❈❦ 5 ❦❈*
☜█❈ *حق کا داعی*❈ █☞
☞❦ *نور -ے- ہدایت* ❦☜
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مجموعہ کو بکھیرنے کی شیطان کی کوشش :-*
*★_ جب دین کے کام کرنے والوں کا ایک مجمعہ تیار ہو جاتا ہے تو اسلام کی قوت کا ذریعہ بنتا ہے،*
*★_ تو اس مجموعہ کو بکھیرنے کے لیے شیطان انفرادی عبادات میں خلل پیدا کرنے اور ان کو انفرادی اعمال سے روکنے سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ اگر کسی فرد کو میں نے عمل سے روک دیا تو یہ ایک فرد کا نقصان ہے، اس میں اتنا نفع نہیں جتنا نفع اس میں ہے کہ جو مجمع تیار ہوا ہے دین کی حفاظت کے لیے، دین کی اشاعت کے لیے، اس مجموعہ کو کسی طرح بکھیرا جائے، اس پر شیطان کی قوت لگتی ہے،*
*★_ مجموعہ کو بکھیرنے کے لیے اس کے چند بنیادی کام ہوتے ہیں، ان میں سب سے بنیادی کام یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے وساوس کے ذریعے بدگمانی پیدا کرو تاکہ یہ اپنی اصل سے اپنی آیا سے، اپنے مرکز سے اور دین کی اجتماعیت کے موقع سے بکھر جائے اور بکھر کر ان کی صلاحیتیں اور ان کی قوتیں مجتمع نہ رہے،*
*★_ شیطان بدگمانی پیدا کرتا ہے یہ اس کا سب سے بڑا حربہ ہے, کہ اگر دعوت کے ذریعے امت میں دین کا استقبال پیدا ہو تو کام کرنے والے مجموعہ کو بکھیرنے کے لیے ان کو ان کے بڑوں سے بدزن کیا جائے، یہ شیطان کا بنیادی کام ہے اور یہ مشورہ یہ دے گا کہ ہم تو اس کے ذریعے کام چاہتے ہیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ شیطان کا کام بدگمانی پیدا کرنا :-*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ولید ابن عقبہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ جاؤ تم بنو مصطلق سے زکوٰۃ وصول کر لاؤ، یہ امانت داری کا زمانہ تھا، پورے قبیلے سے زکوٰۃ وصولنے کے لیے صرف ایک آدمی کو بھیجا،*
*★_ قبیلے کو پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد زکوٰۃ کی وصولی کے لیے آ رہا ہے تو پورا قبیلہ ان کے استقبال کے لیے باہر نکل آیا کیونکہ وہ ہماری ایک عبادت (زکوٰۃ فرض عبادت ہے) وہ کروانے کے لیے آ رہا ہے،*
*★_ جب یہ دیکھا کہ دین کا استقبال بڑھ رہا ہے, پورا قبیلہ خوشی سے زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہے اور ایک آدمی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے جا رہا ہے تو ایک منافق نے اس سے یہ کہا کہ جس کی تم زکوٰۃ کی وصولی کے لیے جا رہے ہو وہ پورا قبیلہ بستی سے باہر نکل ایا ہے تمہیں قتل کرنے کے لیے،*
*★_ یہ ایک دوہری چال ہوتی ہے، ایک تو اس غلط فہمی کو پیدا کیا کہ وہ زکوٰۃ کے منکر ہیں، زکوٰۃ کا انکار فریضے کا انکار ہے، ایک منافق نے استقبال کو انکار میں تبدیل کر دیا،*
*★_ شیطان جن کے دلوں میں دین کا استقبال ہے ان کو، عوام کو، بدزن کرے گا دین داروں کی طرف سے اور ان کو بدزن کرے گا عوام کی طرف سے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ تحقیق کیے بغیر کوئی قدم نہ اٹھاؤ :-*
*★_اکیلے صحابی گھبرا گئے, یہ وہیں سے واپس ہو گئے, آ کر عرض کیا کہ راستے میں یہ خبر ملی ہے کہ پورا قبیلہ میرے قتل کے لیے باہر نکل ایا ہے، بڑا گناہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کے قتل کا ارادہ اور زکوٰۃ کا انکار،*
*★_ میں یہ بات کر رہا ہوں خیر القرون کی کہ جس میں فریضے کا ادا نہ کرنا کفر سمجھا جاتا تھا، فرائض کی ادائیگی اسلام کی شریعت میں سے ہے، اور دل بالکل صاف تھے (صحابہ کے) اس میں ایک منافق کی ایک (جھوٹی) خبر پر صحابہ کرام نے یہ مشورہ کر لیا کہ ہمیں ان پر حملہ کرنا ہے اور قتل کرنا ہے بنو مصطلب کو,*
*★_تو وحی آ گئی - اے ایمان والو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تم اس کی تحقیق کر لینا، تحقیق اس لیے تاکہ فاسق کا فاسق کا فسق کھل جائے، جلدی نہ کرنا بلکہ تحقیق کرنا کہ بات صحیح ہے یا غلط ہے، ایسا نہ ہو کہ تم تحقیق کیے بغیر کوئی قدم اٹھا لو اور ایسا قدم اٹھا لو کہ اس قدم کی کوئی تلافی نہ ہو،*
*★_ ندامت آدمی کو تب کرنی پڑتی ہے جب کسی چیز کی تلافی نہ ہو،*
*★_ جتنا کوئی ارادہ کیا جا رہا ہے محض جھوٹی خبر اور محض بد گمانی پر کیا جا رہا ہے، سارا قلع اسی پر تعمیر ہے، اس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں کیونکہ اس کام میں اختلاف کی کوئی جگہ نہیں ہے، صرف بند گمانیاں ہیں جو پیدا کی جا رہی ہیں، شیطان کا یہ کام ہے کہ ان کے درمیان پھوٹ ڈالو بدگمانی سے ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اطاعت کا امتحان ہوگا:-*
*★_ اللہ تعالی کام کرنے والوں کا امتحان لیتے ہیں کہ اس درجے پر پہنچنے کے بعد انہیں اپنے کام پر, اپنی بات پر یقین کتنا ہے, یہ کسی خبر سے متاثر تو نہیں ہوتے, ایسی خبریں بہت ہیں سیرت میں, ایسے امتحان بہت ہیں,*
*★_امتحان بہت سخت ہوں گے کہ اپنی ذات کا اعتماد اور اپنی رائے اور اپنی چاہ کو نبی کے حکم پر ایسے قربان کرنا پڑے گا کہ اس کا کوئی شبہ اور ارادہ باقی نہ رہے اور سخت امتحان ان کا ہوتا ہے جو کسی درجے میں اگے بڑھ جاتے ہیں، ان کا امتحان اس درجے کے اعتبار سے ہوگا،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب الوحی تھے, جب آپ پر کوئی وحی اتی تو ان کو بلایا جاتا تھا لکھنے کے لیے, وہ آپ کی وحی کی کیفیت دیکھتے تھے, اپ کے پسینے کو، اپ کی تھرتھراہٹ کو، گنگناہٹ کو دیکھتے اور انتظار کرتے کہ آیت لکھوائیں،*
*★_ اج اتنے عرصے کے بعد ایک مسلمان قران کے ایک حرف کو بھی یقین کرتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، تو ان صحابی کے یقین کی کیا کیفیت ہوگی جو آپ کے ساتھ، اپ کے سامنے بیٹھ کر وحی کی کیفیت کو دیکھے،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی, اللہ نے انسان کی تخلیق کے مراحل نازل کیے کہ ہم نے انسان کو کیسے پیدا کیا, اللہ نے ان صحابی کا امتحان لینے کے لیے ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری کر دیے, بابرکت ہے وہ ذات جو سب سے اچھا پیدا کرنے والی ہے,*
*★_ اور ادھر یہ آیت اپ پر وحی کر دی، ان کی زبان پر الفاظ تھے اور آپ کی زبان پر وحی کے کلمات، آپ نے فرمایا یہ بھی لکھو، کہنے لگے نہیں میں یہ نہیں لکھوں گا (یہ تو میرے کلمات ہیں) وہ کہنے لگے (نعوذ باللہ) آسمان سے کوئی وحی نہیں اتی, جس کی بات اچھی لگتی ہے لکھوا دیتے ہیں, روایت میں ہے اسلام سے مرتد ہو گئے اور نبوت کا دعوی کر دیا کہ میں نبی ہوں میرے اوپر بھی وحی آتی ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اطاعت کا معیار بہت اونچا ہے:-*
*★_ حکم ائے گا طبیعت کے خلاف, حکم ائے گا معمول کے خلاف, حکم ائے گا حیثیت کے خلاف, جذبے کے خلاف کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کس درجے تک پہنچی ہے,*
*★_ یہ امتحان ہوگا, اس امتحان میں جو کامیاب ہوگا وہ تو باقی رہے گا اور جو فیل ہو جائے گا وہ اجتماعیت کی صف سے نکل جائے گا، اور جو اجتماعیت کی صف سے نکلے گا تو اس کی خصوصیت یہ ہے، دستور یہ ہے کہ اس کی اجتماعیت کی صف سے نکلنے والا دوسروں کی خیر میں رکاوٹ بنے گا،*
*★_ شیطان نے آدم علیہ السلام کو سجدے سے انکار کیا، حکم سے انکار کی وجہ خود انکار ہے، نافرمانی کے لیے اتنا کافی ہے کہ اللہ کے کسی حکم کی علت پر غور کرے کہ یہ حکم کیوں دیا گیا،... میں اس سے بہتر ہوں، یہ میرے ساتھ زیادتی ہے کہ میں اس کو سجدہ کروں،*
*★_ تو وہ اس (فرشتوں کی) صف سے نکل گیا، جب اس سے نکل گیا تو پھر اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ خیر میں رکاوٹ بنے،... تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کر دوں گا، تو اللہ نے بھی چھوٹ دے دی کہ جا جو تجھ سے ہو سکے کر لے لیکن یہ بات یاد رکھ ایمان والوں پر تیرا بس نہیں چلے گا ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __اجتماعیت کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرو :-*
*★_ اجتماعیت کی اصل بنیاد ہے وہ اطاعت ہے، اگر اطاعت پر ہے تو مجتمع رہے گا،*
*★_ اجتماعیت کے لیے سب سے بنیادی چیز ایک دوسرے کا تعاون ہے، ایک دوسرے کا تعاون کرو دین کے کاموں میں، اس لیے دین کے جتنے بھی شعبے ہیں، مکاتب ہیں، مدارس ہیں، دینی تحریکیں ہیں، ان سب کا باہمی تعاون ہو،*
*★_ اگر باہمی تعاون نہیں ہوگا تو دین چاہنے والوں کے اس طرح فرقے بنیں گے جس طرح دنیا والوں کے فرقے ہوتے ہیں اور اہل دنیا کے فرقوں سے وہ دین کا نقصان وہ فساد نہیں ہوگا جو اہل حق کے فرقوں سے ہوگا،*
*★_ دنیا طبقات میں بٹ جائے اور ایک دوسرے کو کھا جانے تو وہ فساد نہیں ہوگا جو اہل حق کی تفریق سے ہوگا، تفریق کا بنیادی سبب ایک دوسرے کا تعاون نہ کرنا ہوگا، اس لیے یہ حکم فرمایا کہ دین کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو،*
*★_ تعاون کا کیا مطلب ہے ؟ تعاون کا تو صرف ذہن میں یہ مطلب ہے کہ مالی تعاون کر دو, مولانا صاحب فرماتے تھے کہ مالی تعاون سے وہ فتنے ائیں گے جو فتنے صدیوں میں نہیں ائی گے،*
*★_ مالی تعاون دین میں تعاون کی سب سے ادنی شکل ہے, مالی تعاون تو دین میں غیر مسلم بھی کردے گا، تعاون کا مطلب یہ ہے کہ دین کے تمام شعبے ایک دوسرے کا دفاع کریں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ایک دوسرے کا دفاع کریں:-*
*★_ دین کے تمام شعبے ایک دوسرے کا دفاع کریں، اگر دفاع نہیں کریں گے تو باطل تو ان کے درمیان داخل ہو جائے گا کیونکہ ایک دوسرے کا دفاع نہ کرنے کی وجہ سے باطل کو ان کے درمیان گھسنے کا راستہ ملے گا، اس کو پھٹن نظر ائے گی،*
*★_ حضرت فرماتے تھے کہ خدا کی قسم مسلمانوں کی جماعت اس وقت تک مجتمع نہیں رہ سکتی جب تک ایک دوسرے کے فعل کی کام کی تاویل نہ کریں، اور ہر جماعت اپنے کام کو اپنا نہیں بلکہ دوسرے (دین) کے کام کو بھی اپنا کام سمجھے,*
*★_ آدمی اپنے گھر کے فرد کا دفاع کرتا ہے، چاہے کتنی ہی بڑی غلطی کیوں نہ ہو، یہ کوشش کرتا ہے کہ غلطی ثابت نہ ہو، یہ معاملہ اب مسلمانوں کی دو جماعتوں میں نہیں ہے، جو ایک عام مسلمان کے درمیان ہوا کرتا تھا،*
*★_ اپنے مسلمان بھائیوں کے گناہ کو ثابت کرنے کا تو صحابہ کرام کے زمانے میں کوئی تصور ہی نہیں تھا، خود فرما رہے کہ میں نے زنا کیا... نہیں تو نے ہاتھ لگایا ہوگا,... نہیں نہیں میں نے زنا کیا ہے,... نہیں تو نے چھوا ہوگا, بوسہ لیا ہوگا،*
*★_ ایسے دو فرقے جو جہنم میں جائیں گے بجائے ایک دوسرے کے دفاع کے ایک دوسرے کی کمزوری بتانے میں لگے, وہ کہیں یہ اس چیز پر نہیں, یہ کہیں وہ اس چیز پر نہیں ہے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ایک دوسرے کے لیے رحمت بنو :-*
*★_ لیکن وہ رحمت کیسے بن سکتے ہیں جو ایک دوسرے کی نعمت کو ختم کرنے کی کوشش میں ہوں,*
*★_ کسی کے نعمت کو زائل کرنے کی فکر حسد پیدا کرتی ہے، تو وہ اس سے نعمت کو چھیننے کی کوشش کرتے ہیں، اگر چھینے سے نہیں ملتی تو اس کو زائل کرنے کا راستہ دیکھتے ہیں،*
*★_ مشرکین مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کو تو نہیں چھین سکتے تھے، وہ کہنے لگے لکھ کر دے دو کہ آپ کے بعد ہمیں ذمہ دار بنایا جائے، خلافت، سیاست ہمیں ملے، تو ہم آپ پر ایمان لے ائیں گے،*
*★_ مشرکین اپ کی کتاب پر بھی حسد کرتے تھے کہ قران آپ پر کیوں نازل ہوا, حسد نے ان کو اسلام کی خیر سے محروم رکھا, واقعی یہ حقیقت ہے حسد آدمی کو تنہا کر دیتا ہے،*
*★_ حسد محرومی کا سبب کیوں ہے؟ یہ سوال ہے, کیونکہ حسد کرنے والا اللہ کی تقسیم سے اختلاف کرتا ہے، اللہ نے اس لیے فرمایا قران میں کہ یہ تقسیم ہماری ہے تم کون ہو ہماری تقسیم میں دخل کرنے والے،*
*★_ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے، اس لیے تعاون میں حسد پہلی رکاوٹ ہے، جس کے دل میں حسد ہوگا خیر کے کام میں تعاون نہیں کرے گا، جو نیکیاں کمائی تھی وہ بھی گئی اور مجید کما نے کا موقع بھی نکل گیا، خیر کے کام میں تعاون سے اللہ نوازتے ہیں، آگے بڑھاپے ہیں، اس لیے فرمایا نبی جی آپ ان کے لیے رحمت ہیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _حق میں ناگواریاں اور کڑواہٹ ہے:-*
*★_ رحمت یہ ہے کہ آپ نرم ہو کر چلیں، حق میں تو ناگواریاں اور کڑواہٹ ہے، جو حق پر جمے گا ان سے لوگ ناراض ہوں گے،*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت دینے سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ عمر یہ بات یاد رکھو کہ تم سے سب خوش نہیں ہوں گے،*
*★_ وہ کون سا زمانہ تھا ؟ خیر القرون کا زمانہ اور کون ہیں ؟ عمر ! فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے, ان سے یہ فرمایا کہ تمہیں جو کام کرنا ہے وہ کام ایسا ہے کہ تم سے سب لوگ خوش نہیں ہوں گے،*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رعایا کے بارے میں اتنا نرم ہو جاتا تھا کہ مکھنی سے زیادہ نرم اور پھر اللہ کا ڈر پیدا ہو تو پھر میں پتھر سے زیادہ سخت ہو جاتا تھا، اللہ کے دین کے بارے میں عمر سب سے سخت,*
*★_ نرمی کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے حق میں نرم ہو جاؤ اور دین کے حق میں سخت, تم پر ذمہ داری ہے، تمہارے پیچھے چلنے والوں کا حساب بھی تم سے ہوگا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ذمہ داری کا بوجھ اٹھاؤ:-*
*"_ اپنے مطالبات کو پورا کروانے کے لیے کسی کو صحیح کام سے روکا جاتا ہے، یہ بات دور رسالت سے چل رہی ہے کہ نیک کام سے روکو، جب نیک کام سے نہیں رکیں گے تو یہ کہیں گے کہ اچھا تم ایسا کرنا چاہتے ہو تو ہمارا یہ کام کر دو، ہم تمہارے کام کی اجازت دے دیں گے،*
*★_ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ اللہ تعالی کام کرنے والوں کو حق پر جمائے رکھے، ورنہ انسان کچھ نہیں کر سکتا، ہم کیا کر سکتے ہیں اگر اللہ مدد نہ کرے،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں اس میں جو آپ نے احسانات کیے ہیں یہ رحمت ہیں، یہ نہیں کہ آپ دین کے بارے میں نرم پڑ جائیں، فرمایا میں حق کے بارے میں کبھی نرم نہیں پڑھوں گا، اگرچہ کہ چبانے والے کے دانت میں پتھر نرم پڑ جا وے، اگر مجھ سے ناحق مطالبہ کروایا گیا تو میں اس بارے میں ہرگز نرم نہیں پڑھوں گا،*
*★_ حضرت فرماتے تھے ناحق دین کے خلاف مطالبے کو پورا کرنا فتنوں کو ختم نہیں کرے گا، فتنوں کو جنم دے گا، دین سے محرومی کا سبب بنے گا،*
*★_ یہ ذمہ داری ہے، ذمہ داری کا بوجھ اٹھاؤ، آدمی اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے کہ یہ میری قوم ہے، میرے لوگ ہیں، میرے دوست ہیں، اس سوچ سے بڑے بڑے بادشاہ اسلام کو, دین کو اور آپ کی نبوت کو یقین کرنے کے بعد بھی اسلام نہیں لا سکے، کہ ہم قوم کو کیا جواب دیں گے، ہم مانتے ہیں بات سو فیصد ٹھیک ہے لیکن ہماری قوم نہیں مان رہی،*
*★_ یہ ہے قومیت کا دین، حدیث میں آتا ہے جو شخص مخلوق کو راضی کر کے اللہ کو ناراض کرے گا، اللہ بھی ناراض ہو جائیں گے اور مخلوق کو بھی ناراض کر دے گا، قلوب اللہ کے ہاتھ میں ہیں تم کچھ نہیں کر سکتے اور جو اللہ کو راضی کر کے ساری مخلوق کو ناراض کر لے کہ اللہ راضی ہے بس، تو اللہ تعالیٰ خود تو راضی ہو جاتے ہیں مخلوق کو بھی راضی کر دیتے ہیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اپنے حق میں درگزر اور اللہ سے معافی :-*
*★_ رحمت بنیں، اگر آپ سخت دل ہو گئے تو یہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں،*
*★_ لہٰذا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے حق میں تو آپ درگزر کریں کہ جو اللہ سے معافی کا طلبگار نہ ہو وہ ہر خیر سے محروم ہو گیا، شیطان کی شیطانیت کیا ہے؟ کہ وہ معافی کا طلبگار نہیں ہے,*
*★_ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ سے معافی نہیں چاہے گا وہ مخلوق کو معاف نہیں کرے گا کہ ان کو معاف کر دو، اگر تم ان کو معاف کر رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ سے مغفرت چاہتے ہو، تم انہیں معاف کر دو اللہ تمہیں معاف کر دیں گے،*
*★_ اس لیے اپنے ساتھیوں کے لیے تنہائیوں میں استغفار کیا کریں ہم سب, ہماری تنہائیوں میں اب تو غیبتیں ہیں استغفار نہیں ہیں، شکایتیں ہیں، ان سارے فساد کی فرصت اس لیے مل رہی ہے کہ انفرادی دعوت نہ ہونے کی وجہ سے،*
*★_ اللہ معاف کرے پرانوں کی سطح انفرادی دعوت سے اوپر چلی گئی ہے، انفرادی دعوت تو بڑے بڑے فتنوں کو روک دے گی، یہ ایسی مشغولی کا کام ہے کہ فتنوں کو ختم بھی کر دے گا اور محفوظ بھی کر دے گا،*
*★_ ہمیں فرصت نہیں ہے کہ ہمیں یہ کام ملا ہوا ہے، کیا کام ملا ہوا ہے ؟ کہ ہر مسلمان کو کم سے کم کلمہ سکھلا کر جہنم سے بچاؤ, لوگوں کی زبان پر کلمے کے الفاظ بھی درست نہیں ہیں, خدا کی قسم اپ کام مقصد سے ہٹ گیا، تھک گئے لوگ، مقصد سے ہٹ گئے اس لیے تھک گئے،*
*★_ تے کر لو آج سے, مجھے لوگوں کا کلمہ ٹھیک کرانا ہے, اس کا مفہوم سمجھانا ہے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اپنے اپ کو ٹھیک کرنے کا راستہ :-*
*★_جب مؤمن کی دعا مؤمن کے حق میں اس کی دنیا کے لیے مقبول ہے, تو مؤمن کی دعا مؤمن کے حق میں اس کی آخرت کے لیے مردود کیوں ہوگی,*
*★_ اس لیے ساتھیوں کے لیے استغفار کریں اور ساتھیوں سے درگزر کریں, بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن جو لوگ کسی اجتماعی کام پر مجتمع ہوتے ہیں وہ غلطیوں کو موضوع نہیں بناتے،*
*★_ موضوع اس لیے نہیں ہے کیونکہ کام ہر ایک کی اصلاح کے لیے ہے، دوسرے کی اصلاح کے لیے نہیں ہے، یہ تو اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا راستہ ہے،*
*★_ حدیث میں آتا ہے کہ دوسروں کی اصلاح کی فکر اس کے غم کو بڑھا دے گی اور اس کو کبھی تسلی نہیں ہوگی,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ اپنے مشورے کو کام کے لیے خالص کرو :-*
*★_ یہ کام کی ترقی کا ذریعہ ہے، ہمارا مشورہ امت کی صلاحیتوں کو دین پر لگانے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بارے میں ہمارا مشورہ ہوتا ہے،*
*★_ یہ ہمارا اصول ہے, ذاتی جھگڑے مشورے میں نہیں لاتے, جب تم اپنے مشوروں میں کام کے موضوع کے علاوہ کوئی چیز لاؤ گے تو تمہارے مشورے کا موضوع کام سے ہٹ جائے گا, یہ امت کے دینی نقصان کا سبب بنے گا,*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ آپ شخصی مسائل کو مشورے میں لاتے نہیں تھے, فیصلے بھی نہیں فرماتے, جس کی طبیعت کا روجھان جس کی طرف ہو اس سے جا کر مشورہ کر لو,*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے باہر نکلے تو دو آدمی اپس میں بحث کر رہے تھے، ایک بکری بیچ رہا تھا اور ایک خرید رہا تھا، خریدنے والا کہہ رہا تھا کہ قیمت کچھ کم کر لو، بکری والا کہتا کہ قیمت یہی رہے گی،*
*★_ آپ نظر آ گئے تو اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ بکری والے سے کہہ دیں کہ بکری کی قیمت ذرا کم کر دے میں خریدنا چاہتا ہوں، آپ نے ہاتھ اٹھا دیے، فرمایا کل میں اللہ سے ظالم بن کر ملنا نہیں چاہتا ہوں،*
*★_ تاجر کو کیا کرنا چاہیے اس کے فضائل بتائے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ کام میں غیر جانب بن کر رہو :-*
*★_ لوگ بڑی آسانی سے لوگوں کے ذاتی مسئلے میں داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ آخرت کا فکر نہیں ہے کہ وہاں جواب دینا پڑے گا,*
*★_ بعض مرتبہ آدمی بڑا بننے کے لیے اور لوگوں کی نظر میں محبوب بننے کے لیے دوسروں کے جھگڑے میں پڑ جاتا ہے اپنا کام چھوڑ کر,*
*★_ اس کام میں غیر جانب (یعنی نیوٹل ) بن کر چلو گے تو تم ترقی کرو گے, کام بھی ترقی کرے گا، اگر غیر جانبدار بن کر نہیں رہوں گے تو جانبداری بھی ہمیں جانب کر دے گی، آپ اس کے ادمی ہیں، اپ اس کے، ان کے آدمی ہیں ( یعنی گٹ بازی ہوگی) پھر آپ کام کے آدمی نہیں رہیں گے,*
*★_اپ نے دیکھا ہوگا تانگہ جب سڑک پر چلتا ہے تو گھوڑوں کی دونوں انکھوں پر پٹا لگا ہوتا ہے تاکہ دائیں بائیں نہ دیکھے، اگر یہ دائیں بائیں دیکھے گا تو اس کی چال میں فرق ائے گا،*
*★_ اس لیے یکسوئی اختیار کرو، اپنے کام میں سے کام رکھو,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ *"_ ہماری لائن دنیا سے الگ ہے :-*
*★_ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا بہت خوبصورت تھیں، حضرت مغیث رضی اللہ عنہ بہت بد صورت، ان کو بریرہ سے بہت محبت اور بریرہ کو مغیث سے نفرت،*
*★_ لوگوں نے کہا کہ اپ کا حکم مان لیں گی آپ بریرہ کو کہہ دیجئے کہ مغیث کو قبول کر لیں، اپ کہیں گے تو وہ ہاں کر لیں گی، آپ نے بلایا بریرہ کو، کیا خیال ہے اگر تم مغیث کو قبول کر لو ؟ بریرہ نے کہا یہ آپ کی رائے ہے یا حکم ہے، حکم پر تو گردن کٹا دیں گے اس میں کوئی دو رائے نہیں، اگر آپ کی رائے ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کا صاف انکار کر دیا، یہ عورت کا اپنا شخصی مسئلہ ہے، تو آپ نے فرمایا ہمارا حکم نہیں ہماری رائے ہے،*
*★_ساتھی الجھے ہوئے ہیں ذاتی مسائلوں میں, جب صحابہ کرام کوئی الجھا ہوا مسئلہ لے کر آتے اپ کے پاس, آپ فرماتے جاؤ اپنا کام کرو, اپنی دنیا کا معاملہ تم اچھی طرح جانتے ہو, یہ ہماری لائن نہیں ہے,*
*★_آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوال کیے گئے، بس یہ بتا دیجیے کہ اصحاب کہف کون تھے، ذوالقرنین کون تھے اور روح کیا ہے ؟ یہ حقیقت ہے لیکن یہ قصہ کہانیوں کے لیے آپ نہیں بھیجے گئے، تو آپ پریشان ہو گئے کہ میں کیا کروں ؟ تو اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی آپ سے ہٹ کر سوال کرے تو سرسری جواب دے کر ٹال دیا کرو اور آپ کو اس بارے میں لوگوں سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، آپ تو اس چیز کا فکر کیجیے جس چیز کے لیے آپ کو بھیجا گیا ہے،*
*★_ اس لیے آپ نے ایک حدیث میں فرمایا صحابہ سے کہ جس کام کو میں نے تمہیں کرنے کے لیے کہا نہیں، تم اس کے بارے میں مجھ سے سوال مت کیا کرو، جو کرنے کو کہا گیا وہی کرو،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ مشورہ ہمارے کام کا وقار ہے،*
*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امور اتے تھے لوگ اپنے انداز سے امور رکھتے، سنو ! یہ بھی ڈرنے کی بات ہے کہ بات مشورے میں کس انداز سے رکھنی ہے، سادہ کام ہے سادہ ذہن سے چلے گا، چالاکیوں سے نہیں، چالاکی تو دنیا میں ہی نہیں چلتی چالاکی کرنے والا اگے جا کر پھنسی جاتا ہے تو دین میں چلاکی اس کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے کیونکہ دین تو امانت ہے،*
*★_ اپنے مشوروں کو کام کے لیے خالص کرو، جتنا مشورہ کام کے لیے خالص ہوگا اتنا مشورے میں وقار ائے گا، ہمارے سارے کام کا وقار مشورے میں ہے، جس طرح پورے اسلام کا وقار نماز ہے،*
*★_جو نماز کو وقار کے ساتھ درست کر کے پڑھے گا وہ اس کا اثر پورے دین پر پڑے گا، پورا دین قائم ہو جائے گا، اس لیے ہمارے سارے کام کا وقار مشورہ ہے،*
*★_ اور ایک بات عرض کروں، مولانا عبید اللہ صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں یقین ہے حضرت (مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ) نے اس طرح کام کو اللہ کے ہاں قبول کروایا ہے کہ مہندی علیہ السلام تک پہنچے گا، میں نے مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وہ کیفیت دیکھی ہے کہ کام وہاں تک پہنچ جائے گا، انشاءاللہ !*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ہمیں سب کی ضرورت ہے:-*
*★_ اپنے مشورے میں وقار پیدا کرو اور وقار اطاعت میں ہے, انکار, اصرار میں نہیں, انکار، اسرار سے تو مشورہ پارلیمنٹ بن جاتا ہے وہاں جمہوریت ہے، کیونکہ اسلام میں جمہوریت نہیں ہے مشورہ ہے، اس لیے اسلام میں برکت ہے مشورے کی وجہ سے، آپ دیکھ لو سیرت کی جتنی بھی بڑی بڑی برکتیں ہیں وہ سب مشورے پر ہے،*
*★_ ہمارا مشورہ سارے عالم کے تقاضوں کو سوچنے کا اور سارے عالم کے تقاضوں کو پورا کرنے کا مشورہ ہے، ایک مشورہ ہے، جیسے مسجد کی ایک نماز ہوتی ہے دو نہیں ہوتی، مکروہ تیری میں ہے بعد میں آنے والے جماعت مسجد میں نہیں کر سکتے، اسی طرح مشورہ ہے،*
*★_دوسری بات یہ ضروری ہے کہ کسی سے مستغنی نہ ہو کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں، ہمیں سب کی ضرورت ہے، سب کے پاس جاؤ، سب کا اکرام کرو، سب کو ساتھ لو، جن کی طرف سے ناگواری پیش ائے ان کا اکرام کرنا اصل اکرام ہے، ورنہ محسن کا اکرام تو احسان کا بدلہ ہے، وہ تو کمینہ ہے جو احسان کا بدلہ نہ دے،*
*★_ جو اذیت کا بدلہ احسان سے دے یہ نبوت کا مقام ہے, اس کو سکھلایا گیا ہے, اس کی مشق کرائی گئی ہے, اگر تم نے اذیت کا بدلہ احسان سے دیا تو یہ تمہارا جگری دوست رہے گا، یہ قران کا فیصلہ ہے، قران کی بات سچی ہے،*
*★_ آپ کی جان لینے والے, اپ کے جانثار کیسے بنتے تھے, اور کوئی حکمت نہیں تھی سوائے اکرام کے، وہ دیکھتے تھے کہ ہماری اب تک کی کوشش سے انہوں نے ہمارے خلاف کیا کیا ؟ مخالفت سے مخالف کا نقصان ہے, کام کا نقصان نہیں, یہ بھی لوگوں کا خیال غلط ہے کہ کام کا نقصان ہو رہا ہے،*
*★_ حدیث میں آتا ہے جو آدمی یہ کہے, لوگ ہلاک ہو گئے لوگ ہلاک ہو گئے, وہ سب سے زیادہ ہلاکت میں ہے، اس لیے ہمارا کسی سے اختلاف نہ ہو، اگر ہماری طرف سے کسی کو اختلاف ہو تو مل کر بیٹھو اختلاف ختم کرو، کیونکہ پارٹیاں بن کر کام نہیں چلے گا، اسلام میں تو پارٹی ہے ہی نہیں، اہل حق کی پارٹی نہیں ہوتی،*
*★_ اس لیے ہمیں ان چیزوں کا خیال کرنا ہے کہ ایک دوسرے کا تعاون کریں, کام کرنے والوں میں بھی اور دین کے دوسرے شعبوں کا بھی تعاون کریں,*
*💤_ ایڈمن کی ڈائری - حق کا داعی ( کل ہند مشورہ 23-03-2017) _,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ ___ سنت کے بغیر تہذیب :-*
*"★_ اتباع سنت کے بغیر تہذیب کی کوئی حیثیت، کوئی تصور نہیں، تہذیب تو صرف اتباع سنت ہے،*
*★_ لیکن اس زمانے میں بہت سی سنتیں مسلمان اس لیے چھوڑے ہوئے ہیں کہ زمانے کے اعتبار سے ماحول کے خلاف ہے، حالانکہ اتباع سنت ہی اصل تہذیب تھی،*
*★_ یہود و نصاریٰ کے طریقے مسلمانوں میں اتنے عام ہو گئے کہ ان کی سنتوں کی جگہ غیروں کے طریقوں نے لے لی، غیروں کے طریقے مسلمانوں کے درمیان تہذیب بن کر رہنے لگے، سنتیں رواجی طریقوں کے غالب آ جانے کی وجہ سے ہلکی معلوم ہونے لگیں،*
*★_ بڑے بے عقل ہیں وہ لوگ جو کسی ماحول میں اس وجہ سے سنت پر عمل نہیں کرتے کہ لوگ سنت پر ہنسیں گے،*
*★_ حالانکہ احیائے سنت کہتے ہی اس کو ہیں کہ ایسے ماحول میں سنت پر عمل کرنا جہاں سنت کا ماحول نہیں ہے،*
*"_ سنت کے احیاء پر سو شہیدوں کا ثواب ہے, اگر کوئی سنت پر ہنستا ہے تو براہِ راست محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنستا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نبی جی آپ پر ہنسنے والوں کے لیے ہم کافی ہیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق:-*
*★_ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب آئے، دور سے دیکھ کر پہچان گئے کہ یہ نبی ہیں بادشاہ نہیں ہیں، کہ عورتیں اور بچے اپ کے قریب بیٹھے تھے، فوراً سمجھ لیا کہ نبوت ہے بادشاہت نہیں ہے، بادشاہوں میں تو مزاجی تکبر ہوتا ہے، وہ اپنے متعلقین کو بھی اپنے پاس بٹھانا گوارا نہیں کرتے،*
*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امتیازی شان سے بچتے تھے, آپ اپنا تعارف خود کراتے تھے، آپ سے عرض کیا گیا کہ آنے والے آپ کو پہچانتے نہیں ہیں لہٰذا کوئی ایسی جگہ بنا دیں جہاں آپ بیٹھا کریں کہ آنے والے آپ کو پہچان لیں، آپ نے فرمایا میں تو چاہتا ہوں کہ میں صحابہ کے درمیان اس طرح رہوں کہ تم میری گردن کو کچل کر چلو،*
*★_حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا تقاضا تھا کہ اگر صحابہ آپ سے دنیا کی باتیں کرتے تو آپ دنیا کی باتیں کرتے، صحابہ کھانے کی بات کرتے تو اپ کھانے کی بات کرتے، اس سے آنے والا قریب ہو جاتا تھا، اس لیے کہ جو تربیت قربت سے ہو سکتی ہے وہ دوری سے نہیں ہو سکتی، صحابہ خود فرماتے ہیں کہ ہم اپ سے دنیا کا ذکر کرتے تو اب دنیا کا ذکر فرماتے، کھانے کی بات کرتے تو اپ کھانے کی بات فرماتے، جب آپ سے آخرت کی بات کرتے تو آپ آخرت کی بات فرماتے،*
*★_ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ نرم طبیعت تھے، فرماتے ہیں, خدا کی قسم ! اگر کوئی شخص یا کوئی باندی یا کوئی بچہ سردی میں ٹھنڈا پانی بھی لے کر آتا کہ آپ اس کو استعمال کر لیں (وضو کے لیے) تو آپ منع نہیں فرماتے تھے,*
*★_ اور جو کوئی اپ سے کوئی سوال کرتا تو آپ اس وقت تک اپنا کان نہیں ہٹاتے جب تک کوئی اپنی بات کہہ کر چلا نہ جاوے اور جو بھی آپ کا ہاتھ پکڑتا (مصافہ کرتے وقت) آپ اس سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے، جب تک کہ وہ خود ہی آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دے،*
*★_ اور کبھی کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو آپ اپنا چہرہ نہیں پھیرتے یہاں تک کہ وہ اپنا چہرہ پھیر کر چلا جاتا اور کبھی مجلس میں بیٹھنے میں اپ گھٹنے ٹیکنے والوں سے اگے نہیں بڑھتے تھے، آپ سب سے اگے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھتے تھے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ بیوی بچوں سے محبت کا فطری تقاضا :-*
*★_ معاشرے کے آداب اتباع سنت سے ملے گا, ورنہ اس زمانے میں ایسی حیوانی زندگی ہے کہ جس اولاد بیوی بچوں کے لیے مال کماتے ہیں ان کے ساتھ مال کمانے کی دھن میں کھیلنے بیٹھنے کا بھی موقع نہیں ملتا،*
*★_ حضرت فرماتے تھے پہلے تو یہ اپنے دین کو قربان کرتا ہے خواہش کے لیے, پھر خواہشات میں اتنا اگے بڑھ جاتا ہے کہ خواہش کو قربان کرتا ہے دوسری خواہش کے لیے, خواہش ائی بیوی بچوں سے ملنے کی, اس سے بڑی خواہش آ گئی مال کمانے کی، تو بیوی بچوں سے ملنے کی خواہش کو قربان کر دے گا مال کمانے کے لیے،*
*★_ صبح جلدی نکل جاتے ہیں شام کو آتے ہیں، صیح بچے سوئے ہوتے ہیں، شام کو سوئے ملتے ہیں، انہیں بچوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا،*
*★_ کیونکہ جب ادمی کی فطرت بگڑ جاتی ہے تو فطری تقاضے بھی بدل جاتے ہیں, فطری تقاضوں میں اللہ رب العزت نے سب سے اہم چیز عبادت رکھی ہے, جو لوگ عبادت پر نہیں ائیں گے وہ اپنی اولاد اور متعلقین سے فطری محبت نہیں کریں گے,*
*★_ چونکہ اللہ رب العزت نے محبت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ ایمان اعمالِ صالحہ پر فرمایا ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ماں کی گود پہلی تربییت گاہ ہے*
*↬• لوگ اپنے اہل سے فطری محبت نہیں رکھتے ( ایمان اور اعمال صالحہ نہ ہونے کی وجہ سے ) انہیں ایک ضروری چیز سمجھتے ہیں، انکو ضرورت پر استعمال کرتے ہیں،*
*★• حالانکہ جتنی بھی انسان کی تبیت کی، فرحت کی چیزیں ہیں ان سب میں سب سے زیادہ دلوں کو سکون پہونچانے والی چیز وہ اولاد ہے، جانور بھی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں،*
*★ • اس زمانے کا دستور یہ ہو گیا ہے کہ اولاد کو نوکر پالتے ہیں اور میاں بیوی یہ کمانے میں آپس میں ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں، اسکو اس زمانے میں ترقی کہا جاتا ہے، سارا یورپ کا نظام یہی ہے جو بڑی تیزی سے مسلمانوں میں بھی آ رہا ہے،*
*★ اسلیئے اپنے بڑوں کی وہ آدات اولاد میں منتقل نہیں ہوتی جو اُنکی نسلوں سے چلی آ رہی ہوتی ہے، ساری خاندانی شرافتیں اسلیے ختم ہو گئی کہ اس زمانے میں اولاد کو نوکر پالتے ہیں،*
*★• حالانکہ ماں کی گود وہ سب سے پہلی اہم تربییت گاہ ہے، لیکین اس زمانے میں اولاد کو والدین کی گود نہیں ملتی،_*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حسنین رضی اللہ عنہم سے محبت :-*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود تمام مشاغل کے اور باوجود مسلسل آپ غمبین رہتے تھے، اس کے باوجود بچوں کے ساتھ اس طرح کھیلتے تھے کہ شاید اس طرح کھیلنا اس زمانے میں لوگوں کو عیب معلوم ہو کہ کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا،*
*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ بن جاتے حسنین رضی اللہ عنہم کے لیے اور آپ کے بالوں کی لٹو کی لگام بنا لیتے اور آپ اونٹ کی اواز نکالتے اور یہ دونوں اپ کی پیٹ پر سوار رہتے، چاروں ہاتھوں پیروں سے چلتے آپ اونٹ بن کر، دیکھنے والے کہتے کیسی اچھی سواری ہے، تو آپ فرماتے سوار بھی تو کتنے اچھے ہیں،*
*★_ اپنے مونڈو پر بچوں کو بٹھا کر صحابہ کے در میان نکل اتے تھے، حسنین میں سے کوئی ایک چادر میں الجھ کر گرا، آپ خطبہ دیتے ہوئے ممبر سے بھاگے انہیں اٹھانے کے لیے،*
*★_ جب دین نہیں رہے گا تو فطری تقاضے ختم ہو جائے گے, اس زمانے میں اتنی دنیا مطلوب ہے کہ والدین کو اولاد کی اور اولاد کو والدین کی کوئی پرواہ نہیں ہے،*
*★_ اس طرح جانور اپنی اولادوں کو بھول جاتے ہیں بڑے ہونے کے بعد, اولاد اس زمانے میں والدین کو بھول جاتی ہیں بڑے ہونے کے بعد, جانوروں کی صفت انسانوں میں آ رہی ہے،*
*★_ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ اور آپ کی سنتیں ہر لائن کی وہ فطرت کو باقی رکھنے کے لیے ہے, ورنہ سارے اسلام اور دین کا خلاصہ اتباع سنت ہے, اتباع سنت کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا,*
*💤_ ایڈمن کی ڈائری - حق کا داعی ( کل ہند مشورہ 23-03-2017) _,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اپنی اولاد کے ساتھ:-*
*★_ اپنے بچوں کے ساتھ نہ کھیلنا یہ تکبر کی علامت ہے, آدمی میں جب بڑائی آ جاتی ہے تو وہ اپنوں کے ساتھ بے تکلفی کو اپنی حیثیت سے نیچے سمجھتا ہے، فرماتے ہیں انس رضی اللہ عنہ کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی اپنی اولاد اور اپنے متعلقین پر آپ سے زیادہ کوئی رحم کرنے والا ہو,*
*★_ ابراہیم رضی اللہ عنہ آپ کے بیٹے، وہ مدینہ کی آبادی محلے سے دودھ پینے کے لیے بھیجے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے جاتے، صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم اپ کے ساتھ جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے حالانکہ پورا گھر دھوئیں سے بھرا ہوتا تھا کیونکہ جو ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دودھ پلاتی تھی ان کے شوہر لوہار تھے، لیکن اپ دھوئیں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے, آپ تشریف لے جاتے, اپ بچے کو اٹھاتے, پیار کرتے اور واپس ا جاتے,*
*★_ صحابہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی, تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم میرا بیٹا ہے اور یہ دودھ پینے کی مدت میں وفات پایا ہے، اللہ نے جنت میں اس کے دودھ پینے کی مدت کو پورا کرنے کے لیے دو عورتوں کو متعین کر دیا ہے،*
*★_عبداللہ ابن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ, عبید اللہ اور کثیر (حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹے) ان تینوں کو ایک صف میں کھڑا کرتے، پھر فرماتے کہ تم میں سے جو دوڑ کر میری طرف آوے جو اگے بڑھے گا، میری طرف پہلے پہنچے گا، اس کو یہ انعام دوں گا، اس طرح آپ بچوں کی دوڑ لگواتے، چنانچہ یہ تینوں دوڑ کر آپ کی پیٹ پر چڑھ جاتے، آپ کے سینے پر، اپ ان کو پیار کرتے ان کو سینے سے لگاتے،*
*★_عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس ہوتے تو آپ کے خاندان کے بچے آپ کو ملتے، آپ ایک سفر سے واپس آنے تو مجھے بھی آپ کی طرف بڑھایا گیا، اپ نے مجھے سواری پر اپنے سامنے بٹھا لیا، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک اور آیا تو آپ نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، فرماتے ہیں کہ ایک سواری پر تین مدینہ میں داخل ہوئے،*
*★_ایک روایت میں فرماتے ہیں عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے, میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا, اپ نے مجھے اپنے ساتھ سوار کر لیا اور بنو عباس کے ایک کو سوار کر لیا،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے, جب بھی اپ ہاتھ پھیرتے تھے آپ دعا دیتے تھے, اے اللہ جعفر کی اولاد میں ان کے لیے بہتر خلیفہ بن جا, (چونکہ جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تھے)*
*💤_ ایڈمن کی ڈائری - حق کا داعی، تعلیم حیات صحابہ مرکز نظام الدین دہلی ( کل ہند مشورہ 23-03-2017 ) _,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مایوسی کی اصل وجہ دعوت کا چھوڑ دینا :-*
*★_ اس وقت امت جن حالاتوں سے گزر رہی ہے، جس طرف بھی نظر اٹھاتے ہیں مایوسی ہی مایوسی نظر اتی ہے، دیکھتے ہیں احکام شریعت کو تو سوچتے ہیں اس کا نباہ کیسے ہوگا، دیکھتے ہیں مسلمانوں کی معصیت کو تو سوچتے ہیں ان کے حالات کیسے درست ہوں گے، دیکھتے ہیں اپنے معاون مساجد اور دینی شعبوں کو تو سوچتے ہیں ان کی حفاظت کیسے ہوگی ؟*
*★_ امت کے پاس اپنی ہر آسمانی اور زمینی اور اس کے درمیان کی رہنے والی تمام مخلوقات سے جو امت کے پاس اپنی حفاظت کا اور ملائکہ کے نازل کرانے کا جو بنیادی سبب تھا، امت اس کو بھلا بیٹھی ہے چھوڑ بیٹھی ہے،*
*★_ جب تک خدا کی قسم (یہ امت دوبارہ) دعوت پر نہیں ائے گی, امت اپنے دینی امور میں اور دنیاوی امور میں اللہ سے مدد نہیں لے سکتی,*
*★_ اگر دعوت کو کسی ایک طبقے کا اپنا کام سمجھ کر امت نے اس سے اعراض کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کا استقبال نہ کیا تو یاد رکھو کہ وہ تمام نصرتیں غیبیہ جو امت مسلمہ اور امت مسلمہ کے اسلام کی حفاظت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ سے غیبی نصرتوں کو نازل کرانے کے لیے اختیار کر کے گئے ہیں امت ان اسباب کو چھوڑ چکی ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ غیبی نصرتوں کے نزول کا سبب دعوت اور عبادت کو جمع کرنا :-*
*★_ حضرت فرماتے تھے:- باطل کے مقابلے پر جو غیبی نصرتیں نازل ہوئی ہیں، ان کی شرط، اس کے اصول اور اس کے لیے سب سے بنیادی ذریعہ وہ دعوت اور عبادت کو کما حق جما کرنا ہے،*
*★_ دعوت اور عبادت کو جمع کرنا غیبی نصرتوں کے نزول کا اصل سبب ہے، یاد رکھنا محض انفرادی عبادت پر غیبی نصرت نازل نہیں ہوگی، یہ پکی بات ہے، کیوں ؟ کیونکہ اس امت کے ذمے صالحین کی محنت سے اگے بڑھ کر, انبیاء علیہ السلام کی محنت سے اگے بڑھ کر, اس امت کے ذمہ سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا میدان محنت ہے ،*
*★_ اگر یہ امت اس میدان محنت پر نہیں ہے، تو یہ بات یاد رکھیں، تو اس امت کی مدد با اعتبار انبیاء علیہ السلام کے، صلحہ کے بھی نہیں ہوگی، اس امت کی مدد اور نصرت اس میدان محنت کے اعتبار سے ہوگی جس میدان محنت والے نبی کی یہ امت ہے،*
*★_حضرت فرماتے تھے:- اگر یہ امت صالحین کی محنت سے امت کے مسائل کو حل کرانا چاہے تو کبھی نہ ہوں گے, اگر یہ انبیاء علیہ السلام کے میدان محنت سے امت کے مسائل حل کرانا چاہیں تو کبھی نہ ہوں گے, اس امت کی مدد اور نصرت کے سب سے بنیادی چیز وہ طریقہ محنت ہے، وہ میدان محنت ہے جو میدان محنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا تھا ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ذمہ داری کا پورا ہونا اصل دعوت ہے,*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چار ادمیوں کی جماعت کو کسریٰ کی طرف بھیجی ہے جو سب سے بڑی بادشاہت سب سے بڑی سلطنت تھی،*
*★_ (دعوت کے لیے ) بھیجا ہوا اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، جس کی طرف سے بھیجا ہوا ہوتا ہے, اس کی پوری طاقت اور رعب اس کے ساتھ ہوتا ہے،*
*★_ حضرت فرماتے تھے- یہ کام وہ کام ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کروایا ہے با اعتبار ان کے زمانے کے نہیں بلکہ با اعتبار قیامت تک کے لیے کروایا ہے ,*
*★_ آپ خود چل کر جائیں، اسلام کا پیغام ہر چھوٹے بڑے کو پہنچائیں، اس کو اللہ تعالی اپنے یہاں معذرت کا قبول ہونا مانتے ہیں، قرآن نے صاف طور پر کہا ہے - جب خود جا کر دعوت دینے لگے ان لوگوں کو جن کی ہلاکت کا اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا، دعوت دینے والوں نے کہا کہ ہم اس لیے دعوت دینا چاہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں ذمہ داری کے ادا کرنے والے مانے جائیں،*
*★_ کسریٰ نے خط پھاڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک خبر پہنچی، آپ نے فرمایا کسریٰ نے خط نہیں پھاڑ دیا کسریٰ نے اپنا ملک پھاڑ لیا، کسریٰ نے یمن کے گورنر بازان کو حکم دیا کہ جس شخص نے مجھے خط لکھا ہے جاؤ اس کو گرفتار کر کے لاؤ،*
*★_ دو آدمی وہاں پہنچے آپ کو گرفتار کرنے کے لیے, دونوں اپ کو دیکھ کر کانپنے لگے, فرمایا گھبراؤ مت کیسے انا ہوا ؟ دونوں نے کہا اپ کو گرفتار کرنے کے لیے بادشاہ نے بھیجا ہے، آپ نے فرمایا تمہارے جس اقا نے تمہیں بھیجا ہے مجھے گرفتار کرنے کے لیے، تمہارے آقا بازان کو میرے آقا اللہ نے رات قتل کر دیا، لکھا تحقیق کی اسی وقت کسریٰ کے بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کر دیا تھا ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اللہ کے دین کے مددگار بنو :-*
*★_ اللہ نے شرط لگائی ہے ( سورہ محمد - ٧) *_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ_*
*"_اے ایمان والو اگر تم اللہ کے دین کے مددگار ہو تو وہ تمہارا مددگار بھی ہے اور تمہارے قدموں کو جمانے والا ہے,*
*★_ مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ کا ملفوظ ہے- اپنی ذات سے پورا دین پر چلنے والا دین دار ہے مگر دین کا مددگار نہیں ہے, اس امت کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ امت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب منثور ہوگی، اس کی مدد جب کی جائے گی جب یہ دعوت عبادت کو اس طرح جمع کر لے جس طرح صحابہ کرام نے ان دونوں کو برابر جمع کر کے دکھایا،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام اگر کسی بادشاہ کی طرف بھیجا تو صرف پیغام نہیں بھیج دیا بلکہ جماعت بنا کر بھیجی، جب تک مسلمان باضابطے خود دعوت نہیں دے گا اس وقت تک یہ اپنے دین میں آنے والی مشکلات میں اللہ کے یہاں معذور نہیں سمجھا جائے گا، کسی ذریعے سے دین کا پیغام پہنچا دینا یہ اللہ تعالی کے ہاں ذمہ داری کے پورا ہونے اور عذر کے پیش کرنے کے لیے ہرگز کافی نہیں،*
*★_ یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ پیغام پہنچانے کے بہت سے ذرائع ہیں، اگر اس سے ذمہ داری ادا ہو جاتی تو آج یہ امت غیبی نصرتیں 10 صحابہ کے بقدر دیکھتی اور اجر 50 صحابہ کے بقدر پاتی، اگر خود دعوت دیے بغیر کسی ذریعے سے پیغام پہنچا دینا اللہ رب العزت کے یہاں معذرت کے قبول ہونے کے لیے کافی ہوتا، تو اگر اللہ کے یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریقہ محنت سے ہٹ کر کسی ذریعے سے پیغام پہنچانا ذمہ داری کے پورا ہونے کے لیے کافی ہو جاتا تو خدا کی قسم 10 صحابہ کے بقدر غیبی نصرتیں دیکھتا اجر 50 صحابہ کے بقدر پاتا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ سو فیصدی اعمالِ دعوت اور عبادت اختیار کرو :-*
*★_ اللہ کی شان ! اللہ نے ایسا توڑ کر رکھا کہ (کسریٰ کے بادشاہ کو) اس کے بیٹے نے قتل کیا, باپ کو پہلے ہی اندیشہ ہو گیا تھا کہ بیٹا مجھے قتل کرنے والا ہے، باپ نے بیٹے کے قتل کا انتظام کیا، روایت میں اتا ہے کہ اس نے اپنے قیمتی خزانے میں ایک ڈبیا زہر کی بھر کر رکھی اور اس پر "انتہائی قوت کی دوا" لکھ کر اس لیے رکھا تاکہ بیٹا اس کو کھا کر ختم ہو جائے,*
*★_ بیٹے نے باپ کو ختم کیا, باپ کو ختم کرنے کے بعد بھائیوں کو قتل کیا، بھائیوں کو ختم کرنے کے بعد جب بادشاہ بن گیا چونکہ خاندان میں کوئی اور نہیں تھا، ایک دن باپ کا خزانہ کھولا، اس میں ڈبیا نظر ائی اور یہ کہہ کر کھایا کہ باپ نے ہمیشہ قوت حاصل کی ان دواؤں سے، مجھے کبھی نہیں دی، یہ کہہ کر کھایا اور ختم ہوا، پورے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا تھا جس کو اس کی جگہ حاکم بنایا جا سکے،*
*★_یہ واقعات اب امت کے تذکروں میں سے ختم ہو گئے، جب یہ واقعات ختم ہو جائیں گے، جب امت یہ دو چیز چھوڑ دے گی، غیبی نصرتوں کے واقعات اور غیبی نصرتوں کے اسباب، پھر اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں ائے گا کہ چلو پھر ان کی مان کر چلتے ہیں،*
*★_ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ کا عجیب ملفوظ ہے, حضرت فرماتے تھے جتنے دین پر چلنے کا اللہ نے مسلمان کو اختیار دیا ہوا ہے اگر مسلمان نے اتنے دین پر چل کر نہ دکھایا, اللہ اس کی نصرت نہیں کریں گے, اللہ اس دین پر اس کی مدد نہیں کریں گے جس پر چلنے میں اس کو اختیار نہیں ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ یوسیٰ بن نون اور عصر کی نماز:-*
*★_ اگر مسلمان سو فیصد اللہ کے گھر کو اعمال دعوت اور عبادت سے آباد کرنے والا ہوتا تو معاون کی طرف کوئی نظر اٹھا کر دیکھنے والا نہ ہوتا، دعوت عبادت کو جمع کیے بغیر یہ امت غیبی نصرتیں دیکھ نہیں سکتی، آپ غور کریں (یوسیٰ بن نون ) ادھر دشمن مقابلے پر ہے، ادھر عصر کی نماز ( یوسیٰ بن نون) یہاں آ کر پریشان تھے یا اللہ کیا کریں ؟ ہم مجبور ہیں, تیرے کام میں لگے ہوئے ہیں, یہ بھی تیرا حکم ہے، نماز بھی تیرا حکم ہے، یہ اللہ دو امر (دعوت اور عبادت) جمع ہو گئے,*
*★_ اگر دعوت الاللہ کے بغیر کسی تقابل کا ارادہ کیا اور اگر دین کا محتاج ہوئے بغیر کسی کام میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا تو یہ اپنے دعوےٰ میں سچے نہیں نکلیں گے، اس لیے کہ صحابہ کی غیبی نصرتوں کا جو اصل ہے، ایسے مرد میدان بن جاؤ جیسے وہ عہد کو پورا کرنے والے تھے، اللہ نے ایک جگہ نہیں سیکڑوں جگہ کر کے دکھایا کہ جو دعوت عبادت کو جمع کرتے ہیں ہم انہیں اپنی قدرت سے کیسے غلبہ عطا فرماتے ہیں،*
*★_ یوسیٰ بن نون دشمن کے مقابلے پر اور سورج غروب ہو رہا ہے، عصر کی نماز کا وقت، اے اللہ ہم بھی مامور ہیں سورج بھی معمور ہے، فرق یہ ہے کہ ہم تیرے کام میں لگے ہوئے ہیں، یہ سورج بھی تیرے کام میں لگا ہوا ہے، اس کی حیثیت وہ نہیں جو ہماری ہے، ہم تیرے تابع ہیں، فرمایا اللہ اس کو یہاں روک دے، سورج رک گیا، انتظار کیا سورج نے جب تک نماز سے فارغ ہو جائیں اور عصر پڑھ لیں سورج اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر سکتا ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ کائنات معمور ہے:-*
*★_ کائنات معمور ہے انسان کی خدمت کے لیے اور انسان معمور ہیں اللہ کی عبادت کے لیے،*
*★_ یہ کہنا کہ کائنات کا نظام تو کائنات کے اعتبار سے چلے گا, ایسے لوگ اللہ کی ذات عالی سے فائدہ کبھی نہیں اٹھا سکتے، جو یہ یقین رکھیں گے کہ نہیں نظام کائنات کائنات کے اعتبار سے نہیں چلے گا بلکہ نظام کائنات اللہ تعالی کے احکام کے اعتبار سے چلے گا، ان کے لیے نظام کائنات ان کا خادم بن کر چلتا ہے،*
*★_ اس زمانے میں نظام کائنات مخدوم ہے اور مسلمان جس کو اللہ نے مخدوم بنایا تھا نظام کائنات کا خادم اور غلام بن کر چل رہا ہے، یہ تو کائنات کے وہ نقشے ہیں چاند ستارے سورج جو انسانوں کے بس سے باہر کی چیز ہے، معمولی اسباب جو ان کے ہاتھوں میں ہیں یہ خود ان کے تابع نہیں ہیں،*
*★_کاروبار ہیں نفع نہیں ہے, زمین ہے پیداوار نہیں ہے, بیویاں ہیں اولاد نہیں ہے، دوائیں ہیں شفا نہیں ہے، ہتھیار ہیں حفاظت نہیں ہے، حکام ہیں عزت نہیں ہے، سارا نظام کائنات اٹھا کر دیکھ لو، اس لیے کہ الٹی سوچ ہے،*
*★_ تم اللہ کا ہو کر دیکھو اللہ تعالی تمہارے کیسے ہوتے ہیں اور تمہیں نظام کائنات کا کیسے بادشاہ بناتے ہیں, یہ کہہ کر گزر جانا کہ یہ تو صحابہ کے لیے ہوا ہے, وہ قیامت تک امت کو مدد کے ضابطے بتانے کے لیے ہوا ہے، صحابہ کی غیبی نصرتیں ان کے تعارف کے لیے نہیں ہیں بلکہ قیامت تک اللہ کی ذات عالی سے براہ راست فائدہ اٹھانے کے لیے ہے،*
*★_ چھوٹے چھوٹے عہدے چھوٹے چھوٹے اسباب جن کا نام لینا بھی کھیل معلوم ہوتا ہے ان کو دیکھ کر مسلمان یہ کہیں کہ اب کیا ہوگا ؟ سب سے بنیادی بات یہ ہے ہے کہ جب تک صحابہ کرام کے طریقے پر نہیں ائیں گے اس وقت تک یہ امت غیبی نصرتوں کا مشاہدہ نہیں کر سکتی, اس لیے کے ذمہ داری کا ادا کرنا ضروری ہے اللہ تعالی کی غیبی نصرتیں نازل ہونے کے لیے، یہ غیبی نصرتیں کس کے تابع ہیں ؟ عجیب بات ہے کہ غیبی نصرتیں انفرادی دعوت کے تابع ہے ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ غیبی نصرتیں انفرادی دعوت کے تابع ہے :-*
*★_حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے, صحابہ کرام آپ کے ساتھ تھے, ایک دیہاتی سے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ کہا اپنے گھر جا رہا ہوں, آپ نے پوچھا کیا تم میری رسالت پر گواہی دو گے ؟ اس نے فوراً کہا کون گواہ ہے آپ کی رسالت پر ؟*
*★_ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے صحابہ گواہی دیں گے، آپ نے فرمایا اس وادی کے کنارے پر جو درخت کھڑا ہوا ہے وہ درخت گواہی دے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں، غیبی نصرت اس کو کہتے ہیں، ایسے واقعات کا پیش انا جس سے اللہ رب العزت کے نا ماننے والے اللہ کو ماننے پر مجبور ہو جائے کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے،*
*★_ درخت زمین پھاڑتا ہوا آیا اور اپ کے سامنے کھڑا ہو گیا, اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ درخت سے گواہی لی، درخت نے تین مرتبہ گواہی دی، بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں، بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں، بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں، دیہاتی ایمان لے آیا ،*
*★_ حضرت فرماتے تھے اللہ کی ذات عالی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کائنات کا یقین نکلنا شرط ہے، کیوں ؟ اس لیے کہ یقین کائنات کا ہے تو یہ اللہ کو کائنات پیش کرے گا اللہ کی ذات عالی سے فائدہ اٹھانے کے لیے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ یقین کی تبدیلی کے لیے اللہ کی توحید کو بولنا :-*
*★_ انبیاء علیہ السلام سب سے پہلے جو دعوت لے کر ائے اللہ کے ما سوا سے اللہ کی ذات عالی کی طرف یقین کو پھیرنا، انبیاء علیہ السلام کا پہلا کام یہ تھا،*
*★_ انہوں نے دعوت کے ذریعے اللہ کے بندوں کو اللہ کا تعارف کروایا, اللہ کے غیر سے یقین کو اللہ کی ذات عالی کی طرف پھیرا، اس یقین کی تبدیلی میں پہلا کام اللہ کی توحید کو بیان کرنا تھا، انبیاء علیہ السلام اس کی دعوت لے کر ائے کہ کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے کیونکہ جتنی بھی شکلوں کا یقین دلوں میں بیٹھا ہوا تھا، ان ساری شکلوں کو معبود کا درجہ دیا ہوا تھا، انبیاء علیہ السلام نے آ کر سب سے پہلے اس کی تعلیم دی،*
*★_ اللہ کی توحید کو بیان کرنا با ذات خود مقصود ہے، احکام کا علم عمل کے لیے مقصود ہے، اگر اللہ کی توحید کو بیان نہ کرے گا تو اس کے اور اللہ کے درمیان کائنات کی چیزیں حائل ہو جائیں گی، وہ ظاہری نظام کو قدرت سمجھیں گے،*
*★_ نظام کائنات قدرت سے بنا ہے، نظام کائنات قدرت نہیں ہے، نظام کائنات قدرت سے بن کر قدرت کے قبضے میں ہے، نظام کائنات کا ایک پتے سے لے کر جبرائیل علیہ السلام تک یہ سب کے سب ہر آن ہر لمحہ اللہ کے قبضے میں ہے، اللہ رب العزت ان تمام نقشوں میں جو چاہیں گے وہ کریں گے،*
*★_ انبیاء علیہ السلام نے شروع سے آخر تک اپنی قوم کے یقین کو ظاہر کی شکلوں سے اللہ کی ذات عالی کی طرف پھیرا ہے، ایک صحابی نے آ کر عرض کیا کہ اونٹوں کو خارش ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اونٹوں کو خارش کہاں سے ہو گئی، فرمایا ایک اونٹ کو خارش ہو گئی تھی جس سے سارے اونٹوں میں پھیل گئی، آپ نے فرمایا پہلے اونٹ کو خارش کہاں سے ہو گئی، نظام قدرت ایسا نہیں ہے نعوذ باللہ کی ایک کو خارش ہو تو سب کو ہو گئی، نہیں ! بلکہ نظام قدرت یہ ہے کہ ہر ایک کو خارش اللہ کے امر سے ہوئی ہے،*
*★_ اگر اتنی بات سمجھ میں آ جائے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے امر سے ہوتا ہے تو مسلمان کی اکثر کیا ساری اُلجھنیں ختم ہو جائیں ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ دنیا میں فساد کی وجہ مسلمانوں کے بد اعمال ہیں :-*
*"_ یہ کہنا ہے کہ یوں کرتے تو یوں ہو جاتا، حکومت یوں کرتی تو یوں ہو جاتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زبان سے یہ بات کہے کہ اگر تم یوں کرتے تو یوں ہو جاتا، فرماتے ہیں کہ ان کلمات کے کہنے سے بہتر یہ ہے کہ دہکتا ہوا انگارہ اپنی زبان پر رکھ لے، زبان جل کر ختم ہو جائے، یہ زبان کا جل کر ختم ہو جانا یہ بہتر ہے کہ زبان سے یہ کہے کہ یوں کرتے تو یوں ہو جاتا، حکومت یوں کرتی تو یوں ہو جاتا،*
*★_ ساری امیدیں حکومت سے وابستہ ہیں, مسلمان کو احکام سے امید نہیں ہے, حالانکہ نظام کائنات کا تعلق احکام سے ہے, حکام سے کوئی تعلق نہیں, ساری دنیا میں جتنا فساد ہے اللہ نے براہ راست مسلمان کے بدن سے نکلنے والے اعمال سے جوڑا ہے, اس کے علاوہ خدا کی قسم مسلمان سے ہٹ کر دنیا کے فساد کا کسی مخلوق, کسی قوم, کسی اہل مذہب یا کسی مادی طاقت سے فساد کا کوئی تعلق نہیں ہے ،*
*★_ ہم سارے فساد اور ساری مشکلات کو باہر کے نقشوں سے جوڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ فساد کو روکنے کے لیے مزید نقشے بناتے ہیں حالانکہ فساد کا تعلق مسلمان کے بدن سے نکلنے والے اعمال سے ہے، تر میں ہی نہیں خشکی میں نہیں بلکہ سمندر کے اندر جو فسادات ہیں وہ بھی مومن کا عمل ہے، مشرک کی بد اعمالیوں سے کوئی فساد نہیں ائے گا اور مشرک کے اعمال خیر سے اتنی خیر اس کے حصے میں ا جائے گی جس سے اس کے کام کا بدلہ دنیا میں دے کر نپٹا دیں گے، لیکن مومن کے اعمال یہ فیصلہ کریں گے خیر اور شر کا ،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے یقین کو ظاہر کی شکلوں سے ہٹایا ہے، ایک رات حدیبیہ میں بارش ہوئی اپ نے فرمایا اس بارش سے بعض مومن رہ جائیں گے، صحابہ حیران ہو گئے آپ نے فرمایا جو یہ کہے گا بارش فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے، وہ اللہ کا انکار کرنے والا اور ستاروں کا یقین رکھنے والا ہے اور جو یہ کہے گا بارش اللہ کے فضل سے ہوئی وہ اللہ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __عقیدے بگڑے ہوئے ہیں :-*
*★_ سب سے پہلے اس کلمہ لا الہٰ الا اللہ کے ذریعے عقائد کا درست کرنا ہے، عقیدے بگڑے ہوئے ہیں، نجومی یہ کہہ رہے ہیں، فیشن گو یہ کہہ رہے ہیں،*
*★_ حضرت فرماتے تھے اللہ کو نہ ماننے والے آگے جانور کو بھیج کر اس سے حالات معلوم کر کے قدم اٹھاتے ہیں، اللہ پر یقین رکھنے والوں کا سب سے بڑا قائد محمد ﷺ ہیں جو اتنی اگے کی خبر لائے ہیں کہ جہاں تک جبرائیل نہ کبھی گئے ہیں نہ کبھی جائیں گے،*
*★_ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خبروں سے ہٹ کر ظاہر کی شکلوں پر ظاہری اسباب پر قدم اٹھائیں ؟ ذرا عقل کا استعمال کرنا پڑے گا,*
*★_ ایمان بالغیب کیا ہے ؟ مشاہدے کا، ظاہری نقشوں کا کھلا انکار، نظام کائنات اصل نہیں ہے، اللہ کا امر اصل ہے، غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، ظاہری نظام کی کیا حیثیت، ظاہری نظام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کو دیکھ کر تم اللہ تک پہنچتے ہو یا اس میں کھو کر رہ جاتے ہو ؟*
*★_ بنا ہوا بنانے والے کے تعارف کے لیے ہے، بنا ہوا بنانے والے سے فائدہ اٹھانے کے لیے نہیں ہے، دنیا سے فائدہ اٹھا لو مجے اڑا لو، تو اس جگہ تم مجرم ہو،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ نظام کائنات اللہ کے تعارف کے لیے ہے :-*
*★_ سب سے بڑا مجرم کون ہے ؟ سب سے بڑا مجرم وہ ہے جو اللہ کو ایسا نہ مانے جیسا اللہ ہے، وہ شخص کیسے مسلم ہوگا جو مشرک کی دنیا کی تمنا کرے کہ کاش جو کچھ انہیں ملا ہے ہمیں ملتا تو ہم غالب آ جاتے، حضرت فرماتے تھے غیروں کے اسباب کی تمنا کرنا غیروں کے مقابل انے کے لیے, اللہ تعالی کی نصرت اور مدد کبھی ساتھ نہیں ہوگی کیونکہ یہاں اسباب کا مقابلہ اسباب سے ہے، جب اعمال کا مقابلہ اسباب سے ٹھہرے گا تو اللہ رب العزت اعمال کی خاصیت کو ظاہر فرما ئیں گے،*
*★_ نظام کائنات اللہ کے تعارف کے لیے ہے، ابراہیم علیہ السلام نے مختلف شکلیں دیکھی، ستاروں کو دیکھا چاند کو دیکھا، سورج کو دیکھا، تینوں کا انکار کیا، حضرت فرماتے تھے شکلیں دو قسم کی ہیں، متحرک غیر متحرک، ابراہیم علیہ السلام نے دونوں شکلوں کا انکار کیا،*
*★_ نمرود نے کہا ہمیں تم رزاق مان لو ہم تمہیں راشن دیں گے, اج بھی یہی بات ہے نمرود ختم ہوا نمرودیت ختم نہیں ہوئی، فرعون ختم ہوا فرعونیت ختم نہیں ہوئی، اس بات کا خیال بھی آنا کہ ہمارا کیا ہوگا ؟ یہ اللہ کی مدد سے محروم ہونے کے لیے کافی ہے, حضرت فرماتے تھے اللہ کی قدرت یہ نہیں ہے کہ زمین سے غلہ نکال رہے ہیں جس کو بندہ یہ کہے دیکھو اللہ کی قربت, یہ تو صرف اللہ کو نہ جاننے والوں کو دکھانے کے لیے ہے کہ غلہ کہا سے آ رہا ہے، غلہ دینے والے کو پہچانو (زمین سے غلہ نکالا) یہ اللہ کی قدرت نہیں ہے، اللہ کی قدرت کا تعارف ہے، سارا نظام کائنات قدرت نہیں ہے، قدرت کا تعارف ہے ( اللہ چاہے جہاں سے غلہ نکال کر دکھا دے )*
*★_ ابراہیم علیہ السلام نے شکلوں کا انکار کیا، نمرود نے راشن بند کر دیا، قدرت اللہ نے یہ دکھائی کہ مٹی سے بھری ہوئی بوری کو اللہ نے اٹے میں تبدیل کر دیا، ( بتا دیا کہ) ہم ایسے رزاق ہیں, ہم قادر مطلق ہیں, زمین سے غلہ نکالنا قدرت کے تعارف کے لیے ہے، قدرت اللہ کی ذات میں ہے،*
*★_ جو لوگ نظام کائنات کا انکار نہیں کریں گے اللہ کی قدرت کے مقابلے میں, انہیں یہ سمجھایا جائے گا کہ دیکھو جو چیز تمہیں نفع دے رہی ہے تم اس کا کم سے کم شکر تو ادا کرو، زمین تمہیں غلہ دے رہی ہے، تم زمین کا شکر تو ادا کرو، حضرت فرماتے تھے جتنی بتوں کی شکلیں ہیں یہ ساری شکلیں زمین کی پیداوار ہیں، لکڑی تانبہ لوہا پیتل سب زمین کی پیداوار ہیں، جب جز کا انکار کر رہا ہے تو کل کا انکار کیوں نہیں کرتا، اللہ تعالی صاف فرماتے ہیں، اگانا بھی ہمارا کام ہے اور اگا کر سارے کو بھوسا بنا دیں اور ایک دانہ تمہارے ہاتھ میں نہ لگے، یہ بھی ہمارا کام ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ غیب کا یقین شرط ہے :-*
*★_ اللہ کی ذات عالی سے فائدہ اٹھانے کے لیے غیب کا یقین شرط ہے, اس لیے سب سے بنیادی چیز ایمان بالغیب ہے,*
*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خبر لے کر ائے ہیں آپ کی لائی ہوئی خبروں کو تمام ظاہری مشاہدات اور اسباب کے مقابلے میں یقینی ماننا اس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں، جس چیز کی تصدیق دیکھ کر کی جائے اسے ایمان نہیں کہتے،*
*★_ عجیب بات ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے جب بھی کوئی وعدہ کیا وہ وعدہ مشکل حالات میں کیا، تنگی کے حالات میں کیا، خوف کے حالات میں کیا، فاقے کی حالت میں کیا، حدیبیہ میں جو وعدہ کیا فتح کا جہاں فتح کی کوئی چیز نہیں ہے، خندق میں وعدہ کیا کیسرو کسریٰ کے محلات فتح ہونے کا جہاں کھانے کو روٹی بھی نہیں ہے، بیٹوں پر پتھر بندے ہیں، حفاظت کا انتظام ہو رہا ہے، خندق کھودی جا رہی ہے،*
*★_ یہ بتانے کے لیے کہ ہم پر ایمان لانے کا تعلق نظر انے والی شکلوں پر نہیں ہے, ہم پر ایمان لانے کا تعلق ہماری لائی ہوئی خبروں کو یقینی ماننے پر ہے، ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں ظاہر کے اعتبار سے اٹھاتے ہیں، وہاں جو بھی قدم اٹھوایا ہے وہ غیب کی بنیاد پر اٹھوایا ہے،*
*★_ اس لیے یہ بات یاد رکھیں ایمان بالغیب اصل ہے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ سفر معراج اور غیب کی خبر :-*
*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج ہوا، آپ نے یقین کرنے والوں کو خبر نہیں دی بلکہ جھٹلانے والوں کو پہلے خبر دی،*
*★_ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ تصدیق کرنے والے, ان کو بعد میں علم ہوا، ابو جہل کو پہلے علم ہوا، سب سے بڑا کذاب اس کو بتایا کہ رات یہ سفر ہوا ہے، غیب کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، ابو جہل گزرا وہاں سے، آپ نے فرمایا رات میرے ساتھ ایسا ہوا، ابو جہل نے کہا خاموش رہیں، میں ابھی سب کو جمع کر لوں، سب مل کر آپ کی تصدیق کریں گے،*
*★_ لوگ دوڑے دوڑے گئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کہ آپ کے ساتھی کیا کہہ رہے ہیں کہ رات کے کسی حصے میں جسم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس ایک مہینے کا سفر اور وہاں سے آسمانوں کا لامحدود سفر، وہ رات کے کسی حصے میں ہو گیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی فرمایا, اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں تو بالکل خدا کی قسم سچ کہہ رہے ہیں ہم یقین کرتے ہیں،*
*★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی خبروں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر یقین کرنا یہ ایمان بالغیب ہے، اس لیے خدا کی قسم جتنا نبی کے ہوتے ہوئے نبی کی بات پر ایمان لانا ضروری ہے، اتنا قیامت تک آنے والے مسلمان کے لیے آپ کی بات پر ایمان لانا ضروری ہے، یہ نہیں کہ آپ کے بعد یقین کی سطح اور ہوگی، بلکہ اس امت کو تو خوشخبری سنا دی گئی ہے کہ جو مجھے بغیر دیکھے ایمان لائے اس کے لیے سات بار خوشخبری ہے، جو دیکھ کر ایمان لائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے لیے ایک بار خوشخبری ہے، بار بار فرمایا،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج ہوا، مشرکین نے اپ کی لائی ہوئی خبر کا انکار کیا، کمزور ایمان والے مرتد ہو گئے کہ وہ بات کرو جو ہماری عقل میں آئے، نبی کی بات کا مدار عقل پر نہیں بلکہ نبی کی خبر کا مدار یقین پر ہے، دین کا مدار حکم پر ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ دین کا مدار عقل پر نہیں حکم پر ہے :-*
*★_ نبی کی بات کا مدار عقل پر نہیں بلکہ نبی کی خبر کا مدار یقین پر ہے، دین کا مدار حکم پر ہے، کسی فریضے میں تو بہت دور کی بات ہے عقل لڑانا کہ اسلام میں یہ کیوں ہے ؟ فلاں چیز کیوں ہے ؟ قانون کو لے کر احکام شریعت میں مداخلت جب ہوگی جب مسلمان اور با ذات خود دین کو کھیل بنا لیں گے،*
*★_ یہاں فرائض اور احکام شریعت کا مسئلہ دیکھتے ہو جب کہ حضرت فرماتے تھے- غیر تمہارے دین کو جب مٹائیں گے جب تم دین کو خود بگاڑ چکے ہوں گے، ورنہ خدا کی قسم سارا باطل مل کر ایک استنجا کی لائن کی سنت کا مقابلہ نہیں کر سکتا،*
*★_ جب مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی خبروں کو عقل سے سوچنے بیٹھ جائے گا اور یہ سوچے گا کہ فلاں سنت کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کی کیا حکمت ہے ؟*
*★_ اندازہ تو کرو شاہ عبدل عزیز دہلوی رحمتہ اللہ نے ایک روایت کو نقل فرمایا اللہ رب العزت نے عقل کے سو حصے کیے، ایک حصہ عقل کا ساری مخلوق کو تقسیم کیا ہے اور تنہا 99 حصے دیے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو،*
*★_ ساری دنیا کے سائنسداں، سیاستداں، سرمایا دار جنہیں عقل والا سمجھ کر ان کے پیچھے چلتے ہیں اللہ نے اس پر عقل کا ایک سو واں حصہ تقسیم کیا ہے، سارے علماء، سارے عوام سارے خواص سب کو عقل کا ایک حصہ ملا ہے،*
*★_ اس سے بڑا بے عقل کون ہوگا جو کسی سنت کی حکمت تک پہنچنے کی کوشش کرے، اس سے پوچھو تیرے حصے میں کون سا ذرّہ عقل کا ایا ہے، اتنی بڑی خلقت میں تقسیم ہو کر جو تو یہ کہے کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے، بندہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کا معمور ہے، یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں ارہی ہے، اس سنت کی کیا حکمت ہے ؟*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کا ایمان :-*
*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی سے گھوڑا خریدا, معاملہ طے ہو گیا، فرمایا اؤ میں تمہی قیمت دے دوں، دیہاتی پیچھے پیچھے گھوڑا لے کر، لوگ ملے راستے میں کہاں جا رہے ہو ؟ گھوڑا بیچنے، بیچو گے، ہاں بیچیں گے،( دیہاتی نے ) یہ نہیں کہا کہ گھوڑا بک چکا ہے، قیمت زیادہ ملنے لگی تو اپنی بات سے پھر گیا، اواز دے کر کہا - اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ گھوڑا لیں گے یا میں ان کو بیچ دوں،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- یہ گھوڑا میں تم سے خرید چکا ہوں، معاملہ طے ہو چکا ہے، گھوڑے والے نے کہا- خدا کی قسم میں نے اپ کو گھوڑا نہیں بیچا، گواہی لائیے، جو آدمی خود یہ جانتا ہے کہ تیسرا کوئی نہیں تھا اس معاملے میں، وہ کہہ رہا ہے گواہی لائیے،*
*★_ ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے، انہوں نے سنا اور اگے بڑھے اور کہا- میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑا خرید لیا، آپ صلی اللہ نے فرمایا کہ اے خزیمہ تم نے کیسے گواہی دے دی جب تم موقع پر موجود نہیں تھے،*
*★_ یہ سوال اس لیے نہیں ہے کہ خدیمہ رضی اللہ عنہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ، یہ سوال ہے کہ خزیمہ رضی اللہ عنہ کے ایمان کا سخت امتحان ہے کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ خزیمہ اپنی بات پر جمتے ہیں یا اپنی بات سے پھر جاتے ہیں،*
*★_ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا- ہم کیسے گواہی نہ دیں، یہ تو ایک گھوڑا ہے جسے آپ نے خرید لیا تھا، آپ نے ہمیں عرش کی خبر دی ہم نے نہیں دیکھا، کرسی کی خبر دی ہم نے نہیں دیکھا، اپ نے اللہ جل شانہ کی خبر دی ہم نے نہیں دیکھا، آپ نے جنت اور دوزخ کی خبر دی ہم نے نہیں دیکھا، ہم تو ان تمام چیزوں کو بغیر دیکھے یقینی مانتے ہیں، پھر ایک گھوڑے کی کیا حیثیت ہے، جو ذات اتنی بڑی بڑی چیزوں کی خبر لائی ہے اور ہمارے لیے ان کا ماننا فرض ہے، وہ ذات گھوڑے کے بارے میں جھوٹ کیسے کہہ دے گی،*
*★_ اس لیے ایمان بالغیب سکھایا ہے آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو _,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ایمان کی دعوت کا مومن زیادہ حقدار ہے :-*
*★_ (ایمان کی دعوت دینا) ایمان کی حقیقت کو حاصل کرنے کے لیے امت کے ہر فرد کے زمہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے "اے ایمان والو ایمان لاؤ" اس ایمان کی دعوت کا حقدار محض غیروں کو سمجھ کر یہ سوچ لیا جائے کہ یہ ایمان کی دعوت غیروں کے لیے ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کا حکم ایمان والوں کو ہے، صحابہ کرام کا عمل ہے کہ وہ صحابہ خود صحابہ کو دعوت دیا کرتے تھے، آؤ کچھ دیر ایمان لے آئیں،" اس لیے کہ مومن اس ایمان کا زیادہ حقدار ہے،*
*★_ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جو ایمان سکھلایا ہے وہ دو راستوں سے سکھلایا ہے، ایک ایمان بالغیب کے راستے سے، دوسرا ایمان اطاعت کے اعتبار سے،*
*★_ اسلام ایمان کا مظہر ہے, اسلام ایمان کے وجود کی علامت ہے، دلوں میں ایمان ہوگا تو اسلام بدن سے ظاہر ہو کر رہے گا، حضرت فرماتے تھے سب سے زیادہ ایمان کے وجود کا مظہر اتباع سنت ہے، مومن مطبعہ سنت ہوگا کیونکہ دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام کائنات پر غالب ہو یہ ایمان کا تقاضہ ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __اسلام اتباع سنت کا نام ہے:-*
*★_ دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مخلوق اور تمام کائنات پر غالب ہو، یہ ایمان کا تقاضا ہے، مسلمان کو سنتوں کا ایک مکمل طریقہ، ایک زندگی دے کر اللہ تعالی دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے قلوب کدھر جھکے ہوئے ہیں،*
*★_ صرف سجدے میں سر جھکا دینا اس کو سر جھکا دینا نہیں کہتے بلکہ سر سے لے کر پیر تک اتباع سنت، حکومت سے لے کر ایک فیری والے تک، اس کی پوری زندگی اگر سنت کے مطابق ہے تو اس کا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہے اور اگر اس کی زندگی کے کچھ اعمال غیروں کے طریقوں کی طرف مائل ہیں اور کچھ اعمال دین کے بھی کر لیتا ہے، تو سچی بات عرض کروں، قرآن میں ایسے ہی لوگوں کا تعارف کرایا ہے اور یہ کہا ہے کہ "ایسے بھی لوگ ہیں جو کفر اور اسلام کے کناروں پر چلتے ہیں، نہ پورے کفر میں نہ پورے اسلام میں،*
*★_ انہوں نے درمیان کا راستہ نکالا ہے، یہ درمیان کا راستہ ان لوگوں کے لیے ہے جو پورے اسلام پر نہیں چل سکتے، عجیب بات ہے خدا کی قسم یہ درمیان کا راستہ حضور ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا، یہ درمیان کا راستہ منافقین کا راستہ تھا،*
*★_ اگر ان کو احکام اسلام میں نقصان نظر آتا تھا تو وہ پلٹ جاتے تھے کفر کی طرف اور اگر ان کو کوئی نقصان نظر اتا تھا کفر کی طرف اور نفع نظر آتا اسلام کی طرف، تو یہ اسلام کی طرف پلٹ جاتے تھے، اللہ نے فرمایا کہ ان کے لیے دونوں جگہ خسارہ دنیا میں بھی آخرت میں بھی،*
*★_ اس لیے اصل اتباع سنت ہے، یہ ساری ہدایت کا خلاصہ اور سارے دین کی حقیقت ہے، اگر نبی کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ناقص دین ناقص نتائج:-*
*★_ اس لیے صرف فرائض کا ادا ہو جانا اسلام نہیں ہے، فرائض کا ادا کرنا تو اسلام میں داخلے کی وہ شرائط ہیں جس کے بغیر یہ مسلمان ثابت نہیں ہوگا، جس طرح کسی ملک میں داخلے کے لیے ویزا شرط ہے، ویزا نہیں ہے تو اپ کو واپس کر دیں گے،*
*★_ اسلام کیا ہے ؟ اسلام تو اتباع سنت کا نام ہے, اتباع سنت کا مطلب یہ کہ اپنے اپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے پوری طرح حوالے کر دو, حضرت فرماتے تھے اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جس کے چند احکام اختیار کر کے کامیابی حاصل کی جا سکے, بلکہ اسلام ایسا مرتب نظام ہے کہ اگر کسی شعبے کا کوئی حکم ٹوٹے گا تو اس سے وہ شعبہ ہی متاثر نہیں بلکہ سارے شعبے متاثر ہوں گے,*
*★_ حضرت فرماتے تھے جب مسلمان کا دین ناقص ہوگا تو نتائج بھی ناقص ہوں گے، لوگ یہاں آ کر شکایت کرتے ہیں کہ نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، پھر بھی یہ حالات ہیں، حضرت فرماتے تھے ایک حالات آتے ہیں بے دینی کی وجہ سے، ایک حالات اتے ہیں ناقص دین کی وجہ سے،*
*★_ ایمان کا سب سے پہلا تقاضہ اور ایمان کی سب سے بنیادی علامت وہ اطاعت ہے اور اطاعت محبت کے بغیر نہیں ہوتی کہ اطاعت وہ کرتا ہے جس کا دل محبت سے لبریز ہو، اس لیے میں نے عرض کیا کہ مسلمان کی ظاہری صورت بتلا دے گی کہ اس کا دل کدھر مائل ہے،*
*★_ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اس طرح پورا کریں کہ اس کے پورا کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے، سعد رضی اللہ عنہ سے قوم کے خلاف فیصلہ کروایا، سعد رضی اللہ عنہ نے قوم کے خلاف فیصلہ کر کے دکھلا یا، ساری قوم منتظر تھی کہ ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں قوم کے خلاف فیصلہ کیا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ اتباع سنت سے مسلمان کی امتیازی شان:-*
*★_ اس وقت ہمارا حال یہ ہے کہ قدم قدم پر صبح شام کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوگا جس شعبے میں مسلمان کے اتباع سنت کا امتحان نہ ہو رہا ہو، اللہ مجھے معاف فرمائے اکثریت اکثریت فعل ہے، سنت ہی تو ہے فرج تھوڑے ہی ہے، حالانکہ اتباع سنت کے بغیر مسلمان کو امتیازی شان حاصل نہیں ہو سکتی، مسلمان کی امتیازی شان صرف اتباع سنت میں ہے،*
*★_ وہ اغیار اپنی روایتوں کو نہیں چھوڑتے, تو وہ اللہ کے بندے جن کو اللہ نے ساری مخلوق پر غالب کرنے کا وعدے کے ساتھ احکام دیے ہیں کیا قوانین ان کے تابع نہیں ہوں گے، کیا ان کی رعایت نہیں ہوگی، لیکن جن کو اللہ نے اتباع سنت کا مکمل نظام دیا ہے اگر یہ اتباع سنت پر نہیں ہیں تو اس کو مغلوب ہو کر رہنا پڑے گا،*
*★_ اس لیے تاکید کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اتباع سنت نصرت اور مدد کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، سارے اعمال اعلیٰ درجے کے، اخلاص اعلیٰ درجے کا، عبادت اعلیٰ درجے کی، ایک جنگ کے مقابلے میں فتح نہیں ہو رہی ہے، آخر کیا وجہ ہے، بیٹھ کر سوچنا چاہیے، صبح سے شام ہو گئی، فتح نہیں ہو رہی ہے، ذرا غور تو کرو، معلوم ہوا کہ مسواک نہیں کی، مسواک کی سنت چھوٹی ہے*
*★_ جو اللہ والے ہوتے ہیں، وہ ناکام ہونے کی وجوہات اعمال میں تلاش کرتے ہیں، جو اللہ کو نہیں مانتے، جو ظاہر پرست ہوتے ہیں وہ ناکامی کی وجہ اسباب میں تلاش کرتے ہیں، یہ فرق ہے اللہ کو ماننے والے اور اللہ کو نہ ماننے والے کا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مسلمان کی عملی زندگی دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ ہے :-*
*★_ ایمان اپنی صفات کے ساتھ ہے، ایمان کوئی دعویٰ نہیں ہے ایمان کوئی قوم نہیں ہے، اسلام کسی جھنڈے کا نام نہیں ہے، اسلام ایک مسلمان کی ایسی کامل اور مکمل زندگی کا نام ہے، جس کو دیکھ لینا صرف دیکھ لینا خدا کی قسم ہدایت کے لیے کافی ہے،*
*★_ مسلمان کی سب سے بڑی دعوت سارے ذرائع نشر و اشاعت کے نظام سے ہٹ کر صرف ایک مسلمان کی اپنی عملی زندگی وہ ایک اللہ کو نہ ماننے والے کی ہدایت کے لیے کافی ہے، کافی ہی نہیں بلکہ یقینی ہے،*
*★_ مشاہدے کا دین پیش کرنا یہ مومن کی ذمے داری نہیں ہے، معاملات کا دین پیش کروں، حضرت فرماتے تھے اگر مخلوط ہو کر رہنے کا مزاج بن گیا ہے تو پھر اللہ رب العزت سب کے ساتھ معاملہ برابر کا کریں گے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مسلمان کی امتیازی شان تقوی ہے،*
*★_ مسلمان کی امتیازی شان وہ تقوے کے بغیر نہیں ہے, اللہ تعالیٰ نے شرط لگائی ہے- اگر تم میں تقوی ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں غیروں سے چھانٹ کر الگ کریں گے,*
*★_ ایمان اپنی علامتوں اور صفاتوں کے ساتھ ہے، سب سے زیادہ آسان صفات ایمانیات کو سمجھنے کے لیے حضرت نے ایک واقعہ حیات صحابہ میں نقل کیا ہے،*
*★_ سات آدمیوں کی جماعت اپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، روایت میں ہے، وہ خود فرماتے ہیں ہمارے سر سے پیر تک حلیے کو دیکھ کر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ ہم ایمان والے ہیں،*
*★_ فرمایا تم کیا ہو ؟ عرض کیا ہم ایمان والے ہیں, فرمایا تمہارے ایمان کی کیا علامت ہے ؟ عرض کیا کہ ہمارے اندر 15 خصلتیں ہیں, 10 کا ہمیں اپ کی جماعتوں نے حکم دیا ہے اور 5 ہم میں زمانہ جاہلیت سے ہے، آپ نے فرمایا کہ وہ کیا ہیں؟ عرض کیا پانچ پر ہمارا یقین ہے اور پانچ ہمارے عمل میں ہے, فرمایا وہ پانچ کیا ہیں جن پر تمہارا یقین ہے ؟ سب سے پہلی بات یہ کہی کہ ہم ایمان لائے اللہ پر, اس کے فرشتوں پر, اس کی کتابوں پر, اس کے رسولوں پر, آخرت کے دن پر,*
*★_ اپ نے فرمایا وہ پانچ کیا ہیں جن پر تمہارا عمل ہے ؟ عرض کیا ہم سب سے پہلے گواہی دیتے ہیں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور ہم نماز قائم کرتے ہیں اور رمضان کے روزے رکھتے ہیں، بیت اللہ کا حج کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں،*
*★_ عجیب بات ہے، وہ جانتے تھے کہ زندگی کا کمال نماز کے کمال میں ہے اور واقعی حقیقت ہے جس کی نماز میں کمال ہوگا اس کی زندگی میں، اس کے دین میں کمال ہوگا، فرمایا کہ جو نماز کو درست کر لے گا وہ دین کو درست کر لے گا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ زکوٰۃ کو ادا کرو اور مستحق کو خود تلاش کرو:-*
*★_ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے اپنے بھائیوں کا حق کھا رہے ہیں, ایسا حق کھا رہے ہیں جیسا اپنے سگے بھائی کا حق کھا رہے ہیں,*
*★_ اگر مسلمان صرف زکوٰۃ دینے پر آ جائے، صدقات تو بعد کی چیز ہے صرف زکوٰۃ صحیح صحیح طریقے پر ادا کر دے، تو دنیا میں کوئی مسلمان ننگا بھوکا نہیں رہ سکتا،*
*★_ اس لیے فرمایا کہ زکوٰۃ کو ادا کرو اور مستحق کو خود تلاش کرو, حضرت فرماتے تھے ایسے مستحق کو تلاش کرو جیسے ایک نمازی آدمی وضو کے لیے صحرا میں پانی تلاش کرتا ہے،*
*★_ حضرت فرماتے تھے اگر مسلمان زکوٰۃ کو صحیح ادا کرنے پر آ گئے تو زکوٰۃ کی برکات کو برداشت نہیں کر سکتے، اتنی زکوٰۃ کی برکات ہیں،*
*★_ لیکن اس زمانے میں ہمارا حال یہ ہے کہ زکوٰۃ دے کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب مجھے اپنے مال میں اختیار ہو گیا ہے میں جہاں چاہوں جتنا چاہو خرچ کروں، میں نے مال کو پاک کر لیا ہے، مال پاک اس لیے نہیں ہوا کہ اس سے اسراف کریں، مال پاک اس لیے ہوا ہے کہ تو اس کو پاک کام میں استعمال کرے،*
*★_ زکوٰۃ کا مال مستحق کے لیے ہے، زکوٰۃ کا مال مستحق کو دیا جائے اور مستحق کو تلاش کیا جائے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر سخت وعید :-*
*★_ حضرت فرماتے تھے پہلے زمانے میں زکوٰۃ کے دینے والے لینے والے ایسے تھے جیسے بچے رات کو کھیلتے ہیں چھپ کر، ایک بچہ تلاش کرتا ہے، باقی بچے چھپ جاتے ہیں، یہ تلاش کرنے میں پوری کوشش لگا دیتا ہے تھک جاتا ہے، گھنٹوں کھیل چلتا ہے، چھپنے والے چھپتے رہتے ہیں، جہاں سے کوئی آتا ہے وہاں سے بھاگتے ہیں،*
*★_ یہ تھا اس زمانے میں معمول، اس زمانے میں خیل الٹا ہو گیا ہے، اس زمانے میں کھیل صحیح تھا، فقرا چھپتے تھے مالدار تلاش کرتے تھے، اس زمانے میں مالدار چھپتے ہیں فقرہ تلاش کرتے ہیں،*
*★_ کھیل الٹا ہو گیا, اللہ تعالی نے نظام بدل دیا، فقرہ پر فقر کا دروازہ کھو دیا اور مالداروں پر برکتوں کا دروازہ بند کر دیا کہ اس نے فقرہ سے اپنے آپ کو چھپایا ہے،*
*★_ اس لیے بڑی سخت وعید ہے مال کے بارے میں، فرمایا یہ زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے اپنے مالوں کی، ان کی پیشانیوں کو پہلے داغا جائے گا کیونکہ یہ مستحق کے پاس خود لے کر نہیں گئے مال، ایک جرم تو یہ ہے، اس کا فاقہ اس کی تنگی اسے اگر اٹھا کر کے تمہارے پاس لے ائی تو اسے دیکھ کر تمہاری پیشانی پر بل آ گیے، اس لیے قران نے کہا پہلے ہم پیشانیوں کو داغیں گے،*
*★_ اس نے زیادہ سوال کیا ہے زیادہ اصرار کیا تو اس نے پہلو پھیر لیا، پھر ہم اس کے پہلوؤں کو داغیں گے، اس نے زیادہ سوال کیا زیادہ اصرار کیا، یہ مالدار اٹھ کر (پیٹھ پھیر کر) چلا گیا, پھر ہم ان کی پیٹھوں کو داغیں گے، اس مال کو تپا کر جس کو اس نے اپنا خزانہ بنا کر رکھا ہے ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ صحابہ کرام کے مال کے مصارف:-*
*★_ دل یہ چاہتا ہے, خدا کی قسم دل یہ چاہتا ہے کہ ذرا پیچھے ہٹ کر صحابہ کرام کے مال کے مصارف دیکھو کہ صحابہ مال کہاں خرچ کرتے تھے ؟ صحابہ کے مال کے کیا مصارف تھے؟ اگر غور کیا جائے تو صرف دو مصارف ملتے ہیں صحابہ کے مال کے، ایک سب سے پہلا مصارف اللہ کے راستے کی نقل حرکت پر مال خرچ کرنا،*
*★_ یہ تو ایسا مصرف ہے کہ قرآن نے یہ کہا کہ اس راستے کی نقل حرکت پر مال خرچ کرنے میں کمی نہ کرنا، اگر اس راستے کی نقل حرکت پر مال خرچ کرنے میں کمی کی تو اپنے اپ کو ہلاکت میں خود ڈالو گے، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب ہم نے چھ مہینہ مدینے میں رہنا طے کر لیا تھا کہ چھ مہینے مدینے میں رہیں گے باہر نہیں نکلیں گے، چھ مہینے بعد جہاں چاہے بھیج دیں، صرف چھ مہینے نقل حرکت کو بند کرنا چاہتے ہیں، یہ نہیں کہا تھا کہ کسی بیوہ کو، کسی مسکین کو، کسی مسافر کو، کسی ساحل کو دروازے پر آنے والے فقیر پر مال خرچ نہیں کریں گے، یہ نہیں کہا تھا، مدینے میں چھ مہینے رہنا طے کیا تھا کہ چھ مہینے ہمارا خروج نہ ہو، اللہ نے انصار کے اس ارادے پر آیت نازل فرمائی،*
*★_ میں نے عرض کیا کہ صحابہ کرام کے مال کا سب سے پہلا مصرف اللہ کے راستے کی نقل حرکت پر مال خرچ کرنا ہے، اس کے بعد اہم مصرف مال کے خرچ کرنے کا وہ امت کو علم پہنچانا، اس لیے کہ نقل حرکت اور خروج تھا ہی اس مقصد کے لیے کہ امت جہالت سے نکلے،*
*★_ دل یہ چاہتا ہے کہ مال کا جو حصہ پاک کر دیتے ہو زکوٰۃ دے کر، اس پاکیزہ مال کو تو پاکیزہ مال کام پر خرچ کرو، خدا کی قسم علم سے پاک چیز کوئی نہیں ہے، علم ہی مطاہر ہے علم سے بڑھ کر پاک کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے اور علم سے بڑھ کر نجات دینے والی کوئی چیز نہیں ہے،*
*★_ سب سے بڑا مصرف مال کا وہ علم ہے, مسلمانوں کی جسمانی ضروریات پر تو غیر بھی مال خرچ کر دیں گے, کچھ مقامی رعایت کر دیں گے, کوئی فری کا پانی لگا دے گا, کوئی کمبل تقسیم کر دے گا, کوئی بیماری کے لیے دوا تقسیم کر دے گا، کوئی حادثہ پیش آ جائے تو مسلمانوں کی مدد کے لیے غیر بھی کھڑے ہو جائیں گے لیکن یہ بات یاد رکھو کہ علم وہ فریجہ ہے جس میں تعاون صرف مسلمان کرے گا،*
*★_ میں تو حیران ہوتا ہوں جب سنتا ہوں کہ کسی علم کے تقاضے کے لیے کسی کے دروازے پر جا کر کہیں کہ یہ ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جن کو اللہ نے مال دیا ہے ان کی غیرت کے لیے اتنا کافی ہے کہ تمہیں ان کی ضرورت کے لیے خود محسوس کر کے علم کے تقاضوں کو اپنا محاسن سمجھ کر مال کیوں نہ لا کر پیش کیا، کیوں نہ کہا کہ ادارے کی ضرورت میرے ذمے ہے ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ علم سے زیادہ رغبت اج دنیا کے فنون کی ہے :-*
*★_ علم پر خرچ کرنے کا مزاج نہیں ہے، میں حیران ہوتا ہوں جب مال کا میل سے ادمی کتابیں لا کر یہ سمجھتا ہے یہ میرا احسان ہے، یہ ایک مستحق کا حق ہے، اس کی تحقیق کر کے خود اس تک پہنچانا یہ مالدار کی ذمہ داری ہے،*
*★_ معمول یہ چل رہا ہے کہ مال کا میل خیر کے کام پر اور پاکیزہ مال شادیوں پر، فرنیچروں پر، ضرب سے زیادہ اصراف پر، فقراء میں پھرو، غرباء کے درمیان جاؤ، مال کے مصارف نظر ائیں گے اور اگر اپنے سے اوپر والے کے درمیان جاؤ گے، تو ان کی سطح پر مال خرچ کرنے کے لیے، ان کی سطح کی شادیاں اور ان کی سطح کا لباس، ان کی سطح کی زندگی کا معیار گزارنے کے لیے اسے اپنے مال کا سب سے پہلا مصرف یہ نظر ائے گا کہ مال یہاں خرچ کیا جائے،*
*★_ اس لیے میں نے عرض کیا کہ دل یہ چاہتا ہے کہ دین کے شعبوں کو اس مال کے تقاضے سے فارغ کر دو کہ وہ علم الہی کے سیخنے میں ایسے مشغول ہوں اور ادارے میں ایسے مشغول ہوں کہ ان کو ضروریات کے پورا کرنے والے کا پتہ نہ چلے کہ کہاں سے ضرورت پوری کی ہے ،*
*★_ اس لیے عرض کیا کہ دو مصرف صحابہ کرام کے ملیں گے، ایک دعوت الا اللہ دوسرا تعلیم، میں نے بہت غور کیا کہ دنیا کے فنون پر مال زیادہ خرچ ہوتا ہے یا دینی علوم پر مال زیادہ خرچ ہوتا ہے، ایک آدمی اپنی ذات سے ڈاکٹر بننے کے لیے انجینیئر بننے کے لیے آپ جانتے ہیں کتنا خرچ کرتا ہے، خدا کی قسم اتنا خرچ کرتا ہے کہ بعض مرتبہ ڈاکٹر بن کر ڈاکٹری کرتے سالہا سال گزر جاتے ہیں، ڈاکٹر بننے کا قرضہ ادا نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم سے زیادہ رغبت دنیا کے فنون کی ہے ،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ ___ صفات صحابہ:-*
*★_ عرض کیا کہ پانچ باتیں ہمارے اندر ہیں جس پر ہم عمل کرتے ہیں، (شہادت کی) گواہی دیتے ہیں, نماز قائم کرتے ہیں, رمضان کے روزے رکھتے ہیں, بیت اللہ کا حج کرتے ہیں, زکوٰۃ ادا کرتے ہیں,اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پانچ کیا ہیں جو تمہارے اندر زمانہ جاہلیت سے ہے؟ فرمایا ہمارے اندر صبر ہے, ہمارے اندر شکر ہے,*
*★_ اللہ کی شان، صبر ایک ایسی صفات ہے جو آدھا ایمان ہے، شکر آدھا ایمان ہے، ایمان تو کامل یہی ہو جاتا ہے، صبر اور شکر کے مطلب کو سمجھتے ہو ؟ صبر کا حال تو یہ ہے کہ آنے والے حالات کو برداشت کر کے حالات کو بدلنے کا انتظار کرنا، یہ کوئی صبر کا مطلب نہیں ہے، صبر کہتے ہیں اللہ تعالی کے احکام پر جمنا حالات کے مقابلے میں، روزے کو صبر فرمایا ہے کیونکہ یہ حکم بہت سے تقاضوں سے روک دیتا ہے اور نعمتوں میں اللہ کی اطاعت پر جمنا اور اس کی عبادت میں زیادتی کرنا یہ شکر ہے ،*
*★_ فرمایا کہ ہمارے اندر صبر ہے، ہمارے اندر شکر ہے اور ایک صفت ہمارے اندر یہ ہے کہ ہم جس بات کو طے کر لیتے ہیں اس سے پیچھے نہیں ہٹتے اپنی بات میں جمنے والے ہیں، ایک ہمارے اندر یہ صفات ہے کہ ہم اللہ کے ہر فیصلے سے راضی رہتے ہیں، ایک صفت ہمارے اندر یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن پر آنے والی مصیبت سے خوش نہیں ہوتے،*
*★_ واقعی یہ بہت اہم صفت ہے, جب تک مسلمان کے جزبات ساری انسانیت کے بارے میں وہ نہیں ہوں گے جو جذبات صحابہ کرام کے تھے، اس وقت تک اسلام کا تعارف نہیں ہو سکتا، یاد رکھنا انتقام کے جذبے سے اسلام سمجھانا ممکن نہیں ہے اور انتقام کے جذبے سے اسلام کا پھیلنا ممکن نہیں ہے، صحابہ کرام کے غالب انے کی واحد صفات یہ تھی کہ صحابہ کے قلوب دو چیزوں سے خالی کیے گئے تھے، ایک ملک و مال کی حرص نہ تھی اور دوسرے انتقام کا جذبہ نہ تھا بلکہ ہدایت کی تمنا تھی،*
*★_ اگر خدا نہ کرے دل کے کسی گوشے میں ان دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی ذرّہ کے برابر بھی موجود ہے تو یاد رکھنا کبھی یہ غلبہ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے اسلام کا تعارف دین کے تمام شعبوں میں جو ہوگا وہ اتباع سنت سے ہوگا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کا قصہ :-*
*★_ اسلام صرف عبادت تک محدود نہیں ہے بلکہ مسلمان کو اس کا پابند کیا گیا تھا کہ اگر حق غیر کا ہے تو تجھے غیروں کے ساتھ معاملہ اپنوں سے بہتر کرنا ہوگا,*
*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ (اپنے دور خلافت میں) بازار میں نکلے, دیکھا کہ ایک یہودی زرہ بیچ رہا ہے، فرمایا یہودی سے یہ زرہ میری ہے، یہودی نے کہا نہیں یہ میری ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا زرہ میری ہے، جھگڑا ہو گیا، ایک طرف یہودی اور ایک طرف امیر المومنین، فرمایا چلو عدالت میں،*
*★_ مسئلہ عدالت میں گیا, علی رضی اللہ عنہ خود تشریف لے گئے, حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر قاضی اپنی کرسی سے نیچے بیٹھ گیا اٹھ کر, حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کرسی پر بٹھایا, پوچھا کیا حکم ہے, اپ کیوں تشریف لائے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا جھگڑا اس یہودی سے ہے، زرہ میری ہے،*
*★_ اپ اندازہ کریں اس عدالت کا جس میں قاضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بنایا ہوا, قاضی نیچے بیٹھا ہے یہودی کے ساتھ, یہودی سوچتا ہوگا کہاں پھنس گئے, عدالت ان کی قاضی ان کا,*
*★_قاضی نے کہا امیر المومنین اپ گواہ پیش کریں، فرمایا میرا بیٹا گواہی دے گا، سارے جوانوں کے جنت کے سردار ہیں، فرمایا بات ٹھیک ہے لیکن بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں معتبر نہیں، امیر المومنین عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ زرہ یہودی کی ہے، فیصلہ ہو گیا امیر المومنین کے خلاف، ایک یہودی کے حق میں، ایک مسلمان جج کے ذریعے،*
*★_ جیسے ہی زرہ یہودی کو ملی، یہودی نے فوراً کلمہ پڑھا، کہا میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ان کی عدالتوں میں جو فیصلے ہوتے ہیں وہ فیصلے انبیاء والے ہوتے ہیں یا وہ فیصلے انبیاء کے طریقے سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں، امیر المومنین یہ زرہ اپ کی ہے، اپ کے اونٹ سے گری تھی، میں نے اٹھائی تھی،*
*★_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ اسی یہودی کو ہدیہ کی، ایک گھوڑا بہت سا مال دیا، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی رہے اخر تک،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ نقل حرکت کے ذریعے مشاہدہ کا دین پیش کرو :-*
*★_ اسلام کا اکثر حصہ مخلوق کے درمیان ہے, اس لیے کہ چار چیزوں پر سارا اسلام ہے, عبادات معاملات اخلاق اور معاشرت, ایک حصہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے, باقی تین حصے اس کے اور مخلوق کے درمیان ہے,*
*★_ اس نقل حرکت کے ذریعے امت کو وہ اخلاق وہ معاملات وہ معاشرت عملی طور پر پیش کرنا ہے, یہ نقل حرکت اس لیے تھی کہ مسلمان اپنے عمل میں رہ کر حرکت میں ائے تاکہ امت کو مشاہدہ کا دین پیش کرے,*
*★_ علم کی حفاظت بے شک (علمائے حق کے) کلام سے ہے لیکن اس علم کی اشاعت قدم چاہتی ہے, جو کچھ لکھا گیا ہے اس لکھے ہوئے پر عمل کے لیے امت کو بھیجا گیا ہے, اسی لیے امت پر عملی دین پیش کرنا یہ اس نقل حرکت کا اصل مقصد ہے اور اس کا کوئی مقابل نہیں,*
*★_ دو چیزیں ایسی ہیں جس سے دور صحابہ میں اسلام پھیلا ہے, ایک اللہ کے راستے کی نقل حرکت اور دوسرے علمائے حق کی مجالس صحبت، یہ علم کو علماء سے لیتے تھے اور عملی نقل حرکت سے علم کو امت تک پہنچاتے تھے،*
*★_ اس لیے بات اچھی طرح جاننی چاہیے کہ امت تک عملی دین کے پہنچانے کا جو بنیادی سبب ہے, بنیادی ذریعہ ہے وہ اللہ کے راستے کی نقل حرکت ہے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ دعوت کے لیے رواجی طریقے نہیں، سنت طریقہ اختیار کرو:-*
*★_ مجاہدہ انسان کی صفت ہے, اس کے علاوہ کوئی مخلوق مجاہد نہیں ہے اور ہدایت والا مجاہدہ پر ہے، بات کو پہونچانے کے جتنے بھی رواجی طریقے ہیں ان رواجی طریقوں سے، مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ فرماتے تھے، رواج ترقی کرے گا دین ترقی نہیں کرے گا، دین کی ترقی اس طریقہ محنت میں ہے جو طریقہ محنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا ہے،*
*★_ حضرت جی رحمتہ اللہ کی بات ہے، حضرت فرماتے تھے جب حق کو چلانے کے لیے باطل کا سہارا لیا جائے گا تو باطل چلے گا حق نہیں چلے گا، جتنے بھی ذرائع ہیں ان کے اندر رواج کی ظلمتیں ہیں اور خود جا کر دعوت دینے میں خدا کی قسم سنت کے انوارات ہیں، سنت کی اذیتیں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ دعوت میں ہے، اس طریقہ دعوت سے ہٹ کر نبوت کی لائن کی اذیتیں کسی بھی رواجی طریقوں میں نہیں ملے گی،*
*★_ اس لیے امت تک دین پہنچانے کے لیے جو مسنون طریقہ ہے، اپ اگر غور کریں گے تو دور صحابہ میں صرف دو چیزیں ملیں گی، ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے بعد اپ کے علمائے حق کی صحبت اور دوسری اللہ کے راستے کی نقل حرکت، اس کا اصل مقصد امت کو ہدایت کی طرف لانا ہے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ عمل سے عمل زندہ ہوتا ہے :-*
*★_ اس لیے اخلاق اور معاشرہ دکھانے کے لیے دعوت اپنے ماحول میں لانے کے لیے تھی، دعوت پیغام پہنچانے کے لیے نہیں تھی، نبی علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ تم اخلاق اور معاشرہ لے کر ان کے ماحول میں جاؤ،*
*★_ اگر اپنے گھر سے مسجد تک جاتے ہوئے صرف نماز کے لیے جا رہا, (راستے میں لوگوں کو نماز کی) دعوت نہیں دے رہا ہے تو یہ نہ اپنوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے گا نہ غیروں کی ہدایت کا ذریعہ بنے گا، انفرادی اعمال سے اسلام نہیں پھیلا کرتا، اعمالِ دعوت ہدایت کے راستے بناتے ہیں، عمل سے عمل زندہ ہوتا ہے، اپنے ماحول میں لے کر انا یہ معمول تھا صحابہ کرام کا,*
*★_ اس نقل حرکت کا مقصد کلمہ نماز سیکھنا نہیں ہے، مولانا الیاس صاحب رحمت اللہ کا ملفوظ ہے کہ میری تحریک کا مقصد صرف کلمہ نماز صحیح کرنا نہیں ہے، کلمہ نماز کا درست ہو جانا یہ تو اس راستے کے خروج کی یہ ایسی ابتدائی چیز ہے جیسے بچہ الف ب ت سیکھ لیتا ہے، یہ تو فرائض میں سے ہے، اس نقل حرکت کا اصل مقصد یہ تھا کہ عملی اسلام لے کر امت امت میں جائے،*
*★_ اپ دیکھ لیجیے ان جماعتوں کی نقل حرکت سے ایثار کے، قربانی کے، ہمدردی کے، اخلاق کے، اچھے معاملات کے، اچھے معاشرے کے جب اعمال سامنے اتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اسلام کیا ہے،*
*★_ اس لیے انفرادی دعوت کے لیے قدم اٹھاؤ گے تو اللہ رب العزت اس پر قلوب کو نرم فرما دیں گے، اس لیے میرے عزیزوں دوستوں ! یہ نقل حرکت اس مقصد کے لیے ہے کہ اس نقل حرکت کے ذریعے امت کو عمل کے ماحول میں لایا جائے، اس نقل حرکت کے ذریعے امت پر عملی اسلام پیش کیا جائے، یہ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس نقل حرکت کے ذریعے عملی دین لے کر پھرے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے والا عمل :-*
*★_اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس راستے میں پھرنا اللہ کا امر ہے اور یہ بات یاد رکھنا ہم جو خروج کرتے ہیں اللہ کے راستے کا یہ اللہ کے امر کی وجہ سے کرتے ہیں، جب بھی نکالا جائے نکل جاؤ،*
*★_ ایسا مزاج بنایا گیا تھا صحابہ کرام کا, بقول حضرت کے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نکالنے میں عذر کی کوئی قسم باقی نہیں چھوڑی جس میں صحابہ کو نکالا نہ ہو، خوف میں بیماری میں خوشی میں غم کے حالات میں حالات کی خرابی میں کوئی موقع ایسا نہیں ہوگا جس میں صحابہ کو نکالا نہ ہو،*
*★_ لنگڑے صحابی ہیں امر بن جموح رضی اللہ عنہ, بیٹوں نے آ کر کہا ابا جی کو روک لیجئے، بیٹوں سے فرمایا جانے دو، ان سے فرمایا تم معذور ہو، عرض کیا یا رسول اللہ صرف اتنا بتا دیجیے جنت میں لنگڑے پیر سے چلوں گا یا صحیح پیر سے، آپ نے فرمایا جنت میں صحیح پیر سے چلو گے، یہ نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری انکھوں کے سامنے ہے امر جنت میں صحیح پیر سے چل رہا ہے،*
*★_ اس لیے میرے عزیزو دوستو ! سب سے زیادہ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے والا عمل وہ اللہ کے راستے کی پیدل نقل حرکت ہے، جب اس راستے میں پیدل چلنے سے جہنم جو اللہ کے غصے کا سب سے بڑا مظہر ہے، جب اس راستے کی نقل حرکت سے وہ جہنم کی آگ حرام کر دی جاتی ہے، تو جو اس کے غصے کے مظاہر دنیا میں ہیں، جماعتوں کی نقل حرکت سے کیسے ختم نہیں ہوں گے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ توبہ کے لیے نکلنے والے قاتل کا واقعہ :-*
*★_ اس امت کی فضیلت اور اس امت کا افضل ہونا اس دعوت ال اللہ کی شرط کے ساتھ ہے کہ اپنے دین کو لے کر حرکت میں آنا ہے، دعوت یقین کے بدلنے کا راستہ ہے اور یہی ماحول کے بدلنے کا راستہ ہے، یقین اور ماحول کی تبدیلی کے لیے اصل یہ راستہ دیا گیا تھا، اپنے ماحول سے نکلنا ضروری ہے،*
*★_ آپ بارہا سنتے ہیں، وہ قاتل جس نے 99 قتل کیے، ایک راہب سے جا کر سوال کیا کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ اس نے کہا تم نے 99 قتل کیے ہیں تمہارے توبہ قبول نہیں ہوگی، اس نے اس کو بھی نپٹا دیا، کیوں جو شخص اللہ کی رحمت سے مایوس کرے وہ رہنے کے قابل نہیں ہے،*
*★_ عجیب بات ہے عالم اور راہب کا فرق دیکھو، جو امت سے کٹ کر خالق کی عبادت میں تھا اس نے مایوس کر دیا کہ تیری مغفرت نہیں ہوگی، لیکن عالم کا تعلق مخلوق سے ہوتا ہے، اللہ کے علم کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ علم کے ذریعے اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا چاہتا ہے،*
*★_ عالم کے پاس گیا- کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی ؟ عالم نے کہا- توبہ قبول ہو جائے گی لیکن آپ اپنی بستی چھوڑ کر نکل جائیں, روایت پر غور کرو، یہ نہیں کہا، جائیں اللہ معاف کر دیں گے توبہ کر لیجیے، علماء نے لکھا ہے کہ اپنے راستے (ماحول) کو چھوڑ کر نکلنا یہ توبہ کے اندر پختگی پیدا کرنا ہے، گناہ کے ماحول میں رہ کر استغفار کرنا گناہ کی ظلمتوں سے توبہ کے کمال تک نہیں پہنچنے دیتا، یہی وجہ ہے کہ صبح شام توبہ کرتے ہیں اور صبح شام گناہ کرتے ہیں، توبہ میں پختگی پیدا ہوتی ہے جب آدمی گناہ کے ماحول سے نکل کر باہر اتا ہے، صحابہ نے شرک کی ظلمتوں کو ایمان کے ماحول میں آ کر سمجھا، ہم گناہ کی ظلمتوں کو گناہ کے ماحول سے نکل کر سمجھیں گے،*
*★_ یہ نکلا اور نکلتے ہی موت آ گئی، جہاں سے نکلا ہے اس کے قریب موت آئی، جہاں جا رہا ہے پہنچا نہیں ہے، اللہ نے زمین سے فرمایا تو سمٹ جا، فرشتوں سے فرمایا ناپ کے دیکھ لو کس جگہ کے قریب ہے، اللہ کی شان اللہ نے اس کے قدم اٹھانے پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ امت کی نقل حرکت جاری پانی ہے :-*
*★_ مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ فرماتے تھے خروج اور نقل حرکت یہ تو مغفرت کا یقینی راستہ ہے، اس امت کو متحرک بنایا گیا تھا، ایسے فضائل ہیں خروج و نقل حرکت کے کہ یہ امت قیامت تک چین سے بیٹھ نہ سکے، تبلیغ مدرسہ نہیں ہے جس میں تعلیم کر کے فراغت حاصل ہو جائے بلکہ نقل حرکت امت کو ہدایت پر لانے اور خود اپنے اعمال میں کمال پیدا کرنے کے لیے ہے،*
*★_ حضرت کا ملفوظ ہے, عجیب بات فرمائی مغفرت, اللہ کے راستے میں ایک مرتبہ سر درد ہو جائے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اللہ کے راستے میں پیدل چلنا آگ کو حرام کر دیتا ہے، اللہ کے راستے میں موت آ جائے تو کہنا ہی کیا، فرمایا جہاں مرا ہے وہاں سے نکلنے کی جگہ کے درمیان ایک موتی کا محل تراش کر اللہ عطا فرماتے ہیں، اتنا بڑا موتی کہ جہاں سے نکلا ہے جہاں آ کر مرا ہے،*
*★_ بلکہ اس سے آگے یوں فرمایا اگر اللہ کے دین کے تقاضوں پر اس کے دین کو سمندر پار پہونچانے کے لیے یہ فضیلت بیان کی ہے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ جہاں تک خشکی ہے وہاں تک چلو، فرمایا جو اللہ کے دین کے پیغام کو لے کر سمندر سے بھی سفر کرتا ہے اور موت آ جائے تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتے ہیں اس کی روح میں خود نکالوں گا، (اللہ اکبر)*
*★_ یہ فضائل کیوں بتائے گئے تھے ؟ تاکہ امت متحرک رہے، امت کی نقل حرکت جاری پانی کی طرح ہے، جاری پانی پاک رہتا ہے، پاک کرتا ہے، اسی طرح امت کی نقل حرکت امت کی طہارت کا، امت کے لیے مغفرت کا، امت کے لیے تزکیہ کا، ہدایت کا بنیادی ذریعہ ہے،*
*★_ امت امت محمدیہ ہے, اس امت کی ذمہ داری با اعتبار عالم کے ہے, یہ امت اپنی ذات سے نہیں ہے, یہ امت امت ہے با اعتبار امت ہے، ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں، پیر کا زخم پیر کا نہیں ہے خدا کی قسم یہ اس کے پورے بدن سے متعلق زخم ہے، اس زخم سے پورا بدن متاثر ہوگا، ایک علاقے کی بے دینی سے پورا عالم متاثر ہو، اس حدیث کا اصل مفہوم ہے، اس لیے پورا مجمع اس کا عزم کرے کہ اس کام کو کام بنا کر رہنا ہے با اعتبار عالم کے، دین قائم ہو یہ اس امت کی ذمہ داری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں امت کو یہ کام با اعتبار عالم کے ملا ہے، (الحمدللہ)*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ خیر کا موقع قبولیت کا امتحان :-*
*★_ خیر کا موقع مل جانا یہ قبولیت کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ موقع قبولیت کے امتحان کا ہوتا ہے، اس امتحان میں جو اپنی ذات کی ہر اعتبار سے نفی کر کے اللہ تعالی کے اوامر کو یقین کی بنیاد پر قبول کر لیتا ہے وہ تو اللہ رب العزت کے یہاں نبوت کے کام کے لیے خلیفہ منتخب کر لیا جاتا ہے اور جو اس امتحان میں فیل ہو جاتا ہے باوجود قرب کے، باوجود قوت کے، باوجود قربانیوں کے، باوجود ذمہ داریوں میں چلنے کے بڑے بڑے درجے اور بڑے بڑے مقام سے گرا دیا جاتا ہے، اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے،*
*★_ اللہ رب العزت ایک ایک فرد کا براہِ راست امتحان لیتے ہیں کہ اس کام میں جو زمہ داری اس پر ڈالی گئی ہے، اس ذمہ داری کے ادا کرنے میں اس کا خود بذات خود اپنے کام پر یقین کتنا ہے، امتحان کسی نئے ادمی کا نہیں امتحان پرانوں کا لیا جاتا ہے اور امتحان دور والے کا نہیں قریب والے کا لیا جاتا ہے اور امتحان کسی چھوٹے کام کرنے والے کا نہیں بڑا کام کرنے والے کا لیا جاتا ہے، کوئی کتنا بھی اگے بڑھ جائے, کوئی کتنا بھی پرانا ہو جائے, خدا کی قسم امتحان لیے بغیر اللہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے,*
*★_ابراہیم علیہ السلام نے اس طرح کے تمام امتحانات میں کمال کو پہنچ کر دکھایا، دو لائن سے اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو امتحان میں مبتلا کیا، ایک احکام شریعت میں اور دوسرا امتحان احکام دعوت میں، ابراہیم علیہ السلام نے دونوں اعتبار سے حکم پورا کر کے دکھلایا، اللہ نے فرمایا اب ہم تمہیں امام منتخب کرتے ہیں،*
*★_ اس کام میں جو احکام ائیں گے وہ کبھی حیثیت کے خلاف، کبھی احکام ائیں گے معمول کے خلاف، کبھی احکام ائیں گے اپنے اچھے جذبے کے خلاف، امتحان کا سلسلہ اللہ ربل عزت کا اوپر سے چل رہا ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ نبی کے حکم کا انکار :-*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صاحب کھانا کھا رہے تھے، بائیں ہاتھ سے لقمہ لیا، اپ نے فرمایا دائیں ہاتھ سے کھاؤ، بعض مرتبہ بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انہیں کسی غلط کام سے روکا جائے تو ان کو یہ روکنا اتنا ناگوار ہوتا ہے کہ وہ کوئی چھوٹا عزر پیش کر دیتے ہیں یہ بتانے کے لیے کہ آپ نے مجھے جو ٹوکا ہے غلط ٹوکا ہے، میں معذور ہوں،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اسے یہ خیال ہوا کہ مجھے سب کے سامنے کیوں ٹوک دیا، اس نے عزر پیش کیا، عزر اس لیے پیش کیا تاکہ آپ کا ٹوکنا بے اثر ہو جائے، انہوں نے اس امر کو حقیر سمجھ کر کہا کہ میرا دایاں ہاتھ اٹھتا نہیں ہے، روایت میں ہے کہ جو آپ نے بد دعا دی، آپ نے فرمایا- اللہ کرے تیرا یہ ہاتھ ائندہ کبھی نہ اٹھے، روایت میں ہے کہ اس کو دائیں ہاتھ سے کھانے سے صرف تکبر نے روکا تھا ورنہ عذر کوئی نہیں تھا،*
*★_ یہ کوئی فرض نہیں یا واجب نہیں, بائیں ہاتھ سے کھانا کوئی کبیرہ گناہ نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خلاف سنت ہے اور خلاف سنت ہونا ہی خلاف دین ہے، خلاف سنت عمل ہونا دین کی مخالفت کے لیے کافی ہے، فرائض سے اختلاف تو کفر کی علامت ہے لیکن سنت کی مخالفت اصل بے دینی ہے،*
*★_ کتنے ہی کام ایسے ہیں جنہیں کرنے کو کہا جاتا ہے اور ہم ہلکا سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک داہنے ہاتھ سے کھانے کی سنت کا بھی یہ کہہ کر انکار کرے اس وقت میں یہ نہیں کر سکتا اور یہ اپنے عزر میں جھوٹا ہو تو میرے دوستوں عزیزوں! جو بد دعا محرومی اس وقت ہے وہ محرومی اس وقت کے لیے نہیں ہے ہمیشہ کے لیے ہے، یہ بہت غور کرنے کی بات ہے اتباع سنت کوئی معمولی چیز نہیں ہے،*
*★_ اللہ مجھے معاف فرمائے یہ عام مزاج ہے اس وقت کہ اگر کسی کو غلطی پر ٹوکا جاتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ کوئی ایسا عذر پیش کروں جس سے ٹوکنے والے کا ٹوکنا غلط ثابت ہو جائے، حالانکہ ایک ادمی کے اخلاصے اور ایک آدمی کے اللہ کے ہاں مقبول ہونے کی علامت ہے کہ ٹوکنے والے کو اپنا محسن سمجھیں بلکہ اپنے کو ٹونکنے والے لوگ تیار کرکے رکھیں کہ اگر مجھ سے خطا ہو تو مجھے ٹوک دیا جائے، اس لیے کہ مخلص آدمی کی علامت یہ ہے کہ ٹوکنے والے کو اپنا محسن سمجھے گا اور ریاکار ٹوکنے والے کو اپنا دشمن سمجھے گا اور تعریف کرنے والے کو دوست سمجھے گا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اللہ کے حکم کا انکار _,*
*★_سب سے زیادہ اللہ تعالی کے مقرر اور نیک بندے وہ ملائکہ ہیں, اللہ تعالی نے امتحان اور حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں، سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اللہ کے امر کا انکار کیا اور یہ انکار اللہ کا انکار نہیں ہے اس کے امر کا انکار ہے، یاد رکھو اللہ کا حکم اور نبی کا حکم وہ اگرچہ ایک معمولی چیز کے لیے بھی ہو لیکن اگر بطور کبر کے کسی حکم کا انکار کیا، انکار ہی نہیں کیا بلکہ جھوٹا اجر بھی پیش کر دیا تو یہ محرومی کے لیے کافی ہے،*
*★_ اللہ رب العزت حکم دیتے ہیں آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا، سب نے سجدہ کیا، ابلیس نے انکار کر دیا اور یہ کہا آپ میرے ساتھ معاملہ وہ کریں جس کا میں اہل ہوں، سارا جھگڑا ہی اس بات پر ہے کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو اس کے مقام پر رکھا جائے، سب سے پہلی محرومی ابلیس کی ہوئی ہے، اس کی اصل بنیاد ہی یہی ہے، مجھے میرے مقام پر رکھا جائے، میرے ساتھ زیادتی ہے کہ مجھے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے،*
*★_ یہ پہلا امتحان تھا جو اللہ نے فرشتوں کا لیا کہ اب تک کے قرب سے اور اب تک کی عبادت سے اطاعت پر کتنا ائے، اگر بذات خود کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا تو کون انکار کرتا، مگر سجدے کا حکم نئے کے لیے جو مٹی سے بنے ہیں، ادھر نورانیت ہے ادھر مٹی ہے لیکن حیثیت اللہ کے امر کی ہے،*
*★_ اگر اللہ تعالی کے عوامر معمول کے مطابق ائے ان کا پورا کرنا اطاعت کا کمال نہیں ہے، اللہ تعالی کے احکام معمول کے خلاف ائے ان کا پورا کرنا طبیعت کے خلاف ہو یہ اطاعت کا امتحان ہے، چنانچہ اس امر کے پورا نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو وہاں سے نکال دیا گیا اور یہ ایک حقیقت ہے جو کسی خیر سے محروم کیا جاتا ہے وہ اپنی تنہائی کو برداشت نہیں کرتا، وہ قسم کھا لیتا ہے کہ میں جس خیر سے محروم ہوا ہوں، میں آدم اور اولاد آدم کو بھی اس خیر سے محروم کرنے کی پوری کوشش کروں گا،*
*★_ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ ایک عجیب بات فرما گئے, فرماتے تھے- جب اللہ کے عوامر، اللہ کے احکام کو دنیاوی مسئلے کی وجہ سے چھوڑا جاتا ہے تو دین بے لذت ہو جاتا ہے، جس طرح اگر مصالح کو پیسا جائے تو کھانے میں لذت ہوتی ہے، اسی طرح مصالح کا پیسنا اور مصالح کو کچلنا اللہ کے امر کو پورا کرنے کے لیے اسی میں دین کی لذت ہے، لوگ مسئلے کی وجہ سے دین چھوڑتے ہیں حالانکہ مسئلے کو پیسا جاتا ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ حکم اچھے جذبے کے خلاف :-*
*★_ کبھی ائے گا حکم حیثیت کے خلاف جیسے حکم دیا ابلیس کو، یہ اس کی حیثیت کے خلاف تھا، اس نے امر کو نہیں دیکھا حیثیت کو دیکھا، دوسرا حکم اللہ لائیں گے اپنے اچھے جذبے کے خلاف،*
*★_ حدیبیہ میں امر آیا کہ اپ کو یہاں سے واپس ہونا ہے اللہ کا حکم ہے, تمام شرائط مشرکین مکہ کی مانو، مشرکین نے کہا ہم رسول اللہ نہیں لکھنے دیں گے، عمرہ نہیں کرنے دیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر اڑ گئے، کیوں ہم دب کر صلح کریں ؟ کیوں نہ ہم عمرہ کریں ؟ بیت اللہ کسی کی جاگیر نہیں ہے، سب اتے ہیں، حج کرتے ہیں، طواف کرتے ہیں ،*
*★_ عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کا اتنا مجمع حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ان کے درمیان سب کی ایک بات وہ ایسی تھی کہ اگر کسی جذبے کی وجہ سے کوئی شخص یہ کہتا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں اور وہ شخص کسی کے پاس جاتا اس کی رائے کو اپنی رائے کے ساتھ شامل کرنے کے لیے تو وہ کہتا کہ نہیں عمر اللہ، اللہ کے رسول کا حکم یہ ہے، صحابہ میں اپس میں اتنی اجتماعیت تھی،*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جذبہ عمرہ کرنے کا، جس کے پاس جاتے وہ کہتا عمر اللہ کا امر، اللہ کا حکم، عمر کہتے کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ حق کا تقاضہ کیا ہے, حق کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا پورا کرو, فرمایا کیا عمرہ اللہ کا امر نہیں ہے, فرمایا لیکن اس وقت کا تقاضہ کیا ہے، حکم کیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے میں نے پوری زندگی اعمال اور صدقات کیے اے اللہ میرا اس دن کا گناہ معاف کر دے،*
*★_ جذبے کے خلاف حکم کو لا کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس پورے مجموعہ میں کوئی ایک فرد بھی ایسا ہے جو نبی کے امر کے خلاف جذبہ رکھتا ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا صحابہ کو اطاعت پر ابھارا تھا کہ نہیں اللہ، اللہ کے رسول کے حکم کے مقابلے میں کوئی نہیں، عبادت پر اٹھایا تھا لیکن یہ نہیں کہ عبادت میں ہمارے ساتھ اور معاملات میں ان کے ساتھ، ہمیں تو اطاعت کا ایسا عادی بنایا گیا تھا کہ ایک طرف ساری قوم اور ایک طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ حکم معمول کے خلاف :-*
*★_ حدیبیہ اچھے جذبے کو قربان کرنے کا موقع تھا حکم پر, اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم نے ہمارے امر کو پورا کیا اپنے جذبے کے خلاف, ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا, فتح دی حالات کے خلاف،*
*★_ ایک حکم ائے گا معمول کے خلاف, ایک معمول چلا آ رہا تھا کہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی جاتی تھی, حکم آگیا آپ رخ پھیر لیجئے بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف, صحابہ نے فوراً رخ پھیر لیا, یہ نہیں کہ کیا ضرورت ہے, یہ بھی نہیں کہ کوئی حرج نہیں جن کا دل چاہے ادھر پڑھ لے جن کا جی چاہے ادھر پڑھ لے اختلاف سے بچنے کے لیے،*
*★_ امت کی اجتماعیت یہ نہیں ہے کہ آپ ایسا کر لیں ہم ایسا کر لیں, امت کی اجتماعیت یہ ہے اپنے جذبے کو چھوڑ کر اللہ اللہ کے رسول کے حکم پر سب جمع ہو جائیں,*
*★_عجیب بات ہے, ظہر کی نماز کے درمیان حکم ایا, اللہ نے کیوں کیا؟ اس لیے کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے کون قبلہ اول پر باقی رہتا ہے, کون اپنے نبی کے ساتھ رخ پھیر لیتا ہے, یہ امتحان کی شکلیں ہیں,*
*★_ اطاعت کی وجہ سے اجتماعیت ہے, اگر اطاعت نہیں ہے تو اجتماعیت نہیں ہے, اس اجتماعیت میں کیا رکاوٹ ہے، رکاوٹوں کے کیا اسباب ہیں، لوگ اس کا سبب تلاش کرتے ہیں لیکن آپس کے اختلاف پر غور نہیں کرتے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __دعوت کے کام میں تقسیم کار نہیں ہے :-*
*★_ صحابہ کرام کی بڑی صفت یہ تھی کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو بھی اگر آگے بڑھتے دیکھتے تو وہ چاہتے تھے ان کے ساتھ لگ جاؤ، اس وقت اللہ ان سے کام لے رہا ہے، اللہ ہم سے بھی کام لے لے،*
*★_ یہ چیز صحابہ کی زندگی میں عام طور پر ملے گی, سینیئر کون؟ جونیئر کون؟ یہ چیز نہیں ملے گی, سب ایسے اجتماعی کام میں مشغول ہیں کہ وہاں تقسیم کام نہیں ہے، کون کس درجے کا ہے سب کام میں لگے ہوئے ہیں، اپ دیکھیں صحابہ کی سیرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسے شامل ہیں صحابہ کرام کے ساتھ کہ تقسیم کار نہیں ملیں گی،*
*★_ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم اپنے اپنے دور خلافت میں ایک اپاہج بڑھیا کا پاخانہ صاف کر کے اور کپڑے دھو کر آتے تھے، طلحہ رضی اللہ عنہ اس ٹوہ میں لگے کہ رات کو اس بڑھیا کے گھر کیوں جاتے ہیں، پتہ چلا آج سے نہیں سالہا سال سے ا رہے ہیں، ان سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ اتے تھے،*
*★_ یہ بات نہیں تھی کہ کس کے کرنے کا کیا کام ہے؟ ایک ایسا مجموعہ تھا کہ جہاں مسجد نبوی کی تعمیر میں صحابہ پتھر اٹھا رہے تھے, پتھر اٹھانے میں آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اٹھانے والوں میں شامل ہیں, تقسیم کام نہیں تھا, درجات نہیں تھے, اللہ تعالی کے یہاں تو بڑے بڑے اونچے درجے ہیں, سید الانبیاء ہیں, امام الانبیاء ہیں, لیکن اس میدان میں ایسے رہتے تھے کہ اجنبی آدمی کو آ کر پوچھنا پڑتا تھا کہ تم میں محمد کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تعارف خود کراتے تھے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ تقسیم کار سے حسد پیدا ہوتا ہے:-*
*★_ تقسیم کار سے حسد پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو یہاں پہنچ گیا ہم یہیں رہ گئے، لہذا ہمیں وہاں پہنچاؤ یا اسے وہاں سے اتارو، یا تو ہم سے وہ کرو جو ان سے کام لے رہے ہو یا ان کو وہاں لاؤ جہاں ہمیں رکھا ہے، ساری استعمایت کے ٹوٹنے کا اصل سبب یہ ہے، صحابہ کی زندگی میں یہ چیز نہیں ملے گی بلکہ بڑے چھوٹوں سے استفادہ کرتے تھے،*
*★_ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس امت کے سب سے بہترین بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت تو ایسی صحبت ہے جس کا انکار کفر ہے, باقی صحابہ کی صحبت کا انکار فاسق تو ہے ہی, حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ دونوں بیت اللہ کا طواف کر کے نکلے تو دیکھا کہ ایک نوجوان اپنی پیٹھ پر اپنی ماں کو لے کر طواف کے لیے جا رہا ہے,*
*★_ دونوں نے کہا ایک دوسرے سے کہ چلو اس کے پیچھے، اس ماں کو طواف کرانے میں جو اللہ کی طرف سے رحمت خاص متوجہ ہوگی اس کی طرف، اس سے ہمیں بھی کوئی فائدہ ہو جائے گا، یہ نہیں کہ ہمارا درجہ کہاں اس کا درجہ کہاں، ہماری دعائیں کہاں اس کی دعا کہاں ؟*
*★_ واپس آ کر دونوں چلتے رہے اس کے پیچھے, چلتے چلتے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اس نوجوان سے کہ عمر کی مغفرت کی دعا کر دو، اس نے اپنی ماں کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ عمر کے بھی گناہ بخش دے،*
*★_ یہ ہے میں نے ایک مثال دی ہے کہ چھوٹوں سے خیر لینے کی تلاش میں بڑے ہمیشہ رہا کرتے تھے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اپنے آپ کو کسی تقاضے کا اہل نہ سمجھیں،*
*★_ اسی طرح جو تقاضے دیے جاتے تھے اپ کی طرف سے ان تقاضوں پر صحابہ اپنے اپ کو پیش کرتے تھے, اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی تلوار نکالی اور فرمایا اس تلوار کو کون لے گا، ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی تقاضا پیش کیا جاتا ہے تو اس تقاضے کے اہل پرانے ہی ہوا کرتے ہیں، حضرت عمر کھڑے ہوئے، آپ نے تلوار ان کو نہیں دی، دوبارہ فرمایا اس تلوار کو کون لے گا، حضرت جبیر کھڑے ہوئے، فرمایا نہیں، آپ نے تلوار ان کو بھی نہیں دی،*
*★_ تیسری مرتبہ فرمایا- اس تلوار کو کون لے گا جو اس کا حق ادا کرے، یہ نہیں کہ پرانے زیادہ مستحق ہیں، یہ بات نہیں اس لیے کہ اپنے آپ کو حقدار تو وہ سمجھے گا جس کے دل سے خوف خدا نکل چکا ہوگا، اللہ رب العزت ہمیں اس استحقاق سے سب کو بچا کر ہمارے اندر محتاج گی پیدا کر دے (آمین )*
*★_ محتاج ترقی کرے گا، ہمارے ہاں مطالبہ نہیں ہے کہ ہمیں دے دو، ہاں پیش کرنا ہے اپنے آپ کو ڈرتے ہوئے، اپنے آپ کو کسی تقاضے کا اہل نہیں سمجھنا ہے، حضرت فرماتے تھے- جو اپنے آپ کو اہل سمجھتا ہے اللہ اس سے نصرت کا ہاتھ اٹھا لیتے ہیں (کہ چل اب کر کے دکھا)،*
*★_ اپنے اپ کو محتاج بنا کر چلا جائے، احتیاج کچھ نہیں ہم محتاج ہیں، ہماری ضرورت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی تلوار دی تو یہ دونوں (حضرت عمر اور حضرت جبیر رضی اللہ عنہم) پیچھے ہٹ گئے, حق ادا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں, ابو دجانہ کھڑے ہوئے عرض کیا تلوار مجھے دیجیے میں اس کا حق ادا کروں گا، اپ نے تلوار ان کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم نئے ہو، بہت قصے ملیں گے صحابہ کرام کے کہ جہاں بڑوں کے ہوتے ہوئے چھوٹوں سے کام لیا ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ صلاحیت شرط نہیں :-*
*★_ اللہ کی طرف سے انتخاب ہوتا ہے, اللہ خود چنتے ہیں انسانوں اور فرشتوں میں سے اپنے کام کے لیے،*.
*★_ اللہ کی طرف سے انتخاب کا ہونا اس میں صلاحیت شرط نہیں ہے, حضرت فرماتے تھے اللہ تعالی نے ابابیل سے ابراہا کے لشکر کو ختم کرنے کا کام لیا تو کیا تم ابابیل سے حسد کرو گے کہ ہمارے ہوتے ہوئے ابابیل سے کیوں کام لیا, ایک کمزور پرندہ جو اڑتے ہوئے اپنے اپ کو چھپا لے، اللہ تعالی نے ابابیل کی چونچ کے کنکر سے (چونچ میں کتنی بڑی کنکر اتی ہے) ابراہا کے سارے لشکر کو بھرتا بنا دیا،*
*★_ کام ہے اللہ تعالی کا، اس کے یہاں مادی طاقت، صلاحیت شرط نہیں ہے، اسے قدرت ہے کہ وہ چھوٹوں سے بڑا کام لے لے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اپنے ساتھیوں کا تعاون کرو خیر کے کاموں میں :-*
*★_ حسد ایک دوسرے کا تعاون نہیں ہونے دیتا، ایک دوسرے کا مقابل بنا دیتا ہے، یہ دعوت کا کام ایک دوسرے کے آپس کے تعاون سے چلے گا تقابل سے نہیں، دنیا کے کام تقابل سے چلتے ہیں، دین کے کام میں تنافس ہے تقابل نہیں، تنافس یہ ہے کہ اگر قبیلہ اوس کو معلوم ہو جائے کہ خزرج نے کوئی خیر کا کام کیا ہے اللہ کے نبی کی مدد میں، تو اوس خزرج سے بڑھ کر کرتے تھے، اس لیے میرے دوستو عزیزوں ! حسد کی گنجائش نہیں ہے اپنے ساتھیوں کا تعاون کرو خیر کے کاموں میں،*
*★_ حدیث میں اتا ہے مدد کرو ظالم کی بھی مظلوم کی بھی، فرمایا ظالم کی مدد کیسے کریں ؟ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکو، صحابہ کرام کے نام ایک دوسرے کا تعاون کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے قلوب حسد سے پاک تھے، ایک دوسرے کے تعاون سے کام اگے بڑھے گا، دلوں کا حسد سے پاک ہونا اور ساتھیوں کے لیے دلوں کا نرم ہونا بہت اہم ہے، اللہ نے اس کو رحمت فرمایا ہے،*
*★_ سارے خیر کے کام اللہ کی رحمت سے ہیں, جتنا فساد جتنا بگاڑ ہے یہ سب اللہ کے غصب کے مظاہر ہیں, یہ (دعوت کا) کام سب سے بڑی خیر لانے والا کام ہے اس سے بڑی خیر کسی اور راستے سے نہیں آ سکتی، اس کا کے علاوہ جتنے خیر کے راستے ہیں ان سے جو خیر آئےگی وہ انفرادی، علاقائی سطح پر ائے گی لیکن اس نقل و حرکت سے جو خیر ائے گی وہ با اعتبار عالم کے با اعتبار امت کے ہوگی،*
*★_ ہمارے سب کے دلوں میں چور ہے, یہ دعوت الا اللہ کی محنت سے دوسروں کے اعتراض سے ساتھیوں کا یقین ٹوٹ جاتا ہے, یقین ہونا چاہیے, حضرت فرماتے تھے میں قسم کھا کر کہتا ہوں یہ دعوت کی محنت اور یہ ترتیب محنت سنت کے مشابہ ہی نہیں بلکہ عین سنت ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ حضرت جی رحمتہ اللہ کے بیانات کو خوب پڑھا کرو:-*
*★_ میں تم سے پرانوں سے کہتا ہوں حضرت کے بیانات خوب پڑھو, اتنا پڑھو اتنا پڑھو کہ کام پر وہ بصیرت وہ یقین ا جائے, جو حضرت کو خود کو یقین تھا, اگر یہ بیان نہیں پڑھو گے تو بہت سے فتنوں اور سازشوں کے شکار ہو جاؤ گے،*
*★_ اس زمانے میں جس طرح انسان کا مزاج نئی چیزوں کے لینے اور پرانی چیزوں کے چھوڑنے کا ہے, اللہ مجھے معاف فرمائے دین کے معاملے میں بھی یہی مزاج بن رہا ہے, یہ پرانی باتیں چھوڑو نئی بات کرو, لوگ فروحات کو اصل سمجھتے ہیں اصول کو بھول جاتے ہیں,*
*★_ میں تو آپ سے امانتاً کہتا ہوں آپ میں ماشاءاللہ بہت سے بیانات کرنے والے ہوں گے کہ جس کے ذمے صبح کو یا شام کو بیان ہو، اس کو حضرت کے بیان پڑھے بغیر بیان کرنا دعوت کی نسبت سے کام کے ساتھ خیانت ہے، یہ ہٹ جائیں گے اپنے موضوع سے، نئے نئے بنایانات نئے نئے قصے کہانیاں مقاصد سے دور لے جائیں گے، انہیں احساس بھی نہیں ہوگا، اتنی دور لے جائیں گے اتنی دور چلے جائیں گے کہ جب انہیں بلایا جائے گا (حضرت کے بیانات پر اصول کی باتوں پر) تو یہ کہیں گے یہ نئی بات ہے تبلیغ میں یہ نہیں ہونا چاہیے،*
*★_ حضرت نے مولانا انعام الحسن صاحب رحمتہ اللہ سے فرمایا آخری دل کا دورہ پڑا تو مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجمع منتظر ہے( آپ کے بیان سننے کے لیے) اپ نے فرمایا ہمیں جو کچھ کہنا تھا مجمع سے وہ ہم نے کہہ دیا, اب تو کرنے کا زمانہ ہے, اس کے مطابق کہتے رہو، اس کے مطابق چلتے رہو،*
*★_ اشاعت اور مطالعہ کافی نہیں ہے جب تک کہ اس نقل حرکت سے عملی طور پر لانے کی کوشش نہ کی جائے اور اجتماعی مذاکروں میں حضرت کے بیانات بیان نہ کیے جائیں اور دعوت میں نہ لایا جائے اس وقت تک فائدہ نہ ہوگا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ میدان محنت تین ہیں :-*
*★_ دعوت کے بیانات میں ہیں، محنت ایک ہے لیکن میدان محنت تین ہیں، ایک صالحین والی محنت ہے، اپنی ذات پر محنت کرنا، ساری زندگی دین کے مطابق گزارنا، یہ محنت صالحین والی ہے، اس امت کی مدد صالحین والی محنت سے نہ ہوگی،*
*★_ دوسری قسم سے انبیاء علیہ السلام والی محنت, فرماتے تھے- اس امت کی مدد انبیاء والے طریقہ محنت سے بھی نہ ہوگی، اگر امت انبیاء والی ترتیب محنت کرے تب بھی اس کی مدد نہ ہوگی، کیونکہ یہ سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، یہ امت امت انبیاء نہیں ہے، یہ امت امت خاتم النبیین سید الانبیاء ہے،*
*★_ اس امت کی مدد کے لیے شرط ہے "إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ" ایک قوم ایک علاقہ ایک بستی, یہ انبیاء علیہ السلام کا میدان محنت ہے, اس امت کا میدان محنت یہ نہیں ہے, جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے اور انبیاء علیہ السلام کی شریعتوں کو منسوخ کیا ہے، اسی طرح آپ کی آمد نے اور انبیاء علیہ السلام کی میدان محنت کو بھی منسوخ کیا ہے،*
*★_ ہم چاہے انفرادی عبادت سے دین پھیل جائے گا, ایسا کبھی نہیں ہوگا, یہ امت امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے, اس امت کا میدان محنت با اعتبار اپ کی بعثت کے ہے کیونکہ امت اجتماعی طور پر اپ کی نائب ہے, کیونکہ آپ کی بعثت با اعتبار جماعت کے نہیں ہے، آپ کی بعثت با اعتبار امت کے ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ سید الانبیاء والی محنت :-*
*★_ تیسری محنت سید الانبیاء والی محنت ہے، امت با اعتبار امت کے جب ہوگی جب امت سید الانبیاء کے طریقہ محنت پر آوے اور یہی نہیں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج محنت پر بھی آوے،*
*★_ سارے انبیاء علیہ السلام نے نہ ماننے والوں کے لیے بددعا کرا کر اپنی قوم کو ہلاک کرا دیا، اپنی وہ دعا اے معجزات کو استعمال کر کے جو اللہ نے ہر نبی کو دی ہے، مگر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے اپنی دعائے معجزات کو قیامت تک کے لیے اٹھا کر رکھا ہے، ساری امت کو بخشوانا ہے، فرمایا روایت میں ہے کہ میں نے اس کو قیامت کے دن کے لیے چھپا کر رکھا ہے، وہاں امت کو بخشوانا ہے،*
*★_ آپ کی محنت میں جو اہم چیز ہے وہ امت کے طبقاتی فرق کو ختم کرنا ہے, امت کے ہر طبقے کو امت میں داخل کرنا, ہم طبقاتی محنت کو کام کے لیے مفید سمجھتے ہیں حالانکہ طبقاتی محنت امت کے طبقاتی فرق کو ظاہر کرتی ہے اور امت کی اجتماعیت اس میں ہے اور امت کی تربیت اس میں ہے کہ امت کا ہر طبقہ ہر طبقے میں ایسا داخل ہو جائے، امت کے تمام طبقات کا اپس میں ایسا جوڑ ہو جائے کہ زبانوں سے ساری نسبتیں ختم ہو کر صرف ایک امت ہونے کی نسبت باقی رہ جائے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _نرمی اور شفقت پیدا کرو :-*
*★_ سب سے اہم چیز یہ ہے- دلوں کے اندر نرمی شفقت پیدا کرو، تعلیم کا تعلق شفقت سے ہے، تعلیم کبھی مشقت سے نہیں دی جائے گی، حدیث بتا رہی ہے تعلیم باپ بن کر دی جائے، علم رفیق بن کر پھیلے گا، فریق بن کر نہیں، علم اگر فریق بن گیا تو امت کو جہالت میں ڈالے گا,*
*★_ ہمارے بڑوں سے بڑوں کا مزاج یہ رہا ہے کہ غلط کرنے والوں کے ساتھ بھی معاملہ شفقت کا کرو، اگر وہ نہیں مانتا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ اللہ رب العزت جس طرح قرآن کے محافظ ہیں اسی طرح قرآن کے اندر نافذ کیے جانے والے احکام کے بھی محافظ ہیں،*
*★_ امت گمراہی پر کبھی جمع نہیں ہے, اگر منکر سے روکنے کے لیے منکر طریقہ اختیار کیا گیا تو منکرات میں اضافہ ہوگا ختم نہیں ہوگا, منکر سے روکنے کے لیے معروف کا راستہ دیا گیا ہے, اس لیے منکر سے روکنے میں منکرات سے بچو,*
*★_ منکر کو روکنے کے لیے مسلمان کے منکر کو مشہور کرنے سے بچو ورنہ خدا کی قسم زنا کرنا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے جتنا زنا کی خبر کرنا بڑا گناہ ہے، زنا کرنے والے مرد عورت یہاں پردہ دو کے درمیان ہے، اس کی خبر کرنا، زنا کو پھیلانا یہ الگ گناہ ہے اور غیبت کرنا اس سے زیادہ شدید گناہ ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم:-*
*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ایک ادمی نے پیشاب کر دیا, صحابہ دوڑے روکنے کے لیے, آپ نے فرمایا نہیں اس کو پیشاب کر لینے دو، معاملہ شفقت کا کیا، اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بے ادبی کو چھوٹا کیا،*
*★_ ہماری طبیعتوں میں نفرتیں اور دنیا اتنی ہو گئی ہیں کہ ہمیں اصلاح کے طریقے اور اصول بھی معلوم نہیں, یہاں ایک مسجد میں پیشاب کرنے والے کے ساتھ بھی معاملہ شفقت کا کیا, اس نے پیشاب پورا کیا, اپ نے بلایا اور تعلیم دی, مسجد اس کام کے لیے نہیں بنی ہے..,*
*★_ یہ تو ایک عام ادمی ہے, ہم تو اصولوں کے چکر میں نہ جانے کتنے پرانوں کو ضائع کر دیتے ہیں, یہاں عام آدمی کے ساتھ میں یہ معاملہ, نہ مارنا ہے نہ ڈانٹنا ہے، اس کو سمجھانا ہے، کیونکہ ایک ایمان والے کا مقام بیت اللہ سے اونچا ہے اور ساری مسجدیں بیت اللہ سے ادنیٰ ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ نے نہ اس کو ڈانٹا نہ مارا بلکہ صحابہ سے فرمایا ایک ڈول پانی کا یہاں بہا دو،*
*★_ اس نے جا کر آپ کے طریقہ تعلیم کا اعلان کیا کہ آؤ سیکھو ان سے، یہاں ملے گا دین، یہ ہے سکھانے کا طریقہ،.. اس لیے اس کام کا یہ اصول ہے کہ جس سے جہاں غلطی ہو اس کو ایک طرف لے جا کر سمجھا دیا جائے،*
*★_ حضرت فرماتے تھے کہ اگر کسی کو کسی بات سے روکنا چاہتے ہو، پہلے اس سے اتنی محبت پیدا کر لو کہ اب یقین ہو جائے کہ محبت میں یہ انکار نہیں کرے گا، اس سے پہلے اگر ٹوک رہے ہو تو تمہاری نفسانیت غالب ہے اصلاح غالب نہیں،*
*★_ اگر تعلق پیدا کیے بغیر روک رہے ہو تو نفسانیت پر روک رہے ہو اصلاح مقصود نہیں، ورنہ یہ سوچتے کہ کونسا طریقہ ہے اس کے قریب ہونے کا، کون سا طریقہ ہے جس سے اس کا ہو کر پھر اس سے کہوں کہ یہ مت کر،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مومن کے لیے بدگمانی شیطانی فریب ہے:-*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے رحمت ہیں، آپ کی امت کا طریقہ بھی وہی ہے، بےشک صحیح بات بتاؤ، صحیح بات بتانے میں غلط طریقہ اختیار مت کرو، صحیح طریقہ اختیار کرو،*
*★_ مسجد میں امام سے سہو ہو گیا, جہاں لقمہ دینا تھا وہاں تو نہیں دیا اور بازار میں جا کر کہہ رہے ہیں امام صاحب نے نماز غلط پڑھائی, عجیب بات ہے جہاں نماز کا ماحول ہے وہاں تو لقمہ دیا نہیں جہاں بے نمازیوں کا ماحول ہے بازار ان بے نمازیوں میں بتا رہے ہیں کہ امام نے غلط نماز پڑھائی، بے نمازی جو پہلے سے بے نمازی ہیں یہ نماز پر کب ائے گا جب یہ سن رہا ہے کہ امام صاحب غلط نماز پڑھاتے ہیں ؟ یہ ( نماز پر ) کبھی نہیں ائے گا،*
*★_ یہ فساد کا راستہ ہے اصلاح کا راستہ نہیں ہے, ایک دوسرے کی بات کا جواب دینا ایسا ہے جیسے دو ادمی آگ کے سامنے بیٹھے ہیں اور دونوں کاغذ ڈالتے جائیں اگ میں، یہ آگ کبھی پوچھنے والی نہیں،*
*★_ سنی ہوئی بات کو اگے بڑھانے والے کو کذاب کہا ہے حدیث میں، سب سے بڑا جھوٹا ہے وہ جو سنی ہوئی بات کو اگے بڑھائے، حدیث میں عجیب بات فرمائی ایک ادمی آکر ایک بات تمہارے کان میں کہتا ہے، اس سے سب کے درمیان وہ بات پھیل جاتی ہے، کہنے والا کہتا ہے کس نے کہا تم سے ؟ حدیث میں ہے خدا کی قسم وہ شیطان تھا،*
*★_ دیکھنا چاہیے بدگمانیاں مومن کے بارے میں شیطانی فریب ہے, مومن کے بارے میں تو یہاں تک حکم ہے کہ اپنی آنکھ سے کسی کو ہوش میں زنا کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے تو اپنی آنکھ سے یہ کہے کہ تو نے غلط دیکھا ہے، مومی زنا نہیں کر سکتا، یہاں آنکھ سے دیکھ کر بھی جھٹلانے کا حکم ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مؤمن کے گناہ کو چھپاؤ :-*
*★_ نرم مزاج رہو تعلیم نرمی سے دو اور مؤمن کے گناہ کو چھپاؤ، مؤمن کے گناہ کو چھپانا ہی ماحول کو پاکیزہ رکھنا ہے،*
*★_ ایک صاحب نے آ کر عرض کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ میری لڑکی سے زنا ہو گیا اس کا کنوارا پن ختم ہو گیا، آج اس کی شادی کا پیغام ایا ہے کہیں سے، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی لڑکی کا حال لڑکے والے کو بتا دے، پوچھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ اے امیر المومنین کیا ہم لڑکی کا عیب لڑکے والے کو بتا دیں ؟*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے لڑکی کا حال لڑکے والوں کو بتایا تو میں تمہیں اتنی سخت سزا دوں گا کہ سارے ممالک جہاں تک اسلام پھیل چکا ہے ان کے لیے تمہاری سزا عبرت بن جائے گی، اس کی شادی ایسے کرو جیسے پاک دامن لڑکی کی کرتے ہیں (اللہ اکبر )*
*★_ ہم تو منتظر رہتے ہیں کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو جلدی سے آم کرو ( جلدی سے اس کا چرچہ لوگوں میں کرو) تاکہ یہ اس کے مقام سے گر جائے, خدا کی قسم مؤمن کو ذلیل کرنے والا اللہ کی نظر سے پہلے ہی گر چکا ہے, جو اللہ کی نظر سے پہلے ہی گر چکا ہے، وہ کسی کو گرانے میں کیا کامیاب ہوگا ؟*
*★_اس لیے بے شک "نہیں انل منکر" ( برائی سے روکنا ) ایک بڑا فریضہ ہے لیکن اس فریضے کا خدا کی قسم اس طرح متعین طریقہ ہے جس طرح نماز کا متعین طریقہ ہے، جس طرح نماز اپنے طریقے سے ہٹ کر فساد پیدا کرے گی اس کے اور اللہ کے تعلق کے درمیان، لیکن منکر کے طریقے کا بگاڑ یہ فساد پیدا کرے گا اس کے اور امت کے درمیان،*
*★_ اس لیے فرمایا مؤمن کے فعل کی تاویل کرو، تاویل کے کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ کہ پوری کوشش اس بات پر لگا دو کہ مؤمن کا گناہ ثابت نہ ہو، اسے کہتے ہیں تاویل کرنا،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ہم فرشتے نہیں ہیں :-*
*★_ ہم فرشتے نہیں ہیں انسان ہیں, انسان کے لیے بھولنا آدم علیہ السلام سے چلا ا رہا ہے, بھول گئے لیکن ہم نے بھولنے والے کو اپنی بھول پر اکڑنے والا نہیں پایا، آدم علیہ السلام اپنی بھول پر اکڑنے والے نہیں تھے، شیطان غلطی پر اڑنے والا تھا،*
*★_ گناہ کا اعتراف کرنے والوں کے لیے اللہ کے یہاں قبولیت ہے, اڑنے والوں کے لیے محرومی ہے, ساتھی فرشتے نہیں ہیں, یہاں سارا فساد اس طرح ہے فلاں کو ایسا ہونا چاہیے, فلاں کو ایسا ہونا چاہیے, اس نے ایسا کیا ہے... جب اس پر آ جاؤ گے تو اگلا قدم کیا ہوگا ؟ اگلا قدم یہ ہوگا کہ تم بھی غلط ہو, وہ کہے گا تم بھی غلط ہو, ایک دوسرے کو غلط ٹھہراتے رہیں گے, امت بکھرتی چلی جائے گی, یہ راستہ فرقے بناتا ہے, جب ایک دوسرے کو غلط ٹھہراتے ہیں, امت کہاں جائے گی ذرا سوچیے ؟ فرمایا جب کسی ساتھی سے غلطی ہو جائے اس کی قربانیاں اس کے محاسن یاد کرو,*
*★_ مومن کے فعل کی تاویل کا حکم اس لیے تھا تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو دیکھ کر غیر تمہارے یہاں انے کی حرص کریں، عزت یہاں ملے گی، محبت یہاں ملے گی، جاں نثاری یہاں ملے گی، خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کی مختلف جامعاتیں ایک دوسرے کے فیل اور قول کی تاویل نہیں کرے گی ایک دوسرے کے عمل کی تائید نہیں کریں گی، امت میں اجتماعیت نہیں ہوگی،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ غلطی کو نہ دیکھوں غلطی کرنے والے کو دیکھو :-*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے دیکھا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے یہ کون ہے ؟ غلطی کو نہیں دیکھ رہے ہیں غلطی کرنے والے کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ کون ہے ؟ ہم غلطی کرنے والے کو نہیں دیکھتے غلطی کو دیکھتے ہیں کہ غلطی کیا ہے،*
*★_ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ پر حملے کا راز فاش کر دیا مشرکینِ مکہ پر، اس سے بڑی غلطی کوئی نہیں، اللہ نے اپ پر وحی کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے اس کو قتل کر دیں، فرمایا عمر یہ بدری صحابی ہے، اللہ کہہ چکا ہے کہ بدر والوں جو چاہو کرو اللہ تمہیں معاف کر چکے ہیں،*
*★_ میرے دوستوں ! ہمیں نہیں معلوم کس کی قربانی کس درجے پر ہے، ہم یہ کہہ کر کسی کو نکال دیں، میری بات یاد رکھنا (دعوت کے) کام سے نہ کسی کو نکالا گیا ہے نہ خدا کی قسم کسی کو نکالا جائے گا, ہاں ڈرنا ہمیں سب کو چاہیے, مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ کا ملفوظ ہے کہ یہ کام ایسا سمندر ہے جو مری مچھلی کو خود باہر پھینک دیتا ہے،*
*★_ غلطی کس سے نہیں ہوتی صحابہ کرام کے واقعات پر غور کرو, آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ غلطی کیا ہے غلطی کرنے والے کو دیکھا,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ساتھیوں کے ساتھ اچھا گمان رکھو :-*
*★_ ایک عام کام کرنے والے سے لے کر پرانے سے پرانے تک ہر ایک کے ساتھ اپنا گمان اچھا پیدا کرو، شیطان وساوس پیدا کرے گا، جھوٹی خبریں لے کر ائے گا، اس پر بڑے بڑے قدم اٹھا لینے جائیں گے، اس لیے کہ منافق کو امت کی اجتماعیت اور امت کی اطاعت، امت کا فرائض پر جمع ہونا یہ چیزیں برداشت نہیں ہوتی،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے ایک صحابی کو بھیجا، تنہا ایک صحابی امانت دار اتنے تھے کہ زکوٰۃ وصول کرنے میں خیانت کا کوئی اندیشہ نہیں، قبیلے والوں کو پتہ چلا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آ رہا ہے، اس قاصد کے اکرام میں، اس کے استقبال میں پورا قبیلہ اپنی بستی سے نکل کر باہر آ گیا، زکوٰۃ دینے کی اتنی رغبت اور اتنی خوشی کہ اپنا عمدہ مال چھانٹا زکوٰۃ کے لیے،*
*★_ صحابی کو جو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے جا رہے تھے، آدھے راستے پر ایک منافق ملا، تمہیں حالت کی خبر بھی ہے کیا ہو رہا ہے ؟ پورا قبیلہ تمہیں قتل کرنے کے لیے باہر آگیا ہے بستی سے, صحابی کو اس جھوٹی خبر نے آدھے راستے سے واپس کر دیا اور آکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو گیا تھا زکوٰۃ وصول کرنے، خبر یہ ہے کہ پورا قبیلہ مجھے قتل کرنے کے لیے باہر نکل ایا اور پورا قبیلہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرتا ہے،*
*★_ مشورہ ہوا کیا کرنا چاہیے، حالات کچھ نہیں حقیقت کچھ نہیں، مشورہ ہو گیا، صحابہ بیٹھ گئے اس فکر میں اور آپس میں طے ہو گیا کہ راتوں رات حملہ کیا جائے قبیلے پر، وہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے وحی کا سلسلہ نازل ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی بلکہ عجیب بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب نہیں کیا بلکہ سارے ایمان والوں کو مخاطب کیا کہ فاسق و منافق ائے گا تمہارے پاس خبر لے کر، تم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اس کی خبر کی تحقیق کر لیا کرو،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ اپنی رائے پر اسرار نہ ہو :-*
*★_ اگر پورے میدان دعوت کے کسی ایک علاقے میں بھی اختلاف ہوگا تو وہ علاقائی اختلاف نہیں ہوگا بلکہ یہ عالمی اختلاف ہوگا،*
*★_ اطاعت اس کا نام نہیں ہے کہ فلاں مانتے ہیں فلاح نہیں مانتے بلکہ اطاعت اس کا نام ہے کہ اجتماعی طور پر اطاعت ہو, ہمیں اطاعت کے لیے بہترین چیز مشورہ دیا ہوا ہے, ہمارا مشورہ سارے امور دعوت کے لیے اس طرح بندھن ہے جس طرح نماز پر جمع ہونا تمام ارکان اسلام کے لیے ہے،*
*★_ اس لیے مشورے کا اہتمام کرو، مشورہ کبھی نہ چھوڑو، سو اختلاف ایک طرف خدا کی قسم اس سو اختلاف سے مشورہ چھوڑ دینا زیادہ شدید ہے، اپنی رائے پر اسرار نہیں ہونا چاہیے، جہاں تین سو کو (رائے پر اسرار نے) مدینہ میں روک لیا (حدیبیہ میں نکلنے سے) اطاعت والے 700 غالب آ گئے، پانچ فیصد نے نافرمانی کی (جنہوں نے اپنی متعین جگہ کو یہ سمجھ کر چھوڑ دیا کہ اب تو فتح ہو گئی, سب مال غنیمت لوٹ رہے ہیں) ان پانچ فیصد کی نافرمانی سے سو فیصد (فتح کے باوجود) پھر ابتلا میں اگئے کہ جو چیز تم چاہتے تھے فتح تمہارے ہاتھ میں آتے آتے واپس چلی گئی,*
*★_ جہاں اطاعت ہوگی خیر باقی رہے گی, جہاں نافرمانی ہوگی اللہ تعالی خیر کے ہاتھ میں آنے پر فوراً چھین لینے پر قادر ہیں,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مزاج نبوت کے بغیر دعوت مؤثر نہیں :-*
*★_ سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی شعبے ہیں تجارت, کا زراعت کا، حکومت کا، ان تمام شعبوں میں ان شعبوں کو لے کر چلنے والے ہر شعبے میں اپنا مزاج رکھتے ہیں، تاجر کا ایک مزاج ہے گراہک سے کیسے پیش انا ہے، حاکم کا ایک مزاج ہے کہ رعایہ کے ساتھ کیسے پیش انا ہے لیکن ان تمام قسم کے لوگوں کو دعوت ال اللہ میں مزاج نبوت پر انا پڑے گا،*
*★_ خدا کی قسم دعوت ال اللہ مزاج نبوت کے بغیر نہ اپنے لیے مؤثر ہے نہ دوسروں کے لیے مؤثر ہے، سب نئے پرانے عوام خواص سب کے لیے عرض کر رہا ہوں، امت سنت دعوت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب دعوت سے اتنی دور چلی گئی ہے اگر وہ اسلوب دعوت ہوتا تو عالم بھر میں اب تک کی اتنی محنت اتنا مجموعہ کام کرنے والوں کا، میں یقین سے کہتا ہوں سارے عالم کے نظام کو بدلنے کے لیے کافی تھا،*
*★_ لیکن سب سے زیادہ غم اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کام سے نسبت ہے لیکن کام سے مناسبت نہیں ہے، اس کام سے نسبت ہے مگر اپنے مزاج کے اعتبار سے ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اسلوب دعوت :-*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساری انسانیت کی طرف مطلوب ہیں، سب سے اہم چیز آپ کی دعوت میں اپ کا اسلوب دعوت اور اہم چیز آپ کی وسعت قلبی ہے، جس نے امت کے تمام طبقات کو کالوں کو گوروں کو، مقامی کو باہر والوں کو، اپنی زبان والوں کو دوسری زبان والوں کو، سب کو جمع کر دیا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب دعوت کا نتیجہ تھا،*
*★_ امت طبقات میں بعد میں بٹی ہے, حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو طبقات میں تقسیم نہیں ہونے دیا, اپ کا اسلوب دعوت ہی ایسا تھا کہ اپ کسی وزیر یا فقیر ان دونوں کو دعوت دینے میں نہ کسی فقیر کو اس کے فقر سے حقیر سمجھتے تھے نہ کسی وزیر سے اس کی وزارت کی وجہ سے مرغوب ہوتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ دعوت امت کو خیر کی طرف جمع کر رہا تھا،*
*★_ امت میں جتنی اونچ نیچ ہے، جتنا تقابل ہے اور جتنا امت کا جان و مال غیر محفوظ ہے، اس سب کی وجہ خدا کی قسم اس کے سوا کچھ نہیں کہ امت طبقات میں بٹی ہوئی ہے،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے بڑا کام کیا ہے آمد کے موقع پر بھی اور دنیا سے جاتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نسبتوں کو اپنے قدم مبارک کے نیچے ایسا کچل کر گئے ہیں، حجۃ الوداع پر آپ نے عہد لے لیا تھا کہ تمہاری حیثیت نہ رنگ سے ہے نہ قبیلے سے ہے، امت کے عوام سے خواص سے کالوں سے گوروں سے اجنبی سے مقامی لوگوں سے، ان سب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کام لیا ہے کہ کوئی اونچا نیچا نظر نہیں آتا تھا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اسلوبِ دعوت ہے جس کی ہر کام کرنے والے کو اپنی سطح پر ضرورت ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __شہرت سے قبولیت کا دھوکہ نہ لگے:-*
*★_ اس دعوت کی محنت اور اس کی نصرت میں کسی کم استعداد والے کو بے حیثیت یا بےکار حقیر سمجھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امت بنانے کی کوشش میں بہت بڑا جرم اور یہ بڑی محرومی کا سبب ہے,*
*★_ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس کام کا زیادہ حقدار ہوں, (تو) اللہ تعالی کا دستور یہ ہے کہ اس کے دعوے کو لوگوں کے درمیان جھوٹا کرنے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو سلب کر لیتے ہیں اور نکمے لوگوں سے اللہ تعالی کام لے لیتے ہیں,*
*★_ اللہ تعالی کو اس کام میں سب سے زیادہ عازجی پسند ہے اس عازجی کی پسندگی ہی ہے کہ انبیاء علیہ السلام بعض مرتبہ ایسی مایوسی اور خوف اور ایسے حالات کے شکار ہوتے ہیں، (تو) قران میں جگہ جگہ فرمایا ہے کہ نبی جی آپ شک نہ کیجیے، حالت سے متاثر نہ ہوئیے،*
*★_ مقبولیت اور شہرت ان دونوں چیزوں کی سرحد ایسی ملتی ہے جیسے اسراف اور سخاوت کی سرحدیں ملتی ہیں, کبھی بھی شہرت سے قبولیت کا دھوکہ نہ لگے, اس شہرت اور ظاہری استعداد کی وجہ سے آدمی اپنے اپ کو دوسروں سے بہتر سمجھ لیتا ہے,*
*★_ میری بات یاد رکھنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت بنائی ہے, آپ نے اپنے مزاج کے اپنی تبیت کے لوگوں کو چھانٹ کر الگ نہیں دے دیا کہ یہ میری جماعت ہے نہیں بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجنبی بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو اپنوں کے درمیان مؤذن متعین کر کے یہ ثابت کیا کہ یہاں اپنے پرائے کی کوئی قید نہیں ہے چونکہ اس وجہ سے امت پھٹتی ہے بنتی نہیں ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ ایک عبرت ناک واقعہ :-*
*★_ایک مجلس میں اوس اور خزرج اور محاجرین کے کچھ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے، حضرت بلال، حضرت سلمان، حضرت صہیب رضی اللہ عنہم، یہ سب اجنبی ہیں، کوئی روم کا ہے، کوئی حبشہ کا ہے، کوئی فارس کا ہے،*
*★_ قیس ابن متاقیہ نے یوں کہا کہ ارے تم لوگ کیا کر سکو گے ؟ ہم عربی ہیں تم غیر عربی ہو, ہماری زبان نبی کی زبان ایک, ہماری زبان قران کی زبان ایک, تم اجنبی لوگ ہو، اس دعوت کے کام پر جو نصرت ہم کر سکتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تم کیا کرو گے ؟*
*★_اس تحقیر سے کہ تم اجنبی لوگ ہو، زبان نہیں جانتے ہماری، ہم نبی کے کام کے زیادہ حقدار ہیں، اتنا کہنا تھا کہ معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ غصے میں کھڑے ہو گئے اور قیس ابن متاقیہ کا غریباں پکڑ لیا اور کھینچ کر لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اور عرض کیا - یا رسول اللہ ! اس نے یہ کہا ہے کہ ہم آپ کی مدد کے نصرت کے زیادہ حقدار ہیں، جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ یہ نہیں کر سکتے،*
*★ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو رنگ اور زبان پر تقسیم نہیں ہونے دیا, حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر غصہ ایا کہ اس عرب نے اپنی عربیت پر کیوں فخر کیا اور غیر عرب کو اس دعوت الا اللہ کی محنت، نبی کی نصرت کے اعتبار سے نا اہل سمجھا، اپ ممبر پر تشریف لے گئے، صحابہ جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عربی زبان نہ یہ تمہاری ماں ہے نہ یہ تمہارا باپ ہے کہ تم عربی ہونے پر فخر کرو،*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے غصے میں تھے کہ آپ نے فرمایا اس قیس ابن متاقیہ کو جہنم کی طرف دھکیل دو, چنانچہ روایت میں ہے کہ یہ اسلام سے مرتد ہو گئے،*
*★_ یہ خود گہرائی سے سوچنے کا واقعہ ہے، خاندان کی بنیاد پر، زبان کی بنیاد پر، قبیلہ اور علم کی بنیاد پر یہ سوچنا کہ ہم زیادہ حقدار ہے کتنا بڑا جرم اور کتنی بڑی محرومی کا سبب ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __اہل یمن کے مرتد ہونے کی وجہ :-*
*★_ جتنا امت میں فساد ہے چاہے وہ اہل دین کے درمیان ہو یا دنیا کے لوگوں کے درمیان ہو، یہ صرف خدا کی قسم امت بنانے کے مزاج اسلوب سے ہٹنے کا فساد ہے اور کچھ نہیں ،*
*★_ ایک موقع ایا، حج ہو رہا تھا عرفات کا موقع تھا، تمام صحابہ آپ کے ساتھ تھے عرفات میں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تاخیر ہوئی، صحابہ رضی اللہ عنہ سب منتظر ہیں کہ آپ کیوں تاخیر کر رہے ہیں ؟ دیر ہوتی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتظار میں تھے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے،*
*★_ تھوڑی دیر کے بعد اسامہ رضی اللہ عنہ تصریف لائے، اہل یمن نے کہا کہ صرف ان کی وجہ سے تاخیر کی گئی، ان کی کیا حیثیت ہے جو یہاں بڑے بڑے صحابہ کو روکا گیا ان کی وجہ سے ؟,*
*★_ یہاں سوال اس کا نہیں تھا کہ انتظار کس کا ہو رہا ہے, سوال اس کا تھا کہ انتظار کون کر رہا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے چلنے میں تاخیر کی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے, روایت میں ہے کہ پوچھا گیا کہ اہل یمن کے مرتد ہونے کی کیا وجہ رہی ؟ بتایا گیا کہ اہل یمن کے مرتد ہونے کا سبب حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو حقیر سمجھنا ہوا,*
*★_ یہ مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت قلبی, اپ نے اپنی امت کو کیسے بنایا _,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ ___صبر کب تک کریں ؟*
*★_ لوگ کہتے ہیں صبر کب تک کریں، ایک سال ہو گیا دو سال ہو گیا، میں آپ کو کیا بتاؤں صبر کی تلقین جن کو کی جاتی ہے وہ آ کر کہتے ہیں کہ کب تک صبر کریں، کام چھوڑ کر بیٹھ جائیں، مقابلہ کریں، کیا کریں ؟*
*★_ اپ دیکھیں گے نبوت کی لائن میں دونوں چیزیں نہیں ملیں گی, نہ کام چھوڑنا ملے گا نہ مقابلہ ملے گا، یہاں حال یہ ہے کہ دو چار ملاقاتوں کے بعد بات اگر نہیں سنی گئی تو مقابلے کو تیار ہیں،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو صبر کا ایسا عادی بنایا تھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سوئے ہوئے تھے مسجد میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مسجد میں کیوں ہو ؟ عرض کیا میرا کوئی گھر نہیں ہے, فرمایا ابوذر میرے بعد مدینے والے تمہیں یہاں سے نکالیں گے تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا میں ملک شام چلا جاؤں گا, انبیاء کی زمین ہے, وہاں رہوں گا, فرمایا وہاں والے نکالیں گے تمہیں تو پھر کیا کرو گے ؟ عرض کیا واپس مدینہ آ جاؤں گا، یہاں آ کر رہوں گا، فرمایا- اے ابوذر مدینے والے پھر دوبارہ نکالیں گے پھر کیا کرو گے؟*
*★_ اپنی امت کو صبر کا ایسا عادی بنایا تھا, خدا کی قسم کہیں نہیں ملے گا تمہیں کہ ایک سال صبر کرنا ہے، دو سال صبر کرنا ہے، یہ بات وہ کرتے ہیں جن میں صبر کا مادہ نہیں، آپ نے فرمایا اے ابوذر دوبارہ مدینے سے نکالیں گے تو کیا کرو گے ؟ عرض کیا کہ ان ذمہ داروں کا مقابلہ کروں گا، فرمایا ہرگز نہیں، جہاں تمہیں تمہارے ذمہ دار بھیجے تقاضے پر وہاں جاتے رہنا، جہاں ساتھ لے کر جائیں ان کے ساتھ جاتے رہنا یہاں تک کہ مجھ سے آ کر قیامت میں مل لینا،*
*★_ صبر کی کوئی مدت نہیں بتائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ داعی کی قبر تو قربانیوں کے میدان کے اندر ہوتی ہے اور اللہ کے نافرمانوں کی قبر خواہشات کے میدان کے اندر ہوتی ہے، اس کی خواہش کا میدان اس کی حیات سے بڑا ہوا ہے اور ادھر دائی کے صبر کا میدان اس کی حیات سے بڑا ہوا ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف کا سفر :-*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف دعوت دینے کے لیے چلے، آپ کی دعوت کو سختی سے رد کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے غمگین ہوئے، اس بات کا غم نہیں کہ میری بات نہیں مانی گئی، اللہ مجھے معاف فرمائے ہم میں آپس میں جھنجھلاٹ اور غصہ اس پر ہوتا ہے کہ میری بات نہیں مانتے، آپ کو غم اس کا تھا کہ یہ جہنم سے کیسے بچیں ؟ آپ کو ان کی نجات کا غم تھا,*
*★_ دائی کے دل کی وسعت دیکھو وہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز سنی, وہ جبرائیل علیہ السلام کے اترنے کی آواز تھی، وہاں اپ کو ہوش ایا، عرض کیا کہ میرے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ اس وقت موجود ہے، اللہ نے بھیجا ہے اور یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ دو پہاڑ کے درمیان جتنے آباد ہیں اپ کی بات کو نہ ماننے والے، ان دونوں پہاڑوں کو ملا کر سب کو ختم کر دیں، آپ حکم فرما دیجیے، اتنی ساری اذیتوں کے بعد بھی اپ نے فرمایا میں یہ نہیں چاہتا،*
*★_ فرشتے نے کہا اللہ کی طرف سے یہ بات طے ہو چکی ہے کہ ان میں کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہ السلام کی دعوت کا فرق یہی ہے کہ انہوں نے اپنے نا ماننے والوں کو دعائے مستجبات سے ہلاک کرا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کرنا پسند نہیں فرمایا، آپ سے کہا گیا فلاں فلاں کے لیے بد دعا کر دیجیے، فرمایا مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، میں اس لیے آیا ہوں کہ ہدایت کی محنت کروں،*
*★_ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے محنت نبی کے ذمے ہے, یاد رکھو اگر ہدایت مخلوق کے ہاتھ میں ہوتی تو اپنے چاہنے والوں کو ہدایت دیتے, یہ مخلوق کے بانٹنے کی چیز نہیں ہے،*
*★_ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا کہ ان میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے, ہم تو ایک مسلمان کو ایک علاقے کو یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ ان میں تو گشت بہت ہو گیا کوئی ماننے والا نہیں ہے، بات پہنچا چکے ہیں، پوچھتے ہیں دوسرا گشت کتنے مہینے کرنا ہے، کتنے ہفتے کرنا ہے ؟ حضرت فرماتے تھے اللہ تعالی کے یہاں قربانیاں جب مطلوب درجے تک پہنچ جاتی ہے اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت کے فیصلے ہو جاتے ہیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ محنت کی مدت محدود نہیں :-*
*★_ تنظیموں کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ بات پہنچا کر فارغ ہو جاؤ، دعوت کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ موت تک کوشش میں لگے رہو،*
*★_ انبیاء علیہ السلام ایسے بھی گئے ہیں دنیا سے جن کا اتباع کسی نے نہیں کیا, انہوں نے کام پورا کیا ہے، وہ قیامت میں اکیلے ہوں گے ایک امتی ساتھ نہ ہوگا، یہ (اپنی محنت میں) ناکام نہیں ہیں, ان کا بھی وہی اجر ہے جو دوسرے انبیاء علیہ السلام کا ہے, ان کا بھی وہی مقام ہے جو دوسرے انبیاء علیہ السلام کا مقام ہے ,*
*★_ نہ ماننے والوں کو چھوڑ کر نہیں بیٹھ گئے، اپنا کام پورا کر کے گئے، جب قوم کی طرف بھیجے جانے والے نبی کی مدت 950 سال تک ہو سکتی ہے، تو جو ساری امت کی طرف بھیجا گیا ہے، اس کے امتی کے محنت کی مدت کہاں محدود کی جا سکتی ہے،*
*★_ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر یہ طے ہو چکا ہے کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے تو بھی ان کو ہلاک نہیں کرنا، ان کی پشتون میں جو اولادیں چھپی ہوئی ہیں وہ ایمان لائیں گے، میں ان کی پیدائش کا انتظار کروں گا، میں ان کو دعوت دوں گا، وہ ایمان لائیں گے،*
*★_ سوچو تو صحیح، یہاں تو جو موجود ہیں ان کو دعوت دینے کا شوق نہیں، وہاں جو انسانیت کا جو حصہ وجود میں نہیں آیا، اپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دعوت دینے کے لیے ستانے والوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ افضل امت ہونے کے لیے دعوت شرط ہے _,*
*★_ میرے عزیزوں ! ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ سبر اور تحمل یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صفات ہیں جس سے امت بنی ہے، اس لیے اپنے اپ کو اللہ کے یہاں قبول کروانے کے لیے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام شعبوں کے مزاجوں سے نکل کر ہم مزاج نبوت پر ا جائیں،*
*★_ مزاج نبوت کیا ہے؟ اپ نے امت کو کس طرح سنبھالا ؟ کس طرح سمجھایا ہے ؟ بے شک امر بالمعروف نہیں عن المنکر بڑا فریضہ ہے لیکن خدا کی قسم جس طرح نماز کے فریضے کا طریقہ متعین ہے، اسی طرح بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا اس کا بھی ایک متعین طریقہ ہے،*
*★_ اس امت کے افضل امت ہونے کے لیے دعوت شرط ہے, قرآن و حدیث اس سے بھرے ہوئے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نیک اعمال تو کرتے دعوت نہ دیتے تو ہم خیر امت نہ ہوتے، اللہ نے جو کنتم فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ داعی کا اخلاص _,*
*★_ ہمیں دعوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم مزاجی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت قلبی کو دیکھنا ہے، جس وسعت قلبی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت بنائی ہے، باہر سے آنے والا اپنے اور مقامی کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں کرتا تھا،*
*★_ عجیب بات ہے فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنا مال آیا وہ سارا مال اپ نے مہاجرین کو دیا، انثار کو کچھ نہ دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ دین کی نصرت کرنے والوں کو اس امتحان سے بھی گزارا ہے کہ اگر میں تمہیں کچھ نہ دوں تو تم کام کرو گے یا نہیں،*
*★_ جو شخص پوچھے جانے کا منتظر ہو اور طالب قلب کا طالب ہو کہ مجھے پوچھا جائے، مجھے بلایا جائے، ایسا شخص ابھی دعوت کے میدان میں اترا ہی نہیں،*
*★_ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمتہ اللہ فرماتے تھے بعض کام کرنے والوں سے کہ اگر میں تمہیں سال بھر کسی کام کے لیے استعمال نہ کروں بنگلے والی مسجد میں رہتے ہوئے بھی اور تمہیں خیال آ جائے کہ ہم سے کام نہیں لیا جاتا تو فرماتے تھے اخلاص نہیں ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ _ مال اور عہدہ داعی کی آزمائش کے لیے :-*
*★_ داعی کی آزمائش کے لیے سب سے بڑی چیز مال اور عہدہ ہے، ان کو مال اور عہدہ پیش کر کے ان کو ان کے کام سے ہٹایا جائے گا، یہ ابتلا بھی صحابہ پر آئی، مشہور معروف مثال ہے کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ تبوک کے سفر سے رہ گئے،*
*★_ سارے تقاضوں پر ہمیشہ نکلے تبوک سے رہ گئے، اللہ تعالی نے سخت امتحان لیا کہ ان سے پورا مدینہ بول چال بند کر چکا تھا، کوئی بات نہ کرے کوئی سلام کا جواب نہ دے، سارے مدینہ نے مل کر بیوی سمیت بائیکاٹ کیا،*
*★_ پچاس راتیں گزری اس حال پر کہ زمین تنگ ہو گئی اپنی ذات پر، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں کو دیکھتے کہ سلام کے جواب میں ہونٹ ہلے یا نہیں، اتنا سخت حال گزرا، کیا بات تھی، امتحان تھا، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کسی غلطی کی وجہ سے ہم ناراض ہو گئے تو یہ ہمیں مناتے ہیں یا ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں،*
*★_ اللہ اکبر ! وہ صحابہ تھے, اس حالت میں غسان بادشاہ کو پتہ چلا، موقع اچھا ہے اپنی طرف ان کو لاؤ، محبت کے ڈورے ڈالو، غسان بادشاہ نے خط لکھا، خط آیا ریشم کے کپڑے میں لپٹا ہوا، ہم تمہیں ٹھکانہ دیں گے، ہم تمہیں مال دیں گے، ہم تمہیں عزت دیں گے، بادشاہ کو سخت جواب دیا اس کے خط کو تندور میں جلا کر اور یہ فرمایا- ایک مصیبت تو ختم نہیں ہوئی کہ اللہ اور اس کے رسول ناراض ہیں، دوسری مصیبت یہ آ گئی کہ غیر اپنی طرف بلا رہے،*
*★_ یہ امتحان تھا, خود فرماتے ہیں کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ کہ اللہ نے ایسا سخت امتحان کسی کا نہیں لیا جیسا میرا لیا، پچاس راتیں جمے رہے اس پر کہ نہیں کچھ بھی ہو جائے اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی راستہ پناہ کا نہیں،*
*★_ حضرت فرماتے تھے کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ کے اس واقعے سے امت کو یہ سبق سکھلانا تھا کہ اللہ کے راستے میں خروج میں کمی بلا عذر اللہ کے راستے میں نہ نکلنا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے،*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ اپنا جان اپنا مال :-*
*★_ اس لیے ہر ایک کی اپنی جیب ہر ایک کا اپنا مال، مجاہدہ کامل ہوتا ہی نہیں جب تک اس راستے میں اپنا جان اپنا مال خرچ نہ کرے، علماء نے لکھا ہے جو تبلیغ دوسروں کے مال پر ہو وہ بے اثر ہوتی ہے کیونکہ مال اس کا نہ ہونا اس کے مجاہدے کو ناقص کردے دے گا،*
*★_ ایک صحابی نے آ کر عرض کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ امیر المؤمنین میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہتا ہوں میری مدد کیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ایک زمیندار کے حوالے ان کو کیا کہ لے جاؤ اس کو اس سے کام لو، وہ لے گئے ایک مدت تک اپنے پاس رکھا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر ائے کہ یہ اس کی مزدوری ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان صحابی سے فرمایا لو یہ پیسے، اب تمہیں اختیار ہے اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو یا اپنی ضرورت پر خرچ کرو،*
*★_ توکل کو اسباب پر نہیں ڈالا، توکل کسے کہتے ہیں ؟ توکل اللہ اور بندے کے درمیان ایک پوشیدہ راز ہے, جب یہ راز کسی تیسرے پر کھل جائے تو سمجھنا چاہیے کہ اب توکل ختم ہو گیا,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ تقوے کا کلمہ :-*
*★_ اس راستے میں اپنے اپ کو اللہ کے یہاں تقوے سے قبول کروانا ہے, ساری نیکیوں کا ساری کوششوں کا مدار تقوے پر ہے، تقوے کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں اور واقعی کلمہ لا الہ الا اللہ اس کو تقوے کا کلمہ فرمایا ہے، تقوے کے بغیر اس راستے میں نہیں چلا جا سکتا،*
*★_ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مال سے بچایا اور ایسا مزاج بنایا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کہ جب مال انے لگا تو ڈرنے لگے رونے لگے کہ کہیں اللہ نے ہمارے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں تو نہیں دے دیا،*
*★_ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بوری بھر کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجی تو اتنا مال دیکھ کر فرمانے لگیں کہ ایک عورت کے ذمے تقسیم کے لیے اتنا سارا مال بھیج دیا حالانکہ ایک عورت گھر میں بیٹھی ہے، یہ کیسے تقسیم کرے گی اور اسے کیا معلوم کون حاجت مند ہے کون مالدار ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے تقسیم کرنے کے لیے اپ کے پاس نہیں بھیجا، یہ تو اپ کی اپنی ذات کے لیے ہے،*
*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دعا فرمائی اے اللہ اب مال انے لگا ہے تو عمر کے پاس اگلے سال مال انے سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے,*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*☞ __ پرانے ذمہ داروں سے ملکوں کا مطالبہ :-*
*★_ ہمارا جمع ہونا اصل اجتماعیت ہے اور ہمارا جمع ہونا اصل بکھرنے کے لیے ہے، اگر ہمارا جمع ہونا جمع ہونے کے لیے ہے تو یہ رسم ہے کام نہیں ہے، ہمارا جمع ہونا دعوت کے (تقاضوں کے) لیے بکھرنے کے لیے ہے, حضرت فرماتے تھے اس راستے میں نکلنے کے علاوہ ہمارا کوئی موضوع نہیں ہے,*
*★_ ہر سال چار مہینے پر تو سب کو آنا ہے، مالی صلاحیت تو اس راستے میں خدا کی قسم کوئی حیثیت نہیں رکھتی بالکل نہیں رکھتی، جب بھی یہ امت دین کی اشاعت، اس راستے کے تقاضوں کو اسباب پر موقوف سمجھے گی، خدا کی قسم یہ غیبی نصرتوں کے دروازوں کے بند ہونے کا سبب بنے گی، بلکہ حکم پر قدم اٹھانا یہ غیبی نصرتوں کی نجول کا سبب ہے، حضرت فرماتے تھے اگر اسباب پر کام کو موقوف کرو گے تو صحابہ والی مددیں کبھی نہیں دیکھ سکو گے،*
*★_ امت کی صلاحیت کو جانی مالی عقلی با اعتبار امت کے استعمال کرنا ہے، تبلیغ کوئی وقت لگانے کا وظیفہ نہیں ہے بلکہ تقاضوں پر جان مال کو جھونکنا یہ دعوت ہے، کوئی معمول پورا کرنا کام نہیں ہے، حضرت فرماتے تھے معمول کے پورا کرنے سے انقلاب نہیں آتا بلکہ معمول سے ہٹنا انقلاب ہے،*
*★_ ہم تو پرانا اسے سمجھتے ہیں جو دوسروں کی قربانیوں پر آنے کا ذریعہ بنتے ہیں، پرانے وہ کہلاتے ہیں جو دوسروں کو پرانا بنانے کا ذریعہ ہو اور ان کی قربانیاں پچھلی صف والوں کے لیے غم اور فکر پیدا کرتی ہو،*
*★_ جب تک ہر صوبے کے ذمہ دار دو دو مہینے کھلا وقت نظام الدین میں نہیں گزاریں گے سارے عالم سے آنے والے تقاضوں کا صوبے میں رہنے والوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ سمجھتے رہیں گے کام ملکوں میں ہو رہا ہے ہمارے یہاں نہیں ہو رہا، کام ہونا یہ نہیں ہے، کام ہونا یہ ہے کہ عالم کی ہر مسجد کے تقاضوں کا تعلق اور ان تقاضوں کے پورا کرنے کا تعلق براہِ راست نظام الدین سے ہو اس کی ضرورت ہے،*
*★( پرانے ذمہ داروں میں بات کا خلاصہ الحمدللہ یہاں مکمل ہوا )*
*💤_ ایڈمن کی ڈائری - حق کا داعی، مرکز نظام الدین دہلی ( اورنگاباد اجتماع, پرانوں میں بات 2018 ) _,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
*❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://www.facebook.com/share/1BYZV136N9/
*👆🏻 فیس بک پیج کو لائک & فالو کیجیے _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
▉
0 Comments