کا فریضہ ساقط ہو جاتا ہے،*

*"❀_ اس لیے ایسے موقع پر اس کو اس گناہ سے نہیں روکنا چاہیے، بلکہ اپنے آپ کو اس گناہ کے کام سے الگ کر لینا چاہیے، اور اس شخص کے حق میں دعا کرنا چاہیے کہ یا اللہ ! آپ کا یہ بندہ ایک بیماری میں مبتلا ہے، اپنے فضل و کرم سے اس کو اس بیماری سے نکال دیجیے۔*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(174) امر بالمعروف کرو اور دل بھی مت توڑو:-*

*"❀_ بعض لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جا رہاہے کہ امر بالمعروف کرو اور نہی عن المنکر کرو، یعنی لوگوں کو اچھائی کی دعوت دو، اور اگر کوئی غلط کام میں مبتلا ہے تو اس کو بتادو اور اس کو روک دو، اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ دوسرے مسلمان کا دل مت توڑو، اب دونوں کے درمیان تطبیق کس طرح کی جائے گی ؟*

*"❀_ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان تطبیق اس طرح ہو گی کہ جب دوسرے شخص سے کوئی بات کہو تو خیر خواہی سے کہو، تنہائی میں کہو ، نرمی سے کہو ، محبت سے کہو اور اس انداز میں کہو کہ جس سے اس کا دل کم سے کم ٹوٹے مثلاً تنہائی میں اس سے کہے کہ بھائی تمہارے اندر یہ بات قابل اصلاح ہے، تم اس کی اصلاح کرلو، لیکن طعنہ کے انداز میں کہنا یا لوگوں کے سامنے سر بازار اس کو رسوا کرنا، یہ چیز انسان کے دل میں گھاؤ ڈال دیتی ہے، اس لیے حرام ہے اور گناہ ہے۔*

*"❀_ حدیث میں غلطی بتانے والے کو آئینہ سے تشبیہ دی ہے، اور آئینہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ بتا دیتا ہے کہ تمہارے چہرے پر اتنا داغ لگا ہوا ہے، اور اس بتانے میں نہ تو وہ زیادتی کرتا ہے اور نہ اس شخص پر لعنت ملامت کرتا ہے کہ یہ داغ کہاں سے لگا لیا بلکہ صرف داغ بتا دیتا ہے،*

*"❀_ اسی طرح غلطی بتانے والا مؤمن بھی آئینہ کی طرح صرف اتنی غلطی اور عیب بتائے جتنا اس کے اندر واقعہ موجود ہے، اس کو بڑھا چڑھا کر نہ بتائے اور اس بتانے میں مبالغہ نہ کرے، اور اس طرح صرف اس کو بتا دے کہ تمہارے اندر یہ عیب ہے لیکن اس کو اس کے عیب پر لعنت اور ملامت شروع کر دے اور لوگوں کے سامنے اس کو ذلیل کرنا شروع کر دے، یہ مؤمن کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ مؤمن تو آئینہ کی طرح ہے،*

 *(®_اصلاحی خطبات ، ج ۸، ص ۳۰۲)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(175) ایک کا عیب دوسرے کو نہ بتایا جائے :-*

*"❀_ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ نے ایک نکتہ یہ بیان فرمایا ہے کہ آئینہ کا کام یہ ہے کہ جو شخص اس سامنے آئے گا اور اس کے اوپر کوئی عیب ہوگا تو وہ آئینہ صرف اسی شخص کو بتائے گا کہ تمہارے اندر یہ عیب ہے، وہ آئینہ دوسروں سے نہیں کہے گا کہ فلاں شخص میں یہ عیب ہے، اور نہ اس عیب کا دوسروں کے سامنے تزکرہ اور چرچا کرے گا،*.

*"❀_ اسی طرح مؤمن بھی ایک آئینہ ہے، جب وہ دوسرے کے اندر کوئی عیب دیکھے تو صرف اسی کو خلوت میں خاموشی سے بتادے کہ تمہارے اندر یہ عیب ہے، باقی دوسروں سے جا کر کہنا کہ فلاں کے اندر یہ عیب ہے، اور اس غلطی کا دوسروں کے سامنے چرچا کرنا، یہ مؤمن کا کام نہیں، بلکہ یہ تو نفسانیت کا کام ہے،*.

*"❀_ اگر دل میں یہ خیال ہے کہ میں اللہ کو راضی کرنے کے کے لیے اس کا یہ عیب بتا رہا ہوں تو کبھی بھی وہ شخص دوسروں کے سامنے اس کا تذکرہ نہیں کرے گا، البتہ اگر دل میں نفسانیت ہوگی تو وہاں یہ خیال آئے گا کہ میں اس عیب کی وجہ سے اس کو ذلیل اور رسوا کروں, جبکہ مسلمانوں کو ذلیل اور رسوا کرنا حرام ہے۔*

*"❀_ آج ہم اپنے معاشرے میں ذرا جائزہ لے کر دیکھیں تو ایسے لوگ بہت کم نظر آئیں گے جو دوسروں کی غلطی دیکھ کر اس کو خیر خواہی سے بتا دیں کہ تمہاری یہ بات مجھے پسند نہیں آئی، یا یہ بات شریعت کے خلاف ہے لیکن اس کی غلطی کا تذکرہ مجلسوں میں کرنے والے بے شمار نظر آئیں گے، جس کے نتیجے میں غیبت کے گناہ میں مبتلا ہو رہے ہیں، افتراء اور بہتان کے گناہ میں مبتلا ہو ر ہے ہیں، مبالغہ اور جھوٹ کا گناہ ہو رہا ہے، اور ایک مسلمان کو بد نام کرنے کا گناہ ہو رہا ہے،*

*"❀_ اس کے بجائے بہتر طریقہ یہ تھا کہ تنہائی میں اس کو سمجھا دیتے کہ تمہارے اندر یہ خرابی ہے، اس کو دور کر لو، لہذا جب کسی مسلمان بھائی کے اندر کوئی عیب دیکھو تو دوسروں سے مت کہو بلکہ صرف اس سے کہو۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۸، ص ۳۰۵)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*☞_(176) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں تاثیر کیسے پیدا ہو؟*

*"❀_ حق بات حق طريقه - حق نيت، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ ایک جملہ فرمایا کرتے تھے جو حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سے کئی بار ہم نے سنا، وہ یہ کہ حق نیت حق طریقے اور حق نہ جب بھی کہی جائے گی وہ کبھی نقصان دہ نہیں ہوگی لہذا جب بھی تم یہ دیکھو کہ حق بات کہنے کے نتیجے میں کہیں لڑائی جھگڑا ہو گیا یا نقصان ہو گیا یا فساد ہو گیا تو سمجھ لو کہ ان تین باتوں میں سے ضرور کوئی بات ہوگی،*

*"❀_ یا تو بات حق نہیں تھی اور خوامہ مخواہ اس کو حق سمجھ لیا گیا تھا، یا بات تو حق تھی لیکن نیت درست نہیں تھی، اور بات کہنے کا مقصد دوسرے کی اصلاح نہیں تھی بلکہ اپنی بڑائی جتانی مقصود تھی، یا دوسرے کو ذلیل کرنا مقصود تھا، جس کی وجہ سے بات کے اندر اثر نہیں تھا، یا یہ کہ بات بھی حق تھی، نیت بھی درست تھی لیکن طریقہ حق نہیں تھا، اور بات ایسے طریقے سے کہی جیسے دوسرے کو لٹھ مار دیا، کلمہ حق کوئی لٹھ نہیں ہے کہ اٹھا کر کسی کو مار دو، بلکہ حق کلمہ کہنا محبت اور خیر خواہی والا کام ہے جو حق طریقے سے انجام پائے گا، جب خیر خواہی میں کمی ہو جاتی ہے تو پھر حق بات سے بھی نقصان پہنچ جاتا ہے۔*

*"❀_ لہذا جب کوئی اللہ کا بندہ اپنی نفسانیت کو فنا کر کے اپنے آپ کو مٹا کر اللہ کے لیے بات کرتا ہے اور اس وقت دنیا والوں کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کے سامنے اس کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہے اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہے اللہ کے لیے کہ رہا ہے، تو پھر اس کی بات میں اثر ہوتا ہے، چنانچہ حضرت شاہ اسماعیل شہید کے ایک ایک وعظ میں ہزار ہا افرادان کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے،*

*"❀_ آج ہم لوگوں نے اول تو تبلیغ و دعوت چھوڑ دی اور اگر کوئی کرتا بھی ہے تو ایسے طریقے سے کرتا ہے جو لوگوں کو برا معلوم ہوتا ہے، جس سے صحیح معنی میں فائدہ نہیں پہنچتا، اس لیے یہ تین باتیں یاد رکھنی چاہئیں: اول بات حق ہو، دوسرے نیت حق ہو، تیسرے طریقہ حق ہو لہذا حق بات حق طریقے سے حق نیت سے کہی جائے گی تو وہ کبھی نقصان دہ نہیں ہو گی بلکہ اس کا فائدہ ہی پہنچے گا۔*

*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۸، ص ۴۱۰۳۷)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*☞_(177) انبیاء کرام کا انداز دعوت وتبلیغ اور ہمارا طرز عمل:-*

*❀"_حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کی اصلاح کے لیے بھیجا اور فرعون کون تھا ؟ خدائی کا دعویدار تھا، جو یہ کہتا تھا کہ: (أنا ربكم الأعلى) یعنی میں تمہارا بڑا پروردگار ہوں، گویا کہ وہ فرعون بدترین کافر تھا لیکن جب یہ دونوں پیغمبر فرعون کے پاس جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ﴾[ طه: 44] یعنی تم دونوں فرعون کے پاس جا کر نرم بات کہنا، شاید کہ وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے،*

*"❀_ یہ واقعہ سنانے کے بعد حضرت نے فرمایا کہ آج تم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے مصلح نہیں ہو سکتے اور تمہارا مقابل فرعون سے بڑا گمراہ نہیں ہو سکتا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا فاسق و فاجر اور مشرک ہو، اس لیے کہ وہ تو خدائی کا دعویدار تھا، اس کے باوجود حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب فرعون کے پاس جاؤ تو ذرا نرمی سے بات کرنا سختی سے بات مت کرنا،*

*"❀_ اس کے ذریعہ ہمارے لیے قیامت تک یہ پیغمبرانہ طریقہ کار مقرر فرما دیا کہ جب بھی کسی سے دین کی بات کہیں تو نرمی سے کہیں سختی سے نہ کہیں۔*

*❀"_ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام بھی موجود تھے، اتنے میں ایک دیہاتی شخص مسجد نبویّ میں داخل ہوا اور آکر جلدی جلدی اس نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد عجیب و غریب دعا کی کہ : اللهم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا،‌ اے اللہ مجھ پر رحم فرما اور محمد ﷺ پر رحم فرما اور ہمارے علاوہ کسی پر رحم نہ فرما،*

*❀"_ جب حضور اقدس ﷺ نے اس کی یہ دعا سنی تو فرمایا کہ تم نے اللہ کی رحمت کو بہت تنگ اور محدود کر دیا کہ صرف دو آدمی پر رحم فرما، اور کسی پر رحم نہ فرما، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے،

*❀_ تھوڑی دیر کے بعد اس دیہاتی نے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر پیشاب کر دیا، صحابہ کرام نے جب یہ دیکھا کہ وہ مسجد میں پیشاب کر رہا ہے تو جلدی سے اس کی طرف دوڑے اور قریب تھا کہ اس پر ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتے، اتنے میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا اس کا پیشاب بند مت کرو اور پورا پیشاب کرنے دو، اس کو مت ڈانٹو، اور فرمایا کہ تمہیں لوگوں کے لیے خیر خواہی کرنے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے، دشواری کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا،*

*❀"_ لہذا اب جا کر مسجد کو پانی کے ذریعہ صاف کر دو، پھر آپ نے اس کو بلا کر سمجھایا کہ یہ مسجد اللہ کا گھر ہے، اس قسم کے کاموں کے لیے نہیں ہے، لہذا تمہارا یہ عمل درست نہیں، آئندہ ایسا مت کرنا۔*

*❀_ اگر ہمارے سامنے کوئی شخص اس طرح مسجد میں پیشاب کر دے تو شاید ہم لوگ تو اس کی تکہ بوٹی کردیں لیکن حضور اقدس ﷺ نے دیکھا کہ یہ شخص دیہاتی ہے اور ناواقف ہے، لاعلمی اور نا واقفیت کی وجہ سے اس نے یہ حرکت کی ہے، لہذا اس کو ڈانٹنے کا یہ موقع نہیں ہے بلکہ نرمی سے سمجھانے کا موقع ہے، چنانچہ آپ نے نرمی سے اس کو سمجھا دیا،*

*❀"_ انبیاء علیہم السلام کی یہی تعلیم ہے، اگر کوئی مخالف گالی بھی دیتا ہے تو انبیاء علیہم السلام اس کے جواب میں گالی نہیں دیتے، قرآن کریم میں مشرکین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ بے وقوف ہیں اور ہمارے خیال میں آپ جھوٹے ہیں، آج اگر کوئی شخص کسی عالم یا مقرر یا خطیب کو یہ کہہ دے کہ تم بے وقوف اور جھوٹے ہو، تو جواب میں اس کو یہ کہہ دے گا کہ تو بے وقوف، تیرا باپ بے وقوف لیکن پیغمبر نے جواب میں فرمایا :- اے میری قوم ! میں بے وقوف نہیں ہوں بلکہ میں تو رب العالمین کا پیغمبر ہوں،*

*❀"_ دیکھیے ! گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا جا رہا ہے، بلکہ محبت اور پیار کا برتاؤ کیا جا رہا ہے، ایک اور قوم نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ تم تو کھلے گمراہ نظر آ رہے ہو، جواب میں وہ پیغمبر فرماتے ہیں، اے میری قوم میں گمراہ نہیں ہوں، بلکہ میں تو اللہ کا رسول ہوں،*

*"❀_ یہ پیغمبروں کی اصلاح و دعوت کا طریقہ ہے، لہذا ہماری باتیں جو بے اثر ہو رہی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو بات حق نہیں ہے، یا طریقہ حق نہیں ہے، یا نیت حق نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے یہ ساری خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔*

*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۸ ج ۴۰۰۳۷)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*☞(178)_ اجتماعی تبلیغ کا حق کس کو ہے ؟*

*❀_ اجتماعی تبلیغ یعنی لوگوں کو جمع کرکے کوئی وعظ کرنا، تقریر کرنا یا ان کو نصیحت کرنا، اس کو اجتماعی دعوت تبلیغ کہتے ہیں، یہ اجتماعی تبلیغ و دعوت فرض عین نہیں ہے، بلکہ فرض کفایہ ہے، لہذا اگر کچھ لوگ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے کام کریں تو باقی لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہو جاتا ہے،*

*❀_ لیکن یہ اجتماعی تبلیغ کرنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے کہ جس کا دل چاہے کھڑا ہو جائے اور وعظ کرنا شروع کر دے، بلکہ اس کے لیے مطلوب علم کی ضرورت ہے، اگر اتنا علم نہیں ہے تو اس صورت میں اجتماعی تبلیغ کا انسان مکلف نہیں ہے، اور کم از کم اتنا علم ہونا ضروری ہے جس کے نتیجے میں وعظ کے دوران غلط بات کہنے کا اندیشہ نہ ہو، تب وعظ کہنے کی اجازت ہے، ورنہ اجازت نہیں،*

*"❀_ یہ وعظ وتبلیغ کا معاملہ بڑا نازک ہے، جب آدمی یہ دیکھتا ہے کہ اتنے سارے لوگ بیٹھ کر میری باتیں سن رہے ہیں تو خود اس کے دماغ میں بڑائی آجاتی ہے کہ اتنے سارے لوگ مجھے عالم کہہ رہے ہیں، اور مجھے اچھا اور نیک کہہ رہے ہیں، وعظ اور تقریر کے نتیجے میں آدمی اس فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔*

*"❀_ اس لیے ہر شخص کو تقریر اور وعظ نہیں کرنا چاہیے, ہاں ! اگر وعظ کہنے کے لیے کوئی بڑا کسی جگہ بٹھا دے تو اس وقت بڑوں کی سرپرستی میں اگر کام کرے اور اللہ تعالی سے مدد بھی مانگتا رہے تو پھر اللہ تعالی اس فتنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔*

*❀"_ وعظ اور تقریر پھر بھی ذرا ہلکی بات ہے لیکن اب تو درس قرآن اور درس حدیث دینے تک نوبت پہنچ گئی ہے، جس کے دل میں بھی درس قرآن دینے کا خیال آیا، بس اس نے درس قرآن دینا شروع کر دیا، حالانکہ قرآن کریم وہ چیز ہے جس کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جو شخص قرآن کریم کی تفسیر میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ شخص اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے،*

*❀"_ اتنی سنگین و عید حضور ﷺ نے بیان فرمائی ہے, اس کے باوجود آج یہ حال ہے کہ اگر کسی شخص کو دین کی کچھ باتیں معلوم ہو گئیں تو اب وہ عالم بن گیا اور اس نے درس قرآن دینا شروع کر دیا، حالانکہ یہ درس قرآن اور درس حدیث ایسا عمل ہے کہ بڑے بڑے علماء اس سے ڈرتے ہیں،*

*®_ [ اصلاحی خطبات، ج ۸ ص ۴۱]*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*☞(179)_ کیا ہے عمل شخص وعظ ونصیحت کرنے کا حق نہیں رکھتا ؟*

*"❀__ ایک یہ بات مشہور ہے کہ اگر کوئی شخص خود کسی غلطی کے اندر مبتلا ہے تو اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو اس غلطی سے روکے، مثلاً ایک شخص نماز با جماعت کا پوری طرح پابند نہیں ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا شخص دوسروں کو بھی نماز با جماعت کی تلقین نہ کرے، جب تک کہ خود نماز با جماعت کا پابند نہ ہو جائے،*.

*"❀__ یہ بات درست نہیں، بلکہ حقیقت میں بات الٹی ہے، وہ یہ کہ جو شخص دوسروں کو نماز با جماعت کی تلقین کرتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ خود بھی نماز با جماعت کی پابندی کرے، نہ یہ کہ جو شخص نماز با جماعت کا پابند نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو تلقین نہ کرے، عام طور پر لوگوں میں یہ آیت مشہور ہے کہ,*
*"_ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، (الصف - 2)*
*"_یعنی اے ایمان والوں اور بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو,*

*❀_ بعض لوگ اس آیت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرتا تو وہ شخص دوسروں کو بھی اس کی تلقین نہ کرے، مثلاً ایک شخص صدقہ نہیں دیتا تو وہ دوسروں کو بھی صدقہ کی تلقین نہ کرے ، یا مثلاً ایک شخص سچ نہیں بولتا تو وہ دوسروں کو بھی سچ بولنے کی تلقین نہ کرے، آیت کا یہ مطلب لینا درست نہیں،*

*"❀_ بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو بات اور جو چیز تمہارے اندر موجود نہیں ہے، تو اس کا دعویٰ مت کرو کہ یہ بات میرے اندر موجود ہے ، مثلاً اگر تم نماز با جماعت کے پابند نہیں ہو تو دوسروں سے یہ مت کہو کہ میں نماز باجماعت کا پابند ہوں, یا تم اگر نیک اور متقی نہیں ہو تو دوسروں کے سامنے یہ دعویٰ مت کرو کہ میں نیک اور متقی ہوں,، اس آیت کا یہ معنی ہیں، یعنی جو کام تم کرتے نہیں ہو، دوسروں کے سامنے اس کا دعویٰ کیوں کرتے ہو ؟*.

*"❀_ آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو کام تم نہیں کرتے تو دوسروں سے اس کی تلقین بھی مت کرو، اس لیے کہ بعض اوقات دوسروں کو کہنے سے انسان کو خود فائدہ ہو جاتا ہے، جب انسان دوسروں کو کہتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا تو انسان کو شرم آتی ہے، اور اس شرم کی وجہ سے انسان خود بھی عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔*

*❀"_ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ایک شخص وہ ہے جو خود تو عمل نہیں کرتا لیکن دوسروں کو نصیحت کرتا ہے، اور ایک آدمی وہ ہے جو خود بھی عمل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کرتا ہے، دونوں کی نصیحت کی تاثیر میں فرق ہے، جو شخص عمل کر کے نصیحت کرتا ہے، اللہ تعالی اس کی بات میں اثر پیدا فرما دیتے ہیں، وہ بات دلوں میں اتر جاتی ہے، اس سے انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب آتا ہے،*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵ 
*☞_(180) _ مستحب کے ترک پر نکیر درست نہیں,*

*"❀_ شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جو فرض و واجب نہیں ہیں، بلکہ مستحب ہیں، مستحب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اس کو کرے گا تو ثواب ملے گا نہیں کرے گا تو کوئی گناہ نہیں، یا شریعت کے آداب ہیں جو علماء کرام بتاتے ہیں، ان مستحبات اور آداب کے بارے میں حکم یہ ہے کہ لوگوں کو ان کی ترغیب تو دی جائے گی کہ اس طرح کر لو تو اچھی بات ہے لیکن اس کے نہ کرنے پر نکیر نہیں کی جائے گی،*

*❀"_ اگر کوئی شخص اس مستحب کو انجام نہیں دے رہا ہے تو آپ کے لیے اس کو طعنہ دینے یا ملامت کرنے کا کوئی جواز نہیں کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا ؟ ہاں ! اگر کوئی تمہارا شاگرد ہے، یا بیٹا ہے، یا تمہارے زیر تربیت ہے،، تو بے شک اس کو کہہ دینا چاہیے کہ فلاں وقت میں تم نے فلاں مستحب عمل یا فلاں ادب کا لحاظ نہیں کیا تھا ، اسکو کرنا چاہیے,*

*❀"_ لیکن اگر ایک عام آدمی کوئی مستحب عمل چھوڑ رہا ہے تو اس صورت میں آپ کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں, بعض لوگ تو مستحبات کو واجبات کا درجہ دے کر لوگوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیوں چھوڑا؟ حالانکہ قیامت کے روز اللہ تعالٰی یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے فلاں مستحب کام کیوں نہیں کیا تھا ؟ نہ فرشتے سوال کریں گے لیکن تم خدائی فوج دار بن کر اعتراض کر دیتے ہو کہ یہ منتخب کام تم نے کیوں چھوڑ دیا ؟ یہ عمل کسی طرح بھی درست نہیں۔*

*"❀_مثلا اذان کے بعد دعا پڑھنا مستحب ہے، حضور اقدس ﷺ کی طرف سے اس دعا کی ترغیب ہے کہ ہر مسلمان کو اذان کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے، یہ بڑی برکت کی دعا ہے، اس لیے اپنے بچوں کو اور اپنے گھر والوں کو اس کی تعلیم دینی چاہیے کہ یہ دعا پڑھا کریں، لیکن اگر ایک شخص نے اذان کے بعد یہ دعا نہیں پڑھی، اب آپ اس پر اعتراض شروع کر دیں کہ تم نے یہ دعا کیوں نہیں پڑھی؟ یہ درست نہیں، اس لیے کہ نکیر ہمیشہ فرض کے چھوڑنے پر یا گناہ کے ارتکاب پر کی جاتی ہے، مستحب کام کے ترک پر کوئی نکیر نہیں ہو سکتی ۔*

*"❀_ بعض اعمال ایسے ہیں جو شرعی اعتبار سے مستحب بھی نہیں ہیں اور قرآن وحدیث میں ان کو مستحب قرار نہیں دیا گیا، البتہ بعض علما نے اس کو آداب میں شمار کیا ہے، مثلاً بعض علما نے یہ ادب بتایا ہے کہ جب کھانا کھانے کے لیے ہاتھ دھوئے جائیں تو ان کو تولیہ یا رومال وغیرہ سے پونچھا نہ جائے, اسی طرح یہ ادب بتایا کہ دستر خوان پر پہلے تم بیٹھ جاؤ کھانا بعد میں رکھا جائے، قرآن وحدیث میں یہ آداب کہیں بھی موجود نہیں ہیں لیکن علما کرام نے یہ کھانے کے آداب بتائے، ان کو مستحب کہنا بھی مشکل ہے، اب اگر ایک شخص نے ان آداب کا لحاظ نہ کیا، مثلا اس نے کھانے کے لیے ہاتھ دھوکر تولیہ سے پونچھ لیے، یا دستر خوان پر کھانا پہلے لگا دیا گیا اور وہ شخص بعد میں جا کر بیٹھا تو اب اس شخص پر اعتراض کرنا اور اس کو یہ کہنا کہ تم نے شریعت کے خلاف یا سنت کے خلاف کام کیا، یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ یہ آداب نہ تو شرعاً سنت ہیں اور نہ مستحب ہیں،*

*❀"_ ان معاملات کے اندر ہمارے معاشرے میں بہت افراط اور تفریط پائی جاتی ہے اور بعض اوقات چھوٹی چھوٹی بات پر بڑی نکیر کی جاتی ہے جو کسی طرح بھی درست نہیں۔*

*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۸، ص ٤٩)*
 .  ۔      
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(181) کیا انگلیاں چاٹ لینا شائستگی کے خلاف ہے ؟*

*"❀_ آج فیشن پرستی کا زمانہ ہے، لوگوں نے اپنے لیے نئے نئے طریقے بنا رکھے ہیں، چنانچہ اگر دستر خوان پر سب کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، اس وقت اگر انگلیوں پر لگے ہوئے سالن کو چاٹ لیں تو یہ تہذیب کے خلاف سمجھا جانے لگا ہے، اس لیے اس کام کو کرتے ہوئے شرم آتی ہے، اگر لوگوں کے سامنے کریں گے تو لوگ ہنسی مذاق اڑائیں گے اور کہیں گے کہ یہ شخص غیر مہذب ہے اور ناشائستہ ہے۔*

*"❀_ لیکن یاد رکھو! ساری تہذیب اور ساری شائستگی حضور اقدس ﷺ کی سنتوں میں منحصر ہے، جس چیز کو آپ نے یا فیشن نے شائستگی قرار دے دیا وہ شائستگی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ فیشن تو روز بدلتے ہیں، کل تک جو چیز ناشائست تھی، آج وہ چیز شائستہ بن گئی،*

*"❀_ مثلاً کھڑے ہو کر کھانا آج کل فیشن بن گیا ہے، ایک ہاتھ میں پلیٹ پکڑی ہے، دوسرے سے کھانا کھا رہے ہیں، اور جس وقت دعوت میں کھانا شروع ہوتا ہے اس وقت چھینا چپٹی ہوتی ہے، اس میں کسی کو بھی نا شائستگی نظر نہیں آتی ؟ اس لیے کہ فیشن نے آنکھیں اندھی کر دی ہیں، چنانچہ جب تک کھڑے ہو کر کھانے کا فیشن اور رواج نہیں چلا تھا، اس وقت اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر کھانا کھا تا تو ساری دنیا اس کو یہی کہتی کہ یہ غیر مہذب اور بڑا نا شائستہ طریقہ ہے، صیح طریقہ تو یہ ہے کہ آدمی آرام سے بیٹھ کر کھائے۔*

*"❀_لہذا فیشن کی بنیاد پر تو تہذیب اور شائستگی روز بدلتی ہے اور بدلنے والی چیز کا کوئی بھروسہ اور کوئی اعتبار نہیں، اعتبار اس چیز کا ہے جس کو محمد رسول اللہ ﷺ نے سنت قرار دے دیا اور جس کے بارے میں آپ ﷺ نے بتا دیا کہ برکت اس میں ہے، اب اگر حضور اقدس ﷺ کی اتباع کی نیت سے یہ کام کر لو گے تو آخرت میں بھی اجر و ثواب اور دنیا میں بھی برکت حاصل ہو گی اور اگر (معاذ اللہ ) ناشائستہ سمجھ کر اس کو چھوڑ دو گے تو پھر تم اس کی برکتوں سے بھی محروم ہو جاؤ گے۔*

*®(اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ۱۹۷)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━     
*☞_ (182)_ زمزم کا پانی کس طرح پیا جائے ؟*

*"❀_ حضرت عبد اللہ بن عباس رضیہ اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو زمزم کا پانی پلایا تو آپ نے کھڑے ہو کر وہ زمزم پیا_, (صحیح بخاری)*

*"❀_اس حدیث کی وجہ سے بعض علما کا خیال یہ ہے کہ زمزم کا پانی بیٹھ کر پینے کے بجائے کھڑے ہو کر پینا افضل اور بہتر ہے، چنانچہ یہ بات مشہور ہے کہ دو پانی ایسے ہیں جو کھڑے ہو کر پینے چاہئیں، ایک زمزم کا پانی اور ایک وضو کا بچا ہوا پانی، اس لیے کہ وضو سے بچا ہوا پانی پینا بھی مستحب ہے،*

*"❀_ جہاں تک حضرت عبد اللہ بن عباس رضیہ اللہ عنہ کی اس حدیث کا تعلق ہے کہ اس میں حضور اقدس ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف تو زمزم کا کنواں اور دوسرے اس پر لوگوں کا ہجوم اور پھر کنویں کے چاروں طرف کیچڑ ، قریب میں کہیں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی، اس لیے آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پی لیا، لہٰذا اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پینا افضل ہے۔*

*❀"_ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ کی تحقیق یہی تھی کہ زمزم کا پانی بیٹھ کر پینا ہی افضل ہے، اس طرح وضو کا بچا ہوا پانی بھی بیٹھ کر پینا افضل ہے، البتہ عذر کے مواقع پر جس طرح عام پانی کھڑے ہو کر پینا جائز ہے اس طرح زمزم اور وضو سے بچا ہوا پانی بھی کھڑے ہو کر پینا جائز ہے۔*

*"❀_ عام طور پر لوگ یہ کرتے ہیں کہ اچھے خاصے بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب زمزم کا پانی دیا گیا تو ایک دم سے کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہو کر اس کو پیا، اتنا اہتمام کر کے کھڑے ہو کر پینے کی ضرورت نہیں، بلکہ بیٹھ کر پینا چاہیے وہی افضل ہے۔*

*"®_ (اصلاحی خطبات ، ج ۵، ص ۲۳۷)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(183) "فتنہ" کا معنی اور مفہوم کیا ہے ؟-*

*❀_ فتنہ کیا چیز ہے؟ کس کو فتنہ کہتے ہیں؟ اور اس فتنہ کے دور میں ہمارے اور آپ کے لیے حضور اقدس ﷺ کی تعلیم کیا ہے؟ اور اس میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اب یہ لفظ تو ہم صبح وشام استعمال کرتے ہیں کہ یہ بڑے فتنے کا دور ہے، قرآن کریم میں بھی فتنہ کا لفظ کئی بار آیا ہے، ایک جگہ فرمایا : (والفتنة أشد من القتل) یعنی اللہ کے نزدیک فتنہ قتل سے بھی زیادہ شدید چیز ہے۔ فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے، لغت میں اس کے معنی ہیں سونے یا چاندی وغیرہ کو آگ پر پکھلا کر اس کا کھرا کھوٹا معلوم کرنا، آگ میں تپا کر اس کی حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ یہ خالص ہے یا نہیں ؟*

 *"❀_اس وجہ سے اس لفظ کو آزمائش اور امتحان کے معنی میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ چنانچہ فتنہ کے دوسرے معنی ہوئے آزمائش، لہٰذا جب انسان پر کوئی تکلیف یا مصیبت یا پریشانی آئے اور اس کے نتیجے میں انسان کی اندرونی کیفیت کی آزمائش ہو جائے کہ وہ انسان ایسی حالت میں کیا طرز عمل اختیار کرتا ہے؟ آیا اس وقت صبر کرتا ہے یا واویلا کرتا ہے، فرمانبردار رہتا ہے یا نا فرمان ہو جاتا ہے، اس آزمائش کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے۔*

*"❀_حدیث شریف میں فتنہ کا لفظ جس چیز کے لیے استعمال ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جس میں حق مشتبہ ہو جائے اور حق و باطل میں امتیاز کرنا مشکل ہو جائے صحیح اور غلط میں امتیاز باقی نہ رہے، یہ پتہ نہ چلے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟ جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ فتنے کا دور ہے۔*

*"❀_  اسی طرح معاشرے کے اندر گناہ فسق و فجور، نافرمانیاں عام ہو جائیں تو اسکو بھی فتنہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح جو چیز حق نہ ہو اس کو حق سمجھنا اور جو چیز دلیل ثبوت نہ ہو اس کو دلیل ثبوت سمجھ لینا بھی ایک فتنہ ہے، جیسے آج کل صورت حال ہے کہ اگر کسی سے دین کی بات کہو کہ فلاں کام گناہ ہے نا جائز ہے، بدعت ہے، جواب میں وہ شخص کہتا ہے کہ ارے یہ کام تو سب کر رہے ہیں، اگر یہ کام گناہ اور نا جائز ہے تو پھر ساری دنیا یہ کام کیوں کر رہی ہے؟ یہ کام تو سعودی عرب میں بھی ہو رہا ہے، آج کے دور میں یہ ایک نئی مستقل دلیل ایجاد ہو چکی ہے کہ ہم نے یہ سعودی عرب میں ہوتے ہوئے دیکھا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام سعودی عرب میں ہوتا ہو وہ یقینی طور پر حق اور درست ہے، یہ بھی ایک فتنہ ہے کہ جو چیز حق کی دلیل نہیں تھی اس کو دلیل سمجھ لیا گیا ہے۔*

*❀__ اسی طرح شہر کے اندر بہت ساری جماعتیں کھڑی ہو گئیں، اور یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے؟ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے؟ اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہو گیا، یہ بھی فتنہ ہے۔ اسی طرح جب دو مسلمان یا مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار آجائیں، اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں اور یہ پتہ چلانا مشکل ہو جائے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ہے؟ تو یہ بھی ایک فتنہ ہے،*

*"❀_ ایک حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمايا: جب دو مسلمان تلواریں لے کر آپس میں لڑنے لگیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔(صحيح البخاري, كِتَاب الْفِتَنِ 10. بَابُ إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا)*

*"❀_ ایک اور حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں حرج بہت زیادہ ہو جائے گا، صحابہ کرام نے پوچھا کہ یہ حرج کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قتل و غارت گری، یعنی اس زمانے میں قتل و غارت گری ہے حد ہو جائے گی اور انسان کی جان مچھر مکھی سے زیادہ بے حقیقت ہو جائے گی۔*
*"_ ایک اور حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں قاتل کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ پتہ نہیں ہوگا کہ میں کیوں قتل کیا گیا ؟*

*"❀_  آج کے اس پرفتن دور میں موجودہ حالات پر نظر ڈال لو اور حضور اقدس ﷺ کے ان ارشادات گرامی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے اس زمانے کو دیکھ کر یہ ارشاد فرمائے تھے، یہ ساری باتیں حضور اقدس ﷺ صاف صاف بتائے ۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۲۳۲)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(184) _ فتنوں کے دور میں کیا کرنا چاہیے ؟ (پہلا حکم)*

*"❀_ فتنوں کے دور میں ایک مسلمان کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اس کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے پہلا حکم دیا کہ پہلا کام یہ کرو کہ جمہور مسلمان اور ان کے امام کے ساتھ ہو جاؤ، اور جو لوگ بغاوت کر رہے ہیں ان سے کنارہ کشی اختیار کر لو اور ان کو چھوڑ دو،*

*❀_  ایک صحابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر مسلمانوں کی اکثریت والی جماعت اور امام نہ ہو تو پھر آدمی کیا کرے ؟ یعنی آپ نے جو حکم دیا وہ تو اس وقت ہے جب مسلمانوں کی متفقہ جماعت موجود ہو، ان کا ایک سربراہ ہو جس پر سب متفق ہوں اور اس امام کی دیانت اور تقویٰ پر اعتماد ہو، تب تو اس کے ساتھ چلیں گے لیکن اگر نہ جماعت ہو اور نہ متفقہ امام ہو تو اس صورت میں ہم کیا کریں ؟ جواب میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ایسی صورت میں ہر جماعت اور ہر پارٹی سے الگ ہو کر زندگی گذارو اور اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ،*

*"❀_ ٹاٹ جس سے بوریاں بنتی ہیں، پہلے زمانے میں اس کو بطور فرش کے بچھایا جاتا تھا، آج کل اس کی جگہ قالین بچھائے جاتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ جس طرح گھر کا قالین اور فرش ہوتا ہے، جب ایک مرتبہ اس کو بچھا دیا تو اب بار بار اس کو اس کی جگہ سے نہیں اٹھاتے، اسی طرح تم بھی اپنے گھروں کے ٹاٹ اور فرش بن جاؤ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلو اور ان جماعتوں کے ساتھ شمولیت اختیار مت کرو، بلکہ ان سے کنارہ کش ہو جاؤ اور الگ ہو جاؤ، کسی کا ساتھ مت دو، اس سے زیادہ واضح بات اور کیا ہوسکتی ہے۔*

*❀__ (دوسرا حکم) ایک حدیث میں فرمایا کہ جس وقت تم لوگوں سے کنارہ کش ہو کر زندگی گزار رہے ہو ، اس وقت اگر مسلمان آپس میں لڑ رہے ہوں اور ان کے درمیان قتل و غارت گری ہو رہی ہو تو ان کو تماشہ کے طور پر بھی مت دیکھو، اس لیے کہ جو شخص تماشہ کے طور پر ان فتنوں کی طرف جھانک کر دیکھے گا وہ فتنہ اس کو بھی اپنی طرف کھینچ لے گا اور اچک لے گا، اس لیے ایسے وقت میں تماشہ دیکھنے کے لیے بھی گھر سے باہر نہ نکلو اور اپنے گھر میں بیٹھے رہو_,*

*"❀_ فتنوں کے دور کے لیے تیسرا حکم:-ایک اور حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ وہ فتنے ایسے ہوں گے کہ اس میں کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا، مطلب یہ ہے کہ اس فتنے کے اندر کسی قسم کا حصہ مت لو، اس فتنے کی طرف چلنا بھی خطرناک ہے، اس سے بہتر یہ ہے کہ بیٹھ جاؤ اور بیٹھنا بھی خطرناک ہے، اس سے بہتر یہ ہے کہ لیٹ جاؤ، گویا کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر، اپنی ذاتی زندگی کو درست کرنے کی فکر کرو، اور گھر سے باہر نکل کر اجتماعی مصیبت اور اجتماعی فتنے کو دعوت مت دو۔*

*❀"_ فتنوں کے دور کے لیے چوتھا حکم:- ایک اور حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں آدمی کا سب سے بہتر مال اس کی بکریاں ہوں گی، جس کو وہ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائے اور شہروں کی زندگی چھوڑ دے اور ان بکریوں پر اکتفا کر کے اپنی زندگی بسر کرے، ایسا شخص سب سے زیادہ محفوظ ہوگا کیونکہ شہروں میں اس کو ظاہری اور باطنی فتنے اچکنے کے لیے تیار ہوں گے۔*

*❀"_ ان تمام احادیث کے ذریعہ حضور اقدس ﷺ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ وہ وقت اجتماعی اور جماعتی کام کا نہیں ہوگا، کیونکہ جماعتیں سب کی سب غیر معتبر ہوں گی کسی بھی جماعت پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگا حق اور باطل کا پتہ نہیں چلے گا، اس لیے ایسے وقت میں اپنی ذات کو ان فتنوں سے بچا کر اور اللہ تعالی کی اطاعت میں لگا کر کسی طرح اپنے ایمان کو قبر تک لے جاؤ، ان فتنوں سے بچاؤ کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۷، ص ۲۳۲)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(185) بھائیوں میں حساب کتاب کی کیا ضرورت ہے ؟*

*"❀_ آج کل یہ وبا بھی عام ہے کہ چند بھائیوں کا مشترک کاروبار ہے لیکن حساب کتاب کوئی نہیں، کہتے ہیں کہ ہم سب بھائی ہیں، حساب کتاب کی کیا ضرورت ہے؟ حساب کتاب تو غیروں میں ہوتا ہے، اپنوں میں حساب کتاب کہاں ؟ اب اس کا کوئی حساب کتاب، کوئی لکھت پڑھت نہیں کہ کسی بھائی کی کتنی ملکیت اور کتنا حصہ ہے؟ ماہانہ کس کو کتنا منافع دیا جائے گا ؟ اس کا کوئی حساب نہیں،*

*"❀_ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں تک تو محبت و پیار سے حساب چلتا رہتا ہے لیکن بعد میں دلوں میں شکوے شکایتیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں، کہ فلاں کی اولاد تو اتنی ہے، وہ زیادہ رقم لیتا ہے، فلاں کی اولاد کم ہے، وہ کم لیتا ہے، فلاں کی شادی پر اتنا خرچ کیا گیا, ہمارے بیٹے کی شادی پر کم خرچ ہوا، فلاں نے کاروبار سے اتنا فائدہ اٹھالیا، ہم نے نہیں اٹھایا وغیرہ، بھائیوں کے درمیان معاملات کے اندر جو محبت و پیار ہوتا ہے وہ کچھ دن چلتا ہے، بعد میں وہ لڑائی جھگڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے،*

*"❀_  یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے سے دور چلے گئے، یاد رکھیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اگر کوئی مشترک چیز ہے تو اس مشترک چیز کا حساب و کتاب رکھا جائے، اگر حساب و کتاب نہیں رکھا جا رہا ہے تو تم خود بھی گناہ میں مبتلا ہو رہے ہو اور دوسروں کو بھی گناہ میں مبتلا کر رہے ہو،*

*"❀_ ملکیت میں امتیاز ہونا ضروری ہے ، یہاں تک کہ باپ بیٹے کی ملکیت میں اور شوہر بیوی کی ملکیت میں امتیاز ہونا ضروری ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ کی دو بیویاں تھیں، دونوں کے گھر الگ الگ تھے، حضرت والا فرمایا کرتے تھے کہ میری ملکیت اور میری دونوں بیویوں کی ملکیت بالکل الگ الگ کر کے بالکل امتیاز کر رکھا ہے، وہ اس طرح کہ جو کچھ سامان بڑی اہلیہ کے گھر میں ہے وہ ان کی ملکیت ہے اور جو سامان چھوٹی اہلیہ کے گھر میں ہے وہ ان کی ملکیت ہے، اور جو سامان خانقاہ میں ہے وہ میری ملکیت ہے، آج اگر دنیا سے چلا جاؤں تو کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں، الحمد للہ سب امتیاز موجود ہے۔*

*®_( اصلاحی خطبات، ج ۵، ص ۱۷۹)*

          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_( 186) دل نہ چاہتے ہوئے بھی تعلق کس طرح نبھایا جا سکتا ہے؟*

*"❀_ مومن کا کام یہ ہے کہ جب اس کا کسی کے ساتھ تعلق قائم ہو تو اب حتی الامکان اپنی طرف سے اس تعلق کو نہ توڑے بلکہ اس کو نبھاتا رہے، چاہے طبیعت پر نبھانے کی وجہ سے گرانی بھی ہو لیکن پھر بھی اس کو نبھا تا ر ہے، اور اس تعلق کو بدمزگی پر ختم نہ کرے، زیادہ سے زیادہ یہ کرے کہ اگر کسی کے ساتھ تمہاری مناسبت نہیں ہے تو اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا زیادہ نہ کرے،*

*"❀_ لیکن ایسا تعلق ختم کرنا کہ اب بول چال بھی بند اور علیک سلیک بھی ختم، ملنا جلنا بھی ختم، ایک مؤمن کے لیے یہ بات مناسب نہیں، لیکن نباہ کرنے کے معنی سمجھ لینا چاہیے، نباہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے حقوق ادا کرتے رہو اور اس سے تعلق ختم نہ کرو لیکن نباہ کرنے کے لیے دل میں مناسبت کا پیدا ہونا اور اس کے ساتھ دل کا لگنا اور طبیعت میں کسی قسم کی الجھن کا باقی نہ رہنا ضروری نہیں،*

*"❀_ اور نہ یہ ضروری ہے کہ دن رات ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا باقی رہے اور ان کے ساتھ ہنسنا بولنا اور ملنا جلنا باقی رہے ، نباہ کے لیے ان چیزوں کا باقی رکھنا ضروری نہیں بلکہ تعلقات کو باقی رکھنے کے لیے حقوق شرعیہ کی ادائیگی کافی ہے،*

*"❀_ لہذا آپ کو اس بات پر کوئی مجبور نہیں کرتا کہ آپ کا دل تو فلاں کے ساتھ نہیں لگتا لیکن آپ زبردستی اس کے ساتھ جا کر ملاقات کریں یا آپ کی ان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے تو اب کوئی اس پر مجبور نہیں کرتا کہ آپ طبیعت کے خلاف ان کے پاس جا کر بیٹھیں، بس صرف ان کے حقوق ادا کرتے رہیں اور قطع تعلق نہ کریں، حدیث میں آتا ہے کہ کسی کے ساتھ اچھی طرح نباہ کرنا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔*

*® [ اصلاحی خطبات ، ج ۱۰ ص ۱۰٤]*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (187) جائز تفریح کی اجازت ہے ،*

*❀"_ یہ جو فضول قسم کی مجلس آرائی ہوتی ہے، جس کو آج کل کی اصطلاح میں گپ شپ کہا جاتا ہے، کوئی دوست مل گیا تو فوراً اس سے کہا کہ آؤ ذرا بیٹھ کر گپ شپ کریں، یہ گپ شپ لازماً انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔*

*"❀_ ہاں ! شریعت نے ہمیں تھوڑی بہت تفریح کی بھی اجازت دی ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دلوں کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے آرامی بھی دیا کرو۔ [كنز العمال ، ٥٣٥٤]*

*"❀_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر قربان جائیے کہ ہمارے مزاج، ہماری نفسیات اور ہماری ضروریات کو ان سے زیادہ پہچاننے والا اور کون ہوگا، وہ جانتے ہیں کہ اگر ان سے کہا گیا کہ اللہ کے ذکر کے علاوہ کچھ نہ کرو، ہر وقت ذکر اللہ میں مشغول رہو، تو یہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ اس لئے کہ یہ فرشتے نہیں ہیں، یہ تو انسان ہیں، ان کو تھوڑے سے آرام کی بھی ضرورت ہے تھوڑی سی تفریح کی بھی ضرورت ہے، اس لئے تفریح کے لئے کوئی بات کرنا، خوش طبعی کے ساتھ بول لینا، نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،*

*"❀_ لیکن اس میں اتنا زیادہ منہمک ہو جانا کہ اس میں کئی کئی گھنٹے برباد ہور ہے ہیں، قیمتی اوقات ضائع ہور ہے ہیں، تو یہ چیز انسان کو لازمی طور پر گناہ کی طرف لے جانے والی ہے۔ اس لئے فرما یا جا رہا ہے کہ تم باتیں کم کرنے کی عادت ڈالو۔ اور یہ بھی مجاہدہ ہے۔*

*®_[ اصلاحی مجالس، ج ۲ ص ۱۶۷]*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞__(188) کیا مذاق اور خوش طبعی کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے ؟*

*"❀_ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ اسی وقت ناجائز اور حرام ہے جب وہ سنجیدگی سے بولا جائے اور مذاق میں جھوٹ بولنا جائز ہے، چنانچہ اگر کسی سے کہا جائے کہ تم نے فلاں موقع پر یہ بات کہی تھی وہ تو سچی نہیں تھی، تو جواب میں وہ کہتا ہے کہ میں تو مذاق میں یہ بات کہہ رہا تھا، گویا کہ مذاق میں جھوٹ بولنا کوئی بری بات ہی نہیں،*

*"❀_ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی زبان سے خلاف واقعہ بات نکلے ہی نہیں حتیٰ کہ مذاق میں بھی نہ نکلے، اگر مذاق اور خوش طبعی حد کے اندر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، شریعت نے خوش طبعی اور مذاق کو جائز قرار دیا ہے، بلکہ اس کی تھوڑی سی ترغیب بھی دی ہے، ہر وقت خشک اور سنجیدہ بن کر بیٹھا رہے کہ اس کے منہ پر بھی تبسم اور مسکراہٹ ہی نہ آیے یہ بات پسندیدہ نہیں۔*

*"❀_ خود حضور اقدس ﷺ کا مذاق کرنا ثابت ہے لیکن ایسا لطیف مذاق اور ایسی خوش طبعی کی باتیں آپ سے منقول ہیں جو لطیف بھی ہیں اور ان میں کوئی بات خلاف واقعہ بھی نہیں ہے۔*

*"❀_ ایک حدیث میں ارشاد فرما کہ کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا نہ چھوڑے اور بحث و مباحثہ نہ چھوڑے، چاہے وہ حق پر ہو، ( مسند احمد ، طبرانی)*
 *"_ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ افسوس ہے اس شخص پر، یا سخت الفاظ میں اس کا صحیح ترجمہ یہ کر سکتے ہیں کہ اس شخص کے لیے درد ناک عذاب ہے جو محض لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ ( ابو دائود ، ترمذی ، نسائی)* 

*®_ (اصلاحی خطبات ، ج ۱۰، ص ۱۲۱، ۱۲۲)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_( 189) متبنى (منہ بولے بیٹے) کو حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے:-*

*"❀_ ایک مسئلہ یہ بھی ہے جس پر قرآن کریم نے آدھا رکوع نازل کیا ہے وہ یہ کہ بعض اوقات کوئی شخص دوسرے کے بچے کو اپنا متبنی لے پالک بنالیتا ہے ، مثلاً کسی شخص کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس نے دوسرے کا بچہ گود لے لیا اور اس کی پرورش کی اور اس کو اپنا بیٹا بنالیا، تو شرعاً متبنی بنانا اور کسی بچے کی پرورش کرنا اور اپنے بیٹے کی طرح اس کو پالنا تو جائز ہے لیکن شرعی اعتبار سے وہ متینی، کسی بھی حالت میں اس پالنے والے کا حقیقی بیٹا نہیں بن سکتا،*

*"❀_ لہذا جب اس بچے کو منسوب کرنا ہو تو اس کو اصل باپ ہی کی طرف منسوب کرنا چاہیے کہ فلاں کا بیٹا ہے، پرورش کرنے والے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں، اور رشتے کے جتنے احکام ہیں وہ سب اصل باپ کی طرف منسوب ہوں گے، یہاں تک کہ جس شخص نے اس کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا ہے اور جو عورت منہ بولی ماں بنی ہے اگر وہ نامحرم ہے تو اس بچے کے بڑے ہونے کے بعد اس سے اسی طرح پردہ کرنا ہو گا جس طرح ایک نامحرم سے پردہ ہوتا ہے۔*

*"❀_حضور اقدس ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضیہ اللہ عنہ کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اس کے بعد سے حضور اقدس ﷺ ان کے ساتھ بیٹے جیسا ہی سلوک فرماتے تو لوگوں نے بھی ان کو زید بن محمد ( ﷺ ) کہہ کر پکارنا شروع کر دیا، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ آیت نازل ہوئی کہ : اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ [ الاحزاب : ۵]*

*"❀_یعنی تم لوگوں نے متبنی کا جو نسب بیان کرنا شروع کر دیا ہے، یہ درست نہیں، بلکہ جو بیٹا جس باپ کا ہو اسی حقیقی باپ کی طرف منسوب کرو، کسی اور کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں، اور دوسری جگہ یہ آیت نازل فرمائی:- مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ {الاحزاب : ۴۰]*

*"❀_یعی محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے حقیقی باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں، اس لیے ان کی طرف کسی بیٹے کو منسوب مت کرو اور آئندہ کے لیے یہ اصول مقرر فرمادیا کہ کوئی متبنی آئندہ اپنے منہ بولے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوگا بلکہ حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگا۔*

*"❀_ یہ سب احکام اس لیے دیے گئے کہ شریعت نے نسب کے تحفظ کا بہت اہتمام فرمایا ہے کہ کسی کی نسبت غلط نہ ہو جائے, اس کی وجہ سے مغالطہ پیدا نہ ہو جائے، اس لیے جو شخص اپنا نسب غلط بیان کرے وہ حدیث کی وعید کے اندر داخل ہے اور وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہنے والے کی طرح ہے۔*

*®_( اصلاحی خطبات ، ج ۱۰، ص ۲۶۵)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(190) سنت کا مذاق اڑانے والوں کی پرواہ نہ کریں:-*

*"❀_ بسا اوقات جب آدمی اتباع سنت کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو اس کو طعنے بھی دیے جاتے ہیں، اس پر فقرے بھی کیے جاتے ہیں، بعض اوقات اس کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے، ان فقروں اور طعنوں کی وجہ سے بعض لوگ کمزور پڑ جاتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے کہ: _ يُجَٰهِدُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوۡمَةَ لَآئِمٖۚ ذَٰلِكَ فَضۡلُ ٱللَّهِ يُؤۡتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ [المائدة : ٥٤]*

*"❀_ یعنی یہ لوگ اللہ کے راستے میں محنت کرتے ہیں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، دنیا والے لوگ جو چاہیں کہا کریں، چاہے وہ ہمیں ”دقیانوس“ کہیں، یا ہمیں رجعت پسند کہیں ، یا جاہلانہ اسلام والے کہیں، ارے یہ طعنے تو اللہ کے راستے پر چلنے والے کا بار ہیں، یہ طعنے تو انبیاء علیہم السلام کو دیے گئے، ان کو بے وقوف کہا گیا اور ان انبیاء کے متبعین سے کہا گیا کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح یہ بے وقوف ایمان لائے، یہ سارے طعنے انبیاء علیہم السلام کو بھی ملے ہیں، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ملے ہیں،*

*❀"_ ان کو پاگل کہا گیا، ان کو گمراہ کہا گیا لیکن در حقیقت اللہ تعالی کے راستے میں یہ طعنے پڑتے ہیں تو ایک مؤمن کے لئے تمغہ ہے، کہاں تک دنیا والوں کی زبانیں روکو گے؟ کب تک ان کی پرواہ کرو گے۔*

*"❀_لہذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے راستے پر چلو تو طعنوں سے بے نیاز ہو جاؤ، کمر کس کر تیار ہو جاؤ، اور یہ سوچو کہ جو طعنہ ہمیں اس راستے میں ملے گا وہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باعث اعزاز ہے، اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اور اپنی رحمت سے ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔*

*®_{اصلاحی مجالس ، ج ۶ ص ۱۸۳]*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_ (191)_ کیا اولاد کی نافرمانی پر حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی دلیل دینا صحیح ہے ؟*

*"❀_للہ تعالی نے فرمایا کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، در حقیقت اس میں ایک شبہ کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا جو شبہ عام طور پر ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ شبہ یہ ہے کہ آج جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کی تعلیم دو، کچھ دین کی باتیں ان کو سکھاؤ، ان کو دین کی طرف لاؤ، گناہوں سے بچانے کی فکر کرو، تو اس کے جواب میں عام طور پر بکثرت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولاد کو دین کی طرف لانے کی بڑی کوشش کی، مگر کیا کریں کہ ماحول اور معاشرہ اتنا خراب ہے کہ بیوی بچوں کو بہت سمجھایا مگر وہ مانتے نہیں ہیں اور زمانے کی خرابی سے متاثر ہو کر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے اور اس راستے پر جارہے ہیں اور راستہ بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے, ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے، اب ہم کیا کریں ؟*

*"❀_ اور دلیل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تو آخر کافر رہا اور حضرت نوح علیہ السلام اس کو طوفان سے نہ بچا سکے، اسی طرح ہم نے بہت کوشش کر لی ہے وہ نہیں مانتے تو ہم کیا کریں؟ چنانچہ قرآن کریم نے آیت میں آگ کا لفظ استعمال کر کے اس اشکال اور شبہ کا جواب دیا وہ یہ کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کو گناہوں سے اس طرح بچانا چاہیے جس طرح ان کو آگ سے بچاتے ہیں۔*

*"❀_ اللہ تعالی یہ فرمارہے ہیں کہ جب تم اپنے بچے کو دنیا کی معمولی سی آگ سے بچانے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہیں کرتے تو جہنم کی وہ آگ جس کی حدو نہایت نہیں اور جس کا دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا، اس آگ سے بچے کو بچانے کے لیے زبانی جمع خرچ کو کافی کیوں سمجھتے ہو؟ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی جو مثال دی جاتی ہے کہ ان کا بیٹا کا فر رہا، وہ اس کو نہیں بچا سکے، یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ یہ بھی تو دیکھو کہ انہوں نے اس کو راہ راست پر لانے کی نوسو سال تک لگا تار کوشش کی، اس کے باوجود جب راہ راست پر نہیں آیا تو اب ان کے اوپر کوئی مطالبہ اور کوئی مواخذہ نہیں،*

*"❀_ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ایک دو مرتبہ کہا اور پھر فارغ ہو کر بیٹھ گئے کہ ہم نے تو کہ دیا، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کو گناہوں سے اسی طرح بچاؤ جس طرح ان کو حقیقی آگ سے بچاتے ہو, اگر اس طرح نہیں بچارہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فریضہ ادا نہیں ہو رہا ہے،*

*"❀_آج تو یہ نظر آرہا ہے کہ اولاد کے بارے میں ہر چیز کی فکر ہے، مثلاً یہ تو فکر ہے کہ بچے کی تعلیم اچھی ہو ، اس کا کیرئیر اچھا ہو, یہ فکر ہے کہ معاشرے میں اس کا مقام اچھا ہو، یہ فکر تو ہے کہ اس کے کھانے پینے اور پہنے کا انتظام اچھا ہو جائے لیکن اولاد کے دین کی فکر نہیں۔*

*®_(اصلاحی خطبات، ج ۴، ص ۲۷)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
*☞_(192) والدین کی وفات کے بعد ان کی خدمت کی تلاقی کی صورت‌ كيا ہو ؟*

*"❀__ اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ والدین کے مرنے کے بعد اولاد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی نعمت کھو دی اور ہم نے اس کا حق ادا نہ کیا، اس کے لیے بھی اللہ تعالی نے ایک راستہ رکھا ہے، فرمایا کہ اگر کسی نے والدین کے حقوق میں کوتاہی کی ہو اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا ہو تواس کی تلافی کے دور استے ہیں_,*

*"❀__ ایک ان کے لیے ایصال ثواب کی کثرت کرنا، جتنا ہو سکے ان کو ثواب پہنچائیں ، صدقہ دے کر ہو یا نوافل پڑھ کر ہو، یا قرآن کی تلاوت کے ذریعہ ہو، اس کے ذریعہ اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔*

*"❀__ دوسرے یہ کہ والدین کے اعزہ اقر یا دوست احباب ہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرے جیسا کہ باپ کے ساتھ کرنا چاہیے، اس کے نتیجے میں اللہ تعالی اس کوتا ہی کی تلافی فرما دیتے ہیں،*
*"_ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔*

*®_ (اصلاحی خطبات، ج ۴، ص ۷۳)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
            *☞_(193) كہا سنا معاف كر دينا:-*

*"❀_یہ جملہ کہ کہا سنا معاف کر دینا یہ ہمارے بزرگوں کا چلایا ہوا کتنا حکیمانہ جملہ ہے، جب سے ہم لنے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے بڑوں سے یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ جب دو چار آدمی کچھ دیر یا کچھ دن ساتھ رہنے کے بعد جدا ہونے لگتے ہیں تو اس وقت ایک دوسرے سے یہ جملہ کہتے ہیں کہ بھائی! ہمارا کہا سنا معاف کر دینا،*

*❀"_ اس لیے کہ جب سفر یا حضر میں دو چار آدمی ساتھ رہتے ہیں تو کچھ نہ کچھ ایک دوسرے کی حق تلفی ہونے کا احتمال ہوتا ہے، لہذا جدا ہونے سے پہلے ان حقوق کو معاف کرالو، اگر یہ معاف نہ کرایا اور بعد میں کچھ عرصہ کے بعد خیال آیا کہ ہم نے تو فلاں کی حق تلفی کی تھی، تو اس وقت کہاں ڈھونڈتے پھرو گے؟ بعد میں معلوم نہیں کہ ملاقات ہو یا نہ ہو، معافی مانگنے کا موقع ملے یا نہ ملے ،لہذا جدا ہوتے وقت ہی یہ کام کر لینا چاہیے،*.

*"❀_ اس جملہ میں غیبت بھی خود بخود داخل ہو جائے گی اور غیبت سے بھی معافی ہو جائے گی۔*.

*®_ اصلاحی مجالس ،1 / ۱۷۷)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
 *☞_ (194) اللہ کی محبت غیر اختیاری ہونے کے باوجود اس کا حکم کیوں دیا گیا ؟*

*"❀_ ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے تو یہ اصول بیان فرمایا کہ اختیاری امر مامور بہ ہے اور غیر اختیاری کا انسان مکلف نہیں، اور اللہ تعالی کی محبت کا دل میں پیدا کرنا جو مامور بہ ہے، اسی طرح حضور اقدس ﷺ کی محبت مامور بہ ہے، یہاں تک کہ آپ صلی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین سے اور اسکی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔[صحیح بخاری کتاب الایمان، باب حب الرسول ﷺ من الايمان ]*

*"❀_ لہذا خیال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب محبت غیر اختیاری چیز ہے تو اس کو ذبردستی کیسے اپنے دل میں پیدا کریں؟ اس کا جواب حضرت والا نے اس ملفوظ میں دیدیا کہ جو محبت مامور بہ ہے وہ محبت طبعی نہیں، بلکہ محبت عقلی ہے، یعنی جب عقل سے وہ سوچے گا کہ اس کائنات میں سب سے زیادہ محبت کے لائق کون ہونا چاہئیے ؟ تو اس کی عقل اس کو اس نتیجے پر پہنچائے گی کہ اس کائنات میں سب سے زیادہ محبت اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہونی چاہئے،*

*"❀_ چاہے دل میں طبعی طور پر محبت کے جذبات اس طرح امڈتے ہوئے ہونا محسوس نہ ہوں جس طرح والدین اور اولاد کے لئے محبت کے جذبات دل میں امڈتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اگر بالفرض کسی کا یہ حال ہو تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میں کافر ہو گیا، بلکہ وہ سوچے کہ الحمد للہ مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت عقلی حاصل ہے، اگر چہ محبت طبعی اس درجے کی نہیں ہے۔*

*®_( اصلاحی مجالس، ج ۲، ص ۲۸۵)*
          *︶︸︶︸︶︸︶︸︶︸︶*   
     *☞__ (195) سال گرہ کی حقیقت :-*

*"❀_ کسی نے خوب کہا کہ : ہو رہی ہے عمر مثل برف کم، چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم، جس طرح برف ہر لمحے پگھلتی رہتی ہے، اسی طرح انسان کی عمر ہر لمحے پگھل رہی ہے اور جا رہی ہے، جب عمر کا ایک سال گذر جاتا ہے تو لوگ سالگرہ مناتے ہیں، اور اس میں اس بات کی بڑی خوشی مناتے ہیں کہ ہماری عمر کا ایک سال پورا ہو گیا ، اور اس میں موم بتیاں جلاتے ہیں ، اور کیک کاٹتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا خرافات کرتے ہیں،*

*"❀_ اب یہ رونے کی بات ہے یا خوشی کی بات ہے! یہ تو افسوس کرنے کا موقع ہے کہ تیری زندگی کا ایک سال اور کم ہو گیا۔ عام طور پر لوگوں کے مرنے کے بعد ان کا مرثیہ کہا جاتا ہے لیکن حضرت مفتی شفیع صاحب رحمتہ اللہ اپنا مرثیہ خود کہا کرتے تھے اور اس کا نام رکھتے " مرثیہ عمر رفتہ" یعنی گذری ہوئی عمر کا مرثیہ، اگر اللہ تعالی ہمیں فہم عطا فرمائیں تب یہ بات سمجھ میں آئے کہ واقعہ یہی ہے کہ جو وقت گذر گیا، وہ اب واپس آنے والا نہیں، اس لیے اس پر خوشی منانے کا موقع نہیں ہے، بلکہ آئندہ کی فکر کرنے کا موقع ہے کہ بقیہ زندگی کا وقت کس طریقے سے کام میں لگ جائے ،*

*"❀_ خلاصہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو نیمت سمجھو، اور اس کو اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت میں صرف کرنے کی کوشش کرو ، غفلت ، بے پر اوئی اور وقت کی فضول خرچی سے بچو، کسی نے خوب کہا ہے کہ : یہ کہاں کا فسانہ سود و زیاں، جو گیا سو گیا، جو ملا سو ملا، کہو دل سے کہ فرصت عمر ہے کم، جو دلا تو خدا ہی کی یاد دلا _,*

*®_(اصلاحی خطبات ، ج ۳، ص ۲۲۹،۲۱۵)*
*📘 اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے، ( حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ)*

*"❀___ الحمدللہ پوسٹ مکمل ہوئی _,*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
 
                    ✍
          *❥ Haqq Ka Daayi ❥*   
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
https://chat.whatsapp.com/Drp4FpBvkVN5c2Tpun0yNT
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,*
https://chat.whatsapp.com/LV8KS9l627sKt8cJMIcdqC
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ کے لئے لنک پر کلک کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
•─━━━━━══════━━━━━─•

Post a Comment

0 Comments