Fazai'l E Sha'aban (Urdu)

*❀﷽❀*              
      ┯━══◑━═━┉─○─┉━◐══┯
                  *☪ فضائل - شعبان ☪* 

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
                      *☞,_ شعبان المعظم :-*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉"_ شعبان المعظم سال کا آٹھواں مہینہ ہے، اور یہ بابرکت مہینوں میں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں اپنے بندوں کو نواز نے اور عطاء کرنے کے لئے بہت سی خیریں اور بھلائیاں رکھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اسلاف اس مہینے کی قدر دانی کرتے پہلے آئے ہیں،*

*❉"_ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام ہر شعبان کا چاند دیکھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے، اپنے مالوں کی زکوۃ نکالتے تا کہ کمزور اور مسکین لوگ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے پر قادر ہو سکیں،*

*❉"_ حکمران قیدیوں کو بلا کر اگر حد کے نفاذ کا مسئلہ ہوتا تو حد نافذ کر دیتے ورنہ ان کو آزاد کر دیتے، تاجر حضرات اپنے حساب و کتاب اور لین کی ادائیگی سے فارغ ہونے کی کوشش میں لگ جاتے تاکہ ہلال رمضان دیکھ کر اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر سکیں۔*
*®_ (غنیۃ الطالبین 1 / 341)*

      *☞__ شعبان نبی کریم ﷺ کا مہینہ _,*

*❉"_ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے اس مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ (كتر اعمال :35172)*

*☞__ شعبان بابرکت مہینہ ہے:-*

*"❉"__ اس کے بابرکت ہونے کے لئے نبی کریم ﷺ کی وہ دعا ہی کافی ہے جس میں آپ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالی سے اس میں برکت کی دعاء مانگی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:-*

*"❉"__ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہو تا تو نبی کریم ﷺ یہ دعاء پڑھا کرتے تھے: " اللَّهُمَّ بَارِك لَنَا فِي رَجَبَ، وَشَعْبَانَ، وَبَلْغَنَا رَمَضَانَ "*
*"_ترجمہ : اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرما اور اور ہمیں (بخیر و عافیت ) رمضان المبارک تک پہنچا دیجئے _,"*
*®- (شعب الایمان : 3534)*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*☞__ شعبان گناہوں سے پاک ہونے کا مہینہ ہے:-*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉"__ ارشاد نبوی ﷺ ہے :رمضان کا مہینہ اللہ تعالی کا اور شعبان کا مہینہ میرا مہینہ ہے ، شعبان کا مہینہ پاک کرنے والا اور رمضان کا مہینہ گناہوں کو مٹانے والا ہے_,"*
*®_ ( أخرجه ابن عساکر فی اتار :72/ 155)*

*"☞___ شعبان کے مہینے میں روزہ دار کے لئے خیر کثیر ہے :-*
*❉"_حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : شعبان کو ”شعبان“ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں روزہ رکھنے والے کے لئے بہت سی خیریں اور بھلائیاں (شاخوں کی طرح) پھوٹتی ہیں، یہاں تک کہ وہ جنت میں جا پہنچتا ہے _,"*
*®_ ( كنز العمال: 35173)*

*"☞___ شعبان کے مہینے میں اعمال کی پیشی:-* 
*❉"_ اس مہینے میں اعمال کی پیشی ہوتی ہے، چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:-*
*"_ رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے ، (عام طور پر ) لوگ اُس سے غفلت کا شکارہ ہوتے ہیں، حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں_,"*
*®_ (شعب الايمان : 3540)*

      *☞,___ ماہ شعبان کے اعمال :*
         *❉__اس مہینے سے متعلق دو طرح کے کام ہیں:-*
*"_(1) _قابل عمل كام :-یعنی وہ کام جن کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور وہ سنت سے ثابت ہیں۔ ایسے کام درج ذیل ہیں:-*

*☞,"_پہلا کام: شعبان کے مہینے کا چاند دیکھنے کا اہتمام:-*
*❉_"_اسلامی مہینوں کی حفاظت اور اُن کی صحیح تاریخوں کا یاد رکھنا فرض کفایہ ہے، کیونکہ اُن پر بہت سے شرعی احکام موقوف ہیں، چنانچہ حج کا صحیح تاریخوں میں اداء کرنا، رمضان المبارک کے روزوں اور زکوۃ کی ادا ئیگی اور اس کے علاوہ کئی شرعی امور قمری تاریخوں پر موقوف ہیں،*

 *❉_لہذا مسلمانوں کو قمری مہینوں کو یادرکھنا چاہیئے اور چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیئے، اور شعبان کے بعد چونکہ رمضان المبارک کا عظیم مہینہ آرہا ہوتا ہے اس لئے ہلالِ شعبان کو اور بھی زیادہ اہتمام اور شوق سے دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ بھی شعبان کا چاند بڑے اہتمام سے دیکھا کرتے تھے, چنانچہ روایت میں آتا ہے،*
*❉_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہلال شعبان کی جتنی حفاظت کرتے تھے اتنی کسی اور مہینے کی نہ کرتے تھے۔ (دار قطنی:2149)*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*☞,__شعبان کے مہینے میں روزوں کی کثرت:-*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉__حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو روزہ رکھنے کے لئے تمام مہینوں میں شعبان کا مہینہ سب سے زیادہ محبوب تھا، آپ یہ چاہتے تھے کہ روزہ رکھتے رکھتے اُسے رمضان کے ساتھ ملا دیں۔*
 *®_ (ابوداؤد:2431)*
*"_ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا_,"*
*®_ (مسلم: 1156, بخاری:1969)* 

*❉_ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ رمضان المبارک کے بعد کون سا روزہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ روزہ جو رمضان کی تعظیم میں شعبان کے مہینے میں رکھا جائے_,"*
*®_ (ترندی: 663)*

*❉_ رمضان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے آنے سے قبل ہی روزہ رکھ کر نفس کو بھوک و پیاس برداشت کرنے کا عادی بنایا جائے تاکہ اچانک سے ماہ رمضان شروع ہو جانے سے طبیعت پر بوجھ نہ ہو اور کوئی بات خلاف ادب سرزد نہ ہو۔*
*"_ شعبان کے مہینے میں آپ ﷺ کے بکثرت روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی جیسا کہ اس سے پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال کی پیشی ہوتی ہے اور آپ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ روزے کی حالت میں اعمال کی پیشی ہو_,"*
*®_ (شعب الایمان : 3540)*

    *☞,____رمضان المبارک کی تیاری:-*
          
*❉__ہر چیز کی تیاری اُس کے آنے سے پہلے ہوتی ہے، مثلاً مہمان کی آمد ہو تو اس کے بعد نہیں، آنے سے پہلے تیاری ہوتی ہے، اسی طرح رمضان بھی مؤمن کے لئے ایک بہت ہی اہم اور معزز مہمان ہے، اس کی قدر دانی کے لئے بھی پہلے سے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہونا چاہیے۔*
*"_رمضان کی تیاری میں دو چیزیں ہیں:-*
*❉"_(1) دنیاوی اعتبار سے:- اس طرح کہ دنیاوی مشاغل و مصروفیات سے اپنے آپ کو جتنا فارغ کر سکتے ہوں کر لیں، تاکہ رمضان المبارک کا مہینہ مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت اور رجوع الی اللہ میں گزارا جاسکے۔*

*❉"_(2)۔ دینی اعتبار سے: رمضان کی تیاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شعبان المعظم کے مہینے میں ہی اپنے دن اور رات کے معمولات کو کچھ اس طرح ترتیب دیجئے کہ فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کا بھی خوب اہتمام ہونا شروع ہو جائے، پانچوں فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ مسجد میں اداء کیجئے، قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کریں، نفلی نمازیں: اشراق، چاشت ، اوابین اور تہجد کا اہتمام شروع کر دیں اور خوب دعائیں مانگنے کی کوشش کریں،*
 
*❉"_یاد رکھئے ! دینی اور دنیاوی اعتبار سے رمضان کی تیاری کا مطلب شعبان میں ہی تیاری کرنا ہے کیونکہ ہلال رمضان کے نکلنے کے بعد تیاری کرتے کرتے کافی وقت لگ جاتا ہے، اور پھر ان معمولات کی عادت بنتے بنتے بھی دیر لگتی ہے اور اس میں رمضان المبارک کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے، اس لئے جو بھی تیاری کرنی ہے وہ آمد رمضان سے قبل ہی کر کے فارغ ہو جائیں۔*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
              *☞_ شب براءت کی عبادت:-*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉_شعبان المعظم کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ایک معظم اور بابرکت رات رکھی ہے اور اس میں عبادت کرنے والوں کے لئے بے شمار اجر و ثواب مقرر کیا گیا ہے، اس رات كو الليلة المباركة ( بابركت رات)، ليلة الرحمة ( رحمتوں والی رات ) ليلة الصك ( اللہ تعالی کی جانب سے جنت کا پروانہ ملنے والی رات ) اور لیلة البراءة ( جہنم سے بری ہونے والی رات ) کہا جاتا ہے_," (روح المعانی: 110/13)*

*❉__ پہلی فضیلت: بکثرت لوگوں کی مغفرت:- اس شب میں اللہ تعالیٰ بے شمار لوگوں کی مغفرت کر دیتے ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتی ہیں کہ بے شک اللہ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر( اپنی شان کے مطابق ) نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں_," (ترمی:739)*
*"__ قبیلہ "بنو کلب" عرب ایک قبیلہ جو بکریاں کثرت سے رکھنے میں مشہور تھا، اور بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ مغفرت کرنے کے دو مطلب ذکر کیے گئے ہیں, پہلا مطلب یہ ہے کہ اس قدر کثیر گناہ گاروں کی مغفرت کی جاتی ہے کہ جن کی تعداد ان بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی بے شمار لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے گناہ گار نہیں بلکہ گناہ مراد ہیں، یعنی اگر کسی کے گناہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوں تو اللہ تعال اپنے فضل سے معاف فرما دیتے ہیں۔*
*®_ (تحتہ الاحوزی: 3 / 365)*

*❉_,__دوسری فضیلت : دعاؤں کی قبولیت:- یہ رات دعاؤں کی قبولیت والی رات ہے، اس میں اللہ تعالی سے مانگنے والا محروم نہیں ہوتا، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے صد الگائی جاتی ہے کہ کوئی مجھ سے مانگے میں اُس کی مانگ پوری کروں، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:-*
*"__جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس کی رات میں قیام (عبادت) کرو اور اُس کے دن میں روزہ رکھو، بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میں غروب شمس سے ہی آسمان دنیا میں (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: کیا کوئی مجھ سے مغفرت چاہنے والا نہیں کہ میں اُس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق عطاء کروں؟، کیا کوئی مصیبت وپریشانی میں مبتلا شخص نہیں کہ میں اسے عافیت عطاء کروں ؟ کیا فلاں اور فلاں شخص نہیں۔... الخ یہاں تک کہ (اسی طرح صدا لگتے لگتے ) صبح صادق طلوع ہو جاتی ہے۔*
*®_ (ابن ماجہ : 1388)*

*"❉__ اللہ تعالی کی جانب سے یہ عطاء اور بخشش کی صدا روزانہ رات کو لگتی ہے اور بعض روایات میں رات کے ایک تہائی حصے کے گزر جانے کے بعد صبح تک لگتی ہے اور بعض روایات میں رات کے آخری پہر یعنی آخری تہائی حصہ میں لگائی جاتی ہے, لیکن اس شب براءت کی عظمت کا کیا کہنا!! کہ اس رات میں شروع ہی سے یعنی آفتاب کے غروب ہونے سے لے کر صبح صادق تک یہ صدالگائی جاتی ہے ، لہذا ان قبولیت کی گھڑیوں میں غفلت اختیار کرنا بڑی نادانی اور حماقت کی بات ہے ، اس لئے اس رات میں فضولیات اور لایعنی کاموں میں لگنے یا خواب غفلت میں سوئے پڑے رہنے سے بچنا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتے ہوئے شوق و ذوق کا اظہار کرنا چاہیے۔*
*"__تنبیه : واضح رہے کہ دعاؤں کی قبولیت والی اس رات میں دعاؤں کی قبولیت کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دعاء کی قبولیت کی شرائط کا اچھی طرح لحاظ رکھیں ورنہ دعاء قبول نہیں ہو گی۔*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
        *☞,_ دعاء کی قبولیت کی شرائط:-*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉__دعاء کی قبولیت کی چند بنیادی شرطیں ہیں، دعاء مانگتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:-*
*❉_ "_ (1)_پہلی شرط: حرام سے اجتناب: حدیث کے مطابق جس کا کھانا پینا اور لباس وغیرہ حرام کا ہو اُس کی دعاء قبول نہیں ہوتی، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کا تذکرہ کیا جو طویل سفر کرتا ہے اور اُس کی وجہ سے وہ پراگندہ اور غبار آلود ہو جاتا ہے اور اس پراگندگی کی حالت میں اپنے ہاتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پھیلا کر کہتا ہے : اے میرے پر وردگار ! اے میرے پروردگار ! حالانکہ اُس کا کھانا، اُس کا پینا، اس کا لباس سب حرام ہو اور اُس کی پرورش حرام مال سے کی گئی ہو تو اُس کی دعاء کیسے قبول کی جاسکتی ہے۔ ®_ (ترمذی:2989)*

*❉__(2)_دوسری شرط: توجہ سے دعاء کرنا:- یعنی دل کی توجہ سے اللہ تعالی سے دعاء کرنا، ایسانہ ہو کہ غفلت میں صرف رٹے رٹائے دعائیہ کلمات زبان سے اداء کیے جائیں اور دل حاضر نہ ہو، کیونکہ حدیث کے مطابق ایسی غفلت کے ساتھ مانگی جانے والی دعاء قابل قبول نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں: اللہ تعالی سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعاء مانگا کرو اور جان لو! کہ اللہ تعالیٰ غفلت اور لاپرواہی میں پڑے ہوئے دل کے ساتھ دعاء قبول نہیں فرماتے۔*

*❉_"_ (3)_تیسری شرط: ایک دوسرے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہنا:- نیکی کا حکم دینا اور گناہوں سے روکنا اسلام کے اہم فرائض اور ذمہ داریوں میں سے ہے، جب لوگ اس میں غفلت برتنے لگتے ہیں تو اللہ تعالی کا عذاب مختلف شکلوں میں نازل ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں صرف بُرے لوگ ہی نہیں بلکہ ان کو نہ روکنے والے بھی آجاتے ہیں، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ ضرور نیکی کا حکم دیتے اور برائیوں سے منع کرتے رہو ، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی جانب سے ایک ایسا عذاب بھیجیں گے کہ تم اُس سے دعاء کرو گے لیکن تمہاری دعاء قبول نہیں کیا جائے گی_," ®_ (ترمذی- 2169)*

*☞,_ تیسری فضیلت: جہنم سے آزادی:-*
*❉__اس رات کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالی بڑی کثرت سے جہنم سے لوگوں کو آزاد کرتے ہیں، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرہویں شب میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:- یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے اور اس رات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر جہنم سے لوگوں کو آزاد کیا جاتا ہے_," (شعب الايمان : 3556)*

*❉__چوتھی فضیلت : سال بھر کے فیصلوں کی رات:- اس رات کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ اس میں سال بھر کے فیصلے کیے جاتے ہیں کہ کس نے پیدا ہونا اور کس نے مرنا ہے کس کو کتنا رزق دیا جائے گا اور کس کے ساتھ کیا کچھ پیش آئے گا، سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ ! کیا تم جانتی ہو کہ اس پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا- یا رسول اللہ ! کیا ہوتا ہے ؟‌ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اِس سال پید ا ہو نے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے، اور بنی آدم میں سے ہر وہ شخص جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے، اور اس رات میں بندوں کے اعمال اُٹھا لیے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں_," (مشکوۃ المصابح : 1305)*

*"❉__ ایک روایت میں نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے : ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک عمریں لکھی جاتی ہیں، یہاں تک کہ کوئی شخص نکاح کرتا ہے اور اُس کی اولاد بھی ہوتی ہے لیکن (اسے معلوم تک نہیں ہوتا کہ ) اس کا نام مُردوں میں نکل چکا ہوتا ہے_," (شعب الایمان : 3558)*

*"❉__ لہٰذا فیصلے کی اس رات میں غفلت میں پڑے رہنا کوئی دانشمندی نہیں، عظمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنے لئے، اپنے گھر والوں کے لئے بلکہ ساری اُمت کے لئے اچھے فیصلوں کی خوب دعائیں کی جائیں۔*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
                    *☞,___قابل ترک کام :-*
                 ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉_ یعنی وہ کام جن کو اس مہینے میں عبادت اور رسم کے طور پر بڑے اہتمام سے کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اُن کاموں کو اس مہینے میں بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں، اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے زرِ کثیر خرچ بلکہ ضائع کرتے ہیں، حالانکہ اُن کا مذہب و شریعت سے کوئی تعلق نہیں، اُن کا کرنا بدعت ہے لہذا ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، ذیل میں اسی لئے اُن کاموں کو ذکر کیا جارہا ہے تاکہ اُن سے احتراز کیا جائے۔*

*☞,_ پہلا کام : آتش بازی:-*
*❉_ شعبان کے مہینے میں ایک رسم جو مسلمانوں میں تفریح اور دل لگی کے نام سے رائج ہو گئی ہے وہ آتش بازی کی رسم بد ہے، جس کو بچے تو بچے بڑے بھی کرتے نظر آتے ہیں، اور ہر سال اس پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا کر ضائع کیا جاتا ہے، یہ در اصل ہندؤوں کے مشہور تہوار دوالی کی نقل ہے، اِس کا دینی و شرعی طور پر حرام ہونا تو در کنار خود عقل و قیاس کے بھی کسی پیمانے پر اس کا جواز نہیں،*
*"__ بھلا خود اپنے ہاتھوں سے پھٹنے والے پٹاخوں کی آواز کو سننے کے لئے خون پسینے کی کمائی کو بے دریغ ضائع کرنا کون سی عقلمندی ہے؟ پھر اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کا آرام و سکون غارت ہوتا ہے، کتنے ہی لوگ اچانک پھٹنے والے پٹاخوں سے ڈر جاتے ہیں، سونے اور آرام کرنے والوں کی نیند و آرام میں خلل پڑتا ہے، بسا اوقات اس کی وجہ سے جلنے اور مرنے کے بڑے بڑے نقصانات بھی ہو جاتے ہیں جن کے قصے ہر سال اخبارات میں پڑھنے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔*

*☞,__دوسرا کام: چراغاں ( روشنی):-*
*❉_ اس مُبارک راتوں میں نجانے کس سوچ اور نظریہ کے تحت گھروں، مسجدوں اور اہم مقامات پر چراغاں کیا جاتا ہے, ڈیکوریشن کیا جاتا ہے، موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں، چراغ جلائے جاتے ہیں، قمقمے روشن کیے جاتے ہیں، لائٹنگ کی جاتی ہے اور ان کاموں پر ایک زرِ کثیر ضائع کیا جاتا ہے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس کام کو اجر و ثواب کا باعث سمجھا جاتا ہے، خود سوچئے ! اور بار بار سوچئے ! بھلا جو کام اجر و ثواب کا باعث ہو کیا نبی کریم ﷺ کے جانثار صحابہ کرام اور اُن کے نقش قدم کو اپنی منزل سمجھنے والے امت کے اسلاف و اکابرین اُس سے مستغنی یا بے خبر رہ سکتے ہیں ؟ اگر نہیں اور یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ جس کام کو اُمت کے صلحاء واصفیاء نے نہیں کیا اُسے اجر و ثواب کا باعث سمجھنا اور بتلایا جانا کہاں کی عقلمندی ہے ؟*

*❉__ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جس نے ہمارے دین میں ایسی کوئی بات نکالی جو اس میں نہیں تو وہ باطل و مردود ہے_," (بخاری:2697)*
*"_نیز اس میں مال کا بیجا اسراف و ضیاع بھی ہے جو خود کسی کام کے حرام ہونے کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح ارشاد فرما دیا ہے :{ إنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے، ایک اور جگہ ارشاد فرمايا: فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں“۔*

*☞_تیسرا کام : حلوہ بنانا:-*
*❉__ شب براءت میں حلوے اور پوریاں بنانے کی رسم بھی بہت سے نادان مسلمان بڑے شوق و ذوق سے اداء کرتے ہیں اور اسے اجر و ثواب کا باعث جانتے ہیں، بعض نے اس کی وجہ بیان کی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے کے بعد حلوہ کھانے کی یاد گار ہے، بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس تاریخ میں شہید ہوئے تھے تو ان کے ایصال ثواب کے لئے یہ کیا جاتا ہے،*
*"_ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لئے دن اور طریقے کو مخصوص کیا جاتا ہے حالانکہ اس تاریخ سے ان دونوں واقعوں کا کوئی تعلق نہیں، پھر اگر مان بھی لیا جائے تو اس طریقہ کے مشروع ہونے کی کیا دلیل ہے، کیا کسی نص میں ذکر ہے یا حضرات صحابہ کرام و تابعین و تبع تابعین یا اسلاف و اکابرین سے اس پر عمل کرنا منقول ہے؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے کچھ نہیں، پھر کس لئے اپنی خواہشات کو دین بنا کر شیطان کو خوش کیا جاتا ہے۔*

*"☞_ چوتھا کام : قبرستان دھوم دھام سے جانا:-*
*❉__ اس رات میں ایک اور کام بڑی دھوم دھام سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ قبرستان بڑے اہتمام سے دھوم دھام کے ساتھ گاڑیاں بک کرا کے جاتے ہیں، قبرستان میں میلے ٹھیلے لگتے ہیں، چادریں چڑھائی جاتی ہیں، پھول ڈالے جاتے ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی اس کام میں شریک ہوتی ہیں جس سے بڑے فتنوں کے دروازے کھلتے ہیں۔*
*"_ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکا تہم العالیہ فرماتے ہیں: " اس رات میں نبی کریم صلی علیم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع تشریف لے گئے تھے، لیکن حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کی ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اس درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے اگر زندگی میں کبھی ایک مرتبہ ہر قسم کی بدعات اور خرافات سے بچتے ہوئے انفرادی طور پر جایا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھتا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اس کو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے ، جس سے بچنا ضروری ہے “*

*"☞_ پانچواں کام : شب براءت میں اجتماعی عبادت کا اہتمام:-*
*❉__ شب براءت ہو یا کوئی بھی مبارک رات، مقصد اس سے یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالی کی طرف یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ متوجہ ہو، اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد انفرادی عبادت کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اسلاف سے بھی اجتماعی طور پر مُبارک راتوں میں عبادت کرنا منقول نہیں، اس کے علاوہ اجتماعی طور پر جو مساجد میں عبادت کی شکلیں قائم کی جاتی ہیں وہ کئی بدعات اور خرافات کا مجموعہ بن جاتی ہیں، اس لئے انفرادی طور پر جتنا ہو سکے عبادت کرنا چاہیے، ان شاء اللہ وہ کم بھی ہو گی تو زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہوگی۔*

*®_(ماہ شعبان کے فضائل و اعمال )*

 *❉__ اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے اور اس پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے، اپنی مخصوص دعاؤں میں اس خاکسار کو بھی نام لے کر حق کا داعی کی پوری ٹیم کو یاد رکھیے، اللہ صحیح سمجھ اور اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرنے کے توفیق عطا فرمائے امین، واللہ المستعان وهو الموفق الى الصواب۔*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
*☞_مبارک راتوں میں پائی جانے والی چند عمومی غلطیوں کی اصلاح _",,*
          ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❂_1- اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ، جیسا عموماً یہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ بعض لوگ اس رات کی خاص نماز بیان کرتے ہیں کہ اتنی رکعت پڑھی جاۓ، پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جاۓ اور دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی تعداد میں پڑھی جاۓ ، خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسی کوئی نماز یا عبادت اس رات میں ثابت نہیں ، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہو سکے اس رات میں انجام دینی چاہیے ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ۔*

*❂"_2- بابرکت راتوں میں جاگنے کا مطلب پوری رات جاگنا نہیں ہوتا بلکہ آسانی کے ساتھ جس قدر جاگ کر عبادت کرنا ممکن ہو عبادت کر نا چاہیئے اور جب نیند کا غلبہ ہو تو سو جانا چاہیے، بعض لوگ پوری رات جاگنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے لئے پوری رات جاگنے کی بتکلف کو شش کرتے ہیں ، اور جب نیند کا غلبہ ہو تا ہے تو آپس میں گپ شپ ہنسی مذاق ، پان گٹکا اور کھانے پینے چاۓ وغیرہ کے اندر مشغول ہو جاتے ہیں اور اس میں مسجد کے آداب و تقدس کو بھی پامال کیا جا تا ہے ،*.
*"_ یاد رکھئے اس طرح کی فضولیات یا کسی غیر شرعی فعل میں لگ کر ”نیکی بر باد اور گناہ لازم “ کا مصداق نہیں بنا چاہیئے۔*

*❂"_3- غروب آفتاب ہی سے رات کی ابتداء ہو جاتی ہے لہذا مغرب ہی سے مبارک راتوں کی برکت کو سمیٹنے میں لگ جانا چاہیئے ، عشاء کے بعد کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ، جیسا کہ عموماً دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوگ رات کو جاگنے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ گیارہ بارہ بجے جب بستر پر جانے کا وقت ہوتا ہے اس وقت بستر پر جانے کے بجاۓ مسجد میں جاکر عبادت کی جاۓ ،اس غلط فہمی کی وجہ سے رات کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔* 

*❂"_4- مبارک راتوں میں جاگنے کا مطلب صرف جاگنا نہیں بلکہ عبادت کرنا ہے ، چنانچہ صرف ہنسی مذاق، بات چیت ، گپ شپ ، کھانے پینے اور پینے پلانے کے دور میں جاگتے ہوۓ صبح کر دینا کوئی عبادت نہیں ، بلکہ بعض اوقات ان عظیم اور بابرکت راتوں میں ، جھوٹ، چغلخوری غیبت کرنے اور سننے جیسے بڑے اور مہلک گناہوں کا مرتکب ہو کر انسان اور بھی بڑے عذاب کا مستحق بن جاتا ہے، اس لئے انفرادی طور پر یکسوئی کے ساتھ جس قدر آسانی سے ممکن ہو عبادت کرنی چاہیئے اور ہر قسم کے ہلے گلے سے قطعاً بچنا چاہیے۔*

*❂"_5- مبارک راتوں میں اجتماعی عبادت کے بجاۓ انفرادی عبادت کا اہتمام کرنا چاہیئے اس لئے کہ ان راتوں میں اجتماعی عبادت کا نبی کریم ﷺ سے کوئی ثبوت نہیں ، نیز جو خلوص ، یکسوئی اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز انفرادی عبادت میں نصیب ہو سکتا ہے وہ اجتماعی عبادت میں کہاں ...!!*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
       *☞"_مبارک راتوں کو کیسے گزارا جاۓ:*
               ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❂_ 1 توبہ واستغفار :- دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھ کر سچی توبہ کریں، اپنے گناہوں پر شرمند گی وندامت کے ساتھ اللہ تعالی سے صدق دل سے معافی مانگیں، چنانچہ شب قدر کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب حضور ﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ اگر میں شب قدر پالوں تو اس میں کیا پڑھوں ؟ تو آپ ﷺ نے ان کو کوئی بڑا ذکر یا کوئی بڑی نماز اور تسبیح پڑھنے کے لئے نہیں کہا بلکہ ایک مختصر اور آسان سی دعاء تلقین فرمائی ، جس میں عفو درگزر کی درخواست کی گئی ہے :- "_ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي _,‘‘۔(ترمذی:3513)*
*"_( ترجمہ) اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے, معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے, پس تو مجھے معاف فرما دے _,"*

*❂"_ اس سے معلوم ہوا کہ بابرکت راتوں میں سب سے بڑا کرنے کا کام جو عموماً لوگ نہیں کرتے اور مخصوص قسم کی خود ساختہ نماز پڑھنے کے پیچھے لگ جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے ماضی کی زندگی پر سچے دل سے شرمسار ہو کر ، آئندہ کی زندگی میں عملاً تبدیلی لانے کا سچا ارادہ لے کر توبہ اور استغفار کیا جاۓ ، یہ عمل مبارک راتوں کی برکت کو سمیٹنے کا سب سے اہم اور صحیح طریقہ ہے۔*

*❂"2_ نماز با جماعت کی ادائیگی:- اس رات میں تین نمازیں آتی ہیں : مغرب ، عشاء اور فجر ، ان تینوں کو جماعت کے ساتھ صف اول میں خشوع و خضوع کے ساتھ اداء کیجئے، کم از کم جماعت کے ساتھ ان نمازوں کو اداء کر نے والا رات کی عبادت سے محروم نہیں رہے گا، چنانچہ حدیث میں آتا ہے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:- جس نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ اداء کی اس نے گویا آدھی رات عبادت کی اور جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ اداء کی اس نے گویا پوری رات نماز پڑھی ۔ (مسلم:656)*

*❂ _ 3_قضاء نمازوں کی ادائیگی:- زندگی میں جو نمازیں اداء کرنے سے رہ گئی ہوں ان کو قضاء کرنا لازم ہوتا ہے ، ان کی قضاء نہ کی جاۓ تو کل بروز قیامت ان کا حساب دینا ہوگا ، اور توبہ کی شرائط میں ہے کہ ان شرعی واجبات کو اداء کرنا اور ان سے سبکدوش ہونا ضروری ہے، لہذا اپنی توبہ کی تکمیل کی نیت سے زندگی بھر کی نمازوں کا حساب کر کے ان کی قضاء کرنے کی فکر کرنی چاہیئے اور مبارک راتوں میں نفلی عبادتوں میں مشغول ہونے سے بدرجہا بہتر شکل یہ ہے کہ ان قضاء نمازوں کو اداء کیا جاۓ، ان شاء اللہ اس میں نوافل میں مشغول ہونے سے زیادہ ثواب حاصل ہو گا، کیونکہ نوافل نہ پڑھنے کا حساب نہیں جبکہ فرض نمازوں کی اگر قضاء نہ کی جاۓ تو اس کا مؤاخذہ ہے۔*

*❂_قضاء نماز میں پڑھنے کا طریقہ:- اس کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کا حساب کریں اور ممکن نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اور اسے کہیں لکھ لیں اس کے بعد اس کی قضاء کرنا شروع کر دیں، اور اس میں آسانی کے لئے یوں کیا جاسکتا ہے کہ ہر وقتی نماز کے ساتھ ساتھ وہی نماز قضاء بھی پڑھتے جائیں ، اور جتنی نمازیں قضاء ہوتی جائیں انہیں لکھے ہوۓ ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں ، اس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی نمازیں بڑی آسانی کے ساتھ قضاء ہو جائیں گی۔*

*❂ _ قضاء کی نیت :- قضاء نمازوں میں نیت کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز میں یوں نیت کریں” میں اپنی تمام فوت شدہ نمازوں میں جو پہلی نماز ہے اس کی قضاء کر تاہوں “*
*"_ کیونکہ ہر پہلی نماز قضاء کر لینے کے بعد اس سے اگلی خود بخود پہلی بن جاۓ گی_,"*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
         *☞__ کچھ فضیلت والے اعمال_*
             ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❂_جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مبارک راتوں میں کوئی مخصوص عمل تو ثابت نہیں، البتہ چند فضیلت والے اعمال جن میں کم وقت کے اندر زیادہ نیکیوں کا ذخیرہ جمع کیا جا سکتا ہے وہ ذکر کیے جارہے ہیں، انہیں بغیر کسی تخصیص و تعیین کے اختیار کیجئے تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کی جاسکیں:-*

*❂_ اوابین کی نماز:__ مغرب کے بعد اوابین کی نماز ہے جس کی کم از کم چھ ( 6) رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بیس (20) ہیں، آپ کوشش کر کے مبارک رات کی برکتوں کو سمیٹئے کے لئے بیس رکعت اداء کیجئے، حدیث کے مطابق بارہ سال کی عبادت کا ثواب حاصل ہو تا ہے،*
*"_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : جس نے مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعت اس طرح اداء کی کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی ہو تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوتا ہے۔ (ترمذی:435)*
*❂_ واضح رہے کہ اوابین کی نماز کی مندرجہ بالا فضیلت صرف مبارک راتوں میں نہیں بلکہ سال بھر اس فضیلت کو صرف چند منٹوں میں بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے ، مبارک راتوں میں ایسے اعمال کو تو اور بھی اہتمام اور توجہ سے اختیار کر نا چاہیے۔*

 *☞ _صلوۃ التسبیح کی نماز,*
*❉_صلوۃ التسبیح کی چار رکعتیں ہیں ، جن کو ایک سلام سے پڑھا جاتا ہے اگرچہ دو سلام سے بھی جائز ہے ۔ اس نماز کی احادیث میں بڑی فضیلتیں منقول ہیں، انسان اس کے ذریعہ کم سے کم وقت کے اندر جو تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے ، زیادہ سے زیادہ نفع کما سکتا ہے۔ اس لئے سال بھر میں وقتاً فوقتاً اس کے پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے، اور مبارک راتوں میں تو اس کو اور بھی زیادہ اہتمام سے پڑھنا چاہیے ، اور یہ کوئی مشکل نہیں ، بس دل میں نیکی کے حصول کا شوق ہونا چاہیے خود ہی مشقت برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے ، اللہ تعالی عمل کی توفیق عطاء فرماۓ۔ ( آمین )* 

*❂_صلاۃ المسیح کے فضائل:- ❉_(١)_ یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے کی برکت سے دس قسم کے گناہ معاف ہوتے ہیں: (1) اگلے گناہ۔(2) پچھلے گناہ۔ ( 3 ) قدیم گناہ۔(4) جدید گناہ۔ ( 5) غلطی سے کیے ہوۓ گناہ۔ (6) جان بوجھ کر کیے ہوۓ گناہ۔(7) صغیرہ گناہ۔(8) کبیرہ گناہ۔(9) چھپ چھپ کر کیے ہوۓ گناہ۔ (10) کھلم کھلا کیے ہوئے گناہ۔ (فضائل ذکر :169)*
*❉_(٢)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: اگر روزانہ ، ہفتہ ، مہینہ یا کم از کم سال میں بھی اگر نہیں پڑھ سکتے تو اپنی پوری زندگی میں ہی کم از کم ایک مرتبہ پڑھ لو۔ اس سے اس نماز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔(فضائل ذکر :169)*
*❉_(٣)_یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ساری دنیا کے لوگوں سے بھی زیادہ گناہ گار ہوں گے تو تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔(فضائل ذکر :170)*
*❉_(٤)_ یہ وہ نماز ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بتاتے ہوۓ اس نماز کو تحفہ ، بخشش اور خوشخبری قرار دیا۔(فضائل ذکر :171،170،169)*
*❉_(٥)_ یہ وہ نماز ہے جس کو پڑھتے ہوئے بندے کو تین سو (300) مرتبہ تیسرے کلمہ کی صورت میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ، حالانکہ : 1. ایک مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے پر جنت میں ایک درخت لگ جاتا ہے ۔ (فضائل ذکر : 141)*
*2. تیسرا کلمہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب کلمہ ہے ۔(فضائل ذکر : 143)*
*3. جنت چٹیل میدان ہے اور تیسرا کلمہ جنت کے پودے ہیں۔ (فضائل ذکر : 141)*
*4. تیسرے کلمہ کے ہر ایک کلمے کا ثواب احد پہاڑ سے زیادہ ہے ۔ (فضائل ذکر :146)*
*_ 5. تیسرے کلمہ کا ہر کلمہ اعمال نامے میں تلنے کے اعتبار سے سب سے زیادہ وزنی ہے ۔(فضائل ذکر :147)*
*❉_(٦)_ یہ وہ نماز ہے جس کا ہر زمانے میں علماۓ امت، محدثین، فقہاء اور صوفیہ نے اہتمام کیا ہے۔ (ایضا :173)*
*(٧)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں حضرت عبد العزیز بن ابی رواد فرماتے ہیں : جس کا جنت میں جانے کا ارادہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ صلاۃ التسبیح کو مضبوطی سے پکڑے۔(فضائل ذکر :174)*
*❉_(٨)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں حضرت ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصیبتوں اور غموں کے ازالے کے لئے صلاۃ التسبیح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (فضائل ذکر :174)*
*❉_(٩)_ یہ وہ نماز ہے جس کے بارے میں علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس نماز کی فضیلت و اہمیت کو سن کر بھی غفلت اختیار کرے وہ دین کے بارے میں سستی کرنے والا ہے، صلحاء کے کاموں سے دور ہے ، اس کو پکا آدمی نہ سمجھنا چاہیے۔(فضائل ذکر :174)*

*☞__قیام اللیل کا اہتمام _,"*
*❂_قیام اللیل سے مراد تہجد کی نماز ہے جو فرائض کے بعد سب سے افضل نماز ہے، سال بھر بلکہ زندگی بھر اس کا اہتمام کرتا چاہیئے ، اور فضیلت و برکت والی راتوں میں اس کا اور بھی زیادہ شوق و ذوق اور توجہ سے اہتمام کر نا چاہیے _,"*
*❂_ قیام اللیل کے فضائل:-*
*❂_(1) ایک روایت میں تہجد کو فرائض کے بعد سب سے افضل نماز بتلایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے : فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز وہ ہے جو رات کے درمیان پڑھی جاۓ ۔(مسند احمد :8507)*
*❂_( 2). حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : رات کے قیام یعنی تہجد کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے، تمہارے رب کے قرب کا ذریعہ ہے، گناہوں کو مٹانے والی اور گناہوں سے روکنے والی ہے۔(ترمذی:3549)*
*"_ ایک روایت میں اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ تہجد کی نماز جسم سے بیماریوں کو دور کر دینے والی ہے۔ (ترمذی:3549)*
*❂_( 3)_ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ رات کے آخری پہر اپنے رب کے سامنے حاضر ہو تا ہے، پس اگر تم ان لوگوں میں سے ہونے کی طاقت رکھتے ہو جو اس گھڑی میں اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں تو ضرور ہو جاؤ: (ترندى:3579)*
*( 4).- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں : ایک وہ شخص جب وہ رات کو نماز میں کھڑا ہوتا ہے دوسرے وہ لوگ جب وہ نماز میں صف باندھتے ہیں ، تیسرے وہ لوگ جب وہ جہاد میں دشمن سے قتال کرتے ہوۓ صف باندھتے ہیں۔ " (مشکوۃ المصابیح: 1228)*
*❂_( 5). حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سی دعاء سب سے زیادہ سنی جاتی ہے ( یعنی قبول ہوتی ہے ) آپ ﷺ نے فرمایا: “رات کے آخری پہر اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی دعاء۔ (ترمذی: 3499)*
*( 6). حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : بے شک جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا ظاہری حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے، ایک اعرابی کھڑے ہوۓ اور سوال کیا- یارسول اللہ ! وہ کس کے لئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے جو کلام میں نرمی رکھے، کھانا کھلاۓ، پے در پے روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے جب کہ لوگ سورہے ہوں۔ (ترمذی: 1984)*
*❂_(7). حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : میری امت کے سب سے معزز لوگ قرآن کریم کے حافظ اور تہجد گزار ہیں۔(شعب الایمان: 2447)*
*( 8). حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو یہودیوں کے ایک بڑے عالم تھے انہوں نے سب سے پہلی مرتبہ جب آنحضرت ﷺ کا دیدار کیا تو فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا ہر گز نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلے جو بات آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی وہ یہ تھی : اے لوگو ! آپس میں سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، رات کو نماز پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے ۔(ترمذی:2485)*
 *❂_(9)_حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو شخص رات کو کثرت سے نماز پڑھتا ہے دن کو اس کا چہرہ حسین ہو تا ہے۔ (شعب الایمان :2447)*
.
*❂_ مندرجہ بالا فضائل کو ہر شخص حاصل کر سکتا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو تہجد کی نماز کا پابند بنایا جائے ، اور یہ معمول زندگی بھر اپنانے کا ہے ، بالخصوص مبارک راتوں میں تو اس عمل کو اور بھی زیادہ اہتمام سے کرنا چاہیے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دو کر کے آٹھ رکعت پڑھی جاۓ اور اس میں جو سورتیں بھی یاد ہوں ان کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی کوشش کی جاۓ۔*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
          *☞ _صلاة التشریح کا طریقہ,*
             ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉_اس کے دو طریقے منقول ہیں، کسی بھی طریقے کے مطابق یہ نماز پڑھا جاسکتی ہے۔*

*❂_پہلا طریقہ:- اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ جو حضرت عبد اللہ بن مبارک سے ترمذی شریف میں مذکور ہے یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء یعنی "سبحانك اللهم.." پڑھے, پھر کلمات تسبیح یعنی: "سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله و اللہ اکبر" . 15 مر تبہ پڑھے, پھر حسب دستور "آغوذ باللہ" و "بسم الله" و "الحمد شریف" اور سورۃ پڑھے, پھر قیام میں ہی سورۃ کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے وہی کلمات تسبیح 10 مرتبہ پڑھے، پھر رکوع کرے اور رکوع کی تشیع کے بعد وہی کلمات 10 بار کہے، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں "سمع اللہ لمن حمدہ" اور "ربنالک الحمد" کے بعد 10 بار اور دونوں سجدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیانی جلسے میں 10،10 بار وہی کلمات کہے، اس طرح ہر رکعت میں 75 مر تبہ اور چار رکعتوں میں 300 مر تبہ یہ کلمات تسبیح ہو جائیں گے*
*"_ اور اگر ان کلمات کے بعد "ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم “ بھی ملالے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے بہت ثواب ملتا ہے اور ایک روایت میں ان الفاظ کی زیادتی منقول بھی ہے۔*

 *❂_دوسرا طریقہ:- جو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ترمذی شریف میں منقول ہے، وہ یہ ہے کہ ثناء کے بعد اور الحمد شریف سے پہلے کسی رکعت میں ان کلمات تسبیح کو نہ پڑھے بلکہ ہر رکعت میں الحمد اور سورۃ پڑھنے کے بعد 15 مرتبہ پڑھے اور رکوع اور قومہ اور دونوں سجدوں اور جلسہ میں بالترتیب 10،10 مرتبہ پڑھے اور دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر یعنی جلسہ استراحت میں 10 مر تبہ پڑھے اس طرح ہر رکعت میں 75 مرتبہ پڑھے اور دونوں قعدوں میں التحیات سے پہلے پڑھ لے۔*

*❂.. یہ دونوں طریقے صحیح ہیں لیکن بعض فقہاء نے دوسرے طریقے کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ حدیث مرفوع سے ثابت ہے، بہتر یہ ہے کہ کبھی ایک روایت پر عمل کرے اور کبھی دوسری پر تاکہ دونوں پر عمل ہو جاۓ اس نماز کی چاروں رکعتوں میں کوئی سورت معین نہیں، لیکن کبھی کبھی استحباب کے لئے چاروں رکعتوں میں علی الترتیب التكاثر العصر ، الکافرون اور اخلاص پڑھا کرے اور کبھی اذا زلزلت اور و العادیات اور اذا جاء اور سورۃ اخلاص پڑھے۔*

*❂_ اگر تشیع کے کلمات بھول کر کسی جگہ 10 سے کم پڑھے جائیں یا بالکل نہ پڑھے جائیں تو اس کو دوسری جگہ یعنی تسبیح پڑھنے کے آگے والے موقع میں پڑھ لے تاکہ تعداد پوری ہو جائے لیکن رکوع میں بھولے ہوۓ کلمات تسبیح قومہ میں نہ پڑھے بلکہ دوسرے سجدے میں پڑھے کیونکہ قومہ اور جلسہ کا رکوع و سجدے سے طویل کرنا مکروہ ہے ۔ کلمات تسبیح کو انگلیوں پر شمار نہ کرنا چاہیے ، بلکہ اگر دل کے ساتھ شمار کر سکتا ہو اس طرح کہ نماز کی حضوری میں فرق نہ آۓ تو یہی بہتر ہے ورنہ انگلیاں دبا کر شمار کرے۔ (زبدۃ الفقہ :285)*
 *"_.صلاۃ التسبیح میں تسبیحات کو ہاتھوں سے شمار کرنا درست نہیں ۔ اور اگر یاد نہ رہتا ہو تو انگلیوں کو حرکت دیے بغیر محض دبا کر یادر کھا جاسکتا ہے ۔ (در مختار :28/2)*

▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
         *☞__مانع مغفرت امور سے توبہ ,*
             ┄─═✧═✧ ═✧═✧═─┄
*❉_ شب براءت بہت ہی بابرکت اور عظیم رات ہے جیسا کہ اس کی فضیلتیں قبل میں تفصیل سے گزر چکی ہیں ، لیکن کچھ ایسے بھی حرماں نصیب اور بد قسمت لوگ ہوتے ہیں جو اس رات کی برکات اور بالخصوص سب سے اہم چیز مغفرت خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں ، وہ کون لوگ ہیں ؟ کئی احادیث میں ان کی نشاندہی کی گئی ہے ، جن سے ان محروم ہونے والوں کے مغفرت سے محروم رہ جانے کے اسباب بھی معلوم ہوتے ہیں ، ایسے اسباب اور امور کو مانع مغفرت امور کہا جا تا ہے ، جن میں شامل ہونے سے ہر صورت میں بچا جائے اور اگر خدانخواستہ کوئی مبتلا ہوں تو فوراً توبہ کر کے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیے ورنہ اس عظیم اور بابرکت رات میں مغفرت حاصل نہ ہو سکے گی_,"*

*❂_(١) مشرک (شرک کرنے والا) ،*
*(٢)_ کینہ رکھنے والا،*
*(٣)_ والدین کی نافرمانی کرنے والا،*
*(٤)_ قطع رحمی کرنے والا،*
*(٥)_ ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا،*
*(٦)_ شراب کا عادی،*
*(٧)_ قاتل,*
*(٨)_ اور زانی_,* 
*"_اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی ان گناہوں سے حفاظت فرمائے، آمین _,"*

*❂_ دعا کیجئے اللہ تعالی مجھ گنہگار کو بھی، آپ کو بھی اور ہر مومن کو ان مغفرت والے اعمال کی پابندی نصیب فرمائے اور مبارک رات کی برکات و مغفرت نصیب فرمائے، آمین _", ( ایڈمن حق کا دائ )*

*_ 📝_ ماہ شعبان کے فضائل و اعمال _,"* 

https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
 *👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،*
╨─────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕                     
       *❥✍ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,* 
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments