┯━══◑━═━┉─◑━═━━══┯
*●• گھریلو جھگڑوں سے نجات •●*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ ہماری معاشرتی زندگی :-*
*★_ انسان فطری طور پر مل جل کر رہنے کا عادی ہے۔ اللہ رب العزت نے اسے سوچنے کے لئے دماغ دیا، محسوس کرنے کے لئے دل عطا کیا، تو یہ جذبات، احساسات رکھنے والا انسان اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ماں خود تو کھا لے جبکہ اس کا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے بھوک سے تڑپتار ہے ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیٹی بیمار ہو اور باپ اس کے علاج معالجے کے لئے توجہ ہی نہ دے ۔ اسی لئے انسان ایک معاشرے میں رہنا پسند کرتا ہے، اس کو گھریلو زندگی کہتے ہیں ۔*
*★_ ایک انسان کے بیوی بچے، یہ سب مل کر ایک گھرانہ بنتے ہیں، پھر کئی گھرانے مل کر ایک خاندان بنتا ہے۔ کئی خاندان مل کر ایک معاشرہ بنتا ہے۔ شہر آباد ہوتے ہیں، ملک آباد ہوتے ہیں, اسی طرح آج دنیا آباد ہے تو اس طرح مل جل کر رہنے کو معاشرتی زندگی کہتے ہیں۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨فساد اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے:-*
*★_ لیکن اس میں ایک چیز دیکھی گئی ہے کہ جس طرح برتن اکٹھے رہیں تو کھٹکتے ہیں، انسان جب مل جل کر رہتے ہیں تو ان کو بسا اوقات ایک دوسرے کے ساتھ رنجشیں ہو جاتیں ہیں, کبھی انسان Over Expect ( زیادہ توقع ) کر لیتا ہے، دوسرا بندہ اس کو پورا نہیں کر سکتا تو اس پر رنجش ہو جاتی ہے۔ کبھی دوسرے کے کسی Behaviour ( رویہ ) کی وجہ سے انسان کا دل ٹوٹتا ہے۔ تو کسی نہ کسی طرح آپس میں الجھاؤ رہتا ہے۔ شیطان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتا ہے اور پھر دلوں کے اندر ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور کدورتیں پیدا ہوتی ہیں ۔*
*★_ کبھی تو آپس میں سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے اور کبھی گرم جنگ شروع ہو جاتی ہے، اس کا نام فساد ہے۔ اور قرآن مجید میں آیا ہے کہ (وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادُ ) کہ اللہ رب العزت فساد کو پسند نہیں کرتے_,*
*★_ آج فساد عام ہے:- آج کون سا گھر ہے جہاں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رنجشیں نہ ہوں۔ کہیں بہن بھائی میں رنجشیں، کہیں اولاد اور ماں باپ کے درمیان رنجشیں، کہیں آپس میں میاں بیوی کے درمیان لڑائیاں، کہیں ساس بہو کے جھگڑے اور کہیں پر پڑوسی اور پڑوسی کے جھگڑے۔ اور دفتروں کی حالت تو بتانے کے قابل ہی نہیں،*
*★_ جہاں چند بندے مل کر رہتے ہیں کام کرتے ہیں, ایک دوسرے کے ساتھ حسد کی انتہا ہوتی ہے۔ Professional Jalousy ( پیشہ ورانہ حمد ) اس قدر ہوتا ہے کہ جس کو اللہ عزت دیتا ہے، بڑھاتا ہے، دوسرے مل کر اس کی ٹانگیں کھینچتے ہیں ۔ دفتروں کا زیادہ وقت ایک دوسرے کے خلاف پلاننگ کرنے میں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اور ایک دوسرے کو رسوا کرنے میں یا غیبت کرنے میں گزر جاتا ہے۔ ایک مسلمان معاشرے میں یہ چیزیں انتہائی نا پسندیدہ ہیں ۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨بچوں کے جھگڑے - بچے کچے ہوتے ہیں:-*
*★_ ایک بنیادی بات یہ ہے کہ بچے کچے ہوتے ہیں، ان کے دماغ ابھی پختہ نہیں ہوتے، ان کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے، چھوٹی عمر ہوتی ہے تو اپنے کچے ذہن کی وجہ سے وہ بچوں والی باتیں کرتے ہیں، تو بچے سے بچوں والی باتوں کی ہی توقع رکھنی چاہیے ۔ لہذا ماؤں اور بہنوں کو چاہیے کہ بچے سے بڑوں والی باتوں کی توقع مت کریں،*
*★_ بچہ جب بچپن کی عمر میں ہے، ذہن کچا ہے، تجربہ نہیں ہے، تو وہ بچگانہ باتیں اور حرکتیں تو کرے گا ۔ لہذا Expactation ( توقعات ) کا لیول بھی اسی طرح رکھنا چاہیے۔ بچپن تو بچپن ہی ہوتا ہے، بڑے بڑے اولیاء کا بچپن بھی اسی طرح گزرا کہ انہوں نے بچپن میں ایسے ہی بچگانہ فطرت والے کچے کام کیے جو عام طور پر بچے کرتے ہیں،*
*★_نبی علیہ سلام کے بچپن کا ایک واقعہ :-*
*"_نبی علیہ السلام کے بچپن کے واقعات مؤرخین نے بہت تھوڑے لکھے ہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں آپ کی جوانی کے واقعات دیکھیں تو وہ اگر ننانوے فیصد ہیں تو بچپن کے واقعات ایک فیصد بھی نہیں ملتے, وجہ یہ تھی کہ کوئی جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بچہ جو آج گودوں میں پل رہا ہے، اس نے بڑے ہو کر پوری دنیا کا معلم بننا ہے اور اللہ رب العزت کا محبوب ہونا ہے۔ اس لئے بچپن کے واقعات کتابوں میں اتنے زیادہ نہیں قلمبند کئے گئے ۔ چند ایک واقعات ہیں جن میں سے کچھ واقعات تو نبی علیہ السلام نے خود ہی بتلا دیئے ۔*
*★_ عام طور پر بچے کی عادت ہوتی ہے کہ اس کے جب دانت نکل رہے ہوں تو کوئی چیز بھی اس کے منہ میں ڈالو تو وہ اس کو کاٹتا ہے۔ آپ انگلی دیں تو انگلی کو کاٹے گا، اپنی ہتھیلی دیں تو ہتھیلی کو کاٹے گا، یہ بچے کی فطرت ہے۔ غالباً ایسی ہی عمر ہوگی کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کی رضاعی بہن شیما نے آپ کو اٹھایا اور آپ کو کندھے سے لگایا تو نبی علیہ السلام نے کندھے پر دندان مبارک سے کاٹا۔ یہ اتنا زیادہ تھا کہ اس کے نشان پڑ گئے۔*
*★_ اللہ کی شان دیکھیں کہ یہ نشان ان کے رہا۔ ایک مرتبہ کسی غزوہ میں ان کے قبیلہ کے لوگوں کو گرفتار کر کے لایا گیا، شیما اس وقت بوڑھی ہو چکی تھیں، وہ نبی علیہ السلام کی خدمت میں آئیں اور انہوں نے آکر بتایا کہ میں آپ کی بہن ہوں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اپنے باپ کا ایک ہی بیٹا ہوں ۔ آپ میری بہن کیسے؟ اس نے بتایا کہ میں حلیمہ کی بیٹی، آپ کی رضاعی بہن ہوں۔*
*★_ نشانی کے طور پر انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نے آپ کو اٹھایا ہوا تھا تو آپ نے مجھے کا ٹا تھا اور میرے جسم پر وہ نشان آج بھی موجود ہے۔ نبی علیہ السلام نے اس نشان کو دیکھا تو آپ کو بھی یاد آ گیا کہ ہاں بچپن میں ایسا معاملہ پیش آیا تھا۔ اس کے بعد نبی علیہ السلام نے اپنی چادر بچھائی اور اپنی بہن کو اس چادر پر بٹھایا۔*
*"_ دیکھیں کہ آپ ﷺ مستقبل کے معلم انسانیت تھے لیکن آپ ﷺ سے بھی بچپن میں بچگانہ فطرت کا اظہار ہورہا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں سے بچپن والی باتوں کی ہی توقع رکھیں کہ بچپن کی عمر ہے، ذہن کچا ہے، تجربہ نہیں ہے، تو وہ اس قسم کی باتیں اور حرکتیں کرے گا۔ نہ کرے تو اسے بچہ کون کہے گا ،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بچہ یا بوڑھا :-*
*★_حضرت مرزا مظہر جان جاناں نے ایک مرتبہ حضرت شاہ غلام علی دہلوی سے فرمایا ”غلام علی کسی بچے کو ہمارے پاس لے آنا۔ حضرت شاہ صاحب اپنے گھر گئے اور بچے کو حضرت کی خدمت میں لانے کے لئے تیار کیا۔ کافی دیر اسے سمجھاتے رہے کہ حضرت کی خدمت میں ایسے بیٹھنا اور ایسے کرنا۔ ایسے نہ کرنا۔ بچہ جب اچھی طرح معاملہ سمجھ گیا تو اگلے دن حضرت شاہ صاحب اسے حضرت کی خدمت میں لائے ۔*
*★_ بچے نے سلام کیا اور با ادب ایک طرف بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر گزری تو حضرت نے فرمایا ”غلام علی ہم نے تو کہا تھا کہ کسی بچے کو ہمارے پاس لے آنا۔ حضرت شاہ صاحب نے عرض کیا ”حضرت بچے ہی کو تو لے آیا ہوں۔ حضرت نے فرمایا ” یہ کوئی بچہ ہے یہ تو بوڑھا معلوم ہوتا ہے۔*
*★_ یعنی بچہ تو اس وقت اچھا لگتا ہے جب بچوں والی باتیں کرے، اچھل کود کرے، آپ نے بچے کو بوڑھا بنا کر بٹھا دیا, وہ لگتا ہی نہیں کہ بچہ ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨شیخ سعدی رحمۃ اللہ کے بچپن کے کچھ واقعات :-*
*★_ دیکھئے ! حضرت شیخ سعدی رحمتہ االلہ علیہ اپنی بات خود بتلاتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے سونے کی انگوٹھی پہنا دی، میں وہ انگوٹھی پہن کر باہر گلی میں نکلا تو ایک ٹھگ مل گیا، اس ٹھگ کے پاس گڑ کی ڈلی تھی، اس نے مجھے اٹھا کر پیار کیا اور مجھے کہنے لگا کہ تم اپنی انگوٹھی کو چکھو! میں نے انگوٹھی کو زبان سے لگایا تو بے ذائقہ تھی ۔ پھر اس کے بعد اس نے گڑ کی ڈلی دی کہ اس کو چکھو! جب میں نے گڑ کو چکھا تو بڑا مزیدار تھا، کہنے لگا کہ مزیدار چیز لے لو اور بے مزہ چیز دے دو۔*
*★_ کہنے لگے کہ مجھے گڑ کا اتنا مزہ آیا کہ میں نے اسے انگوٹھی اتار کے دی اور گڑ کی ڈلی لے کر گھر واپس آگیا ۔ اب بچے تھے، کچے تھے، گڑ کی ڈلی کے بدلے سونے کی انگوٹھی دے کر آگئے۔ تو اس عمر میں انسان غلطیاں بھی کرتا ہے اور سیکھتا بھی ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بچے گھر کے ماحول کے مطابق کھیلتے ہیں :-*
*★_ بچے جو کچھ کھیلتے ہیں تو وہ بھی اپنے گھر کے ماحول کے مطابق ہی کھیلتے ہیں ۔ وہ اپنے بڑوں کو جو کرتے دیکھتے ہیں پھر وہی ان کا کھیل بن جاتا ہے، اس لیے ہر گھر کا بچہ اپنے گھر والوں کے ماحول اور مزاج کے مطابق ڈھلتا ہے۔ مولانا طلحہ رحمۃ اللہ خود ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ میں چھوٹا سا تھا، گلی میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک بچے کو بیعت کر رہا تھا، اسلئے کہ میں نے اپنے والد کو بیعت کرتے دیکھا تھا۔*
*★_ اب میں چھوٹا سا ! اور ایک بچے کو بیعت کے کلمات پڑھا رہا تھا، اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے ۔ اللہ کی شان کہ ادھر سے حضرت مدنی رحمۃ اللہ تشریف لے آئے، انہوں نے مجھے آکر دیکھا تو چونکہ شفقت بہت تھی ، شیخ الحدیث کے ساتھ بہت زیادہ گہرا تعلق تھا۔ مجھے دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ صاحبزادے صاحب ! ہمیں بھی بیعت کر لو۔ کہنے لگے میں نے کہا: آئیں بیٹھ جائیں ! مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں؟ تو میں نے حضرت مدنی رحمۃ اللہ کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے اور میں نے کچھ کلمات پڑھ کر کہا کہ اچھا! میں نے آپ کو بھی بیعت کر لیا۔*
*"_ تو دیکھو! بچہ ہے لیکن وہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ کو بیعت کر رہا ہے۔ بچے اس طرح کے کام کرتے ہیں ۔*
*★_ مولانا آزاد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا تو گھر میں والد صاحب کا عمامہ پڑا ہوتا تھا، میں کیا کرتا ! اپنی بہنوں کو اکٹھا کر لیتا اور اپنے سر پہ اپنے والد کا عمامہ رکھتا اور بڑی شان سے چلتا اور میں بہنوں کو کہتا : " ہٹو! راستہ دو، دہلی کے مولانا آ رہے ہیں، اس لئے کہ بچپن میں میں نے سنا ہوا تھا کہ دہلی میں کوئی بڑے مولانا ر ہتے ہیں۔ اور پھر میں اپنی بہنوں کو کہتا کہ تم لوگ میرا استقبال کرو اور استقبال میں تم نعرے لگاؤ ! اب بہنیں کہتیں کہ ہم کیوں نعرے لگا ئیں؟ اس لئے کہ مولانا جو آرہے ہیں، تو وہ کہتیں کہ نہیں مولانا کے استقبال کے لئے تو ہزاروں لوگ ہوتے ہیں، ہم تو دو ہیں، تو وہ کہتے کہ نہیں تم یونہی سمجھ لو کہ تم ہزاروں ہو اور میرا استقبال کر رہے ہو، لہذا تم نعرے لگاؤ !*
*" اب چھوٹا سا بچہ! دیکھو! اپنی بہنوں کے ساتھ کس طرح کھیل رہے ہیں _,*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ چھوٹے بچوں کی سمجھ چھوٹی ہوتی ہے:-*
*★_ کہنے لگے کہ میں چھوٹا تھا تو ایک دن امی ابو آپس میں بیٹھے بات کر رہے تھے تو کسی نے کہا کہ قیامت کا دن ہو گا، بہت گرمی ہوگی اور سورج تو سوا نیزے پہ ہو گا اور پسینہ ہوگا اور بہت مشکل ہوگی۔ تو ساری باتیں سن کے میں ہنس پڑا، تو امی نے کہا کہ بیٹے ہنس کیوں رہے ہو؟ تو میں نے کہا:- امی ! جب اتنی زیادہ گرمی ہو گی تو میں گرمی سے بچنے کے لئے کمرے میں چلا جاؤں گا، تو کہنے لگے: سارے گھر والے بنسنے لگے۔*
*★_ اب حشر کی گرمی کا تذکرہ اور بچے کا حال دیکھو کہ کہہ رہا ہے کہ امی ! اس گرمی سے بچنے کے لئے میں اس دن کمرے میں چلا جاؤں گا۔ تو بچے کی اتنی ہی سوچ ہوتی ہے اور اتنا ہی اس کا معاملہ ہوتا ہے۔*
*★_ چنانچہ حضرت مولانا خلیل احمد سہار پوری رحمۃ اللہ کے گھر میں ایک خادمہ کام کرتی تھی اور اس خادمہ کا نام رحمتی تھا۔ وہ قریب ہی رہتی تھی، اس نے ایک بکری بھی پالی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس بکری نے ایک بچہ دیا، مولانا یوسف رحمۃ اللہ ( جو حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ کے صاحبزادے تھے اور جانشین تھے ) بچپن کی عمر میں تھے اور وہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمتہ االلہ کے ہاں آیا جایا کرتے تھے۔*
*★_ فرماتے ہیں کہ میں جب وہاں جاتا تھا تو مجھے وہ بکری کا چھوٹا سا بچہ بہت اچھا لگتا تھا۔ تو میں اکثر اس بکری کے بچے کے ساتھ کھیلتا تھا، تو ایک دفعہ کیا ہوا؟ کہ لوگ آپس میں حج کی باتیں کر رہے تھے کہ ہم نے حج پہ جانا ہے۔ میں ان کی باتیں سنتا رہا سنتا رہا۔ تو آخیر میں پھر میں نے کہا کہ ہاں میں بھی حج پہ جاؤں گا، تو کسی نے پوچھ لیا کہ کیسے حج پر جاؤ گے؟ میں نے کہا: کہ رحمتی کی بکری کا جو چھوٹا بچہ ہے میں اس کی پیٹھ پر سوار ہو کر حج کے لئے جاؤں گا۔*
*★_ اب دیکھو! چھوٹا سا بچہ بچپن کی عمر میں یہ جواب دے رہا ہے کہ میں بکری کے بچے کی پیٹھ پر بیٹھ کر حج کروں گا۔ کہنے لگے: یہ بات ایسی مشہور ہوئی کہ مولا نا خلیل الرحمن سہار نپوری رحمۃ اللہ جب بھی کبھی مجھے ملتے تو مجھے دیکھ کر کہتے : ہاں سناؤ بچے ا تم حج پہ کیسے جاؤ گے اور میں آگے سے کہہ دیتا کہ بکری کے بچے کی پیٹھ پہ بیٹھ کر حج کروں گا، تو حضرت مسکرایا کرتے تھے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ ذمہ دارانہ طرز عمل :-*
*★_ کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں شروع سے ہی احساس ذمہ داری ہوتا ہے اور لڑکپن میں ہی وہ بڑے ذمہ دار بن کر رہتے ہیں ۔ جیسے حضرت مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں میرے گھر کے حالات غریبی کے تھے، مگر میں نے کسی سے ٹوپیاں بنانا سیکھ لیا تھا، جیسے عورتیں قریشے کے ساتھ بیٹھ کے مختلف چیزیں بناتی رہتی ہیں۔ کہنے لگے کہ بس میں بھی اسی طرح بیٹھ کر وہ ٹوپیاں بناتا رہتا تھا حتیٰ کہ کئی مرتبہ استاد کلاس میں پڑھا رہا ہوتا تھا میں پیچھے بیٹھا ہوتا تھا، سبق بھی سن رہا ہوتا تھا اور ساتھ ساتھ ٹوپی بھی بنا رہا ہوتا تھا۔ مگر اللہ نے ذہن ایسا دیا تھا کہ ساتھ والے بچے اگر کوئی چیز نہیں سمجھ سکتے تھے تو میں ٹوپی بنانا چھوڑ کر ان کو وہ بات سنا دیتا تھا۔ تو وہ حیران ہوتے تھے کہ تم ٹوپیاں بناتے ہوئے استاد کا درس سنتے ہو اور اتنا تمہیں یاد ہوتا ہے ۔*
*★_ فرماتے کہ میں اس طرح ٹائم بچا کے ٹوپیاں بناتا، ان کو بیچتا اور اس سے جو مجھے تھوڑے سے پیسے ملتے، اس سے میں اپنے مدرسے کا خرچہ چلایا کرتا تھا۔ تو بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بچپن میں ان کو اللہ رب العزت احساس ذمہ داری دے دیتا ہے۔*
*★_خود حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی بستی سے جب دار العلوم میں پڑھنے کے لئے آتا تو سردیوں کی راتوں میں امتحانوں کے قریب ذرا دیر تک پڑھنا ہوتا تھا، تیاری کرنی ہوتی تھی۔ جب میں واپس لوٹ کے آتا تو گھر کے سارے لوگ سوئے ہوتے تھے۔ امی اٹھتی اور اس وقت مجھے کھانا گرم کر کے دیتی تو میں امی کی منت سماجت کرتا کہ آپ کیوں سردیوں میں اٹھتی ہیں؟ بس آپ کھانا رکھ دیا کریں، میں خود ہی آکے کھا لیا کروں گا، بڑی مشکل سے امی کو میں نے منایا۔*
*★_ فرماتے ہیں کہ میں جب آتا تو سالن جما ہوا ہوتا، میں اس کے اوپر سے جمی ہوئی تہہ ہٹا دیا کرتا تھا اور ٹھنڈا کھانا کھا کر گزارا کر لیتا، لیکن میں اپنی تعلیم میں حرج نہیں آنے دیتا تھا۔*
*★_ اب دیکھو! جن بچوں کے اندر بچپن، لڑکپن سے یوں علم کا شغف ہو, شوق ہو, طلب ہو، احساس ذمہ داری ہو اور وہ علم کی خاطر اس طرح اپنی ضرورتوں کو بھی قربان کریں، یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو اپنی جوانی میں آسمان علم پر ستارے بن کر چمکا کرتے ہیں،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ اچھی دوستی کے اثرات:-*
*★_ بچپن میں بچے کا ذہن کچا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو یہ چاہیے کہ وہ اس بات پر بہت زیادہ توجہ دیں کہ وہ کن کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اس لئے کہ دوست سے وہ اتنا کچھ سیکھتا ہے کہ جتنا ماں باپ سے نہیں سیکھتا۔ بچی ہے تو سہیلی سے سیکھے گی۔ بچہ ہے تو اپنے دوست سے سیکھے گا۔*
*★_ اس لئے مولانا یحییٰ رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ اگر بچہ بالکل کند ذہن ہو، لیکن دوست اس کا نیک ہو تو اس بچے کی کشتی کبھی نہ کبھی کنارے لگ جائے گی اور بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو، اگر دوست اس کا برا ہو تو کبھی نہ کبھی اس کی کشتی بیچ دریا میں ڈوب جائے گی ۔*
*★_ چنانچہ انہوں نے حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ کی کتنی اچھی تربیت کی کہ ان کے بیٹے پھر اپنے وقت کے شیخ الحدیث بنے اور اللہ رب العزت نے ان کو کیا قبولیت عامہ عط فرمائی _,*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ ضد کا علاج کیسے کیا ؟*
*★_ ماں باپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بچے کو اس عمر میں ڈیل کیسے کرنا ہے ۔ حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ والدہ نے دودھ دیا ہم دو بھائیوں کو، میرا بڑا بھائی تھا اور میں تھا، تو میں ضد کرنے لگا کہ پہلے میں پیوں گا۔ چونکہ والدہ نے گلاس بھائی کے ہاتھ میں دیا تھا، اس لیے بھائی نے کہا کہ نہیں پہلے میں نے ہی پینا ہے۔ اب میں جتنا رورہا ہوں ضد کر رہا ہوں۔ بھائی کہتا ہے ہرگز نہیں میں پہلے پیوں گا۔*
*★_ کہنے لگے: جب میں زیادہ رویا دھویا اور اودھم مچایا تو بھائی نے غصے میں آکے اپنا بھی دودھ پیا اور میرے حصے کا بھی دودھ پی لیا اور خالی گلاس ایک طرف کو رکھ دیا کہ اب تمہیں دودھ ملنا ہی نہیں, فرماتے ہیں کہ ایسا یہ واقعہ میرے ذہن پر نقش ہوا کہ اس کے بعد پوری زندگی میں نے کبھی بھی ضد نہ کی، یہ سوچتے ہوئے کہ ضد کرنے سے تو انسان اپنے حصے سے بھی محروم ہو جایا کرتا ہے۔ تو ایک سبق سیکھا انہوں نے اس بچپن کی زندگی میں,*
*★_ ہاں! بچوں کے جھگڑے میں یہ بات سمجھیں کہ جھگڑے ہونے کے تین Step ( قدم) ہوتے ہیں: پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز بچے کو پسند نہیں آتی وہ اسے نا پسند ہوتی ہے۔ پھر دوسرا قدم ہوتا ہے کہ اس نا پسندیدہ چیز یا بات پر اس کو ناراضگی ہو جاتی ہے۔ اور ناراضگی کے بعد تیسرا قدم پھر جھگڑا بنتا ہے۔ یعنی جھگڑا ایک دم نہیں ہو جاتا بلکہ جھگڑے سے پہلے دو Step (قدم) ہوتے ہیں،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ روتے بچوں کو کیسے ڈیل کریں؟*
*★_ ماؤں کی خدمت میں گذارش ہے کہ کھیلنے والے، چھوٹی عمر کے بچے، جب کسی بات پر رونا شروع کر دیں تو آپ فوراً طیش میں مت آجا ئیں، آپ فوراً لڑائی کا حصہ نہ بن جائیں، بچے بچے ہیں، ہو سکتا ہے جو چھوٹا بچہ رو رہا ہے ممکن ہے کہ اس رونے کی وجہ بہت ہی معمولی ہو، ہم نے دیکھا کہ ایک بڑا بچہ ہے ایک چھوٹا، اب چھوٹا بڑے کو مارنا چاہتا ہے اور وہ مارنے نہیں دیتا، اس پر چھوٹا رونا شروع کر دیتا ہے۔ اب یہ مظلوم تھوڑا ہے جو رو رہا ہے، نہیں ! یہ اس لئے رو رہا ہے کہ یہ بڑی بہن مجھے مارنے نہیں دیتی۔ تو پھر کیا بچے کے رونے پر فوراً آپ غصے میں آجائیں گی ؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔*
*★_ عام طور پر دیکھا کہ چونکہ ماں کو محبت ہوتی ہے، ذرا بچے کی رونے کی آواز نکلی اور ماں کے منہ سے الفاظ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں، بولنا شروع کر دیتی ہے، دوسرے بچوں کو گالیاں دینا، دوسرے بچوں کو کوسنا، دوسرے بچوں کو موردالزام ٹھہرانا شروع کر دیتی ہیں۔*
*★_ یاد رکھیں جب آپ نے چھوٹے بچے کی معمولی بات سے رونے پر بڑے کو ڈانٹنا شروع کر دیا تو بڑے بچے کے اندر آپ نے اپنی نا انصافی کا بیج بو دیا ، اس کے دل میں ڈال دیا کہ امی نا انصاف ہے, کیونکہ بچہ بغیر الزام کے کوئی ڈانٹ، بغیر غلطی کے کوئی الزام اپنے اوپر برداشت نہیں کرتا۔ جب اس کے دل میں ہوتا ہے کہ میں نے غلطی نہیں کی تو اس کو سمجھ نہیں آتی کہ مجھے کیوں ڈانٹا جا رہا ہے؟*
*★_ تو وہ ماں سے پھر نفرت کرنے لگ جاتا ہے، ماں کو برا سمجھنا شروع کر دیتا ہے؟ سوچتا ہے کہ بس ماں تو ہمیشہ چھوٹے ہی کی سائیڈ لیتی ہے۔اور کئی مرتبہ ہوتا ہی ایسے ہے کہ اگر بیٹا چھوٹا ہے تو بڑی بہنوں کی شامت آئی رہتی ہے، ہر بات پر بہنوں کو ڈانٹ پڑ رہی ہے۔ بھئی! بچہ ہے، اب اس بچے کی خاطر آپ دوسروں کو تو بر باد نہ کریں۔ اس لئے یہ چیز ذہن میں رکھیں کہ بچے کا رونا ہمیشہ مظلومیت کا رونا نہیں ہوتا، کئی مرتبہ بچہ خود دوسرے بچوں کو مارتا ہے۔ ایک دفعہ مارا، دوسری دفعہ مارا، تیسری دفعہ مارا، جب بہن کو دو چار دفعہ اس نے مارا، اس نے بھی غصے میں آکر ایک تھپڑ لگا دیا۔ جب اس نے ایک لگایا اب بچہ روتا ہوا آگیا ۔ اب وہ جو روتا ہوا آرہا ہے تو یہ مارکھا کے نہیں آ رہا، یہ تین دفعہ مار کے آرہا ہے۔*
*★_ حضرت لقمان حکیم نے فرمایا: "اگر کوئی تمہارے پاس آئے اور وہ دکھائے کہ میرا ایک کان کسی نے کاٹ دیا ہے تو تم فیصلہ میں جلدی نہ کرنا جب تک کہ تم دوسرے بندے سے نہ پوچھ لو ، ہو سکتا ہے کہ اس نے اُس کے دونوں کان کاٹ دیئے ہوں ۔ اگر کوئی کہے کہ جی اس نے مجھے مکا مارا، اور واقعی مارا بھی ہے تو فیصلہ نہ کریں، جب تک صحیح صورتحال معلوم نہ کر لیں، ہو سکتا ہے کہ اس نے پہلے اس کے دو مکے مارے ہوں یا اور کوئی زیادتی کی ہو۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ چھوٹوں کے جھگڑے، بڑوں کے جھگڑے کیسے بنتے ہیں؟*
*★_ عام طور پر یہ دیکھا گیا کہ غلطیاں چھوٹوں کی ہوتی ہیں اور معمولی ہوتی ہیں لیکن بڑوں کی جلد بازی کی وجہ سے پھر وہ بڑوں کے جھگڑے بن جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی دوسرا بچہ پڑوسی کے بچے کے ساتھ کھیل رہا ہے اور قصور بھی اپنے بچے کا ہے لیکن اگر اس نے رونا شروع کر دیا تو اب یہ خاتون پڑوسی کے بچے کو کوسنا شروع کر دے گی اور جب اس کی ماں یہ آواز سنے گی تو یہ آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیں گی ۔*
*★_ چھوٹوں کی بات تھی، بڑوں کے جھگڑے بن گئے اور آپس میں نفرتیں پیدا ہو گئیں ۔ تو ایسی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ مگر اس میں ایک اور بھی اہم بات ہے ۔ وہ یہ کہ بچے اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں تو اللہ تعالی نے بھی ان کی میموری اتنی شارٹ رکھی ہوتی ہے کہ چند منٹ کے بعد پھر آپس میں کھیل رہے ہوتے ہیں ۔*
*★_ بچے کے رونے میں اور بچے کے بننے میں پانچ سیکنڈ کا فرق بھی نہیں ہوا کرتا۔ ابھی بچے کے آنسو بہہ رہے ہیں، ابھی اس کو ماں نے اٹھا لیا، اس کے آنسوختم ، اس کا رونا ختم ۔ بچے کا رونا اور ، بڑے کا رونا اور ہوتا ہے۔ اس لئے بچوں کے رونے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان بچوں کے رونے پر یا جھگڑے پر ہم اس کو بڑوں کا جھگڑا نہیں بنا سکتے، اس لئے کہ بچے تھوڑی دیر کے بعد اس کو بھول کر پھر ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جائیں گے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ایک عبرت انگیز واقعہ :-*
*★_ چنانچہ ہم ایک واقعہ جانتے ہیں کہ بچے تھوڑی سی بات پر جھگڑ پڑے۔ ماں نے دوسرے بچے کے تھپڑ لگا دیا، اس کی ماں نے بھی آکر اس سے جھگڑا کرنا شروع کر دیا۔*
*★_ دونوں طرف کے خاوند آ گئے حتی کہ ایک دوسرے کو انہوں نے زخمی کر دیا، پولیس آ گئی، اتنا پڑوسیوں میں فساد پھیلا کہ خدا کی پناہ! جب اگلے دن ماں باپ صبح اٹھے تو کیا دیکھا کہ گلی میں دونوں بچے پھر کھیل رہے تھے،*
*★_ تو بچوں کی لڑائی ایسی ہی ہوتی ہے۔ تو بچوں کی لڑائی پر اتنا ماں باپ کا الجھ پڑنا کہ ایک دوسرے کو زخمی کر دیں، پولیس آجائے، زندگی بھر کے لئے تعلق منقطع ہو جائے، یہ انتہائی جہالت کی بات ہوتی ہے۔ لہذا بچوں کے جھگڑے کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے !*
*★_ ہاں جب بچہ لڑائی کرلے تو اب سمجھیں کہ بچے نے آخر جھگڑا کیوں کیا؟ پھر اس کے بعد بچے کو سمجھا ئیں،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بچوں کو نصیحت کریں:-*
*★_ اگر بچے جھگڑ پڑیں تو آپ حقیقت کو معلوم کر لیں اور جس کا قصور ہو اس کو سوری کرنے کیلئے کہیں، اس کو معافی مانگنے کیلئے کہیں۔ جس نے دل دکھایا ہے زیادتی کی ہے اس کو کہیں کہ ہاتھ جوڑ کے معافی مانگے اور اس کو سمجھائیں کہ صلح کے اندر اللہ نے خیر رکھی ہے اور بچے کو سمجھا ئیں کہ جو دنیا میں دوسرے کی غلطی کو جلدی معاف کر دے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی غلطیوں کو جلدی معاف فرما دے گا۔*
*★_ جب بچے کو صلح کی اچھائی بتا ئیں گی اور معاف کرنے کی خوبی بتائیں گی تو غلطی کرنے والا معافی بھی مانگ لے گا اور جس کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ جلدی معاف بھی کر دے گا اور وہ بچے پھر آپس میں محبت پیار سے کھیلنے لگ جائیں گے ۔*
*★_ اللہ رب العزت ہمارے گھر کے بچوں کے اندر سے ان جھگڑوں کو ختم فرمادے اور بڑوں کو ان جھگڑوں میں الجھنے سے اللہ محفوظ فرمائے، اس لئے کہ جھگڑے فساد ہوتے ہیں اور اللہ فساد کو نا پسند کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں فساد سے بچائے ہی رکھے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨بڑوں کے جھگڑے بھی بڑے :-*
*★_جو لوگ جوانی کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں, عقل پختہ ہو جاتی ہے، ان کی بھی ایک دوسرے کے ساتھ رنجشیں ہوتی ہیں لیکن یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ جذبات اور خیالات میں پختگی آجاتی ہے، لہذا ان پر ہر بات کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ انہیں مدتوں بات یاد رہتی ہے اور اس عمر میں پہنچ کر انسان اتنا (Mature) پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ دوسرے بندے کو اپنے حالات و کیفیات کا پتہ بھی نہیں چلنے دیتا ۔ لہذا آپ چہرے سے دیکھ کر یہ سمجھیں گی کہ یہ میرے ساتھ بالکل ٹھیک ہے جب کہ اس کے دل کے اندر کوئی نہ کوئی چیز کھٹک رہی ہوگی ۔*
*★_ تو بڑی عمر کے بندے کو خوشی اور غمی کو چھپانے میں مہارت حاصل ہو جاتی ہے ۔ ایک تو بات کا اثر دیر تک رہا اور دوسرا انہوں نے اپنے اندر کی Feelings (احساسات ) کا دوسرے کو پتہ ہی نہ چلنے دیا، تیسرا، جلتی پر تیل کا کام یہ ہوتا ہے کہ انسان کو دوسروں کی اچھائیاں تو بھول جاتی ہیں مگر ان کی غلطیاں ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس وجہ سے بڑوں کے جھگڑے بھی بڑے بن جاتے ہیں، دیر پا ہوتے ہیں۔*
*★_ پھر اس میں ایک چیز مزید شامل ہو جاتی ہے کہ بڑوں کے اندر سوچ کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے، وہ ایک چھوٹے سے معاملے کو اپنے ذہن میں لے کر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کو Food For Thought ( سوچنے کیلیے مواد ) مل جاتا ہے اور وہ اس کے اوپر ایک خیالی عمارت بنانا شروع کر دیتے ہیں،*
*★_ اچھا، فلاں نے آج اچھے کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے لگتا ہے اپنے گھر میں خوش نہیں، لگتا ہے خاوند کے ساتھ نہیں بنتی، ہو سکتا ہے کہ ساس پسند نہ کرتی ہو، کوئی نہ کوئی وجہ تو ہے۔ اب ایک عورت جو سادگی کی نیت سے بیان سننے کے لئے سادہ کپڑے پہن کر آگئی، اب اس پوائنٹ کو لے کر انہوں نے اس پر اپنے خیالات کے تانے بانے بننے شروع کر دیئے اور ایک مانے سٹوری بنائی کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ فلاں لڑکی جس کی ابھی شادی ہوئی ہے اپنے گھر میں نے خوش نہیں ۔ سٹوری بھی بن گئی اور نتیجہ بھی نکل گیا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بدگمانی کی نحوست :-*
*★_ پھر اس میں ہمارا ایک دشمن ہے، جس کو شیطان کہتے ہیں، اور ایک جسے نفس کہتے ہیں، وہ بد گمانی کے ذریعے صورتحال کو اور زیادہ برا بنا دیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو زون کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انسان دوسرے کی چھوٹی غلطی کو بڑا سمجھتا ہے۔ اور اپنی بڑی غلطیوں کو بھی وہ چھوٹا سمجھتا ہے۔*
*★_ دوسرے کے بارے میں کوئی بری بات ذہن میں سوچنا، یہ چیز بد گمانی کہلاتی ہے، شریعت نے بد گمانی کو حرام قرار دیا ہے۔ بڑوں کے جھگڑوں کی بنیاد میں اکثر و بیشتر بدگمانی کی نحوست شامل ہوتی ہے۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (کہ تم گمان سے بچو کیونکہ اکثر گمان جھوٹ ہوتے ہیں ) تو بجائے نیک گمان کرنے کے، شیطان بدگمانی کرواتا ہے اور انسان کو فتنوں میں مبتلا کرتا ہے۔*
*★_ ایمان والوں کے ساتھ بد گمانی، یہ کبیرا گناہ ہے۔ اس لئے محسن انسانیت سیدنا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا- (ظنوا بالمومنين خيرا) ایمان والوں کے ساتھ نیک گمان رکھو، بدگمانی نہ رکھو!*
*★_ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ نے اس حدیث مبارک سے یہ مطلب نکالا کہ اگر کسی بندے میں انہتر باتیں عیب کی نکلتی ہوں لیکن ایک راستہ خیر کا نکل سکتا ہو تو تم اس ایک بات کی وجہ سے اس کے ساتھ نیک گمان رکھوا لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہر چیز بتا رہی ہوتی ہے کہ کام تو ٹھیک ہے لیکن ہم اس میں سے بدگمانی کا راستہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔*
*★_ تو یہ کتنے مزے کی بات ہے کہ نیک گمان رکھو اگر چہ کوئی برا ہو، اللہ تعالیٰ نیکی پھر بھی دے دیتے ہیں اور اگر بدگمانی کر لی تو قیامت کے دن اس کے اوپر دلیل شرعی پیش کرنی پڑے گی ثبوت دینا پڑے گا، ورنہ انسان اس جرم کے اندر خود گرفتار ہو گا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ بدگمانی ایک اخلاقی بیماری:-*
*★_ یہ بدگمانی تمام جھگڑوں کی بنیاد ہے۔ شیطان فساد پیدا کرنے کے لیے پہلا کام ہی یہ کرتا ہے کہ لوگوں کو آپس میں بدگمان کرتا ہے۔ کسی کے دل میں دوسرے کے بارے میں غلط اندازے، غلط خیالات پیدا کر کے ان کو ایک دوسرے سے متنفر کرتا ہے۔ بات اتنی ہوتی نہیں جتنی اسے نظر آرہی ہوتی ہے۔ خواہ مخواہ کے اعتراض پیدا ہو جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔*
*★_ قیامت کے دن کئی لوگ ہوں گے کہ وہ اپنی آپ کو اچھا سمجھ رہے ہوں اور وہ دوسروں کے سامنے پہلے جہنم میں اوندھے منہ ڈالے جائیں گے ۔ اس لئے کہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ بدگمانی کرنے کی ان کو عادت ہوتی ہے۔*
*★_ یہ ایک عادت ہے، اس کا تعلق عادت سے ہے کہ اپنے سوا نگاہ میں کوئی جچتا نہیں۔ لاکھ اچھائیاں کسی کی ہوں نظر ہی نہیں آتیں۔ تو برائیوں کے اوپر تو دور بین فٹ کی ہوتی ہے ۔ جو معاملہ آپ اس کے ساتھ کر رہے ہیں وہی معاملہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ کریں گے ۔*
*★_ ذرا ذرا سی باتوں پر بد گمانیاں ہونے لگ جائیں، ہم آپس میں ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بد گمانیاں شروع کر دیں تو پھر آپس میں جھگڑے اور نفرتیں ہی پیدا ہوں گی ۔ اس لیے اللہ تعالی سے رو رو کر معافی مانگنی چاہئے اور اس بیماری اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ شیطان کے خلاف دو مؤثر ہتھیار :-*
*★_ یہاں ایک نکتے کی بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ شیطان انسان کے ذہن میں برے وسوسے ڈالتا ہے، یہ وسو سے اگر آپ اپنے ذہن سے نکال دیں تو پھر آپ بدگمانی سے بچ جائیں گی ۔ Food for thoughts (سوچنے کیلئے مواد ) دے دیتا ہے اور اس پر بندے سوچ بچار کر کے بالآخر بد گمانی کے مرتکب ہو جاتے ہیں،*
*★_ جب بھی شیطان ذہن میں کوئی وسوسہ ڈالے، آپ اس وسوسے کو سوچنے کی بجائے فوراً لا حول ولا قوة الا باللہ پڑھا کریں۔ کسی کے بارے میں برے خیال ذہن میں آئیں، دیورانی، جٹھانی کے بارے میں، ساس کے بارے میں، پڑوسن کے بارے میں کسی کے بارے میں کوئی برا خیال ذہن میں آئے تو فوراً پڑھیں ۔ لا حول ولا قوة الا بالله -*
*★_ اس خیال کو نہ سوچیں، نہ اس کی تصدیق کرنے کی کوشش کریں، اس لئے کہ شیطان بدگمانی کا مرتکب کروا کر آپ کو خیر سے محروم کر دے گا۔ تو شیطان تو ایسا بد بخت ہے کہ بس وہ وسوسہ ذہن میں ڈالتا ہے، تو وسوسے کو مت سوچیں، اس خیال کو مت آگے بڑھا ئیں بلکہ ہمارے پاس دو ہتھیار ہیں ایک ہتھیار - لا حول ولا قوة الا باللہ اور دوسر ا ہتھیار - اعوذ بالله من الشيطن الرجیم،*
*★_ ان دونوں سے اس وقت شیطان بھاگتا ہے، دور چلا جاتا ہے اور اللہ تعالی اس بندے کی شیطان کے وسوسے سے حفاظت فرما دیتے ہیں۔ ابن عربی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میری ایک مرتبہ شیطان سے ملاقات ہوئی تو مجھے کہنے لگا: ابن عربی ! بڑے عالم ہو، میں نے کہا ہاں۔ کہنے لگا: میرے ساتھ آج مناظرہ کرلو، میں نے کہا:-میں ہرگز نہیں کروں گا- کہنے لگا: کیوں؟*
*★_ میں نے کہا کہ اللہ تعالی نے مجھے تیرے لئے ایک ڈنڈا دیا ہے جس کا نام ہے۔ لا حول ولا قوة الا بالله ۔ میں یہ ڈنڈا استعمال کر کے تجھے یہاں سے دور بھگا دوں گا۔ مجھے تجھ سے بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور واقعی اگر وہ بحث میں پڑ جاتے تو شیطان ان کے دلائل کو توڑ کر شاید ان کو کسی برے پوائنٹ پر لے آتا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨وساوس کا کیا علاج ؟*
*★_ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی علیہ السلام کی خدمت میں آئے، اے اللہ کے پیارے حبیب ہمارے دل میں بعض اوقات ایسے خیالات آجاتے ہیں کہ ہم پھانسی پر لٹک جاتے، آگ میں پڑ جاتے یہ زیادہ بہتر تھا، بہ نسبت اس کے کہ ایسے خیال ہمارے ذہنوں میں آئیں۔*
*★_ تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے، جب بھی برا خیال آئے اور بندہ اس کو نا پسند کرے تو یہ علامت ہے کہ واقعی اللہ نے اس بندے کے دل میں ایمان کو بھر دیا ہے۔ یہ وسو سے تو آتے ہی رہیں گے، ان سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔*
*★_ مختلف قسم کے خیالات آتے رہتے ہیں، کبھی اچھے، کبھی برے، کبھی نفس کی طرف سے، کبھی شیطان کی طرف سے اور کبھی رحمان کی طرف سے خیالات آتے ہیں، لیکن مومن کو چاہیے کہ وہ خیر کے خیال اپنائے، اس کے بارے میں سوچے اور جو دوسرے قسم کے وسوسے اور خیالات ہوں، ان کو اپنے ذہن سے ہی نکال دے، ان کی طرف دھیان ہی نہ دے, جب آپ ان کے اوپر دھیان ہی نہیں دیں گی تو وہ آپ کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکے گا۔ چنانچہ نبی علیہ السلام نے دعا مانگی۔*
*"_الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ أَمْرَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ _, ( تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے جس نے شیطان کے معاملے کو وسوسے کی حد تک رکھا )*
*★_اب کوئی شیطان ہمارا ہاتھ پکڑ کر تو نہیں گناہ کروا سکتا ۔ وسوسہ ہی ڈال سکتا ہے ناں, اس وسوسے کو ماننا یا نہ ماننا یہ تو بندے کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ تو اگر یہ بات سمجھ آجائے تو پھر بندوں کو وسوسوں کی پرواہ نہیں ہوتی،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨منفی وساوس کو نظر انداز کریں:-*
*★_ کئی لوگوں کو دیکھا کہ وسوسوں کی وجہ سے ہی پریشان ہو جاتے ہیں ۔ اوجی! پتہ نہیں میرا ایمان ہے بھی یا نہیں۔ بھئی ! کیوں نہیں ہے آپ کا ایمان ؟ جی میرے ذہن میں ایسے خیال آتے ہیں۔ بھئی! خیال آنے سے کوئی انسان ویسا تو نہیں بن جاتا ۔*
*★_ دیکھیں ! رمضان المبارک کا مہینہ ہے، اگر آپ کے ذہن میں بار بار یہ خیال آئے کہ فریج میں شربت پڑا ہے، میں اٹھ کے پی لوں تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ؟ جب تک آپ پیئیں گے نہیں اس وقت تک روزہ نہیں ٹوٹے گا، چاہے یہ خیال ایک ہزار مرتبہ آپ کو آجائے, اسی طرح جب تک اس وسوسے پر عمل نہ کیا جائے تو وسوسہ انسان کو کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔*
*★_چلیں ایک اور مثال، ہر انسان کے جسم کے اندر نجاست کسی نہ کسی حد میں ہر وقت ہوتی ہے ( پیشاب، پاخانہ ) لیکن جب تک وہ انسان کے جسم سے خارج نہ ہو اس وقت تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا ؟ تو اب کوئی بندہ اس وجہ سے پریشان ہے کہ جی میں کیسے نماز پڑھوں؟ میرے تو پیٹ میں پاخانہ ہے ۔ تو بے وقوفوں والی بات ہے ناں۔ لہذا وساوس کے آجانے پر پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایسے وساوس کو نظر انداز کر دینا چاہیے اور نیک خیالات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨_وسعتِ نظر اور وسعت ظرف:-*
*★_ جو انسان وسیع النظر ہو جاتا ہے ہمیشہ اس کے اعتراضات دوسروں پر کم ہو جاتے ہیں ۔ یہ ذہن میں رکھنا ! جس کا ظرف بڑا ہوتا ہے، جس کا دل بڑا ہوتا ہے اس کو دوسروں پر اعتراض کرنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی ۔ اور یہ کم ظرفی کی علامت ہوتی ہے کہ انسان دوسروں پر اعتراض کرتا پھرتا ہے اور خود اپنا معاملہ اس سے زیادہ برا ہوتا ہے۔*
*★_ تو ہمیں اللہ رب العزت کے بارے میں بھی نیک گمان رکھنا ہے اور مومنین کے بارے میں بھی نیک گمان رکھنا ہے۔ کسی کی ایک بات کے اندر اگر برائی کا پہلو نکلتا ہے تو آپ سوچیں کہ اگر کوئی اچھائی کا پہلو نکل سکتا ہے تو آپ اس اچھائی کے پہلو کے بارے میں سوچیں اور اس کے ساتھ خیر کا گمان رکھیں، حتیٰ کہ اگر ستر برائی کے پہلو نکلتے نے ہیں اور ایک خیر کا نکلتا ہے تو برائی کے ستر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیں اور ایک پہلو کو قبول کر لیں اور اس کے بارے میں نیک گمان رکھیں۔ اس طرح سے انسان پھر بدگمانی کے گناہ سے بچ جاتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨جھگڑے فساد کے چار مرحلے :-*
*★_ چنانچہ بڑوں کی لڑائیوں میں چار مرحلے آتے ہیں :-*
*(1) پہلا مرحلہ: بدگمانی- پہلا step ( قدم ) بدگمانی ہوا ۔ عام طور پر پہلے بدگمانی آتی ہے، شیطان بندے کے دل میں دوسرے کے بارے میں الٹے سیدھے خدشات اور وساوس ڈالتا ہے جن کا اکثر حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ لیکن جب وہ دل میں پختہ ہو جاتے ہیں تو دل میں دوسرے کے بارے میں کینہ پیدا ہوتا ہے، یوں جھگڑے کی بنیاد کھڑی ہو جاتی ہے۔*
*★_(2)_ دوسرا مرحلہ: غیبت:- دوسرے مرحلے میں جس کی بدگمانی دل میں پیدا ہوئی بندہ اس کی غیبت شروع کر دیتا ہے، بد گمانی غیبت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں بدگمانی آئی اور اس کی غیبت کرنی شروع کر دی، اس کے بارے میں Coments (تبصرے ) دینے شروع کر دیئے، اس کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دی۔*
*★(3)_ تیسرا مرحلہ: لڑائی جھگڑا:- اور تیسر Step (قدم) ہوتا ہے آپس میں لڑائی جھگڑا اور فساد ہوتا ہے۔ جب غیبتیں شروع ہو جاتی ہیں تو دوسرے کو پتہ چلتا ہے وہ دو کی چار سناتا ہے۔ بس پھر ایک دوسرے پر گولہ باری شروع رہتی ہے۔ حتیٰ کہ کبھی براہ راست ہاتھا پائی کی بھی نوبت بھی آجاتی ہے۔*
*★(4)_ چوتھا مرحلہ: قطع رحمی:- جب بات اس حد تک بڑھ گئی تو اب چوتھا قدم ہوتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کو ختم کر لیتے ہیں، بول چال، آنا جانا بند ہو جاتا ہے، اسے قطع رحمی کہتے ہیں یہ بھی بڑے گناہ کی بات ہے ۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨پہلے قدم پر ہی رک جائیں !-*
*★_ تو شیطان اور نفس بد گمانی سے سفر شروع کرواتے ہیں اور قطع رحمی تک انسان کو پہنچا دیتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ قطع رحمی ایسا گناہ ہے کہ شب قدر میں بھی قطع رحمی کرنے والے کی اللہ تعالیٰ مغفرت نہیں فرماتے ۔ اللہ اکبر کبیرا۔ تو سوچیے کہ یہ بد گمانی کہاں انسان کو لے کر گراتی ہے؟*
*★_اس لئے پہلے قدم پر ہی شیطان کو روک دیجئے اور دوسروں کے بارے میں نیک گمان رکھنے کی عادت بنا لیجئے ! دل کو یہ سمجھائیں کہ میرے اپنے ہی مسئلے کون سے تھوڑے ہیں کہ میں دوسروں کے بارے میں سوچتا پھروں, میرا ہی بوجھ میرے سر پر اتنا ہے کہ قیامت کے دن اس بوجھ کو اٹھا پایا تو بڑی بات ہے ۔ خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں کیوں میں کوئی رائے دوں؟ ہو سکتا ہے اللہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے اور ہو سکتا ہے کہ میری خطاؤں کے بارے میں مجھ سے سوال کرلے۔*
*★_ تو دوسروں کے معاملے کو آپ ہمیشہ ہلکا لیا کریں۔ نفس کے بارے میں اپنے آپ کو ہمیشہ ٹائیٹ کیا کریں۔*
*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ دلوں کا جوڑ:-*
*★_ اس دنیا میں اللہ رب العزت نے دو چیزوں کو جوڑنے کے لئے کوئی نہ کوئی تیسری چیز بنائی ہے۔ مثلاً دو اینٹوں کو جوڑنے کے لئے اللہ رب العزت نے سیمنٹ کو بنا دیا۔ لیکن لکڑی کے دو ٹکڑوں کو جوڑنے کے لئے سیمنٹ کام نہیں آئے گا، وہاں آپ کیل استعمال کریں گے، اگر کاغذ کے دو ٹکڑے جوڑنے ہوں تو نہ سیمنٹ کام آئے گا، نہ کیل کام آئے گا، وہاں پر گلو Glue کام آئے گی ۔ کپڑے کے دو ٹکڑے جوڑنے ہوں وہاں پر سوئی دھاگہ کام آئیگا۔*
*★_ تو دیکھیں ! مختلف چیزوں کو جوڑنے کے لئے کوئی نہ کوئی اللہ نے تیسری چیز بنائی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو انسانوں کے دلوں کو جوڑنے کے لئے اللہ نے کیا چیز بنائی؟ تو اس کا جواب "دین اسلام" ہے۔ اگر وہ دونوں لوگ شریعت پر عمل کرنے لگ جائیں، نیکی تقویٰ پر عمل کرنے لگ جائیں تو اس نیکی کی وجہ سے اللہ ان کے دلوں میں خود بخود محبت پیدا فرما دے گا۔ اور اس کی دلیل قرآن عظیم الشان میں سے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:-*
*★_ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا ( سورۃ مریم 96)*
*"_ ( ترجمہ) جو لوگ ایمان لائیں گے، نیک اعمال کریں گے ہم ان کے دلوں کے اندر محبتیں بھر دیں گے_,*
*"_ تو نیکی پر ہونا، دین پر ہونا، یہ آپس میں دلوں میں محبتیں ہونے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس لئے جو میاں بیوی دیندار ہوں تو ان کے درمیان مثالی محبتیں ہوتی ہیں، جو ماں باپ سب کے سب دیندار ہوں ان کے درمیان آپس میں مثالی تعلق ہوتا ہے ۔ اس لئے گھر کے اندر محبتوں کو پھیلانے کیلئے، خوشیوں بھری زندگی گزارنے کے لئے سب افراد کو دین پر زندگی گزارنی چاہیے۔*
*★_ بیٹی بھی دیندار، بیٹا بھی دیندار، ماں باپ بھی دیندار، تو دین پر عمل کی برکت سے اللہ تعالٰی دلوں کے اندر محبتیں بھر دے گا۔ کفر کے ماحول میں ماں باپ اور اولاد کے درمیان وہ محبت ہر گز نہیں ہوتی جو دیندار گھرانوں کے اندر ہوتی ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨_حضرت عمر کا معافی مانگنا :-*
*★_ایک مرتبہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، کوئی بات چلی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوئی سخت لفظ استعمال کر دیا، جب عمر رضی اللہ عنہ نے سخت لفظ استعمال کیا تو بلال رضی اللہ عنہ کا دل جیسے ایک دم بجھ جاتا ہے اس طرح سے ہو گیا اور وہ خاموش ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔ جیسے ہی وہ اٹھ کر گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کر لیا کہ انہیں میری اس بات سے صدمہ پہنچا ہے۔*
*★_ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے، بلال رضی اللہ عنہ کو آکر ملے، کہنے لگے : اے بھائی! میں نے ایک سخت لفظ استعمال کر لیا۔ آپ مجھے اللہ کے لئے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا جی جی ۔ مگر عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی نہیں ہو رہی تھی اسلئے کہ وہ ذرا خاموش خاموش تھے، دل جو دکھا تھا،*
*★_ تو جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بلال کا دل خوش نہیں ہو رہا تو بات کرنے کے بعد بلال رضی اللہ عنہ کے سامنے زمین پر لیٹ گئے اور کہا:- بھائی ! میرے سینے پر اپنے قدم رکھ دو! میری غلطی کو اللہ کے لئے معاف کر دو! بلالے کی آنکھوں سے آنسو آگئے، امیر المومنین ! میں ایسی حرکت کیسے کر سکتا ہوں؟*
*★"_ جو بڑے حضراتِ صحابہ تھے اپنی زندگی کے معاملے کو ایسے سمیٹا کرتے تھے۔ یاد رکھیں ! آج دوسروں کے بارے میں کچھ الفاظ کہہ دینا آسان ہے لیکن اگر کل قیامت کے دن اللہ رب العزت نے ہمیں کھڑا کر کے پوچھ لیا، بتاؤ تم نے فلاں کو کمینہ کیوں کہا تھا ؟ تم نے فلاں کو ذلیل کیوں کہا تھا؟ تم نے فلاں کو بے ایمان کیوں کہا تھا ؟ سوچیں ! ہم ان باتوں کو اس دن کیسے ثابت کر سکیں گے؟ یہ وہ دن ہوگا جس میں انبیاء بھی گھبراتے ہوں گے ۔ اللہ اکبر کبیرا۔*
*★_ آج وقت ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں نیک گمان رکھیں، لڑائی جھگڑے کو ابتداء سے ہی ختم کر دیں، زیادتی ہو جائے تو دوسرے سے معافی مانگ لیں اور اس آپس کے لڑائی جھگڑے کو اللہ کا عذاب سمجھتے ہوئے اللہ سے اس کی پناہ مانگیں اور اس فساد سے ہم اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں ۔ یہ دل میں تمنا ہو کہ ہم اپنے گھروں کو، اپنے خاندانوں کو اس فساد والے عذاب سے بچائیں گے اور محبت اور الفت کی زندگی گزاریں گے۔ اللہ تعالٰی ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور ہمیں اپنے مقبول بندے بندیوں میں شامل فرمائے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ خاندانی عداوت ...... اللہ کا عذاب:-*
*★_ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑوں کی جو رنجشیں ہوتی ہیں وہ پھر بڑی بن جایا کرتی ہیں، وہ پہلے ایک گھر کی رنجشیں ہوتی ہے پھر خاندان کی رنجشیں بن جایا کرتی ہیں بلکہ خاندانی عداوتیں بن جاتی ہیں۔ اور یہ خاندانی عداوتیں اس دنیا میں اللہ رب العزت کا عذاب ہے۔ اس عذاب سے اللہ رب العزت سے پناہ مانگیں ۔*
*★_ آپ محسوس کریں کہ کسی کا دل دکھا کسی کو پریشانی ہوئی یا میں کسی کی توقعات کو پورا نہیں کر سکا تو فوراً اس سے معافی مانگ لیں۔ یہ آسان طریقہ ہوتا ہے معاملے کو سلجھانے کا۔ معافی مانگنے میں پریشان نہ ہوں، یہ بہت اچھی عادت ہے اور بڑے بڑے بوجھ انسان کے سرے ٹل جاتے ہیں۔*
*★_ ہمارے ایک قریبی مہربان تھے، ان کی عادت تھی جس کو ملتے تھے اس کو جدا ہونے سے پہلے کہتے تھے، جی! آپ کے میرے اوپر بڑے حقوق تھے میں ان کو پورا نہیں کر سکا، آپ مجھے اللہ کے لئے معاف کردیں، ایسی بات اللہ نے ان کو یہ سمجھا دی تھی ہر ایک کو یہی کہتے تھے۔ جی! آپ کے میرے اوپر بڑے حقوق تھے ، میں پورا نہیں کر سکا آپ مجھے اللہ کے لئے معاف کر دیں۔ اتنی لجاجت اور عاجزی کے ساتھ کہتے تھے کہ دوسرے بندے کو ان پر پیار آ جاتا تھا۔ تو بندے کو اسی طرح دوسروں سے معافی مانگنی چاہیے۔ ظاہر میں کوئی اگر غلطی نہیں بھی نظر آرہی پھر بھی معافی مانگ لے ۔ اس کا فائدہ ہی ہے کہ قصور معاف ہو جائیں گے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ صلہ رحمی اور قطع رحمی:-*
*★_ یہ جو آپس میں تعلق جوڑنا ہے اس کو شریعت نے صلہ رحمی کہا ۔ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ جن رشتے ناطوں کو شریعت نے کہا کہ ان کو مضبوط رکھا جائے، ان رشتوں کو آپس میں میل جول، لین دین ، پیار محبت سے نبھایا جائے، اس کو صلہ رحمی کہتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ بولنا چھوڑ دینا، ملنا جلنا چھوڑ دینا، اس کو قطع تعلقی اور قطع رحمی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو قطع رحمی نا پسند ہے اور صلہ رحمی پسند ہے۔*
*★_ حدیث پاک میں آتا ہے کہ دو چیزوں کا بدلہ بہت جلدی مل جاتا ہے :-*
*(1) اگر آپس میں صلہ رحمی کرے تو اس کی برکتیں اس کی زندگی میں بہت جلدی ظاہر ہوتی ہیں،*
*( ۲) اگر کوئی بندہ قطع رحمی کرے، مثلاً کسی پر تکبر کا بول بول دیا یا ظلم کیا تو اس کا عذاب انسان کو بہت جلدی آنکھوں سے دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔*
*★_تو صلہ رحمی کا ثواب جلدی ملتا ہے، ظلم کا عذاب جلدی ماتا ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم آپس میں صلہ رحمی کے ساتھ رہیں۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨صلہ رحمی کے تین انعامات :-*
*★_ ایک حدیث مبارکہ میں نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ صلہ رحمی پر اللہ تعالیٰ بندے کو تین انعام عطا کرتے ہیں:-*
*(١)_پہلا انعام :- اللہ تعالیٰ بندے کی عمر کو طویل کر دیتے ہیں لمبی عمر عطا کرتے ہیں،*
*(٢)_ دوسرا انعام :- اللہ رب العزت اس بندے کا رزق کشادہ فرما دیتے ہیں, کھلا رزق عطا فرما دیتے ہیں ۔ صلہ رحمی کرنے والے کو کبھی بھی رزق کی تنگی میں اللہ نہیں ڈالتے۔*
*(٣)_ اور تیسرا انعام کہ صلہ رحمی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بری موت سے محفوظ فرما دیتے ہیں۔*
*★_ تو موت بھی کلمے پہ نصیب ہو گئی، مال میں بھی برکت ہوگئی، عمر میں بھی برکت ہو گئی تو بتائیے کہ اس کے علاوہ بندہ اور کیا چاہتا ہے؟ اکثر ہمارے جو مسائل ہیں، یا صحت سے متعلق یا کاروبار سے متعلق یا دین سے متعلق، تو تینوں مسائل کا حل صلہ رحمی میں ہے۔*
*★_ جب عمر طویل ہو گی تو اس کا مطلب یہ کہ صحت اچھی ہو گی۔ جب رزق کشادہ ہو گا تو اس کا مطلب قرضوں، مرضوں سے جان چھوٹ جائے گی، غیر کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا ۔ اللہ تعالیٰ لینے والے کی جگہ بندے کو دینے والا بنائیں گے اور بری موت سے حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اللہ رب العزت بندے کو دین والی زندگی عطا فرمائیں گے تاکہ اس کی زندگی بھی محمود اور پھر اس کی موت بھی محمود ہو سکے۔*
*★_ ان تین انعامات کو سامنے رکھیں ! گھر میں بچوں کو بڑوں کو مردوں کو عورتوں کو یہ حدیث پاک سنائیں! اور اس کے فائدے ان کو کھول کھول کر بتا ئیں کہ دیکھو! تم آپس میں جھگڑتے ہو، ایک دوسرے کے ساتھ روٹھتے ہو، بول چال بند کر دیتے ہو، مارکٹائی کا معاملہ کرتے ہو، جبکہ اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ محبت پیار سے رہو پھر دیکھو کتنے بڑے بڑے انعام ملیں گے،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ جنت میں داخلہ آسان :-*
*★_ ایک اور حدیث پاک میں ہے, طبرانی شریف کی روایت ہے، نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : جو بندہ چاہے کہ میرا حساب آسان ہو اور میں جلدی سے جنت میں داخل ہو جاؤں تو اس کو چاہیے کہ "صِلْ مَنْ قَطَعَكَ وَاعْفُ عَنْ مَّنْ ظَلَمَكَ وَاعْطِ مَنْ حَرَمَكَ" (جو تجھ سے توڑے اس سے جوڑ، جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کر دے، عطا کر جو تجھ سے روک لے )*
*★_جو اس سے سے توڑے یہ اس سے جوڑے۔ یعنی جو بھائی بہن اس سے دور ہونا چاہے یہ اس کو قریب کرنے کی کوشش کرے، کوئی روٹھ جائے یہ اس کو منا لے، کوئی پریشان ہو تو یہ اس کی پریشانی کو ختم کرنے میں مدد کرے تاکہ دل ایک دوسرے کے ساتھ مزید نتھی ہو جائیں۔ فرمایا " جو تجھ سے تو ڑے تو اس سے جوڑ!*
*★_ یہ نہیں کہ جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی اچھا رہے گا تو ہم اچھے رہیں گے، اگر برا ہو گا تو ہم بھی برے بنیں گے, یہ تو تجارت ہوئی ۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جو تجھ سے توڑے تو اس سے جوڑا یعنی جو تجھ سے دور ہونا چاہے تو اس کو اپنی محبت پیارے قریب کرلے۔*
*★_دوسرا فرمایا جو تجھ پر ظلم کرے تو اللہ کے لئے اس کو معاف کر دئے۔ لہذا بھائی بہنوں میں آپس میں کسی نے مذاق کر دیا, زیادتی کر دی، دوسرے کا دل دکھا دیا، گو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مگر معاف کرنے والے کو چاہیے کہ جلدی معاف کر دے تا کہ اللہ کی رحمتوں سے اس کو حصہ نصیب ہو۔*
*★_ اور تیسرا فرمایا جو تجھے محروم کرے تو اس کو عطا کر دے، بہن بھائیوں میں یہ بھی مسئلہ ہوتا ہے، یہ چیز لایا تھا اس نے مجھے نہیں دی تھی، میں اس کو کیوں دوں؟* *"جو بندہ یہ تین کام کرے گا اس کا حساب آسان ہو گا اور وہ جنت میں جلدی داخل ہو جائے گا۔ صلہ رحمی میں تو وہ تمام رشتہ دار شامل ہیں جو شریعت نے قرار دیئے ہیں۔ تو فرمایا: صلہ رحمی اللہ رب العزت کو اتنی پسند ہے کہ گھر کے لوگ اگر گناہ گار بھی ہوں گے، اللہ ان کو صلہ رحمی کرنے کی وجہ سے مال اور اولاد کی کثرت عطا فرما دے گا ۔ اللہ اکبر کبیرا۔*
*★_ یہ دین اسلام کتنا پیارا ہے ! شریعت کے اندر کیا حسن ہے! کہ زندگی گزارنے کے اتنے بہترین اصول بتا دیئے گئے ۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ والدین کی روک ٹوک ناگوار لگتی ہے:-*
*★_ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ، اولاد کی تربیت چاہتے ہیں، ان کو روک ٹوک کرتے ہیں۔ نوجوان بچوں کو روک ٹوک بری لگتی ہے ۔ جب نفس کے اندر انا نیت ہوتی ہے تو اصلاح کی ہر بات بندے کو بری لگتی ہے، جو سمجھائے وہی دشمن نظر آتا ہے۔، تو نو جوانوں کی تھیوری بھی عجیب ہوتی ہے۔*
*★_ماں باپ بچوں کے محسن ہوتے ہیں، وہ ان کو اچھی باتوں پر روک ٹوک کر رہے ہوتے ہیں، مگر یہ اس بات کو سمجھ نہیں رہے ہوتے۔ لہذا روک ٹوک سے دل کا تنگ ہونا یہ انتہائی بری بات ہے ! روک ٹوک کو اپنے لیے بہتر سمجھنا چاہیے، نوجوان بچے یہ سمجھیں کہ شکر ہے ہمارے قریب کوئی تو ایسا ہے جو ہمیں غلطی ہونے سے پہلے ( اس سے) بچا لیتا ہے۔*.
*★_ ہر بندے کو تجربات کرنے کی ضرورت نہیں۔ زندگی کے نفع و نقصان کے تجربے ہر کسی کو کرنے پڑیں تو مصیبتوں میں سے گزرنا پڑ جائے، ذلتیں اٹھا نیں پڑ جائیں، پریشانیاں سر پر کھڑی رہیں۔ اس لیے ہر ایک کو نفع ونقصان کے تجربے کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماں باپ نے دھوپ میں بال سفید نہیں کیے ہوتے۔ زندگی کے جو تجربے وہ کر چکے ہیں، اولاد کو چاہیے کہ ان سے فائدہ اٹھائے۔ ماں باپ کی بات کا لحاظ رکھے ۔ اس لئے ماں باپ کی بات کو سننا اچھی عادت ہے اور ان کی بات کو درمیان میں کاٹ دینا ، انتہائی بری بات ہے۔*
*★_اب یہاں تحمل مزاجی کام آتی ہے۔ ماں باپ عقل مندی کے ساتھ بچے کو ڈیل کریں، نہ اس میں احساس برتری پیدا ہونے دیں اور نہ اس میں احساس کمتری پیدا ہونے دیں ۔ چونکہ عمر ایسی ہے کہ فورا غصہ آتا ہے اور نوجوان بچوں کو جب غصہ آتا ہے تو لگتا ہے کہ کوئی سیلاب آگیا ہے۔ اس وقت جدا ہونے کی باتیں کرتے ہیں، گھر سے نکل جانے کی بات کرتے ہیں ، بس مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ ان کا غصہ ان کے کنٹرول میں ہی نہیں ہوتا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨_بچوں کی نشو و نما میں بڑوں کا کردار :-*
*★_ اب نو جوان بچوں سے یہ پوچھا جائے کہ آپ کو کس نے پال پوس کر بڑا کیا ؟ جواب ملے گا: ماں باپ نے ۔ بھئی ماں باپ کے ساتھ بڑے بہن بھائیوں کا بھی تو حصہ ہے، انہوں نے بھی تو ماں باپ کا ساتھ دیا۔ چھوٹے ہوتے ہیں تو بڑی بہن، ماں کی طرح اس کا خیال رکھتی ہے۔ جو قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، وہ مورل سپورٹ دیتے ہیں۔ خالہ، پھوپھو، اور اس قسم کے جو بھی رشتے ہوتے ہیں، ان کی مورل سپورٹ ہوتی ہے۔ بچے خود بخود تو پل کر جوان نہیں ہو جاتے، ان کے بڑے اور جوان ہونے میں قریب کے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے۔*
*★_ تو جب چھوٹے تھے اور ہر کام میں دوسروں کے محتاج تھے، تب آخر کسی نے تو تمہارا خیال رکھا۔ تمہاری ماں راتوں کو جاگتی تھی۔ اس نے بچپن میں ولادت کے بعد جاگ کر کئی راتیں گزاریں، کہ سال دو سال تک بچے عام طور پر راتوں کو جاگتے ہیں، روتے ہیں، ماں تھکی ہوئی بھی ہو تو اس کو بچے کی خاطر جاگنا پڑتا ہے ۔ اور جو چھوٹے بچے ہوتے ہیں ، ان کی تو ہم نے عجیب عادت دیکھی ، اللہ کے فضل سے پورا دن وہ سوتے ہیں اور جب رات ماں باپ کے سونے کا وقت ہوتا ہے، اس وقت وہ جاگتے ہیں۔*
*★_ تو ماں باپ نے بھی آخر جاگ کے زندگی کی راتیں گزاری۔ پہلے بچے کو کھلایا، بعد میں ماں نے کھایا۔ پہلے بچے کو پلایا، بعد میں ماں نے پیا۔ پہلے بچے کو سلایا اور بعد میں ماں جا کر سوئی۔ کتنی اس کی قربانی تھی ! تو آخر اس قربانی کا کوئی ریٹرن ! چاہیے تھا ۔ کیا اتنا بھی اس ماں کا حق نہیں کہ وہ تو جوان بچے کو کوئی بات سمجھائے تو یہ اس کی بات کو تسلی سے سن لے ؟ آج کل کے نوجوان تو بس ماں کو اللہ میاں کی گائے ہونا سمجھتے ہیں ، لحاظ ہی نہیں کرتے،*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ والدین کے بارے میں شریعت کا حکم :-*
*★_آیئے دیکھئے ! شریعت نے کیا کہا۔ قرآن عظیم الشان میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: (وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا) کہ تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو،*
*"_ماں باپ دونوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔*
*★_ ایک صحابی نے نبی علیہ السلام سے پوچھا کہ میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ فرمایا: ماں کے ساتھ ۔ پھر پوچھا، کس کے ساتھ ؟ فرمایا، ماں کے ساتھ۔ تیسری مرتبہ پوچھا کس کے ساتھ؟ فرمایا ماں کے ساتھ ۔ چوتھی مرتبہ پوچھا، تو فرمایا: ہاں باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو۔*
*★_ تو اس حدیث پاک سے یہ مطلب نکلا کہ باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا ہے مگر ماں کا اس سے بھی زیادہ خیال رکھنا ہے۔ اس لئے کہ ماں نے تکلیف زیادہ اٹھائی ہوتی ہے۔ایک سال تو اس نے پیٹ میں اٹھایا ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد دو سال اس نے گود میں اٹھایا ہوتا ہے۔ ہر وقت بچے ہی میں مصروف ہوتی ہے، چوبیس گھنٹے کی خادمہ ۔ کوئی ڈیوٹی تھوڑی ہوتی ہے! کہ آٹھ گھنٹے میں بچے کو اٹینڈ کروں گی اور پھر ڈیوٹی ختم, نہیں ! ماں باپ کے تو چوبیس گھنٹے اس کے لئے وقف ہوتے ہیں،*
*★_ بلکہ پہلے وقتوں میں جب آج کل کے ڈائپر نہیں ہوتے تھے اور بچے رات کو سردی کے موسم میں سوئے ہوئے اپنے بستر پر پیشاب کر دیتے تھے تو ہم نے ایسی مثالیں بھی سنیں کہ ماں بچے کو خشک بستر پر لٹا دیتی تھی اور گیلے بستر پر خود لیٹ جاتی تھی۔ اللہ اکبر کبیرا۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ایک ماں کا مجاہدہ :-*
*★_ ہمارے قریبی رشتہ داروں میں ایک لڑکی نے نیت کر لی کہ اللہ نے مجھے بیٹا دیا ہے میں اس کو ہمیشہ باوضو دودھ پلاؤں گی، اللہ اکبر کبیرا۔ ہم نے جو اس کو دیکھا اتنا مجاہدہ، اتنا مجاہدہ ! حیران رہ گئے۔ اس لئے کہ مدر فیڈنگ خود کرتی ہے اور اس نے کہا کہ میں نے نیت کی ہوئی ہے کہ باوضو پلاؤں گی۔ اب ہر وقت تو وضو نہیں رہتا، چلو دن میں تو گزارا ہو جاتا۔ سردی کی سخت ٹھنڈی راتوں میں بچے کو دودھ پلایا اور پلا کے وہ بیچاری لیٹی تو پانچ منٹ اس کی آنکھ لگی کہ بچہ پھر رونے لگا۔*
*★_ اب گرم بستر میں سے اٹھ کر وہ جاتی اور باتھ روم میں وضو کر کے پھر آ کے دودھ پلاتی, پھر بچے کو فیڈ دیتی اور ابھی آدھا گھنٹہ بچہ نہیں سویا تھا کہ پھر رونا شروع کر دیا۔ اللہ کی شان کہ بچی کو پھر وضو کے لئے جانا پڑا۔ ایک ایک رات میں وہ بھی پندرہ پندرہ دفعہ جا کر وضو کر کے آتی ۔*
*★_ سوچیں! وہ ماں رات کو کیا سوتی ہوگی ؟ اسی طرح سفر میں بچے کے لیے وضو کا قائم رکھنا کتنا مشکل کام ہے ۔ کس کس جتن سے اس نے اپنے اس بیٹے کو دودھ پلایا ! یہی سوچ سوچ کر مجھے حیرت ہوتی ہے اور دل کہتا ہے کہ واقعی اللہ رب العزت نے جو ماں کا یہ مقام بتایا، یہ اس ماں کا حق بنتا ہے۔*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ ماں کا مقام:-*
*★_ اسی لئے حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت شب قدر میں بڑے بڑے گناہ گاروں کی مغفرت فرما دیتے ہیں لیکن جو ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہے، شب قدر میں بھی اللہ اس کی مغفرت نہیں فرمایا کرتے۔*
*★_ نبی علیہ السلام کی خدمت میں ایک صحابی آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی ! مجھ سے بڑا گناہ سرزد ہو گیا۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: جاؤ! اپنی ماں سے دعا کر والو, اس نے کہا، اے اللہ کے نبی میری ماں تو فوت ہو چکی۔ پوچھا تمہاری خالہ ہے؟ جی وہ زندہ ہے، فرمایا : جاؤ خالہ سے دعا کر والو، اللہ تمہارے بڑے گناہ کو بخش دے گا ۔*
*★_ سوچیے ! جب کبیرا گناہوں کو اللہ تعالی ماں کے ہاتھ اٹھنے پر معاف فرما دیتے ہیں تو اللہ تعالی کے ہاں ماں کا کیا مقام ہو گا؟ اس لئے جو شخص اپنے ماں باپ سے حسن سلوک کرتا ہے، اللہ رب العزت اس بندے کی زندگی میں برکتیں عطا فرماتے ہیں ۔*
*★_حدیث پاک کا مفہوم سنیں اور دل کے کانوں سے سنیں ! جو شخص اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرتا ہے، اس کی آنے والی اولاد کل اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے گی۔ یہ ہے ادلے کا بدلہ” جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ جو نوجوان لڑکے لڑکیاں، آج اپنے ماں باپ کی خدمت کریں گے کل جب ان کی شادیاں ہوں گی اور وہ خود ماں باپ بنیں گے، اللہ ان کو بھی فرمانبردار اولاد عطا فرمائیں گے۔*
*★_ کیا مزے کی بات ہے ! تو اس لئے نوجوان بچے بچیوں کو چاہیے کہ خدمت کر کے ماں باپ کو راضی کریں تاکہ ان کی اولاد ان کو راضی کرے اور اس کے ذریعے سے اللہ رب العزت بھی ان سے راضی ہو جائیں ۔**
╥────────────────────❥
*⊙⇨ والدین کی خدمت کا صلہ :-*
*★_ یہ عمل اللہ رب العزت کو اتنا پسند ہے کہ انسان کو دنیا کی مصیبتوں سے بھی بچاتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے تین بندے سفر پر نکلے، بارش ہو گئی تو اس سے بچنے کیلئے وہ غار کے اندر چلے گئے، بارش کی وجہ سے ایک بڑی چنان گری اور غار کے منہ کے اوپر آگئی، اتنی وزنی تھی کہ تینوں نے مل کر زور لگایا، مگر وہ ہلتی ہی نہ تھی۔ اب کوئی وہاں تھا ہی نہیں جو ان کی مدد کرے، تینوں زور لگا لگا کر جب تھک گئے، عاجز آگئے، تو اب ان کو موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگ گئی، کہ غار کا منہ بند ہے، ہم بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ کر یہیں مرجائیں گے ۔*
*★_ اس وقت انہوں نے سوچا کہ اللہ رب العزت کے سامنے کوئی اپنے عمل پیش کرو! جن عملوں کو قبول کر کے اللہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اپنے عمل پیش کئے ۔ان میں سے ایک نے یہ کہا کہ میں بکریاں چراتا تھا اور جب گھر واپس آتا تو میں اپنی والدہ کو دودھ دیا کرتا تھا۔ ایک رات جب میں آیا تو والدہ سو چکی تھی، میں دودھ لے کر کھڑا رہا کہ والدہ کی آنکھ کھلے گی تو میں دودھ دوں گا۔یا اللہ ! وہ پوری رات سوئی رہیں، ان کی آنکھ نہیں کھلی، اور میں پوری رات ہاتھ میں دودھ کا گلاس لے کر انتظار کرتا رہا۔ اگر یہ میرا عمل آپ کو پسند ہے ہمیں اس مصیبت سے نجات دیجئے !*
*★_ تو اس عمل کی برکت سے اللہ رب العزت نے تیسرا حصہ ( غار کا جو منہ تھا) وہ کھول دیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے ساتھی نے اپنا اپنا عمل پیش کیا، اور دعا کی کہ یا اللہ اگر یہ میرا عمل آپ کو پسند ہے ہمیں اس مصیبت سے نجات دیجئے ! تو وہ چٹان منہ سے ہٹ گئی اور اللہ رب العزت نے تینوں کو اس مصیبت سے نجات عطا کر دی۔*
*★_ اب یہاں یہ بات سوچنے کی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی، ان اعمال میں سے ایک ہے کہ جن اعمال کا واسطہ دیا جائے، اس عمل کی برکت سے اللہ بندے کو دنیا کی مصیبتوں سے بھی بچا دیتے ہیں۔ اس لئے نو جوان بچوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے ماں باپ کی خدمت کریں، ان کی دعائیں لیں اور ماں باپ کو بھی چاہیے کہ وہ اولاد کے ساتھ پلنگ اور چار پائی والا معاملہ نہ کریں کہ ادھر سے اٹھا کر ادھر رکھ دی، ذراسی بات پر ڈانٹ پلا دی ۔ وہ بھی ان کو انسان سمجھیں، ان کی بات کو سنیں اور ان کو سمجھانے کی کوشش کریں، نفع و نقصان بتانا چاہیے، تاکہ بچے اپنی خوشی کے ساتھ ایک کام کو کر رہے ہوں تو ماں باپ کو بھی اس کا خیال کرنا چاہیے۔*
*★_اور اولاد کو بھی خیال کرنا چاہیے, اگر بالفرض ماں باپ خیال نہیں کر پاتے تو کیا پھر بھی نو جوانوں کو خیال نہیں رکھنا چاہیے ؟ شریعت کہتی ہے کہ ماں باپ نے اگر خیال نہ بھی رکھا تمہیں اجرتب ملے گا جب تم اس کے باوجود ان کی خدمت کرو گے۔ حیرت کی بات ہے کہ شریعت کہتی ہے : ماں باپ اگر کافر ہیں اور مشرک ہیں۔(وَصَاحِبَهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ) تم اس دنیا میں ان کے ساتھ پھر بھی اچھائی کا معاملہ کرو، تو جب کافر اور مشرک ماں باپ کے ساتھ اگر اچھائی کا حکم ہے تو جو ایمان والے ماں باپ ہیں، جنہوں نے بچے کو چھوٹی عمر میں کلمے کی نعمت دے دی، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اللہ تعالیٰ کو کتنا پیارا ہو گا ؟*
╥────────────────────❥
*⊙⇨ اللہ کی رضا ، والدین کی رضا میں ہے:-*
*★_ یہ پکی بات ہے کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے۔ جب تک والدین راضی نہ ہوں گے، بندے کے اعمال بھی قبول نہ ہوں گے۔ ہمارے قریب کے ایک دیہات میں ایک واقعہ پیش آیا، دیہاتی علاقے میں بوڑھے ماں باپ تھے، اللہ نے بڑھاپے میں ان کو اولا د عطا کر دی۔ بچے کو انہوں نے پڑھایا، بچہ ذہین تھا حتیٰ کہ وہ بچہ پڑھ لکھ کر انجینئر بن گیا۔ شہر کے اندر اس کو بڑی اچھی نوکری مل گئی، کوٹھی مل گئی، کار مل گئی۔ اس نے ماں باپ کو کہا : جی آئیں ! میرے ساتھ شہر میں رہیں۔ وہ بیٹے کے پاس شہر میں آگئے۔ ماں باپ چونکہ دیہات میں رہنے کے عادی تھے، رشتے داریاں وہیں تھیں اور آزاد فضا تھی اور وہ اس ماحول میں ایڈ جسٹ ہو چکے تھے ۔ وہ کچھ دن تو شہر میں رہے بھر بیٹھے سے کہا- ہمیں آپ وہیں دیہات میں رہنے دو۔ آپ شہر میں رہ لو، آتے رہنا, ہم سے ملتے رہنا۔ چنانچہ اس طرح بیٹے نے شہر میں رہنا شروع کر دیا۔*
*★_ کچھ عرصے کے بعد اس شہر کے ایک بڑے معزز گھرانے کی ایک خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی کا نکاح کا پیغام بھیجا۔ ماں باپ سے پوچھا، ماں باپ نے کہا کہ بیٹے ! زندگی آپ نے گزارنی ہے جہاں آپ خوش ہوں گے ہم بھی وہیں خوش ہوں گے۔ اب اس کی شادی بھی ہو گئی ۔ بیوی کچھ عرصہ تو اس کے ماں باپ سے ملنے دیہات میں جاتی رہی۔ پھر جب بچوں کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں تو آنا جانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ماں باپ اس بچے کو کہتے کہ آپ ہمارے پاس ہفتے میں ایک دفعہ آکر مل جایا کرو۔ یہ ایک دفعہ ملنے چلا جاتا ۔ دو چار سال گزرے ۔ تو اب بیوی جو تھی وہ ماں باپ کے پاس جانے سے الرجک ہوگئی ۔ جب یہ جانے لگتا تو وہ ہنگامہ کر دیتی ۔ یہ پریشان کہ وہاں نہ جاؤں تو ماں باپ ناراض اور اگر جاؤں تو یہاں بیوی ناراض، سوچتا تھا کہ میں کیسے اس مصیبت سے جان چھڑاؤں؟*
*★_ اتنے میں اس کو سعودی عرب سے ایک جاب آفر آگئی۔ بہت معقول پیکچ تھا۔ اس نے ماں باپ کو جا کر بتایا۔ ماں باپ بڑے خوش ہوئے ، بیٹے ! ہمارا اللہ حافظ ہے تم اس دیس میں جاؤ گے، اللہ کا گھر دیکھو گے، بیٹے ہمارے لئے یہی خوشی کافی ہے۔ ماں باپ نے اجازت دے دی ۔ یہ بیوی بچوں کو لے کر مکہ مکرمہ آگیا ۔ اس زمانے میں ٹیلی فون تو زیادہ ہوتے نہیں تھے۔ بس حج اور عمرے پر جو لوگ آتے تھے انہی کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی تھی، یا کوئی چیز ایک دوسرے کو پہنچادی جاتی تھی ۔ چنانچہ یہ نوجوان شروع میں ان کے لئے خرچہ بھی بھیج رہا اور بھی کبھی صحت خشی کے پیغام بھی بھیجتا رہا لیکن تیرہ سال ہو گئے اپنے والدین کی طرف واپس نہ آسکا ۔*
*★_ نیک تھا، ہر سال حج کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ حج کے دوسرے تیسرے دن یہ مطاف میں کھڑا تھا، بیت اللہ کے سامنے زارو قطار رو رہا تھا۔ کسی اللہ والے نے دیکھا ، پوچھا نو جوان! کیا ہوا، کہتا ہے کہ مجھے تیرہ سال ہو گئے ہیں، ہر دفعہ میں حج کرتا ہوں لیکن حج کے دو تین دن کے بعد میں خواب دیکھتا ہوں کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے تیرا حج قبول نہیں اور میں پریشان ہوں کہ پتہ نہیں کون سی مجھ سے ایسی غلطی ہوتی ہے کہ میراج اللہ کی بارگاہ میں قبول ہی نہیں ؟ وہ اللہ والے تھے، بندے کی نبض پہچانتے تھے، انہوں نے دو چار باتوں میں گیس کر لیا، کہ اس نے تیرہ سال سے ماں باپ کو شکل ہی نہیں دکھائی، ان کے پاس گیا ہی نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ بوڑھے ماں باپ اس پر خفا ہوں گے ۔ انہوں نے بات سمجھائی کہ بیٹے ! جاؤ ! ماں باپ زندہ ہیں ان کی خیر خبر لو، پھر واپس آنا ۔*
*★_ اس نے آکر فورا اپنی ٹکٹ بک کروالی۔ بیوی نے کچھ آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی مگر یہ نہ جوان نے اس کو بھی شیر کی آنکھیں دکھا ئیں ۔ جب بیوی نے دیکھا کہ یہ بہت سیریس نظر آتا ہے تو چپکے سے ڈر کے مارے بھیگی بلی بن کر بیٹھ گئی ۔خیر اس نے تیاری کی اور واپس اپنے ملک آیا ، اب جب اپنے گاؤں کے قریب پہنچا تو اس نوجوان کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میرے ماں باپ اس وقت زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ اب یہ سوچ رہا ہے کہ پتہ نہیں میرے ماں باپ کس حال میں ہیں؟ تیرہ سال ہو گئے تھے۔ اس کو ایک نو دس سال کا لڑکا ملا ۔ اس نے اس سے پوچھا کہ وہ فلاں بڑے میاں کا کیا حال ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ بڑے میاں تو چھ مہینے ہوئے فوت ہو گئے، البتہ وہ بوڑھی عورت ابھی زندہ ہے, گھر میں ہے اور بڑی بیمار ہے۔ ۔ بچہ بات کر کے چلا گیا لیکن اس نوجوان کو احساس ہوا ، او ہو! والد دنیا سے چلے گئے، میں نے آخری وقت میں ان کی شکل ہی نہیں دیکھی ۔ اب تو امی مجھ سے ناراض ہو گی اور امی تو میرا چہرہ ہی نہیں دیکھے گی، امی تو مجھے گھر سے ہی نکال دے گی ، میرے ساتھ بات ہی نہیں کرے گی ۔ اب یہ سوچ رہا ہے کہ میں امی کو کیسے مناؤں گا ؟*
*★_ مغموم دل سے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ بالآخر جب اس نے گھر کے دروازے پر پہنچ کر دیکھا، تو دروازہ کھلا ہوا تھا ، کواڑ ملے ہوئے تھے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا ، اندر داخل ہوا، کیا دیکھتا ہے کہ صحن میں چار پائی کے اوپر اس کی بوڑھی بیمار والدہ لیٹی ہوئی ہیں ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی ، وہ چار پائی کے ساتھ لگی ہوئی تھی، جب وہ دبے پاؤں بالکل قریب پہنچا تو حیران ہوا کہ اس کی والدہ کے اس وقت ہاتھ اٹھے ہوئے تھے اور وہ کچھ الفاظ کہہ رہی تھی، گو یا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہی تھی ۔ اس نے جب قریب ہو کر سنا تو ماں یہ الفاظ کہہ رہی تھی، یا اللہ ! میرا خاوند دنیا سے چلا گیا، میرا ایک ہی بیٹا ہے جو میرا محرم ہے۔ اللہ ! اسے بخیریت واپس پہنچا دینا، تا کہ اگر میری موت آئے تو مجھے قبر میں اتار نے والا کوئی تو میرا محرم موجود ہو ۔ ماں یہ دعائیں مانگ رہی ہے اور بیٹا سمجھتا ہے کہ ماں مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گی ۔ اس نے جب ماں کے یہ الفاظ سنے اس نے فورا کہا ، امی ! میں آگیا ہوں ، تو ماں چونک اٹھی ، آواز سنتے ہی بولی: میرے بیٹے ! آگئے, جی امی ! میں آگیا ہوں ۔ ماں کہنے لگی: بیٹے ! ذرا قریب ہو جانا ، میں تمہاری شکل تو دیکھ نہیں سکتی ، مجھے اپنا بوسہ ہی لینے دو، مجھے اپنے جسم کی خوشبو سونگھنے دو،*
*★_ یہ ماں کی محبت ہوتی ہے۔ خیر یہ بیٹا دو چار دن وہاں رہا، اللہ کی شان کہ ماں بیمار تھی، چند دنوں میں فوت ہوگئی ۔ اس نے اپنی والدہ کو دفنا یا کفنایا اور اس ذمہ داری سے فارغ ہو کر، کچھ عرصے کے بعد یہ واپس مکہ مکرمہ آگیا۔کہتے ہیں، اگلے سال جب حج کا موقع آیا، اس نے حج کے دوسرے دن پھر خواب دیکھا ، جس شخص کو دیکھتا تھا اس نے دیکھا کہ وہی ہے اور اس کو کہہ رہا ہے: اللہ نے تیرے اس حج کو بھی قبول کر لیا اور تیرے پچھلے تیرہ حجوں کو بھی قبول کر لیا۔ جب ماں باپ کےساتھ حسن سلوک سے اللہ رب العزت بندے کے عملوں کو قبول کر لیتے ہیں اور اس کے ساتھ رحمتوں کا معاملہ کرتے ہیں تو نو جوانوں کو چاہیے کہ گھروں میں نہ آپس میں الجھیں، نہ ماں باپ کی بے قدری کریں، ماں باپ شفقتوں والا معاملہ کریں، اولاد خدمت کا معاملہ کرے۔ سب محبت پیار کے ساتھ رہیں لڑائی جھگڑے سے بچیں، یہ فسادے اور (وَ اللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادُ ) اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک بن کر اور ایک بن کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔*
*®_ حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ_,*
╥────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕
✍
*❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں _,*
https://chat.whatsapp.com/DAloyOp8VLHBqfy4b0xcnE
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل سبھی پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*
https://www.youtube.com/channel/UChdc
▉
0 Comments