SHAB- E- QADR (URDU)

⚈◢
                 ✰══❖═══✰══❖═══
        ﺑِﺴْــــــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
                 ✰═══❖══✰═══❖══✰
                     * شب قدر *
                 ❖══✰═══❖                  
             *◐☞_ شب قدر کیا ہے؟*.    
 *❖_رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات کو شب قدر کہلاتی ہے جو کہ بڑی قدر و منزلت اور خیرو برکت کی حامل رات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ 1000 مہینے 83 سال 4 مہینے بنتے ہیں۔ یعنی جس شخص نے یہ ایک رات عبادت میں گزاری اس نے 83 سال 4 مہینے عبادت میں گزارے اور 83 سال کا زمانہ کم سے کم ہے۔*

*★_کیونکہ "_خیرم من الفی شہر" کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا اجر دینا چاہے گا عطا فرمائے گا، اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔*

      *◐☞ شب قدر کا مفہوم ◐*
 *❖_امام زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "قدر" سے مراد مرتبہ ہے کیونکہ یہ رات عظمت و مرتبے کے اعتبار سے دوسری راتوں سے بلند ہے، اس لیے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔*

*❖_حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلم دان فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے یہ لیلۃ القدر کہلاتی ہے۔*

 *❖_اس رات کو شب قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ بھی یوں بیان کی جاتی ہے:- اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قابل قدر کتاب قابل قدر امت کے لئے صاحب رسول کی معرفت نازل فرمائی، یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں قدر کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے۔*
 *"®_تفسیر کبیر-28:32،*

*❖_قدر کا لفظ اہمیت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس معنی میں اس رات کو قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔*
 *"®_تفسیر خازن -4:395،*

*❖_امام ابوبکر الوراق "قدر" کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ رات اس شخص کو صاحبِ قدر بنا دیتی ہے جو عبادت کرتا ہے حالانکہ وہ اس سے پہلے اس کے لائق نہیں تھا۔*
 *"®_قرطبی_،*
*
                 ❖══✰═══❖    
            *◐☞ یہ رات کیوں عطا ہوئی ◐*
 *❖_اس رات کے عطا ہونے کی سب سے اہم وجہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ کی غم خواری ہے ،*

*❖_باب ماجہ فی لیلۃ القدر - مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے:- جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلے لوگوں کی عمروں کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو آپ نے اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو ان کے مقابلے میں کم دیکھتے ہوئے خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں پچھلی امتوں کے برابر عمل کیسے کریں گے؟ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے مقدس دل کو اس معاملے میں غمگین اور پریشان دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔*

*❖"_ اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر آیا جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک ہزار ماہ جہاد کیا، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب فرمایا اور اپنی امت کے لیے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمر کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گی تو اللہ تعالیٰ نے شب قدر عطا فرمائی۔* 
*®"_تفسیر خزین-4/397*

*❖_ ایک اور روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بنی اسرائیل کی چار مختلف شخصیات حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام حضرت یوشع علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ حضرات 80-80 سال تک اللہ کی عبادت میں مصروف رہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔*
*"_ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان بزرگ ہستیوں پر رشک آیا، امام قرطبی لکھتے ہیں کہ اسی وقت جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی 80-80 سال کی عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرمایا ہے اور پھر قرأت کی :- إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ....," اس پر آپ ﷺ کا مبارک چہرا خوشی سے چمک اٹھا ۔ (قرطبی)*

*❖_ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلۃ القدر کے فضل سے نوازا اور اس کی عبادت کو 80 نہیں 83 سال اور 4 ماہ سے زائد قرار دیا۔* 
*
                 ❖══✰═══❖
   *◐☞ لیلۃ القدر اس امت کی خصوصیت ہے ◐*
*❖_لیلۃ القدر صرف آپ ﷺ کی امت کی خصوصیت ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- یہ مقدس رات فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا _," (درے منصور 6/371)*

*❖_ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں ہزار مہینے عبادت کرنے والے کو عابد کہا جاتا تھا لیکن اس امت کو یہ فضیلت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں حاصل ہوئی۔ وہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ شب قدر اس امت کے افراد کو عطا کی ہے جس کی عبادت کو اس ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر- 5/472)*

*❖__ گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دو عالم ﷺ کی غلامی کے صدقے میں اس امت کو نصیب ہوئی ہے۔*

     *◐☞ فضیلت شب قدر ◐*
*❖_ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے شب قدر میں اجرو ثواب کی امید سے عبادت کی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری-1/270)*

*❖_ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جو ماہ تم پر آ رہا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعی محروم ہو_, (سنن ابن ماجہ-20)*

*❖_ ایسے شخص کی محرومی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو غفلت کی وجہ سے اتنی بڑی نعمت سے محروم ہو جائے، جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لیے کتنی راتیں جاگ کر گزار دیتا ہے تو 80 سال کی عبادتوں سے افضل عبادت کے لئے چند راتیں کیوں نہ جاگے جس رات میں جبرائیل امین فرشتوں کے ساتھ اترتے ہیں اور عبادت کرنے والوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔*  

                 ❖══✰═══❖
*◐☞ شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا ◐*
*❖_ ایسی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی بہت سی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:-*
*1_دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسم اعظم، جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا ،*
*2_ اگر اسے پوشیدہ نہ رکھا جاتا تو صرف اس رات کے عمل پر اکتفاء کر لیا جاتا، ذوقِ عبادت کی خاطر اس کو ظاہر نہیں کیا گیا ،*
*3_ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی شخص کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس صدمے کو برداشت کرنا ممکن نہ ہوتا۔*
*4_ چونکہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا رات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے، اس لیے رات کو تعین نہ فرمای تا کہ اس کی تلاش میں بہت سی راتیں عبادت میں گزاریں۔*
*5_ اس رات کو پوشیدہ رکھنے کی ایک وجہ گنہگاروں پر شفقت ہے کیونکہ اگر علم ہونے کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتے تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔*

*◐☞_ ایک جھگڑا شب قدر کے مخفی ہونے کا سبب بنا:-*
*❖_اس کے مخفی ہونے کی ایک انتہائی اہم وجہ ایک جھگڑا بھی ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:- ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب کی طین کے بارے میں آگاہ فرمانے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے۔ لیکن راستے میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا، لیکن فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کی طین اٹھا لی گئی _،*

 *❖__ اس روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت رحمتوں اور برکتوں سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ (بخاری 1/172)*

                 ❖══✰═══❖                  
     *◐☞ شب قدر کب تلاش کریں _*
 *❖_ شب قدر کے وقت کے بارے میں علمائے کرام کے بہت سے اقوال ہیں لیکن اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے کوئی ہے اور وہ دس راتیں بھی طاق راتیں ہیں (21, 23 , 25 , 27 , 29 ) میں شب قدر سب سے زیادہ متوقع ہے اور 27 ویں شب سب سے زیادہ متوقع ہے حتیٰ کہ بعض علماء نے اس تاریخ کو گویا متعین کر دیا ہے۔ (قرطبی- 10/121)*

*❖_ اسی لیے رمضان کے آخری عشرہ میں گھٹنے ٹیک کر شب قدر کی تلاش شروع کر دینی چاہیے، اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کے لیے دس راتیں عبادت میں گزارنا مشکل نہیں بشرطیکہ دل میں جذبہ اور تڑپ ہو۔.*

*◐☞ شب قدر کن اعمال میں گزاریں ◐*
*❖_ حدیث میں آیا ہے کہ مغرب اور عشاء کی نمازیں با جماعت پڑھنے والے کو بھی شب قدر کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔*
*"_لیکن یہ سب سے کم تر ہے، بہتر ہے کہ اس رات میں مختلف عبادات کا اہتمام کیا جائے اور دل و جان سے اور نہایت ذوق و شوق اور بشاشت کے ساتھ عبادات میں مشغول رہیں، قرآن کریم کی تلاوت اس طرح توجہ کے ساتھ کریں کہ جب آیات رحمت سے گزرو تو اللہ کی رحمت کے امیدوار ہو اور جب آیت عذاب سے گزرو تو جہنم سے پناہ مانگو، اسی طرح نوافل کی کثرت کرو، اگر موقع ملے تو کم از کم صلوٰۃ تسبیح پڑھیں، نیز حمدو ثنا ، استغفار، درود شریف اور آہ و زاری کے ساتھ دعا و مناجات میں مشغول رہیں، یہ پوری رات قبولیت کی رات ہے، اس رات میں ملائکہ آسمان سے اترتے ہیں اور عبادت کرنے والوں کو اپنے جھرمٹ میں لے لیتی ہیں، ملائکہ کی وجہ سے دل نرم ہو جاتے ہیں، خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس لیے دنیا اور آخرت کی ہر قسم کی بھلائیاں مانگنی چاہیے اور ہر قسم کی برائیوں سے پناہ مانگنا چاہیے ،*

*❖__ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے تو میں کیا کلمات کہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- یہ دعا کرو:-*
 *"_اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوْوُ تُحِبُّ الْعَفُوْا فَاعْفُ عَنِی_"*
 *(اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں پس مجھے معاف فرما د یجئے) (روح معنی 16/354)*

*❖__وضاحت:-_یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شب قدر کے لیے کوئی خاص عبادت شریعت و سنت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں امت کے افراد کو آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی بشاشت کے اعتبار سے جس عبادت میں زیادہ جی لگے اس میں اپنا وقت گزاریں۔*

*❖"_ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ شب قدر کے موقع پر بہت سے پمفلٹ اور اشتہارات لگائے جاتے ہیں جن میں بعض اعمال اور نوافل کی خصوصی فضیلتیں لکھی جاتی ہیں، یہ سب بے اصل ہے، ان کو ہرگز لازم نہ سمجھا جائے اور خاص طور پر نماز قضا عمری کے نام سے بتایا جاتا ہے کہ جو شخص شب قدر میں خصوصی دعاؤں کے ساتھ 2 رکعت نفل پڑھے اس کی گزشتہ 60 سال کی فرض نمازیں بخشی جائے گی۔ تو یہ بالکل جھوٹ اور دھوکہ دہی، نفل پڑھنے سے فرض نماز ہرگز معاف نہیں ہو سکتی، ان کی قضا ضروری ہے، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی جھوٹی اور گمراہ کن باتوں پر ہر گز یقین نہ کریں، بلکہ شب قدر میں ہر قسم کی بدعت اور رسومات سے دور رہیں اور اخلاص اور خشو و خضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول رہیں، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مستفید ہو سکیں۔*

                 ❖══✰═══❖
    *◐☞ شب قدر کی وصولی کا یقینی طریقہ ◐*
 *❖_ ہر مسلمان کو شب قدر کی عبادت کا ثواب حاصل کرنے کی تمنا رکھنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ شب قدر کا کوئی لمحہ بھی عبادت میں ضائع نہ ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعتکاف کی عبادت عطا فرمائی ہے کہ جو آدمی رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی سعادت حاصل کر لے تو یقیناً وہ شب قدر سے محروم نہیں رہے گا۔*

*❖__ شب قدر کے حصول کے لیے اعتکاف سے بڑھ کر کوئی یقینی ذریعہ نہیں، اگر آپ معتکف نہیں ہو تو کتنی ہی کوشش کرو، پوری رات کا مکمل طور پر عبادت میں گزارنا نہایت مشکل کام ہے، لیکن معتکف شخص اپنے اعتکاف کی بنا پر اگر سوتا بھی رہے گا تو بھی عنداللہ عبادت گزاروں میں شمار ہوگا اور اس کی رات کا کوئی بھی لمحہ ضائع نہیں ہوگا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کے حصول کے لیے اعتکاف کا اہتمام فرماتے تھے۔*

 *❖_ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرہ میں آپ ایک ترکی خیمہ میں (مسجد کے اندر) معتکف رہے، جس کی چھت پر چٹائی ڈالی گئی تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستے سے چٹائی ہٹا کر ایک طرف فرمائی اور لوگوں کو خطاب کرنا شروع کیا، لوگ قریب ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- شب قدر کی تلاش میں میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا، پھر دوسرے کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ وہ بابرکت رات آخری عشرہ میں ہے، لہٰذا تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف کرے۔"*
*"_ پس لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ رات اس حال میں دکھائی گئی کہ اس کی صبح کو میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں، چنانچہ 21 تاریخ کی صبح کی نماز میں بارش ہوئی، مسجد (کچی تھی) پانی بھر گیا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کی پیشانی مبارک اور آپ کی ناک مٹی اور پانی سے آلود تھی، یہ اکیسویں شب کا قصہ ہے۔*
*®_(مسلم شریف 1/370، بخاری شریف 1/271)*

 *❖_ اس لیے جو حضرات شب قدر کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اعتکاف کا احتمام ضرور کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت رات میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) مجھ حقیر گنہگار بندے کو بھی اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں*

  *❥═┄ ʀεғεʀεηcε ↴*
*📔 شب قدر اور اس کی فضیلت _,*
*
                 ❖══✰═══❖
    *◐☞ _مبارک راتوں میں پائی جانے والی چند عمومی غلطیوں کی اصلاح _",,*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❂_1- اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ، جیسا عموماً یہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ بعض لوگ اس رات کی خاص نماز بیان کرتے ہیں کہ اتنی رکعت پڑھی جاۓ، پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جاۓ اور دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی تعداد میں پڑھی جاۓ ، خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسی کوئی نماز یا عبادت اس رات میں ثابت نہیں ، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہو سکے اس رات میں انجام دینی چاہیے ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ۔*

*❂"_2- بابرکت راتوں میں جاگنے کا مطلب پوری رات جاگنا نہیں ہوتا بلکہ آسانی کے ساتھ جس قدر جاگ کر عبادت کرنا ممکن ہو عبادت کر نا چاہیئے اور جب نیند کا غلبہ ہو تو سو جانا چاہیے، بعض لوگ پوری رات جاگنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے لئے پوری رات جاگنے کی بتکلف کو شش کرتے ہیں ، اور جب نیند کا غلبہ ہو تا ہے تو آپس میں گپ شپ ہنسی مذاق ، پان گٹکا اور کھانے پینے چاۓ وغیرہ کے اندر مشغول ہو جاتے ہیں اور اس میں مسجد کے آداب و تقدس کو بھی پامال کیا جا تا ہے ،*.
*"_ یاد رکھئے اس طرح کی فضولیات یا کسی غیر شرعی فعل میں لگ کر ”نیکی بر باد اور گناہ لازم “ کا مصداق نہیں بنا چاہیئے۔*

*❂"_3- غروب آفتاب ہی سے رات کی ابتداء ہو جاتی ہے لہذا مغرب ہی سے مبارک راتوں کی برکت کو سمیٹنے میں لگ جانا چاہیئے ، عشاء کے بعد کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ، جیسا کہ عموماً دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوگ رات کو جاگنے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ گیارہ بارہ بجے جب بستر پر جانے کا وقت ہوتا ہے اس وقت بستر پر جانے کے بجاۓ مسجد میں جاکر عبادت کی جاۓ ،اس غلط فہمی کی وجہ سے رات کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔* 

*❂"_4- مبارک راتوں میں جاگنے کا مطلب صرف جاگنا نہیں بلکہ عبادت کرنا ہے ، چنانچہ صرف ہنسی مذاق، بات چیت ، گپ شپ ، کھانے پینے اور پینے پلانے کے دور میں جاگتے ہوۓ صبح کر دینا کوئی عبادت نہیں ، بلکہ بعض اوقات ان عظیم اور بابرکت راتوں میں ، جھوٹ، چغلخوری غیبت کرنے اور سننے جیسے بڑے اور مہلک گناہوں کا مرتکب ہو کر انسان اور بھی بڑے عذاب کا مستحق بن جاتا ہے، اس لئے انفرادی طور پر یکسوئی کے ساتھ جس قدر آسانی سے ممکن ہو عبادت کرنی چاہیئے اور ہر قسم کے ہلے گلے سے قطعاً بچنا چاہیے۔*

*❂"_5- مبارک راتوں میں اجتماعی عبادت کے بجاۓ انفرادی عبادت کا اہتمام کرنا چاہیئے اس لئے کہ ان راتوں میں اجتماعی عبادت کا نبی کریم ﷺ سے کوئی ثبوت نہیں ، نیز جو خلوص ، یکسوئی اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز انفرادی عبادت میں نصیب ہو سکتا ہے وہ اجتماعی عبادت میں کہاں ...!!*

                 ❖══✰═══❖
        *◐☞ _مبارک راتوں کو کیسے گزارا جاۓ:*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❂_ 1 توبہ واستغفار :- دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھ کر سچی توبہ کریں، اپنے گناہوں پر شرمند گی وندامت کے ساتھ اللہ تعالی سے صدق دل سے معافی مانگیں، چنانچہ شب قدر کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب حضور ﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ اگر میں شب قدر پالوں تو اس میں کیا پڑھوں ؟ تو آپ ﷺ نے ان کو کوئی بڑا ذکر یا کوئی بڑی نماز اور تسبیح پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ ایک مختصر اور آسان سی دعاء تلقین فرمائی ، جس میں عفو درگزر کی درخواست کی گئی ہے :- "_ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي _,‘‘۔(ترمذی:3513)*
*"_( ترجمہ) اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے, معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے, پس تو مجھے معاف فرما دے _,"*

*❂"_ اس سے معلوم ہوا کہ بابرکت راتوں میں سب سے بڑا کرنے کا کام جو عموماً لوگ نہیں کرتے اور مخصوص قسم کی خود ساختہ نماز پڑھنے کے پیچھے لگ جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے ماضی کی زندگی پر سچے دل سے شرمسار ہو کر ، آئندہ کی زندگی میں عملاً تبدیلی لانے کا سچا ارادہ لے کر توبہ اور استغفار کیا جاۓ ، یہ عمل مبارک راتوں کی برکت کو سمیٹنے کا سب سے اہم اور صحیح طریقہ ہے۔*

*❂"2_ نماز با جماعت کی ادائیگی:- اس رات میں تین نمازیں آتی ہیں : مغرب ، عشاء اور فجر ، ان تینوں کو جماعت کے ساتھ صف اول میں خشوع و خضوع کے ساتھ اداء کیجئے، کم از کم جماعت کے ساتھ ان نمازوں کو اداء کر نے والا رات کی عبادت سے محروم نہیں رہے گا، چنانچہ حدیث میں آتا ہے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:- جس نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ اداء کی اس نے گویا آدھی رات عبادت کی اور جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ اداء کی اس نے گویا پوری رات نماز پڑھی ۔ (مسلم:656)*

*❂ _ 3_قضاء نمازوں کی ادائیگی:- زندگی میں جو نمازیں اداء کرنے سے رہ گئی ہوں ان کو قضاء کرنا لازم ہوتا ہے ، ان کی قضاء نہ کی جاۓ تو کل بروز قیامت ان کا حساب دینا ہوگا ، اور توبہ کی شرائط میں ہے کہ ان شرعی واجبات کو اداء کرنا اور ان سے سبکدوش ہونا ضروری ہے، لہذا اپنی توبہ کی تکمیل کی نیت سے زندگی بھر کی نمازوں کا حساب کر کے ان کی قضاء کرنے کی فکر کرنی چاہیئے اور مبارک راتوں میں نفلی عبادتوں میں مشغول ہونے سے بدرجہا بہتر شکل یہ ہے کہ ان قضاء نمازوں کو اداء کیا جاۓ، ان شاء اللہ اس میں نوافل میں مشغول ہونے سے زیادہ ثواب حاصل ہو گا، کیونکہ نوافل نہ پڑھنے کا حساب نہیں جبکہ فرض نمازوں کی اگر قضاء نہ کی جاۓ تو اس کا مؤاخذہ ہے۔*

*❂_قضاء نماز میں پڑھنے کا طریقہ:- اس کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کا حساب کریں اور ممکن نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اور اسے کہیں لکھ لیں اس کے بعد اس کی قضاء کرنا شروع کر دیں، اور اس میں آسانی کے لئے یوں کیا جاسکتا ہے کہ ہر وقتی نماز کے ساتھ ساتھ وہی نماز قضاء بھی پڑھتے جائیں ، اور جتنی نمازیں قضاء ہوتی جائیں انہیں لکھے ہوۓ ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں ، اس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی نمازیں بڑی آسانی کے ساتھ قضاء ہو جائیں گی۔*

*❂ _ قضاء کی نیت :- قضاء نمازوں میں نیت کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز میں یوں نیت کریں” میں اپنی تمام فوت شدہ نمازوں میں جو پہلی نماز ہے اس کی قضاء کر تاہوں “*
*"_ کیونکہ ہر پہلی نماز قضاء کر لینے کے بعد اس سے اگلی خود بخود پہلی بن جاۓ گی_,"*
*
                 ❖══✰═══❖
         *☞__کچھ فضیلت والے اعمال-*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❂_جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مبارک راتوں میں کوئی مخصوص عمل تو ثابت نہیں، البتہ چند فضیلت والے اعمال جن میں کم وقت کے اندر زیادہ نیکیوں کا ذخیرہ جمع کیا جا سکتا ہے وہ ذکر کیے جارہے ہیں، انہیں بغیر کسی تخصیص و تعیین کے اختیار کیجئے تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کی جاسکیں:-*

*❂_ اوابین کی نماز:__ مغرب کے بعد اوابین کی نماز ہے جس کی کم از کم چھ ( 6) رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بیس (20) ہیں، آپ کوشش کر کے مبارک رات کی برکتوں کو سمیٹئے کے لئے بیس رکعت اداء کیجئے، حدیث کے مطابق بارہ سال کی عبادت کا ثواب حاصل ہو تا ہے،*
*"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : جس نے مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعت اس طرح اداء کی کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی ہو تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوتا ہے۔ (ترمذی:435)*
*❂_ واضح رہے کہ اوابین کی نماز کی مندرجہ بالا فضیلت صرف مبارک راتوں میں نہیں بلکہ سال بھر اس فضیلت کو صرف چند منٹوں میں بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے ، مبارک راتوں میں ایسے اعمال کو تو اور بھی اہتمام اور توجہ سے اختیار کر نا چاہیے۔*

 *☞ _صلوۃ التسبیح کی نماز,*
*❉_صلوۃ التسبیح کی چار رکعتیں ہیں ، جن کو ایک سلام سے پڑھا جاتا ہے اگرچہ دو سلام سے بھی جائز ہے ۔ اس نماز کی احادیث میں بڑی فضیلتیں منقول ہیں، انسان اس کے ذریعہ کم سے کم وقت کے اندر جو تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے ، زیادہ سے زیادہ نفع کما سکتا ہے۔ اس لئے سال بھر میں وقتاً فوقتاً اس کے پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے، اور مبارک راتوں میں تو اس کو اور بھی زیادہ اہتمام سے پڑھنا چاہیے ، اور یہ کوئی مشکل نہیں ، بس دل میں نیکی کے حصول کا شوق ہونا چاہیے خود ہی مشقت برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے ، اللہ تعالی عمل کی توفیق عطاء فرماۓ۔ ( آمین )* 

*❂_صلاۃ المسیح کے فضائل:- ❉_(١)_ یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے کی برکت سے دس قسم کے گناہ معاف ہوتے ہیں: (1) اگلے گناہ۔(2) پچھلے گناہ۔ ( 3 ) قدیم گناہ۔(4) جدید گناہ۔ ( 5) غلطی سے کیے ہوۓ گناہ۔ (6) جان بوجھ کر کیے ہوۓ گناہ۔(7) صغیرہ گناہ۔(8) کبیرہ گناہ۔(9) چھپ چھپ کر کیے ہوۓ گناہ۔ (10) کھلم کھلا کیے ہوئے گناہ۔ (فضائل ذکر :169)*
*❉_(٢)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: اگر روزانہ ، ہفتہ ، مہینہ یا کم از کم سال میں بھی اگر نہیں پڑھ سکتے تو اپنی پوری زندگی میں ہی کم از کم ایک مرتبہ پڑھ لو۔ اس سے اس نماز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔(فضائل ذکر :169)*
*❉_(٣)_یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ساری دنیا کے لوگوں سے بھی زیادہ گناہ گار ہوں گے تو تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔(فضائل ذکر :170)*
*❉_(٤)_ یہ وہ نماز ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بتاتے ہوۓ اس نماز کو تحفہ ، بخشش اور خوشخبری قرار دیا۔(فضائل ذکر :171،170،169)*
*❉_(٥)_ یہ وہ نماز ہے جس کو پڑھتے ہوئے بندے کو تین سو (300) مرتبہ تیسرے کلمہ کی صورت میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ، حالانکہ : 1. ایک مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے پر جنت میں ایک درخت لگ جاتا ہے ۔ (فضائل ذکر : 141)*
*2. تیسرا کلمہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب کلمہ ہے ۔(فضائل ذکر : 143)*
*3. جنت چٹیل میدان ہے اور تیسرا کلمہ جنت کے پودے ہیں۔ (فضائل ذکر : 141)*
*4. تیسرے کلمہ کے ہر ایک کلمے کا ثواب احد پہاڑ سے زیادہ ہے ۔ (فضائل ذکر :146)*
*_ 5. تیسرے کلمہ کا ہر کلمہ اعمال نامے میں تلنے کے اعتبار سے سب سے زیادہ وزنی ہے ۔(فضائل ذکر :147)*
*❉_(٦)_ یہ وہ نماز ہے جس کا ہر زمانے میں علماۓ امت، محدثین، فقہاء اور صوفیہ نے اہتمام کیا ہے۔ (ایضا :173)*
*(٧)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں حضرت عبد العزیز بن ابی رواد فرماتے ہیں : جس کا جنت میں جانے کا ارادہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ صلاۃ التسبیح کو مضبوطی سے پکڑے۔(فضائل ذکر :174)*
*❉_(٨)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں حضرت ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصیبتوں اور غموں کے ازالے کے لئے صلاۃ التسبیح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (فضائل ذکر :174)*
*❉_(٩)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس نماز کی فضیلت و اہمیت کو سن کر بھی غفلت اختیار کرے وہ دین کے بارے میں سستی کرنے والا ہے، صلحاء کے کاموں سے دور ہے ، اس کو پکا آدمی نہ سمجھنا چاہیے۔(فضائل ذکر :174)*

                   *☞__قیام اللیل کا اہتمام _,"*
*❂_قیام اللیل سے مراد تہجد کی نماز ہے جو فرائض کے بعد سب سے افضل نماز ہے، سال بھر بلکہ زندگی بھر اس کا اہتمام کرتا چاہیئے ، اور فضیلت و برکت والی راتوں میں اس کا اور بھی زیادہ شوق و ذوق اور توجہ سے اہتمام کر نا چاہیے _,"*
*❂_ قیام اللیل کے فضائل:-*
*❂_(1) ایک روایت میں تہجد کو فرائض کے بعد سب سے افضل نماز بتلایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے : فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز وہ ہے جو رات کے درمیان پڑھی جاۓ ۔(مسند احمد :8507)*
*❂_( 2). حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : رات کے قیام یعنی تہجد کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے، تمہارے رب کے قرب کا ذریعہ ہے، گناہوں کو مٹانے والی اور گناہوں سے روکنے والی ہے۔(ترمذی:3549)*
*"_ ایک روایت میں اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ تہجد کی نماز جسم سے بیماریوں کو دور کر دینے والی ہے۔ (ترمذی:3549)*
*❂_( 3)_ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ رات کے آخری پہر اپنے رب کے سامنے حاضر ہو تا ہے، پس اگر تم ان لوگوں میں سے ہونے کی طاقت رکھتے ہو جو اس گھڑی میں اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں تو ضرور ہو جاؤ: (ترندى:3579)*
*( 4).- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں : ایک وہ شخص جب وہ رات کو نماز میں کھڑا ہوتا ہے دوسرے وہ لوگ جب وہ نماز میں صف باندھتے ہیں ، تیسرے وہ لوگ جب وہ جہاد میں دشمن سے قتال کرتے ہوۓ صف باندھتے ہیں۔ " (مشکوۃ المصابیح: 1228)*
*❂_( 5). حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سی دعاء سب سے زیادہ سنی جاتی ہے ( یعنی قبول ہوتی ہے ) آپ ﷺ نے فرمایا: “رات کے آخری پہر اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعاء۔ (ترمذی: 3499)*
*( 6). حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : بے شک جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہری حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے، ایک اعرابی کھڑے ہوۓ اور سوال کیا- یارسول اللہ ! وہ کس کے لئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے جو کلام میں نرمی رکھے، کھانا کھلاۓ، پے در پے روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے جب کہ لوگ سورہے ہوں۔ (ترمذی: 1984)*
*❂_(7). حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : میری امت کے سب سے معزز لوگ قرآن کریم کے حافظ اور تہجد گزار ہیں۔(شعب الایمان: 2447)*
*( 8). حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو یہودیوں کے ایک بڑے عالم تھے انہوں نے سب سے پہلی مرتبہ جب آنحضرت ﷺ کا دیدار کیا تو فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا ہر گز نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلے جو بات آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی وہ یہ تھی : اے لوگو ! آپس میں سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، رات کو نماز پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے ۔(ترمذی:2485)*
 *❂_(9)_حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو شخص رات کو کثرت سے نماز پڑھتا ہے دن کو اس کا چہرہ حسین ہو تا ہے۔ (شعب الایمان :2447)*
.
*❂_ مندرجہ بالا فضائل کو ہر شخص حاصل کر سکتا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو تہجد کی نماز کا پابند بنایا جائے ، اور یہ معمول زندگی بھر اپنانے کا ہے ، بالخصوص مبارک راتوں میں تو اس عمل کو اور بھی زیادہ اہتمام سے کرنا چاہیے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دو کر کے آٹھ رکعت پڑھی جاۓ اور اس میں جو سورتیں بھی یاد ہوں ان کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی کوشش کی جاۓ۔*

                 ❖══✰═══❖
              *◐☞ _صلاة التشریح کا طریقہ,*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉_اس کے دو طریقے منقول ہیں، کسی بھی طریقے کے مطابق یہ نماز پڑھا جاسکتی ہے۔*

*❂_پہلا طریقہ:- اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ جو حضرت عبد اللہ بن مبارک سے ترمذی شریف میں مذکور ہے یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء یعنی "سبحانك اللهم.." پڑھے, پھر کلمات تسبیح یعنی: "سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله و اللہ اکبر" . 15 مر تبہ پڑھے, پھر حسب دستور "آغوذ باللہ" و "بسم الله" و "الحمد شریف" اور سورۃ پڑھے, پھر قیام میں ہی سورۃ کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے وہی کلمات تسبیح 10 مرتبہ پڑھے، پھر رکوع کرے اور رکوع کی تشیع کے بعد وہی کلمات 10 بار کہے، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں "سمع اللہ لمن حمدہ" اور "ربنالک الحمد" کے بعد 10 بار اور دونوں سجدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیانی جلسے میں 10،10 بار وہی کلمات کہے، اس طرح ہر رکعت میں 75 مر تبہ اور چار رکعتوں میں 300 مر تبہ یہ کلمات تسبیح ہو جائیں گے*
*"_ اور اگر ان کلمات کے بعد "ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم “ بھی ملالے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے بہت ثواب ملتا ہے اور ایک روایت میں ان الفاظ کی زیادتی منقول بھی ہے۔*

 *❂_دوسرا طریقہ:- جو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ترمذی شریف میں منقول ہے، وہ یہ ہے کہ ثناء کے بعد اور الحمد شریف سے پہلے کسی رکعت میں ان کلمات تسبیح کو نہ پڑھے بلکہ ہر رکعت میں الحمد اور سورۃ پڑھنے کے بعد 15 مرتبہ پڑھے اور رکوع اور قومہ اور دونوں سجدوں اور جلسہ میں بالترتیب 10،10 مرتبہ پڑھے اور دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر یعنی جلسہ استراحت میں 10 مر تبہ پڑھے اس طرح ہر رکعت میں 75 مرتبہ پڑھے اور دونوں قعدوں میں التحیات سے پہلے پڑھ لے۔*

*❂.. یہ دونوں طریقے صحیح ہیں لیکن بعض فقہاء نے دوسرے طریقے کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ حدیث مرفوع سے ثابت ہے، بہتر یہ ہے کہ کبھی ایک روایت پر عمل کرے اور کبھی دوسری پر تاکہ دونوں پر عمل ہو جاۓ اس نماز کی چاروں رکعتوں میں کوئی سورت معین نہیں، لیکن کبھی کبھی استحباب کے لئے چاروں رکعتوں میں علی الترتیب التكاثر العصر ، الکافرون اور اخلاص پڑھا کرے اور کبھی اذا زلزلت اور و العادیات اور اذا جاء اور سورۃ اخلاص پڑھے۔*

*❂_ اگر تشیع کے کلمات بھول کر کسی جگہ 10 سے کم پڑھے جائیں یا بالکل نہ پڑھے جائیں تو اس کو دوسری جگہ یعنی تسبیح پڑھنے کے آگے والے موقع میں پڑھ لے تاکہ تعداد پوری ہو جائے لیکن رکوع میں بھولے ہوۓ کلمات تسبیح قومہ میں نہ پڑھے بلکہ دوسرے سجدے میں پڑھے کیونکہ قومہ اور جلسہ کا رکوع و سجدے سے طویل کرنا مکروہ ہے ۔ کلمات تسبیح کو انگلیوں پر شمار نہ کرنا چاہیے ، بلکہ اگر دل کے ساتھ شمار کر سکتا ہو اس طرح کہ نماز کی حضوری میں فرق نہ آۓ تو یہی بہتر ہے ورنہ انگلیاں دبا کر شمار کرے۔ (زبدۃ الفقہ :285)*
 *"_.صلاۃ التسبیح میں تسبیحات کو ہاتھوں سے شمار کرنا درست نہیں ۔ اور اگر یاد نہ رہتا ہو تو انگلیوں کو حرکت دیے بغیر محض دبا کر یادر کھا جاسکتا ہے ۔ (در مختار :28/2)*

                 ❖══✰═══❖
            *◐☞ __مانع مغفرت امور سے توبہ ,*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉_ شب قدر بہت ہی بابرکت اور عظیم رات ہے جیسا کہ اس کی فضیلتیں قبل میں تفصیل سے گزر چکی ہیں ، لیکن کچھ ایسے بھی حرماں نصیب اور بد قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اس رات کی برکات اور بالخصوص سب سے اہم چیز مغفرت خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں ، وہ کون لوگ ہیں ؟ کئی احادیث میں ان کی نشاندہی کی گئی ہے ، جن سے ان محروم ہونے والوں کے مغفرت سے محروم رہ جانے کے اسباب بھی معلوم ہوتے ہیں ، ایسے اسباب اور امور کو مانع مغفرت امور کہا جاتا ہے ، جن میں شامل ہونے سے ہر صورت میں بچا جائے اور اگر خدانخواستہ کوئی مبتلا ہوں تو فوراً توبہ کر کے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیے ورنہ اس عظیم اور بابرکت رات میں مغفرت حاصل نہ ہو سکے گی_,"*

*❂_(١) مشرک (شرک کرنے والا) ،*
*(٢)_ کینہ رکھنے والا،*
*(٣)_ والدین کی نافرمانی کرنے والا،*
*(٤)_ قطع رحمی کرنے والا،*
*(٥)_ ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا،*
*(٦)_ شراب کا عادی،*
*(٧)_ قاتل,*
*(٨)_ اور زانی_,* 
*"_اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی ان گناہوں سے حفاظت فرمائے، آمین _,"*

*❂_ دعا کیجئے اللہ تعالی مجھ گنہگار کو بھی، آپ کو بھی اور ہر مومن کو ان مغفرت والے اعمال کی پابندی نصیب فرمائے اور مبارک رات کی برکات و مغفرت نصیب فرمائے، آمین _", ( ایڈمن حق کا داعی )*

https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
 *👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕                     
       *❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments