*❥ نکاح ❥*
*⚄ ⇰نکاح کی تعریف,*
*✪ _ نکاح کا لغوی معنی:- لغت میں نکاح دو معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے: عقد نکاح اور وطی (بمبستری),*
*✪_ نکاح کی اصطلاحی تعریف:- اصطلاحی شریعت میں نکاح کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسی عورت کو عقد نکاح میں لانا جسسے نکاح کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہ ہو تاکہ اس کے ساتھ حلال طریقہ سے جنسی تسکین حاصل کی جا سکے۔*
*✪_ نکاح ایک ایسی عبادت ہے جو ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جاری ہے، جنت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، نیز انبیاء علیہم السلام کی بھی سنت مستمرہ ہے۔*
*®_(رد المحتار: ٣/٣ كتاب النکاح )*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰نکاح کی اقسام,*
*✪ _ (۱) فرض: کسی شخص پر شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ اگر نکاح نہ کرے تو ضرور زنا کاری میں مبتلاء ہو جائے گا، اور اس کو بقدر ضرورت نفقہ اور مہر پر حقیقتاً یا حکماً قدرت بھی حاصل ہے تو شرعاً اس پر فرض ہے کہ شادی کر کے اپنی عصمت کی حفاظت کرے_,*
*✪ _ (۲) واجب:- اگر کسی پر شہوت کا غلبہ ہے، کہ شادی نہ کرے تو زنا میں مبتلا ہونے کا خوف ہے لیکن یقین نہیں، اور اس کو بیوی کے نان و نفقہ پر قدرت بھی حاصل ہے، ایسے شخص پر شادی کر کے اپنی عصمت کی حفاظت واجب ہے۔*
*®_بدائع (رد المحتار: ٣/٦)*
*✪ _ (۳) سنت :- اگر کوئی شخص نکاح کے قابل ہو گیا، نان نفقہ پر قدرت حاصل ہے، اور ہمبستری پر بھی قدرت ہے، نکاح سے کوئی حسی یا شرعی مانع موجود نہیں، ایسے شخص کے لیے نکاح کر کے باعزت زندگی گزارنا شرعاً مسنون ہے، کونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا دائمی عمل ہے، اور شادی سے اعراض کرنے والوں پر آپ ﷺ نے رد فرمایا۔*
*"_ لہذا ایسا شخص اتباع سنت کی نیت سے اپنی عصمت کی حفاظت اور صالح اولاد کے حصول کی نیت سے شادی کرے تو اجر و ثواب کا حق دار ہوگا۔*
*®_(رد المحتار: ۷/۳)*
*✪ _(٤) حرام :- اگر کسی شخص میں بیوی کے حقوق ادا کرنے کی طاقت نہ ہو، مثلاً نا مرد ہے، یا نان نفقہ پر حقیقتاً یا حکما قادر نہیں، نیز مزاج کی سختی وغیرہ کی وجہ سے اس کو یقین ہے کہ بیوی کے حقوق ادا نہ ہو سکیں گے، تو ایسے شخص کے لیے شادی کرنا حرام ہے۔*
*✪ _(۵) مکروہ تحریمی:- جس شخص کو بیوی پر ظلم کا یقین تو نہ ہو لیکن غالب گمان یہی ہے کہ ظلم ہو جائے گا تو ایسے شخص کے لیے جب تک اداء حقوق پر قدرت نہ ہو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔*
*®_ (رد المحتار: ۷/۳)*
*✪ _ (٦) مباح :- اگر کسی شخص کو حقوقِ زوجیت کی ادائیگی سے قاصر ہونے کا اندیشہ ہو، اس کا یقین یا ظن شخص غالب نہ اس کے لیے شادی کرنا مباح ہے۔*
*®_ (شامية: ٧/٣)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄_ نکاح کی اہمیت,*
*✪ _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جوانوں کی جماعت تم میں سے جو شخص مجامعت اور اس کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نان نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی قدرت استطاعت رکھتا ہو، اسے چاہیے وہ نکاح کرے، کیونکہ نکاح سے نظر کی حفاظت ہوتی ہے اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے اور جو شخص جماع کی لوازمات کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزے رکھے، کیونکہ روزے رکھنا اس کے لیے خصی کرنے کا فائدہ دے گا_,*
*®_ (بخاری و مسلم)*
*✪ _ یعنی جس طرح خصی کرنے سے جنسی ہیجان ختم ہو جاتا ہے اسی طرح روزہ رکھنے سے بھی جنسی ہیجان کم ہو جاتا ہے۔*
*✪ _ تشریح:- اس حدیث میں نکاح کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے:-*
*١_ حرام جگہ نظر ڈالنے سے آنکھوں کی حفاظت ۔*
*۲_ حرام کاری کے ذریعہ شہوت رانی سے حفاظت۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰پاکدامنی کے لیے نکاح کی برکت:-*
*✪★_ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی مدد اللہ تعالیٰ پر ( اس کے وعدے کے مطابق) واجب ہے:-*
*١_ ایک تو وہ مکاتب جو اپنے بدل کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔*
*٢_وہ نکاح کرنے والا جو حرامکاری سے بچنے کی نیت رکھتا ہے،*
*٣_ اللہ تعالی کی راہ میں جدوجہد کرنے والا _,*
*®_ (مشكوة : ٢٦٧/٢)*
*✪★_ فائدہ :- جو شخص محض پاک دامنی کی خاطر نکاح کا ارادہ رکھتا ہو، اس کے پاس بہت زیادہ مال و دولت نہ ہو تب بھی اس کو پریشان نہ ہونا چاہیے اور اس کی وجہ سے شادی میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ مناسب رشتہ تلاش کر کے فوراً رشتہ کرے۔ اللہ تعالی اپنی غیبی مدد سے تمام ضروریات کو پورا فرمائیں گے اور انشاء اللہ غناء عطافرما ئیں گے،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰نکاح میں تاخیر کے مفاسد اور خرابیاں :-*
*✪_ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بالغ ہونے کے بعد کنواری لڑکیوں کی جلدی شادی نہ کرنے کے بہت سے مفاسد اور خرابیاں سامنے آئی ہیں، کہیں لڑکیاں کسی کے ساتھ بھاگ گئیں، اگر کسی شریف خاندان میں ایسا نہ بھی ہو تب بھی وہ لڑکیاں ان سر پرستوں کو دل ہی دل میں کوستی ہیں، اور چونکہ وہ مظلوم ہیں لہٰذا ان کا کوسنا خالی نہیں جاتا۔ (کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ مظلوم کی بد دعا سے ڈرو کیونکہ اس کے اور حق تعالی شانہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں)*
*✪__ تاخیر کی وجوہات:- جہیز کے انتظار میں نکاح میں تاخیر، موقع کا رشتہ نہ ملنے کا عذر، لائق داماد کی ذہنی تراشیدہ صفات ( حسب و نسب، اخلاق، حسن و جمال، مال ودولت وغیرہ )"*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰اولاد کی شادی میں تاخیر کا گناہ,*
*✪ _ رسول کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا نام اچھا رکھے اور اسے ایک ادب سکھائے (یعنی شریعت کے احکام اور آداب زندگی کے اسلامی طریقے سکھائے تاکہ وہ دنیا وآخرت میں کامیاب اور سر بلند ہو ) پھر وہ بالغ ہو جائے تو اس کا نکاح کرادے_,*
*"_ اگر لڑ کا بالغ ہو (اور شادی کے خرچہ پر قدرت نہ رکھتا ہو ) اور اس کا باپ (اس کے نکاح کا خرچہ برداشت کرنے پر قدرت رکھتا ہو اس کے باوجود) اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکا برائی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا گناہ باپ پر ہو گا _“*
*®_ (رواه البيهقي .مشكوة ۲۷۱/۲)*
*✪_(فائدہ) اولاد کی پوری تربیت یہ ہے کہ ان کو پہلے دین اسلامی زندگی سکھائے، تاکہ وہ عبادات، معاملات، حلال و حرام کی تمیز اور اعلیٰ اخلاق سیکھ لیں، اور جب تعلیم و تربیت کا یہ مرحلہ گزر جائے تو اس کے بعد والدین کا بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی شادی کی طرف متوجہ ہوں، تاکہ وہ جنسی جذبات کی مغلوبیت کا شکار ہو کر برائیوں کے راستے پر نہ لگ جائیں،*
*✪__ چنانچہ اس فریضہ کی اہمیت کو بتانے اور اس بات کی تاکید کے لیے بطور زجر و تجدید فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنے بالغ لڑکے کی شادی نہیں کی اور وہ لڑکا جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر بدکاری میں مبتلا ہو گیا تو اس کا گناہ اور وبال باپ پر ہوگا _,*
*✪_ اسی طرح لڑکی کے بالغ ہوتے ہی نکاح کر دو اگر (جوڑ کا رشتہ ملنے کے باوجود ) اس کا نکاح نہ کرے، پھر وہ لڑکی برائی (یعنی بدکاری وغیرہ) میں مبتلا ہو جائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہے۔“*
*®_ (مشكوة- ٢٧٢/٢)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰نکاح کے لیے دیندار شخص کا انتخاب:-
*✪_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے چار وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے:-*
*۱_ شرافت کی وجہ سے۔*
*٢_مال کی وجہ سے۔*
*٣_خوبصورتی کی وجہ سے۔*
*٤_دینداری کی وجہ سے۔*
*"_ اے مخاطب ! تجھ کو دیندار عورت سے نکاح کرنا چاہیے_,*
*®_ (مشكوة (٢٦٧/٢)*
*✪_ (فائدہ) :- دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نکاح میں زیادہ تر مال کو دیکھتے ہیں اور سب سے کم دین کو، حالانکہ مال اور حسن و جمال کی طرف توجہ کم ہونی چاہیے اور اس کے مقابلہ میں دینداری کی طرف زیادہ التفات ہونا چاہیے، کیونکہ دین کی وجہ سے آپس کا تعلق اچھا رہتا ہے، اس سے زوجین کو سکون ملتا ہے، ایک دوسرے کے حقوق پہچانتے ہیں اور ادا کرتے ہیں۔ جس سے دونوں کی زندگی راحت و سکون کی گذرتی ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰_نیک صالح عورت کی صفات*
*"✪_ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- مومن اللہ تعالی کے تقویٰ ( خوف خدا) کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لیے منتخب کرتا ہے وہ نیک بخت و خوبصورت بیوی ہے، بیوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر (شوہر) اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے۔ جب شوہر اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ (اپنے حسن و پاکیزہ سیرت سے ) اس کا دل خوش کرتی ہے، جب وہ اس کو قسم دیتا ہے تو اس قسم کو پورا کرتی ہے ( یعنی اپنی خواہش پر شوہر کی خواہش کو مقدم رکھتی ہے) اور شوہر کی عدم موجودگی کی صورت میں اپنی عصمت اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہے۔“*
*®_ مشكوة -٢٦٨/٢،*
*"✪_ فائدہ :- اس حدیث میں نیک صالح عورت کی صفات کا بیان ہوا:-*
*١_شوہر کی اطاعت کرنے والی ( جائز امور میں )۔*
*۲_ خدمت کر کے شوہر کا دل خوش کرنے والی۔*
*٣_اپنی خواہش پر شوہر کی خواہش کو مقدم رکھنے والی,*
*٤_اپنی عصمت و پاکدامنی کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنے والی۔*
*٥_شوہر کے مال کی حفاظت کرنے والی_,*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄ ⇰نکاح صحیح ہونے کی شرط:-*
*✪_ مجلس عقد میں لڑکا اور لڑکی سے، دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب و قبول کروایا جائے، لڑکی سے کہا جائے کہ آپ کا نکاح فلاں بن فلاں سے کر دیا ہے، کیا آپ کی طرف سے اجازت ہے؟ وہ اجازت دیدے تو اس کے بعد لڑکے سے کہا جائے کہ فلانہ بنت فلاں کو اتنے مہر کے عوض آپ کے نکاح میں دے دیا، کیا آپ نے قبول کیا، وہ جواب میں کہے کہ ہاں میں نے قول کیا۔*
*"✪_ ایجاب وقبول اور اس کے صحیح ہونے کی شرائط:- نکاح ایجابے قبول کے ذریعے منعقد ہوتا ہے، یہ ایجاب وقبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونا چاہیے، (یعنی ایسا لفظ کار جس سے یہ سمجھا جائے کہ نکاح ہو چکا ہے)، جیسے کسی نے گواہوں کی موجودگی میں کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تمہارے ساتھ کر دیا اور اس نے جواب میں کہا کہ میں نے قبول کیا۔*
*"✪_ یا دونوں میں سے ایک لفظ ماضی کا ہو، جیسے کسی نے کہا کہ اپنی فلاں لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کر دو تو دوسرے نے جواب میں کہا کہ میں نے کر دیا تو جب بھی کام ہو گیا_,*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہونا _,*
*✪_ نکاح منعقد ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کم سے کم دو مردوں کے یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے نکاح کیا جائے، وہ تمام گواہ ایک ہی مجلس میں دونوں کے ایجاب و قبول کو اپنے کانوں سے سنیں، نکاح کے معاملہ کو دیکھیں اور ان کو معلوم ہو کہ یہ ایجاب و قبول کرنے والے آپس میں نکاح کر رہے ہیں۔ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہو رہا۔*
*®_(رد المحتار (۲۱/۳),*
*✪_ نکاح کی اجازت کے وقت گواہ بنانا:- لڑکی اگر مجلس عقد میں موجود نہ ہو بلکہ گھر میں ہو، تو ایسی صورت میں عموماً لڑکی سے اس کے والد ، چایا ماموں وغیرہ کوئی محرم رشتہ دار اجازت لیتے ہیں، پھر مجلس عقد میں نکاح پڑھانے والے کو وہ اجازت ( توکیل ) منتقل کی جاتی ہے،*
*✪_ لڑکی سے اجازت طلب کرتے وقت دو گواہوں کا موجود ہونا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ البتہ نکاح پڑھاتے وقت دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، جو ایجاب و قبول کے الفاظ کوسنیں اور سمجھیں _,*
*®_(رد المحتار باب الاكفاء في الوكيل)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰ادلے بدلے کی شادی,*
*✪_ ادلے بدلے کی شادی کی اصلی شکل تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح دوسرے کے ساتھ اس شرط سے کر دے کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی اس پہلے شخص کے نکاح میں دے، الگ سے کوئی مہر وغیرہ مقرر نہ کیا جائے بلکہ محض ایک لڑکی کو دوسری لڑکی کا عوض اور مہر قرار دے دیا جائے، ایسا کرنا شرعاً مکروہ تحریمی اور نا جائز ہے۔ اگر کسی نے ایسا کر لیا تو ہر ایک کے ذمہ اپنی بیوی کا مہر مثل لازم ہوگا۔*
*®_ (رد المحتار ١٠٦/٣ مطلب نكاح الشغار)*
*✪_ ادلے بدلے کی شادی کی قباحت:- ادلے بدلے کی شادی میں اگر دونوں طرف کی لڑکیوں کے لیے مہر مقرر بھی ہو تو اگرچہ یہ نکاح حقیقت کے حقیقت کے لحاظ سے صحیح ہوگا پھر بھی ایسی شادیوں میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ دونوں خاندانوں کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔*
*✪_ اگر ایک طرف کی لڑکی کی اپنے شوہر سے کچھ ناچاقی ہوجائے تو اس کا اثر دوسری طرف کی لڑکی پر پڑتا ہے، چاہے ان کی زندگی صیح گزر رہی ہو۔ ایسے ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے دسیوں واقعات ہیں جن کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے،*
*✪_ اس لیے میرا مسلمانوں کو یہی مشورہ ہے کہ ادلے بدلے کی شادی کا معاملہ نہ کریں۔ اگر چہ وہ مہر ادا کریں تب بھی کوشش کریں کہ ادلے بدلے کی نہ ہو۔ فقط ۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰کفو ( برابری) میں نکاح کرنا:-*
*✪_ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح کا مقصد تا حیات میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ زندگی گزارنا اور نسل انسانی کو بڑھانا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ زوجین میں محبت ہو اور دونوں کے مزاج میں موافقت ہو، اسی وجہ سے شریعت مطہرہ نے حکم دیا ہے کہ نکاح میں کفو کا لحاظ رکھا جاۓ _,*
*"✪_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کا نکاح ان کے کفو میں ہی کرو۔ ان کی شادی ان کے ولی کی موجودگی میں ہی کرو، اور ان کا مہر دس درہم سےکم مقرر نہ کرو _,*
*®_ (دار قطني و بيهقي)*
*"✪_ کفو یا برابری پانچ باتوں میں دیکھی جاتی ہے:١ نسب، ٢ اسلام، ۳ دینداری، ٤ مالداری، ۵ پیشه _,*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰کفو (برابری) کا بیان _,*
*✪_١_نسب میں برابری:- نسب میں برابری یہ ہے کہ شیخ، سید، انصاری اور علوی سب ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ یعنی اگرچہ سیدوں کا مرتبہ اوروں سے بڑھ کر ہے لیکن اگر سید کی لڑکی کی شیخ کے ہاں شادی ہوئی تو یہ نہ کہیں گے کہ برابری نہ ہوئی۔*
*®_(شرح البداية: ۲ البداية: (٣٠٠/٢)*
*✪_٢_ مسلمان ہونے میں برابری:- مسلمانوں میں برابری کا اعتبار فقط مغل پٹھان وغیرہ اور قوموں میں شیخوں. سیدوں، علویوں میں اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ جو شخص خود مسلمان ہو اور اس کا باپ غیر مسلم تھا، اس عورت کے برابر نہیں جو خود بھی مسلمان ہے اور اس کا باپ بھی مسلمان، اور جو شخص خود مسلمان ہے اور اس کا باپ بھی مسلمان ہے، لیکن اس کا دادا مسلمان نہیں، وہ اس عورت کے برابر کا نہیں جس کا دادا بھی مسلمان ہے،*
*"_ جس کے باپ دادا دونوں مسلمان ہوں لیکن پردادا مسلمان نہ ہو۔ تو وہ شخص اس عورت کے برابر سمجھا جاوے گا جس کی کئی پچھتیں مسلمان ہوں۔*
*✪_ خلاصہ یہ ہے کہ دادا تک مسلمان ہونے میں برابری کا اعتبار ہے، اس کے بعد پر دادا اور نگر دادا میں برابری ضروری نہیں ہے۔*
*®_ (عالمگیری مصری: ۳۱۰/۱)،*
*✪_٣_ دینداری میں برابری:- دینداری میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو دین کا پابند نہیں، لچا، شرابی اور بدکار ہو۔ نیک بخت پارسا دیندار عورت کے برابر کا نہ سمجھا جائے گا۔*
*®_(عالمگيرية: ۳۱۰/۱)*
*✪_٤_ مال میں برابری کا بیان :- مال میں برابری کے معنی یہ ہیں کہ بالکل مفلس محتاج مالدار عورت کے برابر کا نہیں ہے۔ اور اگر وہ بالکل مفلس نہیں بلکہ جتنا مہر پہلی رات کو دینے کا دستور ہے اتنا مہر دے سکتا ہے اور نفقہ بھی، تو اپنے میل اور برابر کا ہے اگر چہ سارا مہر نہ دے سکے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ جتنے مالدار لڑکی والے ہیں وہ بھی اتنا ہی مالدار ہو یا اس کے قریب قریب مالدار ہو۔*
*®_(عالمگیریه ۲۹۹/۲)*
*✪_٥_پیشہ میں برابری :- پیشہ میں برابری یہ ہے کہ جولاہے درزیوں کے میل اور جوڑ کے ہیں۔ اسی طرح دھوبی وغیرہ بھی درزی کے برابر کے نہیں۔*
*®_(شرح التنوير: ١٩٥/١),*
*"_ دیوانہ پاگل آدمی ہوشیار سمجھدار عورت کے میل کا نہیں۔*
*®_ (الدر المختار على هامش رد المحتار ٥٣١/٢ مصري)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰جن عورتوں سے نکاح حرام ہے:-
*✪_ حرمت کے (6) بنیادی اصول :- کونسی عورت کس کے لیے حرام ہے، اس کی تفصیلی قوانین کی بنیاد چھ چیزوں پر ہے: -*
*(١)_ نسبی قرابت (باپ اور ماں کا تعلق )*
*(۲) رضاعت (دودھ کا رشته )*
*(۳) حرمت مصاہرت (سرالی رشته )*
*(٤) منکوحہ الخیر (یعنی کسی عورت کا دوسرے مرد کے نکاح یا عدت میں ہونا)*
*(۵) جمع بین الاختین (یعنی کسی مرد کے نکاح میں پہلے کسی ایسی عورت کا ہونا جس کے ہوتے دوسری عورت کا نکاح میں لانا شرعاً ممنوع ہو )*
*(٦) شریعت کی طرف سے ہر مرد کے لیے جو تعداد مقرر ہے اس سے زیادہ نکاح کرنا۔ مثلاً آزاد مرد کے نکاح میں چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے نکاح کرنا۔*
*"✪_حرمت پر آیات قرآنیہ:-*
*"_ تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں، اور تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں، اور بھانجیاں۔ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا، اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے بہن ہوئی ہیں،*
*"_ تمہاری بیبیوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جو کہ ( عادة ) تمہاری پرورش میں رہتی ہیں، ان بیویوں سے ہوں جن سے تم نے صحبت کی ہو، اور اگر تم نے ان بیویوں سے صحبت نہیں کی ہو تو تم پر کوئی گنا نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ( نکاح میں) رکھو، لیکن جو پہلے ہو چکا اللہ تعالی بڑا بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں,*
*"✪_ اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والی ہیں مگر جو کہ تمہاری مملوک ہو جا ئیں، اللہ تعالی نے ان تمام احکام کو تم پر فرض کر دیا اور ان عورتوں کے سوا اور تمام عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں،*
*®_ ترجمہ بیان القران، النساء: ٢٤٠٢٣)*
*✪_ خلاصہ :- باپ کی منکوحہ، ماں، بیوی کی ماں، دادی، پر دادی، نانی اور پر نانی سے نکاح حرام ہے، بیٹی پوتی، پر پوتی، نواسی، پر نواسی سے نکاح حرام ہے،*
*"_ سوتیلی لڑکی جو دوسرے شوہر کی ہو اور بیوی اپنے ساتھ لائی ہو اگر اس کی ماں سے ہمبستری ہوئی تو حرام ہو گئی ورنہ نہیں، حقیقی بہن، باپ شریک اور ماں شریک، دودھ شریک سے نکاح کرنا بھی حرام ہے۔ باپ کی اور ماں کی بہنیں (پھوپھیاں اور خالائیں) سے نکاح حرام ہے،*
*✪_ بھتیجیوں (باپ شریک، ماں شریک، دودھ شریک تینوں طرح کے بھائیوں کی لڑکیوں) سے نکاح حرام ہے۔ بھانجیوں (تینوں قسم کی بہنوں کی لڑکیوں) سے نکاح حرام ہے, بیٹے کی بیوی (ہوتے, پر ہوتے, نواسے, پر نواسے کی بیویوں) سے نکاح حرام ہے,*
*"_ دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنا حرام ہے، جب تک کوئی عورت کسی شخص کے نکاح میں ہے دوسرا شخص اس سے نکاح نہیں کر سکتا،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰وہ عورتیں جن سے نکاح حلال ہے :-*
*"✪_ جو محرمات اب تک مذکور ہوئیں جن سے نکاح حرام ہے، ان کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں، مثلاً چچا کی لڑکی، خالہ کی لڑکی، ماموں زاد بہن، ماموں و چچا کی بیوی ان کی وفات یا طلاق دینے کے بعد،*
*⇰ بشرطیکہ یہ مذکورہ اقسام اور کسی رشتہ سے محرم نہ ہوں، اور اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی، جب وہ طلاق دیدے یا وفات پا جائے،*
*"✪_ بیوی مر جائے تو اس کی بہن کے ساتھ نکاح حلال ہے،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰رحمة العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد ازواج کی حکمت-
*✪_ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃاللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سراپا رحمت و برکت ہے تبلیغ احکام اور تزکیہ نفوس اور ابلاغ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقصد بعثت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیمات کو قولا وعملا دنیا میں پھیلا دیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے بتاتے بھی تھے اور عمل بھی کرتے تھے، پھر چونکہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہبری کی ضرورت نہ ہو، نماز با جماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات، آل واولاد کی پرورش اور پاخانہ پیشاب اور طہارت تک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی ہدایات سے کتب حدیث بھر پور ہیں،*
*✪_ اندرون خانہ کیا کیا کام کیا، بیویوں سے کیسے میل جول رکھا، اور گھر میں آکر مسائل پوچھنے والی خواتین کو کیا کیا جواب دیا، اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن سے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ذریعے امت کو رہنمائی ملی ہے،*
*✪_ تعلیم و تبلیغ کی دینی ضرورت کے پیش نظر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کثرت ازواج ایک ضروری امر تھا، صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے احکام و مسائل ، اخلاق و آداب اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں، جو کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مرویات کی تعداد تین سو انہتر تک پہنچی ہوئی ہے،*
*✪_ دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما کی روایات بھی مجموعی حیثیت سے کافی تعداد میں موجود ہیں، ظاہر ہے کہ اس تعلیم وتبلیغ کا نفع صرف ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما سے پہنچا۔*
*✪_ انبیاء اسلام کے مقاصد بلند اور پورے عالم کی انفرادی و اجتماعی، خانگی اور ملکی اصلاحات کی فکروں کو دنیا کے شہوت پرست انسان کیا جانے ، وہ تو سب کو اپنے اوپر قیاس کر سکتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں کئی صدی سے یورپ کے ملحدین اور مستشرقین نے اپنی ہٹ دھرمی سے فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعدد ازواج کو ایک خالص جنسی اور نفسانی خواہش کی پیداوار قرار دیا ہے، اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو ایک ہوشمند منصف مزاج کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازواج کو اس پر محمول نہیں کر سکتا،*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*⇰ایک سن رسیدہ خاتون سے نکاح:-*
*✪_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی قریش مکہ کے سامنے اس طرح گزری کہ پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ صاحب اولاد بیوہ ( جس کے دو شوہر فوت ہو چکے تھے ) سے عقد کر کے عمر کے پچیس سال تک انہی کے ساتھ گزارہ کیا، وہ بھی اس طرح کہ مہینہ مہینہ گھر چھوڑ کر غار حرا میں مشغول عبادت میں رہتے تھے، دوسرے نکاح جتنے ہوئے پچاس سالہ عمر شریف کے بعد ہوئے، یہ پچاس سالہ زندگی اور عنفوان شباب کا سارا وقت اہل مکہ کی نظروں کے سامنے تھا،*
*✪_ کبھی کسی دشمن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں ملا جو تقویٰ وطہارت کو مشکوک کر سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزامات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی پر کوئی ایسا حرف کہنے کی جرأت نہیں ہوئی جس کا تعلق جنسی اور نفسانی جذبات کی بے راہ روی سے ہو۔*
*✪_ ان حالات میں کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ جوانی کے پچاس سال اس زہد و تقویٰ اور لذائد دنیا سے یک سوئی میں گزارنے کے بعد وہ کیا داعیہ تھا جس نے آخر عمر میں آپ صلی اللہ علیہ سلم کو متعدد نکاحوں پر مجبور کیا، اگر دل میں ذرا سا بھی انصاف ہو تو ان متعدد نکاحوں کی وجہ اس کے سوا نہیں بتلائی جاسکتی جس کا اوپر (پچھلے پارٹ میں) ذکر کیا گیا ہے، اور اس کثرت ازواج کی حقیقت کو بھی سن لیجیے کسی طرح وجود میں آئی،*
*✪_ پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر شریف ہونے تک تنہا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں، ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ہوا، مگر حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لے آئیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کم عمری کی وجہ سے اپنے والد کے گھر ہی میں رہیں،*
*✪_ اور چند سال کے بعد میں مدینہ منورہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چوپن (۵۴) سال ہو چکی ہے، اور دو بیویاں اس عمر میں آکر جمع ہوئی ہیں، یہاں سے تعداد ازواج کا معاملہ شروع ہوا،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*✪__ اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا، پھر کچھ ماہ بعد حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا اور صرف اٹھارہ ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں رہ کر وفات پائی، پھر ٤ھ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا، پھر ٥ ھ میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اٹھاون سال ہو چکی تھی، اور اتنی بڑی عمر میں آکر چار بیویاں جمع ہوئیں،*
*✪_ حالانکہ امت کو جس وقت چار بیویوں کی اجازت ملی تھی اس وقت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم چار نکاح کر سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا، ان کے بعد ٦ھ میں حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے، اور ٧ چھ میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اور پھرے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے، پھر اسی سال حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا۔*
*✪_خلاصه یہ کہ چون سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک بیوی کے ساتھ گزارا کیا، یعنی پچیس سال حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ اور چار پانچ سال حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ گزارے، پھر اٹھا ون سال کی عمر میں چار بیویاں جمع ہوئیں اور باقی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما دو تین سال کے اندر حرم نبوت میں آئیں۔*
*✪_ اور یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ ان سب بیویوں میں صرف ایک ہی عورت ایسی تھیں جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا، یعنی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا، ان کے علاوہ باقی سب ازواج مطہرات ہیوہ تھیں، جن میں بعض کے دو دو شوہر پہلے گزر چکے تھے، اور یہ تعداد بھی آخر عمر میں آ کر جمع ہوتی ہے۔*
*✪_ نیز یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے نبی بر حق ہیں، نبی جو کچھ کرتا ہے حکم الٰہی سے کرتا ہے، نبی ماننے کے بعد ہر اعتراض ختم ہو جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا اپنے رب کے حکم سے کیا۔ تعدد ازدواج کی وجہ سے تعلیمی اور تبلیغی فوائد جو امت کو حاصل ہوئے، اور جو احکام امت تک پہنچے اس کی جزئیات اس قدر کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا احصاء دشوار ہے، کتب احادیث اس پر شاہد ہیں،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰بیویوں میں مساوات نہ کرنا بڑا گناہ ہے _,*
*✪_ اگر متعدد بیویوں میں مساوات اور عدل پر قدرت نہ ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کیا جائے، ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے جبکہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کر سکے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھی جائے ،*
*✪_ اگر چہ قرآن کریم نے چار عورتیں تک نکاح میں رکھنے کی اجازت دیدی اور اس حد کے اندر جو نکاح کیے جائیں گے، وہ صیح اور جائز ہوں گے لیکن متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں ان میں عدل اور مساوات قائم رکھنا واجب ہے، اور اسکے خلاف کرنا گناہ عظیم ہے،*
*✪_ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں کے درمیان پوری مساوات و عدل کی سخت تاکید فرمائی ہے، اور اس کے خلاف کرنے پر سخت وعیدیں سنائی ہیں اور خود اپنے عمل کے ذریعے بھی اس کو واضح فرمایا ہے، بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان معاملات میں بھی مساوات فرماتے تھے جن میں مساوات لازم نہیں۔*
*✪_ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں دو عورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری اور انصاف نہ کر سکے تو وہ قیامت میں اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔ (مشکوۃ ۲۷۸)*
*✪_ البتہ یہ مساوات ان امور میں ضروری ہے جو انسان کے اختیار میں ہیں، مثلاً نفقہ میں برابری، شب باشی میں برابری، رہا وہ امر جو انسان کے اختیار میں نہیں ، مثلاً قلب کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہو جائے، تو اس غیر اختیاری معاملہ میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں، بشرطیکہ اس کا میلان کا اثر اختیاری معاملات پر نہ پڑے،*
*✪_ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اختیاری معاملات میں پوری مساوات قائم فرمانے کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا اللہ ! یہ میری برابر والی تقسیم ہے ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں ، اب وہ چیز جو آپ کے قبضہ میں ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کرنا _,*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
[⚄⇰_حرمت متعہ اور نکاح موقت:-*
*✪_ حرمت متعہ :- متعہ مخصوص وقت کے لیے کیا جانے والا نکاح ہے، اس میں نہ حصول اولاد مقصود ہوتا ہے، نہ گھر بار بسانا، اور نہ عفت و عصمت اور اس لیے جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا، اور اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا۔ اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے، اس لیے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں، جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔*
*✪_ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔“*
*"_حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔*
*✪_ دوسری حدیث جو امام ترمذی نے نقل کی ہے وہ یہ ہے:- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ متعہ اسلام کے عہد اول میں مشروع تھا، یہاں تک کہ آیت كريم إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا، اس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ شرعیہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔"*
*✪ _نکاح موقت کا حرام ہونا:- نکاح متعہ کی طرح نکاح موقت بھی حرام اور باطل ہے، نکاح موقت یہ ہے کہ ایک مقررہ مدت کے لیے نکاح کیا جائے۔ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں لفظ متعہ بولا جاتا ہے اور نکاح موقت لفظ نکاح سے ہوتا ہے۔*
*®. (عالمگيريه: ۲۸۲/۱)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰بیوی کا دودھ پینا حرام ہے:-*
*✪_ بیوی کا دودھ پینا شوہر کے لیے حرام ہے، لیکن اگر کسی نے پی لیا چاہے قصداً پیے یا بلا قصد کے، تو اس پر لازم ہے کہ اس سے توبہ کرے، تاہم اس سے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا، نکاح بدستور قائم رہے گا۔*
*®_ (رد المحتار: باب الرضاع: ۲۱۱/۳ طبع سعيد)*
*✪_ اگر بیوی کے پستان میں دودھ نہ ہو تو پستان منہ میں لینا جائز ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں، تاہم دودھ منہ میں آنے کا اندیشہ بھی ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔*
*®_(رد المحتار: ٣٢٥/٣ باب الرضاع)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
⚄⇰مزینہ سے نکاح کا حکم:-*
*✪_ زنا کاری شرعاً عقلاً بڑا قبیح فعل ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے اس کو سخت حرام قرار دیا بلکہ بوس و کنار، بد نظری، بے پردگی وغیرہ جو زنا کے اسباب ہیں ان کو بھی حرام قرار دیا ہے_,"*
*✪_ قوله تعالى ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة وساء سبيلا (بني إسرائيل: ٣٢)*
*"_ ترجمہ: زنا کاری کے قریب بھی مت پھٹکو بلا شبہ وہ بڑی بے حیائی ( کی بات) ہے اور بری راہ ہے۔*
*"✪_ اگر کسی لڑکا لڑ کی سے یہ حرام فعل سرزد ہوا تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ ان کو حاکم وقت کوڑے کی سزا دے اور وہ دونوں تویہ بھی کریں، اگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے یا ملک میں یہ قانون نافذ نہ ہو، یا قانون نافذ ہے، اور کوڑے کی سزا دیدی بعد میں وہ دونوں آپس میں شادی کرنا چاہیں تو شرعاً اس کی اجازت ہے،*
*"✪_ بلکہ اگر زنا کی وجہ سے حمل بھی ٹھہر گیا ہو تب بھی زانی کے لیے حالت حمل میں بھی اپنی مزینہ سے نکاح کرنا جائز ہے۔*
*®_(رد المحتار ٤٨/٣ ، فصل في المحرمات طبع سعيد)*
*"✪_ دوسرے کی مزینہ سے بھی حالت حمل میں نکاح جائز ہے لیکن وضع حمل تک ہمبستری جائز نہیں ، جبکہ اپنی مزینہ سے نکاح کی صورت میں وضع حمل سے پہلے بھی ہمبستری جائز ہے_,*
*®_ (رد المحتار: ٤٨/٣ )*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰سالی سے زنا کرنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی_,
*✪_ سالی (یعنی بیوی کی بہن ) سے زنا کرنا بھی بڑا سخت گناہ ہے، اگر کسی سے ایسا گناہ سرزد ہو گیا تو فوراً توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، اور آیندہ اس سالی سے پردہ کا اہتمام کرنا چاہیے لیکن اس عمل سے اس کی بیوی کے ساتھ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ بدستور اس کی منکوحہ ہے،*
*"✪_ تاہم سالی کے استبراء یعنی اس کے ایک حیض گزرنے تک یا اس کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کے وضع حمل تک اپنی بیوی سے جماع کرنا جائز نہیں۔ بلکہ علیحدہ رہنا واجب ہے,*
*®_(النتف في الفتاوى كتاب النكاح ۱۸۹، مطبوعه دار الكتب العلمية)*
*"✪_ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے کہ کم از کم ایک حیض گزرنے تک بیوی سے علیحدہ رہنے کو واجب قرار دیا جائے ، خاص طور پر جبکہ معاملہ فروج سے متعلق ہے جس میں احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔*
*®_(شامیه : ۲۸۳/۳ ، امداد المفتين (٥٥٣)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مزینہ کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں_,
*✪_ جس عورت سے زنا کیا ہو یا نا جائز طور پر بوس و کنار کیا ہو۔ اس کی لڑکی سے نکاح حرام اور باطل ہے۔ خواہ لڑکی زانی کے نطفہ سے ہو یا نہ ہو۔ اب اگر زانی شخص اپنی مزینہ کی لڑکی بیوی کے طور پر رکھتا ہے، تو زانی ہی کہلائے گا، اولاد اگر پیدا ہوں وہ بھی حرامی النسل ہوگی، عزیز واقارب اور دیگر با اثر افراد پر لازم ہوگا کہ ایسا بد کار شخص سے معاشرتی بائیکاٹ کرے۔*
*®_ (رد المحتار ۳۲/۳، فصل في المحرمات مطبوعه (سعيد)*
*⇰_ مزینہ کی ماں سے نکاح حرام ہے:-*
*✪_ جس عورت سے زنا کیا ہو یا ناجائز طور پر بوس و کنار ہوا ہو اس کی ماں سے نکاح کرنا حرام ہے، کیونکہ زنا کاری سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے، یعنی زانی کے لیے مزینہ کی بیٹی نواسی وغیرہ اور مزینہ کی ماں اور نانی وغیرہ نیز مزینہ کے لیے زانی کا بیٹا یا باپ سب سے نکاح حرام ہو جاتا ہے۔*
*®_ ( كذا في البحر الرائق: ۱۰۱/۳ ، الهنديه الباب الثالث في المحرمات-٢٧٥/١)*
* ▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰اہل کتاب سے نکاح کا حکم-*
*✪ _ جو عیسائی یا یہودی، اللہ تعالی کے وجود کے قائل ہو، اور آسمانی کتابوں میں کسی ایک کتاب توراۃ ، انجیل زبور وغیرہ کو مانتا ہو، کسی پیغمبر پر ایمان کا دعویدار ہو ایسی عورت سے فی نفسہ نکاح جائز ہے بشرطیکہ نکاح شرعی طریقے پر دو گواہوں کے سامنے ہو اور وہ عورت پاکدامن ہو_,*
*✪ __ قوله تعالى : - وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اِذَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍؕ _, (مائدة: ٥)*
*"_یعنی تمہارے لیے مسلمان پاکدامن عورت سے نکاح حلال ہے اسی طرح اہل کتاب کی عفیف اور پاکدامن عورتوں سے بھی نکاح حلال ہے _,*
*®_ (احكام القرآن للجصاص)*
*"✪ __ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہ و تابعین کے نزدیک اگر چہ از روئے قرآن اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح فی نفسہ حلال ہے لیکن ان سے نکاح کرنے پر جو دوسرے مفاسد اور خرابیاں اپنے لیے اور مفاسد اور اور اپنی اولاد کے لیے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے از روئے تجربہ لازمی طور سے پیدا ہوں گی، ان کے کی بناء پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو وہ بھی مکروہ سمجھتے تھے۔*
*®_( معارف القرآن)*
*✪ _ حضرت حذیفہ بن یمان جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کر لیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دیدو ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے، تو پھر امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں نے حرام نہیں کہا لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پر عفت و پاکدامنی نہیں ہے۔ اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے گھرانہ میں اس راہ سے فحش و بدکاری داخل نہ ہو جائے_,*
*®_ احکام القرآن _,*
*✪__ حضرت امام محمد بن حسن رحمہ اللہ تعالی نے کتاب الآثار میں اس واقعہ کو بروایت امام ابوحنیفہ اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم نے جب حضرت حذیفہ کو خط لکھا تو اس کے الفاظ یہ تھے: یعنی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دیکر آزاد کر دو۔ کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتدا کریں اور اہل ذمہ اہل کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں تو مسلمان عورتوں کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی ؟“*
*®_(كتاب الآثار: ١٥٦)*
*"✪ __ اس واقعہ کو نقل کر کے حضرت محمد بن حسن رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فقہائے حنفیہ اس کو اختیار کرتے ہیں کہ اس نکاح کو حرام تو نہیں کہتے لیکن دوسرے مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہیں۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_غیر مسلم سے نکاح حرام ہے:-*
*✪ _ کوئی بھی مشرک بت پرست (ہندو یا سیکھ یا بدھ مت کے ماننے والی وغیرہ) سے مسلمان مرد کا نکاح حرام ہے، جب تک وہ با قاعدہ طور پر دین اسلام کو قبول کر کے مسلمان نہ ہو جائے، ایک مسلمان کے لیے ان سے نکاح ہرگز جائز نہیں۔*
*®_( رد المحتار ٤٦/٣ ، فصل في المحرمات)*
*"✪ _ کتابیہ عورت سے نکاح کا جواز تو بعض شرائط سے ثابت ہے۔ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے لیکن کسی مسلمان خاتون کا نکاح غیر مسلم مرد سے چاہے کتابی ہو یا غیر کتابی کسی حال میں مردت حلال نہیں، اس لیے اس کا خوب خیال رکھنا لازم ہے۔*
*®_( الهنديه كتاب النكاح الباب الثالث -۲۸۲/۱) (بدائع الصنائع ٢٥٣/٢ ، مطبوعه سعيد)*
*"✪ _ قوله تعالى : ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن) (بقرة : ۲۲۱)*
*"_ اور مشرک عورت سے نکاح مت کرو جب تک ایمان نہ لے آئیں۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰قادیانی سے نکاح کا حکم:-*
*✪ _ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری پیغمبر ہیں آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ علیہ السلام کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہو گا، یہ عقیدہ رکھنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے_,*
*✪ _ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی نبوت جھوٹا ہے۔ اس دعوی میں اس نے قرآن وحدیث کے ان تمام صریح نصوص کا انکار کیا جن سے ختم نبوت کے عقیدہ ثابت ہے,*
*✪ _ لہذا مرزا غلام احمد قادیانی مرتد ، کافر ، دائرہ اسلام سے خارج ہے، اب جو شخص بھی مرزا غلام کو نبی تسلیم کرتا ہے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس سے نکاح کا رشتہ قائم کرنا جائز نہیں، اس کو لڑکی دیتا یا ایسی کسی لڑکی کو اپنے نکاح میں لانا دونوں ہی حرام ہیں۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_شیعہ سے نکاح _,
*"✪_ جو شخص حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدائی کا قائل ہو، (یعنی حلول کا عقیدہ رکھتا ہو ) یا قرآن کریم کو تحریف شدہ مانتا ہو ، یا ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر زنا کی تہمت رکھتا ہو، یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا منکر ہو، یا حضرت جبرئیل علیہ السلام کی وحی لانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتا ہو، یا کوئی اور کافرانہ عقیدہ رکھتا ہو، وہ کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے، لہٰذا اگر کوئی شیعہ لڑکی ان عقائد کی حامل ہو تو اس سے سنی مسلمان کا نکاح حلال نہیں۔*
*"✪_ اگر کفریہ عقائد نہ رکھتی ہو تو فی نفسہ نکاح منعقد ہو جائے گا تاہم اس نکاح سے مرد کے عقیدہ خراب ہونے کا قوی امکان ہے، اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔*
*®_ (رد المحتار: ٤٦/٣ فصل في المحرمات كتاب النكاح)*
*✪_اگر کوئی شیعہ کفریہ عقائد رکھتا ہے، تو اس کے ساتھ سنی لڑکی کا نکاح منعقد نہ ہوگا۔ اور اگر کفریہ عقائد نہ رکھتا ہو تب بھی وہ مبتدع اور فاسق ہے، اس سے سنی لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ فاسق ہونے کی وجہ سے سنی لڑکی کا کفو نہیں۔*
*®_ (عالمگیریه: ۱ / کتاب النکاح)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰غیر مقلد سے نکاح:-*
*✪ _ جو لڑکی عقیدہ اہل سنت و الجماعت کی حامل اور فقہ کو ماننے والی خصوصاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کے ماننے والی ہو اس کا نکاح غیر مقلد ( بقول خود اہل حدیث ) لڑکے سے فی نفسہ منعقد ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ بھی مسلمان ہیں،*
*✪ _ تاہم ایسی جگہ رشتہ کرنے میں عموماً خاندانوں کے آپس میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ احادیث کی روشنی میں مرد و عورت کی نماز میں ۱۳ مقامات میں فرق ہیں۔ اور بھی کئی بنیادی مسائل ہیں جن میں جمہور اہل سنت اور غیر مقلدین کا اختلاف ہے،*
*✪ _ تو ان کے ہاں شادی کی صورت میں مرد اور اس کے خاندان والے لڑکی کو ان مسائل میں غیر مقلدین کی پیروی کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جس سے آپس میں نا چاقی پیدا ہوتی ہے، اس طرح بعض دیگر مسائل میں بھی تشدد کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو لڑ کی دینے سے حتی الامکان احتراز کیا جائے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰ٹیلیفون پر نکاح کا حکم :-
*"✪_ نکاح میں چونکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ دو گواہ مجلس نکاح میں حاضر ہوں اور ایجاب و قبول دونوں سنیں، اس لیے ٹیلیفون پر نکاح درست نہیں ہوتا،*
*"✪_ اگر دوسرے شہر یا ملک میں نکاح کرنا ہو تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس شہر میں (یعنی جس میں لڑکی ہے) کسی شخص کو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کر دیں، وکیل اس کی طرف سے دوسرے فریق کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرے، اس طرح نکاح صحیح ہو جائے گا_,"*
*®_ (فتاویٰ عثمانی: ٣٠٤/٢)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰تحریری نکاح کا حکم,*
*"✪_ تحریر کے ذریعہ بھی نکاح ہو سکتا ہے، مگر یہ ضروری ہے کہ طرفین میں سے ایک کی جانب سے نکاح کی قبولیت کا زبانی اظہار ہو اور صرف ایک ہی طرف سے تحریر ہو۔ نیز قبولیت کا اظہار دو گواہوں کے سامنے کیا جائے، اور وہ تحریر بھی ان گواہوں کو سنادی جائے،*
*"✪_ مثلأ زید ہندہ کو لکھے کہ میں نے تم سے ایک تولہ سونا مہر پر نکاح کیا، ہندہ کے پاس جب یہ تحریر پہنچے تو وہ اول دو گواہوں کو طلب کر کے ان کو یہ تحریر سنا دے اور پھر ان کے سامنے کہے کہ میں اسے قبول کرتی ہوں، اب نکاح منعقد ہو جائے گا۔*
*"✪_ اگر ہندہ وہ تحریر پڑھ کر گواہوں کو نہ سنائے بلکہ صرف اپنی قبولیت کا اظہار ان کے سامنے کرے یا زبانی اظہار کے بجائے صرف تحریر لکھ دے، اور اسی پر گواہوں کے دستخط کرائے، یا گواہوں کے دستخط بھی نہ کرائے ان تمام صورتوں میں نکاح نہ ہو سکے گا_,*
*®_ (خلاصة الفتاوى الفصل السابع عشرفي النكاح بالكتاب)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰نکاح کے وقت ولدیت غلط بتانا:-
*✪_ بعض لوگ دوسرے کی اولاد لڑکا یا لڑکی لیکر پرورش کرتے ہیں، اب کسی جگہ اپنے بچوں کی ولدیت بتانی پڑے تو اپنی طرف منسوب کر دیتے ہیں، نکاح کے وقت بھی یہ معاملہ پیش آتا ہے،*
*"✪_ تو حکم یہ ہے کہ اپنی ولدیت ہمیشہ اپنے اصل والد کی بتانی چاہیے سوتیلے باپ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں، حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔*
*"✪_ لیکن اگر نکاح کے وقت غلط ولدیت بتا دی گئی مگر عورت یا اس کا وکیل جانتا تھا، کہ اس سے مراد کونسا مرد ہے، یا کونسی عورت ہے تو نکاح درست ہو جائے گا۔*
*"✪_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی غیر کی طرف نسبت کی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اس پر جنت حرام ہے۔"*
*(رواه البخاري ومسلم وأبو داود وابن ماجة ، ترغيب وترهيب :٧٥/٣)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰غلطی سے لڑکی کا نام بدل گیا:-*
*✪_اگر غلطی سے نکاح کے وقت نام بدل گیا۔ مثلاً زینب بنت بکر کا نام خالدہ بنت بکر کہہ دیا یا زينب بنت عمر کہا، یا زینب ابوبکر کہا وغیرہ، اب اگر شادی کے گواہ لڑکی کو پہچانتے ہوں کہ فلانہ زینب بنت بکر ہی کا نکاح ہو رہا ہے، یا وہ لڑکی مجلس نکاح میں خود موجود ہے اور اس کی طرف اشارہ کر کے نکاح پڑھایا اور گواہ بھی پہچان رہے ہیں کہ اس لڑکی کا نکاح ہو رہا ہے، تو نام غلط بتانے کے باوجود یہ نکاح منعقد ہو جائے گا،*
*"✪_ اور اگر لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہ ہو اور نہ اس کی طرف اشارہ ہوا اور گواہوں کو متعین طور پر معلوم نہیں کہ فلانہ زینب بنت بکر ہی کا نکاح ہو رہا ہے، ان سب صورتوں میں نکاح منعقد نہ ہوگا۔ دوبارہ ان شرائط کے ساتھ نکاح پڑھوانا ضروری ہے۔*
*®_ (رد المحتار : ٢٦/٣ ، مطبوعه سعيد)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_گونگے کے نکاح کا طریقہ :
*✪_گونگے کا نکاح اس طرح پڑھایا جائے گا کہ دو گواہوں کی موجودگی میں گونگے سے نکاح قبول کرنے کا ایسا اشارہ کروایا جائے گا جس سے ایجاب و قبول مفہوم ہو،*
*✪_ اور سننے والوں کو اس کی مراد معلوم ہو جائے، یعنی اس سے تلفظ بھی کروایا جائے۔*
*®_رد المحتار- ۲۱/۳ ، باب النكاح مطبوعه -*
*▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_تجدید نکاح کب لازم ہے؟*
*✪_ بعض الفاظ کفریہ ہوتے ہیں کبھی قصداً اور کبھی لاعلمی میں، یا کبھی غصہ میں ایسے الفاظ منہ سے نکل جائیں معنی و مطلب کے لحاظ سے علماء کے نزدیک کفر ٹھہرے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کی قصداً توہین کی جس سے اس شخص کا عمل تحقیق حال کے بعد کفر ٹھہرا، یا کوئی اور ایسا مسئلہ پیش ہو جس کی وجہ سے علماء محققین نے اس شخص کے کفر کا فتویٰ صادر فرمایا،*
*"✪_ ایسا شخص اگر اپنی نازیبا حرکت اور فعل سے توبہ کرے تو اس پر لازم ہو گا کہ تجدید ایمان کے ساتھ ساتھ تجدید نکاح بھی کرے، او جس مسئلہ میں اختلاف ہو کہ اس سے کفر صادر ہوا یا نہیں ہوا، وہاں احتیاطاً تجدید ایمان و تجدید نکاح کا حکم کیا جاتا ہے۔*
*®_ الفتاوى العالمگيريه : ۲۸۳/۲،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰تجدید نکاح کا طریقہ :-*
*"✪_ چونکہ شرعاً ہر نکاح میں گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے، اور مہر بھی لازم ہوتا ہے، اس لیے تجدید نکاح کے وقت یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ اگر شوہر کے پاس گنجائش ہے تو نئے مہر کے طور پر کچھ مقرر کرے یا گنجائش نہیں تو بیوی شوہر کو مہر کا کچھ حصہ ہدیہ کر دے، اور شوہر کو اس نیا نکاح کا وکیل بھی بنادے،*
*"✪_ پھر شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں با قاعدہ قبول کرے، الفاظ اس طرح استعمال کرے کہ فلانہ بنت فلاں کو اتنے مہر کے عوض میں اپنے نکاح میں لایا اور دونوں گواہ اس مجلس کو مجلس نکاح سمجھے اور نکاح کو حقیقت پر ہی معمول کرے۔*
*"✪_ یعنی وہ دونوں گواہ یہ سمجھے کہ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان نیا نکاح ہو رہا ہے۔ صرف مذاق یا دل لگی نہ سمجھے ورنہ نکاح منعقد نہ ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰خطبہ نکاح سننا واجب ہے :-
*✪_ نکاح سے پہلے جو نکاح کا خطبہ پڑھا جاتا ہے، اسی طرح تقریر سے پہلے جب خطبہ مسنونہ پڑھا جا رہا ہو اس دوران حاضرین کا آپس میں بات چیت کرنا جائز نہیں بلکہ خطبہ سننا واجب ہے، اس دوران بات چیت کرنے والے گناہگار ہوں گے توبہ لازم ہے،*
*®_(رد المحتار : ١٥٩/٢ سعيد)*
*✪_ اس زمانہ میں لوگ اس میں بہت غفلت کرتے ہیں کوئی دولہا کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور کوئی تو شیرینی کی فکر میں ہے کوئی ملنے جلنے والوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہے، اس لیے اس مسئلہ کی اشاعت کرنی چاہیے کہ نکاح کا خطبہ بھی غور سے سنے اس دوران خاموشی اختیار کرے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰دو عیدوں کے درمیان نکاح بلا شبہ جائز ہے:-*
*"✪_ بعض لوگوں میں یہ غلط بات چل پڑی ہے کہ دونوں عیدوں کے درمیان نکاح جائز نہیں، یہ بالکل بے اصل بات ہے،*
*"✪_ جمہور امت کے نزدیک دونوں عیدوں کے درمیان نکاح جائز ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شوال کے مہینے میں ہوا۔*
*®_(مشكوة باب اعلان النكاح والخطبة: ۲۷۱/۲)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰شادی کے موقع پر چھوہارے پھینکنا سنت ہے:-*
*✪ _ نکاح کے موقع پر عموماً چھوہارے تقسیم کرتے ہیں اور فرد افرد ہاتھوں میں دیتے ہیں، اس بارے میں اصل سنت طریقہ یہ ہے کہ مجلس نکاح میں شرکاء میں چھوہارے تقسیم کرنے کی بجائے پھینک کر دیا جائے چھڑ کا جائے۔*
*®_(اعلاء السنن ۱۲/۱۱ كتاب النكاح باب الوليمة) (خير الفتاوى ٥٨٥/٤، كتاب النكاح باب المتفرقات)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰منگنی کی رسم اور دعوت :-*
*✪"_ شرعاً منگنی کی حیثیت ایک وعدہ کی ہے۔ یعنی اگر منگنی کی مجلس میں با قاعدہ ایجاب و قبول نہ ہو بلکہ صرف رشتہ طے ہونے کے بعد آئیندہ نکاح کا وعدہ ہو تو اس کی حیثیت وعدہ کی ہوئی،*
*"✪_ اب اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی معقول عذر پیش نہ آئے اس وعدے کو پورا کرنا ضروری ہے، البتہ اگر کوئی معقول عذر پیش آئے تو منگنی توڑی بھی جاسکتی ہے۔*
*®_ (رد المحتار: ۱۱/۳، کتاب النكاح مطبوعه سعيد)*
*"✪_ بعض علاقوں میں منگنی نے ایک مستقل رسم کی حیثیت اختیار کر لی، اس میں دو طرف سے عزیز واقارب کے علاوہ ملنے جلنے والے اور اہل محلہ کی ایک بڑی تعداد کو بلائی جاتی ہے، اس موقع پر دعوت بھی ہونے لگی ہے بلکہ ولیمہ کی دعوت کی طرح دعوت ہوتی ہے،*
*"✪_ خوب مجھ لینا چاہے کہ منگنی کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ دونوں طرف کے چند ذمہ دار حضرات جمع ہو کر رشتہ طے کر لیں۔ مہر کا تعین نیز شادی اور رخصتی کا وقت تاریخ وغیرہ متعین کر لیں۔ اس موقع کی مناسبت سے ہلکی سی ضیافت ہو جائے، تو بھی کوئی حرج نہیں، اس کے لیے باقاعدہ دعوت کا اہتمام کرنا، اس کو سنت قرار دینا با لکل غلط ہے۔ بلکہ سنت سمجھ کر ایسا کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔*
*"✪_ اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ ایسے موقع پر سادگی سے کام لیا جائے تکلف سے اجتناب کیا جائے۔ تو دنیا و آخرت دونوں لحاظ سے خوشی نصیب ہوگی,*
*®_ فتاوی عثمانی ۲۳۲/۲ کتاب النکاح,*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰ایک جگہ منگنی کے بعد دوسری جگہ نکاح :-
*"✪_ بعض جگہ دستور ہے کہ منگنی کے موقع پر باقاعدہ ایجاب و قبول ہو جاتا ہے، لڑکا اور لڑکی اگر نا بالغ ہو تو والد یا دادا، چاچا وغیرہ سے گواہوں کے روبرو ایجاب وقبول کروالیا جاتا ہے،*
*"✪_ ایسی صورت میں اس مجلس کا نام اگرچہ منگی کی ہوتی ہے، تاہم جب نکاح کے قصد سے ایجاب و قبول ہو گیا تو نکاح منعقد ہو گیا، اب اس رشتہ کو توڑا نہیں جاسکتا، جب تک یہ نکاح برقرار ہے دوسری جگہ نکاح نہیں ہو سکتا، اگر دوسری جگہ نکاح کر دیا تو وہ نکاح باطل ہے، منعقد نہیں ہو گا۔*
*✪"_ اگر منگنی کی مجلس میں گواہوں کے روبرد ایجاب و قبول نہ ہوا تو یہ وعدہ نکاح ہے، اگر کوئی معقول عذر پیش آئے تو منگنی توڑ کر دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوگا۔*
*®_ (رد المحتار: ۲۸۷/۲ کتاب النکاح)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰منگنی کے موقع پر دی ہوئی اشیاء کی واپسی*
*✪_ منگنی کے موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو کچھ سامان دیا گیا، مثلأ گھڑی، انگوٹی، اور دیگر ساز و سامان وغیرہ یا کچھ کھانے پینے کا سامان، بعد میں لڑکی والوں نے رشتہ سے انکار کر دیا، تو ایسی صورت میں جو سامان موجود ہوں ان کو واپس لیا جا سکتا ہے،*
*"✪_ اور جو ہلاک ہو چکے ہوں یا کھا پی لیا ان کی واپسی نہیں ہو سکتی نیز اگر لڑکی والوں نے انکار نہیں کیا بلکہ خود لڑ کے والوں نے انکار کر دیا تو کچھ بھی واپس نہیں لیا جا سکتا۔*
*®_ (رد المحتار ١٥٣/٣، طبع سعید )*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰شادی کے موقع پر (لڑکے یا لڑکی سے) رقم وصول کرنا حرام ہے:-*
*"✪_ بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکی والے دولہا سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور آج کل اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لڑکے والے لڑکی والوں سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایک معتد بہ رقم لیکر رشتہ کرتے ہیں،*
*"✪_ حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر یہ رقم بطور قرض لیا جاتا ہے تو حسب ضرورت طرفین کی رضا مندی سے قرض کا لین دین درست ہے۔ مگر اس میں بھی یہ لحاظ رہے کہ شادی کے دباؤ اور اثر سے نہ ہو،*
*"✪_ اگر یہ قرض نہیں بلکہ شادی ہی کی وجہ سے لیا جاتا ہے تو یہ رشوت ہے اور حرام ہے، اس کی واپسی ضروری ہے۔*
*®- فتاوی محمودیه جهیز کا بیان، رد المحتار: ١٥٦/٣)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰شادی کے موقع پر گناہوں سے بچیں:-*
*✪_ دنیا میں ایک غلط دستور چل پڑا ہے کہ لوگ عام مواقع کی نسبت تین مواقع پر زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ ایک شادی کے موقع پر دوسرے ولادت کے موقع پر اور تیسرے کسی کے مرنے پر، حالانکہ یہ تین مواقع ایسے ہیں کہ ان میں انسان کو زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی کے مقرر کردہ قوانین کی زیادہ سے زیادہ رعایت کرنا چاہیے اس لیے کہ پہلی دو چیزیں یعنی شادی اور ولادت تو بہت بڑی نعمتیں ہیں اور یہ ایک فطری اصول ہے کہ نعمت ملنے پر انسان کا دل اپنے منظم اور حسن کی طرف خود بخود کھنچتا ہے۔*
*"✪_ ان تین مواقع میں مسلمان کو گناہ چھوڑ دینے چاہئیں مگر وہ ان تینوں مواقع میں کھل کر اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہے۔ شادی اور ولادت کے مواقع پر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سب کو خوش کر دے کسی سے گلہ شکوئی نہ رہے چنانچہ رشتہ داروں میں، دوستوں میں کسی کو اس سے کچھ شکایت بو، ناراضگی ہو تو اس کے پاس خود چل کر جاتا ہے اور خوشاہ کر کے ان کو راضی کر نے کی کوشش کرتا ہے ،*
*"✪_ شادی میں خوشامد کر کے سب کو جمع کر لیتے ہیں اور ہر قیمت پر انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ظلم دیکھئے کہ سب لوگوں کو جمع کرتے ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دیتے ہیں کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے ذرا ایک طرف ہو جائیں۔ اس وقت آپ کی بجائے ہم نے شیطان کو بلا لیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کے دل میں شیطان کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے شادی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر شیطان کو راضی کرتا ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰خطبہ مسنونہ کی آیات:-*
*"✪ _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے خطبہ میں تین آیتیں پڑھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کا انتخاب فرما کر امت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور بغاوت سے بچنے کی ہدایات دی ہیں اور یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اس موقع پر لوگ اللہ تعالی کی بغاوتیں اور نافرمانیاں بہت کرتے ہیں۔ پہلے سے بڑھ کر نا فرمانیاں کرتے ہیں،*
*"✪ _ اللہ تعالٰی نے ان آیات میں دھمکی دی ہے کہ خبردار ! یہ نعمت میں نے دی ہے خوشی میں آکر اتراؤ مت۔ میں چاہوں تو اپنی نعمت چھین بھی سکتا ہوں۔ شادی تو تم نے کر دی آگے میاں بیوی میں توافق پیدا کرنا میرا کام ہے میری قدرت میں ہے کہ اس کو نعمت بناؤں یا عذاب۔ میری قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں، جس نعمت پر تم اترا رہے ہو اتنی خوشیاں منارہے ہو میں چاہوں تو اس نعمت کو عذاب میں بدل ڈالوں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے حق میں عذاب اور مصیبت بن جائیں ۔ یہ سب میری قدرت میں ہے۔*
*"✪ _ ان آیات کے ذریعے اللہ تعالی شادی کرنے والوں کو تنبیہ فرمارہے ہیں کہ ہوش میں آجاؤ ایسا نہ ہو کہ شامت اعمال سے یہ خوشیاں تمہارے لیے وبال بن جائیں۔ یہ بھی اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ جہاں جہاں انسان کے بھٹکنے کا احتمال ہوتا ہے، اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں غلط راستے پر نہ پڑ جائے اللہ تعالی پہلے سے ہی اسے بیدار کر دیتے ہیں بلکہ جنجھوڑتے ہیں کہ میرے بندے بھٹک نہ جانا۔ یہ امتحان کا موقع ہے ہو شیار رہنا۔ یہ اللہ تعالی کی رحمت ہے ورنہ وہ اگر خبر دار نہ کریں اور انسان بھٹک جائے تو اس میں اللہ تعالی کا کیا بگڑے گا؟ یہ بندوں پر ان کی رحمت اور مشفقت ہے۔*
*"✪ _ یوں تو انسان کو قائل کرنے اور اسے مجبور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے احسان بھی کافی ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے عقل بھی دی ہے۔ عقل کے علاوہ شریعت بھی دی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالی موقع بموقع بار بار متوجہ فرماتے رہتے ہیں کہ متوجہ ہو جاؤ غفلت سے باز آجاؤ کتنی بڑی شقاوت قلب ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود یہ مسلمان پھر بھی بغاوت سے باز نہیں آتا پھر وہی ٹیڑھی چال گویا کہ اسے مرنا ہی نہیں، اللہ تعالی کے سامنے کبھی جانا ہی نہیں۔*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*⇰ایک سنگین غلطی,*
*"✪__ ان میں سے ایک غلط کام یہ بھی ہے کہ شریعت کا حکم ہے کہ لڑکی سے اجازت لینے کے لیے ولی اقرب جائے یعنی لڑکی کے رشتہ داروں میں جو قریب سے قریب تر رشتہ دار ہے وہی لڑکی سے جا کر پوچھے کہ اس لڑکے سے تیرا نکاح کر رہے ہیں تجھے قبول ہے؟ اگر لڑکی کنواری ہو اور پوچھنے والا قریب تر رشتہ دار ہو تو پوچھنے پر لڑکی کے خاموش رہنے سے نکاح ہو جاتا ہے صراحہ اجازت دیتا ضروری نہیں، اگر لڑ کی کنواری نہ ہو، پوچھنے والا قریب تر رشتہ دارنہ ہو تو لڑکی کا صراحہ اجازت دینا ضروری ہے خاموش رہنے سے نکاح نہ ہوگا،*
*"✪__ لڑکی کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار کون ہے؟ والد ۔ والد جا کر پوچھے۔ کسی کا والد نہیں ہے تو والد کے بعد دادا کا نمبر ہے, دادا جا کر پوچھے۔ والد بھی نہ ہو دادا بھی نہ ہو تو بھائی پوچھے۔ پھر بھائی کے بعد بھتیجے کا نمبر ہے۔ بھائی بھتیجے اور بھتیجوں کی اولاد میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر چاچا ولی ہے۔ لڑکی کے اولیاء کی یہ ترتیب ہے اس کی رعایت ضروری ہے، اگر والد کے ہوتے ہوئے بھائی نے پوچھ لیا یا چاچا نے پوچھ لیا اور لڑکی خاموش رہی تو اس کا پوچھنا نہ پوچھنا برابر ہے، یہ تو ایسے ہی ہوگا کہ گویا لڑکی سے پوچھا ہی نہیں بغیر پوچھے نکاح کر رہے ہیں البتہ نکاح ہو جائے گا۔*
*"✪__ یہ مسئلہ سن کر کہیں اس شبہ میں نہ پڑ جائیں کہ سرے سے نکاح ہی نہیں ہوگا ۔ نکاح ہو جائے گا, دو وجہوں سے ایک یہ کہ جیسے دستور ہوگیا لڑکی کو پہلے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوچھنے جو بھی آئے اور جو کچھ پوچھے بہر حال اسے ابا نے ہی بھیجا ہوگا۔ جب اسے معلوم ہے کہ جو میرا اصلی ولی ہے یہ اس کا بھیجا ہوا ہے اس نے پوچھا ہے تو نکاح ہو جائے گا۔*
*"✪_ _ دوسری وجہ یہ کہ اگر اس کو اتنا علم بھی نہ ہو کہ والد نے بھیجا ہے یا خود آیا ہے۔ تو یہ نکاح لڑکی کی اجازت پر موقوف رہے گا بعد میں جب لڑکی رخصتی کے لیے تیار ہوگئی اور خوشی سے شوہر کے گھر رخصت ہو گئی تو گویا اس نے قبول کر لیا۔ اب نکاح نافذ ہو جائے گا۔*
*✪_{ وضاحت اور تشریح:- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_بہنوئی کو اجازت کے لیے بھیجنا گناہ ہے:-
*"✪_ مسنون طریقہ تو یہ ہے کہ پوچھنے کے لیے ولی اقرب جائے لیکن لوگوں میں دستور یہ ہے کہ باپ دادا بھائی کی بجائے ماموں کو یا غیر محرم کو بھیج دیتے ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ کسی غیر محرم کی بجائے ماموں کا ہی انتخاب کیا۔ اتنی عقل تو آ گئی کہ لڑکی کے پاس اس کے ماموں کو بھیج دیتے ہیں لیکن نہیں سوچتے کہ ماموں کسی درجے میں لڑکی کا ولی نہیں، اس کی بجائے چچا کو بھیجے تو بھی ٹھیک تھا کہ وہ کسی نہ کسی درجہ میں تو ولی ہے کہ والد، دادا اور بھائی بھتیجے نہ ہوں ان سب کے بعد آخر میں چاچا ولی ہے اور وہ پوچھ سکتا ہے ماموں کا تو کوئی حق ہے ہی نہیں۔*
*✪"_ پھر اس سے بڑھ کر اور زیادہ جہالت، بے دینی اور پرلے درجہ کی بے حیائی کی بات یہ کہ بعض لوگ لڑکی کے بہنوئی کو پوچھنے کے لیے بھیجتے ہیں، یہ شریعت کے خلاف تو ہے ہی عقل اور غیرت کے بھی خلاف ہے۔ انتہائی درجے کی بے حیائی ہے۔ بہنوئی کو اجازت کے لیے بھیجنا گناہ ہے،*
*✪"_ لڑکی سے نکاح کی اجازت کے لیے ایسے خطر ناک رشتے کا انتخاب کتنی بڑی بے حیائی ہے اور لڑکی کے والدین کسی قدر بے غیرت، ہے حیا ہیں۔ ذرا سوچنے کیا انجام ہوگا اس قسم کی شادیوں کا؟ بے دینی کی نحوست سے عقل پر تو پردہ پڑھی گیا تھا شرم و حیاء بھی رخصت ہو گئی۔ یہ سب گناہوں کی نحوست ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے کرتے دل سے حیا بھی نکل گئی۔*
*✪{ وضاحت اور تشریح :- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰__خطبہ نکاح کی حکمت و مصلحت:-
*✪_ خطبہ میں جو تین آیتیں اور چار حدیثیں پڑھی جاتی ہیں ان سے متعلق کچھ بیان سے پہلے یہ مسئلہ سمجھ لیا جائے کہ نکاح کے لیے خطبہ پڑھنا کوئی شرط لازم نہیں جیسے جمعہ سے پہلے خطبہ شرط ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، ایسے نکاح کے لیے خطبہ لازم نہیں لیکن پھر بھی کیوں پڑھا جاتا ہے؟ اسکی مصلحت سمجھ لیں سمجھ میں آجائے تو مسلمانوں کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں لوگوں نے اس خطبہ کو بھی رسم کی شکل دے دی ہے۔ اس کی مصلحت نہ کوئی سوچتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ نکاح خواں خطبہ پڑھ کر سنا دیتا ہے سننے والے سن کر اٹھ کر جاتے ہیں مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس خطبہ کی حکمت اور مصلحت کیا ہے,*
*"✪_ اگر کوئی ہے کہ ہاں ہمیں معلوم ہے کہ خطبہ اگرچہ ضروری نہیں اس کے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے مگر اس کے پڑھنے سے برکت ہوگی، برکت کے لیے پڑھتے ہیں، لیکن ذرا سوچئے کہ برکت تو جب ہو کہ خطبہ میں جو کچھ پڑھا گیا ہے اس کے مطابق عمل بھی ہو، ذرا اس بات کو سوچے اور بار بار سوچے کہ مجلس نکاح میں بیٹھے تمام شرکاء اور خاص طور سے نکاح کرنے والے فریقین کو قرآن کی آیات پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں احادیث بتائی جارہی ہیں مگر یہ لوگ اللہ تعالی کے احکام اور قوانین سننے کے بعد سمجھنے کے بعد گھر پہنچتے ہی انہیں توڑنا شروع کر دیں ایک ایک حکم کو توڑتے چلے جائیں تو محض سننے سے کیا حاصل ہوگا؟ برکت ہوگی یا عذاب نازل ہوگا؟*
*"✪_ نکاح سے پہلے خطبہ کا مقصد ہی بندوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے باخبر کرنا ہے۔*
*✪{ وضاحت اور تشریح :- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_نعمت کی بجائے زحمت :-*
*✪_ خطبہ میں قرآن مجید کی تین آیات میں اللہ تعالی کے احکام کھول کھول کر سنائے جارہے ہیں۔ ان کے بعد جو چار حدیثیں ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے قوانین ہی بتائے گئے ہیں۔ نکاح کے خطبہ میں ان تینوں آیتوں کا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص خطبہ نکاح میں پڑھنا اگر چہ ثابت نہیں لیکن ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیثیں، ان میں بھی نکاح کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ اگر ایک ایک آیت اور ہر حدیث کی تشریح کی جائے تو وقت بہت زیادہ چاہئے اس لیے الگ الگ تشریح کی بجائے مختصر بتاتا ہوں۔*
*✪"_ تینوں آیتوں کا حاصل ایک ہی ہے وہ یہ کہ ہر کام میں اللہ تعالی سے ڈرو جہنم کی آگ سے ڈرو اور اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ تینوں میں یہی مضمون ہے اگر اللہ تعالٰی کی نافرمانی چھوڑ دو گے تو اللہ تعالٰی اپنی نعمتوں کو نعمتیں بنادیں گے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں چھوڑی، اس کی بغاوت سے باز نہ آئے تو اللہ تعالی کا دستور ہے کہ اس نے دنیا میں جو نعمتیں دے رکھی ہیں وہ ان نعمتوں کو نعمتیں نہیں رہنے دیتے بلکہ انہیں عذاب بنا دیتے ہیں نعمتیں عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور وبال بن جاتی ہیں یہ اللہ تعالی کا دستور ہے۔*
*"✪_ وہ اللہ تعالیٰ جس نے شادی کی نعمت دی وہ اس نعمت کو زحمت میں بدل سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی نا فرمانیاں چھوڑ کر صحیح صحیح بندے بن جائیں اور اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اللہ تعالٰی سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں۔*
*"✪_ خطبہ میں پڑھی گئی تینوں آیات پر غور کریں تو ان میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نکاح اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے میاں بیوی کے حق میں اور دونوں خاندانوں کے حق میں بھی، اس سے مسلمان کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔ اس سے دونوں خاندانوں میں محبت بڑھتی ہے میل جول پیدا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے تعاون کا جذبہ ابھرتا ہے۔ لیکن کان کھول کر سن لیں کہ یہ نعمت جب ہی نعمت رہے گی کہ اللہ تعالٰی کی نافرمانیاں چھوڑ دیں اس کی بغاوت سے باز آجائیں۔ یہ بات تو مختصر سی تینوں آیات سے متعلق بتادی۔*
*✪{ وضاحت اور تشریح :- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_ احادیث کی تشریح:-*
*✪_ آیتوں کے بعد چار حدیثیں بھی پڑھی گئیں، پہلی حدیث کے معنی یہ ہیں کہ لوگ جب شادی کا ارادہ کرتے ہیں تو رشتے کا انتخاب کرتے وقت مختلف چیزیں مد نظر رکھتے ہیں، بعض مال کو بعض حسب و نسب کو اور بعض حسن و جمال کو دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مال کا ذکر فرمایا کہ بہت سے لوگ لڑکی کے انتخاب میں مال کو سامنے رکھتے ہیں کہ لڑکی کا خاندان مالدار ہونا چاہیے ان کے پاس مال ہو خواہ اور کچھ بھی نہ ہو۔ نہ صورت نہ سیرت، بس مال پر مرے جارے ہیں ، رشتہ کرتے وقت اکثر لوگ مال کو دیکھتے ہیں،*
*"✪_ اور بہت سے لوگ حسب و نسب کو دیکھتے ہیں کہ اونچا خاندان ہو کوئی بڑا منصب ہو اور کئی لوگ حسن و جمال کو دیکھتے ہیں کہ لڑکی کا رنگ روپ اور اس کی شکل وصورت اچھی ہو۔ سیرت خواہ کیسی ہی بری ہو۔ کچھ لوگ دین کو دیکھتے ہیں کہ لڑکی دیندار ہونی چاہیے خواہ مال یا دوسری چیزیں ہوں یا نہ ہوں لیکن دین ہو۔*
*"✪_ فرمایا کہ دیندار رشتے کا انتخاب کرو اس سے تمہاری شادیوں میں برکت ہوگی اور دنیا و آخرت میں امن و سکون نصیب ہوگا۔ سکون اللہ تعالی نے صرف دین میں رکھا ہے باقی چیزوں میں کچھ نہیں۔ اس لیے تم لوگ جہاں کہیں رشے کرو دین کی بنیاد پر کرو۔ یہی ایک چیز کافی ہے باقی تینوں چیزوں میں سے کوئی چیز ہو یا نہ ہو اسے مت دیکھو۔*
*"✪_ دوسری حدیث میں فرمایا کہ یہ پوری دنیا عارضی سامان ہے: گزر گئی گذران کیا جھونپڑی کیا میدان، یہ تو گزرنے والی چیز ہے بلکہ خود گزرگاہ اور مسافر خانہ ہے، ایک عارضی اور وقتی چیز ہے، لیکن ان عارضی نعمتوں میں بھی سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے، اسی پر یہ بھی قیاس کر لیں کہ بیوی کے لیے دنیا میں سب سے بڑی نعمت نیک شوہر ہے۔*
*"✪_ فرمایا دنیا ساری کی ساری عارضی ہے اس کی نعمتیں بھی سب عارضی جلد فنا ہونے والی ہیں لیکن ان فانی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ( اور نیک شوہر ) ہے یہ ایک نعمت دنیا کی سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے اس سے دنیا و آخرت دونوں کا سکون اور چین حاصل ہوتا ہے۔*
*"✪_ تیسری حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں جتنے نکاح ہوتے ہیں تمام نکاحوں میں سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جس میں تکلفات کم سے کم ہوں۔ یہاں ایک بات سوچیں کہ کسی کام سے اچھے نتائج پیدا کرنا یا برے نتائج پیدا کرنا کس کے قبضے میں ہے؟ اللہ تعالی کے قبضے میں ہے نا ؟ تو جس کے قبضے میں سب کچھ ہے وہ بتا رہا ہے کہ ایسے ایسے کرو گے تو نتائج بہتر رہیں گے اور ایسے ایسے کرو گے تو نتائج بد سے بدتر اور خراب سے خراب تر ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ فیصلہ تو اس کا معتبر ہے جس کے قبضے میں سب کچھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑھ کر با برکت نکاح وہ ہے جس میں تکلفات کم ہوں۔*
*"✪_ چوتھی حدیث میں فرمایا کہ عورتوں میں سب سے زیادہ برکت والی عورت وہ ہے جس کا مہر کم ہو۔ جتنا مہر کم ہوگا اتنی ہی وہ عورت برکت والی ہوگی،*
*✪_{ وضاحت اور تشریح :- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_ بارات کا حکم:-*
*✪_ بارات کا مقصد مجلس عقد نکاح میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دیتا ہے، فی نفسہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے،*
*"✪_ اس لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایسا کرنا درست ہے، البتہ اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا، ریا و نمود اور فخر و غرور میں مبتلا ہونا ضرورت سے زیادہ بڑا اجتماع بلانے کی کوشش کرنا، اسراف سے کام لینا یہ سارے امور خلاف شرع ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا لازم ہے۔*
*✪_{ وضاحت اور تشریح :- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰شادی مبارک کہنے کی رسم :-*
*✪_ غالباً شادی کی تقریب پر بلانے کے لئے جو کارڈ چھاپے جاتے ہیں ان پر شادی مبارک لکھا ہوتا ہے، پھر نکاح کے بعد اسی مجلس میں ہر طرف سے شادی مبارک شادی مبارک کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے، پھر وہاں سے اٹھنے کے بعد کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے،*
*"✪_ بچے کی ولادت پر بھی یونہی ہوتا ہے جو بھی سنتا ہے مبارک باد دیتا ہے ہر طرف مبارک مبارک کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں، اسی طرح عید مبارک ، نیا مکان مبارک نئی دکان مبارک، نئی تجارت مبارک، وغیرہ وغیرہ۔ غرض ہر خوشی کے موقع پر مبارک دینے لینے کا عام دستور ہے مگر یہ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ جملہ رات دن بولا اور سنا جا رہا ہے لیکن اس کا مطلب سمجھنے سے اتنی غفلت کہ اس پر جتنا تعجب کیا جائے کم ہے۔*
*"✪_اس کا مطلب غور سے سنئے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ مبارک باد دعا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نعمت اور خوشی پر یہ دعا دی جارہی ہے اس نعمت سے جو مقصد ہے اس سے فائدہ نام ہو اور اس میں دوام ہو یعنی فائدہ زیادہ سے زیادہ ہو اور یہ فائدہ ہمیشہ رہے بلکہ اس میں روز بروز ترقی ہوتی رہے،*
*"✪_ مثلا " شادی مبارک کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے دنیا و آخرت میں راحت وسکون کا ذریعہ بنیں، اور صالح اولاد پیدا ہو جو والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہو۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہر خالص عورت کا حق ہے :-
*✪_ مہر شرعاً عورت کا حق ہے، اگر نکاح کے وقت مہر کا نام نہ لیا جائے تب بھی نکاح تو منعقد ہو جاتا ہے تاہم مہر دینا لازم ہے، اگر شادی کے موقع پر مہر کی کوئی مقدار متعین کی تو وہ ادا کرنا لازمی ہے، اگر وقت نکاح ادا نہیں کیا تو مہر شوہر کے ذمہ قرض ہوگیا اس کی ادائیگی لازم ہے۔*
*"✪_ اور اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا اور گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کر لیا تو مہر مشل یعنی عورت کے خاندان کی دوسردی لڑکیوں کے لیے جو مہر مقرر ہوا وہ اس لڑکی کو بھی ملے گا۔*
*"✪_ مقررہ مہر نقدی کی شکل میں ہو یا سونا چاندی یا جائیداد کی شکل میں، چاہے نکاح کے وقت ادا کر دیا گیا ہو یا شوہر کے ذمہ باقی ہو یہ خالص اس عورت کا حق ہے، اس میں عورت کو ہر طرح کے تصرف کا مکمل اختیار ہے، اس میں لڑکے والدین عزیز و اقارب میں سے کسی کا کوئی حق نہیں، نیز شوہر کو بھی اختیار نہیں کہ عورت کی اجازت کے بغیر مہر فروخت کرے یا اس میں اور کسی طرح کا تصرف کرے۔*
*®_ (رد المحتار: ١٠٥/٣ ، باب المهر)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہر کی ادایگی کب لازم ہے:-*
*✪_ نکاح کے وقت طے شدہ مہر یا مہر مشل واجب ہو جاتا ہے، جب رخصتی ہو کر میاں بیوی تنہائی میں ایک دوسرے سے ملاقات کر لیں یا اس سے پہلے ہی کسی ایک کا انتقال ہو جائے، دونوں ہی صورتوں میں یہ مہر ادا کرنا لازم اور مؤکدہ ہو جاتا ہے،*
*✪_ عور ہے کو مطالبہ کرنے کا پورا پورا حق ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق واقع ہوجائے تو مقررہ مہر کا آدھا حصہ ساقط ہو جائے گا، اگر ایسی صورت میں مہر طے شدہ نہ ہو تو اب مہر لازم نہیں ہوگا البتہ متعدد یعنی درمیانی درجہ کا ایک جوڑا لازم ہوگا۔*
*®_ (رد المحتار-۱۰۲/۳، باب المهر)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہر کی مقدار __'*
*✪_ مہر کی کم از کم مقدار- شریعت مطہرہ نے نکاح کے لیے مہر کو ضروری قرار دیا ہے اس کی کم سے کم مقدار فقہاء احناف کے نزدیک دس درہم چاندی یا اس کی قیمت ہے، دس درہم چاندی کا وزن - ۳۴۰۰۲ گرام چاندی - ( تقریبا تین تولہ چاندی)،*
*"✪_ مہر کی زیادہ مقدار کتنی ہے؟ شریعت مطہرہ نے مہر کی مقدار متعین کر کے واجب قرار نہیں دیا کہ ہر مرد پر شادی کے وقت اتنا مہر ادا کرنا ہر صورت میں لازم ہے، اور اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی بھی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، بلکہ اسے شوہر کی حیثیت اور استطاعت پر موقوف رکھا ہے، کہ جو شخص جس قدر مہر دینے کی استطاعت رکھتا ہو اسی قدر مقرر کرے،*
*"✪_ البتہ مہر کی کم سے کم حد ضرور مقرر کی گی ہے، تاکہ کوئی شخص اس سے کم مہر نہ باندھے۔ چنانچہ حنفیہ کے مسلک سے کم سے کم مقدار دس دراہم ہے۔*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*⇰بھاری مہر کی ممانعت*
*✪_ البتہ بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً پسندیدہ بات نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات نیز بنات طیبات کے لیے جو مہر مقرر ہوا ہے وہ نہایت معتدل اور مناسب ہے۔ عام حالات میں اسی پر عمل کیا جائے تو بہتر ہے۔*
*"✪_ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا خبر دار عورتوں کا بھاری مہر نہ باندھو، اگر بھاری مہر باندھنا دنیا میں بزرگی اور عظمت کا سبب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کا موجب ہوتا تو یقینا نبی اکرم ﷺ اس کے زیادہ مستحق تھے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھاری سے بھاری مہر باندھتے) مگر میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر اپنی ازواج مطہرات سے نکاح کیا ہو، یا اس سے زیادہ مہر پر اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کرایا ہو_,"*
*®_ (احمد ترمذی، ابوداود، نسائی، ابن ماجه، مشكوة ٢ باب)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰کم مہر والی عورت با برکت ہے:-*
*✪_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ با برکت عورت وہ ہے کہ جس کا خرچہ کم ہو_,*
*"_ اس کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: اس عورت کا مہر کم ہو، اور وہ عورت قناعت پسند ہو جس کی وجہ سے زیادہ کمانے کے لیے شوہر کو پریشانی نہیں اٹھانی پڑتی ہے۔ قناعت ایک لازم دولت ہے۔*
*®_( المرقاة شرح مشكوة : ٢٧٥/٦)*
*"✪_ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں عورت کا مہر کم ہونے کو قابل تعریف قرار دیا ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہر فاطمی کی تفصیل_,
*✪_ مہر فاطمی سے مراد مہر کی وہ مقدار ہے جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے طے ہوئی تھی ، اس لیے اس کو مہر فاطمی کہا جاتا ہے،*
*"✪_ نکاح میں مہر فاطمی مقرر کرنا شرعاً ضروری نہیں، اس سے کم و زیادہ مہر مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام سے مہر فاطمی سے زیادہ مہر مقرر کرنا ثابت ہے، اور کم مقرر کرنا بھی ثابت ہے۔*
*"✪_ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مہر کی مقدار کیا تھی اس بارے میں دو روایات ہیں: صحیح روایت کے مطابق اس کی مقدار 480 درہم یا 1632 گرام بھی کی سکتے ہیں۔ تولہ کے لحاظ سے 1632 گرام تقریباً ایک سو چالیس (140) تولہ ہوا_,*
*®_ (احسن الفتاوی -۱۷/۵)*
*"✪_ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی کی تحقیق کے مطابق 131 تولہ 3 ماشہ چاندی ہے ( حاشیہ بہشتی زیور مہر کا بیان )*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہر معاف کروانا:-*
*✪_ ایک رواج یہ چل پڑا ہے کہ شروع میں بڑی مقدار میں مہر طے کر لیا جاتا ہے، نکاح فارم میں بھی لکھا جاتا ہے، اور نکاح کے وقت سب کے سامنے ایجاب وقبول میں اس بھاری مہر کا ذکر کیا جاتا ہے کہ اتنے مہر کے عوض میں نکاح قبول کیا، پھر بعد میں مختلف حیلے بہانے کے زریعے مہر معاف کروانے کی کوشش کی جاتی ہے،*
*"✪_ پہلے گزر چکا ہے کہ مہر خالص عورت کا حق ہے، اس کو حق مہر میں تصرف کا مکمل اختیار ہے، شوہر یا کسی اور کو مہر واپس لینے یا عورت کی رضا مندی کے بغیر اس میں تصرف کرنے کا بالکل اختیار نہیں۔ اور زبردستی معاف کروانے سے معاف بھی نہیں ہوگا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ زبردستی معاف کروانا یہ در حقیقت معافی نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا غصب ہے، کہ زبردستی عورت کے حق پر قبضہ کر لیا۔*
*"✪_ شرعاً اس کو معاف کرنا بھی نہیں کہا جا سکتا اس سے شوہر کا ذمہ فارغ نہ ہوگا، زندگی میں ادا کرنا لازم رہے گا، اگر زندگی میں ادا نہیں کیا تو مرنے کے بعد ان کے ترکہ سے مہر کا قرض وصول کر کے بیوی کے حوالے کیا جائے گا_,*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰شوہر کو مہر ہدیہ کرنا:-*
*✪_ عورت بغیر کسی جبر و کراہ کے اپنی رضا و رغبت سے مہر کا کچھ حصہ یا کل مہر شوہر کو ہدیہ ر دے، وہ شوہر کے لیے حلال ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:-*
*"_ وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ (نساء: ٤),*
*"_ تم لوگ بیبیوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو، ہاں اگر وہ بیبیاں خوش دلی سے چھوڑ دیں تم کو اس مہر میں کا کوئی جزو (اور یہی حکم کل کا بھی ہے ) تو (اس حالت میں ) تم اس کو کھاؤ (برتو) مزہ دار خوشگوار سمجھ کر۔*
*✪"_ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں :- مہر کے متعلق عرب میں کئی قسم کے ظلم ہوتے تھے، ایک یہ کہ مہر جو لڑکی کا حق ہے اس کو نہ دیا جاتا تھا، بلکہ لڑکی کے اولیاء شوہر سے وصول کر لیتے تھے، جو سراسر ظلم تھا، اس کو دفع کرنے کے لیے قرآن کریم نے فرمایا کہ شوہر اپنی بی بی کا مہر خود بی بی کو دیں اور دوسروں کو نہ دیں، اور لڑکیوں کے اولیاء اگر لڑکیوں کے مہر ان کو وصول ہو جائیں تو یہ لڑکیوں ہی کو دے دیں، ان کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں نہ لایں۔*
*✪"_ دوسرا ظلم یہ تھا کہ اگر کبھی کسی کو مہر دینا بھی پڑ گیا تو بہت تلخی کے ساتھ بادل نا خواستہ تاوان سمجھ کر دیتے تھے۔ اس ظلم کا ازالہ آیت مذکورہ کے اس لفظ "نحله" سے فرمایا گیا، کیونکہ "نحله" لغت میں اس دینے کو کہتے ہیں جو خوش دلی کے ساتھ دیا جائے۔*
*"✪_ غرض اس آیت میں یہ تعلیم فرمائی گئی کہ عورتوں کا مہر ایک حق واجب ہے، اس کی ادائیگی ضروری ہے، اور جس طرح تمام حقوق واجبہ کو خوش دلی کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح مہر کو بھی سمجھنا چاہیے۔ (معارف القرآن: ۲۹۷/۲) .*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہر مثل کا بیان :-*
*✪ _ "مہر مثل“ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے باپ کے گھرانے میں سے جو عورت اس کے مثل ہو، یعنی اگر یہ کم عمر ہے تو وہ بھی نکاح کے وقت کم عمر ہو ، اگر یہ خوبصورت ہے تو وہ بھی اتنی ہی وہ بھی تھی، جس علاقے کی یہ رہنے والی ہے اس علاقے کی وہ بھی ہو، اگر یہ دیندار ہوشیار، با سلیقہ پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہو،*
*✪ _غرض والد کے خاندان میں جو عورتیں ان باتوں میں اس کی طرح تھیں، ان کا جو مہر مقرر ہوا تھا وہی اس کا مہر مثل" ہے۔*
*®_(در المختار على هامش رد المحتار: ۱۳۷/۳)*
*"✪ _ باپ کے گھرانے کی عورتوں سے مراد اس کی پھوپھیاں، چچازاد بہنیں وغیرہ ہیں۔۔ مہر مثل میں ماں کا مر نہیں دیکھا جاتا ہے، اگر ماں بھی باپ ہی کے گھرانے میں سے ہو، جیسے باپ نے اپنی چچا زاد سے نکاح کر لیا تھا، تو ان کے مہر کو بھی "مہر مثل" کہا جائے گا۔ (حوالہ بالا )*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰جہیز کی شرعی حیثیت :-
*✪_ باپ کا اپنی بیٹی کو نکاح کے وقت جہیز دینا سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا تھا، البتہ اس میں افراط اور غلو مناسب نہیں کہ اس قدر اہتمام کیا جائے کہ جس سے پریشانی ہو اور قرض کا بار عظیم ہو جائے،*
*"✪_ باقی اپنی حیثیت کے موافق ریا کاری شہرت پسندی سے بچتے ہوئے کچھ ضروری سامان دیدیا جائے تو اس سے سنت ادا ہو جائے گی, لیکن آج کے دور میں یہ سنت سے نکل کر یہ عذاب بن گیا ہے اس میں اعتدال کی راہ اپنانا نہایت ضروری ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰سامان جہیز لڑکی کی ملک ہے :-
*✪_ نکاح و رخصتی کے موقع پر جو سامان، برتن، فرنیچر، لباس، کمبل، واشنگ مشین وغیره والدین کی طرف سے لڑکی کو دیا جاتا ہے وہ لڑکی کی ملک ہے، والدین کے لیے اس کو واپس لینا جائز نہیں،*
*✪"_ نیز طلاق وغیرہ کے ذریعہ جدائی کی صورت میں شوہر یا اس کے گھر والوں کا لڑکی کے مال پر قبضہ کر لینا بھی جائز نہیں، بلکہ سارا سامان واپس کرنا ضروری ہے، البتہ خلع کی صورت میں اگر کسی مال کو خلع کا عوض ٹھہرایا گیا ہو تو وہ شوہر رکھ سکتا ہے۔*
*"✪_ اس کے علاوہ رخصتی کے موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو زیورات پہنانے کا رواج ہے، عام طور پر لڑ کی کو اس زیور کا مالک نہیں بنایا جاتا اس لیے لڑکی مالک نہ ہوگی، ہاں صراحت کے ساتھ اس کو ہدیہ تحفہ کے نام پر دے تو وہ لڑکی کی ملک ہے واپس لینا جائز نہ ہوگا۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰داماد کا سسرال والوں سے سامان کا مطالبہ بے غیرتی ہے۔*
*✪_ بعض لوگ لڑکی والوں سے سامان جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں، مثلأ گاڑی، گھڑی، لباس پوشاک وغیرہ فلاں فلاں چیزیں ہونے والے داماد کو دینا ہوگا ورنہ ہم لڑکی قبول نہیں کریں گے، اس طرح کسی چیز کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں یہ نادانی، بے غیرتی بے شرمی کی بات ہے،*
*✪__ داماد کا سرال والوں پر اس طرح کا کوئی حق نہیں ہے کہ ان سے مخصوص سامان کا مطالبہ کرے، اسی طرح اس کو رواج قرار دینا کہ لوگ مطالبہ کے بغیر دینے پر مجبور ہو جائیں یہ بھی غلط ہے لہذا اس سے اجتناب کرنا لازم ہے، کیونکہ صحابہ کرام، تابعین ائمہ دین رحمہم اللہ کے حالات میں ایسا کوئ واقعہ نہیں ملتا جس میں انہوں نے لڑکی والوں سے سامان کا مطالبہ کیا ہو اس لیے مرد کو چاہیے خود دار رہے، لالچ اور حرص سے دور رہے۔*
* ▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_ جہیز کا شرعی مسئلہ :-
*✪ _ عام طور پر جہیز اتنا زیادہ دیتے ہیں کہ اس کی مالیت سے حج کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر جہیز کا پورا سامان لڑکی کی ملک میں دے دیا جائے اسے مالک بنادیا جائے، اور وہ حج کے فارم بھرنے کے وقت میں بھی لڑکی کی ملک میں ہو تو فوراً اسی سال اس کے لیے حج پر جانا فرض ہو جائے گا، اب یہ والدین کے ذمے ہے کہ اسے حج کروائیں۔*
*"✪ _ اگر یہ خیال کریں کہ دوسرے سال جائیں گے یا بعد میں کبھی چلے جائیں گے تو پہلی بات تو یہ کہ کیا معلوم دوسرے سال تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں اور اگر دوسرے سال تک زندہ رہ گئے اور حج کر بھی لیا تو بھی دیر کرنے کا گناہ ہوگا۔ حج کا فرض تو ادا ہو جائے گا مگر دیر کرنے کا گناہ بھی ذمے رہے گا، کیوں دیر کی؟*
*"✪ _ جو والدین اولاد پر حج فرض کر دیتے ہیں مگر حج کروانے کا انتظام نہیں کرتے وہ مجرم ٹھہریں گے۔*
*"✪ _ اگر لڑکی کو مالک نہیں بنایا اور بہت بڑے بڑے سامان جہیز میں جمع کر لیے اور ایسا ہو شیار والد مر گیا تو سارا مال وارثوں میں تقسیم ہو گا، لڑکیوں کو صرف اتناہی ملے گا جتنا شریعت کی رو سے وراثت میں ان کا حق ہوگا، پورا مال تو ہرگز نہیں ملے گا خواہ ان کی والد وصیت کر جائے کہ یہ جہیز ان لڑکیوں کا ہے، ایسی تحریر لکھ کر اس کا رجسٹریشن کر والے، ہزاروں گواہ بنالے کچھ بھی کرلے بہر حال لڑکیوں کو اتنا ہی حصہ ملے گا جتنا شریعت نے مقرر کیا ہے،*
*"✪ _ وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں۔ سو ذرا سوچئے کہ لڑکی کے لیے اتنا کچھ جمع کرنے کا کیا فائدہ ؟ ایسی حماقت کیوں ؟ اس صورت میں جہیز کے لیے رکھے ہوئے سونے چاندی کی زکوۃ بھی والد پر فرض ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰جہیز دینے کی وجہ محبت یا لوگوں کا خوف؟*
*✪_ والدین یہ کہتے ہیں کہ ہم تو بیٹی سے محبت کی وجہ سے دیتے ہیں اس میں حرج کیا ہے؟ اس بارے میں یہ سمجھ لیں کہ گھر میں بیٹھ کر بات بنا لینا آسان ہے کسی صاحب نظر کو نبض دکھا ئیں وہ بتائے کہ تیرے اندر کون سی خرابی ہے؟*
*"✪_ یہ جو کہتے ہیں کہ بیٹی سے محبت ہے محبت کی بناء پر جہیز دیتے ہیں ذرا اس کا تجزیہ سنئے، جب بیٹی پیدا ہوئی اس وقت میں بھی محبت تھی، پیدائش سے لے کر شادی کے وقت تک محبت ہے شادی ہو جانے کے بعد بھی مرتے دم تک محبت رہے گی, سو شادی کے وقت ہی محبت کو جوش کیوں اٹھتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر نہیں دیں گے تو لوگ طعنے دیں گے، ناک کٹ جائے گی تا لوگوں میں عزت نہیں رہے گی، لوگ طعنے دیں گے کہ بیٹی کو گھر سے ایسے نکال دیا جیسے مرگئی ہو، کفن دے کر نکال دیا کچھ دیا ہی نہیں۔*
*"✪_ حال یہ ہے لوگوں کا کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بیٹی کو جہیز نہیں دیا تو سرال والے تو اسے طعنے دے دے کر مار دیں گے اور دوسرے لوگ بھی والدین کو طعنے دیں گے، آپ ساری دنیا کی دولت بھی سمیٹ کر بیٹی کو دے دیں ساس تو پھر بھی طعنے دے گی۔ یہ عذر غلط ہے کہ محبت کی وجہ سے کرتے ہیں در حقیقت یہ لوگوں کے ڈر سے کرتے ہیں۔*
*"✪_ سوچیں جب والدین جہیز دیتے ہیں لوگوں کے ڈر سے، ساس کے ڈر سے تو خوشی سے کہاں دیتے ہیں؟ قرض لے لے کر, بھیک مانگ مانگ کر جہیز جمع کرتے ہیں، لوگوں کے دروازوں پر جا جا کر کہتے ہیں کہ لڑکی کا جہیز بنانا ہے زکوۃ دے دیں اور بے غیرت بے شرم ہے وہ دولہا جو جہیز قبول کر لیتا ہے اس سے زیادہ بے غیرت کون ہوگا ؟ اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ شادی ہی نہ کرے، بھیک میں ملا ہوا جہیز قبول کر لیتے ہیں ایسے بے غیرت لوگ ہیں۔*
*"✪_ سوچئے کہ لوگوں کے خوف سے دیتے ہیں تو بیٹی اور داماد کے لیے بھی حلال نہیں حرام ہونے کا یقین نہیں تو کم از کم مشتبہ تو ہو ہی گیا، جس میں حرام ہونے کا شبہ ہو وہ چیز کیوں استعمال کیا جائے؟*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰جہیز دے دینے سے وراثت ختم نہیں ہوتی:-
*✪_ اگر محبت کی وجہ سے دے رہے ہیں، ذرا غور سے سنئے بہت قیمتی بات ہے، اگر محبت کی وجہ سے بیٹی کو دے رہے ہیں تو جائیداد میں کیوں شریک نہیں کرتے، اپنی تجارت میں، کارخانے میں، مکانوں میں، زرعی زمین میں سے کچھ حصہ دیں اپنے ساتھ شریک کر لیں تو اس میں بیٹی کا فائدہ ہے لیکن لوگ ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بیٹی کو جائیداد میں شریک نہ کریں جائیداد صرف بیٹوں کی رہے۔*
*✪"_ دعوے محبت کے اور کوشش یہ کہ جائیداد میں سے بیٹی کو کچھ نہ ملے بس کچھ کپڑے دے دیئے اور صوفے کرسیاں دے دیں اور بس خوش کر دیا بیٹی کو، اری میری بیٹی ! تجھ سے اتنی محبت کہ تیری محبت میں تو ہم مرے جا رہے ہیں, اسے تھپکیاں دے دے کر خوش کر رہے ہیں۔ سوچنے ! ذرا غور سے کہ اگر محبت ہے تو بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کیوں کرتے ہیں؟*
*✪"_ ایک مسئلہ اور سمجھ لینا چاہئے کہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے جو بیٹی کو جہیز دے دیا اس کے بعد وراثت میں اس کا حق نہیں رہا کیونکہ ہم نے نیت کی تھی کہ یہ جو کچھ اسے دے رہے ہیں یہ وراثت کا حصہ ہے،*
*"✪_ یہ بھی غلط ہے آپ اسے جہیز میں کتنا ہی دے دیں مگر وراثت کا حصہ جو کہ شریعت نے مقرر کر دیا وہ پورے کا پورا موجود ہے, جہیز دینے سے بیٹی محروم نہیں ہوتی, لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی زندگی میں اسے اتنا دے دیا تو اب وراثت میں اس کا حصہ نہیں رہا، یہ بالکل غلط ہے، زندگی میں وراثت جاری نہیں ہوتی کسی کو کتنا ہی دے دیں وہ اس کے لیے ہبہ ہے وراثت تو جاری ہو گی مرنے کے بعد, مگر مرنے کا خیال تو آج کل کے مسلمان کو آتا ہی نہیں، یہ سمجھتا ہے کہ میرے گا ہی نہیں, اللہ تعالی انہیں عقل عطا فرمائیں۔*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*⇛ جہیز کی بجائے نقدی دیں:-*
*✪_ آخری درجے میں ایک بات یہ کہ نقدی کی صورت میں جہیز دے دیں۔ جو سامان ٹرک بھر کر جہیز میں دے دیتے ہیں اس کی بجائے اتنی رقم بیٹی کو دے دیں بلکہ جہاں ایک لاکھ کا سامان ہے تو ایک لاکھ کی بجائے دو لاکھ دے دیں ہمیں کوئی اشکال نہیں ہوگا۔*
*"✪_ مگر ایسے نقدی کی صورت میں کوئی نہیں دے گا کیونکہ اگر نقد دے دیا تو لوگوں کوتو پتہ ہی نہیں چلے گا، لوگوں کو تو دکھانا مقصود ہے بلکہ لوگوں کو جمع کر کے پہلے دکھاتے ہیں، چاہے نالائق نے قرض لے کر یا بھیک مانگ کر ہی کیوں نہ دیا ہو،*
*✪_ نقدی دینے میں یہ فائدے ہیں:-1_ نقدی کی صورت میں آپ نے بیٹی کو ہدیہ دے دیا تو اگر اس پر حج فرض ہو گیا تو وہ حج کر لے گی۔*
*"✪_2_ اگر نقد پیسے دے دیئے تو پھر اللہ کے بندوں اور بندیوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں، بعض اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ وہ تو سارا مال لگا دیں گے اللہ کے راستے میں، یہ لوگ تو خود پر حج فرض ہونے ہی ہی نہیں دیں گے۔ اگر بیٹی کو جہیز کی بجائے نقدی دے دی تو وہ بیٹی اگر اللہ کی بندی ہے، اس کے دل میں فکر آخرت ہے دل مال کی محبت سے پاک ہے تو وہ تو لگا دے گی ساری رقم اللہ کے راستے میں حج فرض ہی نہیں ہونے دے گی۔*
*★_3 نقدی میں تیسرا فائدہ یہ ہے کہ میاں بیوی اپنی مصلحت کے مطابق جس چیز کی ضرورت ہوگی پوری کر لیں گے، پیسہ تو ایسی چیز ہے کہ اس سے ہر ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔*
*★_4 اگر انہیں کوئی فوری ضرورت نہیں اور حج ادا کرنے کے بعد رقم بھی بچ گئی لیکن اللہ کی راہ میں لگانے کی ہمت نہیں ہو رہی تو اس رقم کو کسی تجارت میں لگا دیں گے، بیٹی اور اس کی اولاد کے لیے ایک ذریعہ آمدن ہو جائے گا۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_ولیمہ کی شرعی حیثیت:-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_ دعوت ولیمہ کرنا سنت ہے، ولیمہ کا مسنون وقت دلہن کو گھر لانے اور ہمبستری کے بعد کا وقت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب زفاف کے بعد ولیمہ فرمایا اس لیے جمہور کا مسلک یہی ہے, تاہم بعض علماء نے اس میں وسعت کا قول اختیار کیا ہے کہ نکاح ہو جانے کے بعد اسی وقت یا اس کے بعد یا رخصتی کے یا ہمبستری کے بعد جس وقت بھی ولیمہ کیا جائے ولیمہ کی سنت ادا ہو جائے گی۔*
*"✪_ عقد نکاح سے پہلے ولیمہ کی کوئی اصل نہیں ۔ یعنی نکاح سے پہلے کسی بھی طرح ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہو سکتی، اگر کسی نے نکاح سے پہلے کھانا کھلایا تو مباح تو ہے ولیمہ کا اجر و ثواب حاصل نہ ہو گا۔ ( فتاوی عثمانی: ۳۰۳/۲)*
*"✪_ دعوت ولیمہ اس دعوت کو کہا جاتا ہے جو شادی کے بعد لوگوں کو کھلایا جائے ، اس کے لیے دنوں کی خاص تعداد مقرر نہیں، بلکہ اس کو شادی کرنے والے کی استطاعت پر چھوڑا گیا ہے، اگر وہ ایک سے زائد دنوں کی دعوت کرنا چاہتا ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، ہاں ایک سے زائد دنوں تک کرنے میں فخر و غرور، ریا کاری، شہرت پسندی جیسے مقاصد شامل ہوں تو پھر اس نیت سے دعوت کرنا جائز نہیں۔*
*"✪_ حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دعوت ولیمہ شادی و رخصتی سے تین روز تک ہوتی ہے اس کے بعد نہیں۔ ( فتاوی محموديه ٣٩١/٤ باب الوليمه)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰ولیمہ کی دعوت قبول کرنا چاہیے:-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪ _ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ شادی بیاہ کی کھانے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اگر بلاکسی شرعی عذر کے دعوت قبول نہ کرے گا تو گنہگار ہوگا، قبول کرنے سے مراد شادی میں شرکت ہے، یہ بعض کے ہاں واجب اور بعض کے ہاں سنت مستحبہ ہے،*
*"✪ _ باقی شریک ہونے کے بعد کھانا تو اس بارے میں متفقہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر روزے دار نہ ہو تو کھانے میں شریک ہونا مستحب ہے، شادی کے علاوہ دوسری دعوتوں کا قبول کرنا مستحب ہے۔*
*"✪ _بن بلائے دعوت میں شرکت کرنا بڑا گناہ ہے, بعض لوگ بن بلائے کسی دعوت میں شریک ہو جاتے ہیں، یعنی جہاں کوئی دعوت ہو رہی ہو ایک شخص کو اس دعوت میں بلایا نہیں گیا بس محض علم ہونے پر وہاں پہنچ کر دعوت میں شریک ہو گیا تو یہ بڑا گناہ ہے۔ حدیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے ایسے شخص کو ڈاکو قرار دیا ہے، اس لیے اجتناب کرنا لازم ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_لڑکی والوں کی طرف سے دعوت مسنون نہیں:-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رخصتی کا کوئی خاص طریقہ نہیں تھا اور نہ ہی بارات اور لوگوں کے اجتماع کا کوئی اہتمام تھا، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کی والدہ محترمہ نے رخصت کیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر روانہ فرمایا،*
*"✪_ البتہ اگر پردے کا اہتمام ہو، مردوں کے ساتھ اختلاط وغیرہ مفاسد نہ ہوں تو رخصتی کے وقت قریبی رشتہ دار خواتین کے گھر میں جمع ہونے کی گنجائش ہے اور ان کے لیے بقدر استطاعت کھانے کا انتظام کرنا بھی درست ہے، لیکن کھانے کو صرف مہمان نوازی کی حیثیت دی جائے، اس کو ولیمہ کی طرح دعوت مسنونہ نہ سمجھا جائے، کیونکہ رخصتی کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام شریعت میں ثابت نہیں۔*
*✪"_ حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ ولیمہ لڑکا اور اس کے اولیا کریں گے لیکن جو لوگ لڑکی والے کے مکان میں مہمان آتے ہیں ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے، تو آخر وہ کھانا کہاں جا کر کھائیں گے، اور اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانا شریعت کا حکم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی، البتہ لڑکے والوں کی طرح ولیمہ کی دعوت لڑکی کی طرف سے ثابت نہیں۔*
*®_ (فتاوى محموديه ۳۹۲/۱۷)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*∆_نکاح کے موقعہ پر مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا:-*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪_ مجلس نکاح میں اشیاء خوردنی کی تقسیم خواہ اشیاء از قسم کھجور یا مٹھائی ہوں یا دوسری چیزیں، نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ سنت مؤکدہ کی قبیل سے ہے، کیونکہ صحیح روایات میں بوقت نکاح ان چیزوں کی تقسیم کا ذکر نہیں آیا ہے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت فرمائی ہے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اس پر مواظبت کے طور پر عمل فرمایا ہے،*
*"✪_ لہذا اگر اس عمل کو لازم یا سنت سمجھ کر کیا جائے تو نا جائز ہوا, لیکن اگر بوقت نکاح اشیاء خوردنی کی تقسیم اس غرض سے کی جائے کہ چونکہ یہ ایک مبارک مجلس اور نیک تقریب ہے جس میں مسلمان مرد اور عورت کے درمیان عقد نکاح کیا گیا ہے جو ایک عبادت بھی ہے اور خدا کی طرف سے ایک نعمت بھی، لہذا اس موقعہ پر شکرانے کے طور پر یا فریقین میں سے ایک فریق اس نیت سے کھانا کھلانے کا انتظام کر دے کہ آپس میں محبت بڑھے اور دوستی مضبوط ہو جائے تو ایسا کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے اور کچھ بعید نہیں کہ تالیف قلوب کی نیت سے کیا گیا یہ عمل اجر وثواب کا ذریعہ بن جائے ،*
*"✪_ کیونکہ شریعت نے ہر اس عمل کی ہمیں ترغیب دی ہے جس کی وجہ سے آپس میں باہمی محبت بڑھتی ہو اور دینی تعلقات مضبوط ہوتے ہوں۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰بارات کو کھانا کھلانے کے لیے لڑکی والوں سے مطالبہ کرنا:-*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪_ کچھ علاقوں میں لڑکی والے بارات والوں کو کھانا کھلانے کے لئے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، لڑکی والوں کا باراتیوں کی ضیافت کرنے کے لیے لڑکے والوں سے رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، خصوصاً جب یہ رقم نہ دینے کی صورت میں لڑکی والے رخصتی کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں تو ایسی صورت میں اس مطالبے کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے۔*
*"✪_ اس لیے جن علاقوں اور قوموں میں یہ رسم عام ہو چکی ہے ان پر یہ رسم ختم کرنا اور اس سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ تاہم اگر لڑکے والے اپنی خوشی سے یہ رقم دینا چاہیں تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں اس شرط کے ساتھ کہ اس کو رسم نہ بنایا جائے۔*
*"✪_ نیز یہ مسئلہ بھی سمجھ لینا ضر روی ہے کہ رخصتی کے موقع پر بارات میں آنے والوں کے لیے لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا اہتمام کرنا نہ تو مسنون ہے اور نہ ہی مستحب، بلکہ شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ یہ صرف ایک مباح اور جائز عمل ہے،*
*"✪_ لیکن اگر اس کو سنت یا لازم سمجھا جائے، اس میں ریا کاری اور نام و نمود، اسراف اور دیگر غیر شرعی کاموں کا ارتکاب کیا جائے، اس کو شادی کا لازمی حصہ سمجھا جائے یا اس کو رسم بنالیا جائے جیسا کہ کئی جگہوں پر یہی صورتِ حال دیکھنے کو ملتی ہے تو ایسی صورت میں اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔*
*✪"_ نیز جب بارات والوں کو کھانا کھلانا لڑکی والوں کی استطاعت میں نہ ہو تو ایسی صورت میں ان پر یہ لازم بھی نہیں کہ وہ ان مہمانوں کو کھانا کھلائیں یا اس کے لیے قرض لیں۔*
*®_ كتاب النكاح / باب ما يتعلق بالرسوم عند الزفاف*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰ سنت سے اعراض اور نفسانی خواہشات کی پیروی گمراہی ہے _,*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪"_ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل ومکمل اتباع کریں، یہی کامیابی کا راز ہے، اس سے اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور مومن جنت کا مستحق بنتا ہے۔*
*✪"_ چنانچہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میری تمام امت، جنت میں داخل ہوگی مگر وہ شخص جس نے انکار کیا اور سرکشی کی ( جنت میں داخل نہ ہوگا ) ۔ پوچھا گیا وہ کون شخص ہے جس نے انکار کیا اور سرکشی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے میری اطاعت و فرمانبرداری کی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا اور سرکشی کی۔ ( رواه البخاري. مشكوة،باب الاعتصام بالسنة)*
*✪"_سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے اس پر سخت وعیدیں ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میرے طریقے سے انحراف کرے گا وہ مجھ سے نہیں ( یعنی میری جماعت سے خارج ہے۔) (مشكوة)*
*"✪_ یعنی جو شخص میری سنت سے انحراف کرتا ہے اور میری بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ میری سنت اور میرے طریقے سے بیزاری و بے رغبتی کر رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا شخص میری جماعت سے خارج ہے، اسے مجھ سے اور میری جماعت سے کوئی نسبت نہیں۔*
*"✪_جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں نہیں وہ مردود ہے۔“ (بخاری و مسلم)*
*"_مطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں ان لوگوں کو مردود قرار دیا جا رہا ہے، جو محض اپنی نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کی بنا پر دین و شریعت میں نئی نئی بات اور نئے نئے طریقے رائج کرتے ہیں۔ ایسی غلط باتوں کا انتساب شریعت کی طرف کرتے ہیں، جس کا اسلام میں سرے سے وجود ہی نہیں ۔ ( مظاہر حق جدید )*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰اتباع خواہشات، گمراہی ہے :-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_ خدائی ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات کی اتباع کرنا، خلاف شرع رسم و رواج کا ایجاد کرنا، اور ان کی پیروی کرنا بہت ہی خطر ناک فعل ہے، اس سے بسا اوقات آدمی ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔*
*"✪_ چنانچہ ارشادی باری تعالی ہے: (سوره قصص) یعنی اگر یہ لوگ آپ کی دلیل اور بات قبول نہ کریں تو سمجھ لیں کہ وہ لوگ محض خواہشات نفسانی کے بندے اور متبع ہیں، ( جس چیز کو ان کا دل مانے قبول کرتے ہیں اور جس کو دل قبول نہ کرے چھوڑ دیتے ہیں ) اور جو شخص اللہ کی ہدایت ترک کر کے اپنی خواہش کی پیروی کرنے والا ہے اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا ؟ بے شک ایسے ظالم اور بے انصاف لوگوں کو اللہ تعالی ہدایت دینے والے نہیں ہیں۔“ (بیان القرآن)*
*"✪_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی کو ہدایت کی طرف بلایا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس کو جو اس کی پیروی کرے اور اس ( پیروی کرنے والے) کے ثواب میں کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ اور جو کسی کو گمراہی کی طرف بلائے اس کو اتنا گناہ ہو گا جتنا اس کو جو اس کی اطاعت کریں اور ان کے گناہ میں کچھ بھی کم نہ ہو گا۔ (مسلم)*
*"✪_ آج مسلمانوں میں عقائد کی کمزوری کے ساتھ عملی کمزوری بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ بہت سے غلط عقائد اور جاہلانہ رسم و رواج مسلمانوں کے معاشرے میں داخل ہو گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ہماری شادی بیاہ اور دیگر تقریبات اسی طرح خوشی و غمی کے دیگر مواقع ولادت و موت وغیرہ میں اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر محض غیروں کی نقالی اور پیروی کی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ اس بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیا ہے؟ وہ بھی نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے جو بہت افسوسناک بات ہے،،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰نکاح سے پہلے منگیتر سے بات اور ملاقات کرنے کا حکم:-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_ بندہ نکاح سے پہلے اپنی منگیتر سے بات کر سکتا یا نہیں ؟ مل سکتا ہے یا نہیں ؟واضح رہے کہ منگنی نکاح نہیں بلکہ نکاح کا وعدہ ہے، اس لیے محض منگنی ہو جانے کے بعد بھی منگیتر اجنبی ہی کے حکم میں ہوتی ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ جس طرح اجنبی مرد اور عورت کا باہم گپ شپ لگانا اور ملاقات کرنا نا جائز ہے اسی طرح اپنے منگیتر سے گپ شپ لگانا اور ملاقات بھی نا جائز ہے،*
*"✪_ اور اس کی وجہ سے متعدد نقصانات اور برائیاں ظاہر ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*❥_مہینوں کو منحوس سمجھنا:-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_ بعض علاقہ والے یا برادری والے بعض مہینوں کو منحوس سمجھ کر ان میں شادی بیاہ کی تقریب منعقد نہیں کرتے، خصوصاً محرم اور صفر کے مہینوں کو منحوس سمجھتے ہیں اس لیے ان مہینوں میں شادی کی تقریب کو نحوست کا سبب سمجھتے ہوئے ڈرتے ہیں، جبکہ یہ لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں اور سراسر شریعت مطہرہ کے خلاف عقیدہ ہے،*
*✪"_ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے باطل توہمات کی نفی فرما چکے ہیں لہٰذا اس باطل عقیدہ کی بنیاد پر شادی کے بعض دن یا تاریخ کو منحوس سمجھنا شرعاً جائز نہیں۔*
*"✪_ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مرض متعدی ہونے کا عقیدہ، بدشگونی ( بدفالی) الو (بولنے سے نحوست آنے کا عقیدہ) اسی طرح ماہ صفر کے منحوس ہونے کا عقیدہ شریعت سے ثابت نہیں، البتہ جذامی شخص سے اس طرح بھا گو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔ (بخاری(مشكوة : ۳۹۱/۲)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰مہندی اور ہلدی کی رسم :-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_ شادی کا موقع ہو یا عام حالات، خواتین کے لیے اپنے ہاتھوں میں مہندی لگانا شرعاً ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے، شرعاً عورت کو حکم ہے کہ مہندی لگایا کرے تاکہ ان کے ہاتھ مردوں کے مشابہ نہ رہیں۔*
*"✪_ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دیوار کی اوٹ سے آپ علیہ السلام کو ایک پرچہ دینے کی کوشش کی آپ علیہ السلام نے وہ پرچہ ان کے ہاتھ سے لینے سے انکار فرمایا اور ارشاد فرمایا معلوم نہیں مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا، تو عرض کیا کہ عورت کا ہاتھ ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو مہندی لگا ہوا ہوتا ہے، ہاتھ و ناخن مردوں کے مشابہ نہ ہوتا ۔ (ابو داؤد) (مشكوة: ۳۸۳/۲ باب الترجل)*
*"✪_اس زمانے میں شادی سے قبل رسم مہندی اور رسم ہلدی کے نام سے جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، اس میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں، اس مقصد کے لیے بعض برادریوں میں مستقل دعوت ہوتی ہے مردوخواتین کا ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے اور اس کو ضروری سمجھا جاتا ہے، دعوت نہ کرنے پر لعن طعن ہوتا ہے، رشتہ داروں میں سے جو اس دعوت میں شرکت نہ کرے اسے بھی لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ رسمیں قابل ترک ہے۔ اجتناب لازم ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰دولہا کے لیے مہندی کی رسم :-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪__ بعض علاقوں میں شادی سے قبل دولہا کے گھر میں بھی ایک مستقل رسم مہندی کے نام سے دعوت ہوتی ہے، اس میں بھی دونوں طرف کے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے، خصوصاً خواتین اس میں شرکت کرتی ہیں، دولہن کی طرف سے آنے والی خواتین دولہا کو مہندی لگاتی ہیں، جبکہ شرعاً مردوں کے لیے بطور زینت ہاتھوں میں مہندی لگانا جائز نہیں۔*
*✪"_ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاتھوں کا بھی زنا ہے کہ کسی اجنبیہ عورت کو ہاتھ لگانا۔ نیز اجنبی عورت کو ہاتھ لگانے اور مصافحہ کرنے پر احادیث مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں، چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر کسی اجنبی عورت کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔اپنے سر میں سوئی گھونپنا زیادہ بہتر ہے اس سے کہ ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہ ہو۔*
*✪"_لہذا امت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ کسی اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، مثلا چاچی ممانی چچازاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد، بہنوئی، دیور نند، جیٹھ، خالو پھوپھا وغیرہ یعنی ایسے رشتہ دار جن سے پردہ کرنا فرض ہے، ان سے مصافحہ کرنا جائز نہیں۔*
*"✪_جب اجنبی مرد و عورت کا مصافحہ جائز نہیں تو ہاتھ پکڑ کر مہندی لگانا کیے جائز ہوسکتا ہے؟ اس لیے اس قبیح رسم سے بچنا، بچانا مسلمانوں کے ذمہ لازم ہے، اور اس میں شرکت کرنے والی خواتین اور شریک مرد سب گناہ گار ہوں گے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰ابٹن لگانا :-*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪__ شادی بیاہ کے موقع پر ابٹن لگانے کا رواج ہے، شرعاً اس میں کوئی مضایقہ نہیں، یعنی لڑکی کو ابٹن لگانافی نفسہ جائز ہے لیکن اس موقع پر جو مفاسد و منکرات ہوتے ہیں، مثلأ تصویر کشی، بے پردگی، اجنبی مردوں اور عورتوں کا اختلاط و ہنسی مذاق، مووی بنانا، اور اسراف وغیرہ یہ سب امور نا جائز اور حرام ہیں۔*
*✪__ اس لیے ان نا جائز امور سے بچنا ضروری ہے، البتہ ان تمام مفاسد اور منکرات سے بچ کر ابٹن لگایا جائے تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں، خوشی کے ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا اور نافرمانی سے بچتا نہایت ضروری ہے، یہی اصل موقع ہوتا ہے، جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان لیتے ہیں، خوشی اور غمی کے مواقع میں دین پر ثابت قدم رہنا ایمان کی پختگی کی علامت ہے۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_شادی کے موقع پر گانا بجانا:-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪ _ شادی کے موقع پر بعض لوگ گانا بجانے کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں، ٹیپ ریکارڈ و آج کل ڈی جے کے ذریعہ اور بعض لوگ تو با قاعدہ گلو کار ( آر کے ایکسٹرا ) بلاتے ہیں، پھر بڑے بڑے ڈیک لگا کر اس قدر شور کیا جاتا ہے کہ اڑوس پڑوس کے لوگوں کا جینا حرام ہو جاتا ہے، بعض لوگ اس موقع پر اداکاروں کو بلا کر ناچ گانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہ سب گناہ ہے،*
*"✪ _ (۱) پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانا شرعا حرام ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم کھا کرفرمایا کہ وہ شخص مسلمان نہیں، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کونسا شخص ہے؟ تو ارشاد فرمایا جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔ ( بخاری و مسلم )*
*"✪ _( ۲ ) ناچ گانا بذات خود بہت بڑا گناہ کے کام ہیں: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں، ایک گانے کے ساتھ راگ باجوں کی آواز دوسری مصیبت کے وقت چیخنے کی آواز _,(بہیقی)*
*"✪ _رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص گانے والی عورت کے پاس گانا سننے کے لیے بیٹھتا ہے تو اللہ تعالی قیامت کے روز اس کے کانوں میں سیسہ پکھلا کر ڈالے گا ۔"*
*"✪ _ موسیقی کے بارے میں بعض لوگوں کو اشکال ہوتا ہے کہ بعض احادیث سے اس کا جائز ہونا معلوم ہوتا ہے کیونکہ شادی کے موقع پر دف بجانا حدیث سے ثابت ہے اور موسیقی بھی دف ہی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہونا چاہیے۔*
*"✪ _ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ احادیث میں جس دف کا ذکر ہے وہ صرف نکاح کے موقع پر کچھ دیر کے لیے بجایا جاتا تھا شادی کے علاوہ بلا ضرورت دف بجانے والوں کو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ دروں سے سزا دیتے تھے۔ پھر شادی کے موقع پر بھی دف پیٹنے والی عموماً چھوٹی بچیاں ہوتی تھیں، مردوں کا دف پیٹنا کہیں ثابت نہیں۔ پھر یہ دف بھی اہل عرب کی عادت کے مطابق بالکل سادگی سے پیٹا جاتا تھا۔ نہ اس میں جھانجھ ہوتی تھی نہ رقص و سرور یا طرب و مستی کا کوئی اور نشان، آج کے زمانے میں ایسے دف کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔*
*"✪ _ احناف میں سے اکثر فقہا و رحمہم اللہ تعالی اس کو بھی نا جائز قرار دیتے ہیں۔ بعض اکثر مشایخ کے قول کے مطابق دف حرام ہے اور شادی کے موقع پر جو دف بجانا ثابت ہے اس سے اعلان و تشہیر مراد ہے۔۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰رسم نیوتہ ( نذرانہ) :-*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪ _ شادی کے موقع پر جو قبیح رسومات انجام دیئے جاتے ہیں ان میں سے ایک رسم نیوتہ بھی ہے، حقیقت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے عرف میں نیوتہ کی رسم ہے جو دعوت ولیمہ کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں اہل شادی خانہ کو شرکاء دعوت رقم دیتے ہیں جو کہ رجسٹر میں یادداشت کے طور پر درج کی جاتی ہے اور پھر اہل شادی خانہ جب ان شرکاء میں سے کسی کی شادی پر شرکت کرتے ہیں تو جن شرکاء نے رقم ان کو دی تھی یہ اس سے رقم بڑھا کر واپس ادا کرتے ہیں اور دوسرے موقع پر رقم واپس ادا نہ کریں تو آپس میں ناراضگی ہو جاتی ہے اور اسکے بعد ایک دوسرے کے ولیمہ اور شادی کی دعوت میں شریک نہیں ہوتے۔*
*"✪ _شادی کے موقع پر نیوتہ یا نندرہ کے نام سے جو رقم وصول کی جاتی ہے اس میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں:-*
*"✪ _(۱) قرض کا لین دین ہے، جبکہ بلا ضرورت قرض کا لین دین شرعاً ایک ناپسندیدہ عمل ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض سے پناہ مانگی ہے، نیز قرض کو قرض اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مقراض الحبہ محبت کو کاٹنے والی ہے۔*
*✪ (۲)- اگر دی ہوئی رقم سے بڑھا کر لوٹائی جائے اور ایسا کرنا بھی اس رسم کا حصہ ہو تو یہ زائد رقم سود کے حکم میں ہے۔*
*"✪ _ (٣)_ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ قرض واپس کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے: مثلأ واپسی سے پہلے ہی دونوں میں ہے ایک علاقہ چھوڑ کر دور کہیں چلا جائے یا ایک کا انتقال ہو جائے ، اس صورت میں دوسرے کے حق تلفی اور ناجائز طور پر مال استعمال کرنے کا گناہ ہوا۔*
*"✪ (٤)_ کسی کی دعوت کر کے اس ہے پیسے وصول کرنا، غیرت اور حمیت کے خلاف ہونے کے علاوہ ایک احمقانہ حرکت ہے، اگر کسی کو دعوت کرنے کی استطاعت نہیں تو وہ دعوت کرتا ہی کیوں ہے؟ بالکل نہ کرے یا جتنے افراد کو کھلانے کی استطاعت ہے صرف اتنے ہی افراد کی دعوت کرے،*
*"_ ان قباحتوں کی بنا پر یہ رسم واجب الترک ہے۔*
*®_(رد المحتار ٦٩٦/٥،)*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰شادی اور فضول خرچی :-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_ شادی کے موقع پر ایک گناہ کا کام یہ بھی انجام دیا جاتا ہے کہ فضول خرچی اور اسراف بہت ہوتا ہے، مثلأ بلا ضرورت بہت زیادہ روشنی کا اہتمام کرنا، پھر اس کے لیے بجلی چوری کی جاتی ہے جس سے اس کی قباحت اور بڑھ جاتی ہے، اسی طرح ضرورت سے زائد کھانا پکانا، پھر اس کو ضائع کرنا، نیز قرض لے کر اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا دعوت کرنا، اس کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرنا وغیرہ جبکہ فضول خرچی کرنے سے قرآن کریم نے سختی سے منع فرمایا ہے، اس کو شیطان کی تابعداری قرار دیا ہے۔*
*"_اور ( مال کو) بے موقع مت اڑانا، بے شک بے موقع مال اڑانے والے شیطان کے بھائی بند ہیں (یعنی اس کے مشابہ ہوتے ہیں ) اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔*
*"✪_ انسان مال تو حق کے مطابق حاصل کرے، مگر خلاف شرع خرچ کر ڈالے، اور اس کا نام اسراف بھی ہے اور یہ حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کھاؤ اور پیو اور بےجا خرچ مت کرو، بے شک اللہ تعالی بےجا خرچہ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔*
*✪"_اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ بندہ حد شرعی کے اندر رہ کر زندگی گزارے حدود شرع سے تجاوز نہ کرے، اور کھانے پینے میں نہ بخل سے کام لے نہ ہی اسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو۔ یعنی اللہ تعالی کو وہ لوگ پسند ہیں خود خرچ کرنے میں توسط میانہ روی رکھتے ہیں، نہ حد ضرورت سے زیادہ خرچ کریں اور نہ اس سے کم خرچ کریں۔*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_دلہن کے منہ دکھائی کی رسم :-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪"_ بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ رخصتی کے بعد دلہن کو گھر لایا جاتا ہے تو منہ دکھائی کی رسم ادا کی جاتی ہے یعنی دلہن کو مسیری بٹھا دیا جاتا ہے، اور پھر دولہا کے رشتہ دار دولہن کا چہرہ دیکھ کر کچھ ہدیہ (یعنی نقدی، نوٹوں کا بار یا کوئی انگوٹھی وغیرہ) پیش کرتے ہیں، دیدار کرنے والے مردوں میں زیادہ تر غیر محرم ہوتے ہیں، دولہا کے بہنوئی ماموں زاد چچازاد، خالہ زاد وغیرہ۔*
*✪"_ یہ ایک قبیح رسم ہے خصوصاً غیر محرم عورت کو قصداً دیکھنا اور دکھانا قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے، اور اس پر لعنت وارد ہوئی۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ غیر محرم کی طرف دیکھنے والا اور جس کی طرف دیکھا جارہا ہے۔ دونوں ملعون ہیں۔(مشكوة) یہ رسم قابل ترک ہے۔*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*⇰_شادی کے موقع پر بے پردگی:-*
∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*"✪_شادی کے موقع پر ایک گناہ جو بہت عام ہو گیا ہے، وہ بے پردگی کا گناہ ہے، ہے دین طبقہ کی تو بات ہی الگ ہے، ان کا تو شادی کا پورا نظام ہی گناہوں کے کاموں پر مشتمل ہوتا ہے، خلاف شرع رسم ورواج شادی کی محفل میں مردوں عورتوں کا اختلاط، کھڑا ہوکر کھانا پینا، وغیرہ،*
*"✪_ لیکن بات دیندار طبقہ کی ہے، جنہیں اپنی دینداری پر ناز ہے، عام حالات میں بظاہر گھروں میں شرعی پردہ کا خیال بھی رکھا جاتا ہے، لیکن شادی کے موقعہ پر وہ اس حکم شرعی میں غفلت برتتے ہیں اور شرعی پردہ کا ایسا ہی تاکیدی حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ نماز روزے کا اب نہ معلوم کیا وجہ ہے، مسلمان خواتین پردہ کا اہتمام نہیں کرتی اور مرد حضرات بھی پردہ کا ماحول فراہم نہیں کرتے، خصوصاً شادی کے موقع پر ، گناہ سے بچنے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے، کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے آزمائش کا وقت ہوتا ہے، کہ میرے بندے کو اتنی بڑی خوشی نصیب ہو رہی ہے کیا اس موقع پر یہ مجھے یاد رکھتا ہے یا میرے احکامات کو پس پشت ڈال دیتا ہے،*
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*⇰_شادی کے موقع پر سہرا باندھنا، نٹوں کا ہار پہنانا, فائرنگ کرنا :-* ∞≅∞≅∞≅∞≅∞≅∞
*✪ _ شادی کے موقع پر بعض علاقوں میں دستور ہے کہ دولہا کے ماتھے پر سہرا باندھتے ہیں، یہ ایک خالص غیر مسلموں کی رسم ہے، انہیں سے لی گئی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس رسم و رواج سے اجتناب کرے اس لیے یہ رسم قابل ترک ہے۔*
*✪"_شادی کے موقع پر پھول کا ایک آدھ ہار پہنانے کی تو گنجائش ہے، خوشی کا موقع ہے باقی اس کو با قاعدہ رسم بنا لینا درست نہیں۔ اور جہاں تک نوٹوں کے ہار کا تعلق ہے، اس میں کئی خرابیاں ہیں، مثلاً بلا وجہ مال کا ضیاع اور اسراف، اور ہار کے لینے دینے میں ایک دوسرے پر فخر، بلکہ بعض علاقوں میں رسم نیوتہ میں داخل ہے، اس لیے نوٹوں کا بار استعمال نہ کیا جائے،*
*✪"_ اگر ہدیہ بھی دینا مقصود ہو تو اس کے لیے کوئی سادہ طریقہ اختیار کیا جائے جو نام نمود اور دیگر خرابیوں سے خالی ہو۔*
*✪"_ آج کل بہت سے لوگ شادی کے موقع پر فائرنگ کرتے ہیں، اس کو اظہار خوشی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا، اس کو بھی لوگوں نے ایک رسم بنالی، خود کو نا پسند ہو جب بھی عزیز واقارب جو شادی کے موقع پر جمع ہوتے ہیں وہ فائرنگ کرتے ہیں، اس کے دنیوی نقصانات تو سب کے سامنے ہی ہیں، بارہا ایسا بھی ہوا کہ دلہن ہی کو گولی لگ گئی، دولہا اس کے ساتھیوں کو گولی یا عزیز واقارب زخمی ہو گئے، اس طرح یہ خوشی کا موقع ایک غمکدہ بن جاتا ہے، جو لوگ خوشی منانے آئے تھے وہ جنازہ اٹھا کر لے جارہے، پھر بسا اوقات اس سے دونوں خاندانوں میں طویل دشمنی لڑائی جھگڑے شروع ہوتے ہیں، عرصہ دراز تک پریشانی کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔*
*"✪_ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اپنے کسی (دینی) بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ شیطان انجانی میں اس کے ہاتھ سے چھڑوا دے (اور اس کے ہاتھ سے ناحق قتل ہو جائے) اور پھر اس کی وجہ سے جہنم کے گھڑے میں گر پڑے۔ (بخاری شریف )*
*"✪_ خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک بری رسم ہے، اس کو ترک کرنا لازم ہے۔*
*⇲ اللہ تعالی ہمیں سنت و شریعت کی حدود میں رہ کر نکاح کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یارب آلمین، الحمدللہ پوسٹ مکمل ہوئی _,*
*® ↳ ازدواجی زندگی کے شرعی مسائل _,*
*✪_{ وضاحت اور تشریح :- شیخ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی نے ۲۳ رجب ۱۴۱۶ یوم السبت نماز عصر کے بعد اپنی پوتی کا نکاح پڑھایا، نکاح کے بعد حضرت اقدس نے زیر نظر مختصر مگر بہت جامع وعظ فرمایا۔]*
*▍✿ طالب دعاء ✧*
*▍✧ حق کا داعی✧* ▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
▉
0 Comments