Khawateen Ke Deeni Fara'iz (Urdu)

🎍﷽ 🎍
        ┯━══◑━═━┉─◑━═━━══┯
             *●• خواتین کے دینی فرائض•●                      ╥────────────────────❥
*⊙___ دینی فرائض کے جامع تصور کی اہمیت- :-*

*★_ دینی فرائض کے جامع تصور کی اہمیت یہ ہے کہ اگر انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا چاہتا ہے اور میرے دین کا مجھ سے کیا مطالبہ ہے تو وہ ان دینی فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ ہو سکے گا جو اس پر عائد ہوتے ہیں، اسی طرح اگر فرائض دینی کے بارے میں ہمارا تصور ناقص یا نا مکمل ہو، یعنی بعض فرائض تو معلوم ہوں اور انہیں ہم ادا بھی کر رہے ہوں، لیکن بعض فرائض کا ہمیں علم ہی نہ ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ہم ادا نہیں کر سکیں گے۔*

*★_ اس طرح اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ اگرچہ اپنی جگہ ہم یہ سمجھ رہے ہوں کہ ہم نے تو اپنے تمام فرائض ادا کیے ہیں لیکن اللہ تعالی کی طرف سے وہاں ہمیں بتایا جائے کہ تمہاری ذمہ داریاں صرف وہی نہیں تھیں کہ جو تم نے پوری کی ہیں بلکہ مزید بھی تھیں، اور ان کے ضمن میں چونکہ ہمیں علم ہی حاصل نہیں تھا، لہذا ان سے متعلق ہماری کارگزاری صفر ثابت ہو اور ہم اپنے تمام تر خلوص اور محنت کے باوجود نا کام قرار پائیں۔*

*★_ اس مسئلے کا ایک دوسرا رخ بھی قابل توجہ ہے، جو خواتین کی ذمہ داریوں کے ضمن میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اور وہ یہ کہ ایک دوسرا امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ذمے خواہ مخواہ ایسی ذمہ داریاں لے لیں جو ہمارے دین نے ہم پر عائد نہ کی ہوں ۔ یہ بات بھی اتنی ہی خطرناک مضمر اور نقصان دہ ہے جتنی کہ پہلی بات،*

*★_ کیونکہ انسان کا جذبہ عمل بسا اوقات حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو وہ غلط رخ اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی بہت اہم مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً نیکی کا جذبہ ہی دنیا میں رہبانیت جیسے خلاف فطرت نظام کو وجود میں لانے کا سبب بنا، جس نے بالآخر ایک برائی کی شکل اختیار کر لی اور بہت سے منکرات کو جنم دیا اور اس کے نتائج بہت ہی منفی اور خوفناک ہوئے۔*

*★_ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کا یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن پر عبادت گزاری، زہد اور تقویٰ کا بہت زیادہ غلبہ ہو گیا تھا، انہوں نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما سے آنحضرت ﷺ کی نفلی عبادات کے متعلق پوچھا کہ آپ رات کو کتنی دیر تک نماز پڑھتے ہیں اور مہینے میں کتنے نفلی روزے رکھتے ہیں؟*

*★_ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے انہیں آنحضور ﷺ کے نفلی اعمال کی جو کیفیت بتائی وہ انہیں اپنے تصور اور گمان کے مطابق بہت کم نظر آئی۔ تاہم انہوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ کہاں ہم اور کہاں رسول اللہ ﷺ! آپ تو معصوم ہیں، آپ سے تو کسی گناہ کا صدور ہو ہی نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مغفرت کا وعدہ ہو چکا، لہذا آپ کے لیے تو اتنی عبادت کفایت کرے گی لیکن ہمارے لیے یہ کافی نہیں ہے۔*

*★_ چنانچہ ان میں سے ایک صحابی نے کہا کہ میں تو ساری رات نماز پڑھا کروں گا اور اپنی پیٹھ بستر سے نہیں لگاؤں گا۔ دوسرے نے طے کیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کسی دن بھی ناغہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں گھر گھرہستی کا بکھیڑا مول نہیں لوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔*

*★_ ان کی یہ باتیں رسول اللہ ﷺ تک پہنچیں تو آپ نے انہیں طلب فرما کر بڑی ناراضی کا اظہار فرمایا ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "کیا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی باتیں کہی ہیں؟ اللہ کی قسم میں تم میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں لیکن میں کبھی ( نفلی ) روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا، اور میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، اور میں عورتوں سے شادیاں بھی کرتا ہوں، پس ( جان لو کہ ) جسے میری سنت پسند نہیں، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اسے حضرت انس بن مالک نے روایت کیا ہے،*

*★_ حدیث کے آخری الفاظ :(فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ) پس جسے میری سنت پسند نہیں اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں_," بہت جامع الفاظ ہیں اور ان کی روشنی میں ہمیں زندگی کے ہر موڑ اور ہر گوشے میں یہ دیکھنا چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ کا طرز عمل کیا تھا۔ خواتین کی دینی ذمہ داریوں کے ضمن میں ہمیں صحابیات ، خصوصاً ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما کی زندگیوں اور ان کے ان کے طرز عمل کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔*

*★_ اس لیے کہ خواتین کے لیے آنحضور ﷺ کا جو اسوۂ مبارکہ ہے وہ ہم تک ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما ہی کے ذریعے سے پہنچا ہے اور آپ نے عام طور پر صحابیات رضی اللہ عنہما کو جو بھی ہدایات دیں وہ امت کی خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں،*

*★_ انسان جب اپنے ذمے خواہ مخواہ اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر ذمہ داری لے لیتا ہے تو اس کے جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لیے میں موجودہ دور سے ایک مثال پیش کر رہا ہوں ۔ آج پوری دنیا میں مختلف جماعتوں اور تحریکوں کے ذریعے اسلامی انقلاب اور اقامت دین کے لیے ایک جدوجہد اور سعی و کوشش ہو رہی ہے۔ ایسی تحریکوں کے فکر میں بعض اوقات ایک بنیادی غلطی یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھ لیتے ہیں۔*

*★_ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے دین کو غالب کر دینا ہماری ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنی بھر پور کوشش اور امکان بھر سعی و جہد کریں اور اس راستے میں اپنے تمام وسائل و ذرائع اور صلاحیتیں اور استعدادات کو صرف کر دیں۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں گے کہ ہمیں یہ کام ہر حال میں کر کے رہنا ہے تو اس سے ہمارے طرز عمل میں یہ بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر صحیح راستے سے کام نہیں ہو پا رہا تو ہم کسی غلط راستے کو اختیار کر لیں، چنانچہ ذمہ داری کا یہ غلط تصور بہت سی تحریکوں کے غلط رخ پر پڑ جانے کا سبب بن گیا ہے۔*

*★_ لہٰذا جہاں ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک مسلمان کی دینی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ان میں سے کوئی ذمہ داری ہمارے علم اور تصور سے خارج نہ رہ جائے، وہیں ہماری یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ ہم خواہ مخواہ ایسی ذمہ داریاں مول نہ لے لیں جو اللہ تعالی نے ہم پر عائد نہ کی ہوں۔

*★_اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے ضمن میں ایک مسلمان کے پیش نظر ہمیشہ یہ اصول رہنا چاہیے کہ اللہ نے اس پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد کی ہیں ۔ جب انسان اپنی اصل ذمہ داری سے بڑھ کر کوئی ذمہ داری اپنے سر لے لے تو ایک خطرہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس انجام سے دو چار نہ ہو جائے جس کا ذکر سورۃ النساء میں میں آیا ہے۔ یعنی اس نے جو راستہ خود ہی اختیار کر لیا، پھر اللہ تعالی اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور پھر اللہ کی تائید اور نصرت شامل حال نہیں رہتی۔*

*★_ چنانچہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اللہ کی طرف سے ہم پر کیا فرائض اور ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ حقوق اللہ کے ضمن میں کن حقوق کی ادائیگی ہمارے ذمہ ہے اور ہمارے نفس کے وہ حقوق کون سے ہیں جو اللہ نے معین کر دیتے ہیں اور وہ ہمیں ادا کرنا ہیں ۔ اللہ نے اس کے لیے جو چیزیں حلال فرمائی ہیں، انہی پر ہمیں اکتفاء کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے طبعی یا جبلی تقاضوں کی پیروی کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہم حلال سے آگے بڑھ کر حرام میں منہ مار لیں،*

*★_ اسی طرح انسانوں میں سے بھی جس کا جو حق اللہ نے معین کر دیا ہے، وہ ہمیں ادا کرنا ہے۔ اگر یہ اصول پیش نظر رہے تو راستہ سیدھا، صاف اور محفوظ رہے گا, لیکن اگر ہم نے اس میں اپنی پسند، ذوق، جذبے، خیالات اور تصورات کو اپنا امام بنا لیا تو پھر ہم خدا نخواستہ (نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى ) کا مصداق بن سکتے ہیں اور پھر اس میں شدید اندیشہ ہے کہ آیت کے اگلے الفاظ( وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا) جیسے ہولناک انجام سے دوچار ہو جائیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اس انجام بد سے بچائے!*
     ╥────────────────────❥
*⊙__ دینی فرائض کی تین سطحیں- بنیاد ایمان ہے:-*

*★_ فرائض دین کے جامع تصور کی وضاحت کے لیے ایک سہ منزلہ عمارت کی تشبیہ ذہن میں رکھیے، جس سے واقعتاً اس جامع تصور کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ پہلے عمومی الفاظ میں سمجھنا ہے کہ کہاں کہاں وہ فرائض مردوں کی مانند خواتین پر بھی جوں کے توں عائد ہوتے ہیں اور کہاں کہاں ان میں فرق و تفاوت ہے۔*

*★_ اب آپ ایک ایسی سہ منزلہ عمارت کا نقشہ ذہن میں لائیں جو چار ستونوں پر قائم ہے۔ اس کی پہلی منزل (Ground Floor) پر صرف یہی چار ستون نظر آتے ہیں اور کوئی دیواریں وغیرہ نہیں ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان ستونوں کے نیچے ایک بنیاد (Foundation) ہے جس کے اوپر یہ چاروں ستون کھڑے ہیں، ایک مناسب بلندی پر اس عمارت کی پہلی چھت موجود ہے، جس سے پہلی منزل ۔ مکمل ہوتی ہے۔ اس کے اوپر دوسری منزل ہے، جہاں پر عمارت تو ان چاروں ستونوں پر ہی قائم ہے، مگر دیواریں تعمیر ہو جانے کی وجہ سے ستون نظر نہیں آتے، بلکہ دیواروں کے اوپر دوسری چھت نظر آ رہی ہے، اسی طرح اس کے اوپر تیسری منزل ہے، اس عمارت میں اہم ترین شے اس کی بنیاد ( Foundation) ہے، جس پر ساری عمارت کی مضبوطی کا دارو مدار ہے۔*

*★_ بنیاد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کے حامل وہ چارستون ہیں جو اس ساری عمارت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر یہ ستون مضبوط ہوں گے تو اوپر کی پوری عمارت بھی مضبوط ہو گی اور اگر یہ کمزور ہوں گے تو اوپر کی ساری عمارت بھی کمزور رہ جائے گی، یہ سہ منزلہ عمارت ہمارے دینی فرائض کے جامع تصور کی نقشہ کشی کر رہی ہے۔*

*★_اس عمارت کی بنیاد ایمان ویقین ہے، جس کی پختگی پر عمارت کی مضبوطی کا دارو مدار ہے۔ یہ بنیاد جتنی مضبوط اور گہری ہوگی، او پر کی عمارت اس قدر مضبوط ہو گی اور اگر یہ بنیاد ہی کمزور اور بودی ہے تو اوپر کی عمارت کے لیے اگرچہ بہت اچھا میٹریل استعمال کیا گیا ہو اور اس کی ظاہری شیب تاب پر بھی بہت توجہ دی گئی ہو، یہ پوری عمارت کمزور رہے گی۔*
     ╥────────────────────❥
           *⊙___ عبادت، احسان اور دعوت:-*

*★_ اس بنیاد پر جو چار ستون قائم ہیں وہ چار اہم عبادات ہیں جو اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں کو عطا فرمائیں، یعنی (1) نماز ، (ii) روزه (iii) زکوٰۃ اور (iv) حج_,*
*_ پہلی دو عبادات یعنی نماز اور روزہ تو ہر مسلمان پر فرض ہیں، جبکہ دوسری دو عبادات یعنی زکوٰۃ اور حج صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہیں۔*

*★_ بہر حال یہ چاروں عبادات ان چار ستونوں کی مانند ہیں جن پر اس عمارت کی چھتیں کھڑی ہیں۔ پہلی چھت کو آپ اسلام ، اطاعت، تقویٰ یا عبادت رب کا نام دے سکتے ہیں ۔ یعنی اس سطح پر انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دے ، صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بنے اور اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرے,*
*_ ارشاد باری تعالی ہے:( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) (الذاريات : 56) یعنی "میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں_,*

*"★_یہ اطاعت, تقویٰ اور عبادت اپنی بلندی کو پہنچ جائیں تو یہ درجہ احسان ہے۔ یعنی یقین کی یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ جیسے بندہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ تو یہ ہے اس عمارت کی پہلی چھت،*

*★_ اس کے بعد دوسری منزل یہ ہے کہ انسان اب اسی چیز کی دوسروں کو دعوت دے، اللہ کے پیغام کو عام کرے، اللہ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانے کی سعی و کوشش کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے، یعنی لوگوں پر حجت قائم کر دی جائے تاکہ لوگ قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکیں کہ پروردگار ہم تک تو تیرا حکم پہنچا ہی نہیں، تیری ہدایت ہم تک کسی نے پہنچائی ہی نہیں ۔ یہ دوسری منزل ہے۔*

*★_اس عمارت کی تیسری منزل جو بلند ترین ہے، وہ ” اقامت دین کی منزل ہے۔ اس کے لیے اسلامی انقلاب اور تکبیر رب“ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ یعنی اللہ کے دین کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے قائم اور رائج کر دیا جائے اور اللہ کی کبریائی کا نظام بالفعل قائم ہو جائے، اس مقصد کے لیے محنت، کوشش ، ایثار، مال خرچ کرنا، جان کھپانا, تیسری اور بلند ترین منزل ہے۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙__ (1) پہلی منزل_ مرد و عورت کے لیے قریباً یکساں ذمہ داریاں:-*

*★_ذمہ داریوں کے اعتبار سے مرد اور عورت میں جو فرق و تفاوت ہے ہر مرد یا عورت کو ان سے کما حقہ واقف ہونا چاہیے۔ دینی فرائض کے جامع تصور کی جو عمارت ہمارے پیش نظر ہے اس کی پہلی منزل بنیاد کے علاوہ چار ستونوں اور پہلی چھت پر مشتمل ہے۔ بنیاد اگر چہ عمارت شمار نہیں ہوتی لیکن اہمیت کے اعتبار سے وہ سب سے بڑھ کر ہے۔ اس پہلی منزل کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سطح پر عورتوں اور مردوں کے فرائض یکساں ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ بہت ہی معمولی ہے۔ ایمان ہر مرد و عورت کی نجات کے لیے لازم ہے ۔*

*★_ سورۃ النساء کی آیت ۱۲۴ میں صراحت کے ساتھ فرما دیا گیا کہ جو کوئی بھی عمل صالح کی روش اختیار کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن بھی ہو، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے! گویا ایمان ہر مسلمان مرد و عورت کا فرض اولین ہے۔ اس کے بعد نماز ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ اسی طرح روزہ بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔*

*★_ زکوٰۃ کی ادائیگی جس طرح صاحب نصاب مردوں پر فرض ہے اسی طرح صاحب نصاب عورتوں پر بھی فرض ہے۔ حج کے لیے زاد راہ میسر ہو تو یہ بھی مسلمان مرد و عورت دونوں پر فرض ہے، البتہ اس کے لیے عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔*

*★_ پھر یہ کہ اللہ کے تمام احکامات اور اس کی طرف سے عائد کردہ حلال و حرام کی پابندیاں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہیں۔ الغرض اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور بنیادی فرائض کی ادائیگی دونوں کے ذمہ ہے, یہ تمام چیزیں دونوں میں مشترک ہیں۔*

*★_ اس ضمن میں مرد و عورت کے فرائض میں جو معمولی سا فرق ہے، اس کے لیے میں آپ کے سامنے نماز کی مثال رکھ رہا ہوں ۔ مردوں کے لیے حکم ہے کہ وہ مسجد میں جا کر با جماعت نماز ادا کریں، الا یہ کہ کوئی عذر ہو، جبکہ خواتین کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے لیے فرمایا گیا ہے کہ عورت کی نماز مسجد کے مقابلے میں اپنے گھر میں افضل ہے۔ گھر میں بھی صحن کے مقابلے میں دالان میں، اور دالان کے مقابلے میں کسی کمرے کے اندر افضل ہے، اور کمرے کے اندر بھی اگر کوئی کوٹھڑی ہے ( جیسا کہ پہلے زمانے میں بنائی جاتی تھیں ) تو اس میں نماز ادا کرنا افضل ترین ہے۔*

 *★_ البتہ جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں استثناء رہا ہے۔ اس لیے کہ اس زمانے میں تعلیم و تلقین کے اور ذرائع نہیں کہ اس تھے۔ نہ کتابیں اور رسالے تھے، لہذا عیدین اور جمعہ کی نمازوں کے ساتھ جو خطبہ ہے وہی تعلیم کا واحد ذریعہ تھا۔ چنانچہ حضور ﷺ نے خواتین کو ان خطبات میں شرکت کی ترغیب دی کہ وہ ضرور شرکت کریں، تاکہ وہ تعلیم و تلقین سے محروم نہ رہ جائیں۔ دور نیوی میں خواتین کو نماز کے لیے اگر چہ مسجد میں آنے کی بھی اجازت تھی، تاہم انہیں ترغیب یہی دی گئی کہ اپنے گھروں میں نماز کی ادائیگی ان کے لیے افضل ہے اور گھر کے مخفی ترین حصہ میں نماز کا اجر و ثواب مزید بڑھ جائے گا۔*
*★_ بہر حال اس پہلی منزل تک مسلمان مرد وعورت کے فرائض میں کوئی بڑا فرق قطعاً نہیں ہے اور ان ذمہ داریوں میں مسلمان مرد و عورت دونوں یکساں ہیں ۔ اس ضمن میں سورۃ الاحزاب کی تین آیات ملاحظہ ہوں۔ ان آیات میں ازواج مطہرات سے خطاب فرمایا گیا ہے۔ پہلی آیت کا تعلق ایمان کی تحصیل سے ہے، جو مرد و عورت دونوں کا اولین فرض ہے۔*

 *★_حقیقی یا شعوری ایمان کا منبع و سر چشمہ صرف اور صرف قرآن حکیم ہے۔ چنانچہ اس کے پڑھنے پڑھانے ، سیکھنے، سکھانے، اس پر غور و تدبر اور اس کی تلاوت سے انسان کے اندر ایمان پیدا ہوتا ہے۔*

*★_ چنانچہ پہلی آیت میں فرمایا گیا:-( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا)*
*"_اور ذکر کرتی رہا کرو ان چیزوں کا جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت میں سے تلاوت کی جا رہی ہوں۔ یقیناً اللہ تعالی بہت ہی باریک بین اور باخبر ہے۔“*

*"★_ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما سے خطاب ہے، جن کے گھروں میں وحی نازل ہوتی تھی اور حضور ﷺ وہاں قرآن حکیم کی آیات پڑھ کر سناتے تھے اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے۔ حکمت کا سب سے بڑا خزانہ بھی خود قرآن حکیم ہے۔*
*_ مزید برآں آپ احادیث کی صورت میں قرآن حکیم کی وضاحت فرماتے تھے تو احادیث نبویہ بھی دراصل حکمت کے عظیم موتی ہیں ۔*

*★_ گویا ان آیات میں سب سے پہلا جو حکم دیا جارہا ہے وہ قرآن وحدیث کا تذکرہ، مذاکرہ، ان کی درس و تدریس، ان کا پڑھنا پڑھانا اور سیکھنا سکھانا ہے۔ اس لیے کہ ایمان کا دارو مدار اسی پر ہے، اس سے یقین کی دولت ملے گی، اس سے ہمارے ایمان میں گیرائی اور گہرائی پیدا ہوگی اور اس سے ایمان میں استحکام اور پختگی پیدا ہوگی ۔*

*★_ لہذا یہ پہلا کام ہے جو ہر مرد و عورت کو کرنا ہے اور ہر ایک کو اسے اپنی اولین ذمہ داری سمجھنا چاہئے, ترتیب کے اعتبار سے ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنا پہلا فرض یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے اپنے ایمان کو مستحکم کرنا ہے، اس میں زیادہ سے زیادہ گہرائی پیدا کرنی ہے اور زیادہ سے زیادہ شعور کا عصر شامل کرنا ہے ۔ مرد یا عورت ہونے کے اعتبار سے اس میں کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے۔*

*★_اب اگلی آیت کی طرف آئیے۔ اس مقام پر ایک لفظ کو خاص طور پر دہرا دہرا کر مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ لایا گیا، تا کہ واضح ہو جائے کہ ان اوصاف اور خصوصیات کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:-(سورة الأحزاب 35 ):- اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾*
*"_بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ( ان سب کے ) لئے اللہ تعالٰی نے ( وسیع ) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے _,*

*★_ اس آیت مبارکہ میں دس صفات مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دہرا کر بیان کی گئی ہیں، جو درج ذیل ہیں :-*
*(1) ( المسلمين والمسلمت) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں_, _یعنی اللہ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے مرد اور عورتیں ۔*
*(۲) (الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَت) اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ۔"یعنی اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی نازل کردہ کتابوں، اس کے کے بھیجے ہوئے رسولوں اور آخرت پر ایمان رکھنے والے مرد اور عورتیں ۔*

*★_(۳)_( القَنِتِينَ وَالْقَنِتُت) فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں, "_ جب کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے دست بستہ جھک کر کھڑا ہوتا تھا کہ جیسے ہی کوئی حکم ملے اسے بجالائے، تو اس کی یہ حالت قنوت کہلاتی تھی۔ نماز میں دعائے قنوت وہ دعا ہے جو کھڑے ہو کر مانگی جاتی ہے، ورنہ عام طور پر دعائیں قعدہ میں تشہد اور درود شریف کے بعد بیٹھ کر ہی مانگی جاتی ہیں۔*

*★_(۴)( الصَّدِقِينَ وَالصَّدقت) راست بازو راست گو مرد اور راست باز و راست گو عورتیں۔ جو بات کے بھی سچے ہوں اور عمل کے لحاظ سے بھی سچے ہوں_,*
*(۵)( الصبرين والصبرات) صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں۔ صبر معصیت پر بھی ہے کہ گناہ سے خود کو روکا جائے، صبر اطاعت پر بھی ہے کہ جو حکم بھی ملے اسے بجا لایا جائے ۔ مثلاً چاہے شدید سردی ہے اور گرم پانی میسر نہیں ہے تو ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھی جائے ۔ اس لیے کہ نماز فرض ہے اور اس کے لیے وضو شرط ہے، پھر یہ کہ اسلام پر چلنے میں جو تکالیف اور مشکلات پیش آئیں انہیں برداشت کرنا بھی صبر ہے۔*

*★_(٦) (الْخَشِعِينَ وَالْخَشِعْت) عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ۔ یعنی اللہ کے سامنے عجز کا اظہار کرنے والے اور اس کے آگے جھک جانے والے مرد اور عورتیں۔ خشوع‘ جھکاؤ یا فرمانبرداری کی کیفیت کو کہتے ہیں،*
*(٧) (المُتَصَدِّقِين والمُتَصَدِّقت)- صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں ۔ یعنی جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں پر خرچ کرتے ہیں، صدقہ و خیرات میں زکوٰۃ بھی شامل ہے جو ہر صاحب نصاب پر فرض ہے، اور دیگر نفلی صدقات بھی !*
*(۸)( الصَّائِمِينَ وَالصُّمت) روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ۔“ نوٹ کیجئے کہ ان صفات میں ایمان کے علاوہ نماز، روزہ اور زکوۃ جیسے ارکان اسلام بھی آگئے ہیں،*

*★_(٩) (الحفظين فُرُوجَهُم والحفظت) اپنی شرمگاہوں ( اور عصمت و عفت ) کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، عفت و عصمت کی حفاظت مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے اور اس ضمن میں اسلام دونوں پر یکساں پابندیاں عائد کرتا ہے،*
*(١٠) (الذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّكِرَات ) اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور (اللہ کا کثرت سے ) ذکر کرنے والی عورتیں،*

*★_ اگلی آیت میں آخری بات دوٹوک انداز میں بیان فرمادی گئی جو اس پہلی منزل کا خلاصہ اور لب لباب ہے :-(سورة الأحزاب - 36 )*
*"_وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾*
*"_ اور کسی مومن مرد اور کسی مؤمن عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول اللہ علیہ وسلم ( ان کے بارے میں) کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر بھی ان کے پاس اس بات میں کوئی اختیار باقی رہ جائے۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا،*

*★_یعنی مسلمان اور مؤمن مردوں اور عورتوں کا طرز عمل تو یہ ہوتا ہے کہ جب کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم یا فیصلہ آگیا تو اب ان کے اپنے انتخاب یا اختیار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اور اگر کوئی اس کے برعکس رویہ اختیار کرتا ہے تو یہی معصیت اور نافرمانی ہے اور حقیقت کے اعتبار سے کفر ہے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی روش اختیار کریں گے، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں، تو وہ پھر بڑی صریح گمراہی کے اندر مبتلا ہو گئے۔ یہ گویا کہ اسلام، اطاعت اور عبادت کا لب لباب ہے،*

*★_ اسلام کیا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا !*
*"_ اطاعت کیا ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری !*
*"_ عبادت کیا ہے؟ ہمہ تن اور ہمہ وقت اللہ ہی کا بندہ بن جانا !*
*"_ ان تمام چیزوں میں کانٹے کی بات یہ ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم آ گیا وہاں ہمارا اختیار ختم !*

*★_ ہاں اگر کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم موجود نہیں تو گویا کہ اللہ نے ہمیں یہ اختیار دے دیا ہے کہ یہاں ہم اپنی مرضی، فہم، ذوق اور مزاج کے مطابق معاملہ طے کر لیں۔*
*"_ لیکن جہاں دو ٹوک حکم آچکا ہو پھر بھی انسان یہ سمجھے کہ میرے پاس کوئی اختیار یا Option ہے تو یہ گویا کہ اسلام اور ایمان کے منافی بات ہوگی۔*

*★_ یہ پہلی منزل ہے، جہاں پر دینی ذمہ داریوں کے اعتبار سے مرد و عورت میں بہت معمولی فرق ہے۔ لیکن جیسے جیسے ہم اوپر چلتے جائیں گے، یہ فرق بڑھتا چلا جائے گا۔ پہلی منزل پر یہ فرق بہت تھوڑا ہے، دوسری منزل پر بہت نمایاں ہے، جبکہ تیسری منزل پر جا کر یہ فرق بہت بڑھ جائے گا۔ ہمیں اس فرق کی اساس کو سمجھ لینا چاہیے۔*

     ╥────────────────────❥
              *⊙___ اسلام اور شرم و حیا:-*

*★_ اسلام شرم و حیا اور عصمت و عفت کی انتہائی اہمیت بیان کرتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ معاشرے میں ان چیزوں کی خوب حفاظت ہو۔ یہی وہ اصول اور مقصد ہے جس کے تحت ستر و حجاب اور لباس کے احکام دیئے گئے اور اس معاملے میں مرد وعورت کے مابین فرق رکھا گیا۔ حجاب اور پردے کے احکامات خالص عورتوں کے لیے ہیں اور ان میں بھی محرم اور نامحرم کا فرق روا رکھا گیا ہے۔ سورہ نور میں اس ضمن میں ایک طویل آیت وارد ہوئی ہے۔*

*★_ اس وقت ستر و حجاب کی بنیاد پر اس فرق و تفاوت کو واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دینی فرائض کی اوپر کی جو دو منزلیں ہیں ان میں مرد و عورت کے مابین جو فرق و تفاوت ہے وہ اصلاً اسی بنیاد پر ہے کہ معاشرے میں شرم و حیا کا ماحول برقرار رہے، اور عصمت و عفت اور پاک دامنی کی پوری پوری حفاظت کا بندو بست کیا جائے۔*

*★_ پہلی منزل پر بھی جو فرق ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مردوں اور عورتوں کے مابین بلا ضرورت کوئی اختلاط یا آپس میں ملنا جلنا ہو۔ چنانچہ اسلام دونوں کے علیحدہ علیحدہ دائرہ کار قائم کرتا ہے اور دونوں کی ذمہ داریاں اور فرائض کا علیحدہ علیحدہ تعین کرتا ہے۔*

 *★_نماز کے ضمن میں آخر یہ فرق کیوں کیا گیا کہ مردوں کی نماز گھر کی نسبت مسجد میں افضل ہے، جبکہ عورت کی نماز گھر کے اندر اور گھر کی بھی اندرونی کوٹھڑی میں زیادہ افضل ہے اور مسجد میں ان کی آمد پسندیدہ نہیں ہے؟ اس کا سبب یہی ہے کہ اس میں اختلاط کا ایک امکان پیدا ہوتا ہے۔ راستہ چلتے، مسجد کو آتے جاتے مردوں سے مڈ بھیٹر ہو سکتی ہے۔ مسجد کے اندر بھی خواہ کتنا ہی اہتمام کر لیا جائے مگر اس کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی بے حجابی کی کیفیت نہ پیدا ہو جائے یا کسی نا محرم کی نظر نہ پڑ جائے۔*
     ╥────────────────────❥
*⊙__(٢) دوسری منزل دعوت و تبلیغ کے تین دائرے:-*

*★_ دوسری منزل پر دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے. اس کے ضمن میں ہمارے دین نے جو عام ترتیب سکھائی ہے وہ یہ اصول ہے کہ اصلاح کا کام پہلے اپنے آپ سے شروع کیا جائے، پھر گھر والوں کی اصلاح کی فکر کی جائے اور اس کے بعد دوسرے لوگوں پر دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص سات سمندر پار جا کر تبلیغ کر رہا ہو، جبکہ اس کے اپنے گھر میں دین کا معاملہ تسلی بخش نہ ہو تو یہ در حقیقت غلط ترتیب ہے، جس کی وجہ سے وہ برکات ظاہر نہیں ہوتیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تبلیغ سے ظاہر ہوئیں،*

*★_ اب اس ترتیب کو سامنے رکھیں تو ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین کے لیے دعوت تبلیغ، نصیحت اور اصلاح کا اولین دائرہ ان کا اپنا گھر ہے۔ ان کے اپنے بچوں کی تعلیم، ترتیب اور اصلاح کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر خواتین کا حلقہ اور اس سے مزید آگے محرم مردوں کا حلقہ آئے گا۔ بس ان تین حلقوں میں خواتین کو دعوت وتبلیغ کے فرائض سر انجام دینے ہیں ۔*

*★_ سب سے پہلے حلقے کے بارے میں سورۃ التحریم میں ( قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاهْلِيكُمْ نَارًا ) کے الفاظ آئے ہیں ۔ یعنی اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ! اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: تم میں سے ہر شخص گلہ بان ہے اور تم میں سے ہر شخص اپنے گلے کے بارے میں جوابدہ ہے ۔ یعنی جس طرح ہر چرواہے کی ذمہ داری میں کچھ بھیڑ بکریوں پر مشتمل ایک گلہ ہوتا ہے اور وہ چروایا گھر سے اس گلے کو لے جانے اور بحفاظت واپس لانے کا ذمہ دار ہوتا ہے، اسی طرح ہر شخص کی حیثیت ایک گلے بان کی سی ہے اور جو کچھ اس کے چارج میں ہے، وہ اس کے بارے میں مسؤل اور ذمہ دار ہے۔*

 *★_چنانچہ آنحضور صلی علیم نے ارشاد فرمایا: اور آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے، اور وہ اپنی اس رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، یعنی اس سے اللہ کے ہاں یہ پوچھا جائے گا کہ اس پر اس کے گھر والوں کی اصلاح و تربیت اور دوسرے حقوق کی ادائیگی کی جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی وہ اس نے کس حد تک ادا کی، اس کے بعد حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- اور عورت اپنے شوہر کے گھر پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا،*

*★_ اور ظاہر بات ہے کہ اس کی رعیت میں اس کی اولاد اس کا مصداق اول ہے، اور ایک روایت میں تو الفاظ ہی یہ آئے ہیں۔ اور عورت اپنے شوہر کے اہل خانہ اور اس کی اولاد پر نگران ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔*
*"_یعنی اس کے دیگر افراد خانہ اور باندیاں اور غلام وغیرہ بھی اس کی نگرانی اور ذمہ داری میں ہوں گے ، مگر اصل ذمہ داری اولاد کی ہے, ( یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور ذرا سے لفظی اختلاف کے ساتھ اسے مسلم ، ترمذی اور ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے ۔ )*

*★_ یہ معاملہ واقعتاً نہایت اہم ہے، کیونکہ اگر ہم غور کریں تو کسی بھی قوم کا مستقبل اس کی آئندہ نسل سے وابستہ ہے اور اس کا سارا بوجھ اللہ تعالی نے عورت پر ڈالا ہے۔ اس کی پیدائش کے علاوہ اس کی پرورش کا بھی اصل بوجھ عورت ہی پر ہے ۔ وہی تو ہے کہ جو بچوں کی پرورش کی خاطر سب سے بڑھ کر اپنی نیندیں حرام کرتی ہے اور اپنے آرام کی قربانی دیتی ہے۔ پھر ان کی تعلیم کی اولین ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ بچے کی سب سے پہلی تعلیم گاہ در حقیقت ماں کی گود ہے،*

 *★_ بچے کو گود میں لے کر ماں جب قرآن پڑھتی ہے تو بچہ اسے سنتا ہے۔ یہ چیزیں غیر محسوس طریقے سے منتقل ہوتی ہیں۔ آخر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بچہ جب پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جائے تو اس کا کوئی نہ کوئی اثر تو لازماً ہوتا ہے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمیں کوئی حکم دیا گیا ہو اور اس کی کوئی افادیت یا علت نہ ہو۔*
*"_ اسی طرح اگر ایک ماں اپنے بچے کو گود میں لیے بیٹھی قرآن کی تلاوت کر رہی ہو تو ممکن نہیں کہ اس قرآن کے اثرات بچے کی شخصیت پر نہ پڑیں ,*

*★_ تو خواتین کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنی اولاد کی تربیت ہے، اور ان کی سب سے کڑی مسؤلیت اولاد ہی کے بارے میں ہوگی ۔ لہذا اس اہم ذمہ داری کی قیمت (Cost) پر، یعنی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے یا اس میں کو تاہی کرتے ہوئے کوئی اور کام کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے کہ اولاد کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد بھی وقت بچ رہا ہوتو پھر انہیں مزید محنت کرنی چاہئے۔ خاص طور پر جوان خواتین، جن کے بچے ابھی چھوٹے ہوں اور اولاد کی پیدائش کا سلسلہ ابھی جاری ہو آج کے دور میں ان کی ذمہ داریاں اتنی کٹھن ہیں کہ انہیں پورا کرنے کے بعد بہت کم وقت بچتا ہے۔ لیکن جو بھی وقت بچے وہ آرام کی قربانی دیں اور دوسرے قریبی حلقوں میں دعوت کا کام کریں، لیکن اس کی خاطر اولا د کو نظر انداز کرنا قطعاً جائز نہیں۔*

*_اپنی اولاد کی طرف سے عدم توجہی اور لا پرواہی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی تربیت صحیح طور پر نہیں ہو پاتی اور لا محالہ ماحول کے اثرات ان پر مرتب ہو کر رہتے ہیں اور ان کی ذہنیت و خیالات معاشرے کے رنگ سے لازماً متأثر ہوتے ہیں۔ اور آج کا بچہ تو الحاد، کفر، بے حیائی اور عریانی، ان سب عفریتوں کی زد میں ہے۔ موبائل انٹرنیٹ سوشل میڈیا ٹی وی اس کے سامنے ہے اور وہ ان کی یلغار کی زد میں ہے۔*.

 *★_ جہاں تک دوسرے دائرے یعنی گھر سے باہر نکل کر دوسری خواتین میں دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کا تعلق ہے تو میرے خیال میں اس کے لیے منظم کوشش وقت کی اہم ضرورت ہے۔ البتہ اس کے لیے ایسی خواتین کو زیادہ فعال ہونا چاہئے جو ادھیڑ عمر کی ہیں، اور ان کے لیے حجاب کے احکامات میں بھی وہ شدت نہیں ہے۔ بڑی عمر کی خواتین کے لیے سورۃ النور میں فرمایا گیا (آیت: 40) کہ ان پر کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنی چادریں اتار کر رکھ بھی دیا کریں ! یعنی ستر کی شدت تو برقرار رہے گی مگر پردے اور حجاب کے ضمن میں ان پر اب وہ شدید پابندیاں نہیں ہیں جو ایک نوجوان عورت پر ہیں۔*

*★_ ایسی خواتین کے پاس اگر وقت فارغ ہو تو انہیں دین کے کاموں میں زیادہ ہچکچانا نہیں چاہئے، طویل سفر کے لیے تو ظاہر ہے کہ محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، مگر شہروں کے اندر اگر خواتین کے اپنے حلقوں میں دعوت و تبلیغ کے لیے نقل و حرکت ہو رہی ہو، تو انہیں اپنی تمام احتیاطات کے ساتھ ان دینی امور میں ضرور حصہ لینا چاہئے۔*

*★_ جہاں تک جوان لڑکیوں کا تعلق ہے، ان کے لیے اس میں بھی بڑے خطرات ہیں۔ اس معاشرے میں ان کا اکیلے باہر نکلنا سرے سے جائز نہیں۔ وہ خواتین جن پر اولاد وغیرہ کی ذمہ داریاں نہ ہوں، یا اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد بھی ان کے پاس وقت فارغ ہوں تو وہ ستر و حجاب کی پوری پابندی کرتے ہوئے ان سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں، بشر طیکہ جب باہر نکلیں تو محرم ساتھ ہو۔*

*★_ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہم جس معاشرتی طوفان سے دوچار ہیں، اس میں جب تک کوئی منظم کوشش نہیں ہوگی، ماحول کے اثرات سے باہر نکلنا اور بچ پانا بہت مشکل ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ خواتین اگر اپنا حلقہ منظم کریں، ان کے اپنے اجتماعات کا نظام قائم ہو، جن میں تعلیم و تعلم قرآن اور عربی زبان کی درس و تدریس کے علاوہ دعوت و تبلیغ اور تذکیر وتلقین کا اہتمام ہو تو یہ یقیناً مطلوب ہے۔*

*★_ خواتین کی تعلیمی و تربیتی اور دعوتی و تبلیغی نقل حرکت کا تیسرا حلقہ ان کے محرم مردوں پر مشتمل ہے، یعنی ان کے بھائی، والد، چچا، ماموں بھتیجے اور بھانجے وغیرہ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شوہر کے بھتیجے، بھانجے محرم نہیں، نامحرم ہیں، تو محرم مردوں میں دعوت و اصلاح کا کام بھی ہونا چاہئے۔*

*★_ اس لیے کہ ایسا اکثر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہماری جو پچھلی نسل ہے، اس پر مغرب کے اثرات زیادہ ہیں۔ اب جبکہ دینی جماعتوں اور تحریکوں کے ذریعے دین کا چرچا متوسط طبقے میں بڑھ گیا ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نو جوان لڑکوں کے چہروں پر تو داڑھیاں ہیں، لیکن ان کے والد اور دادا کلین شیو نظر آتے ہیں۔ یہ الٹی گنگا اس لیے بہہ رہی ہے کہ اس نوجوان نسل پر تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور دیگر دینی تحریکوں کے اثرات پڑے ہیں، جبکہ پچھلی نسل ان اثرات سے عاری ہے ۔*

*★_ اسی طرح اب نوجوان نسل کے اندر ایسی لڑکیوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے جو ستر و حجاب کی پابندی کرنا چاہتی ہیں، لیکن ان کے والدین کے ہاں یہ تصور نہیں ہے۔ تو ان کے لیے اپنے والد، بھائیوں اور دیگر محرموں کو تبلیغ کرنا اور اُن کو صحیح راستے کی طرف بلانا مقدم ہے ۔ عورتوں کے لیے یہ دعوت تبلیغ کا تیسرا میدان ہے۔*

*★_ جو نوجوان لڑکیاں اور خواتین گھر گھر جا کر دعوت و تبلیغ کے لیے رابطہ کرتی ہیں، اگر چہ وہ یہ کام پردے کے ساتھ کرتی ہیں، جو اپنی جگہ قابل تعریف بات ہے، لیکن نوجوان بچیوں کا اس طرح اجنبی گھروں میں جانا بڑی نا مناسب بات ہے، کیونکہ ہمارا دین خواتین کو اجنبی عورتوں کے ساتھ میل جول سے بھی منع کرتا ہے۔ مسلمان خواتین کے لیے اجنبی عورتیں بھی محرم نہیں ہیں۔ کیونکہ سورۃ النور میں محرموں کی جو فہرست آئی ہے اس میں وَنِسَائِهِنَّ بھی فرمایا گیا ہے۔ یعنی اپنی عورتیں، جانی پہچانی عورتیں، معروف عورتیں جن کے کردار کے بارے میں معلوم ہے کہ شریف خواتین ہیں، ورنہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اجنبی عورت جو گھر میں چلی آرہی ہو کسی بری نیت سے آ رہی ہو۔ تو اسلام کی رو سے اجنبی عورتوں کو اپنے گھروں میں بھی اس طرح بے محابا داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی،*

*★_ اس میں یقینا بہت سے فتنے اور خطرات موجود ہیں۔ بہر حال دعوت و تبلیغ کے ضمن میں ایک مسلمان خاتون کے لیے یہی تین دائرے ہیں ۔*

     ╥────────────────────❥
*⊙__(3) تیسری منزل: اقامت دین کی جدو جہد اور خواتین:-*

*★_ اب آئیے تیسری منزل کی طرف۔ یہ اقامت دین کی منزل ہے۔ لیکن یہ وہ ذمہ داری ہے جس سے انتہائی ناگزیر حالات اور ہنگامی صورت حال کے سوا اللہ نے خواتین کو بری کیا ہے۔ اس ضمن میں جو مغالطہ ہے اسے سمجھنا ضروری ہے،*

*★_ حضرت اسماء بنت یزید ( رضی اللہ عنہا ) کا واقعہ اس ضمن میں بہت اہم ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی خواتین میں جب دینی جذبہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ اور یہ خواتین خود دین کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی رعایت نہ رکھتے ہوئے اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتے ہوئے اور بچوں کی پرورش کے فریضے کو پامال کرتے ہوئے دین کا کام کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی خواتین کے لیے سیرت کا یہ واقعہ نہایت فیصلہ کن اور سبق آموز ہے۔*

*★_ حضرت اسماء بنت یزید ایک انصاریہ خاتون ہیں اور یہ مشہور صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی پھو پھی زاد بہن ہیں، ان کے متعلق روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ وہ سب کی سب وہی کہتی ہیں جو میں عرض کرتی ہوں اور سب وہی رائے رکھتی ہیں جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں ۔ عرض یہ ہے کہ :-*

*★_آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ ہم آپ پر ایمان لائیں اور ہم نے آپ کی پیروی کی، لیکن ہم عورتوں کا حال یہ ہے کہ ہم پردوں کے اندر رہنے والیاں اور گھروں کے اندر بیٹھنے والیاں ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ مرد ہم سے اپنی خواہش پوری کر لیں اور ہم ان کے بچے لادے لادے پھریں۔ مرد جمعہ و جماعت، جنازہ، اللہ کے راستے میں ہر چیز کی حاضری میں ہم سے سبقت لے گئے۔ وہ جب اللہ کے راستے میں جاتے ہیں تو ہم ان کے گھر بار کی حفاظت کرتی ہیں اور ان کے بچوں کو سنبھالتی ہیں۔ تو کیا اجر میں بھی ہم کو ان کے ساتھ حصہ ملے گا ؟*

*★_ آنحضور صلی علیہ وسلم نے ان کی یہ فصیح و بلیغ تقریر سننے کے بعد صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:- کیا آپ لوگوں نے اس سے زیادہ بھی کسی عورت کی عمدہ تقریر سنی ہے، جس نے اپنے دین کی بابت سوال کیا ہو؟“*
*"_ تمام صحابہ نے قسم کھا کر اقرار کیا کہ نہیں یا رسول اللہ ﷺ، اس کے بعد آنحضرت ﷺ حضرت اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا,*
*(باقی اگلے پارٹ میں),*

*★_اے اسماء! میری مدد کرو اور جن عورتوں نے تمہیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ان تک میرا یہ جواب پہنچا دو کہ تمہارا اچھی طرح خانہ داری کرنا، اپنے شوہروں کو خوش رکھنا اور ان کے ساتھ ساز گاری کرنا مردوں کے ان سارے کاموں کے برابر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں ۔“*
*"_ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سن کر خوش خوش اللہ کا شکر ادا کرتی ہوئی واپس لوٹ گئیں اور انہوں نے اس پر کسی انقباض کا اظہار نہیں کیا۔*

*★_ اس واقعے میں ہماری خواتین کے لیے یہ سبق ہے کہ ہماری محنت و کوشش کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اللہ کے ہاں اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جائیں ۔ اللہ تعالی نے اگر کوئی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہی نہیں تو خواہ مخواہ اپنے اوپر اس ذمہ داری کا بوجھ لاد لینا اپنی جان پر ظلم کے مترادف ہے، اور یہ ایسا طرز عمل ہے جس کے جواب میں اللہ کی طرف سے نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى والا معاملہ پیش آسکتا ہے۔ یعنی کوئی شخص اگر کسی ایسی ذمہ داری کو اختیار کرلے جو اس پر عائد نہیں کی گئی تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے اس ذمہ داری کے حوالے کر دیتا ہے اور پھر اس میں اللہ کی مدد، نصرت اور تائید شامل حال نہیں ہوتی _ اور آدمی اگر حد سے تجاوز کر جائے تو اندیشہ ہے کہ " وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مصِيرًا “ کے الفاظ کے مطابق جنت کی طرف جانے کے بجائے جہنم کی طرف پیش قدمی ہو جائے۔*

*★_ البتہ خواتین سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اس محنت میں اپنے مردوں کی معین و مددگار ہوں ۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کو اپنی ذمہ داری سمجھیں اور مردوں پر اس کا زیادہ بوجھ نہ پڑنے دیں ۔ مردوں کے لیے اس راہ میں زیادہ سے زیادہ وقت فارغ کرنا ممکن بنائیں ۔ اُن پر اپنی فرمائشوں کا بوجھ اس طرح نہ لاد دیں کہ وہ انہی مسائل میں الجھ کر رہ جائیں اور دین کی سر بلندی کے لیے جد و جہد و کوشش نہ کر سکیں ۔*

*★_ خواتین اگر ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے شوہروں سے تعاون کریں تو یہ ان کی طرف سے اقامت دین کی کوشش کا بدل بن جائے گا اور ان کے لیے اجر کثیر اور ثواب عظیم کا باعث ہوگا ۔ اور خواتین کے لیے اس سے بڑھ کر خوش آئند بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں گھر بیٹھے بٹھائے مردوں کے برابر اجر و ثواب مل جائے !!*
     ╥────────────────────❥
*⊙_ مردوں اور خواتین کی بیعت کا فرق:-*

*★_ مردوں اور عورتوں کے دینی فرائض کے ضمن میں ایک اہم فرق بیعت کا ہے۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ آنحضور ﷺ نے اقامت دین کے لیے جو بیعت لی وہ صرف مردوں سے لی، جو بہت سخت بیعت ہے۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے، جس میں ہر حال میں امیر کے حکم کی پابندی کا عہد ہے، خواہ تنگی ہو، خواہ آسانی اور خواہ طبیعت اس کے لیے آمادہ ہو، خواہ طبیعت پر جبر کرنا پڑے۔ پھر اس میں درجہ بدرجہ تمام امراء کے حکم کی پابندی کرنا بھی شامل ہے۔*

*★_ لیکن جہاں تک خواتین کی بیعت کا تعلق ہے تو اگر چہ بیعت عقبہ ثانیہ کے ضمن میں تو نہ صراحتاً مذکور ہے کہ وہ اس بیعت میں شریک نہیں تھیں، نہ ہی یہ کہ ان سے کوئی جدا گا نہ بیعت لی گئی ہو (حالانکہ اس موقع پر دو خواتین کی موجود گی قطعی طور پر ثابت ہے! ) البتہ قرآن وسنت میں خواتین کی جو بیعت مذکور ہے وہ در اصل نیکی اور تقویٰ کی بیعت ہے، جو کفر وشرک، برائیوں، حرام کاموں، جھوٹ، چوری، زنا اور تہمت و بہتان طرازی کے ساتھ ساتھ آنحضور ﷺ کی نافرمانی سے اجتناب کے عہد پر مشتمل ہے_,*

*★_ اور اس کے الفاظ تقریباً وہی ہیں جو بیعت عقبہ ثانیہ سے ایک سال قبل منعقد ہونے والی ”بیعت عقبہ اولیٰ" کے ضمن میں وارد ہوئے ہیں، جو یثرب کے بارہ مسلمان مردوں سے لی گئی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعتی نظم کی پابندی کے معاملے میں مردوں اور عورتوں کی ذمہ داری یکساں اور برابر نہیں ہے اور اس کا براہ راست تعلق ہے اس حقیقت سے کہ فرائض دینی کی تیسری اور بلند ترین منزل یعنی اقامت دین کی محنت میں خواتین کی ذمہ داری براہ راست نہیں، بالواسطہ ہے!*
     ╥────────────────────❥
*⊙__ جماعتی زندگی ... دونوں کے لیے ضروری!*

*★_ جہاں تک ایک جماعتی زندگی کا تعلق ہے، اس کے بارے میں میرا احساس یہ ہے کہ جس طرح یہ مردوں کے لیے ضروری ہے اسی طرح خواتین کے لیے بھی ضروری ہے، اس لیے کہ جماعتی زندگی میں ایک برکت ہے۔ اس سے نیکی و بھلائی کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور دوسرے ساتھیوں کو اچھے کاموں اور نیکیوں میں آگے بڑھتے دیکھ کر اپنا حوصلہ بھی بڑھتا ہے۔*

*★_ جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے کسی رفیق یا رفیقہ نے اپنے گھر میں ہونے والے کسی غلط کام کو ترک کر دیا ہے یا ترک کروا دیا ہے تو آپ میں بھی ایسا کرنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ جماعتی زندگی کی برکتوں اور فوائد سے عورتوں کو بھی محروم نہیں رکھا گیا۔ اس کے لیے التوبہ کی آیت اے کا مطالعہ کیجئے۔ فرمایا: مؤمن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا ، یقیناً اللہ تعالی زبر دست اور حکمت والا ہے۔*

*★_ اور یہ جماعتی ماحول کی برکات ہی کا مظہر ہے کہ حضور ﷺ نے خواتین سے بھی بیعت لی۔ نتیجاً خواتین میں بھی یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہم ایک اجتماعیت میں شریک ہیں، ہمارا کسی کے ساتھ کوئی ربط و تعلق ہے، ہمیں ان کے احکامات سن کر ان پر عمل کرنا ہے، نیکی کے کام بجالانے ہیں ، کیونکہ ہم نے قول و قرار کیا ہے۔ اس سے خود احتسابی کا جذ بہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب اگر ہم یہ کام نہیں کر رہے تو گویا اپنے عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔*

*★_چنانچہ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ فرمایا تھا: میرے قریب آ جاؤ۔پھر فرمایا: میرے اور قریب آجاؤ!*
*"_تو اسی طرح ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ حضور ﷺ کا جو طریقہ واسوہ تھا اس سے قریب سے قریب تر رہنے کی امکانی کوشش جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ذمہ داریوں کو کما حقہ، ادا کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے جو اس نے ہم پر عائد کی ہیں !*

*$_ الحمدللہ پوسٹ مکمل ہوئی _,*

*📗مسلم خواتین کے دینی فرائض (ڈاکٹر اسرار احمد صاحب)_,*
╥────────────────────❥
💕 *ʀєαd,ғσʟʟσɯ αɳd ғσʀɯαʀd*💕 
                    ✍
         *❥ Haqq Ka Daayi ❥*
http://haqqkadaayi.blogspot.com
*👆🏻 ہماری پچھلی سبھی پوسٹ کے لئے سائٹ پر جائیں ,*
https://chat.whatsapp.com/DAloyOp8VLHBqfy4b0xcnE
*👆🏻 واٹس ایپ پر مکمل پوثٹ لنک سے جڑیں _,* https://whatsapp.com/channel/0029VaoQUpv7T8bXDLdKlj30
 *👆🏻 واٹس ایپ چینل کو فالو کریں_،* 
https://chat.whatsapp.com/ImzFl8TyiwF7Kew4ou7UZJ
*👆🏻 واٹس ایپ پر صرف اردو پوثٹ لنک سے جڑیں _,*   
https://t.me/haqqKaDaayi
*👆🏻 ٹیلی گرام پر لنک سے جڑے _,*     
https://www.youtube.com/channel/UChdcsCkqrolEP5Fe8yWPFQg
*👆🏻ہمارا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں ,*

Post a Comment

0 Comments