Gharelu Jhagdo Se Nijaat - Padosiyo Ke Jhagde (Urdu)

🎍﷽ 🎍
              ┯━══◑━═━┉─◑━═━━══┯
*●• گھریلو جھگڑوں سے نجات •●*
*●•(پڑوسیوں کے جھگڑے)•●*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ دین اسلام میں کشادہ روئی کی تعلیم :-*

*★_ دین اسلام دین فطرت ہے۔ ہر انسان کو آپس میں پیار اور محبت سے زندگی گزارنے کا سبق سکھاتا ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اس بات کی تعلیم دی کہ ہماری جس بندے سے بھی ملاقات ہو ہم اس سے کشادہ روئی کے ساتھ ملیں اور اچھے انداز سے گفتگو کریں۔ اس میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں۔*

 *★_ دو انسان جب آپس میں ملتے ہیں تو انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپس میں انسانوں کی طرح ملیں۔ چنانچہ شریعت نے کہا:- ( وَلَا تُصَعِرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ ) لوگوں کے سامنے منہ نہ پھلاؤ! جب تم انسانوں سے ملو تو کشادہ چہرے کے ساتھ ملو۔ تیوریاں چڑھا کر ملنا، منہ بنا کر ملنا، شریعت نے اس کو پسند نہیں کیا۔

*★_ تو سب سے پہلے فرمایا کہ جب ایک دوسرے کو ملو گے تو ایک دوسرے کے چہرے سے تمہیں اندازہ ہوگا کہ تمہارے اندر خوشی ہے یا غصہ ہے، خیر ہے یا شر ہے؟ جب تم کھلے چہرے کے ساتھ ملو گے، کشادہ چہرے کے ساتھ ملو گے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملو گے تو دوسرا بندہ تمہارے قریب آنے کی کوشش کرے گا۔ تو مومن کو چاہیے کہ جب بھی کسی سے ملے تو کشادہ چہرے کے ساتھ ملے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ نبی علیہ سلام کی سنت مبارکہ :-*

*★_ نبی ﷺ کی عادت مبارکہ تھی، حضرت عائشہ صدیقہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں کہ نبی علیہ سلام جب بھی گھر میں تشریف لاتے تھے ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ آتے تھے۔ کچھ نوجوانوں کو دیکھا دفتر میں مجلس میں، دوستوں کے ساتھ خوب گپ شپ ہوتی ہے اور گھر آتے ہیں تو چہرے کے اوپر ایسی سنجیدگی ہوتی ہے کہ معلوم نہیں وہ کسی مصیبت کے اندر گرفتار ہو گئے ہیں ! یہ بھی خلاف سنت ہے،*

*★_ دو مسلمانوں کا ملنا تو بہت ہی بڑی بات ہے ، شریعت نے کہا کہ انسان ہونے کے ناتے کسی غیر مسلم سے بھی ملو تو کشادہ چہرے سے ملوہ مسکرا کر بات کرو۔ دوسری جگہ فرمایا کہ جب تمہیں گفتگو کرنی پڑے تو شیریں زبانی سے بات کرو، (وَ قُوْلُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ) لوگوں سے اچھے انداز سے گفتگو کرو،*

*★_ تمہارے منہ سے جو گفتگو نکلے اس میں محبت، ہمدردی، غمگساری ، شیریں کلامی ہونی چاہئے ۔ آپ دیکھئے کہ مومن اور غیر مومن کا اس میں کوئی فرق نہیں۔ شریعت نے للناس کا لفظ استعمال کیا یعنی انسانوں کیلئے ۔*

*★_ تو یہ دو باتیں کس قدر اہم ہیں اور اسلام کی حقانیت کی کتنی پیاری دلیل ہیں کہ جو ہر ایک کے ساتھ ، کھلے چہرے کے ساتھ شیریں زبانی کی گفتگو کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔*

*★_ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ (يَسَرُوا وَلَا تُعَبِّرُوا ) آسانیاں کرو مشکل نہ کرو لوگوں کے لئے، گویا تین باتیں معلوم ہو گئیں۔ ایک کشادہ رونی، دوسرا شیریں کلامی اور تیسرا سہولت و آسانی تو اس دین کی تعلیمات کس قدر خوبصورت ہیں،*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ زیادہ گرمجوشی سے ملنے کی فضیلت:-*

*★_ نبی ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ جب دو مسلمان بھائی آپس میں ملتے ہیں، تو اللہ رب العزت ان پر ستر رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ ان میں سے انہتر رحمتیں اسکو ملتی ہیں جو دونوں میں سے زیادہ پیار ، زیادہ محبت اور زیادہ گرمجوشی کے ساتھ ملتا ہے_,*

*★_ کیا خوبصورت بات کہی گئی ؟ آپ کی آتے جاتے در جنوں لوگوں کے ساتھ سلام علیکم ہوتی ہے تو اگر آپ کھلے چہرے سے سلام کریں، محبت ، پیار سے حال احوال پوچھیں اور ملنے میں گرمجوشی دکھائیں تو فرمایا کہ ستر رحمتیں نازل ہوں گی اور ان میں سے انہتر رحمتیں اس پر نازل ہوں گی جو زیادہ گرمجوشی سے ملے گا، جو زیادہ محبت کا اظہار کرے گا۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ دو بھائی دو ہاتھوں کی مانند ہیں :-*

*★_ ایک حدیث پاک میں ہے کہ دو بھائیوں کی مثال دو ہاتھوں کی سی ہے۔ جس طرح دونوں ہاتھ ایک دوسرے کو دھوتے ہیں اسی طرح جب دو مسلمان بھائی آپس میں ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے گناہوں کے جھڑنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا خوبصورت تعلیم دی گئی! اس کا مطلب یہ ہوا جب بھی دو مسلمان بھائی آپس میں ملتے ہیں تو ان دونوں کا ملنا اس طرح ہے۔ جس طرح دو ہاتھ ایک دوسرے کو دھونے کا سبب بنتے ہیں، ان کے ملنے سے ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔*

*★_ اللہ رب العزت کو محبت پیار سے ملنا اگر اتنا پسند ہے تو محبت پیار کے ساتھ رہنا سہنا کتنا پسند ہوگا ! چنانچہ نبی ﷺ ایک مرتبہ سفر پر تشریف لے گئے ایک صحابی بھی ساتھ تھے، راستے میں مسواک بنانے کی ضرورت پیش آئی ، نبی ﷺ نے دو مسواکیں بنائیں ان میں سے جو زیادہ سیدھی تھی اور خوبصورت تھی وہ آپ ﷺ نے صحابی کو دی، تو وہ صحابی کہنے لگے: اے اللہ رب العزت کے پیارے حبیب ! میرا جی چاہتا ہے، یہ سیدھی اور خوبصورت مسواک آپ کے پاس ہو ۔ نبی ﷺ نے مسکرا کر جواب دیا کہ جس طرح تمہارا یہ جی چاہتا ہے کہ یہ میرے پاس ہو، تم میرے رفیق سفر ہو، میرا بھی جی چاہتا ہے کہ یہ تمہارے پاس ہو_,*

*★_ چنانچہ محبت پیار سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا, ایک دوسرے کا اکرام کرنا، عزت کرنا یہ دین کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ساتھ رہنے کا مزا:-*

*★_ ہمارے بزرگ اس طرح رہتے تھے کہ دوسروں کو ان کے ساتھ رہنے کا مزا آ جاتا تھا۔چنانچہ ایک صاحب کہتے ہیں کہ مجھے عبد الله رازی رحمۃ اللہ کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا، سفر شروع ہونے سے پہلے انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ ! ہم میں سے امیر کون ہے؟ میں نے عبد الله رازی رحمۃ اللہ سے کہا : جی آپ سب کے امیر سفر ہیں۔ انہوں نے کہا: بہت اچھا! اب اگر میں امیر بن گیا تو تمہیں پورے سفر میں میری بات کو ماننا ہوگا۔ میں نے کہا، حاضر ہوں _,*

*★_چنانچہ انہوں نے اپنے اور میرے سامان کو باندھا اور اپنے سر پر رکھ لیا۔ میں نے کہا: جی مجھے اٹھانے دیں، کہنے لگے کہ آپ مجھے امیر مان چکے ہیں اب جو میں کر رہا ہوں مجھے کرنے دیں ۔ میں بڑا حیران، چنانچہ دونوں کا سامان انہوں نے خود اٹھایا، چلے، راستے میں جب کھانے کا وقت آتا تو وہ کھانا میرے سامنے رکھتے اور مجھے حکماً زیادہ کھلا تے، حتیٰ کہ ایک جگہ بارش ہو گئی تو وہ اپنی چادر لے کر ایک گھنٹہ میرے اوپر سایہ کئے رہے تاکہ میں بارش سے بچار ہوں اور آرام کی نیند سویا ر ہوں۔ میں نے کہا کہ جی مجھے آپ کی خدمت کرنی چاہیے ۔ جب میں بات کرتا تو وہ کہتے : دیکھو! آپ مجھے امیر مان چکے ہیں ۔ لہٰذا اب جو میں کہوں گا وہ آپ کو کرنا ہوگا۔*

*★_ تو کہنے لگے کہ میں افسوس ہی کرتا رہا کہ کاش میں نے انہیں امیر نہ بنایا ہوتا ! میں تو ان کی خدمت ہی نہ کر سکا، ساری خدمت انہوں نے اپنے ہی ذمے لے لی ۔ اب ایسے رفیق سفر کہاں ملتے ہیں؟ شریعت نے اس قدر خوبصورت انداز سے مل جل کر رہنے کی تعلیمات دی کہ اگر بندہ شریعت کے مطابق رہے تو اسکو زندگی گزارنے کا مزہ آجائے ۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ تعلیمات شریعت :-*

*★_ چنانچہ جب ایک دوسرے کے ساتھ رہیں تو شریعت کہتی ہے کہ ایک دوسرے سے جھوٹ نہ بولیں، خیانت نہ کریں، غیبت نہ کریں، ایک دوسرے کے راز فاش نہ کریں۔ بلکہ ہمارے اسلاف فرمایا کرتے تھے کہ دوستی کے قابل وہ شخص ہوتا ہے کہ جس کو تیرے کسی عیب کا پورا پتہ ہو اور پھر وہ تیرے عیب کو چھپائے، بلکہ ان کے الفاظ یہ تھے جو تیرے عیب کو اس طرح جانے جس طرح اللہ رب العزت تیرے عیب کو جانتے ہیں اور پھر وہ تیرے عیب کو اس طرح چھپائے جس طرح اللہ رب العزت تیرے عیب کو چھپاتے ہیں، اللہ اکبر کبیرا۔*

*★_ یہ بات پڑھ کر حیران ہو جاتے ہیں ۔( تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ) اللہ رب العزت کے اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کرو۔ اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو اسلاف کی زندگیوں کو دیکھنا چاہئے، چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص چار حالات میں بدل جائے، چار صورت حال میں جو بدل جائے وہ نا قابل بھروسہ ہوتا ہے : خوشی ملے اور وہ اپنے ساتھیوں کو بھول جائے۔ غصہ میں اپنے تعلق کو بھول جائے۔ کسی چیز کی طمع ہو اور اپنے تعلق کو بھول جائے۔ خواہش نفسانی کی خاطر تعلق کا خیال نہ رکھے، تو فرمایا کہ ایسا آدمی نا قابل بھروسہ ہوتا ہے، دوستی کے قابل نہیں ہوتا۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ جو اپنے لیے پسند وہی دوسروں کے لیے :-*

*★_ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ایک جگہ گئے تو دو بیل جو ہل میں استعمال ہوتے تھے اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ جیسے ہی قریب سے گزرے تو ایک بیل اٹھا اور ساتھ ہی دوسرا بھی اٹھ گیا، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں سے آنسو آگئے، فرمانے لگے دیکھو! یہ جانور ہیں، ہیل ہیں، ایک اٹھا ہے تو دوسرا اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر یہ اپنے ساتھ کو اس طرح نبھا سکتے ہیں تو کیا انسان ایک دوسرے کے ساتھ کو اس طرح نہیں نبھا سکتے ؟ انہی جانوروں کو دیکھ کر بھی وہ سبق حاصل کرتے تھے۔*

*★_ چنانچہ دین اسلام نے ایک بہت ہی پیاری تعلیم دی، یہ کہا کہ جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی تم دوسرے کے لئے پسند کرو۔ یہ زندگی گزارنے کا اس قدر خوبصورت اصول ہے کہ پوری دنیا میں آپ چلے جائیں آپ کو اس سے زیادہ حسین اور خوبصورت اصول اور کوئی نہیں مل سکتا۔*

*★_ اب انسان چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کی عزت کرے، انسان چاہتا ہے کہ دوسرے اس کی غلطیوں کو معاف کر دیں تو وہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرے، انسان چاہتا ہے کہ اس کے گھر کی عزت کی لوگ حفاظت کریں تو اسے چاہیے کہ دوسروں کی عزت کی حفاظت کرے۔ یہ کتنا پیارا اصول ہے کہ جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی چیز تم دوسروں کے لئے پسند کرو۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ بھلائی ہر ایک کے لیے :-*

*★_ چنانچہ شریعت نے کہا کہ انسان کو چاہیے کہ ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرے اگر چہ نیک ہو یا بد ہو یعنی نیک کے ساتھ بھی بھلائی کرے اور برے کے ساتھ بھی بھلائی کرے۔ برے کے ساتھ بھلائی کیا ہوگی کہ پیار محبت کے ساتھ اسکو برائی سے روک لے، ایسی محبت دے کہ دوسرا برائی سے باز آجائے ۔*

*★_ کسی نے کہا کہ نیک تو بھلائی کے قابل ہوتا ہے بد تو بھلائی کے قابل نہیں ہوتا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر چہ وہ اس قابل نہیں ہوتا مگر تم تو اس قابل ہو کہ تم دوسرے کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو۔ تو اپنے کو دیکھو اسلئے کہ اللہ رب العزت نیک اور بد ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اور ہمیں اللہ رب العزت کے خلق کو اپنے اندر لینا ہے۔*

*★_ ہمارے حضرت مرشد عالم حرم شریف میں بیٹھے تھے تو وہاں بعض دفعہ مانگنے والے بھی آجاتے ہیں ۔ ان مانگنے والوں میں بڑے صحت مند نو جوان بھی نظر آ جاتے ہیں، تو ایک شخص حضرت کی خدمت میں عرض کرنے لگا کہ حضرت ! بہت مانگنے والے یہاں آتے ہیں ۔ ہمیں کیا پتہ کہ کون مستحق ہے یا مستحق نہیں، تو ہم کیا کریں ؟*

*★_ حضرت مرشد عالم نے اسکی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا کہ اچھا تم یہ بتاؤ کہ اللہ رب العزت جو کچھ تمہیں دے رہا ہے اس کے تم مستحق ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ تو فرمایا کہ جب تمہیں مستحق ہونے کے بغیر بھی سب کچھ دے رہا ہے تو تم بھی اللہ کے بندوں کو دو۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ جو زیادہ مستحق نظر آئے اسکو زیادہ دے دو جو کم نظر آئے اس کو ذرا کم دے دو، دیا ضرور کرو!*

*★_ اور پھر ایک عجیب بات سمجھائی، فرمایا کہ اس نیت سے دیا کرو کہ اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے لینے والوں میں سے نہیں، دینے والوں میں سے بنایا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کیا کرو! دیکھیں اللہ والے کیسے اچھی اور پیاری باتیں دوسرے بندے کے دل میں اتار دیتے ہیں۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ صفت ستاری پیدا کرنے کی ضرورت:-*

*★_ چنانچہ مل جل کر رہنا ہو تو انسان ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے رہے اور اگر کسی کے عیب نظر آئیں تو انکی پردہ پوشی کرے۔ اصول یاد رکھیں ! کسی کے پوشیدہ عیبوں کو ہمیشہ پوشیدہ رکھنا چاہیے ۔ ستر پوشی، عیبوں کو چھپا لینا اللہ رب العزت کی صفت ہے اور بندے کو بھی یہ صفت اپنے اندر رکھنی چاہئے۔ اور اگر ہم غور کریں تو ہم تو جی ہی اس صفت کے صدقے رہے ہیں،*

*★_ سچی بات ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں: اے دوست! جس نے تیری تعریف کی اس نے در حقیقت تیرے پروردگار کی صفت ستاری کی تعریف کی ۔وہ تیری تعریف نہیں کر رہا۔ تیری حقیقت تو ایسی ہے اگر کھل جائے تو لوگ تجھے منہ نہ لگا ئیں، تیری طرف دیکھنا گوارا نہ کریں۔ تو ہم تو اللہ رب العزت کی صفت ستاری کے صدقے ہی جی رہے ہیں۔ اگر اللہ رب العزت ہمارے اندر کا ہر پول کھول دیں تو ہم تو پوری دنیا میں ذلیل ہو جائیں۔*

*★_ حدیث پاک میں آتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک بندے کو کھڑا فرمائیں گے اور اس کے گرد اپنی رحمتوں کی چادر کو تان لیں گے پردہ کر لیں گے مخلوق سے وہ بندہ چھپ جائے گا، اب اس بندے کو کہیں گے اے میرے بندے ! تو نے فلاں دن یہ کیا، فلاں دن یہ کیا، وہ کہے گا جی ! اس کے بڑے بڑے سب گناہ اس کو گنوائیں گے۔ حتیٰ کہ اس بندے کو یقین ہو جائے گا کہ آج میں جہنم کی آگ سے بالکل نہیں بیچ سکتا۔ جب اس کے دل میں پکا یقین ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : گناہ تو تو کرتا تھا لیکن ہم سے ڈرتا بھی تھا، گناہوں پر چھپ چھپ کر روتا بھی تھا ۔ ہم نے دنیا میں بھی تیرے عیبوں کی پردہ پوشی کی، ہم یہاں بھی تیرے عیبوں کی پردہ پوشی فرماتے ہیں۔ جاؤ! اس چھپ چھپ کر رونے کی وجہ سے ہم نے تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔*

*★_ جب رحمت کا پردہ ہٹے گا تو مخلوق دیکھے گی کہ اس بندے کے نامہ اعمال میں ایک بھی گناہ درج نہیں۔ لوگ سوچیں گے کہ شاید انبیاء میں سے یہ کوئی نبی ہیں کہ جس نے کبھی گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کیا۔ اللہ اکبر کبیرا اے مولا ! آپ کتنے ستار ہیں؟ کسی قدر مہربان ہیں ؟ عیبوں کو دیکھنے کے باوجود آپ بندے کے اوپر ستاری کا معاملہ فرماتے ہیں۔*

*★_ ہمیں بھی اسی طرح کرنا چاہیے پڑوسی چونکہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے کے عیبوں کا جلدی پتہ چلتا ہے تو شریعت نے کہا کہ چھپتے عیبوں کو چھپائیں ، ہاں کوئی اعلانیہ عیب کرے، کھلم کھلا کرے تو اب تو اس نے اپنے عیب کو خود ہی ظاہر کر دیا۔ تو چھپے عیبوں کو ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ اللہ رب العزت کے خلق میں سے ہے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨رسوا کرو گے رسوا ہو گے:-*

*★_ ایک اور بات یہ کہ جو بندہ دوسروں کے عیبوں کو کھولنے کا عادی ہو، دل کے کانوں سے سینے ! فرمایا کہ جو بندہ دوسروں کے عیبوں کو کھولنے کا عادی ہو یہ بندہ اپنی زندگی میں دیکھے گا کہ اللہ رب العزت اس کے عیبوں کو کھول کر اس کو رسوا کریں گے، چاہے اسے گھر والوں کے سامنے ہی رسوا کریں، یہ دوسروں کو رسوا کرتا ہے اللہ تعالی اس کو رسوا کریں گے۔*

*★_ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت مبارکہ تھی، رات کو آپ چکر لگاتے تھے، دیکھتے تھے کہ رعایا کس حال میں ہے۔ امیر المؤمنین تھے، ذمہ داری بھی بنتی تھی ۔ چنانچہ آپ ایک مکان کے قریب سے گزرے اس میں کچھ روشنی نظر آئی، کچھ باتوں کی آواز سنائی دی۔ آپ کو محسوس ہوا یہاں کہیں ضرور کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہے۔آپ کھڑے ہو کر دیکھتے سوچتے رہے۔ پھر اندر سے کبھی قہقہوں کی آواز آتی۔ کبھی کسی مرد اور عورت کی آواز آتی حتیٰ کہ آپ کی بصیرت نے یہ کہا کہ اندر کوئی گناہ ہو رہا ہے، دروازہ بند تھا۔*

*★_ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ حمیت اسلامی دل میں بہت تھی۔ چنانچہ انہوں نے کیا کیا کہ دیوار کے اوپر چڑھ گئے ۔ جب دیوار کے اوپر چڑھ کر انہوں نے گھر کے اندر جھانک کر دیکھا تو ایک مرد تھا اور ایک عورت تھی ۔ وہ عورت اس کی بیوی نہیں تھی بلکہ اس عورت کو اس نے گناہ کے لئے رات کو اپنے پاس بلایا تھا۔ عمر فاروق نے جب اس کو دیکھا تو اس کو دور سے کہا کہ او زنا کرنے والے ! اللہ سے خوف کر، اللہ سے ڈر،*

*★_ جب آپ نے اس کو یہ کہا تو اس نے آگے سے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین ! میں نے ایک گناہ کیا آپ نے تین گناہ کئے, پوچھا کہ وہ کیسے؟ اس نے کہا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا کہ وَلَا تَجَسَّسُوا کہ تم تجسس نہ کرو ۔ آپ نے تجسس کیا اور میرے بند گھر کے اندر مجھے دیکھا۔ دوسری بات کہ قرآن مجید نے کہا کہ وَاتُو البيوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا کہ تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو اور آپ دروازے کی بجائے دیوار پر چڑھ کر دیکھ رہے ہیں۔ قرآن مجید نے کہا کہ لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَانِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا کہ تم بغیر اجازت کے داخل نہ ہو اور اہلِ خانہ کو سلام کر کے گھر میں داخل ہو اور آپ نے اس کے بغیر اس کے مجھ سے گفتگو کی۔*

*★_ جب اس نے یہ کہا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ ہوا کہ اس نے جو یہ تین باتیں کی ہیں، ہیں تو یہ سچی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اگر تو سچی توبہ کا وعدہ کرے تو میں اس گناہ کو معاف کرنے کا وعدہ کرتا ہوں ۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی کہ میں آج کے بعد اس گناہ کا مرتکب نہیں ہوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا تم میری غلطی کو معاف کردو اور یہ کہہ کر پھر آپ وہاں سے آگے تشریف لے گئے،*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ پڑوسی کے تین درجے:-*

*★_ شریعت نے کہا کہ پڑوسی کے تین درجے ہوتے ہیں۔*
*(1) ایک درجہ تو یہ کہ پڑوسی غیر مسلم ہو۔ یہ بھی اچھے اخلاق اور حسن سلوک کا مستحق ہے، اس لئے کہ پڑوسی جو ہوا ۔*

*★_(۲) دوسرا درجہ یہ کہ پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی ہو۔ اب اس میں دو حق آ گئے ، پڑوسی ہونے کا بھی حق اور مسلمان ہونے کا بھی حق ۔*
*(۳) ایک تیسرا درجہ کہ پڑوسی بھی ہے۔ مسلمان بھی ہے اور رشتہ دار بھی ہے، قرابت دار بھی ہے، فرمایا کہ اس کا حق تین گنا ہو گیا ۔*

 *★_سوچیے کہ جب شریعت غیر پڑوسی کا بھی حق قائم کرتی ہے تو اگر قرابت دار، رشتہ دار ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں گے تو ان کا ایک دوسرے پر کتنا حق ہوگا !*

*★_نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی کو کہا کہ تم مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اعلان کرو کہ جہاں بندے کا گھر ہوتا ہے اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف چالیس گھروں تک جتنے گھر ہوتے ہیں وہ اس کے پڑوی ہوتے ہیں۔ تو پڑوسی صرف وہی نہیں ہوتا کہ جس کی دیوار اس سے اکٹھی ہو، نہیں ! نبی ﷺ نے فرمایا کہ پڑوس چالیس مکانوں تک ہوتا ہے اور چاروں اطراف میں چالیس مکان، یہ تو پورا محلہ بن جاتا ہے۔ تو یوں سمجھیے کہ شریعت کی نظر میں پورے محلہ کے لوگ پڑوس کے حکم میں ہوتے ہیں۔*

*★_چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس اتنی دفعہ پڑوسی کے حکم کی تاکید کے لئے آئے کہ مجھے یہ ڈر ہونے لگا کہ کہیں بندے کے مرنے کے بعد پڑوسی کو اس کی وراثت میں نہ شامل کر لیا جائے، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پڑوسی کا کتنا حق ہوگا۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨پڑوسی کے حقوق -*

*★_ چنانچہ پڑوسی کا حق ہے کہ انسان انہیں اچھے نام سے پکارے، سلام میں پہل کرے ملیں تو انہیں بٹھانے میں پہل کرے، ہدیہ بھیجنے میں پہل کرے، اپنے گھر کے دھویں سے، کوڑا کرکٹ سے اسے پریشان نہ کرے، حتیٰ کہ اگر پھل خرید کر لائے تو یا تو پڑوسی کو ہدیہ دے ورنہ اس طرح چھپا کر کھائے کہ پڑوسی کے بچوں کو پتہ نہ چلے، ایسا نہ ہو ان کا دل ٹوٹے کہ ہمیں ہمارے والدین نے پھل کیوں نہ لا کر دیئے۔*

*★_ فرمایا کہ تم اپنی دیوار کو اتنا بلند نہ کرو کہ ہمسائے کی دھوپ رکے یا اس کی ہوا رک جائے، اس کے بیٹے یا اس کے غلام سے گفتگو کرنی ہو تو شفقت کی گفتگو کرو۔ ضرورت کے وقت وہ قرض مانگے اور تم دینے کی پوزیشن میں ہو تو پڑوسی کو انکار نہ کرو۔ اپنے پڑوسی کی غیبت نہ کرو۔ اس کی مدد کرو۔ یعنی پڑوسی کی عدم موجودگی میں اگر کبھی اس کا تذکرہ چھڑے تو تم اس کی سائیڈ لو اور اس کی حمایت کیا کرو۔ وہ تمہارا پڑوسی ہے۔*

*★_ زندگی میں بھی اس کے لئے دعا مانگو اور اس کی وفات کے بعد بھی اس کے لئے دعا مانگتے رہو۔ پڑوسی کے دشمن کے ساتھ تم کبھی اپنی دوستی مت کرو، سبحان اللہ ! کیا عجیب بات ہے، فرمایا کہ دیکھو! جو تمہارا پڑوسی ہے یہ تو تمہارا قریبی ہو گیا اب اگر اس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہے تو تم اسکے ساتھ دوستی کے تعلقات مت جوڑو، اس سے تمہارے پڑوی کو ایذاء پہنچے گی۔*

*★_پڑوسی کی جان، مال، عزت آبرو کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے۔ زنا کا گناہ ہوتا ہے لیکن شریعت نے کہا کہ جو پڑوسی کی عورت سے زنا کرے اس کے گناہ سے کئی گنا اس بندے کو سزا زیادہ ہوتی ہے، فرمایا کہ تم اس کے گھر میں نہ جھانکو، بات کرنے کا موقع ہو تو دروازہ کھٹکھٹا کر ایک طرف کو ہٹ جاؤ ایسا نہ ہو کہ دروازہ کھلے تو بے پردگی کا احتمال ہو۔*

*★_پڑوسی کو خوف زدہ نہ کرو! ایسا کام نہ کرو کہ جس سے تمہارا پڑوسی خوفزدہ رہے، کئی لوگ ہوتے ہیں کہ ارد گرد کے لوگوں کو دبا کر رکھتے ہیں۔ شریعت نے کہا: ایسا کوئی کام نہ کرو کہ تمہارے پڑوسی تم سے خوفزدہ رہیں۔ اس سے تین دن سے زیادہ ناراضگی کی حالت میں بھی کلام بند نہ کرو۔ اس سے قطع تعلقی نہیں کر سکتے اس لئے کہ ناراض ہوں گے تو صاف ظاہر ہے کہ غیبت کریں گے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ عزیز رشتہ داروں سے بھی زیادہ حق پڑوسی کا ہے:-*

*★_ شریعت نے کہا کہ عزیز رشتہ داروں سے بھی زیادہ حق پڑوسی کا ہے اس لئے کہ وہ قریب ہوتا ہے۔ اور واقعی وقت بے وقت پڑوسی ہی کام آتے ہیں۔ دکھ سکھ میں بھی وہی شریک ہوتے ہیں۔*

*★_جسے پڑوسی اچھا کہیں، اللہ کی نظر میں وہ اچھا ہے, چنانچہ نبی ﷺ نے ایک عجیب بات فرمائی ۔ فرمایا کہ اگر پڑوسی تجھے اچھا کہتے ہیں تو اللہ کی نظر میں بھی اچھا ہے اور اگر پڑوسی تجھے برا کہتے ہیں تو اللہ رب العزت کی نظر میں بھی تو برا ہے۔*

*★_ عورتیں عام طور پر نازک ذہن کی ہوتی ہیں بعض دفعہ ایک بات کا الٹا مطلب لے لیتی ہیں، الٹا اثر لے لیتی ہیں، یہیں سے جھگڑوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ لہذا جتنے قریب کے پڑوسی ہوتے ہیں اتنے ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ حسن معاشرت یہ ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھے تا کہ ان کی زبان سے تعریف نکلے اور آپ یہ سمجھ کر رہیں کہ اگر پڑوسی کی زبان سے تعریف نکل آئی تو یوں سمجھیں کہ اللہ رب العزت کے دفتر میں ہماری تعریف لکھ دی گئی۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ پڑوسی کو استعمال کی چیز سے انکار نہ کریں:-*

*★_ روزمرّہ کی استعمال کی چیزیں اگر پڑوسی مانگیں تو انکار نہ کریں۔ اگر آپ پڑوسی سے کوئی چیز مانگیں تو اسے بے احتیاطی سے استعمال نہ کریں۔ جھگڑے یہیں سے شروع ہوتے ہیں کہ چیز مانگی، استعمال کرنے میں بے احتیاطی کر لی، استعمال کرنے کے بعد بھی پڑی رہی، لوٹانا ہی بھول گئی، احسان فراموش نہ بنیں،*

*"_ پڑوسیوں سے حسد سے بچیں :- پڑوسیوں کے ساتھ حسد سے بھی بچیں۔ اس کے بیٹے کو نوکری مل گئی، اس کی بیٹی کو اچھا رشتہ مل گیا، ان چیزوں سے حسد آتا ہے۔ اگر اللہ نے اس کے ساتھ اچھا کیا تو آپ بھی خوش ہوں کہ اللہ انہیں اور زیادہ عزتیں دے ۔ مال پیسے پر نظریں نہ رکھیں ۔اللہ کے نزدیک عزت والا وہ جو زیادہ متقی ہے،*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨سہیلی بھی پڑوسن کے حکم میں ہے۔*

*★_ شریعت نے کہا کہ سہیلی بھی پڑوسن کے حکم میں ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ عورتوں میں آپس میں پیار محبت ہو جاتی ہے۔ دونوں کلاس فیلوز تھیں، شادی کے بعد بھی ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت رہا یا کہیں ملاقات ہوئی طبیعتیں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئیں تو ایسی عورتیں ایک دوسرے کو سہیلی کہتی ہیں۔ شریعت نے کہا کہ سہیلی کے حقوق بھی پڑوسن کے حکم میں۔*

*★_مگر یہاں ایک بات ذرا توجہ طلب بھی ہے کہ عورتوں کی آپس کی دوستی بڑی عجیب ہوتی ہے، کبھی ایک دوسرے کے ساتھ اتنی دوستی کہ ہائے میں قربان اور کبھی چھوٹی سی بات پر ایک دوسرے کی دشمن نمبر ایک, کبھی تو اتنی محبت کہ ایک جیسے کپڑے پہن رہی ہیں کہ جیسے کپڑے یہ پہنے گی ویسے کپڑے میں بنواؤں گی اور کبھی چھوٹی سی بات پر ایک دوسرے سے ویر پڑ جاتا ہے, اس کو افراط و تفریط کہتے ہیں۔*

*★_ لہذا ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ کسی کو سہیلی بنانا ہی نہیں چاہئے، اگر کوئی عورت سہیلی بنانا چاہے چاہے چا ہے تو اپنی بہنوں کو بنائے، اپنی ماں کو بنائے، کتنی اچھی سہیلی ! جو ہر وقت آپ کے گھر میں موجود ہو گی، ہر وقت آپ کے ساتھ ہوگی۔ گھر کی چار دیواری سے باہر کسی سے کیا دل لگانا، پریشانی ہوتی ہے۔ تو آسان طریقہ یہ کہ اپنی بہنوں کو اپنی سہیلی بناؤ یا اپنی والدہ کو اپنی سہیلی بناؤ۔

     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ بچوں کے جھگڑے میں حصہ دار نہ بنیں :-*

*★_ ہمسائے سے جھگڑے کا ایک بڑا سبب عام طور پر بچے بن جاتے ہیں وہ آپس میں مل کر کھیلتے ہیں، جھگڑتے ہیں اور ان کا جھگڑا پھر بڑوں میں آجاتا ہے، (اس پر الحمد للہ ایک مستقل پوسٹ پہلے ہو چکی ہے) اور اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بچوں کی لڑائی میں بڑوں کو حصہ دار نہیں بننا چاہیے۔*

*★_ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ہمارا اپنا عمل دوسرے کے رد عمل کو متعین کرتا ہے۔ ہم محبت کا ہاتھ بڑھا ئیں گے تو دوسرا بھی محبت کا ہاتھ بڑھائے گا، ہم اگر کھنچے رہیں گے تو دوسرا بھی کھنچا رہے گا۔ جو ہم کریں گے اسی کا رد عمل آگے سے ظاہر ہو گا۔ تو ہمیں چاہئے کہ ہم پڑوسیوں کے ساتھ محبت کا تعلق رکھیں کیونکہ اللہ رب العزت نے ہمیں اس کا حکم دیا ۔*

*★_ سنئے اور دل کے کانوں سے سینے! چونکہ اللہ رب العزت کے پیارے حبیب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْ مِنْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ (جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے)*

*★_ اب سوچنے کہ اتنے واضح لفظوں میں ایک بات کہی گئی کہ اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اللہ کی ملاقات پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ عزت کا معاملہ کرو۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ پڑوسی سے حسن سلوک کی تعلیم :-*

*★_ ایک بندہ قیامت کے روز اللہ رب العزت کے حضور پیش ہوگا۔ اللہ رب العزت فرمائیں گے، میرے بندے میں بھوکا تھا تونے مجھے کھانا ہی نہ کھلایا، میں پیاسا تھا تونے مجھے پانی ہی نہ پلایا ، میں بیمار تھا تونے میری طبیعت ہی نہ پوچھی، وہ بندہ بڑا حیران ہوگا، کہے گا: اے رب کریم ! آپ ان چیزوں سے منزہ اور مبرہ ہیں، آپ کو بھوک پیاس اور بیماری کا کیا معنی؟*

*★_ پھر اللہ تعالی فرمائیں گے کہ دیکھو کہ فلاں موقع پر تمہارا پڑوسی بھوکا تھا، اگر تم نے اسے کھانا کھلایا ہوتا تو ایسے ہی ہوتا کہ گویا تم نے مجھے کھانا کھلایا, تم اسے پانی پلاتے ایسے ہی ہوتا جیسے تم نے مجھے پانی پلایا اور اگر تم اس کی طبع پرسی، عیادت کرتے ایسے ہی ہوتا جیسے تم نے میری عیادت کی۔*

*★_ اب ذرا سوچئے کہ اللہ رب العزت اگر یوں فرمائیں گے کہ پڑوسی کی عیادت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اللہ رب العزت کی عیادت کرنا اور کن الفاظ میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی جائے، مجھے تو لگتا ہے کہ اس کے بعد الفاظ ہی ختم ہو جاتے ہیں، اللہ اکبر كبيرا،* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨سات گھروں کا چکر :-*

*★_ ہمارے اکا بر پڑوسی کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کرتے تھے کہ دور صحابہ کی بات ہے کہ ایک گھر میں بکری کا گوشت بنایا گیا۔ انہوں نے سوچا کہ اس بکری کی جو سری ہے وہ ہم ہمسائے کے گھر بھیج دیتے ہیں، وہ پکا کر کھا لیں گے۔ انہوں نے وہ سری ہمسائے کے گھر میں بھیج دی۔ ہمسائے کی عورت نے سوچا کہ ہمارے گھر میں تو سبزی ہے ہم پکا ہی لیں گے، پتہ نہیں ہمارے فلاں پڑوسی کے گھر میں کچھ ہے یا نہیں یہ سری ان کے گھر میں بھیج دیتی ہوں، اس نے وہ سری ان کے گھر میں بھیج دی۔*

*★_ جب تیسری پڑوسن کے گھر میں پہنچی تو اس نے سوچا کہ میرے گھر میں تو دال ہے، پکا ہی لوں گی چلو میں یہ اپنی فلاں پڑوسن کے گھر میں بھیج دیتی ہوں، اس نے آگے چوتھے گھر میں بھیج دی۔ چوتھی نے بھی یہی سوچا، پہلے سے سالن موجود ہے فلاں کے گھر بھیج دیتی ہوں اس نے آگے پانچویں کے گھر بھیج دی، پانچویں نے بھی یہی سوچا کہ میں اپنی فلاں پڑوسن کے گھر میں بھیج دیتی ہوں، اس نے بھی آگے بھیج دی، تو اس طرح وہ سری لوٹ کر اس گھر میں آئی جہاں سے وہ چلی تھی۔*

*★_ چھ گھروں میں سے ہو کر وہ بالآخر اسی گھر میں واپس آتی ہے, اتنا ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیار کا تعلق ہوتا تھا۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙●• - عورت گھوڑے اور گھر میں برکت :-*

*★_ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت، گھوڑے اور گھر کے اندر ایک برکت ہوتی ہے۔ صحابی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ وہ کیا برکت ہے؟ فرمایا کہ عورت کی برکت تو یہ ہے کہ اس کا مہر کم ہو، شادی کرنا اس سے آسان ہو، اس کے اندر نیکی دینداری ہو، یہ عورت کے اندر برکت ہوتی ہے۔*

*★_ گھوڑے کے اندر برکت یہ ہے کہ وہ سوار کو آسانی سے سواری کرنے دے، اسے لات وغیرہ نہ مارے۔*
*"_ اور گھر کی برکت یہ ہے کہ گھر کھلا ہو اور گھر کے پڑوسی نیک اور اچھے ہوں۔ یہ گھر کے اندر برکت ہوتی ہے۔*

*★_ لہذا ہمارے اکابر جب گھر خرید نے یا بنانے لگتے تھے تو پڑوس کو پہلے دیکھا کرتے تھے۔ الْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ [ پہلے پڑوس بعد میں گھر ]، اس لئے اکثر احباب مسجد کے قریب گھر بناتے تھے کہ اللہ رب العزت سے بہتر پڑوسی اور کون ہو سکتا ہے۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨ پڑوس کی قیمت:-*

*★_ عبد اللہ ابن مبارک ایک بزرگ تھے ۔ ان کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا ۔ یہودی نے کہیں اور جانا تھا، سوچا کہ میں اپنا مکان بیچ دیتا ہوں، ایک مسلمان اس کا مکان خریدنے کے لئے پہنچا۔ اس نے کہا کہ جی مکان کی کیا قیمت مانگتے ہیں؟ اس نے کہا کہ دو ہزار دینار ۔ وہ خریدار بڑا حیران ہوا کہ اتنی زیادہ قیمت، کہنے لگا کہ اس علاقے میں مکان ایک ہزار دینار میں آرام سے مل جاتے ہیں؟ یہودی نے جواب دیا کہ ایک ہزار دینار تو مکان کی قیمت ہے اور دوسرا ہزار دینار عبداللہ ابن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے۔*

*★_ سوچیں کہ ایک وقت ایسا تھا کہ ہم کتنے اچھے حسن سلوک سے زندگی گزارتے تھے کہ ہمارے پڑوس کے مکانوں کی قیمتیں بڑھ جایا کرتی تھیں، کاش ! اللہ رب العزت ہمیں ایسا ہی پڑوسی بنا دے۔* 
     ╥────────────────────❥
*⊙⇨پڑوسی کو ایذاء پہنچانے کا عذاب :-*

*★_ اور اگر ہم پڑوسی کو ایذاء دیتے ہیں، تکلیف دیتے ہیں، اس کے حقوق پورے نہیں کرتے تو یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ اللہ کی طرف سے اس پر عذاب بھی ہے۔ چنانچہ شریعت نے کہا کہ جو شخص پڑوسی کا دل دکھاتا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن جہنم میں ڈالیں گے اور اس کو خارش کی بیماری میں مبتلا کر دیں گے اور وہ خارش کی بیماری ایسی ہوگی کہ یہ اپنے ناخنوں سے اپنے گوشت کو کھجانا شروع کرے گا اتنا کھجائے گا کہ گوشت کٹ کر اس میں سے ہڈیاں نظر آنے لگ جائیں گی،*

*★_ اتنا کھجائے گا اتنی خارش ہوگی۔ پھر جسم ٹھیک کر دیا جائے گا پھر خارش محسوس ہو گی اور یہ اپنے جسم کو پھر کھجائے گا حتیٰ کہ گوشت کٹ کر پھر ہڈیاں نظر آنے لگ جائیں گی۔ فرشتے پوچھیں گے : اس کو یہ عذاب کیوں ملا ؟ بتایا جائے گا کہ یہ پڑوسی کا دل دکھاتا رہتا تھا، اس کے بدلے اللہ رب العزت نے اس کو جہنم میں یہ عذاب دیا۔*

*★_ چنانچہ نبی ﷺ کے سامنے تذکرہ ہوا کہ اے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ ! ایک عورت نمازیں بھی پڑھتی ہے، روزہ بھی رکھتی ہے، نیک پردہ دار بھی ہے مگر زبان کی تیز ہے، پڑوسی کے ساتھ اس کی تلخ کلامی ہوتی رہتی ہے۔ پڑوسی خوش نہیں ہیں پڑوسیوں کا دل دکھاتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت پڑوسیوں کا دل دکھاتی ہے اپنے روزے نمازوں کے باوجود قیامت کے دن اللہ رب العزت اس کو جہنم کے اندر ڈالیں گے،*

*★_ اتنی وضاحت سے نبی ﷺ نے یہ بات بتادی کہ اگر پڑوسی کا دل دکھایا تو اپنی نیکی اور نمازوں کے باوجود جہنم میں جائے گی,*

     ╥────────────────────❥
*⊙⇨اللہ رب العزت کو صلح پسند ہے :-*

*★_ کئی دفعہ ماں باپ بہن بھائیوں کے گھر قریب قریب ہی چار دیواری کے اندر بنا دیتے ہیں ۔ اب یہ بہن بھائی بھی ہوئے اور پڑوس بھی ہوئے۔ اور دیکھا یہ گیا ہے کہ سب سے زیادہ جھگڑے بھی یہیں ہوتے ہیں۔ تو تصور کیجئے کہ بھائی بھی ہے، ایمان والا بھی ہے، پڑوسی بھی ہے لیکن پھر اس کے ساتھ اندر کی لڑائیاں ہیں، رقابتیں اور عداوتیں ہیں۔ تو قیامت کے دن جہنم کی آگ سے ہمیں بچنا کیسے نصیب ہوگا ؟*

*★_ آج دل میں یہ فیصلہ کر لیجئے کہ ہم نے پڑوسیوں کے حقوق میں آج تک جو کوتاہی کی ہم اس سے تو بہ کرتے ہیں ۔ ہم ان پڑوسیوں سے بھی اچھے الفاظ میں معافی مانگ لیں گے اور آئندہ حسن سلوک، محبت پیار سے رہنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ رب العزت کو صلح بہت پسند ہے، چنانچہ حدیث پاک میں ایک عجیب مضمون بتایا گیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو دو آدمی اللہ رب العزت کے سامنے مقدمہ پیش کریں گے وہ پڑوسی ہوں گے۔*

*★_ قیامت کے دن جو دو بندے اللہ کے سامنے حقوق العباد میں اپنا مقدمہ پیش کریں گے وہ پڑوسی ہوں گے۔ ان میں ایک کہے گا: اس نے میرا دل دکھایا ، مجھے پریشان کیا، بڑا نیک نمازی تھا، مجھے ستاتا تھا، اللہ مجھے اب اس کا بدلہ دلوائیے۔ اللہ رب العزت فرمائیں گے کہ اچھا تم اس کی نیکیاں لے لو ۔ اب جب نیکیاں لینے لگے گا ، تو یہ بندہ اس کی زندگی کی ساری نیکیاں لے لے گا۔ پوری نیکیاں لینے کے بعد پھر بھی مطمئن نہیں ہوگا ۔*

*★_ کہے گا ! اللہ ! اس کے پاس نیکیاں تھوڑی ہیں، مجھے تو اس نے زیادہ ستایا ہے، مجھے زیادہ نیکیاں چاہئیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اچھا تمام اپنے گناہ اس کے سر ڈال دو۔ چنانچہ یہ پڑوسی اپنے سارے کے سارے گناہ اس کے سر پر ڈال دے گا اور پھر کہے گا: اے اللہ ! سارے گناہ اس کے سر پر ڈالنے کے باوجود جو اس نے میرا دل دکھایا تھا، میرا دل ابھی خوش تو نہیں ہوا، اللہ تعالی فرمائیں گے: اچھا تم ذرا فلاں طرف دیکھو! یہ شخص اس طرف دیکھے گا تو اسے جنت کے مکان نظر آئیں گے، اس قدر خوبصورت ، اتنے پیارے! ان مقامات کی طرف دیکھ کر اس بندے کے دل میں یہ تمنا ہوگی کہ میں ان مکانوں میں چلا جاؤں اور وہاں جا کر رہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : اے میرے بندے ! کیا تو ان مکانوں میں جانا چاہتا ہے؟ وہ کہے گا یا اللہ ! میں جانا چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالٰی فرمائیں گے : اچھا! اگر تم اپنے اس بھائی کو معاف کر دو تو میں تمہیں ان مکانوں میں جگہ دے دوں گا۔*

*★_ چنانچہ یہ پڑوسی جس کا دل رکھا تھا وہ کہے گا کہ اللہ ! میں نے اس کو معاف کر دیا تو مجھے جنت میں گھر عطا کر دے۔ اللہ فرمائیں گے اچھا جب تم نے اس کو معاف کر دیا تو تم اکیلے جنت میں نہ جاؤ ، اپنے پڑوسی بھائی کو اپنے ساتھ جنت میں لے کر چلے جاؤ ، مجھے صلح پسند ہے۔*

*★_ تو اللہ تعالی کو تو قیامت کے دن بھی دو پڑوسیوں میں صلح ہی پسند ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم آج پڑوسیوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے والے بن جائیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائیں۔ اللہ رب العزت ہمیں صلح اور پاکیزگی کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔ کہ ۔ آمین ثم آمین,*

*"_ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين _,*

*®_ حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ_,*
https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
*👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں _,*         
╥────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/c/HaqqKaDaayi01
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments