╭┅◑════◑════◑═══◑┅╮
*◑ بِسْمِ الْلّٰهِ الْرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ◐*
╰┄┅┅┅┅┅┅┅┅┅┄۞┄┅┅┅┅┅┅┅┅┅┄╯
○ *محرم اور عاشورہ* ○
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _ بعض جگہوں اور دنوں کے فضیلتیں✦*
*✪_ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اختیار اور مکمل قدرت کی وجہ سے اپنی مخلوقات میں فرق مراتب رکھا ہے۔ خود فر مایا.-وَ رَبُّکَ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخۡتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۶۸﴾ (قصص (٦٨) آپ کا رب پیدا کرتا ہے، جو چاہتا ہے اور چن لیتا ہے۔ لوگوں کو اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور برتر ہے اس سے جس کے ساتھ یہ لوگ شریک کرتے ہیں۔*
*✪_ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ نے تقریر بخاری میں اس کو مختصراً بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کیا گلاب اور پیشاب اپنی ذات سے یکساں ہیں ۔ صرف خوشبو اور بدبو کا فرق ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس جس طرح پیشاب اور گلاب میں فرق ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فرعون اور موسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو جہل میں فرق ہے۔*
*✪_ یہی تحقیق قبلہ نما میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی لکھی ہے- "_کیا لیلتہ القدر اور تمام راتیں برابر ہیں؟ ہر گز نہیں ! تو کیا لیلتہ القدر میں فضیلت محض عبادت سے ہے؟ نہیں بلکہ عبادت اس میں اس لئے ہوئی کہ اس میں خود فضیلت تھی, اسی طرح رمضان کی فضیلت اس وجہ سے نہیں کہ اس میں قرآن کا نزول ہوا، بلکہ نزول قرآن اس میں اس لئے ہوا کہ وہ فی نفسہ افضل تھا۔ ہاں نزول قرآن سے شرف میں اضافہ ہو گیا _,*.
*✪_ انسانوں میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو فضیلت بخشی ۔ پھر انبیاء علیہم السلام میں بھی فرق مراتب رکھا ۔ بعض کو بعض پر فضیلت دى، ماہ رمضان اور عشرہ ذی الحجہ، راتوں میں شب قدر کی فضیلت بھی سب کو تسلیم ہے۔ شب براءت کی فضیلت بھی اکثر علماء مانتے ہیں۔ جگہوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی فضیلت بھی سب کو معلوم ہے۔ یہی حال کچھ اور وقتوں اور جگہوں کا بھی ہے۔*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞_ ماہ محرم اور یوم عاشورہ :-✦*
*✪__ اسی طرح ماہ محرم اور عاشورہ کی بھی کچھ فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں،۔ اشهر حرم کی فضیلت تو قرآن میں منصوص ہے ان میں محرم بھی داخل ہے۔ اسی طرح ماہ محرم کا شہر حرام ہونا تو قرآن ہی سے معلوم ہو گیا۔ بقیہ فضائل حدیثوں میں ہیں۔*
*✪_ایک تنبیہ:- لیکن فضائل کے بارے میں بہت سی باتیں امت میں بے بنیاد مشہور ہوگئی ہیں۔ محرم اور عاشورہ کے بارے میں بھی بہت سی باتیں ایسی مشہور ہوگئی ہیں جن کا کوئی ثبوت محدثین کے یہاں نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔*
*✪_ ہمارے پاس شریعت کی بنیاد کے طور پر دو چیزیں ہیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آعمال و ایام کے فضائل بھی احکام کی طرح انہیں دو اصلوں سے ثابت کیے جائیں گے۔ من گھڑت باتوں کا کوئی اعتبار نہیں, ہاں بیشک سلف صالحین یعنی صحابہ و تابعین کے اقوال بھی جو ثابت ہوں حجت ہوں گے، اس لئے کہ جن باتوں میں رائے اور قیاس کو دخل نہ ہو ( بالخصوص فضائل کی بابت ) ان میں ان حضرات کا قول حدیث کے درجہ میں ہے۔*
*✪_ رہا اجماع اور وہ قیاس جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہو تو بیشک یہ دونوں بھی حجت ہیں لیکن فضائل کی جو باتیں/ مشہور ہیں ان کا ان دونوں سے تعلق نہیں، اس لئے کسی عمل یا قول یا کسی زمان و مکان کی فضیلت کے لئے روایات کی ضرورت ہے اور ان کے معتبر یا غیر معتبر ہونے کے لئے محدثین معیار ہیں۔ اس لئے جو بات بھی پیش کی جائے اس کا ماخذ اور حوالہ بھی پیش کرنا چاہئے۔ تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بات کہاں سے آئی اور معتبر ہے کہ نہیں،*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞_ محترم مہینے :-✦*
*✪__ سال میں بارہ مہینے ہیں۔ ان میں چار مہینے محترم ہیں۔ محرم ، رجب، ذوالقعدہ ، ذو الحجہ۔ ان کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ۔ اعمالِ صالحہ کا ثواب ان میں زیادہ ہو جاتا ہے اور گناہوں سے بچنے کا بھی خاص اہتمام کرنا چاہئے کہ ان میں گناہ کا وبال بھی زیادہ ہوتا ہے۔*
*✪_ جیسے مکہ مکرمہ میں نیک اعمال کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور گناہ کی سزا بھی زیادہ ہوتی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ۲ صفہ ۵۵۴ )*
*"_ قتادہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں۔ ان محترم مہینوں میں ظلم کا گناہ دوسرے مہینوں میں ظلم سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر چہ ظلم ہر حال میں بڑا گناہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس حکم کو چاہتے ہیں بڑا بنا دیتے ہیں۔*
*✪_نیز فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں کچھ کو منتخب فرمایا ، ملائکہ میں سے کچھ کو پیغمبر بنایا ، انسانوں میں سے کچھ کو رسالت سے نوازا، کلاموں میں سے اپنے کلام کو منتخب فرمایا، زمین میں سے مساجد کو چھانٹ لیا، مہینوں میں سے رمضان اور اشہر حرم کو فضیلت دی۔ دنوں میں جمعہ کو خصوصیت دی۔ راتوں میں شب قدر کو امتیاز بخشا ۔ لہذا اللہ تعالی نے جن امور کو فضیلت دی ان کو بڑا سمجھو۔ عقلمندوں کے نزدیک وہی امور بڑے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالی بڑا بتاتے ہیں۔, ( تفسیر ابن کثیر جلد ۲، صفحه ۵۵۴)*
*✪_لہذا محرم کے مہینہ میں ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور رجب کی طرح اعمال صالحہ کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اور گناہوں سے بچنے کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔*
✮
*✪__ امام جصاص رازی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان متبرک مہینوں میں یہ خاصیت ہے کہ ان میں جو شخص عبادت کرتا ہے اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق ہوتی ہے، اور جو شخص کوشش کر کے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے تو باقی سال کے مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے_, ( معارف القرآن جلد ۴ صفحه -۳۷۳)*
*★_ قرآن کریم میں ان چار مہینوں کی تعیین نہیں آئی۔ یہ تعیین اور ان کے نام صحیح حدیثوں میں آئے ہیں۔*
*"_حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بے شک زمانہ گھوم کر اس حالت پر آگیا جس پر آسمان وزمین کے پیدا کئے جانے کے وقت تھا۔ سال میں بارہ مہینے ہیں۔ ان میں چار محترم ہیں۔ تین مسلسل ذو القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر ( قبیلہ ) کا رجب جو جمادی (الثانی ) اور شعبان کے درمیان ہے, ( بخاری شریف جلد ۲ صفحه-٦٣٢)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞__کفار مکہ مہینے آگے پیچھے کرتے تھے :-✦*
*✪__ کفار مکہ اپنی نفسانی اغراض پوری کرنے کے لئے مہینے آگے پیچھے کرتے تھے۔ محرم میں لڑنے کا جی چاہتا تو یہ کہہ دیتے کہ اس سال پہلے صفر کا مہینے آئے گا اس کے بعد محرم کا۔ اس طرح محرم کو دوسرے مہینوں سے تبدیل کرتے تھے۔ عہد ابراھیم سے یہ بات چلی آتی تھی کہ چار مہینے محترم ہیں ان میں قتال منع ہے۔ تو کفار مکہ چار کے عدد کا احترام کرنا چاہتے تھے لیکن لڑنے کی خواہش پوری کرنے کے لئے مہینوں کو آگے پیچھے کرتے تھے اس کی وجہ سے عربوں کے شمار میں مہینوں کا صحیح پتہ نہیں تھا۔*
*✪_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا کہ اس سال مہینوں کی ترتیب بالکل فطرت کے مطابق ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے سال ۹ھ میں جبکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں حج ہوا تھا اگرچہ مہینہ ذوالحجہ ہی کا تھا لیکن جاہلیت کے شمار میں وہ ذو القعدہ تھا۔ شاید اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کو مؤخر فرمایا اور اس سال ۱۰ھ میں حج کے موقع پر مینی کے دسویں ذی الحجہ کے خطبہ میں یہ فرمایا۔ "اور آگے جو فرمایا کہ سال کے بارہ مہینے ہیں۔(بخاری)*
*✪_ اس میں قرآن کی آیت :- إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، (توبه ۳٦) کی طرف اشارہ ہے کہ مہینوں کا شمار اللہ تعالیٰ کے یہاں بارہ ہے۔ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جب سے آسمان و زمین پیدا ہوئے (اس کا اجراء ہوا) ان میں چار مہینے محترم ہیں ۔ یہ وہی مہینے ہیں جن کو حدیث نے متعین کیا۔*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞__ ماه محرم کا روزہ✦*
*✪_ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان کے بعد سب سے افضل ہے اور اس ماہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کا شرف اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔*
*✪_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ رمضان کے مہینہ کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے۔ (ترندی جلدا، صفحہ ۵۷ وحسنہ )*
*✪_ حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک صاحب نے آکر پوچھا کہ یا رسول اللہ ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترندی نے اس کو روایت کیا اور اس کو حسن بتایا ۔ جلد ، صفحہ ۱۵۷)*
*✪_ لیکن اس روایت میں ضعف ہے۔ جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے۔ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے ساتھ فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی۔ اس دن کی وجہ سے اس مہینہ میں فضیلت آگئی۔ بعض علماء کے نزدیک محرم سے مراد اس کا خاص دن یعنی دسویں تاریخ عاشورہ ہے۔ تو ان کے نزدیک ان حدیثوں سے صرف یوم عاشورہ کے روزہ کی فضیلت ثابت ہوگی نہ کہ پورے مہینے کی۔ (العرف الشذى)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _عاشورہ (دسویں محرم ) کا روزہ ✦*
*✪__دسویں محرم کا دن اسلامی تاریخ میں ایک بڑا اور محترم دن ہے۔ اس دن میں آنحضرت ﷺ نے روزہ رکھا تھا۔ اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔*
*✪_ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیا گیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں، البتہ اس کی فضیلت بیان کر دی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔*
*✪_ پہلے یہ روزہ صرف ایک دن رکھا جاتا تھا لیکن آخر میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا، پھر آپ ﷺ کا وصال ہو گیا۔ ( انا للہ وانا الیہ راجعون ) اس لئے یہ روزہ دو دن رکھنا چاہئے ۔ نو اور دس کو یا دس اور گیارہ کو ۔ بعض کتابوں میں یہ روایت اس طرح بھی آئی ہے کہ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد ۔ اس لئے اگر تین روزے رکھیں (۱۱/۱۰/۹) تو بھی بہتر ہے۔ البتہ صرف دس کو روزہ رکھنا بہتر نہیں بلکہ مکروہ تنزیہی ہے۔*
*✪_ یہ روزہ اس طرح شروع ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے اسی دن نجات ملی, اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے شکریہ میں یہ روزہ رکھا اور یہود میں یہ روزہ چلتا رہا، یہود سے قریش نے سیکھا۔ کریش مکہ مکرمہ میں یہ روزہ رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے بھی یہ روزہ رکھا تھا، مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یہ روزہ رکھتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیوں یہ روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے بتایا کہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسی دن فرعون سے نجات دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے حقدار ہیں۔ اسی لئے آپ نے یہ روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا۔*
*✪_ اور شروع شروع میں آب ﷺ اہل کتاب کے ساتھ موافقت کو پسند کرتے تھے، پھر بعد میں مخالفت کا حکم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو نویں کو بھی روزہ رکھوں گا تاکہ مخالفت ہو جائے۔ اس لئے صرف دس کو روزہ رکھنا فقہائے کرام نے مکروہ تنزیہی قرار دیا۔*
*®_ (در مختار جلد ۲ صفحہ ٩١)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _ عاشورہ کے روزہ سے متعلق روایات ✦*
*✪__ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اللہ شریف کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔ جب رمضان فرض ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔( بخاری شریف صفحه ۲۱۷)*
*✪_ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا حکم بھی دیا۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزہ کا حکم ) چھوڑ دیا گیا۔ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ ( بخاری صفحہ ۲۶۸،۲۵۴)*
*✪_ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھا پی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے ) اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ ہم بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لئے اُون کا کھلونا بناتی تھیں۔ جب کوئی بچہ کھانے کے لئے روتا تو یہ کھلونا اس کو دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ ( بخاری جلدا صفحه ۲۶۳)*
*"_ بچوں کو مسجد بھی لے جاتی تھیں۔ (مسلم جلدا، صفحہ ۳۶۰)*
*✪_حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا جو لوگوں میں یہ اعلان کر رہا تھا کہ جس نے کھا لیا ؟ وہ پورا کرے یا فرمایا (یعنی بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے) اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ۔ (یعنی روزہ رکھے ) (بخاری جلدا ، صفحہ ۲۵۷، ۲۶۸)*
*✪_ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روزہ پہلے واجب اور ضروری تھا۔*
*®_ (در مختار جلد ۲ صفحہ ٩١)*
✮
*✪__حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے۔ اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی، موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطا فرمائی ہم اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں۔ پھر آپ نے بھی روزہ رکھا۔ (یعنی رکھتے رہے ) اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ( بخاری جلد ا صفحہ ۳۶۸، ۵۶۲)*
*"✪_حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کر رہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں اس کو عید بنا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔( بخاری جلد ۱ صفحه ۲۶۸، ۵۶۲)*
*"✪_حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ کسی دن کے روزہ کا جس کی فضیلت دوسرے پر بیان فرمائی ہو۔ اہتمام اور قصد کرتے ہوں سوائے عاشورہ کے روزہ کے اور رمضان کے مہینہ کے۔ ( بخاری جلد ۱ صفحه ۲۶۸)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _عاشورہ کے روزے کا ثواب:-✦*
*✪__حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترندی جلد، صفحہ -۱۵)*
*✪_ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ صرف اس ایک حدیث میں یہ فضیلت ہم کو معلوم ہے۔ امام احمد اور اسحاق اسی کے قائل ہیں۔ (ایضا)*
*✪_ گناہ سے مراد اصول کے مطابق صغائر ہیں، کبائر کے لئے توبہ کی ضرورت ہوگی۔*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ __عاشورہ کا روزہ رکھنے کا طریقہ:-✦*
*✪__ حضرت حکم بن اعرج فرماتے ہیں کہ میں ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ زمزم کے کنوئیں کے پاس چادر سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا مجھے بتائیے کہ عاشورہ کے دن کا روزہ میں کس طرح رکھوں۔ فرمایا جب محرم کا چاند دیکھو تو شمار کرتے رہو پھر نویں کی صبح کو روزہ رکھو۔*
*"_ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح یہ روزہ رکھتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں۔ (یہ حدیث صحیح ہے)۔ (ترمذی جلدا ، صفحه (۱۵۸)*
*"✪_ دوسری حدیث میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (ترندی صفحہ ۱۵۸)*
*"_ دوسری روایت طحاوی اور بیہقی نے سند جید سے نقل کی ہے۔( تحله الا خودی)*
*"✪_ان سب روایتوں سے معلوم ہوا کہ عاشورہ کا روزہ رکھنے کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھیں, اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ ہاں اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر زندہ رہتے تو ایسا ہی کرتے جیسا کہ آپ نے ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ اس لئے اگرچہ واقعتاً کیا نہیں لیکن پسند فرمانے کی وجہ سے آپ کے فعل ہی کی طرح ہے۔ واللہ تعالی اعلم،*
✮
*✪__ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت بہت سی کتابوں میں مذکور ہے جو محمد بن ابی لیلیٰ کی طریق سے مروی ہے اس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد جلدا صفحه ۲۴۱ طحاوی، بیہقی ، بزار و غیره)*
*"_یعنی (۱۰/۹) کو روزہ رکھو یا (۱۱/۱۰) کو,*
*"✪_صوم محرم کے تین مراتب ہیں:-*
*"_ (۱) سب سے افضل ۹ - ۱۰ -۱۱ تین دن,*
*"_(۲) ۹ اور ۱۰ دو دن,*
*"_ (۳) صرف ۱۰ کو ایک دن,*
*"✪_9 اور 10 میں کئی حدیثیں آئی ہیں۔ ۱۰ اور ۱۱ کوئی درجہ نہیں۔صرف ۹ کا روزہ بھی سنت نہیں۔ (حاشیه ترندی جلدا ، صفحه (۱۵۸)*
*"✪_ در مختار میں لکھا ہے کہ صرف دس کا روزہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی پہلے یا بعد شامل کئے بغیر ۔(در مختار مع رد المحتار جلد ۲ صفحه ۹۱)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞___ تنبیہ__✦*
*✪_ اس مسئلہ سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاری کے ساتھ عبادت میں مشابہت بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں۔ اسی لئے صرف ۱۰ کا روزہ مکروہ کہا گیا، باوجود یکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ رکھا تھا۔ لیکن آپ کا ارادہ مخالفت کا تھا اس لئے کسی طرح مخالفت ہونی چاہئے ۔ خواہ ایک دن پہلے رکھ کر ہو یا ایک دن بعد،*
*"✪_حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالوں کو سیدھا لڑکاتے تھے، مانگ نہیں نکالتے تھے۔ اہل کتاب بھی ایسا ہی کرتے تھے، مشرکین مانگ نکالتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص حکم نہیں آتا اس میں اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے۔ پھر آپ نے بھی مانگ نکالی۔ ( بخاری جلد ا صفحه ۵۷۲،۵۰۳)*
*"✪_ اس سے معلوم ہوا کہ اس روزہ کے مسئلہ میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے مخالفت کا حکم ملا تھا، اس لئے صرف دس کا روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنا _✦*
*✪__عاشورہ کے دن اہل و عیال پر خرچ کرنے کی وسعت کرنا پسندیدہ کام ہے یا نہیں ؟معتدل محدثین کی رائے یہ ہے کہ اس مضمون کی حدیث معتبر ہے۔ اس لئے یہ عمل پسندیدہ اور مندوب ہے۔ علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ میں اس حدیث کی تائید کی ہے۔*
*✪_حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "۔ جو کوئی عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت کرے گا اللہ تعالی اس پر پورے سال وسعت اور فراخی فرمائیں گے۔*
*"_ اس کو طبرانی, بیہقی اور ابو شیخ نے ابن مسعودؓ سے روایت کیا۔ طبرانی اور بیہقی نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیہقی نے حضرت جابر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور فرمایا ان سب کی سندیں ضعیف ہیں لیکن بعض کو بعض سے ملایا جائے تو قوت پیدا ہو جاتی ہے۔( مقاصد السخاوی صفحه ۶۷۴)*
*✪__علامہ شامی نے بھی رد المحتار میں لکھا ہے کہ توسعہ کی حدیث ثابت صحیح ہے, البتہ عاشورہ کے دن سرمہ لگانے کی حدیث موضوع ہے۔ جیسا کہ سخاوی نے مقاصد حسنہ میں یقین کے ساتھ لکھا ہے۔ ملا علی قاری نے بھی کتاب الموضوعات میں ان کا اتباع کیا۔ سیوطی نے در منتشرہ میں حاکم سے نقل کیا کہ یہ منکر ہے۔ حاکم نے یہ بھی فرمایا جیسا کہ جراحی نے کشف الخفاء میں نقل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اثر وارد نہیں۔ عاشورہ کے دن سرمہ لگانے کے بارے میں یہ بدعت ہے۔ ( شامی رشید یه جلد ۲ صفحه ۱۲۴)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _ایک بڑی غلط فہمی ,✦*
*✪_ بہت سے لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ محرم اور عاشورہ کی یہ اہمیت اور فضیلت حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ شریعت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکمل ہو گئی تھی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو بہت بعد میں پیش آیا۔ خلفاء راشدین کا دور ختم ہو چکا اس کے بھی کئی سال کے بعد ۔ بھلا اس سے شریعت کے کسی مسئلہ کا تعلق کیا ہو سکتا ہے۔*
*"✪_ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت بلاشبہ بہت دردناک اور تکلیف دہ واقعہ ہے۔ لیکن اسلام میں ماتم کرنا جائز نہیں۔ اسلام ماتم کا دین نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا ہر ہر ورق شہداء کے خون سے رنگین ہے۔ اگر ماتم کیے جائیں تو ہر دن ماتم ہی کرنا ہوگا۔*
*"✪_ حضرت عمرؓ کی شہادت، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ، حضرت علیؓ کی شہادت بلکہ اس سے قبل حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت، غزوہ موتہ کے شہداء کا واقعہ، بیرمعونہ کا واقعہ، غزوۃ الرجیع کا واقعہ ۔ یہ واقعات جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی درد وغم کا باعث بنے تھے۔ ان کو کیوں بھول جائیں۔ لیکن اسلام ماتم کرنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ دین کے لئے جان و مال قربان کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ان ہمارے بزرگوں نے دین حق کے لئے جانیں دیں ہم دین کے لئے کیا قربانی پیش کر رہے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔*
*"✪_ شاہ عبدالحق دہلوی ما ثبت بالسنتہ میں لکھتے ہیں کہ شیخ ابن حجر ہیثمی مصری جو مکہ مکرمہ کے مفتی اور اپنے وقت کے شیخ الفقہاء والمحدثین تھے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں : اس دن روزہ وغیرہ کے سوا کسی اور کام میں مشغول نہ ہوں اور ہرگز روافض کی اور شیعوں کی بدعات میں مشغول نہ ہوں ۔ جیسے نوحہ اور ماتم اور رونا دھونا ۔ یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں ۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن اس کا زیادہ مستحق تھا۔*
✮
*✪_ بعض ائمہ فقہ وحدیث سے پوچھا گیا کہ اس دن سرمہ لگا نا ہنسل کرنا، مہندی لگانا، دانے پکانا ، نئے کپڑے پہنا اور خوشی ظاہر کرنا کیسا ہے؟ تو فرمایا اس میں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح بات مروی ہے نہ کسی صحابی سے، ائمہ اربعہ اور ان کے علاوہ کسی نے بھی ان چیزوں کو مستحب نہیں سمجھا۔ معتبر کتابوں میں نہ کوئی صحیح بات مروی ہے، نہ ضعیف، جو کہا جاتا ہے کہ عاشورہ کے دن جو سرمہ لگائے اس کی آنکھ سال بھر نہ دُکھے گی، جو غسل کرے وہ سال بھر بیمار نہ ہوگا، اور جو اہل و عیال پر وسعت کرے اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال وسعت کریں گے، یہ سب باتیں غیر معتبر ہیں۔ علامہ ابن القیم نے بھی تصریح کی ہے کہ عاشورہ کے دن سرمہ لگانا، تیل لگانا، خوشبو لگانا، اس مضمون کی حدیث جھوٹے لوگوں کی گھڑی ہوئی ہیں۔ (ما ثبت بالسنته صفحه ۱۷)*
*✪__ اس کے بعد شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے ایک اور موضوع حدیث ذکر کی۔ جس میں یہ باتیں بھی ہیں۔ اسی دن یوسف علیہ السلام قید خانہ سے نکلے، اسی دن یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس ملی، اسی دن ایوب علیہ السلام کی بلا ٹلی، اس دن یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکلے، اسی دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے ذنوب معاف ہوئے، اسی دن قوم یونس علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی، جو اس دن روزہ رکھے اس کے لئے چالیس سال کا کفارہ ہوگا، سب سے پہلی مخلوق دنیا کی عاشورہ کا دن ہے، سب سے پہلی بارش اسی دن ہوئی، جو اس دن روزہ رکھے گویا ہمیشہ روزہ رکھا، یہ انبیاء کا روزہ ہے، جس نے اس رات کو زندہ کیا گویا ساتوں آسمان والوں کے برابر عبادت کی،........,ابن الجوزی نے اس کو موضوعات میں ذکر کیا اور فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔ ظاہر یہ ہے کہ بعض متاخرین نے اس کو وضع کر کے اس کے لئے یہ سند جوڑ دی۔ (ما ثبت بالن صفحہ (۲)*
*✪__ اسی دن اللہ تعالی نے ان مخلوقات کو پیدا کیا۔ آسمان زمین قلم ، لوح ، جبرئیل علیہ السلام، ملائکہ، آدم علیہ السلام ، اسی دن ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن ان کو آگ سے نجات ملی، اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ آیا، فرعون غرق ہوا، ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا، آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، داؤد علیہ السلام کی مغفرت ہوئی ۔ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہوئے ۔ قیامت اسی دن آئے گی۔*
*"_یہ حدیث موضوع ہے۔ ابن الجوزی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ (ما ثبت باله صفحه (۲۰)*
✮
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ _کیا قیامت عاشورہ کے دن آئے گی؟ ✦*
*"✪__ قیامت جمعہ کے دن آئے گی یہ بات صحیح حدیث میں آئی ہے۔ (ترندی صفحہ ۱۱۰) لیکن کیا وہ جمعہ دسویں محرم کو ہوگا۔ یہ بات کسی معتبر حدیث میں نہیں ملی ۔ حضرت شاہ رفیع الدین نے زلزلہ ملی۔ الساعۃ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ وہیں سے شاید یہ بات مشہور ہوئی مفتی کفایت اللہ صاحب نے تعلیم الاسلام میں بھی اس کو ذکر کیا ہے۔ اور کتابوں میں بھی علامہ انور شاہ کشمیری کے تقریر ترمذی میں بھی مذکور ہے کہ سند قوی سے یہ بات ثابت ہے۔ مولانا یوسف بنوری نے لکھا ہے کہ مجھے ایسی کوئی حدیث نہیں ملی۔ ( معارف السنن جلد ۴ صفحه ۳۰۶)*
*✪_"_مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے لکھا کہ اس کی حدیث موضوع ہے۔( تنزيه الشريعة المرفوعه جلد ۲ صفحہ ۱۴۹،)*
*"✪__خلاصہ کلام یہ ہے کہ خاص عاشورہ کے دن قیامت کا آنا کسی معتبر حدیث سے معلوم نہیں ہو سکا۔ بلکہ حدیث میں آیا ہے کہ ہر جمعہ کے دن انسان و جن کے سوا باقی حیوانات قیامت کے انتظار میں رہتے ہیں۔ جب سورج نکل آتا ہے تو ان کو اطمینان ہوتا ہے۔ ( مشکوة صفحه ۱۲۰)*
*"✪__شاید اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کی فجر میں الم تنزیل السجدہ اور سوره دهر پڑھتے تھے کہ ان سورتوں میں خلق آدم کا بھی ذکر ہے۔ اور قیامت کا بھی تا کہ لوگ قیامت کی تیاری کریں۔ واللہ اعلم بالصواب،*
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞_____ خلاصہ کلام _✦*
*✪__ اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ عاشورہ کی فضیلت اور اہمیت میں صرف موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کے لشکر کی غرق آبی کو دخل ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کی فضیلت ہے اور اسی کی وجہ سے روزہ بھی ہے۔*
*✪__ اور کسی واقعہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سیدنا حسین کے واقعۂ شہادت سے بھی اس دن میں کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا۔ کسی خاص کھانے یا نماز کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔*
*✪__ تفسیر ابن کثیر میں مسند احمد سے ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ کی مذکور ہے جس میں نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پر ٹھہرنا مذکور ہے۔ ابن کثیر نے اس کو غریب کہا۔ ان کے غریب کہنے کا مطلب بہت سی جگہوں پر یہی ہوتا ہے کہ اس کا اعتبار نہیں۔*
*✪__اس لئے صحیح حدیثوں میں جو بات آئی ہے صرف اسی پر اکتفاء کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی امت کو کتاب وسنت پر قائم فرمائے۔ اور بدعات و خرافات اور بے بنیاد باتوں کو شریعت میں داخل کرنے سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین، وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآله وصحبه وامته اجمعین والحمد لله رب العالمین۔*
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞_ تعزیہ کا جلوس اور ماتم کی مجلس دیکھنا✦*
*▣_ان دنوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لئے جمع ہو جاتی ہے اس میں کئی گناہ ہیں، پہلا گناہ یہ کہ اس میں دشمنان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دشمنان قرآن کے ساتھ تشبہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”من تشبه بقوم فهو منهم" جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اسی میں شمار ہوگا۔*
۔
*▣_ ہولی کے دنوں میں ایک بزرگ جا رہے تھے، انہوں نے مزاح کے طور پر ایک گدھے پر پان کی پیک ڈال کر فرمایا کہ تجھ پر کوئی رنگ نہیں پھینک رہا۔ لو تجھے میں رنگ دیتا ہوں، مرنے کے بعد اس پر گرفت ہوئی کہ تم ہولی کھیلتے تھے اور عذاب میں گرفتار ہوئے۔*
*▣__دوسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح کسی عبادت کو دیکھنا عبادت ہے اسی طرح گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے۔ تیسرا گناہ یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو رہا ہوتا ہے ایسی غضب والی جگہ جانا بہت بڑا گناہ ہے۔*.
*▣_ ایک بار رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا گزر ایسی بستیوں کے کھنڈرات پر ہوا جن پر عذاب آیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور سواری کو بہت تیز چلا کر اس مقام سے جلدی سے گزر گئے۔*
*"_ جب سید الاولین والآخرین رحمۃ للعالمین، حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم غضب والی جگہ سے بچنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے تو عوام کا کیا حشر ہوگا۔ سوچنا چاہئے کہ اگر اللہ کے دشمنوں کے کرتوتوں سے اس وقت کوئی عذاب آ گیا تو کیا صرف نظارہ کے لئے جمع ہونے والے مسلمان اس عذاب سے بچ جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ عذاب آخرت میں بھی یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے*
*▣_ اللہ تعالیٰ مستحق عذاب بنانے والی بد اعمالیوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔*
*"__ یہ بھی خیال رہے کہ جس طرح مبارک دنوں میں عبادت کا زیادہ ثواب ہے اسی طرح معصیت پر زیادہ عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دین کا صحیح فہم اور کامل اتباع کی نعمت عطا فرمائیں۔*
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞___ واقعہ کربلا کا رنج والم و اظہار غم کے طریقے میں فرق _✦*
*"▣_ ہر کلمہ گو خواہ وہ شیعہ ہو یاسنی اس وحشتناک اور درد انگیز واقعہ سے بے انتہا رنج والم ہے۔ کوئی نہیں جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومیت سے مغموم نہ ہو اور اس کا دل ان مظالم کو سن کر مضطرب اور پریشان نہ ہو، تقریباً تیرہ سو سال گزرنے کے باوجود اس اندوہناک درد انگیز مصیبت خیز پریشان کن دل ہلا دینے والے واقعہ کو بھول نہیں پائے۔ اس خونی واقعہ کی یاد تازہ اپنے سینوں میں رہتی ہیں،*
*▣_ اہل السنت والجماعت اس دردناک واقعات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کے باوجود ایک بہادر صاحب عزم انسان کی طرح متانت اور سنجیدگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، بخلاف شیعہ صاحبان کے کہ وہ اس رنج والم کا اظہار کرنے کے لئے دامن شریعت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ فخر دو عالم سید المرسلین ﷺ کی سنت سے منہ موڑ لیتے ہیں اور اظہار غم کے لئے دسویں محرم کو وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں بہت ساری چیزیں ناجائز بلکہ حرام ہوتی ہیں, جن سے مسلمانوں کے عقائد فاسد ہوتے ہیں، شیعہ صاحبان میں کمزور طبیعت کے رہنما اپنے مفاد دنیا کی خاطر حق کو چھپاتے ہیں اور نتائج اخروی کو نظر انداز کرتے ہیں،*
*"_ افسوس یہ ہے کہ اج بہت سے ہمارے سننی بھائی بھی ان کی پیروی کر رہے ہیں اور اپنی اخرت خراب کر رہے ہیں ،*
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞___ تعزیہ داری کے متعلق علماء اہل السنت کا فیصلہ ※*
*▣_حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی فتویٰ عزیزی مطبوعہ مجتبائی ماہ شوال ۱۳۱۱ھ کے صفحہ ۷۲ پر لکھتے ہیں کہ تعزیہ داری جو مبتدعین کرتے ہیں ۔ بدعت ہے اور بدعت سیئہ ہے اور اس میں شامل ہونے والوں کو خدا کی لعنت میں گرفتار کر دیتی ہے اور اس کے فرائض اور نوافل بھی بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں ہوتے،*
*"▣_ مرثیہ خوانی کی مجلس میں( کتاب سننا ) اور اس مجلس میں زیارت اور گریہ وزاری کی نیت سے جانا بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ وہاں کوئی زیارت نہیں ہے جس کے واسطے آدمی جائے اور یہ لکڑیاں تعزیے کی جو بنائی گئی ہیں یہ زیارت کے قابل نہیں۔ بلکہ مٹانے کے قابل ہیں،*
*®_ فتاویٰ عزیزی مطبوعہ مجتبائی ماہ شوال ۱۳۱۱ھ کے صفحہ ۷۲،*
*"▣_ تعزیہ کے تابوت کی زیارت کرنا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور مرثیہ پڑھنا اور کتاب سنا اور فریاد کرنا اور رونا اورسینہ کوبی کرتا اور امام حسین کے ماتم میں اپنے آپ کو زخمی کرنا یہ سب چیزیں ناجائز ہیں۔*
*®_ فتاویٰ عزیزی مطبوعہ مجتبائی صفحہ ١٥٥ ،*
*"▣_ ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ تعزیے کے جلوس میں شرکت سے پرہیز کریں اور اپنے اہل وعیال کو بھی بچائیں، ہر مسلمان کو اس بدعت و جہالت سے روکنا ہم سب کا فرض ہے،*
*"▣_ اللہ تعالی تمام اہل ایمان کو حق کی سمجھ عطا فرمائے، امین یا رب العالمین ،*
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞__ _تعزیہ اور علم ※*
*▣_ ماہ محرم میں تعزیہ مع علم کے نکالنا، اور اس کے ساتھ مرثیہ پڑھنا، نیز جلوس کے ساتھ شریک ہونا, چڑھاوا چڑھانا اور نذرحسین کی سبیل نکالنا، اس کا پینا اور پلانا اور اس کو ثواب سمجھنا، یہ سب افعال بدعت و نا جائز اور روافض کا شعار ہیں، ان میں شرکت نا جائز ہے،*
*®_ فتاویٰ محمودیہ -٢/٤٤,*
*"▣_تعزیہ کے سامنے لاٹھی چلانا اور کھیل تماشہ:- محرم کے مہینے میں تعزیہ کے جلوس کے سامنے لاٹھیاں چلانا اور دوسرے کھیل تماشے جو کھیلے جاتے ہیں شرعاً بےاصل اور ناجائز ہے، یہ روافض کا طریقہ ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ثابت نہیں ،*
*®_فتاوی محمودیہ -٢/٤٥,*
*"▣__تعزیہ کی منت :- تعزیہ کی منت درست نہیں, جن بڑوں نے اس کی منت مان کر بنانا شروع کیا وہ غلطی پر تھے اور اس فعل کی وجہ سے گنہگار ہوئے اور آپ کو اس کا اتباع کرنا جائز نہیں، _تعزیہ وغیرہ ہرگز نہ بنائیں، بالکل ترک کر دیجئے،*
*"▣_ یہ عقیدہ رکھنا کہ تعزیہ نہیں بنائیں گے تو کوئی جانی جانی مالی نقصان پہنچے گا، ایسے عقائد سے ایمان سالم نہیں رہتا،*
*"▣__تعزیہ بنانا اور اس پر نظر بھی نیاز چڑھانا، اس سے منت ماننا حرام و شرک ہے، صدقہ خیرات جو کچھ کرنا ہو شریعت کے مطابق صرف خدا کے لیے کر دیا جائے، _تعزیہ پر چڑھانے اور اس سے منت ماننے اور غیر اللہ کے نام پر کھانا کھلانے سے وہ کھانا بھی ناجائز ہو جاتا ہے، اس کا ثواب نہیں ہوتا بلکہ گناہ ہوتا ہے ،*
*"▣_ ایصال ثواب اور اسلام کے خلاف افعال:-*
*"▣_ ایام محرم میں مجلسیں منعقد کرنا، اماموں کے نام کا خچڑا پکانا، شربت پلانا، اپنی اولادوں کو اماموں کا فقیر بنایا (فقیری پہنانا) یہ سب کام تعلیم اسلام کے خلاف اور اللہ تعالی اور اس کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے, ان سب سے توبہ لازم ہے ،*
*"▣_ایصال ثواب کے لیے کچھ کھانا غریب اور مسکین کو کھلا کر یا نقد دے کر یا قرآن پاک پڑھ کر یا کوئی عبادت کر کے مردوں کو ثواب پہونچانا بغیر کسی تاریخ و حیت کے التجام کے شرعاً درست ہے،*
*®_ فتاویٰ محمودیہ -٢/٤٦,*
┬━─━─━─━─━─━─━─┬
*☞ ✦_حضرت حسین نے کس مقصد کے لئے قربانی پیش کی ※*
*▣_ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے نام جو خط لکھا تھا۔ جس کے چند جملے یہ ہیں۔"_ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے۔ اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کرو اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لئے کوشش کرو۔ ( کامل ابن اثیر ص ۹ ج ۴)*
*"▣_ فرذوق شاعر کے جواب میں جو کلمات کوفہ کے راستے میں آپ نے ارشاد فرمایا اس کے چند جملے یہ ہیں:-*
*"▣_ اگر تقدیر الہٰی مراد کے موافق ہوتی ہے تو ہم اللہ کا شکر کریں گے اور ہم شکر ادا کرنے میں بھی اس کی اعانت طلب کرتے ہیں۔ کہ ادائے شکر کی توفیق دی اور اگر تقدیر الہٰی مراد میں حائل ہو گئی تو اس شخص کا کوئی قصور نہیں جس کی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ (ابن اثیر )*
*"▣_ میدان جنگ کے خطبہ کے یہ الفاظ جب صاحبزاہ علی اکبر نے کہا کہ ابا جان کیا ہم حق پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا- قسم ہے اس ذات کی جس کی طرف سب بندگان خدا کا رجوع ہے۔ بلاشبہ ہم حق پر ہیں_,"*
*"▣_ اہل بیت کے سامنے آپ کے آخری ارشادات کے یہ جملے پھر پڑھیئے۔ "_ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی۔ یا اللہ میں آپ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمیں شرافت نبوت سے نوازا اور ہمیں کان آنکھ اور دل دیئے جس سے ہم آپ کی آیات سمجھے۔ اور ہمیں آپ نے قرآن سکھایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی۔ ہمیں آپ اپنے شکر گزار بندوں میں داخل فرما لیجئے۔"*
*"▣_ ان خطبات اور کلمات کو سننے پڑھنے کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کو یہ شبہ ہو سکتا ہے۔ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حیرت انگیز قربانی اپنی حکومت واقتدار کے لئے تھے۔ بالکل نہیں، بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو اس مقدس ہستی کی عظیم الشان قربانی کو ان کی تصریحات کے خلاف بعض دنیاوی عزت اور اقتدار کی خاطر قرار دیتے ہیں ، حقیقت وہی ہے جو شروع میں لکھ چکا ہوں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ساری قربانی اس لئے تھی کہ:-*
*"_ کتاب وسنت کے قانون کو صحیح طور پر رواج دیں،*
*"▣_ عالم اسلام کے نظام عدل کو از سر نو قائم کریں۔*
*"▣_ اسلام میں خلافت نبوت کی بجائے ملکیت و آمریت کی بدعت کا مقابلہ کریں۔*
*"▣_حق کے مقابلہ میں نہ زور وزر کی نمائش سے مرعوب ہوں اور نہ جان و مال اور اولاد کا خوف اس راستہ میں حائل ہو۔*
*"▣_ ہر خوف و ہراس مصیبت و مشقت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں اور اسی پر ہر حال میں توکل و اعتماد ہو۔ اور بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی اس کے شکر گزار بندے ثابت ہوں۔*
*"▣_ کوئی ہے جو جگر گوشہ رسول ﷺ کی اس پکار کو سنے اور ان کے مشن کو ان کے نقش قدم پر انجام دینے کیلئے تیار ہو۔ ان کے اخلاق حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد ٹھہرائے ۔*
*"▣_ یا اللہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم واہل بیت اطہار کی محبت کاملہ اور اتباع کامل نصیب فرمائے۔*
*"▣_ آمین یارب العالمین _,*
*⚀• :➻┐ حوالہ- شہادت حسین رضی اللہ عنہ، ( مجموعہ افادات) (مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ الله)*
✮ ┬━─━─━─━─━─━─━─┬
★
*📗 محرم اور عاشورہ کے فضائل و مسائل-( مولانا فضل الرحمٰن اعظمى )*
╭┄┅┅◐═══◐══♡◐♡══◐═══◐┅┅┄╮
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DAloyOp8VLHBqfy4b0xcnE
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل سبھی پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
0 Comments