Zakaat Ke Masa'il -(Urdu)

*🏵﷽ 🏵*

 │ ✦ *مسائل زکوٰۃ* ✦ ┗───────────────🏵
*★_ زکوٰۃ کے معنی :- زکوٰۃ کا مطلب ہے پاکیزگی، بڑھوتری اور برکت۔*
*"_ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: -*
*"_ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ_,"*
*"_ ان کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ ان کو پاک کرے اور برکت کرے اس کی وجہ سے اور ان کے لیے دعا کرو۔ (سورہ توبہ 103)*

*★_ شرعی استلاح میں مال کے اس خاص حصے کو زکوٰۃ کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فقیروں، مسکین وغیرہ کو دے کر ان کو مالک بنا دیا جائے۔*

 *®_مسائل زکوٰۃ- حضرت مفتی نجیب قاسمی صاحب*
 
*★_ زکوٰۃ کا حکم:-_ توحید و رسالت اور نماز کے بعد اسلام کا تیسرا بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ قرآن کریم میں 70 سے زائد مقامات پر نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ایک ساتھ دیا گیا ہے, جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام بہت قریب ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت کا منکر دین اسلام سے خارج ہے، نماز کی طرح زکوٰۃ کا حکم بھی اگلی شریعت میں موجود تھا۔*

*★_ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہے:-*
*"_وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا_,*
*"_ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں۔ (سورہ مریم 55)*

 *®_فقہ العباد-270،* 

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★"_ زکوۃ کے پہلو :-*

*"★_ نیکی اور فائدہ کے لحاظ سے زکوہ میں تین پہلو ہیں:-*
*"_ (۱) اپنے کمایا ہوا مال اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق اللہ کے بندوں پر خرچ کرتا ہے تو گویا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مالی نذرانہ پیش کر کے عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے کہ یہ مال در حقیقت آپ کا عطیہ تھا جو میں نے آپ کو راضی کرنے کے لئے خرچ کیا۔*

*"★_ (۲) زکوہ کے ذریعہ غریب و محتاج بندوں کی خدمت واعانت ہوتی ہے اس طرح ان کی خوب دعائیں حاصل ہوتی ہیں۔*

*"★_ (۳) زکوۃ کا معنی پاکی کے ہیں، جس طرح میلا کپڑا دھونے سے پاک ہو جاتا ہے، میلا جسم نہانے سے پاک صاف ہو جاتا ہے اسی طرح زکوۃ نکالنے سے وہ مال پاک وصاف ہو جاتا ہے اور خود ز کوۃ دینے والے کو بھی پاکی حاصل ہوتی ہے، اس کے اندر سے مال کی محبت حرص, بخل وغیرہ اندرونی بیماروں کا علاج ہوتا ہے۔ قوله تعالى: ﴿ _خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا ﴾(سوره توبه: ۱۰۳/۹)*
*★"_ اے نبی! آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوۃ ) وصول کیجئے، جس سے ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو۔“*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_زکوٰۃ ادا کرنے کی فضیلت:-*
*"★_ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو کھرچ کرتے ہیں, ان کے خرچ کیے ہوئے مالوں کی حالت ایسی ہے' جیسے ایک دانے کی حالت، جس سے ( فرض کرو) سات بالے (اور) ہر بال کے اندر سو دانے ہوں اور یہ افزونی خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالی بڑی وسعت والے ہیں جاننے والے ہیں,*

*★"_جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں, پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو (اس پر) احسان جتاتے ہیں اور نہ( برتاؤ) سے اس کو آزار پہنچاتے ہیں, ان لوگوں کو ان کے عمل کا ثواب ملے گا، ان کے پروردگار کے پاس اور نہ ان پر کوئی خطرہ ہوگا اور نہ یہ مغموم ہوں گے_,"*
*®_ ( البقرہ 261- 262)*

*★"_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک کھجور کے دانے کے برابر پاک مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف پاک ہی کو قبول فرماتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دست میں لے کر قبول فرماتے ہیں، پھر اس کے مالک کے لئے اس کی پرورش فرماتے ہیں جس طرح کی تم میں سے ایک شخص اپنی گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ (ایک کھجور کے دانے کا صدقہ قیامت کے دن) پہاڑ کے برابر ہو جائے گا _,"*
*"_®_صحیح البخاری و مسلم،*

*®_ آپ کے مسائل اور ان کا حل -٣/٣٤١,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر وعید:-*
*"✷_ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :- جو لوگ سونا چاندی جمع کر کر رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے سو آپ ان کو ایک بڑی درد ناک سزا کی خبر سنا دیجئے کہ اس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں (اول) تپایا جاوے گا پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا۔ یہ وہ ہے جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کر کے رکھا تھا سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو ۔ " ( (التوبه - ۳۵- ۳۴) ترجمہ)*

*"✷_ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کی آیت ہمیں پڑھ کر سنائی۔ (آیت کا ترجمہ یہ ہے) اور ہر گز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لئے اچھی ہوگی بلکہ یہ بات ان کی بہت بری ہے, وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنا دیئے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔ ( آل عمران پ ۴ آیت ۱۸۰ ترجمہ )*
*®_( رواه الترندی والنسائی و این ماجه ، مشکوة ص ۱۵۷ کتاب الزکوة )*

*✷"_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ ، " زکوٰۃ کا مال جب دوسرے مال سے مخلوط ہو تو ضرور اس کو تباہ کر دے گا _," ( مسند صافئ )*

*®_ آپ کے مسائل اور ان کا حل - ٣/٣٤٣,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★_ زکوٰۃ کس پر فرض ہے-★*

*★_زکوٰۃ بالغوں پر واجب ہے، نابالغ بچوں کے مال پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ نابالغ کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ (اگر نابالغ کے پاس جائیداد ہو)*

*★_ مجنون، پاگل کے مال پر زکوٰۃ نہیں۔*

*★_زیورات عورت کی ملکیت ہیں اور زکوٰۃ دینے کی ذمہ داری بھی مالک ہی پر ہوگی، اگر شوہر اس کی درخواست پر زکوٰۃ ادا کرے گا تو ادا ہوجائے گی۔ میاں بیوی کی زکوٰۃ کا حساب الگ الگ ہے، فوت شدہ شوہر کی زکوٰۃ بیوہ کی ذمہ داری نہیں ہے، اگر ورثاء ادا کرے تو اچھی بات ہے۔*

*★_ اگر نابالغ لڑکی کو زیورات کا مالک بنا دیا جائے تو اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں جب تک لڑکی بالغ نہ ہو جائے۔ محض یہ کہنا یا یہ نیت کرنا کہ زیور بچی کو جہیز کے طور پر دیا جائے گا، زکوٰۃ میں سے مشتبہ نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک لڑکی کو زیورات کا مالک نہ بنایا جائے اور لڑکی کو مالک بنانے کے بعد ان زیورات کو خود استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا _,"*

 *📓آپ کے مسائل اور ان کا حل -3/344،*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★ زکوٰۃ کس پر فرض ہے ★*

*"✷_ ان چیزوں پر زکوٰۃ فرض ہے:-*
*"_ 1_ جب سونا ساڑھے 7 تولہ (یعنی 87.479 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔*
*"_ 2 _ چاندی جبکہ یہ ساڑھے 52 تولہ یعنی (612.35 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔*
*"_ 3 _ روپیہ پیسہ اور مال تجارت جبکہ اس کی قیمت ساڑھے 52 تولہ چاندی (612.35 گرام) کے برابر ہو۔*

*✷_اگر کسی کے پاس تھوڑا سا سونا، کچھ چاندی، کچھ نقدی یا تجارت کا کچھ سامان ہو اور ان کی مجموعی (ان سب کی قیمت جوڑنے کے بعد) مالیات ساڑھے 52 تولے چاندی کے برابر ہو تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔*

*"✷_ اسی طرح اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا ہے کچھ نقدی روپیہ ہے ، یا کچھ چاندی ہے، کچھ مال تجارت ہے، تب بھی ان کو ملا کر دیکھا جائے گا کہ ساڑھے 52 تولہ چاندی کی قیمت بنتی ہے یا نہیں۔ اگر بنتی ہے تو زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔*

*✷✔ خلاصہ یہ ہے کہ جب سونے، چاندی اور نقدی میں کسی دو یا دو سے زائد چیزوں کی قیمت چاندی کی مقدار کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔*

*"✷_ 4_ ان (اوپر مذکورہ) چیزوں کے علاوہ چرنے والے چوپایوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ ان میں بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ کے الگ الگ نصاب ہیں، مویشی پالنے والے اہل علم معتبر علماء حضرات سے معلوم کریں۔ (اس میں تفصیل زیادہ ہے اس لیے اس کو نہیں لکھا گیا)*

*"✷_ 5_ عشری زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ جسے عشر کہتے ہیں۔ (تفصیل کا ذکر آگے آئے گا انشاء اللہ)*

 *📓 آپ کے مسائل اور ان کا حل -3/345،*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷_ مال تجارات میں کیا داخل ہے ؟★*

*✷_ مال تجارات میں ہر وہ چیز شامل ہے جسے آدمی نے بیچنے کی نیت سے خریدا ہو اور یہ نیت باقی ہو۔*

*✷_ لہٰذا جو لوگ سرمایہ کاری کے لیے پلاٹ خریدتے ہیں اور شروع ہی سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جب انہیں اچھی رقم ملے گی تو وہ اسے بیچ کر منافع کمائیں گے تو اس پلاٹ پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔*

*✷_لیکن اگر پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے کہ اگر موقع ہوگا تو اس پر رہائش کے لیے مکان بنایا جائے گا، یا اگر موقع ہوگا تو کرایہ پر چھوڑ دیا جائے گا یا اگر موقع ہوگا تو اسے بیچ دیا جائے گا، یعنی کوئی واضح نیت نہیں ہے، بلکہ ویسے ہی خرید لیا ہے تو ایسی صورت میں اس پلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔*

 *📓 مسائل زکوٰۃ (مفتی محمد نجیب قاسمی)* 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷_زکوٰۃ کے حساب کے لئے تاریخ کا تعین،*

*★_ اکثر لوگ زکوٰۃ صرف رمضان میں نکالتے ہیں اور اسی میں حساب کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ ادا کرنے میں فضیلت تو ہے، لیکن اپنے مال کا حساب بھی رمضان میں ہی کیا جائے ؟ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں کیونکہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ماہ قمری کی جس تاریخ کو آپ صاحب نصاب ہوئے وہی ہمیشہ آپ کی زکوٰۃ کے حساب کے لیے متعین تاریخ ہوگی۔*

*★_ اسی تاریخ میں آپ کے پاس جو بھی سونا چاندی مال تجارت اور نقدی جو کچھ بھی ہو خواہ ایک دن پہلے ہی ملا ہو تو سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ زکوٰۃ کا حساب اسی تاریخ کو ہوگا, ادائیگی چاہے جب کریں _,"*

*★_اگر درمیانی سال میں حساب کے مطابق مال بالکل نہ رہا تو اب پھر دوبارہ جس تاریخ میں صاحب نصاب ہو نگے وہ تاریخ طے ہوگی،*

*★_ اگر صاحب نصاب بننے کی قمری تاریخ یاد نہ ہو تو غور و فکر کے بعد جس تاریخ کا زیادہ اعتماد ہو وہ متعین ہوگی، اگر کسی تاریخ کے بارے میں یقین نہیں ہے، تو خود ایک مخصوص تاریخ طے کریں۔ اس میں انگریزی سال سے حساب لگانا درست نہیں۔*

 *📓احسن الفتاویٰ 4/205، فقہ العبادات 147،*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ زکوٰۃ کی مقدار:-*

*✷"_ روپے کے حساب سے سونا چاندی، مال تجارت کی قیمت لگا کر اس میں نقدی جمع کر کے جب مجموعی مالیت معلوم ہوگئی۔ تو اب زکوۃ کی مقدار یہ ہے کہ چالیس روپے پر ایک روپیہ۔ سو روپے پر ڈھائی روپے،* 

*✷_ سونا چاندی ، مال تجارت میں اس دن کی قیمت ( بازار بھاؤ ) کے اعتبار سے حساب ہوگا _,"*

*✷"_سونا چاندی پر زکوة:- سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوۃ واجب ہے۔ زیور، برتن، ٹھپہ، اصلی زری، سونے چاندی کے بٹن، ان سب پر زکوۃ فرض ہے۔ اگر چہ ٹھپہ، گونہ اور زری کپڑے میں لگے ہوئے ہوں ۔*

*"✷_ تنبیہ : بعض لوگوں کو خیال ہوتا ہے، سونے، چاندی کے استعمالی زیورات وغیرہ پر زکوۃ فرض نہیں حالانکہ شرعاً زیورات استعمالی ہو یا غیر استعمالی سب پر زکوۃ فرض ہے۔*

*✷"_ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون اپنی لڑکی کو لیکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اسکی لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے موٹے بھاری کنگن تھے، آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم ان کنگنوں کی زکوٰۃ دیتی ہو، اس نے عرض کیا کہ میں اس کی زکوٰۃ نہیں دیتی، تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہارے لئے یہ بات خوشی کی ہوگی کہ اللہ تعالی تمہیں کنگنوں کی (زکوٰۃ نہ دینے ) وجہ سے قیامت کے دن آگ کے کنگن پہنائے ؟ اللہ تعالی کی اس بندی نے دونوں کنگن ہاتھ سے اتار کر رسول اللہ لی کے سامنے ڈال دیئے ، اور عرض کیا اب یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہیں_,"*
*®_۔ (سنن ابی داؤ دجامع ترمذی)*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ کمپنیوں کے شیئرز پر زکوٰۃ:-*

*"✷_ملوں اور کمپنیوں کے شیئرز پر بھی زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ شیئرز کی قیمت بقدر نصاب ہو یا اس کے علاوہ دیگر مال سے شیئرز ہولڈر مالک نصاب بن جاتا ہے۔ البتہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں چونکہ مشینری اور مکان اور فرنیچر کی لاگت بھی شامل ہوتی ہے جو در حقیقت زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے, اس لئے اگر کوئی شخص کمپنی سے دریافت کر کے جس قدر رقم اس کی مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ میں لگی ہوئی ہے اس کو اپنے حصہ کے مطابق شیئرز کی قیمت میں سے کم کر کے باقی کی زکوۃ دے تو یہ بھی جائز ہے۔*

*✷"_ سال کے ختم پر جب زکوٰۃ دینے لگے اس وقت جو شیئرز کی قیمت ہوگی وہی لگے گی۔*

*✷"_ مل کارخانہ پر زکوٰۃ کی تفصیل:-*

*✷"_ کارخانے اور مل کی عمارت اور مشین وغیرہ پر زکوٰۃ فرض نہیں لیکن اس میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اسی طرح جو خام مال کارخانے میں سامان تیار کرنے کے لئے رکھا ہے اس پر بھی زکوۃ فرض ہے۔*
*®_ (در مختار ، شامی، فقه العبادات- 276,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★"_ پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ_ ★*

*★_ پراویڈنٹ فنڈ میں جو رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اور اس پر ماہانہ یا سالا نہ جو اضافہ کیا جاتا ہے یہ سب ملازم کی خدمت کا وہ معاوضہ ہے جو ابھی اس کے قبضہ میں نہیں آیا ، لہذا وہ محکمہ کے ذمہ ملازم کا قرض ہے۔ زکوٰۃ کے معاملہ میں فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے قرض کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے بعض پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور بعض پر نہیں ہوتی۔ وصول ہونے کے بعد ضابطہ کے مطابق زکوٰۃ واجب ہوگی، جس کی تفصیل یہ‌ ہے:-*

*★_( ۱) _ملازم اگر پہلے سے صاحب نصاب نہیں تھا مگر اس رقم کے ملنے سے صاحب نصاب ہو گیا تو وصول ہونے کے وقت سے ایک قمری سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہوگی بشر طیکہ اس وقت تک یہ شخص صاحب نصاب رہے،*

*★_ اگر سال پورا ہونے سے پہلے مال خرچ ہو کر اتنا کم رہ گیا کہ صاحب نصاب نہ رہا تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی اور اگر خرچ یا ضائع ہونے کے باوجود سال کے آخر تک مال بقدر نصاب بچا رہا تو جتنا باقی بچ گیا صرف اس کی زکوٰۃ واجب ہوگی، جو خرچ ہو گیا اس کی واجب نہ ہوگی۔*

*★_ (۲) اگر یہ ملازم پہلے سے صاحب نصاب تھا تو فنڈ کی رقم چاہے مقدار نصاب سے کم ملے یا زیادہ اس کا سال علیحدہ شمار نہ ہوگا، بلکہ جو مال پہلے سے اس کے پاس تھا جب اس کا سال پورا ہوگا، یعنی پہلے سے موجودہ نصاب کی زکوٰۃ نکالنے کی تاریخ آئے گی تو فنڈ کی وصول شدہ رقم کی زکوۃ بھی اس وقت واجب ہو جائے گی چاہے اس نئی رقم پر ایک دن ہی گزرا ہو۔*

*★_ زکواۃ کی یہ تفصیل امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کے قول پر مبنی تھی، صاحبین رحمہا اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق قرض کی ہر قسم پر زکوٰۃ فرض ہے، لہذا اگر کوئی احتیاط پر عمل کرتے ہوئے گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کر دے تو بہتر ہے۔*

*★_ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ملازم صاحب نصاب ہوا اس وقت سے ہر سال کے اختتام پر حساب کر لیا جائے کہ اب اس کے فنڈ میں کتنی رقم جمع ہے، جتنی رقم جمع ہے اس کی زکوۃ ادا کر دے، اسی طرح ہر‌ سال کرتا ر ہے۔*

 *★"_، اگر اس نے یہ رقم کسی شخص، بینک، بیمہ کمپنی یا کسی اور تجارتی کمپنی یا ملازمین کے نمائندوں پر مشتمل بورڈ کی طرف منتقل کروا دی ہو تو یہ ایسا ہے جیسے خود اپنے قبضہ میں لے لی ہو، کیونکہ اس طرح وہ شخص یا کمپنی اس ملازم کی وکیل ہوگی اور وکیل کا قبضہ شرعاً موکل کے قبضہ کے حکم میں ہے، لہذا جب سے یہ رقم اس کمپنی کی طرف منتقل ہوئی اس وقت سے اس پر بالا تفاق زکوٰۃ واجب ہوگی اور ہر سال کی زکوٰۃ مذکورہ بالا ضابطہ کے مطابق لازم ہوگی۔*

*★_ تجارتی کمپنی کو نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر دینے کی صورت میں جب سے اس پر نفع ملنا شروع ہوگا اس وقت سے نفع پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی ۔*

*★_ بیمہ کمپنی کو یا کسی سودی کاروبار کرنے والی کمپنی کو دینے کی صورت میں نفع حرام ہے۔*

*🗂️ __فقه العبادات- 277,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★_تجارتی پلاٹ پر زکوة _★*

*★_ اگر کوئی شخص تجارت کی نیت سے پلاٹ خریدے اور یہی نیت باقی رہے تو پلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوگی, دوسرے اموال تجارت کے ساتھ ملا کر اس کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے اور اگر دوسرے اموال نہ ہوں تو بھی پلاٹ کی قیمت نصاب کے بقدر ہونے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہے۔ (احسن الفتاوى : ٣٠٥/٤)*

*★مسئلہ: -١, خریدے گئے پلاٹ اور مکان پر خریدتے وقت اس میں تین قسم کی نیتیں ہوتی ہیں۔ کبھی تو یہ نیت ہوتی ہے کہ یہاں مکان بنا کر اس میں رہائش اختیار کریں گے۔ اگر اس نیت سے پلاٹ خریدا ہے تو ایسے پلاٹ پر زکوۃ نہیں۔*

*★_ مسئلہ:-٢_ اسی طرح اگر خریدتے وقت نہ تو فروخت کرنے کی نیت تھی اور نہ خود رہنے کی نیت تھی، اس صورت میں بھی اس پر زکوٰۃ نہیں۔*

*★_ مسئلہ:_٣- جو مکان یا پلاٹ اس نیت سے خریدا جائے کہ اس کو بعد میں فروخت کر دیں گے تو ایسے مکان اور پلاٹوں کی حیثیت تجارتی مال کی ہوگی ۔ اس صورت میں ان کی کل قیمت پر ہر سال جتنی قیمت ہوگی زکوٰۃ فرض ہوگی۔*
*®_ (ردالمحتار (۲۹۸/۲)*

*🗂️_ فقه العبادات- 279,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★_ فکسڈ ڈپازٹ پر زکوۃ _★*

*★_ بینک میں رقم جمع کرانے کا ایک طریقہ فکسڈ ڈپازٹ ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ رقم کو بینک میں ایک مخصوص مدت تین، پانچ یا سات سال کے لیے اس شرط پر رکھتے ہیں کہ مدت مقررہ سے پہلے یہ رقم نا قابل واپسی ہوتی ہے، اس مدت کی تکمیل پر یہ رقم ایک مقررہ شرح سود کے ساتھ واپس مل جاتی ہے،*

*★_ اس پر جو سود ملتا ہے وہ تو ناجائز اور حرام ہونے کی وجہ سے بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، اصل جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ واجب ہے لیکن اس کی ادائیگی وصولی کے ساتھ ہی واجب ہوگی، وصول ہونے سے پہلے ادائیگی واجب نہیں، جائز ہے، لہذا اگر وصولی سے پہلے کسی نے زکوٰۃ ادا کر دی تو بھی ادا ہو جائے گی۔*

*®_(ماخوذاز جدید فقهی مسائل)*

*★_بینک میں جمع شدہ رقوم پر زکوٰۃ _★*

*★_ بینک میں جمع کردہ رقوم پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، سال گزرنے پر دیگر اموال کے ساتھ ان کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے، فکسڈ ڈپازٹ کے علاوہ دیگر اکاونٹس جن میں ہر وقت رقم نکلوانے کا اختیار ہوتا ہے ان میں وصولی کا انتظار نہ کرے۔*

*®_(ماخوذاز احسن الفتاوى: ٣١١/٤)*
*🗂️_ فقه العبادات-279,*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ حج یا مکان یا بیٹی کی شادی کے لئے رکھی ہوئی رقم پر زکوٰۃ:-*
*✷"_اگر کسی شخص نے اتنی رقم جو نصاب تک پہنچتی ہے اس لئے جمع کر کے رکھی ہوئی ہے کہ میں اس سے حج کروں گا یا اس سے مکان خریدوں گا یا بناؤں گا یا اس سے بیٹی کی شادی کروں گا وغیرہ وغیرہ,*
*"_ تو اگر اس رقم پر سال گزرگیا، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، جب تک یہ رقم رکھی رہے گی خرچ نہیں ہو جائے گی اس وقت تک مالک کو ہر سال زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی,*

*✷"_ حج کا ارادہ کرنا، مکان کا خریدنا، بنانا، بیٹی کی شادی وغیرہ یہ سب کام زکوۃ کی ادائیگی کے لئے عذر تصور نہیں ہوں گے۔*
*®_(فتاوی دارالعلوم دیوبند ج٦, بحوالہ در مختار -٧/٢)*

*"✷_ حج کے لئے جمع کرائی ہوئی رقم پر زکوۃ:-*
*"✷_مالدار ہونے کے اعتبار سے زکوٰۃ واجب ہونے کی تاریخیں مختلف ہوتی ہیں، مقررہ تاریخ میں جو مال ملک میں موجود ہو گا اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی ، اب اگر کسی نے حج کے لئے رقم جمع کروائی اور اس کا سال پورا ہو رہا ہے، یکم رمضان کو، تو آمد ورفت کا کرایہ اور معلم وغیرہ کی فیس کے لئے جو رقم دی گئی ہے اس پر زکوۃ نہیں، اس سے زائد جو رقم کرنسی کی صورت میں اس کو واپس ملے گی اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔دوسری رقوم کے ساتھ اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔*
*®_ (ماخوذاز احسن الفتاوى ٢٦٤/٤)*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*❀"_ کرایہ کے لئے خریدے ہوئے مکان اور ڈیکوریشن کے سامان پر زکوة :-*

*❀"_ ایک شخص کے پاس اپنے رہنے کے علاوہ بہت سے مکان ہیں اور ان مکانوں کو کرایہ پر چلانے کے لئے خریدا ہے اور مقصود یہ بھی ہے تا کہ اس کا روپیہ بھی محفوظ رہے تو ایسے مکانات کی قیمت پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی خواہ وہ کتنی ہی قیمت کے ہوں۔ البتہ ان کے کرایہ سے حاصل شدہ رقم نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ جمع ہو اور سال بھی گزر جائے تو اس کی زکوٰۃ دینا ضروری ہوگی۔*

*❀"_ لیکن اگر اس نیت سے خریدا ہے کہ جب قیمت بڑھ جائے گی فروخت کر کے نفع کمائیں گے اس وقت تک کرایہ پر چلتا ر ہے تو پھر قیمت پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔*
*®_ (آپ کے مسائل اور ان کاحل :۳)*

*❀"_ اسی طرح اگر کوئی شخص برتن، شامیانے فرنیچر ، سائکلیں وغیرہ یا کوئی اور سامان کرایہ پر دینے کے لئے خریدتا ہے اور کرایہ پر چلاتا ہے تو ان چیزوں پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔ البتہ کرایہ کی وصول شدہ رقم اگر بقدر نصاب ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس روپے پر زکوٰۃ فرض ہوگی،*

*"❀_ اور اگر دوسرے مال کا نصاب موجود ہے تو کرایہ کی رقم کو اسی مال میں شامل کر دیا جائے گا, اس پر پھر مستقل سال گزرنا ضروری نہیں ہوگا۔*
*®_ (فتاوی قاضيخان ۱۷/۱)*
*🗂️_ فقه العبادات-281,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*"✷_ مقروض پر زکوٰۃ کا حکم:-*

*✷"_اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ جس کے پاس کچھ سونا اور کچھ مال بھی ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہو سکتی ہے لیکن مقروض بھی ہے۔*

*"✷_ تو ایسا شخص اپنی تمام چیزوں کو یعنی سونا چاندی، نقدی، تجارتی مال وغیرہ جو کچھ اس کی ملک میں ہے اس کو جمع کرے پھر دیکھیں کہ قرض منہا کرنے کے بعد اس کے پاس بقدر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم بچتی ہے یا نہیں،*

*✷"_ اگر اتنی رقم بچتی ہو تو اس پر اس زائد بچی ہوئی رقم پر زکوٰۃ فرض ہوگی،*
*"_ اگر بقدر نصاب رقم نہیں بچتی تو اس مقروض پر زکوٰۃ فرض نہیں۔*
*®_ (شرح البداية ١٦٨/٢)*
*🗂️_ فقه العبادات-281,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*"✷_قرض پر دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ:-*

*✷"_ قرض دینا اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پورا کرنا ہے اور یہ بہت اجر و ثواب کا کام ہے، اور قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ قرض دینے والے کے ذمہ لازم ہے لینے والے کے ذمہ نہیں، کیونکہ اس کی مالیت رقم قرض دینے والے کی ملک میں داخل ہے۔*

*✷"_ مسئلہ: اگر کسی نے کچھ رقم قرض دے رکھی ہے، یا فروخت شدہ مال کی قیمت خریدار کے ذمہ باقی ہے، تو اس رقم کی زکوٰۃ مالک پر ہر سال واجب ہوگی، البتہ اختیار ہوگا کہ چاہے تو وصول ہونے سے پہلے زکوٰۃ نکال دے یا پھر جب یہ قرض وصول ہو جائے ( جتنے سال میں بھی وصول ہو ) تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ اکٹھی نکال دے۔*

*🗂️_ فقہ العبادات - 283,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ لڑکیوں کے نام کئے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ کا حکم:-*

*✷"_ بعض لوگ بچیوں کے جہیز کے نام پر زیورات خرید لیتے ہیں، اس پر زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ اگر بچیوں کو مالک نہیں بنایا تو باپ کے ذمہ لازم ہے کہ دیگر اموال کے ساتھ ان زیورات کی زکوٰۃ بھی ادا کرے،*

*✷"_ اگر بچیوں کو مالک بنا دیا تو بلوغ سے پہلے اس مال پر زکوة فرض نہیں، بلوغ کے بعد جو بچی صاحب نصاب ہو گی اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی،*
*®_ (ردالمحتار ٢٥٨/٢)*

*✷"_ لڑکیوں پر زکوٰۃ واجب ہونے کی صورت میں ادائیگی کی دو صورتیں ہیں:-*
*(١)_ یا تو باپ ان کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرے،*
*(٢)_ یا لڑکیاں اپنی طرف سے ادا کریں، اگر ایسی کوئی صورت نہ ہو تو زیورات کا کچھ حصہ فروخت کر کے ادا کر دی جائے۔*

*🗂️_ فقه العبادات- 282,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ چندہ کی رقم پر زکوٰۃ کا حکم:-*

*✷"_اگر کسی ادارہ نے بیوہ یتیم وغیرہ مستحقین پر خرچ کرنے کی نیت سے چندہ کر کے زکوۃ کی رقم اکٹھی کی، وہ رقم نصاب سے زیادہ ہے، سال کے دوران کچھ رقم آتی رہی اور حسب ضابطہ کچھ خرچ ہوتی رہی، سال کے آخر میں بقدر نصاب یا اس سے زیادہ کی بچت رہی، تو اس زکوٰۃ کی بچی ہوئی رقم پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی کیونکہ یہ کل رقم ہی زکوٰۃ کی ہے، اور یہ کسی فرد واحد کی ملک میں داخل بھی نہیں_,"*
*®_ (احسن الفتاوى ٢٩٩/٤ بتغيير يسير)*

*"✷_مرغی خانہ اور مچھلی کے تالاب پر زکوٰۃ :-*

*"✷_ مرغی خانہ اور مچھلی کے تالاب کی زمین، مکان اور متعلقہ سامان پر زکوٰۃ نہیں، مرغیاں اور چوزے خریدتے وقت اگر خود انہی کو بیچنے کی نیت ہو تو ان کی مالیت پر زکوٰۃ ہے، اور اگر ان کے انڈے اور بچے بیچنے کی نیت ہو تو زکوٰۃ واجب نہیں۔*
*®_ (قاضی خان ۱۱۷/۱)*

*✷"_ تالاب میں مچھلیاں یا ان کے بچے خرید کر ڈالے ہوں تو ان کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے، ورنہ نہیں، مرغی خانہ اور تالاب کی آمدنی پر بہر صورت زکوة ہے۔*
*®_(احسن الفتاوى (٣٠٠/٤)*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ مصارف زکوۃ اور اس کی تفصیل:-*

*✷"_ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے شریعت مطرہ نے یہ اصول مقرر فرمایا ہے کہ زکوٰۃ صرف انہی اشخاص کو دی جا سکتی ہے جو مستحق ہوں، اور مستحق زکوٰۃ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم یا اتنی مالیت کا کوئی سامان ضرورت سے زائد نہ ہو۔*
*®_ (ردالمحتار ٣٤٧/٢)*

*"✷_ زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط:-*

*✷"_ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے شرط لازم یہ ہے کہ کسی مستحق شخص کو بلا کسی عوض کے محض للہ فی اللہ مالک بنا کر دے دی جائے، لہذا جن صورتوں میں کسی مستحق کو مالک نہ بنایا جائے ان میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔*
*®_(رد المحتار ٣٤٤/٢)*

*"✷_ مصرف تلاش کرنے میں کوتاہی:-*

*✷"_اس سلسلے میں بعض لوگ یہ کوتاہی کرتے ہیں کہ زکوٰۃ نکالتے تو ہیں لیکن اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صحیح مصرف میں لگ رہی ہے یا نہیں, کہیں ایسا تو نہیں لا پرواہی میں غیرمستحق کو زکوٰۃ دیدی اور سمجھتے رہے اپنے ذمہ فارغ ہو گیا،*.

*✷"_ حالانکہ غیر مستحق کو دینے کی وجہ سے ذمہ فارغ نہیں ہوا، کیونکہ جس طرح مالدار پر زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہے مستحق تلاش کرنا بھی ضروری ہے، با تحقیق کسی بھی شخص کو زکوٰۃ کی رقم پکڑادی تو اس سے نہ زکوٰۃ ادا ہوگی نہ ذمہ فارغ ہوگا۔ اس لئے خوب تحقیق کرکے دینا لازم ہے۔*
*🗂️_ فقه العبادات-286,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*"✷_ غریب رشتہ دار کو زکوٰۃ کی رقم دینے کی فضیلت:-*

*"✷_ اگر اپنے عزیز واقارب میں غریب لوگ مستحق زکوٰۃ ہوں تو ان کو کو زکوٰۃ وصدقات دینا‌ زیادہ بہتر اور دہرا ثواب رکھتا ہے۔ اول ثواب صدقہ کا ، دوم صلہ رحمی کا ۔*

*"✷_ اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ انہیں یہ بتلا کر زکوة دے کہ صدقہ یا زکوٰۃ دے رہا ہوں بلکہ کسی تحفہ یا بد یہ کے عنوان سے بھی دیا جا سکتا ہے تا کہ لینے والے شریف آدمی کو اپنی خفت محسوس نہ ہو۔*
 *®_ (رواه احمد والترمذي والنسائي وابن ماجه)*

*✷"_ سلیمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی اجنبی مسکین کو اللہ کے لئے کچھ دینا صرف صدقہ ہے، اور اپنے کسی عزیز وقریب ( ضرورت مند ) کو اللہ کے لئے دینے میں دو پہلو ہیں، اور دو طرح کا ثواب ہے۔ ایک یہ کہ صدقہ ہے دوسرے یہ کہ صلہ رحمی ہے ( یعنی حق قرابت کی ادائیگی جو بجائے خود بڑی نیکی ہے)*
*®_ (مسند احمد ترمذی)*

*🗂️_ وفقہ العبادات - 286,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★_ زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ_★*

*★_زکوٰۃ دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت ضروری ہے، جو چیز زکوٰۃ کی نیت سے نہ دی جائے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، بہتر ہے کہ زکوٰۃ کی نیت کر کے کچھ رقم الگ رکھ لی جائے اور اس میں سے وقتاً فوقتاً تھوڑی تھوڑی دیتے رہے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔*

*★_زکوٰۃ کی رقم یکمشت ادا ہو جاتی ہے لیکن کسی کو یکمشت اتنی زکوٰۃ دینا کہ وہ صاحب نصاب ہو جائے مکروہ ہے۔*

*★_ زکوٰۃ دیتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ ہے، ہدیہ یا تحفہ کے عنوان سے ادا کی جائے اور اگر ادا کرتے وقت نیت زکوٰۃ کی کر لی جائے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔*

*★_اگر کوئی دوسرا شخص مال کے مالک کے حکم یا اجازت سے اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، ورنہ نہیں۔*

*★_ ریاکاری اور نمود و نمائش کی گرج کے باعث زکوٰۃ کو ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس سے ثواب باطل ہو جاتا ہے۔*

*★_ پیشگی زکوٰۃ ادا کرنا بھی درست ہے، زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ اگر کوئی شخص غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے فرض کو چھوڑ دے تو فرض معاف نہیں ہوگا، بلکہ جتنے سال کی اس پر زکوٰۃ ذمہ ہیں ان کا حساب لگانے کے بعد جب تک زکوٰۃ پوری ادا نہ ہو جائے وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا ارا کرتے رہے۔*

*★_ قرض منہا کرنے کے بعد جو رقم باقی رہ جائے اس کا چالیسواں حصہ دکان میں موجود سامان کی قیمت لگا کر زکوٰۃ ادا کریں۔*

*★_ زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہیں ہوگی جب تک کسی غریب فقیر یا مستحب کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک نہ بنایا جائے۔*

*★_ ردی اور نہ بکنے والی چیزوں کو زکوٰۃ میں دینا اخلاصِ کے خلاف ہے۔*

*★_ قرض دی ہوئی رقم میں زکوٰۃ کی نیت کرنے سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہو گی کیونکہ قرض دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت نہیں ہوتی اور زکوٰۃ ادا کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرنا شرط ہے۔ اسی طرح ملازم کو پیشگی دی گئی رقم پر زکوٰۃ کی نیت کرنا درست نہیں، زکوٰۃ کی رقم سے ملازم کو تنخواہ دینا جائز نہیں۔ امداد کے لئے ضرورت یا محتاج سمجھ کر تنخواہ کے علاوہ زکوٰۃ دے دی جاے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،*

*★_ زکوٰۃ کی رقم مسجد میں خرچ کرنا جائز نہیں۔*

*★_ اگر عورت کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو تو زیورات بیچ کر زکوٰۃ ادا کریں۔*

*★_ اگر روپیہ پیسہ نہ ہوں تو سابقہ اور آئندہ سالوں کی زکوٰۃ میں زیورات دے سکتے ہیں۔*

*★_انکم ٹیکس ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔انکم ٹیکس حکومت کی طرف سے قومی ضروریات کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جبکہ زکوٰۃ مسلمان کے لیے فریضہ خدا وندی اور عبادت ہے، زکوٰۃ انکم ٹیکس دینے سے ادا نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ الگ سے ادا کرنا ضروری ہے۔*

 *📓آپ کے مسائل اور ان کا حل -3/382*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ ان رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے:-*

*★"_ ان رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے بشرطیکہ و مستحق زکوة ہوں:-*
*"_(۱) اپنے حقیقی، علاتی ، اخیافی اور رضائی بھائی بہنوں کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔ اس طرح ان کی اولادوں کو بھی دینا درست ہے۔*

*★"_ فائدہ: حقیقی بھائی بہن ان کو کہتے ہیں جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ علاتی بھائی بہن ان کو کہتے ہیں کہ دونوں کے باپ ایک ہوں اور ماں الگ الگ ہوں۔ اخیافی بھائی بہن ان کو کہتے ہیں جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ رضاعی بھائی بہن ان کو کہتے ہیں جنہوں نے مدت رضاعت کے اندر ایک عورت سے دودھ پیا ہو۔*

*★"_(2)_ اپنے چاچا چاچی، پھوپھا پھوپھی، ماموں ممانی، خالہ خالو اور ان سب کے اولادوں کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے،*
*(3)_ اپنے سوتیلے ماں باپ، رضاعی ماں باپ، رضاعی بیٹا بیٹی اور ان سب کی اولادوں کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے،*
*"_((4)_ اپنی سسر ساس اور ان کی اولاد کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے،*

*★"_(5)_ شوہر اپنی بیوی کی ایسی اولاد کو جو اس کے پہلے شوہر سے ہو، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کی ایسی اولاد کو جو پہلی بیوی سے ہو، ان کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے،* 
*"_(6)_ اپنے داماد اور بہو کو بھی زکوٰۃ دینا درست ہے ،*
*®_(بحواله فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: ٦)*

*✷"_ان رشتہ داروں کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے :-*
*★"_(۱) اپنے ماں، باپ، دادا، دادی ، پڑ دادا، پڑدادی، ان لوگوں کو زکوۃ دینا نا جائز ہے۔*
*"_(۲) نانا نانی، پڑ نانا پڑنانی کوبھی زکوٰۃ دینا نا جائز ہے۔*
*"_ (۳) اپنے حقیقی بیٹے اور ان کی اولا د یعنی پوتے پوتیاں پڑ پوتے، پڑپوتیوں کو بھی زکوٰۃ دینا نا جائز ہے۔*
 *"_(٤) اپنی حقیقی بیٹی اور ان کی اولاد یعنی نواسے نواسیاں، پڑنوا سے، پڑ نواسیوں کو بھی زکوۃ دینانا جائز ہے۔*
*"_(۵) شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔*
 
*🗂️_ فقہ العبادات -288,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_شادی شدہ عورت کو زکوۃ دینا:-*

*✷"_ عورت جس کا مہر نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے اور یہ امید ہو کہ جب یہ عورت مہر طلب کرے گی تو اس کا شوہر بلا تامل دے دیگا تو ایسی عورت کو بھی زکوٰۃ دینا نا جائز ہے۔*

*✷"_ لیکن اگر اس کا شوہر اتنا غریب ہے کہ مہر ادا نہیں کر سکتا یا مالدار تو ہے لیکن نہیں دیتا اور خود اس عورت کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود نہیں تو ایسی عورت کو زکوٰۃ دینا درست ہے،*
*®_ (شرح التنوير: ۱۱۳/۲)*

*"✷_ سید کو زکوٰۃ دینے کا حکم:-*

*"✷_ سید کو بھی زکوۃ دینا نا جائز ہے ۔ البتہ اگر بیوی غیر سید ہے اور وہ مستحق زکوٰۃ ہے تو اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں, وہ زکوٰۃ کی مالک ہونے کے بعد چاہے تو اپنے شوہر اور بچوں پر بھی خرچ کر سکتی ہے۔ (بحوالہ: آپ کے مسائل اور ان کاحل : ۳)*

*✷"_ ایک سید کا دوسرے سید کو بھی زکوٰۃ دینا نا جائز ہے۔*

*✷"_ بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینے کا حکم:-*

*✷"_ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حارث بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد کو بھی زکوٰۃ دینا نا جائز ہے۔ کیونکہ یہ سب حضور ﷺ کے خاندان سے ہیں۔ اگر یہ غریب ہیں تو ان کی مدد و اعانت ہدایا ور عطیات سے کرنی چاہئے۔*
*®_(شرح البداية ١٨٨/٢)*

*🗂️_ فقہ العبادات -289,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*★_متفرق_★*

*★_ زکوٰۃ لینے والے کے ظاہر کا اعتبار کیا جائے گا، اگر ظاہر کی حالت دیکھ کر دل یقین کرے کہ یہ مستحق ہوگا اس کو زکوٰۃ دے دی جائے،۔ اگر کوئی مستحق نہ ہو بلکہ آپ کو ظاہر کرے اور اس کے ظاہر کو دیکھ کر قیاس کے مطابق زکوٰۃ دے دی گئی تو زکوٰۃ ادا ہو گئی۔ لیکن ایسے بھکاریوں کو زکوٰۃ نہیں دینا چاہیے۔*

*★_جس شخص کو زکوٰۃ دی جائے اسے یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے، زکوٰۃ کی نیت کر لینا کافی ہے۔*

*★_ اگر امام مسجد مستحق ہے تو زکوٰۃ دے سکتے ہیں لیکن زکوٰۃ کی رقم تنخواہ میں نہیں دے سکتے۔*

*★_ غیر مسلم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ نفل صدقہ دے سکتے ہیں,*

*★_ دینی مدارس کو زکوٰۃ دینا بہتر ہے کیونکہ گربا مساکین کی اعانت کے ساتھ ساتھ علم علومِ دینیہ کی سرپرستی بھی ہوتی ہے۔*

*★_ فلاحی ادارے تمام (جو زکوٰۃ وصول کرکے مستحق کو پہنچاتے ہیں) زکوٰۃ کے وکیل ہیں، جب تک کہ مستحق کو ادا نہ کر دیں،*

*★_ زکوٰۃ سے چندہ وصول کرنے والے کو مقررہ حصہ (کمیشن) دینا جائز نہیں۔*

 *📘آپ کے مسائل اور ان کا حل 3/390،*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*"✷_بیوہ اور یتیم کو زکوٰۃ دینے کا حکم:-*

*"★_ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی خاتون بیوہ ہے تو اس کو زکوٰۃ ضرور دینی چاہئے، حالانکہ یہاں بھی شرط یہ ہے کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہو۔ صاحب نصاب نہ ہو،*

*"★_ اگر بیوہ مستحق زکوٰۃ ہے تو اس کی مدد کرنا بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر کوئی ہیوہ خاتون مستحق نہیں تو محض بیوہ ہونے کی وجہ سے وہ مصرف زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ ایسی خاتون پر تو خود زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوتی ہے،*

*★"_ لہذا خوب تحقیق کے بعد زکوٰۃ دی جائے۔ بہت سی بیواؤں کے بارے میں پتہ چلتا رہتا ہے کہ ان کے پاس بہت کچھ مال ہے جس کی وجہ سے وہ خود صاحب نصاب ہیں، بہر حال صرف بیوہ ہونا استحقاق کی ضمانت نہیں ہے۔* 
*®_ (فتاوى هنديه ١٣١/١)*

*★"_ اسی طرح یتیم کو زکوٰۃ دینا اس کی مدد کرنا بھی بہت اچھی بات ہے۔ لیکن یہاں بھی دیکھا جائے کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہے کہ نہیں۔*

*★_ لیکن اگر وہ صاحب نصاب ہے تو پھر یتیم ہونے کی وجہ سے اس کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا ان احکامات کو مد نظر رکھ کر زکوٰۃ دینی چاہئے۔*

*🗂️_ فقه العبادات- 290,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*"✷_ خیر اور تعمیر کے کاموں میں زکوٰۃ:-*
 
*★_ مسجد، مدرسه، خانقاه، شفاخانہ، کنواں، پل یا کسی اور رفاہی ادارہ کی تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں۔*

*★_ اگر اس میں خرچ کر دی گئی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی کیونکہ اس مال میں زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر نہیں دیا گیا۔ جبکہ اداء زکوٰۃ کے لئے مستحق شخص کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے۔*
*®_ (شرح التنوير ١٠٠/٢)*

*"_ زکوٰۃ کی رقم ان کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے:-*

*١_ زکوٰۃ کی رقم سے دینی کتب اور قرآن مجید چھپوا کر یا خرید کر مستحق طالب علم کو مالک بنا کر دینا۔*

*٢_ زکوٰۃ کی رقم سے مدرسہ کے طلبہ کا ماہانہ وظیفہ مقرر کرنا۔‌*

*٣_ زکوٰۃ کی رقم سے مدرسہ کے غریب اساتذہ کی معاونت کرنا۔ ( تنخواہ کے علاوہ)*

*٤_ زکوٰۃ کی رقم سے کسی ضرورت مند اور حاجت مند کا ماہانہ مقرر کرنا۔*

*۵- زکوٰۃ کی رقم سے غریب والدین کی لڑکی ( جو کہ صاحب نصاب نہ ہو ) کی شادی میں معاونت کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( آمین )*

*🗂️_ فقه العبادات-290,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ حیلہ تملیک :-*

*✷"_بعض لوگ جو مدارس یا مساجد کے مصارف عامہ میں زکوٰۃ صرف کرنے کے لئے ایک حیلہ کیا کرتے ہیں کہ اول کسی مسکین کو سمجھا دیا کہ ہم تم کو سو روپے دیں گے ۔ پھر تم مسجد یا مدرسہ میں دے دینا۔ اور پھر اس کو زکوٰۃ کی رقم دیتے ہیں اور وہ مسجد اور مدرسہ میں دے دیتا ہے اور اس کو حیلہ "تملیک“ کہا جاتا ہے,*

*✷"_ چونکہ یقینی بات ہے اس میں دینے والا حقیقہ اس مسکین کو مالک نہیں بناتا محض صورت تملیک کی ہے اور نہ ہی دینے والا مسکین بہ طیب خاطر مسجد و مدرسہ کو دیتا ہے، لہذا اس طرح زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔*

*✷"_ حیلہ تملیک کی صحیح صورت:-*

*✷"_ اگر کہیں ایسے مواقع پر زکوٰۃ سے امداد کرنے کی ضرورت ہو تو اس کی ایک تدبیر جو کہ بالکل قواعد کے مطابق ہے یہ ہے کہ کسی مسکین کو مشورہ دیا جائے کہ تم دس روپے مثلاً کسی سے قرض لے کر فلاں سید کو دے دو یا فلاں مسجد و مدرسہ میں دے دو ہم تمہاری اعانت ادائے قرض میں کرا دیں گے۔ جب وہ مسکین وہاں دے دے تو تم اس مسکین کو دس روپے زکوٰۃ میں دے دو_,"*
*®_(ماخوذ از اصلاح المسلمین)*

*🗂️_ فقه العبادات- 291,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ قرض معاف کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی:-*

*★"_اگر کسی غریب آدمی پر آپ کے مثلاً ہزار روپے قرض ہیں اور آپ کے مال کی زکوٰۃ بھی ہزار روپے یا اس سے زائد ہے تو اگر آپ نے اپنا قرض اس کو زکوٰۃ کی نیت سے معاف کر دیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی،*

*★"_ البتہ اگر اس کو ہزار روپے زکوۃ کی نیت سے دے دیں تو زکوۃ ادا ہو گئی۔ اب یہی ہزار روپے اگر اپنے قرض میں اس سے وصول کر لیں تو درست ہے۔*
*®_ (رد المحتار (۱۸/۲)*

*✷"_امانت اور پیشگی دی ہوئی رقم پر زکوہ کا حکم:-*

*★"_اگر کسی نے کسی کے پاس رقم امانت رکھوائی ہے تو اس کی زکوٰۃ امانت رکھوانے والے کے ذمہ ہوگی نہ کہ جس کے پاس رکھوائی ہے کیونکہ یہ رقم امانت رکھوانے والے کی ملک ہے۔*
*®_ (كفایت المفتى ج٤)*

*★"_کرایہ کے مکان اور دکان کے لئے بطور ضمانت جور قم پیشگی کرایہ دار سے لی جاتی ہے وہ مالک مکان و دکان کے پاس امانت رہتی ہے اور قابل واپسی ہوتی ہے۔ لہذا اس کی زکوٰۃ کرایہ دار کے ذمہ ہے۔ مالک مکان و دوکان پر نہیں۔*
*®_(بحوالہ آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:۳)*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*"✷_زکوة کی نیت کا حکم:-*

*"✷_ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے نیت ادائے زکوٰۃ بھی ضروری ہے، جس وقت زکوٰۃ کا روپیہ وغیرہ کسی مستحق کو دیں اس وقت دل میں یہ نیت ضرور کرلیں کہ میں زکوٰۃ ادا کرتا ہوں،*
*"_ اگر کسی نے یوں کیا کہ زکوٰۃ کی رقم حساب کر کے الگ کر کے رکھی کہ مستحق آجائیں گے تو دیتا جاؤں گا تو یہ نیت بھی کافی ہو جائے گی, پھر چاہے دیتے وقت نیت نہ کرے۔*
 *®_(شرح البداية ١٧٠/١),*

*✷"_اداء زکوٰۃ کے بعد نیت کا حکم:-*

*✷"_اگر کسی مستحق کو زکوۃ کا مال دیتے وقت ادائے زکوٰۃ کی نیت نہیں کی تو جب تک وہ مال اس غریب کے پاس موجود ہے اس وقت تک بھی نیت کر لینا درست ہے۔ اب نیت کرنے سے بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔*
*"_ البتہ فقیر کے پاس اس مال کے خرچ ہو جانے کے بعد نیت کی تو اس نیت کا اعتبار نہیں اب دوبارہ زکوٰۃ دینا پڑے گی۔*
*®_(رد المحتار ١٦/٢)*

*🗂️_فقه العبادات-292,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_تھوڑی تھوڑی اور اشیاء کی شکل میں زکوۃ دینا :-*

*✷"_جتنی مقدار میں زکوٰۃ واجب ہوئی ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ چاہے تو سال کے آخر میں یکمشت ادا کر دی جائے یہ بھی درست ہے اور چاہے تو ہر ماہ کچھ رقم تھوڑی تھوڑی کر کے پیشگی سال بھر زکوة کی نیت سے نکالتا رہے تا کہ سال کے اختتام پر بوجھ نہ پڑے۔ یہ بھی درست طریقہ ہے۔*

*"✷_ بہر حال مقدار زکوٰۃ جو واجب ہے اس کا ادا ہونا ضروری ہے چاہے کسی بھی طریقے سے ہو ۔*
*®_(آپ کے مسائل اور ان کاحل :۳, شرح البدايه ٩٩/٢)*

*✷"_کوئی شخص رقم دینے کے بجائے زکوٰۃ کے روپے سے غلہ، کپڑا یا دیگر استعمالی چیزوں کو خرید کر کسی مستحق کو دیتا ہے تو اس سے بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔ حالات کو دیکھ کر چاہے رقم دے دی جائے یا استعمالی چیزیں خرید کا ہدیہ تحفہ کے نام سے دی جائے ، دونوں صورتوں میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔ بشرطیکہ مالک بنا کر دی جائے۔*
*®_(فتاوی دار العلوم : ٦ ، احسن الفتاوى ٢٩١/٤)*

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_سودی اکاؤنٹس اور زکوٰۃ:-*

*✷"_ بینک اکاؤنٹس سے زکوٰۃ وصول کرنے پر بعض ذہنوں میں یہ خلجان رہتا ہے کہ یہ سودی اکاونٹس ہیں اور سود اور زکوٰۃ کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟*

*✷"_ اگر کسی شخص کی آمدنی حلال و حرام سے مخلوط ہو اور وہ مجموعہ میں سے زکوٰۃ نکال دے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حلال آمدنی کا ڈھائی فیصد شرعاً زکوٰۃ ہوگا اور حرام آمدنی کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ صدقہ سمجھا جائے گا۔ جو حرام آمدنی سے جان چھڑانے کے لئے کرنا واجب تھا،*

*"✷_ اصل شرعی حکم یہ ہے کہ سود لینا قطعاً حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص سود وصول کرلے تو وہ پورا کا پورا فقراء اور مساکین کو دے دینا واجب ہے۔*

*✷"_گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ:-*

*✷"_ ایک شخص نے دو تین سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی، اب وہ دوسرے اور تیسرے یا اس سے زیادہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ پہلے سال کی زکوٰۃ منہا کرنے کے بعد جو رقم بچی دوسرے سال اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔ پھر اس کے بعد جو ر قم بچی تیسرے سال اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔*
*( اسی طرح گزشتہ تمام باقی سالوں کا حساب کر کے زکوٰۃ ادا کریں)* 
*®_(بدائع ج ۲ ص /٧)*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷"_ زکوٰۃ دینے میں غلطی ہو جائے تو اس کا حکم:-*

*✷"_ اگر کسی شخص نے کسی کو غریب و مستحق سمجھ کر زکوٰۃ دے دی پھر معلوم ہوا کہ وہ تو ذمی کافر‌ ہے ( ذمی کافر وہ ہے جو دارالاسلام کے شہری حقوق رکھتا ہو ) یا مالدار ہے، یا سید ہے، یا رات کے اندھیرے میں کسی کو دے دی، پھر معلوم ہوا کہ وہ اس کی ماں، اس کا باپ یا کوئی ایسا رشتہ دار ہے جس کو زکوٰۃ دینا اس کے لئے درست نہیں تھا،*

*✷"_ تو ان تمام صورتوں میں زکوٰۃ ادا ہو گئی۔ دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں کیونکہ زکوٰۃ کی رقم اس کی ملک سے نکل کر محل ثواب میں پہنچ چکی ہے اور تعین مصرف میں جو غلطی کسی اندھیرے یا مغالطہ کی وجہ سے ہو گئی ہے وہ معاف ہے۔*
*®_ (فتاوی دارالعلوم ج٦)*

*✷"_ اور اگر زکوٰۃ دینے کے بعد معلوم ہوا کہ جس کو زکوٰۃ دی ہے وہ غیر ذمی کافر ہے (یعنی ایسا کافر جو دار الاسلام کے شہری حقوق نہ رکھتا ہو) تو پھر زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، دوبارہ ادا کرنی پڑے گی۔*
*®_ (احکام الزکوة)*

*✷"_ اگر کسی کے بارے میں شک ہو کہ معلوم نہیں مستحق ہے یا نہیں؟ تو جب تک تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو زکوٰۃ نہ دیں لیکن اگر بغیر تحقیق کے دے دی تو اب اگر غالب گمان یہ ہو کہ غریب تھا تو زکوٰۃ ادا ہو گئی اور بغالب گمان یہ ہوا کہ مالدار تھا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی دوبارہ ادا کرنی پڑے گی۔*

*📝_ فقه العبادات- 297,*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
*✷_ پیداوار پر زکوٰۃ (عشر) _*

*★_ عشر زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ ہے۔ اگر زمین بارانی ہو یا بارش کے پانی سے سیراب ہوتی تو پیداوار اٹھنے کے وقت اس کا دسواں حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا واجب ہے۔*

*★_ اگر زمین کو خود (پانی دے کر) سیراب کیا جاتا ہے (کنویں، ٹیوب ویل، نہر، تالاب سے) تو پیداوار کا بیسواں حصہ صدقہ کرنا واجب ہے۔*

*★_ ہمارے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پیداوار کم ہو یا زیادہ اس پر عشر واجب ہے۔*

*★_ جانوروں کے چارے کے لیے کاست کی گئی فصل پر بھی عشر واجب ہے۔*

*★_ایک بار عشر ادا کرنے کے بعد جب تک اسے فروخت نہ کر دیا جائے، اس فصل پر دوبارہ عشر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر زکوٰۃ ہے۔*

*★_ فصل بیچنے کے بعد ملنے والی رقم پر جب سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی، اگر یہ شخص پہلے سے ہی صاحب نصاب ہے تو جس وقت یہ اپنے نصاب پر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ ادا کرے گا، تو اس رقم پر بھی زکوٰۃ ادا کرے گا ،*

*★_ زمین میں جو اخراجات ہوتے ہیں (بیج، کھاد، ٹریکٹر وغیرہ) پیداوار میں سے اس کو گھٹایا نہیں جائے گا (ان کا خرچ کم نہیں کیا جائے گی) بلکہ پوری فصل پر بیسواں یا دسواں حصہ (جیسی فصل ہے) ادا کرنا ہوگا۔*

*★_ قابل فروخت باغ یا قابل منافع بخش پھل ہونے پر بیچنے والے مالک کے ذمہ عشر ہوگا،*

*★_ حصہ داری کی پیداوار پر اپنے اپنے حصہ کی پیداوار کا عشر ادا کریں۔ اصول یہ ہے کہ جس کے گھر فصل آئے گی، زمین کا عشر بھی اسی کے ذمہ ہوگا۔*

*★_ عشر کی رقم بھی فقرہ مساکین کو دی جائے گی۔*

 *➡ تمام مسائل کو اپنے علمائے کرام سے سمجھ لینا بہتر ہے۔*

 *❀_ الحمدللہ مکمل_،*

 *📘 آپ کے مسائل اور ان کا حل -3/408،*
 
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DAloyOp8VLHBqfy4b0xcnE
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل سبھی پوثٹ لنک سے جڑیں _,* 
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments