Maahe Safar Ki Bid'ate (Urdu)

 

 ▓━﷽━▓ 
┏┅●◑●
┣━━━● *ماہ - صفر - کی - بدعتیں*  
┗┅●◑━━━
┏───────────────────┯
          ✿│ *☞ _ تیرہ تیزی کی حقیقت ✦*
┗───┯ ✿
*✪_ اسلام سے بے پرواہ لوگوں نے جہاں اور بہت ساری بدعات وخرافات کو جنم دیا ہے ، وہیں ماہ صفر کی وہ بدعت بھی جاری کی ہے کہ جس کو عام طور پر لوگ "تیرہ تیزی“ کہتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت کو واضح کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عوام کی نظر میں اس تیرہ تیزی کی حقیقت کیا ہے، اس کو بیان کیا جائے۔*

*"✪_ تیرہ تیزی عوام کی نظر میں :- لوگ کہتے ہیں کہ ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں میں نحوست ہے، کیونکہ ان دنوں میں سرکار دو عالم محمد رسول اللہ ﷺ سخت بیمار ہو گئے تھے۔ یہ بیماری اسی نحوست کا اثر ہے۔ اور غالباً ان دنوں کو تیرہ تیزی بھی اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ سخت اور برے اور منحوس دن خیال کر لیے گئے ہیں۔ اور لغت میں تیزی کے معنی سختی، اور پریشانی کے آتے ہیں۔* 

*"✪_اس طرح عوام کے نزدیک تیرہ تیزی کا مطلب یہ ہوا کہ ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن نہایت منحوس سخت اور برے ہیں۔ یہ عوام الناس کا غلط عقیدہ ہے ۔ پھر اس غلط عقیدے پر جن کاموں کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ بھی لغو اور باطل ہیں،*

*"✪_ مثلاً ان دنوں میں کسی چیز کو خرید کرنا منحوس و برا سمجھا جاتا ہے، شادی یا اور کوئی خوشی کی تقریب کرنا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ گویا یہ دن اتنے منحوس ہیں کہ ان میں کوئی خوشی ومسرت کا کام نہیں کیا جاسکتا اور کیا جائے تو بھی نحوست کے اثر سے وہ کام نہ ہوگا یا رنجیدہ ثابت ہوگا۔*
┏───────────────────┯
            ✿│ *☞ _غور کرنے کی دو باتیں ✦*
┗───┯ ✿
*✪_ تیرہ تیزی کے اس غلط عقیدے اور اس کے متعلق کاموں کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لیے ہمیں دو باتوں پر غور کرنا چاہئے ۔ ایک یہ کہ کیا رسول اللہ ﷺ صفر کے شروع میں تیرہ دن بیمار رہے؟*
*"✪_ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی بات ہے، جس کا جواب ہمیں تاریخ ہی دے سکتی ہے۔*
 *"✪_ دوسرے یہ کہ اگر فی الواقع آپ ان دنوں بیمار رہے تھے، تو کیا اس کی وجہ ان دنوں کی نحوست ہے؟ اور کیا ہمیں اس کی بنا پر ان دنوں کو نحوست قرار دینا اور ان میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات سے اور خرید وفروخت سے پر ہیز کرنا جائز و درست ہے؟*

*☞ _ رسول اکرم ﷺ کے بیماری کے ایام :-*

*"✪_ پہلے ہم پہلی بات کو لیتے ہیں کہ کیا رسول اکرم ﷺ صفر کے ابتدائی تیرہ دن بیمار رہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اپنے مرض الوفات میں تیرہ دن تو بیمار رہے ،مگر یہ تیرہ دن کونسے تھے؟ اس میں اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ یہ صفر کے آخری اور ربیع الاول کے ابتدائی ایام تھے، جیسا کہ علامہ ابن حجر کی فتح الباری- 8/129 سے واضح ہوتا ہے۔*. 
*"✪_اور سیرت ابن ہشام میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مرض الوفات صفر کے آخری دنوں میں یا ربیع الاول کے ابتدائی دنوں میں شروع ہوا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۶۴۲٫۲)*

*"✪_اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی بیماری کے بارے میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ صفر کے آخری اور ربیع الاول ہی کے شروع میں بیمار ہو کر وفات پائے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ ربیع الاول ہی کے شروع میں بیمار ہو کر وفات پائے۔*
*"✪_ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آپ صفر کے شروع میں تیرہ دن بیمار رہے، بلکہ صحیح یہ ہے آپ کی بیماری صفر کے آخری دنوں میں شروع ہوئی اور ربیع الاول میں جا کر ختم ہوئی۔*

*"✪_ اب آپ ہی غور فرمائیے کہ جب تیرہ تیزی کی بدعت کی بنیاد ہی غلط ہو گئی تو پھر اس پر جو عقیدہ و عمل قائم کیا گیا ہے وہ کیسے درست ہو سکتا ہے؟* 
┏───────────────────┯
      ✿│ *☞ __تیرہویں دن خوشی کا تماشا ✦*
┗───┯ ✿
*✪_پھر عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ آپ علیہ السلام صفر کے ابتدائی دنوں میں بیمار ہوئے اور تیرہ دن تک بیمار رہے، اور دوسری طرف صحت افاقہ کو صفر کے آخری چہار شنبہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب آپ تیرہ دن بیمار رہے تو تیرہ دن کے بعد ٹھیک ہو گئے ہوں گے۔ تو تیرہویں دن کو صحت یابی کا دن کیوں نہیں قرار دیا جاتا۔*

*"✪_ اور اگر کہا جائے کہ یہ تیرہ دن کی بیماری کسی اور موقعہ کی ہے، اور آخری چہارشنبہ کی صحت یابی کسی اور بیماری کے بعد ہوئی ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں نے جس طرح چہار شنبہ کو صحت یابی کا دن قرار دے کر خوشی و تفریح کولازم کیا ہے ، اسی طرح وہ تیرہ تیزی کی بیماری کے بعد تیرہویں دن کو خوشی و تفریح کا دن کیوں قرار نہیں دیتے ؟*

*"✪_ معلوم ہوتا ہے کہ نفس نے جو سمجھایا، اس کو اختیار کر لیا گیا ہے عقل کو کام میں نہیں لایا گیا ہے۔*

┏───────────────────┯
*✿│☞ _کیا بیماری نحوست ہے یا نحوست سے آتی ہے؟ ✦*
┗───┯ ✿
*✪_ اور اگر ہم بالفرض یہ مان لیں کہ آپ صفر کے ابتدائی دنوں میں ہی بیمار ہوئے یا یہ کہ کسی اور موقع پر ان دنوں میں آپ بیمار ہوئے تھے ،تو کیا اس کی وجہ سے ان دنوں کو یا صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا درست ہو گا اور کیا بیماری کو منحوس خیال کرنا یا یہ سمجھنا کہ بیماری نحوست سے آتی ہے صحیح ہو گا؟ یہ دوسرا نکتہ ہے جس پر ہمیں غور کرنا ہے۔*.

*"✪_ اس سلسلے میں عرض ہے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہ خود بیماری منحوس ہے اور نہ ہی یہ نحوست سے آتی ہے۔ بلکہ مومن کے لیے یہ سراسر رحمت و نعمت ہے۔ اور اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ چنانچہ احادیث شریفہ میں اس کا ذکر موجود ہے۔*

*"✪_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، اسے مصیبت (بیماری) میں مبتلا کر دیتے ہیں۔* 
*®(بخاری: ٢/٨٤٣، موطا امام محمد: ۳۹۹)*

*"✪_ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آپ کی بیماری کے زمانے میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ کو تو سخت بخار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے اکیلے تم میں سے دو کے برابر بخار ہے۔ میں نے عرض کیا، یہ شاید اس لیے کہ آپ کو دو اجر (ثواب) ملیں؟ فرمایا کہ ہاں یہ اسی لیے ہے اور اس لیے کہ مسلمان کو کانٹا یا اس سے بھی کم کوئی ( تکلیف) چیز پہنچتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں کا کفارہ (بدلہ) بنا دیتے ہیں، جیسے خشک درخت کے پتے گرتے ہیں ( گناہ بھی ایسے ہی گرتے ہیں )*
 *®_( بخاری: ۴۳/۲ ۸ مسلم : ۳۱۸/۲)*
┏───────────────────┯
       ✿│ *☞ _بیماری رحمت و برکت ہے:- ✦*
┗───┯ ✿
*✪__ اور بعض روایات میں ہے کہ بیماری سے اجر و ثواب اور درجات کی بلندی نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ مسلم شریف میں متعد دروایات میں مذکور ہے۔*
*®_(مسلم : ۳۱۸/۲ تا ۳۱۹)*

*"✪__ ایک حدیث میں ہے کہ مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اسکی ہر بات خیر ہی خیر ہے۔ اور گر اسی کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے اس پر شکر کیا تو یہ اس کے لیے بھلائی اور خیر ہے، اور اگر اس کو تنگی و پریشانی ہوئی اور اس پر اس نے صبر کیا تو یہ بھی اس کے لیے بھلائی اور خیر ہے_,*
*®_(مشکوۃ:۴۵۲)*

*"✪__ حضرت ام السائب رضی اللہ عنہا بیمار تھیں، اللہ کے رسول علیہ السلام ان کے پاس گئے، دیکھا کہ وہ ٹھٹھڑ رہی ہیں۔ پوچھا کہ کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ بخار ہے، اللہ اس میں برکت نہ دے۔ آپ نے فرمایا کہ بخار کو برا بھلا نہ کہو، یہ انسانوں کے گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتی ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو صاف کر دیتی ہے_,*
*®_(مسلم:۳۱۹٫۲)*

*"✪__ان سب احادیث سے معلوم ہوا کہ بیماری خدا کی طرف سے آتی ہے اور یہ اسے آتی ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کرنا چاہتے ہیں، اور یہ کہ محض رحمت و برکت ہے‌ جس سے گنہ گاروں کے گناہ دھل جاتے ہیں' اور نیکوں کے درجات بلند ہو جاتے ہیں۔*

*"✪__ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماری کو برا بھلا کہنے اور برا سمجھنے کی اجازت نہیں، یہ صریح اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اب دیکھ لیجئے کہ تیرہ تیزی کا عقیدہ جس میں صفر کو بیماری کی وجہ سے منحوس و برا سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔بلاشبہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ اللہ تعالٰی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ،*
┏───────────────────┯
*✿│☞ __صفر کی نحوست کا عقیدہ جاہلیت ہے ✦*┗───┯ ✿
*✪_ پچھلے پارٹوں کی توضیح و تفصیل سے صاف معلوم ہوا کہ صفر کے تیرہ دنوں کو یا صفر کے مبینہ کو منحوس سمجھنا غلط ہے، بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ صفر کی نحوست کا عقیدہ زمانہ جاہلیت کے جاہل لوگوں کا عقیدہ تھا، اور اسلام نے اس کو باطل قرار دیا ہے۔*

*"✪_ چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا ہے ”لا صفر “ کہ صفر ( کی نحوست کا عقیدہ ) کوئی چیز نہیں ( بلکہ غلط و باطل ہے )_,*
*®_(بخاری کتاب الطب : ۸۵۱/۲، مسلم: ۲۳۰/۲)*

*"✪_ اس حدیث کے متعدد معانی و مطالب علماء نے بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھ کر، اس کے آنے سے بدفالی کرتے تھے، اس باطل و غلط عقیدے کی تردید میں اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا: "لا صفر" کہ صفر کچھ نہیں، یعنی اس کی نحوست اور اس سے بدفالی کا عقیدہ کچھ نہیں ۔ ملا علی قاری نے مرقاۃ(شرح مشکوۃ:۴/۹ ) میں اس کو بیان فرمایا ہے۔*

*"✪_ اس کے علاوہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ کسی بھی چیز میں نحوست نہیں اور کسی چیز سے بدفالی لینا درست نہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا " لاطیرۃ" کہ بد فالی لینا جائز نہیں۔*
*®_(بخاری ۸۵۳/۲، مسلم ۲۳۰/۲۰ ، مشکوۃ: ۳۹۱)*

*"✪_ ان احادیث میں بدفالی لینے کا یہی مطلب ہے کہ کسی چیز کو منحوس سمجھ کر اس کو برا خیال کیا جائے اور اس سے بدفالی لی جائے۔ یہ بات اسلامی نقطہ نظر سے غلط و باطل ہے۔ جب کسی بھی چیز کو بدفالی کا سبب خیال کرنا صحیح نہیں تو صفر کے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس سے بدفالی لینا کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟*
┏───────────────────┯
*✿│☞ _تین چیزوں میں نحوست کا مطلب ✦*
┗───┯ ✿
*✪_ اور جو بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ نحوست تین چیزوں میں ہے۔ عورت, گھر، اور گھوڑا جیسا کہ کتب حدیث میں مروی ہے_,(بخاری : ۸۵۶/۲، مسلم:۲۳۲٫۲۰، طحاوی: ۳۱۷٫۲)* 
*"✪_ اس کی تشریح میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول کا مطلب یہ نہیں کہ ان چیزوں میں نحوست ہے، بلکہ آپ نے صرف اہل جاہلیت کا قول نقل کیا ہے کہ یہ جاہل لوگ اس طرح کہتے ہیں_, (طحاوی: ۳۱۸/۲)*

*"✪_ اور امام طحاوی نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ اگر بالفرض کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان چیزوں میں ہوتی، جب ان میں بھی نحوست نہیں تو کسی میں بھی نہیں ہے۔ ( طحاوی: ۳۱۸/۲)*

*"✪_ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں اللہ کے رسول نے خود فرمایا کہ - بدفعلی کوئی چیز نہیں، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو عورت گھر اور گھوڑے میں ہوتی_, (بخاری: ۴۰۰/۱ ، مسلم: ۲۳۲/۲، طحاوی: ۳۱۸/۲، ترندی: ۲۷۵۰)*

*"✪_یہ حدیث بتارہی ہے کہ اللہ کے رسول علیہ السلام کا مقصد ان چیزوں میں نحوست بتانا نہیں ہے، بلکہ ان سے نحوست کی نفی کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان میں ہوتی، جب ان میں بھی نہیں ہے تو کسی اور چیز میں بھی نہیں ہے۔*

*"✪_الغرض کسی چیز میں نحوست خیال کرنا اور اس سے بدفعلی لینا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح نہیں۔ اسی طرح صفر کے مہینہ کو منحوس جان کر اس سے بدفعلی لینا بھی صحیح نہیں ہے۔*
┏───────────────────┯
         *✿│☞ _اصل نحوست کیا ہے؟ ✦*
┗───┯ ✿
*✪_اصل نحوست بد عملی، بد اخلاقی، شریعت و دین سے غفلت و لاپروائی سے آتی ہے اور بد عمل و بے دین لوگوں کے حق میں ہر دن ہر ماہ اور ہر چیز منحوس ہے۔ اسی لیے قرآن میں قوم عاد کے ذکر میں کہا گیا ہے۔ ( قمر:۱۹) ہم نے ان ( قوم عاد ) پر ایک سخت ہوا بھیجی ایسے دن میں جو دائمی نحوست والا ہے،*

*"✪__ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس دن کو منحوس بتایا ہے جس میں قوم عاد کو ہلاک کیا گیا، کیوں؟ اس لیے ان کی بے ایمانی و بد عملی نے ان کو اس نتیجہ تک پہنچایا۔ ورنہ تو وہی دن جس میں ان کو ہلاک کیا گیا۔ حضرت ہود علیہ السلام اور مومن حضرات کے لیے نہایت ہی مسعود و مبارک تھا۔ اگر فی نفسہ وہ دن ہی منحوس ہوتا تو سب کے لیے منحوس ہوتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ علامہ قرطبی اسی آیت کی تفسیر میں اس نکتہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ :- جیسے وہ منحوس ایام جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ قوم عاد کے کفار پر منحوس تھے، نہ کہ ان کے نبی کے حق میں اور نہ ان پر ایمان رکھنے والوں کے حق میں_, (قرطبی : ۱۳۶/۱۷)*

*"✪__ خلاصہ یہ ہے کہ کسی دن یا ماہ میں نحوست نہیں ہوتی ، بلکہ بے ایمانی، بد عملی بد خلقی کی وجہ سے بعض لوگوں کے حق میں بعض دن یا مہینے منحوس ہو جاتے ہیں ، تو یہ نحوست دنوں یا مہینوں کی نہیں ، بلکہ بدخلقی و بے ایمانی کی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث شریف میں اللہ کے نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے: نحوست بداخلاقی ہے۔ (اخرجه احمد وفی اسناده ضعف، کذافی بلوغ المرام : ۱۱۲)*

*"✪__معلوم ہوا کہ نحوست کسی چیز میں نہیں، بلکہ نحوست ہمارے اپنے برے اعمال برے اخلاق میں ہے۔ اس لیے ہمیں نحوست سے بچنے کی خاطر ، گناہوں سے اللہ کی نافرمانیوں اور بد اخلاقیوں سے باز آنے کی ضرورت ہے، نہ کہ صفر میں خرید و فروخت اور خوشی کی تقریبات منانے سے، بہر حال ماہ صفر کی نحوست کا اعتقاد باطل ہے۔*
┏───────────────────┯
      *✿│☞ __ایک بے اصل حدیث ✦*
┗───┯ ✿
*✪_ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض نڈرو بے خوف لوگوں نے صفر کی نحوست پر ایک حدیث بھی گھڑ رکھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو مجھے صفر کے چلے جانے کی بشارت سنائے گا میں اس کو جنت کی خوشخبری دیتا ہوں_,*
*"✪_یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول علیہ السلام نے اس کو جنت کی بشارت دی ہے۔ جو صفر کے ختم ہو جانے ، چلے جانے کی خبر دے، مگر یہاں دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سچ مچ کبھی یوں فرمایا ہے؟ اور کیا یہ واقعی اللہ کے رسول کی حدیث ہے؟*

*"✪_جواب یہ ہے کہ نہیں، یہ اللہ کے رسول علیہ السلام کی حدیث نہیں ہے۔ بلکہ لوگوں نے اس کو گھڑ لیا ہے۔ چنانچہ علماء حدیث نے اس حدیث کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔ مشہور و معروف محدث وفقیہ ملا علی قاری حنفی نے اپنی کتاب موضوعات کبیر میں اس حدیث کو لکھ کر فرمایا ” اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ یہ بے اصل حدیث ہے۔ (موضوعات کبیر : ۶۹ حرف میم)*

*"✪_آخری چہار شنبہ ماہ صفر کی کی ایک بدعت جس کو عوام ”آخری چہار شنبہ" کہتے ہیں وہ بھی غلط و بے بنیاد عقیدے اور باطل امور پر مشتمل ہے۔ مگر بہت سے لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ اس رسم کو مناتے ہیں۔ ہم پہلے بتائیں گے کہ عوام کے نزدیک آخری چہار شنبہ کی حقیقت کیا ہے۔ پھر اس پر شرعی نقطہ نظر سے بحث کریں گے۔ ان شاءاللہ ،*
┏───────────────────┯
*✿│☞ _آخری چہار شنبہ عوام کی نظر میں✦*
┗───┯ ✿
*✪__ آخری چہار شنبہ کی حقیقت کیا ہے؟ عوام الناس کہتے ہیں کہ ”آخری چہار شنبہ صفر کے مہینے کا آخری بدھ جس میں آنحضرت ﷺ بیماری کے بعد سبزے کی سیر کو تشریف لے گئے (عوام) مسلمان اس دن کو مبارک سمجھ کر سیر و تفریح کرنا اچھا سمجھتے ہیں۔*

*"✪_ گویا آخری چہار شنبہ کے دو جز ہیں، ان میں سے ایک عقیدہ ہے اور دوسرا عمل، عقیدہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کے آخری بدھ کو بیماری سے شفایاب ہو کر سیر و تفریح کے لیے گئے تھے۔ اور عمل یہ لوگ اس کو مبارک سمجھ کر خود بھی سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں اور بعض جگہوں پر خاص چیزیں مثلاً انڈا، تیل وغیرہ خیرات بھی کرتے ہیں،*

*"✪_ جہاں تک آخری چہار شنبہ کو آپ کے صحت پانے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں عرض ہے کہ اگر اسے مرض الوفات سے صحت پانا مراد ہے تو یہ صریح غلط و بالکل باطل ہے، کیونکہ اس بیماری سے آپ صحت نہیں پائے تھے، جیسا کہ یہ بات بالکل ظاہر ہے اور اسی وجہ سے اس کو مرض الوفات کہتے ہیں۔*

*"✪_ اور اگر کسی اور موقعہ کی بیماری سے صحت و شفا پانا مراد ہے تو تاریخ وسیرت سے اس کا ثبوت ہونا چاہئے، مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے،‌ لہذا بے دلیل ثبوت کسی بات کو اپنے عقیدے کی بنیاد بنانا کیسے اور کیوں کر جائز ہوسکتا ہے۔*
┏───────────────────┯
       *✿│☞ _ایک انکشاف اور اندیشہ ✦*
┗───┯ ✿
*✪_اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ حضرات علماء نے لکھا ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ کا مرض الوفات صفر کے آخری چہار شنبہ سے شروع ہوا تھا۔چنانچہ امام حدیث و تاریخ ابن حبان نے کتاب الثقات میں لکھا ہے : سب سے پہلے جو رسول اللہ ﷺ کو بیماری کی شکایت پیدا ہوئی وہ چہار شنبہ کا دن تھا، جب کہ صفر کے مہینے کے صرف دو دن باقی تھے۔( ثقات ابن حبان : ۱۳۰/۲) اسی طرح طبقات ابن سعدیہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔( بحواله فتح الباری: ۱۳۰/۸)*

*"✪_بریلویوں کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کا فتویٰ بھی کتاب احکام شریعت میں درج ہے:-*
*"_ آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم ﷺ کا کوئی ثبوت ، بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔ (احکام شریعت : ٢/٦٤٩)*

*"✪_ ظاہر ہے کہ صفر کے ختم ہونے میں دو دن باقی ہوں تو جو چہارشنبہ ہوگا وہ صفر کا آخری چہار شنبہ ہی ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا مرض الوفات ایک قول کے مطاق صفر کے آخری چہار شنبہ کو شروع ہوا ہے، اگر چہ اس کے متعلق اور بھی اقوال ہیں، تاہم ایک قول یہ بھی ہے اور بہت سے علماء نے اس کو اختیار بھی کیا ہے کہ اس کے پیش نظر تو صفر کا آخری چہارشنبہ خوشی کا دن نہ ہونا چاہئے بلکہ غم واندوہ کا دن ہونا چاہئے،*

*"✪_ یہ بھی امکان ہے کہ کسی دشمن رسول اور منافق نے آپ کی بیماری کے دن خوشی منائی ہو اور مسلمانوں کو بہکانے کے لیے یہ کہہ دیا ہو کہ اس دن آپ صحت پائے تھے اور سیر کو گئے تھے اور مسلمان لوگوں میں سے جاہلوں نے اس کو صحیح سمجھ کر قبول کر لیا ہو، اگر ایسا ہی ہے تب تو معاملہ بڑا سنگین ہے۔*

*"✪_ منافقین اور دشمن لوگوں کی طرف سے ایسا ہونا کوئی بعید نہیں اور اس طرح کی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً رجب کی ۲۲ تاریخ کو کونڈوں کی جو رسم ہے اس کے بارے میں مشہور تو یہ ہے کہ اس دن امام جعفر صادق پیدا ہوئے تھے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ امام جعفر صادق کی ولادت ١٧ ربیع الاول کو ہوئی ہے (دیکھو تاریخ الائمه: ۱۳۷) ہاں ۲۲ ؍رجب کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی وفات ہوئی ہے ، ( دیکھو ثقات ابن حبان : ٢/٣٠٥) اور بات یہ ہے کہ شیعہ لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خوشی میں یہ تقریب کی ہے، بالکل اسی طرح امکان ہے کہ کسی دشمن نے آپ کی بیماری کے دن کو خوشی منائی ہو اور دھوکہ دینے کے لیے یہ ظاہر کر دیا ہو کہ آپ صحت پائے تھے۔*
┏───────────────────┯
*✿│☞ _صحت و افاقے کے کچھ تذکرے✦*
┗───┯ ✿
*✪__ پھر اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ صفر کے آخری چہار شنبہ میں آپ کو صحت حاصل ہوئی تھی، تو سوال یہ ہے کہ خاص صفر کی آخری بدھ کو کیا خصوصیت ہے کہ اس کو منایا جاتا ہے جب کہ آپ علیہ السلام کو دوسرے مواقع پر بھی بیماری سے صحت و افاقہ ہوا ہے۔چنانچہ صحت افاقے کے متعدد تذکرے احادیث میں ملتے ہیں۔*

*"✪__ مثلاً : مرض الوفات ہی میں ایک دن آپ کو افاقہ ہوا اور طبیعت کچھ ہلکی محسوس ہوئی تو آپ دو آدمیوں کے سہارے مسجد تشریف لے گیے, (بخاری: ۹۵/۱ مسلم : اسراے ثفات ابن حبان : ۱۳۲/۲، سیرت این حشام : ۶۴۹/۲)*

*"✪__ یہ واقعہ انتقال سے پانچ دن پہلے کا ہے، اور چونکہ آپ کا وصال مبارک پیر کے دن ہوا ہے، اس لیے یہ متعین ہے کہ یہ واقعہ افاقہ کا جمعرات کے دن پیش آیا ہے، ( فتح الباری: ۱۴۲/۸)*
 *"✪__تو یہ ربیع الاول کی پہلی جمعرات ہے، تو کیا ربیع الاول کی پہلی جمعرات بھی منائی جائیگی اگر نہیں تو کیوں؟*

*"✪__ بخاری وغیرہ کی تسبیح ترین روایات سے ثابت ہے کہ ایک یہودی لبید بن عاصم نے اللہ کے رسول ﷺ پر جادو کر دیا تھا، جس کی وجہ آپ سخت بیمار ہو گیے تھے، (بخاری:۸۵۷٫۲، مسلم : ۲۲۱/۲)*
*"_یہ بیماری محرم الحرام میں شروع ہوئی اور ٦ ماہ تک جاری رہی, ( فتح الباری: ۲۲۶/۱۰)*

*"✪__اس لحاظ سے آپ ﷺ اس بیماری سے جمادی الثانی میں صحت یاب ہوئے تو کیا جمادی الثانی کو بھی منایا جائیگا ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟*.
*"✪__ معلوم ہوا کہ نفس پرستوں نے بے وجہ اس آخری چہارشنبہ کی رسم کو جاری کر لیا ہے ورنہ اس کی خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں۔*
┏───────────────────┯
 *✿│☞ __خوشی کے موقعہ اور سیرت ✦*
┗───┯ ✿
*✪__ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ لوگ آخری چہار شنبہ میں سیر و تفریح کو جس انداز سے پیش کرتے ہیں اور خود جس طرح اس پر عمل کرتے ہیں۔ اس کا مقابلہ وموازنہ اگر سیرت طیبہ اور اسوہ نبی سے کیا جائے تو دونوں میں کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ خوشی کے موقعہ پر آپ ﷺ کا معمول سیر و تفریح اور سبز ازاروں کو رونق بخشنا نہیں تھا، بلکہ ایسے موقعہ پر آپ ﷺ کا مبارک معمول یہ تھا کہ آپ اللہ کی حمد و ثنا رجوع وانابت الی اللہ اور شکر ونماز میں مشغول ہوتے،*

*"✪__ مثلاً مرض الوفات ہی میں ٢٦ صفر کو آپ نے افاقہ محسوس فرمایا اور کچھ راحت معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو جہاد روم کے لیے تیار فرمایا اور اس سلسلے میں ہدایات جاری فرمائیں۔*.

*"✪__ مرض الوفات ہی میں ایک دن آپ نے محسوس فرمایا کہ بیماری میں کمی وخفت ہے تو آپ دو آدمیوں کے سہارے مسجد نبوی پہنچے اور آپ نے وعظ ونصیحت بھی فرمائی، اس وعظ میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ : ”اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا۔ تو اس نے آخرت کو اختیار کر لیا۔“*
*"✪__ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ اس بندے سے مراد خود آپ ﷺ کی ذات بابرکات ہے ۔ اور حضرت ابو بکر رونے لگے۔ (سیرت ابن ہشام : ۶۴۹/۲ و غیره)*

*"✪__ یہ ہے اسوہ نبی, خوشی، راحت، صحت وافاقے کے موقعہ پر نہ کہ سیر و تفریح کرنا اور سبزہ زاروں کو رونق بخشا، غور کیجئے کیا اس طریقہ نبوی سے اس عمل کا کوئی جوڑ ہے جو لوگوں نے گھڑ رکھا ہے؟*
┏───────────────────┯
    *✿│☞ __بدعت دین کی تحریف ہے ✦*
┗───┯ ✿
*✪__ اگر کسی سبب سے آپ ﷺ نے سیر فرمائی ہو تو سب لوگوں کا سیر کو جانا اور مردوں عورتوں کا پارکوں میں جمع ہونا، بے پردگی و خلاف شرع امور کا ارتکاب کرنا کیا دین اور سنت ہے؟ یا دین میں تحریف ہے؟ اسی لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ "_آداب وسنن میں تشدد اور ان کو ان کے درجے سے بڑھا دینا بھی تحریف دین کا سبب ہے اور یہود و نصاریٰ کی عادت ہے_,‌ (حجۃ اللہ البالغۃ : ۱۲۰/۱)*

*"✪_یہ بات بالکل صحیح ہے کیوں کہ اس سے دین کا حلیہ بگڑ جاتا ہے, جب آداب وسنن کو ان کے درجے سے بڑھا دینا بھی برا ہے۔ تو کھیل تماشوں کو دین کا نام دینا اور بدعات وخرافات کو دین سمجھ لینا، کتنا برا ہوگا ؟*

*"✪_ غور کیجئے کہ ان عوام کو شیطان نے کس طرح دھوکہ دے رکھا ہے کہ ان کو نماز کا، دیگر فرائض و واجبات کا، اللہ کے نبی ﷺ کی سنتوں کا، کسی کا اہتمام نہیں ہے۔ مگر آخری چہارشنبہ کی سیر و تفریح کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ اور ہزاروں خلاف شریعت کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ افسوس کہ ایک من گھڑت سنت کو ادا کرنے کے لیے، کئی فرائض وسنتوں کو ترک کیا جاتا ہے اور ہزاروں قسم کے گناہوں کا وبال اپنے سر پر لیا جاتا ہے۔*

*"✪_ الغرض یہ سب محض شیطانی دھوکہ اور فریب ہے یا نفس کی چالبازیاں ہیں کہ دین کے نام پر تیرہ تیزی اور آخری چہار شنبہ کی من گھڑت رُسومات اور بدعات میں پھنسا دیا ہے۔ دین سے فی الواقع ان کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے قرآن وسنت کی تعلیمات کو حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تمام خرافات و بدعات سے بچائے۔ آمین ،*

*"✪__ الحمدللہ پوثٹ سلسلہ مکمل ہؤا _,*
┏───────────────────┯
*🗂 _ ماہ صفر کی دو بدعتیں (حضرت مفتی مولانا شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی)*
┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
🌺🌼🌺

Post a Comment

0 Comments