UMMAHATUL MOMINEEN- HZ KHADIJA RZ. (URDU)

 

⚂⚂⚂.
        ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁
     ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮
    ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙
                   *■ امھات المومنین ■*
        *⚂ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ⚂* 
  ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙                *❥_   ایک روز ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا :- بھتیجے ! میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے حالات بہت سخت ہیں، بہت تنگی میں دن گزر رہے ہیں، یہاں ایک مالدار خاتون ہیں، وہ اپنا تجارت کا سامان شام وغیرہ کی طرف بھیجتی ہیں، یہ کام وہ تمہاری قوم کے یعنی قریش کے لوگوں سے لیتی ہیں، اس طرح وہ لوگ اس کے مال سے تجارت کرتے ہیں، خود بھی نفع حاصل کرتے ہیں اور اس خاتون کو بھی نفع حاصل ہو جاتا ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ، اس بات کا امکان ہے کہ وہ تمہیں اپنا مال تجارت دے دیں، وہ تمہیں جانتی ہیں، تمہاری صداقت اور پاکیزگی کے بارے میں انہیں علم ہے_,"* 

*❀__ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے مشورے پر عمل کیا, اس خاتون کی طرف چل پڑے, ابوطالب نے اپنی باندی نبعہ کو ان کے پیچھے بھیج دیا، وہ یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ وہاں کیا ہوتا ہے، وہ خاتون آپ سے کیسے پیش آتی ہیں_,*

*❀__  یہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما تھیں، وہ آپ سے خندہ پیشانی سے ملیں، آپ کو عزت سے بٹھایا،  دراصل آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو باتیں وہاں کے معاشرے میں پھیل چکی تھیں وہ بھی ان تک پہنچی تھی، اس لیے اس ملاقات سے پہلے ہی آپ سے بہت متاثر ہو چکی تھیں _,*        

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد کا مقصد بیان فرمایا،  اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا :- میں آپ کی سچائی امانتداری اور حسن اخلاق سے واقف ہوں, میں آپ کو دوسروں کی نسبت دوگنا مال دوں گی _,*

*★_ یہ سن کر آپ نے اطمینان محسوس کیا، ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے ابو طالب کے پاس آئے، انہیں بتایا :-  انہوں نے اپنا مال تجارت مجھے دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے _,"*
*"_ابو طالب یہ سن کر خوش ہوئے اور بولے :-  یہ رزق ہے جو اللہ تعالی نے آپ کی طرف بھیجا ہے _,"* 

*★_ بعض روایات میں ہے کہ ابو طالب کی بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب یعنی آپ کی پھوپھی نے بھی اس سلسلے میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی تھی،  حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کے بارے میں جب انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا :-  مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس پیشے کا ارادہ رکھتے ہیں _,"* 

*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما اس سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دیکھ چکی تھیں،  اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ عادات سے لاعلم نہیں تھیں_,*

 *★_  ریش آپ رضی اللہ عنہا کا تعلق خاندان قریش سے تھا، آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد بن عبدالعزی تھا، یہ عبد مناف کے بھائی تھے اور عبدمناف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داداؤں میں سے تھے،  عبدالعزی اور عبد مناف کے والد قصی بن کلاب تھے، اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب چوتھی پشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے _,*

*★_ آپ کے والد خویلد زمانہ  جاہلیت میں عربوں کے سپہ سالاروں میں سے تھے، فجار کی لڑائی میں اپنے قبیلے کی قیادت کی تھی، جب تبع حجر اسود کو اکھیڑ کر یمن لے گیا تو اس کے واپس لانے میں بھی خویلد کی کوشش کا دخل تھا _,"*

*★_ خویلد کی اولاد بہت تھیں،  ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ مشہور ہیں، آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ بن الاعصم بن عاصم بن لوی ہے اور نانی کا نام ہالہ بنت عبد مناف ہے _,*

*★_ آپ کے والد خویلد بہت باعزت آدمی تھے، قریش میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مکہ میں رہتے تھے،  فاطمہ بنت زائدہ سے شادی ہوئی اور ان سے ہاتھیوں والے سال( ابرہہ کے حملے کا سال)  سے پندرہ سال پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں، جن کے مقدر میں پہلی ام المومنین ہونا لکھا جا چکا تھا _,*
[5/15, 9:09 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ نے کھاتے پیتے گھرانے میں پرورش پائی، تاریخ کی کتابوں میں آپ کے بچپن کے حالات نہیں ملتے، اتنا ضرور ملتا ہے کہ آپ بہت خدا ترس تھیں،  غریبوں کو کھانا کھلاتی تھیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتی تھیں، اللہ تعالی نے انہیں ایک خاص مقام کے لیے چن لیا تھا _,*

*★_ آپ کے ایک چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل تھے، یہ تورات اور انجیل کے بہت بڑے عالم تھے مذہب کے اعتبار سے عیسائی تھے، حضرت خدیجہ کے والد ان سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن کسی وجہ سے یہ نکاح نہ ہو سکا اور آپ کی شادی عتیق بن عابد بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم سے ہو گئی، بعض روایات کی رو سے پہلی شادی ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہوئی _,"* 

*★_ عتیق بن عابد سے آپ کے ہاں ایک بچہ عبداللہ پیدا ہوا، اس کے بعد عتیق بن عابد کا انتقال ہو گیا، آپ کی بیوگی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ابو ہالہ بن بناش نے نکاح کا پیغام دیا، اس طرح آپ کی دوسری شادی ابوہالہ سے ہوئی، ابو ہالہ سے آپ کے ہاں دو بیٹے ہند اور حارث اور ایک لڑکی زینب پیدا ہوئ_,"* 

*★_ پھر فجار کی لڑائی میں آپ کے والد وفات پا گئے، ان کے بعد آپ کے دوسرے شوہر نے وفات پائی، باپ اور شوہر کی وفات کی وجہ سے آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بچوں کی دیکھ بھال اب انھی کے ذمے تھی، قریش کے کئی نوجوانوں نے آپ کو شادی کا پیغام بھیجا لیکن آپ نے بچوں کی وجہ سے انکار کردیا، آپ نے سوچ لیا تھا کہ بچوں کی تربیت کریں گی اور شادی نہیں کریں گی_,"*
[5/15, 5:05 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ کے خاندان کا پیشہ چونکہ تجارت تھا، اس لیے آپ نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا، لیکن چونکہ عورت تھیں اس لئے اپنا مال دوسرے لوگوں کو دے دیتی تھیں، وہ دوسرے ملکوں میں مال لے جاتے،  اس طرح نفعے میں سے انہیں اپنا حصہ مل جاتا تھا،*

*★_ بہت جلد آپ مکہ کی مشہور تاجر بن گئیں،  ایک خاص بات یہ کہ دوسروں کی طرح آپ بتوں کو نہیں پوجتی تھیں، بعض قریبی لوگوں نے ان سے کہا بھی کہ آپ گھر میں ایک بت رکھ لیں، یہ سن کر آپ ہمیشہ مسکرا دیا کرتی تھیں، آپ اچھی طرح جانتی تھیں کہ ان بتوں کی کیا حیثیت ہے، انہیں علم تھا کہ یہ پتھر کے بت کسی کو کوئی نفع پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نقصان پہنچانے کی،* 

*★_ انہوں نے کئی مرتبہ اپنے بھتیجے حکیم بن حزام کو بھی بتوں کے قریب جانے سے روکا،  وہ ان سے فرمایا کرتی تھیں :-  اپنے مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کیا کرو، اس سے اللہ خوش ہوتا ہے_,"*

*★_ آپ اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے آسمانی کتابیں تورات اور انجیل سنا کرتی تھیں، ان کتابوں کا سننا آپ کو بہت اچھا لگتا تھا،  ورقہ تنوفل انہیں بتایا کرتے تھے کہ اللہ کے ایک رسول آنے والے ہیں اور انھی میں آنے والے ہیں، اللہ تعالی انہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجیں گے، ان کی قوم ان کی مخالفت پر ڈٹ جائے گی،  لیکن آخر انہیں غلبہ حاصل ہوگا_,"*
[5/16, 10:37 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت خدیجہ یہ باتیں سنتی تو خواہش کرتیں، کاش وہ اللہ کے رسول کا دیدار کر سکیں، ان کے دل میں یہ خواہش بھی سر ابھارتی تھی کہ انہیں اس رسولِ عربی کی پیروی نصیب ہو جائے اور  یہ ان کی ہر ممکن مدد کریں _,"*

*★_ آخر تجارتی قافلے کی روانگی کے دن آگئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اپنا تجارتی مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیا، ساتھ ہی آپ نے اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ روانہ کیا اور انہیں ہدایت دی :- خبردار ! ان کی نافرمانی نہ کرنا اور نہ انکی کسی رائے سے اختلاف کرنا _,"* 

*★_ اس سے معلوم ہوا، آپ نے میسرہ کو آپ کی نگرانی کرنے کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر طرح سے خیال رکھنے اور خدمت گزاری کے لیے بھیجا تھا_,"* 

*★_ وہ تجارتی قافلہ اللہ 16 ذی الحجہ کو روانہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آپ کو الوداع کہنے کے لئے آئے،  اور پھر وہ قافلہ روانہ ہوا جس میں وہ ہستی تھی جو اللہ تعالی کی ساری مخلوق سے افضل اور اعلیٰ تھی،  اللہ تعالی اس ہستی کی نگہبانی فرما رہے تھے، اس قافلے کی ایک خاص بات یہ تھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے مال برداروں کی تعداد باقی تمام لوگوں کے اونٹوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھی، آخر یہ قافلہ شام کے شہر بصرہ پہنچ گیا، قافلے نے ایک گرجے کے قریب پڑاؤ ڈالا،*
[5/17, 8:57 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ہی ایک تجارتی سفر کیا تھا، اس سفر میں بھی آپ اسی گرجے کے قریب آترے تھے، اس وقت یہاں آپ کی ملاقات ایک پادری سے ہوئی تھی، اس کا نام بحیرہ تھا، لیکن اب جب آپ یہاں آترے تھے تو اس گرجے کا پادری نسطورا تھا اور دونوں سفروں کے درمیانی مدت 13 سال تھی، پہلے سفر میں آپ کی عمر بارہ سال تھی اور اب آپ 25 سال کے ہو چکے تھے،*

*★_نسطورا کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو وہ تیزی سے آپ کی طرف بڑھا، قافلے کے لوگوں نے اسے تیزی سے آپ کی طرح پڑھتے دیکھا تو انہیں خیال ہوا کہ یہ کسی بری نیت سے آرہا ہے، لہذا ان میں سے ایک نے فوراً تلوار سونت لی اور چلا اٹھا :- اے فریش! اے فریش !*

*★"_ چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے, یہ دیکھ کر وہ ڈر گیا اور ڈر کر گرجے میں داخل ہوگیا، گرجے کا دروازہ بند کر کے اس نے ایک کھڑکی کھولی اور پکارا :-* 
*"_اے لوگو ! تم کس بات سے ڈر گئے یہ دیکھو میرے پاس ایک تحریر ہے, قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے اٹھادیا, میں اس تحریر میں لکھا ہوا پاتا ہوں کہ اس درخت کے نیچے اترنے والا شخص رب العالمین کا پیغمبر یعنی اللہ کا رسول ہوگا جسے اللہ تعالی ننگی تلوار اور زبردست امداد کے ساتھ ظاہر فرمائیں گے، یہ خاتم النبیین ہیں، ان کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، اب جو شخص ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے گا وہ نجات پائے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا، وہ ذلیل و خوار ہوگا _,"* 

*★_ دوسری روایات میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ وہ گرجا سے باہر آیا اور بولا:-  یہ کون صاحب ہیں جو اس درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں؟  جواب میں میسرہ نے کہا :- یہ مکہ کے ایک قریشی جوان ہیں_,"*
*"_ اب راہب نے آپ کو اور قریب جا کر دیکھا پھر، آپ کے سر اور قدموں کو بوسہ دینے کے بعد بولا :- میں آپ پر ایمان لے آیا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے تورات میں کیا ہے_,"*
 *"_پھر اس نے مہر نبوت کو دیکھا اور چوما، پھر بولا :- میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں, نبی امی ہیں, جن کی آمد کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے _," ( سیرت حلبیہ )*

*★_ آپ اس وقت جس درخت کے نیچے آرام فرما تھے، اس کے بارے میں نسطورا نے یہ کہا :- اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کوئی نہیں اترا _,"*
[5/17, 9:15 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ غرض اس واقعے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے لوگوں کے ساتھ بازار بصرہ تشریف لائے اور سامان تجارت فروخت کیا، کچھ مال خریدا، ایسے میں ایک شخص آپ سے جھگڑ پڑا، اس نے کہا :- لات و عزیٰ کی قسم کھاؤ_," اس کی بات کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :- میں نے ان تینوں کے نام پر کبھی حلف نہیں اٹھایا_," وہ شخص بھی غالباً کوئی عالم تھا،   اس نے آپ کی طرف غور سے دیکھا اور پہچان کر بولا :- آپ ٹھیک کہتے ہیں _,"*
*"_اس کے بعد یہ شخص میسرہ سے ملا، اسے قدر فاصلے پر لے گیا اور کہنے لگا :- قسم ہے اس ذات کی یہ وہی ہیں جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں _,"* 

*★_ میسرہ نے اس کی بات کو غور سے سنی اور اسے اپنے دماغ میں محفوظ کرلیا، بصری پہنچنے سے پہلے ایک واقعہ اور پیش آیا تھا،  قافلے کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے، ان اونٹوں کی وجہ سے میسرہ بھی قافلے سے پیچھے رہ گیا،  اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے اگلے حصے میں تھے، میسرہ نے اونٹوں کے بارے میں میں پریشانی محسوس کی، ساتھ ہی اسے یہ فکر ہوئی کہ وہ خود بھی قافلے سے پیچھے رہ گیا ہے، چناچہ وہ دوڑتا ہوا قافلے تک پہنچا اور اگلے حصے میں موجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اپنی پریشانی کے بارے میں آپ کو بتایا، آپ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے، ان کی کمروں پر اپنا ہاتھ پھیرا، کچھ پڑھ کر ان پر دم کیا، اس کا فوری طور پر اثر ہوا، اونٹ فوراً کھڑے ہو گئے اور پھر اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے اور اپنی چستی اور تیز چلنے کا اظہار منہ سے آواز نکال کر کرنے لگے,*

*★_ پھر تیجارت کا کام شروع ہوا، قافلے کا مال فروخت کیا گیا اور کچھ مال خریدا بھی گیا، اس خریدوفروخت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا نفع کمایا کہ پہلے کبھی اتنا نفع نہیں کما سکے تھے،  چنانچہ میسرہ نے آپ سے کہا:- اے محمد ! ہم برسوں سے خدیجہ رضی اللہ عنہ کے لیے تجارت کر رہے ہیں لیکن اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی حاصل نہیں ہوا_,"*

*★_ آخر تجارت سے فارغ ہوکر قافلہ واپس روانہ ہوا، راستے میسرہ نے ایک بات یہ نوٹ کی کہ جب دوپہر کا وقت ہوتا تھا اور گرمی زوروں پر ہوتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تھے تو آپ پر ایک بدلی سایہ کیے رہتی تھی،*
[5/18, 9:12 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس طرح اللہ تعالی نے میسرہ کے دل میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہت محبت پیدا کر دی، اس سفر میں اس نے قدم بہ قدم پر آپ کی نیکی شرافت سچائی اور دیانت داری کا مظاہرہ کیا اور پھر تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے میسرہ خود آپ کا غلام ہو،*

*★_ آخر قافلہ مرظہران کے مقام پر پہنچا، یہ مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی ہے، اب اس وادی کا نام وادی فاطمہ ہے،  یہاں پہنچ کر میسرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :- کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہم سے پہلے پہنچ جائیں اور انہیں تمام حالات بتائیں کہ اس مرتبہ تجارت میں کس قدر زیادہ نفع ہوا ہے، ممکن ہے وہ یہ بات سن کر آپ کے معاوضے میں اضافہ کر دیں اور اور دو جوان اونٹوں کے بجائے آپ کو تین اونٹنیاں دیں_,"* 

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میسرہ کے اس مشورہ کو قبول کر لیا، اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر مرظہران سے آگے روانہ ہوگئے، آپ دوپہر کے وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوئے، اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے مکان کے اوپر والے حصے میں بیٹھی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دور سے دیکھ لیا، آپ اونٹ پر سوار تھے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود تو یہ منظر دیکھا ہی، اپنے پاس بیٹھی دوسری عورتوں کو بھی دکھایا، وہ سب بھی یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئیں،* 

*★_ آخر آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے، انہیں تجارت میں منافعے وغیرہ کے بارے میں بتایا، یہ نفع اس نفعے سے دوگنا تھا جو پہلے آپ کو حاصل ہو رہا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس منافعے کا حال جان کر بہت خوش ہوئیں، پھر انہوں نے پوچھا :- اور میسرہ کہاں ہے ؟ آپ نے بتایا :- میں نے انھیں جنگل میں پیچھے چھوڑا ہے, حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا :- اس کے پاس جائیں تاکہ وہ جلد از جلد یہاں پہنچ جائے _,"* 

*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو واپس اس لیے بھیجا کہ وہ دیکھنا چاہتی تھیں، تھوڑی دیر پہلے جو بدلی آپ پر سایہ کیے ہوئی تھی کیا اب بھی وہ بدلی آپ پر سایہ کرتی ہے، یا وہ صرف ایک اتفاق تھا،  آپ واپس روانہ ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا چھت پر چڑھ گئیں اور آپ کو دیکھنے لگیں، انہوں نے دیکھا کہ وہ بدلی اب بھی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی اور اسی شان سے چلے جارہے تھے جس شان سے تشریف لائے تھے،*
[5/18, 9:42 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میسرہ کے ساتھ واپس تشریف لائے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے میسرہ سے وہ کیفیت بیان کی جو آپ نے دیکھی تھی، میسرہ فوراً بول پڑا :- میں یہ منظر اس وقت سے دیکھتا آ رہا ہوں جب ہم شام سے روانہ ہوئے تھے، اس کے بعد میسرہ نے نسطورا راہب سے ملاقات کے بارے میں بتایا اور جس سے خرید فروخت کے وقت جھگڑا ہوا تھا اس نے جو بتایا تھا وہ ساری بات بھی بتائی، دو اونٹ جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا واقعہ بھی سنایا،  یہ تمام واقعات سننے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے طے شدہ اجرت سے دوگنا اجرت آپ کو دی،  جبکہ پہلی اجرت بھی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی، پھر واپسی پر آپ صلی اللہ وسلم  وہاں سے کپڑا خرید کر لائے تھے اس میں بھی بہت نفع حاصل ہوا،*

*★_  ان تمام واقعات نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حد درجہ متاثر کیا، آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت لگاؤ پیدا ہوگیا، چنانچہ آپ نے اپنی ایک عزیز نفیسہ بنت منیہ کو آپ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں خفیہ طور پر بھیجا،  اس نے آپ کے پاس آ کر کہا :-  اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)  آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟  جواب میں آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا :- بھلا میرے پاس کیا ہے کہ شادی کر سکوں _,"  اس نے کہا :-  اور اگر آپ کو اس کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ آپ کو مال دولت عزت حسن و جمال، عزت اور سب کچھ مل جائے تو کیا آپ قبول کر لیں گے ؟* 

*★_ نفیسہ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ اگر ایسی کوئی خاتون جس میں شرافت، پاک بازی وغیرہ تمام خوبیاں موجود ہوں اور مال و دولت بھی جس کے پاس ہو اور وہ خود ہی آپ کو نکاح کی دعوت دے تو کیا آپ مان لیں گے_,"*
*"_ آپ نے یہ سن کر پوچھا:-  اور وہ کون خاتون ہیں ؟  اس نے کہا :- وہ خدیجہ بنت خویلد ہیں،"  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :- ان تک میری رسائی کیسے ہوگی _,"*
*"_ یہ کہنے سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور وہ بہت مالدار ہیں, اس پر نفیسہ نے کہا :- اس کا ذمہ میں لیتی ہوں_,"* 

*★_ آپ نے رضامندی ظاہر کر دی، اس طرح شادی کی تاریخ طے ہوگئی، مقررہ تاریخ پر قبیلے کے رئیس، مکہ معظمہ کے شرفاء اور امراء جمع ہوئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے چچا عمرو بن اسد وکیل تھے، آپ صلی وسلم کی طرف سے آپ کے چچا ابو طالب وکیل تھے،  اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی انجام پائی، یہ آپ صل وسلم کی پہلی شادی مبارک تھی، اس وقت آپ کی عمر مبارک 25 سال اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر 40 سال تھی ,* 

*★_ نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمے کی دعوت دی، آپ نے 2 اونٹ ذبح فرمائے، اس روز ابوطالب بھی بہت خوش تھے،  انہوں نے اس موقع پر کہا :-  اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مصیبتوں اور غموں کو ہم سے دور کردیا _,"*
[5/20, 7:20 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قریش کے بہت سے لوگ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دے چکے تھے  لیکن آپ ہر مرتبہ انکار کرتی رہیں تھیں، اس لیے کہ اللہ تعالی نے آپ کا رشتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھ دیا تھا، شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دی، آپ کو اس کا مالک بنا دیا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دن رات لگی رہنے لگیں،* 

*★_ اب جوں جوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 40 سال کے قریب پہنچ رہی تھی اعلان نبوت کا وقت قریب آ رہا تھا، آپ کا وقت زیادہ تر تنہائی میں بسر ہونے لگا تھا، پھر آپ غار حرا میں جانے لگے، تنہائی میں آپ کو ایک آواز سنائی دیتی :- اے محمد ! اے محمد !*
*"_ اور کبھی ایک نور نظر آتا, یہ نور آپ کو جاگنے کی حالت میں نظر آتا, آپ خوف سا بھی محسوس کرتے اور فرماتے :- مجھے ڈر ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر کوئی بات نہ پیش آجائے_,"* 

*★_ آپ کی اس بات کے جواب میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ سے فرماتیں:- ہرگز نہیں ! اللہ تعالی آپ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم ! آپ امانت ادا کرنے والے ہیں رشتےداروں کی خبر گیری کرنے والے ہیں اور ہمیشہ سچ کہنے والے ہیں_,"* 

*★_ ان دنوں آپ کو تنہائی بہت محبوب ہو گئی تھی، تنہائی کے لیے ہی آپ غار حرا میں چلے جاتے تھے، جب کھانے کی چیز ختم ہو جاتی تو آپ واپس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ جاتے، کھانا لے لیتے اور پھر غار حرا تشریف لے جاتے تھے، غار حرا سے واپس آتے تو خانہ کعبہ میں بھی تشریف لے جاتے، طواف کرتے، پھر گھر تشریف لے جاتے،*
[5/20, 7:31 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آخر وہ رات آ گئی جب آپ کو نبوت اور رسالت ملنے والی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، ( جس کا مفہوم ہے ) :-  میں سو رہا تھا، میرے پاس جبرائیل علیہ السلام ایک ریشمی کپڑا لیے ہوئے آئے، اس میں ایک کتاب تھی، یعنی ایک تحریر تھی، انہوں نے مجھ سے کہا :-  " اقراء " یعنی پڑھیے، میں نے کہا :- میں نہیں پڑھ سکتا یعنی میں ان پڑھ ہوں، پڑھ لکھ نہیں سکتا_,"*

*★_ اس پر انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر اس ریشمی کپڑے سمیت اس طرح بھینچا کہ وہ کپڑا میرے ناک اور منہ سے چھو رہا تھا، انہوں نے مجھے اس زور سے بھینچا کہ مجھے خیال آیا کہ کہیں میری موت نہ واقع ہوجائے، اس کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا:-  پڑھیے ! یعنی اس لکھے ہوئے کے بجائے ویسے ہی پڑھو یعنی جو میں کہوں وہ کہیے, اس پر میں نے کہا:- میں کیا پڑھوں اور کیا کہوں_,"* 

*★_ اب انھوں نے کہا :- (سورۃ :- العلق آیت نمبر 1-5)*

*"_ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ‌ۚ ۞ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ‌ۚ‏ ۞ اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ ۞ الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ ۞*

*"_ (ترجمہ)_  اے پیغمبر ! آپ پر جو قرآن (نازل ہوا کرے گا) اپنے اس رب کا نام لے کر پڑھا کیجئے ( یعنی جب پڑھیں :" بسم اللہ الرحمن الرحیم" کہہ کر پڑھا کیجئے)  جس نے مخلوقات کو پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ قرآن پڑھا کیجئے، آپ کا رب بڑا کریم ہے ( جو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور ایسا ہے) جس نے (پڑھے لکھے کو) قلم سے تعلیم دی( اور ) انسان کو ( عموماً دوسرے ذرائع سے) ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا _,"*
[5/21, 8:45 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( جس کا مفہوم ہے) :-  میں نے اس آیت کو اسی طرح پڑھ دیا، اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام میرے پاس سے چلے گئے، اس کے بعد لگتا تھا گویا میرے دل میں ایک تحریر لکھ دی گئی ہے، میں غار سے نکل کر ایک طرف چلا، جب میں پہاڑ کے ایک جانب پہنچا تو میں نے آسمان سے آنے والی ایک آواز سنی، وہ آواز کہہ رہی تھی :- اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں_,"*

*★_ میں وہیں رک کر آواز کی طرف دیکھنے لگا، اچانک میں نے جبرائیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا، وہ کھڑے ہوئے تھے، وہ کہہ رہے تھے :- اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں _,"*
*"_ میں وہیں رک کر آواز کی طرف دیکھنے لگا،  میں نے ان پر سے نظر ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا مگر سامنے جبرائیل ہی نظر آئے، میں اسی حالت میں دیر تک کھڑا رہا، ادھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے میرے لیے کھانا تیار کیا تھا اور کھانا غار میں بھجوایا لیکن میں غار میں نہیں تھا، جب یہ خبر خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ملی تو انہوں نے میری تلاش میں چچاؤں اور ماموں کے گھر آدمی بھیجے مگر میں کسی کے ہاں بھی نہیں ملا، اس پر وہ پریشان ہو گئیں، ابھی اسی پریشانی میں تھیں کہ اچانک میں ان کے پاس پہنچ گیا،  میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا،  انہیں جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں بتایا، جو آواز سنی تھی اس کے بارے میں بھی بتایا،* 

*★_ ساری بات سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :-  آپ کو خوشخبری ہو، آپ یقین کیجیے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، مجھے امید ہے آپ اس امت کے نبی ہیں_,"* 

*★_ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں، وہ عیسائی عالم تھے، انہیں سارا واقعہ سنایا، ورقہ بن نوفل یہ سارا واقعہ سن کر پکار اٹھے:- اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے پاس وہی ناموس اکبر یعنی جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے, اس لیے میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس امت کے نبی ہیں _,"* 

*★_ ورقہ بن نوفل کو جبرائیل علیہ السلام کا نام سن کر اس لیے تعجب ہوا کہ مکہ اور عرب کے دوسرے شہروں میں لوگوں نے یہ نام سنا بھی نہیں تھا، غرض اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئیں اور ورقہ بن نوفل نے جو کچھ کہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا_,*
[5/21, 10:11 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ انھی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے آئے،  طواف کے دوران آپ کی ملاقات ورقہ بن نوفل سے ہوئی، وہ بھی اس وقت طواف کر رہے تھے، انہوں نے خود آپ کے منہ سے وہ واقعہ سننے کی خواہش کی، آپ نے انہیں بتایا کہ کس طرح جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس آئے، سارا واقعہ سن کر ورقہ بن نوفل نے اپنا منہ چھکایا اور آپ کے سر کے درمیان بوسہ دیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لوٹ آئے _,"*

*★_ پہلی وحی کے بارے میں یہ تفصیل بھی علماء نے لکھی ہیں کہ آپ پر اس وقت گھبراہٹ طاری ہوتی تھیں، آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا :-  مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو _,"*
*"_ چنانچہ انہوں نے فوراً آپ پر کمبل ڈال دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ دور ہوگی، پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :- مجھے اپنی جان کا خوف پیدا ہوگیا ہے _,"* 

*★_ اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- ہرگز نہیں, آپ کو خوشخبری ہو, اللہ تعالی آپ کو ہرگز ہرگز رسوا نہیں کرے گا, کیونکہ آپ رشتےداروں کی خبر گیری کرتے ہیں, سچی بات کہتے ہیں, دوسروں کے لئے مصیبت اور پریشانی اٹھاتے ہیں, بےکس مفلسوں کی امداد کرتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، اس معاملے میں آپ کے لیے خیر ہی خیر ہے__,"*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں_,*
[5/21, 11:43 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ عفیف کندی ایک تاجر تھے، وہ مکہ میں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے، ایک مرتبہ ان کی ملاقات تجارت کے سلسلے میں ابن عبدالمطلب سے ہوئی، وہ یمن سے عطر لا کر فروخت کیا کرتے تھے اور حج کے موسم میں مکہ میں فروخت کرتے تھے، عفیف کندی بیت اللہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک نوجوان قریب کے خیمے سے نکلا، اس نے سورج کی طرف دیکھا، جب اس نے دیکھ لیا کہ سورج مغرب میں جھگ گیا ہے یعنی غروب ہو گیا ہے تو اس نے بہت اچھی طرح وضو کیا اور پھر نماز پڑھنے لگا، پھر ایک لڑکا خیمے میں سے نکلا، وہ بالغ ہونے کے قریب تھا، اس نے بھی وضو کیا اور نوجوان کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگا، پھر اس خیمے میں سے ایک عورت نکلی، وہ بھی ان دونوں کے پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی، اس کے بعد اس نوجوان نے رکوع کیا تو وہ لڑکا اور عورت بھی رکوع میں چلے گئے، پھر نوجوان نے سجدہ کیا تو وہ لڑکا اور عورت بھی سجدے چلے گئے،* 

*★_ عفیف کندی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، انہوں نے حضرت عباس سے پوچھا :- یہ کیا ہو رہا ہے ؟ انہوں نے بتایا :- یہ میرے بھائی عبداللہ کے بیٹے محمد ہیں، یہ ان کا دین ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، یہ لڑکا میرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اور یہ محمد کی بیوی خدیجہ ہے_,"* 
*"_عفیف کندی کہتے ہیں :-  کاش اس وقت چوتھا مسلمان میں ہوتا_,"*

*★_ یہ عفیف کندی بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، اس موقع پر شاید زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ موجود نہیں تھے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے اور آپ اس زمانے میں آپ کے ساتھ یہ بھی نماز پڑھا کرتے تھے، یا پھر حضرت زید اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے،*

*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئیں،  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے بعد جو خواتین سب سے پہلے مسلمان ہوئیں، ان کے نام یہ ہیں :-  حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بیوی ام فضل رضی اللہ عنہا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن ام جمیل رضی اللہ عنہا، ان کا نام فاطمہ بنت خطاب تھا،  یہ بھی روایت ملتی ہے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا ام فضل سے بھی پہلے مسلمان ہوئی تھیں،*

*★_ بہرحال تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے مسلمان ہوئی تھیں، ان سے پہلے نہ کوئی مرد مسلمان ہوا، نہ  کوئی عورت_, مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری ملی تو سب سے پہلے آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اسلام کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف ان کی راہنمائی فرمائی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بغیر کسی جھجھک کے اسلام کو قبول کرلیا اور سبقت لے گئیں، تمام پہل کرنے والوں میں پہل کر گئیں،*
[5/22, 6:41 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اس سلسلے میں ایک کالم لکھتے ہیں :- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لیا اور اس چشمے پر لے گیے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاؤں مبارک کی برکت سے غار حرا کے پاس نمودار ہو گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چشمے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو وضو کا طریقہ بتایا،  یہ طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا تھ،ا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھنا سکھایا_,*

*★_ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی فرمایا تھا :- اے خدیجہ یہ جبرائیل ہیں،  اللہ تعالی کی طرف سے تمہیں سلام دینے کے لیے آئے ہیں _",*
*"_حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ سن کر سلام کا جواب دیا, حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایمان لے آئیں تو اسی روز حضرت علی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے،  اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تھی، وہ آپ کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نماز پڑھتے دیکھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ حیران ہو گئے اور بولے :- یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- یہ اللہ کا دین ہے، میں تمہیں بھی اس کی دعوت دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے ایک ہونے کی گواہی دو،  وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، میں تمہیں لات اور عزی ( بتوں) کو چھوڑ دینے کی دعوت دیتا ہوں_,"*

*★_ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ بولے :- میں نے اس دین کے بارے میں کسی سے نہیں سنا،  میں اپنے والد کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا، اگر اجازت ہو تو ان سے مشورہ کر لوں _,"*
*"_ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- اگر تمھارا ایمان لانے کا ارادہ نہ بنے تو کسی دوسرے کو اس کے بارے میں نہ بتانا_,"*,
*"_ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:- جی اچھا_,"*

*★_ پھر اسی رات اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر دل کھول دیا، صبح ہوئی تو آپ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا_,*
[5/22, 6:54 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے بھی پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے، کیونکہ یمن میں ایک بوڑھے عالم سے ان کی جو بات چیت ہوئی تھی اس سے وہ جان چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں،  وہی رسول جن کا دنیا کو انتظار ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب یمن میں اس بوڑھے عالم کے پاس رکے تھے تو اس نے کہا تھا :-  میرا خیال ہے، تم حرم کے رہنے والے ہو؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا تھا :- ہاں ! میں حرم کا رہنے والا ہوں، اس پر اس نے کہا تھا :- اور میرا خیال ہے تم قریشی ہو ؟ آپ نے جواب دیا :- ہاں ! میں قریشی ہوں ، پھر اس نے کہا تھا :- میرا خیال ہے تم خاندان تیمی کے ہو ؟, آپ نے جواب دیا تھا :-  ہاں !  میں خاندان تیمیی سے ہوں ، پھر اس نے کہا تھا :-  اب آپ سے ایک سوال اور پوچھنا چاہتا ہوں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا :-  اور وہ سوال کیا ہے؟ اس نے کہا تھا :- اپنا پیٹ کھول کر دکھا دو،  اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا :- یہ میں اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم اس کی وجہ نہیں بتا دوں گے،*

*★_  اس وقت اس نے کہا تھا :-  میں اپنے سچے اور مضبوط علم کی بنیاد پر خبر پاتا ہوں کہ حرم کے علاقے میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے، اس کی مدد کرنے والا ایک نوجوان اور پختہ عمر کا آدمی ہوگا، وہ مشکلات میں کود جانے والا اور پریشانیوں کو روکنے والا ہوگا، اس کا رنگ سفید اور جسم کمزور ہو گا، اس کے پیٹ پر ایک بال دار نشان ہو گا اور اس کی بائیں ران پر بھی ایک علامت ہوگی _,"* 
*"_ یہ کہنے کے بعد اس نے کہا :-  اب یہ بھی ضروری نہیں کہ تم مجھے اپنا پیٹ کھول کر دکھاؤں کیونکہ تم میں باقی تمام علامات موجود ہیں _,"*

*★_ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں یمن میں اپنی خرید و فروخت کا کام پورا کر چکا تو اس سے رخصت ہونے کے لئے اس کے پاس آیا، تب اس نے کہا :- میری طرف سے چند شعر سن لو، یہ شعر میں نے اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے ہیں_,"  میں نے کہا سناؤ:-  اس نے وہ شعر سنائیں،*
[5/23, 7:55 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ پھر میں مکہ مکرمہ واپس پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کا اعلان کر چکے تھے، فوراً ہی میرے پاس قریش کے بڑے سردار عقبہ بن ابو معیط، شیبہ، ربیعہ، ابو جہل اور ابو البختری وغیرہ آئے اور کہنے لگے :-  اے ابو بکر ! ابو طالب کے یتیم بھتیجے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہے,  اگر آپ کا انتظار نہیں ہوتا تو ہم اس معاملے میں صبر نہ کرتے، اب آپ آ گئے ہیں اس لیے اس سے نبٹنا آپ ہی کا کام ہے_,"*

*★_ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قریبی دوست تھے،  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :-  میں نے انہیں اچھے انداز میں ڈال دیا اور خود آنحضرت صلی وسلم کے گھر پہنچ گیا،  دروازے پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے،  آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا :- اے ابو بکر میں تمہاری اور تمام انسانوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس لیے تم اللہ تعالی پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ _,"*

*★_ میں نے عرض کیا:- کیا آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اس بوڑھے عالم کے شعر جو اس نے تمہیں سنائیں تھے_," میں نے حیران ہو کر عرض کیا:-  میرے دوست ! آپ کو ان اشعار کے بارے میں کیسے پتہ چلا ؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-  مجھے اس عظیم فرشتے کے ذریعے پتا چلا جو مجھ سے پہلے بھی تمام نبیوں کے پاس آتا رہا ہے_,"*
*"_ اب میں نے عرض کیا :-  اپنا ہاتھ لائیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں _,"*

*★_حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- میرے اسلام کو قبول کرنے سے آپ کو بے تحاشہ خوشی ہوئی_,"  سب لوگوں کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے کیا تھا، سب سے پہلے ایمان لانے والوں کی ترتیب اس طرح ہے :-  مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ عنھم ایمان لائے، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے ایمان لائیں اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے، وہ اس وقت تک بالغ نہیں ہوئے تھے،*
[5/23, 8:50 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آس پاس کے لوگوں کو اسلام کی دعوت شروع کی، اس سلسلے میں جو مشکلات تھیں ان کے سامنے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ڈٹ گئیں،  اپنا تن من اور دھن سب کچھ قربان کرنے پر تل گئیں،*

*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر ابوالعاص غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے،  یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرکوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ابو العاص سے ہو چکی تھی، دوسرے قیدیوں کی طرح ان سے بھی کہا گیا:- آپ بھی فدیے کی رقم ادا کریں تاکہ آپ کو رہا کیا جا سکے_,"  انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا کہ ان کی آزادی کے لئے فدیے کی رقم بھیج دیں،  حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ پیغام ملا تو آپ پریشان ہو گئیں کیونکہ اس وقت آپ کے پاس کوئی رقم نہیں تھی، البتہ شادی کے موقع پر انہیں جو جہیز ملا تھا اس میں ایک ہار بھی تھا، انہوں نے وہی ہار بھیج دیا، وہ ہار دراصل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھا،* 

*★_ جب یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے اس ہار کو پہچان لیا، آپ کو حضرت خدیجہ یاد آ گئیں، آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،  آپ کو روتے دیکھ کر صحابہ کرام بھی رونے لگے، انہوں نے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول ! آپ یہ ہار بیٹی کو واپس کردیں, فدیے کی رقم ہم ادا کر دیتے ہیں_,"*
*"_ اس واقعے سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت تھی،*

*★_ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :- ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہالہ ہمارے ہاں آئیں، انہوں نے اجازت طلب کرنے کے لیے آواز دی، ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی، پھر کیا تھا یہ آواز سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آگئیں، آپ حیرت اور مسرت کے عالم میں پکار اٹھے :-  یا اللہ ! یہ تو ہالہ لگتی ہیں_,"*
*"_ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:-  آپ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو کیا ہر وقت یاد کرتے رہتے ہیں، انہیں تو فوت ہوئے بھی عرصہ ہوگیا، اللہ پاک نے آپ کو اس سے بہتر بیوی عطا فرما دی ہے_," یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلال میں آ گئے، یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نادم ہو کر عرض کیا:-  اے اللہ کے رسول ! مجھ سے غلطی ہوگئی, آئندہ میں ان کا ذکر اچھے الفاظ ہی میں کروں گی_,"*
[5/28, 8:51 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ جب بالکل نزدیک کے لوگ آپ پر ایمان لا چکے تو اللہ تعالی نے حکم نازل فرمایا :- اپنے قریبی لوگوں کو ڈرائیے _,"*
*"_ یہ حکم نازل ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور پکار کر فرمایا :- اے بنی عبدالمطلب ! اے بنی فہرہ اور اے بنی کعب !  اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن جمع ہو گئے ہیں اور تم پر حملہ کرنے والے ہیں تو بتاؤ کیا تم میری اطلاع کو درست سمجھو گے_,"* 
*"_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے جواب میں سب نے کہا :-  ہاں ! ہم آپ کی بات کو درست سمجھیں گے, اس لیے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا _,"*
*"_اس پر آپ نے فرمایا:- تو پھر جان لو ! میرے پاس تمہارے لئے سخت عذاب کی اطلاح ہے_,"* 

*★_ ابولہب یہ سن کر سخت ناراض ہوا، اس نے بھنا کر کہا :- تو ہمیشہ برباد رہے...  کیا تو نے بس یہی سنانے کے لیے بلایا تھا_," ( نعوذباللہ),  پھر لوگ بڑبڑاتے ہوئے واپس لوٹ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا کام جاری رکھا، اس پر قریش شدید مخالفت پر اتر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی قریش مکہ کی طرف سے صدمہ پہنچتا، تو آپ سیدھا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے، سیدہ خدیجہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتیں تو آپ کا صدمہ دور ہو جاتا، غرض ہر مشکل وقت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی_,* 

*★_ جب اسلام آہستہ آہستہ پھیلنے لگا تو قریش بہت فکرمند ہوئے، انہوں نے ابو طالب کو بلا کر کہا :- اے ابو طالب ! اگر آپ کے بھائی کے بیٹے ہمارے دین کو اور جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں ان کو اسی طرح برا کہتے رہے اور آپ اسی طرح ان کی مدد کرتے رہے تو ہم سمجھیں گے کہ آپ نے بھی ہمارے مقابلے میں صرف ان کی مدد کی ٹھان رکھی ہے، اس صورت میں ہم جو کچھ بھی کریں، پھر شکایت نہ کریں _,"* 
*"_ ابو طالب نے انہیں سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر تبلیغ کرتے رہے، اس پر قریش پھر جمع ہوئے، ابو طالب کے پاس آئے، انہوں نے کہا:-  اگر آپ نے اب بھی اپنے بھتیجے کو نہ روکا تو ہمارے اور آپ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رہ جائیگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی مارا جائے_,"* 

*★ ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی اور کہا :- بھتیجے ! اپنے دین کے اعتبار سے تم مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں _," ان کی بات کے جواب میں آپ نے فرمایا :-  چچاجان ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں اور مجھ سے کہیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس سے باز آ جاؤ تو بھی میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا، چاہے میری جان کیوں نہ چلی جائے _,"* 
*"_ یہ سن کر ابو طالب نے کہا:-  بھتیجے !  تم جو چاہو کرو میں آئندہ تمہیں نہیں ٹوکوں گا _,"*
[5/29, 6:54 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ قریش نے بھی جان لیا کہ ابو طالب اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو وہ ایک بار پھر جمع ہوئے اور ابو طالب سے بولے:- اے ابو طالب ! آپ کے بھتیجے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے ہمارے حوالے کر دیں، تاکہ ہم اسے قتل کر دیں، اس ایک کے نہ ہونے سے آخر کیا فرق پڑ جائے گا_,"*
*"_ یہ سن کر ابو طالب بولے:-  بڑے افسوس کی بات ہے، اگر میں تم میں سے کسی کے بیٹے کو صرف اپنی مخالفت کی بنیاد پر تم سے مانگو تاکہ اسے قتل کر سکوں تو کیا تم ایسا کرو گے،  نہیں کرو گے،  تو میں کیوں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کروں،  میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا_,"*
*"_ اس پر سب نے کہا :- اے ابوطالب ! تم اپنی قوم کے صرف ایک شخص کے لئے قوم میں تفرقہ ڈال رہے ہو، تم نے اپنی ساری قوم کو اپنے بھتیجے کے خاطر ذلیل کر کے رکھ دیا ہے _,"*

*★_ یہ کہہ کر قریش لوٹ گئے،  اب ابو جہل وغیرہ نے ایک جگہ جمع ہو کر سوچ بچار کی اور آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت ترک نہیں کرتے اور انہیں ہمارے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک ان لوگوں سے کوئی کاروبار نہ کیا جائے، نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جائے، نہ ان سے خریدی جائے،  نہ ان کے ہاں بیٹی بیٹے کا رشتہ کیا جائے، نہ ان کے ساتھ بیٹھا جائے، نہ کسی قسم کا میل جورکھا جائے، کوئی شخص اگر کسی مسلمان کا مقروض ہے تو قرض ادا نہ کرے اور انہیں شعب ابی طالب میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے، شعب ابی طالب ایک گھاٹی کا نام تھا، آج کے دور میں اس قسم کے معاہدے کو سوشل بائیکاٹ کہا جاتا ہے،  یعنی معاشرتی تعلقات ختم کر دینا، ان سب حضرات کو وہاں رہنے پر مجبور کر دیا گیا_,*

*★_ یہ بائیکاٹ نبوت کے ساتویں سال یکم محرم کو شروع ہوا اور نبوت کے دسویں سال محرم میں ختم ہوا، ان تین سالوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے گھر والوں، غریب اور نادار مسلمانوں، ابوطالب، بنی ہاشم، بنی عبدالمطلب اور ان کے ساتھیوں نے مصیبتوں اور مشکلات کا بڑی جرأت سے مقابلہ کیا، قریش کے مظالم کے مقابلے میں کوئی کمزوری نہ دکھائی، سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں ڈٹے رہے _,* 

*★_ حالت یہ تھی کہ نہ یہ حضرات کسی سے کوئی لین دین کر سکتے تھے، نہ مکہ کے بازاروں میں خرید و فروخت کر سکتے تھے، شعب ابی طالب کوہ ابو قبیس کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی تھی،  یہ حرم سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی، بنی عبدالمطلب اور بنی ہاشم کے اکثر گھرانے اس محلے میں رہتے تھے یا پھر اس کے اردگرد رہتے تھے، جب کفار نے بائیکاٹ کا معاہدہ لکھ کر حرم میں لٹکا دیا تو ابو طالب نے دوسرے محلوں میں رہنے والے بنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کے گھرانوں کو بھی اس گھاٹی میں آ جانے کے لیے کہا_,*

*★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آبائی مکان دوسرے محلے میں تھا، لیکن  آپ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتی تھیں، انہوں نے بھی اپنا ضروری سامان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس گھاٹی میں آ گئیں،  بعض دوسرے حامی قبیلے اور غریب مسلمان بھی یہیں آگئے،  ان کا تعلق قریش کے خاندان سے نہیں تھا، ان سب حضرات کے ایک جگہ جمع ہو کر رہنے کا فیصلہ ابوطالب کا تھا، یہ فیصلہ اس لحاظ سے بہت اچھا تھا کہ مسلمان اپنے اپنے محلوں میں بکھرے رہتے تو ان کے لئے یہ تین سال گزارنا اور زیادہ مشکل ہوتا،   سب نے مل جل کر ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ کر یہ سال گزار لیے،  یہ اور بات ہے کہ یہ تین سال انتہائی مشکل سال تھے،  باہر سے آکر کوئی مدد نہیں کرتا تھا، البتہ آپس میں یہ سب ایک دوسرے کے غم گسار تھے_,*
[5/29, 4:49 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شعب ابی طالب میں رہنے والے نہ تو تجارت کر سکتے تھے نہ مکہ معظمہ کے بازاروں میں خرید وفروخت کر سکتے تھے، باہر سے کوئی قافلہ آتا تو قریش اس کا سارا مال مہنگے داموں میں خرید لیتے تھے، ابو لہب ان تاجروں سے کہتا :- کوئی مسلمان یا بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کا کوئی شخص تم سے کچھ خریدنا چاہے تو قیمت اتنی زیادہ بتانا کہ خرید نہ سکے،  اگر تمہارا مال نہ بک سکا تو میں خود سارا مال خرید لوں گا _,"*

*★_ سال میں چار مہینے رجب، ذیقعدہ، ذوالحج اور محرم حرمت کے مہینے تھے، ان چار مہینوں میں ان حضرات کو کچھ خرید و فروخت کا موقع ملتا تھا، لیکن آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو کچھ تھا، اس سے آپ دونوں غریب مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اس طرح اس بائیکاٹ کے ختم ہوتے ان کی اپنی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی،  حضرت عمر بھی مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن سینکڑوں لوگوں کی ضرورت پوری کرنا آسان کام نہیں تھا_,"*

*★_ جب ان لوگوں کی پونجی بالکل ختم ہوگئی تو گھریلو چیزیں بکنے لگیں، آخری دنوں میں جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ہانڈی اور مٹی کا پیالہ رہ گیا،  گھاٹی میں رہنے والے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے، وہ پہاڑی علاقہ تھا، وہاں درخت بھی بہت کم تھے، ان دونوں کی حالت بیان کرتے ہوئے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات انہیں اونٹ کی چمڑے کا سوکھا ہوا ٹکڑا مل گیا، انہوں نے اسے دھویا اور ابال کر تین دن تک اسی سے گزارا کیا _,"*
*"_یہ دنیا کی تاریخ کا ظالمانہ ترین بائیکاٹ تھا، قریش مکہ باقاعدہ نگرانی کرتے تھے کہ مکہ کا کوئی فرد چوری چھپے ان حضرات کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچا دے _,*

*★_ اصل میں قریش مکہ چاہتے تھے کہ ان حضرات کی کوئی حمایت نہ کرے، اس کے بعد ان کے لیے قریش کے دیگر خاندانوں سے اپنے اپنے مسلمان ہو جانے والے افراد کی حمایت چھڑا دینا آسان ہو جاتا اور جب تمام قبیلے مسلمانوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیتے تو پریشان کے لئے مسلمانوں سے نمٹنا آسان ہوجاتا، لیکن ہوا یہ کہ ان دونوں خاندانوں نے ہر قسم کی تکالیف تو برداشت کر لی، لیکن قریش کے مقابلے میں ہار نہ مانی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غریب ساتھیوں کے مضبوطی سے ڈٹے رہنے میں کوئی فرق نہ آیا _,*
[5/29, 5:04 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ چوری چھپے سامان لے آتے تھے، ایک روز غلام کے ساتھ غلہ لا رہے تھے کہ اونٹ پر سوار ابوجہل ادھر سے آ نکلا، اس نے پکار کر کہا :- کیا تو یہ راشن بنو ہاشم کے لیے لے جا رہا ہے، خدا کی قسم ! تیرا یہ غلام وہاں غلہ نہیں لے جا سکتا، میں تمہیں سارے مکہ میں رسوا کر دوں گا کہ تم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے_,"* 

*★_ ابوجہل ابھی ان سے جھگڑ رہا تھا کہ بنو اسد کا سردار ابوالبختری انہیں دیکھ کر رک گیا، اس نے ابو جہل سے پوچھا :- کیا ہے, تم اس سے کیوں جھگڑ رہے ہو ؟ جواب میں ابوجہل نے کہا:-  یہ بنو ہاشم کے لیے غلہ لے جا رہا ہے_," ابوالبختری نے فوراً کہا :- یہ اس کی پھوپھی کا غلہ ہے، جو اس کے پاس رکھا تھا، اب اس نے منگوایا ہے تو تو اسے کیسے روک سکتا ہے، جانے دو اسے _," نہیں میں نہیں جانے دوں گا _," ابوجہل اس سے بھی جھگڑ پڑا _,"* 

*★_ دونوں میں تیز لہجے میں بات ہونے لگی، ابوالبختری نے ابوجہل کے اونٹ کی گردن پکڑ کر جھٹکا دیا تو اونٹ بیٹھ گیا،  اس نے ابو جہل کو گدی سے پکڑ کر نیچے کھینچ لیا، پھر لاتوں اور گھونسوں سے اس کی خوب مرمت کی، یہاں تک کہ قریب پڑی ایک ہڈی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری، اس کے سر سے خون بہنے لگا، ایسے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے،  آپ انہیں لڑتے دیکھ کر رک گئے، انہیں رکتے دیکھ کر دونوں اپنی لڑائی سے باز آگئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کی آپس کی لڑائی کی خبر نہ پہنچے،*

*★_ تاریخ کی کتابوں میں مصیبتوں بھرے ان تین سالوں کی بہت تفصیل بیان ہوئی ہے، ابن قیم کہتے ہیں :-  بنی ہاشم کے بچے بھوک کے مارے اس قدر زور زور سے روتے تھے کہ ان کے رونے کی آوازیں گھاٹی کے باہر تک سنائی دیتی تھیں_,"*
*"_ امام قسطلانی نے لکھا ہے :- بنی ہاشم کے بچوں کے رونے کی آوازیں رات کے سنّاٹے میں تمام شہر میں سنائی دیتی تھیں، سنگ دل اور بے رحم قریش سنتے تھے اور ہنسا کرتے تھے اور طنز کیا کرتے تھے _,"*
*"_ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :- ان دنوں میں درختوں کے پتے کھا کھا کر گزر بسر کی گئی _,"*
[5/30, 6:10 PM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ ان تمام سختیوں اور تکالیف کے باوجود مسلمان ثابت قدم رہے, ان کے قدم ذرا بھی نہ ڈگمگائے، ایک رات ہاشم ابن عمرو بن حارث تین اونٹوں پر کھانا لے کر گھاٹی میں داخل ہوگئے،  یہ مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، قریش کو اس کا پتہ چل گیا، انہوں نے دوسری صبح ہاشم سے باز پرس کی، اس پر انہوں نے کہا:-  ٹھیک ہے آئندہ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو آپ کے خلاف ہو،* 
*"_ اس کے بعد ایک رات پھر دو اونٹوں پر کھانے کا سامان لے کر گھاٹی میں پہنچ گئے، قریش کو اس کا بھی پتہ چل گیا، اس مرتبہ قریش سخت غضب ناک ہوے اور ہاشم پر حملہ کر دیا، لیکن اسی وقت ابو سفیان نے کہا :- اسے چھوڑ دو، اس نے صلہ رحمی کی ہے، رشتہ داروں کا حق پورا کرنے کے لیے ایسا کیا ہے _,"*

*★_ آخر اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ دیمک نے قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو چاٹ لیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنے چچا ابو طالب کو بتائی، انہوں نے آپ کی بات سن کر کہا :- ستاروں کی قسم ! تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا _," (مشرک لوگ اس قسم کی قسمیں کھاتے تھے), اب سب نے گھاٹی سے نکلنے کا فیصلہ کیا، سب وہاں سے نکل کر مسجد حرام میں آگئے، قریش نے ان لوگوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ لوگ مصیبتوں سے گھبرا کر نکل آئے ہیں تاکہ رسول اللہ سلم کو مشرکوں کے حوالے کردیں، ابو طالب نے ان سے کہا :- ہمارے اور تمہارے درمیان معاملات بہت طول پکڑ گئے ہیں، اس لئے اب تم لوگ اپنا وہ حلف نامہ لے آؤ، ممکن ہے ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کی کوئی شکل نکل آئے _,"*

*★_ ابو طالب نے اصل بات بتانے کی بجائے یہ بات اس لیے کہی کہ کہیں قریش حلف نامہ سامنے لانے سے پہلے اسے دیکھ نہ لیں کیونکہ اس صورت میں وہ اس کو لے کر ہی نہ آتے، غرض وہ حلف نامہ لے آئے،  انہوں اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ یہ لوگ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تمام حلف نامہ اور معاہدے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوئے تھے، آخر وہ حلف نامہ لے آئے،  ساتھ ہی کہنے لگے :-  آخر تم لوگ پیچھے ہٹ گئے نا _,"*
*"_ اس پر ابو طالب نے کہا:- میں تمہارے پاس ایک انصاف کی بات لے کر آیا ہوں، اس میں تمہاری کوئی بےعزتی ہے نہ ہماری اور وہ بات یہ ہے کہ میرے بھتیجے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ تمہارے اس حلف نامہ پر جو تمہارے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی نے ایک کیڑا مسلط کردیا ہے،  اس کیڑے  نے اس میں سے الفاظ چاٹ لیے ہیں، اگر بات اسی طرح ہے جیسے میرے بھتیجے نے بتایا ہے  تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے، لہذا تم اپنی غلط بات سے باز آ جاؤ،  اگر باز نہیں آئے تو بھی خدا کی قسم جب تک ہم میں سے آخری آدمی بھی زندہ ہے ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے اور اگر میرے بھتیجے کی بات غلط نکلی تو ہم انہیں تمہارے حوالے کر دیں گے،  پھر تم چاہے انہیں قتل کرو چاہے زندہ رکھو _,"*

*★_ اس پر قریش نے کہا :- ہمیں تمہاری بات منظور ہے_,",  اب انہوں نے عہد نامہ کھول کر دیکھا، عہد نامہ کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی، یہ دیکھ کر ہموہ پکار اٹھے :- یہ تمہارے بھتیجے کا جادو ہے_,"*
*"_  اس واقعے کے بعد ان لوگوں کا ظلم اور بڑھ گیا، البتہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دیمک والے واقعے پر شرمندہ ہوئے، انہوں نے کہا :- اب ہماری طرف سے ایسی سختی اپنے بھائیوں پر ظلم ہے_,"  پھر یہ لوگ گھاٹی میں پہنچے اور ان حضرات سے یوں بولے :-  آپ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں _,"*
*"_  چنانچہ سب لوگ اسی وقت گھاٹی سے نکل کر اپنے گھروں میں آ گئے، اس طرح تین سال بعد یہ بائیکاٹ ختم ہوا_,*
[5/31, 9:32 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ شعب ابو طالب کی گھاٹی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی رہائی نبوت کے دسویں سال میں ہوئی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا کام پہلے سے بھی زیادہ سرگرمی سے شروع کر دیا تھا، ان حالات میں، اس ظالمانہ بایکاٹ کو ختم ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آپ کے مہربان چچا ابو طالب اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوا اور اس صدمے کو ابھی ایک ہفتہ نہیں ہوا تھا کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس دار فانی سے کوچ کیا، اوپر تلے دو صدمے آپ کے لیے بہت سخت تھے، آپ نے اس سال کو "غم کا سال" قرار دیا _,*

*★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی ہستی تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی وسلم کی قدر اور عظمت کو پہچانا اور اپنا تن من اور دھن آپ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد 25 سال کی زندگی میں بے پناہ مشکلات آئیں، مگر ان تمام مشکلات میں آپ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری طرح ساتھ دیا، قریش مکہ قدم قدم پر آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو آرام و سکون پہنچاتی تھیں، آپ نے اپنی ہر خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کر دی، آپ کی موجودگی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی، سب کام آپ نے سنبھالے ہوئے تھے،*  

*★_ سب سے پہلے ایمان بھی آپ ہی لائیں، آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال ساتھ دیا، نبی کریم صل وسلم نے ایک مرتبہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:- خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو مجھ سے وفاداری کی اس کے سبب مجھے ان کی یاد بہت مرغوب ہے, جب لوگوں نے میری نبوت کا انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب لوگ میری مدد کرنے سے ڈرتے تھے تو وہ چٹان کی مانند مضبوطی سے میرے ساتھ کھڑی رہیں، وہ بہترین ساتھی تھیں اور میرے بچوں کی ماں _,"* 

*★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے آپ صلی اللہ کے ہاں چھ بچے پیدا ہوئے، دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں،  صاحب زادے بچپن ہی میں فوت ہوگئے، جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو اس وقت تک آپ کی دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی، دو بیٹیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر میں تھیں،  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت آٹھ نو سال کی تھی، حضرت علی رضی اللہ انہوں نے بھی آپ کے گھر میں ہی پرورش پائی تھی، وہ بھی ابھی چھوٹے تھے _,*
[6/3, 11:08 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_'بخاری شریف میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شان میں یہ حدیث موجود ہے:-* *"_ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوں عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسول ! خدیجہ ایک برتن لے کر ابھی آنے والی ہیں، اس برتن میں سالن ہے، جب وہ آئیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہہ دیجئے گا اور انہیں یہ خوشخبری سنائے گا کہ اللہ تعالی نے موتیوں سے بنا ہوا ایک محل جنت میں انہیں عطا فرمایا ہے، اس میں نہ کسی قسم کا شور ہوگا، نہ پریشانی _,"* 

*★_ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دوسری شادی کا کبھی خیال تک نہیں فرمایا، آپ کی وفات کے بعد بھی آپ ان کا ذکر بہت محبت سے فرماتے تھے، آپ کی سہیلیوں سے بھی بہت شفقت کا  برتاؤ کرتے، ہر موقع پر ان کا خیال رکھتے تھے، اکثر ان کی تعریف فرماتے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ وسلم کی ازواج مطہرات کو رشک آنے لگتا،  آپ کوئی بکری ذبح فرماتے تو اس کا گوشت حضرت سیدہ کی سہیلیوں کو بھی بھجواتے _,"* 

*★_ آپ کی وفات کی خبر سن کر مکہ معظمہ کے لوگ رنج و غم کے سمندر میں ڈوب گئے، ہر شخص کی زبان پر ان ہی کا ذکر تھا، انہوں نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی، کبھی زبان سے ایسا لفظ نہیں نکالا جو کسی کی دل شکنی کا سبب بنتا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکالیف کو دیکھ کر وہ کبھی مایوس نہ ہوتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی کرتیں اور تبلیغ کے کام میں ہر ممکن مدد کرتیں،  دوسرے لوگوں کو تکالیف پہنچائی جاتی تو آپ انہیں بھی حوصلہ دلاتیں،  انہیں یقین دلاتیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، مکہ میں کسی کی زبان پر بھی ان کی برائی نہیں تھی، ہر شخص ان کی تعریف کرتا تھا _,*

*★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حجون کے قبرستان میں دفن کیا گیا،  دفن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اترے،  انتقال کے وقت ان کی عمر 63 سال تھی، اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا _,*
[6/3, 11:27 AM] Haqq Ka Daayi Official: *★_ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد 25 سال تک زندہ رہیں، یعنی اتنی طویل مدت تک آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا، جب آپ بیمار تھیں تو ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :- جو کچھ میں نے تمہارے لئے دیکھا ہے، کیا تم اس سے خوش نہیں،  اللہ تعالی ناپسندیدگی میں ہی خیر فرمانے والا ہے، یعنی ہماری جدائی کے اس غم میں بھی خیر ہے، تمہیں معلوم نہیں اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ اس نے جنت میں تمہارے ساتھ ساتھ مریم بنت عمران یعنی مسیح علیہ السلام کی والدہ، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی آسیہ سے میری شادی کی ہے _," ( یعنی یہ جنت میں تمہاری ساتھی ہو گئی )* 

*★_ یہ سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا :- اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اللہ تعالی نے آپ کو اس بات کی خبر بھی دی ہے _,"  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :-" ہاں !",  اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا :-  اللہ تعالی محبت و برکت عطا فرمائے _,"* 

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ بھی فرمایا :- جنت تمہارے دیدار کی مشتاق ہے، تمام امہات المومنین سے تم بہتر ہو،  تم تمام عورتوں سے افضل ہو، تو مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ سے زیادہ بزرگ ہو _,"*
*"_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی،  سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سب سے پہلے قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، پھر زینب رضی اللہ عنہا، پھر رقیہ رضی اللہ عنہا، پھر ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا،  یہ تمام نبوت سے پہلے پیدا ہوئے، ان کے بعد عبداللہ پیدا ہوئے،  طیب اور طاہر انہی کے لقب تھے، بہرحال حال اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے، بیٹیاں جوان ہوئیں اور ان کی شادیاں ہوئیں اور ان سے اولاد ہوئی _,*

*★_ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد کا سلسلہ نسب حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا پر ختم ہوتا ہے،  آپ اپنی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے دعا کرتے رہے، ان کی موجودگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی، آپ نے انہیں تمام عورتوں سے افضل قرار دیا ( بعض روایات کی رو سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو افضل قرار دیا), جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کا سلام آپ کے ذریعے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو پہنچایا، سیدہ نے اپنا سارا مال اللہ کے راستے میں خرچ کردیا، آپ نے نبی کریم صلی اللہ وسلم کا انتہائی تکلیف دہ حالات میں ساتھ دیا، اللہ کی ان پر کروڑوں رحمتیں ہوں _,*
         
امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم ,,,📓* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://www.haqqkadaayi.com
*👆🏻 ہماری اگلی پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
          ╰┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄┅┄╯
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
https://wa.me/message/YZZSDM5VFJ6IN1
*👆🏻 واٹس ایپ پر جڑنے کے لئے ہمیں میسج کریں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://groups.bip.ai/share/YtmpJwGnf7Bt25nr1VqSkyWDKZDcFtXF
*👆🏻Bip پر لنک سے جڑے بپ_,*

Post a Comment

0 Comments