▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
*■ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ ■*
*🌹صلى الله على محمدﷺ🌹*
⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙ *★_ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی ہمارے نبی ہیں، دادا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں نے خواب میں ایک فرشتے سے بشارت پا کر احمد رکھا تھا، سیدنا آمنہ بی بی کو نام رکھنے کی بشارت فرشتے کی معرفت ایسے ہی ملی تھی جیسے کہ فرشتے کی بشارت سے ہاجرہ بی بی نے اسماعیل علیہ السلام کانام اور مریم نے عیسیٰ علیہ السلام کا نام رکھا تھا _,"*
*★_ واضح ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حمد سے خاص مناسبت ہے، حضور صلی علی علیہ وسلم کا نام محمد و احمد ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام شفاعت کا نام محمود ہے، امت محمدیہ کا نام حمادون ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے " لوا ( جھنڈے)" کا نام" لواء حمد" ہے_,*
*★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام ( خلیل الرحمٰن و اب الانبیاء) کی اولاد سے ہیں, جو ہاجرہ بی بی کے بطن سے ہوئی، ہاجرہ بادشاہ مصر قیون کی بیٹی تھی، اللہ کے ہاں ان کا ایسا درجہ تھا کہ اللہ کے فرشتے ان کے سامنے آیا کرتے اور اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے،*
*★_ حاجرہ بی بی بیوی کے فرزند کا نام اسماعیل علیہ السلام ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں، باپ نے ان کو وادی میں اس جگہ آباد کیا تھا جہاں اب مکہ معظمہ ہے، اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کے لیے زمزم کا چشمہ ظاہر کیا تھا _,"*
: *★_ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ نے بارہ (12) بیٹے دیے تھے، ان میں سے قیدار بہت مشہور ہوئے ہیں، تورات میں ان کا ذکر بکثرت آیا ہے، قیدار کی اولاد میں عدنان اور عدنان کی اولاد میں قصی بہت مشہور ہیں جو چار واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہیں،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کا نام آمنہ ہے، جو وہب کی بیٹی ہیں، وہب قبیلہ بنو زہرہ کا سردار تھا، ان کا سلسلہ نسب فہر الملقب پہ قریش کے ساتھ جا ملتا ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ددھیال اور ننھیال میں عرب کے بہترین قبیلہ، بہترین قوم اور شاخ میں سے ہیں،*
*★_ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم موسم بہار میں دو شنبہ (پیر) کے دن 9 ربیع الاول عام الفیل, بمطابق 22 اپریل 571 مطابق یکم جیٹھ 628 سمت بکرمی کو مکہ معظمہ میں بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتاب پیدا ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والدین کے اکلوتے بچے تھے، والد بزرگوار کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے انتقال ہو گیا تھا _,*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں دو شنبہ کا دن خصوصیت رکھتا ہے، ولادت، نبوت، ہجرت، وفات سب اسی دن ہوئی ہے، اس سے مختلف تاریخوں کی تعین میں بڑی مدد ملتی ہے، تاریخ ولادت میں مورخین نے اختلاف کیا ہے، طبری و ابن خلدون نے بارہ تاریخ لکھی ہے، مگر سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کا دن تھا، چونکہ دو شنبہ کا دن 9 ربیع الاول کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں کھاتا ہے، اس لیے 9 ربیع الاول ہی صحیح ہے، تاریخ عرب اسلام میں بھی 9 تاریخ کو صحیح قرار دیا ہے، واقعہ عام الفیل کے 55 یوم بعد ،*
: *★_ عبدالمطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نے خود بھی یتیمی کا زمانہ دیکھا ہوا تھا، آپ نے 24 سالہ نوجوان فرزند عبداللہ کی اس یادگار کے پیدا ہونے کی خبر سنتے ہی گھر میں آئے اور بچے کو خانہ کعبہ میں لے گئے اور دعا مانگ کر واپس لائے، ساتویں دن قربانی کی اور تمام قریش کو دعوت دی، دعوت کھا کر لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اپنے بچے کا نام کیا رکھا ؟ عبدالمطلب نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم),*
*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نام رکھا گیا، قوم نے اس نام پر تعجب کیا، لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے خاندان کے سب مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام کیوں رکھا، کہا :- میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ دنیا بھر کی ستائش ( تعریف) اور تعریف کا کا شایاں ( لائق) قرار پائے,*
*★_ ایام رضاعت :- شرفاء مکہ کا دستور تھا کہ اپنے بچوں کو جب کہ وہ آٹھ دن کے ہو جاتے تھے، دودھ پلانے والیوں کے سپرد کر کے کسی اچھی آب وہوا کے مقام پر باہر بھیج دیا کرتے تھے،اس دستور کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا، وہ ہر چھٹے مہینے لا کر انکی والدہ اور دیگر اقربا کو دکھلا جاتی تھیں، دو برس کے بعد آپ کا دودھ چھڑایا گیا، مائی حلیمہ آپ صل وسلم کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس آئیں، حضرت آمنہ نے اس خیال سے کہ (وہاں کی آب و ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خوب موافق تھی اور) شاید مکہ کی آب و ہوا معافق نہ ہو، پھر مائی حلیمہ ہی کے سپرد کر دیا _,*
*★_ والدہ مکرمہ کا انتقال :- جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 4 برس کی ہوئی تو والدہ مکرمہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس رکھ لیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ برس کی ہوئی تو والدہ کا انتقال ہوگیا اور دادا نے آپ کی پرورش اور نگرانی اپنے ذمہ لی، جب آنحضرت صلی وسلم کی عمر 8 برس 10 دن کی ہوئی تو آپ کے دادا عبدالمطلب نے 82 سال کی عمر میں وفات پائی،*
*★_ ابوطالب کی تربیت :- ابوطالب آنحضرت صلی وسلم کے تایا تھے اور آپ کے والد عبداللہ کے حقیقی بھائی , اب وہ آنحضرت صلی وسلم کی نگرانی اور تربیت کے ذمہ دار بنے,*
*★_ بحیرہ راہب سے ملاقات :- اکثر کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب 12 سال کے ہوئے تو اپنے تایا ابو طالب کے ساتھ ، جب کہ وہ تجارت شام کو جاتے تھے، سفر میں گئے، بصرہ میں بحیرہ راہب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا کہ نبی موعود یہی نوجوان ہیں، اس نے ابو طالب سے کہا ہے کہ اسے یہودیوں کے ملک میں نہ لے جاؤں، وہ اسے پہچان کر کہیں نقصان نہ پہنچائیں، شفیق تایا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بصرہ ہی سے واپس کر دیا،*
*★_ اس بارے میں جو حدیث ترمذی وغیرہ میں ہے اس میں یہ بھی ہے کہ تایا نے واپس کرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ صریح غلطی ہے، اول تو اس وقت بلال رضی اللہ عنہ نہ ابو طالب کے پاس تھے، نہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس، دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان دنوں موجود ہی نہ ہو ،*
*★_ قرآن مجید کی آیت *"_( وَكَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ يَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَى الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِهٖ )_,( سورہ البقرہ 89),*
*"_ یہ لوگ نبی کے آنے سے پیشتر کافروں پر فتح اس کے ذریعے پانے کی آرزو میں رہا کرتے تھے، جب نبی ظاہر ہوا اور انہوں نے پہچان بھی لیا تب اس سے منکر ہو بیٹھے _,"*
*"_ سے ثابت ہے کہ یہودی رسول موعود کے انتظار میں رہا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے آنے پر یہودیوں کو کافروں پر فتح و نصرت ہوگی، یہ اعتقاد ان کا اس وقت تک رہا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوئی، اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ بحیرہ راہب کا قول غلط تھا، کیونکہ اگر یہودی اس لڑکپن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیتے تو اپنے اعتقاد کے مطابق حضور صلی اللہ کو اپنی فتح و نصرت کا دیوتا سمجھ کر نہایت خدمت گزاری کرتے، نتیجہ یہ ہے کہ راہب کی داستان ناقابل اعتبار ہے_,*
*★_ تیجارت کا خیال:- جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوان ہوئے تو آپ کا خیال پہلے تجارت کی طرف ہوا, مگر روپیہ پاس نہ تھا, مکہ میں نہایت شریف خاندان کی ایک بیوہ عورت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں، وہ بہت مالدار تھیں، اپنا روپیہ تجارت میں لگائے رکھتی تھیں، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں اور ان کے اوصاف سن کر اور آپ کی سچائی، دیانتداری، سلیقہ شعاری کا حال معلوم کرکے خود درخواست کردی کہ ان کے روپیہ سے تجارت کریں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا مال لے کر تجارت کو گئے، اس تجارت میں بڑآ نفع ہوا،*
*★_ اس سفر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام میسرہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام خوبیوں اور بزرگیوں کا ذکر خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سنایا جو سفر میں خود دیکھی تھیں، ان اوصاف کو سن کر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے درخواست کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کر لیا، حالانکہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس سے پہلے بڑے بڑے سرداروں کی درخواست نکاح کو رد کر چکی تھیں،*
*★_ نکاح :- جب یہ نکاح ہوا تو آنحضرت صلی وسلم کی عمر (25) پچیس سال اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر (40) چالیس سال کی تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں پچیس (25) سال تک زندہ رہیں, آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی وفات کے بعد بھی اکثر ان کا محبت سے ذکر کیا کرتے تھے اور ان کی سہیلیوں سے بھی عزت اور شفقت کا برتاؤ کیا کرتے تھے، اس شادی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام وقت اللہ کی عبادت اور بنی آدم کی بہبود و خیر اندیشی میں پورا ہوا کرتا تھا،*
*★_ قیامِ امن و نگرانی حقوق کی انجمن کا انعقاد:-- انہی دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر قبیلوں کے سرداروں اور سمجھدار لوگوں کو ملک کی بے امنی, راستوں کا خطرناک ہونا, مسافروں کا لٹنا, غریبوں پر زبردستوں کا ظلم بیان کرکے ان سب باتوں کی اصلاح پر توجہ دلائی، آخر ایک انجمن قائم ہوگئی جس میں بنو ہاشم، بنو المطلب، بنو اسد، بنو زہرہ، بنو تمیم شامل تھے،*
*★_ اس انجمن کے ممبر مندرجہ ذیل عہد و قرار کیا کرتے تھے:- (١) ہم ملک سے بے امنی دور کریں گے, (٢) ہم مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے, (٣) ہم غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے، (٤) ہم زبردست کو زیردست پر ظلم کرنے سے روکا کریں گے،*
*"_اس تدبیر سے بنی آدم کے جان و مال کی بہت کچھ حفاظت ہو گئی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نبوت کے زمانے میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی کوئی اس انجمن کے نام سے کسی کو مدد کے لئے بلائے تو میں سب سے پہلے اس کی امداد کو تیار پایا جاؤنگا _,"*
*★_ ملک کی طرف سے "صادق" و "امین" کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنا:- ایسے ہی نیک کاموں کی وجہ سے ان دنوں لوگوں کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی اور بزرگی کا اتنا اثر تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلاتے تھے بلکہ "الصادق" یا "الامین" کہہ کر پکارا کرتے تھے,*
*"_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35 سال کی تھی جب قریش نے کعبہ کی عمارت کو (جس کی دیواریں سیلاب کے صدمے سے پھٹ گئی تھیں) ازسرنو تیار کیا، عمارت کے بنانے میں تو سب ہی شامل تھے مگر جب حجر اسود کے قائم کرنے کا موقع آیا تو سخت اختلاف ہوا، کیونکہ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ یہ کام اسی کے ہاتھوں سے سرانجام پائے، چار دن تک برابر یہی جھگڑا ہوتا رہا، آخر ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے بڑی عمر کا تھا یہ رائے دی کہ کسی کو حکم بنا کر اس کے فیصلے پر عمل کریں_,*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام قبائل کی طرف سے حکم مقرر ہونا :- اس رائے کو مانا گیا اور قرار پایا گیا کہ جو کوئی اب سب سے پہلے حرم میں آئے گا وہی سب کا حکم سمجھا جائے گا، اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا تھا کہ "ھٰذا الامین" کے نعرے لگ گئے, ( امین آگیا، ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں)*
[10/4, 9:50 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ کعبے کی اول تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ کی تھی، پھر بنی جرہم، بنو عمالقہ، قصی اور قریش نے اس کی تجدید کی تھی، تجدید عمارت کی ضرورت زمانے کے اثر یا صدمہ سیلاب وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہو جاتی تھی، کسی غیر قوم کے قبضہ کر کے گرا دینے، منہدم کرنے کا واقعہ اس عمارت کعبہ کے ساتھ پانچ ہزار سال سے نہیں ہوا تھا، جیسا کہ بیکل یروشلم کے ساتھ بار بار ایسے واقعات پے در پے ہوتے رہے اور یہ ایسا شرف ہے کہ دنیا کی عبادت گاہ کو حاصل نہیں،*
*★_ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا دستور تھا کہ میدان میں جس جگہ کو عبادت گاہ مقرر کرتے وہاں ایک لمبا بن گھڑا پتھر ستون کی طرح کھڑا کر دیتے تھے، جیسے ابھی مسلمان کھلی جگہ میں نماز پڑھتے ہوئے اپنی چھڑی وغیرہ گاڑ لیا کرتے ہیں، جسے سترہ کہتے ہیں، حجر اسود بھی اسی قسم کا پتھر ہے اور یہ بھی ایک شہادت اس امر کی ہے کہ کعبہ بنائے ابراہیمی سے اب کونے میں لگا دینے کے بعد یہ اتنا کام دیتا ہے کہ طواف کا شروع اور ختم اسی جگہ سے شروع کیا جاتا ہے، مسلمانوں میں جو درجہ اس کا ہے وہ اس کے نام حجر اسود (کالا پتھر) سے ظاہر ہے، ایک دفعہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سنانے کے لئے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا تھا :- "تو ایک پتھر ہے, نہ کسی کو نفع نہ ضرر دے سکتا ہے _," (بخاری 1597)*
*★_ ہم لکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کے لوگ نبوت سے پہلے صادق و امین کہہ کر بلایا کرتے تھے، چنانچہ اس موقع پر بھی انہوں نے الامین ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زیرکی ( عقلمندی) اور معاملہ فہمی سے ایسی تدبیر کی کہ سب خوش ہو گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھائی، اس پر پتھر اپنے ہاتھ سے رکھ دیا، پھر ہر ایک قبیلے کے سردار کو کہا کہ چادر کو پکڑ کر اٹھائیں، اسی طرح اس پتھر کو وہاں تک لائے جہاں قائم کرنا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسے اٹھا کر کونے پر اور طواف کے سرے پر لگا دیا ،*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر تدبیر سے ایک خونخوار جنگ کا انسداد کردیا ورنہ اس وقت کے اہل عرب میں، ریوڑ کے پانی پلانے، گھوڑوں کے دوڑانے، اشعار میں ایک قوم سے دوسری قوم کو اچھا بتانے، جیسی ذرا ذرا سی باتوں پر ایسی جنگ ہوتی تھی کہ بیسیوں برس تک ختم ہونے میں نہ آتی تھی،*
[10/7, 6:33 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قرب زمانۂ بعثت:- بعثت سے سات برس پہلے ایک روشنی اور چمک نظر آنے لگی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس روشنی کے معلوم کرنے سے خوش ہوا کرتے تھے، اس چمک میں کوئی آواز یا سورت نہ ہوتی تھی، بعثت کا زمانہ جس طرح قریب ہوتا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج میں خلوت گزینی کی عادت بڑھتی جاتی تھی،*
*★_ غار حرا میں عباتیں کرنا:- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پانی اور ستو لے کر شہر سے کئی کوس پر ایک سنسان جگہ کوہ حرا کی ایک غار میں جس کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا جا بیٹھتے، عبادت کیا کرتے تھے، اس عبادت میں تہمید و تقدیس الہی کا ذکر بھی شامل تھا اور قدرت الٰہیہ پر تدبر وتفکر بھی، جب تک پانی اور ستو ختم نہیں ہوجاتے، شہر میں نہ آیا کرتے ،*
*"_ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب نظر آنے لگے، خواب ایسے سچے ہوتے تھے کہ جو کچھ رات کو خواب میں دیکھ لیا کرتے تھے دن میں ویسا ہی ظہور میں آجاتا ،*
*★_ بعثت و نبوت:- جب آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی عمر کے چالیس سال، قمری پر ایک دن اوپر ہوا تو 9 ربیع الاول 41 میلادی( مطابق 12 فروری 610) کو بروز دوشنبہ (سوموار) روح الامین علیہ السلام اللہ کا حکم لے کر آنحضرت صلی وسلم کے پاس آئے، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تھے،*
*"_ روح الامین نے کہا:- محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشارت قبول فرمائیے، آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل (علیہ السلام ) ہوں،*
*★_ اس واقعے کے بعد نبی صل اللہ علیہ وسلم فوراً گھر میں آئے اور لیٹ گئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھ پر کپڑا ڈال دو، جب طبیعت میں ذرا سکون ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ میں ایسے واقعات دیکھتا ہوں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے،*
[10/8, 6:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی شہادت:- خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے کہا :- نہیں آپ کو ڈر کا ہے کا ؟ میں دیکھتی ہوں کہ آپ اقربا پر شفقت فرماتے ہیں، سچ بولتے ہیں، رانڑوں یتیموں، بے کسوں کی دست گیری کرتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں، مصیبت زدوں سے ہمدردی کرتے ہیں، اللہ آپ کو کبھی اندوہ گیں ( رنجیدہ) نہ فرمائے گا،*
*★_اب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خود بھی اپنے اطمینان قلب کی ضرورت ہوئی، اس لیے وہ نبی صل اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے رشتے کے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئی،*
*"_ نجاشی اور فیسر کی کوشش سے عیسائیت عرب میں آ چکی تھی، اس لیے بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب عرب میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو علمائے یہود و نصارہ سے بہت سی معلومات کا استفادہ کر چکے تھے اور دین جاہلیت کو چھوڑ کر یہ خبریں دیا کرتے تھے کہ عنقریب ایک رسول ظاہر ہونے والا ہے، جو ابلیس اور اس کے لشکر پر غالب ہوگا، ان اشخاص میں عثمان بن حریث، عبید، زید بن عمرو اور ورقہ بن نوفل کے نام خصوصیت سے مشہور ہیں،*
*★_ زید بن عمرو جو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چچا تھے، وہ بزرگوار ہیں جنہوں نے رسول موعود کی تلاش میں دور دور سفر کئے تھے اور آخر یہ معلوم کر کے کہ وہ مکہ میں پیدا ہوں گے، اسی مبارک انتظار میں رہ کر انتقال کر چکے تھے،*
*★_ عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کی شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر :- الغرض حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی درخواست پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کے سامنے جبریل علیہ السلام کے آنے، بات کرنے کا واقعہ بیان فرمایا، ورقہ جھٹ بول اٹھا، یہی ہے وہ ناموس جو موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا، کاش میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ رہتا، جب قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دے گی،*
*★_ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا قوم مجھے نکال دے گی ؟ ورقہ بولا :- ہاں اس دنیا میں جس کسی نے ایسی تعلیم پیش کی اس سے (شروع میں) عداوت ہی ہوتی رہی, کاش میں ہجرت تک زندہ رہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کروں _,"*
[10/9, 7:15 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ابتداء نزول قرآن :- کچھ دنوں کے بعد پھر فرشتہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنہوں نے اب تک لکھنا پڑھنا نہ سیکھا تھا اللہ کا وہ پاک نام اور پاک کلام پڑھایا جو سارے علموں کی کنجی اس ساری حقیقتوں کا خزانہ ہے، روح لامین نے ان آیات کو پڑھا تھا:-(القرآن - سورۃ نمبر 96 -العلق ,آیت نمبر 5-1)*
*"_أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ. بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ _,*
*"_ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَۚ ۞خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍۚ ۞اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ ۞الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ ۞*
*"_( ترجمہ) شروع ہے اللہ کے نام سے جو کمال رحمت اور نہایت رحم والا ہے، پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے ( سب کچھ) پیدا کیا, جس نے انسان کو پانی کے کیڑے سے بنایا( ہاں) پڑھتا چلا جا تیرا پروردگار تو بہت کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی(جس نے انسانوں کو وہ سب کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا _,"*
*★_ نماز کا آغاز:- اس کے بعد "روح الامین" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دامنِ کوہ میں لایے، نبی صلی وسلم کے سامنے خود وضو کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وضو کیا، پھر دونوں نے مل کر نماز پڑھی، روح الامین علیہ السلام نے پڑھائی_,"*
*★_ تبلیغ کا آغاز:- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر پہنچ کر تبلیغ شروع کر دی، خدیجہ رضی اللہ عنہا ( بیوی) علی رضی اللہ عنہ( بھائی عمر 8سال) ابوبکر رضی اللہ عنہ (دوست) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (غلام) پہلے ہی دن مسلمان ہو گئے_,"*
*★_ ان اشخاص کا ایمان لانا جو آنحضرت صلی وسلم کی چالیس سالہ ذرا ذرا سی حرکات و سکنات تک سے واقف تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ صداقت اور راست بازی کی قوی دلیل ہے،*
[10/10, 5:36 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے مالدار تھے، تجارت کرتے تھے، مکہ میں ان کی دکان بزازی (کپڑا) کی تھی، لوگوں میں ان کا بہت میل ملاپ تھا، ان کی تبلیغ سے عثمان غنی رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، پھر ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ( جن کا لقب بعد میں "امین الامت" ہوا ) عبدالاسد بن ہلال رضی اللہ عنہ، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ، سائب بن عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اور ارقم رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے،*
*"_ عورتوں میں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا عباس رضی اللہ عنہ کی بیوی ام الفضل رضی اللہ عنہا، اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا اور فاطمہ خواہر ( بہن ) عمر فاروق رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا،*
*★_ پہاڑ کی گھاٹیوں میں نماز :- ان دنوں مسلمان پہاڑ کی گھاٹی میں جاکر نماز پڑھا کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے ابتدائی تین سال تک لوگوں کو چپکے چپکے سمجھایا کرتے تھے اور پتھروں درختوں، چاند اور سورج کی پوجا سے ہٹا کر اللہ کی بندگی سکھایا کرتے تھے، ان اللہ کا حکم پہنچا:- ( المدثر-1-7)*
*"_ اے کپڑے میں لیٹنے والے ( اے عالم کے درست کرنے والے) اٹھو، ( گندے اعمال والوں کو ڈراؤ اور اپنے پروردگار کی بزرگی پھیلاؤ اور پاکدامنی اختیار کرو، (مخلوق پرستی کی) نجاست سے علیحدگی اختیار کرو، احسان اس نیت سے نہ کرو کہ لوگوں سے اس کا فائدہ حاصل کیا جائے، اپنے پروردگار کے لیے( رسالت کرتے ہوئے ہر ایک امتحان اور تکلیف میں) استقلال کھو _,"*
*★_نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مقاصد :- ان آیات سے ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت کے مقاصد مندرجہ ذیل تھے_,*
*(١)_ نافرمانوں کو ان کی خطرناک حالت سے آگاہ کرنا اور انجام سے ڈرانا،*
*(٢)- اللہ کی ربوبیت اور کبریائی اور عظمت و جلال کا آشکار ( کھولنا) کرنا،*
*(٣)- لوگوں کو اعتقاد، اعمال اور اخلاق کی ظاہری و باطنی نجاستوں سے پاک رہنے کی تعلیم دینا،*
*(٤)_ پاکیزگی، صفائ اور پاکدامنی سکھلانا،*
*(٥)_ الہی تعلیم مفت دینا، نہ ان پر احسان جتلانا، نہ ان سے اپنے کسی فائدے کی توقع رکھنا،*
*(٦)_ اس کام میں جس قدر بھی مصائب اور شدائد جھیلنی پڑیں سب کو برداشت کرنا،*
*"_ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کے حالات پر غور کرے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی خوبی سے ان سب مقاصد کو پورا کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا کام آہستہ آہستہ وسعت پکڑتا رہا،*
[10/11, 6:01 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ تبلیغ کے پنج گانہ مراتب :-*
*"_ اول- قریب کے رشتے دار اور خاص خاص احباب,*
*"_ دوم- قوم اور شہر کے سب لوگ,*
*"_ سوم- مکہ کے اطراف اور جوانب کے قبیلے،*
*"_ چہارم:- عرب کے جملہ حصص اور قبائل،*
*"_ پنچم - دنیا کی جملہ متمدنہ اقوام اور جملہ مشہور مذاہب،*
*★_ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تبلیغ کے لیے نہایت استحکام، کمال، استقلال اور کشادہ پیشانی و نزہت خاطر سے ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے میں ثابت قدمی فرمائی تھی اور اپنی تعلیم کو بین دلائل اور براہین محکم سے ثابت کردیا تھا،*
*★_ بعثت کے وقت عالم کی حالت:- یاد رکھنا چاہیے کہ جس وقت نبی صلی وسلم تبلیغ عالم کے لئے مبعوث ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام عالم پر جہالت کی تاریکی چھا رہی تھی، وحشت و درندگی کا دنیا پر تسلط تھا، انسانیت، تہذیب، اخلاق کے نام شایدان کتابوں میں نظر آ سکتے تھے مگر دلوں پر کوئی اثر نہ تھا،*
*"_ بنی اسرائیل تو مسیح علیہ السلام سے بھی پہلے سانپ اور سانپ کے بچے کہلانے کے مستحق ٹھہرے چکے تھے، اب مسیح علیہ السلام کی لعنت سے ظاہری شکل و صورت کے سوا ان میں آدمیت کا ذرا بھی نشان باقی نہ رہا تھا اور ہمسایہ قوموں کے اثر سے ان میں بت پرستی قائم ہو چکی تھی ،*
*★_ عرب ایسا ملک تھا جہاں نہ کسی بادشاہ کا تسلط ہوا تھا نہ کوئی اثر قانون نے ڈالا، نہ کوئی ہادی ان کی ہدایت کے لئے پہنچا تھا، اس حیوانی آزادی پر بے علمی، جہالت اور اقوام متمدنہ سے علیحدگی اور اجنبیت نے ان کی حالت کو اور بھی زیادہ تباہ کر دیا تھا، اس بدترین حالت ہی نے ان کو زیادہ تر واجب الرحم ٹھہرایا اور رب العالمین نے اصلاح عالم کا آغاز اسی جگہ سے ہونا پسند فرمایا،*
[10/12, 6:43 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اپنے کنبے میں تبلیغ :-*
*"_ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے حکم ربانی کے موافق تبلیغ کا کام شروع فرما دیا، قریبی رشتے داروں کو سمجھانے کا حکم قرآن مجید میں خصوصیت سے ہے، ("_القرآن - سورۃ نمبر 26 الشعراء, آیت نمبر 214):-*
*"_أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ★ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ _,*
*"_وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَۙ ۞*
*"_ترجمہ:{مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ}_اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو_,*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز سب کو کھانے پر جمع کیا، یہ سب بنی ہاشم ہی تھے، ان کی تعداد چالیس یا ایک کم یا زیادہ تھی، اس روز ابو لہب کی بکواس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام کرنے کا موقع ہی نہ ملا، اس لیے دوسری شب بھر انہی کی دعوت کی گئی، جب سب لوگ کھانا کھا کے، دودھ پی کے فارغ ہوگئے تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-*
*"_ اے حاضرین ! میں تم سب کے لئے دنیا اور آخرت کی بیہودی لے کر آیا ہوں اور میں نہیں جانتا کہ عرب بھر میں کوئی شخص بھی اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر اور افضل کوئی شے لایا ہو، مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ میں آپ لوگوں کو اس کی دعوت دوں، بتلاؤ تم میں سے کون میرا ساتھ دے گا ؟*
*★_ یہ سن کر سب کے سب چپ رہ گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا:- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے کہا:- تم اس کی بات مانا کرو اور جو کہا کرے، سنا کرو، یہ فقرہ سن کر مجمع خوب کھلکھلا کر ہنسا اور ابو طالب سے تمسخر کرنے لگا، دیکھو ! محمد صلی اللہ وسلم تمہیں کہہ رہا ہے کہ آج اسے تم اپنے فرزند کا حکم مانا کرو_,"*
[10/13, 11:29 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پہاڑی کا وعظ اور اہل مکہ کو عام تبلیغ :-*
*"_ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو پکارنا شروع کیا، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- تم مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا جانتے ہو ؟ سب نے ایک آواز سے کہا:- ہم نے کوئی بات غلط یا بے ہودہ آپ کے منہ سے نہیں سنی, ہم یقین کرتے ہیں کہ آپ صادق اور امین ہیں،*
*★"_نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- دیکھو میں پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے نیچے ہو، میں پہاڑ کے ادھر ادھر بھی نظر کر رہا ہوں، اچھا اگر میں یہ کہوں کہ رہزنوں کا ایک مسلح گروہ دور سے نظر آ رہا ہے جو مکہ پر حملہ آور ہوگا، کیا تم اس کا یقین کر لو گے ؟*
*"_لوگوں نے کہا:- بے شک کیونکہ ہمارے پاس آپ جیسے راست باز آدمی کے جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں، خصوصاً جب کہ وہ بلند مقام پر کھڑا ہے کہ دونوں طرف دیکھ رہا ہے _,"*
*★_ نبی صل وسلم نے فرمایا:- یہ سب کچھ سمجھانے کے لیے ایک مثال تھی, اب یقین کرلو کہ موت تمہارے سر پر آ رہی ہے اور تم نے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور میں عالم آخرت کو بھی ایسا ہی دیکھ رہا ہوں جیسا کہ دنیا پر تمہاری نظر ہے, اس دلنشین وعظ سے مطلب نبی صل اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ نبوت کے لئے ایک مثال پیش کریں کہ کس طرح ایک شخص عالم آخرت کو دیکھ سکتا ہے جبکہ ہزاروں اشخاص نہیں دیکھ سکتے,*
[10/14, 8:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ تبلیغ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششیں :-*
*"_ اب نبی صل وسلم نے سب کو عالمی طور پر سمجھانا شروع کیا، ہر ایک میلے ہر ایک گلی کوچے میں جا جا کر لوگوں کو توحید کی خوبی بتلاتے، بتوں، پتھروں درختوں کی پوجا سے روکتے، بیٹیوں کو مار ڈالنے سے ہٹاتے، زنا سے منع کرتے، جوا کھیلنے سے لوگوں کو روکتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ لوگ اپنے جسم کو نجاست سے، کپڑوں کو میل کچیل سے، زبان کو گندی باتوں سے، دل کو جھوٹے اعتقاد سے پاک و صاف رکھیں، وعدہ اور قرار کی پابندی کریں، لین دین میں کسی سے دغا نہ کریں، اللہ کی ذات کو نقص سے، عیب سے، آلودگی سے پاک سمجھیں، اس بات کا پختہ اعتقاد رکھیں کہ زمین آسمان چاند سورج چھوٹے بڑے سب کے سب اللہ کے پیدا کیے ہوئے ہیں، سب اسی کے محتاج ہیں، دعا کا قبول کرنا، بیمار کو صحت و تندرستی دینا، مرادیں پوری کرنا اللہ کے اختیار میں ہے، اللہ کی مرضی اور حکم کے پیغمبر کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا کتا، فرشتے اور نبی بھی اس کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے،*
*★_ عرب میں عقاظ، عینیہ اور ذی الحجاز کے میلے بہت مشہور تھے، دور دور سے لوگ وہاں آیا کرتے تھے، نبی صل اللہ علیہ وسلم ان مقامات پر جاتے اور میلے میں آئے ہوئے لوگوں کو اسلام اور توحید کی دعوت فرمایا کرتے تھے،*
*★_ قریش کی مخالفت:-*
*"_ مغرور قریش کو جو عرب میں اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھتے تھے، جیسے سمندر میں ویل مچھلی، نبی صل اللہ علیہ وسلم کا وعظ پسند نہ آیا، وہ نبوت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے اور بعید سمجھتے تھے کہ اللہ کے حکم سے کوئی انسان انسانوں کے سمجھانے کے لیے آئے، وہ جزا اور سزائے اعمال کے قائل نہ تھے، اس لیے یہ تعلیم کے موت کے بعد اعمال کی جوابدہی ہوگی، ان کے نزدیک بالکل قابل تمسخر تھی،*
*★_ وہ خاندان اور شرافت، بزرگان پر نہایت مغرور تھے اور انہیں اسلامی مساوات اور اسلامی اخوت کا قبول کرنا ایک قسم کی حقارت اور ذلث محسوس ہوتی تھی، ان میں اکثر قبائل بنو ہاشم سے مخالفت رکھتے تھے اور دشمن قبیلے کے ایک شخص کی تعلیم پر چلنا انہیں عار معلوم ہوتا تھا، وہ بت پرستی پر بالکل قانع تھے اور اس سے برتر کسی مذہب میں کسی خوبی کا امکان بھی ان کے تصور میں نہ آتا تھا، وہ زنا، جوا، رہزنی، قتل، عہدشکنی، آوارگی، ہر ایک قانون و قاعدہ کی بندش و قید سے آزاد رہنے، بیشمار عورتوں کو گھر میں ڈالے رکھنے کے عادی تھے اور اسلام کا قانون ان کو اپنی عادات کا دشمن معلوم ہوتا تھا، اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر باندھی اور اسلام کا نام و نشان مٹا دینے کا فیصلہ کیا_,"*
[10/14, 8:36 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اسلام کے خلاف تدبیریں:-*
*"_ اول تدبیر یہ اختیار کی گئی کہ اسلام لانے والوں کو سخت اذیت دی جائے تاکہ جو مسلمان ہو چکے ہیں واپس آ جائیں اور نئے لوگ اسے اختیار نہ کریں, قریش نے اسلام لانے والوں پر جو مظالم کیے، انہیں جو تکالیف اور اذیتیں دیں، ان کا مفصل بیان دشوار ہے، مختصر طور پر ان کے عذاب دہی کے طریقوں اور چند بزرگ واروں کا حال مذکور ہوتا ہے :-*
*★_(١)_ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشی تھے، امیہ بن خلف کے غلام تھے، جب امیہ نے سنا کہ بلال رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے ہیں تو نئے نئے عذاب ان کے لیے ایجاد کئے گئے، گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے ہاتھ میں دی جاتی اور وہ مکہ کی پہاڑیوں میں انہیں لے کر پھرتے، رسی کے نشان ان کی گردن پر نمایاں ہو جاتے، وادی مکہ کی گرم ریت پر انہیں لیٹا دیا جاتا اور گرم گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا، مشکیں باندھ کر لکڑیوں سے پیٹا جاتا، دھوپ میں بٹھلایا جاتا، بھوکا رکھا جاتا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ ان سب حالتوں میں بھی احد احد کے نعرے لگاتے رہتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدا اور اللہ کے لیے آزاد کر دیا،*
*★_ (٢) _حضرت عمار رضی اللہ عنہ ان کے والد یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا مسلمان ہو گئے تھے, ابو جہل نے انہیں سخت عذاب پہنچائے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مار کھاتے، عذاب سہتے دیکھا، فرمایا- یاسر کے گھرانے والو ! صبر کرو تمہارا مقام جنت ہے, کمبخت ابوجہل نے بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کے شرمگاہ میں نیزہ مارا اور انہیں جان سے مار ڈالا،*
[10/14, 8:46 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ (٣)_ ابو فکیہ جن کا نام افلح رضی اللہ عنہ تھا، کے پاؤں میں رسی ڈال کر انہیں پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا،*
*★_(٤)_حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے سر کے بال کھیچے جاتے، گردن مروڑی جاتی، گرم پتھروں پر اور بارہا آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا،*
*★_(٥)_ قریش کا یہ سلوک غلاموں اور ضعیفوں کے ساتھ ہی نہ تھا، اپنے فرزندوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی وہ ایسی ہی سنگدلی کا برتاؤ کیا کرتے تھے، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خبر ان کے چچا کو ہوئی، تو وہ کمبخت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کھجور کی صف میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان کی ماں نے گھر سے نکال دیا تھا، اسی جرم میں کہ وہ اسلام لے آئے تھے، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قریش گائے اونٹ کے کچے چمڑے میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے، بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتے پتھروں پر گرا دیا کرتے تھے،*
*★_ غرض ایسی وحشیانہ سزائیں دیتے تھے کہ صرف اسلام کی صداقت ہی ان کا مقابلہ کرسکتی تھی، پہلی امتوں نے تو کھوٹے سکے لے کر انبیاء علیہم السلام گرفتار اور قتل تک کرا دیا تھا،*
[10/17, 7:37 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریش کی بدسلوکی _,"*
*"_ بسا اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے تاکہ رات کے اندھیرے میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پاؤں زخمی ہوں، گھر کے دروازے پر گندگی پھینکیں جاتی،*
*★"_ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا چشم دید بیان ہے کہ ایک روز نبی صل اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے اپنی چادر کو لپیٹ دے کر رسی جیسا بنایا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے، تو چادر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال دیا اور پیچ در پیچ دینے شروع کیے، گردن مبارک بہت بھیچ گئی تھی، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی اطمینان قلب سے سجدے میں پڑے ہوئے تھے، اتنے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے دھکا دے کر عقبہ کو ہٹایا اور زبان سے یہ آیت پڑھ کر سنائیں:-*
*"_ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ _," ( المؤمن: ٢٨)*
*"_ کیا تم ایک بزرگ آدمی کو مارتے ہو اور صرف اس جرم میں کہ وہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے اور تمہارے پاس روشن دلائل بھی لے کر آیا ہے_,"*
*"_ چند شریر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لپٹ گئے اور ان کے ساتھ بہت مار پیٹ کی _,*
*★_ ایک دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے لگے، قریش بھی صحن کعبہ میں جا بیٹھے، ابوجہل بولا کہ آج شہر میں فلاں جگہ اونٹ ذبح ہوا ہے اوجھڑی پڑی ہوئی ہے، کوئی جائے اٹھا لائے اور اس ( نبی صلی اللہ وسلم) کے اوپر دھر دے،*
*"_ شقی عقبہ اٹھا، نجاست بھری اوجھڑی اٹھا لایا، جب نبی صل اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو پشت مبارک پر رکھ دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ رب العزت کی جانب متوجہ تھے، کچھ خبر نہ ہوئی، کفار ہنسی کے مارے لوٹے جاتے تھے اور ایک دوسرے پر گرے جاتے تھے،*
*★_ ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحابی بھی موجود تھے، کافروں کا ہجوم دیکھ کر ان کو تو حوصلہ نہ ہوا مگر معصومہ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا آ گئیں، انہوں نے باپ کی پیٹھ سے اوجھڑی کو پرے پھینک دیا اور ان سنگ دلوں کو سخت ست بھی کہا،*
[10/17, 7:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر جو ستم ہو رہے تھے، اسے ناکافی سمجھا، اس لئے بجائے متفرق کوششوں کے اب باقاعدہ کمیٹیاں بنائی گئی، ایک کمیٹی قائم ہوئی جس کا امیر ابو لہب تھا اور مکہ کے 25 سردار اس کے ممبر تھے، اس کمیٹی میں حل طلب سوال ایک یہ بھی تھا کہ جو لوگ دور دراز سے مکہ میں آتے ہیں انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہا جائے تاکہ لوگ ان کی باتوں میں نہ پھنسیں اور ان کی عظمت کے قائل نہ ہوں،*
*★_ ایک نے کہا ہم بتلایا کریں گے کہ وہ کاہن_,"*
*"_ ولید بن مغیرہ ( جو ایک خرانٹ بڈھا تھا) بولا :- میں نے بہت سے کاہن دیکھے، لیکن کہاں تو کاہنوں کی تک بندیاں اور کہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ! ہم کو ایسی بات نہ کہنی چاہیے جس سے قبائل عرب یہ سمجھیں کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں _,"*
*★_ ایک نے کہا :- ہم اسے دیوانہ بتایا کریں گے_,"*
*"_ ولید بولا :- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانگی سے کیا نسبت ہے ؟*
*"_ ایک بولا- اچھا ہم کہیں گے وہ شاعر ہے _,"*
*"_ ولید نے کہا :- ہم جانتے ہیں کہ شعر کیا ہوتا ہے، اصناف سخن ہم کو بخوبی معلوم ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو شعر سے ذرا بھی مشابہت نہیں_,"*
*★_ ایک بولا :- ہم بتایا کریں گے کہ وہ جادوگر ہے_,"*.
*"_ ولید نے کہا:- جس طہارت و نظافت و نفاست سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رہتے ہیں، وہ جادوگروں میں کہاں ہوتی ہیں، جادوگروں کی منحوس سورتیں اور نجس عادتیں الگ ہی ہوتی ہیں_,"*
[10/17, 8:47 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب سب نے عاجز ہو کر کہا:- چچا تم ہی بتاؤ کہ پھر کیا کہا جائے ؟ ولید بن مغیرہ نے کہاں :- سچ تو یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں عجب شیرنی ہے، ان کی گفتگو میں نور سی حلاوت ہے، کہنے کو تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کا کلام ایسا ہے جس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی میں جدائی ہو جاتی ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے_,"*
*★"_ آخر اس کمیٹی نے مندرجہ ذیل قرار پر اتفاق کیا:-*
*"_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح سے دق ( ستانا) کیا جائے, بات بات میں ان کی ہنسی اڑائی جائے، تمسخر اور ایذا سے سخت تکلیف دی جائے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا سمجھنے والوں کو انتہا درجہ کی تکلیف کا شکار کیا جائے،*
*★_ ہجرت حبشہ :- جب کفار نے مسلمانوں کو بے حد ستانا شروع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اجازت دے دی کہ جو کوئی چاہے وہ اپنی جان و ایمان کے بچاؤ کے لیے حبشہ کو چلا جائے، اس اجازت کے بعد ایک چھوٹا سا قافلہ 12 مرد اور 4 عورتوں کا رات کی تاریکی میں نکلا اور بندرگاہ شعیہ سے جہاز پر سوار ہو کر حبشہ کو روانہ ہو گیا_,*
*★_ اس مختصر کا فیصلے کے سردار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ( بنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے ساتھ تھیں, نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- لوط اور ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پیلا جوڑا ہے جنہوں نے راہ حق میں ہجرت کی ہے _," ( رواہ حاکم فی المستدرک -6849)*
[10/17, 9:00 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان کے پیچھے اور بھی مسلمان (83 مرد 18 عورتیں) مکہ سے نکلے اور حبشہ کو روانہ ہوئے، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا زاد بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ بھی تھے، قریش نے سمندر تک ان کا تعاقب کیا، مگر یہ کشتیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو چکے تھے،*
*★_ حبشہ کا بادشاہ عیسائی تھا، مکہ کے کافر بھی اس کے پاس تحفے تحائف لے کر گئے اور جا کر کہا کہ ان لوگوں کو جو ہمارے ملک سے بھاگ کر آئے ہیں ہمارے سپرد کر دیا جائے، مسلمان دربار میں بلائے گئے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا زاد بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے دربار میں یہ تقریر کی :-*
*★_حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اسلام پر تقریر :-*
*"_ اے بادشاہ ! ہم جہالت میں مبتلا تھے، بتوں کو پوجتے تھے، نجاست میں آلودہ تھے، مردار کھاتے تھے، بے ہودہ بکا کرتے تھے، ہم میں انسانیت اور سچی مہمانداری کا نشان نہ تھا، ہمسایہ کی رعایت نہ تھی، کوئی قاعدہ قانون نہ تھا، ایسی حالت میں اللہ نے ہم میں سے ایک بزرگ کو مبعوث کیا، جس کے حسب و نسب، سچائی، دیانتداری، تقوی پاکیزگی سے ہم خوب واقف تھے، اس نے ہم کو توحید کی دعوت دی اور سمجھایا کہ اس اکیلے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ جانیں، اس نے ہم کو پتھروں کی پوجا سے روکا، اس نے فرمایا کہ ہم سچ بولا کریں، وعدہ پورا کریں، رحم کریں، گناہوں سے دور رہیں، برائیوں سے بچے، اس نے حکم دیا کہ ہم نماز پڑھا کریں، صدقہ دیا کریں، روزے رکھا کریں، ہماری قوم ہم سے ان باتوں پر بگڑ بیٹھی، قوم نے جہاں تک ہو سکا ہم کو ستایا تاکہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنا چھوڑ دیں اور لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کی پوجا کرنے لگ جائیں، ہم نے ان کے ہاتھوں بہت ظلم اور تکلیفیں اٹھائیں ہیں اور جب مجبور ہوگئے تب آپ کے ملک میں پناہ لینے کے لیے آئے ہیں _," ( سیرت ابن ہشام، جلد اول صفحہ 116)*
[10/18, 8:03 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بادشاہ نے یہ تقریر سن کر کہا مجھے قرآن سناؤ، جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم سنائی، بادشاہ پر ایسی تاثیر ہوئی کہ وہ رونے لگ گیا اور اس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو وہی رسول ہیں، جن کی خبر یسوع بن مریم علیہ السلام نے دی تھی، اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس رسول کا زمانہ ملا، پھر بادشاہ نے مکہ کے کافروں کو دربار سے نکلوا دیا_,*
*★_ جب مکہ کے کافروں نے دیکھا کہ حبشہ جانے کا بھی کچھ فائدہ نہ نکلا تو انہوں نے کہا آؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے تو لالچ دیں، پھر دھمکی دیں، کسی طرح تو مان ہی جائیں گے، یہ مشورہ کرکے مکہ کا مشہور مالدار سردار جس کا نام عتبہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے یوں تقریر کی:-*
*"_ میرے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر تم اس کارروائی سے مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم خود ہی تمہارے پاس اتنی دولت جمع کر دیتے ہیں کہ تم مالامال ہو جاؤ، اگر تم عزت کے بھوکے ہو تو اچھا ہم سب تم کو اپنا رئیںس مان لیتے ہیں، اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم تم کو بادشاہ عرب بنا دیتے ہیں، جو چاہو سو کرنے کو حاضر ہیں مگر تم اپنا یہ طریقہ چھوڑ دو اور اگر تمہارے دماغ میں کچھ خلل آگیا ہے تو بتلا دو کہ ہم تمہارا علاج کرائیں_,"*
[10/22, 7:17 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- جو کچھ تم نے میری بابت کہا وہ ذرا بھی صحیح نہیں، مجھے مال، عزت، دولت حکومت کچھ درکار نہیں اور میرے دماغ میں خلل بھی نہیں، میری حقیقت تم کو قرآن کے اس کلام سے معلوم ہو گی:-*
*"_ (ترجمہ ) یہ فرمان اللہ کے حضور سے آیا، وہ بڑی رحمت والا اور نہایت رحم والا ہے، یہ بڑی پڑھی جانے والی کتاب ہے، عربی زبان میں سمجھدار لوگوں کے لئے اس میں سب باتیں کھلی کھلی درج ہیں جو لوگ اللہ کا حکم مانتے ہیں، ان کے واسطے اس فرمان میں بشارت ہے اور جو انکار کرتے ہیں ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، تاہم بہت سے لوگوں نے اس فرمان سے منہ موڑ لیا ہے وہ اسے سنتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا ہمارے دل پر کوئی اثر نہیں اور ہمارے کان اس کے شنوا نہیں اور ہم میں اور تم میں ایک طرح کا پردہ پڑا ہے، تم اپنی( تدبیر) کرو, ہم اپنی (تدبیر) کر رہے ہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہیں جیسا بشر ہوں، مگر مجھ پر وحی آتی ہے اور اللہ کے فرشتے نے یہ بتلا دیا کہ سب لوگوں کا معبود صرف ایک ہے، اسی کی طرف متوجہ ہونا اور اسی سے گناہوں کی معافی مانگنا لازم ہے، ان لوگوں پر افسوس ہے جو شرک کرتے ہیں اور صدقہ نہیں دیتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، لیکن جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے، ان کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے _,"*
*★_ کلام پاک کے سننے سے عتبہ پر ایک محویت کا عالم طاری ہوگیا، وہ ہاتھوں پر سہارا دیے گردن پشت پر ڈالے ہوئے سنتا رہا اور بالآخر چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا، قریش جو نتیجہ ملاقات معلوم کرنے کے مشتاق بیٹھے تھے، سردار عتبہ کے پاس جمع ہوگئے، پوچھا -کیا دیکھا ؟ کیا کہا؟ کیا سنا ؟*
*"_عتبہ بولا :- معشر قریش ! میں ایسا کلام سن کر آیا ہوں جو نہ کہانت ہے نہ شعر ہے، نہ جادو نہ منتر ہے، تم میرا کہا مانو، میری رائے پر چلوں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حال پر چھوڑ دو_,"*
*"_ لوگوں نے یہ سن کر کہا:- لو ! عتبہ پر بھی محمد صل اللہ علیہ وسلم کی زبان کا جادو چل گیا_,"*
*★_ جب لالچ کی تدبیر نہ چلی تب سارے قبیلوں کے سردار اکھٹے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا ابو طالب کے پاس آکر یوں تقریر کی:- ہم نے آپ کا بہت ادب کیا, آپ کا بھتیجا ہمارے ٹھاکرو اور بتوں کو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے، اتنا سخت ست کہنے لگا ہے کہ ہم صبر نہیں کر سکتے، آپ اسے سمجھا کر چپ رہنے کی ہدایت کریں' ورنہ ہم اسے جان سے مار ڈالیں گے اور تم اکیلے ہم سب کا کچھ نہیں کر سکو گے_,"*
*"_سارے ملک کی عداوت دیکھ کر تایا کا دل درد اور محبت سے بھر گیا, انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور سمجھایا کہ بت پرستی کا رد نہ کیا کرو، ورنہ میں بھی تمہاری کچھ حمایت نہیں کر سکوں گا _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- تایا ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر لا رکھیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر، تب بھی میں اپنے کام سے نہ ہٹوں گا اور اللہ کے حکم میں سے ایک حرف بھی کم و بیش نہ کروں گا، اس کام میں خواہ میری جان بھی جاتی رہے_,"*
[10/23, 6:33 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس ناکامی کے بعد قریش مکہ نے مشاورت کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم کے سامنے بلا کر سمجھانا چاہئے، اس مشاورت کے بعد انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ سردارانِ قوم آپ سے کچھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور کعبہ کے اندر جمع ہیں _,"*
*★_ نبی صلی اللہ وسلم خوش خوش وہاں آ گئے کیونکہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کو ان کے ایمان لے آنے کی بڑی ہی آرزو تھی، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا بیٹھے تو انہوں نے گفتگو کا آغاز اس طرح کیا :-*
*"_اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمھیں یہاں بات کرنے کے لئے بلایا ہے, بخدا ہم نہیں جانتے کہ کوئی شخص اپنی قوم پر اتنی مشکلات لایا ہو جس قدر تم نے قوم پر ڈال رکھی ہے، کوئی خرابی ایسی نہیں جو تمہاری وجہ سے ہم پر نہ آ چکی ہو، اب تم یہ بتاؤ کہ اگر تم اپنے اس نئے دین سے مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لیے مال جمع کردیں، اتنا کہ ہم میں سے کسی کے پاس اتنا روپیہ نہ نکلے اور اگر شرف و عزت کے خواستگار ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیں اور اگر سلطنت کے طالب ہو تو تمہیں اپنا بادشاہ مقرر کر لیں اور اگر تم سمجھتے ہو کہ جو چیز تمہیں دکھائی دیتی ہے کوئی جن ہے جو غالب آ گیا ہے، تو ہم ٹونے ٹوٹکوں کے لئے مال صرف کردیں تاکہ تم تندرست ہو جاؤ یا قوم کے نزدیک معذور سمجھے جاؤ _,"*
*★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- تم نے جو کچھ کہا میری حالت کے ذرا بھی مطابق نہیں، جو تعلیم میں لے کر آیا ہوں وہ نہ طلب اموال کے لیے ہے، نہ جلب شرف یا حصول سلطنت کے واسطے ہے، بات یہ ہے کہ اللہ نے مجھے تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، مجھ پر کتاب اتاری ہے، مجھے اپنا بشیرونذیر بنایا ہے، میں نے اپنے رب کے پیغام تم کو پہنچا دیے ہیں اور تمہیں بخوبی سمجھا دیا ہے، اگر تم میری تعلیمات کو قبول کر لو گے تو یہ تمہارے لئے دنیا و آخرت کا سرمایا ہے اور اگر رد کروگے تب میں اللہ کے حکم کا انتظار کروں گا کہ وہ میرے لئے اور تمہارے لئے کیا حکم بھیجتا ہے_,"*
[10/24, 5:29 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش نے کہا:- اچھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر تم ہماری ان باتوں کو نہیں مانتے تو ایک اور بات سنو، تمہیں معلوم ہے کہ ہم کس قدر سختی اور تنگی سے دن کاٹ رہے ہیں، پانی ہمارے پاس سب سے کم ہے اور گزران ہماری سب سے زیادہ تنگ ہے، اب تم اللہ سے یہ سوال کرو ان پہاڑوں کو ہمارے سامنے سے ہٹا دے تاکہ ہمارے شہر کا میدان کھل جائے، نیز ہمارے لئے ایسی نہریں جاری کر دے جیسی شام و عراق میں جاری ہیں، ہمارے باپ دادا کو زندہ کر دے، ان زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو کیونکہ وہ ہمارا سردار تھا اور سچ بولا کرتا تھا، ہم اس سے تمہاری بابت پوچھ لیں گے، اگر اس نے تمہاری باتوں کو سچ مان لیا اور تم نے ہمارے دوسرے سوالوں کو بھی پورا کر دیا، تب ہم بھی تمہیں سچا جان لیں گے اور مان لیں گے کہ االلہ کے ہاں تمہارا بھی کوئی درجہ ہے اور اس نے فی الحقیقت تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے، جیسا کہ تم کہہ رہے ہو_,"*
*★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- میں ان کاموں کے لئے رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں, میں تو اس تعلیم کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں نے اللہ کے پیغامات تمہیں سنا دیے ہیں, اگر تم اس تعلیم کو قبول کر لو گے تو یہ تمہاری دنیا و آخرت کے لیے سرمایہ ہے اور اگر رد کرو گے تو میں اللہ کے حکم کا انتظار کروں گا، جو کچھ اس نے میرا اور تمہارا فیصلہ کرنا ہوگا فرمائے گا_,"*
*★_ قریش نے کہا:- اچھا ! اگر تم ہمارے لئے کچھ نہیں کرتے تو خود اپنے لیے اللہ سے سوال کرو :- کہ وہ ایک فرشتے کو تمہارے ساتھ مقرر کردے، جو یہ کہتا رہا کرے کہ یہ شخص سچا ہے اور ہم کو تمہاری مخالفت سے منع بھی کردے_,"*
*"_ہاں تم اپنے لیے بھی یہ بھی سوال کرو کہ باغ لگ جائیں، بڑے بڑے محل بن جائیں، خزانہ میں سونا چاندی جمع ہو جائے جس کی تمہیں ضرورت بھی ہے، اب تک تو خود ہی بازار میں جاتے اور اپنی معاش تلاش کیا کرتے ہو، ایسا ہو جانے کے بعد ہم تمہاری فضیلت اور شرف کی پہچان حاصل کر سکیں گے اور تمہیں اللہ کا رسول سمجھ سکیں گے_,"*
*★_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- میں ایسا نہ کروں گا اور اللہ سے بھی ایسا سوال نہ کروں گا اور ان باتوں کے لئے مبعوث بھی نہیں ہوا، مجھے تو اللہ نے بشیر و نذیر بنایا ہے، تم مان لو تمہارے لئے ذخیرہ دارین ہے ورنہ میں صبر کروں گا اور اللہ کے فیصلے کا منتظر رہوں گا _,"*
[10/25, 5:36 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش نے کہا:- اچھا تم آسمان ہی کا ٹکڑا توڑ کر ہم پر گرا دو کیوں کہ تمہارا ازعم یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے، پس جب تک تم ایسا نہ کرو گے ہم ایمان نہیں لائیں گے_,"*
*"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- یہ اللہ کے اختیار میں ہے, وہ اگر چاہے تو ایسا کرے_,"*
*★_ قریش نے کہا :- محمد صلی اللہ وسلم یہ بتاؤ کہ تمہارے رب نے تمہیں پہلے سے یہ نہ بتلایا کہ ہم تمہیں بلائیں گے اور ایسے ایسے سوال کریں گے، یہ یہ چیزیں طلب کریں گے، ہماری باتوں کا یہ جواب ہے اور اللہ کا منشا ایسا ایسا کرنے کا ہے ؟ چوں کہ تمہارے رب نے ایسا نہیں کیا اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے سنا ہے وہ صحیح ہے کہ یمامہ میں ایک شخص رہتا ہے، اس کا نام رحمٰن ہے، وہی تجھے ایسی باتیں سکھلاتا ہے، ہم تو رحمٰن پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے،* *( اللہ عزوجل کے اسمائے حسنیٰ جو اسلام نے بتائے ہیں ان میں رحمٰن ایسا نام ہے جس سے عرب ہرگز واقف نہ تھے، اس لیے وہ اللہ کے نام رحمٰن سے بہت چڑا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ کسی گمنام شخص کا نام ہو گا حالانکہ رحمٰن رحمت سے مبالغہ کا صیغہ ہے، یعنی کمال رحمت والا)*
*★_ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھو ! آج ہم نے اپنے سب عزرات سنا دیے ہیں، اب ہم تم سے قسمیہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں اس تعلیم کی اشاعت کبھی نہیں کرنے دیں گے، حتی کہ ہم مر جائیں یا تم مر جاؤ _،"*
*"_یہاں تک بات چیت ہوئی تھی کہ ایک ان میں سے بولا:- ہم ملائکہ کی عبادت کرتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں_"،*
*"_ دوسرا بولا :- محمد صل اللہ علیہ وسلم ہم تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے نہ آجائیں _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے، نبی سلام کے ساتھ عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ بھی اٹھ کھڑا ہوا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد بھائی ( عاتکہ بنت عبدالمطلب کا بیٹا) تھا, اس نے کہا :- محمد صل اللہ علیہ وسلم ! دیکھو تمہاری قوم نے اپنے لئے کچھ چیزوں کا تم سے سوال کیا, وہ بھی تم نے نہ مانا، پھر انہوں نے یہ چاہا کہ تم خود اپنے ہی لیے ایسی علامات کا اظہار کرو جس سے تمہاری قدرومنزلت کا ثبوت ہو سکتا ہو، اسے بھی تم نے قبول نہیں کیا، پھر انہوں نے اپنے لئے تھوڑا سا عذاب بھی چاہا جس کا خوف تم دلایا کرتے ہو، تم نے اس کا بھی اقرار نہ کیا، بس اب میں تم پر کبھی ایمان نہیں لاؤنگا، ہاں اگر تم میرے سامنے آسمان کو زینہ لگا کر اوپر چڑ جاؤ اور میرے سامنے اس زینے سے اترو اور تمہارے ساتھ چار فرشتے بھی آئیں اور وہ تمہاری شہادت بھی دیں، میں تو تب بھی تم پر ایمان نہیں لاؤ گا _,"*
*★_ آپ نے دیکھا کہ اسلام کی عداوت میں عبداللہ کتنا سخت ہے، لیکن چند سال نہ گزرنے پائے تھے کہ فتح مکہ سے پہلے یہی عبداللہ اللہ تعالی کی توفیق سے نبی صل وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام لےآیا، اہل دانش جان سکتے ہیں کہ ایسے شخص کا اسلام لانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جو آسمان پر زینہ لگا کر چڑھ جانے، فرشتوں کی شہادت دینے سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ تو وہ باتیں ہیں جن کے دیکھ لینے کے بعد بھی عبداللہ ایمان نہیں لانا چاہتا تھا _,"*
[10/26, 6:47 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس رد و انکار پر بھی برابر قریش کو اسلام کی ہدایت کیا کرتے اور فرمایا کرتے کہ میری تعلیم ہی میں سب کچھ تمہارے لیے موجود ہے ہے، جن دانشمندوں نے ایمان کو قبول کیا اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کاربند ہوئے انہیں اس سے بھی زیادہ معروف فوائد حاصل ہو گئے، جن کا سوال کفار نے کیا تھا _,"*
*★_ ہم کو اس موقع پر انجیل کا وہ مقام یاد آتا ہے، جس میں مسیحی علیہ السلام سے آزمائش کے لئے شیطان نے کئی سوال کئے اور مسیحی علیہ السلام نے ان سب کا جواب انکار میں دیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے برگزیدہ رسول علیہ السلام اپنی صداقت کے ثبوت میں اپنی تعلیم کو پیش کیا کرتے ہیں، معجزہ یا خرق عادت کو پیش نہیں کیا کرتے، کیونکہ پھر صفت ایمان بالغیب کی خوبی باقی نہیں رہتی، اگرچہ کسی دیگر اوقات میں کسی ضرورت کے لیے ان سے معجزات کا صدور بھی بکثرت ہوتا رہتا ہے_,"*
*★_ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا :-"*
*"_ نبوت کے چھٹے برس کا ذکر ہے کہ ایک روز ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر بیٹھے ہوئے تھے، ابو جہل وہاں پہنچ گیا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے تو گالیاں دیں اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گالیاں سن کر چپ رہے تو اس نے ایک پتھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر پھینک مارا جس سے خون چلنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا حمزہ رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی، وہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے، قرابت کے جوش میں ابو جہل کے پاس پہنچے اور اس کے سر پر زور سے کمان کھیچ ماری کہ وہ زخمی ہوگیا، حمزہ رضی اللہ عنہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا:- بھتیجے ! تم یہ سن کر خوش ہوں گے کہ میں نے ابو جہل سے تمہارا بدلہ لے لیا _,"*
*"_ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- تایا میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا، ہاں تم مسلمان ہو جاؤ تو مجھے بڑی خوشی ہوگی _,"*
*"_ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اسی وقت مسلمان ہو گئے _,*
[10/27, 5:24 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا :- امیر حمزہ رضی اللہ عنہ سے تین دن پیچھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، یہ بڑے دلیر اور بہادر تھے، قریش کی طرف سے بیرونی ممالک کی سفارت کا کام ان سے متعلق تھا، ایک دن عمر رضی اللہ عنہ اپنی بہادری کے بھروسے پر نبی صل اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے، بدن پر سب ہتھیار سجا رکھے تھے، راستے میں ان کو پتہ لگا کہ بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں، یہ سن کر بہن کے گھر گئے اور ان دونوں کو خوب مارا، ان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا :- عمر تم پہلے وہ کتاب سن لو جسے سن کر ہم ایمان لے آئے ہیں، اگر وہ تم کو اچھی نہ لگے تو ہم کو مار ڈالنا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :- اچھا"*
*"_ اس وقت ان کے گھر میں نبی صل اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی بھی تھے، جو عمر رضی اللہ عنہ کے آ جانے سے چھپ گیے تھے، انہوں نے قرآن مجید ( طہ کا پہلا رکوع) سنایا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ قرآن سن رہے تھے اور بے اختیار رو رہے تھے، غرض عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لے آئے، جو شخص گھر سے قاتل بن کر نکلا تھا، وہ جان نثار بن گیا، آگے چل کر ان کا لقب فاروق ہوا _,"*
*★_ اس وقت تک مسلمان نماز اپنے گھروں میں چھپ چھپ کر پڑھا کرتے تھے، اب کعبہ میں جا کر پڑھنے لگے، کافر یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ جلے اور مسلمانوں کو بے حد تکلیف دینے لگے اور نبی صلی وسلم کے ساتھ بھی گستاخی سے پیش آتے تھے _,*
[10/28, 5:50 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبیلہ سمیت تین سال تک پہاڑ کی گھاٹی کے اندر محصور رہے :-*
*"_جب کفار نے دیکھا کہ ایسی اذیتوں اور تکلیفوں پر بھی نبی صل اللہ علیہ وسلم اپنی تعلیم پر قائم ہے اور بے نظیر جرأت سے اور انتھک محنت سے اپنا کام کیے جاتے ہیں تو بماہ محرم 7 نبوت انہوں نے کہا کہ :- بنو ہاشم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ ہے اگرچہ مسلمان نہیں ہوا پھر بھی نبی صل اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا، آؤ ان سے ناطہ رشتہ کرنا چھوڑ دو، انہیں گلی بازار میں پھرنے نہ دو، ان کو کوئی چیز مول بھی نہ دو _," اس بات کا معاہدہ لکھا گیا اور کعبہ پر لٹکا یا گیا _,"*
*★_ نبی صل اللہ علیہ وسلم اور ان کا قبیلہ مجبور ہوگئے، گھر بار چھوڑ کر پہاڑ کی گھاٹی میں محبوس و محسور ہو کر رہنے لگے، قریشی اجناس خورونی کا ( غلہ و دیگر چیزوں کے لئے) جانا بھی بند کر دیا، بنی ہاشم کے بچے بھوک کے مارے اس قدر رویا کرتے تھے کہ ان کی آواز گھاٹی کے باہر تک سنائی دیتی_,"*
*★_تین برس تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خاندان نے اسی طرح کاٹے اور جو مسلمان تھے وہ بھی اپنے گھروں میں قیدی بن کر رہنے لگے، حج کے دنوں میں جب کافر بھی دشمن سے لڑنا حرام جانتے تھے، نبی صل اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے باہر نکلا کرتے تھے اور لوگوں کو اللہ پر ایمان لانے کا وعظ سنایا کرتے تھے، کم بخت ابولہب صبح سے شام تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے پھرا کرتا اور کہا کرتا- لوگوں یہ دیوانہ ہے، اس کی بات نہ سنو، جو کوئی اس کی بات سنے گا اور مانے گا وہ تباہ ہو جائے گا_,"*
*★_ تین برس تک نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس سختی کو نہایت صبر و استقلال سے برداشت کیا، جب ان کافروں نے گھاٹی پر سے پہرے اٹھا لئے اور دیمک نے اس معاہدے کے کاغذ کو کھا لیا جو کعبہ پر لٹکایا گیا تھا، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور پھر وعظ کا سلسلہ شروع کر دیا _,"*
[10/29, 7:26 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے، وہاں مشرق سردار بیٹھے ہوئے تھے، ابو جہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور تمسخر سے کہا :- عبدمناف والوں ! دیکھو تمہارا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آ گیا _,"*
*"_عقبہ بن ربیعہ بولا:- ہمیں کیا انکار ہے ہم میں سے کوئی نبی بن بیٹھے، کوئی فرشتہ کہلا ئے_,"*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں سن کے لوٹے اور ان کے پاس آئے، پہلے عقبہ سے فرمایا :- عقبہ ! تو نے اللہ اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کی حمایت کبھی بھی نہ کی، تو اپنی ہی بات کی پیچ پر اڑا رہا_,"*
*"_ پھر ابوجہل سے فرمایا:- تیرے لیے وہ وقت بہت قریب آرہا ہے، دور نہیں رہا ہے کہ تو تھوڑا ہنسے گا اور بہت روئے گا _,"*
*"_ پھر قریش سے فرمایا:- تمہارے لیے وہ ساعت نزدیک آرہی ہے کہ جس دین کا تم انکار کرتے ہو آخرش اسی میں داخل ہو جاؤ گے _,"*
*★_ ابوطالب کا انتقال :- 10 نبوت میں نبی صل اللہ علیہ وسلم کے تایا ابو طالب جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد تھے، انتقال ہوگیا، ابوطالب نے لڑکپن سے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی تھی اور جب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کی دعوت اور منادی شروع کی تھی وہ برابر مددگار رہے تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا بڑا صدمہ ہوا _,*
*★_ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال :-*
*"_ ان سے تین دن پیچھے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیوی طاہرہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا نے انتقال فرمایا، جنہوں نے اپنا سارا مال و زر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی پر قربان اور اللہ کی راہ میں صرف کر دیا تھا، سب سے پہلے اسلام لائ تھیں، جبرائیل علیہ السلام نے ان کو اللہ کا سلام پہنچایا تھا، ان کے گزر جانے کا رنج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہوا _,"*
[10/30, 6:52 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ ستانا شروع کردیا، ایک دفعہ ایک شریر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کیچڑ پھینک دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح گھر میں داخل ہوئے، نبی صل وسلم کی بیٹی اٹھی، وہ سر دھلاتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی، نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- پیاری بیٹی ! تم کیوں روتی ہو، تیرے باپ کی حفاظت اللہ خود فرمائے گا _,*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغ کے لیے مختلف قبائل کی جانب سفر کرنا:-*
*"_ اگرچہ ابوطالب کا سہارا جاتا رہا، اگرچہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی بیوی جو مصیبتوں اور تکلیفوں میں نہایت غم گسار تھیں، جدا ہوگئیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اب زیادہ جوش سے وعظ کا کام شروع کر دیا، چنانچہ تھوڑے ہی دنوں بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے اور بیرونی قبائل کو وعظ کے لئے تشریف لے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سفر میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے، مکہ اور طائف کے درمیان جتنے قبیلے تھے سب کو وعظ سناتے، توحید کی منادی کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ پا طائف پہنچے،*
*"_طائف میں بنو ثقیف آباد تھے، سرسبز ملک اور سرد پہاڑ پر رہنے کی وجہ سے ان کے غرور کی کوئی حد نہ تھی, غبدیالیل، مسعود، حبیب تینوں بھائی وہاں کے سردار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے انہیں سے ملے اور انہیں اسلام کی دعوت فرمائی،*
*★_ ان میں سے ایک بولا میں کعبہ کے سامنے داڑھی منڈوا دوں اگر تجھے اللہ نے رسول بنایا ہو_,"*
*"_ دوسرا بولا :- کیا اللہ کو تیرے سوا اور کوئی بھی رسول بنانے کو نہ ملا، جسے چھڑنے کی سواری بھی میسر نہیں، اس نے رسول بنانا تھا تو کسی حاکم یا سردار کو بنایا ہوتا_,"*
*"_تیسرا بولا کہ میں تجھ سے کبھی بات ہی نہیں کروں گا, کیونکہ اگر تو اللہ کا رسول ہے جیسا کہ تو کہتا ہے تب تو یہ بہت خطرناک بات ہے کہ میں تیرے کلام کو رد کروں اور اگر تو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے تو مجھے شایان نہیں کہ تجھ سے بات کروں_,"*
[10/30, 7:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- اب میں تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ اپنے خیالات اپنے ہی پاس رکھو, ایسا نہ ہو کہ یہ خیالات دوسرے لوگوں کے ٹھوکر کھانے کا سبب بن جائیں_,"*
*"_ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے وعظ کہنا شروع فرمایا تو ان سرداروں نے اپنے غلاموں اور شہر کے لڑکوں کو سکھلادیا، وہ لوگ وعظ کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے پتھر پھینکتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لہو میں تربتر ہو جاتے، خون بہ بہ کر جوتے میں جم جاتا اور وضو کے لیے پاؤں سے جوتا نکالنا مشکل ہو جاتا،*
*★"_ایک دفعہ بدمعاشوں نے نبی صل اللہ علیہ وسلم کو اس قدر گالیاں دیی، تالیاں بجائیں، چیخیں لگائیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکان کے احاطے میں جانے پر مجبور ہوگئے، یہ جگہ عتبہ و شیبہ فرزندان ربعیہ کی تھی، انہوں نے دور سے اس حالت کو دیکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ترس کھا کر اپنے غلام عداس کو کہا کہ ایک پلیٹ میں انگور رکھ کر اس شخص کو دے آؤ، غلام نے انگور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیے، نبی صل اللہ علیہ وسلم نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور زبان سے فرمایا:- "بسم اللہ" اور پھر انگور کھانا شروع کیے،*
*★_ اداس نے حیرت سے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور پھر کہا :- یہ ایسا کلام ہے کہ یہاں کے باشندے نہیں بولا کرتے_,"*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- تم کہاں کے ہو اور تمہارا مذہب کیا ہے ؟*
*"_عداس نے جواب دیا:- میں عیسائی ہوں اور نینوی کا باشندہ ہوں_,"*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- کیا تم مرد صالح یونس بن متی علیہ السلام کے شہر کے باشندے ہوں_,"*
*"_ عداس نے کہا:- آپ کو کیا خبر ہے کہ یونس بن متی علیہ السلام کون تھے اور کیسے تھے ؟*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں_,"*.
*"_ عداس یہ سنتے ہی جھک پڑا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر، ہاتھ، قدم چوم لیے _,"*
*"★_عتبہ و شیبہ نے دور سے غلام کو ایسا کرتے دیکھا اور آپس میں کہنے لگے لو غلام تو ہاتھوں سے نکل گیا, جب عداس اپنے آقا کے پاس لوٹ کر گیا تو انہوں نے کہا: کم بخت تجھے کیا ہوگیا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ پاؤں سر چومنے لگ گیا تھا، عداس نے کہا:- حضور عالی! آج اس شخص سے بہتر روئے زمین پر کوئی بھی نہیں، اس نے مجھے ایسی بات بتائی جو صرف نبی ہی بتلا سکتا ہے _,"*
*"_ انہوں نے عداس کو ڈاٹ دیا کہ خبردار کہیں اپنا دین نہ چھوڑ بیٹھنا، تیرا دین تو اس کے دین سے بہتر ہے_,"*
*"(_ طبری -1/75)*
[10/30, 9:04 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_اسی مقام پر ایک دفعہ وعظ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کے اتنی چوٹیں لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو کر گر پڑے، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا یا، آبادی سے باہر لے گئے، پانی کے چھینٹے دیئے، تو ہوش آیا_,"*
*★_ اس سفر میں اتنی تکلیفیں اور ایذاؤں کے بعد ایک شخص تک کے مسلمان نہ ہونے کے رنج اور صدمے کے وقت بھی نبی صل اللہ علیہ وسلم کا دل اللہ کی عظمت اور محبت سے بھرپور تھا، اس وقت جو دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی اس کے الفاظ یہ ہیں:-*
*"_ (ترجمہ) الہی اپنی کمزوری, بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے، کیا بیگانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے لیکن جب مجھ پر تیرا غضب نہیں، تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، کیونکہ تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور سے پناہ چاہتا ہوں جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا و دین کے کام اس سے ٹھیک ہو جاتے ہیں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری رضامندی مجھ پر وارد ہو، مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپس ہوتے ہوئے یہ بھی فرمایا:- میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں دعا کرو اگر یہ لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا، امید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور ایک اللہ پر ایمان لانے والی ہوں گی _,"*
*( بخاری3231- 7389, مسلم -4653)*
[10/30, 9:27 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مختلف مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغ کے لیے جانا:-*
*"_ مکہ میں واپس آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اب ایسا کرنا شروع کیا کہ مختلف قبیلوں کی سکونت گاہوں میں تشریف لے جاتے یا مکہ سے باہر چلے جاتے اور جو کوئی مسافر آتا جاتا مل جاتا اسے ایمان اور اللہ پرستی کا وعظ فرماتے، انہی ایام میں قبیلہ بنو کندہ میں تشریف لے گئے، سردار قبیلے کا نام ملیح تھا، نیز قبیلہ عبداللہ کے ہاں بھی پہونچے، انہیں فرمایا کہ تمہارے باپ کا نام عبداللہ تھا، قبیلہ بنو حنیفہ کے گھروں میں تشریف لے گئے، انہوں نے سارے عرب بھر میں سب سے بدتر ق طریق پر نبی صل اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا،*
*★_ قبیلہ بنو عامر بن صعصعہ کے پاس گئے، سردار قبیلہ کا نام بحیرہ بن فراس تھا، اس نے دعوت اسلام سن کر نبی صل اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :- بھلا اگر ہم تیری بات مان لیں اور تو مخالفین پر غالب آ جائے تو کیا تو یہ وعدہ کرتا ہے کہ تیرے بعد یہ امر ( نبوت) مجھ سے متعلق ہوگا, نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے، وہ جسے چاہے گا میرے بعد اسے مقرر کرے گا، بحیرہ بولا:- خوب ! اس وقت تو عرب کے سامنے سینہ سپر ہم بنے اور جب تمہارا کام بن جائے تو مزے کوئی اڑائے، جاؤ ہم کو تیرے کام سے کچھ سروکار نہیں، قبائل کے سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے _،,*
*★_ سوید بن صامت رضی اللہ عنہ کا ایمان لانا:-*
*"_ انہیں ایام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سوید بن صامت رضی اللہ عنہ ملے، ان کا لقب اپنی قوم میں کامل تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام فرمائی، وہ بولے - شاید آپ کے پاس وہی کچھ ہے جو میرے پاس بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:- تمہارے پاس کیا ہے ؟ وہ بولے:- حکمت لقمان_,"*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- بیان کرو _," انہوں نے اپنے کچھ عمدہ اشعار سنائے, نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- یہ اچھا کلام ہے، لیکن میرے پاس قرآن جو اس سے افضل تر ہے اور ہدایت اور نور ہے، اور وہ قرآن سن کر اسلام لے آئے، جب یثرب لوٹ کر گئے تو قوم خزرج نے انہیں قتل کر ڈالا_,"* *( طبری 232)*
[11/3, 6:03 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سفارت یثرب میں تبلیغ فرمانا، ایاس بن معاذ کا راہ یاب ہونا:-"*
*"_ انہیں ایام میں ابوالحیثر انس بن رافع مکہ آیا، اس کے ساتھ بنی ابدالاثہل کے بھی چند نوجوان تھے، جن میں ایاس بن معاذ بھی تھے، یہ لوگ قریش کے ساتھ اپنی قوم خزرج کی طرف سے معاہدہ کرنے آئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور جا کر فرمایا:- میرے پاس ایسی چیز ہے جس میں تم سب کی بہبود ہے, کیا تمہیں کچھ رغبت ہے ؟ وہ بولے- ایسی کیا چیز ہے؟ فرمایا:- میں اللہ کا رسول ہوں، مخلوق کی طرف مبعوث ہوں، بند گانے الہی کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور شرک نہ کریں، مجھ پر اللہ نے کتاب نازل کی ہے_,"*
*★"_ پھر ان کے سامنے اسلام کے اصول بیان فرمائے اور قرآن مجید بھی پڑھ کر سنایا, ایاس بن معاذ جو ابھی نوجوان تھے سنتے ہی بولے :- اے میری قوم ! باخدا یہ تمہارے لئے اس مقصد سے بہتر ہے، جس کے لئے تم یہاں آئے ہو _,"*
*★_ انس بن رافع نے کنکریوں کی مٹھی بھر کر اٹھائیں اور ایاس کے منہ پر پھینک ماری اور کہاں :- بس چپ رہ، ہم اس کام کے لیے تو نہیں آئے_,"*
*"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چلے گئے، یہ واقعہ جنگ باس سے، جو اوس اور خزرج میں ہوئی، پہلے کا ہے، ایاس واپس جا کر چند روز کے بعد مر گئے، مرتے وقت ان کی زبان پر تسبیح و تمحید و تہلیل و تکبیر جاری تھی، مرحوم کے دل میں نبی صل وسلم کے اسی وعظ سے اسلام کا بیج بویا گیا تھا، جو مرتے وقت پھل پھول آیا تھا _,*
[11/4, 7:25 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ضمادازدی رضی اللہ عنہ کا واقعہ قبول اسلام:-*
*"_ انہی ایام میں ضمادازدی رضی اللہ عنہ مکہ میں آئے، یہ یمن کے باشندے تھے اور عرب کے مشہور افسوں گر تھے، جب انھوں نے سنا کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم پر جنات کا اثر ہے تو انہوں نے قریش سے کہا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج اپنے منتر سے کر سکتا ہوں، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:- محمد صلی اللہ علیہ وسلم آؤ تمہیں منتر سناؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے مجھ سے سن لو، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنایا:-*
*"_ (ترجمہ) سب تعریف اللہ کے واسطے ہے, ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہر کام میں اسی کی اعانت چاہتے ہیں، جسے اللہ راہ دکھاتا ہے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ ہی رستہ نہ دکھلائے اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا، میری شہادت یہ ہے کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی بھی نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ اور رسول ہے_,"*
*★_ ضماد رضی اللہ عنہ نے اس قدر سنا تھا بول اٹھے کہ انہی کلمات کو پھر سنا دیجئے، دو تین دفعہ انہوں نے انہیں کلمات کو سنا اور پھر بے اختیار بول اٹھے، میں نے بہترے کاہن دیکھے اور ساحر دیکھے، شاعر سنے، لیکن ایسا کلام تو میں نے کسی سے بھی نہ سنا، یہ کلمات تو ایک اتھاہ سمندر جیسے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا ہاتھ بڑھاؤ کہ میں اسلام کی بیعت کرلوں_،"*
*"_ ( مسلم 2008, نسائ 3278, ابن ماجہ 1893)*
[11/5, 7:52 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ معراج:- 27 رجب 10 نبوت کو معراج ہوئی اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو "ملکوت السموت والأرض" کی سیر کرائیں، اول مسجد حرام سے بیت المقدس تک تشریف لے گئے، وہاں امام بن کر جماعت انبیاء علیہ السلام کو نماز پڑھائی، پھر آسمانوں کی سیر کرتے اور انبیاء علیہ السلام سے ان کے مقامات پر ملتے ہوئے "سدرۃالمنتہیٰ" اور "بیت المعمور" تک پہنچے اور وہاں سے قرب حضوری خاص حاصل ہوا اور گوناگو وحی سے مشرف ہوئے _,"*
*★_ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ و امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سیر روہ مبارک کو ہوئی تھی اور جسم مبارک اپنی جگہ سے مفقود ( غائب) نہیں ہوا تھا, علمائے جمہور کا قول ہے کہ اسراء بدن مبارک کے ساتھ تھا، (زادالمعاد 3/40)*
*★_ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:- نبی صل وسلم کو مسجد اقصیٰ تک پھر صدرة المنتہیٰ تک اور جہاں تک کہ اللہ نے چاہا، سیر کرائیں گئی، یہ سب کچھ جسم کے ساتھ بیداری میں تھا، لیکن یہ ایک مقام ہے جو مثال اور شہادت کے درمیان برزخ ہے اور ہر دو عالم مذکورہ کے احکام کا جامع ہوتا ہے، پس جسم پر روح کے احکام ظاہر ہوئے اور روح اور معانی نے جسم کو قبول کر کے تمثیل اختیار کیا، اسی لئے ان واقعات میں سے ہر واقعے کی ایک حقیقت ہے _,"*
*★_ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک برتن دودھ کا، ایک برتن شراب کا پیش کیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کو پسند فرمایا اور جبرائیل علیہ السلام نے بتلا دیا کہ آپ نے فطرت اصلیہ کو پسند فرمایا، اگر شراب کا برتن آپ لے لیتے تو آپ کی امت بھٹک جاتی، دیکھو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو فطرت پر جمع کرنے والے تھے اور دودھ سے مراد یہی ہے کہ امت فطرت کو پسند کرے، دنیاوی لزات کو پسند نہ کرے _,*
[11/6, 11:26 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا براق پر سوار ہونا، مسجد اقصیٰ تک سیر، انبیاء علیہ السلام کی امامت، انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اور مفاخرت، آسمان پر یکے بعد دیگرے چڑھنا، درجہ بہ درجہ تعلقات طبعی سے نکل کر مستوی رحمٰن کی طرف جانا ، سدرۃ المنتہا، رہے وہ انوار، وہ تجلیات رحمانی اور تدبیرات الہیہ، بیت المعمور، ہر ایک امر کی اپنی حقیقت ہے _,"*
*★_ پانچ نمازوں کا تقرر بھی زبان تجویزی سے ہوا، یہ پانچ نمازیں سواب میں پچاس کے برابر ہیں، گویا رب کریم نے آہستہ آہستہ یہ سمجھایا کہ ثواب تو (پچاس کے برابر) کامل ہے اور حرج اور مرض اٹھا دیا گیا, یہ مطلب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سند سے متمثل ( مثل ، مانند) کیا گیا ہے, کیونکہ جناب ممدوح ( موسیٰ علیہ السلام) امت کی اصلاح و درستی اور اصول سیاست، امت کی شناخت میں اکثر انبیاء علیہ السلام سے بڑھے ہوئے ہیں _,"*
*★_ اکثر مفسرین نے معراج کا ذکر طائف کی واپسی کے بعد کیا ہے، مگر امام طبری نے اپنی کتاب میں ابتدائے نبوت سے دوسرے دن ہی میراج کا ہونا تحریر کیا ہے، ان کی تائید اس دلیل سے بخوبی ہوتی ہے کہ جب فرضیت نماز کا حکم شب معراج میں ہوا اور نبی صل اللہ علیہ وسلم اور دیگر مسلمان اس وقت سے ہی برابر نماز پڑھتے تھے تو نماز کی فرضیت کا حکم گیارہ سال تک کیوں کر متاخر رہ سکتا ہے، لیکن حسب بیان شاہ عبدالحق محدث دہلوی ( مندرجہ شرح سفر سعادت ص 36) کہ پہلے صرف دو نمازیں فجر و عصر فرض ہوئی تھیں، اب شب معراج کو پانچ نمازیں فرض ہوئیں، کوئی اشقال نہیں رہ جاتا _,"*
[11/7, 7:08 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا ایمان لانا :-*
*"_انہی دنوں طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ مکہ میں آئے, یہ قبیلہ دوس کے سردار تھے اور یمن میں ان کے خاندان میں رئیسانہ حکومت تھی، طفیل رضی اللہ عنہ بذات خود شاعر و دانش مند شخص تھے، اہل مکہ نے آبادی سے باہر جا کر ان کا استقبال کیا اور اعلی پیمانے پر ان کی خدمت اور تواضع کی، طفیل رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ مجھے اہل مکہ نے یہ بھی بتلایا کہ یہ شخص جو ہم میں سے نکالا ہے، اس سے ذرا بچنا، اسے جادو آتا ہے، جادو سے باپ بیٹے، زن و شوہر، بھائی بھائی میں جدائی ڈال دیتا ہے، ہماری جمیعت کو پریشان اور ہمارے کام ابتر کر دیے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری قوم پر بھی ایسی ہی کوئی مصیبت پڑے، اس لئے ہماری زور سے یہ نصیحت ہے کہ نہ اس کے پاس جانا، نہ اس کی بات سننا اور نہ خود بات چیت کرنا _,"*
*★_ یہ باتیں انہوں نے ایسی عمدگی سے میرے ذہن نشین کر دیں کہ جب میں کعبہ میں جانا چاہتا تو کانوں کو روئی سے بند کر لیتا، تاکہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کی آواز کی بھنک بھی میرے کان میں نہ پڑ جائے، ایک روز میں صبح ہی خانہ کعبہ میں گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، چوںکہ اللہ کی مصیبت یہ تھی کہ ان کی آواز میری سماعت تک ضرور پہنچے، اس لیے میں نے سنا کہ ایک نہایت عجیب کلام وہ پڑھ رہے ہیں،*
*★_ اس وقت میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ میں خود شاعر ہوں، با علم ہوں، اچھے برے کی تمیز رکھتا ہوں، پھر کیا وجہ ہے ؟ اور کون سی روک ہے کہ میں ان کی بات نہ سنوں، اچھی بات ہوگی تو مانوں گا ورنہ نہیں مانوں گا، میں یہ ارادہ کر کے ٹھہر گیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر کو چلے گئے، تو میں بھی پیچھے پیچھے ہو لیا، اور جب مکان پر حاضر ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا واقعہ مکہ میں آنے، لوگوں کے بہکانے، کانوں میں روئی لگانے اور آج حضور صل اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کچھ سن پانے کا کہہ سنایا اور عرض کیا کہ مجھے اپنی بات سنائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھا ، بخُدا ! میں نے ایسا پاکیزہ کلام کبھی سنا ہی نہ تھا, جو اس قدر نیکی اور انصاف کی ہدایت کرتا ہو_,"*
*★_ الغرض طفیل رضی اللہ عنہ اسی وقت مسلمان ہو گئے، جسے قریش بات بات میں مخدوم و مطاع کہتے تھے، وہ بات کی بات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل و جان سے خادم اور مطبع بن گیا، قریش کو ایسے شخص کا مسلمان ہونا نہایت شاق و ناگوار گزرا_,"*
*( ابن سعد فی الطبقات، 14/ 176)*
[11/7, 8:04 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا ایمان لانا:-*
*"_ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے شہر یثرب ہی میں تھے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ اڑتی سی خبر سنی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم مکہ جاؤ، مکہ میں اس شخص سے مل کر آؤ اور پھر مجھے بتاؤ_,"*
*"_ انیس برادر ابوذر ایک مشہور فصیح شاعر، زبان آور تھے، وہ مکہ میں آئے، نبی صل اللہ علیہ وسلم سے ملے، پھر بھائی کو بتایا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسا شخص پایا جو نیکیوں کے کرنے کا اور شر سے بچنے کا حکم دیتے ہیں _,"*
*★_ ابوذر رضی اللہ عنہ بولے، اتنی بات سے تو کچھ تسلی نہیں ہوتی، آخر خود پیدل چل کر مکہ پہنچے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت نہ تھیں اور کسی سے دریافت کرنا بھی وہ پسند نہ کرتے تھے، زمزم کا پانی پی کر کعبہ ہی میں لیٹ رہے، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے پاس کھڑے ہو کر کہا کہ یہ تو کوئی مسافر معلوم ہوتا ہے، ابو ذر رضی اللہ عنہ بولے, ہاں, علی رضی اللہ عنہ نے کہا- اچھا میرے ہاں چلو، یہ رات کو وہیں رہے، نہ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کچھ پوچھا، نہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہا،*
*★_ صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ پھر کعبہ میں آ گئے، دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش تھی، مگر کسی سے دریافت نہیں کرتے تھے، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ پھر آ پہنچے، انہوں نے فرمایا- شاید تمہیں اپنا ٹھکانہ نہ ملا، ابو ذر رضی اللہ عنہ بولے- ہاں، علی رضی اللہ عنہ پھر ساتھ لے گئے، اب انہوں نے پوچھا- تم کون ہو اور کیوں یہاں آئے ہو ؟ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا- راز رکھو تو میں بتلا دیتا ہوں، علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا _,"*
*★_ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا- میں نے سنا ہے کہ شہر میں ایک شخص ہے جو اپنے آپ کو نبی اللہ بتلاتا ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا تھا، وہ یہاں سے کچھ تسلی بخش بات لے کر نہیں گیا، اس لئے میں خود آیا ہوں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا:- تم خوب آئے اور خوب ہوا کہ مجھ سے ملے، دیکھو میں انہیں کی خدمت میں جا رہا ہوں، میرے ساتھ چلو، میں پہلے اندر جا کر دیکھ لوں گا، اگر اس وقت ملنا مناسب نہ ہو گا تو میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو جاؤں گا، گویا جوتا درست کر رہا ہوں_,*
[11/9, 7:13 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_ الغرض ابوذر رضی اللہ عنہ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خدمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے اور عرض کیا کہ مجھے بتلایا جائے کہ اسلام کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی بابت بیان فرمایا اور ابوذر رضی اللہ عنہ اسی وقت مسلمان ہو گئے_,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- ابو ذر ! تم ابھی اس بات کو چھپائے رکھوں اور اپنے وطن کو چلے جاؤ, جب تمہیں ہمارے ظہور کی خبر مل جائے تب آ جانا, ابو ذر رضی اللہ عنہ بولے- بخدا ! میں تو ان دشمنوں میں اعلان کرنے جاؤں گا، اب ابوذر رضی اللہ عنہ کعبہ کی طرف آئے، قریش جمع تھے، انہوں نے سب کو سنا کر باآواز بلند کلمہ شہادت پڑھا، قریش نے کہا- اس بے دین کو مارو، لوگوں نے انہیں مارنا شروع کر دیا، عباس رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے انہیں جھک کر دیکھا اور کہا- کم بختوں ! یہ تو قبیلہ بنو غفار کا آدمی ہے, جہاں تم تجارت کو جاتے اور کھجوریں لاتے ہو, لوگ ہٹ گئے، اگلے دن انہوں نے پھر سب کو سنا کر کلمہ پڑھا، پھر لوگوں نے مارا اور عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو چھوڑایا اور یہ اپنے وطن کو چلے آئے _,"*
*( بخاری - 3522)*
[11/10, 7:29 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اسباب ہجرت :- 11 نبوت کے موسم حج کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی تاریکی میں شہر مکہ سے چند میل پرے مقام عقبہ پر لوگوں کو باتیں کرتے سنا، اس آواز پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے، یہ چھ آدمی تھے، امامہ اسعد بن زرارہ، عوف بن حارثہ، رافع بن مالک، قطبہ بن عامر بن حدید، عقبہ بن عامر اور سعد بن ربیع، یہ یثرب سے آئے تھے،*
*★"_ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی عظمت و جلال کا بیان شروع کیا, ان کی محبت کو اللہ کے ساتھ گرمایا، بتوں سے ان کو نفرت دلائی، نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دے کر گناہوں اور برائیوں سے منع فرمایا، قرآن مجید کی تلاوت فرما کر ان کے دلوں کو روشن فرمایا، یہ لوگ اگرچہ بت پرست تھے لیکن انہوں نے اپنے شہر کے یہودیوں کو بار بار یہ ذکر کرتے ہوئے سنا تھا کہ ایک نبی عنقریب ظاہر ہونے والا ہے، اس تعلیم سے وہ اسی وقت ایمان لے آئے اور جب اپنے وطن کو لوٹ کر گئے تو دین حق کے سچے مناد بن گئے _,"*
*★_ وہ ہر ایک کو یہ خوشخبری سناتے تھے کہ وہ نبی ہیں، جس کا تمام عالم کو انتظار تھا، آ گیا، ہمارے کانوں نے ان کا کلام سنا، ہماری آنکھوں نے ان کا دیدار کیا، انہوں نے ہم کو زندہ رہنے والے الہ سے ملا دیا کہ دنیا کی زندگی اور موت اب ہمارے سامنے ہے،*
*★_ ان لوگوں کی بشارت لے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ یثرب کے گھر گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہونے لگا اور اگلے سال 12 نبوت کو یثرب کے 12 باشندے مکہ میں حاضر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے دولتِ ایمان حاصل کی، ان لوگوں نے جن باتوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعیت کی تھی وہ یہ ہیں:-*
*(١) _ ہم رب واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے،*
*(٢)_ ہم چوری اور زنا کاری نہیں کریں گے،*
*(٣)_ ہم اپنی اولاد( لڑکیوں) کو قتل نہیں کریں گے,*
*(٤)_ ہم کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے اور نہ کسی کی چغلی کیا کریں گے،*
*(٥)_ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر ایک اچھی بات میں کیا کریں گے_,*
[11/11, 7:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ_,"*
*"_ جب یہ لوگ واپس جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعلیم کے لیے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ساتھ کر دیا، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ امیر گھرانے کے لاڈلے بیٹے تھے، جب گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتے تو آگے پیچھے غلام چلا کرتے تھے، بدن پر دو سو درہم سے کم کی پوشاک کبھی نہیں پہنتے، پھر جب ان کو اسلام کے طفیل روحانی عیش حاصل ہوا تب ان جسمانی آرائش اور نمائش کو انہوں نے بالکل چھوڑ دیا تھا، جن دنوں یہ مدینہ میں دین حق کی منادی کرتے اور تبلیغ کیا کرتے تھے، ان دنوں ان کے کندھے پر صرف کمبل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا تھا، جسے اگلی طرف سے کیکر کے کانٹوں سے اٹکا لیا کرتے تھے_,"*
*★_ بیعت عقبہ ثانیہ :- مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر جاکر اترے تھے اور ان کو مدینے والے "المقرئ" (پڑھانے والا استاد ) کہا کرتے تھے، ایک دن مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ و اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ اور چند مسلمان " بیرمرق " پر جمع ہوئے، یہ غور کرنے کے لیے کہ نبی عبدالاشہل اور بنی ظفر میں کیوں کر اسلام کی منادی کی جائے_,"*
*★_ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر ان قبائل کے سردار تھے اور ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے، انہیں بھی خبر ہوئی، سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا- تم کس غفلت میں پڑے ہو دیکھو یہ دونوں ہمارے گھروں میں آکر ہمارے بیوقوفوں کو بہکانے لگے، تم جاؤ، انہیں جھڑک دو اور کہہ دو کہ ہمارے محلے میں پھر کبھی نہ آئیں، میں خود ایسا کرتا، مگر اس لیے خاموش ہوں کہ اسعد میری خالہ کا بیٹا ہے _,"*
*★_ اسید بن حضیر اپنا ہتھیار لے کر روانہ ہوئے، اسعد رضی اللہ عنہ نے مصعب رضی اللہ عنہ کو کہا - دیکھو یہ قبیلے کا سردار آ رہا ہے، اللہ کرے کہ وہ تمہاری بات مان جائے، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر وہ آکر بیٹھ گیا تو میں اس سے ضرور کلام کروں گا، اتنے میں اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کھڑے کھڑے گالیاں دیتے رہے اور یہ بھی کہا کہ ہمہارے احمق نادان لوگوں کو پھسلا نے آئے ہو _,"*
[11/12, 7:15 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا:- کاش آپ بیٹھ کر کچھ سن لیں، اگر پسند آئے، قبول فرمائیں، نہ پسند ہو تو اسے چھوڑ جائیں، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا- خیر کیا مضائقہ ہے، مصعب رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ اسلام کیا ہے اور پھر انہیں قرآن مجید بھی پڑھ کر سنایا، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے سب کچھ چپ چاپ سنا، بالآخر کہا- ہاں ! یہ بتلاؤ کہ جب کوئی تمہارے دین میں داخل ہونا چاہتا ہے تو تم کیا کرتے ہو ؟*
*★_ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا :- نہلا کر، پاک کپڑے پہنا کر کلمہ شہادت پڑھا دیتے ہیں اور دو رکعت نفل پڑھوا دیتے ہیں_,"*
*"_ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اٹھے، غسل کیا، کپڑے دھوئے، کلمہ شہادت پڑھا اور نفل ادا کیے، پھر کہا - میرے پیچھے ایک اور شخص ہے، اگر تمہارا پیروں ہو گیا تو پھر کوئی تمہارا مخالف نہ رہے گا اور میں جا کر ابھی تمہارے پاس بھیج دیتا ہوں_,"*
*★_ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ چلے گئے، ادھر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے انتظار میں تھے، دور سے چہرہ دیکھتے ہی بولے - دیکھو اسید کا وہ چہرہ نہیں ہے جو جاتے وقت تھا، جب اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ آ بیٹھے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بولے - میں نے انہیں سمجھا دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہاری منشا کے خلاف کچھ نہ کریں گے, مگر وہاں تو ایک اور حادثہ پیش آیا، بنو حارثہ وہاں آگئے اور اسد بن زرارہ کو اس لیے قتل کرنے پر آمادہ ہیں کہ وہ تمہارا بھائی ہے_,"*
*★_ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غصہ میں بھر گئے اور اپنا حربہ سنبھال کر کھڑے ہو گئے، انہیں ڈر تھا کہ بنو حارثہ ان کے بھائی کو نہ مار ڈالے، انہوں نے چلتے وقت یہ بھی کہا کہ اسید تم تو کچھ بھی کام نہ بنا کے آئے _,"*
[11/13, 6:55 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے وعظ پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ایمان قبول کرنا_,"*
*"_ سعد وہاں پہنچے، دیکھا کہ مصعب رضی اللہ عنہ و اسد رضی اللہ عنہ دونوں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں، سعد رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ اسید رضی اللہ عنہ نے مجھے ان کی باتیں سننے کے لیے بھیجا ہے، یہ خیال آتے ہی انہیں گالیاں دینے لگے اور اسد رضی اللہ عنہ کو یہ کہا کہ اگر میرے تمہارے درمیان قرابت نہ ہوتی تو تمہاری کیا مجال تھی کہ ہمارے محلے میں چلے آتے،*
*★_ اسد رضی اللہ عنہ نے مصعب رضی اللہ عنہ سے کہا - دیکھو یہ بڑے سردار ہیں اور اگر ان کو سمجھا دو تو پھر کوئی دو آدمی بھی تمہارے مخالف نہ رہ جائیں گے _,"*
*"_ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے سعد سے کہا - آئیے بیٹھ جائیے، کوئی بات کریں، ہماری بات پسند آئے تو قبول فرمائیں ورنہ انکار کر دیجئے_"،*
*★_ سعد رضی اللہ عنہ حربہ رکھ کر بیٹھ گئے، مصعب رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے اسلام کے حقیقت بیان کی اور قرآن مجید بھی سنایا، آخر سعد رضی اللہ عنہ نے بھی وہی سوال کیا جو اسید رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، الغرض سعد رضی اللہ عنہ اٹھے، غسل کیا، کپڑے دھوئے، کلمہ پڑھا، نفل ادا کیے اور ہتھیار لے کر اپنی مجلس میں واپس آئے،*
*★_ آتے ہی اپنے قبیلے کے لوگوں کو پکار کر کہا - اے بنی عبد الاشہل ! تم لوگوں کی میرے بارے میں کیا رائے ہے ؟ سب نے کہا کہ تم ہمارے سردار ہو، تمہاری رائے، تمہاری تلاش بہتر اور اعلٰی ہوتی ہے، سعد رضی اللہ عنہ بولے- سنو خواں کوئی مرد ہے یا عورت، میں اس سے بات کرنا حرام سمجھتا ہوں جب تک کہ وہ اللہ اور رسول صل اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے _,"*
[11/14, 7:11 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان کے کہنے کا یہ اثر ہوا کہ بنی عبدالاشہل میں شام تک کوئی مرد اسلام سے خالی نہ رہا اور تمام قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہو گیا، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی تعلیم سے اسلام کا چرچا اسی طرح انصار کے تمام قبیلوں میں پھیل گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال 13 نبوت کو تہتر (73) مرد دو (2) عورتیں یثرب کے قافلے میں مل کر مکہ آئے، ان کو یثرب کے اہل ایمان نے اس لیے بھی بھیجا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت دیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منظوری حاصل کریں _,"*
*★_ یہ راستبازوں کا گروہ اسی متہرک مقام پر جہاں دو سال سے اس شہری یثرب کے مشتاق حاضر ہوا کرتے تھے، رات کی تاریکی میں پہنچ گیا اور اللہ کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے تایا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیے ہوئے وہاں جا پہنچے، (طبری-244)*
*★"_ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ( جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے) اس وقت ایک بات کام کی کہی، انہوں نے کہا- لوگو تمہیں معلوم ہے کہ قریش مکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ہیں، اگر تم ان سے کوئی عہد و قرار کرنے لگو تو پہلے سمجھ لینا کہ یہ ایک نازک اور مشکل کام ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد و پیمان سرخ و سیاہ لڑائیوں کو دعوت دینا ہے، ( سرخ و سیاہ لڑائی سے مراد سخت خونریز لڑائی ہے اور سیاہ لڑائی سے مراد تاریک انجام والی لڑائی مراد ہوتی ہے) جو کچھ کرو سوچ سمجھ کر کرو ورنہ بہتر ہے کہ کچھ بھی نہ کرو_,"*
*★"_ ان راستبازوں نے عباس رضی اللہ عنہ کو کچھ بھی جواب نہ دیا، ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرمائیں،*
[11/15, 6:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اللہ کا کلام جو اللہ کا پیغام انسان کی طرف ہے، پڑھ کر سنایا، جس کے سننے سے وہ ایمان و ایقان کے نور سے بھرپور ہوگئے، اب سب لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ کے نبی ہمارے شہر میں چل کر بسیں تاکہ ہمیں پورا پورا فیض حاصل ہو سکے،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-_ کیا تم دین حق کی اشاعت میں میری پوری پوری مدد کرو گے؟ اور جب میں تمہارے شہر میں جا بسوں اور میرے ساتھیوں کی حمایت اپنے اہل وعیال کی مانند کرو گے ؟*
*"_ ایمان والوں نے پوچھا:- ایسا کرنے کا ہم کو معاوضہ کیا ملے گا ؟*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- بہشت (جو نجات اور اللہ کی خوشنودی کا محل ہے )*
*"_ ایمان والوں نے عرض کیا:- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ہماری تسلی فرما دیجئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو کبھی چھوڑ تو نہ دیں گے،*
*"_نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- میرا جینا، میرا مرنا تمہارے ساتھ ہوگا_,"*
*★_ اس آخری فکرے کا سننا تھا کہ عاشقان صداقت عجب سرور و نشاط کے ساتھ جانثاری کی بیعت اسلام کرنے لگے، براء بن معرور رضی اللہ عنہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے اس شب سب سے پہلے بیعت کی،*
*★_ ایک شیطان نے پہاڑ کی چوٹی سے یہ نظارہ دیکھا اور چیخ کر اہل مکہ کو پکار کر کہا :- لوگوں ! آؤ، دیکھو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے فرقے کے لوگ تم سے لڑائی کے مشورے کر رہے ہیں،*
*"_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- تم اس آواز کی پرواہ نہ کرو، عباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا :- اگر حضور کی اجازت ہو تو ہم کل ہی مکہ والوں کو اپنی تلوار کے جوہر دکھا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- نہیں مجھے جنگ کی اجازت نہیں _,"*
*( زادالمعاد -3/48)*
[11/16, 8:23 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے 12 نقیب :-*
*"_ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے بارہ اشخاص کا انتخاب کیا اور ان کا نام نقیب رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے اپنے لیے بارہ شخصوں کو چن لیا تھا اسی طرح میں تمہیں انتخاب کرتا ہوں، تاکہ اہل یثرب میں جا کر دین کی اشاعت کرو، مکہ والوں میں میں خود یہ کام کروں گا_,"*
*★_ ان کے نام یہ ہیں:- قبیلہ بنو خزرج کے 9 - اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ, رافع بن مالک رضی اللہ عنہ، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ( یہ تینوں عقبہ اولیٰ میں بھی تھے) سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ، منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، براہ بن معرور رضی اللہ عنہ، عبداللہ عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ،*
*"_ قبیلہ اوس کے 3 - اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ، سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ، ابوالہشیم بن تیہان رضی اللہ عنہ،*
*★_ عقبہ ثانیہ کی بیعت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسلمانوں کو جو مکہ سے باہر نہ گئے تھے لیکن جن پر اب اتنے ظلم و ستم ہونے لگے تھے کہ پیارا وطن ان کے لیے آگ کا پہاڑ بن گیا، یثرب چلے جانے کی اجازت فرمادی، ان ایمان والوں کو گھربار، قریبی رشتے دار و اقارب ، باپ، بھائی، زن و فرزند کے چھوڑنے کا ذرا بھی غم نہ تھا بلکہ خوشی یہ تھی کہ یثرب جاکر اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت پوری آسانی سے کر سکیں گے_,"*
*★_ ہجرت کرنے والوں اور گھر بار چھوڑ کر جانے والوں کو قریش کی سخت مزاحمت کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا، صہیب رومی رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے جانے لگے تو قریش نے انہیں آ گھیرا، کہا - صہیب جب تو مکہ آیا تھا تو مفلس و قلاش تھا، یہاں ٹھہر کر تو نے ہزاروں کمائے، آج یہاں سے جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ سب مال و زر لے کر چلا جائے گا، یہ تو کبھی نہیں ہونے والا، صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا- اچھا اگر میں اپنا سارا مال و متاع تمہیں دے دوں تب تم مجھے جانے دو گے ؟ کہا- ہاں, حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے سارا مال انہیں دے دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصہ سن کر فرمایا کہ اس سودے میں صہیب رضی اللہ عنہ نے نفع کمایا _," ( سیرت ابن ہشام -168)*
[11/17, 7:51 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا، مجھے اونٹ پر چڑھیا، میری گود میں میرا بچہ سلمیٰ تھا، جب ہم چل پڑے تو بنو مغیرہ نے آکر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا، کہا - تو جا سکتا ہے، مگر ہماری لڑکی کو نہیں لے جا سکتا، اب بنو عبدلاسد بھی آگئے، انہوں نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا- تو جا سکتا ہے مگر بچہ کو جو ہمارے قبیلے کا بچہ ہے، تو نہیں لے جا سکتا,*
*★_ غرض انہوں نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے اونٹ کی مہار لے کر اونٹ بٹھا دیا، بنو عبدالاسد تو گود کے بچے کو ماں سے چھین کے لے گئے اور بنو مغیرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو لے آئے، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ جو دین کے لیے ہجرت کرنا فرض سمجھتے تھے اپنے بیوی بچے کے بغیر روانہ ہوگئے _,"*
*★_ ام سلمہ رضی اللہ عنہا روز شام کو اسی جگہ جہاں بچہ اور شوہر سے الگ ہو گئی تھی پہنچ جاتی، گھنٹوں رو دھو کر واپس آ جاتی، ایک سال اسی طرح روتے چلاتے گزر گیا، آخر ان کے ایک چچیرے بھائی کو رحم آیا اور ہر دو قبائل سے کہہ سن کر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دلا دی کہ اپنے شوہر کے پاس چلی جائے، بچہ بھی ان کو واپس دے دیا گیا، ام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ کو تنہا چل دیں_," ( سیرت ابن ہشام- 108)*
*★_ ایسی ہی مشکلات کا سامنا تقریباً ہر ایک صحابی کو کرنا پڑا تھا،*
[11/18, 7:10 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عیاش رضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ صحابی بھی ان کے ساتھ مدینہ چلنے کو تیار ہوئے تھے، عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ تو روانگی کے وقت جائے مقررہ پر پہنچ گئے، مگر ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ کی بابت کفار کو خبر لگ گیی، ان کو قریش نے قید کر دیا، عیاش رضی اللہ عنہ مدینہ جا پہنچے تھے کہ ابوجہل اپنے بھائی حرث کے ساتھ مدینہ پہنچا، عیاش رضی اللہ عنہ ان کے چچیرے بھائی تھے اور تینوں کی ایک ماں تھی_,"*
*★_ ابوجہل و حرث نے کہا کہ تمہارے بعد والدہ کی بری حالت ہو رہی ہے، اس نے قسم کھائی ہے کہ عیاش کا منہ دیکھنے تک نہ سر میں کنگھی کروں گی اور نہ سایہ میں بیٹھوں گی، اس لئے بھائی تم چلو اور ماں کو تسکین دے کر آ جانا _,"*
*★_ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا - عیاش رضی اللہ عنہ مجھے تو یہ فریب معلوم ہوتا ہے، تمہاری ماں کے سر میں کوئی جوں پڑ گئی تو وہ خود ہی کنگھی کر لے گی اور مکہ کی دھوپ نے ذرا خبر لی تو وہ خود ہی سایہ میں جا بیٹھےگی، میری رائے تو یہ ہے کہ تم کو جانا نہیں چاہیے، عیاش رضی اللہ عنہ بولے - نہیں، میں والدہ کی قسم پوری کرکے واپس آ جاؤں گا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا - اچھا اگر یہی رائے ہے تو سواری کے لئے میری ناقہ لے جاؤ، یہ بہت تیز رفتار ہے، اگر راستے میں تمہیں ذرا بھی ان سے شبہ گزرے تو تم اس ناقہ پر باآسانی ان کی گرفت سے بچ کر آ سکو گے_,"*
*★_ عیاش رضی اللہ عنہ نے ناقہ لے لی، یہ تینوں چل پڑے، ایک روز راہ میں (مکہ کے قریب) ابوجہل نے کہا- بھائی ہمارا اونٹ تو ناقہ کے ساتھ چلتا چلتا رہ گیا، بہتر ہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ سوار کرلو، عیاش رضی اللہ عنہ بولے- بہتر, جب عیاش رضی اللہ عنہ نے ناقہ بٹھائیں تو دونوں بھائیوں نے انہیں پکڑ لیا، مشکیں کس لیں اور مکہ میں اسی طرح لے کر داخل ہوئے، یہ دونوں بڑے فخر سے کہتے تھے کہ دیکھو، بے وقوفوں، احمقوں کو یوں سجا دیا کرتے ہیں، اب عیاش کو بھی ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ قید کر دیا گیا،*
*★_ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے، تب حضور کی تمنا پوری کرنے کے لیے ولید بن مغیرہ رضی اللہ عنہ مکہ میں آئے، زندان خانے سے دونوں کو شباشب نکال کر لے گئے، ( سیرت ابن ہشام - 1/167)*
*★_ ان حکایات سے قارئین یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ہجرت کے وقت بھی مسلمانوں کو کیسی سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، گھر چھوڑنا بھی بلا خاص جدوجہد اور ابتلاء وامتحان کے آسان نہ تھا_,"*
[11/19, 10:58 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کی تدبیر :-*
*”_ جب مسلمان مکہ میں گنتی کے رہ گئے اور مشہور صحابہ میں سے صرف ابوبکر و علی رضی اللہ عنہم ہی باقی رہے تو قریش مکہ نے کہا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کر دینے کا اچھا موقع ہے، تدبیر قتل پر غور کرنے کے لیے دارلندوہ میں خفیہ اجلاس ہوا، دار الندوہ کو قصی بن کلاب نے قائم کیا تھا، یہ گویا قریش کا ایوان ( مکان) پارلیمنٹ تھا، اس اجلاس میں نجدی کا ایک تجربہ کار بوڑھا شیطان بھی آ کر شامل ہوا تھا اور قریش کے مشہور قبائل میں سے مشہور سردار موجود تھے،*
*★_ ایک بولا- اسے پکڑ کر گلے میں طوق و زنجیر ڈال کر ایک مکان میں قید کر دو اور مکان کا دروازہ دہ تیغہ کر دوں تاکہ یہ بھی زہیر و نابعہ شاعروں کی موت کا مزہ چکھنا ہوا مر جائے، بوڑھا نجدی بولا - نہیں، یہ ٹھیک نہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قید ہونے کی خبر باہر نکلے بغیر نہ رہے گی, مسلمان اسے چھڑا لے جائیں گے اور طاقت پا کر تمہیں بھی فنا کر دیں گے_,"*
*★_ دوسرا بولا - ایک سرکش اونٹ پر بٹھلا کر ہم اسے یہاں سے نکال دیں، ہماری طرف سے کہیں جائے، کہیں رہے، جی جئیے چاہے مرے، بوڑھا نجدی بولا - نہیں یہ رائے بھی ٹھیک نہیں, کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دلائل آویز باتوں کو بھول گئے ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ جس سے بات کرتا ہے اس کو اپنا بنا لیتا ہے، وہ دلوں پر کیسی آسانی سے قابو پا لیتا ہے، جہاں جائے گا، وہیں کے باشندے اس کے ساتھ لگ جائیں گے اور وہ بالآخر تم سے اپنے نبی کا بدلہ لے کے چھوڑیں گے_,"*
*★_ آخر ابوجہل نے ایسی تدبیر بتلائیں جسے تمام جلسہ نے بلا اتفاق منظورکرلیا- تجویز اور تدبیر یہ تھی کہ عرب کے ہر ایک مشہور قبیلے سے ایک ایک جواں مرد کا انتخاب کیا جائے، یہ سب بہادر رات کی تاریکی میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر کو گھیر لیں اور جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صبح کی نماز کے لیے باہر نکلے, اس وقت یہ سب سے بہادر اپنی اپنی تلوار سے وار کریں اور اس کی بوٹی بوٹی کر دیں، اس تدبیر کا یہ فائدہ بتایا گیا کہ جس قتل میں تمام قبیلے شامل ہوں گے، اس کا بدلہ نہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قبیلہ لے سکے گا اور نہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچا ماننے والے کچھ شر و فساد اٹھا سکیں گے_,*
[11/20, 8:33 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ انسانی تدبیر کے مقابلے میں الہی تدبیر_,*
*"_ انسانی تدبیر کے مقابلے اب الہی طاقت اور ربانی حمایت کو دیکھیے کہ جب رات کو ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر آ گھیرا، اس وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارے بھائی علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا- تم میرے بستر پر میری چادر لے کر سو رہو، ذرا فکر نہ کرنا، کوئی شخص تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ تو ان تلواروں کے سائے میں نہایت بے فکری سے مزے کی نیند سو رہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حفاظت میں باہر نکلے اور ان دل کے اندھوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے اور سورہ یسن پڑھتے ہوئے صاف نکل گئے، کسی نے نبی صلی وسلم کو جاتے نہ دیکھا، یہ واقعہ 27 صفر 13 نبوت بروز جمعرات (12 ستمبر 621) کا ہے،*
*★_ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اور انہوں نے جلدی سے سفر کا ضروری سامان درست کیا، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنا کمر بند کاٹ کر ستوؤں کے تھیلے کا منہ باندھ دیا، اسی شب کی تاریکی میں دونوں بزرگوار چل پڑے، مکہ سے چار میل کے فاصلے پر کوہ ثور ہے، اس کی چڑھائی سر توڑ ہے، راستہ سنگلاخ تھا، نوکیلے پتھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نازک پاؤں کو زخمی کر رہے تھے اور ٹھوکر لگنے سے بھی تکلیف ہوتی تھی، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور ایک غار پر پہنچے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر ٹھہرایا، خود اندر جا کر غار کو صاف کیا، تن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے سوراخ بند کیے اور پھر عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئیں _,"*
*★_ صبح ہوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ حسب معمول خواب سے بیدار ہوئے، قریش نے قریب جا کر انہیں پہچانا، پوچھا - محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا- مجھے کیا خبر, کیا میرا پہرہ تھا، تم لوگوں نے انہیں نکل جانے دیا اور وہ نکل گئے، قریش غصے اور ندامت سے علی رضی اللہ عنہ پر پل پڑے، ان کو مارا اور خانہ کعبہ تک پکڑ لائے اور تھوڑی دیر کے لئے رکھا، آخر چھوڑ دیا_,"*
*★_ اب قریش ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئے، دروازہ کھٹکھٹایا، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا باہر نکلی، ابو جہل نے پوچھا- لڑکی تیرا باپ کدھر ہے ؟ وہ بولی- بخدا مجھے معلوم نہیں، بدزبان ابوجہل نے ایسا طمانچہ کھینچ مارا کہ اسماء رضی اللہ عنہا کے کان کی بالی نیچے گر گئی_,"*
*( طبری -247)*
[11/21, 7:08 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک لڑکی کی قوت ایمانی :-*
*"_ ہجرت کے متعلق ایک چھوٹی سی بات قابل ذکر ہے کہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے والد جاتے ہوئے گھر سے نقد روپیہ سب اٹھا کر لے گئے تھے، یہ پانچ یا چھ ہزار روپے تھے، والد کے چلے جانے کے بعد میرے دادا ابو قحافہ نے کہا- بیٹی میں سمجھتا ہوں کہ ابو بکر نے تم کو دوہری مصیبت میں ڈال دیا ہے، وہ خود بھی چلا گیا اور نقد و مال بھی ساتھ لے گیا_,"*
*★_ ابو قحافہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، فتح مکہ کے دن یہ مسلمان ہوئے تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان کو جملہ صحابہ میں یہ خاص خصوصیت حاصل ہے کہ ان کے خاندان کی چار نسلیں صحابی ہیں_,*
*★_ اسماء رضی اللہ عنہا بولی :- نہیں دادا جان، وہ ہمارے لئے کافی روپیہ چھوڑ گئے ہیں،*
*"_ اسماء رضی اللہ عنہا نے ایک پتھر لیا، اس پر کپڑا لپیٹا اور جس گھڑے میں روپیہ ہوا کرتا تھا وہاں رکھ دیا اور پھر دادا کا ہاتھ پکڑ کر لے گئی، ابو قحافہ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں، کہا - دادا جان ہاتھ لگا کر دیکھو کہ مال موجود ہے،*
*★_ بوڑھے نے اسے ٹٹولا اور پھر کہا:- خیر جب تمہارے پاس سرمایہ کافی ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جانے کا اس قدر غم نہیں، یہ ابو بکر نے اچھا کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے لئے کافی انتظام کر گیا ہے_,"*
*★_ اسماء رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہ تدبیر میں نے بوڑھے دادا کے اطمینان قلب کے لئے کی تھی ورنہ والد بزرگوار تو سب کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے ساتھ لے گئے تھے_,"*
*( ابن ہشام -173)"*
[11/22, 5:56 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ غار کا قیام :- یہ چاند اور سورج دونوں تین روزہ اس غار میں رہے، رات کی تاریکی میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا گھر سے روٹی دے جاتی، عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اہل مکہ کی باتیں سنا جاتے، عامر بن فہیرہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی کے غلام تھے اور جن کے پاس ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ریوڑ تھا، وہاں بکریاں لے آتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دودھ بقدرِ ضرورت لے لیتے اور وہ بھر ریوڑ سے آنے والوں کے نقش قدم کو تمام راستے سے مٹا دیتے_," ( بخاری- 5039)*
*★_ اللہ عزوجل نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس صدق و خلوص کا یہ اجر دیا کہ (ان الله معنا) اللہ ہمارے ساتھ ہے فرما کر جس معیت الہی میں نبی صلی اللہ علیہ واصل تھے، اسی میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کر دیا _,"*
*★_ چوتھی شب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو اونٹنیاں آ گیی جن کو اسی سفر کے لئے خوب فربہ اور تیار کیا گیا تھا، ایک پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری پر عامر بن فہیرہ اور عبداللہ بن اریقط (جیسے راستہ بتانے پر نوکر رکھا گیا تھا) سوار ہوئے اور مدینہ کی جانب یکم ربیع الاول روز دوشنبہ (سوموار) (16ستمبر 622) کو روانہ ہوئے_,"*
*★_ ہجرت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء، سابقین کی سنت کو پورا کیا، حضرت ابراہیم خلیل الرحمن اور حضرت موسیٰ اور حضرت داؤد علیہ السلام کی ہجرت کے واقعات بائبل میں موجود ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کے بعد نصرت الہی کی معیت کا ظہور ہوا، جیسا کہ پہلے نبیوں کے ساتھ بھی ہوتا رہا تھا_,"*
[11/23, 6:00 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ راستہ دکھانے والے نے درمیانی راستہ چھوڑ کر سمندر کے کنارے کنارے چلنا شروع کیا تھا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم رابغ کے موجودہ قلعہ اور ساحل سمندر کے درمیانی میدان سے گزر رہے تھے, تب سراقہ بن جعشم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا، عبدالرحمن بن مالک جو سراقہ کے برادر ذات ہیں، بیان کرتا ہیں :-*
*★_ سراقہ خود سر پر لگائے، نیزہ تانے، بدن پر ہتھیار سجائے اپنی گھوڑی پر سوار ہوا سے باتیں کرتا جا رہا تھا کہ اس کی نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ گئی، اس نے سمجھا کہ وہ کامیاب ہو گیا، اتنے میں گھوڑی گھٹنوں کے بل گر گئی، سراقہ نیچے آیا، گھوڑی کو اٹھایا، سوار ہوا، پھر چلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اور مالک سے لو لگائے ہوئے بڑھے چلے جا رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن کے قریب تر پہنچنے کی اطلاع عرض کی گئی، فرمایا - الہی ہمیں اس کے شر سے بچا_,"*
*★_ ادھر جب الفاظ مبارکہ زبان سے نکلے، ادھر گھوڑی کے کے قدم زمین میں دھنس گئے، سراقہ گر بڑا اور سمجھ گیا کہ حفاظت الہی پر غالب آنا محال ہے، اس نے عاجزانہ الفاظ میں اپنی جان کی امان مانگی، امان دی گئی، سراقہ آگے بڑھا اور عرض کیا کہ اب میں ہر ایک حملہ آور کو پیچھے ہی روکتا رہوں گا، پھر اس کی درخواست اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے اسے خط امان بھی لکھ کر عطا فرما دیا _,"*
*★_ سراقہ رضی اللہ عنہ اپنے دادا جعشم کی نسبت سے سراقہ بن جعشم مشہور ہے، سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کنانی ہے، علاقہ رابغ پر ان کا قبیلہ قابض تھا، کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سراقہ واپس ہونے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- سراقہ اس وقت تیری کیا شان ہوگی جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے شاہی کنگن پہنائے جائیں گے، سراقہ رضی اللہ عنہ واقعہ احد کے بعد مسلمان ہوئے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مدائن فتح ہوا اور کسریٰ کا تاج اور زیورات عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوئے تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے سراقہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہنائے اور زبان سے فرمایا - اللہ اکبر ! اللہ کی بڑی شان ہے کہ کسریٰ کے کنگن سراقہ اعرابی کے ہاتھوں میں پہنائے_," ( بخاری 3906,, مسلم 2009)*
[11/24, 6:59 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ خیمہ ام معبد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آرام و قیام :-"*
*"_ غار سے نکل کر پہلے ہی دن اس مبارک قافلے کا گزر خیمہ ام معبد پر ہوا، یہ عورت قوم خزاء سے تھی، مسافروں کی خبر گیری اور ان کی تواضع کے لئے مشہور تھی، سر راہ پانی پلایا کرتی تھی اور مسافر وہاں ٹھہر کر سستا لیا کرتے تھے، یہاں پہنچ کر بڑھیا سے پوچھا کہ اس کے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے ؟ وہ بولی - نہیں, اگر کوئی چیز موجود ہوتی تو دریافت کرنے سے پہلے ہی میں خود حاضر کر دیتی _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کے گوشہ میں ایک بکری دیکھی، پوچھا یہ بکری کیوں کھڑی ہے ؟ ام معبد نے کہا - کمزور ہے، ریوڑ کے ساتھ نہیں چل سکتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- اجازت ہے کہ ہم اسے دھو لیں، ام معبد نے کہا - اگر حضور کو دودھ معلوم ہوتا ہے تو دھو لیجیے_,"*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر بکری کے تھنوں کو ہاتھ لگایا، برتن مانگا، وہ ایسا بھر گیا کہ دودھ اچھل کر زمین پر گر گیا، یہ دودھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمراہیوں نے پی لیا، دوسری دفعہ پھر بکری کو دھویا گیا، برتن بھر گیا اور ام معبد کے لئے چھوڑ دیا اور آگے کو روانہ ہوگئے ،*
[11/24, 7:09 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_شام کے وقت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کے شوہر ابو معبد رضی اللہ عنہ لوٹے، وہ اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے گئے ہوئے تھے - خیمے پر پہنچے تو وہاں بہت سا دودھ نظر آیا - دودھ دیکھ کر حیران ہوگئے، بیوی سے بولے:-"اے آُمّ معبد! یہ یہاں دودھ کیسا رکھا ہے... گھر میں تو کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں ہے؟"*
*"_مطلب یہ تھا کہ یہاں جو بکری تھی، وہ تو دودھ دے ہی نہیں سکتی تھی - پھر یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا بولیں:-"آج یہاں سے ایک بہت مبارک شخص کا گزر ہوا تھا -"*
*★_ یہ سن کر حضرت ابو معبد رضی اللہ عنہ اور حیران ہوئے، پھر بولے:-"ان کا حلیہ تو بتاؤ -"*
*"_جواب میں اُمّ معبد رضی اللہ عنہا نے کہا:-*
*"ان کا چہرہ نورانی تھا، ان کی آنکھیں ان کی لمبی پلکوں کے نیچے چمکتی تھیں، وہ گہری سیاہ تھیں، ان کی آواز میں نرمی تھی، وہ درمیانے قد کے تھے - (یعنی چھوٹے قد کے نہیں تھے) - نہ بہت زیادہ لمبے تھے، ان کا کلام ایسا تھا جیسے کسی لڑی میں موتی پرو دئیے گئے ہوں، بات کرنے کے بعد جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر باوقار سنجیدگی ہوتی تھی - اپنے ساتھیوں کو کسی بات کا حکم دیتے تھے تو وہ جلد از جلد اس کو پورا کرتے تھے، وہ انہیں کسی بات سے روکتے تھے تو فوراً رک جاتے تھے - وہ انتہائی خوش اخلاق تھے، ان کی گردن سے نور کی کرنیں پھوٹتی تھیں، ان کے دونوں ابرو ملے ہوئے تھے - بال نہایت سیاہ تھے - وہ دور سے دیکھنے پر نہایت شاندار اور قریب سے دیکھنے پر نہایت حسین و جمیل لگتے تھے - ان کی طرف نظر پڑتی تو پھر دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی - اپنے ساتھیوں میں وہ سب سے زیادہ حسین و جمیل اور بارعب تھے - سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھے -"*
*★__حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ حلیہ سن کر ان کے شوہر بولے:- "اللہ کی قسم! یہ حلیہ اور صفات تو انہی قریشی بزرگ کی ہے، اگر میں اس وقت یہاں ہوتا تو ضرور ان کی پیروی اختیار کرلیتا اور میں اب اس کی کوشش کروں گا -"*
*"_چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اُمّ معبد اور حضرت ابومعبد رضی اللہ عنہما ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا- حضرت اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کی جس بکری کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دھویا تھا، وہ بکری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے تک زندہ رہی -*
[11/26, 7:06 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اثنائے راہ بریدہ رضی اللہ عنہ اور ستر اشخاص کا مسلمان ہونا:-*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یثرب جا رہے تھے کہ اثنائے راہ میں بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ ملے، یہ اپنی قوم کے سردار تھے، قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر 100 اونٹ کا انعام مشتہر کیا تھا اور بریدہ اسی انعام کے لالچ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تھے،*
*★_ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا تو بریدہ رضی اللہ عنہ ستر (70) آدمیوں سمیت مسلمان ہو گئے، اپنی پگڑی اتار کر اسے نیزہ پر باندھ لی، جس کا سفید پھریرا ہوا میں لہراتا اور بشارت سناتا تھا کہ امن کا بادشاہ صلح کا حامی دنیا کو عدل اور انصاف سے بھرپور کرنے والا تشریف لا رہا ہے _,"*
*★_ راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ملے، یہ شام سے آرہے تھے اور مسلمانوں کا تجارت پیشہ گروہ بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے سفید پارچات پیش کیے_,"*
*( بخاری - 3906)*
[11/27, 4:55 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قبا میں پہنچنا:- 8 ربیع الاول 13 نبوت بروز سوموار ( 23 ستمبر 622) مطابق 10 تثری 4383 یہود تھی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں پہنچ گئے، اہل یثرب نے جب سے سنا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑ دیا ہے، تو روز صبح سے ( راستے پر آنکھیں گڑائے انتظار میں) ہمہ چشم بن کر بیٹھ جاتے اور جب تک ٹھیک دوپہر نہ ہو جاتی، بیٹھے رہتے،*
*★_ یہ بزرگوار ابھی واپس ہی گئے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے اور ایک شخص کے پکارنے سے سب جمع ہو گئے اور خیرمقدم، اللہ اکبر کے ترانے گاتے ہوئے آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد نور خیز شعاعوں کی طرح جمع ہوگئے،*
*★_ اکثر مسلمان ایسے تھے جنہوں پہلے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار پر انوار سے چشم ظاہر بین کو روشن نہ کیا تھا، انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شناخت سے اشتباہ ہو جاتا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس ضرورت کو تاڑ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سایہ کر کے کھڑے ہو گئے،*
*★_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات تک یہاں ٹھہرے اور اس سہ روزہ قیام ہی میں سب سے پہلا کام یہاں یہ کیا کہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے لئے ایک مسجد کی بنیاد رکھی، اسی جگہ شیر خدا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی مکہ سے پا پیادہ سفر کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ چند روز تک مکہ میں حسب الارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ٹھہر گئے تھے کہ جن لوگوں کی امانتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں موجود تھیں، وہ مالکوں کو واپس کر دی جائیں،*
*★_ 12 ربیع الاول 1 ہجرت کو جمعہ کا دن تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے سوار ہوکر بنی سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا، یہاں 100 آدمیوں کے ساتھ جمعہ پڑھا، یہ اسلام میں پہلا جمعہ تھا_,"*
[11/28, 5:29 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلے جمعہ کا خطبہ، جو مدینہ پہنچ کر بنی سالم بن عوف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا تھا :-*
*"_ حمد و ستائش اللہ کے لیے ہے، میں اس کی حمد کرتا ہوں، مدد، بخشش اور ہدایت اسی سے چاہتا ہوں، میرا ایمان اسی پر ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور نافرمانی کرنے والوں سے عداوت رکھتا ہوں، میری شہادت یہ ہے کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی بھی نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور رسول ہے اسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت، نور اور نصیحت کے ساتھ ایسے زمانے میں بھیجا ہے جب کہ مدتوں سے کوئی رسول دنیا میں نہ آیا تھا، علم گھٹ گیا اور گمراہی بڑھ گئی تھی، اسے آخری زمانے میں قیامت کے قریب اور موت کی نزدیکی کے وقت بھیجا گیا ہے_,"*
*★_ جو کوئی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہی راہ یاب ہے اور جس نے ان کا حکم نہ مانا وہ بھٹک گیا، درجہ سے گر گیا اور سخت گمراہی میں پھنس گیا ہے، مسلمانوں ! میں تمہیں اللہ سے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں, بہترین وصیت جو مسلمان مسلمان کو کر سکتا ہے یہ ہے کہ اسے آخرت کے لئے آمادہ کرے اور اللہ سے تقویٰ کے لیے کہے، لوگوں ! جن باتوں سے اللہ نےتمہیں پرہیز کرنے کو کہا ہے ان سے بچتے رہو, اس سے بڑھ کر نہ کوئی نصیحت ہے اور نہ اس سے بڑھ کر کوئی ذکر ہے، یاد رکھو کہ امور آخرت کے بارے میں اس شخص کے لئے جو اللہ سے ڈر کر کام کر رہا ہے تقویٰ بہترین مدد ثابت ہوگا اور جب کوئی شخص اپنے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ خفیہ و ظاہر میں درست کر لے گا اور ایسا کرنے میں اس کی نیت خالص ہوگی تو ایسا کرنا اس کے لیے دنیا میں ذکر اور موت کے بعد (جب کہ انسان کو اعمال کی ضرورت و قدر معلوم ہوگی) ذخیرہ بن جائے گا _",*
*★_ لیکن اگر کوئی ایسا نہیں کرتا (تو اس کا ذکر اس آیت میں ہے) انسان پسند کرے گا کہ اس کے اعمال اس سے دور ہی رکھے جائیں, اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ تو اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے اور جس شخص نے اللہ کے حکم کو سچ جانا اور اس کے وعدوں کو پورا کیا تو اس کی بابت یہ ارشاد الٰہی موجود ہے ہمارے ہاں بات نہیں بدلتی اور ہم اپنے ناچیز بندوں پر ظلم نہیں کرتے_",*
*★_ مسلمانوں ! اپنے موجودہ اور آئندہ, ظاہری اور خفیہ کاموں میں اللہ سے تقویٰ کو پیش نظر رکھو کیونکہ تقویٰ والوں کی بدیاں چھوڑ دی جاتی ہیں اور اجر بڑھا دیا جاتا ہے،چل تقویٰ والے وہ ہیں جو بہت بڑی مراد کو پہنچ جائیں گے، یہ تقویٰ ہی ہے جو اللہ کی بیزاری، عذاب اور غصے کو دور کر دیتا ہے، یہ تقویٰ ہی ہے جو چہرے کو درخشاں، پروردگار کو خوش اور درجہ کو بلند کرتا ہے_,"*
*★_ مسلمانوں! حظ اٹھاؤ مگر حقوق الہی میں فروگزاشت نہ کرو، اللہ نے اسی لیے تم کو اپنی کتاب سکھلائی اور اپنا رستہ دکھلایا ہے کہ یہ راست بازوں اور قاذبوں کو الگ الگ کر دیا جائے، لوگوں ! اللہ نے تمہارے ساتھ عمدہ برتاؤ کیا ہے، تم بھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کرو اور جو اللہ کے دشمن ہیں انہیں دشمن سمجھو اور اللہ کے رستے میں پوری ہمت اور توجہ سے کوشش کرو، اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا اور تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، تا کہ ہلاک ہونے والا بھی روشن دلائل پر ہلاک ہو اور زندگی پانے والا بھی روشن دلائل پر زندگی پائے اور سب نیکیاں اللہ کی مدد سے ہیں، لوگوں ! اللہ کا ذکر کرو اور آئندہ زندگی کے لئے عمل کرو, کیوں کہ جو شخص اپنے اور اللہ کے درمیان معاملہ درست کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملہ کو درست کر دیتا ہے، ہاں ! اللہ بندوں پر حکم چلاتا ہے اور اس پر کسی کا حکم نہیں چلتا، اللہ بندوں کا مالک ہے اور بندوں کو اس پر کوئی اختیار نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے اور ہم کو( نیکی کرنے کی) طاقت اسی عظمت والے سے ملتی ہے _,"*
[11/28, 9:57 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مکہ اور مدینہ کے حالات کا مقابلہ:-*.
*"_ مکہ میں صرف ایک قوم قریش کا زور اور حکومت تھی اور سب کا مذہب بھی (زیادہ تر) بت پرستی تھا, مدینہ مختلف اقوام اور مذاہب کا مجموعہ تھا، وہاں بت پرست بھی تھے اور یہودی بھی اور کم تعداد میں عیسائی بھی، یہودیوں کے کئی زبردست قبیلے "بنو نضیر" "بنو قینقاع" "بنو قریظہ" تھے جو اپنے جداگانہ قلعوں میں رہا کرتے تھے، تجارت اور سود خوری کی وجہ سے بہت مالدار تھے،*
*★_ جب اللہ کے برگزیدہ نبی موسٰی علیہ السلام نے اپنے وعظ میں یہود کو یہ بصارت سنائی تھی کہ اللہ عزوجل موسیٰ علیہ السلام کے بھائیوں میں سے موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی پیدا کرے گا، اس وقت سے یہود امید کیے ہوئے اور اسی امید پر مدینہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا نبی یہودیوں کے ادبار قومی کو دور کرنے والا، ان کی گزشتہ شان و شوکت، حکومت و سلطنت کو دوبارہ زندہ کرنے والا ہوگا اور جب سے یہود کو شام سے نکال دیا گیا اور ذلت و غلامی کے گڈھے میں ڈال دیا گیا تھا اس وقت سے نبی موعود کے ظہور پر ان کی آنکھیں اور بھی زیادہ لگی ہوئی تھی،*
*★_ اب اسماعیلی نبی صلی وسلم کا مدینہ میں تشریف لانا سن کر یہودی بالخصوص بہت خوش ہو رہے تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو مسیح علیہ السلام کو راست باز ٹھہراتا، اس کی تعلیم کو سچا بتلاتا اور مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے کو اسلام کا ضروری جزو قرار دیتا ہے اور اس کی بزرگی کر کے یہودیوں کو انصاف سے ملزم ٹھہراتا ہے، تو اس وقت سب یہودی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے_,*
*★_ عیسائیان مدینہ بھی نبی موعود صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، جب سے اللہ کے برگزیدہ بندہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام نے سب سے آخری وعظ میں دوسرے تسلی دینے والے کے آنے کی خبر دی تھی جو دنیا کے ساتھ ہمیشہ رہے اور جو دنیا کو سب چیزیں سکھلائے گا اور عیسائیوں کو اس کے حکم پر چلنے کی تاکید کی تھی، تو عیسائی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، جو یہود سے ان کے ظلم کا بدلہ لینے والا عیسائیوں کو جلال بخشنے والا، مسیح علیہ السلام کی صداقت ظاہر کرنے والا ہو_," لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے خود ساختہ مسائل اہنیت، تثلیث، کفارہ، رہبانیت اور پوپ کے الہی اقتدارات کا رد کیا، تب وہ بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے،*
[11/29, 7:19 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مدینہ منورہ میں داخلہ :- نماز جمعہ سے فارغ ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یثرب کی جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور اسی دن سے شہر کا نام "مدینہ النبی" ہو گیا, جسے مختصر مدینہ منورہ بھی کہا جاتا ہے,*
*★_ داخلہ عجب شاندار تھا، گلی کوچے تمحید و تقدیس کے کلمات سے گونج رہے تھے، مرد و عورت، بچے بوڑھے نور الہی کا جلوہ دیکھنے کے لیے سراپا چشم بن گئے تھے، تشریف آوری کے اس شکوہ و احتشام کو دیکھ کر اہل کتاب کے عالم سمجھ گئے کہ "حبقوق نبی" کی کتاب باب 3 درس 3 کا مطلب آج کھلا،*
*★_ انصار کی معصوم لڑکیاں پیارے لہجے اور پاک زبانوں سے اس وقت اشعار گا رہی تھیں، یہ انصار جن کی لڑکیوں نے یہ ترانہ سنجی کی ہیں، جنہوں نے 11- 12- 13 نبوت میں مکہ معظمہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، یا وہ ہیں جو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ یا ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہدایت سے اور تعلیم سے مدینہ منورہ ہی میں مسلمان ہوگئے تھے،*
*★_ بزرگ انصار کچھ بڑے مالدار یا صاحب ثروت یا کسی بڑی جاگیر و امالاک کے مالک نہ تھے، مگر دل کے ایسے غنی، اسلام کے ایسے فدائی، مسلمان بھائیوں پر اتنے قربان تھے کہ جب کوئی مہاجر ننگی تلواروں، کھچی ہوئی کمانوں سے جان بچا کر بھوکا پیاسا مدینہ میں پہنچتا تھا تو ہر ایک انصاری یہ چاہتا تھا کہ وہ مہاجر اسی کے پاس ٹھہرے،*
*★_ آخر قرعہ اندازی ہوتی تھی اور جس کے نام پر قرعہ نکل آتا، وہ مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے جاتا، مکان، اسباب، روپیہ، زمین، مویشی، غرض جو کچھ اس کی ملک میں ہوتا اس کا آدھا حصہ اسی دن تقسیم کر کے دے دیتا اور پھر رات دن ان کی خدمت کے لیے مستعد رہتا، اپنی خوش قسمتی پر شکر کرتا کہ اللہ نے دین کے ایک بھائی کو اس کا حصہ دار بنایا_,"*
[11/29, 7:34 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مکہ اور مدینہ کے حالات کا مقابلہ:-*.
*"_ مکہ میں صرف ایک قوم قریش کا زور اور حکومت تھی اور سب کا مذہب بھی (زیادہ تر) بت پرستی تھا, مدینہ مختلف اقوام اور مذاہب کا مجموعہ تھا، وہاں بت پرست بھی تھے اور یہودی بھی اور کم تعداد میں عیسائی بھی، یہودیوں کے کئی زبردست قبیلے "بنو نضیر" "بنو قینقاع" "بنو قریظہ" تھے جو اپنے جداگانہ قلعوں میں رہا کرتے تھے، تجارت اور سود خوری کی وجہ سے بہت مالدار تھے،*
*★_ جب اللہ کے برگزیدہ نبی موسٰی علیہ السلام نے اپنے وعظ میں یہود کو یہ بصارت سنائی تھی کہ اللہ عزوجل موسیٰ علیہ السلام کے بھائیوں میں سے موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی پیدا کرے گا، اس وقت سے یہود امید کیے ہوئے اور اسی امید پر مدینہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا نبی یہودیوں کے ادبار قومی کو دور کرنے والا، ان کی گزشتہ شان و شوکت، حکومت و سلطنت کو دوبارہ زندہ کرنے والا ہوگا اور جب سے یہود کو شام سے نکال دیا گیا اور ذلت و غلامی کے گڈھے میں ڈال دیا گیا تھا اس وقت سے نبی موعود کے ظہور پر ان کی آنکھیں اور بھی زیادہ لگی ہوئی تھی،*
*★_ اب اسماعیلی نبی صلی وسلم کا مدینہ میں تشریف لانا سن کر یہودی بالخصوص بہت خوش ہو رہے تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو مسیح علیہ السلام کو راست باز ٹھہراتا، اس کی تعلیم کو سچا بتلاتا اور مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے کو اسلام کا ضروری جزو قرار دیتا ہے اور اس کی بزرگی کر کے یہودیوں کو انصاف سے ملزم ٹھہراتا ہے، تو اس وقت سب یہودی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے_,*
*★_ عیسائیان مدینہ بھی نبی موعود صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، جب سے اللہ کے برگزیدہ بندہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام نے سب سے آخری وعظ میں دوسرے تسلی دینے والے کے آنے کی خبر دی تھی جو دنیا کے ساتھ ہمیشہ رہے اور جو دنیا کو سب چیزیں سکھلائے گا اور عیسائیوں کو اس کے حکم پر چلنے کی تاکید کی تھی، تو عیسائی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، جو یہود سے ان کے ظلم کا بدلہ لینے والا عیسائیوں کو جلال بخشنے والا، مسیح علیہ السلام کی صداقت ظاہر کرنے والا ہو_," لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے خود ساختہ مسائل اہنیت، تثلیث، کفارہ، رہبانیت اور پوپ کے الہی اقتدارات کا رد کیا، تب وہ بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے،*
[11/30, 7:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ مدینہ کے حالات کا اندازہ کرنے کے لئے ناظرین کو عبداللہ بن ابی بن سلول کے حال پر بھی ایک مختصر نظر ڈالنا ضروری ہے، یہودیوں کے علاوہ مدینہ کا ممتاز جازذی اثر شخصی یہ بھی تھا، اوس و خزرج کے قبیلوں پر اس کا پورا رعب تھا اور اس کو توقع تھی کہ ان طاقتوں قبیلوں کی مدد سے مدینہ کی سب سے اعلیٰ طاقت میں ہی بن جاؤں گا،*
*★_جب اس نے دیکھا کہ اوس و خزرج جو مسلمان ہو رہے ہیں تو خود بھی (جنگ بدر کے بعد) بظاہر حال مسلمانوں سے مل گیا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوگئے ہیں تو اس نے چاہا کہ یہودیوں پر بھی اس کا پہلا اثر قائم رہے اور مسلمان ہو جانے والے قبائل بھی بدستور زیر اقتدار رہیں، اس لیے اس نے یہ رویہ اختیار کیا کہ مسلمانوں میں بیٹھ کر ان سے اپنی رفاقت کا اقرار کرتا اور دیگر اقوام کے سامنے ان کے ساتھ اپنے اتحاد و صداقت کا دعویٰ کیا کرتا_,"*
*★_ اور چونکہ وہ فی الحقیقت اسلام کو اپنی آرزوؤں کا پاماں کردہ سمجھتا تھا، اس لیے جب موقع ملتا تو مسلمانوں کی ضرر ثانی میں بھی دریغ نہ کرتا، اس گروہ کا نام مسلمانوں نے "منافق" رکھا _,"*
*★_ مدینہ کی یہ حالت تھی اور اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کی دعوت اور منادی کے لئے اس جگہ بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا تھا، ایک منصف اور غور کرنے والی طبیعت فیصلہ کرسکتی ہے کہ ان سب پر غالب آنا اسلام کی صداقت کی عمدہ دلیل ہے، اشاعت اسلام میں جو کامیابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں بمقابلہ مکہ معظمہ ہوئی اس کا ذکر قرآن نے پہلے سے بطور پیش گوئی فرما دیا تھا:-*
*"_ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ _,"*
*"_ پچھلا تیرے لیے پہلے سے بہتر ہوگا _,"*
[12/2, 7:38 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ہجرت کے پہلے ہی سال یہ مناسب خیال فرمایا کہ جملہ اقوام سے ایک معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کر لیا جائے تاکہ نسل اور مذہب کے اختلاف میں بھی قومیت کی وحدت قائم رہے اور سب کو تمدن و تہذیب میں ایک دوسرے سے مدد و اعانت ملتی رہے، معاہدہ درج ذیل ہے:-*
*★_ یہ تحریر ہے محمد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان جو قریش یا یثرب کے باشندہ ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ جو مسلمانوں کے ساتھ ملے ہوئے اور کاروبار میں ان کے ساتھ شامل ہیں کہ یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے، بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہیں اور جو کوئی اس معاہدے کرنے والی قوموں کے ساتھ جنگ کرے گا تو اس کے برخلاف سب کے سب مل کر کام کریں گے، مسلمان ان کی نصرت کریں گے_,"*
*★_ معاہدہ اقوام کے باہمی تعلقات، باہمی خیرخواہی، خیر اندیشی اور فائدہ رسانی کے ہوں گے، ضرر اور گناہ کے نہ ہوں گے، جنگ کے دنوں میں یہودی مسلمانوں کے ساتھ مصارف میں شامل رہیں گے، یہودیوں کی دوست دار قوموں کے حقوق یہودیوں کے برابر سمجھے جائیں گے، کوئی شخص اپنے معاہد کے ساتھ مخالفانہ کاروائی نہ کرے گا، مظلوم کی مدد و نصرت کی جائے گی، مدینہ کے اندر کشت و خون کرنا اس معاہدے کرنے والی سب قوموں پر حرام ہے، زنہاری بھی معاہد قوموں جیسے سمجھے جائیں گے، اس معاہدہ کی قوموں کے اندر اگر کوئی ایسی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہو جائے جس میں فساد کا خوف ہو تو اس کا فیصلہ اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سمجھا جائے گا _,*
*★_ اس معاہدے پر مدینے کی تمام آباد قوموں کے دستخط ہوگئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ گرد و نواح کے قبیلوں کو بھی اسی معاہدہ میں شامل کر لیا جائے، اس سے دو فائدے ہوں گے،*
*(١) جو خانہ جنگی قبائلوں کے درمیان ہمیشہ جاری رہتی اور خلق الہی کے خون سے اللہ کی زمین رنگین رہتی ہے اس کا انسداد ہو جائے گا،*
*(٢)_قریش مکہ ان لوگوں کو جن سے معاہدہ ہو جائے گا مسلمانوں کے خلاف بہکانے و اکسانے کا کام نہ سکیں گے،*
*★_ اس مبارک اور امن بخش ارادے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پہلے سال ہی مکہ اور مدینہ کے درمیانی قبائل کا سفر فرمایا اور قبیلہ بنی حمزہ بن بکر بن عبد مناف کو اس معاہدے میں شریک کر لیا، کوہ بواط کے لوگوں کو شریک معاہدہ کیا، پھر بنو مدلج سے معاہدہ طے کر کے مدینہ تشریف لائے، اس مبارک ارادے کی تکمیل کے لئے اگر کافی وقت مل جاتا تو دنیا پر آشکار ہو جاتا کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلّم دنیا میں تلوار چلانے کو نہیں بلکہ صلح پھیلانے اور امن قائم کرنے کے لیے آئے ہیں_,"*
[12/3, 7:57 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا :-*
*"_ قریش مکہ کو ایمان والوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی دشمنی تھی کہ ان کے وطن کو چھوڑ کر تین سو (300) میل دور جانے کے بعد بھی ان کو چین نہ آیا، پہلے بھی جب مسلمان حبشہ جا رہے تھے، اس وقت قریش نے حبشہ پہنچ کر ان کے گرفتار کر لانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ ملک ایک بادشاہ کے ماتحت تھا اور سمندر کے درمیان میں حائل تھا، اس لیے وہاں کچھ اور زیادہ کاروائی نہ کر سکے، اب جو مسلمان مدینہ جا رہے تو سب نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرلیا، قریش مکہ نے پہلے تو عبداللہ بن ابی اور اس کے رفقاء کو جو اوس و خزرج میں سے بت پرست تھے لکھ بھیجا_,"*
*"★_ لکھا- تم نے ہمارے شخص کو اپنے یہاں ٹھہرا لیا ہے، اب لازم ہے کہ تم اس سے لڑو یا وہاں سے نکال دو ورنہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہم سب یکبارگی تم پر حملہ کر دیں گے، تمہارے جوانوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے_,", اس خط کے آنے پر ابن ابی اور اس کے رفقاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع مل گئی، آپ نے اس حملہ کرنے والے مجمع میں خود جا کر گفتگو فرمائی _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- قریش نے تم سے ایسی چال کھیلی ہے کہ اگر تم ان کی دھمکی میں آ گئے تو تمہارا نقصان بہت زیادہ ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم ان کی بات سے انکار کر دو گے، کیونکہ اگر تم مسلمانوں سے لڑو گے تو اپنے ہی بھائیوں اور فرزندوں کو ( جو مسلمان ہو چکے ہیں) قتل کروگے، اگر تمہیں قریش سے لڑنا پڑا تو وہ غیروں کا مقابلہ ہوگا،*
*"_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تقریر ان کے ایسی دلنشین ہوئی کہ تمام مجمع منتشر ہو گیا_,"*
*( سنن ابی داؤد- 3004)*
*★_اس کے بعد قریش مکہ نے اندر ہی اندر مدینہ کے یہودیوں سے سازش کرنی شروع کردی اور جب یہ خفیہ طور پر ان کو اپنے ساتھ ملا چکے تب اپنی کامیابی کا پورا بھروسہ کر کے مسلمانوں کو کہلا بھیجا:- تم مغرور نہ ہو جانا کہ مکہ سے صاف بچ کر نکل آئے، ہم یثرب پہنچ کر تمہارا ستیاناس کر دیتے ہیں_," اس پیغام کے بعد انہوں نے چھیڑ چھاڑ بھی شروع کر دی ,*
[12/4, 7:00 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ربیع الاول 2 ھ کا ذکر ہے کہ سرداران قریش میں سے ایک شخص کرز بن جابر یثرب پہنچا اور مدینے والوں کے مویشی جو باہر میدان میں چر رہے تھے لوٹ کر لے گیا اور صاف نکل گیا، گویا مدینہ والوں کو اپنی طاقت دکھلا گیا کہ ہم تین سو (300) میل کا دھاوا کر کے تمہارے گھروں سے تمہارے مویشی لے جا سکتے ہیں ،*
*★_ پھر ماہ رمضان 2ھ کا زکر ہے کہ ابو جہل نے مکہ میں مشہور کر دیا کہ ہمارا قافلہ جو زر و مال سے مالا مال ہے اور شام سے آرہا ہے مسلمانوں اسے لوٹیں گے، اس شہرت سے اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ سب لوگ جن کا مال تجارت میں لگا ہوا ہے اور وہ سب لوگ جن کے اقربا قافلے میں ہیں اور وہ سب لوگ جو مسلمانوں سے نفرت رکھتے ہیں بالاتفاق مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے آمادہ ہو جائیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا_,*
*★_ ایک ہزار جانباز بہادروں کی خونخوار فوج لے کر ( جن کی سواری میں 700 اونٹ اور 300 گھوڑے تھے) ابو جہل مکہ سے نکلا، جس قافلے کی حفاظت کا بہانہ کرکے یہ فوجی اجتماع ہوا تھا وہ مکہ میں بخیریت پہنچ گیا مگر ابو جہل اس فوج کو لیے ہوئے برابر مدینہ کی جانب بڑھتا گیا، اب مسلمانوں کو کچھ بھی شک نہ رہا کہ یہ قریش کی چڑھائی غریب مسلمانوں پر ہے،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا، مہاجرین نے قابل اطمینان جواب دیا، پھر مشورہ فرمایا، مہاجرین نے قابل اطمینان جواب دیا، پھر مشورہ فرمایا، اب انصار سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے جواب کے منتظر ہیں،*
[12/5, 8:34 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :- شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا کہ انصار اپنے شہر سے باہر نکل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے ہیں، انصار کی طرف سے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہم تو ہر حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، کسی سے معاہدہ فرمائے، کسی کے معاہدہ کو نامنظور کیجئے، ہمارے زر و مال سے جس قدر منشا مبارک ہو لیجئے، ہم کو جو مرضی مبارک ہو عطا کیجئے، مال کا جو حصہ ہم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم لے لیں گے ہمیں وہ زیادہ پسند ہوگا اس مال سے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس چھوڑ دیں گے، ہم کو جو حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمران کے چشمے تک چلیں گے تو ہم ساتھ ہوں گے، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو سمندر میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہاں بھی چلیں گے_,"*
*★_ مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا :- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم وہ نہیں کہ قوم موسیٰ علیہ السلام کی طرح *_( فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ) ( المائدہ :٢٤) _"*
*"_جا, تو اور تیرا رب دونوں لڑو، ہم تو یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں _," کہہ دیں، ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے بائیں، آگے پیچھے قتال کے لیے حاضر ہیں _,"*
*( بخاری -3952, زادالمعاد - 3/173)*
*★_ مسلمان پہلے کچھ تیار نہ تھے، انصار و مہاجرین ملا کر 313 ایسے نکلے جو میدان میں جا سکے_, اب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ تھی بلکہ اسلام کو جنگ سے کوئی واسطہ ہی نہیں, لفظ اسلام کا مادہ سلمہ ہے, جس کے معنی صلح اور فروتنی ( عاجزی، تواضع) کے ہیں، جو مذہب دنیا کے لئے صلح کا پیغام لے کر آیا ہو, جس مذہب کے پیروکار ایمانداروں کو منکسر اور متواضع رہنے کا حکم ہو، وہ کیوں جنگ کرتے ؟*
*★_ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے چپ چاپ گھروں کو، املاک کو مکہ میں چھوڑ دیا اور حبشہ یا مدینہ چلے گئے تھے لیکن اب ایسی صورت آ پڑی کہ جنگ کے سوا چارہ ہی نہ رہ گیا، اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو جاتے، اور سب سے بڑا نقصان یہ تھا یہ توحید کی منادی کرنے والا دنیا پر کوئی نہ رہ جاتا، حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے پونے تین سو سال کے وعظ کے بعد جس ضرورت سے مجبور ہو کر اپنے حواریوں کو حکم دیا تھا کہ کپڑوں، لتوں اور نقدی کے بدلے ہتھیار خرید کر مسلح ہو جاؤ _," ( لوقا 36/22)، اسی ضرورت کی وجہ سے سے خدائے بزرگ و برتر نے مسلمانوں کی حالت پر رحم فرما کر ان کو بھی چودہ سال تک صبر کرنے اور ظلم و ستم برداشت کرتے رہنے کے بعد حملہ آور دشمنوں کی مدافعت کا حکم دے دیا _,"*
[12/6, 7:57 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ رمضان 2ھ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ صحابہ کرام کو لے کر مدینہ سے چلے، اس لشکر کے سازو سامان کا اندازہ اسی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ تمام لشکر میں صرف 2 گھوڑے اور 60 اونٹ تھے، یہ عجیب اتفاق دیکھو کہ اہل بدر کی تعداد بھی لشکر طالوت کے برابر تھی جبکہ وہ جالوت کے مقابلے کو نکلا تھا،*
*★_ جب بدر پہنچے تو دیکھا کہ دشمن کا لشکر جو تعداد میں ان سے تین گنا اور سامان میں ہزار گنا زیادہ ہے، اترا ہوا ہے، جنگ سے ایک روز پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ کیا اور بتلایا کہ کل ان شاء اللہ تعالی فلاں دشمن اس جگہ اور فلاں فلاں اس جگہ قتل ہوں گے،*
*★_ 17 رمضان کو بروز جمعہ جنگ ہوئی، جنگ سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تضرع ( گڑگڑا کر) اللہ کے حضور دعا کی اور یہ بھی عرض کی کہ اگر یہ صحابہ کرام مارے گئے تو دنیا پر توحید کی منادی کرنے والا کوئی بھی نہ رہ جائے گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی دعائیں کی، نصرت الہی سے مکہ والوں کو شکست ہوئی، ان کے 70 مشہور آدمی اسیر اور 70 بہادر مارے گئے، ابو جہل بھی اسی جگہ مارا گیا، یہی سب کو چڑھا کر لایا تھا، وہ 14 سردار جو دارلندوہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے مشورے میں شریک ہوئے تھے، ان میں سے بھی 11 مارے گئے، تین جو بچے رہے تھے وہ بالآخر ایمان لے آئے،*
*★_اس زمانے کا قانون جنگ، مظلوم صحابہ کا جوش انتقام، دیگر قبائل پر جنگی رعب قائم کرنے کی ضرورت اس امر کی مقتضی تھی کہ قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا مگر رب رحیم کے نبی رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے تاوان لے کر سب کو چھوڑ دیا، پڑھے لکھے اسیروں کا تاوان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مقرر فرمایا تھا کہ وہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں،*
[12/7, 11:16 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_قریش کی تیسری سازش اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تیاری:-*
*"_جنگ بدر سے چند روز بعد کا ذکر ہے کہ صفوان بن امیہ (جس کا باب بدر میں قتل ہوا تھا) اور عمیر بن وہب (جس کا بیٹا مسلمانوں کے ہاتھوں میں اسیر تھا) مکہ سے باہر سنسان جگہ میں جمع ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنے لگے،*
*★_ عمیر بولا :- اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا جسے میں ادا نہیں کر سکتا اور اگر مجھے اپنے کنبہ کے بے کس رہ جانے کا خیال نہ ہوتا تو میں خود مدینہ جاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل ہی کرکے آتا،*
*"_ صفوان بولا:- تیرا قرض میں چکا دوں گا اور تیرے کنبے کا خرچ جب تک میں زندہ رہوں گا میرے ذمہ ہوگا_,"*
*"_ عمیر بولا - بہتر ہے، یہ راز کسی پر نہ کھلے، پھر عمیر نے اپنی تلوار کی دھار کو تیز کرایا اور زہر میں اسے بجھوایا اور مکہ سے روانہ ہوگیا _,"*
*★_ عمیر مدینہ پہنچ کر مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا اونٹ بٹھا رہا تھا کہ اونٹ بول پڑا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا اور پہچانا اور دل میں سمجھ گئے کہ یہ ضرور کسی فساد کے ارادے سے آیا ہے، اس لئے آگے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ عمیر بن وہب اب مسلح چلا آ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- اسے میرے پاس آنے دو, عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کی تلوار پر قبضہ کرلیا اور اس کی گردن پکڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا - عمر اسے چھوڑ دو، عمیر تم میرے پاس آ جاؤ، عمیر نے آگے بڑھ کر سلام کیا،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا- کہو کس طرح آئے ہو ؟ کہا - اپنے بیٹے کی خبر لینے آیا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا- یہ تلوار کیسی ہے ؟ عمیر بولا- یہ کیا تلوار ہے اور ہماری تلواروں نے آپ کا پہلے بھی کیا کر لیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- تم سچ سچ بتلاؤ, عمیر نے اسی جواب کو دہرایا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- دیکھ تو اور صفوان سنسان پہاڑ میں گئے تھے، صفوان نے تیرا قرض اور تیرے کنبے کا خرچ اپنے اوپر لے لیا ہے اور تو نے میرے قتل کا وعدہ کیا اور اسی ارادے سے تو یہاں آیا ہے، عمیر تو یہ نہ سمجھا کہ میرا محافظ اللہ ہے_,"*
[12/8, 7:47 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عمیر یہ سن کر حیران ہو گیا، بولا- اب میرا دل مان گیا ہے کہ آپ ضرور اللہ کے نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہ بالکل آسان تھا کہ آپ کی خبروں اور وحی کی بابت ہم آپ کو جھٹلاتے رہے لیکن اب میں اس راز کی بابت کیا کہہ سکتا ہوں جس کی خبر میرے اور صفوان کے سوا تیسرے کو نہیں، اللہ کا شکر ہے جس نے میرے اسلام کا یہ بہانہ بنا دیا_,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اپنے بھائی کو دین سکھلاؤ، قرآن یاد کرآؤ اور اس کے فرزند کو آزاد کر دو، عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:- اے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں مکہ ہی واپس جاؤں اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دوں،*
*★_ عمیر رضی اللہ عنہ کے مدینہ جانے کے بعد صفوان کا یہ حال تھا کہ سرداران قریش سے کہا کرتا تھا کہ دیکھو چند روز میں کیا گل کھلنے والا ہے، تم بدر کا صدمہ بھول جاؤ گے، جب صفوان کو خبر لگی کہ عمیر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تو اسے سخت صدمہ ہوا اور اس نے قسم کھائی کہ جب تک زندہ رہوں گا عمیر رضی اللہ عنہ سے بات نہ کروں گا، نہ اسے کوئی فائدہ پہنچنے دوں گا،*
*★_ 8 ہجری کے بعد یہ صفوان خود بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور مکہ کا مشہور سردار تھا مسلمان ہو گیا تھا، (طبری 2/310 )*
*"_عمیر رضی اللہ عنہ مکہ میں آئے, وہ اسلام کی منادی کرتے تھے اور اکثر لوگ ان کے ہاتھ پر ایمان لے آئے تھے،*
[12/8, 8:35 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بدر میں شکست پانے کے بعد ابو سفیان نے نہانے دھونے سے قسم کھالی تھی، جب تک بدر کی شکست کا بدلہ نہ لیا جائے، چنانچہ 200 سواروں کو لے کر مکہ سے نکلا، جب مدینہ کے قریب پہنچا تو سواروں کے دستے کو باہر چھوڑ کر خود تاریکی شب میں مدینے کے اندر آیا، سلام بن مشکم یہودی سے ملا، رات بھر بادہ خواری ہوتی رہی، غالباً دونوں کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ مقابلہ کا وقت نہیں اس لئے ابو سفیان آخر شب وہاں سے نکلا، صحابہ کے پھل دار درختوں، کھجوروں کو آگ لگا کر، ایک صحابی اور ان کے حلیف کو قتل کر کے واپس چلا آیا_,"*
*★_ خبر ملنے کے بعد قرقرةالکدر تک تعاقب ہوا، اس لیے اس کا نام "غزوہ قرقرةالکدر" کہاں جاتا ہے، ابو سفیان کا رسالہ ستو کی تھیلیاں کراتا گیا تھا، جسے صحابہ نے اٹھا لیا تھا، اس لئے اس کا نام " غزوةالسویق" بھی ہوا _,"*
*★_ قریش کا چوتھا حملہ یا جنگ احد (6 شوال یوم السبت 3 ہجری):-*
*"_ قریش مکہ اگلے ہی سال پھر مدینہ پر حملہ آور ہوئے، اس دفعہ انہوں نے ملک میں سے آم چندہ جمع کیا تھا، ابو عزہ شاعر نے تہامہ میں گشت لگا کر بنو کنانہ کو قریش کی مدد پر آمادہ کر لیا تھا، تجارت شام کا پچاس ہزار مثقال سونا، ایک ہزار اونٹ جو ابھی تقسیم نہ ہوئے تھے، چندہ میں شامل کر دیے گئے تھے، الغرض 5 ہزار بہادروں کا لشکر جس میں 3 ہزار اونٹ سوار، 2 سو گھوڑ سوار اور 7 سو زرہ پوش پیادہ تھے، مدینہ تک بڑھا چلا آیا،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راۓ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جائے، مگر کثرت رائے پر فیصلہ ہوا اور صحابہ نے احد کے سرخ پہاڑ تک جو مدینہ سے تین کوس پر ہوگا باہر نکل کر مقابلہ کیا،*
[12/10, 7:49 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_اسلامی لشکر میں ایک ہزار مرد تھے، عین وقت پر ابی بن سلول نے دغا دی اور اپنے تین سو ساتھیوں کو راستے ہی میں پھیر کر لے گیا، اس لئے سات سو مسلمانوں پر پانچ ہزار حملہ آور کی مدافعت کا (جو انتقام اور غصے کے جوش میں بھرے ہوئے تھے) بار تھا, مسلمانوں نے ابتدا میں دشمن کو شکست دے دی تھی اور ان کے بارہ مشہور اور علمبردار (جن میں آٹھ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے مقتول ہوئے تھے) مارے جا چکے تھے لیکن تیراندازوں نے اس درہ کو چھوڑ دیا جہاں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قائم فرما دیا تھا، چالاک دشمن نے موقع تاڑ لیا اور چکر کاٹ کر عقب سے ہو کر مسلمانوں کو دو طرف سے بیچ میں لے لیا، مسلمانوں کا اس وقت سخت نقصان ہوا اور لشکر کا بڑا حصہ تتر بتر ہو گیا _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف 12 صحابی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ، سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ، طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وغیرہ تھے، دشمن نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے، ابن قمیہ کے پتھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی، ابن شہاب کے پتھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بازو زخمی ہوا، عتبہ کے پتھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار دانت ٹوٹ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر ایک غار میں گر گئے، خبر اڑ گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے،*
*★_ مدینہ سے محترم خواتین دوڑی دوڑی آئیں، یہاں آ کر فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نے باپ کے زخموں کو دھویا، پیشانی کا خون نہ تھمتا تھا، اس میں چٹائی جلا کر بھری، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس وقت ڈھال میں پانی بھر کر لاتے رہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مشکیزے اٹھائے اور زخمیوں کو پانی لا لا کر پلاتی تھیں، میدان جنگ میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے، جنگ کے نقصانات میں سے بڑا بھاری نقصان یہ تھا کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جو مدینہ میں بطور معلم اسلام آئے تھے اور جن کے وعظ اوس و خزرج کے قبیلے مسلمان ہوئے تھے شہید ہوئے،*
*★_اسی جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ ( اسداللہ ورسولہ) بھی شہید ہوئے, دشمن نے ان کے اعضاء کاٹ کر ان کی لاش کو بھی بے حرمت کیا تھا، جنگ کے بعد صفیہ رضی اللہ عنہا مادر زبیر رضی اللہ عنہا اپنے بھائی حمزہ کی لاش دیکھنے آئی، زبیر رضی اللہ عنہ نے ماں کو دور ہی سے روکا، صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا- مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش بگاڑ دی گئی اور بےحرمتی کی گئی ہے لیکن یہ تو ہمارے لئے فخر کا مقام ہے، بیٹا ! میں نہ روؤں گی، نہ چلاؤں گی، صرف دعا پڑھ کر واپس لوٹ جاؤں گی،*
[12/10, 9:05 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اسی جنگ میں انس بن نضر رضی اللہ عنہ ع نے جام شہادت پیا تھا، اس بہادر نے چند بہادر صحابہ کو دیکھا کہ ہتھیار پھینک دیے ہیں اور مغموم بیٹھے ہیں، پوچھا کیا حال ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا، انس رضی اللہ عنہ نے نہایت جوش سے کہا- آؤ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی ہے، ہم بھی اسی کام میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیں، اب زندہ رہ کر کیا کریں گے، یہ جان نثار اسی جوش میں 70 زخم جسم پر کھانے کے بعد شہید ہوگئے،*
*( بخاری 2805, 4048, 4783)،*
*★_ اسی جنگ میں سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے، جنگ ختم ہو جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، ایک نے دیکھا کہ زخمیوں میں پڑے سانس توڑ رہے ہیں، پوچھا کیا حال ہے ؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا- تم مجھے ابھی مردہ ہی سمجھو لیکن مہربانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اور میری طرف سے یہ بھی گزارش کرنا کہ اللہ تعالی آپ کو وہ بہترین جزا عطا فرمائے جو کسی نبی کو کسی امت کی ہدایت پر نہ دی گئی ہو_,"*
*"_قوم کو میری طرف سے یہ کہہ دینا کہ جب تک ایک جھپکی والی آنکھ بھی تم میں سے باقی رہے، اس وقت تک اگر دشمن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا تو اللہ کے حضور میں تم کوئی عذر پیش نہ کر سکو گے_,"*
*( حاکم- 2/624, طبقات ابن سعد - 3/78,*
*★_ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا، ان کی چھاتی پر ایک چھوٹی سی لڑکی بیٹھی تھی جسے وہ بار بار چومتے اور پیار کرتے تھے، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ فرمایا- یہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی لڑکی ہے، وہ مجھ سے بھی برتر تھا اور قیامت کے دن وہ نقیبان محمدی میں شمار کیا جائے گا_," ( زادالمعاد )*
[12/10, 9:30 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اسی جنگ میں عمار بن زیاد رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے، جنہوں نے جان دیتے ہوئے اپنے رخسار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلووں سے لگا دئیے تھے _," ( کنزالعمال 1359)*
*★_ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ، حنظلہ ( غسل الملائکہ) رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بے نظیر شجاعت کمال استقامت اور جان نثاری کے بھی نہایت شاندار واقعات اس جنگ میں پیش آئے، طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے سپر ( ڈھال ) کا کام لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب آنے والے تیر ہاتھ پر روکے، یہ ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ( سن یا بے جان) ہو گیا تھا _," ( تاریخ طبری- 2/187)*
*★_ بنو دینار کی ایک عورت تھی، جس کا باپ، بھائی اور شوہر اس جنگ میں شہید ہوئے تھے، وہ کہتی تھی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بتلاؤ، لوگوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے فضل سے صحیح و سالم ہیں، کہا مجھے دکھلاؤ، جب دور سے چہرہ مبارک دیکھ لیا تو بے اختیار کہہ اٹھی - اب ہر ایک مصیبت کی برداشت ہو سکتی ہے _,"*
*★_ اسی جنگ میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ( جب کہ حضور صلی اللہ وسلم کو بھی کئی زخم آئے تھے) عرض کیا- کاش آپ ان مشرکین پر بد دعا فرمائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہوں، مجھے تو اللہ کی طرف بلانے والا اور سراپا رحمت بنایا گیا ہے، اے اللہ میری قوم کو ہدایت فرما کیوں کہ وہ مجھے نہیں جانتے_,"*
[12/12, 6:42 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش کی چوتھی سازش اور دس واعظان حصہ اسلام کا مارا جانا:- جنگ احد کے بعد دشمنوں نے صحابہ کو نقصان پہنچانے اور پامال کرنے کی مختلف تدابیر پر عمل کیا، چنانچہ 4 ہجری میں قریش میں قوم عضل اور قارہ کے سات اشخاص کو گانٹھ کر مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ ہمارے قبیلے اسلام لانے کو تیار ہیں، ہمارے ساتھ معلم کر دیجئے،*
*★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بزرگ صحابہ کو جن کے سردار عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے ( یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نانا تھے) ، ان کے ساتھ کر دیا, جب یہ صحابہ ان کی زد میں پہنچ گئے تو ان کے دو سو جوان آئے کہ انہیں زندہ گرفتار کرلیں، آٹھ صحابی مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے اور دو بزرگوار حج خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ گرفتار کر لیے گئے،*
*★_ سفیان حضرت انہیں مکہ لے گیا اور قریش کے پاس فروخت کر دیا، قریش نے انہیں حارث بن عامر کے گھر میں چند روز بھوکا پیاسا رکھا، ایک دن حارث کا بچہ تیز چھری سے کھیلتا ہوا خبیب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا، انہوں نے بچے کو زانو پر بٹھایا اور چھری لے کر رکھ دی، جب بچے کی ماں نے یکایک دیکھا کہ اس کا بچہ چھری لے کر قیدی کے پاس ہے جسے چند روز سے انہوں نے بے آب و دانہ رکھا تھا تو اس نے بے اختیار چیخ ماری،*
*★_ خبیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ سمجھتی ہے کہ میں بچے کو قتل کر دوں گا، یہ نہیں جانتی کہ مسلمان کا کام غدر کرنا نہیں، ظالم قریش والوں نے چند روز کے بعد خبیب رضی اللہ عنہ کو صلیب کے نیچے لے جا کر کھڑا کر دیا اور کہا - اگر اسلام چھوڑ دو تو تمہاری جان بخشی ہو سکتی ہے، دونوں بزرگواروں نے جواب دیا کہ "جب اسلام باقی نہ رہا تو جان کو رکھ کر کیا کریں گے_,"*
[12/12, 7:14 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب قریش نے پوچھا کہ کوئی تمنا ہو تو بیان کرو، خبیب رضی اللہ عنہ نے کہا - دو رکعت نماز پڑھ لینے کی مہلت دی جائے _," مہلت دی گئی، انہوں نے نماز ادا کی، حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے کہا- میں نماز میں زیادہ وقت صرف کرتا لیکن سوچا کہ دشمن یہ نہ کہیں کہ موت سے ڈر گیا ہے، بے رحموں نے دونوں کو صلیب پر لٹکا دیا اور نیزہ کی انی سے ان کے جسموں کی ایک ایک حصہ پر چرکے لگائیں _,*
*★_ اللہ اکبر ! ان کا دل اسلام پر کتنا قائم تھا، ان کو دین حق پر کتنی استقامت تھی، ان کو ہمیشہ کی نجات اور اللہ کی خوشنودی کا کتنا یقین تھا کہ ان تمام تکلیفوں اور اذیتوں کو برداشت کرتے ہوئے ذرا اف تک نہیں کی،*
*★_ ایک سخت دل نے حضرت خبیب کے جگر کو چھیدا اور پوچھا- کہو اب تو تم بھی پسند کرتے ہوں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پھنس جائیں اور میں چھوٹ جاؤں ؟ خبیب رضی اللہ عنہ نے نہایت جوش سے جواب دیا - اللہ جانتا ہے کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان بچ جانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا بھی لگے _," ( طبری و ابن ہشام- 2/123)*
*★_ اللہ کے اس برگزیدہ بندہ نے ان مقتل اور تماشائیوں کے ہجوم میں صلیب کے نیچے کھڑے ہو کر جو اشعار کہے ہیں، ان سے اس منظر کی پوری کیفیت اور اس بزرگوار کی صداقت و محبت اسلام کی پاکیزہ صورت بخوبی نظر اتی ہے،*
*★"_ سب سے آخر میں یہ دعا کی "_ اللهم بلغنا رسالة رسولك فبلغه ما يمنع بنا" اے اللہ ہم نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ان لوگوں کو پہنچا دیے، اب تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حال کی اور ان کے کرتوتوں کی خبر فرما دے_,"*
*"_ سعد بن عامر رضی اللہ عنہ (جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عمال میں سے تھے) ان کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی یکبارگی بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے وجہ پوچھی، وہ بولے- مجھے نہ کوئی مرض ہے نہ کوئی شکایت ہے، جب خبیب رضی اللہ عنہ کو صلیب پر چڑھایا گیا تو میں اس مجمع میں موجود تھا، مجھے جس وقت خبیب رضی اللہ عنہ کی باتیں یاد آ جاتی ہیں، میں کانپ کر بے ہوش ہو جاتا ہوں_,"*
[12/13, 5:27 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ایک اور سازش اور ستر مبلغین اسلام کی شہادت:-* *"_ ابو براء عامر نے بھی ایسا ہی فریب کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ ملک نجدی کی تعلیم و ہدایت کے لیے کچھ منادی میرے ساتھ بھیج دیجئے، اس کا بھتیجا نجد کا رئیس تھا، عامر نے یقین دلایا تھا کہ منادی کرنے والوں کی حفاظت کی جائے گی،*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منذر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کو مع ستر صحابہ کے جو قراء و فضلاء و منتخب بزرگوار تھے اس کے ساتھ کر دیا، جب وہ بیر معونہ پر جا پہنچے جو بنی عامر کا علاقہ تھا وہاں سے حرام بن ملحان کو نامہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دے کر طفیل حاکم کے پاس بھیجا گیا، اس نے اس سفیر کو قتل کردیا, جبار بن سلمیٰ ایک شخص تھا جس نے حاکم کے اشارے سے ان کی پشت میں نیزہ مارا تھا، جو چھاتی سے صاف نکل گیا، انہوں نے گرتے ہوئے کہا- قسم ہے کعبہ کے رب کی، میں اپنی مراد کو پہنچ گیا _," ( بخاری 4042,4091)*
*"★_قاتل پر اس فقرے نے ایسا اثر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر مسلمان ہو گیا، حاکم نے باقی سب کو بھی قتل کرادیا، کعب ابن زید رضی اللہ عنہ نے جو کشتگان خنجر تسلیم کی اوٹ میں چھپ کر بچے رہے تھے، اس واقعے کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی،*
[12/16, 11:34 AM] Haqq Ka Daayi Official: *"_قریش کا پانچواں حملہ اور عہد شکنی اور فتح مکہ _,*
*★_ اسی سال (8 ہجری) مسلمانوں کو اضطراراً ماہ رمضان میں مکہ پر فوج کشی کرنی پڑی, وجہ یہ ہوئی کہ 6 ہجری میں جو معاہدہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بمقام حدیبیہ کیا تھا، اس کی ایک دفعہ میں یہ بھی تھا کہ، "_ دس سال تک جنگ نہ ہو گی، اس شرط میں جو قومیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ملنا چاہیں وہ ادھر مل جائیں اور جو قومیں قریش کی طرف ملنا چاہیں وہ ادھر مل جائیں_,"*
*★_ اس کے موافق بنی خزاعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور بنوبکر قریش کی طرف مل گئے تھے، معاہدے کو ابھی دو برس بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے بھی بنو بکر کو اسلحہ سے امداد دی، عکرمہ بن ابوجہل، سہیل بن عمرو ( معاہدہ پر پر اسی نے دستخط کیے تھے) صفوان بن امیہ (مشہور سرداران قریش) نے خود بھی نقاب پوش ہو کر مع اپنے حوالی و موالی کے بنو خزاعہ پر حملہ آور ہوئے_," ( تاریخ طبری 2/296)*
*★_ ان بے چاروں نے امان بھی مانگی، بھاگ کر خانہ کعبہ میں پناہ بھی لی، مگر ان کو ہر جگہ بے دریغ تہ تیغ کیا گیا، یہ مظلوم جب الهك الهك ( اپنے رب کے واسطے، اپنے رب کے واسطے) کہہ کر رحم کی درخواست کرتے تھے تو یہ ظالم ان کے جواب میں کہتے تھے اله الیوم ( آج رب کوئی چیز نہیں)_," ( سیرت ابن ہشام-3/395)*
*★_ مظلوموں کے بچے کھچے چالیس آدمی جنہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور اپنی مظلومی و بربادی کی داستان سنائ ،*
*"_ معاہدے کی پابندی، فریق مظلوم کی داوری، دوست دار قبائل کی آئندہ حٖفاظت کی غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی جانب سوار ہو گئے، دس ہزار کی جمعیت ہمرکاب تھی، ( صحیح بخاری 1744,4276)*
[12/17, 6:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ابھی دو منزل چلے تھے کہ راہ میں ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اور عبداللہ بن ابو امیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کو آئے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت سے سخت ایزائیں دی تھی اور اسلام کو مٹانے میں بڑی بڑی کوششیں کی تھیں،*
*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا اور اپنا رخ پھیر لیا، ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان آپ کے حقیقی چچا کا بیٹا ہے اور عبداللہ حقیقی پھوپھی ( عاتکہ) کا لڑکا ہے، اتنے قریبی تو مرحمت سے محروم نہ رہنے چاہیے _,"*
*★_ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو یہ ترکیب بتلائی کہ جن الفاظ میں میں برادران یوسف علیہ السلام نے معافی کی درخواست کی تھی، تم بھی آنحضرت صلی وسلم کی خدمت میں جا کر انہیں الفاظ کا استعمال کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و رحم سے امید ہے کہ ضرور کامیاب ہو جاؤ گے، انہوں نے نبی صلی وسلم کے حضور میں حاضر ہوکر یہ آیت پڑھیں :-*
*"_ تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ _,"( یوسف 91)*
*"_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :-*
*"_لا تثريب عليكم اليوم يغفر الله لكم وهو ارحم الراحمين _,"*
*"_ اس وقت ابوسفیان نے عجب جوش ونشاط سے یہ اشعار پڑھے۔ قسم ہے کہ جن دنوں میں نشان جنگ اس لیے اٹھایا کرتا تھا کہ لات ( بت کا نام) کالشکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر پر غالب آ جائے، اس وقت میں اس خار پشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکرے کھاتا ہو، اب وہ وقت آگیا کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھے راستے پر ہو جاؤں، مجھے ہادی نے ( نہ کہ میرے نفس نے) ہدایت دی ہے اور اللہ کا رستہ مجھے اس شخص نے بتایا ہے جس کو میں نے دھتکار دیا اور چھوڑ دیا تھا_,"*
*"_نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- ہاں تم تو مجھے چھوڑتے ہی رہے تھے_," (زادالمعاد- 3/400، مستدرک حاکم-3/43,44 )*
[12/18, 7:26 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ نبی صلی اللہ وسلم کی خواہش تھی کہ اہل مکہ کو اس آمد کی خبر نہ ہونے پائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تک پہنچ کر باہر خیمہ زن ہو گئے اور اہل مکہ کو باخبر کرنے کے لئے لشکر میں الاؤ روشن کرنے کا حکم دیا تب ان کو خبر ہوئی، دوسری صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ فوج مختلف راستوں سے شہر میں داخل ہو اور ان احکام کی پابندی کرے:-*
*★_ جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے، جو کوئی شخص خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے اسے قتل نہ کیا جائے، جو کوئی شخص اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے اسے قتل نہ کیا جائے، جو کوئی شخص ابوسفیان کے گھر جا رہے اسے قتل نہ کیا جائے، جو کوئی شخص حاکم بن حزام کے گھر جا رہے اسے قتل نہ کیا جائے، بھاگ جانے والے کا تعاقب نہ کیا جائے, زخمی کو قتل نہ کیا جائے, اسیر کو قتل نہ کیا جائے_,"*
*★_ شہر میں داخل ہونے والے دستوں میں صرف اس دستے کا جو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ماتحت تھا کچھ مقابلہ ہوا جس میں اہل مکہ کو بھاگنا پڑا، باقی سب دستے بلا مزاحمت شہر میں داخل ہو گئے، مقابلے میں دو مسلمان اور 28 مقابل کام آئے،*
*★_ اللہ کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت (20 رمضان) شہر میں داخل ہوئے اس وقت سر جھکائے، قرآن مجید (سورہ فتح) کی تلاوت فرما رہے تھے اور اونٹ کی سواری پر بیت اللہ کو جا رہے تھے اور اونٹ پر اپنے ساتھ اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے فرزند اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا ہوا تھا، وہاں پہنچ کر پہلے اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کیا، اس وقت بیت اللہ کے ارد گرد 360 بت رکھے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کمان کے گوشے (یا چھڑی کی نوک) سے ہر ایک بت کو گراتے جاتے تھے اور زبان مبارک سے یہ پڑھتے جاتے تھے:-*
*( سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 81) - جَآءَ الۡحَـقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا ۞*
*(ترجمہ:) حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقینا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔*
*( سورۃ نمبر 34 سبإ آیت نمبر 49) "_ قُلۡ جَآءَ الۡحَـقُّ وَمَا يُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَمَا يُعِيۡدُ ۞*
*(ترجمہ)- حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے نہ دوبارہ کرنے کا۔*
[12/19, 9:43 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس کام سے فارغ ہو کر عثمان بن ابی طلحہ کو طلب فرمایا، ان کے خاندان میں مدت سے کعبہ کی کلید برداری چلی آتی تھی، اتداے أیام نبوت میں ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عثمان سے فرمایا تھا کہ بیت اللہ کھول دو، اس نے انکار کیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا- اچھا تم دیکھ لینا کہ ایک دن یہ کلید میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا اسے عطا کروں گا, عثمان نے جواب دیا تھا کہ کیا اس روز قریش کے سب ہی مرد ذلیل و تباہ ہو جائیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ اور بھی زیادہ عزت و اقبال سے ہوں گے،*
*★_ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلید لے کر بیت اللہ کا دروازہ کھولا، اندر جا کر ہر گوشے میں اللہ اکبر کے ترانے گائے اور پھر نماز شکرانہ پڑھتے ہوئے نہایت عجزو نیاز سے رب العزت کے سامنے پیشانی کو خاک پر رکھ کر سجدہ کیا، اس عرصہ میں مکہ کے وہ سب سردار اور سب بڑے بڑے لوگ جمع ہو گئے تھے جنہوں نے بیسیوں مسلمانوں کو قتل کیا تھا یا کرایا تھا، سیکڑوں مسلمانوں کو اذیت دے دے کر گھر بار سے نکالا تھا، دین اسلام کو تباہ کرنے اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے حبشہ، شام نجد یمن تک کے سفر کئے تھے، جنہوں نے بارہا مدینہ پر حملے کر کے مسلمانوں کو تین سو میل پر چلے جانے کے بعد بھی چین سے نہیں رہنے دیا تھا، یعنی وہ سب لوگ جو مسلمانوں کو فنا کرنے میں زر سے، مال سے، زور سے تدبیر سے، ہتھیار سے، تزویر سے اپنا سارا زور لگا چکے تھے اور انہیں ناپاک کوششوں میں 21 سال تک برابر منہمک رہے تھے،*
*★_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ نے تمام مخلوق کے واسطے رحمت بنایا جب عبادت سے فارغ ہو کر باہر رونق افروز ہوئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کلید بیت اللہ بنی ہاشم کو عطا فرمائی جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- آج کا دن تو سلوک کرنے, پورے عطیات دینے کا ہے، پھر عثمان کو بلایا، اسی کو کلید مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جو کوئی تم سے یہ کلید چھینے گا وہ ظالم ہوگا،*
[12/20, 7:25 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_فتح مکہ کے بعد نبی ﷺ کی تقریر مفتوحین اور دشمنوں کے سامنے :-*
*"_ اب رحمت للعالمین ﷺ اس گردن زدنی و کشتنی جماعت کی جانب متوجہ ہوئے اور زبان مبارک سے فرمایا:- اے جماعت قریش ! اللہ نے تمہاری جاہلانہ نخوت ( گھمنڈ) اور آباء و اجداد پر اترانے کا غرور آج توڑ دیا ہے, (سچ تو یہ ہے) سب لوگ آدم کے فرزند ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گیے تھے، اللہ فرماتا ہے- لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور گوت و قبیلے سب پہچان کے لیے بنا دیے ہیں اور اللہ کے ہاں تو اس کی زیادہ عزت ہے جس میں تقوی زیادہ ہے _," پھر فرمایا :- "_جاؤ تم آزاد ہو اور تم پر آج کوئی مواخذہ نہیں _,"*
*★_ اسلام لانے والوں سے بیعت اور اس کی شرائط:-*
*"_ پھر نبی ﷺ نے کوہ صفا پر بیٹھ کر مسلمان ہونے والوں کی بیعت قبول فرمائی، اس موقع پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک ایک شخص کو پیش کرتے تھے، بیعت کرنے والوں کو مندرجہ ذیل باتوں کا اقرار کرنا پڑتا تھا:-*
*(١)_ میں اللہ کے ساتھ کسی کو بھی اس کی ذات میں، صفات میں اور استحقاق عبادت و استحقاق استعانت میں شریک نہ کروں گا،*
*(٢)_ میں چوری نہ کروں گا، زنا نہ کروں گا، خون ناحق نہ کروں گا، لڑکیوں کو جان سے نہ ماروں گا، کسی پر بہتان نہ لگاؤں گا،*
*(٣)_ میں امور حق میں نبی ﷺ کی اطاعت بقدرِ استطاعت کروں گا_,"*
*_ طبری 2/309،*
*★_ عورتوں سے مزید اقرار یہ بھی لیے جاتے تھے:-*
*"_ کسی کے سوگ میں منہ نہ نوچیں گی، طمانچوں سے چہرہ نہ پیٹیں گی، نہ سر کے بال کھسوٹیں گی، نہ گریبان چاک کریں گی، نہ سیاہ کپڑے پہنیں گی اور نہ قبر پر سوگ دار بیٹھیں گی _,"*
*★_ عورتوں سے بیعت لینے کا طریقہ پہ تھا کہ پانی کے باسن میں آنحضرت ﷺ اپنا ہاتھ ڈال کر نکال لیتے، پھر بیعت کرنے والی اس باسن میں اپنا ہاتھ ڈالتی، دوسرے موقع پر صرف اقرار زبانی لے کر ہی تکمیل بیعت فرمایا کرتے_,"*
[12/21, 7:30 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ فتح سے دوسرے دن کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، فضالہ بن عمیر نے موقع دیکھ کر ارادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کو قتل کر ڈالے، جب وہ اس ارادے سے قریب پہنچا تو نبی ﷺ نے فرمایا:- کیا فضالہ آتا ہے ؟ وہ بولا:- ہاں ! نبی ﷺ نے فرمایا:- تم اپنے دل میں ابھی کیا ارادہ کر رہے تھے ؟ فضالہ بولا :- کچھ نہیں، میں تو اللہ اللہ کر رہا تھا _,"*
*"_ نبی ﷺ یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمایا :- "_اچھا تم اپنے رب سے اپنے لئے معافی کی درخواست کروں_," یہ فرما کر اپنا ہاتھ بھی اس کے سینے پر رکھ دیا,*
*★_ فضالہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہاتھ رکھ دینے سے مجھے بہت اطمینان قلب حاصل ہوا اور آنحضرت ﷺ کی محبت اس قدر میرے دل میں پیدا ہو گئی کہ حضور ﷺ سے بڑھ کر کوئی بھی محبوب نہ رہا _,"*
*"_ میں یہاں سے گھر کو چلا، راستہ میں میری معشوقہ ملی جس کے پاس میں بیٹھا کرتا تھا، اس نے کہا فضالہ ایک بات سنتے جاؤ، میں نے جواب دیا نہیں ، اللہ اور اسلام ایسی باتوں سے منع کرتے ہیں _,"*
*( زاد المعاد- 3/ 413, ابن ہشام- 2/ 417, سنن ابی داؤد- 2683,*
*★_ نبی ﷺ کی پاک سیرت کا بیان نا مکمل رہ جائے گا، اگر عفو تقصیرات کا جو مکہ میں فرمائ گئیں ذکر نہ کیا جائے، واضح ہو کہ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے تمام فوج کو ہدایت کردی گئی تھی کہ کسی شخص پر حملہ نہ کریں، لیکن چار مرد، دو عورتیں جو اپنے سابقہ جرائم کی وجہ سے واجب القصاص تھے، اعلان کردیا گیا کہ ان کو قتل کردیا جائے، ان چار مردوں میں سے صرف عبداللہ ابن خطل کو قتل کیا گیا، یہ پہلے مسلمان ہو چکا تھا، ایک روز اس نے اپنے غلام کو اس لیے قتل کر دیا کہ وقت پر کھانا تیار نہیں کیا تھا، قتل کے بعد مکہ بھاگ آیا تھا، باقی تین عکرمہ بن ابی جہل، ہبار بن الاسود اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو معافی دی گئی_,"*
[12/22, 7:51 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عکرمہ ابوجہل کا بیٹا تھا اور بارہا مسلمانوں سے جنگ کر چکا تھا، اب حال میں بھی بنو خزاعہ کو جو مسلمانوں کے حلیف تھے تباہ کرنے کا باعث یہی تھا، ہبار بن الاسود نے سیدہ زینب بنت رسول اللہ ﷺ کے جب کہ وہ مکہ سے مدینہ کو ہودج میں بیٹھی جا رہی تھیں نیزہ مارا اور کجاوا گرایا تھا، اس صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا اور بالآخر اسی صدمہ سے انہوں نے وفات پائی تھی،*
*عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کہنے لگا کہ وحی تو میرے پاس آتی ہے اور محمد ﷺ تو مجھ سے سن کر لکھوا دیتے ہیں،*
*"_ ایسے مجرمین پر رحم فرمانا نبی الرحمۃ ﷺ کا ہی کام ہے»,*
*★_ دو عورتوں میں سے ایک عورت کو جو قتل عمد کا ارتکاب کر چکی تھی سزا و قصاص دی گئی، معافی پانے والوں میں ہند زوجہ ابو سفیان بھی ہے، اس عورت نے نبی کریم ﷺ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ سینے سے نکل کر دانتوں سے چبایا، ان کی ناک کو کاٹ کر دھاگے میں پرو کر گلے کا ہار بنایا تھا _,"*
*★_ وحشی کو بھی معافی دی گئی، جس نے امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ( اسداللہ ورسولہ) کو دھوکے سے مارا تھا اور پھر نعش کو بے حرمت کیا تھا,*
*"_ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے لشکر نے مکہ فتح نہیں کیا تھا بلکہ خلق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور عفو و رحم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے دلوں کو فتح کر لیا تھا _,"*
*★_ فتح مکہ کے بعد غنیمت کے طور پر کفار کے مال و جنس پر قبضہ کرنے کا تو کیا ذکر ہے ہے، مہاجرین مسلمان جو مکہ ہی سے اجڑ کر گئے تھے، ان کے گھروں پر کفار نے قبضہ کر لیا تھا، اب ان مسلمانوں نے نبی ﷺ سے اپنی جائیدادوں کے واپس دلائے جانے کی درخواست کی، لیکن نبی ﷺ نے ان کی اس درخواست کو بھی نامنظور فرما دیا _,"*
*( زادالمعاد- 320)*
*★_ گویا حضور ﷺ کا مدعا یہ تھا کہ جن چیزوں کو تم اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہو، اب ان کی واپسی کا کیوں سوال کرتے ہو،*
[12/23, 7:44 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ فتح مکہ کے نتائج، اسلام میں باکثرت داخل ہونے کی وجوہات:-"*
*"_فتح مکہ کے بعد (جو صلح اور معافی سے ہزار درجہ بڑھ کر ہے) اسلام لانے والوں کی تعداد کثیر در کثیر ہو گئی تھی، اس کے چند اسباب ہیں، بہت سے قبائل اسلام سے اس لیے رکے ہوئے تھے کہ وہ قریش کے ہم عہد تھے اور اسلام لانا بمنزلہ عہد شکنی کے تھا، بہت سے قبائل اسلام سے اس لیے رکے ہوئے تھے کہ وہ قریش کے مقابلے میں بہت کمزور تھے، مگر ان کے تعلقات اور رشتے داری قریش کے ساتھ وابستہ تھی اور ان کا خیال تھا کہ اسلام لانے سے تعلقات بھی منقطع ہو جائیں گے اور یہ لوگ قریش کے غیض وغضب کے شکار بن جائیں گے_,*!
*★_ بہت سے قبائل کی رائے تھی کی مسلمانوں کا مکہ پر قابض ہو جانا ہی ان کی صداقت کا صحیح نشان اور مقبول الہ ہونے کا ہو سکتا ہے کیونکہ سینکڑوں سال سے قومی روایات ان میں چلی آتی تھی کہ مکہ پر ایسا کوئی شخص فتح نہیں پا سکتا جس کے ساتھ رب العالمین کی نصرت و تائید نہ ہو،*
*★_ مختلف قبائل میں بیسیوں بوڑھے ایسے موجود تھے جنہوں نے فاتح یمن ابرہہ حبشی کے چالیس ہزار لشکر جرار کو مکہ پر حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اس لشکر میں ہاتھی بھی تھے اور ابرہہ کی خاص سواری کا ہاتھی محمود نسل کا تھا، ان بوڑھوں نے اپنی آنکھ سے ساٹھ برس پیشتر ان حبشیوں کو مکہ پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ اہل مکہ ان کے ڈر سے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا رہے تھے اور شہر میں ایک بھی شخص حملہ آور فوج کا مقابلہ کرنے والا نہ رہ گیا تھا، اور انہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ابرہہ کی فوج خستہ و برباد ہوئی اور سردار فوج ابرہہ با حال تباہ و خواب ایسی حالت میں بھاگا کہ نہ فوج ساتھ تھی نہ ہاتھی، بلکہ سب کی لاشیں مکہ سے چار کوس پر پڑی سڑ رہی تھیں _,*
[12/24, 7:23 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان بوڑھوں کو اب تک عبدمناف اور ابرہہ کی گفتگو و کلام بھی یاد تھی کہ جب ابرہہ کا لشکر مکہ کی سرحد پر اترا تو انہوں نے مکہ کے مویشی جو جنگ میں چر رہے تھے پکڑ لیے، ان میں عبد مناف کے بھی سو اونٹ تھے، عبد مناف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پر دادا تھے اور اس وقت مکہ کے سردار یہی تھے، خوب لمبے چوڑے سرخ و سفید، شکل سے امارت و رعب برستا تھا، یہ خود حبشیوں کے لشکر میں گئے اور ابرہہ کو ملے، اس نے تعظیم دی اور برابر بٹھایا اور پوچھا کہ کس طرح تشریف لائے _,"*
*★_ عبد مناف نے کہا :- ہمارے مویشی آپ کی فوج نے پکڑ لیے ہیں، براہ مہربانی ان کے چھوڑ دینے کا حکم دیجیے _,"*
*"_ ابرہہ بولا:- جب آپ آئے تھے تو میرے دل میں آپ کی بڑی وقعت پیدا ہوئی تھی لیکن آپ کی باتیں سن کر اب وہ وقعت قائم رہی نہ عزت _,"*
*"_ عبد مناف نے پوچھا :- یہ کیوں ؟ ابرہہ بولا:- دیکھو میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہارے اس عبادت خانہ کو گرا دوں جسے تم سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہو اور جس کے سامنے میرے تعمیر کردہ کلیسا کی وقعت و عزت عرب کی نگاہ میں اب تک کچھ نہیں ہوئی، تم اپنے اس مقدس مقام کے بچاؤ کا ذرا بھی ذکر نہیں کرتے اور اپنے مویشیوں کو اس سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہو _,"*
*★_ عبد مناف نے کہا:- نہیں, میں مویشیوں کو اس سے بڑھ کر نہیں سمجھتا, بات یہ ہے کہ میں مویشیوں کا مالک ہوں اور مجھے ان کی فکر ہے اور اس گھر کا مالک ایک اور ہے اور اسے اپنے گھر کا خود ہی خیال ہو گا، مجھے اس فکر کی ضرورت نہیں _,"*
*★_ الغرض جب مکہ پر مسلمانوں کو ایسی کامیابی اور آسانی کے ساتھ قبضہ ہوا تو اسلام لانے والوں کے سامنے معاہدات کی روک اٹھ گئی، قریش کا دباؤ اور رعب بھی جاتا رہا اور مسلمانوں کا مقبولِ الہ ہونا بھی انھوں نے اپنے مقرر کردہ معیار کے موافق دیکھ لیا اور ان وجوہات سے اسلام لانے والوں کی کثرت ہوگئی، سب سے آخری اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی حقیقت کو سمجھانے اور اسلام کی تبلیغ کرنے میں واعظین اسلام کے سامنے کوئی روک ٹوک اور دقت باقی نہ رہی تھی، واعظ آذادی سے منادی کر رہے تھے، سامعین آزادی و اطمینان سے وعظ سنتے تھے اور اسلام کی کشش کامل لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی تھی _,*
[12/25, 4:39 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ہوازن و ثقیف کے حملے کی مدافعت یا جنگ حنین ( شوال 8 ہجری):-*
*"_ فتح مکہ ہوجانے سے ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں نے جن کی حد مکہ سے ملتی تھی، سوچا کہ اگر ہم مسلمانوں کو شکست دے دیں تو اہل مکہ کے جس قدر باغات و جاگیرات طائف میں ہیں وہ بلا خوف ہمارے ہو جائیں گے اور مسلمانوں سے بت شکنی کے جرم کا انتقام بھی لیا جا سکے گا _,"*
*★_ انہوں نے بنی مضر اور بنی ہلال کے قبیلوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور چار ہزار بہادر لے کر مکہ روانہ ہوئے اور وادی حنین میں اترے، انہوں نے اپنے سردار مالک بن عوف کے مشورے سے اپنے زن و بچہ، مال مویشی کو بھی ساتھ لے لیا تھا، مالک نے اس تدبیر کا یہ فائدہ بتلایا تھا کہ زن و بچہ، مال مویشی کو چھوڑ کر کوئی شخص بھی میدان جنگ سے فرار اختیار نہیں کرے گا _,"*
*★_ یہ خبر سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی (جو کعبہ کے متصل اور حرم کی سرزمین پر جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے) مکہ سے آگے بڑھے، اسلامی لشکر میں مکہ کے دو ہزار اشخاص اور بھی شامل ہوگئے تھے، اس تعداد میں نومسلم بھی شامل تھے اور بت پرست معاہد بھی، فوج کی مجموعی تعداد بارہ ہزار ہو گئی تھی، فوج کو اپنی کثرت پر غرور بھی ہو گیا تھا اور اسی لیے وہ مراحل حزم و احتیاط سے دور بھی تھے_,*
*★_ دشمن نے ایک تنگ اور دشوار گزار درہ میں گھات لگائی اور اپنے تیر اندازوں کو وہاں بٹھلایا، جب لشکر اسلام کا اگلا حصہ( جس میں زیادہ تر طلقائے مکہ یا ایسے لا ابالی نوجوان تھے کہ کسی کے پاس ہتھیار بھی نہ تھے یا لڑائی کی ضرورت کے موافق نہ تھے) دشمن کی زد میں بے خبر جا پہنچا, تو انہوں نے اتنے تیر برسائے کہ ان کے سر اسیمہ ہو کے بھاگنے ہی کی سوجھی، تقریباً سو صحابی میدان میں کھڑے رہ گئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب چاروں طرف سے حملہ آوروں کو بڑھتے اور اپنے لشکر کو بھاگتے دیکھا تو بے نظیر شجاعت و استقامت کا نمونہ دکھلایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اترے اور یہ فرمانا شروع کیا:- میں نبی ہوں, اس میں ذرا بھی شبہ نہیں, میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں _,"*
*"_ مطلب یہ تھا کہ میرے صدق کا معیار کسی فوج کی شکست یا فتح نہیں ہے بلکہ میری صداقت خود میری ذات سے ہوتی ہے_,"*
[12/26, 7:41 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مہاجرین و انصار کے پتے سے ہلانا شروع کیا، وہ سب آواز سنتے ہی کبوتروں کی ٹکڑی کی طرح ایک آواز پر ہی پلٹے ، اب فوج کی ترتیب از سر نو کی گئی، انصار و مہاجرین کو آگے بڑھایا گیا، غنیم اس حملہ سے بھاگ نکلا اور دو حصوں میں منتشر ہوگیا_,*
*★_ ان کا سردار مالک بن عوف جنگی مردوں کو لے کر قلعہ طائف میں جا ٹھہرا، دوسرا گروہ جن میں ان کے اہل وعیال تھے اور زر و مال تھے اوطاس کی گھاٹی میں جا بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ طائف کے محاصرے کا حکم دیا اور اوطاس کی طرف ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہ کو مامور فرمایا، ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر دشمن کے اہل و عیال اور زر و مال پر قبضہ کر لیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوطاس کا نتیجہ معلوم ہوا تو قلعے کا محاصرہ اٹھا دینے کا حکم دیا کیونکہ ان لوگوں پر اہل وعیال کے جاتے رہنے کی بھاری مصیبت پڑ چکی تھی،*
*★_ اوطاس میں 24 ہزار اونٹ، 40 ہزار بکریاں، 4 ہزار اوقیہ چاندی اور 6 ہزار زن و بچہ صحابہ کے ہاتھ لگے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی میدان جنگ کے قریب ہی ٹھہرے ہوئے تھے کہ قبیلہ ہوازن کے چھ سردار ائے اور انہوں نے رحم کی درخواست پیش کر دی، ان میں وہ لوگ تھے جنہوں نے طائف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے تھے اور آخری مرتبہ وہاں سے زید بن حارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر لائے تھے _,"*
*★_ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- ہاں میں خود تمہارا انتظار کر رہا تھا( اور اسی انتظار میں تقریباً دو ہفتے ہو گئے کہ مال غنیمت کو بھی تقسیم نہ کیا تھا)، میں اپنے حصہ کے اور اپنے خاندان کے حصہ کے قیدیوں کو با آسانی چھوڑ سکتا ہوں اور اگر میرے ساتھ صرف انصار و مہاجرین ہی ہوتے تو سب کا چھوڑ دینا بھی مشکل نہ تھا، مگر تم دیکھتے ہو کہ اس لشکر میں میرے ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے، اس لیے ایک تدبیر کی ضرورت ہے، تم کل نماز صبح کے بعد آنا اور مجمع عام میں اپنی درخواست پیش کرنا، اس وقت کوئی صورت نکل آئے گی،*
*"_ فرمایا- تم خواہ مال کا واپس لینا پسند کر لو یا اہل و عیال کا کیونکہ حملہ آور لشکر کو خالی رکھنا دشوار ہے،*
[12/27, 7:26 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ بے نظیر فیاضی اور رحم :-*
*★_ دوسرے دن وہی سردار آئے اور انہوں نے مجمع عام میں اپنے قیدیوں کی رہائی کی درخواست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی،*
*"_نبی رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- میں اپنے اور بنو عبدالمطلب کے قیدیوں کو بلا کسی معاوضہ کے رہا کرتا ہوں، انصار و مہاجرین نے کہا- ہم بھی اپنے اپنے قیدیوں کو بلا کسی معاوضے کے آزاد کرتے ہیں_,"*
*★_ اب بنی سلیم و بنی فزارہ رہ گئے، ان کے نزدیک یہ عجیب بات تھی کہ حملہ آور دشمن پر ( جو خوش قسمتی سے زیر ہو گیا ہو) ایسا رحم و لطف کیا جائے، اس لیے انہوں نے اپنے حصہ کے قیدیوں کو آزاد نہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا، ہر ایک قیدی کی قیمت چھ اونٹ قرار پائی، یہ قیمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کردی اور اس طرح باقی قیدیوں کو بھی آزادی دلائی، پھر سب قیدیوں کو اپنے حضور سے لباس پہنا کر رخصت فرما دیا _,"*
*★_ ان قیدیوں میں دائی حلیمہ کی بیٹی شیما بنت الحارث بھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دودھ کی بہن کو پہچانا اور اس کی نشست کے لیے اپنی چادر زمین پر بچھا دی، فرمایا اگر تم میرے پاس ٹھہرو تو بہتر ہے اور اگر قوم میں واپس جانا ہے تو اختیار ہے، انہوں نے واپس جانا چاہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں عزت و اکرام کے ساتھ ان کی قوم میں بھیج دیا گیا_,"*
*★_ مال غنیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ تقسیم فرما دیا، عطیے کے بڑے بڑے حصے ان لوگوں کو عنایت فرمائے تھے جو تھوڑے دن سے اسلام لائے تھے، انصار کو جو نہایت مخلصین تھے اس میں سے کچھ بھی نہ دیا تھا، فرمایا انصار کے ساتھ میں خود ہوں، لوگ مال لے کر اپنے اپنے گھر جائیں گے اور انصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے گھروں میں داخل ہوں گے، انصار اس فرمودہ ( ارشاد) پر اتنے خوش تھے کہ مال والوں کو یہ مسرت حاصل نہ تھی_,*
*📓 رحمة للعالمين ﷺ - مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ ,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے ہمیں میسج کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
0 Comments