NOOR E HIDAYAT-URDU-(HAZRAT JI KA EK AHAM KHAT)

❈❦ 3 ❦❈*      
               ☜█❈ *حق کا داعی*❈ █☞
               ☞❦ *نور -ے- ہدایت* ❦☜         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                *☞ _ اصول کی پابندی-:-*

*❀__ حضرت جی رحمتہ اللہ دعوت کے کام کے لیے اصول کی پابندی بے حد ضروری سمجھتے تھے، وہ چھ (٦صفات) اصول جن پر اس کام کا پورا پورا اخصار ہے ان کی پابندی کو لازم قرار دیتے,*  

*❀__ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :- اصول کی پابندی کا بہت ہی زیادہ لحاظ رکھا جائے ۔ علم ، ذکر خدمت، اکرام مسلم تبلیغ، دعا وغیرہ میں سب کو مشغول رکھتے ہوئے لایعنی سے پریز کا اہتمام کیاجائے، راتوں میں رونے کو بہت بڑھایا جائے، بلخصوص اکرام مسلم کے نمبر کی خوب وضاحت کرتے ہوئے عمل کیا جائے اور کرایا جائے،*

*❀__ حاجی فضل عظیم صاحب کو ایک مکتوب تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ کام کا فائدہ ہمیشہ اُس کے اُصولوں کے ساتھ کرنے سے ہوتا ہے۔ اصولوں کی بے عنوانی کا فساد اسکے اصلاح کو داب لیتا ہے اور اس کے خیر سے منتفع نہیں ہونے دیتا۔ جماعتوں کے نکلنے کی تو خبریں جگہ جگہ سے آتی ہیں مگر ان کے اصول کے استعمال کی جو کام کے لئے روح اور مغز کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔*

*❀__ سب سے اہم جز علم و ذکر کا اشتغال ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی مرضیات پر چلنے اور اعمال مرضیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اپنے نفس اور خودی کو مٹانے کے لیے ہے اور علم وذکر کی طرف نست رکھنے والے بزرگوں کی عظمت کو دل میں محسوس کرنا،*

*❀__ جو کام کیا جاوے اس کی اطلاع کے ذریعے اور مشاورت کے ذریعہ اُن کی بڑائی کو پہچاننا اور ان کے حقوق کو ادا کرنا اور اسی طرح دنیاوی لائن میں مادی بڑوں کے حقوق کو ادا کرنا اور اپنے مادی کاموں میں انکی مشاورت کو بھی شامل کرنا ۔*

*❀__ دوسرا اہم جزو یہ ہے کہ اپنے سے ہر لائن کے چھوٹے, دین کی لائن کے علم کی لائن کے مال کی لائن کے رشتے کی لائن کے چاروں لائن کے چھوٹوں کے ساتھ رحم و شفقت اور ہمدردی اور اخوت کے ذریعہ انہیں اس کام کے اندر زیادہ سےزیادہ لگانے کی سعی کرنا اوران کے علوم و اذکار کی ذمہ دارانہ نگرانی کرتے رہنا۔*

*❀__ اس لائن کے حقوق ادا کرنے سے وہ مشقت اٹھانیوالا طبقہ جس کے اندر ہم سے کئی زیادہ خلوص ہے، کثرت سے اس میں شریک ہوگا، جنکے اس کام میں لگے بغیر کام غیر مستقل سطحی اور جزوی ہے۔ اور ارباب اہل علم و ذکر کے حقوق کی ادائیگی کے ذریعے کام میں وزن اور نور پیدا ہوگا جس کے بغیر کام سطحی اور نا پائیدار ہے،* 

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                *☞ _ عورتوں میں کام:-*

*"❀_ حضرت جی رحمہ اللہ جس طرح مردوں میں دینی دعوت کا کام ضروری سمجھتے تھے اسی طرح عورتوں میں بھی اس کام کی ضرورت کو محسوس کرتے تھے، اس لئے کہ عورتوں ہی کی درستگی سے مردوں اور بچوں میں دینی انقلاب پیدا ہو سکتا ہے،*

*"❀_ حضرت جی رحمہ اللہ کی زندگی میں بہت پہلے سے عورتوں میں کام شروع ہو چکا تھا، حضرت جی عورتوں میں کام کرنے کے سلسلے میں نزاکتوں کو بیان کرتے ہوئے مختلف ہدایات دیا کرتے تھے:۔*

*"❀_ ایک مکتوب میں مولانا عبید اللہ صاحب بلیاوی کو عورتوں میں کام کے طریقوں کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "_عورتوں کی تبلیغ میں صرف یہ کیا جاوے کہ عورتیں دینی کتب پڑھیں پڑھائیں سنائیں، اسلامی رواج کی پوری پابندی کریں اور اپنے متعلقین کو بھی اس کا پابند کریں، اپنے مردوں کو دین سیکھنے کے لیے تبلیغ کے اندر باہر بھیجیں، تا کہ جو کچھ سیکھ کر آئیں وہ ان کو سکھائیں، عورتوں کو گشت کی قطعاً اجازت نہ دی جائے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
              *☞ _ ہر حال میں دعوت کا کام :-*

*❀_ حضرت جی رحمہ اللہ ہر حال میں دعوت دین کے کام سے تعلق کو ضروری سمجھتے تھے چاہے بیماری ہو یا تندرستی خوشی ہو یا غم، تنگدستی ہو یا فراخی، ان کے نزدیک ان تمام صورتوں میں دعوت میں لگنے سے ثواب بڑھتا ہے اور نسان کی دینی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، خصوصاً ان تمام لوگوں کے لئے جو کام سے متعلق رہے ہوں، کسی وقت بھی غفلت اور کوتاہی کو بہت بڑا نقصان سمجھتے تھے،*

*❀_ ایک صاحب کو، جو اپنی علالت کی بنا پر کام سے بے تعلق ہو گئے تھے، اپنے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :۔ "_میرے دوست یہ کام حق تعالی کی ایک نمیت جلیلہ ہے جو عطا کی گئی ہے، نعمت کی قدر دانی اور حق کی ادائیگی نعمت کو بڑھاتی ہے اور اس میں کوتاہی بہت خطرے کی چیز ہے، کام دھندا اور دکھ بیماری تو ہر دم آدمی کے ساتھ ہے اور اس امتحان کیلئے ہے کہ ہمارا بندہ ہمارے تعلق کی وجہ سے ہمارے حکم کی قدردانی کر کے دین کو مقدم کرتا ہے یا غفلت کے ساتھ اپنی ضرورت اور اپنے دکھ سکھ کو اپنی رائے سے دیکھتا ہے،*

*❀_ بہر حال سمجھ دار وہی ہے جو اس وقت اس چیز کی قدر کرے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کام کرتے رہنے اور ملتے جلتے رہنے ہی سے آدمی آگے بڑھتا ہے،*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
       *☞ _ ایک ماں کی خدمت میں گزارش:-*

*"❀_ایک پرانے اور قریبی رفیق کار جو مرکز میں مقیم تھے اور ان کی وجہ سے تبلیغی کام کو بہت فائدہ پہونچ رہا تھا، ان کی والدہ نے ان کو بلایا تو مولانا نے ان محترمہ کی خدمت میں ان الفاظ سے صاحبزادے کو مرکز میں ٹھہرے رہنے کی اجازت مانگی۔*

*"❀_ مکرمہ و محترمہ .. اسلام عليكم ورحمة الله وبركاته، عالم میں جب دین کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والے کثرت سے تھے ہر شخص اس کے لئے قربانی دیتا تھا، بچے مچل مچل کر جانیں قربان کرنے کے لئے آگے بڑھتے تھے، مائیں بچوں کی قربانی پر سجدہ شکر ادا کرنے والی تھیں،*

*"❀_ پرورش اسی لئے ہوتی تھی کہ یہ اللہ کے دین کے لئے کام آئے گا اور کام آجانے پر اس کو سعادت عظمی سمجھا جاتا تھا، ایسے وقت میں حق تعالیٰ کی بے شمار نصرتیں مسلمانوں کے ساتھ ہوئیں، باوجود قلت کے دنیا پر غالب ہوئے، دنیا کو جب ٹھکرایا تو دنیا قدموں میں آئی، اونٹوں کی نکیلیں پکڑ کر نکلے تو اللہ نے حکومت کی باگیں ہاتھوں میں دے دی،*

*"❀_ خلاصہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علہ وسلم کے مبارک کام کے لئے اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے، جب انصار مدینہ نے بے شمار جد وجہد کی اور گھروں کو چھوڑنے اور عالم میں پھرنے کی وجہ سے جب تجارتوں اور باغات کا پڑا ہونے لگا تو انصار مدینہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف چند ہفتہ کے لئے دوڑ دھوپ کرنے سے رخصت مانگی تو حق تعالیٰ نے قرآن میں تنبیہہ فرمائی،*

*"❀_ محترمہ اصل بات یہ ہے کہ جب تک اس جذبے سے کام کرنے والے موجود رہے کہ اپنی ضرورت رہے یا نہ رہے، اللہ کے دین کی کوشش ہوتی رہے، تب تک اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں شامل حال رہیں اور مسلمان عالم میں سردار بنے رہے،*

*"❀_اور جب سے ہم مسلمانوں نے اپنی ضرورتوں کو مقدم کرنے کا رواج ڈال دیا اور عالم میں دین کی ضرورت کے مقابلے میں اپنی ضرورتوں کو قربان کرنے والے نہیں رہے تو اللہ کی نصرتوں سے محرومی شروع ہو گئی، نوبت یہاں تک آ گئی کہ آج عالم میں چاروں طرف مسلمانوں پر بلاؤں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، مصائب کھل کر سامنے آگئے ہیں، ایسے وقت می کچھ کچھ جد و جہد دین کی ترقی کے لیے شروع ہوئی، مرکز میں آدمیوں کی شدید قلت ہے، ایسے وقت میں تم نے اپنے بیٹے کو بلایا ہے، کام کی ضرورتوں کے پیش نظر تو میں یہی درخواست کروں گا کہ دین کی اہم ضرورتوں کے پیش نظر آپ رخصت مرحمت فرما دیں، میری تو آپ سے گزارش ہے، اگر آپ کا پھر بھی بلانے کا اصرار ہو تو مجھے فوراً تار دیجئے میں بھیج دوں گا ؟*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
       *☞ _ایک اہم ترین مکتوب :-*

*"❀_ حضرت جی رحمہ اللہ کا ایک اہم ترین مکتوب درج کیا جا رہا ہے جو حقیقت میں تبلیغ کے مقاصد اصول طریقہ کار متوقع منافع تبلیغ کام کے نتائج و ثمرات اور خروج فی سبیل اللہ کی ضروری ہدایات پر بہت جامع ہے،*

*"❀_ یہ مکتوب اُن ساری جماعتوں کے لئے جو تبلیغی سفروں پر روانہ ہوتی رہتی ہیں اور ان سارے حضرات کے لئے جو اس راہ میں اپنے اوقات فارغ کرتے رہتے ہیں نہایت مفید اور اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چونکہ یہ مکتوب بہت طویل ہے اس لئے ہم نے موقع موقع پر بغلی سرخیاں لگادی ہیں تا کہ پڑھنے والے کے لئے آسانی بھی ہو اور مفید بھی۔*

*"❀_ بعد خطبہ و سلام اور خیرو عافیت کے حضور نے ترقی کی دعائیں دی:-*
*"_ اللہ تعالی آپ حضرات کو ترقیات عطا فرماویں صحیح نہج پر آپ حضرات کی حفاظت فرمائے اور پوری ترکیب و ترتیب کی سمجھ عطا فرماویں۔ آئین،*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ایک اہم خط- 1- کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار :-*

*"❀_ اللہ ربّ العزت نے اسنوں کی تمام کامیابیوں کا دارو مدار انسان کے اندرونی مایہ پر رکھا ہے، کامیابی اور ناکامی انسان کے اندر کے حال کا نام ہے ۔ باہر کی چیزوں کے نقشے کا نام کامیابی وناکامی نہیں،*

 *"❀_عزت و ذلت، آرام و تکلیف سکون پریشانی، صحت و بیماری انسان کے اندر کے حالات کا نام ہے، ان حالات کے بننے یا بگڑانے کا باہر کے نقشوں سے تعلق بھی نہیں، اللہ جل شانہ ملک و مال کے ساتھ انسان کو ذلیل کر کے دکھا دیں اور فقر کے نقشے میں عزت دے کر دکھا دیں ۔*

*"❀_ انسان کے اندر کی مایہ اُس کا یقین اور اُس کے اعمال ہیں۔ انسان کے اندر کا یقین اور اندر سے نکلنے والے اعمال اگر ٹھیک ہوں گے تو اللہ جل شانہ اندر کامیابی کی حالت پیدا فرما دیں گے خواہ چیزوں کا نقشہ کتنا ہی پست ہو ۔*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                    *☞ __ ایمان بل اللہ :-*

*"❀__اللہ جل شانہ تمام کائنات کے ہر ذرے کے اور ہر فرد کے خالق و مالک ہیں، ہرچیز کو اپنی قدرت سے بنایا ہے، سب کچھ ان کے بنانے سے بنا ہے۔ وہ بنانے والے ہیں خود بنے نہیں اور جو خود بنا ہوا ہے اس سے کچھ بنتا نہیں۔*

*"❀__ جو کچھ قدرت سے بنا ہے وہ قدرت کے ماتحت ہے، ہر چیز پر ان کا قبضہ ہے۔ وہ ہی ہر چیز کو استعمال فرماتے ہیں، وہ اپنی قدرت سے ان چیزوں کی شکلوں کو بھی بدل سکتے ہیں اور شکلوں کو قائم رکھ کر صفات کو بدل سکتے ہیں، لکڑی کو اژدھا بنا سکتے ہیں اور اژدھے کو لکڑی بناسکتے ہیں، اس طرح ہر شکل پر چاہے ملک ہو یا مال کی، برق کی ہو یا بھاپ کی، ان کا ہی قبضہ ہے اور وہ ہی تصرف فرماتے ہیں ۔*

*"❀__ جہاں سے انسان کو تعمیر نظر آتی ہے وہاں سے تخریب لا کر دکھا دیں اور جہاں سے تخریب نظر آتی ہے وہاں سے تعمیر لا کر دکھا دیں۔ تربیت کا نظام وہی چلاتے ہیں۔ ساری چیزوں کے بغیر ریت پر ڈال کر پال دیں اور سارے ساز و سامان میں پرورش بگاڑ دیں۔* 
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ ایمان ویقین کا نتیجہ اور اس کی دعوت:-*

*"❀_ اللہ جل شانہ کی ذات عالی سے تعلق پیدا ہو جاے اور ان کی قدرت سے ایمان بالرسالة سے براہ راست استفادہ ہو اس کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے طریقے لے کر آئیں ہیں جب ان کے طریقے زندگیوں میں آئیں گے تو اللہ جل شانہ ہر نقشے میں کامیابی دے کر دکھائیں گے ۔*

*"❀_ الہ الااللہ محمد رسول اللہ میں اپنے یقین اور اپنے جذبے اور اپنے طریقے کو بدلنے کا مطالبہ ہے، صرف یقین کی تبدیلی پر ہی اللہ تعالیٰ اس زمین وآسمان سے کئی گنا زیادہ بڑی جنت عطا فرمائیں گے، جن چیزوں میں سے یقین نکل کر اللہ کی ذات میں آئے گا ان ساری چیزوں کو اللہ پاک مسخر فرما دیں گے۔*

*"❀_ اس یقین کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے ایک تو اس یقین کی دعوت دینی ہے۔ اللہ کی بڑائی سمجھانی ہے، ان کی ربوبیت سمجھانی ہے، انکی قدرت سمجھانی ہے، انبیاء علیہ السلام اور صحابہ کرام کے واقعات سنانے ہیں، خود تنہائیوں میں بیٹھ کر سوچنا ہے، دل میں اسی یقین کو اتارنا ہے جس کی مجمع میں دعوت دی ہے، یہی حق ہے اور پھر رو رو کر دعا مانگی ہے کہ اے اللہ ! اس یقین کی حقیقت سے نواز دے ۔* 
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
    *☞ _نماز اہتمام اور اس کی دعوت:-*

*"❀__اللہ جل شانہ کی قدرت سے براہ راست فائدے حاصل کرنے کے لیے نماز کا عمل دیا گیا ہے۔*

*"❀__ سر سے لے کر پیر تک اللہ کی رضا والے مخصوص طریقے پر پابندیوں کے ساتھ اپنے کو استعمال کرو، آنکھوں کا، کانوں کا، ہاتھوں کا، زبان کا اور پیروں کا استعمال ٹھیک ہو۔ دل میں اللہ کا دھیان ہو، اللہ کا خوف ہو، یقین ہو کہ نماز میں اللہ کے کے حکم کے مطابق میرا ہر استعمال تکبیر و تسبیح، رکوع و سجده ساری کائنات سے زیادہ انعامات دلانے والا ہے،*

*"❀__اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ کر ہاتھ پھیلا کر مانگا جائے تو اللہ جل شانہ اپنی قدرت سے ہر ضرورت کو پورا کریں گے۔ ایسی نماز پر اللہ پاک گناہوں کو معاف بھی فرما دیں گے ۔ رزق میں برکت بھی دیں گے، طاعت کی توفیق بھی لے گی،*

*"❀__ ایسی نماز سیکھنے کے لیے دوسروں کو خشوع و خضوع والی نماز کی ترغیب و دعوت دی جائے، اس پر آخرت اور دنیا کے نفعے سمجھائے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کی نماز کو سنانا خود اپنی نماز کو اچھا کرنے کی مشق کرنا، اہتمام سے وضو کرنا، دھیان جمانا، قیام میں، قعدہ میں، رکوع میں سجدے میں بھی دھیان کم از کم تین مرتبہ جمایا جائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں،*

*"❀__ نماز کے بعد سوچا جائے کہ اللہ کی شان کے مطابق نماز نہ ہوئی۔ اس پر رونا اور کہنا کہ اے اللہ ہماری نماز میں حقیقت پیدا فرما.* 
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ __ علم اور ذکر:-*

*"❀_ علم سے مراد یہ ہے کہ ہم میں تحقیق کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ میرے اللہ مجھسے سے اس حال میں کیا چاہتے ہیں اور پھر اللہ کے دھیان کے ساتھ اپنے آپ کو اس عمل میں لگا دینا یہ ذکر ہے۔*.

*"❀_ جو آدمی دین سیکھنے کے لئے سفر کرتا ہے اس کا سفر عبادت میں لکھا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے چلنے والوں کے پیروں کے نیچے ستر ہزار فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں، زمین و آسمان کی ساری مخلوق ان کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہے*

*"❀_ شیطان پر ایک عالم ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ دوسروں میں علم کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، فضائل سنائے جائیں, خود تعلیم کے حلقوں میں بیٹھا جائے۔ علماء کی خدمت میں حاضری دی جائے، اس کو بھی عبادت یقین کیا جائے اور رو رو کر مانگا جائے کہ اللہ جل شانہ علم کی حقیقت عطا فرما دیں۔*

*"❀_ ہر عمل میں اللہ جل شانہ کا دھیان پیدا کرنے کے لئے اللہ کا ذکر ہے۔ جو آدمی اللہ جل شانہ کو یاد کرتا ہے اللہ جل شانہ اس کو یاد فرماتے ہیں۔ جب تک آدمی کے ہونٹ اللہ کے ذکر میں بلتے رہتے ہیں اللہ جل شانہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں, اللہ پاک اپنی محبت و معرفت عطا فرماتے ہیں، اللہ کا ذکر شیطان سے حفاظت کا قلعہ ہے۔*

*"❀_ خود اللہ جل شانہ کا دھیان پیدا کرنے کے لئے دوسروں کو اللہ کے ذکر پر آمادہ کرنا, ترغیب دینا, خود دھیان جما کر کہ میرے اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں، ذکر کرنا اور رو رو کر دعا مانگنا کہ اے اللہ مجھے ذکر کی حقیقت عطا فرما،*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                 *☞ _اکرام مسلم :-*

*"❀_ ہر مسلمان کا بحیثیت رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کے اکرام بھی کرنا۔ ہر امتی کے آگے بچھ جانا، ہر شخص کے حقوق کو ادا کرنا اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرنا۔*

*"❀_ جو آدمی مسلمان کی پردہ پوشی کریگا، اللہ جل شانہ اس کی پردہ پوشی فرمائینگے، جب تک آدمی اپنے مسلمان بھائی کے کام میں لگا رہتا ہے، اللہ جل شانہ اس کے کام میں لگے رہتے ہیں،*

*"❀_ جو اپنے حق کو معاف کر دیگا، اللہ جل شانہ اس کو جنت کے بیچ میں محل عطا فرمائینگے, جو اللہ کیلئے دوسروں کے آگے تذل اختیار کرے گا، اللہ جل شانہ اس کو رفعت و بلندی عطا فرمائیں گے،*

*"❀_ اسکے لئے دوسروں میں ترغیب کے ذریعہ اکرام مسلم کا شوق پیدا کرنا ہے, مسلمان کی قیمیت بتانی ہے, حضور نبی کریم ﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخلاق، ہمدردی اور انتشار کے واقعات سنانے ہیں، خود اس کی مشق کرنی ہے اور رو رو کر اللہ جل شانہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی توفیق مانگتی ہے ۔* 
       
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                      *☞ _حسن نیت :-*

*"❀_ ہر عمل میں اللہ جل شانہ کی رضا کا عمل جزبہ ہو، کسی عمل سے دنیا کی طلب یا اپنی حیثیت بنانا مقصود نہ ہو ۔*

*"❀_ اللہ کی رضا کے جزبے سے تھوڑا سا عمل بھی بہت انعامات دلوائے گا اور اس کے بغیر بہت بڑے بڑے عمل بھی گرفت کا سبب بنیں گے،*

*"❀_ اپنی نیت کو درست کرنے کے لئے دوسروں میں دعوت کے ذریعے تصحیح نیت کا فکر و شوق پیدا کیا جائے ۔*

*"❀_ اپنے آپ پر عمل سے پہلے اور ہر عمل کے دوران نیت کو درست کرنے کی مشق کی جائے، میں اللہ کو راضی کرنے کے لئے یہ عمل کر رہا ہوں اور عمل کی تکمیل پر اپنی نیت کو ناقص قرار دے کر توبہ واستغفار کیا جائے اور رو رو کر اللہ جیل شانہ سے اخلاص مانگا جائے۔*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
     *☞ _ اللہ کے راستے کی محنت اور دعا:-*

*"❀_ آج اُمت میں کسی حد تک انفرادی اعمال کا رواج ہے گو ان کی حقیقت نکلی ہوئی ہے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ سلم کی ختم نبوت کے طفیل پوری اُمت کو دعوت والی محنت ملی تھی، اس کے بندوں کا تعلق اللہ جل شانہ سے قائم ہو جائے، اس کے لئے انبیا علیہم السلام والے طرز پر اپنی جان و مال کو چھونک دنیا اور جن میں محنت کر رہے ہیں ان سے کسی چیز کا طالب نہ بنا، اسکے لئے ہجرت بھی کرنا اور نصرت بھی کرنا۔*

*"❀_ جو زمین والوں پر رحم کرتا ہے آسمان والا اس پر رحم کرتا ہے، جو دوسروں کا تعلق اللہ جل شانہ سے جوڑنے کے لئے ایمان و عمل صالح کی محنت کریں گے، اللہ جل شانہ ان کو سب سے پہلے ایمان و عمل صالح کی حقیقتوں سے نواز کر اپنا تعلق عطا فرمائیں گے،*

*"❀_ اس راستے میں ایک صبح یا ایک شام کا نکلنا پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے (با اعتبار مال کے بھی اور با اعتبار چیزوں کے بھی) اس سب سے بہتر ہے ۔*

*"❀_ اس میں ہر مال کے خرچ اور اللہ کے ہر ذکر و تسبیح اور ہر نماز کا ثواب سات لاکھ گنا ہو جاتا ہے۔ اس راستے میں محنت کرنے والوں کی دعائیں بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کی طرح قبول ہوتی ہیں یعنی جس طرح ان کی دعاؤں پر اللہ جل شانہ نے ظاہر کے خلاف اپنی قدرت کو استعمال فرما کر ان کو کامیاب فرمایا اور باطل خاکوں کو توڑ دیا۔ اسی طرح اس محنت کے کرنے والوں کی دعاؤں پر اللہ جل شانہ ظواہر کے خلاف اپنی قدرت کے مظاہرے فرمائیں گے اور اگر عالمی بنیاد پر محنت کی گئی، تو تمام اہل عالم کے قلوب میں ان کی محنت کے اثر سے تبدیلیاں لائیں گے ۔*

*"❀_ دین کے دوسرے اعمال کی طرح ہمیں یہ محنت بھی کرنی نہیں آتی ۔ دوسروں کو اس محنت کے لئے آمادہ کرنا ہے اس کی اہمیت اور قیمیت بتانی ہے۔ انبیاء علیھم السّلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے واقعات سنانے ہیں، خود اپنے آپ کو قربانی کی شکلوں اور ہجرت و نصرت والے اعمال میں لگانا ہے۔*

*"❀_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہر حال میں اللہ کی راہ میں نکلے ہیں، نکاح کے وقت اور رخصتی کے وقت، گھر میں ولادت کے موقع پر اور وفات کے موقع پر، سردی میں، گرمی میں، بھوک میں فاقے میں، صحبت میں، بیماری میں، قوت میں، ضعف میں، جوانی اور بڑھایے میں بھی نکلے ہیں اور رو رو کر اللہ جل شانہ سے مانگنا ہے کہ ہمیں اس عالی محنت کے لئے قبول فرما لے۔*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
     *☞ __ مسجدوں میں کرنے کے کام:-*

*"❀_ ان چیزوں ( ٦ صفات ) سے مناسبت پیدا کرنے کے لئے ہر شخص سے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے متعلق ہو، چار ماہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔*

*"❀_ اپنے مشاغل، ساز و سامان اور گھر بار سے نکل کر ان صفاتوں کی دعوت دیتے ہوئے اور خود مشق کرتے ہوئے ملک بہ ملک، اقلیم بہ اقلیم، قوم بہ قوم، قریہ بہ قریہ پھرینگے،*.

*"❀_ حضور اقدس ﷺ نے ہر امتی کو مسجد والا بنایا تھا، مسجد کے کچھ مخصوص اعمال دیئے تھے، ان آعمال سے مسلمانوں کا زندگی میں امتیاز تھا، مسجد میں اللہ کی بڑائی کی، ایمان کی اور آخرت کی باتیں ہوتی تھیں، آعمال سے زندگی بنے کی باتیں ہوتی تھیں، آعملوں کے ٹھیک کرنے کے لئے تعلیمیں ہوتی تھیں۔ ایمان و عمل صالح کی دعوت کے لئے ملکوں اور علاقوں میں جانے کی تشکیلیں بھی مسجد سے ہی ہوتی تھیں۔ اللہ کے ذکر کی مجلسیں مسجدوں میں ہوتی تھیں۔*

*"❀_ مسجدوں میں تعاون، ایثار اور ہمدردیوں کے آعمال ہوتے تھے۔ ہر شخص، حاکم محکوم، مالدار، غریب، تاجر، زارع، مزدور مسجد ہی میں آ کر زندگی سیکھتا تھا اور باہر جاکر اپنے اپنے شعبے میں مسجد والے تأثر سے چلتا تھا۔*

*"❀_ آج ہم دھوکے میں پڑ گئے کہ ہمارے پیسے سے مسجد چلتی ہے, مسجدیں آعمال سے خالی ہو گئیں اور چیزوں سے بھر گئیں۔ حضور ﷺ نے مسجد کو بازار والوں کے تابع نہیں کیا۔ حضور ﷺ کی مسجد میں نہ بجلی تھی نہ پانی تھا۔ نہ غسلخانے تھے، خرچ کی کوئی شکل بھی مسجدوں میں نہیں تھی،*

*"❀_ مسجد میں آ کر داعی بنتا تھا، معلم او متعلم بنتا تھا، ذاکر بنتا تھا، نمازی بنتا تھا، مطیع بنتا تھا، متقی زاہد بنتا تھا، خلیق بنتا تھا، باہر جاکر ٹھیک زندگی گزارتا تھا، مسجدیں بازار والوں کو چلاتی تھی،*
*"_ ان چار ماہ میں ہر جگہ جا کر مسجدوں میں ہر امتی کو لانے کی مشق کریں، مسجد والے آعمال کو سیکھتے ہوئے دوسروں کو یہ محنت سیکھنے کے لئے تین چلوں کے واسطے آمادہ کریں ۔*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
          *☞ _مقامی گشت و اجتماع :-*

*"❀_ واپس ( وقت لگانے کے بعد) اپنے مقام پر آکر اپنی بستی کی مسجد میں ان آعمال کو زندہ کرنا ہے، ہفتہ میں دو مرتبہ گشت کے ذریہ بستی والوں کو جمع کر کے انہیں اعمال کی طرف متوجہ کرنا اور مشق کے لئے ہر گھر سے ایک ایک فرد کو تین چلوں کے لئے باہر نکالنا ہے۔*

*"❀_ ایک گشت اپنی مسجد کے ماحول میں اور دوسرا گشت دوسری مسجد کے ماحول میں کریں۔ ہر مسجد میں مقامی جماعت بھی بنائیں۔ ہر مسجد کے احباب روزانہ فضائل کی تعلیم کریں۔*

*"❀_ ہر مہینے تین دن کی جماعت:- اپنے شہر یا بستی کے قریب دیہات میں کام کی فضا بنے اس کے لئے ہر مسجد سے سے تین یوم کیلئے جماعتیں بنائیں اور پانچ کوس کے علاقے علاقے میں جائیں، ہر ساتھی مہینے میں تین یوم پابندی سے م لگائیں، تین دن پر حکما تیس دن کا ثواب ملے گا، پورے سال ہر مہینے تین دن لگائے تو سارا سال اللہ کی راہ میں شمار ہوگا،*

*"❀_ اندرون ملک کے تقاضے پورے ہوتے رہیں اور اپنی مشق قائم رہے اور جاری رہے۔*
   
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _چلہ اور تین چلے لگانا اور ان کی دعوت دینا:-*

*"❀_ ہر سال اہتمام سے چلہ لگایا جائے، عمر میں کم ازکم تین چلے، سال میں چلہ، مہینے میں تین یوم، ہفتہ میں دو گشت، روزانہ تعلیم، تسبیحات، تلاوت یہ کم سے کم نصاب ہے کہ ہماری زنگ دین والی بنتی رہے۔*

*"❀_ اگر ہم یوں چاہیں کہ ہم سبب و ذریعہ بنے اجتماع طور پر پوری انسانیت کی زندگی کے صحیح رخ پر آنے اور باطل کے ٹوٹنے کا، تو اس کے لئے اس نصاب سے بھی آگے بڑھنا ہوگا،*

*"❀_ ہمارے وقت اور ہماری آمدنی کا نصف اللہ کی راہ میں لگے اور نصف کاروبار اور گھر کے مسائل میں, کم از کم یہ کہ ایک تہائی وقت و آمدنی اللہ کی راہ میں اور دو تہائی اپنے مشاغل میں یعنی ہر سال چارہ ماہ کی ترتیب بٹھائی جائے،*

*"❀_ آپ حضرات عمر میں کم از کم تین چلوں کی دعوت خوب جم کر دیں، اس میں بالکل نہ گھبرائیں، اس کے بغیر زندگیوں کے رُخ نہ بدلیں گے ۔*

*"❀_ جن احباب نے خود بھی تین چلے نہ دیئے ہوں وہ بھی اس نیت سے خوب جم کر دعوت دیں کہ اللہ جل شانہ اس کے لئے ہمیں قبول فرمالے ۔*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ __گشت اور اسکی اہمیت :-*

*"❀_ گست کا عمل اس کام میں ریڑھ کی بڑی کی سی اہمیت رکھتا ہے، اگر یہ عمل صحیح ہو گا تو قبول ہو گا، دعوت قبول ہوگی، دعا قبول ہوگی، ہدایت آئے گی اور گشت قبول نہ ہوا تو دعوت قبول نہ ہوگی دعا قبول نہ ہوگی، ہدایت نہیں آئے گی۔*

*"❀_ گشت کا موضوع اور دعوت :- گشت کا موضوع یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے ہماری دنیا اور آخرت کے مسائل کا حل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر زندگی گزارنے میں رکھا ہے۔ ان کے طریقے ہماری زندگیوں میں آجائیں۔ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ اس محنت پر بستی والوں کو آمادہ کرنے کے لئے گشت کے لئے مسجد میں جمع کرنا ہے۔*

*"❀_ نماز کے بعد اعلان کر کے لوگوں کو روکا جائے۔ اعلان بستی کا کوئی با اثر آدمی یا امام صاحب کریں تو زیادہ مناسب ہوگا، اگر وہ ہم کو کہیں تو ہمارے ساتھی کر دیں۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
             *☞ __گشت کے آداب کا بیان:-*

*"❀_ بھر گشت کی اہمیت ضرورت اور قیمت بتائی جائے، اس کے لئے آمادہ کیا جائے، جو تیار ہوں ان کو اچھی طرح آداب سمجھائیں،*

*"❀_ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے چلنا ہے۔ نگاہیں نیچی ہوں، ہمارے تمام مسائل کا تعلق اللہ جل شانہ کی ذات سے ہے، ان بازاروں میں پھیلی ہوئی چیزوں سے کسی مسئلے کا تعلق نہیں، چیزوں پر نگاہ نہ پڑے دھیان نہ جائے ۔ اگر نگاہ پڑ جائے تو مٹی کے ڈلے معلوم ہوں ۔*

*"❀_ ہمارا دل اگر ان چیزوں کی طرف پھر گیا تو پھر ہم جن کے پاس جا رہے ہیں ان کا دل ان چیزوں سے اللہ کی طرف کیسے پھرے گا۔*

*"❀_ قبر کا داخلہ سامنے ہو۔ اسی زمین کے نیچے جانا ہے، مل جل کر چلیں، ایک آدمی بات کرے ۔ کامیاب ہے وہ بات کرنے والا جو مختصر بات کر کے آدمی کو مسجد میں بھیج دے,"بھائی ہم مسلمان ہیں، ہم نے کلمہ لاالہ اللہ محمد رسول اللہ پڑھا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اللہ پالنے والے ہیں۔ نفع و نقصان، عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم اللہ کے حکم پر حضرت محمد ﷺ کے طریقے پر زندگی گزاریں گے، اللہ راضی ہو کر ہماری زندگی بنا دیں گے، ہم سب کی زندگی اللہ جل شانہ کے حکم کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے طریقے پر آجائے۔ اس کے لئے بھائی مسجد میں کچھ فکر کی بات ہو رہی ہے_,*
*"_ نماز پڑھ چکے ہوں تو بھی اٹھا کر مسجد میں بھیج دیں۔*

*"❀_ (ضرورت ہو تو آگے نماز کو بھی عنوان بنالیں ) اللہ کا سب سے بڑا حکم نماز ہے ۔ نماز پڑھیں گے اللہ روزی میں برکت دیگا. گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔ دعاؤں کو قبول فرمالیں گے۔ (بشارتیں سنائی جائیں وعیدیں نہیں) نماز کا وقت جا رہا ہے مسجد میں چلے_,"*
*"_ امیر کی اطاعت کرتے ہوئے واپسی میں استغفار کرتے ہوئے آنا ہے ۔*
 
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                *☞ __گشت کا طریقہ :-*

*"❀_ گشت کے آداب کا مذاکرہ کرنے کے بعد دعا مانگ کر چل دیں، گشت میں 10 آدمی جائیں، مسجد کے قریب مکانات پر گشت کر لیں۔ مکانات نہ ہوں تو بازار میں گشت کر لیں، جماعت میں زیادہ آدمی ایسے ہوں جو گشت میں اصولوں کی یا بندی کرلیں،*

*"❀_ مسجد میں دو تین آدمی چھوڑ دیں۔ نئے آدمی زیادہ تیار ہو جائیں تو ان کو بھی سمجھا کر مسجد میں مشغول کر دیں,*

*"❀_ مسجد میں ایک ساتھی اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول رہے ۔ ایک آنے والوں کا استقبال کرے ۔ ضرورت ہو تو وضو کروا کر نماز پڑھوا دے اور ایک ساتھی آنے والوں کو نماز تک مشغول رکھے۔ اپنی زندگی کا مقصد سمجھائے۔*

*"❀_ پونے گھنٹے گشت ہو۔ نماز سے سات آٹھ منٹ پہلے گشت ختم کر دیں سب تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز میں شریک ہوں،*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
           *☞ __ مطالبات اور تشکیل:-*

*"❀_ امطالبہ اور اگر شکیل کے وقت محنت ساری دعوت کا مغز بنتی ہے، اگر مطالبوں پر جم کر محنت نہ ہوئی تو پھر کام کی باتیں رہ جائیں گی اور قربانی وجود میں نہ آئے گی تو کام کی جان نکل جائے گی ۔*

*"❀_ دعوت دینے والا ہی مطالبہ کرے۔ ایک آدمی کھڑے ہو کر ان کے نام لکھے، نام لکنے والا مستقل تقریر شروع نہ کرے۔ ( یہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ نام لکھنے والا ساتھی بھی اپنی بات شروع کر دیتا ہے اور ٥-١٠ منٹ لے لیتا ہے، جس سے مجمے میں بیٹھے ہوۓ لوگوں پر ایک بوجھ سا لگتا ہے، بہت سے اٹھ کر جانے بھی لگ جاتے ہیں) ایک دو جملے ترغیبی کہہ سکتا ہے، لیکن بات شروع نہ کرے،*

*"❀_ پھر آپس میں ایک دوسرے کو آمادہ کرنے کو کہا جائے۔ فکر کے ساتھ اپنے قریب بیٹھنے والوں کو تیار کریں, اعذار کا دل جوئی اور ترغیب کے ساتھ حل بتائیں، نبیوں اور صحابہ کی قربانیوں کے قصوں کی طرف اشارے کریں اور پھر آمادہ کریں،*

*"❀_ آخر میں مقامی جماعت بنا کر ان کے ہفتے کے دو گشت روزانہ تعلیم، تسبیحات، مہینے کے تین یوم وغیرہ کا نظم طے کرائیں۔*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ __ دعوت کا انداز :-*

*"❀_ دعوت میں انبیاء علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اللہ جل شانہ نے جو مدردیں فرمائیں ہیں وہ تو بیان کی جائیں اور جو ہمارے ساتھ مددیں ہوئیں ان کو بیان نہ کیا جائے ۔*

 *"❀_دعوت میں فضائے حاضرہ کی باتیں نہ کی جائیں ۔ امت میں جو ایمانی، عملی، اخلاقی کمزوریاں آچکی ہیں ان کے تذکرے سے بہتر ہے کہ اصلی خوبیوں کی طرف یعنی جو بات ( ایک مسلمان کے اندر) پیدا ہونی چاہیئے اس کی طرف متوجہ کریں ۔*
        
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ __ تعلیم کا عمل :-*

*"❀_ تعلیم میں دھیان عظمت محبت، ادب اور توجہ کے ساتھ بیٹھنے کی مشق کی جائے، سہارا نہ لگایا جائے ۔ با وضو بیٹھنے کی کوشش ہو، طبیعت کے بہانوں کی وجہ سے تعلیم کے دوران نہ اٹھا جائے ۔ باتیں نہ کی جائیں۔*

*"❀_ اگر اس طرح بیٹھیں گے تو فرشتے اس مجلس کو ڈھانک لیں گے، اہل مجلس میں طاعت کا مادہ پیدا ہو گا۔ عظمت کی مشق سے حدیث پاک کا وہ نور دل میں آئیگا جس پر عمل کی ہدایت ملتی ہے۔*

*"❀_ تعلیم میں بیٹھتے ہی آداب اور مقصد کی طرف متوجہ کیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر دین کی طلب پیدا ہو جائے ۔ فضائل قرآن مجید پڑھ کر تھوڑی دیر کلام پاک کے ان سورتوں کی تجوید کی مشق کی جائے جو عموماً نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں، الحیات، دعائے قنوت وغیرہ کا مذاکره وتصیح اجتماعی تعلیم میں نہ ہو، انفرادی سیکھنے سکھانے میں ان کی تصحیح کریں۔*

*"❀_ اللہ پاک توفیق دے تو ہر کتاب میں سے تین چار صفحے پڑھے جائیں, تعلیم میں اپنی طرف سے تقریر نہ ہو۔ حدیث شریف پڑھنے کے بعد دو تین جملے ایسے کہ دیے جائیں کہ اس عمل کا جذبہ وشوق ابھر آئے ۔*

*"❀_ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب دامت بر کاتہ کی تالیف فرموده، فضائل قرآن مجید، فضائل نماز، فضائل تبليغ ، فضائل ذكر، فضائل صدقات، حصہ اول دوم ، فضائل رمضان، فضائل حج (ایام رمضان و حج میں) اور مولانا احتشام الحسن صاحب کاندھلوی دامت بر کاتہ کی "مسلمانوں کی موجودہ پستی کا واحد علاج" صرف یہ کتابیں ہیں جنکو اجتماعی تعلیم میں پڑھنا اور سننا ہے اور تنہائیوں میں بیٹھ کر بھی ان کو پڑھنا ہے۔*

*"❀_ کتابوں کے بعد چھ نمبروں کا مذاکرہ ہو۔ ساتھیوں سے نمبر بیان کرائے جائیں۔*

*"❀_ جب تعلیم مشروع کی جائے تو اپنے میں سے دوسر دو ساتھیوں کو تعلیم کے گشت کے لئے بھیج دیا جائے ۔ ۱۵- ۲۰ منٹ بعد وہ ساتھی آجائیں تو دوسرے دو ساتھی چلے جائیں۔ اس طرح بستی والوں کو تعلیم میں شریک کرنے کی کوشش ہوتی رہے۔*

*"❀_ باہر نکلنے کے زمانے میں روزانہ صبح اور بعد ظہر دونوں وقت تعلیم دو تین گھنٹے کی جائے اور اپنے مقام پر روزانہ اسی ترتیب سے ایک گھنٹے تعلیم ہو یا ابتداء میں جتنی دیر احباب جڑ سکیں۔*
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                        *☞ __ مشورہ:-*

*"❀_ کام کے تقاضوں کو سوچنے، ان کی ترتیب قائم کرنے، ان تقاضوں کو پورا کرنے کی شکلیں بنانے اور جو احباب اوقات فارغ کریں ان کی مناسب تشکیل میں اور جو مسائل ہوں انکے لئے احباب کو مشورہ میں جوڑا جائے،*

*"❀_ اللہ جل شانہ کے دھیان اور فکر کے ساتھ دعائیں مانگ کر مشورہ میں بیٹھیں,*

*"❀_ مشورے میں اپنی رائے پر اصرار اور عمل کرانے کا جذبہ نہ ہو, اس سے اللہ کی مددیں ہٹ جاتی ہیں ۔ جب رائے طلب کی جائے امانت سمجھ کر جو بات اپنے دل میں ہو کہ دی جائے۔*

*"❀_ رائے رکھنے میں نرمی ہو، کسی ساتھی کی رائے سے تقابل کا طرز نہ ہو۔ میری رائے میں میرے نفس کے شرور شامل ہیں، یہ دل کے اندر خیال ہو۔ اگر فیصلہ کسی دوسری رائے پر ہو گیا تو اس کی خوشی ہو کہ میرے شرور سے حفاظت ہوگئی اور اگر اپنی رائے پر فیصلہ ہو جائے تو خوف اور زیادہ دعائیں مانگی جائیں۔*

*"❀_ ہمارے ہاں فیصلے کی بنیاد کثرت رائے نہیں ہے اور ہر معاملہ میں ہر ایک سے رائے لینا بھی ضروری نہیں ہے۔ دل جوئی سب کی ضروری ہے۔*

*"❀_ امیر کو اس بات کا یقین ہو کہ ان احباب کی فکر اور مل کر بیٹھنے کی برکت سے اللہ جل شانہ صحیح بات کھول دیں گے۔ امیر اپنے آپ کو مشورے کا محتارج سمجھے۔ رائے لینے کے بعد غور وفکر سے جو مناسب سمجھ میں آتا ہو وہ کہہ دے۔ بات اس طرح رکھے کہ کسی کی رائے کا استخفاف نہ ہو۔ اگر طبیعتیں مختلف ہوں تو اس بات پر شوق و رغبت کے ساتھ آمادہ کرے اور ساتھی امیر کی بات پر ایسے شوق سے چلیں جیسے کہ ان کی ہی رائے طے تے پائی ہے، اسی میں تربیت ہے،*

*"❀_ اگر اس کے بعد عملاً ایسی شکل نظر آئے کہ ہماری رائے بھی زیادہ‌ مناسب تھی پھر بھی ہرگز طعنہ نہ دیا جائے یا اشارہ بھی نہ کیا جائے ۔ اسی میں خیبر کا یقین کیا جائے۔ جو امیر کو طعنہ دے اس کے لئے سخت وعید آئی ہے۔
     
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                  *☞ _ ہفتہ واری اجتماع :-*

*"❀_ جب محلوں کی مساجد میں ہفتوں کی دوگشتوں کے ذریعے فی گھر ایک آدمی تین چلے کے لئے نکلنے کی آواز لگ رہی ہوگی، تعلیم اور تسبیحات پر احباب جڑرہے ہوں گے، ہر مسجد سے تین دن کے لئے جماعتیں نکالنے کی کوششیں ہو رہی ہوں گی تو شب جمعہ کا اجتماع صحیح نہج پر ہوگا اور کام کے بڑھنے کی صورتیں بنیں گی۔*

*"❀_ جمعرات کو عصر کے وقت سے محلوں کی مساجد کے احباب اپنی اپنی جماعتوں کی صورت میں بستر اور کھانا ساتھ لیکر اجتماع کی جگہ ( مرکز ) پر پہنچیں، مشورے سے ایسے احباب سے عموماً دعوت دلوائی جائے جو محنت کے میدان میں ہوں اور جن کی طبیعت پر کام کے تقاضے غالب ہوں۔*

*"❀_ بہت ہی فکر و اہتمام سے تشکیلیں کی جائیں۔ اگر اوقات وصول نہ ہوں تو رات کو بھی محنت کی جائے۔ رو رو کر مانگا جائے۔ صبح کو جماعتوں کی تشکیل کر کے ہدایات دے کر روانہ کیا جائے،*

*"❀_ تین دن کی محلوں سے تیار ہو کر آئی ہوئی جماعتوں کو عموماً سات آٹھ میل تک بھیجی جائیں۔ ہر شب جمع سے تین چلوں اور چلوں کی جماعتوں کے نکلنے کا رُخ پڑنا چاہیے،*

*"❀_ اگر شب جمعہ میں خدا نخواستہ سب تقاضے پورے نہ ہو سکے تو سارے ہفتے اپنے محلوں میں، پھر اس کے لئے کوشش کی جائے اور آئندہ شب جمعہ میں محلوں سے تقاضوں کے لئے لوگوں کو تیار کر کے لایا جائے ۔*
  
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
 *☞ __ کام کی نزاکت اور اس کا علاج:-*

*❀_ بھائی دوستو یہ یہ کام بہت نازک ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محنت فرمائی۔ اس محنت سے سارے انسانوں کی ساری زندگی کے کمانے، کھانے، بیاہ شادی میل ملاقات اور عبادات معاملات وغیرہ کے طریقوں میں مکمل تبدیلیاں آئیں، تو آپ ﷺ نے خود اس محنت کے کتنے طریقے بتلائے ہوں گے ؟*

*❀_ ہمیں ابھی یہ کام کرنا نہیں آتا اور نہ ابھی حقیقی کام شروع ہوا ہے ۔ کام اس دن شروع ہو گا جب ایمان و یقین اللہ کی محبت اللہ کے دھیان، آخرت کی فکر، اللہ کا خوف و خشیتہ ، زہد و تقویٰ سے بھرے ہوئے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی اخلاق سے مزین ہو کر اللہ کی رضا کے جذبے سے معمور ہو کر اللہ کی راہ میں جان دینے کے شوق سے کھنچے کھنچے پھریں گے ۔*

*❀_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔" اللہ رحم کرے خالد ( بن ولید رضی اللہ عنہ) پر اس کے دل کی تمنا صرف یہ تھی کہ حق اور حق والے چمک جائیں اور باطل اور باطل والے مٹ جائیں اور کوئی تمنا ہی نہ تھی_,*

*❀_ ابھی جو ہم کو کام کی برکتیں نظر آ رہی ہیں وہ کام شروع ہونے سے پہلے کی برکتیں ہیں، جیسے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت سے ہی برکتوں کا ظہور شروع ہوا تھا لیکن اصل کام اور اصل برکتیں چالیس سال بعد شروع ہوئیں ۔*

*"❀_ابھی تو اس کے لئے محنت ہو رہی ہے کہ کام کرنے والے تیار ہو جائیں۔ اللہ جل شانہ کام ان سے لیں گے اور ہدایت پھیلنے کا ذریعہ ان کو بنائیں گے جن کی زندگی اپنی دعوت کے مطابق بدلے گی۔ جن کی زندگیوں میں تبدیلی نہ آئے گی اللہ جل شانہ ان سے اپنے دین کا کام نہ لیں گے، یہ نبیوں والا کام ہے ۔* 
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *☞ __اصول اور صحبت:-*

*"❀_ اس کام میں اگر اپنے آپ کو اصول سیکھنے کا محتاج نہ سمجھا گیا اور اصولوں کے مطابق کام نہ ہوا تو سخت فتنوں کا خطرہ ہے۔*

*"❀_ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب باہر ملکوں میں کام شروع کرنیکا ارادہ فرمایا تو پہلے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین دن تک ترغیب دی اور پھر فرمایا کہ جس طرز پر یہاں کام ہوا بالکل اسی طرز پر باہر جا کر بھی کام کرنا ہے، اس کام کی نوعیت یہی ہے۔*

*"❀_ مقام، زبان، معاشرت موسم وغیرہ کے اعتبار سے اس کام کے اُصول نہیں بدلتے، اس کام کی نہج اور اصولوں کو سیکھنے اور ان پر قائم رہنے کیلئے اس فضا میں آنا اور بار بار آتے رہنا انتہائی ضروری ہے، جہاں حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے جان کھپائی تھی،*

*"❀_ اور ان کے ساتھ اختلاط بھی بہت ضروری ہے جو اس جدو جہد میں حضرت رحمۃ اللہ کے ساتھ تھے اور جب سے اب تک اس فضا میں اور کام میں مسلسل لگے ہوئے ہیں، اس کے بغیر کام کا اپنے نہج پر اور اصولوں پر قائم رہنا بظاہر مکن نہیں۔*.

*"❀_ اس لئے( دعوت کا ) کام کرنے والے احباب کو ایسی فضا میں اہتمام سے نوبت بہ توبت بھیجتے رہیں۔*
         
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
         *☞ __نقشوں کے بجائے مجاہدہ:-*

*"❀_ تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے زمانے میں کسی نہ کسی نقشے کے مقابلے پر آ اور بتایا کہ کامیابی کا اس نقشے سے بالکل تعلق نہیں ہے ۔ کامیابی کا تعلق براہ راست اللہ جل شانہ کی ذات عالی سے ہے ۔*

*"❀_ اگر عمل ٹھیک ہوں گے۔ اللہ جل شانہ چھوٹے نقشے میں بھی کامیاب کر دیں گے اور عمل خراب ہوں گے اللہ جل شانہ بڑے سے بڑے نقشے کو توڑ کر ناکام کر کے دکھا ئینگے۔*

*"❀_ کامیاب ہونے کے لئے اس نقشے میں عمل ٹھیک کرو، ہر نبی نے اپنے رائج الوقت نقشے کے مقابلے پر محنت کی اور حضر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام اکثریت حکومت، مال ، زراعت اور صنعت کے نقشوں کے مقابلے پر تشریف لائے۔ آپ کی محنت ان نقشوں سے نہیں چلی۔ آپ کی محنت مجاہدوں اور قربانیوں سے چلی ہے۔ باطل تعیش کے نقشے سے پھیلتا ہے تو حق تکلیفیں اٹھانے سے پھیلتا ہے، باطل ملک و مال سے چمکتا ہے تو حق فقر و غربت کی مشقتوں میں چمکتا ہے،*

*❀"_ ہمیں اس کام کے ذریعہ امت میں مجاہدہ اور قربانی کی استعداد پیدا کرنی ہے ۔ اس کام کے لئے بہت بڑا خطرہ یہ ہے کہ اس کو نقشوں پر منحصر کر دیا جائے، اس سے کام کی جان نکل جائے گی ۔ اس کام کی حفاظت اس میں ہے کہ کام کرنے والے اس کام کے لئے تمام میسر نقشوں کو بھی قربان کرتے ہوئے مجاہدے والی شکلوں کو قائم رکھیں اور کسی صورت میں مجاہدے والی شکلوں کو ختم نہ ہونے دیں ۔*

*"❀_ غریبوں میں اپنی محنت کو بڑھایا جائے۔ پیدل جماعتیں چلائی جائیں۔ لوگ آئیں گے کہ یہ ہمارا پیسہ دین کے کام میں خرچ کر لیجئے، پھر نقشہ کی قربانی دینی ہوگی، کہدیجئے کہ جناب یہاں اس کام میں خرچ کرنے کا صحیح اور ایک طریقہ و جذ بہ سکھایا جاتا ہے، پھر محل تلاش کر کے خود ہی خرچ کر دیجیے گا۔ یہاں تو طریقہ سیکھ لیجئے۔*

*"❀_ اس کام کی تعلیم کیلئے رواجی طریقوں، اخبار اشتہار پریس وغیرہ اور رواجی الفاظ سے بھی پورا پرہیز کی ضرورت ہے۔ یہ کام سارا غیر رواجی ہے۔ رواجی طریقوں سے رواج کو تقوت پہنچے گی اس کام کو نہیں۔ اصل کام کی شکلیں، دعوت، گشت، تعلیم، تشکیل وغیرہ ہیں، مشوروں کی ضرورت ہو تو مناسب دوستوں کو الگ کر کے مشورہ کر لیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ مشورہ کرنے والوں کا کسی موقعہ پر عمومی آعمال سے جوڑ نہ رہے ۔*
      
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ _کالج کے طلباء میں دعوت کا کام:-*

*"❀_ کالج کے طلباء میں اس کام کو اٹھایا جائے، ہوسٹلوں میں مقامی کام کے لئے جماعتیں بنائی جائیں۔ ایک گشت ہوسٹل والے اپنے ہوسٹل میں کریں اور ہفتہ کا دوسرا گشت باہر کسی محلہ میں یا دوسرے ہوسٹل میں کریں۔*

*"❀_ قریب کے محلوں کی جماعتیں بھی ہوسٹلوں میں جا کر گشت کریں۔*

*"❀_ہوسٹل والے احباب اپنی روزانہ تعیم اور مہینے میں تین یوم کی ترتیب بھی اٹھائیں۔*

      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
      *☞ _مستورات میں کام کی نوعیت :-*

*"❀_مستورات میں کام کی نزاکتیں اور بھی زیادہ ہیں جبکہ بے پردگی کا احتمال ہو۔*

*"❀_ عام اجتماعت میں مستورات کو بالکل نہ لایا جائے۔ اپنے اپنے محلہ میں کسی پردہ دار مکان میں قریب قریب کے مکانات سے عورتیں کسی روز جمع ہو کر تعلیم کر لیا کریں۔*

*"❀_ اس کی ابتداء اس طرح کریں کہ مرد جو بات اجتماعات، دعوت تعلیم وغیرہ سے سن کر جائیں، اپنے گھر والوں کو سنائیں۔ اس سے انشاء اللہ تھوڑے عرصے میں ذہن بننا شروع ہو جائیگا،*

*"❀_ پھر محلوں میں تعلیم شروع ہونے کے بعد ایسا ہو سکتا ہے کہ سارے شہر کی مستورات کا ہفتے میں ایک ایسی جگہ اجتماع ہو جہاں پردہ کا اہتمام ہو، وہاں تعلیم کے بعد پھر کوئی آدمی پردے کے ساتھ بیان کرے، کبھی کبھی ایک یوم تین یوم کے لئے قرب وجوار کے لئے جماعتیں بنائی جائیں،*

*"❀_ مستورات کی جماعت کے ساتھ ان کے خاوند ہوں ورنہ ہر عورت کے ساتھ اسکا شرعی محرم ساتھ ہو۔ پردے کے ساتھ جائیں۔ پردہ دار مکان میں ٹھہریں۔ مرد مسجد میں ٹھہر کر کام کریں،*
    
      ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                      *☞ _آخری بات : -*

*"❀_ حضور اقدس ﷺ نے جن مقامات سے محنت اٹھائی تھی انہی مقامات کے لوگوں کو اس محنت پر اٹھانے اور انہی راستوں سے اللہ کی راہ کی ملکوں والی نقل و حرکت کے زندہ ہونے کا ذریعہ یہ عمرے کا سفر بن سکتا ہے۔*

*❀"_ ہر جگہ کے پرانوں سے اختلاط اور اس کام میں یکجہتی پیدا ہونے اور اصولوں کے تفصیل سے سامنے آنے کا یہ بہترین موقع ہے۔*

*"❀_ یہ خط کچھ اصول لکھنے کی کوشش میں طویل ہو گیا۔ آپ حضرات اس کے ہر جز اور ہر لفظ کو غور سے پڑھنے کی کوشش فرمائیں گے تو انشاء اللہ بہت زیادہ نفع کی توقع ہے۔*

*"❀_ آپ حضرات اپنے یہاں کے حالات سے ہر پندرہویں روز مطلع فرما دیا کریں تو‌ ہمیں تقویت ہوتی رہے۔*

*"❀_ تمام احباب کو سلام مسنون, فقط والسلام -بندہ محمد یوسف,*

*💤_ ایک اہم مکتوب- حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃاللہ ( تأليف مولانا سید محمد ثانی حسنی رحمۃ اللہ)*
 ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
 https://haqqkadaayi.blogspot.com  
*👆🏻ہماری پچھلی پوسٹ سائٹ پر دیکھیں,* 

Post a Comment

0 Comments