┯━══◑━═━┉─◑━═━━══┯
*●• عورت کی اصلاحی روشنی •●*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ عورت کی اصلاح سب سے زیادہ اس کے شوہر سے ہوگی بشر طیکہ مرد بھی نیکی کا راستہ اختیار کرلے:-*
*★_ مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہوسکتی ہے۔ ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے۔ قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے، عورت تو در کنار اور ہے بھی کون جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے۔*
*★_ اگر مرد کوئی کمی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے۔ اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں۔ غرض کہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیب بناتا ہے۔ اس لیے فرمایا ہے۔*
*"_ اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ ( النور (۲٦)*
*"★_(ترجمہ)_ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ۔*
*"★_اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزار کوششیں رو کچھ نہ بنے گا۔ جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے گی؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا ۔ ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے۔*
*★_ بھلا جب خاوند رات کو اٹھ اٹھ کر دعا کرتا ہے۔ روتا ہے تو عورت ایک دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور متاثر ہوگی۔ عورت میں متاثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے۔ ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کر سکتا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے۔ خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی کچھ اثر اس پر نہیں ہوتا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ عورت اندر اندر مرد کے اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے:-*
*★_ خدا نے مرد عورت دونو کا ایک ہی وجود فرمایا ہے۔ یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں۔ ان کو چاہئے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ یہ کہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت کوشش کر کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اُسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھنے لگتی ہے۔*
*★_ مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے۔ پس اگر وہی بد اثر قائم کرتا ہے تو کس قدر بد اثر پڑنے کی امید ہے، مرد کو چاہیئے کہ اپنے قوت کو ہر حال میں حلال موقعہ پر استعمال کرے۔ مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں جیسے سخاوت حلم ۔ صبر ۔ اور جیسے اسے پرکھنے کا موقعہ ملتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا۔*
*★_ اسی لیے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندر اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کر لیتی ہے۔*
*®_ (ملفوظات حکیم الامت جلد سوم صفحہ ۱۵۷ تا ۱۵۸ )*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ عورت بچوں کی پہلی درسگاہ ہے_*
*★_ کا ئنات عورت کے وجود کے بغیر نامکمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا ئنات میں مرد اور عورت کو اعلیٰ مقام عطا فرمایا۔ لیکن اسلام سے پہلے عورت کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا، عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو ایک تحفظ دیا اور ایک ایسی قدر عطا کی کہ عورت کو ماں کے قدموں تلے جنت کا درجہ دیا۔*
*★_اسلام نے عورت کو ایک بڑا مرتبہ عطا کیا اور اُس کی تعلیم کو فروغ دیا، آج عورت کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک معتبر سماج کیلئے مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد دونوں کو علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے چاہے اس کیلئے کیسی ہی مشقت اٹھانی پڑے۔*
*★_ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیئے ہوتے ہیں۔ گاڑی ایک پہیئے پر نہیں چل سکتی, یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت یکساں ہے, جب تک دونوں علم حاصل نہیں کریں گے ہم کسی صورت ترقی نہیں کر سکتے ۔*
*★_ عورتوں کی تعلیم جس میں دین و مذہب، اخلاق و کردار کی اصلاح شامل ہوتی ہے جس میں عورت اور حقوق و فرائض کو پہچان سکے۔ بچوں کی تربیت میں سلیقہ مندی سے کام لے سکیں۔*
*★_ پرانے زمانے میں عورتوں کی تعلیم تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ جوں جوں زمانہ بدلتا گیا عورتوں کی تعلیم پر زور دیا گیا کیونکہ عورت اپنے بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے وہ آگے بڑھ کر قوم کی تخلیق کو ایک نئی شناخت دیتی ہے۔ کسی بھی بچے کا مستقبل اس کی والدہ کی طرف سے دیئے گئے پیار اور پرورش پر منحصر ہوتا ہے جو صرف ایک عورت ہی کر سکتی ہے۔*
*★_ اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو اولاد بھی صاحب علم اور مہذب ہوگی کیونکہ بچے کا زیادہ تر وقت ماں کے قریب گزرتا ہے، اس لئے پڑھی لکھی ماں بچے کے خیالات کو نکھار سکتی ہے، اپنے حقوق و فرائض سے با قاعدہ آگاہ ہوتی ہے اور بچہ تہذیب یافتہ ماحول میں ڈھل کر مدرسہ جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ عورت اپنے خاندان کی معاشی حالت کو سدھارنے کے لئے کافی مددگار ثابت ہوتی ہے اور صرف اپنے بچوں کی ہی نہیں بلکہ آس پاس کے بہت سارے لوگوں کی زندگیوں کو بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ اور ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔*
*★_ ایک عورت اپنی زندگی میں بہت سے رشتے نبھاتی ہے۔ مثلاً ماں، بیٹی ، بہن، بیوی کسی بھی رشتہ میں آنے سے پہلے عورت ملک کی آزاد شہری ہے اسے اپنی خواہش کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، تعلیم نہ صرف معاشرے میں خواتین کا معیار بلند کرتی ہے بلکہ معاشرے کی تنگ سوچ کو بھی ختم کرتی ہے۔ تعلیم نسواں کے بغیر ہم ترقی یافتہ سماج کا خواب نہیں دیکھ سکتے ۔*
*★_ خواتین کے ذریعہ ہمارا معاشرہ، مہذب اور با اخلاق اور با سلیقہ ہوتا ہے,اس لئے اسلام نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے:-*
*★_ نپولین بونا پارٹ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں ایک بہترین قوم دوں گا_,*
*"_ ماں کی گود انسان کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ عورت مرد کے شانہ بشانہ چلی ہے، مرد کا کام معاش کو چلانا ہوتا ہے لیکن عورت گھر کے نظام کو اور امور خانہ داری اور بچوں کی صحیح پرورش کرتی ہے۔ مرد کی تعلیم صرف مرد کی تعلیم ہے لیکن عورت کی تعلیم سارے خاندان کی تعلیم ہوتی ہے۔ تعلیم نسواں سے ایک اچھے خاندان کی بنیاد ہوتی ہے۔*
*★_ اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہو گی تو ملازمت کر کے اپنے گھر کا خرچ اٹھا سکتی ہے اور گھر اور گھر کے باہر کی زندگی میں اپنے شوہر کا سہارا بن کر بھی زندگی گزار سکتی ہے۔ خواتین ونو عمر لڑکیاں قرآن پاک، دینیات اور اخلاق و اصلاح کی اتنی تعلیم حاصل کر لیں کہ وہ اپنے حقوق و فرائض سے با قاعدہ آگاہ ہو سکیں جو لڑکیاں تعلیم یافتہ نہیں ہوتی ہیں گو وہ خوبصورت ہی کیوں نہ ہوں انہیں اکثر شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اس لئے عورت کو تعلیم سے آراستہ ہونا بہت ضروری ہے۔*
*★_ خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کریں، اُن کے فوائد بتائیں اور انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ اُن کی بیٹیاں بھی معاشرے میں اپنے بنیادی حقوق کیلئے لڑ سکیں اور اُن سے استفادہ کر سکیں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی تعلیم کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور معاشرے میں اتنا وقار، مرتبہ، اور اپنی عظمت کو برقرار رکھ سکیں۔*
*★_ کیونکہ تعلیم یافتہ خواتین ہی اپنے خاندان اور معاشرے میں خوشحالی اور مثبت تبدیلی لاسکتی ہیں۔ اور ایک جدید معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔ خواتین کی وجہ ہی سے کائنات میں رنگ ہے ۔*
*®_ (معاشرتی اخلاق ص ۱۷۵)*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خواتین کی تعلیم و تربیت اس طرح ہوتی تھی-,*
*★_ انسانی معاشرہ مرد و عورت دونوں کی قوتوں، صلاحیتوں اور سرگرمیوں سے تشکیل پاتا ہے، اس میں کسی ایک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور کسی کی اہمیت کم نہیں کی جا سکتی ۔ ایک مہذب، باوقار اور ترقی یافتہ معاشرہ کے لیے لازم ہے کہ اس کے افراد مہذب اور تعلیم یافتہ ہوں، جس طرح کمزور اینٹیں عمارت کی قوت حیات گھٹا کر اسے کمزور بنادیتی ہیں اسی طرح جاہل افراد بھی اپنے معاشرہ کو پستی اور تنزل سے ہم کنار کر دیتے ہیں کیوں کہ کمزور افراد پر مضبوط معاشرہ کی تعمیر ممکن ہی نہیں۔*
*★_ اسلامی معاشرہ کی بنیادی خصوصیت اس کے افراد کے ایمان علم اور سیرت و کردار کی مثالیت ہے۔ اس معاشرہ میں ایمان کا رشتہ علم سے ، قدیم معاشرہ کی طرح کٹا ہوا نہیں بلکہ حد درجہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ بلکہ اسلامی معاشرہ کی بنیادی ایمان و علم کے جڑواں نظریہ پر ڈالی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ پر جو وحی نازل ہوئی وہ علم و ایمان کے اس مقدس و مستحکم رشتہ کا اعلان ہے، جس میں عرب کے نا خواندہ معاشرہ میں علم کی شمع روشن کی گئی ہے اور پہلی مرتبہ پڑھنے لکھنے اور علم حاصل کرنے کی اہمیت کا شعور پیدا کیا گیا ہے۔*
۔
*★_ اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ اسلام کے آنے کے وقت گنتی کے چند لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، جن کی تعداد ۲۴ سے زیادہ نہیں تھی۔ صرف ۲۳ سال کے اندر وہ کیسے دنیا کی علمی امامت کے منصب پر فائز ہو گئے، تو سراغ یہ ملے گا کہ علم اور تعلیم کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا اور بلا امتیاز و تخصیص معاشرہ کی ہر صنف اور ممبر کو زیور علم سے آراستہ کرنا نبی کریم ﷺ کے دعوتی مشن کا بنیادی حصہ ہے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ بعثت معلمہ میں اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ، تو گویا آپ علم کی وراثت کو سند اعتبار اور تحصیل علم کو انسانی معاشرہ کی شاہ کلید بنا دیتے ہیں ۔*
*★_ دنیا کے سارے مذاہب کا زور عبادت، ریاضت، مشقت اوراد و وظائف پر ہے، مگر تعلیمات نبوی کی خصوصیت یہ ہے کہ ان سب کے مقابلے میں علم کی فضیلت اور اہمیت کو محسوس کرایا گیا ہے۔ آن حضور ﷺ نے فرمایا کہ عبادت گزار پر عالم کی فضیلت دوسرے ستاروں پر چودھویں کے چاند جیسی ہے ۔ (ابودا و ترمندی )*
*★_ دنیا کے دوسرے مذاہب نے علم کو مردوں کی میراث بنا کر پیش کیا ہے کیوںکہ ان کی نظر میں عورت کسب فضیلت اور کمال کی مستحق نہیں۔ مگر اسلام نے علم کی روشنی کو مرد عورت ہر دو کے قلب و ذہن تک پہنچایا ہے اور حصول علم میں مرد و عورت کی تخصیص کو تسلیم نہیں کیا ہے، بلکہ مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : طلب العلم فريضة على كل مسلم و مسلمه (ابن ماجه کتاب العلم) یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے،*
*★_ عہد نبوی ﷺ کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالئے۔ یہاں تعلیم کے مختلف طریقے اور وسیلے اختیار کیے گئے ہیں اور مرد وعورت دونوں کو یکساں استفادہ کا موقع عطا کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے جو طریقے اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے اختیار فرمائے ان میں ابلاغ و ترسیل کے نقطہ نظر سے اہم یہ ہیں:-*
*★_ مسجد نبوی میں نمازوں کے بعد تعلیم و تلقین، اس میں مرد وعورت سبھی شریک ہوتے تھے۔ جمعہ، عیدین اور حج کے خطبات کے ذریعے عمومی تعلیم و تہذیب، اس میں بھی سبھی شریک ہوتے تھے۔*
*★_ مجلس خصوصی جو مسجد نبوی یا دوسرے مقامات پر مردوں کے لیے ہوتی تھی۔ ازواج مطہرات کی علمی مجلس جو خاص عورتوں کے لیے ہوتی تھی۔*
*"_ جنگ اور دوسرے ایسے اسفار جن میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک رہتیں، وہاں بھی عملی تعلیم کا موقع ملتا تھا۔ روزمرہ کے درپیش مسائل جو بلا تکلف نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کیے جاتے تھے اور نبی کریم ﷺ ان کے تفصیلی اور تشفی بخش جوابات عطا فرماتے تھے۔*
*★_ عورتوں کی تعلیم کے لیے نبی ﷺ کی خصوصی مجلسیں، یہ عورتوں کی درخواست پر خاص ان کے لیے مقرر کی جاتیں۔ نبی ﷺ کا اپنی ازواج مطہرات کو خاص تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمانا تاکہ ان سے دوسری خواتین تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں،*
*"_بیعت کے مواقع جن میں آپ عورتوں سے اصول دین پر بیعت لیتے اور ان کو بنیادی احکامات سے نوازتے وغیرہ۔*
*★_ نبی کریم ﷺ کے خطبات اور مواعظ کا جو اثر صحابہ کرام پر ہوتا تھا، صحابیات اس سے محروم نہ رہتیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ عید کے موقع پر حضرت بلال کے ساتھ نکلے۔ آپ کو یہ خیال گزرا کہ آپ کا خطاب خواتین اچھی طرح نہ سن سکیں۔ لہذا آپ نے از سرنو ان کو خطاب کیا اور ان کو صدقہ کا حکم دیا، چنانچہ عورتیں اپنے پازیب اور انگوٹھیاں صدقہ کرنے لگیں اور بلال اپنے کپڑے میں ان صدقات کو سمیٹنے لگے_, ( بخاری )*
*★_ روز مرہ کے پیش آنے والے مسائل میں عورتیں اپنی مشکلات لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس جاتیں اور اپنے سوالات کا جواب حاصل کرتیں، عورتوں کے بعض سوالات ایسے بھی ہوتے جن میں براہ راست اللہ تعالی اپنی آیات نازل کر کے رہنمائی فرماتے، مثال کے طور پر خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر اوس کی شکایت کی اور ان کے جواب میں سورۃ المجادلہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، جن سے متعلقہ مسئلہ میں ہمارے مسلمانوں کی رہنمائی ہوئی۔*
*★_ عورتوں کے بعض سوالات طبعی طور پر ان کی نسوانی ضروریات اور مشکلات سے متعلق ہوتے، مگر علم کی فرضیت کا احساس ان کی شرم وحیا پر حاوی ہوتا اور وہ نبی کریم ﷺ سے سارے سوالات کرتیں_,*
*★_ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ حق بیان کرنے میں حیا نہیں کرتا، تو کیا عورت کو اگر احتلام ہو تو اس پر غسل کرنا لازم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں اگر وہ پانی دیکھے، تو ام سلمہ نے اپنا چہرہ ڈھانک لیا اور پوچھا اے اللہ کے رسول کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اگر ایسا نہ ہو تو اس سے بچہ کی مشابہت کس طرح ہوتی ہے؟ ( بخاری )*
*★__ عہد نبوی کی عورتیں، بالخصوص انصاری خواتین ۔ نبی ﷺ سے ہر قسم کی بات پوچھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔ یہ کمال تھا نبی عربی ﷺ کا کہ آپ نے شرم و حیا اور غیرت کو علم سے وابستہ کر دیا تھا۔ گویا علم حاصل کرنا ہی عورتوں کا زیور قرار پاتا، اسی سے شرم و حیا کی دولت وابستہ ہوئی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انصار کی عورتوں کی تعریف کرتی تھیں کہ بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں۔ ان کیلئے دین کا علم حاصل کرنے میں حیا رکاوٹ نہیں بنتی ۔ (ایضا)*
*★_ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب رسول کریم ﷺ سے کوئی بات سنتیں تو جب تک اس کی جملہ تفصیل نہ سمجھ لیتیں خاموش نہ ہوتیں۔ صحیح احادیث میں حضرت عائشہ کے استغفار کے بہت سے واقعات مذکور ہیں۔*
*★_تعلیمات نبوی کی وہ مجلسیں جہاں عورتیں پچھلے حصہ میں موجود ہوتیں، فطری طور پر مردوں کے غلبہ کی وجہ سے بہت سی باتوں کی تفصیل، وضاحت اور تشریح کی محتاج رہتیں ان کی خواہش ہوتی کہ نبی ﷺ مردوں سے الگ ہو کر کوئی خاص وقت ہمارے لیے مقرر فرماتے جس میں ہم آپ سے پورے طور پر اطمینان سے دین کی تعلیم حاصل کرتے۔*
*★ چنانچہ (بہ روایت حضرت ابوسعید خدری) عورتوں نے مل کر نبی ﷺ سے یہ درخواست کی، آپ کے پاس مرد ہم پر سبقت لے جاتے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ایک دن ہمارے لیے مقرر فرما دیں، چنانچہ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرمالیا۔ آپ اس دن عورتوں سے ملاقات کرتے، ان کو وعظ ونصیحت کرتے اور ان کو احکام عطا فرماتے ۔ ( بخاری )*
*★_ نبی کریم ﷺ ازواج مطہرات کی خصوصی تعلیم و تربیت فرماتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی ازواج مطہرات کی خصوصی تعلیم وتربیت پر زور دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو عام عورتوں سے ممتاز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ "_اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے گندگی کو دور کر دے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے اور یاد کرو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں _,*
*★_ نبی کریم ﷺ اپنے معمولات اور سیرت کی عملی تعلیم کے علاوہ بھی ازواج مطہرات کے تزکیہ اور تربیت کے لیے بعض طریقے اختیار فرماتے ۔ مثلاً کبھی کبھی آپ رات کو ازواج مطہرات کو یہ کہہ کر جگاتے اور ان کو رات کی عبادت اور فکر آخرت کی تعلیم دیتے۔ ایک مرتبہ آپ نے ازواج مطہرات کو یہ کہہ کر جگایا، اے حجرہ والیوں اٹھو ! بہت سی خوش لباس عورتیں قیامت میں برہنہ ہوں گی۔ ( بخاری )*
*★_ یعنی جو دنیا میں بظاہر لباس میں ہیں مگر ایمان و عمل صالح سے خالی ہیں وہ آخرت میں اللہ کے غضب میں ہوں گی، یہ تربیت اس لیے بھی ضروری تھی کہ ازواج مطہرات کو دوسری عورتوں کے لیے نمونہ اور معلمہ بننا تھا۔ معلم کو مثالی اور آئیڈل ہونا چاہئے۔*
*★_ اسلام پر قائم اور اللہ کے فرمان کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے رسول اللہ مرد و عورت دونوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ عورتوں سے جن باتوں پر بیعت لیا کرتے تھے وہ قرآن میں اس طرح مذکور ہے۔*
*"_اے نبی جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی ، اپنے سامنے کوئی بہتان گڑھ کر نہ لائیں گی اور معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرو۔ بے شک اللہ درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔*
*★_ مذکورہ طریقے وہ تھے جن میں خواتین کو براہ راست نبی ﷺ سے استفادہ اور علم حاصل کرنے کا موقع ملتا۔ ان کے علاوہ صحابہ کرام کو یہ حکم تھا کہ وہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور باندیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں۔ ان کو دینی احکام سے غافل اور اسلامی تعلیم سے جاہل نہ رہنے دیں۔*
*★_ آپ ﷺ نے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ فرمائی۔ عرب کے معاشرہ میں لڑکیوں کو حقارت سے دیکھنا اور ان سے بدسلوکی کرنا عام تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس صورت حال کو تبدیل کرنے پر بہت زور دیا۔*
*"_ بہ روایت ابو سعید خدری رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو ادب سکھایا، ان پر رحم کیا اور ان سے حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے ۔ (مسند احمد )*
*★_قابل ذکر بات یہ ہے کہ لڑکوں کی تعلیم و تربیت اور ان سے حسن سلوک پر بھی یکساں اجر ہے، مگر آپ نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت سنائی۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ایک لڑکے کی تعلیم محض ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک لڑکی کی تعلیم ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک خاندان کی تعلیم ہے۔ کیوںکہ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں کی گود سے جڑی ہوئی ہے۔ ماں اگر جاہل ہو تو بچے پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔*
*★_ اس انقلابی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ عورتیں اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تشکیل اور اسلامی علوم کی اشاعت و ترویج میں برابر کا کردار ادا کرنے لگیں ۔ اسلامی معاشرہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور دنیا کی علمی امامت جس سے عزت و اقتدار واحترام سبھی کچھ وابستہ ہے مسلمانوں کے ہاتھ آگئی ۔*
*★_ عورتوں کا علم و فہم اس درجہ قابل رشک اور معتبر بن گیا کہ وہ بسا اوقات علما, امرا، اور خلفا کو مشورہ سے نوازتیں، ان کی غلطیوں کی اصلاح کرتیں اور ان کو راہ عمل دکھاتیں۔ مشکلات میں ان کی مدد کرتیں اور ان کو اجتماعی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں اپنا تعاون پیش کرتیں۔*
*★_ مثال کے طور پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے معمول کے مطابق ایک رات گشت لگا رہے تھے کہ ایک گھر سے کسی خاتون کی آواز سنائی دی۔ وہ اپنے شوہر کی جدائی میں یہ اشعار پڑ رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے سنا تو اپنی صاحب زادی زوجہ رسول حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا ایک عورت اپنے شوہر کی جدائی کتنے دنوں برداشت کر سکتی ہے تو انہوں نے جواب دیا چار یا چھ ماہ۔ تب حضرت عمر نے فیصلہ کیا کہ میں کسی بھی لشکر کو اس سے زیادہ نہیں روکوں گا ۔ (طبقات الشافعیہ )*
*★_ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی زوجہ رسول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہ صرف عام صحابہ دین کی تعلیم حاصل کرتے بلکہ وہ اپنی سماجی اور سیاسی معاملات میں بھی صحابہ کرام کی رہنمائی بھی فرماتیں۔ بہت سے جلیل القدر صحابہ کی علمی دینی اور سماجی اصلاحات بھی انہوں نے کیں۔ بہت سی غلط فہمیاں جو علمی لحاظ سے نقصان دہ تھیں ان کو دور کرنے کا سہرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سر رہا ہے۔*
*★_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمی دینی اصلاحات کا تذکرہ مختلف کتب حدیث میں لکھا اور بکھرا ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم نبوی نے ان خواتین کو کس قدر علم و فہم میں مستحکم بنا دیا تھا کہ جن مسائل کی کنہ تک صحابہ کرام نہ پہنچ سکے وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہنمائی کام آئی ۔*
*★_ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی حدیث مشکل معلوم ہوتی تو ہم حضرت عائشہ سے پوچھتے اور ان کو اس کا علم ہوتا ۔ (موطا امام مالک تعلیم ص ۹۵۴)*
*★_ اسی طرح دوسری صحابیات کی عقل و فہم اور اصابت رائے سے صحابہ کرام کے استفادہ کا تذکرہ ملتا ہے، ازواج نبی کے علاوہ شفا بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا جن سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشورہ لیتے اور عمرہ بنت فاطمہ جن کے گھر حضرت عمر کی شہادت کے وقت خلیفہ کے انتخاب کے لیے مجلس شوری بیٹھی، خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔*
*★_غرض کہ عہد نبوی ﷺ میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا نظام مردوں سے کچھ کم نہ تھا، نہ مواقع کم تھے اور نہ تعلیم کے معیار و مقدار میں کوئی کمی برتی گئی ۔ اس زمانے میں با قاعدہ مدرسہ کا رواج نہ تھا۔ اگر مردوں کے لیے کوئی مدرسہ قائم کیا جاتا تو نبی رحمت لازماً عورتوں کے لیے الگ مدرسہ قائم کرتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر صفہ مسجد نبوی میں مردوں کی درس گاہ تھی تو نبی عربی ﷺ کا گھر عورتوں کی درس گاہ تھی،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ عورت کا اپنے سر کے بالوں کو کوہان نما بنانا :-*
*★_ عورت کے لیے بالوں کو جمع کر کے سر کے اوپر کوہان نما جوڑا باندھنا جائز نہیں ہے، حدیث مبارک میں اس پر وعید وارد ہوئی ہے کہ ایسی عورت کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہیں ہوگی۔ تاہم اگر کسی نے اس طرح جوڑا بنایا اور نماز کی حالت میں وہ بال ڈھکے ہوئے تھے تو نماز کا فرض ادا ہو جائے گا، اور اگر چوتھائی حصہ سے زیادہ بال کھلے ہوئے ہوں تو نماز ہی نہیں ہوگی،*
*★_ چنانچہ مشکوۃ شریف میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا ( اور نہ میں دیکھوں گا ) ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی مانند کوڑے ہوں گے جس سے وہ (لوگوں کو ناحق ) ماریں گے اور دوسرا گروہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی مگر حقیقت میں ننگی ہوں گی ، وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ملتے ہوں گے، ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی حالانکہ جنت کی بو اتنی اتنی ( یعنی مثلاً سو برس ) دوری سے آتی ہے۔ (مسلم)*
*★_ اس حدیث کی تشریح میں صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں کہ ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ملتے ہوں گے“ سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی چوٹیوں کو جوڑے کی صورت میں سر پر باندھ لیتی ہیں،*
*★_ اس حدیث میں عورتوں کے جس خاص طبقہ کی نشان دہی کی گئی ہے اس کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں نہیں تھا، بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے زمانہ میں اس قسم کے عورتوں کی پیدا ہونے کی خبر دی،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ کونسی عورت اچھی ہے؟*
*★_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی عورت بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ عورت جب خاوند اس کی طرف نظر اٹھائے تو خاوند کو خوش کر دے، جب وہ کوئی حکم دے تو اس کا حکم بجا لائے، اپنی ذات اور خاوند کے مال میں خاوند کی مرضی کے خلاف ایسا کام نہ کرے جو اس کے خاوند کو نا پسند ہو_, (نسائی)*
*★_ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی اہلیہ محترمہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت گئی جب انکے والد حضرت ابوسفیان بن حرب کا انتقال ہوا تھا۔ حضرت ام حبیبہ نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق یا کسی اور چیز کی ملاوٹ کی وجہ سے زردی تھی اس میں سے کچھ خوشبو لونڈی کو لگائی، پھر اسے اپنے رخساروں پر مل لیا،*
*★_ اس کے بعد فرمایا: اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو کے استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بات صرف یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو عورت اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوائے شوہر کے (کہ اسکا سوگ ) چار مہینے دس دن ہے_, (بخاری )*
*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس کے شوہر کا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کی ماں کا ہے_, (مستدرک حاکم)*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی کوتاہیوں سے درگزر کا حکم دیا:-*
*★_ نہ صرف یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاؤ کا حکم دیا ؛ بلکہ اس کی کمی کمزوری اور خاص مزاجی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکالیف کو درگزر کرنے کی بھی تاکید فرمائی،*
*★_اس کو اللہ عز وجل نے یوں فرمایا :-*
*"_وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَإِنْ كَرِهُتُمُوهُنَّ شَيْئاً فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلُ اللهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً - (النساء : ١٩)*
*"_(ترجمہ ) اور ان عورتوں کے ساتھ حسن و خوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز نا پسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے۔*
*★_ اس کو ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت کو اس لیے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت ناگوار خاطر ہے؛ اس لیے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی دوسری عادت پسند آ جائے۔ (مسلم : باب الوصیہ بالنساء، حدیث: ١٤٦٩)*
*★_ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کر اس کے ساتھ رحم و کرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا ؛ اس کو قعر مذلت سے نکال کر عزت و وقار کا تاج پہنایا ، ماں، بہو، ساس، بیوی وغیرہ کی شکل میں اس کے حقوق عنایت کیے، اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا ، اس کی پرورش و پرداخت اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کو جنت کا وسیلہ اور ذریعہ فرمایا، یہ صنف نازک کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز و عمل تھا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨_آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ فرمائی اور فضیلت بیان فرمائی:-*
*★_ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحم و کرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا؛ بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین برتاؤ کا حکم کیا، قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں ں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی پیدائش کو باعث تنگ و عار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید نے خود اس کی منظر کشی کی ہے۔*
*"_ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾ ( سورة انحل : ۵۸)*
*"_جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا, لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب سے جو اسے دی گئی ،*
*★_آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف عورت کو جینے کا حق دیا اور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا کیا ؛ بلکہ عورت کے وجود کو خیر و برکت کا باعث اور نزول رحمت کا ذریعہ اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخول جنت کا ذریعہ بتایا۔*
*★_حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں ، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں یا یہ ان کے پاس رہے اور وہ ان میں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرا دیں گی ۔ ( ابن حبان : باب ما جاء في الصبر والثواب ، حدیث : ۲۹۳۵)*
*★_حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ۔ یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا_, ( ترمذی: باب ما جاء فی النفقه على البنات والاخوات ، حدیث : ۱۹۱۴)*
*★_ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ان بیٹیوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی۔ (بخاری: باب رحمۃ الولد، حدیث: ۵۹۹۵)*
╥────────────────────❥
*⊙⇨قرآن پاک میں عورتوں کی اصلاح پر بھی بہت زور دیا گیا ہے:-*
*★_ جس طرح نان نفقہ کے ذریعہ سے بیوی اور اولاد اور متعلقین کی جسمانی تربیت ضروری ہے اسی طرح علوم اور اصلاح کے طریقوں سے ان کی روحانی تربیت اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اس میں بھی قسم قسم کی کوتاہیاں کی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کو ضروری ہی نہیں سمجھتے یعنی اپنے گھر والوں کو نہ کبھی دین کی بات بتلاتے ہیں نہ کسی برے کام پر ان کو روک ٹوک کرتے ہیں ۔ بس ان کا حق صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ ان کو ضروریات کے مطابق خرچ دے دیا اور سبکدوش ہو گئے ۔*
*★_ حالانکہ قرآن مجید میں نص صریح ہے۔*
*"_ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً _,*
*"_اے ایمان والو اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔*
*"_اس کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو بھلائی یعنی دین کی باتیں سکھلاؤ۔ (حاکم)*
*★_ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی بیوی بچوں کو دین کی باتیں سکھلا نا فرض ہے ورنہ انجام دوزخ ہوگا۔ اور حدیث صحیح میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ (كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَن رَعِيَّتِهِ ) تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے قیامت کے روز ہر ایک سے اسکے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (اصلاح انقلاب ص ۱۹۵ ج ۲۳ حیاۃ المسلمین ص ۷۱ )*
*★_ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ گھر والوں کو اللہ سے ڈراتے رہو اور تنبیہ کے واسطے ان سے ڈنڈے کو ختم نہ کردو۔**
╥────────────────────❥
*⊙⇨ عورتیں اپنے اخلاق کی اصلاح ضرور کریں:-*
*★_ ہماری عورتوں کے اخلاق نہایت خراب ہیں۔ ان کو اپنی اصلاح کرانا نہایت ضروری ہے۔ اور یاد رکھو بغیر اخلاق کے درست ہوئے عبادت اور وظیفہ کچھ کار آمد نہیں۔*
*★_ حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ فلانی عورت بہت عبادت کرتی ہے۔ راتوں کو جاگتی ہے لیکن اپنے ہمسایوں ( پڑوسیوں ) کو ستاتی ہے فرما یا هي في النار کہ وہ دوزخ میں جائے گی ۔ اور ایک دوسری عورت کی نسبت عرض کیا گیا کہ وہ زیادہ عبادت نہیں کرتی مگر ہمسایوں سے حسن سلوک کرتی ہے فرما یا هی في الجنَّةِ کہ وہ جنت میں جائے گی ۔*
*★_ مگر ہماری عورتوں کا سرمایہ بزرگی آج کل تسبیح اور وظیفہ پڑھنا رہ گیا۔ اخلاق کی طرف بالکل تو جہ نہیں ۔ حالانکہ اگر دین کا ایک جز بھی کم ہوگا تو دین نا تمام ( ناقص ) ہوگا۔*
*®_(اصلاح انقلاب اصلاح النساء ملحقه حقوق الزوجین ص -۱۹۴)*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ عورتوں کی اصلاح و تربیت کیوں ضروری ہے؟*
*★_ اولاد کی اصلاح کے لئے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام نہایت ضروری ہے کیونکہ عورتوں کی اصلاح نہ ہونے کا اثر مردوں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ بچے اکثر ماؤں کی گود میں پلتے ہیں اور ان پر ماؤں کے اخلاق و عادات کا بڑا اثر ہوتا ہے حتیٰ کہ حکماء کا قول ہے کہ جس عمر میں بچہ اگرچہ بات نہ کر سکے مگر اس کے دماغ میں ہر بات ہر فعل منقش ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس کے سامنے کوئی بات بے جا اور نازیبا نہ کرنی چاہئے۔*
*★_بلکہ بعض حکماء نے یہ لکھا ہے کہ بچہ جس وقت ماں کے پیٹ میں جنین ہوتا ہے اس وقت بھی ماں کے افعال کا اثر اس پر پڑتا ہے۔ اس لئے لڑکیوں کی تعلیم و اصلاح زیادہ ضروری ہے۔*
*★_ بعض لوگ تعلیم کو تو سب کے لئے ضروری سمجھتے ہیں مگر تربیت کو سب کے لئے ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی اہم ہے_ تعلیم سے مقصود ہی تربیت ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کرنے کی اور ضروری نہ سمجھنے کی تو کسی حال میں گنجائش نہیں ۔*
*★_ زوجین ( میاں بیوی ) کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ ہر وقت کا سابقہ رہتا ہے اور مرد اپنی مصلحتوں کی وجہ سے قطع تعلق ( یعنی اس کو چھوڑنا ) پسند نہیں کرتا ۔ اور نہ عورتوں کی جہالت کو برداشت کرتا ہے تو یہاں ہمیشہ کے لئے لڑائی جھگڑا کی بنیاد قائم ہو جاتی ہے جس کے نتائج دونوں کے حق میں برے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور دونوں کی زندگی موت سے بھی تلخ ( بدمزہ ) ہو جاتی ہے۔*
*★_ اور ان سب کا سبب وہی شروع میں اصلاح کی طرف توجہ نہ کرنا ہے۔ لیکن اگر ایسا اتفاق ہو گیا تو یہ نہیں کہ ان لوگوں کو مل چھوڑ دیا جائے ۔ بلکہ جب بھی قدرت ہو تب ہی اس کی سعی ( کوشش ) کرنا ضروری ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ماں باپ یا پرورش کرنے والوں کے ذمہ بچوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہوئی۔ اور شوہر کے ذمہ بیبیوں کی ۔*
*®_ (اصلاح انقلاب ص ۲۰۱ ج ۲)*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ عورت قناعت نہیں رکھتی اسلئے پریشان رہتی ہے:-*
*★_ مجھ کو عورتوں کی غفلت سے شکایت ہے کہ افسوس ان کو دنیا کی تکمیل کا خیال ہے، دین کی تکمیل کا قطعاً خیال نہیں، میرا مقصود یہ ہے کہ عورتوں کو دین کی تکمیل سے بھی غافل نہ ہونا چاہئے جیسا کہ ان کو اپنے زیور کپڑے اور مکان کی ضروریات کی تکمیل سے کسی وقت بھی غفلت نہیں ہوتی اور وقتاً فوقتاً مردوں سے اس کے متعلق فرمائشیں کرتی رہتی ہیں۔ اور اگر مرد کسی وقت کسی فرمائش کو غیر ضروری بتلاتے ہیں، برتنوں اور مکان کی ضرورتوں کے متعلق اختلاف ہونے لگتا ہے،*
*★_ مرد یوں کہتے ہیں کہ ان چیزوں کی ضرورت نہیں اور مستورات کے نزدیک ان کی ضرورت ہو تو ایسے موقع پر عورتیں کہہ دیا کرتی ہیں کہ تم کو ان چیزوں کی کیا خبر تم کو تھوڑی گھر میں ہر وقت رہنا ہے اس کو تو ہم ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ اور بعض عورتوں کا تو یہ کہنا صیح بھی ہوتا ہے کیونکہ واقعی مردوں کو ان ضرورتوں کا پوری طرح علم نہیں ہوتا۔*.
*★_ اور بعض اوقات اس اختلاف کا سبب یہ ہوتا ہے کہ مردوں میں قناعت کا مادہ عورتوں سے زیادہ ہے۔ مرد تھوڑے سے سامان میں بھی گذر کر لیتا ہے ۔ اور عورتوں میں قناعت کا مادہ ہے ہی نہیں ان کی طبیعت میں بکھیڑا بہت ہے۔ ان سے تھوڑے سامان میں گذر ہوتا ہی نہیں جب تک سارا گھر سامان سے بھر ابھر انظر نہ آئے۔*
*★_ میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تکمیل کا تو اس قدر خیال کہ تھوڑے پر قناعت نہیں ہوتی مردوں سے اختلاف ہونے لگتا ہے دین کی تکمیل کا اس قدر خیال کیوں نہیں اس میں کیوں تھوڑے پر قناعت کر لی جاتی ہے۔*
*®_ (الکمال فی الدین النا س ۷۴)*
╥────────────────────❥
*⊙_ عورتوں کی اصلاح کی ذمہ داری مردوں پر ہے:-*
*★_ مرد اپنی بیویوں کی تو شکایتیں کرتے ہیں کہ ایسی بد تمیز اور ایسی جاہل ہیں مگر وہ اپنے گریبان میں منھ ڈال کر تو دیکھیں کہ انہوں نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔ عورتوں کی تو خطا ہے ہی مگر ان کی بے تمیزی میں مردوں کی بھی خطا ہے کہ یہ ان کے دین کی درستی کا اہتمام نہیں کرتے اور ان کے دینی حقوق کو تلف کرتے ہیں ۔*
*★_ہم بیبیوں کی شکایت تو کرتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے بیبیوں کا کون ساحق ادا کیا ہے ۔ چنانچہ ان کا ایک حق یہ تھا کہ ان کے دین کا خیال کرتے۔ ان کو احکام الہیہ بتلاتے ۔ دوسرا حق یہ تھا کہ معاشرت میں ان کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کرتے باندیوں اور نوکروں کا سا برتاؤ نہ کرتے مگر ہم نے سب حقوق ضائع کر دیے،*
"*★_ افسوس ہم دنیوی حقوق تو ادا کیا کرتے ہیں، دینی حقوق پر ہی ہم کو توجہ نہیں۔ چنانچہ نہ بیوی کی نماز پر توجہ ہے نہ روزہ پر، ان باتوں کو ان کے کانوں میں ڈالتے ہی نہیں۔ یاد رکھو قیامت میں تم سے باز پرس ہو گی کہ تم نے بیوی بچوں کو دیندار بنانے کی کتنی کوشش کی تھی۔*
*★_ عورتوں کو بھی دیندار بناؤ ورنہ متقی ہو کر بھی تم انہیں کے ساتھ جہنم میں جاؤ گے، عورتوں کو دیندار بنانا اور ان کی اصلاح کرنا مردوں کے ذمہ ہے، اگر وہ اس میں کوتاہی کریں گے ان سے بھی مواخذہ ہوگا۔ کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوانْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا -*
*"_اے مسلمانو! اپنی جانوں کو بھی جہنم سے بچاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی۔*
*★_ متقی بن جانا قیامت میں عذاب سے نجات کے لئے کافی نہ ہوگا اگر کوئی مرد خود متقی بن جائے اور اپنے گھر والوں کے دین کی خبر نہ لے تو خدا تعالیٰ اس کی عورتوں کے ساتھ اس کو بھی جہنم میں بھیج دیں گے۔ تنہا اس کا متقی بن جانا قیامت میں عذاب سے نجات کیلئے کافی نہ ہوگا ۔*
*★_گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کا مطلب یہ ہی ہے کہ ان کو تنبیہ کرو، بعض لوگ بتلا تو دیتے ہیں مگر ڈھیل چھوڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ دس دفعہ تو کہہ دیا نہ مانے تو ہم کیا کریں، سچ تو یہ ہے کہ مردوں نے بھی دین کی ضرورت کو ضرورت نہیں سمجھا, کھانا ضروری فیشن ضروری، مگر غیر ضروری سمجھا ہے تو دین کو۔*
*®_ ( اصلاح انقلاب ص ۲۰۲، ج ۲)*
╥────────────────────❥
*⊙__زکوۃ کے متعلق عورتوں کی غلطی اور اس پر اللہ کی ناراضگی:-*
*★_ جس عورت کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوۃ نہ نکالتی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بڑی گنہ گار ہے۔ قیامت کے دن اس پر بڑا سخت عذاب ہو گا،*
*★_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں اور میری خالہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ ہم سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے، آپ نے ہم سے پوچھا کیا تم ان کی زکوۃ دیتی ہو؟ ہم نے عرض کیا نہیں ! آپ نے فرمایا- کیا تم کو اس سے ڈر نہیں لگتا کہ تم کو اللہ تعالی آگ کے کنگن پہنائے ؟ اس کی زکوۃ ادا کیا کرو ۔ ( بہشتی زیورس ۳۲۲ حیوۃ المسلمین )*
*★_ اور نبی علیہ السلام نے فرمایا جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ نہ ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال ایک بڑے زہر یلے گنجے سانپ کی شکل کا بنا دیا جائے گا اور اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا, وہ اس کی گردن میں لپٹ جائے گا پھر اس کے دونوں جبڑے نوچے گا اور کہے گا میں ہی تیرا مال ہوں اور میں ہی تیرا خزانہ ہوں_, ( صحیح بخاری),*
*★_ خدا کی پناہ بھلا اتنے عذاب کی کون سہار برداشت کر سکتا ہے، تھوڑے سے لالچ کے بدلے یہ مصیبت بھگتنا بڑی وقوفی کی بات ہے۔ خدا ہی کی دی ہوئی دولت کو خدا کی راہ میں نہ دینا کتنی بے جابات ہے*
╥────────────────────❥
*⊙_ اے عورتو! زیور کی زکوٰۃ تم پر فرض ہے:-*
*★_ زکوۃ میں عورتیں بہت سستی کرتی ہیں کہ اپنے زیوروں کی زکوۃ نہیں دیتیں ۔ یا د رکھو ! جتنا زیور عورت کو جہیز میں ملتا ہے وہ اس کی ملک ہے اس کی زکوۃ دینا اس پر واجب ہے اور جو زیور شوہر کے گھر سے ملتا ہے اگر وہ اس نے اس کی ملک کر دیا ہے تو اس کی زکوۃ بھی اس پر واجب ہے۔ اور اگر ملک نہیں کیا ( یعنی ان کو مالک نہیں بنایا بلکہ محض پہننے کے واسطے دیا ہے تو اس کی زکوۃ مردوں کے ذمہ واجب ہے۔ ہر سال اپنے زیور کا حساب کر کے جتنی زکوٰۃ اپنے ذمہ ہو فوراً ادا کر دینا چاہئے ۔ اس میں سستی کرنے سے گناہ ہوتا ہے۔*
*★_ دیکھو خدا تعالیٰ نے بہت سے غریبوں کو مال نہیں دیا حالانکہ اکثر غرباء کمالات میں تم سے بڑھے ہوئے ہیں کہ وہ نمازی بھی ہیں دیندار بھی ہیں پھر بھی جو ان کو خدا نے مال نہیں دیا اور تم کو دیا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ خدا نے امیروں ( مالداروں ) کو اسی واسطے مال دیا ہے کہ وہ غریبوں کو دیا کریں۔ کیونکہ ہر شخص اتنے ہی مال کا حقدار ہے جتنے کی اس کو ضرورت ہے،*
*★_ پھر جس کو خدا نے حاجت سے زیادہ مال دیا ہے وہ جمع کرنے کے واسطے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو دینے کے واسطے ہے جن کو بقدر حاجت بھی نہیں ملا۔ اور اس میں خدا تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں ہیں کہ وہ غریبوں کو امیروں کے ہاتھ سے دلوانا چاہتے ہیں, اس قاعدہ کا تو یہ مقتضی تھا کہ امیروں کو یہ حکم دیا جاتا کہ جتنا مال ان کی ضرورت سے زیادہ ہو سب غریبوں کو دیدیا کریں۔*
*★_ کیونکہ عقلاً وہ انہی کا حق ہے لیکن یہ خدا کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے سارا مال دینے کا حکم نہیں کیا۔ بلکہ صرف چالیسواں حصہ واجب کیا۔ پھر اس میں بھی کوتاہی کرنا بڑا ظلم ہے۔*
*®_ (الکمال فی الدین ۱۰۷)*
╥────────────────────❥
*⊙__ زکوۃ سے تمہیں دینی و دنیوی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے:-*
*★_ مسلمانوں کی زیادہ تر ظاہری و باطنی پریشانی کا سبب افلاس ( تنگدستی ) ہے ۔ اور زکوۃ اس کا کافی علاج ہے۔ اگر مالدار فضول خرچی نہ کریں اور ہٹے کٹے ( لوگ ) محنت مزدوری کرتے رہیں اور معذور لوگوں کی زکوٰۃ سے امداد ہوتی رہے تو مسلمانوں میں ایک بھی ننگا بھوکا نہ رہے، سب سے زیادہ زکوٰۃ کے حقدار اپنے غریب رشتہ دار ہیں خواہ بستی میں ہوں یا دوسری جگہ ۔ ان کے بعد اپنی بستی کے دوسرے غریب۔ لیکن اگر دوسری بستی کے لوگ زیادہ غریب ہوں تو پھر ان ہی کا حق زیادہ ہے۔*
*★_ افسوس کی بات ہے کہ اکثر عورتوں کی عادت زکوٰۃ نہ دینے کی ہو چکی ہے، اکثر عورتیں زکوۃ نہیں دیتیں کیونکہ روپیہ خرچ ہوگا۔ بعض دفعہ زیور کی زکوٰۃ نہ مرد دیتا ہے نہ عورت، مرد کہتا ہے کہ زیور عورت کا ہے اور عورت کہہ دیتی ہے کہ زیور مرد کا ہے میں کیوں زکوٰۃ دوں۔ جس کا مال ہے خود دے۔ مگر اس بہانے سے خدا کے یہاں سے نہیں چھوٹ سکتے آخر دونوں میں کسی کا تو ہے ہی۔ بس اس کے ذمہ زکوۃ ہے۔*
*★_ اور اگر دونوں کا ہے تو ہر ایک اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ ادا کرے۔ اور اگر واقعی نہ اس کا ہے نہ اس کا تو پھر یہ مال خدا کا ہے، اس کو وقف کے مصارف میں کسی مسجد یا مدرسہ میں لگا دینا چاہئے، یا غریبوں کو بانٹ دینا چاہئے۔*
*®_ (حیواة لمسلمین ص ۲۱۵۰ اسباب انطله ص ۸۴ مه لحقه دین و دنیا)*
╥────────────────────❥
*⊙___اے عورتو! اپنے ان عیوب کو ختم کر لو تا کہ دیندار بن جاؤ:-*
*★_ زیادہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے اندر کچھ امراض بھی ہیں یا نہیں، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگوں میں دو مرض بکثرت پائے جاتے ہیں ایک مال کی محبت اور عزت اور بڑا بنے کا شوق، گو دونوں کا رنگ مردوں اور عورتوں میں مختلف ہے، مردوں میں حب جاہ اس رنگ سے ہے کہ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں۔ اور عورتیں اپنے کو بڑا تو نہیں سمجھتیں مگر اپنے کو بڑا ظاہر کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی باتیں اور ایسے طریقے اختیار کرتی ہیں کہ جن ۔ سے ان کا بڑا ہونا دوسرے پر ظاہر ہو۔*
*★_ اسی طرح مال کی محبت کے رنگ میں بھی دونوں مختلف ہیں۔ مردوں کو روپیوں سے زیادہ محبت ہے اور کسی چیز سے اتنی نہیں اس واسطے اس کے جوڑنے اور جمع کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور عورتوں کو زیور اور کپڑے اور برتن وغیرہ خانگی ( گھریلو ) سامان سے محبت زیادہ ہوتی ہے کہ رنگ برنگ کے کپڑے، قسم قسم کے برتن، مختلف قسم کے زیور ہوں۔*
*★_ مرد تو کپڑوں میں پیوند تک لگا لیتے ہیں مگر عورتیں ہیں کہ ان کو نئے کپڑوں بھرے صندوق بھی کافی نہیں ہوتے ۔ چاہتی ہیں کہ کپڑوں سے گھر بھر لیں ۔ عورت غریب کی بھی ہوگی تو اپنے کو ایسا بنائے گی کہ گویا بالکل امیر کی لڑکی یا کسی بڑے آدمی کی بیوی ہے۔ اور یہ سب ساز و سامان اور سجاوٹ شوہر کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کو دکھانے کی غرض سے ہوتا ہے،*.
*★_ حالانکہ آپس میں خاندان والوں کو ایک دوسرے کا حال معلوم ہی ہوتا ہے، کہ اس کی اتنی حیثیت ہے اور اس کی اتنی، پھر دکھانے سے کیا فائدہ، حالانکہ یہ محض نا سمجھی کی بات ہے، یہ مانا کہ عورتوں کے لئے زینت مناسب ہے مگر اس میں اعتدال (حد) سے آگے تو نہ ہو۔*
╥────────────────────❥
*⊙__ حرص کا مرض سارے گناہوں کی جڑ ہے:-*
*★_ حرص تمام بیماریوں کی جڑ ہے اور یہ مرض عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے اور یہ ایسا مرض ہے کہ اس کو ام الامراض ( تمام گناہوں کی جڑ ) کہنا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ سے جھگڑے فساد ہوتے ہیں اسی وجہ سے مقدمہ بازیاں ہوتی ہیں، اگر لوگوں میں مال کی حرص نہ ہو تو کوئی کسی کا حق نہ دبائے۔ پھر ان فسادات کی بھی نوبت نہ آئے ۔ بدکاری اور چوری وغیرہ کا سبب بھی حرص ہی ہے۔*
*★_ عارفین کا قول ہے کہ تمام اخلاق رذیلہ کی جڑ تکبر ہے اور تکبر کا سبب بھی ایک درجہ میں حرص ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ بھی حرص کا ایک فرد ہے۔ نا اتفاقی کا سبب بھی حرص ہے اور فخر کرنے کا سبب بھی یہی حرص ہے کیونکہ مال و دولت کا دکھانا مال جمع کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ اور مال جمع ہوتا ہے حرص سے، تو حرص کا ام الامراض اور تمام گناہوں کی بنیاد ہونا ثابت ہو گیا۔*
*★_ حدیث پاک میں آیا ہے ۔ حب الدُّنْيَا رَاسُ كُلِّ خَطِيئَة یعنی دنیا کی محبت تمام گناہوں کی بنیاد ہے۔ دنیا کی محبت ہی کا نام تو حرص ہے، اور عورتوں میں یہ مرض مردوں سے زیادہ ہے، ( علاج الحرص التبليغ ص ۳۴ ج ۳)*
╥────────────────────❥
*⊙___جب چار عورتیں جمع ہو جائیں تو صبح سے شام تک دنیا کا تذکرہ ہو گا لہذا گناہ بھی ہو ہی جائے گا _,*
*★_ عورتیں خود غور کر سکتی ہیں کہ ان کی مجلسوں میں سے کتنی مجلسیں ایسی ہیں جن میں دین کا ذکر ہوتا ہو۔ اور گو دنیا کا زیادہ تذکرہ کرنا بھی مباح ہے جب کہ معصیت کی کوئی بات ( غیبت چغلی وغیرہ) نہ کی جائے ۔ مگر اس مباح کی سرحد گناہ سے ملی ہوئی ہے، جو شخص دنیا کے تذکرہ کا مشغلہ زیادہ رکھے گا وہ ضرور گناہوں میں مبتلا ہوگا۔*
*★_ بزرگوں کا بھی یہی ارشاد ہے اور تجربہ بھی یہی بتلاتا ہے۔ اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ زیادہ طاعات میں مشغول رہے۔ مباحات میں بھی زیادہ انہماک نہ کرے۔ اس لئے دنیا کا زیادہ تذکرہ کرنا کہ ساری مجلس میں اول سے آخر تک یہی ذکر ہو یہ معصیت کا مقدمہ ( ذریعہ ) ضرور ہے ۔ اس کا منشاء ( سبب ) وہی دنیا کی محبت ہے جو سب عورتوں پر (عموماً) غالب ہے۔*
*★_ اس لئے عورتیں بہت کم دیندار ہوتی ہیں۔ اور جن بعض مقامات کی عورتوں میں دینداری ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ ان میں دنیا کی محبت کم ہے۔*
*® (ہم الآخرة ۵۲۸)*
╥────────────────────❥
*⊙__عورتوں میں شیخی کا مرض اور اس کا علاج :-*
*★_ شیخی کا مرض بھی عورتوں میں بہت ہے، شیخی مذموم اور ممنوع ہے اور یہ ذمیمہ یعنی شیخی بگھارنے کی بری عادت عورتوں کی گو یا فطرت میں داخل ہے۔ اٹھنے میں بیٹھنے میں بولنے میں چلنے میں، زیور میں تو ایسا اس کو اپنایا ہے کہ اس کی بنیاد ہی اس پر ہے۔*
*★_ شیخی اور تکبر ور یا کاری سے بچنے کی عمدہ تدبیر میں نے مردوں کو سکھلائی ہے گو عورتیں اس سے بہت خفا ہوتی ہیں مگر وہ شیخی کا علاج ہے ( بڑی اور سمجھدار عورتوں کو چاہئے کہ اس کا رواج ڈالیں) وہ ترکیب یہ ہے کہ عورتوں سے یہ تو مت کہو کہ آپس میں جمع نہ ہوں یہ تو ہونا مشکل ہے اور اس میں وہ معذور بھی ہیں، اس میں تو سختی نہ کرو مگر یہ کرو کہ کہیں جاتے وقت کپڑے نہ بدلنے دیا کرو۔ اس کے لئے مردانہ حکومت سے کام لو۔ اور جب کہیں جائیں تو سر پر کھڑے ہو کر مجبور کرو کہ کپڑے نہ بدلنے پائیں۔*
*★_ یہ عجیب بات ہے کہ گھر میں تو نوکرانیوں کی طرح رہیں اور باہر نکلنا ہو تو بن سنور کر بیگم صاحبہ بن جائیں۔ ہر چیز کی کوئی غرض اور غایت ہوتی ہے کوئی ان سے پوچھے کہ اچھے کپڑے پہنے کی غرض غایت کیا صرف غیروں ( اور دوسروں ) کو دکھانا ہے۔ تعجب ہے کہ جس کے واسطے یہ کپڑے بنے اور جس کے دام لگے اس کے سامنے تو کبھی نہ پہنے جائیں اور غیروں کے سامنے پہنے جائیں۔*
*★_ اور عورتیں بھی سن لیں کہ اگر کپڑے بالکل ہی میلے ہیں تو خیر بدل لو وہ بھی سادے ورنہ ہرگز نہ بدلو۔ سیدھے سادے کپڑوں میں مل آیا کرو۔ ملنے سے جو غرض ہے وہ اس صورت میں بھی حاصل ہوگی۔ اور اخلاق کی درستگی کے علاوہ ذرا کر کے دیکھو تو اس کے فوائد معلوم ہوں گے۔ اور اگر یہ خیال ہو کہ اس میں ہماری حقارت ہوگی تو ایک جواب تو اس کا یہ ہے کہ نفس کی تو حقارت ہوئی ہی چاہئے۔*
*★_اور دوسرا تسلی بخش جواب یہ ہے کہ جب ایک بستی کی بستی میں یہ رواج ہو جائے گا کہ سیدھی سادی طرح سے مل لیا کریں تو انگشت نمائی اور تحقیر بھی بند رہے گی,*
╥────────────────────❥
*⊙__ عورتوں کے تکبر اور حب دنیا کا علاج:-*
*★_ (1) عورتوں کو چاہئے کہ عمدہ کپڑا پہن کر کہیں نہ جائیں ۔ جہاں جائیں انہیں کپڑوں میں چلی جائیں جو پہلے سے پہنے ہوئے ہوں۔ اس طرح کرنے سے تکبر ٹوٹ جائے گا۔مگر ان کی حالت یہ ہے کہ جہاں جائیں گی لد بھد کر جائیں گی تاکہ شان ظاہر ہو۔*
*★_ (۲) عورتوں میں جب دنیا ( زیور وغیرہ) کا غلبہ زیادہ ہے اس کا علاج یہ ہے کہ ( زیور لباس ) شوہر کے سامنے تو ( گھر میں ) خوب پہنا کریں۔ مگر ان کی حالت یہ ہے کہ برادری میں جائیں گی تو خوب بن ٹھن کر اور جب آئیں گی تو فوراً اتار دیں گی تاکہ جس حال میں خاوند نے دیکھا تھا اس میں دیکھے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ خاوند کے سامنے پہنیں اور کہیں جائیں تو نہ پہنیں۔*
*★_ (۳) ایسے ہی علاج غیبت کا ہے اس میں استغفار کافی نہیں بلکہ جس کی غیبت کی ہے اس سے کہو کہ میں نے تمہاری غیبت کی ہے معاف کر دو۔*
╥────────────────────❥
*⊙__ حرص اور دنیا کی محبت کا علاج:-*
*★_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرص کا صحیح علاج توجہ الی اللہ کو بتلایا ہے اور یہ حرص کا علاج اس وجہ سے ہے کہ قاعدہ یہ ہے کہ نفس ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ حرص کی حقیقت دنیا کی طرف توجہ اور میلان ہونا ہے، جب اس توجہ کو کسی دوسری شئی کی طرف پھیر دیا جائے گا تو دنیا کی طرف توجہ باقی نہ رہے گی۔*
*®_ (علان الحرص التبليغ ۳۵۴)*
*★_جب حرص کا صحیح علاج معلوم ہو گیا تو اب سمجھے کہ توجہ الی اللہ کیا چیز ہے، بعض لوگوں نے تو یہ سمجھا ہے کہ توجہ الی اللہ کا یہ مطلب ہے کہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور احکام شرعیہ بجا لائے، ان لوگوں نے ظاہری اعمال پر اکتفا کیا اور یہ لوگ دل سے خدا کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔*
*★_ اور بعض لوگوں نے کہا کہ توجہ الی الله یعنی اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے معنی صرف یہ ہے کہ صرف دل سے خدا کی طرف متوجہ ہوں یہ لوگ ذکر شغل اور مراقبہ ہی کو لے بیٹھے، ان لوگوں نے نماز اور روزہ، تلاوت قرآن پاک وغیرہ سب چھوڑ دیا, ان کو بھی برکت اور نورانیت حاصل نہیں ہوتی،*
*★_ توجہ الی اللہ کی حقیقت یہی ہے کہ خدا کی طرف دل سے متوجہ ہو، مگر حقیقت کی ایک صورت بھی ہوا کرتی ہے اور توجہ الی اللہ کی صورت وہی ہے جو شریعت نے بتلائی ہے بس دونوں کو جمع کرنا چاہئے کہ دل سے اللہ کی طرف متوجہ رہو اور ظاہر سے اعمال شرعیہ کے پابند رہو۔ طاعات کو بجا لاؤ اور معاصی سے بچنے کا اہتمام کرو۔ نگاہ کی حفاظت کرو کہ نامحرموں کی باتیں بھی نہ سنو، اعمال ظاہرہ، اعمال باطنہ دونوں کو جمع کرنا چاہئے، پھر انشاء اللہ کامیابی ضرور ہوگی،*
╥────────────────────❥
*⊙__ اللہ کی طرف توجہ پیدا کرنے کی ترکیب:-*
*★_ ایک ترکیب یہ ہے اور یہ ایسی ترکیب ہے جس سے تم کو انشاء اللہ تعالی صحبت کی برکت حاصل ہوگی اور یہ جو دائرے سے با ہر قدم نکلا جا رہا ہے یہ رک جائے گا۔ اور وہ ترکیب یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کر کے اس وقت میں موت کو یاد کیا کرو۔ اور پھر قبر کو یاد کرو اور پھر حشر کو یاد کرو اور پھر یوم حشر (قیامت) کی ہولنا کیوں اور وہاں کے مصائب کو یاد کرو۔ اور سوچو کہ ہم کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا کیا جائے گا۔ اور ہم سے باز پرس ہوگی ۔ ایک ایک حق اگلنا پڑے گا۔ اور پھر سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔*
*"_اس طرح روزانہ سوتے وقت سوچا کرو۔ دو ہفتے میں انشاء اللہ کایا پلٹ جائے گی۔ اور دنیا کے ساتھ جو دلچسپی ہے وہ نہ رہے گی، علاج یہی ہے کہ سوچنا شروع کر دو، آخرت کے تمام امور کو سوچا کرو کہ میں مرکر قبر میں چلا جاؤں گی، پھر یہ کہ خدا تعالیٰ کے سامنے حساب کے لئے کھڑی کی جاؤں گی، اس کے بعد پل صراط پر چلنا ہوگا، پھر جنت ملے گی یا دوزخ میں ڈالی جاؤں گی، دوزخ میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔*
*★_ غرض ان سارے امور کو سوچا کرو اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کر لو, خدا کی اطاعت میں خاص اثر ہے کہ اس سے فکر پیدا ہو گی اور فکر پیدا ہونے سے تمام کام درست ہو جائیں گے۔*
*★_ اور ایک بات اور اپنے اوپر لازم کر لو وہ یہ کہ جو اپنے جی میں آئے اسے فوراً مت کر لیا کرو بلکہ علماء سے تحقیق کر کے کیا کرو۔ اگر ناجائز بتائیں ہرگز اس کام کو مت کرو۔ اس طرح دستور العمل رکھنے سے پھر قلب دنیا پر ہرگز مطمئن نہ ہوگا ۔*
*®_ (الاطمینان بالد نی التبی ص ۲۱۸ ص ۷ )*
╥────────────────────❥
*⊙___عورتوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں احتیاط:-*
*★_ قرآن شریف میں عورتوں کو حکم ہے وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُن ۔ (٣٣ احزاب ) کہ تم اپنے گھر جم کر بیٹھی رہو، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے اصلی حکم یہی ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں، نہ عورتوں سے ملنے کے لئے نہ مردوں سے ملنے کے لئے۔*
*★_ آخر کچھ تو بات ہے جو حق تعالیٰ نے عورتوں کو گھر میں رہنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر سے باہر نکلنا مضر ( نقصان دہ ) ہے، (البتہ ضرورت کے مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں )۔ ہاں ضرورت کے موقع پر وہ اپنے خاوند کی اجازت سے دوسروں کے گھر جاسکتی ہے۔*
*"_ اللہ کی بندیو! آخر تم جس کو کھجلی کا مرض ہو اس سے بچتی ہو اور ان کے پاس بیٹھنا اور ان سے ملنا جلنا تم کو گوارہ نہیں ہوتا کہ کہیں ہم کو بھی کھجلی نہ ہو جائے اور یہ حالت تو کھجلی سے بھی بدتر ہے۔ کھجلی کا نقصان تو صرف جسمانی ہے اور اس کا نقصان جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی،*
*★_ جسمانی نقصان تو یہ ہے کہ جب تم دوسری عورتوں کو اپنے سے اچھی حالت میں دیکھو گی اور ان جیسا بننا چاہوگی اور تمہاری حیثیت ان کے برابر نہیں ہوگی تو تم کو خوا مخواہ پریشانی ہوگی ۔ اور رات دن تم اس فکر میں گھلوگی کہ ہائے میرے پاس بھی یہ چیز ہوتی وہ چیز ہوتی،*
*★_ پھر بعض دفعہ تم مردوں سے بھی اس قسم کی فرمائش کرو گی، جو ان کی حیثیت سے زیادہ ہے ان کو یہ فرمائش نا گوار ہوگی، جس سے خواہ مخواہ دلوں میں کدورت ( میلا پن اور دوری ) پیدا ہو گی جس سے بعض اوقات دور تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔*
*★_ اور روحانی ضرر یہ ہے کہ اس سے ناشکری کا مرض بڑھتا ہے، جب تم دوسروں کو اپنے سے بڑھا ہوا دیکھو گی تو ان نعمتوں کی قدر نہ کروگی جو خدا تعالیٰ نے تم کو عطا فرمائی ہیں۔ ہمیشہ یہی سمجھو گی کہ میرے پاس کیا ہے کچھ بھی نہیں۔*
*★_ اس لئے جس پر ملنے جلنے کا ایسا اثر پڑتا ہو اس کو یہی حکم دیا جائے گا کہ وہ کسی سے نہ ملے اور اگر ملے تو غریب نادار عورتوں سے ملے، کیونکہ غریبوں سے مل کر تمہارا جی خوش ہوگا۔ اور خدا تعالیٰ کا شکر کرو گی کہ الحمد للہ میں بہت سی عورتوں سے اچھی حالت میں ہوں،*
*★_ اور یہی نکتہ ہے اس حدیث میں ( بلکہ یہ واضح دلیل سے مذکورہ بالا تفصیل کی) کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : یا عَائِشَةَ قَرِبِي الْمَسَاكِينَ وَجَالِسِيهِمْ - ( ترجمہ ) اے عائشہ مسکینوں کے پاس بیٹھا کرو اور ان کو اپنے نزدیک کیا کرو۔ مسکینوں (غریبوں) کے پاس بیٹھنے سے خدا کی نعمتوں کی قدر ہوتی ہے اور دل خوش رہتا ہے۔ (الکمال فی الدین ص ۸۶)*
╥────────────────────❥
*⊙__ اے عورتو! فضول عذر کی وجہ سے نماز میں کوتا ہی مت کرو:-*
*★_ اکثر عورتیں تو نماز ہی نہیں پڑھتیں اور یہ عذر کرتی ہیں کہ ہم کو گھر کے کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ میں کہتا ہوں کہ ان عذر کرنے والوں کو اگر عین کام کے وقت پیشاب کی ضرورت اس شدت سے ہو کہ اس کو روک ہی نہ سکیں یا اتفاق سے بیت الخلاء میں جانے کا شدید تقاضا ہو تو اس صورت میں کیا کریں گی۔ آیا اس وقت تک جب تک کہ پیشاب سے فراغت ہو کام کا حرج کریں گی یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ مجبوراً کام کا حرج کرنا پڑے گا۔ تو کیا خدائی حکم کی اتنی بھی ضرورت نہیں جتنی طبعی تقاضوں کی ہوتی ہے،*
*★_آدمی جس کام کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں ضرور مدد فرماتے ہیں۔ ذرا نماز شروع کر کے تو دیکھیں انشاء اللہ پھولوں کی طرح ہلکی ہو جائیں گی، مگر اب تو عورتیں ارادہ ہی نہیں کرتیں۔ اس لئے نہ کرنے کے سو بہانے ہیں ۔ ورنہ کچھ مشکل بات نہ تھی۔*
*★_ لیجئے میں ایک تدبیر بتلاتا ہوں جس سے بہت جلد نماز کی پابندی حاصل ہو جائے گی وہ یہ کہ جب ایک وقت کی نماز قضا ہو تو ایک وقت کا فاقہ کرو۔ پھر دیکھیں نماز کیسے قضا ہوتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ نماز کی پابندی تو فاقہ سے ہوگی مگر فاقہ کی پابندی کیسے ہوگی، اس کی بھی تو کوئی ترکیب بتلاؤ کیونکہ یہ تو نماز سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ فاقہ کس سے ہو سکتا ہے ؟*
*★_اگر کسی سے یہ نہ ہو سکے تو وہ اپنے ذمہ کچھ مالی جرمانہ مقرر کر لے کہ اتنے پیسے فی نماز خیرات کیا کروں گی, یا کچھ نمازیں مقرر کر لیں کہ ایک نماز قضا ہوئی تو مثلاً دس رکعتیں نفل بطور جرمانہ کے پڑھا کروں گی, اس طرح چند روز میں نفس ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ذرا عمل کر کے تو دیکھو۔ (اسباب الخطایہ ملحقہ دین و دنیا )*
╥────────────────────❥
*⊙__ عورتوں کو نماز کا پابند اور دیندار بنانے کی یہ بھی ایک تدبیر ہے:-*
*★_ ایک آسان تدبیر بتلاتا ہوں کہ اس پر عمل کرنے سے ضرور دین کی پابندی ہو جائے گی وہ یہ ہے کہ جس روز نماز وغیرہ میں عورتوں کی ذرا ستی دیکھو اس روز ان کے ہاتھ کا کھانا نہ کھاؤ، یہ ایسی سخت سزا ہے کہ اس کے بعد بہت جلد اصلاح ہو جائے گی کیونکہ جس روز تم ان کے ہاتھ کا کھانا نہ کھاؤ گے اس روز یقیناً ان کا بھی فاقہ ہوگا، بس جب دو چار روز ایسا ہو گا خود سنبھل جائیں گی،*
*★_ نماز میں عورتیں بہت کوتاہی کرتی ہیں۔ بعض تو نماز پڑھتی ہی نہیں اور بعض پڑھتی ہیں مگر ان کا قرآن صحیح نہیں ہے۔ اور نہ قرآن صحیح کرنے کا اہتمام کرتی ہیں ۔ اور بعض کا قرآن بھی صحیح ہے تو وہ وقت کو بہت تنگ کر دیتی ہیں۔ ظہر کی نماز عصر کے وقت اور عصر کی مغرب کے وقت پڑھتی ہیں،*
*★_ حالانکہ مردوں کے لئے تو بعض اوقات میں تو تاخیر مسنون بھی ہے مگر عورتوں کے لئے تو سب نمازیں اول وقت پڑھنا افضل ہے مگر یہ اول تو اول آخیر میں بھی نہیں پڑھتیں بلکہ اکثر قضا پڑھتی ہیں، اور بعض عورتیں ( یہ کوتاہی کرتی ہیں کہ ان نمازوں کی قضا نہیں کرتیں جو ہر مہینہ ان سے غسل کی تاخیر کی وجہ سے چھوٹ جاتی ہیں۔*
*★_ اگر احتیاط کریں اور مسئلہ اچھی طرح معلوم کر لیں تو اول تو ایسی نوبت ہی نہ آئے اور جو غلطی سے ایسا ہو جائے تو جلد ہی قضا کرنا چاہئے،*
*★_غرض اعمال ظاہرہ میں نماز سب سے اہم ہے اس کی اچھی طرح پابندی کرنا چاہئے ۔ اور دل لگا کر نماز پڑھا کریں جلدی جلدی سر سے بوجھ نہ اتاریں ہے۔ بعض عورتیں قرآن غلط پڑھتی ہیں اس کا اہتمام بھی ضروری ہے کہ قرآن پاک صحیح ہو جائے, بعض دفعہ ایسی غلطی ہو جاتی ہے جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ چند سورتیں تو نماز کے لئے کم از کم ضرور صحیح کر لو ۔ (الکمال فی الدین ص ۱۰۳)*
╥────────────────────❥
*⊙__ اے عورتوں اگر غیبت کی عادت رکھو گے تو آپس میں تعلقات خراب ہو جائیں گے:-*
*★_ عورتیں غیبت بہت کرتی ہیں خود بھی حکایت شکایت کرتی ہیں۔ اور دوسروں سے سنتی ہیں اور اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کوئی عورت باہر سے آئی اور پوچھنا شروع کیا کہ فلانی مجھ کوکیا کہتی تھی گو یا انتظار ہی کر رہی تھیں،*
*★_ خوب سمجھ لو کہ اس غیبت سے نا اتفاقی ہو جاتی ہے۔ آپس میں عداوت ( دشمنی ) قائم ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ غیبت کرنا اور اس کا سننا خود بڑا گناہ ہے۔ کلام اللہ میں اس کی بڑی مذمت آئی ہے ۔ غیبت زنا سے زیادہ سخت اور بڑا گناہ ہے،*
*★_ فرمایا حدیث شریف میں ہے الْغَيْبَةُ أَشَدُّ مِنَ الزَّنَا ۔ غیبت کرنا زنا سے زیادہ سخت ہے، حضرت حاجی صاحب نے اس کی وجہ بیان فرمائی ہے، کہ زنا کا گناہ باہی یعنی شہوت سے متعلق ہے اور غیبت کا گناہ جاہی یعنی تکبر سے متعلق ہے اور تکبر شہوت سے اشد ہے یعنی زیادہ خطر ناک ہے۔ (حسن العزیز ص ۳۶۷ ج ۲)*
╥────────────────────❥
*⊙__ غیبت کے احکام :-*
*★_ (1) غیبت یہ ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی ایسی برائی کرنا کہ اگر اس کے سامنے کی جائے تو اس کو رنج ہو گو وہ سچی ہی بات ہو ورنہ وہ بہتان ہے اور پیٹھ پیچھے کی قید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سامنے (برائی کرنا ) جائز ہے کیونکہ وہ لمز ( یعنی طعن ) میں داخل ہے جس کی ممانعت اوپر آئی ہے۔ اور تحقیقی بات یہی ہے کہ غیبت گناہ کبیرہ ہے,*
*"_(2) غیبت میں حق اللہ اور حق العبد دونوں ہیں اور معاف کرانا بھی ضروری ہے البتہ بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک اس شخص کو اس غیبت کی خبر نہ پہنچے تو حق العبد نہیں ہوتا۔ لیکن اس صورت میں بھی جس شخص کے سامنے غیبت کی تھی اس کے سامنے اپنی تکذیب کرنا ( یعنی اپنے کو غلطی پر بتلانا ضروری ہے اور اگر ممکن نہ ہو تو مجبوری ہے۔*
*"_(3) مرنے کے بعد وارثوں سے معاف کرانا کافی نہیں بلکہ غائب میت کے لئے استغفار کرتار ہے ( ان کے لئے بھی ) اور اپنے لئے بھی۔*
*★_(4) بچہ مجنون اور کافر ذمی کی غیبت بھی حرام ہے۔ کیونکہ اس کو تکلیف دینا حرام ہے اور ربی کافر کی غیبت صحیح وقت یعنی وقت ضائع کرنے کی وجہ سے مکروہ ہے۔*
*(5) اور غیبت کبھی فعل سے بھی ہوتی ہے مثلاً کسی لنگڑے کی نقل بنا کر چلنے لگے جس سے اس کی حقارت ہو۔*
*★_ (6) اور جس سے (غیبت ) کو معاف کرایا جائے اس کیلئے مستحب ہے کہ معاف کر دے۔*
*(7) بغیر مجبوری غیبت سنا غیبت کرنے کے مثل ہے۔*
*★_(8) اگر برائی کرنے کی کوئی ضرورت یا مصلحت ہو جو شرعاً معتبر ہو وہ غیبت حرام میں داخل نہیں، جیسے ظالم کی شکایت ایسے شخص سے جو ظلم دفع کر سکے۔ یا مسلمانوں کو دینی یا دنیوی شر سے بچانے کے لئے کسی کا حال بتلا دیا۔ یا کسی کے مشورہ لینے کے وقت اس کا حال ظاہر کر دیا !*
*®_(بیان القرآن سوره حجرات )*
╥────────────────────❥
*⊙__ غیبت چغلی سے معافی تلافی کا طریقہ:-*
*★_ اگر کسی کی غیبت ہو گئی ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کے ساتھ اس شخص سے بھی معافی مانگنے کی ضرورت ہے جس کی غیبت کی ہے۔ لیکن غیبت کی پوری تفصیل بتلانے سے (کہ میں نے تمہاری یہ غیبت کی ہے اس سے ) اس کو تکلیف ہوگی اس لئے اجمالی طور پر اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میرا کہا سنا معاف کرو۔*.
*★_ اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں کے سامنے غیبت کی تھی ساتھ ہی ان کے سامنے اس کی تعریف بھی کرے۔ اور پہلی بات کا غلط ہونا ظاہر کر دے۔ اور اگر وہ بات غلط نہ ہو سچی بات ہو ( یعنی اس میں واقعی وہ عیب موجود ہو ) تب یوں کہہ دو کہ بھائی اس بات پر اعتماد کر کے تم فلاں شخص سے بدگمان نہ ہونا کیونکہ مجھے خود اس بات پر اعتماد نہیں۔*
*★_ اگر وہ شخص مر گیا ہے جس کی غیبت کی تھی تو اب معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لئے دعاء واستغفار کرتے رہو یہاں تک کہ دل گواہی دے دے کہ اب وہ تم سے راضی ہو گیا ہو گا۔*
*★_اگر جس کی غیبت کی ہے یا گالی دی ہے وہ مر گیا ہو یا لاپتہ ہو گیا ہو تو اس کے حق میں دعاء کرو، نماز اور قرآن پڑھ کر اس کو ثواب بخشوں اور عمر بھر اس کے لئے ( جس کی غیبت کی ہے ) دعاء کرتے رہو،*
╥────────────────────❥
*⊙__ اگر تم نے کسی کا تین پیسہ لیا تو سات سو مقبول نمازیں حقدار دینی پڑیں گی:-*
*★_ حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بندہ کو حق تعالی کھڑا کر کے دریافت فرمائیں گے کہ جوانی کہاں خرچ کی اور مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ حقوق کو دنیا ہی میں ادا کر دو یا معاف کرا لو اس دن سے پہلے جس میں روپیہ پیسہ کچھ نہ ہوگا_,*
*★_ ظلم ہلکی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت تک نا کافی ہیں جب تک ظلم سے برات نہ ہوگی ۔ در مختار میں لکھا ہے کہ ایک دانگ کے بدلہ میں جو درہم کا چھٹا حصہ ہے جس کو تین پیسہ سمجھ لیجئے ( اس کے بدلہ میں ) سات سو مقبول نمازیں، حقدار کو دلائی جائیں گی کتنی سخت مصیبت ہوگی، اول تو ہماری نمازیں مقبول ہی کتنی ہیں پھر تین تین پیسہ کے بدلہ میں وہ بھی جاتی رہیں تو بتلائیے قیامت میں کیسی حسرت ہوگی_,*
*★_ مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تم مفلس کس کو سمجھتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم دینار نہ ہوں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر مفلس وہ ہے جس نے نماز میں بھی بہت پڑھی تھیں، روزے بھی بہت رکھے تھے زکوۃ بھی دی اور صدقات بھی کئے تھے مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی کسی کو مارا پیٹا تھا، کسی کا مال لے لیا تھا اب قیامت میں ایک آیا وہ اس کی نمازیں لے گیا اور دوسرا آیا وہ روزے لے گیا۔ تیسرا آیا وہ حج لے گیا۔ چوتھا آیا وہ اس کی زکوۃ وصدقات لے گیا پھر بھی کچھ حق دار بچ گئے اور ان کو دینے کو نیکیاں نہ بچیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال دیئے گئے اور یہ طاعات سے خالی ہو کر گناہوں میں جکڑ کر جہنم میں داخل ہو گا یہ سب سے بڑا مفلس ہے۔*
*®_(خیر الارشاد ملحقه حقوق و فرائض ۳۰۶ ج ۴)*
╥────────────────────❥
*⊙__ خلاصی اور تلافی کا طریقہ صحیح نیت بھی ہے:-*
*★_ تلافی اور حقوق سے خلاصی کا طریقہ یہ ہے کہ خدا تعالی کے یہاں پکی سچی توبہ کرنا اور ادائیگی کا پختہ ارادہ کر لینا بھی مقبول ہے، پہلے تو تم حق والے سے معافی کی درخواست کرو، اگر وہ خوشی سے معاف کر دے تب تو مسئلہ آسان ہے جلدی خلاصی ہو گئی ۔ اور اگر معاف نہ کرے تو اب پورا حق ادا کرنا ضروری ہے،*
*★_ اگر بہت زیادہ ہوا ایک دم سے ادا کرنا مشکل ہو تو تھوڑا تھوڑا جتنا ہو سکے اس کا حق ادا کرے۔ اور اگر وہ ( یعنی حق والے ) مر گئے ہوں تو ان کے ورثاء کو دو۔ اور اگر ورثاء بھی معلوم نہ ہوں تو ان کی نیت سے خیرات کرتے رہو انشاء اللہ امید ہے کہ دنیا ہی میں سارا حق ادا ہو جائے گا،*
*★_ اور اگر کچھ ادا ہوا اور کچھ رہ گیا تو اس کو حق تعالی ادا کر دیں گے، حق تعالیٰ کے یہاں نیت کو زیادہ دیکھا جاتا ہے جس کی نیت پختہ ہو کہ میں حق ادا کروں گا پھر اس پر عمل بھی شروع کر دے حق تعالیٰ اس کو بالکل بری کر دیتے ہیں۔*
*®(خیر الارشاد الحق حقوق وفر لفض ص ۳۰۹)*
╥────────────────────❥
*⊙___شوہر کو دیندار اور نمازی بنانے کی کوشش کرو:-*
*★_ عورتوں کی بڑی کوتاہی ہے کہ اپنے مردوں کو دیندار اور نمازی بنانے کی کوشش نہیں کرتیں, دینی حقوق میں ایک کو تاہی عورتیں یہ کرتی ہیں کہ مرد کو جہنم کی آگ سے بچانے کا اہتمام نہیں کرتیں یعنی اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتیں کہ مرد ہمارے واسطے حلال و حرام میں مبتلا ہے اور کمانے میں رشوت وغیرہ سے پر ہیز نہیں کرتا تو اس کو سمجھائیں کہ تم حرام آمدنی مت لایا کرو، ہم حلال ہی میں اپنا گذر کر لیں گے۔*
*★_ اسی طرح اگر مرد نماز نہ پڑھتا ہو تو اس کو بالکل نصیحت نہیں کرتیں ۔ حالانکہ اپنی غرض کے لئے اس سے سب کچھ کر لیتی ہیں۔ اگر عورت مرد کو دیندار بنانا چاہے تو کچھ مشکل نہیں مگر اس کے لئے ضرورت ہے کہ پہلے تم خود دیندار بنو۔ نماز اور روزہ کی پابندی کرو، پھر مرد کو نصیحت کرو۔ تو انشاء اللہ اثر ہوگا۔*
*★_ مگر بعضی عورتیں دینداری پر آتی ہیں تو یہ طریقہ اختیار کر لیتی ہیں کہ تسبیح اور مصلیٰ لے کر بیٹھے گئیں اور گھر کے کام اور شوہر کی خدمت سے بے فکر ہو گئیں، یہ طریقہ اچھا نہیں کیونکہ گھر کی نگرانی اور شوہر کے مال کی حفاظت و خدمت عورت کے ذمہ فرض ہے اور جب فرض میں خلل آ گیا تو یہ نفلیں اور تسبیح کیا کام دیں گی، اس لئے دینداری میں اتنا غلو بھی نہ کرو کہ گھر کی خبر ہی نہ لو۔ نماز روزہ اس طرح کرو کہ اس کے ساتھ گھر اور شوہر کا بھی پورا حق ادا کرو۔*
*®_ ( حقوق البیت ص ۵۳)*
╥────────────────────❥
*⊙___ اے عور تو ! شوہر کی تعظیم و خدمت میں کوتاہی بے حیائی ہے:-*
*★_ عورتوں کا اپنے شوہر کی تعظیم اور ان کا ادب میں کوتاہی کرنا یہ سخت بے حیائی ہے۔ بعض عورتیں شوہروں کی اطاعت و خدمت میں کمی کرتی ہیں۔ بعض عورتیں مرد کی خدمت نوکرانیوں پر ڈال دیتی ہیں اور خود اس کے کاموں کا اہتمام نہیں کرتیں۔*
*★_ اور بعض عورتیں مردوں سے خرچ بہت مانگتی ہیں۔ بعض جگہ تو عورتیں مردوں پر حکومت کرتی ہیں حالانکہ شریعت میں شوہروں کی تعظیم کے متعلق سخت تاکید آئی ہے۔حدیث شریف میں صاف آیا ہے کہ اگر میں خدا کے سوا کسی کے لئے سجدہ کو جائز کرتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ لیکن سجدہ تو خدا کے سوا کسی کو جائز نہیں،*
*★_ مگر اس سے یہ بات تو معلوم ہو گئی کہ شوہر کی کس درجہ تعظیم عورتوں کے ذمہ واجب ہے۔ بعض جگہ تو عورتیں مرد کو ذلیل بھی کرتی ہیں۔ اور بعض جگہ مرد بھی ظالم ہوتے ہیں کہ وہ عورتوں کو بہت ذلیل رکھتے ہیں۔ اور بعض جگہ دونوں طرف سے یہ برتاؤ ہوتا ہے قیامت میں ان سب کا حساب ہوگا اور جس نے جس کی حق تلفی کی ہوگی اس سے انتقام لیا جائے گا۔*
*★_ پس مردوں کو چاہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کی رعایت رکھیں اور عورتوں کو مردوں کی تعظیم کرنی چاہئے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا خیال رکھنا چاہئے،*
*★_ ازواج مطہرات ( یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ) حضور ﷺ کے احکام کی مخالفت کبھی نہ کرتی تھیں، آپ کی تعظیم اور ادب اس درجہ کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی کی عظمت بھی ان کے دل میں حضور ﷺ کے برابر نہ تھی ۔*
*®_ ( حقوق البیت ص ۲۳)*
╥────────────────────❥
*⊙__ شوہر کو حقیر نہ سمجھو چاہے وہ فاسق ہو:-*
*★_ اگر شوہر بے نمازی ہو اس کو بھی حقیر نہ سمجھو۔عورتوں میں ایک مرض یہ بھی ہے کہ اگر وہ خود نماز روزہ کی پابند ہوتی ہیں، اور شوہر ان کو ایسا مل گیا جو آزاد ہے تو اس کو وہ بہت حقیر سمجھتی ہیں گویا کہ اپنے آپ کو رابعہ بصری سے کم نہیں جانتیں ۔*
*★_ ہم نے مانا کہ وہ گنہ گار ہے لیکن علماء سے مسئلہ تو پوچھو دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔ یاد رکھو! اپنی ذات کے اعتبار سے خواہ وہ کیسا ہی ہو۔ لیکن تم پر ان کی اطاعت ہی واجب ہے۔ اس لئے کہ وہ تمہارا مالک اور حاکم ہے۔ اس لئے کہ خاوند کا حاکم ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے،*
*★_ غرض زوجیت ( یعنی بیوی ہونا ) اطاعت کا سبب ہے۔ ہاں اگر وہ نماز روزہ سے منع کرے تو اس میں اس کی اطاعت نہ کرے لیکن نماز روزہ سے مراد بھی فرض نماز، روزہ ہے۔ نفل نماز، روزہ سے اس کی اطاعت مقدم ہے بلکہ فرائض کے متعلق بھی اگر وہ کہے کہ ذرا ٹھہر کر پڑھ لو، اور وقت میں گنجائش ہے تو مؤخر کر دینا چاہئے، ہاں اگر وقت مکروہ ہونے لگے۔ تو اس وقت اس کا کہنا نہ مانے ۔*
*★_ البتہ اگر وہ صریح کفر و شرک کا ارتکاب کرے۔ اس وقت کسی محقق عالم سے فتویٰ لے کر اس سے جدا ہو جائے ۔ باقی فسق تک جب کہ وہ تم کو فسق کا حکم نہ کرے اس کی اطاعت کرو۔ یہاں تک کہ اگر وہ یہ کہے کہ وظیفہ چھوڑ کر میری خدمت کرو تو وظیفہ ( تسبیحات ) چھوڑ دو۔ یہ نہ سمجھو کہ اس سے بزرگی میں فرق آجائے گا۔ بزرگی تو شریعت کی اتباع کا نام ہے، جب تم کو خاوند کی اطاعت کا شریعت نے حکم دیا ہے تو بس بزرگی اسی میں ہے کہ ان کی اطاعت کرو۔*
*®_( وعظ المخضوع ملحقہ حقیقت عبادت ص ۳۱۶)*
╥────────────────────❥
*⊙__ شوہر کی شان میں گستاخی و زبان درازی کا مرض:-*
*★_ بعض عورتوں کی یہ عادت ہے کہ وہ خاوند سے زبان درازی سے پیش آتی ہیں اس کے سامنے خاموش ہی نہیں ہوتیں حتیٰ کہ بعض خاوند مارتے بھی ہیں مگر یہ چپ نہیں ہوتیں۔*
*★_ بعض جگہ عورتیں مردوں کو ذلیل کرتی ہیں اور یہاں تک کہ جو بات شوہر کہتا ہے اس کا جواب ان کے پاس تیار رہتا ہے، کوئی بات بے جواب نہ چھوڑیں گی خواہ گوارہ ہو یا نا گوار ۔ خواہ معقول ہو یا نا معقول ۔ غرض عورتوں میں زبان درازی کا بڑا مرض ہے اور یہ ساری خرابی تکبر کی ہے۔ ایسی عورتیں یہ چاہتی ہیں کہ ہم ہار نہیں مانیں گی،*
*★_ حدیث میں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر میں خدا کے سوا کسی کے لئے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم کرتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔ کیا ٹھکانہ ہے مرد کی عظمت کا کہ اگر خدا کے بعد کسی کے لئے سجدہ جائز ہوتا تو عورت کو مرد کے سجدہ کا حکم ہوتا۔*
*★_ اے عورتوں ! خدا نے تم کو جیسا بنایا ہے ویسا ہی اپنے کو مرد سے چھوٹا سمجھو اور اس کے غصہ کے وقت زبان درازی بھی نہ کرو اس وقت خاموش رہو۔ اور جب اس کا غصہ اتر جائے تو دوسرے وقت کہو کہ میں اس وقت نہ بولی تھی اب بتلاتی ہوں کہ تمہاری فلاں بات بےجا تھی یا زیادتی کی تھی، اس طرح کرنے سے بات بھی نہ بڑھے گی اور مردوں کے دل میں تمہاری قدر بھی ہوگی ۔*
*®_ ( حقوق البعیت ص ۵۱)*
╥────────────────────❥
*⊙__ عورتوں میں ناشکری کا مرض :-*
*★_ ناشکری کا مادہ عورتوں میں بہت زیادہ ہے، حدیث میں بھی عورتوں کی اس صفت کا ذکر آیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار عورتوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ "تُكْثِرُنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرُنَ العشیر" کہ تم لعنت اور پھٹکار بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔*
*★_عورتوں میں ناشکری کا مادہ زیادہ ہے اگر خدا تعالیٰ ان کو ضرورت کے موافق سامان عطا فرمادیں تو یہ اس کو غنیمت نہیں سمجھتیں نہ اس پر خدا کا شکر کرتی ہیں ۔ بلکہ ناشکری کرتی ہیں کہ ہائے ہمارے پاس ہے کیا ؟ کچھ بھی نہیں, حدیث میں بھی ان کی اس صفت کا تذکرہ آیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناشکری کا مادہ عورتوں میں ہمیشہ سے ہے,*
*★_ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:- "لَوْ أَحْسَنُتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنكَ شَيْئاً قَالَتَ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَط" کہ اگر تم عورت کے ساتھ عمر بھر اچھا برتاؤ کرتے رہو پھر بھی ایک دفعہ کوئی خلاف مزاج بات دیکھ لے تو وہ یوں کہے گی کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی ۔ ( مشکوٰۃ شریف )*
*★_ بس ذرا سی بات میں ساری عمر کے احسانات کو فراموش کر جاتی ہیں۔ جہاں کسی دن ان کو شوہر کے گھر میں کھانے پینے کی تنگی ہوئی اور انہوں نے اس کو منھ پر لانا شروع کیا، جو منھ میں آتا ہے کہ ڈالتی ہیں اور اس کا ذرا خیال نہیں کرتیں کہ آخر اسی گھر میں ساری عمر رہنا ہے، اس کو نہ بھولنا چاہئے ۔ اور خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ اس نے تکلیف آج ہی دکھلائی ہے اور زیادہ زمانہ عیش کا گذرا ہے۔ (الکمال فی الدین ص ۷۶ )*
╥────────────────────❥
*⊙__عورتیں چیزوں کے خریدنے میں اسراف کرتی ہیں جو گناہ ہے:-*
*★_ ایک مرض عورتوں میں یہ بھی ہے جو ناشکری کا شعبہ ہے کہ کوئی چیز خواہ کارآمد ہو یا نہ ہو پسند آنا چاہئے، بے سوچے سمجھے اس کو خرید لیتی ہیں اور یہ عادت ناشکری کا شعبہ اس لئے ہے کہ اس میں شوہر کے مال کو برباد کرنا ہے ۔ خود اپنے مال کو برباد کرنا بھی ناشکری ہے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ بے شک بے موقع مال اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔*
*★_ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے، عورتیں خاوند کے مال کو بڑی بے دردی سے اڑاتی ہیں، خاص کر بیاہ شادی کی خرافات رسموں میں، بعض جگہ تو مرد و عورت دونوں مل کر خرچ کرتے ہیں اور بعض جگہ صرف عورتیں ہی خرچ کی مالک ہوتی ہیں،*
*★_ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرد مقروض ہوتا ہے۔ تو زیادہ تر جو مرد حرام آمدنی میں مشغول ہوتے ہیں اس کا بڑا سبب عورتوں کی فضول خرچی ہے، عورتوں نے بس یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم کو تو کمانا نہیں پڑتا جس طرح چاہیں خرچ کریں مرد اپنے آپ کما کر لائے گا۔*
*★_ یاد رکھو! شوہر کے مال کی نگہبانی عورتوں کے ذمہ واجب ہے اس کو اس طرح رائیگاں کرنا جائز نہیں، قیامت میں عورتوں سے اس کا بھی حساب ہوگا ۔*
*®_ (الکمال فی الدین ص ۱۱۳)*
╥────────────────────❥
*⊙___ شادیوں میں فضول خرچی:-*
*★_ خصوصاً شادیوں میں عورتیں بہت فضول خرچی کرتی ہیں ان میں تو عورتیں ہی مفتی اعظم عورتوں ہوتی ہیں، سارے کام انہی سے پوچھ کر کئے جاتے ہیں مرد جانتے ہی نہیں کہ شادیوں میں کہاں خرچ کی ضرورت ہے کہاں نہیں، بس جس جگہ عورتیں خرچ کرنے کا حکم دیتی ہیں وہاں بلا چوں چرا خرچ کیا جاتا ہے اور عورتوں نے ایسے بے ڈھنگے خرچ نکال رکھے ہیں جن میں فضول روپیہ برباد ہوتا ہے۔*
*★_ ان شادیوں کی بدولت بہت سے گھر تباہ و برباد ہو گئے، لیکن اب بھی لوگوں کو عقل نہیں آئی اور ان رسوم وغیرہ میں عورتوں کا اتباع نہیں چھوڑتے، اب بھی لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلیں ۔ جب سارا گھر بار نیلام ہو جائے گا اس وقت شریعت کے موافق شادی کی سوجھے گی۔*
*★_ صاحبو! شادیوں میں بہت اختصار کرنا چاہئے کہ بعد میں افسوس نہ ہو کہ ہائے ہم نے یہ کیا کیا ۔ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ ہی رقم ہو تو اس کو اس طرح برباد کرنا مناسب نہیں بلکہ دنیا دار کو کچھ رقم جمع بھی رکھنا چاہئے اس سے دل کو اطمینان رہتا ہے۔*
*®_ (الکمال فی الدین النسا ص ۱۲)*
╥────────────────────❥
*⊙___ شوہر کے مال میں تصرف:-*
*★_ عورتیں بعض دفعہ خاوند کے مال میں تصرف کرتے ہوئے یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اجازت دے دے گا اور بعض دفعہ وہ خاموش بھی ہو جاتا ہے مگر بعض مرتبہ خوب خفا ہوتا ہے اور میاں بیوی میں خوب اچھی طرح تو تو میں میں ہوتی ہے۔*
*★_ غرض جب تک اجازت صراحت نہ ہو یا ظن غالب نہ ہو اس وقت تک عورتوں کو کسی کو کچھ نہ دینا چاہئے۔ میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں چندہ کے بارے میں بہت سخی ہوتی ہیں۔ جہاں انہوں نے صدقہ کے فضائل کسی وعظ میں سنے اور صدقہ نکالنا شروع کیا۔*
*★_ یاد رکھو ! جو رقم خاص تمہاری ملک ہو اس میں سے دینے کا تو مضائقہ نہیں مگر جو شوہر نے محض رکھنے کے لئے دیا ہو اس کو دینا خاوند کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔*
*★_ یہ تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ خاوند کا مال دیا جائے۔ اور اگر خاص عورت ہی کا مال ہو تو اس میں خاوند کی اجازت کی ضرورت نہیں مگر پھر بھی اس سے مشورہ کر لینا چاہئے ۔ البتہ اگر کوئی ایسی معمولی چیز ہو جس میں غالب احتمال اجازت کا ہو تو خیر کوئی حرج نہیں ۔*
*®_ ( اسباب الخطہ ص ۸۷ ۳ دین و دنیا )*
╥────────────────────❥
*⊙__عورتوں میں مانگی ہوئی چیز واپس نہ کرنا بھی بری عادت ہے:-*
*★_ عورتوں میں ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ مانگی ہوئی چیز میں سستی و لاپرواہی کرتی ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ کوئی چیز منگائی اور کام بھی ہو گیا مگر یہ توفیق نہیں ہوتی کہ واپس کر دیں۔ جب دینے والا (مالک) خود ہی مانگتا ہے تب دیتی ہیں۔*
*★_ اور خود بھی دیں گی تو ایک عرصہ کے بعد، اس میں بہت سی چیزیں گم ہو جاتی ہیں۔ اور خراب بھی ہو جاتی ہیں۔ بعض وقت مہینوں گذر جاتے ہیں ( لیکن چیز ) واپس ہی نہیں کی جاتی, اگر کسی نے طلب کر لیا تو دیدی ورنہ پرواہ بھی نہیں ہوتی ۔*
*★_ گو نیت خراب نہ ہو مگر تساہل (ستی ) اس قدر ہے کہ حد سے زیادہ ۔ حالانکہ شریعت نے اس میں اتنی احتیاط کی ہے کہ فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کھانا بھیجے تو اس برتن میں کھانا حرام ہے اپنے برتن میں الٹ لو پھر کھاؤ۔ ہاں اگر مالک استعمال کرنے کا اجازت دے دے تو جائز ہے۔*
*★_فقہاء کے قول کی دلیل یہ حدیث میں ہے کہ خبر دار ہو جاؤ کسی مسلمان کا مال اسکی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ۔ (بیہقی )*
*"_ پس فقہاء کے کلام کا خلاصہ یہی ہوا کہ دوسرے کی ملک میں بلا اجازت کے تصرف کرنے ( اور استعمال کرنے ) سے آدمی گنہ گار ہوتا ہے۔ اگر وہ چیز ضائع ہو جائے تو ضامن ہوتا ہے۔ یعنی اس کا تاوان دینا لازم ہوتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙__قرض لے کر نہ دینا:-*
*★_ عورتوں میں ایک خرابی یہ ہے کہ قرض لے کر ادا نہیں کرتیں۔ قرض ادا کرنے کی بالکل عادت ہی نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا دیکھا کہ صدقہ دینے سے دس نیکیاں ملتی ہیں اور قرض دینے سے اٹھارہ ۔ آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ قرض وہی مانگتا ہے جسے سخت ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے پھر واپس کرنا پڑتا ہے۔ بخلاف صدقہ کے۔*
*★_ تو قرض دینے کا ( یا ادھر کوئی چیز دینے کا اتنا بڑا ثواب ہے۔ مگر جب کوئی لے کر ادا ہی نہ کرے پھر کون دے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ قرض دے کر وصول نہیں ہوتا حتیٰ کہ قرضدار سامنے آنا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اور بعض لوگ کوئی سامان خرید کر ایک دو روپیہ ادھار کر کے پھر دینے کا نام نہیں لیتے اور معمولی رقم ایک دو روپیہ ہونے کی وجہ سے دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور وصول کرنے والے کو مانگتے ہوئے بھی شرم معلوم ہوتی ہے۔*
*★_ لیکن قیامت کا معاملہ بہت نازک ہے۔ تین پیسے بھی جس کے ذمہ رہ جائیں اس کی سات سو مقبول نمازیں چھین کر حق والے کو دلوادی جائیں گی۔ یہ کس قدر خوف کی بات ہے۔ ساری عمر نماز پڑھی۔ اور قیامت میں چھین لی گئی۔ یہ نتیجہ ہو گا کہ آخرت بھی بر باد، کی کرائی عبادت بھی اپنے پاس نہ رہی۔*
╥────────────────────❥
*⊙___ریل کے سفر میں کوتاہیاں:-*
*★_ ریل کے سفر میں اکثر عورتیں اور مرد اس قدر سامان لے جاتے ہیں جو حد اجازت ( یعنی قانون سے ) زیادہ ہوتا ہے۔ اور نہ اس کا کرایہ دیتے ہیں نہ وزن کراتے ہیں ( نہ رسید کٹاتے ہیں ) اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خود تو تیسرے درجہ (تھرڈ کلاس) کا ٹکٹ لیا تھا لیکن اتفاق سے میانہ درجہ ( سیکنڈ کلاس ) میں جا کر بیٹھ گئے، یا ٹکٹ لیا دو تین اسٹیشن کا اور چلے گئے بہت دور تک ان سب صورتوں میں یہ شخص ریلوے محکمہ کا قرضدار رہتا ہے اور قیامت کے دن اس سے وصول کیا جائے گا۔*
*★_ اگر ایسی غلطی ہو گئی ہو تو اس کے ادا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حساب کر کے جس قدر ریلوے کی قیمت اپنے ذمہ نکلے اس قیمت کا ایک ٹکٹ خرید کر اس سے کام نہ لے پھاڑ ڈالے، اس سے محکمہ کا روپیہ بھی ادا ہو جائے گا اور اس شخص پر کوئی الزام بھی نہ آئے گا_,*
*®_ (تفصیل التوبہ دعوات عبدیت ص ۴۶ ج ۸)*
╥────────────────────❥
*⊙___اے عورتوں رشتہ داروں سے پردہ میں کوتاہی مت کرو:-*
*★_ ایک کوتاہی بعض عورتوں میں یہ ہے کہ ان میں پردہ کا اہتمام کم ہے، اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں جو نامحرم ہیں ( یعنی جن سے رشتہ ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ) ان کے سامنے بے تکلف آتی ہیں۔ ماموں زاد چاز ادخالہ زاد بھائیوں سے بالکل پردہ نہیں کرتی ہیں۔ اور غضب یہ کہ ان کے سامنے بناؤ سنگار کر کے بھی آتی ہیں۔ پھر بدن چھپانے کا ذرا بھی اہتمام نہیں کرتیں،*
*★_ اور اگر کسی کا بدن ڈھکا ہوا بھی ہو تو کپڑے ایسے باریک ہوتے ہیں جن میں سارا بدن جھلکتا ہے، حالانکہ باریک کپڑے پہن کر محارم کے سامنے آنا بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ محارم ( یعنی جن سے رشتہ کرنا حرام ہے ان ) سے پیٹ اور کمر اور پہلو اور پسلیوں کا چھپانا بھی فرض ہے, پس ایسا باریک کپڑا پہن کر محارم ( مثلاً بھائی چچا وغیرہ) کے سامنے آنا بھی جائز نہیں جس سے پیٹ یا کمر یا پہلو یا پسلیاں ظاہر ہوں یا ان کا کوئی حصہ نظر آتا ہو۔*
*★_ شریعت نے تو محارم کے سامنے آنے میں بھی اتنی قیدیں لگائی ہیں۔ اور آج کل کی عورتیں نامحرموں کے سامنے بھی بیباکانہ آتی ہیں گویا شریعت کا پورا مقابلہ ہے۔ بیبیو! پردہ کا اہتمام کرو اور نامحرم رشتہ داروں کے سامنے قطعاً نہ آؤ۔ اور محرم کے سامنے احتیاط سے آؤ ۔*
*®_ ( الکمال فی الدین ص (۱۰۸)*
╥────────────────────❥
*⊙__عورتوں کی وجہ سے مردوں میں لڑائی:-*
*★_ کبھی کبھی عورتوں کی لڑائی کا فساد شدید بھی ہو جاتا ہے کہ بعض دفعہ یہ اپنے آپس کے تکرار ( اور لڑائیوں ) کو مردوں سے بیان کر دیتی ہیں کہ فلانی نے مجھے یوں کہا اور تجھے یوں کہاں ۔ مردوں میں حرارت ہوتی ہے ان پر زیادہ اثر ہوتا ہے پھر یہ بات یہیں تک نہیں رہتے بلکہ ہاتھ سے بھی بدلہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے قتل اور خون تک ہو جاتے ہیں !*
*★_ عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ ایک ذرا سا بہانہ مل جائے اس کو مدتوں تک نہ بھولیں گی ۔ اور اس کی شاخ میں شاخ نکالتی چلی جائیں گی۔ ان کا کینہ کسی طرح نکلتا ہی نہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس کی عورتیں اس میں مبتلا نہ ہوں ۔ ماں بیٹی آپس میں لڑتی ہیں، ساس بہو آپس میں لڑتی ہیں اور دیورانی جیٹھانی تو پیدا ہی اس لئے ہوئی ہیں ( کہ لڑائی کریں)،*
*★_ اور دیکھا جائے تو ان لڑائیوں کی بنیاد صرف اوہام پرستی ہے کسی کے بارے میں ذرا سا شائبہ ہوا اور اسپر حکم لگا کر لڑائی شروع کر دی۔ گھروں میں ہمیشہ لڑائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہوتی ہے۔ کسی خدا کی بندی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جب شکایت سنے تو اس بیچ کے واسطے کو قطع کر کے خود اس شکایت کرنے والی سے پوچھ لیں کہ تم نے میری شکایت کی ہے کیا؟۔*
*★_ مسنون طریقہ بھی یہی ہے کہ اگر کسی سے کچھ شکایت دل میں ہو تو اس شخص سے ظاہر کر دے کہ تمہاری طرف سے میرے دل میں یہ شکایت ہے اس شخص سے اس کا جواب مل جائے گا اور اگر وہ شکایت غلط تھی تو بالکل دفعیہ ہو جائے گا۔اور سنی سنائی باتوں پر اعتبار کر لینا اور اسپر کوئی حکم لگا دیا بالکل نصوص ( شریعت ) کے خلاف اور جہالت ہے،*
*"★_اس موقع کے لئے قرآن شریف میں موجود ہے- بدگمانیوں سے بچو بیشک بہت سی بدگمانیاں گناہ ہوتی ہے ۔ (حجرات پ۲۶)*
╥────────────────────❥
*⊙__ عورتیں اور رسوم کی پابندی:-*
*★_ اس معاملے میں عورتوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے، یہ اپنی ذہن کی ایسی پکی ہوتی ہیں کہ دین تو کیا دنیا کی بھی بربادی کا ان کو خیال نہیں رہتا۔ رسموں کے سامنے اور اپنی ضد کے سامنے چاہے کچھ بھی نقصان ہو جائے کچھ پرواہ نہیں کرتیں، مگر لطف ( اور تعجب ) یہ ہے کہ اب تک بھی ان رسموں کی برائی ان کو محسوس نہیں ہوئی،*
*★_ خاص کر شادی بیاہ کی رسموں میں اور شیخی کے کاموں میں بعض جگہ صرف عورتیں خرچ کی مالک ہوتی ہیں۔ جتنے سامان بیاہ شادی کے ہیں سب کی بناء تفاخر اور نمود ( شہرت ) پر ہے اور یہ تفاخر گو مرد بھی کرتے ہیں مگر اصل جڑ اس میں عورتیں ہی ہیں یہ اس فن کی ماہر ہیں اور ایسی مشاق اور تجربہ کار ہیں کہ نہایت آسانی سے تعلیم دے سکتی ہیں۔*
*★_ مسلمان مرد عورت پر لازم ہے کہ ان سب بیہودہ رسموں کے مٹانے پر ہمت باندھے، اور دل و جان سے کوشش کرے کہ ایک رسم بھی باقی نہ رہے اور جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں سادگی سے سیدھے سادھے طور پر کام ہوا کرتے تھے اس کے موافق اب پھر ہونے لگیں، جو مرد اور جو عورتیں یہ کوشش کریں گے ان کو بڑا ثواب ملے گا۔*
*"_حدیث شریف میں آیا ہے کہ سنت کا طریقہ مٹ جانے کے بعد جو کوئی اس (سنت کے) طریقہ کو زندہ کر دیتا ہے اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔*
*★_حضرت حکیم الامت نے فرمایا: میں عورتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ان کو چاہئے کہ مردوں کو (رسوم ) سے روکیں ان کا روکنا بہت مؤثر ہے ایک تو اس وجہ سے کہ ان قصوں ( یعنی رسوم و رواج ) کی اصل بانی وہی ہیں جب یہ خود رکیں گی اور مردوں کو روکیں گی تو کوئی بھی قصہ نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ان کا لب ولہجہ اور ان کا کلام بے حد موثر ہوتا ہے ان کا کہنا دل میں اتر جاتا ہے۔ اس لئے اگر یہ چاہیں تو بہت جلد روک سکتی ہیں،*
*®_ (التبلیغ دواء لعیوب ص ۹۹)*
╥────────────────────❥
*⊙___ عورتوں کو اہم نصیحتیں:-*
*★_ (1) سب سے پہلے اپنے عقیدے ٹھیک کرو اور ضروری ضروری مسئلے سیکھو اور بہت اہتمام سے ان مسئلوں کی پابندی کرو۔*
*"_(۲) ہر بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے کا اہتمام کرو اس سے دل میں بڑا نور پیدا ہوتا ہے۔*
*"_(۳) شرک کی باتوں کے پاس مت جاؤ ۔ فال مت کھلواؤ۔*
*"_(۴) اولاد کے ہونے یا زندہ رہنے کے لئے ٹونے ٹوٹکے مت کرو۔*
*"_(۵) بزرگوں کی منت مت مانو صرف اللہ سے دعاؤں کے ذریعے مانگو,*
*★_(۲) شریعت میں جس سے پردہ ہے چاہے وہ پیر ہو چاہے کیسا ہی قریبی رشتہ دار ہو جیسے دیور ۔ جیٹھ، خالہ کا یا مامو کا یا پھوپھی کا بیٹا یا بہنوئی یا نندوئی یا منھ بولا بھائی یا منہ بولا باپ، ان سے خوب پردہ کرو۔*
*"_(۷) خلاف شرع لباس مت پہنو جیسے ایسا کرتہ کہ جس میں پیٹ پیٹھ یا کلائی یا بازو کھلے ہوں۔ یا ایسا باریک کپڑا جس میں بدن یا سر کے بال جھلکتے ہوں یہ سب چھوڑ دو۔*
*"_(۸) لمبی آستینوں کا اور نیچا اور موٹے کپڑے کا ( جس سے بدن نہ جھلکے ) لباس بناؤ۔ اور ایسے کپڑے کا دوپٹہ ہو اور دوپٹہ دھیان کر کے سر سے مت ہٹنے دو ہاں گھر میں اگر خالی عورتیں ہوں۔ یا اپنے ماں باپ اور حقیقی بھائی وغیرہ کے سوا گھر میں کوئی اور (یعنی نامحرم نہ ہو تو اس وقت سر کھولنے میں ڈر نہیں۔*
*★_ (۹) کسی کو جھانک تاک کرمت دیکھو۔*
*"_(۱٠) کوئی کام نام کے واسطے مت کرو۔*
*"_(۱١) کو سنے اور طعنہ دینے اور غیبت سے زبان کو بچاؤ۔*
*(۱٢) پانچوں وقت نماز اول وقت پڑھو اور جی لگا کر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ رکوع سجدہ اچھی طرح کرو۔*
*(۱٣) اگر تمہارے پاس زیور گوٹہ لچک وغیرہ ہو تو حساب کر کے زکوۃ نکالو۔*
*(۱٤) خاوند کی تابعداری کرو، اس کا مال اس سے چھپا کر خرچ مت کرو۔ گھر کا کام خاص کر اپنے شوہر کی خدمت کرنا عبادت ہے۔*
*(۱٥) گانے بھی نہ سنو۔*
*★_(۱٦) اگر تم قرآن پڑھی ہوئی ہو تو روزآنہ قرآن پڑھا کرو۔*
*(۱٧) جو کتاب پڑھنے یا دیکھنے کے لئے لینا ہو پہلے کسی معتبر عالم کو دکھلا لو اگر وہ صحیح بتلائیں تو خرید لو ورنہ مت لو۔*
*(۱٨) اگر کوئی شخص کوئی بات تمہاری مرضی کے خلاف کرے تو صبر کرو۔ جلدی سے کچھ کہنے سننے مت لگو ، خاص کر غصہ کی حالت میں بہت سنبھلا کرو۔*
*★_(١٩) اپنے کو صاحب کمال ( یعنی بزرگ اور بڑا) مت سمجھو۔*
*(۲٠) جو بات زبان سے کہنا چاہو پہلے سوچ لیا کرو، جب خوب اطمینان ہو جائے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اس میں کوئی دین یا دنیا کی ضرورت ہے یا فائدہ ہے اس وقت زبان سے نکالو۔*
*(۲١) کسی برے آدمی کی بھی برائی مت کرو، نہ سنو,*
*★_(۲٢) کسی مسلمان کو اگر چہ وہ گنہگار یا چھوٹے درجہ کا ہو حقیر مت سمجھو۔*
*(۲٢) مال و عزت کی حرص لالچ مت کرو۔*
*(۲٤) بے ضرورت اور بے فائدہ لوگوں سے زیادہ مت ملو۔ اور جب ملنا ہو تو خوش اخلاقی سے ملو۔ اور جب کام ہو جائے تو ان سے الگ ہو جاؤ۔*
*(۲٥) بات کو بنایا مت کرو بلکہ جب تم کو اپنی غلطی معلوم ہو جائے فوراً اقرار کر لو اللہ پر بھروسہ رکھو اور اس سے اپنی حاجت عرض کیا کرو۔ اور دین پر قائم رہنے کی دعائیں کرو۔* *®_( قصد السبیل ص ۱۵ ص ۳۷)*
╥────────────────────❥
*⊙__ عورتوں کی اصلاح کے طریقے:-*
*★_ (1) عورتوں کی تمام خرابیوں کی اصل جڑ اور بنیاد ایک ہی امر ہے اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو سب باتوں کی اصلاح ہو جائے ۔ وہ یہ کہ آج کل بے فکری ہوگئی ہے، اگر ہر امر میں دین کا خیال رکھا جائے کہ یہ کام جو ہم کرتے ہیں دین کے موافق ہے یا نہیں تو انشاء اللہ چند روز میں اصلاح ہو جائے گی ،*
*"_(۲) اصلاح کا طریقہ غور سے سننا اور سمجھنا چاہئے اور اصلاح کا طریقہ علم و عمل سے مرکب ہے۔ اور علم یہی نہیں ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیا یا تفسیر پڑھ لی بلکہ کتاب وہ پڑھو جس میں تمہارے امراض کا بیان ہو، یہ تو علم کا بیان ہوا،*
*"★_(٣) اور عمل ( دو ہیں) ایک تو یہ کہ زبان روک لو۔ تمہاری زبان بہت چلتی ہے تم کو کوئی برا کہے یا بھلا کہے تم ہرگز مت بولو۔ اس طرح کرنے سے حسد وغیرہ سب جاتے رہیں گے۔ اور جب زبان روک لی جائے گی تو امراض کے مبانی و مناشی ( یعنی اسباب ) بھی ضعیف اور مضمحل ہو جائیں گے۔*
*★_(۴) دوسرا کام یہ کہ ایک وقت مقرر کر کے یہ سوچا کرو کہ دنیا کیا چیز ہے اور یہ دنیا چھوٹ جانے والی ہے اور موت کا اور موت کے بعد جو امور پیش آنے والے ہیں جیسے قبر اور منکر نکیر کا سوال اور اس کے بعد قبر سے اٹھنا اور حساب و کتاب اور پل صراط کا چلنا, سب کو تفصیل کے ساتھ روزانہ سوچا کرو اس سے حب جاہ, حب مال (یعنی بڑا بنے کی خواہش اور مال کی محبت ) اور تکبر، حرص، غیبت، حسد وغیرہ سب امراض جاتے رہیں گے۔*
*★_ غرض علاج کا حاصل دو جزء ہیں ایک علمی دوسرا عملی، علمی کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کے بعد ایسی کتابیں پڑھو جس میں احکام فقبیہ ( مسائل ) کے ساتھ دل کے امراض مثلاً حسد، تکبر وغیرہ کا بھی بیان ہو۔ کم سے کم بہشتی زیور ہی کے دس حصے پڑھ لو۔*
*"_ اور عملی جزء کا حاصل دو چیزیں ہیں زبان کو روکنا اور موت کا مراقبہ۔*
*★_ اگر ممکن ہو تو کسی عالم سے سبق تھوڑا تھوڑا پڑھو اگر گھر میں عالم موجود ہو۔ ورنہ گھر کے مردوں سے درخواست کرو کہ وہ کسی عالم سے پڑھ کر تم کو پڑھا دیا کریں۔ مگر پڑھ کر بند کر کے مت رکھ دینا بلکہ ایک وقت مقرر کر کے ہمیشہ اس کو خود بھی پڑھتی رہنا اور دوسروں کو بھی سناتی رہنا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس طریقہ سے ان شاء اللہ بہت جلد اصلاح ہو جائے گی،*
*®_ (اصلاح النسا میں ۱۹۶)*
╥────────────────────❥
*⊙___ عورتوں کو مرد بننے کی تمنا کرنا:-*
*★_ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے دعاء کی تھی، اور فرمایا تھا۔ یالیتنا كُنَّا رِجَالاً ۔ یعنی کاش ہم تو مرد ہوتے کہ مردوں کے متعلق جو فضائل ہیں وہ ہم کو بھی حاصل ہوتے ۔ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی ۔ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمُ عَلَى بَعْضٍ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ جو فضائل فطری اور غیر اختیاری ہیں جن کے حاصل کرنے میں کوشش کا کوئی دخل نہیں ان کی تمنّا مت کرو۔ اور جو چیزیں اکتساب سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی اپنے اختیار سے جو فضائل حاصل کئے جا سکتے ہیں وہ حاصل کرو۔*
*★_ پس یہ تمنّا کرنا کہ ہم مرد ہوتے، خدا پر اعتراض کرنا ہے کہ ہم کو عورت کیوں بنایا، جس کو جیسا بنا دیا اس کے لئے وہی بہتر ہے،*
*★_۔ تمہارے ذمہ صرف گھر کے کام ہیں اور مردوں کے ذمہ بہت کام ہیں سفر کرو تجارت کرو۔ معاش حاصل کرو۔ تمام دنیا کے بکھیڑے مردوں کے ذمہ ہیں، جمعہ، جماعت ، دین کی اشاعت تبلیغ سب مردوں کے ذمہ ہے تمام اہل وعیال کا خرچ ان کے ذمہ ہے۔ تمہارے ذمہ یہ چیزیں نہیں ہیں اور اسی لئے تمہارا حصہ بھی آدھا ہی مقرر ہوا ہے، بلکہ یہ بھی تمہارے لئے زائد ہی ہے اس لئے کہ تمہارے ذمہ کسی کا خرچ نہیں حتیٰ کہ اپنا بھی نہیں وہ بھی مرد ہی کے ذمہ ہے۔تمہارے لئے تو بہت آسانی ہے ،*
*★_ پس عورت ہونا تمہارا مبارک ہو گیا, کیا کروں گی درجوں کو لے کر بس نجات ہو جائے غنیمت ہے۔ اگر سزا نہ ہو تو بھی بہتر ہے باقی اگر تم درجوں کے کام کرو گی تو درجے بھی مل جائیں گے لیکن یہ ضروری نہیں کہ تم انبیاء سے بھی بڑھ جاؤ۔ بہر حال تم کو کام بہت کم بتایا گیا ہے اس لئے تم خوش رہو اور مردوں پر رشک نہ کرو۔ نہ مرد بننے کی تمنا کرو۔*
*®_( وعظ الخضوع حقیقت عبادت ص ۳۱۶)*
╥────────────────────❥
*⊙___عورتوں کی ایک بڑی خوبی:-*
*★_ عورتوں میں تعریف کی بات یہ ہے کہ ان کو خدا اور رسول کے احکام میں شبہ نہیں ہوتا، جب سن لیں گی کہ یہ خدا اور رسول کے احکام ہیں گردن جھکا دیں گی چاہے عمل کی توفیق نہ ہو لیکن اس میں شک و شبہ اور اس کی وجہ علت ( چون و چرا) کا سوال ان کی جانب سے نہیں ہوتا، بخلاف مردوں کے کہ ان میں اس طرح اطاعت کا مادہ کم ہے۔*
*★_ خاص کر آج کل تو اتنی عقل پرستی بلکہ اکل پرستی ( پیٹ پالنے کی فکر ) غالب ہوئی ہے کہ ہر بات کی وجہ پوچھتے ہیں۔ اپنی عقل سے ہر مسئلہ کو جانچتے ہیں اور اس میں رائے زنی کرتے ہیں کہ عقل کے موافق ہے یا نہیں اور عورتوں کی خواہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن وہ تسلیم کر لیں گی۔*
╥────────────────────❥
*⊙___عورتوں کو علم دین پڑھانے کا فائدہ:-*
*★_ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ عورتوں کو دین کی تعلیم دے کر تو دیکھو اس سے ان میں عقل و فہم وسلیقہ اور دنیا کا انتظام بھی کسی قدر پیدا ہوتا ہے۔ جن عورتوں کو دین کی تعلیم حاصل ہے عقل و فہم میں وہ عورتیں کبھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جو ایم اے، بی اے ہو رہی ہیں۔ ہاں بے حیائی میں وہ ضرور ان سے بڑھ جائیں گی اور باتیں بنانے میں بھی انگریزی پڑھنے والیاں شاید بڑھ جائیں گی مگر عقل کی بات دیندار عورت ہی کی زبان سے زیادہ نکلے گی،*
*★_ جس کا دل چاہے تجربہ کر کے دیکھ لے کہ علم دین کے برابر دنیا بھر میں کوئی دستور العمل اور کوئی تعلیم شائستگی اور تہذیب، سلیقہ نہیں سکھلاتا۔ چنانچہ ایک وہ شخص لیجئے جس پر علم دین نے پورا اثر کیا ہو اور ایک شخص وہ لیجئے جس پر جدید تہذیب نے پورا اثر کیا ہو، پھر دونوں کے اخلاق اور معاشرت اور معاملہ کا موازنہ کیجئے تو آسمان وزمین کا تفاوت پائیں گے،*
*★_ مرد عورتوں کی تعلیم اپنے ذمہ ہی نہیں سمجھتے، حالانکہ مردوں پر واجب ہے کہ ان کو احکام بتلائیں حدیث میں ہے کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ یعنی تم سب ذمہ دار ہو تم سے قیامت میں تمہاری ذمہ داری کی چیزوں سے سوال کیا جائے گا۔*
╥────────────────────❥
*⊙___عورتوں کو دینی تعلیم نہ دینا ظلم ہے:-*
*★_مرد اپنے خاندان میں اپنے متعلقین میں حاکم ہے۔ قیامت میں پوچھا جائے گا کہ محکومین کا کیا حق ادا کیا، محض نان نفقہ ہی سے حق ادا نہیں ہوتا کیونکہ یہ کھانا پینا دنیا کی زندگی تک ہے آگے کچھ بھی نہیں، اس لئے صرف اس پر اکتفا کرنے سے حق ادا نہیں ہوتا، چنانچہ حق تعالیٰ نے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا: يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا -*
*"_کہ اے ایمان والو! اپنی جانوں کو اور اپنے اہل کو دوزخ سے بچاؤ یعنی ان کی تعلیم کرو، حقوق الہی سکھلاؤ ان سے تعمیل بھی کراؤ۔ تو گھر والوں کو دوزخ سے بچانے کے معنی یہی ہیں کہ ان کو تنبیہ کرو،*
*★_ سچ تو یہ ہے کہ مردوں نے بھی دین کی ضرورت کو ضرورت نہیں سمجھا۔ کھانا ضروری, فیشن ضروری، ناموری ضروری مگر غیر ضروری ہے تو دین، دنیا کی ذراسی نقصان اور خرابی کا خیال ہوتا ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر دین کا نقصان اور خرابی پہونچ گئی تو کیسا بڑا نقصان ہوگا، پھر اگر وہ مغفرت ایمان کی حد میں ہے تب تو چھٹکارا بھی ہو جائے گا مگر نقصان ( عذاب ) پھر بھی ہوگا گو دائمی نہ ہو اور اگر ایمان کی حد سے بھی نکل گئی تب تو ہمیشہ کا مرنا ہو گیا اور تعجب ہے کہ دنیا کی باتوں سے بے فکری نہیں ہوتی مگر دین کی باتوں سے کس طرح بے فکری ہو جاتی ہے۔*
*★_ اب تو حالت یہ ہے کہ گھر جا کر سب سے پہلے سوال کرتے ہیں کہ کھانا پکا یا نہیں؟ اگر کھانا تیار ہوا اور نمک تیز ہو گیا تو اب گھر والوں پر نزلہ اتر رہا ہے، غرض آج کل مردوں کو نہ عورتوں کے دین کی فکر ہے نہ دنیا کی فکر ہے، ان کو جاہل بنا رکھا ہے، یا د رکھو یہ بڑا ظلم ہے جو تم نے عورتوں پر کر رکھا ہے ہمیں چاہئے کہ خود بھی کامل بنیں اور عورتوں کو بھی کامل بنا ئیں جس کا طریقہ اللہ تعالی نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ پہلے علم دین حاصل کرو پھر عمل کا اہتمام کرو۔*
*★_ خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کے بموجب بڑا چھوٹے کا نگراں ہوتا ہے اور اس سے باز پرس ہو گی تو جس طرح ممکن ہو عورتوں کو دین مرد خود سکھا دیں یا کوئی بی بی دوسری بیبیوں کو سکھا دے اور سکھانے کے ساتھ ان کا پابند بھی بنادے اس کے بغیر برات ( خلاصی ) نہیں ہوسکتی ۔*
*®_ (التبلیغ وعظ الاستماع والاتباع ۲۳ ج ۴)*
╥────────────────────❥
*⊙___لڑکیوں اور عورتوں کو عالم کورس کرانا:-*
*★_ حضرت حکیم الامت نے فرمایا: میں عورتوں کی تعلیم کا مخالف نہیں۔ مگر یہ کہتا ہوں کہ تم ان کو مذہبی تعلیم دو اور زیادہ ہمت ہو تو عربی علوم کی تعلیم دو، اور اس کے لئے زیادہ ہمت کی قید اس لئے ہے کہ عربی کے لئے زیادت فہم اور زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ (ایضا ۶ ۲ ج ۱۳۱۳)*
*★_ مگر آج آزادی کا زمانہ ہے، ہر ایک خود مختار ہے چنانچہ عورتیں بھی کسی بات میں مردوں سے پیچھے رہنا نہیں چاہتیں ۔ ہر علم وفن کی تحصیل کرنا چاہتی ہیں تصنیفیں کرتی ہیں اخبارات میں مضامین بھیجتیں ہیں۔*
*★_اگر ضروری نصاب کے بعد اگر طبیعت میں قابلیت دیکھیں تو عربی کی طرف متوجہ کر دیں تاکہ قرآن وحدیث وفقہ اصلی زبان میں سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور قرآن کا خالی ترجمہ جو بعض لڑکیاں پڑھتی ہیں میرے خیال میں سمجھنے میں زیادہ غلطی کرتی ہیں اس لئے اکثر کے لئے مناسب نہیں۔*
*®_(اصلاح انتخاب ص ۲۷۳ ج۱)*
╥────────────────────❥
*⊙__ لڑکیوں کو حفظ قرآن کی تعلیم:-*
*★_ لڑکا ہو یا لڑکی جب سیانے ہو جائیں ان کو علم دین پڑھائیں، قرآن شریف بڑی چیز ہے، کسی حالت میں ترک نہ کرنا چاہئے، یہ خیال نہ کریں کہ وقت ضائع ہوگا۔ اگر قرآن شریف پورا نہ ہوا آدھا ہی ہو یہ بھی نہ ہوا خیر کی طرف سے ایک ہی منزل پڑھا دی جائے، اس میں چھوٹی چھوٹی سورتیں نماز میں کام آئیں گی،*
*★_ ایک منزل پڑھانے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ قرآن پاک کی یہ بھی برکت ہے کہ حافظ قرآن کا دماغ دوسرے علوم کے لئے ایسا مناسب ہو جاتا ہے کہ دوسرے کا نہیں ہوتا یہ رات دن کا تجربہ ہے۔*
*★_ عورتوں کو کون سے علوم اور کتابیں پڑھائی جائیں ؟ میں کہتا ہوں ان کو مذہبی تعلیم دیجئے فقہ پڑھایے تصوف پڑھائیے۔ قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھائیے جس سے ان کی ظاہری باطنی اصلاح ہو۔ عورتوں کے لئے تو بس ایسی کتابیں مناسب ہیں جن سے خدا کا خوف جنت کی طمع اور شوق، دوزخ سے ڈر اور خوف پیدا ہو۔ اس کا اثر عورتوں پر بہت اچھا ہوتا ہے،*
*★_اس لئے میں پھر کہتا ہوں کہ عورتوں کو وہ تعلیم جس کو پرانی تعلیم کہا جاتا ہے بقدر کفایت ضرور دینا چاہئے, وہی تعلیم اخلاق کی اصلاح کرنے والی ہے, جس سے ان کی آخرت اور دنیا سب درست ہو جائے, عقائد صحیح ہوں عادات درست ہوں معاملات صاف ہوں۔ اخلاق پاکیزہ ہوں !*
*®_ (التبلیغ ص ۲۷۲۶۳)*
╥────────────────────❥
*⊙___عورتوں کا کورس اور نصاب تعلیم:-*
*★_ ضروری ہے کہ عورتوں کی تعلیم کا کورس کسی محقق عالم سے تجویز کراؤ، اپنی رائے سے تجویز نہ کرو، لڑکیوں کے لئے نصاب تعلیم یہ ہونا چاہئے کہ پہلے قرآن مجید حتی الامکان صحیح پڑھایا جائے ۔ پھر دینی کتابیں سہل زبان میں جن میں دین کے تمام اجزاء کی مکمل تعلیم ہو، میرے نزدیک بہشتی زیور کے دسوں حصے ضرورت کے لئے کافی ہیں۔*
*★_ بہشتی زیور کے اخیر میں مفید رسالوں کا نام بھی لکھ دیا گیا ہے جن کا پڑھنا اور مطالعہ کرنا عورتوں کے لئے مفید ہے۔ اگر سب نہ پڑھیں تو ضروری مقدار پڑھ کر باقی کا مطالعہ ہمیشہ رکھیں۔ مفید کتابوں کے مطالعہ سے بھی غافل نہ رہیں۔*
*★_عورتوں کے پاس ایسی کتابیں پہونچاؤ جن میں دین کے پورے اجزاء سے کافی بحث ہو۔ عقائد کا بھی مختصر بیان ہو، وضو اور پاکی ناپاکی کے بھی مسائل ہوں نماز روزہ، حج، زکوۃ، نکاح ، بیع و شراء کے بھی مسائل ہوں، اصلاح اخلاق کا طریقہ بھی مذکور ہو، آداب اور سلیقہ (و تہذیب ) کی باتیں بھی بیان کی گئی ہوں۔ یہ بات مردوں کے ذمہ ہے اگر وہ اس میں کوتاہی کریں گے ان سے بھی مواخذہ ہوگا،*
*®_ ( حقوق الزوجین ص ۱۰۲)*
*📗عورت کی اصلاحی روشنی _,*
╥────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DAloyOp8VLHBqfy4b0xcnE
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل سبھی پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*
▉
0 Comments